FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دیس پردیس

 

صوفیہ کاشف

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

 

 

د بئی میں رہتے بہت سال ہو گئے فاطمہ کو یہی کوئی ایک، دو سال کے بعد ماں باپ سے ملنے فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے قصبے جانا ہوتا۔ کچھ دن ماں باپ کی محبت میں وہاں گزر جاتے مگرپاؤں کے تلوے جل جاتے، چہرے کا کھلتا گلابی رنگ جھلس جاتا اور مسلسل پسینہ بہتے رہنے سے چیرے کے مسام کھلنے لگتے، ٹائٹ سکن ڈھلکنے لگتی۔ د بئی کی صاف ستھری گلیوں میں اے سی کی نم زدہ ہوا میں رہنے والے اس کے گورے گورے بچے فیصل آباد کی پسماندہ گلیوں میں میلے میلے ہونے لگتے۔ د بئی کے مہنگے مالز سے خریدا گیا برانڈڈ ساز و سامان اپنی صورت گنوانے لگتا۔  نازک نفیس کپڑے رگڑیں کھا کھا کر دو دن میں پھٹنے لگتے۔  نفیس اور مضبوط کوالٹی کے مہنگے جوتے چند دنوں میں گھس جاتے۔ کونے کھدرے نکالنے لگتے۔  اب مہنگی مہنگی برانڑز یورپ اور امریکہ نے اس لیے تو نہیں بنائی کہ آپ انہیں گوجرہ جا کر پہن لیں۔ اور ان کو پہن کر چھوٹی سی سوز و کی میں دس لوگوں کے ساتھ گھس جائیں۔ گھر کے کچے پکے گیلے آنگن میں گندے سے فٹبال کے ساتھ کھیلیں۔ گھروں کی چھتوں پر پھینکے کاٹھ کبھاڑ کے بیچ میں پکڑن پکڑائی، لکن میٹی کھیلیں یا پرانی ٹوٹی ہوئی سائیکل چلائیں ! چہ چہ چ

یہاں پر پہننے کے لیے تو کھدر کے موٹے کپڑے ہی ہونے چاہئیے جو جتنے بھی گندے ہو جائیں ان کو مشین میں ڈال کر چلا دو اور پھر سے پہن لو۔  فاطمہ درہموں سے خریدی چیزوں کو دیکھ دیکھ کڑھتی۔ ہاے ! کتنے مہنگے کپڑے لیے تھے۔ سوچا تھا پورا سال نکل جائے گا واپس آ کر۔ مگر وہ کپڑے چند ہی دنوں میں اپنا رنگ روپ بگاڑ بیٹھے تھے اوپر سے دو نمبر سرف اور صابن رہی سہی کسر بھی پوری کر دیتے۔ اینٹوں اور مٹی کے کمالات سے جو رنگ روپ بچ جاتا وہ بلیچ سے بھرے واشنگ پاوڈر کی نظر ہو جاتا۔

“اب درختوں پر تو درہم لگتے نہیں کہ تو ڑے جا ؤ اور خریدے جاؤ “

کیسے کیسے جان مار کر تو اتنے مہنگے کپڑے لیے تھے کہ چلو پاکستان میں شوشا بھی ہو جائے گی کہ ہم دبئی سے آئے ہیں اور پورے سال کی شاپنگ بھی۔  اب یہ تھوڑی سوچا تھا کہ ہزاروں درہموں کے کپڑے چند دنوں میں شکلیں بگاڑ لیں گے ۔

دل ہی دل میں افسوس ہوتا کہ کاش واشنگ پاوڈر اور فیبرک سوفنر بھی ساتھ لے کے آتے۔ بچوں کا دودھ پانی اور ڈبہ بند کھانا تو پہلے ہی کارٹن بھر کر آ جاتا تھا۔  کہ نہ آنے کی صورت میں مہینہ بھر بچوں کا پیٹ ہی بہتا رہتا تھا۔  نہ جانے کیا ملاتے ہیں دودھ میں کہ بچے دودھ کو منہ بھی نہ لگائیں۔ خالی پانی پیتے پھر بھی مہینہ بھرپیٹ خراب رہتا۔  گلے بجتے رہتے غرض یہ کہ سب کی سب پینڈوانہ اور غریبانہ بیماریاں لاحق ہو جاتیں۔ اب اور کیا کرتی فاطمہ بھی، سامان میں جو کچھ بھی لے آتی اب اپنا گھر تو تھیلے میں ڈال کر نہیں لا سکتی تھی نہ اپنی یہ لمبی پراڈو میں بیٹھ کر گوجرہ پہنچ سکتی تھی ورنہ بس چلتا تو تھوڑا ساد بئی جیب میں ڈال کر لے ہی آتی۔ اب گوجرہ آ کر اماں کے اور ساس کے گھر رہنا پڑتا، چارپائیوں پر بیٹھنا، پرانے پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا، مہینہ بھر بچھی رہنے والی چادریں، سال ہا سال لٹکے رہنے والے پردے ۔۔۔۔۔۔گندے جھاڑو، گھر کے ہر کونے میں چھپی میلی پوچیاں ، بیماریوں کے گھر،۔

صحن میں چارپایوں کے گرد دن میں مکھیاں ہی مکھیاں اور رات میں مچھر ہی مچھر! دو دنوں میں بچوں اور بڑوں سب کے بازومنہ ہاتھ چھلنی ہو گئے مچھروں کے کاٹنے سے۔ اس کا چھوٹا بچہ مکھیوں کے پیچھے چلاتا پھرتا کہ یہ نہ جانے کونسی مخلوق ہے جو پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ مکھیاں صرف اس بچے کو نظر آتیں تھیں یا اس کے ماں باپ کو۔ باقی سب کے لیے تو وہ گھر کے افراد کی مانند تھیں۔ ساتھ پلیٹ میں بیٹھی کھانا کھا رہی ہیں یا بستر پر بیٹھی سو رہی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ منہ اور ہاتھ کو ذرا سا جھٹک دیا یا لقمہ ذرا سا بچا لیا ورنہ پلیٹیں برتن کپڑے ہر چیز ان کی جاگیر میں تھی۔  نہ کسی حکومت کا وجود جو کہ سیزن ٹو سیزن سپرے کروا دے نہ محلے والوں کو شعور کہ کپڑے لتے سے کچھ پیسے بچا کر مل جل کر ہی اپنے علاقے میں کوی دوا چھڑکوا لیں اور نہیں تو دو چار بوتلیں لا کر اپنے گھر بار میں ہی چھڑکاؤ کروا لیں۔  گھر والوں کو صلاح دی تو پتا چلا کہ جناب سپرے سے مکھیاں اور بڑھ جاتی ہیں یعنی سپرے بھی ملاوٹ زدہ۔ جہاں بڑی بڑی مصیبتیں سر پر کھڑی ہوں وہاں مکھیوں کے منہ کون لگے۔ گھڑی گھڑی کی لوڈ شیڈنگ، ابھی آنکھیں بند ہونے لگتیں تو بجلی جانے کاٹایم ہو جاتا۔  جب تک گھر میں موجود جنریٹر چلتا تب تک بچے بھی اٹھ کر بیٹھ جاتے۔ بڑھتی ہوئی گرمی کے ساتھ لوڈشیڈنگ۔۔۔ایک مہینہ تھا کہ سا سال جتنا لمبا ہو گیا تھا۔ پر پھر بھی دل میں ایک صبر سا تھا کہ چلو کوئی نہیں ایک ماہ ہی ہے ناں پھر تو واپس اپنے گھر چلے جانا ہے۔ ساتھ ساتھ دل میں شکر کرتے رہنا کہ اللہ جی تیرا شکر ہے کہ ہم یہاں نہیں رہتے۔ بہترین ماحول، بہترین سہولتیں، نہ بجلی کا مسئلہ نہ پانی کا۔ نہ ملاوٹ زدہ کھانے نہ گھٹیا مال اسباب۔ ٹھیک ہے پیسے بہت لگتے ہیں دوبئی میں رہنے کے، پر زندگیوں میں سکون تو ہے۔ دل کے سکوں کے ساتھ ساتھ گردن بھی تھوڑا اکڑ جاتی کہ ہم تو بہترین جگہ رہتے ہیں شکر ہے کہ یہ گندا ماحول ہمارا نہیں۔

گزرتے سالوں نے اتنا وقار تو دے دیا تھا کہ اب ہر بات پر شکایتی فقرہ نہ نکلتا تھا پر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فاطمہ چھوٹی سی گاڑی میں دس لوگوں کے ساتھ پھنس کر گھٹنے سینے سے لگا کر بیٹھے اور اپنے مسلے ہوے کپڑوں کو دیکھ کر پراڈو کی بڑی ساری سیٹ یاد نہ کرے کہ جس پر اس کے بچے بھی کھل کر پھیل کر اپنی اپنی چایلڈ سیٹ پر بیٹھ کر سارا رستہ ٹیب سے کھیلتے رہتے تھے۔ بچوں کے ہاتھ اور چہروں پر کالک پھرتی رہے اور اس کو ٹایلوں سے چمکتے ہوے فرش اور بہتے پسینے میں ہر وقت چلنے والے اے سی کی ٹھنڈک کی کمی محسوس نہ ہو۔ اب اس پر تو اس کا اختیار ہی نہ تھا۔ ایک دن فیصل آباد کے ایک بڑے سارے ہوٹل میں سب کی دعوت کی۔ خوب مزے لے لے کر کھانا کھایا اور خوب خوش ہوئے کہ اس کلاس کا ہوٹل دبئی میں تو اتنے لوگوں کے لیے ہزاروں درہم کا پڑتا۔ اگلے دن کی اخبار میں ایک آرٹیکل دیکھا جس کے مطابق سارے ملک کے بڑے ہوٹلوں میں گدھے اور کتے کا گوشت مل رہا ہے۔ تو الٹیاں آنے لگیں۔ اب کدھر کو جائیں۔ کھایا ہوا تو نہ جانے کہاں سے کدھر پہنچ گیا اب الٹی کا بھی کیا فائدہ ہو۔ آئندہ کے لیے توبہ کی کہ اس سے تو اپنےد بئی کے سستے ہوٹل ہی اچھے ہیں چلو چھوٹے ہوٹل میں کھانا کھا لیں پر حلال اور ستھرا تو ہو گا ناں۔ وہاں کسی کی کیا مجال کہ دو نمبری کر جائیں۔ واہ اللہ تیری قدرت! کیا مقدر دیا تو نے۔ کہاں سے نکال کر کہاں لے گیا۔

کبھی کبھی احساس ہوتا کہ یار ادھر سے ہی تو گئے تھے۔ بھلے چنگے خوش باش گئے تھے اب کیا ہو گیا ہے۔ کچھ یہاں اچھا ہی نہیں لگتا۔ اب تو پاکستان میں ان گلی محلوں میں گزارا بہت مشکل ہے اب ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ میں فرق نظر آنے لگا ہے۔ سفید سفید ہی رکھتا ہے اور کالے کا رنگ اصلی کالا۔ اب چمکدار گھروں میں رہنے کی عادت ہو گئی ہے تو پرانے پرانے گھروں کو پسند کرنے کا حوصلہ نہیں رہا۔ یہ تبدیلیاں۔ وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود دماغوں اور دلوں میں آتی چلی گئی تھیں۔ اور پھر فرق بھی کوئی چھوٹا نہ تھا کہ مبہم ہوتا۔ کہاں فیصل آباد کا گوجرہ اور کہاں دبئی کہ جہاں امریکہ اور برطانیہ کے لوگ بھی بھاگے آتے ہیں۔ نیا نکور، شیشے کی طرح چمکتا ہوا ریت کے ٹیلوں پر ایسے کھڑا کہ جیسے ریت پر پہرا بٹھا رکھا ہو۔ عمارتیں ہیں کہ چمچما رہی ہیں، سڑکیں ہیں کہ سمندر ہیں۔ گرمی اتنی کہ کام کرنے والے مزدور مکھیوں کی طرح عمارتوں سے گرتے ہیں۔ اور گھروں کے اندر اے سی کا نم زدہ موسم سرما سارا سال ختم نہیں ہوتا۔ انسانوں کا بنایا ہوا صحیح معنوں میں ایک عجوبہ ہےد بئی۔  ساری دنیا کو بتاتا ہے کہ دیکھو انسان نہ موسموں کا محتاج ہے نہ جنگلوں کا نہ مٹی کا۔ لگانے کے لیے پیسہ ہو کروانے والے لوگ ہوں تو ریت پر محل ایسے پختہ کھڑے ہوتے ہیں کہ صحرا کی آندھیاں بھی ان کو ہلا نہ سکیں۔ پیسہ تو شاید پاکستان کے پاس ان سے زیادہ ہی ہو پر کرنے اور کروانے والوں کا ایسا قحط پڑا ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ چاہے جتنی بھی نمازیں پڑھ لو، آرتیاں چڑھا لو، نحوست ہے کہ ہٹتی ہی نہیں۔ رگڑ رگڑ کر چہرہ چھیل لو پر اعمال کی سیاہی ایسی پکی کہ اترتی ہی نہیںں۔

گن گن کر دن گزارے ! بڑی مشکل سے ایک مہینہ کٹا اور فاطمہ نے سکون کا سانس لیا۔ بد رنگ کپڑے لپیٹے، بچوں کو رگڑیں کھائے بوٹ پہنائے اور جو جہیز کی پیٹیوں سے نکالے تکیے، بستر، برتن تھے بڑے بڑے کارٹنز میں پیک کر لیے۔  گنتی کی، تو پانچ لوگوں کی ٹکٹوں پر کوئی بارہ تو صرف بیگ ہی تھے۔ بچوں کی سلانٹیز بسکٹس کے ڈبے اچار کے مرتبان، ساس اور ماں دونوں کے ہاتھ کی بنی پنجیریاں، سالن اور کباب، بیڈ شیٹس، توا پرات کیا نہیں تھا سامان میں۔ ۔  آخر اماں ابا کا دیا جہیز کس دن کے لیے تھا۔

گھر سے نکلتے ائرپورٹ پر اترتے جہاز میں سوار ہوتے اور اترتے ہر جگہ بار بار گننا پڑتا کہ کہیں کوئی رہ تو نہیں گیا۔  جہاز میں سوار ہوئے تو سکون کا سانس سا آیا کہ مشکل دن کٹ گئے۔ اب اپنے گھر اپنے شہر پہنچ گئیں جہاں بجلی کبھی نہیں جاتی جہاں بٹن دبانے سے گرم پانی آنے لگتا ہے جہاں کی سڑکیں صاف اور اجلی ہیں، جہاں پر نظام ہیں قواعد ہیں سیکیورٹی ہے اور جہاں کے موسموں کی ہمیں عادت ہے جو اپنا دیس نہ ہو کر بھی اب بہت اپنا اپنا سا لگتا ہے۔

رات کے بارہ بجے جہاز دبئی کے رن وے پر اترا تو تینوں بچے بری طرح تھکاوٹ کا شکار تھے سب کی باری باری چیں چیں چل رہی تھی۔  اوپر سے بارہ ڈبے سنبھالتے نہیں سنبھل رہے  تھے۔  سامان اٹھا کر تین چار ٹرالیوں پر لادتے ہوے ایک بار خود کو کوسا کہ کیا ضرورت تھی اتنا سامان اٹھانے کی جو اب دو بندوں سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ پورٹر بھی کوئی دکھائی نہ دیا۔  بڑی مشکل سے تینوں ٹرالیوں کو سنبھالتے امیگریشن آفس پہنچے تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔  کاونٹرز پر صرف دو تین آفیسر بیٹھے تھے باقی سب کاؤنٹر خالی تھے۔ اور ذرا دیر پہلے اترنے والی انڈین فلائیٹ کے لوگوں سے سب لائنیں کھچا کھچ بھری ہوی تھیں۔ یعنی اپنی باری کا انتظار کرتے تو دو تین گھنٹے تو کہیں نہیں گئے تھے۔ اس وقت فاطمہ کا دل چاہا کہ اس سامان کو آگ لگا دے۔ چھوٹا بیٹا گود میں اٹھا رکھا تھا جو سویا ہوا تھا۔  سات اور آٹھ سالہ بیٹیاں ماما جلدی کریں کا شور مچا رہی تھیں۔ اور وہ میاں بیوی اب کبھی بچوں کو دیکھتے کبھی سامان کو دیکھتے اور کبھی اس لائن کو۔ ایسا کبھی ہوا تو نہیں تھا پہلے۔  نہ جانے آج سارا جنوبی ایشیا ایک ہی ٹائم پر اتر آیا تھا یا سارا عملہ ایک ہی دن چھٹی پر چلا گیا تھا یا پھر پی آئی اے کی فلائیٹ لیٹ ہوتی ہوتی غلط ٹائم پر گھس آئی تھی۔  انڈین مرد اور عورت ایسے لائن میں پھنسے ہوئے تھے کہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ کچھ دیر تو وہ بچوں کے ساتھ لائن میں کھڑی رہی مگر بچوں نے کھڑے ہونا حرام کیا ہوا تھا چھوٹے بیٹے کو بھی گود میں اٹھا رکھا تھا اور دونوں بچیاں بے صبری ہو رہی تھیں کہ جلدی کریں۔ میاں تین ٹرالیاں سنبھالے پیچھے کھڑا تھا۔  ایک بجنے والا تھا اور بچیاں بے حال ہو رہی تھیں۔ آخر فاطمہ کو جوش آیا اور وہ بچوں کو لیے لاینوں کے اندر گھس گئی۔ ہمیشہ تو یہی ہوتا تھا کہ کہ فیملیز کو لائن میں سے نکال کر آگے کر دیا جاتا تھا پر آج شاید سب قوانین بھول گئے تھے۔ اسکے تینوں بچوں نے جینا حرام کر رکھا تھا اور ابھی تک کسی نے اس کو جگہ نہ دی تھی۔  انڈین عورتیں اور مرد لائینوں میں مرد اور عورت کی تمیز کے بغیر پھنسے کھڑے تھے۔ اس نے کوشش کی کہ کسی طرف سے اس کو جگہ مل جائے جو بچے دیکھ کر اکثر آسانی سے مل بھی جاتی ہے مگر یہاں اس کو آتے دیکھ کر انڈین اور جڑتے چلے جا رہے تھے۔ عورتیں اور مرد ملو زبان میں چیخنے لگے تھے کہ نہیں جانے دینا اس کو ہم پہلے سے کھڑے ہیں۔ فاطمہ کو شاید غرور تھا کہ اس کے ساتھ بچے ہیں اور فیملی کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ بچیاں جڑے ہوئے ہجوم کے اندر پھنس کر رہ گئیں۔  پاکستانی عورت کو مردوں کے کندھوں میں گھس کر کھڑے ہونے کی عادت بھی کہاں ہوتی ہے۔

آگے پیچھے کچھ دیر تک لڑھکنے کے بعد وہ بچیوں کو بچاتی باہر لے آئی۔ بد تہذیبی کا یہ مظاہرہ فاطمہ نے یہاں پر پہلی بار دیکھا تھا۔  کچھ اس وقت سیکورٹی عملہ کم ہونے کی وجہ سے بھی لوگ آپے سے باہر ہو رہے تھے۔ فاطمہ نے باہر نکل کر بچوں کو ایک کونے میں کھڑا کیا اور خود سیکورٹی افسر کے پاس چلے گی۔ تھکاوٹ اور جھنجلاہٹ سر پر تیار تھی۔ وہ جاتے ہی سیکورٹی افسر پر چڑھ دوڑی۔

“آپ لوگ دیکھ نہیں رہے کتنا ہجوم ہے فیملیز والے کتنے تنگ ہو رہے ہیں”

سیکورٹی افسر کو یقیناً انگلش نہیں آتی تھی۔ وہ جواب میں کچھ عربی میں چنگاڑا اور اس کو واپسی کا اشارہ کرنے لگا۔ آدھی رات کو تھکاوٹ زدہ حال میں فاطمہ نے اس کو انگلش میں بتانے کی کوشش کی کہ اس کے ساتھ چھوٹے بچے ہیں۔  مگر عربی افسر کو شاید اس کے لہجے سے کچھ اور سمجھ آ رہا تھا وہ عربی میں کچھ چلاتا رہا۔  نتیجے میں اس کے میاں صاحب لائن سے نکل کر آئے اور اس کو کھینچتے ہوے واپس لے گئے۔  وہ پوچھتی رہی کہ میں نے کیا کیا ہے آخر ! کوئی میری بات کیوں نہیں سمجھ رہا؟

“بس کر دو گرفتار کر لینا ہے انہوں نے !”

فاطمہ کو لگا اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ پیچھے کھڑے سیکورٹی افسر کے پاس گئی اور اس کو ساری بات بتائی۔ اپنا رونا رویا کہ وہ بچوں کے ساتھ کیسے خوار ہو رہی ہے۔ باقی افسروں کی طرح انگلش اس کی بھی شاندار تھی۔ یس یس نو نو کرتا وہ اس افسر سے بات کرنے چلا گیا۔  اور فاطمہ وہیں کھڑی پریشانی اور اضطراب میں اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگی۔ زرا دیر گزرنے کے بعد عربی آفیسر واپس آیا۔

"he said she shout upon me.”

"No I don’t ! I just want a favour because I’ve small kids with me.”

"Look! This is not your country where you can do whatever you like.”

"We have some rules and regulations here to follow”

سیکورٹی افسر نے میٹھے لفظوں میں کڑوی بات کہی۔ اس نے اور بھی کچھ بولا مشکل سے نکلتی اٹکتی ہوئی انگلش میں مگر ایک ہی فقرے نے اس کے دماغ کو آسماں سے زمیں پر دے مارا تھا۔

” یہ آپ کا ملک نہیں ہے جہاں آپ جو چاہے کرتے پھریں یہاں کچھ قانون ہوتے ہیں کچھ قاعدے ہوتے ہیں۔ ”

فاطمہ اپنی رواں انگلش کا جادو ایک ایسے افسر کے سامنے نہیں چلا سکتی تھی جس کو انگلش کم کم آتی تھی۔ وہ دونوں افسروں کو یہ سمجھانے سے قاصر رہی تھی کہ وہی قوانین اورقاعدوں پر غرور ہی تو اسے یہ سب بولنے پر مجبور کر رہا تھا۔  وہ جانتی تھی کہ کہ وہ ایک مہذب ملک میں ہے جہاں چھوٹے چھوٹے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ مگر اب اسے سب کچھ بھول گیا تھا۔  یاد رہا تھا تو یہ کہ یہ اس کا اپنا ملک نہیں ہے کہ وہ جس کا چاہے گریبان پکڑ کر انصاف مانگ لے گی۔ یہاں وہ دو نمبر شہری ہے۔ دوسرے لوگوں کے دھکے کھا کر ماں چاہے جتنی بھی گنوار اجڈ کمزور اور غریب ہو ضرور یاد آتی ہے۔ ۔ وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آ گئی تھی اور اور اپنے سامان کے ڈھیر کے پاس پڑی کرسی پر ڈھے سی گئی تھی۔ اس کے بعد نہ اسے بچوں کے چیخنے چلانے سے گھبراہٹ ہو رہی تھی نہ انتظار کی کوفت۔ ایک طعنہ اس کے دل اور دماغ میں کھب کر رہ گیا تھا۔ ایک غرور جو ایک سیکنڈ میں مٹی میں رل گیا تھا۔

“یہ ہمارا ملک نہیں تھا! یہ تو کسی اور کا دیس ہے۔ ہمارا ملک۔۔۔۔ ۔ ہمارا ملک تو پیچھے رہ گیا کہیں ”۔  جس شہر اور جن گلیوں کو دیکھنے کے لیے وہ پورا ایک مہینہ ترسی تھی۔  جس کی روشنیوں کی اب اتنی عادت ہو گئی تھی کہ اپنے ملک کے اندھیرے ڈرانے لگے تھے۔ وہ ایک دم سے اپنا طلسم گنوا بیٹھا تھا۔

اگلے دو گھنٹے فاطمہ نے اسی کرسی پر جھکی گردن کے ساتھ گزارے تھے۔  کاش کہ ہمارا ملک اس قابل ہوتا کہ آج یہ لوگ ہمیں جھک کر سلام کرتے۔ دنیا صرف دو چیزوں کںے سامنے جھکتی ہے پیسے کے یا دماغ کے۔ بدقسمتی سے اس کے ملک کے پاس دونوں چیزیں نہیں تھیں۔ اسی لیے ایک افسر نے اس کو حق پرکے ہوتے ہوئے اولاد یتیم کہلائے۔ وہ اپنے دیس میں بھی پردیسی تھے اور ہوتے ہوئے جھٹلا دیا تھا کہ ملک ان کا تھا اصول ان کے تھے۔  اپنی لمبی بڑی گاڑی میں بیٹھ کر گھر جاتے پہلی بار فاطمہ کا دل باہر دیکھنے سے بیزار تھا۔ جھلمل روشنیوں اور جگمگاتی سڑکوں سے دل اچاٹ تھا۔ کہ یہ پردیس تھا۔ جو اس کا کبھی نہیں ہو سکتا تھا جس کی زمیں پر چلنے کا اختیار تو تھا مگر سر اٹھا کر نہیں۔ یہ ایک سوتیلی ماں تھی جس کو اس کی محبتوں اور غرور سے غرض نہ تھی۔

اور جو اپنا دیس تھا وہ کسی نشہ باز باپ کی طرح فخر نہیں ایک طعنہ جس کے ہوتے ہوے اولاد یتیم کہلائے۔ وہ اپنے دیس میں بھی پردیسی تھے اور باہر بھی۔

٭٭٭

ماخذ: کنواس ڈائجسٹ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل