FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

دیئے جلنے لگے

 

 

 

صباحت رفیق چیمہ

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

دئیے جلنے لگے

 

دئیے جلنے لگے

ہاں مجھے یاد ہے

دسمبر کے وہ حسیں دن

میں جب اُس کے پاس ہوتی تھی

تو اُس کی شوخ آنکھوں میں

جلتے تھے دئیے محبتوں کے

اُن جلتے دئیوں میں

میرا دل ڈوبنے لگتا

میری مدھم سی چلتی سانسیں

اُس کی گرم سانسوں میں

مدغم ہونے لگتیں۔۔ ۔

سنگ میرے ہزاروں

خواہشوں کی تتلیاں

رقص کرنے لگتیں۔۔ ۔

نیلے امبر سے

زمیں کی دھرتی پر

جیسے پھولوں کی

آبشاریں بہنے لگتیں۔۔ ۔

محبتوں کو امر کرنے کا

جویہ سُہانا موسم آیا تھا

پلک جھپکتے ہی جیسے بیت گیا

نفرتوں کی آندھیاں چلنے لگیں

سانسیں میری، تھمنے لگیں۔۔ ۔

محبتوں کے دئیے بُجھنے لگے۔۔

مجھ سے جُدا وہ ہو گیا

میں تو جیسے مرنے لگی۔۔ ۔

صدیوں سے بھی لمبی راتیں

کاٹے نہ مجھ سے کٹیں۔۔

دُکھ، آنسو، اور تنہائی

کا ساتھ ہوا مسلسل۔۔

یوں پھر ایک شب

چاند کی چاندنی میں

میری آنکھ میں

اک چھوٹا سا،

اُمید کا دیا، روشن ہوا

شاید وصل کی یہ

گھڑیاں بیت جائیں

شایدلوٹ آئے وہ دُشمن جاں

شاید مجھے اپنے سامنے پا کر

پھر اُس کی شوخ آنکھوں میں

محبتوں کے دئیے جلنے لگیں

شاید۔۔ ۔۔ !

جلنے لگیں محبتوں کے دئیے

٭٭٭

 

 

 

 

پہلا باب

 

’ الفاتحہ‘

آسماں پہ روئی کے گالوں جیسے چند بادلوں کے ٹکڑے آپس میں اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دئیے ہی تھے کہ دھُند کی چادر نے کائنات کی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔ جب رات نے دھیرے دھیرے اپنے پر پھیلائے تو ہر چیز نظروں سے اوجھل ہوتی گئی۔  چاروں طرف بس بھیگاہوا سا سرد دھُواں ماحول کو خوفناک بنانے لگا۔ ایسے میں سرمئی ٹھٹھرتی ہوئی رات میں بادلوں کی اوٹ سے نئی نویلی دُلہن کی طرح شرماتے ہوئے چاند نے اپنا چہرہ دکھایا۔ ایسے لگا جیسے اندھیرے میں ڈوبی کوٹھڑی میں کسی نے چھوٹی سی موم بتی جلائی ہو۔ اور پھردسمبر کی پہلی رات قطرہ قطرہ پگھلنے لگی۔  وہ ہنوز آنگن میں رکھے تخت پہ بیٹھی اُس دُشمن جاں کی یادوں کو سینے سے لگائے سسک رہی تھی۔  یخ ٹھنڈی ہوا اُس کی پیشانی پہ بکھرے بالوں سے چھیڑ خانی کرنے لگی۔  لیکن وہ اس سب سے بے پروا چاند کو تکے جا رہی تھی۔ جو اب بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے میں مصروف تھا۔ کبھی بادل چاند کو گھیر لیتے کبھی چاند بادلوں کو گھیر لیتا۔

’انوشے۔۔  میرے ناتواں وجود میں اتنی طاقت نہیں کہ میں اس وجود کو برف کر دینے والی سردی میں چند منٹ اور بھی ٹھہر سکوں۔ ‘

بی بی جان کی سردی سے کانپتی آواز پہ وہ فوراً اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے تخت سے اُٹھی اور بی بی جان کو اپنے بازو کے گھیرے میں لیتے ہوئے بولی۔

’سوری بی بی جان ! آپ کیوں باہر آئی ہیں میں بس اندر آنے ہی لگی تھی۔ ‘

’ چپ ہو جاؤ بی بی جان سے جھوٹ بولتے شرم نہیں آتی تمہیں، میں اگر نہ آتی تو تم ساری رات ادھر ہی گُزار دیتیں۔ ‘

بی بی جان نے انوشے کے ساتھ بر آمدے کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔  وہ خاموشی سے اُن کے ساتھ چلتی اپنے اوربی بی جان کے مشترکہ کمرے میں آ گئی اور بی بی جان کے ساتھ اُن کی نرم و گرم محبت بھری آغوش میں لیٹ گئی۔

٭٭

 

 

 

 

درازپلکیں، وصال آنکھیں مصوری کا کمال آنکھیں

ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں خُدا کے بندے سنبھال آنکھیں

 

دھوپ آہستہ آہستہ اپنے پر سمیٹنے لگی۔  پرندوں کی مختلف بولیاں فضا میں گونجنے لگیں۔ کنویں کے پاس گاؤں کی الہڑ مٹیاریں اپنے گھڑوں میں پانی بھرنے کے ساتھ ساتھ ہیر رانجھے کی داستان نئے سرے سے فضا میں بکھیر رہی تھیں۔

’ اوئے ہیر دیکھ تیرا رانجھا شہر سے آ گیا ہے۔ ‘

زُلیخا کی سکھیوں میں سے ایک نے چوہدری یوسف حیات خان کو اپنے خاص ملازم بخشو کے ساتھ آتے دیکھ کے یہ فقرہ ہوا میں اُچھالا۔  زُلیخا نے سُنتے ہی دھڑکتے دل کے ساتھ اُس کی نظروں کے تعا قب میں دیکھا۔  اُسی وقت یوسف نے بھی نظریں اُٹھائیں۔  پل بھر کے لیے نگاہوں کا تصا دم ہوا تھا۔  اُس تصادم نے جذ بات کا تبادلہ بخوبی سر انجام دیا تو زُلیخا کے چہرے پہ حیا کی لالی دھنک رنگ اوڑھ کے اُمڈ آئی۔  جسے دیکھ کے اُس کی سکھیوں نے کھی کھی کرنا شروع کر دیا۔ اُس نے فوراً نظریں جھُکاتے اپنا گھڑا پکڑنے کے لیے ابھی ایک قدم اُٹھا یا ہی تھا کہ زمین پہ پڑے کنکر نے اُسے لڑکھڑانے پہ مجبور کر دیا۔  اس سے پہلے کہ وہ توازن بر قرار نہ رکھنے کی وجہ سے زمین بوس ہوتی۔  یو سف کے مضبوط سڈول بازؤں نے اُسے تھام لیا۔

پھر نظریں ملیں جذبات مچلے۔

اُسی وقت اُس نے اُسے سیدھا کھڑا کیا اور بنا کچھ کہے آگے کی جانب قدم بڑھا دئیے۔  اُس کے پیچھے سر جھکاتے بخشو نے بھی۔

’خدا کی قسم دونوں ساتھ کھڑے ہوں تو ایسے لگتا جیسے خُدا نے ان کو بنایا ہی ایک دوسرے کے لیے ہے۔ ‘ اُن کے جاتے ہی نوشی نے زُلیخا کا گھڑا اُٹھا کے اُسے پکڑاتے ہوئے کہا۔

’ کیا بات کرتی ہو تم بھی، لگتا کیا، زُلیخا کو خُدا نے بنایا ہی یوسف کے لیے ہے۔  ‘

وہ سب الہڑ مٹیاریں گھڑے اُٹھائے اپنے گھروں کی جانب چلتے ہوئے زُلیخا کے دل میں مچلتے ارمانوں کو یقین دلا رہی تھیں کہ یوسف زُلیخا کو ہی ملے گا۔ اب نجانے یوسف اور زُلیخا مل پائیں گے یا نہیں۔  یہ تو بس اللہ ہی جانتا تھا۔

٭٭

 

 

 

 

تم آرزوکے دئیے جلا کے خُدا سے اچھی اُمید رکھنا

خزاں کے موسم کی رُخصتی پہ بہار گُل کی نوید رکھنا

 

’فریسہ۔۔ ۔  فریسہ۔۔ ۔  کیا ہوا ہے ؟ ‘

اُسے اپنے کمرے میں گُم صم بیٹھے دیکھ کے زرتاشہ نے اُس کا کندھا ہلاتے ہوئے پوچھاتو وہ جیسے کسی خواب سے جاگی تھی۔

’ آں۔۔  ہاں۔۔  کچھ نہیں، تم کب آئی؟‘

اُسے اپنے بیڈ کے پاس کھڑے دیکھ کے اُس نے پوچھا۔

’میں ابھی آئی ہوں لیکن تم مجھے بتاؤ کہ تم اپنے سیاں سُپر سٹار کا جوگ کب تک منانے کا ارادہ رکھتی ہو؟‘

زرتاشہ نے غصے کے ساتھ اُس سے پوچھا۔

’زری میں کیا کروں ؟ مجھے وہ شخص نہیں بھولتا، اللہ سے کہو نابس مجھے میرا سکندر دے دیں، بس میری یہ دُعا قبول کر لیں۔ ‘

اُس نے چھلکتی آنکھوں کے ساتھ زرتاشہ کے کندھے پہ سر ٹکاتے ہوئے کہا۔  زرتاشہ اُسے روتے دیکھ کے پریشان ہو گئی، اُس کا کندھا تھپکتے ہوئے بولی۔

’فری۔۔  یوں خود کو اذیت دینے کا کیا فائدہ میری جان؟ سنبھالو خود کو پلیز۔ پریشان ہونے کی بجائے بس اللہ سے دُعا کیا کرو۔  سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘

’کیسے ٹھیک ہو گا زری؟ دو سال ہو گئے ہیں اُسے دُعاؤں میں مانگتے، اب میں تھکنے لگی ہوں۔  مجھے لگنے لگا ہے کہ میں اُسے کبھی نہیں پا سکوں گی، یہ بات اندر ہی اندر مجھے ختم کر رہی ہے۔ ‘

’تم اللہ کی رحمت سے نا اُمید ہو رہی ہو فری؟ بھول گئی حضرت آدم ؑ کتنے سال اللہ کے آگے گڑ گڑائے تھے اور پھر اللہ نے حضرت آدم ؑ پر سورۃ الفاتحہ نازل کی۔  تمہیں پتہ سورۃ الفاتحہ کی آیات مبارکہ میں کیا سمجھایا گیا ہے ؟‘ زرتاشہ کی بات پہ اُس نے اُس کے کندھے سے سر اُٹھا کے اپنے آنسو صاف کرتے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔

’ ہاں تو پتہ ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے اس کی سات آیتیں اور ایک رکوع ہے۔  اس کی پہلی تین آیات میں اللہ کی حمد و ثناء یعنی تعریف بیان کی گئی ہے اور چوتھی آیت میں اللہ اور بندے کے درمیان تعلق یعنی مشترک آیت ہے اور آخری تین آیات بندوں کی ہدایت کے لیے ہیں اور۔۔ ۔۔ ۔ ‘

ابھی اُس کی بات جاری تھی کہ زرتاشہ نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا۔

’ نہیں فری میں نے تم سے سورۃ الفاتحہ کا تعارف نہیں پوچھا میں نے یہ پوچھا کہ سورۃ فاتحہ کو نازل کرنے کا مقصد کیا تھا، اللہ تعالیٰ اس میں حضرت آدمؑ کو کیا سمجھانا چاہتے تھے ؟ اللہ کے آگے گڑ گڑا تو وہ کئی سالوں سے رہے تھے۔  میں تمہیں بتاتی ہوں کہ اس آیت مبارکہ میں کیا سمجھایا گیا ہے اس میں اللہ سے مانگنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ جب کسی بزرگ ہستی سے کوئی دُعا کرنی ہو تو سب سے پہلے اُس کے درجے، عُہدے اُس کے بزرگ اور ربوبیت کا اظہار کرنا۔  اُس کے اختیار کو ماننا اور دوسرے درجے پر اپنے کم تر ہونے کا اعتبار رکھنا۔  اور خود کو اس بات کا یقین دلانا کہ جس کے سامنے آپ دُعا کر رہے ہیں وہ اس کو قبول کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔  پھر اپنی دُعا کو اچھے اور احسن طریقے سے پیش کرنا پھر اس کے قبول کر لینے کی التجا کرنا اور تمہیں پتہ سورۃ الفاتحہ جیسی کوئی سورۃ پہلی کتابوں تورات، زبور یا انجیل میں نہیں آئی اور قر آن مجید میں بھی اس سورۃ کی کہیں تکرار نہیں بلکہ اس کے باوجود ہماری عبادات میں اس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سورۃ الفاتحہ ہماری نماز کا ایک لازمی جُز ہے۔  اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لو کہ یہ واحد سورۃ ہے جس کے بیس نام ہیں۔

فاتحۃ الکتاب

فاتحۃ القر آن

اُم الکتاب

اُم القر آن

القر آن العظیم

السبع المثانی

الواقیہ

الکنز

الاساس

الکا فیہ

سورۃ الحمد

سورۃالشکر

الرقیہ

الشفاء

الصلوٰۃ

الدعا

النوال

تعلیم المسئلہ

منا جاۃ

تضویض

اب تم مجھے بتاؤ جب تم دُعا ہی بُجھے دل کے ساتھ مانگتی ہو کہ اللہ تعالیٰ سکندر کو مجھے دے دیں یا اللہ تعالیٰ اُس کے دل میں بھی میری محبت پیدا کر دیں وغیرہ وغیرہ، بس اتنا کہہ کے تم سمجھتی ہو تم نے دُعا مانگی ہے ؟‘

’تم ٹھیک کہہ رہی ہو مجھے ہی مانگنے کا طریقہ نہیں آتا تھا، شاید اسی لیے میری دُعا قبول نہیں ہوئی، لیکن اب مجھے اللہ سے مانگنے کا طریقہ آ گیا ہے اب انشاء اللہ میری دُعا ضرور قبول ہو گی۔ ‘

فری نے ایک یقین کے ساتھ کہا تو زری نے شُکر ادا کیا کہ وہ اُس کے دل میں اچھے کی اُمید جگانے میں کامیاب ہوئی تھی۔

٭٭

 

وہ بُرج خلیفہ کے سامنے جنگلے سے ٹیک لگائے کھڑی کب سے بے چینی سے پہلو بدلتی بار بار اپنی کلائی میں پہنی خوبصورت سی گھڑی پہ نگاہیں ڈالتی۔  اُس کا انداز ظاہر کر رہا تھا کہ وہ بہت شدت سے کسی کا انتظار کر رہی ہے۔  آخر دس منٹ اور انتظار کے بعد اُس کی نگاہوں کو قرار آ گیا جب وہ اُسے اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔  بلیک شلوار قمیض پہنے کندھوں پہ کالی چادر اورپاؤں میں بلیک کھُسہ ڈالے، گھنی مونچھوں تلے مُسکراتے لب اُسے ہیپنو ٹائز کر رہے تھے۔  اُس کے ہر اُٹھتے قدم کے ساتھ اُس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔ بلاشُبہ وہ دُنیا کے خوبصورت اور موسٹ پرسنیلٹڈ مردوں میں سے تھا۔

’جناب نظر لگانے کا ارادہ ہے کیا؟‘

اُسے یک ٹک اپنی طرف تکتا پا کے اُس نے پاس پہنچ کے دھیرے سے اُس کے کان میں سرگوشی کی تو اُس نے سٹپٹاتے ہوئے نظریں جھُکا لیں، اُس کے چہرے پہ دھنک رنگ بکھرنے لگے اور وہ اُن رنگوں میں کھونے لگا، سفید ٹراؤزر پہ بلیک ٹی شرٹ اور اُس کے اوپر گھُٹنوں تک آتا کوٹ پہنے، سر پہ بلیک سکارف لپیٹے ہوئے کوئی باربی ڈول لگ رہی تھی۔  اور اُس کی گھنی پلکیں محو رقص تھیں۔

وہ دھیرے سے مُسکرا دیا دل آویزی سے۔

اُس نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا۔

’انوشے۔۔  آئی کانٹ بلیو یار کہ تم شرماتی بھی ہو، ریلیکس ہو جاؤ پلیز۔ ‘

’ آپ جیسے بندے کے سامنے کوئی ریلیکس کیسے رہ سکتا ہے۔ ‘

اُس نے اپنا رُخ موڑ کے سمندر کے پانی پہ پڑتی رنگ برنگی روشنیوں کے عکس کو دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا۔

وہ بھی دو قدم اُٹھا کے اُس کے ساتھ جنگلے پہ بازو ٹکاتے ہوئے بُرج خلیفہ کو تکتے ہوئے بولا۔

’میرے جیسے بندے سے کیا مُراد ہے تمہاری؟‘

لہجے سے شرارت جھلک رہی تھی۔  اُس نے کوئی جواب نہ دیا، دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی۔

جب دومحبت کرنے والے پاس ہوں تو لفظوں کی ضرورت نہیں رہتی تب نگاہیں بولتی ہیں، دھڑکنیں آپس میں عہد و پیماں باندھتی ہیں، ان کہے جذبے آشکار ہوتے ہیں۔  اُس وقت خاموشی سے زیادہ با معنی گُفتگو کوئی اور لگتی ہی نہیں۔  دھیرے دھیرے دھڑکنیں اپنے عہد و پیماں باندھ کے معمول پہ آنے لگیں۔  اُس نے بہت آہستگی سے جنگلے پہ رکھے اُس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔

’ شاہ ویز۔۔  مجھے یقین نہیں تھا کہ آپ آئیں گے لیکن آپ نے آ کے میری محبت کو معتبر کر دیا ہے، مجھے محبت سے عشق تک کا سفر طے کرنے کے لیے آپ نے اعتبار سونپ دیا ہے، جس کے سہارے میں ساری زندگی آپ کا انتظار کرتے گُزار دوں تو کوئی دکھ یا ملال نہیں ہو گا۔ ‘

’ ویل۔۔ ! ‘

اُس نے اُس کا ہاتھ تھا ما اور لوگوں کے ہجوم سے نکلتا ہوا پُر سکون گوشے کی طرف لے گیا، ایک بینچ پہ خود بیٹھا اور اپنے سامنے والے بینچ پہ اُسے بٹھا کے اُس نے بات شروع کی۔

’ انوشے یہ بات بجا ہے کہ میں پاکستان سے ادھر صرف تمہارے لیے آیا ہوں لیکن صرف تمہیں سمجھانے کے لیے، تمہاری محبت میں نہیں۔  ہزار دفعہ پہلے بھی کہہ چُکا ہوں کہ میری بات پچپن سے میری کزن سے طے ہے، میرے بڑے اپنی زبان کے بہت پکے ہیں اُن کے منہ سے نکلی ہر بات پتھر پہ لکیر ہوتی ہے۔ وہ سب چھوڑو تم مجھ سے بہت چھوٹی ہو تمہارے بارے میں، میں ایسا کچھ سوچ بھی نہیں سکتا، اور۔۔ ‘

اُس کی ہیزل گرے آنکھوں سے گرنے والے موتیوں نے اُسے اپنی بات بھی مکمل نہیں کرنے دی۔  وہ اس بن موسم برسات سے ڈسٹرب ہوا تھا۔

’اور اس لیے اب تم مجھے بھول جاؤ، یہی کہنا تھا نا آپ نے ؟ اور آپ ہر دفعہ مجھے بھولنے کا کیوں کہتے ہیں ؟ میں بھی ہزار دفعہ کہہ چُکی ہوں نہیں بھول سکتی میں آپ کو۔ میں نے آج تک آپ سے کچھ نہیں مانگا نہ ہی آئندہ کبھی مانگوں گی۔  صرف آپ کو چاہنے کا حق میں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں۔  یہ حق تو نہ مجھ سے چھینیں پلیز شاہ۔۔ ۔ ‘

عجیب التجا تھی۔ سسکیوں کی تال پہ آرزوئیں رقص کر رہی تھیں۔

وہ اُس کا ہاتھ چھوڑ کے بینچ کی بیک سے ٹیک لگا کے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھتے ہوئے بولا۔

’ عجیب لڑکی ہو ایک سال سے سمجھا رہا ہوں لیکن تم پہ ذرا اثر ہی نہیں ہوتا۔  نجانے کس ڈھیٹ مٹی سے اللہ نے تمہیں بنایا ہو گا۔ ‘

’ اُسی ڈھیٹ مٹی سے شاہ۔۔  جس ڈھیٹ مٹی سے اللہ نے آپ کو بنایا ہو گا۔ ‘

اُس نے بھیگی پلکوں کے ساتھ شرارت سے کہا۔

ایک حسین مُسکراہٹ نے شاہ ویز کے لبوں کو چھوا تھا، مُسکراہٹ سے اُس کے دائیں گال پہ اُبھرنے والے ڈمپل میں اُس کا دل ڈوبا تھا۔

؎اُس کے رُخسار پہ ڈمپل نے قیامت کر دی

ایک چھوٹے سے بھنور میں میرا دل ڈوب گیا

’ آپ کہتے ہیں کہ آپ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔۔  خوب جھوٹ کہتے ہیں۔ ‘

وہ بھی بینچ کی بیک سے ٹیک لگا کے دونوں ہاتھ اُسی کے انداز میں سینے پہ باندھتے ہوئے گویا ہوئی۔

’ ویل۔۔  ثابت کرو اس بات کو۔ ‘

’ اگر ثابت کر دیا تو۔۔ ۔ ؟؟؟‘

’ تو جو تم کہو گی۔ ‘

’ اگر آپ کی بات سچ ہوتی تو آپ آج بلیک کلر پہن کے نہ آتے۔ ‘

وہ دل نشینی سے ہنس دیا، جیب سے سگریٹ اور لائٹر نکال کے اُس نے بہت شرافت کے ساتھ جھُکتے ہوئے اُس سے اجازت طلب کی۔

’ اگر اجازت ہو تو میں ادھر سموکنگ کر سکتا ہوں ؟‘

’ اگر میں انکار کر دوں تو ؟‘

انوشے نے سیدھے ہو کے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

’ تو میں پھر بھی کروں گا۔ ‘

اُس نے کہتے ہوئے لائٹر جلا کے سگریٹ سلگایا اور ایک کش لگاتے ہوئے سارا دھُواں اُس کے منہ پہ چھوڑ دیا۔  اور وہ اُس کی اس حرکت پہ بس مُسکرا کے رہ گئی۔

دسمبر کی لمبی سرد راتیں اُسے ہمیشہ سے ہی اُکتا دیا کرتی تھیں، ایسی ہی ایک رات تھی جب وہ ٹائم پاس کرنے کے لیے فیس بُک پہ پیپلیو مے ناؤ میں موجود لوگوں کی آئی ڈیز کھول کے دیکھ رہی تھی۔  اُنہی آئی ڈیز میں سے ایک شاہ ویز کی آئی ڈی تھی وہ اُس شخص کی تصویریں دیکھ کے کچھ زیادہ ہی مرعوب ہوئی تھی۔  اُس نے ریکویسٹ کے آپشن پہ کلک کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگایا تھا۔  کچھ گھنٹوں بعد ہی اُس کی ریکویسٹ ایکسیپٹ کر لی گئی تھی۔

پھر دھیرے دھیرے وقت گُزرنے کے ساتھ اُسے محسوس ہونے لگا کہ اُس شخص کی محبت وحی کی صورت اُس کے دل میں اُترنے لگی ہے۔ جب اس خوبصورت اقرار کا میسیج اُس نے شاہ ویز کو سینڈ کیا تو وہ اُسے اگنور کرنے لگا لیکن وہ پھر بھی ڈھیٹ بن کے میسیج کرتی رہتی۔  آخر کار تنگ آ کے اُسے جواب دینا ہی پڑتا۔  وقت کے ساتھ اُس کی محبت کی شدتوں میں اضافہ ہونے لگا۔  جو کہ شاہ ویز کے نزدیک صرف بچپنا تھا۔  وہ اُسے سمجھاتا، میسیج کرنے سے منع کرتا لیکن اُس پہ کسی بات کا اثر نہیں ہوتا تھا یوں ہی ایک سال بیت گیا۔  اور اب اُسے پچھلے پندرہ منٹ سے سموکنگ کرتے دیکھ کے آخر کار وہ بول پڑی۔

’ اینف شاہ۔۔ سموکنگ ہی کرنی تھی تو اُدھر رہ کے ہی کر لیتے اُس کے لیے یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی؟‘

اُس نے آخری کش لگا کے پھر سارا دھُواں اُس کے منہ پہ چھوڑ دیا اور وہ پیچ و تاب کھا کے رہ گئی۔

’ بولو۔۔ ۔  اب کیا مسئلہ ہے ؟‘

’ مجھے بھوک لگی ہے آئیں کھانا کھانے چلتے ہیں۔ ‘

وہ اُٹھتے ہوئے بولی وہ بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔  اور بُرج خلیفہ کے پاس ہی واقع ارمانی ہوٹل کی جانب چل دیے۔

٭٭

 

 

 

درداتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا

اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

 

وہ کلاس میں بیٹھ کے سر حافظ کا انتظار کر رہے تھے کہ کلاس کے سی آر نے آ کے اطلاع دی۔

’ آج سر حافظ نہیں آئے اس لیے لیکچر نہیں ہو گا آپ لوگ جا سکتے ہیں۔ ‘

یہ سُنتے ہی کچھ سٹوڈنٹس کلاس سے باہر جانے لگے تو کچھ کلاس میں ہی گروپس کی شکل میں بیٹھ کے باتیں کرنے لگے۔  ضوباریہ بھی ابھی اپنی سیٹ سے اُٹھنے ہی لگی تھی کہ اُس نے سکندر کا بیگ زمین پہ گڑتے دیکھا، جسے سکندر نے کرسی پہ بیٹھے ہی اُٹھا لیا اور ہاتھ میں پکڑی نوٹ بُک اندر رکھ کے زپ بند کی اور اپنے دوستوں کے ہمراہ کلاس سے باہر چلا گیا۔  ضوباریہ کی نظریں اُس ڈائری پہ پڑیں جو سکندر کے بیگ سے نکل کے کرسی کے نیچے چلی گئی تھی۔  وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور وہ ڈائری اُٹھا کے وہ بھی سکندر کے پیچھے کلاس سے باہر نکل آئی۔  کاریڈور سے ہوتے سیڑھیاں پھلانگ کے پھر ایک لمبے سے کاریڈور سے ہوتے ہوئے مین اینٹرینس کا گیٹ عبور کر کے باہر نکل آئی۔  وہ ابھی کیفے کے پاس پہنچی ہی تھی کہ اُس نے سکندر کی کار کو پارکنگ ایریا سے نکلتے ہوئے دیکھا۔  وہ جا چُکے تھے۔  اُس نے وہ ڈائری اپنے بیگ میں رکھ لی اوراپنا فون نکال کے ڈرائیور کو کال کی کہ وہ اُسے لے جائے۔

رات کو سوتے وقت اُسے سکندر کی ڈائری کا خیال آیا۔  اُس نے بیگ سے ڈائری نکالی۔  بیڈ کی بیک سے ٹیک لگاتے دھڑکتے دل کے ساتھ اُسے کھولا۔  وہ اُس کی پرسنل ڈائری تھی۔  دل اور تیزی سے دھڑکنے لگا۔  اُس نے ڈائری بند کر کے سینے سے لگا لی اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔  یہ اُس کے محبوب کی ڈائری تھی۔  جس میں اُس کے راز دفن تھے۔  اُن رازوں کو آج اُس نے اپنے سینے میں دفن کرنا تھا۔  اُس نے ہمت کرتے ہوئے ڈائری کھولی اور پڑھنے لگی۔۔ ۔۔

تمہاری محبت ابر کی صورت تب سے مجھ پہ برستی آئی ہے جب ابھی میں نے جوانی کی دہلیز پہ قدم بھی نہیں رکھا تھا۔  بچپن سے ہی میں تمہاری محبت کی پھوار میں بھیگتا آیا ہوں۔  میں جب بھی آنکھیں بند کرتا ہوں تمہارا حسین چہرہ میری پلکوں کے دریچوں پہ آ ٹھہرتا ہے۔  میرے ہاتھ جب بھی دُعا کو اُٹھیں تیرا نام لبوں پہ آ ٹھہرتا ہے۔  بچپن میں تمہاری محبت کا جو بیج میں نے اپنے دل میں بویا تھا۔۔  جوانی کی دہلیز پہ پہنچتے پہنچتے وہ ننھا سا محبت کا پودا تناور درخت بن چکا ہے جسے اگر اب میں نے اپنے اندر سے اُکھاڑنے کی کوشش کی تو میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاؤں گا۔  خُدا گواہ ہے کہ میں نے اُس کی بارگاہ میں کبھی تمہارے سوا کچھ نہیں مانگا۔۔  تمہاری محبت کا راز بھی صرف میرے اور میرے خُدا کے درمیان ہے۔  میں نے اس راز میں اپنے جگری دوست کو بھی شامل کرنا گوارا نہیں کیا۔  اس لیے ڈائری کے سپرد کر رہا ہوں۔  یہ ڈائری میری محبت کی گواہی دے گی، جب میں تمہیں پا لوں گا تب یہ ڈائری میں تمہیں گفٹ کروں گا۔  میں جانتا ہوں میں یوسف نہیں ہوں، میں سکندر ہوں، لیکن اس دفعہ زُلیخا سکندر کو عطاء کی جائے گی، مجھے میرے رب پہ یقین ہے، مجھے میری محبت پہ یقین ہے۔  وہ وقت اب دور نہیں جب میں اپنی محبت کی پھوار میں تمہیں بھی سارے کا سارا بھگو دوں گا۔

اُس نے ڈائری بند کر کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دی۔  اس سے زیادہ پڑھنے کی اُس میں ہمت نہیں تھی۔  اُس نے خاموشی سے اپنی آنکھیں موند لیں۔

٭٭

 

 

 

کوئی چیخ پڑتا ہے درد سے

کوئی بس چُپ سا ہو جاتا ہے

 

پورا ہفتہ اُنہوں نے دُبئی کے تفریحی مقامات پہ گھومتے گُزارا تھا۔  اس ایک ہفتے میں شاہ ویز نے اُسے اتنا پیار دیا تھا کہ وہ خود کو ہواؤں میں اُڑتا ہوا محسوس کرنے لگی تھی۔  اُسے حیرت ہوتی کہ یہ وہ ہی سخت اکڑو سا بندہ ہے جس نے فیس بُک پہ کبھی اُس سے ٹھیک طرح بات بھی نہیں کی تھی۔  اس وقت وہ بہت استحقاق سے دونوں ہاتھوں سے اُس کا بازو تھا مے صفا پارک کی نرم گھاس پہ اُس کے قدم سے قدم ملا کے چل رہی تھی۔  خوشی اُس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔

اور کیوں نہ پھوٹتی ؟

ویسے بھی جب من چاہا محبوب پاس ہو تو ساری کا ئنات کی خوشیاں اپنے ارد گرد رقص کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

اور آج تو وہ اس وجہ سے بھی خوش تھی کہ کل اُس کے ماں باپ عمرے کی سعادت حاصل کر کے لوٹنے والے تھے۔  وہ شاہ ویز کو اُن سے ملوانا چاہتی تھی۔  لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اُس کی زندگی کی کایا پلٹنے والی ہے۔  بے خبری بھی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔  اسی بے خبری میں مُگن وہ اپنی زندگی کے چند گھنٹوں کے حسین لمحے انجوائے کر رہی تھی۔

’ شاہ اب بیٹھ جائیں میں تھک گئی ہوں۔ ‘

اُس نے سامنے بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔  تو اُس نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے قدم اُس طرف موڑ دیے اور پھر جب بینچ پہ بیٹھ کے بھی انوشے نے اُس کا بازو نہ چھوڑاتو شرارت اُس کی خوبصورت براؤن آنکھوں میں چمکی۔

’ انوشے۔۔ ؟‘

اُس نے اُسے پُکاراتو اُس نے سر اُٹھا کے اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

’یارایک بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ ‘

’کیا؟‘ انوشے نے بھنویں اُچکاتے ہوئے پوچھا۔

’ تم ہمیشہ میرا بازو کیوں پکڑے رکھتی ہو؟ ایسے جیسے میرے بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔  اور اگر ایسا اندیشہ بھی ہے تو تم چھوٹی سی ہو۔  کیا مجھے بھاگ جانے سے روک سکتی ہو؟ اور اگر۔۔ ۔ ‘

ابھی اُس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ انوشے نے دوسرے ہاتھ کا مُکا بنا کے اُس کے سینے پہ دے مارا۔

’ اور اب دیکھو بچوں کی طرح مار رہی ہو۔ ‘

’جی نہیں۔  میں بچی نہیں ہوں۔ ‘ اُس نے منہ پھُلاتے ہوئے کہا۔

’ تو پھر کیا ہو؟‘

’پتہ نہیں۔ ‘

’پھر کس کو پتہ ہے ؟‘

’پتہ نہیں ‘

’ اچھا یار سُنو تو۔ ‘

اُسے دوسری طرف منہ پھیرتے دیکھ کے اُس نے اُسے پُکارا تو وہ روٹھے لہجے میں بولی۔

’کیا ہے ؟‘

’اچھا ہوا کہ تم چھوٹی ہو، اگر بڑی ہوتی تو تم نے شاہ جی کی بجائے میلا بے بی میلا بے بی کرتے رہنا تھا ہر وقت، اور مجھ جیسے شریف سے بندے نے ویسے ہی شرم سے ڈوب مرنا تھا۔ ‘

اُس نے کچھ اس ادا سے میلا بے بی اور شرم سے ڈوب مرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ اُس سے اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا۔

’شاہ جی۔۔ !!! ‘ اُس نے اپنا سر اُس کے بازوپہ ٹکاتے ہوئے اُسے پُکارا۔

’ بولو۔۔ ‘

’میرا دل کرتا ہے کہ میں ایک ناول لکھوں۔ ‘

’ اوہ ڈیٹس رئیلی گریٹ ضرور لکھو، نام کیا ہو گا ا اُس ناول کا؟‘

’ بتا دوں ؟ ‘

اُس نے جھجھکتے ہوئے سر اُٹھا کے اُس کی طرف دیکھتے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے پوچھا۔

’ اوہ کم آن بتاؤ نا، اس میں شرمانے کی کیا بات ہے۔ ‘

اُسے لگا کہ وہ شرما رہی ہے اس لیے اُس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔

’ ناول کا نام ہو گا۔۔ ۔۔  میرا دیسی ٹیپیکل سیاں۔ ‘

اب گھورنے کی باری شاہ ویز کی تھی اور ہنسنے کی انوشے کی۔

’ خبردار یہ اسٹوپڈ سا نام رکھا۔ ‘ اُس نے اُسے گھورتے ہوئے کہا۔

’ اچھا یہ بتائیں کل آپ آ رہے ہیں نا مام ڈیڈ سے ملنے ؟‘ اُس نے اُس کے گھورنے پہ جلدی سے بات بدلتے ہوئے کہا۔

’ کل میری فلائیٹ ہے اس لیے کچھ کہہ نہیں سکتا، کوشش ضرور کروں گا۔ ‘

’یہ کیا بات ہوئی، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے آج کی رات ہوٹل میں ٹھہرنے کی بجائے ہمارے گھر ٹھہر لیں نا، اس طرح آپ کو آسانی رہے گی، پلیز مان جائیں نا۔۔  میں اکیلی نہیں ہوتی ہوں، بی بی جان بھی ہوتی ہیں اس لیے اب تو آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے۔ ‘ اُس نے اُسے مناتے ہوئے کہا۔

’ اوکے رات کو دیکھوں گا۔ ‘

’ نو۔۔ ۔  نو۔۔  ابھی اُٹھیں پہلے ہم ہوٹل چلیں گے وہاں سے آپ اپنا سامان لیں گے اور پھر ساتھ ہی گھر چلیں گے۔  ‘

’ قسم سے بہت ضدی ہو تم، مجھے لگتا تھا کہ ضد صرف میرے خون میں شامل ہے۔ ‘ اُس نے اُٹھتے ہوئے کہا تو وہ کھلکھلا کے ہنس دی۔

’ ضد بھی تو اُن سے ہی کی جاتی ہے نا شاہ جی، جن پہ مان ہوتا ہے کہ وہ ہماری ضد پوری کر سکتے ہیں۔ ‘

اور اُس کے مان پہ خوبصورت سی مُسکراہٹ اُس کے لبوں کو چھو گئی۔

٭٭

 

 

 

 

 

زُلیخا نے حیات ولا کا آہنی مضبوط گیٹ پار کر کے اندر قدم رکھا اور بڑا سا صحن عبور کر کے جب وہ بر آمدے میں پہنچی تو اُس نے نازیہ کو سیڑھیوں کی طرف جاتے دیکھا تو بولی۔

’ اسلام علیکم تائی امی!‘

اُس کے سلام پہ نازیہ مڑ کے مُسکراتے ہوئے اُسے دیکھ کے بولیں۔

’وعلیکم اسلام، جیتی رہو۔ ‘

اُس نے پریشانی سے کہا۔

’ تائی امی آپ اوپر کیوں جا رہی ہیں، آپ کے گھٹنوں میں پہلے ہی درد رہتا، مجھے بتائیں کیا کام ہے میں کر دیتی ہوں۔ ‘

نازیہ اُس سے کہنے لگیں۔

’یوسف رات سے بُخار میں تپ رہا، اُس کے لیے کھچڑی لے کے جا رہی تھی، جا میری دھی یہ کھچڑی لے جا، جب یہ کھا لے تو اپنی نگرانی میں دوا بھی کھلا دینا، یہ یوسف بھی نا ذرا نہیں بدلا ابھی بھی بچپن کی طرح دوا سے دور بھاگتا ہے۔  ‘

وہ دھیرے سے مُسکراتے ہوئے اُن کے ہاتھ سے پلیٹ تھام کے سیڑھیاں چڑھ کے اوپر یوسف کے کمرے کی طرف آ گئی۔  اُس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹا یا، یوسف نے دروازہ کھولا اور سامنے زُلیخا کو کھڑے دیکھ کے مُسکرا دیا دل نشینی سے۔  اُس نے سائیڈ پہ ہو کے اُسے اندر آنے کا راستہ دیا۔  وہ اندر داخل ہو کے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پہ پلیٹ رکھتے پلٹی ہی تھی کہ یوسف کو اپنی طرف دیکھتا پا کے حیا سے اُس کی پلکیں لرزنے لگیں۔ اُسے شہر سے آئے تین دن ہو گئے تھے اور زُلیخا آج ملنے آئی تھی اس لیے اُس نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے طنزیہ کہا۔

’ آج وقت مل گیا جناب کو آنے کا۔ ‘

’ تائی امی کہہ رہی تھیں یہ کھچڑی کھا لیں اور پھر میں اپنی نگرانی میں آپ کو دوا کھلا کے پھر آؤں۔ ‘

اُس نے اُس کی بات نظر انداز کرتے نازیہ کا پیغام اُس تک پہنچایا۔  یوسف نے اُس کا ہاتھ تھام کے اپنے ساتھ بیڈ پہ بٹھایا اور پلیٹ پکڑ کے اُس کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولا’دوا کیا زہر بھی کھا لوں گا پر شرط یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں سے کھلاؤ۔ ‘

’کوئی آ جائے گا یوسف۔ ‘ اُس نے جھجھکتے ہوئے کہا۔

’ آنے دو۔  زُلیخا یوسف کی تیمارداری نہیں کرے گی تو پھر کون کرے گا؟‘ آنکھوں میں شرارت لیے کہا۔

زُلیخا نے چمچ میں کچھڑی لیتے ہوئے اُس کے منہ میں ڈال دیا۔  یوسف کی باتیں کرتی شوخ آنکھیں زُلیخا کے چہرے پہ دھنک رنگ بکھیرنے لگیں۔

اور کمرے کے باہر دروازے کی اوٹ میں کھڑے وجود کے چہرے پہ اس منظر نے حسد اور جلن کے رنگ بکھیر دئیے تھے۔  وہ خاموشی کے ساتھ واپس پلٹ گئی۔

٭٭

 

 

 

 

 

میں نے سوچوں میں تراشے ہیں خدو خال تیرے

میرے بارے میں بتا تو نے بھی سوچا ہے کبھی؟؟؟

 

شام کے وقت ہوسٹل کی وارڈن نے اُس کے گھر سے کسی کے آنے کی اطلاع دی۔  وہ تقریباً بھاگتی ہوئی وزیٹنگ روم کی طرف آئی تھی۔  جب اُس نے وزیٹنگ روم میں قدم رکھا۔  اُسے ایک تو پہلے ہی بھاگ کے آنے کی وجہ سے سانس چڑھا ہوا تھا اور اوپر سے سامنے بیٹھے احسن کو دیکھ کے کمبخت دل اور زوروں سے دھڑکنے لگا۔  جیسے ابھی سینہ چیر کے باہر آ جائے گا۔ تو اُسے دیکھتے ہوئے احسن نے شوخ لہجے میں کہا۔

’جیہ۔۔ ! بیٹھ جاؤ اس سے پہلے کہ تم زمین بوس ہو جاؤ۔ ‘

وہ فوراً شرمندہ ہوتے اُس کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گئی۔

احسن نے ٹیبل سے جگ اُٹھا کے گلاس میں پانی انڈیل کے لبوں پہ دھیمی مُسکراہٹ سجائے اُس کی طرف بڑھادیا۔  وجیہہ نے گلاس تھام کے ہونٹوں سے لگا تے ہوئے ایک سانس میں خالی کر کے ٹیبل پہ رکھا۔  پھر ذرا ریلیکس ہوئی۔  لو اب ہو گئی نان سٹاپ بولنا شروع۔۔ ۔

’کل بابا جان نے فون کیا تھا کہ بھیجوں خان چچا کو مجھے لینے کے لیے۔ دل تو میرا بہت کر رہا تھا گاؤں جانے کا۔  مجھے سب بہت یاد آ رہے تھے لیکن کل میرا ضروری ٹیسٹ ہے اس لیے میں نے انکار کر دیا۔ اور اب صبح سے میں منہ لٹکائے بیٹھی ہوئی تھی کہ وارڈن نے جب مجھے اطلاع دی تمہارے گھر سے کوئی آیا ہے، میں سمجھی لالہ آیا ہو گا، اس لیے بھاگتی ہوئی آئی۔ ‘

’ہاں مجھے پتہ تمہیں بھاگنے کی ویسے ہی بیماری ہے۔ ‘ احسن نے کن اکھیوں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔

حیا سے اُس کی گھنی پلکیں لرزنے لگیں۔

اُسے یاد آیا بچپن میں جب بھی وہ احسن کو آتا دیکھتی توکیسے اُدھر سے بھاگ جایا کرتی تھی۔  پیچھے سے اُسے احسن کا چھت پھاڑ قہقہہ سُنائی دیا کرتا۔

’امی جان، بابا جان، لالہ، تائی جان، تایا جان، مریم اور زُلیخا سب ٹھیک ہیں ؟‘

اُس نے گھر والوں کی خیریت دریافت کی۔

’ہاں، الحمدُ للہ سب ٹھیک ہیں۔  یہ تمہارے لیے۔ ‘

وہ جیب سے ایک چھوٹا سا پیک ہوا گفٹ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔ اُس نے لیتے ہوئے اُسے کھولا۔ اُس میں ڈائمنڈ سٹون والا نیکلس چمک رہا تھا جس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔  وہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔

’ماشاء اللہ یہ تو بہت خوبصورت ہے۔  ‘

’تم سے زیادہ نہیں۔ ‘

’شُکریہ۔ ‘

’مائی پلیئیر! اپنا خیال رکھنا۔  مجھے ضروری کام سے جانا ہے اس لیے اور نہیں رُک سکتا۔  ‘

وہ اُٹھتے ہوئے بولا۔  وہ بھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔  الوداعی مُسکراہٹ کے ساتھ اُسے دیکھاتو وہ جواباً وہ سر کو خم دیتے ہوئے چلا گیا۔  ہزاروں سپنے پلکوں پہ سجائے وہ اپنے کمرے کی طرف چل دی۔

٭٭

 

 

 

 

 

ُلگتی تلخ باتوں سے بڑے بے درد ہاتھوں سے

لو دیکھو ہار دی تم نے محبت مار دی تم نے

 

وہ شاہ ویز کے ساتھ اپنے فلیٹ میں آئی۔  اُس نے دیکھا تو دروازہ لاک تھا۔  اس کا مطلب بی بی جان باہر گئی ہوئی ہیں۔  اُس نے اپنے ہینڈ بیگ سے کیز نکالیں اور دروازہ کھولا۔  اور شاہ ویز نے انوشے کے ساتھ ابھی اُن کے خوبصورت فلیٹ میں قدم رکھا ہی تھا کہ سامنے دیوارپہ لگی تصویر نے اُسے اپنی جگہ پہ ہی پتھر کر دیا تھا۔  وہ حیرت سے بنا پلکیں جھپکائے یک ٹک اُس تصویر کو تکے جا رہا تھا۔

’شاہ کیا ہوا ہے ؟‘

اُس کے چہرے سے اس وقت اُس کے درد کا اندازہ بخوبی لگا یا جا سکتا تھا۔  اس لیے انوشے نے پریشان ہوتے ہوئے اُس کے بازو پہ ہاتھ رکھتے پوچھا۔  تو وہ جیسے ہوش میں آیا۔  تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُس نے پوچھا تھا۔

’یہ کون ہیں ؟‘

’یہ میرے مام ڈیڈ ہیں۔ ‘

’تو پھر وہ کون تھے جن کی تصویر تم نے مجھے سینڈ کی تھی؟‘ اُس نے شاک سے پوچھا۔

’وہ میرے رئیل ڈیڈ ہیں، اُن کی ڈیتھ کے بعد مام نے ان سے شادی کر لی، میرے یہ ڈیڈ بھی بہت اچھے ہیں۔  مجھے اشعر اور ہالے سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔

‘اُس نے اپنے طور پہ اُسے معلومات فراہم کی تھیں لیکن اگلے ہی پل شاہ ویز نے اُسے بازو سے پکڑ کے بے دردی سے دھکیلتے دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔

’ اس شخص نے پہلے میری ماں کو مارا تھا اور اب مجھے مروانے کے لیے بہت خوبصورتی سے اُس نے تمہارا استعمال کیا ہے۔  ‘

اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتے اُس نے بے یقینی سے اُس کی آنکھوں میں چھائی وحشت کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’ میرا بازو چھوڑیں شاہ۔۔ ! پاگل ہو گئے ہیں آپ کیا کہے جا رہے ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ‘

اور اگلے ہی لمحے شاہ ویز کے ہاتھ نے اُس کے نازک سے گال پہ اپنا نقش چھوڑ دیا۔  درد کے مارے آنسو بہہ نکلے۔  آج تک اُس کے ماں باپ نے اُسے پھولوں کی چھڑی سے بھی نہیں چھوا تھا۔

’زبان بند رکھو اپنی۔  ایک لفظ بھی نہیں۔  جو تم نے میرے ساتھ کیا اس کی سزا تمہیں بھُگتی پڑے گی اور اپنے باپ سے کہہ دینا ضروری نہیں کہ ہر دفعہ آپ کا کھیل کامیاب ہو اس دفعہ مقابل شاہ ویز حیات خان ہے۔ ‘

اُس نے یہ کہتے ہوئے اُسے ایک طرف دھکیلا۔  صوفے کی نوک سے اُس کا سر ٹکرایا تھا۔  اُسی وقت اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ زمیں بوس ہو گئی۔  شاہ ویز نے اُسے نظر انداز کرتے ہوئے ٹیبل پہ پڑا ڈیکوریشن پیس اُٹھا کے دیوار پہ لگی تصویر پہ دے مارا۔  اُس کا شیشہ چکنہ چور ہوتے زمیں پہ بکھر گیا۔  وہ اپنا بیگ گھسیٹتے ہوئے فلیٹ سے باہر نکل آیا۔

٭٭

 

 

 

 

کتنی گھائل تیری چاہت میں میری ذات ہوئی

جیت اُس کی ہوئی اور مجھے مات ہوئی مات ہوئی

 

وہ اُدھر سے نکلا اور ٹیکسی لے کے بُرج خلیفہ آ گیا۔  ایک نسبتاً سُنسان گوشے میں بیٹھ کے نظریں سامنے سمندر کے پانی پہ مرکوز کر دیں۔  اور خود کو کئی سال پیچھے لے گیا۔

اُس نے ہوش سنبھالتے خود کو اپنی شفیق اور مہربان بی بی جان اور آغا جان کے سایہ شفقت تلے پایا۔  یہ ہی اُس کے لیے ماں اور باپ تھے۔  شعور کی منزل پہ پہنچتے ہی اُس کے کانوں نے اپنے باپ کی داستان سُن لی تھی کہ اُس کے باپ نے اُس کی ماں کے کردار پہ شک کرتے ہوئے دودھ کے گلاس میں زہر گھول کے پلا دیا تھا۔  اُس کے بعد اُس کے باپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گاؤں بدر کر دیا گیا۔  پھر اکثر وہ تنہائی میں رات کے اندھیرے میں اپنی ماں کو یاد کر کے دھاڑیں مار مار کے روتا تھا۔  گھنٹوں اپنی ماں کی قبر پہ جا کے بیٹھا رہتا۔  جب اُسے پھر بھی چین نہ ملتا تو وہ اپنے تایا جان جو عرصہ پہلے نجانے کس وجہ سے گاؤں چھوڑ کے شہر جا بسے تھے اُن کے پاس چلا جاتا اور اُن کے کشادہ سینے سے لگ کے وہ ہمیشہ پُر سکون ہو جایا کرتا تھا۔  وہ اُسے ہمیشہ بی بی جان اور آغا جان کا خیال رکھنے کا کہا کرتے تو وہ جواب میں اُن کو گاؤں واپس آنے کا کہا کرتا لیکن وہ اُسے ٹال دیا کرتے۔  وہ اُسے اُس کی ماں کی اور اپنی بچپن کی باتیں سُنایا کرتے تو وہ بہل جاتا۔  وہ بچپن سے ہی سنجیدہ مزاج کا تھا۔  غصہ ہر وقت اُس کی ناک پہ دھرا رہتا اُس نے اپنے گرد تنہائی کا ایک خول بنا لیا تھا۔  گاؤں کی کئی لڑکیوں کے دلوں کی دھڑکن بنا ہوا تھا۔  اسی طرح یونیورسٹی میں بھی کئی لڑکیاں اُس کی پرسنلٹی پہ مر مٹی تھیں۔ لیکن وہ انجان بنا رہتا۔ ایک دن اُسے بی بی جان نے بتایا کہ اُس کی نسبت بچپن سے آغا جان کے دوست کے بیٹے کی بیٹی نور بانو سے طے ہے۔  کئی سال گُزرنے کے باوجود وہ اپنے دل میں نور بانو کے لیے کوئی احساس پیدا نہیں کر سکا تھا۔  جب سے اُسے بی بی جان نے بتایا تھا تب سے نور بانو کو دیکھتے ہی اُسے نجانے کیوں غصہ آتا تھا۔  ایک دو دفعہ کسی فنکشن پہ نور بانو نے اُسے مُخا طب کرنے کی کوشش کی لیکن اُس نے اُسے ڈانٹ کے رکھ دیا۔  اُس کے بعد وہ ڈرتے کبھی اُس کے سامنے ہی نہیں آئی تھی۔  پھر ایک دن اُسے انوشے کی ریکوئسٹ اور میسیج ملے جس میں اُس نے ریکوئسٹ ایکسیپٹ کرنے کی درخواست کی تھی۔  اُس نے ایکسیپٹ کر لی اور پھر اُس کے ڈھیر سارے میسیج اُسے ملنے لگے وہ اگنور کرتا، غصہ کرتا۔۔  لیکن وہ جب پھر بھی ڈھیٹ بن کے میسیج کرتی رہتی تو اُسے سمجھاتا، وہ کچھ نہ سمجھتی اُلٹا اُسے کہتی آپ دو منٹ مجھ سے پیار سے بات کر لیں گے تو آپ کا کیا جائے گا۔  وہ زچ ہو جایا کرتا۔  یوں ہی وقت گُزرتا رہا۔  اُس کے لیے اُس کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہو چُکا تھا۔  اس لیے جب اُنوشے نے اُسے دُبئی آنے کے لیے کہا تو وہ انکار نہ کر سکا۔  وہ بھول گیا کہ اُس کی کسی نور بانو سے نسبت طے ہے۔  جاتے وقت وہ اُس کا فیورٹ کلر زیب تن کرنا نہیں بھولا تھا۔ اور پھرفرشتوں جیسا معصوم سا اُس کا چہرہ دیکھتے ہی اُس نے اپنے دل کے دروازے اُس کے لیے کھول دئیے تھے۔  وہ اُس سے بارہ سال چھوٹی ہونے کے باوجود اُس کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔  پھر وہ اُس کے کہنے پہ ایک ہفتے کے لیے رُک گیا۔  یہ ایک ہفتہ اُس کے لیے بہت خاص تھا وہ جان بوجھ کے اُسے تنگ کرتا اور جواباً جب وہ مصنوعی غصہ اپنے چہرے پہ سجایا کرتی تو وہ اُس کی اس ادا پہ نہال ہو جایا کرتا۔

اُس نے خود کو پہلی دفعہ زندگی میں اتنا خوش محسوس کیا تھا۔  لیکن اُس کی خوشیوں کو ان دیکھی نظر لگ گئی۔  اُسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ خوشیوں کا تو ہمیشہ سے اُس کے پاس قلل رہا پھر بھی اُسے راس کیوں نہیں آئیں ؟ اور پھر انوشے کے گھر اپنے باپ کی تصویر اُس کی دوسری بیوی کے ساتھ لگی دیکھ کے اُس کے اندر کا سارا درد اُس کے چہرے پہ پھیل آیا تھا۔  اُس کا باپ جو اُس کی ماں کا قاتل تھا دوسرے کو سولی پہ لٹکا کے خود اپنی بیوی بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گُزار رہا تھا۔  جسے یہ بھی یاد نہیں تھا کہ اُس کا کوئی شاہ ویز نامی بیٹا بھی ہے۔  وہ انوشے پہ ہاتھ نہیں اُٹھانا چاہتا تھا لیکن وہ خود پہ کنٹرول نہیں کر سکا تھا۔  اُسے یہ بات ہی ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اپنے سے بارہ سال چھوٹی لڑکی کے ہاتھوں بہت خوبصورتی سے پاگل بن چُکا ہے۔  اُس کی خوبصورت براؤن پلکوں سے دو موتی ٹوٹ کے اُس کی قمیض میں جذب ہو گئے تھے۔

اگریہ جاننا چاہو

کوئی کیسے بکھرتا ہے

تو میرے پاس آ جانا

میرا دیدار کر لینا

خبریہ ہو ہی جائے گی

کوئی کیسے بکھرتا ہے

وہ اٹھائیس سالہ جواں مرد آج ٹوٹ گیا تھا۔  وہ اپنی آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں کو روک نہیں پا رہا تھا۔  اُسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اُس کے دل پہ بے دردی سے وار کیا ہو۔  رات گُزرتی رہی وہ ٹوٹتا رہا۔  آخر صبح نے اپنے پر پھیلا ہی دئیے۔  وہ اُٹھا اپنا بیگ اُٹھایا اور ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔

٭٭

 

 

 

 

ہوا توکچھ بھی نہیں بس اپنا آپ گنوایا ہے

آنکھوں کو برسنا سکھایا ہے محبتوں کا صلہ پایا ہے

 

وہ گاؤں جانے کی بجائے شہر اپنے تایا جان کے پاس آ گیا۔  اور پھر اُن کے سینے سے لگ کے آنسوؤں کے درمیان اُس نے اپنا ہر درد کہہ ڈالا۔  اُنہوں نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

’ گڑھے کے اندر پتھر پھینکیں تو اس کے پانی میں ایک ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔  مگر سمندر کے اندر ایک پہاڑ ڈال دیجئیے تب بھی وہ ویسے کا ویسا ہی رہے گا۔  اسی طرح چھوٹے ظرف والا آدمی ایک سخت بات سُن کے بگڑ اُٹھتا ہے۔  مگر بڑے ظرف والے آدمی کے اوپر طوفان گُزر جاتے ہیں اور پھر بھی اُس کا سکون برہم نہیں ہوتا۔ ‘

اُنہوں نے اُسے احساس دلائے بغیر ایک بہت بڑی بات اُسے سمجھا دی تھی۔  وہ بھی سمجھ گیا کہ اُنہوں نے غصہ میں قابو سے باہر ہوتے اور انوشے پہ ہاتھ اُٹھانے پہ اُسے یہ بات کہی ہے۔  اُسے خاموش دیکھ کے وہ پھر بولے۔

’شاہ ویز اللہ سے اپنے لیے زیادہ سی دُعا مانگا کرو۔  اللہ تمہیں سکون دے دے گا۔ ‘

’تایا جان میرا نہیں دل کرتا دُعا مانگنے کا۔ ‘

’نہ میری جان !دُعا ضرور مانگنی چاہئیے۔  نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اُس سے ناراض رہتے ہیں۔ ‘ اور ویسے بھی دُعا تو روح اور آرزو کی ہم آہنگی کا نام ہے، دینے اور لینے والے کے مابین ایک ایسے لمحے کی تخلیق کا پیش لفظ ہے۔  جس میں خواہشوں کی تکمیل موجزن رہتی ہے۔  دُعا نہ مانگنے والے ہاتھ ریگستان کی طرح خالی رہتے ہیں جن پر پانی کی ایک بوند برسائے بغیر بادل تیزی سے گُزر جاتے ہیں۔ ‘ اُنہوں نے اُسے قائل کرتے ہوئے دُعا کی اہمیت بتائی۔

’ اب مانگا کروں گا۔ ‘ ہمیشہ کی طرح اُن کی بات مانتے ہوئے اُس نے کہا۔

’شاہ ویز۔۔  سنبھالو خود کو، تم میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور میرے دل کا قرار۔۔  پتر تمہیں اس حال میں دیکھ کے میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔  خُدا میرے حصے کی خوشیاں بھی تیری جھولی میں ڈال دے۔  خُدا میری زندگی بھی تمہیں لگا دے۔ ‘

اُنہوں نے ابھی کہا ہی تھا کہ وہ تڑپ کے اُن کی گود سے سر اُٹھاتے ہوئے دونوں ہاتھوں میں اُن کا چہرہ تھامتے بولا۔

’کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ تایا جان؟ اللہ آپ کو لمبی اور صحت والی زندگی دیں۔  آپ کو اللہ نہ کرے اگر کچھ ہوا تو میں کہاں زندہ رہ پاؤں گا۔ ‘

اُنہوں نے اُسے اپنے سینے میں بھیچ لیا۔  دونوں کی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کے بکھرنے لگے۔

٭٭

 

 

 

جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جو محبتوں کی اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

 

کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو کسی کی آرزو کر بیٹھتے ہیں۔  اپنی خوبصورت زندگی کے خوبصورت لمحات اُس کی چاہت پہ قربان کر دیتے ہیں۔  روح کی گہرائیوں تک اُس کی پوجا کرتے ہیں۔  مگر یہ نہیں جانتے بھلا آرزو بھی کبھی پوری ہوئی ہے۔  ساری رات جاگ کے آنکھوں میں کاٹ کے اگلے دن وہ یونیورسٹی چلی آئی۔  ابھی وہ پارکنگ ایریا سے گُزر رہی تھی کہ اُس نے سکندر کوبھی اپنی کار سے نکلتے ہوئے دیکھا تو وہ اُس کے پاس چلی آئی۔

’ ایکسکیوز می! یہ آپ کی ڈائری کل آپ کے بیگ سے گر گئی تھی۔ میں یہ واپس کرنے کے لیے آپ کے پیچھے بھی آئی تھی لیکن آپ تب تک جا چُکے تھے۔ ‘

اُس نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے اپنے بیگ سے اُس کی ڈائری اُس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔

سکندر اپنی اتنی بڑی غلطی پہ خود کو سرزنش کرتے ڈائری اُس سے لیتے ہوئے بولا۔

’ شُکریہ ! یہ میرے لیے بہت قیمتی ہے اور مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ مجھ سے کھو گئی ہے۔ ‘ تو اُس نے بس مُسکرانے پہ اکتفا کیا اور کلاس کی طرف چل دی۔

سکندر کو شرمندگی کے احساس نے گھیر لیا۔  وہ یونیورسٹی کے پہلے دن سے ہی اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت کا واضح پیغام دیکھتے آیا تھا۔  اور اب اُس کی حالت دیکھ کے وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ اُس نے یہ ڈائری پڑھی ہے وہ اُدھر ہی پارکنگ ایریا میں کھڑے آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے دل میں اللہ سے مُخاطب ہوا۔۔ ۔

’ اے اللہ کسی کی تکلیف کی وجہ میری ذات نہ بنا نا۔۔  پلیز اللہ اُس کے دل سے میری محبت نکال کے اُسے سکون عطا کر دے اور اُس کی زندگی میں مجھ سے بہتر ساتھی شامل کر دے جس کے دل میں اُس کے لیے بے پناہ محبت ہو۔۔  پلیز اللہ میری دُعا ضرور قبول کرنا۔ ‘

اللہ سے اپنے دل کی بات کہہ کے وہ بھی کلاس روم کی طرف چل دیا۔

٭٭

 

 

 

 

رمیز شہباز ولا کی چھت پہ کھڑا تھا کہ اُس نے زُلیخا کو حیات ولا سے نکلتے دیکھا تو اُس کے تن بدن میں حسد کی آگ لگ گئی۔  زُلیخا کو آتے دیکھ کے نازیہ نے اُسے آواز دی۔

’ زُلیخا۔۔ ؟‘

بر آمدے میں بچھے تخت پہ اُن کو بیٹھے دیکھ کے وہ اُن کی طرف آتے ہوئے بولی۔

’جی امی؟۔ ‘

’ جاؤ ذرا دھوپ میں یہ کپڑے ڈال آؤ۔ ‘

اُنہوں نے صحن میں رکھی بالٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔  وہ تا بعد اری سے سر ہلاتے بالٹی اُٹھا کے سیڑھیاں چڑھ کے اوپر آ گئی۔  وہ اپنے دھیان میں تاروں پہ کپڑے پھیلانے لگی۔

’زُلیخا۔۔ ۔۔ !‘

اپنا نام پُکارے جانے پہ وہ پلٹی۔  اور اپنے پیچھے رمیز کو کھڑے دیکھ کے اُس کا دل کانپا تھا۔  نجانے اُس کی آنکھوں میں ایسا کیا ہوتا تھا کہ اُسے اُس کی طرف دیکھ کے ہی خوف محسوس ہوتا۔

’جی۔۔ ؟‘

’ تمہارے چکر حیات ولا کچھ زیادہ نہیں لگنے لگے ؟‘

’ آپ کو حیات ولا سے کوئی خاص مسئلہ ہے کیا؟‘

’ جو بھی ہے۔ زُلیخا نام رکھنے سے یوسف نہیں ملا کرتا۔  یہ بات ذہن میں بٹھا لو تو تمہارے لیے اچھا ہے۔ اب تم مجھے حیات ولا کے گرد منڈلاتی نظر نہ آؤ۔ ‘

وہ عجیب سی نظروں سے اُسے گھورتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔  اور وہ اُس کی باتوں پہ جھر جھری لے کے رہ گئی۔  اُس کے دل سے صدا نکلی۔

’اے اللہ اگر یوسف زُلیخا کو نہ ملا تو وہ جیتے جی مر جائے گی۔ ‘

٭٭

 

 

 

 

وہ ہسپتال کے بیڈ پہ لیٹے خالی نظروں سے چھت کو تکے جا رہی تھی۔ وہ دو دن کے بعد ہوش میں آئی تھی۔  سر پہ لگنے والی چوٹ شدید تھی، لیکن اُس سے شدید وہ چوٹ تھی جو روح کو لگی تھی۔  یہ گھاؤ تو کچھ دنوں تک ٹھیک ہو جائے گا۔  لیکن روح کا گھاؤ نجانے کبھی ٹھیک بھی ہو پائے گا یا نہیں۔  وہ اپنی سوچوں میں گُم تھی کہ کسی نے اُس کے بہتے آنسوؤں کو اپنی انگلیوں پہ چُن لیا تو اُس نے اپنے پاس بیٹھے وجود کی طرف دیکھا۔  اُس کو اپنی طرف تکتا پا کے اُنہوں نے اُس کے سُنہری بالوں میں دھیرے سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا۔

’انوشے۔۔ ! بیٹے اُس دن کیا ہوا تھا؟ کس نے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور میرے بیٹے کا یہ حال کیا تھا؟‘

آہ۔۔ ۔  کیا پوچھ لیا تھا اُنہوں نے۔  وہ منظر پھر اُس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔  اُسے ایسے لگا جیسے کسی نے آری سے اُس کے دل پہ وار کیا ہو۔  اُس کا دل کر رہا تھا وہ سب سے دور کسی صحرا یا دشت میں چلی جائے۔  جدھر وہ دل کھول کے روئے تو کوئی اُسے رونے پہ چُپ نہ کروائے۔

’ڈونٹ ناؤ ڈیڈ۔۔ ! کوئی نان مُسلم لگ رہا تھا۔  جو فُل نشے میں تھا۔  جب میں فلیٹ کا لاک کھول کے اندر داخل ہونے لگی تو وہ بھی نجانے کہاں سے میرے پیچھے آ گیا۔  میں نے روکنے کی کوشش کی تو اُس نے مجھے اندر گھسیٹ کے دھکا دیا میرا سر صوفہ کی نوک سے جا ٹکرایا۔  اُس کے بعد میں بے ہوش ہو گئی تھی۔ ‘

وہ سچ بتانا چاہتی تھی۔  لیکن نجانے کیوں وہ بتا نہیں پائی تھی۔  اور اتنا کہنے کے بعد وہ اُن کے ساتھ لگ کے سسکیاں لے لے کے روئی۔

’ ڈیڈ۔۔ ! مجھے بہت ڈر لگتا، آئندہ آپ مجھے چھوڑ کے کہیں نہ جائیے گا۔ ‘

’کبھی نہیں جاؤں گا۔ ‘

٭٭

 

 

 

 

دُشمن کے مٹانے سے مٹاہوں، نہ مٹوں گا

ایسا تو نہ ہو گا کہ نہ پہنچوں تیرے در تک

 

شاہ ویز کی جیپ گاؤں کے کچے راستے پہ فراٹے بڑھتی جا رہی تھی۔  اُسے شہر سے واپس آتے کافی رات ہو گئی تھی۔  بی بی جان اُس کے رات کے وقت باہر رہنے پہ پریشان ہو جایا کرتی ہیں اور جب تک وہ گھر نہیں پہنچ جاتا تھا۔  تب تک بی بی جان بر آمدے میں بیٹھ کے اُس کی سلامتی کے لیے ورد کرتی رہتیں۔  اس لیے وہ فُل سپیڈ سے ڈرائیونگ کر رہا تھا کہ اچانک اُس کی جیپ جھٹکا کھا کے رُک گئی۔  وہ جیپ سے ابھی اُترا ہی تھا کہ درختوں کے جھنڈ میں سے کسی نے پستول کا رُخ اُس کی طرف کر کے نشانہ باندھتے ہوئے ٹریگر دبادیا۔  فضا میں گولی چلنے کی آواز گونجی۔  درختوں کی شاخوں پہ اپنے گھونسلوں کے اندر پرندوں نے سہم کے اپنے بچوں کو اپنے پروں تلے چھُپا لیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

دوسرا باب

 

ذالک الکتاب

(وہ بلند رُتبہ کتاب)

 

عین اُسی لمحے شاہ ویز جیپ کا ٹائر چیک کرنے کے لیے نیچے جھُکا تھا اور گولی بنا اُسے چھوئے اُس کے سر کے اوپر سے ہوتی ہوئی گُزر گئی۔  اُس نے سامنے درخت کے تنے میں پیوست ہوتی گولی دیکھی تو اُسی وقت وہ جیپ سے اپنی گن اُٹھا کے اُسی سمت بھاگا جدھر سے فائر کیا گیا تھا۔  لیکن تب تک وہ جو کوئی بھی تھا فرار ہو چُکا تھا۔  وہ بھی واپس آ گیا۔  اُس نے جیپ کا ٹائر جو پنکچر ہو چُکا تھا وہ بدلا اور حویلی کی راہ لی۔ جب اُس نے حویلی میں قدم رکھا۔  حسب معمول بی بی جان بر آمدے میں بیٹھیں اُس کی راہ تک رہی تھیں۔ اُنہوں نے اُسے دیکھ کے خُدا کا شکر ادا کیا۔

وہ اسلام علیکم بی بی جان کہتا اُن سے لپٹ گیا۔

’ شُکر اُس سوہنے رب کا تم خیریت سے پہنچ گئے ہو، پتہ نہیں کیوں آج شام سے ہی میرا دل ہول رہا تھا۔  میں تو تب سے خُدا سے تمہاری سلامتی کے لیے دُعا کر رہی تھی۔  ‘

بی بی جان نے اُس کا ما تھا چومتے ہوئے کہا۔

وہ سوچنے لگا نجانے ماؤں کو کیسے پتہ چل جاتا ہے جب اولاد پہ کوئی مصیبت آنی ہو۔  آج وہ صحیح سلامت گھر آ گیا تھا تو اس وجہ سے کہ اُس کے پیچھے وہ ہستی جو اُس کے لیے ماں سے بڑھ کے تھی وہ اُس کی سلامتی کے لیے دُعا گو تھی۔  وہ اُن سے لپٹا رہا۔

’ شاہ ویز پُتر تم ٹھیک تو ہو نا؟‘

بی بی جان نے پریشانی سے پوچھا۔

’ جی بی بی جان، بس تھک گیا ہوں۔  آغا جان سو گئے ہیں ؟‘ اُس نے الگ ہوتے ہوئے پو چھا۔

’ ہاں۔۔ ! سو گئے ہیں۔  آج سارا دن باہر ہی رہے تھے۔  کہہ رہے تھے شاہ ویز کہہ رہا ہے وہ گاؤں میں لڑکیوں کے لیے کالج بنانا چاہتا اُسی کا حساب لگا رہا تھا۔ ویسے پُتر بہت چنگا فیصلہ کیا ہے۔ ‘

بی بی جان نے اُس کے کالج بنانے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا۔

’ جی بی بی جان لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم اُتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ لڑکوں کے لیے۔  چلیں میں صبح مل لوں گا آغا جان سے۔  آپ سو جائیں جا کے۔ ‘

’تم نے کچھ کھانا نہیں بھوکے پیٹ ہی سونا ہے کیا؟‘

بی بی جان اُسے ڈانٹتے ہوئے بولیں۔

نہیں بی بی جان۔  بھوک نہیں ہے شام کو تایا جان کے گھر سے کھا کے ہی نکلا تھا۔  آپ کو سب سلام کہہ رہے تھے۔  ‘

’وعلیکم السلام۔  جیتے رہیں۔  تمہارے تایا جان ٹھیک تھے ؟‘

’ جی سب ٹھیک تھے۔  باقی  باتیں صبح پوچھ لیجیئے گا۔  بارہ بج گئے ہیں سو جائیں اب۔ ‘

شاہ ویز اُن کو بازو سے پکڑ کے اُٹھاتے ہوئے بولا۔

بی بی جان اُس کے ماتھے پہ بوسہ دے کے اپنے کمرے کی جانب چلی گئیں۔  اور شاہ ویز اپنے کمرے کی طرف ہو لیا۔

٭٭

 

 

 

 

 

بھول کے سب نفرتیں اب اک کام کریں گے

دُنیا کے اک اک کونے میں محبتیں آباد کریں گے

 

سکندر کی ڈائری پڑھنے کے بعد اُس نے اپنے گرد خاموشی کی چادر بہت خوبصورتی سے اوڑھ لی تھی۔

حتیٰ کہ اللہ کی بارگاہ میں بھی شکایت کا ایک لفظ بھی زُبان سے نہیں نکالا تھا۔

اسی طرح خاموشی سے ایک سال اور بیت گیا۔  اب اُن کا پانچواں سمسٹر شروع ہو گیا تھا۔

آج اُن کا مینجمنٹ کا فرسٹ لیکچر تھا جو اُنہیں سر رؤف نے پڑھانا تھا۔ جنہوں نے حال ہی میں اُن کی یونیورسٹی کو جوائن کیا تھا۔  ساری کلاس ایکسائٹمنٹ سے سر کا انتظار کر رہی تھی اور سب دُعائیں مانگ رہے تھے کہ آنے والے سر نرم دل اور ہر بات آسانی سے مان لینے والے ہوں۔۔  جیسے کہ ہم کہیں سر آج ہمارا دل نہیں کر رہا پڑھنے کو۔۔ تو سر نہ پڑھائیں۔۔

یا پانچ چھ لائینیں پڑھ کے کہیں سر آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔۔

تو سر کہیں اوکے ایز یو وش۔۔ ۔

اُن کو لگ رہا تھا یہ حسرتیں بس حسرتیں ہی رہ جانی ہیں۔  لیکن ایسا نہیں ہوا تھا ساری کلاس کی دُعائیں آخر مُستجاب ہو ہی گئی تھیں۔

سر رؤف نے کلاس میں قدم رکھا تو مُسکراہٹ اُن کے لبوں پہ سجی ہوئی تھی۔

جس نے کلاس میں بیٹھے سب سٹوڈنٹس کو ذرا تقویت بخشی۔

پھر وہ مُسکراہٹ اور گہری ہوئی۔

جس سے آٹومیٹکلی سب مُسکرانے لگے۔

پھر وہ گہری مُسکراہٹ قہقہے میں بدل گئی۔

اگلے ہی پل ساری کلاس قہقہوں سے گونج اُٹھی۔

جب قہقہے ذرا تھمے تو وہ اپنا اور اپنے سبجیکٹ کا تعارف کروانے کے بعد بولے۔

’جو بھی مجھے کلاس میں پڑھائی کے حوالے سے ٹینشن میں نظر آیا تو ہم اُسے کلاس سے باہر نکال دیں گے۔  آپ لوگ ریلیکس ہو کے کلاس میں آؤ اگر دیر ہو گئی ہے تو کوئی بات نہیں، اجازت لینے کی ضرورت نہیں سیدھا اندر آ جاؤ۔  اورہم بالکل بھی نہیں پڑھا کریں گے۔  باتیں کیا کریں گے بس اُس کے دوران پندرہ منٹ کی پڑھائی کی بریک لے لیا کریں گے۔ اور اینڈ پہ ایک اچھی بات بھی ڈسکس کر لیا کریں گے۔ ‘

اُن کے کہنے کی دیر تھی کہ ساری کلاس یک جان ہو کے بولی۔

’یس سر۔ ‘

’چلو جی ٹھیک ہو گیا۔ ‘

یہ کہتے ہوئے اُنہوں نے کچھ جوک سُنائے کہ سب کا ہنس ہنس کے بُرا حال ہو گیا۔  اسی طرح پنتالیس منٹ گُزر گئے۔ سر رؤف نے سر اُٹھا کے وال کلاک کو دیکھا کلاس آف ہونے میں پندرہ منٹ رہ گئے تھے۔

’چلو بھئی آج کی اچھی بات میں ہم ایک بہت ہی خاص ہستی کا ذکر کریں گے۔  ہم خود سے بھی اتنی محبت نہیں کرتے۔  جتنی محبت وہ ہستی ہم سے کرتی ہے۔ جانتے ہو وہ ہستی کون ہے ؟‘ اُنہوں نے پوچھا تو ساری کلاس بولی

’اللہ تعالیٰ۔ ‘

’واہ بھئی آپ لوگ تو بہت اچھے ہو۔ پھر تو آپ لوگوں کو اُن باتوں کا بھی پتہ ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پہ ایمان والوں کو مُخاطب کر کے کہی ہیں ؟‘

ساری کلاس خاموش رہی۔  کوئی جواب نہ آیا۔

سی آر بولا۔۔ ’کونسی باتیں سر؟ ‘

’ آپ لوگ قر آن پاک پڑھتے ہو؟ یاد رہے ادھر پڑھنے سے مُراد تلاوت کرنا نہیں ہے۔  بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اُسے سمجھ کے پڑھنا۔۔  غور و فکر کرنا۔  یہ دیکھنا کہ لکھنے والا ہمیں بتانا کیا چاہ رہا ہے۔ ‘

اب ساری کلاس کی نظریں جھُک گئی تھیں۔

’کیا آپ کا دل نہیں کرتا وہ بُلند رُتبہ کتاب پڑھنے کو ؟جس میں کوئی شک نہیں۔  اور جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ہمارے لیے نازل کی ہے۔  اور جسے کبھی ہم نے کھول کے پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی اگر کبھی کھول ہی لیں تو فٹا فٹ بس عربی پڑھ کے کام ختم کرتے ہیں۔ ‘

وہ ذرا رُکے۔۔ ۔  ساری کلاس خاموشی سے شرمندگی کا احساس لیے اُن کی بات سُن رہی تھی۔ سر رؤف نے اپنے دھیمے لہجے میں بات جاری رکھی۔

’کیا آپ کا دل نہیں کرتا وہ بلند رُتبہ کتاب پڑھنے کو۔۔ ۔ ؟ جس میں اللہ نے بہت ساری باتیں ہمیں ڈائریکٹ مُخاطب کر کے کہی ہیں۔۔  یا ایھُا الذین اٰمنو۔۔  اے لوگو۔۔  جو ایمان لائے ہو۔۔  اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ تو یا ایھُا الذین اٰمنو نہیں لکھا۔۔  بہت سی جگہوں پہ اللہ نے یا ایھُا الناسُ لکھا ہے۔  جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ سارے انسانوں سے مُخاطب ہیں۔۔  اور پھر کچھ باتیں اللہ نے صرف یا ایھا الذین یعنی ہمیں ایمان والوں کو مُخاطب کر کے کہی ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ وہ ایسی کون سی خاص باتیں ہیں جو اُس بُلند رُتبہ کتاب جس میں نبیوں کا ذکر ہوا ہے اُس میں ہمیں مُخاطب کر کے کہی ہیں۔  اگر آپ لوگ قر آن نہیں پڑھتے تو اب پڑھ کے دیکھیے گایقین مانیے بہت سکون ملتا ہے۔  ایسے لگتا ہے کہ یہ صرف ہمارے لیے لکھی گئی ہے۔  اللہ تعالیٰ ہم سے بات کر رہے ہیں۔  جس طرح ایک ماں اپنی اولاد کے شعور کی منزل پہ پہنچتے ہی اُسے صحیح اور غلط سمجھاتی ہے۔  اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح اور غلط بتا رہے ہیں۔  اچھے اعمال کی جزا اور بُرے اعمال کی سزا مثالیں دے دے کے ایک ایک بات سمجھا رہے ہیں۔  یقین مانیے جب دُنیا میں کوئی انسان توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس انسان سے اتنا خوش ہوتے ہیں کہ ساتوں آسمانوں پہ چراغاں کرواتے ہیں۔ حتیٰ کہ فرشتوں کی محفل میں اُس انسان کا ذکر کرتے ہیں۔  چلو بھئی پھر کروا رہے ہو فرشتوں کی محفل میں اپنا ذکر؟‘

جب تک سر بولتے رہے اُن کے لفظوں کا سحر ساری کلاس پہ چھایا رہا اور جب اُنہوں نے بات ختم کر کے اُن سے پوچھا تو تب اُن کا سحر ٹوٹا۔

سب پھر یک جان ہو کے بولے۔

’یس سر۔ ‘

سر اگلی کلاس میں ملنے کا کہہ کے چلے گئے۔  یونیورسٹی سے واپسی تک سر کی باتیں اُن کے ذہن سے محو ہو چُکی تھیں۔

سوائے سکندر اور زُباریہ کے۔

اب زُباریہ بے صبری سے سر روؤف کے لیکچرز کا انتظار کرتی۔

کیونکہ۔۔ ۔۔

سر روؤف بہت زندہ دل انسان تھے۔  جو خود بھی ہمیشہ اپنے لبوں پہ مُسکراہٹ سجائے رکھتے اور دوسروں کے لبوں پہ بھی مُسکراہٹ بکھیرنا جن کا کام تھا۔  وہ دوسروں کو زندگی کو مزے سے گُزارنے کا درس دیا کرتے۔  اُن کے مُطابق زندگی کا دُکھوں اور غموں سے پُرانا ساتھ ہے۔  تو پھر بہتر نہیں کہ سب کچھ پس پُشت ڈال کے تھوڑی سی زندگی جو رہ گئی ہے وہ کھُل کے زندہ دلی کے ساتھ گُزاری جائے۔  مُسکراتے۔۔ ۔  قہقہے لگاتے۔۔  دوسروں سے محبتیں کرتے۔۔ ۔  محبتیں بکھیرتے۔۔ ۔  محبتیں سمیٹتے۔۔  اور اپنے فرائض کو پوری ایمانداری سے سر انجام دیتے۔۔ ۔

اگر آپ ایسا کر لو تو پھر دُنیا کی سب سے قیمتی چیز جسے سکون کہتے ہیں وہ آپ کے پاس وافر مقدار میں ہو گا۔  پھر حسرتیں نہیں رہیں گی۔   آپ زندگی کو جینا سیکھ لیں گے۔

وہ بھی مُسکرا کے۔۔  اپنے دُشمنوں کو جلا کے۔۔

جو اللہ نے دیا اُس کا شُکر ادا کر کے۔۔ ۔

جو نہیں دیا اُس کا بھی شُکر ادا کر کے۔۔ ۔

اُستاد ہماری زندگیوں میں ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹلی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔  ہم سب سے زیادہ اپنے اُساتذہ سے ہی سیکھتے ہیں۔  اور سب سے زیادہ باتیں بھی ہمیں اپنے اُساتذہ ہی کی یاد رہتی ہیں۔

سر روؤف نے بھی ان ڈائریکٹلی اُس کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔

اب اُس نے جینا سیکھ لیا تھا۔

٭٭

 

 

 

 

 

وہ ابھی تک اُس کے رویے کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔  اتنی محبت دے کے کیوں ایسا کیا اُس نے ؟ اُسے کیوں لگتا کہ اُس نے اُس سے جھوٹ بولا ہے۔  کیا باباجیسے اچھے انسان کسی کو مار سکتے ہیں ؟۔  وہ بھی شاہ ویز کی مما کو؟ شاہ ویز کا اُس کے بابا سے کیا رشتہ ہو سکتا ہے ؟ وہ اپنے بابا سے پوچھنا چاہتی تھی اُن کو سچ بتانا چاہتی تھی لیکن نجانے کیوں الفاظ اُس کا ساتھ ہی نہیں دیتے تھے۔  اور شاہ ویز بھی تو بنا کچھ بتائے چلا گیا تھا۔  شاہ ویز سے ساری بات کرنے کے لیے اُس نے اُسے فیس بُک پہ میسیج کیا۔  لیکن اُس نے جواب دینے کی بجائے اُسے بلاک کر دیا۔  وہ تکیے میں منہ چھُپا کے سسکنے لگی۔

میری محبت کی کہانی

میرے لفظوں کی زُبانی

میری بے قراریوں کی داستان

اُس کی تفریح کا سامان

میں اُس کے عشق میں گھائل

تھے اُس کے پاس دلائل

بے نام سا جو رشتہ تھا آخر وہ توڑ گیا

تڑپتا سسکتا وہ مجھ کو چھوڑ گیا

ختم ہوئی اُس پہ میری محبت کی کہانی

جو سمجھ نہ سکا میرے لفظوں کی زُبانی

کچھ دیر وہ اسی طرح سسکتی رہی۔  اُس کے کمرے کا دروازہ ناک ہوا تو اُس نے جلدی سے آنسو پونچھ ڈالے۔  اور سوتی بن گئی۔  لیکن اُس کے دونوں بہن بھائیوں نے آ کے ہلہ بول دیا۔  اور اُسے باہر جانے کے لیے تنگ کرنے لگے۔

’اشعر۔۔ ہالے۔۔ میں کہہ رہی ہوں نا مجھے اکیلا چھوڑ دو۔۔  میرا نہیں دل کر رہا کہیں بھی جانے کو۔ ‘

اُس نے اپنا چہرہ دوبارہ کمبل کے اندر کرتے ہوئے کہا۔

’ کیوں نہیں جانا۔۔ ؟ کوئی وجہ بھی تو ہو ؟‘

چودہ سالہ اشعر نے دوبارہ اُس کے چہرے سے کمبل ہٹاتے ہوئے کہا۔ تو بارہ سالہ ہالے بھی بولی۔

’ تو اور کیا بجو۔  جب سے ہم ٹور سے واپس آئے ہیں نہ ہی تو آپ ہمارے ساتھ بیٹھی ہیں نہ ہی کو ئی بات کی ہے بس یہ ہی کہہ رہی ہیں مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ ‘

اُس نے بے بسی سے دونوں کی طرف دیکھا۔  اور اُسے اپنی طرف تکتا پا کے اشعر دوبارہ بولا۔

’ٹھیک ہے نہ ہی تو آپ ہمارے ساتھ باہر جانا چاہتی ہیں اور نہ ہی آپ ہماری کمپنی چاہتی ہیں۔  اٹس اوکے ہم چلے جاتے ہیں۔ ‘

وہ کہہ کے بیڈ سے نیچے اُترنے لگا۔  انوشے نے اُس کا بازو پکڑ لیا۔  اور اٹھتے ہوئے بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کے بولی۔

’ اشو میرا سچ میں کہیں باہر جانے کو دل نہیں کر رہا۔  ہالے جاؤ مما سے کافی اور سنیکس کا بول آؤ۔  ہم ساتھ میں کافی پئیں گے اور باتیں کریں گے۔ ‘

’لیکن بجو باہر۔۔ ۔ ؟‘

ہالے نے منہ لٹکا کے کہا۔

’یو نو مجھے سردی کچھ زیادہ ہی لگتی ہے اور آج تو ویسے بھی بہت سردی ہے، اس لیے باہر پھر کسی دن چلیں گے۔  پرامس۔ ‘

اُس نے وعدہ کرتے ہوئے کہا۔

ہالے فوراً مما تک اپنا پیغام پہنچا کے بھاگی بھاگی آئی۔

اور اشعر کے ساتھ مل کے اپنے ٹور کی کچھ یادگار باتیں اور کچھ مزاحیہ باتیں سُنانے لگی۔

انوشے کافی حد تک بہل چُکی تھی۔

جب مما اُن کے لیے کافی اور سنیکس لے کے آئیں تو تینوں کو پہلے کی طرح ہنستے قہقہے لگاتے دیکھ کے اُنہوں نے خُدا کا شُکر ادا کیا۔

٭٭

 

 

 

 

 

’چوہدری صاحب کچھ پتہ چلا کہ رات کو کس نے چھوٹے صاحب پہ گولی چلا ئی تھی۔ ؟‘

چوہدری صاحب کے خاص اور وفا دار ملازم فضلو نے اُن سے ذرا ایک قدم پیچھے مؤدب انداز میں ہاتھ باندھ کے چلتے ہوئے پوچھا۔

اُن کا اُٹھا ہوا قدم اُدھر ہی ساکت ہوا تھا۔

’ کیا کہہ رہے ہو؟‘

’چوہدری صاحب۔۔ رات کے دوسرے پہر ڈیرے کے مُخالف سمت گولی چلنے کی آواز سُنی گئی تھی۔  سننے میں آیا ہے رات کو چھوٹے صاحب اُسی راستے سے گاؤں کی طرف آ رہے تھے اور۔۔ ۔ ‘

سامنے سے آتے شاہ ویز کو دیکھتے ہوئے فضلو نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔  اُس کے قریب پہنچتے ہی اُنہوں نے اپنے رعب دار لہجے میں اُس سے پوچھا۔

’شاہ ویز رات کو کیا ہوا تھا؟‘

’ آغا جان ! آئیں بیٹھ کے بات کرتے ہیں۔ ‘

وہ اُنہیں لیے ڈیرے کی طرف چل دیا۔

کیکر کے درخت کے نیچے بچھی چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے اُس نے آہستگی سے بات شروع کی۔

’رات کو مجھے شہر سے آتے دیر ہو گئی۔ اس لیے میں سپیڈ سے جیپ چلا رہا تھا۔ گاؤں کی کچی سُنسان سڑک پہ آتے ہی میری جیپ جھٹکا کھا کے رُک گئی۔  میں خرابی چیک کرنے کے لیے باہر نکلا۔ تو درختوں کے جھُنڈ میں سے کسی نے نشانہ باندھتے ہوئے گولی چلائی۔  اور اُسی لمحے میں ٹائر چیک کرنے کے لیے نیچے جھُکا تھا جس وجہ سے اُس کا نشانہ خطاء ہو گیا۔  میں نے پھر اُس کا پیچھا بھی کیا لیکن وہ جو کوئی بھی تھا فرار ہو چُکا تھا۔  میں ابھی اُسی طرف سے ہو کے آ رہا ہوں کسی نے جان بوجھ کے راستے میں پتھر اور نوک دار چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔  مطلب جو کوئی بھی تھا وہ بہت دیر سے میرا پیچھا کر رہا ہو گا جسے خبر تھی کہ میں اس پہر اس راستے سے گُزروں گا۔ ‘

’اور تم نے اتنی بڑی بات مجھ سے چھُپائی؟‘

اُنہوں نے غصے سے سُرخ ہوتے ہوئے کہا۔

’ آغا جان میں نے چھُپائی نہیں تھی۔  میں نے آپ سے رات کو ہی بات کرنی تھی۔  آپ سو رہے تھے اس لیے میں نے آپ کی نیند خراب کرنا مُناسب نہیں سمجھا تھا۔  ‘

آغا جان سے اپنا غصہ کنٹرول نہیں ہو رہا تھا اُنہوں نے اُٹھ کے ٹہلنا شروع کر دیا۔

’ ہمارے دُشمن اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ وہ تمہیں جان سے مارنے کی کوششیں کرنے لگے ہیں۔  ‘

شاہ ویز نے بھی اُٹھتے ہوئے اُن سے کہا۔

’ آغا جان ! چھُپ کے وار کرنا بزدلوں کی نشانی ہے۔  ایسے بُزدلوں کو مجھے بہت اچھی طرح سبق سکھانا آتا ہے۔  آپ فکر نہ کریں میں ڈھونڈ نکالوں گا وہ جو کوئی بھی ہوا۔ ‘

اُنہوں نے برہمی سے کہا۔

’شاہ ویز تم ایسا کچھ نہیں کرو گے۔  میں خود دیکھ لوں گا۔ تم ہی تو میرا واحد سہارا ہو، اور میرے جینے کی وجہ۔  میں نہیں چاہتا تمہیں معمولی سی بھی خراش آئے۔ ‘

وہ بات ٹالتے ہوئے بولا۔

’ کچھ نہیں ہو گا مجھے آغا جان! میرے خیال سے لڑکیوں کے کالج کے لیے وہ جگہ مناسب رہے گی۔  اگر آپ کی اجازت ہو تو اُدھر کام شروع کروا لوں ؟‘

اُنہوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اجازت دیتے ہوئے کہا۔

’جاؤ تم گھر جاؤ۔ تمہاری بی بی جان تمہارا پوچھ رہی تھیں ناشتہ بھی نہیں کیا اور باہر نکل آئے ہو۔  ‘

اُس نے سر ہلاتے ہوئے حویلی کی جانب قدم بڑھا دئیے۔

٭٭

 

 

 

 

 

وہ اُنہیں کافی دے کے اپنے کمرے میں آ گئیں۔  خاموشی سے بیڈ پہ اپنے شوہر کے پہلو میں بیٹھ گئیں۔

اُنہوں نے لیپ ٹاپ پہ کام کرتے کرتے اُن کی طرف دیکھا، اُن کو پریشان پا کے لیپ ٹاپ بند کر کے سائیڈ پہ رکھ کے اُن کی طرف متوجہ ہوئے۔

’ بیگم۔۔ ! بیگم تو بے غم ہوتی ہیں۔۔  پھر آپ کیوں پریشان ہیں ؟‘

وہ اُن کے پوچھنے پہ اُن کی طرف متوجہ ہوئیں۔

’انوشے کو لے کے پریشان ہوں۔ کچھ تو ہوا ہے جو وہ ہم سے چھُپا رہی ہے۔  ابھی تو اُس کا بچپنا نہیں گیا تھا دونوں بہن بھائیوں سے زیادہ چہکتی پھرتی تھی۔  اب ایک دم ہی اتنی سنجیدہ ہو گئی ہے۔  بیماری کا بہانہ کر رہی ہے۔  یہ چیز مجھے بہت پریشان کر رہی ہے۔ ‘

وہ اُنہیں سمجھاتے ہوئے بولے۔

’ آپ پریشان کیوں ہو رہی ہیں ؟ پریشان ہونے سے بھی کبھی مسئلے حل ہوئے ہیں کیا؟ مجھے بھی پتہ ہے کہ اُس نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے۔  کوئی اور بات ہے جو وہ ہم سے چھُپا رہی ہے۔  لیکن ہم نے اُس کی بات کو سچ مان کے اُسے یقین فراہم کیا ہے۔  آپ اُسے وقت دیں، جب وہ اپنے آپ سے باہر نکلے گی تو خود ہی سب بتا دے گی۔  ہو سکتا ابھی وہ خود کو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رہی ہو۔  آپ تو جانتی ہی ہیں کہ یہ عمر تو ہوتی ہی ایسی ہے۔  اور اب تو ویسے بھی وہ دونوں شرارتی ٹور سے واپس آ گئے ہیں۔  نارمل ہو جائے گی اب۔  ‘

اُن کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئی بولیں۔

’ جی آپ کی چھوٹی نواب زادی کافی کا آرڈر دے کے گئی تھی۔  وہ ہی ڈیلیور کر کے آ رہی ہوں۔  تینوں کھلکھلا رہے تھے۔ ‘

’یہی تو کہہ رہا ہوں، کہ آپ پریشان ہونے کی بجائے مجھے وقت دیں۔  بُڈھا ہو گیا ہوں اب تو مجھے آپ کی ضرورت ہے۔  ‘ وہ آنکھوں میں شرارت لیے اُن کی آنکھوں میں دیکھ کے بولے۔

اُن کے اس طرح دیکھنے پہ اُن کے چہرے پہ حیا کی لالی اُمڈ آئی۔  وہ نظریں چُراتے ہوئیں بولیں۔

’ استغفر اللہ۔۔ ! آپ مجھے ایسے نہ دیکھا کریں۔  یونیورسٹی میں ویسے ہی آپ کو بس دیکھ کے ہی میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی تھیں۔  اور اب آپ کا آنکھوں میں محبت اور شرارت لیے دیکھنا، مجھے آنکھوں سے قتل کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور اوپر سے کہتے ہیں کہ بُڈھے ہو گئے ہیں آپ۔ ‘

’ ہاہاہا۔۔  بیگم آپ بھی نا۔ ‘

اُنہیں بازو کے گھیرے میں لیتے ہوئے اُن کے ماتھے پہ اپنی محبت کی مہر ثبت کرتے ہوئے اُنہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

حیا سے اُنہوں نے اُن کے کشادہ سینے میں اپنا چہرہ چھُپا لیا۔

٭٭

 

 

 

 

 

لندن سے واپس آنے کے تین دن بعد۔۔ ۔۔

جنوری کی سرد اور شدید دھُند میں لپٹی رات میں وہ بی بی جان کے منع کرنے کے باوجود ڈیرے کی طرف جانے کا کہہ کے حویلی سے نکل آیا تھا۔  لیکن ڈیرے پہ جانے کے بجائے وہ باغوں کی طرف آ گیا تھا۔  گھنے درختوں کے جھُنڈ سے ہوتے ہوئے وہ اپنے مہرباں دوست کے پاس آیا تھا۔

ہاں اُس کا دوست اوکاں نام کا درخت جو اپنے خوبصورت نظارے کی بنا پہ دیکھنے والے کو اپنی طرف یوں بُلاتا جیسے ایک دوست دوسرے دوست کو دیکھ کے اُسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کرتا ہے۔

اسی لیے لوگ اُسے مہرباں دوست کے نام سے پُکارتے ہیں۔  شاہ ویز بچپن میں جب بھی اس درخت کے پاس سے گُزرتا تو اُسے بھی ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ درخت اُسے اپنے پاس بُلاتا ہے۔  لیکن وہ اپنے خیالات جھٹک کے اُدھر سے آگے گُزر جایا کرتا۔  جب اُسے اپنی ماں کے قاتل کا بتایا گیا جو اُس کا اپنا ہی باپ تھا۔

اُس دن وہ ٹوٹ گیا تھا۔

پھر پہلی دفعہ وہ اپنے مہرباں دوست کے پاس آیا تھا اور اُس کے گھنے سائے تلے اُس درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کے دل کھول کے رویا تھا۔  اُسے لگا اُس کا سارا درد ساری تکلیف اس درخت کے تنے نے اپنے اندر جذب کر لی ہو۔

اُس دن شاہ ویز نے اس درخت کو اپنا پہلا مہرباں دوست بنایا تھا۔

آج بھی وہ خاموشی سے اُس کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھ گیا۔

شکسپئیر ایک جگہ لکھتے ہیں۔

’ عشق تو ایک غبار ہے، جسے آہوں نے پیدا کیا ہے، جب یہ غبار دب جاتا ہے تو پھر آنکھوں سے آگ کے شعلے نکلنے لگتے ہیں۔ ‘

ویسے ہی آگ کے شعلے اس وقت شاہ ویز کی آنکھوں سے نکل رہے تھے۔

اُس کا دل کر رہا تھا وہ ہر چیز کو تہس نہس کر دے۔

ساری دُنیا کو آگ لگا دے۔

اُسے اللہ پہ بھی بہت غصہ آ رہا تھا۔

اُس نے اب پکا ارادہ کر لیا تھا آج کے بعد وہ کبھی اللہ کے پاس نہیں جائے گا۔

اب کبھی کچھ نہیں مانگے گا اللہ سے۔

اُس نے یہ بھی سوچ لیا تھا وہ اب اپنے تایا جان سے بھی نہیں ملا کرے گا۔

کیونکہ وہ اُسے نماز پڑھنے اور اللہ سے دُعا مانگنے کا کہا کرتے ہیں۔

اُسے لگ رہا تھا اللہ جان بوجھ کے اُس کے نا کردہ گُناہوں کی سزا اُسے دے رہے ہیں۔

اُس نے نہ ہی اپنی ماں کا پیار پایا۔  نہ ہی باپ کا۔

اُسے لگتا تھا کہ ایک دن جب وہ اُٹھے گا تو اُس کے ماں باپ اُس کے پاس بیٹھے اُسے پیار کر رہے ہوں گے۔  وہ اپنے ماں باپ کی تصویر چومتا اور سینے سے لگاکے خیالوں میں کھو جاتا۔  جہاں اُس کے ماں باپ اُس کے پاس ہوتے۔  اُسے پیار کرتے۔  وہ اُن سے ضد کرتا اُنہیں جان بوجھ کے تنگ کرتا۔ ابھی وہ آٹھ سال کا تھا کہ وہ حقیقتیں اُس پہ کھُلنے لگیں جو آج تک اُس سے چھُپائی گئی تھیں۔

یوں اُس کے بچپن کا پہلا خواب بے دردی سے ان تلخ حقیقتوں نے توڑا تھا۔

اُس کی ماں اب کبھی واپس نہیں آ سکتی تھی اور باپ سے وہ کبھی نہیں مل سکتا تھا کیونکہ وہ ایک بُرا انسان تھا جس نے اُس کی ماں کو مار ڈالا تھا۔

پھر اُس کے دل میں اپنے باپ کے خلاف زہر بڑھتا گیا۔

نفرت پیدا ہوتی گئی۔

اُس نے اپنے آپ کو ایک تنہائی کے خول میں بند کر لیا تھا۔  اُس کے بہت سے دوست بھی تھے۔  جن میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کی اُس نے ضرورت کے وقت مدد کی ہوتی۔  لیکن اُس نے کسی کو بھی اپنی ذاتیات میں دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔  وقت گُزرتا گیا اُس کی سٹڈی لائف ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ انوشے بنا اُس کی اجازت زبردستی ہی اُس کی زندگی میں داخل ہو گئی تھی۔  اور ابھی محبت نے اُس کے دل میں اپنے قدم رکھے ہی تھے۔  کہ اللہ نے پھر درد دے دیا۔

کیا تھا اگر اُس کا اُس کے باپ سے کوئی بھی رشتہ نہ ہوتا۔

یاوہ اُس کی زندگی میں ہی نہ آئی ہوتی۔

یا اُسے اُس سے محبت ہی نہ ہوئی ہوتی۔

یا کاش اُس نے اُس سے جھوٹ ہی نہ بولا ہوتا۔

٭٭

 

 

 

 

 

آج صبح آسمان نے تو رو کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا تھا۔

شام کا وقت ہو چلا تھا۔

آسمان کے آنسوؤں سے زمین ابھی تک گیلی تھی۔

نم ہوا بھی وقفے وقفے سے اُفق کے پار رہنے والی پریوں کے راز سرگوشیوں کی صورت زمیں کے شہزادوں کے سپرد کرنے آ رہی تھی۔

خوشگوار موسم کی وجہ سے طالبات نے آج پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔  سب اپنے دوستوں کے ساتھ موسم سے لُطف اندوز ہو رہے تھے۔  آج زرتاشہ نہیں آئی تھی اس لیے وہ اکیلی ہی کیفے کے پلر سے ٹیک لگائے کھڑی سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ اچانک اُسے اپنی دھڑکنیں اُتھل پُتھل ہوتی محسوس ہوئیں، اُس نے نظریں اُٹھائیں وہ دُشمن جاں اپنی تمام تر وجاہت لیے اپنے دوستوں کے ہمراہ کیفے کے سامنے سے گُزرا۔

آہ۔۔ ! اُسے دیکھتے ہی دل میں اک ہوک سی اُٹھی تھی۔

وہ اُس کا پیار تھا۔

اُس کی محبت تھا۔

اُس کا عشق تھا۔

وہ خوابوں میں اُس کا بہت اپنا تھا۔

لیکن حقیقت میں وہ اُس کا اپنا نہیں تھا۔

اُن کے درمیان فاصلہ زمیں اور آسماں کے فاصلے سے بھی بہت زیادہ تھا۔  وہ یہ فاصلہ کم کرنا چاہتی تھی۔  لیکن وہ دشمن جاں اُسے دیکھتے ہی نگاہیں پھیر لیتا۔  نگاہوں کے سبھی مفہوموں سے آشنا ہونے کے باوجود، پھر اُس میں اتنی ہمت ہی نہ رہتی کہ وہ آگے بڑھ کے اُسے مُخاطب ہی کر لے۔

اُس کے اس رویے سے دل کے ہزاروں ٹکڑے ہوتے تھے۔

روح چھلنی چھلنی ہو جاتی تھی۔

پھر وہ سوچتی آخر وہ کون لوگ ہیں جو عشق کو میٹھی اور لذت بھری چیز کہتے ہیں۔  عشق کو بہاروں سے تشبیہ دیتے ہیں۔

حقیقت میں تو عشق خزاں کے ایسے موسم کا نام ہے جو ہرے بھرے درختوں کو پتوں سے خالی کر دیتی ہے۔  اسی طرح عشق بھی زندگی کو خوشیوں سے خالی کر دیتا ہے۔

عشق تو زہر سے بھی کڑوی شے کا نام ہے جسے حلق سے اُتارنے میں سارا اندر چھلنی چھلنی ہو جاتا ہے۔

وہ کامرس ڈیپارٹمنٹ سے تھا جبکہ فریسہ بی بی اے ڈیپارٹمنٹ سے تھی۔  کبھی کاریڈورز میں تو کبھی کیفے میں اکثر وہ اُسے دکھائی دیتا۔  اُس کی پرسنلٹی ایسی تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔  ایسے ہی نجانے کب اور کیسے اُسے اُس سے محبت ہو گئی۔

محبت ہمیشہ انجانے میں ہی ہوتی ہے اور اُس سے ہوتی ہے جس سے غلطی سے بھی نہیں ہونی چاہئیے۔  جو سوچ سمجھ کے کی جائے وہ محبت نہیں ہوتی۔

موبائل پہ آنے والی ڈرائیورکی مسڈ کال سے اپنی سوچوں سے باہر نکلتے وہ پارکنگ ایریا کی طرف چل دی۔

٭٭

 

 

 

 

محبت کی آبلہ پائی نے مجھے یوں گُمنام کر ڈالا

کہ ستارے مشعلیں لے کر ہیں مجھ کو ڈھونڈنے نکلے

 

شاہ ویز پہ حملہ ہونے کے ایک ہفتے بعد۔۔ ۔۔

رات کا وقت تھا۔  چاروں طرف سُناٹا چھایا ہوا تھا۔  گاؤں والے اپنے بستروں میں دبکے میٹھی نیند سو رہے تھے۔  کالی چادر میں اپنا منہ ڈھانپے کوئی وجود درختوں کے جھُنڈ سے ہوتا ہوا ڈیرے کی طرف آیا۔  ڈیرے کا گیٹ تھوڑا سا کھُلا ہوا تھا جس سے وہ با آسانی بنا آواز پیدا کیے اندر داخل ہو گیا۔

بھینسوں کے باڑے سے ہوتا ہوا دائیں طرف واقع اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں داخل ہوا۔

ایک مخصوص جگہ زمیں میں فٹ ڈھکن اُٹھا یا۔ اُس میں داخل ہو کے ڈھکن کو دوبارہ اپنی جگہ پہ فٹ کر کے اپنی جیب سے ٹارچ نکال کے جلاتے ہوئے وہ سیڑھیاں اُتر کے ایک ہال نما کمرے میں آ گیا۔  ٹارچ بند کر کے جیب میں رکھی۔  منہ سے چادر ہٹاتے وہ چلتا ہوا سامنے زیرو بلب کی روشنی میں بیٹھے شاہ ویز کے پاس آیا۔

ادب سے جھکتے ہوئے سلام کیا۔

’سلام چوہدری صاحب۔۔ ‘

’وعلیکم السلام۔۔ ! آؤ خان بیٹھو۔ ‘

اُس نے سلام کا جواب دیتے اُسے بیٹھنے کا کہا۔

وہ نیچے زمیں پہ بیٹھنے لگا۔

’خان۔۔ ۔  تم میرے وفادار دوست ہو۔  نیچے بیٹھو گے تو مجھے اچھا نہیں لگے گا۔  ادھر کُرسی پہ بیٹھو۔  ‘

شاہ ویز نے اپنے سامنے رکھی کُرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’ وہ جھجھکتے ہوئے کرسی پہ بیٹھ گیا۔

’چوہدری صاحب خاکسار کو اتنی عزت دینے کا شکریہ۔ ‘

’کہو کیا خبر لائے ہو؟‘

’اس دفعہ بھی آپ پہ حملہ چوہدری امتیاز علی کے بیٹے نے ہی کروایا ہے۔  کل شام حویلی میں ایک چھوٹا سا فنکشن رکھا گیا ہے جس میں اُس کے بیٹے کا نکاح امتیاز علی کی خالہ زاد بہن کی بیٹی سے ہو گا۔  سارے مہمان پہنچ چُکے ہیں  سوائے امتیاز علی کی پوتی کے۔  اُسے لینے کے لیے صبح صبح حویلی سے کوئی جائے گا۔ ‘

جھُکے ہوئے سر سے اطلاع باہم پہنچائی گئی۔

’خان مجھے وہ لڑکی کل میرے شہر والے فلیٹ میں چاہئیے ہر حال میں۔ ‘

اُس نے سائیڈ پہ پڑی بوتل اُٹھا کے گلاس میں مشروب انڈیلتے ہوئے کہا۔

’جو حُکم چوہدری صاحب۔ ‘

پہلی دفعہ اُسے کوئی ایسا حکم دیا گیا تھا۔  خان نے کن اکھیوں سے اُسے مشروب کا گلاس ہونٹوں سے لگاتے دیکھا۔  وہ اپنے محسن کو پہلی دفعہ اس مشروب سے دل بہلاتے دیکھ رہا تھا۔

’خان پیو گے ؟‘

اُس نے اُسے آفر کی۔

’استغفرُاللہ!‘

خان کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔

وہ مُسکرا دیا۔

خان نے اجازت مانگی۔

نگاہوں کے اشارے سے اجازت دی۔

خان چلا گیا۔

رات دھیرے دھیرے ڈھلتی گئی۔

وہ آہستہ آہستہ پیتا گیا۔

صبح کے نمودار ہونے سے پہلے وہ لڑکھڑاتے ہوئے چوروں کی طرح حویلی کے پچھلے دروازے سے ہوتا اپنے کمرے میں بیڈ پہ گرتے اردگرد سے بے خبر ہو گیا۔

٭٭

 

 

 

 

آج کافی دنوں بعد جنوری کی دھوپ کسی حسین جوان دوشیزہ کی طرح انگڑائی لے کے بیدار ہوئی۔

چاروں اور جیسے چاندنی بکھر گئی۔۔ ۔۔

سُنہری چاندی کی طرح چمکتی دھوپ آنکھوں کو حدت پہچانے لگی۔

اُن سب کا آج یونیورسٹی میں آخری دن تھا۔

اُداسی چاروں طرف ڈیرہ ڈالے برا جمان تھی۔

دو دلوں میں ایک ہی انسان کی جُدائی کے خیال سے قیامت برپا تھی۔

اتنی زور سے دھڑک رہے تھے گویا ابھی سینہ چیر کے باہر آ جائیں گے۔

محبت بھی عجب شے ہے جتنا بھی محبت کے پیچھے بھاگو گے، اُتنا ہی محبت آپ سے دور بھاگے گی۔  کبھی ہاتھ نہیں آئے گی۔  بھاگتے بھاگتے جب پاؤں تھک جائیں۔ روح چھلنی ہو جائے۔  پھر آبلہ پائی مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔  تہی داماں رہ جاتے ہیں محبت کرنے والے۔

پہلی محبت یادوں کی راکھ کے ساتھ دل کے سب سے اوپر والے نُمایاں خانے میں دفن کر دی جاتی ہے۔

پھرزندگی جبر مسلسل کی طرح بہت حوصلے اور صبر سے جس کے ساتھ مرضی کاٹنی پڑے۔  بہت ہی خوبصورتی اور کمال مہارت سے لبوں پہ مُسکراہٹ سجائے کا ٹتے جاتے ہیں۔

پہلی محبت کبھی نہیں مرتی، وہ ہم میں تب تک زندہ رہتی ہے جب تک ہم زندہ رہتے ہیں۔

کیا ہی بہتر ہو ہم محبت کے پیچھے بھاگیں ہی نہ۔۔  کاش ایسا ممکن ہوتا کہ ہم ’بھاڑ میں جائے محبت ہم تو جینے چلے ‘کہہ کے آگے بڑھ جاتے۔

فریسہ یک طرفہ محبت کی کسک لیے اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گئی۔

زُباریہ بہت ہمت اور حوصلے سے لبوں پہ مُسکراہٹ سجائے ملک سے باہر اپنے والدین کے پاس چلی گئی۔

سکندر دل میں محبتوں کا جہاں آباد کیے بے تابی سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔

یونیورسٹی کی بلند و بانگ عمارت نے ہر سال کی طرح اس سال بھی بہت سے راز اپنے اندر سمو لیے۔

٭٭

 

 

 

 

’واؤ۔۔ ۔  واٹ آ ڈریمیٹیکل پلیس۔ ‘

اُس جگہ پہ نظر پڑتے ہی بے اختیار اُس کے لبوں سے نکلا تھا۔

کیا مبہوت کر دینے والا نظارہ تھا خوابوں کی دُنیا سے بھی خوبصورت، آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا نظارہ۔

وہ بے تابی سے آگے بڑھی۔

شفاف آئینے کی طرح چمکتے پانی کی جھیل کچھ دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ جن میں اونچے اونچے سبز درختوں کا عکس پانی پہ پڑنے کی وجہ سے پانی کی رنگت سبزہ مائل دکھائی دے رہی تھی۔

جس پہ چار چاند سورج اپنی سُنہری کرنیں بکھیر کے لگا رہا تھا۔

جھیل کے ختم ہوتے ہی سامنے سبزے سے ڈھکا راستہ ڈھلوان کی طرح اوپر چڑھ رہا تھا۔  جس پہ سُرخ رنگ کی چادر اوڑھے محل نما کوٹھی اپنی شان و شوکت سے کھڑی تھی۔

کوٹھی سے اوپر نظریں اُٹھاؤ تو خوبصورت درخت قطار در قطار کھڑے نیلے آسماں کو چھوتے محسوس ہو رہے تھے۔  ایسے جیسے آسماں سے باتیں کرنے میں مصروف ہوں۔

ہوا بھی محبت کی چادر اوڑھے ہنستی کھلکھلاتی وادی کی ہر چیز کو چھو کے گُزر رہی تھی۔

نکاح کے بعد شاہ ویز کی طرف ملنے والے اس انمول تُحفے پہ اُس نے نگاہوں میں شُکریہ کے جذبات لیے اُس کی طرف دیکھا تھا۔

وہ لبوں پہ قاتل مُسکراہٹ سجائے اُس کی طرف بڑھا۔

اُس کا ہاتھ تھام کے لبوں سے لگایا اور دوسرا بازو اُس کی کمر کے گرد حائل کرتے اُسے خود سے قریب کر لیا۔

حیا دھنک رنگ اوڑھ کے اُس کے چہرے پہ بکھر گئی۔

لانبی پلکیں رقص کرنے لگیں۔

وہ اپنا چہرہ اُس کے چہرے کے قریب لاتے اُس کے گال سے رگڑنے لگا۔

ہلکی ہلکی رکھی داڑھی کے بال اُسے گُد گُدانے لگے۔

وہ اُسے لیے کنارے لگی سُرخ رنگ کی کشتی کی طرف بڑھا۔

وہ دونوں اُس میں بیٹھے تو کشتی خود بخود چلنے لگی۔

وہ اُنہیں لیے کنارے پہ پہنچی۔

وہ اُتر کے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ڈھلوان چڑھتے اوپر آ گئے۔

انوشے نے اپنا رُخ جھیل کی طرف کیا۔  دونوں بازو ہوا میں پھیلا دئیے۔  آنکھیں بند کر لیں۔  اور کھلکھلاتے ہوئے اُس کے لبوں نے شاہ ویز کا نام وادی کے سُپرد کیا۔

اُس کی مام نے اُس کے لبوں کو کوئی لفظ ادا کرتے سُنا، لیکن آواز اتنی آہستہ تھی کہ وہ سمجھ نہ سکیں۔

اُنہوں نے خاموشی سے اُس کی طرف دیکھا جو صبح اُٹھنے کے بعد لاؤنج میں آ کے دوبارہ صوفے پہ سو گئی تھی۔

اُس کے چہرے پہ اس وقت خوشی کا ایسا منظر چھایا ہوا تھا وہ بھی دیکھتے ہوئے مُسکرا دیں۔

لگ رہا تھا بہت حسین خواب نے اُسے اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔

انوشے کے ذہن میں بہت سوال منڈلاتے جو وہ اپنے والدین سے پوچھنا چاہتی تھی۔  لیکن اُس کی ہمت ہی نہ ہوتی۔  اس لیے وہ بات ہی بدل دیتی۔  اب وہ خوابوں کے ذریعے خود کو بہلانے لگی تھی۔  اب وہ پریشان بھی نہیں ہوتی تھی۔  مانا اُس کا درد بہت گہرا تھا لیکن اُسے پریشان دیکھ کے اُس کے ماما بابا اور بہن بھائی جو پریشان ہوتے۔

اُس سے اُن سب کی پریشانی بھی نہیں دیکھی جاتی تھی۔

اس لیے وہ اب آہستہ آہستہ نارمل ہو رہی تھی۔  صبح جب اشعر اور ہالے سکول چلے جاتے اور اُن کے بابا اپنے آفس

تو پھر وہ دونوں ماں بیٹی ساتھ میں وقت گُزارتیں۔  آج کل انوشے فری تھی۔  اُس کی سکول لائف ختم ہو گئی تھی۔  وہ اُس کے ساتھ وقت گُزار کے ان ڈائریکٹلی اُسے اُس کی جو بھی پریشانی تھی اُس سے باہر نکال رہی تھیں۔

اب بھی وہ اُسے یوں خواب میں مُسکراتا دیکھ کے خود بھی مُسکراہٹ لبوں پہ سجائے اُدھر سے اُٹھتے ہوئے کچن کی طرف چل دیں۔

٭٭

 

 

 

 

تیری یادیں، تیری باتیں بکھری ہیں میرے کُو بکُو

میری چاہت، میری راحت بس تُو ہی تُو میرے چار سُو

وہ شاہ ویز کے ساتھ محبتوں کے جہاں میں محبتوں کے سنگ کھلکھلا رہی تھی۔

ایک دم ہی زندگی بہت خوبصورت ہو گئی تھی۔

کہ اچانک کان کے پاس بجتی رنگ ٹون اُسے خوابوں کی دُنیا سے باہر لائی اور وہ ہڑ بڑا کے اُٹھ بیٹھی۔

دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ اُسے اپنا ہاتھ سینے پہ رکھ کے دل کو خاموش کروانا پڑا۔

اُس نے اردگرد دیکھا۔

وہ اپنے گھر میں تھی۔

’شٹ یہ خواب تھا۔ ‘

چند لمحوں بعد اُس نے بڑبڑاہٹ کی۔

اُسے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ خواب تھا اُس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سچ میں شاہ ویز کے ساتھ اُس خوبصورت وادی سے ہو کے آئی ہو۔

ہائے۔۔ !قسم سے کچھ خواب ہی اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ اُن کے سحر سے باہر نکلنے کو ہی دل نہیں کرتا۔

’ آج اُٹھنے کو دل نہیں کر رہا۔  سب ٹھیک ہے نا۔ ‘

مما کی آواز پہ اُس کا سحر ٹوٹا تھا۔

اُس نے انگڑائی لیتے ہوئے نفی میں گردن ہلائی۔

’نو مام۔۔ میرا دل کرتا کہ میں سو سو کے ہی مر جاؤں۔ ‘

’بدتمیز۔۔ ! ایسا نہیں کہتے۔ ‘

اُنہوں کے اُس کے پاس بیٹھتے ہوئے اُس کے بازو پہ چیت لگاتے ہوئے کہا۔

’مام۔۔ ۔ !‘ وہ دونوں بازو اُن کے گرد لپیٹتے اُن کے کندھے پہ سر ٹکاتے ہوئے بولی۔

اُنہوں نے اُس کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔

’یس جان مام۔۔ ۔ !‘

’ مام۔۔ ۔  اگر کوئی ہمیں غلط سمجھتا ہو۔  ہم سے نفرت کرتا ہو۔۔  تو ایسا کیا کرنا چاہئیے ؟

کہ اُس کی نفرت ختم ہو جائے۔  اُس کے دل میں ہمارے لیے اچھے جذبات پیدا ہو جائیں۔  از اٹ پاسیبل؟۔ ‘

وہ آنکھیں موندتے ہوئے بولی۔

’یس اٹ از پاسیبل۔  ‘ اُنہوں نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔

وہ فوراً آنکھیں کھول کے سیدھے ہو کے بیٹھ کے پوری طرح اُن کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولی۔

’مام ہاؤز اٹ پاسیبل۔ ؟ ٹیل می پلیز۔ ‘

وہ اُس کی بے تابی پہ مُسکرا دیں۔

’اگر آپ ایک دفعہ سورۃ الفاتحہ، تین دفعہ سورۃ الاحد اور ایک دفعہ درود ابراہیمی پڑھ کے اللہ تعالیٰ سے کہیں کہ اللہ یہ اُس انسان کے دل کو میری طرف سے تحفہ پہنچا دیں۔  تو اللہ پہنچا دیں گے۔  پھراُس کے دل میں خودبخود آپ کے لیے اچھے جذبات پیدا ہو جائیں گے۔ ‘

’ واؤ مام آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔  تو کیا ایسا کرنے سے سچ میں ہمارا تحفہ پہنچ جائے گا۔ ؟‘

’ جو تحفہ اللہ کے ذریعے پہنچایا جائے وہ کیسے نہیں پہنچے گا؟

وہ تو اُسی وقت ایک منٹ کی تاخیر کے بنا پہنچ جائے گا۔  ہاں بس صبر دوسری شرط ہے۔  یہ نہ ہو ایک دفعہ تحفہ پہنچا کے یہ سمجھنے لگو کہ وہ اب فوراً آپ کے بارے میں اچھا سوچنا شروع کر دے۔  نہیں پہلے اس بات پہ یقین رکھو کہ آپ کا تُحفہ پہنچے گا۔  پھر صبر سے کام لو۔  پہنچاتی رہو۔  پھر دیکھنا ایک دن آئے گا۔  آپ کے بارے میں اچھی رائے ظاہرکرے گا۔ ‘

وہ اُن کا گال چومتے ہوئے بولی۔ ’ تھینک یو مام۔  فار شئیرنگ سچ آ بیوٹیفُل نالج۔ ‘

’بس بس اب زیادہ مسکے لگانے کی ضرورت نہیں۔  پانچ منٹ میں فریش ہو کے آؤ میں ناشتہ لگا رہی ہوں۔  پھر اپنے فارم بھی نکال کے رکھو۔  تمہارے بابا کہہ رہے تھے کالج میں ایڈمیشن اوپن ہو گئے ہو۔  ‘

’اوکے دی ورلڈ بیسٹیسٹ مام۔  آپ کا حُکم سر آنکھوں پہ۔  ‘

اُس نے اُٹھ کے اپنا ہاتھ ماتھے پہ لے جا کے جھُکتے ہوئے اُنہیں آداب پیش کرتے ہوئے کہا۔

پھر دونوں ماں بیٹی کے قہقہے گھر کے درو دیوار نے بہت دنوں بعد سُنے تھے۔

٭٭

 

 

 

 

 

کبھی محبت اور عزت میں سے کسی ایک کو چُننا پڑے تو تم عزت کو چُننے میں پہل کرنا

 

اُن کا پورا گروپ ہاسٹل کے لان میں بیٹھ کے کل کے ٹیسٹ کی تیاری کر رہا تھا۔  سدرہ سب کو سمجھا رہی تھی۔  باقی سب بہت توجہ سے سمجھنے میں مصروف تھیں سوائے وجیہہ کے۔  جو گود میں کتاب کھولے اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔  سمجھاتے سمجھاتے سدرہ نے جب سر اُٹھا کے دیکھا اوراُس کی نظر سیدھی سامنے بیٹھی وجیہہ پہ پڑی۔

تو اُس نے اچانک اُس کی گود سے کتاب اُٹھاتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔

’اوئے ہوئے۔۔  کسے سوچا جا رہا ہے ؟ جو چہرے پہ دھیمی سی شرمیلی سی مُسکان، حیا کے رنگوں کے ساتھ چھائی ہوئی ہے۔ ‘

اُس کے کہنے پہ باقی چاروں بھی متوجہ ہو گئیں، اور اُسے دیکھنے لگیں۔  سب کو اپنی طرف تکتا پا کے وہ کنفیوز ہونے لگی۔

’ کیا ہے یار۔۔ !؟

سب ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟

اور تم ادھر کرو میری کتاب حد ہو گئی ہے، سمجھ تو رہی تھی میں۔۔ ۔ !‘

’نہ جی۔۔ ۔  سمجھ ہی تو نہیں رہی تھی۔  ہائے مجھے تو یاد ہی نہیں رہا تھا۔  ابھی تھوڑی دیر پہلے تمہارے گھر سے کوئی ملنے آیا تھا نا۔۔ ۔  اثرات بتا رہے ہیں کہ کون آیا تھا۔۔ ۔  اوئے ہوئے بتا نا۔۔  میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا۔ ؟‘

سدرہ نے اُسے تنگ کرتے ہوئے پوچھا۔  تو باقی بھی شروع ہو گئیں۔

آخر اُسے اعتراف کرنا ہی پڑا۔

’ہاں۔۔  احسن آئے تھے۔  ‘

’ہاں۔۔ احسن آئے تھے۔۔ ‘ سدرہ نے اُس کی نقل اُتارتے ہوئے کہا۔

مدیحہ بھی بولی۔۔

’اوئے ہوئے آئے تھے۔۔  واہ اتنی عزت۔۔ ‘

وجیہہ نے اُن کے اوئے ہوئے کہنے پہ بولی۔

’تو اس میں اوئے ہوئے کرنے والی کیا بات ہے۔  رشتہ کوئی بھی ہو اُس میں سب سے ضروری ایلیمنٹ عزت ہے۔ ‘

سارہ نے اُس کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا۔

’ جی نہیں۔۔  محبت سب سے ضروری ایلیمنٹ ہوتا ہے۔  ‘

وجیہہ سارہ کی بات سُن کے بولی۔

’کیسے ؟؟؟ فرض کرو ایک انسان تمہیں بہت محبت دیتا ہے۔  لیکن تمہیں عزت نہیں دیتا۔  بات بات پہ تمہاری بے عزتی کرتا ہے۔  تو کیا تم اُس انسان کے ساتھ رہ لو گی؟ تمہارا دل نہیں کرے گا کہ وہ تمہیں عزت سے مُخاطب کرے ؟ آرام سے سوچ کے بتاؤ۔ ‘

’کرے گا۔ ‘

’تو پھر بتاؤ کونسا ایلیمنٹ ضروری ہے ؟‘

’عزت۔ ‘ سارہ نے اعتراف کیا۔

’ چلو اب بس آ جاؤ واپس ٹاپک پہ۔  شام ہونے سے پہلے اسے مکمل کرنا ہے۔ ‘

سدرہ نے کہتے ہوئے دوبارہ کتاب پہ سر جھُکا دیا۔  باقی بھی پڑھنے میں مشغول ہو گئیں۔ پھر رات کو اُس کی دوستوں کی طرف سے ملنے والی سرپرائز برتھ ڈے پارٹی نے اُس کا دن اور خوبصورت اور یادگار بنا دیا۔

٭٭

 

 

 

 

 

گرمیوں کے دن تھے۔  سخت دھوپ گراں گُزر رہی تھی۔

کہ دوپہر کے بعد آسماں پہ بادلوں کی آمد نے اچانک آ کے سر پرائز دے دیا۔

اس سرپرائز نے سب جانداروں کے چہروں پہ مُسکراہٹ بکھیر دی۔

ہواؤں کی آمد نے موسم کو خوشگوار بنا دیا۔

پرندے جو کچھ دیر پہلے گرمی سے بے حال ہو کے اپنے گھونسلوں کی چھاؤں میں بیٹھے تھے۔  باہر نکل کے کھُلے آسماں تلے چہکتے ہوئے ایک درخت سے دوسرے درخت پہ جھومنے لگے۔

زُلیخا کو بھی اُس کی سکھی نے پیغام بھجوایا۔۔  باغوں کی طرف جانے کا۔  امی حیات ولا گئی ہوئی تھیں۔  وہ اُن سے اجازت لینے کے لیے اپنی حویلی کا گیٹ پار کرتے ہوئے حیات ولا کا گیٹ کھولتے ہوئے اندر داخل ہو گئی۔

سامنے آنگن میں جامن کے درخت کے نیچے چارپائی پہ امی کے ساتھ بیٹھی تائی جان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے وہ بولی۔

’السلام علیکم تائی امی۔۔ !‘

’وعلیکم اسلام۔۔ ! جیتی رہو۔۔ ۔ ‘ تائی امی نے اُسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔

وہ اپنی امی سے مُخاطب ہوئی۔

’امی جان۔۔  دیکھیں نا۔۔  کتنا پیارا موسم ہو گیا ہے۔۔ ۔ ‘

وہ اُس کی بات کاٹ کے بولیں۔

’ اور اب تمہارا دل باغوں کی طرف جانے کو مچل رہا ہو گا۔ ‘

ہائے۔۔  سچی۔۔ ۔  امی آپ کتنی اچھی ہیں نا۔۔  بنا کہے میرے دل کی بات جان جاتی ہیں۔  ‘

وہ اس طرح چہکتے ہوئے بولی کہ امی اور تائی امی دونوں ہنسنے لگیں۔

سیڑھیاں اُترتے یوسف نے اُس کے آخری الفاظ سُن لیے۔

’چاچی جان کونسی دل کی بات جان لی ہے آپ نے ؟۔ ‘

وہ پاس آ کے کن اکھیوں سے زُلیخا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

’کچھ نہیں۔۔  بس ذرا ہوا کیا چلنے لگ جائے اس کا باغوں کی طرف جانے کو دل مچلنے لگ جاتا ہے۔ ‘

زُلیخا کی امی نے جواب دیا۔  تو وہ کہنے لگا۔

’تو جانے دیں نا۔۔  میں بھی اُدھر ہی جا رہا ہوں۔  بلکہ میرے ساتھ ہی بھیج دیں۔ ‘

’نہیں۔۔  میں نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ جانا ہے۔ ‘

’ ہاں سہیلیوں کے ساتھ جانا ہے اور پھر شام کو ہی واپس آنا ہے۔  کوئی ضرورت نہیں۔  جانا ہے تو یوسف کے ساتھ ہی جاؤ۔  اور ایک گھنٹے میں واپس آؤ۔ ‘

’ اچھا ٹھیک ہے میں چادر لے لوں۔ ‘ ڈانٹ سُننے کے بعد وہ اُٹھتے ہوئے منہ بنا کے بولی۔

یوسف بھی اُنہیں سکندر کے آنے کی اطلاع دیتے ہوئے باہر نکل آیا۔

٭٭

 

 

 

 

وہ دونوں درختوں کے جھُنڈ سے ہوتے ہوئے گُزر رہے تھے کہ اوکاں کا درخت دیکھتے ہوئے زُلیخا رُکتے ہوئے یوسف سے بولی۔

’یوسف۔۔ !؟‘

’جی جان یوسف۔ ؟‘

اُس کے یوں کہنے پہ وہ اُسے گھورتے ہوئے بولی۔

’میں اسی لیے آپ کے ساتھ نہیں آ رہی تھی۔  ‘

وہ شرارت سے بولا۔

’ چلو اب تو آ گئی ہو نا۔۔  بتاؤ کیا کہنا تھا۔ ‘

وہ منہ پھُلاتے ہوئے بولی۔

’کچھ نہیں۔ ‘

اُس نے سیریس ہو کے کہا۔

’چلو اب بتا بھی دو۔  ‘

اُسے سیریس دیکھ کے وہ بتانے لگی۔

’اس درخت کے پاس سے گُزرتے نجانے مجھے کیوں ایسا لگتا جیسے یہ درخت مجھے اپنے پاس بُلا رہا ہو۔  مجھے کہہ رہا ہو کہ کچھ دیر آ کے میرے پاس بیٹھو۔  کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے ؟‘

’نہیں۔۔  میرے ساتھ تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔  ویسے اچھا لگتا ہے دیکھنے میں۔ ‘

’تو پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟‘

’کیونکہ اس درخت کا نام ہی مہرباں دوست ہے یہ ہر کسی کو اتنی ہی محبت سے اپنے پاس بُلاتا ہے۔  لیکن صرف حساس لوگ ہی اسے محسوس کر سکتے ہیں۔  ‘

’واؤ گُڈ۔۔  آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ‘

’پہلے کبھی تم نے پوچھا ہی نہیں۔  اب آگے جانا ہے یا ادھر سے ہی واپس جانا کا ارادہ ہے ؟‘

یوسف کے کہنے پہ اُس نے آگے کی طرف قدم بڑھا دئیے۔  گاؤں کا چوتھا حصہ تو اس باغ پہ مُشتمل تھا۔  یہ حیات ولا اور شہباز ولا والوں کی ملکیت تھا۔  اُن کے علاوہ ادھر کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔  سوائے مالی لوگوں کے۔  جنہیں اس باغ کی دیکھ بھال کے لیے رکھا گیا تھا۔

چلتے چلتے یوسف نے اُس کا ہاتھ تھام لیا۔

وہ رُک گئی۔

پلٹ کے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔

’ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ میں مر۔۔ ۔ ‘

اُس نے فوراً اُس کے لبوں پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

’اللہ نہ کرے۔۔ ۔  یہ اچانک چلتے چلتے کیا ہوا ہے آپ کو؟‘

وہ اُس کا ہاتھ ہٹاتے درخت کے تنے سے ٹیک لگا تے ہوئے بولا۔

’پتہ نہیں کیوں رات سے مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے۔  میری چھٹی حس کسی خطرے کا اعلان کر رہی ہے۔  اسی لیے تمہاری آواز سُنتے ہی آ گیا تھا۔  ‘

وہ اُس کی بات جھٹلاتے ہوئے بولی۔

’کچھ نہیں غلط ہونے والا۔  ایسے ہی آپ کو لگ رہا ہو گا۔  وہم ہو گا آپ کا۔ ‘

’اللہ کرے وہم ہی ہو۔  بس کوئی تمہیں مجھ سے جُدا نہ کرے۔  ورنہ میں جی نہیں پاؤں گا۔ ‘

اُس نے بے بسی سے کہا۔

تو زُلیخا کی آنکھوں سے آنسو نکل کے اُس کے گالوں پہ پھسلنے لگے۔

’ آپ سے پہلے میں مر جاؤں گی۔ ‘

’پاگل۔۔ ۔ !‘ یوسف اپنی انگلیوں سے اُس کی آنکھوں سے بہتے موتی چُننے لگا۔

وہ اُس کے بازو سے سر ٹکا کے رونے لگی۔

’اب اس طرح کرو گی تو میں نے کوئی گُستاخی کر دی پھر تمہیں ہی اعتراض ہونا ہے۔ ‘

یوسف کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ اُس نے فوراً اپنے آنسو پونچھے اور واپسی کے راستے پہ قدم بڑھا دئیے۔

یوسف بھی اُس کے قدموں کے نشانوں پہ چلنے لگا۔

٭٭٭

 

 

 

 

تیسرا باب

 

فی قلوبھم مرضٌ

(اُن کے دلوں میں بیماری ہے )

 

بجلی کبھی گری کبھی صیاد آ گیا

ہم نے تو چار دن بھی نہ دیکھے بہار کے

 

زُباریہ نے بہت ضبط سے پہلی محبت کی کرچیاں دل میں دفن کر کے ایمانداری سے اللہ کی رضا سمجھ کے اپنا آپ اپنے مجازی خُدا عبدُالحنان کے سپرد کر دیا۔

عبدُالحنان اُس کے لیے صرف اچھا نہیں بہت ہی اچھا جیون ساتھی ثابت ہوا تھا۔

دن گُزرنے کے ساتھ اُس کی محبت میں اضافہ ہی ہوا تھا۔

عبدُالحنان نے اپنی بے پناہ اور بے لوث محبت سے بہت جلد زُباریہ کے دل میں اپنے قدم جمانے شُروع کر دئیے۔

زندگی میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں رقص کرنے لگیں۔

ایک سال بعد اللہ نے اس خوشگوار اور خوبصورت جوڑے پر اپنا انعام، اپنی رحمت دو ننھی ننھی جُڑواں پریوں انوشے اور پلوشہ کی صورت میں برسائی۔

زُباریہ اور عبدُالحنان کی اُن میں جان تھی۔

دونوں اُنہیں دیکھ دیکھ کے جیتے تھے۔

عبدُالحنان کے والدجیسے اپنی پوتیوں کے انتظار میں ہی زندہ تھے۔  اُن کی آمد کے ایک مہینے بعد ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ یوں عبدُالحنان کے سر سے اکلوتا سایہ بھی اُٹھ گیا۔

وہ اپنی فیملی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ لندن شفٹ ہو گیا۔ اپنا بزنس بھی اُدھر ہی سیٹ اپ کر لیا۔  زُباریہ اپنے گھر داری کے فرائض پوری ایمانداری اور دل لگی کے ساتھ سر انجام دینے لگی۔  یوں وقت ہنسی خوشی سرکنے لگا۔

ابھی چار ماہ ہی گُزرے تھے کہ عبدُالحنان روڈ ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گیا۔  اطلاع ملتے ہی وہ پاگلوں کی طرح ہسپتال کی طرف دوڑی تھی۔ ڈاکٹرز نے قومہ میں جانے کی اطلاع دی۔  سجدے میں جا کے اپنے شوہر کے لیے گڑگڑا کے دُعائیں مانگیں۔  کوئی دُعاقبولیت کا درجہ نہ پا سکی۔  تین دن زُباریہ نے سولی پہ لٹک کے گُزارے تھے۔ چوتھے  دن تو جیسے اُس کی دُنیا ہی اندھیر ہو گئی۔  عبدُالحنان اس فانی دُنیا کو الوداع کہہ گیا۔  ایک قیامت تھی جو اُس پہ ٹوٹی تھی۔ کہتے ہیں جس جگہ کی مٹی سے اللہ نے انسان کو بنایا ہووہاں کی مٹی میں ہی وہ جا ملتا ہے۔ لندن میں ہی دفنا دیا گیا۔  زُباریہ کے گھر والوں نے اُس کے پاکستان آنے پہ بہت اصرار کیا۔  لیکن اُس نے انکار کر دیا۔ عدت پوری کرتے ہی اُس نے اُدھر ہی اپنے شوہر کا بزنس سنبھال لیا۔

٭٭

 

 

 

 

 

تمہاری دید ہی مقصد رہا جس کی بصارت کا

یہ چشم منتظر پتھرا گئی کیا تم نہ آؤ گے ؟

 

اُس نے بہت کوشش کی تھی سب کچھ بھول کے پہلے کی طرح ہنسنے کھلکھلانے کی لیکن صرف چند دن ہی وہ ایسا کر پائی تھی۔  اُس نے لاکھ کوشش کی یادوں سے پیچھا چھُڑانے کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی۔  کیسے کامیاب ہو پاتی؟ جب بھی آنکھیں بند کرتی اُس دُشمن جاں ساجن کا چہرہ آنکھوں میں آ سماتا۔  پھر نئے سرے سے پہلے سے زیادہ شدت سے درد جاگ جاتا۔  رات کے اندھیرے میں بند کمرے میں تکیے میں منہ چھُپائے سسکتے ہوئے اُس نے آج اعتراف کر ہی لیا تھا۔  اُس نے سائیڈ ٹیبل پہ پڑا موبائل اُٹھایا نئی بنائی گئی آئی ڈی کھولی شاہ ویز کی آئی ڈی سرچ کی۔  میسیج کے اوپشن پہ کلک کیا اور ٹائپ کرنے لگی۔

رات کے پچھلے پہر تم

چُپکے سے خواب کی صورت

بند پلکوں کے دریچوں پر آ ٹھہرے

میں نے لاکھ کروٹیں بدلیں

اس خواب کو جھُٹلایا مگر

میں کامیاب نہ ہو سکی ’پیا‘

تب دو موتی پلکوں سے ٹوٹ کر

میرے تکیے میں جذب ہو گئے

پھر لبوں سے درد کی صورت اک آہ نکلی

تیرے بن ہے من کو لاگے روگ ’پیا‘

تیرے بن میں کون ’پیا‘؟

تیرے بن میں کون ’پیا‘؟

سینڈ کے آپشن پہ کلک کر کے اُس نے آنکھیں موند لیں۔ وہ سوچنے لگی کہ اُسے شاہ ویز کے بارے میں بابا کو بتا دینا چاہئیے۔  اب درد بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اُسے لگا اس بند کمرے میں اُس کا سانس بند ہو جائے گا۔  وہ اُٹھی اور باہر نکل کے لاؤنج میں چلی آئی۔

سامنے ہی صوفہ پہ بابا بیٹھے سموکنگ کر رہے تھے۔

اُسے شاہ ویزیاد آ گیا۔

کچھ ایسا تھا جو بابا کو دیکھتے اُس کے ذہن میں کھٹکتا تھا لیکن ابھی تک وہ سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔

اب سمجھ میں آئی تھی۔  کہ شاہ ویز تو بالکل بابا کی کاپی تھے۔  وہ نجانے کب تک یوں ہی کھڑی اُنہیں دیکھتی رہی۔  پھر بابا نے ہی کسی کی موجودگی محسوس کر کے سر اُٹھا یا۔

’انوشے۔۔ ۔ ! بیٹے کیا بات ہے ؟ اُدھر کیوں کھڑی ہو ؟ ادھر آ جاؤ بابا پاس۔ ‘

اُنہوں نے سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے اپنے ساتھ صوفہ پہ جگہ بناتے ہوئے کہا۔

وہ خاموشی سے آ کے اُن کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ اُن کو شاہ ویز کے بارے میں بتانا چاہتی تھی۔  اُن سے یہ بھی پوچھنا چاہتی تھی کہ اُن کا شاہ ویز سے کیا رشتہ ہے ؟۔  لیکن اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے۔

اُنہوں نے اُسے بازو کے گھیرے میں لیتے ہوئے کہا۔

’کیا بات ہے ؟ خیریت تھی ہمارے بیٹے کو نیند نہیں آ رہی تھی؟‘

وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔

’نو۔۔  بابا آپ کیوں جاگ رہے ہیں ؟‘

’بس ایسے ہی۔۔ ۔ نیند نہیں آ رہی تھی۔ ‘

اُنہوں نے نظریں چُراتے ہوئے جواب دیا۔

’ آپ ٹھیک تو ہیں ؟‘

اُس نے پریشانی سے پوچھا۔

’یس ! آئی ایم فائن مائی ڈئیر۔ ‘

اُنہوں نے مُسکرانے کی ناکام سی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’بابا ! کین آئی آ سک ون کوئیسچن؟‘

آخر اُس نے ہمت کرتے ہوئے پوچھا۔

’یس یو کین۔ ‘

اُس کی طرف دیکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا۔

’ بابا میں نے آپ سے اُس دن جھوٹ بولا تھا۔۔ ۔۔ ۔ ‘

اُس نے اُنگلیاں مڑوڑتے ہوئے آخر بات کا آغا زکیا۔

’یس آئی نو۔۔ ۔ ‘

اُنہوں نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بہت آرام سے کہا۔

اُس نے نظریں چُرا لیں۔

اُنہوں نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کے تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

’انوشے بیٹا۔۔ ۔  ڈونٹ بی کنفیوز۔۔ ۔  یو کین شئیر اینی تھنگ۔ ‘

’بابا۔۔ ۔ ! شاہ ویز حیات خان۔۔ ۔۔ ‘

اتنا کہتے ہوئے وہ رُک گئی۔

’کیا ہواشاہ ویز حیات خان کو۔۔ ۔ ؟

انوشے بیٹا مجھے پوری بات بتاؤ۔۔ ۔  آپ جانتی ہو اُسے۔۔ ؟‘

اُنہوں نے بے چینی سے پوچھا۔

اُن کے سینے سے لگ کے ہچکیوں اور آنسوؤں کے ساتھ دھیرے دھیرے اُنہیں سب بتا دیا۔  کیسے اُس نے اُس سے کنٹیکٹ کیا سے لے کر اُس کے یہاں آنے اور فلیٹ پہ اُس آخری رات کے بارے میں سب بتا دیا۔

’ بابا۔۔  آپ تو جانتے ہیں نا کہ مجھے کچھ بھی نہیں پتہ کہ آپ کا آپس میں کیا ریلیشن ہے۔۔ ۔۔  پھر اُس نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا بابا۔۔ ۔ وائے بابا وائے۔۔ ۔۔ ؟؟؟‘

وہ سسک رہی تھی۔

وہ چُپ ہو گئے تھے بالکل چُپ۔  اُن کے پاس اُس کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

آپ کو اس دُنیا میں جس سے سب سے زیادہ محبت ہو۔  جسے دیکھنے کے لیے آپ سالوں سے تڑپ رہے ہوں۔  جس کے لیے آپ اپنی جان بھی بخوشی دے سکتے ہوں۔  اور بدلے میں آپ کو اپنے لیے اُس کی نفرت کی شدت کا اندازہ پتہ چلے تو کیا آپ کے پاس بولنے کے لیے کچھ رہ جائے گا؟؟؟

وہ اُسے کیا دلاسہ دیتے۔ ؟

وہ تو یہ سُن کے خود ہی بکھر گئے تھے۔

رات کے آخری پہر اُن دونوں کی اذیت کی وجہ ایک ہی شخص تھا۔

اُس کی آنکھیں برس رہی تھیں۔

لیکن اُن کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔

صوفہ کے پیچھے فلیٹ کے اندھیرے میں ڈوبے حصے میں گُم صُم کھڑے ایک اور وجود کی آنکھیں برس رہی تھیں۔  جب نیند اُن کے شوہر اور بیٹی پہ حرام ہو تو وہ کیسے سکون سے رہ سکتی تھیں ؟

اُن کا درد ایسا تھا کہ وہ چاہ کے بھی پاس آ کے تسلی کے دو بول نہیں بول سکتی تھیں۔

وہ کئی سالوں سے اپنے شوہر کو یہ اذیت سہتے دیکھ رہی تھیں۔

اب اُن کے شوہر کی وجہ سے اُن کی بیٹی کے حصے میں بھی اذیت لکھی جا چُکی تھی۔ یہ دونوں لوگ ہی اُن کے جینے کی وجہ تھے۔  ان کے بغیر وہ زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ اُن کے بس میں ہوتا تو وہ اپنے حصے کی خوشیاں بھی اُن کی زندگی میں لکھ کے اُن کے سارے دُکھ درد اپنے حصے میں لکھ لیتیں۔ اُنہوں نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔

وہ پھر سے ماضی میں کھو گئے تھے۔

٭٭

 

 

 

کانپتے تھے جن کے ڈنکے سے زمین و آسماں

چُپ پڑے ہیں قبر میں اب ہوں نہ ہاں کچھ بھی نہیں

 

پنجاب کا ایک خوبصورت گاؤں فیروز خان اور شیراں بی بی کی ملکیت تھا۔  پاکستان اور انڈیا کی تقسیم سے پہلے کے وقت سے ہی یہ گاؤں اُن کے آباء و اجداد کی ملکیت تھا۔  زمیندار گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے حاکمیت کا عنصر تو اُن کی طبیعت میں سب سے نمایاں تھا۔  جائیداد کے ساتھ غصہ بھی اس خاندان کے مردوں کو جیسے وراثت میں ملتا آ رہا تھا۔  اُن کے غصے سے سارا گاؤں ڈرتا تھا۔  کسی کی بھی اُن کے آگے بولنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ فیروز خان کو باغبانی کا بہت شوق تھا۔  اس لیے گاؤں کا تیسرا حصہ باغوں پہ مُشتمل تھا۔  جس میں ہر طرح کے پھلوں اور پھولوں کے درخت موجود تھے۔ پھر آہستہ آہستہ وقت گُزرنے کے ساتھ بہت سے خوبصورت اور رنگ برنگے پرندوں نے اُن باغوں کو اپنا مسکن بنا لیا۔  جن کی چہکار سے فضا میں موسیقی کا سا گُمان ہوتا۔  اس کے علاوہ بے شمار مضبوط درختوں کے تنوں پر پیں گیں لٹکی نظر آتیں۔  اُدھر مالی لوگوں کے علاوہ اور کسی کا بھی بنا اجازت آنا ممنوع تھا۔  فیروز خان اورشیراں بی بی کو اللہ نے تین بچوں سے نوازا تھا۔  حیات فیروز خان، شہباز فیروز خان اور شہناز فیروز خان۔  اس زمیندار گھرانے کی ایک روایت برسوں سے چلی آ رہی تھی۔  بچپن میں ہی اپنی اولاد کے رشتے طے کر دینا۔  پھر وقت گُزرنے کے ساتھ اُن کی ہر خواہش پوری کرنا، کبھی پھولوں کی چھڑی سے بھی نہ اُن کو چھونا۔  غرض اپنی محبت اپنی اولاد میں خون سے زیادہ بھر دینا۔  لیکن جب شادی کا مرحلہ آنا۔  تب اپنی اولاد کے آگے اپنے فیصلے رکھنا۔  یا تو اُن فیصلوں پہ سر جھُکا دو، یا پھر جائیداد سے عاق ہو کے اس گاؤں سے نکل جاؤ۔  آج تک سب ہی ان فیصلوں پہ مجبوراًسر جھُکاتے آئے تھے۔ اور بجائے ان رسموں کو ختم کرنے کے یہی رسمیں لے کے چلتے آ رہے تھے۔  فیروز خان نے شہباز خان کا رشتہ اپنے دوست چوہدری امام علی کی بیٹی زہراں سے، اور اپنی بیٹی شہناز کا رشتہ امام علی کے بیٹے امتیاز علی سے وٹہ سٹہ میں طے کر دیا۔  جبکہ حیات خان کا اپنے رشتے کے چچا زاد بھائی کی بیٹی نازیہ سے۔  وقت آنے پہ سب نے دلوں میں کسی اور کی محبتوں کے جہاں آباد کیے والدین کے فیصلوں پہ سر جھُکا دیا۔  حیات خان اور ہاجراں کے دو جُڑواں بیٹے یوسف حیات خان، سکندر حیات خان اور ایک بیٹی وجیہہ حیات خان تھی۔  شہباز خان اور نازیہ کا ایک بیٹا احسن شہباز خان اور دو بیٹیاں زُلیخا شہباز خان، مریم شہباز خان تھیں۔  جبکہ شہناز اور چوہدری امتیاز علی کو اللہ نے دو بچوں رمیز امتیاز علی اور زویا امتیاز علی سے نوازا تھا۔ فیروز خان نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹوں کے بچوں کے بھی رشتے خود طے کر دئیے۔  گویا اُن کے منہ سے نکلی بات پتھر پہ لکیر سمجھی جاتی۔  گاؤں کے ایک سرے پہ واقع بڑی حویلی شہناز کے نام کر دی گئی۔  جبکہ حیات خان کے لیے حیات ولا۔۔  اوراُس کے ساتھ ہی شہباز خان کے لیے شہباز ولا گاؤں کے دوسرے سرے پہ تعمیر کروایا گیا۔ یوں سارے فیصلے خود کر کے وہ منوں مٹی تلے جا سوئے۔  ایک سال بعد شیراں بی بی بھی اپنے شوہر کے پہلو میں جا سوئیں۔ ماں باپ کی وفات کے بعد شہنازاپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ بڑی حویلی میں آ بسیں۔

٭٭

 

 

 

حیات خان اور شہباز خان کے سب بچے شہر سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے گاؤں لوٹ آئے تھے۔

اب رواج کے مطابق آج رات حیات ولا اور شہباز ولا کو دُلہن کی طرح سجایا گیا۔ دیگیں پکوا کے سارے گاؤں میں بانٹی گئیں۔  سب رشتہ داروں کو مدعو کیا گیا۔ سب آن پہنچے۔  اُن کے بچے بہت دیر بعد ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ اُن کی آپس میں نوک جھونک سے چھوٹے بڑے سب لُطف اندوز ہو رہے تھے۔  اسی خُوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔  کھانے کے بعد بچوں، بڑوں سب کو حیات ولا کی بیٹھک میں اکٹھے ہونے کا حُکم دیا گیا۔ کچھ دیر بعد سب بڑی سی بیٹھک میں نہایت عُمدہ، خوبصورت اور آرام دہ صوفوں پر براجمان حیات خان کے بولنے کا انتظار کر رہے تھے۔  اپنے مخصوص انداز میں گلا کھنکھارتے ہوئے اُنہوں نے اپنی بات شروع کی۔

’اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے بچوں نے اپنی تعلیمی منازل بخوبی طے کر لی ہیں۔  تو اب وقت آ گیا ہے آپ سب کو آپ کے دادا فیروز خان کی بات سے آگاہ کر دیا جائے۔  بڑے تو اس بات سے آگاہ ہیں۔  بچوں سے یہ بات اب تک اس لیے ہی چھُپائی گئی تھی کہ آپ لوگ اپنا سارا دھیان صرف تعلیم پہ رکھو۔  ہمارے بابا جان اور آپ کے دادا فیروز خان نے آپ کی پیدائش پہ ہی رواج کے مطابق آپ لوگوں کے رشتے طے کر دئیے تھے۔  ‘

اتنا کہہ کے وہ رُکے تو شہباز خان اور شہناز بیگم نے بڑے بھائی کی بات سے متفق ہوتے اثبات میں گردن ہلائی۔

یوسف، سکندر اور رمیز کی نظریں زُلیخا کی طرف اُٹھی تھیں جبکہ زُلیخا اور زویا کی یوسف کی طرف۔ وجیہہ اور احسن نے کن اکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا۔

’زُلیخا، سکندر کی منگ ہے۔ ‘

دو دلوں کی دھڑکنیں ایک دفعہ تو رُکی تھیں۔ جبکہ سکندر کے دل سے بے اختیار الحمدُ للہ نکلا تھا۔  رمیز کے دل میں حسد کی آگ جل اُٹھی تھی زُلیخا کو کسی اور کا ہوتا دیکھ کے۔  زویا نے سکون کا سانس لیا تھا۔  زُلیخا کو یوسف کے نہ ملنے پہ۔  لیکن اُس کا یہ سکون عارضی تھا۔

مریم، یوسف کی منگ ہے۔ ‘

اب حسد کی آگ زویا کے دل میں اپنے بھائی سے زیادہ بھڑکی تھی۔  مریم کو کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا کیونکہ اُس نے اپنے دل میں ابھی تک کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔

اور وجیہہ، احسن کی منگ ہے۔ ‘ دونوں کے دلوں میں لڈو پھوٹے تھے۔

’نکاح کے لیے اگلے مہینے کی بیس تاریخ ٹھیک رہے گی۔ کیوں شہباز۔ ‘ حیات خان نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے شہباز خان سے پوچھا۔

’بھائی جیسا آپ بہتر سمجھیں۔  مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ‘ اُنہوں نے اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

یوسف نے اعتراض کرنا چاہا۔

’ لیکن بابا جان۔۔ ۔ !‘

اُنہوں نے ہاتھ اُٹھا کے منع کر دیا۔

’یوسف مجھے لیکن ویکن کچھ نہیں سُننا۔  پہلی بات یہ ہمارے بابا جان کا فیصلہ ہے جسے ہر صورت ماننا ہی ماننا ہے۔  اگر نہیں مان سکتے تو اجازت ہے اس گاؤں سے خالی ہاتھ جا سکتے ہو۔  ہم سمجھیں گے جانے والا مر گیا ہے۔ اور دوسری بات ہم نے اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ ہمارے آگے اپنی زُبان کھولنے کی اور ہمارے فیصلوں سے اعتراض کرنے کی ہمت کرے۔  ‘

اُنہوں نے کچھ اس طرح سخت لہجے میں بات کی کہ یوسف سمیت اُدھر بیٹھے ہر انسان کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔

سب کو اسی طرح چھوڑ کے وہ اپنی نشست سے اُٹھے اور باہر کی جانب قدم بڑھا دئیے۔  اُن کے پیچھے شہباز خان اور امتیاز علی نے بھی۔

رمیز نے لبوں پہ مُنافقانہ مُسکراہٹ سجاتے ہوئے اُن کو مبارکباد دی اور باہر نکل گیا۔

زویا نے بھی اپنے دل کا مرض چھُپاتے مسکراتے ہوئے اُن کو مُبارکباد دی۔

زُہراں بیگم نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور پھر گُم صُم بیٹھی زُلیخا کی طرف۔  وہ ماں تھیں اپنی اولاد کے دل تک اُن کی رسائی تھی۔  لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔  اُنہوں نے اُٹھتے ہوئے اُس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

’یوسف بیٹا۔۔  غصے اور جذبات میں آ کے کوئی فیصلہ لینے سے پہلے اپنی ماں کے بارے میں ضرور سوچ لینا۔۔ ۔  بیٹا بھلائی اسی میں ہے اپنے بابا جان کی بات مان لو۔  ‘

یوسف خاموشی سے یہ زہر کا گھونٹ پینے کے لیے خود کو تیار کرنے لگا۔ اس لیے نہیں کہ وہ ڈرپوک تھا یا اُس کی محبت کھوکھلی تھی۔  بلکہ اس لیے کہ نہ تو وہ اپنے بابا جان کے خلاف جا سکتا تھا۔  نہ ہی وہ اپنی ماں کو چھوڑ سکتا تھا۔  نہ ہی وہ اپنی بہن کی خوشیاں چھین سکتا تھا۔

ہاں۔۔ ۔۔ !

اپنے ارمانوں کا قتل ضرور کر سکتا تھا۔

٭٭

 

 

 

 

راہزنوں سے توبچ نکلا تھا

اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے

 

پیپر دے کے آتے ہی خوشی خوشی گھر جانے کے لیے اپنی پیکنگ کی۔ ہاسٹل میں اپنی آخری رات اُس نے اپنی دوستوں کے ساتھ گُزاری۔ صبح فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ ہاسٹل کے لان میں چہل قدمی کرنے لگی۔ وہ گاؤں جانے کے لیے بے چین ہو رہی تھی۔  کیوں نہ ہوتی آخر اُس کے اکلوتے لالہ کی شادی تھی۔  بابا نے رات کو کال کر کے بتا دیا تھا کہ وہ کوشش کریں گے اُسے خود ہی لینے آئیں ورنہ وہ ڈرائیور کو بھیج دیں گے۔ اُس نے سوچا اُسے بابا کو کال کر کے پوچھ لینا چاہئیے کون آ رہا ہے لینے۔  ابھی وہ کمرے میں پہنچی ہی تھی کہ اُسے وارڈن کا پیغام ملا۔  اُسے لینے کے لیے ڈرائیور آیا ہے۔  اُس نے جلدی سے چادر لپیٹی بیگ اُٹھاتے ہوئے ہاسٹل کی بلند و بانگ عمارت سے باہر نکل آئی۔ سامنے کھڑی جیپ کے ساتھ مودبانہ انداز میں کھڑے ملازم نے اُسے دیکھتے ہی جیپ کا پچھلا دروازہ اُس کے لیے کھولا۔  اُس نے غور سے ڈرائیور کو دیکھا، وہ اُسے پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی۔

’کیا تُم مجھے لینے آئے ہو؟ مجھے نہیں لگتا میں نے تمہیں اس سے پہلے کبھی دیکھا ہو۔ ‘

’بی بی صاحبہ ہم چوہدری امتیاز علی کے خاص ملازم ہیں۔  ڈرائیور کو چھوٹے صاحب نے کسی ضروری کام سے دوسرے شہر بھیجا ہوا تھا۔ اس لیے بڑے صاحب نے ہمیں آپ کو لینے کے لیے بھیجا ہے۔  آپ اُن کو فون کر کے پوچھ لیں۔ ‘

وہ سر ہلاتے بیگ اُسے پکڑاتے ہوئے جیپ میں بیٹھ گئی۔  ملازم نے مستعدی سے دروازہ بند کیا۔  ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کے ایک پہ بیگ رکھا۔  دوسری پہ بیٹھ کے وہ جیپ سٹارٹ کرنے لگا۔  ہاسٹل کی حدود سے نکلتے ہی جیپ ایک دم سے رُکی۔  ملازم نے پھُرتی سے جیب سے کلورو فام کی شیشی نکالتے ہوئے پیچھے مڑتے ہوئے اُس پہ سپرے کیا۔  وہ جوجیپ کے رُکنے کی وجہ پوچھنے لگی تھی۔ اچانک سپرے چھڑکے جانے پہ بے اختیار اُس نے ایک ہاتھ آنکھوں پہ اور ایک ناک پہ رکھا۔  اُس کا دماغ ماؤف ہونے لگا اور آنکھیں بند۔ ملازم نے اپنا کام کر کے دوبارہ جیپ سٹارٹ کر دی۔ وہ مکمل غنودگی میں پہنچ گئی۔  اُس کا سر سیٹ کی پُشت سے جا لگا۔

٭٭

 

 

 

 

تیرے مست مست دو نین

میرے دل کا لے گئے چین

 

وہ ہوش میں آئی تو اُس کا سر چکرا رہا تھا۔  اُس نے کراہتے ہوئے اُٹھنے کی کوشش کی۔  اچانک اُس کے ذہن میں کلک ہوا۔  ہاسٹل۔۔ ۔  جیپ۔۔ ۔  ڈرائیور۔۔ ۔  وہ فوراً اُٹھ کے بیٹھ گئی۔  اُس کا دل زور سے دھڑکا تھا کسی انہونی کے احساس سے۔  یہ کمرہ اُس کی حویلی کا نہیں تھا۔

پھر وہ کہاں تھی؟

اُسے محسوس ہوا اُس کے علاوہ اس کمرے میں کوئی اور بھی ہے۔ اُس نے گردن گھُما کے دائیں طرف دیکھا۔  صوفے پہ بیٹھے ہوئے انسان کو دیکھ کے اُس کا خوف جیسے اچانک دور ہوا۔

اُس کی آنکھوں میں شناسائی چمکی۔

بچپن کی کچھ یادیں جو وہ اتنے سالوں کے گُزر جانے کے باوجود بھی نہیں بھُلا پائی تھی پھر تازہ ہوئیں۔

گاؤں کے ایک خاص حصے سے آگے جانا اُنہیں سختی سے منع تھا اسی طرح جتنا احاطہ باغوں پہ مُشتمل تھا اُس کے بھی ایک خاص حصے سے آگے جانا منع تھا۔  اُتنی جگہ پہ ایک سفید رنگ کی واضح لائن لگی ہوئی تھی۔  جو اُن بچوں کو اُس جگہ سے آگے جانے سے روکتی تھی۔  تب اُس کی عمر دس سال تھی۔ اُس دن وہ اپنے سے چھوٹی کزنز بسمہ اور ماہ نور کے ساتھ باغوں میں جھولا جھولنے آئی تھی۔ اچانک جھولا جھولتے اُس کے دل میں نجانے کیا خیال آیا۔ اُس نے اُن دونوں کو کہا آپ لوگ ادھر ہی جھولے لو میں کھانے کے لیے پھل توڑ کے لاتی ہوں۔  پھل توڑنے کی بجائے وہ اُس حصے کی طرف آ گئی جدھر سفید لائن لگا کے آگے جانے سے روکا گیا تھا۔ وہ سوچتی اگلا حصہ بھی بالکل اُن کے حصے جیسا ہی ہے تو پھر وہ کیوں اُدھر نہیں جا سکتے ؟ اس لیے آج اُس نے سوچا تھا وہ لائن کراس کر کے اگلا حصہ بھی دیکھ کے آئے گی۔ وہ آگے آ تو گئی لیکن اُسے ڈر محسوس ہونے لگا وہ واپس پلٹنے لگی کہ اُسے سامنے درخت کے نیچے اپنے جتنا ہی ایک بچہ بیٹھا نظر آیا۔  جو دونوں بازو اپنی ٹانگوں کے گرد لپیٹے بیٹھا ہوا تھا۔  اُس نے اپنا سر درخت کے تنے سے ٹکایا ہوا تھا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔  وہ بھی خاموشی سے اُس کے ساتھ جا کے بیٹھ گئی۔ اُس کے بیٹھنے پہ وہ اُس کی طرف دیکھنے لگا۔ لیکن اُسے کچھ نہ کہا۔ اُس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اُٹھا کے اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے پوچھا۔

’ تم رو کیوں رہے ہو؟ کسی نے مارا ہے ؟‘

اُس نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو پورا کھول کے سر ہلا ہلا کے اُس سے پوچھتی لڑکی کی طرف دیکھا تو اُسے پتہ نہیں کیوں ہنسی آ گئی۔  شاید اُس کی آنکھوں کی وجہ سے جنہیں دیکھ کے یوں لگتا کسی نے ایک سفید پیالے میں کالے رنگ کے بنٹے رکھے ہوں۔ اُس نے اپنی بارہ سالہ زندگی میں پہلی دفعہ کسی کی اتنی بڑی اور خوبصورت آنکھیں دیکھی تھیں۔

اپنے سوال کے جواب میں اُسے ہنستا دیکھ کے وہ منہ کھولے حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔ عجیب ہی انسان تھا۔  خیر اُسے ہنستا دیکھ کے وہ خود بھی اب مُسکرانے لگی۔

’مجھے کسی نے نہیں مارا۔۔  میرا دل کر رہا تھا رونے کو اس لیے رو رہا تھا۔ ‘

اب وہ خود ہی بتانے لگا۔

’اکیلے بیٹھ کے ؟‘

’اکیلا نہیں بیٹھا۔  اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ ‘

اُس نے اردگرد نظر دوڑائی اُسے اپنے اور اُس کے علاوہ اُدھر کوئی بھی نظر نہ آیا۔ وہ پھر اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کے اُس کی طرف دیکھنے لگی۔ اُس کے دوبارہ اسی طرح دیکھنے پہ وہ ہنستے ہوئے بولا۔۔

’پاگل ! ‘

درخت کے تنے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

’یہ درخت میرا دوست ہے۔ ‘

’تمہیں کیسے پتہ یہ تُمہارا دوست ہے ؟‘

’ کیونکہ اس کا نام ہی مہربان دوست ہے۔  ‘

’ تُمہیں کس نے بتایا کہ اس درخت کا یہ نام ہے ؟‘

’میری بی بی جان نے بتایا تھا۔ ‘

’تمہاری ماما تمہیں اتنی دیر گھر سے باہر رہنے پہ ڈانٹیں گی نہیں ؟‘

اُس کے سوال پہ اُس نے کوئی جواب نہ دیا کچھ دیر اُسے دیکھتا رہا اور پھر اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔

’بتاؤ نا۔۔ ۔ !‘

اُس نے اُس کا بازو ہلاتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔

’میری ماما نہیں ہیں۔ ‘

نجانے کیوں بتاتے وقت ایک آنسو آنکھ سے چھلک پڑا۔  جسے اُس نے فوراً صاف کر لیا۔

لیکن اُس نے دیکھ لیا تھا۔  بہت آہستگی سے اُس نے اُس کی پلکوں پہ رہ جانے والا آنسو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے صاف کیا۔ دس سالہ بچی یہ جانتی تھی کہ اگر کسی کی ماما نہ ہو تو یہ بہت دُکھ کی بات ہوتی ہے۔  اُسے بھی دُکھ ہو رہا تھا۔  لیکن اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے جس سے اُس کا دُکھ کم ہو جائے۔ وہ کچھ دیر اُسے دیکھتی رہی جو اُس سے نظریں چُرا رہا تھا۔

’تم کل بھی ادھر آؤ گے ؟‘ آنکھوں میں اُداسی لیے اُس نے پوچھا۔

’ہاں۔۔ ! میں روز آتا ہوں۔ ‘ ذرا کی ذرا اُس کی طرف دیکھتے ہوئے اُس نے جواب دیا۔

وہ خوش ہوتے ہوئے رازداری سے اُس کے کان میں بولی۔

’ ٹھیک ہے پھر، میں بھی کل آؤں گی۔  پھر ہم کھیلیں گے بھی۔ لیکن پلیز کسی کو بتانا مت کہ میں ادھر آئی تھی۔  بابا جان نے منع کیا ہوا ہے ادھر آنے سے۔  میں چوری سے آئی ہوں۔ ‘

اُس نے اثبات میں گردن ہلا دی۔  تو وہ اُٹھتے ہوئے بھاگ گئی۔  وہ اُسے جاتا دیکھنے لگا۔  سفید لائن کراس کرتے وقت اُس نے مڑ کے اُس کی طرف دیکھا۔  مُسکراتے ہوئے الوداعی ہاتھ ہلایا۔  اُس نے بھی مُسکرا کے ہاتھ ہلا دیا۔  وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔  اُسے یہ بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی اچھی لگی تھی۔ ماں باپ کے پیار کو ترسے ہوئے بچے کی سوچ کا رُخ آج اپنے والدین سے ہٹ کے اُس بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی کی طرف مڑ گیا تھا۔  اس سے پہلے کے آغا جان کسی کو اُسے ڈھونڈنے کے لیے بھیجتے وہ مُسکراتے ہوئے گھر کی جانب چل پڑا۔

یہ شاہ ویز کے پہلے پیار کی ابتدا تھی۔

یہ نازنین کے پہلے اور آخری عشق کی ابتدا تھی۔

٭٭

 

 

 

 

 

؎چلتے ہو توچمن کو چلیے، سُنتے ہیں کہ بہاراں ہے

پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے

 

حویلی کے سب مرد صبح شہر میں نئی لگائی گئی فیکٹری میں چلے جاتے۔ پھر شام کے وقت ہی واپس آتے۔ دوپہر کو سب بچے سکول سے واپس آکے کھانا کھاتے تو اُن کی مائیں اُن کو سونے کے لیے کمروں میں بھیج کے خود بھی سونے کے لیے چلی جاتیں۔

دو گھنٹے سے پہلے کوئی بھی نہیں اُٹھتا تھا۔

وہ آج بیڈ پہ لیٹ کے سونے کی بجائے آنکھیں بند کر کے باقی سب کے سونے کا انتظار کرنے لگی۔

پندرہ بیس منٹ بعد جب اُسے لگا سب سو گئے ہوں گے۔

وہ اُٹھی۔

بنا آواز پیدا کیے چلتے ہوئے حویلی کے پچھلے چھوٹے دروازے سے ہوتے ہوئے وہ بھاگتے ہوئے باغ کے اُس حصے کی طرف جا رہی تھی جدھر جانا منع تھا۔

اُس سفید لائن کے پاس رُک کے اُس نے سانس لیا۔

پیچھے مُڑ کے دیکھا کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟۔

کوئی نہیں تھا۔

تسلی ہو گئی۔

لائن کراس کر لی۔

تھوڑا آگے آئی۔

وہ اُسے کل والی جگہ پہ ہی بیٹھا نظر آ گیا۔

آج اُس کے چہرے پہ اُداسی کی بجائے مُسکراہٹ تھی۔

اُس نے اُسے دیکھ لیا۔

مُسکراہٹ اور گہری ہوئی۔

وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔

مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔

نازنین نے اپنے نازک ہاتھ میں اُس کا ہاتھ تھام کے چھوڑ دیا۔

سلام پورا ہوا۔

’کل رو رہے تھے۔  آج ہنس رہے ہو۔ کیا ایک دن روتے ہو اور اگلے دن ہنستے ہو؟۔  جیسے کل رو رہے تھے آج ہنس رہے ہو۔  کل پھر روؤ گے کیا؟‘

’نہیں پاگل۔۔ ۔  تم پاگل ہی رہنا۔۔  میں سب کے سامنے نہیں روتا۔۔  سب کے سامنے میں بہت بہادر بن کے رہتا ہوں۔۔ ۔  وہ تو کل تم اچانک آ گئی تھی۔۔ ورنہ ادھر کوئی نہیں آتا۔۔ ۔ ‘

’ہاں ویسے تو دیکھنے میں بھی بہادر لگتے ہو۔۔ ۔ ‘

اُس نے اپنی آنکھوں کو گھُماتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اُس کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی رائے دی۔

’میرے پرندے دیکھو گی ؟‘

بہت پیار سے اُس نے پوچھا تھا۔

’ہاں۔ ‘

اثبات میں سر ہلایا گیا۔

دونوں آگے درختوں کے جھُنڈ کی طرف بڑھنے لگے۔

’ایک بات پوچھوں ؟‘

چلتے چلتے سوال کیا گیا۔

’ہاں پوچھو۔۔ ‘

شہزادیوں کی طرح نزاکت سے سر ہلاتے ہوئے اجازت دی گئی۔

’تمہاری آنکھیں اتنی بڑی کیوں ہیں۔ ؟

اُس کے سوال پہ حیرت سے اُس کی آنکھیں اور کھُل گئیں۔  بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والا سوال تھا۔

’اُفف ! ویسے مجھے پاگل کہتے ہو لیکن ہے تم خود۔  اب مجھے کیا پتہ میری آنکھیں اتنی بڑی کیوں ہیں۔ اللہ نے بنائی ہیں، اللہ سے پوچھو۔ ‘

اپنی عقل سے جواب دے دیا گیا۔

وہ چُپ ہو گیا۔

’کیا تمہیں اچھی نہیں لگتیں ؟‘

کچھ دیر بعد بہت آہستگی سے رازداری سے سوال کیا گیا تھا۔

’اچھی لگتی ہیں تو پوچھا تھا نا۔۔ ۔  کہ بتاؤ کیسے اتنی بڑی ہیں میں بھی تھوڑی بڑی کر لوں اپنی۔  ایسے تمہارے جیسے۔ ‘

اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو شہادت کی انگلی کے ساتھ ملا کے دائرہ بنا کے اُس کی آنکھوں کا سائز بتایا۔

وہ کھکھلا کے ہنس دی۔

وہ اُسے ہنستے ہوئے زیادہ اچھی لگ رہی تھی۔

وہ اُس جگہ پہنچ چُکے تھے جدھر شاہ ویز کے پرندے تھے۔  دو خوبصورت رنگ برنگے پرندے آ کے اُس کے ایک ایک کندھے پہ بیٹھ گئے۔

’تم نے انہیں اسی طرح کھُلا رکھا ہوا ہے۔  اگر یہ اُڑ گئے تو؟؟؟‘

’جنہیں اُڑنا تھا وہ اُڑ چُکے ہیں۔ ‘

شاہ ویز نے ایک پرندے کو ہاتھ میں پکڑ لیا۔

’کیا مطلب؟‘

’دیکھا ایک چھوٹی سی بات بھی تمہیں سمجھ نہیں آتی۔  تو پھر تمہیں پاگل نہ کہوں تو اور کیا کہوں ؟‘

’چلو ٹھیک ہے میں پاگل۔  اور تُم پاگلوں کے سردار۔۔ ۔  سردار آف پاگل۔۔  اب بتاؤ نا کہ یہ اُڑیں گے نہیں ؟‘

شاہ ویز اُس کی چالاکی پہ ہنس دیا۔

زیر لب دُہرایا۔

’سردار آف پاگل۔ ‘

’میرے آغا جان نے مجھے بہت زیادہ پرندے لا کے دئیے تھے۔  میں نے ایک ہفتہ تک اُن سب کا بہت خیال رکھا۔  اُس کے بعد میں نے سب کو اُڑا دیا۔  لیکن یہ کچھ پرندے پھر میرے پاس لوٹ آئے۔  اس لیے میں نے اُس کے بعد انہیں قید نہیں کیا۔  کیونکہیہ میرے وہ پرندے ہیں جو مجھے چھوڑ کے اب کہیں نہیں جائیں گے۔  ادھر ہی رہیں گے ہمیشہ۔ ‘

اُسے بتاتے ہوئے اُس نے پرندے کو سامنے کرتے ہوئے پوچھا۔

’کیوں شہزادے میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟‘

پتہ نہیں پرندے کو سمجھ بھی آئی تھی یا نہیں لیکن وہ ٹے ٹے کرنے لگ گیا۔  جس سے وہ بہت خوش ہوئی۔  وہ تالیاں بجانے لگی۔

’واؤ! یہ تو تمہاری باتیں بھی سُنتے ہیں۔ ‘

یوں وہ دونوں اپنے اپنے گھر والوں سے چھُپ کے ایک مہینہ تک ملتے رہے۔  وہ چُپکے سے پچھلے دروازے سے ہی نکل آتی اور پھر ایک گھنٹے بعد اُسی دروازے سے واپس جا کے اپنی جگہ پہ لیٹ جاتی۔  وہ دونوں ڈھیروں باتیں کرتے۔  اُسے شاہ ویز کی پسند نا پسند سب کچھ ازبر ہو گیا تھا۔ پھر ایک دن جب وہ اُدھر گئی شاہ ویز نہیں آیا تھا۔  وہ لگاتار کئی دن جاتی رہی۔  لیکن شاہ ویز نہیں آیا تھا نہ اُس کو آنا تھا۔  ایک دن اُسے اُٹھتے ہوئے اُس کی ماما نے دیکھ لیا۔

’نازی کدھر جا رہی ہو؟‘

’کہیں نہیں ماما۔  پیاس لگی ہے پانی پینے جا رہی ہوں۔ ‘

پھر اُس نے اُدھر جانا چھوڑ دیا۔ لیکن اُس دس سالہ بچی کے ذہن میں وہ ایک مہینہ اتنا گہرا نقش ہو گیا تھا کہ سالوں گُزر گئے لیکن اُن گُزرے ہوئے دنوں کی ایک ایک بات ایک ایک لمحہ اُسے حفظ تھا۔

٭٭

 

 

 

 

ایک مدت سے تیری یاد بھی نہ آئی ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

 

وہ اُٹھی۔  اُس نے ارد گرد دیکھا۔  اپنے آپ کو انجانی جگہ پہ پا کے خوف کا سایہ اُس کے چہرے پہ لہرایا تھا۔ لیکن پھر اُس کی آنکھیں اُس کی طرف اُٹھیں۔  اُسے دیکھ کے خوف کا سایہ چہرے سے ہٹ گیا۔  اُن بڑی بڑی آنکھوں میں ڈر کی جگہ شناسائی نے لے لی۔  پھر نجانے وہ کیاسو چنے لگی کہ اُس کی آنکھیں مُسکرانے لگیں۔  شایدیاد کا اینڈ اچھا نہیں تھا اس لیے اُس کی آنکھیں پھر اُداس ہو گئیں۔  وہ حیران ہو رہا تھا کتنی آسانی سے وہ اُس کی آنکھیں پڑھ رہا ہے۔  اُس کے ذہن میں کچھ کلک ہو رہا تھا۔  اُسے لگ رہا تھا کہ اُس نے اُسے کہیں دیکھا ہے۔  لیکن کہاں دیکھا ہے اُسے بالکل بھی نہیں یاد آ رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا۔ جیسے وہ اُسے جانتا ہے۔  جیسے اُس کا اُس سے کوئی گہرا رشتہ ہو۔  آخر اتنی جلدی یاد بھی کیسے آتا ؟ پندرہ سال گُزر گئے تھے۔ پندرہ سال کا عرصہ کوئی تھوڑا تو نہیں ہوتا کسی کو بھولنے کے لیے۔  وہ اُس کے بولنے کا انتظار کرنے لگا۔  اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اُس نے تو اپنے پہ بارہا حملہ کروانے والے کی بیٹی کو اغوا کروایا تھا۔  لیکن اُسے لگ رہا تھا جیسے کچھ غلط ہو گیا ہو۔  شاید خان غلطی سے کسی اور لڑکی کو لے آیا ہو۔ ابھی وہ اسی پریشانی میں تھا کہ اُسی نے اُس کی پریشانی دور کی۔

’شاہ ویز۔۔ ۔ !‘

بیڈ سے اُٹھتے ہوئے اُس کے لبوں سے اُس کا نام ادا ہوا۔

اُس کا اندازہ ٹھیک نکلا تھا۔  وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔  اب وہ اپنے ذہن پہ زور دے کے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ جب خوشگوار لمحے ساتھ گُزرے ہوں تو چاہے پچاس سال کیوں نہ گُزر گئے ہوں۔  یاد کرنے پہ یاد آ ہی جاتا ہے۔ اُسے بھی آخر یاد آ ہی گیا تھا۔  اُس نے اپنے صوفہ کے کنارے پہ لگ کے بیٹھتی اُس بڑی بڑی خوبصورت آ نکھوں والی لڑکی کی طرف دیکھا۔ جو حیرت سے اُسے دیکھ رہی تھی۔  اُسے اندازہ ہو چُکا تھا کہ وہ اُسے بھول گیا ہے۔  اس سے پہلے کہ اُس کی آنکھوں سے سُنہرے موتی بکھرتے شاہ ویز کے لبوں نے ایک لفظ بند کمرے کی فضا کے سپرد کیا تھا۔

’پاگل۔۔ ۔ !‘

موتی پھر بھی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے ٹوٹ کے بکھر گئے۔

لیکن مُسکراہٹ کے ساتھ۔

اچانک ملنے والی خوشی کے ساتھ۔

اُس نے ہاتھ آگے بڑھا کے اُس کی آنکھوں سے بہتے موتیوں کو اپنی انگلیوں پہ چُن لیا۔

ایسے ہی جیسے پندرہ سال پہلے اُس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اُس کی آ نکھوں سے بہتے آنسوؤں کو چُن لیا تھا۔

اُس کی اس حرکت پہ نازنین کے لبوں نے مُسکراتے ہوئے کچھ کہا۔

’سردار آف پاگل۔ ‘

اُس نے سُن لیا۔

مُسکرا دیا۔

دل پہ ہاتھ رکھ کے سر کو جھُکا آداب پیش کیا۔

گُزرے وقت کی یادیں شاہ ویز کے ذہن میں بھی ایک ایک کر کے تازہ ہو رہی تھیں۔

نازنین کو بھول گیا کہ اُسے اغوا کیا گیا ہے۔

اُسے بس یاد تھا تو وہ بہادر لڑکا۔

جسے بچپن کی طرح اپنے سامنے بیٹھا دیکھ کے اُس کا دل کر رہا تھا کہ وہ اُس کی ہر پریشانی ہر دُکھ چُن لے۔  جو وہ سب سے چھُپاتا رہا ہے۔

شاہ ویز کو بھی بھول گیا کہ اُس نے اُسے کس مقصد کے لیے اغوا کروایا ہے۔

بچپن کی طرح اب پھر وہ اُسے دیکھ کے اپنی ہر پریشانی بھول گیا تھا۔  حتیٰ کہ انوشے کو بھی۔۔ ۔۔

بس اب یاد تھی تو وہ بڑی بڑی آنکھوں والی پاگل لڑکی جواُس کے سامنے، اُس کے ساتھ کچھ فاصلے پہ ہی بیٹھی تھی۔

نازنین کے لبوں پہ ہزاروں سوال مچل رہے تھے۔ وہ اُن گُزرے پندرہ سالوں کا حساب لینا چاہتی تھی۔  کتنا انتظار کیا تھا اُس نے اُس کا۔  گھنٹہ گھنٹہ وہ اُس کے مہرباں دوست کے پاس بیٹھ کے اُس کا انتظار کیا کرتی۔  اُس کا دوست اُس کے انتظار کے لمحات کا گواہ تھا۔

وہ اُس کی آنکھوں کو قطرہ قطرہ پڑھ رہا تھا۔

اُن کی قسمت میں یہ ہی لکھا تھا۔

اُن کو جُدا ہونا ہی ہونا تھا۔

وہ محبت ہی کیا جو آسانی سے مل جائے۔

محبت کو صبر، اور آنسوؤں کی لڑیوں میں پرو کے انتظار کی آگ میں سے گُزر کے کُندن بننا ہی ہوتا ہے۔

وہ اُس کی آنکھوں میں چمکتے سوالوں کا جواب دینے لگا۔

’ میرا آٹھویں کا رزلٹ آ چُکا تھا۔  لیکن آغا جان اور بی بی جان نے مجھے سر پرائز دینے کے چکر میں نہیں بتایا تھا۔  اُنہیں پتہ تھا کہ مجھے پڑھائی کا کس حد تک جنون ہے۔  اس لیے وہ میرے شہر میں داخلے کی تیاری کرتے رہے۔  جب اُنہوں نے شہر کے ایک اعلیٰ سکول میں میرا داخلہ کروا دیا۔  میرے رہنے کے لیے شہر میں ایک فلیٹ بھی خرید لیا۔  ملازمہ اور چوکیدار کا بندوبست بھی کر لیا گیا۔  بی بی جان نے جانے کے لیے میرا بیگ بھی تیار کر دیا۔  اُنہوں نے اپنا سرپرائز تب مجھے دیا جب اُس دن میں تمہیں مل کے واپس گھر گیا تھا۔  اگلے دن صبح بی بی جان اور آغا جان کے ہمراہ مجھے شہر کے لیے نکلنا تھا۔  پڑھنا میرا جنون تھا۔  لیکن تمہارے لیے میں شاید گاؤں میں ہی رُک جاتا اگر ذرا بھی مجھے اندازہ ہوتا کہ آ غا جان کا یہ ارادہ ہے۔  اب سب کچھ ہو چُکا تھا۔  مجھے جانا ہی جانا تھا۔

نیا شہر، نیا ماحول، نئے لوگ، نئی کتابیں، نئے ٹیچرز۔۔ ۔  میں ایڈجسٹ ہونے کے چکر میں ڈسٹرب ہو کے رہ گیا۔  کورس اور ٹیچرز تو خیراتنا مسئلہ نہیں تھے مین مسئلہ نئی جگہ اور نئے لوگ تھے۔ نہ ہی تو میں اتنی جلدی کسی نئی جگہ پہ ایڈجسٹ ہو سکتا تھا نا ہی میں اتنی جلدی کسی دوسرے کے ساتھ گھُل مل سکتا تھا۔  تب پھر پہلی پریشانیوں کو بھولنے لگا۔  اُن کی جگہ نئی پریشانیوں نے لے لی۔ میں تم سے کوئی جھوٹ نہیں بولوں گا۔  ہاں تم بس کچھ دن مجھے یاد آئی تھی پھر میں تمہیں بھولنے لگا۔  پھر ایک مہینے بعد میں گاؤں آیا تب مجھے تم یاد آئی تھیں میں باغوں کی طرف سب سے پہلے گیا تھا۔  لیکن تم نہیں تھی۔  تمہیں کیسے بُلاتا۔ ؟ پھر اُس کے بعد میں سالوں میں نے گاؤں کا رُخ نہیں کیا۔  بی بی جان اور آغا جان مجھے شہر آ کے مل جاتے تھے۔  دو تین مہینوں بعد تم میرے ذہن میں کہیں بھی نہیں تھی۔  تب میرا ایک ہی مقصدبن گیا تھا۔  اپنی تعلیم اچھے گریڈز میں مکمل کرنے کا۔ میں نے اپنی ایجوکیشنل لائف تک کسی لڑکی کو اپنے قریب بھی کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ‘

ٓدھیرے دھیرے وہ اُسے بتاتا رہا۔  یہاں تک بتا کے وہ سانس لینے کے لیے رُکا۔

آپ نے کسی کو لمحہ لمحہ یاد کیا ہو۔  اُس کا انتظار کیا ہو۔ بنا کسی وعدے کے۔ بنا کسی عہد کے۔ اور وہ آپ کو بھول چُکا ہو۔  آپ اُس کی زندگی میں کہیں بھی نہ ہو۔  تو کیا کم تکلیف ہوتی ہے ؟

وہ اُس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔  وہ ان بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں کو اُداس نہیں دیکھ سکتا تھا۔  یہ آنکھیں اُسے مُسکراتے ہوئے ہی اچھی لگتی تھیں۔ وہ جانتا تھا اس وقت وہ اُداس ہوں گی۔  وہ یہ بھی جانتا تھا اُس کے برعکس وہ اُسے نہیں بھولی ہو گی۔  اُس نے ایک ایک لمحہ اُس کا انتظار کیا ہو گا۔

اُس نے ٹیبل پہ رکھے سگریٹ کے پیکٹ سے ایک سگریٹ اور لائٹر ہاتھ میں لے کے اُس سے اجازت طلب کی۔

’کیا میں ادھر سموکنگ کر سکتا ہوں ؟‘

’نہیں۔۔ ۔ !‘

آنکھوں میں ڈھیروں ناراضگی لیے کہا گیا۔

اُس نے خاموشی سے سگریٹ اور لائٹر دوبارہ ٹیبل پہ رکھ دیا۔  یہ انوشے نہیں تھی۔  کہ اگر وہ انکار بھی کرتی تو وہ ڈھٹائی سے پھر بھی سموکنگ کرتا اور اُسے زچ کرنے کے لیے دھُواں اُس کے منہ پہ چھوڑتا۔ یہ نازنین تھی۔ جس کے ساتھ وہ ایسی کوئی بدتمیزی نہیں کر سکتا تھا۔  جب وہ دس سال کی چھوٹی سی بچی تھی تب بھی وہ بے اختیاری طور پہ اُس کی ہر بات پہ سر جھُکادیا کرتا تھا۔  اور اب تو وہ اُردو ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والی ایک جوان حسینہ کے سامنے بیٹھا تھا۔  جس کی بڑی بڑی آنکھیں پہلے سے زیادہ پُر کشش ہو گئی تھیں۔  جنہیں وہ دیکھتا تو پہلے سے کہیں زیادہ اُن میں ڈوب جاتا۔  تو پھر اب کیایہ ممکن تھا کہ وہ کچھ کہتی اور وہ مانتا نہ؟؟؟

وہ اُداس آنکھوں کے ساتھ اُس کے آگے بولنے کا انتظارکرنے لگی۔

٭٭

 

 

 

 

کچھ نہ پوچھ اے ہمنشیں !میرا نشیمن تھا کہاں

اب تو یہ کہنا بھی مشکل ہے وہ گلشن تھا کہاں

 

زُباریہ نے اپنی بیٹیوں کے لیے جلد ہی خود کو ایڈجسٹ کر لیا تھا۔  بزنس کو چلانا اتنا آسان کام بھی نہیں تھا اُس کے لیے۔  وہ جب جب اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھتی تو اُسے نئے سرے سے نئی طاقت ملتی۔  وہ اُن کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی۔  ابھی دو مہینے ہی اور گُزرے تھے کہ پلوشہ رات کو ٹھیک ٹھاک تھی۔  وہ اُس کے ساتھ روٹین سے زیادہ کھیلی تھی۔  اور پھر تھک کے سو گئی۔  چار بجے کا وقت تھا اُس کے رونے کی آواز سے اُس کی آنکھ کھُلی۔  اُس نے اُٹھ کے بیٹھتے ہوئے اُسے گود میں اُٹھا لیا۔  ابھی گود میں اُٹھایا ہی تھا۔  کہ پلوشہ نے اُس پہ خون کی اُلٹی کر دی۔  وہ انوشے کو آیا کے حوالے کرتے۔  گاڑی نکال کے فوراً اُسے لے کے ہسپتال کی طرف بھاگی تھی۔  ابھی وہ ہسپتال میں داخل ہوئی ہی تھی۔  ایک سال دو ماہ کی پلوشہ نے اُس کی بانہوں میں دم توڑ دیا۔

ابھی تو شوہر کو گئے بھی ایک سال نہیں ہوا تھا۔  ابھی تو پہلے دُکھ ہی ہرے تھے۔  وہ ٹوٹ گئی تھی۔  ہمت ہارنے لگی۔  اُس کا دل کرنے لگا وہ بھی اپنے عبد الحنان اور پلوشہ کے پاس چلی جائے۔ وہ کیوں اللہ کی ناشکری کر رہی تھی۔  ابھی اُس کے پاس اُس کے جینے کی وجہ ہے تو تھی۔۔ ۔

ابھی اُس کو زندہ رہنا تھا اُسے جینا تھا اپنی انوشے کے لیے۔۔ ۔

وہ کوشش کے باوجود بھی اب کی بار ایڈجسٹ نہیں ہو پارہی تھی وہ ڈسٹرب ہو کے رہ گئی تھی۔  وہ سونے کے لیے لیٹی لیکن اب اُسے نیند نہیں آتی تھی۔  وہ اُٹھی آیا ’بی بی جان‘ کو انوشے کے پاس چھوڑا۔  اور خود گاڑی نکال کے بے مقصد سڑکوں پہ دوڑانے لگی۔ برج خلیفہ پہنچ کے پارکنگ ایریامیں گاڑی پارک کر کے وہ سمندر کے سامنے والے نسبتاً سُنسان گوشے کی طرف آ گئی۔

ٹانگیں لٹکا کے وہ اُدھر بیٹھ گئی اور نظریں سامنے سمندر کے پانی پہ مرکوز کر دیں۔  رات کے دس بجے کا وقت تھا وہ اندھیرے میں بیٹھی کئی سال پیچھے چلی گئی۔

اُس نے اپنے ماں باپ اور بھائی کا بے تحاشا پیار پایا تھا۔  اُنہوں نے اُسے کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی۔  اُس کے منہ سے نکلی ہر بات کو پورا کرنا جیسے اُن کا فرض تھا۔ اُس کی زندگی میں کوئی دُکھ نہیں تھا۔  زندگی بہت حسین تھی۔ پھر یک طرفہ محبت کے ناگ نے اُسے ڈس لیا۔  اُس کا محبوب کسی اور سے محبت کرتا تھا۔  اٹس اوکے یہ اُس کی زندگی تھی۔  اُس نے یہ دُکھ بھی صبر سے برداشت کر لیا۔ عبد الحنان کو اُس کے والدین نے اُس کے لیے چُنا۔  اُس نے سب کچھ بھول کے اُن کی خواہش پہ سر جھُکا دیا۔ اُس کا شوہر اُس سے خوش تھا۔  اللہ نے اپنی رحمت سے بھی نواز دیا۔ زندگی ایک دفعہ پھر اچھی گُزرنے لگی تھی۔

شاید خوشیاں اُسے راس ہی نہیں آ رہی تھیں۔

شوہر جُدا ہو گیا۔

پھر اب بیٹی بھی جُدا ہو گئی تھی۔

اب وہ ڈرنے لگی تھی۔

جُدائی کے ناگ سے۔۔ ۔

جو اُسے بار بار ڈس رہی تھی۔۔ ۔

اُس کی زندگی اسی محور میں آ گئی تھی۔

جو محبتوں کے اسیر تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے۔

ماضی سے حال تک کا سفر کہنے کو تو وہ آدھے گھنٹے میں طے کر آئی۔۔ ۔

لیکن اُسے لگ رہا تھا وہ صدیوں کا فاصلہ طے کر کے آئی ہو۔  اُس کی آنکھوں سے نجانے کب کے آنسو بہہ رہے تھے۔  لیکن وہ بے خبر تھی۔  جب اُسے اندازہ ہوا اُس کی آنکھوں سے برسات ہو رہی ہے۔  اُس نے اپنا آنسو اپنی اُنگلی پہ چُن کے چاند کی روشنی میں دیکھا۔

شایدیہ آنسو ہی اُس کی قسمت میں لکھے جا چُکے ہیں۔۔ ۔

وہ اپنی قسمت پہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔۔ ۔

’زُباریہ۔۔ ۔ ‘

اُسے اپنے نام کی ہلکی سی صدا سُنائی دی۔۔

آواز اُس کے بائیں جانب سے آئی تھی۔۔ ۔

گردن اُس طرف موڑ کے دیکھا۔۔

اُس سے کچھ ہی فاصلے پہ جو شخص بیٹھا تھا۔۔ ۔  اُسے اُس نے اندھیرے میں بھی پہچان لیا تھا۔۔ ۔

کیسے نہ پہچان پاتی۔۔ ۔ ؟

وہ سکندر تھا۔۔ ۔ !

ہاں ! سکندر ہی تھا۔۔ !

سکندر کو دیکھ کے اُس کے آنسوؤں میں سمندر سے بھی زیادہ روانی آ گئی۔

جیسے دُکھ کے وقت کسی اپنے کو پاس پا کر۔۔ ۔

اُسے اس وقت کسی اپنے کا کندھا چاہئیے تھا۔۔ ۔

ایسے ہی سکندر کو کسی مُخلص انسان کی ضرورت تھی۔  جس سے وہ اپنا درد کہہ سکتا۔

سکندر نے خاموشی سے اپنا کندھا اُسے فراہم کر دیا۔۔  وہ اُس کے کندھے سے لگ کے بچوں کی طرح رو دی۔۔

’ زُباریہ۔۔  مجھے نہیں پتہ آپ کیوں رو رہی ہیں۔۔ ۔  آپ کے یہاں آنے سے پہلے میں بھی یہ کام ہی کر چُکا ہوں۔۔ ۔  رونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔۔  یہاں تک تو ٹھیک ہے۔  آپ پچھلے آدھے گھنٹے سے رو رہی ہیں۔ زیادہ رونے سے اکثر دل کا بوجھ بڑھ بھی جایا کرتا ہے۔۔ ‘

اُس نے اپنے آنسو صاف کر لیے۔۔ ۔

کسی حد تک وہ ریلیکس ہو گئی تھی۔۔ ۔

اور پھر ساری رات اُنہوں نے ایک دوسرے کو اپنی دُکھ بھری داستان سُناتے گُزاری۔۔ ۔

یہ وہ جگہ تھی جدھرسکندر اور زُباریہ نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا تھا۔۔

یہ وہ ہی جگہ تھی جدھر انوشے اور شاہ ویز پہلی دفعہ ملے تھے۔۔ ۔

یہ وہ ہی جگہ تھی جدھر شاہ ویز سکندر حیات خان نے بیٹھ کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا تھا۔۔ ۔

٭٭

 

 

 

 

ضمیر نہیں کانپتے یہاں

زمین کانپ جاتی ہے

 

حیات ولا سے آنے کے بعد اُس نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی۔  ماموں جان اور پھپھو سے جا کے زُلیخا کا رشتہ مانگیں۔  شہناز کب سے اُسے سمجھا رہی تھیں کہ زُلیخا سکندر کی منگ ہے۔  اب تو سب کے سامنے باقاعدہ بتا بھی دیا گیا ہے۔  تو اُس نے خاصی بدتمیزی سے یہ فقرہ بولا۔۔

’میں نہیں مانتا کسی رسم و رواج کو۔  مرنے والے مر گئے ہم پہ اپنے فیصلے تھونپ گئے ہیں۔ ‘

اُنہوں نے رکھ کے اُس کے منہ پہ تھپڑ لگایا۔

’یہ آپ اچھا نہیں کر رہیں۔  دیکھ لینا آپ بھی اگر زُلیخا میری نہ ہوئی تو میں اُسے کسی اور کا بھی نہیں ہونے دوں گا۔ ‘

تھپڑ کا اُس پہ کوئی اثر نہ ہوا۔  اُس سے زیادہ بدتمیزی سے کہہ کے ٹیبل کو ٹھوکر مارتا ہوا وہ اُن کے کمرے سے نکل گیا۔

شہناز اپنا سر تھام کے بیٹھ گئیں۔

ابھی وہ اسی پریشانی میں مبتلا تھیں کہ اُنہیں کچھ شور کی آواز سُنائی دی۔  کمرے سے باہر نکل کے آئیں تو دیکھا آواز زویا کے کمرے سے آ رہی تھی۔  وہ جلدی سے سیڑھیاں پھلانگ کے حویلی کے اوپر والے پورشن میں گئیں۔  زویا کے کمرے کا دروازہ کھولا۔

وہ ہر چیز اتنے قیمتی ڈیکوریشن پیس اُٹھا اُٹھا کے مار رہی تھی۔

اُنہیں لگا آج وہ پاگل ہو جائیں گی۔

وہ بچتے بچاتے آگے آئیں اور اُسے بازو سے تھام کے بولیں۔

’زویا۔۔ ۔ ؟ تُم ہوش میں تو ہو۔۔ ؟ کیا بچپنا ہے یہ؟‘

’چھوڑ دیں مجھے۔  نہیں ہوں میں ہوش میں۔  اچھا ہوا اُسے بھی اُس کا پیار نہیں ملا۔۔  اچھا ہوا اُسے زُلیخا نہیں ملی۔۔  اُس نے مجھے ٹھکرایا تھا۔۔  اُسے اس کی سزا ملی ہے۔ یوسف صرف میرا ہے۔۔  لیکن میں اُسے کسی اور کاہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔۔ ۔۔  نہیں دیکھ سکتی۔۔ ‘

وہ اپنے بھائی سے بھی دو ہاتھ آگے نکلی تھی۔

ان کے دلوں میں مرض اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اُنہیں کچھ سُجھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔

وہ دونوں بہن بھائی مُنافقت کا لبادہ اوڑھے دلوں میں حسد کی آگ جلائے خود ہی اُس میں جل رہے تھے۔

شہناز نے اپنی طرف سے بہت سختی سے اپنے بچوں کی پرورش کرنے کی کوشش کی تھی۔  لیکن اُن کے باپ کے بے تحاشا پیار نے اُن دونوں کو بگاڑ دیا تھا۔  اگر اُنہیں کوئی چیز پسند آ جائے تو بس وہ اُنہیں ہر حال میں چاہئیے ہوتی۔  اُن کے باپ نے اُن کی فرمائشیں پوری کر کر کے یہاں تک پہنچا دیا تھا۔  کہ اب اُنہیں کسی چیزیا انسان میں فرق ہی نہیں دکھائی دے رہا تھا۔  وہ انسان تھے کوئی چیز تھوڑی تھے کہ اُنہوں نے کہہ دیا ہماری ہے تو اُن کا باپ لاکھوں ادا کر کے بھی لا دیتا۔

وہ اُسے بھی اُس کے حال پہ چھوڑ کے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔  وہ جانیں یا اُن کا باپ۔  وہ اُن کے بس میں نہیں رہے تھے۔  اُنہوں نے تو کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا تھا۔ کبھی ضد نہیں کی تھی۔  ہمیشہ باپ اور بھائیوں کے فیصلوں پہ سر جھُکا دیا کرتی تھیں۔  نجانے اُن کی اولاد ایسی کیوں تھی۔

زویا کی بات باہر دروازے کی اوٹ میں کھڑے رمیز نے بھی سُن لی تھی۔

ماں کے جانے کے بعد وہ اُس کے کمرے میں آ گیا۔

’تُم فکر نہ کرو۔  بس تھوڑا صبر کرو۔  دیکھنا میں اُن سے کیسے انتقام لیتا۔  بس مجھے تمہارا ساتھ چاہئیے۔ ‘

’میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ‘

لبوں پہ کمینگی مُسکراہٹ سجائے ایک عزم سے کہا گیا تھا۔

یہ وہ لوگ تھے جو دوسروں کے خلاف دل میں بیماری(حسد، بُغض، کینہ ) رکھتے تھے۔  اُن کی پیٹھ پیچھے اُن کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔  لیکن اُن سے بہت خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔  دوست کی طرح۔ اُن کے ہمدرد بن کے۔  ایسے لوگوں کا انجام اللہ نے قر آن پاک میں بہت درد ناک بتایا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

اس شرط پہ کھیلوں گی پیامیں پیار کی بازی

جیتوں تو تمہیں پاؤں ہاروں تو پیا تیری

 

’تعلیم مکمل ہو گئی۔  میں گاؤں واپس آ گیا۔  میرا ارادہ گاؤں میں فیکٹری لگانے کے ساتھ لڑکیوں کے لیے کالج بنانے کا تھا۔ ابھی مجھے گاؤں واپس آئے کچھ دن ہی گُزرے تھے کہ کسی نے مجھ پہ قاتلانہ حملہ کروانے کی کوشش کی۔  میرے ملازم نے اُس نقاب پوش کو دیکھ لیا تھا۔  وہ پکڑے جانے کے خوف سے ڈر کے بھاگ گیا۔ اور پھر کوئی میری مسلسل جاسوسی کرنے لگا۔  ایک دن مجھے گاؤں واپس آتے دیر ہو گئی۔  ابھی میں مین سڑک پہ تھا کہ کسی نے رات کے اندھیرے میں مجھ پہ فائر کیا۔  میری قسمت میں ابھی موت نہیں لکھی تھی۔  سو بچ گیا۔  آغا جان کا ایک ہی دُشمن ہے شہباز خان۔  وہ سمجھ رہے ہیں مجھ پہ قاتلانہ حملے وہ کروا رہا ہے۔ لیکن مجھ پہ حملہ کروانے والے کے ایک خاص ملازم کی کسی زمانے میں، میں نے مدد کی تھی۔  اُس نے میرے احسان کا بدلہ چُکا دیا۔ آج اُس شخص کی حویلی میں اُس کے سب مہمان جمع ہیں۔  آج اُس کے بیٹے کا نکاح تھا۔  اور اُس شخص کی بیٹی اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہے۔ ‘

اُس نے اُس کے سارے سوالوں کے جواب دے دئیے تھے۔  اُن گُزرے سبھی سالوں کا حساب دے دیا تھا سوائے انوشے کے ساتھ گُزارے چند دنوں کے۔

اتنہائی شاک کے عالم میں کہا گیا تھا۔

’میرے بابا ایسا نہیں کر سکتے۔  تمہیں ضرور غلط فہمی ہوئی ہے۔ ‘

کنفرم کرنے والے انداز میں پوچھا۔

’کیا تمہارے والد کا نام رمیز امتیاز علی نہیں ؟‘

اب کسی شک کی گنجائش ہی نہیں رہی تھی۔  آنکھوں میں ڈر اور ہزاروں پریشانیوں نے جگہ لے لی۔

شاہ ویز نے آہستگی سے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

’اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو پھر مجھے کوئی پروا نہیں تھی۔  ابھی رات نہیں ہوئی۔  دوپہر کے تین بجے ہیں۔  کہتی ہو تو گاؤں چھوڑ آتا ہوں۔  جاتے جاتے دو ڈھائی گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے۔  شام ہو جائے گی۔ کبھی بھی تمہاری بات پہ یقین نہیں کیا جائے گا۔  رُسوائی کا دھبہ تمہاری ذات پہ لگ چُکا ہے۔  تمہارے گھر والے تمہیں پاگلوں کی طرح ہر جگہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ تُم ملو تو وہ تمہیں زندہ درگور کر سکیں۔  ہو سٹل وارڈن کی بھی شامت آئی ہوئی ہے۔ ان سب حالات میں کیا تم واپس جانا چاہو گی؟ اگر جانا بھی چاہو تو میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔  یہ تم بھی اچھی طرح جانتی ہو میں جو کہہ رہا ہوں بالکل سچ ہے۔  تمہارے والد کی غلطیوں کی سزا تمہیں بھُگتنی پڑ رہی ہے۔ جس کے ہاتھوں نے درخت کے تنے کے ساتھ لگ کے بیٹھے ایک ٹوٹے ہوئے بچے کے آنسو پونچھ کے اُسے ہنسایا تھا اور پھر کئی دن اُس کا درد بانٹا تھا وہ اُس کو تکلیف پہچانے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔  جو ہوا انجانے میں ہوا۔  تمہارا مجرم تمہارے سامنے ہے۔  اُسے تمہاری دی گئی ہر سزا دل و جان سے قبول ہے۔ ‘

’بابا جان کی تم سے کیا دُشمنی وہ کیوں تمہیں قتل کروانا چاہیں گے ؟‘

وہ اپنے ہی یقین کو جھُٹلا رہی تھی۔  وہ چاہ رہی تھی بس کسی طرح یہ بات جھوٹ ہو جائے۔

’یہ بات ہی تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔  دو دفعہ میں اُن کے کروائے گئے حملے سے بچ چُکا ہوں۔  اب میں اُن کے تیسرے حملے کا تو انتظار نہیں کر سکتا تھا نہ ہی کہیں یہ لکھا ہے کہ میں ہر دفعہ ہی بچتا رہوں گا۔  شاید اس مسئلے کا حل میں کسی اور طرح سوچتا لیکن کل رات میں نے کچھ زیادہ ہی پی لی تھی۔  اس لیے میں نے اُسے رمیز امتیاز علی کی بیٹی کو اغوا کرنے کے لیے کہا۔  اس طرح میں اُس شخص کو اپنے سامنے لانا چاہتا تھا اُس سے میں اپنا قصور پوچھنا چاہتا تھا۔  جو وہ ویسے تو کبھی نہ بتاتا۔  ‘

یہ وہ تھی جس کے سامنے کبھی اُس نے اپنے آنسو چھُپانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔  پھر اپنی غلطیاں اور خرابیاں کیسے چھُپا پاتا۔۔ ۔ ؟؟؟

’تم پیتے بھی ہو؟‘

آنکھوں میں بے پناہ حیرت لیے پوچھا۔

’اب نہیں پیوں گا۔ ‘

آنکھیں چُراتے ہوئے جواب دیا۔

’نماز پڑھتے ہو؟‘

’اب پڑھا کروں گا۔ ‘

وہ چُپ ہو گئی۔  اُس کا ہاتھ ابھی بھی اُس کے ہاتھوں میں تھا۔  نہ اُس نے چھوڑا نہ ہی اُس نے چھڑوایا۔

دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی۔

’شاہ! اب کیا ہو گا؟‘

آنکھوں میں بے پناہ ڈر تھا۔

نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھیں چھلک پڑیں۔

’کچھ نہیں ہو گا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں نا۔  میرے ہوتے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔  دُنیا کے سامنے میں بہت بہادر ہوں۔  جیسا کہ دیکھنے میں بھی بہادر لگتا ہوں۔۔  ہے نا؟‘

وہ بہتی آنکھوں کے ساتھ ہنس پڑی۔

بہتی بارش میں کھلتی دھوپ کا سا سماں۔۔ ۔

وہ دیکھے گیا۔

آنسو پونچھتے ہوئے اثبات میں گردن ہلا دی۔

’تمہیں فی الحال یہیں رہنا ہو گا۔  میرا آج گاؤں میں ہی موجود ہونا ضروری ہے۔  میں تمہارے لیے ملازمہ کا بندوبست کر دیتا ہوں۔  وہ رات کو بھی تمہارے پاس رہا کرے گی۔ گارڈ کا بھی تمہاری سیکیورٹی کے لیے۔

یہ لو یہ سب چابیاں ہیں کمروں کی۔  فریج میں کھانے پینے کا سب سامان موجود ہے۔  ڈرنا نہیں۔ میں ایک دو دن میں لوٹ آؤں گا۔  پھر کوئی حل سوچیں گے۔  ٹھیک ہے ؟ رہ لو گی نا۔ ؟‘

دوسرے ہاتھ سے اُس نے جیب سے چابیاں نکال کے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اُس سے پوچھا۔

’اب اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ یہ بازی بھی کھیل ہی لوں گی۔ ‘

’ویل۔۔ ۔ ! مجھے تم سے یہ ہی اُمید تھی۔ اپنا خیال رکھنا۔ ‘

آہستگی سے لب اُس کے ہاتھ پہ رکھ کے چھوڑ دیا۔  اُٹھ کھڑا ہوا نظریں ملائے بغیر۔۔ ۔

’میں کرتا ہوں کسی کا پتہ۔  کوشش کروں گا جلدی آ جاؤں پھر مجھے گاؤں کے لیے بھی نکلنا ہے۔  آؤ دروازہ بند کر لو۔ ‘

اُس نے یہ کہتے ہوئے اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا لیے۔

اُس کے پیچھے نازنین بھی۔۔ ۔

٭٭

 

 

 

 

چوتھا باب

 

مکافات عمل

 

رمیز نے شہر کے چپے چپے میں اپنے آدمی بھیجے تھے۔  رات ہونے کو آ گئی تھی نازنین کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔

اُس کا ایک دفعہ بھی دھیان شاہ ویز کی طرف نہیں گیا تھا۔  جاتا بھی کیسے ؟ وہ اُسے کل کا بچہ سمجھ رہا تھا جسے یہ تک نہیں خبر کہ اُس پہ قاتلانہ حملہ کروانے والا رمیز ہے۔ جس حویلی میں نکاح کی تیاریاں زور و شور سے کی جا رہی تھیں اُدھر اب سوگ کا ماحول چھایا ہوا تھا۔

شاہ ویز شام کے بعد حیات ولا پہنچا۔

آغا جان اب بیمار رہنے لگے تھے۔  شاہ ویز پہلے سیدھا اُن کے کمرے میں گیا۔  اُن سے کافی دیر ادھر اُدھر کی باتیں کر کے اُن کا دھیان بٹاتا رہا۔  پھر اُن کو دوا کھلا کے کچن میں بی بی جان کے پاس آ گیاجو اُس کے لیے روٹی بنا رہی تھیں۔ اُن کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے بولا۔

’بی بی جان آپ کو نہیں لگتاکہ اب آپ کو کام نہیں آرام کرنا چاہئیے۔  اس عمر میں میں آپ کو کام کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔  ‘

’ہٹو پیچھے روٹی جل جائے گی۔  ویسے ہی کہو کہ اب میری شادی کر دیں۔ ‘

’روٹی کیا میں ہے ہی اتنا خوبصورت مجھے دیکھ کے ہر کوئی جل جاتا ہے۔ ویسے میں بتا دوں میرا دو دو شادیاں کرنے کا ارادہ ہے۔  ایک سے میرا کچھ نہیں بننے والا۔ ‘

بی بی جان نے مُسکراتے ہوئے کہا۔

’ دو دو شادیاں کس خوشی میں ؟ اچھا سمجھ گئی ایک تو اپنے آغا جان کے دوست کی بیٹی نوربانو سے کرو گے جس سے بچپن سے بات طے ہے۔  اور دوسری اپنی پسند سے کرو گے۔ ‘

’میرے سامنے بچپن کے کسی رشتے کا نام نہ لیجئیے گا۔  ویسے بھی میں اُنہیں انکار کر چُکا ہوں کہ میں آپ کی بیٹی کو خوش نہیں رکھ سکتا۔  اس بات کو ختم ہی سمجھئیے۔  میں دونوں شادیاں اپنی پسند سے کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ‘

بی بی جان سمجھ رہی تھیں وہ مذاق کر رہا ہے لیکن اُن کو کیا پتہ وہ سچ بول رہا ہے۔

’اچھا تو کون ہیں وہ؟‘

’ایک کو بچپن میں پسند کیا تھا۔  دوسری کو مجھے دیکھتے ہی محبت ہو گئی تھی۔ ‘

’بس کرو خوش فہمیاں ہیں تمہاری اُس کی نظر کمزور ہو گی۔ ‘

’خوش فہمیاں نہیں حقیقت ہے۔۔ بی بی جان آپ کو کیا پتہ۔۔ ۔ ‘

بی بی جان روٹی اُتارتے ہوئے بولیں۔

’ہاں ہاں میں اب بڈھی ہو گئی ہوں مجھے کیا پتہ ہو گا۔۔ ‘

بی بی جان کے انداز پہ اُس کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔

’کہاں بی بی جان آپ تو ابھی جوان ہیں۔ ‘

’مجھے اس عمر میں چھیڑتے تمہیں شرم نہیں آتی؟یہ روٹی کھا لو اب۔ ‘

’شرم ہو گی تو آئے گی نا۔۔ ۔  آج آپ کھلا دیں نا۔ ‘

شاہ ویز کے اس طرح لاڈ سے کہنے پہ بی بی جان کو سکندر یاد آیا تھا۔ وہ بھی اسی طرح کہا کرتا تھا کہ آج آپ کھلا دیں نا۔ یکایک اُن کی آنکھوں میں ڈھیروں نمی چلی آئی۔  جسے چھُپانے کے لیے اُنہوں نے رُخ موڑ لیا۔  لیکن شاہ ویز دیکھ چُکا تھا۔

کندھوں سے تھام کے اُن کا رُخ اپنی طرف کرتے ہوئے اُس نے کہا۔

’کیا ہوا بی بی جان؟ ‘

اُنہوں نے نظریں چُراتے ہوئے کہا۔  ’کچھ نہیں۔ ‘

اُن کا ہاتھ پکڑ کے اپنے سر پہ رکھتے ہوئے بولا۔

’ آپ کو میری قسم سچ سچ بتائیں۔ ‘

’سکندریاد آ گیا تھا۔ ‘

کہہ کے وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کے رونے لگیں۔

کھانا اُدھر ہی چھوڑ کے وہ بی بی جان کو لے کے اپنے کمرے میں آ گیا۔

’بی بی جان ! جب میں آٹھ سال کا تھا تب میں نے آغا جان سے اپنے بابا جان کے بارے میں پوچھا تھا تب آغا جان نے مجھے غصے سے یہ کہا تھا آئندہ تمہاری زُبان پہ اپنے بابا کا نام نہ آئے۔  اُس نے تمہاری ماں کو زہر دے کے مار ڈالا تھا۔  وہ اس قابل نہیں کہ حیات ولا میں اُس کا ذکر کیا جائے۔ حیات ولا والوں کے لیے وہ مر چُکا ہے۔  اُس کے بعد میرے دل میں اپنے باپ کے لیے نفرت پیدا ہوتی گئی۔ آغا جان سے بھی زیادہ۔  لیکن میں نے آپ کو بہت دفعہ چھُپ چھُپ کے روتے دیکھا ہے۔  اگر سکندر حیات خان نے ایسا کیا تھا تو پھر آپ کے دل میں اُس کے لیے نفرت کیوں نہیں ہے ؟‘

’کیوں کہ میرا دل نہیں مانتا میرا دل کہتا سکندر نے ایسا نہیں کیا۔  وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا تھا۔  میں نے اُس کی آنکھوں میں زُلیخا کے لیے بے پناہ محبت دیکھی تھی۔ ‘

’مجھے آپ بتائیں ہوا کیا تھا میں جاننا چاہتا ہوں۔ ‘

بی بی جان آنسو پونچھتے ہوئے ایک دفعہ پھر بہت سال پیچھے چلی گئیں۔

٭٭

 

 

طلوع ہو گی حقیقت شب فریب کے بعد

نہیں سدا کے لیے یہ سراب رہنے کا

 

دوپہر کا وقت تھا۔  سارے گاؤں میں ہولناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔  جو کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہونے والی تھی۔

سکندر مزارعوں کو ہدایات دیتے دیتے رُک گیا۔

اُس کی چھٹی حس نے اُسے کسی انہونی کے احساس سے متعارف کروایا۔

پہلا دھیان ہی زُلیخا کی طرف گیا۔

سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے حیات ولا کی جانب بھاگا۔

صحن میں اماں زویا کے ساتھ مل کے ساگ کے پتر چھیل رہی تھیں۔

’امی جان زُلیخا کدھر ہے ؟‘

اس سے پہلے نازیہ کوئی جواب دیتیں زویا بول پڑی۔

’اوئے ہوئے سکندر لالہ نا سلام نہ دُعا آتے ہی بھابھی کدھر ہیں ؟‘

وہ خفگی مٹانے کے لیے بولا۔۔ ۔

’میں نے اندر داخل ہوتے ہی سلام لی تھی وہ علیحدہ بات ہے آپ لوگوں نے سُنا نہیں۔ ‘

وہ شرارت سے نازیہ کی طرف دیکھ کے بولی۔

’دیکھ لیں مامی! ہم نے سُنا نہیں۔ ‘

اُنہوں نے اُس کے سر پہ چیت لگاتے ہوئے کہا۔

’نہ اُسے تنگ کرو۔  اُسے کام ہو گا۔ زُلیخا کے سر میں درد تھا میں نے اُسے کمرے میں بھیج دیا کہ جا کے آرام کرو۔ ‘

وہ سر ہلاتے سیڑھیاں پھلانگتے اپنے کمرے میں آ گیا۔

دونوں ماں بیٹا سو رہے تھے۔  سکندر نے زُلیخا کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا۔  ایسے جیسے آگ نکل رہی تھی۔  اُس نے اُس کا چہرہ تھپتھپایا۔

’زُلیخا۔۔ ۔ ! زُلیخا۔۔ ۔ ! اُٹھو آنکھیں کھولو۔ ‘

شور سُن کے شاہ ویز اُٹھ گیا۔

زُلیخا نے ذرا کی ذرا آنکھیں کھول کے پھر بند کر لیں۔

سکندر اُسے نیم بے ہوشی کی حالت میں دیکھ کے پریشان ہو گیا۔

اُس نے روتے شاہ ویز کو اُٹھایا اور نیچے آ گیا۔

شاہ ویز کو جلدی سے اماں کو پکڑاکے کچن میں گیا۔  ٹھنڈا دودھ گلاس میں ڈال کے بر آمدے میں آیا۔

’زویایہ زُلیخا کے لیے دودھ لے کے اوپر جاؤ۔  لگتا بُخار اُس کے دماغ کوچڑھ گیا ہوا۔  نیم بے ہوشی کی حالت میں ہے صبح تو ٹھیک تھی۔ امی جان آپ شاہ ویز کو سنبھالیں۔  میں ڈاکٹر کو لینے جا رہا ہوں۔  ‘

زویا کو دودھ کا گلاس پکڑاتے نازیہ کو کہہ کے باہر کی طرف بھاگا تھا۔

نازیہ زُلیخا کا سُن کے پریشان ہو گئیں ابھی دو گھنٹے پہلے تو وہ ٹھیک تھی۔  بس معمولی سا سر میں درد تھا۔ گُزرتی سردیوں میں اُن کے گھُٹنوں میں درد شروع ہوا تھا جو جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اس لیے وہ سیڑھیاں چڑھنے سے پرہیز کرتی تھیں۔  وہ اُدھر ہی بر آمدے میں بیٹھ کے شاہ ویز کو بہلانے لگیں۔

زویانے اُٹھتے وقت چارپائی پہ پڑا اپنا موبائل بھی اُٹھا لیا اور دودھ کا گلاس لے کے اوپر آ گئی۔ موقع خود چل کے اُس کے پاس آیا تھا۔  وہ کیسے ضائع جانے دیتی؟

گلاس زمین پہ رکھا۔  رمیز کے نمبر پہ میسیج بھیجا۔  پانچ منٹ بعد ہی شہباز ولا کی چھت پہ رمیز اپنا مکروہ چہرا لیے نمودار ہوا۔  دیوار کے پاس آ کے اُس نے کاغذ میں لپٹی کوئی چیز زویا کے ہاتھ میں دی۔  اُس نے جلدی سے کاغذ کھول کے دودھ کے گلاس میں انڈیل کے کاغذ خالی کر کے دوبارہ رمیز کو دیا اور وہ اُدھر سے چلا گیا۔

زویا گلاس تھامے زُلیخا کے کمرے میں داخل ہوئی۔  اُس کو سہارا دیتے ہوئے تکیے سے ٹیک لگا کے بٹھایا۔ بُخار سے اُس کی آنکھیں بھی نہیں کھُل رہی تھیں۔  وہ اُس کا چہرہ تپھتھپاتے ہوئے بولی۔

’زُلیخا ہوش کرو یہ لودودھ پی لو۔ ‘

زُلیخا نے ہاتھ سے گلاس پڑے ہٹاتے ہوئے کہا۔

’نہیں۔۔ ! میرا دل نہیں کر رہا۔۔ ۔  مجھے پانی دو۔ ‘

’ٹھنڈا دودھ پیو گی تو سکون ملے گا۔  ویسے بھی یہ سکندر بھائی نے تمہارے لیے بھیجا۔  وہ ڈاکٹر کو لینے گئے ہیں۔  تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہو رہی ہے یہ پی لو۔ ‘

زویا نے یہ کہتے گلاس دوبارہ اُس کے ہونٹوں پہ لگا دیا۔  زُلیخا نے دو تین گھونٹ ہی بمشکل بھرے تھے۔

’تھوڑا سا بس اور پی لو۔ ‘

زویا نے اُسے آدھے سے زیادہ پلا کے ہی دم لیا۔  گلاس ٹیبل پہ رکھ دیا جس میں تھوڑا سا دودھ باقی تھا۔  اب کچھ ہی منٹ میں دوائی نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دینا تھا۔

’میں پھُپھو کو بلا کے لاتی ہوں۔  ‘

وہ زُلیخا کو کہتے اُس کے کمرے سے باہر نکل آئی۔

زُلیخا کی امی زُہراں زویا کی مامی بھی لگتی تھیں اور پھُپھو بھی۔  لیکن وہ اُن کو پھُپھو ہی کہتی اور نازیہ کو مامی۔

وہ جا کے زُہراں کو بُلا لائی۔  نازیہ بھی شاہ ویز کو زویا کو پکڑا کے زُہراں کے ساتھ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کے اوپر آ گئیں۔  اُن کے پیچھے رمیز اور زویا بھی۔ جب وہ زُلیخا کے کمرے میں داخل ہوئیں زُہراں تو چیخ مار کے بیڈ کی طرف بھاگیں۔  زُلیخا کو خون کی اُلٹیاں کرتے دیکھ کے نازیہ کا اپنا دل ہولنے لگا۔

’رمیز جاؤ اپنے تایا جان اور پھُپھا کو بلا کے لاؤ۔  زُلیخا کو ہسپتال لے کے جانا ہو گا۔  اے اللہ میری بچی کو کچھ نہ کرنا۔ ‘

زُہراں یہ کہتے ہوئے رو پڑیں۔

رمیز چلا گیا تو نازیہ زویا سے کہنے لگیں۔

’سکندر کو فون کرو کب سے ڈاکٹر کو لینے گیا ہوا ابھی تک آیا کیوں نہیں، میرا دل ہول رہا۔  صبح تو ٹھیک تھی نجانے میری بچی کو کس کی نظر لگ گئی۔ ‘

آنسو اُن کی آنکھوں سے بھی چھلکنے کو بے تاب ہو رہے تھے۔

زویا نے منافقت کا لبادھا اوڑھ کے اُن کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔

’مامی حوصلہ رکھیں اللہ بہتر کریں گے۔  میں کرتی ہوں سکندر بھائی کو فون۔ ‘

سکندر کو کال ملائی۔

مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے بولی۔

’سکندر بھائی آپ جلدی سے آ جائیں زُلیخا خون کی اُلٹیاں کر رہی ہے۔  اُس کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے۔  سب بہت زیادہ پریشان ہیں۔ ‘

سکندر کی بات سُن کے اُس نے ٹھیک ہے کہتے کال بند کر دی۔ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔

’مامی سکندر بھائی کہہ رہے ہیں وہ ڈاکٹر کو لے کے آ رہے ہیں دس منٹ تک پہنچ جائیں گے۔ ‘

سکندر کے آنے تک حیات خان، شہباز خان، امتیازعلی، شہناز بیگم، وجیہہ اور احسن بھی حیات ولا پہنچ چُکے تھے۔  سب سکندر کا انتظار کر رہے تھے۔  جب تک سکندر ڈاکٹر کو لے کے پہنچا زہریلی دوائی زُلیخا کا اندرونی نظام تباہ کر چُکی تھی۔ سکندر زُلیخا کے سرہانے بیٹھ گیا۔

ڈاکٹر نے اُس کے نیلے ہوتے ہونٹوں کو دیکھ کے نبض اور اُس کے دل کی دھڑکن چیک کرتے ہی کہا۔

’انہوں نے کیا کھایا تھا؟‘

’صبح کا ناشتہ ہی کیا تھا اب تو کچھ نہیں کھایا صرف آدھا گلاس دودھ پیا تھا۔ ‘ نازیہ نے جواب دیا۔

’پلیز آپ لوگ دیر نہ کیجئیے انہیں ہسپتال لے جائیے۔  ان کے جسم میں زہر پھیل چُکا ہے۔ ‘

ڈاکٹر کی بات سُن کے اُدھر موجود ہر فرد ساکت ہوا تھا سوائے رمیز اور زویا کے۔

سکندر نے اُسے اُٹھانے کے لیے اپنا بازو اُس کے سر کے نیچے رکھا ہی تھا کہ زُلیخا کے لبوں نے آخری دو لفظ ’سکندر۔۔ ۔  شاہ ویز۔۔ ۔ ‘ اپنے کمرے کی فضا کے سپرد کرتے سکندر کی بانہوں میں ہی دم توڑ دیا۔

جنہیں اُس کمرے کی ہر ایک چیز نے سُنا اور ہمیشہ کے لیے حفظ کر لیا۔

سکندر کی تو گویا سانسیں ہی رُک گئیں۔

ڈاکٹر نے آگے بڑھ کے دوبارہ نبض اور دھڑکن چیک کر کے تصدیق کر دی۔

کمرہ زُہراں کی چیخوں سے گونج اُٹھا۔

ڈاکٹر جانے ہی لگا تھا کہ اُس کی نظرسائیڈ ٹیبل پہ رکھے دودھ کے گلاس پہ پڑی۔  ڈاکٹر نے وہ گلاس اُٹھا کے دیکھا تو گلاس کی تہہ میں کچھ موجود تھا۔  اب کسی شک کی گنجائش نہیں رہی تھی۔

شہباز خان نے ڈاکٹر سے پوچھا۔

’ڈاکٹر کیا ہوا ہے ؟‘

’کیایہ دودھ انہوں نے پیا تھا؟‘

’جی ڈاکٹر صاحب۔ ‘ مگرمچھ کے آنسو بہاتی زویا نے جلدی سے کہا۔

’یہ دیکھیں اس میں کچھ زہریلی چیز ملا کے انہیں پلائی گئی ہے۔ ان کی نیلی ہوتی رنگت ثابت کر رہی ہے کہ انہیں زہر دیا گیا ہے۔  جس وجہ سے ان کی موت ہوئی ہے۔ ‘

ڈاکٹر کی بات سُن کے سب رونا بھول کے حیرت سے ڈاکٹر کو دیکھنے لگے۔

زویا فوراً بولی۔

’سکندر بھائی نے مجھے یہ دودھ کا گلاس زُلیخا کو پلانے کے لیے دیا تھا۔ ‘

سکندر تو اس الزام پہ ہی سُن ہو گیا۔  باقی سب اب بے یقینی سے سکندر کو دیکھنے لگے۔

’ آئیں ڈاکٹر میں آپ کو چھوڑ آؤں۔ ‘ رمیز ڈاکٹر کو لے کے چلا گیا۔

زُہراں نے آہیں بھرتے ہوئے کہا۔

’سکندر آخرمیری بیٹی کا کیا قصور تھا جو تم نے اُسے زہر دے کے مار ڈالا؟‘

زُہراں کی بات سُن کے نازیہ نے کہا۔

’سکندر کیوں زہر دے گا؟وہ میرے سامنے کچن سے جا کے دودھ ڈال کے لایا تھا۔ ‘

بھلا اُن کا خون اُن کا سکندر کسی کی جان لے سکتا تھا؟ وہ بھی زُلیخا کی؟

’رہنے دیں بھابھی آپ ماں ہیں پردہ تو ڈالیں گی ہی۔۔ ۔  ہائے میری پھولوں جیسی بچی کومار ڈالا ان ظالموں نے۔۔  ہائے میری زُلیخا۔۔ ۔ ‘

سکندر اس الزام پہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے زُہراں کو دیکھنے لگا۔

اُس کی بانہوں میں اُس کی بیوی سر رکھے ابدی نیند سو گئی تھی۔  اُس کی تو جیسے دُنیا ہی اندھیر ہو گئی تھی۔  اوپر سے یہ الزام ؟ اُس کا اپنا سر چکرانے لگا۔

شہباز خان کو بیٹی کی موت نے جیسے توڑ ڈالا تھا۔ وہ اُن کی سب سے لاڈلی بیٹی تھی اُن کے دل کا ٹکڑا تھی۔ اُنہوں نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں سکندر سے کہا۔

’سکندر مجھے اگر پتہ ہوتا تُم میری بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والے ہو تو میں گاؤں سے نکل جانا پسند کرتا لیکن تمہیں اپنی بیٹی دینا نہیں۔ ‘

سکندر نے آرام سے زُلیخا کا سر تکیے پہ رکھا۔  اُس کے ماتھے پہ اپنے پیار کی آخری مہر ثبت کی۔  شہباز خان کے سامنے جا کے کھڑا ہو گیا۔  اُن کے ہاتھ سے وہ گلاس لیا۔

’اگر آپ سب کو لگتا ہے کہ میں نے زُلیخا کو اس دودھ میں کچھ ملا کے پلایا جس سے اُس کی موت واقعی ہوئی ہے۔  تو ٹھیک ہے یہ باقی دودھ میں پی لیتا ہوں۔  ویسے بھی زُلیخا کے بغیر سکندر کی زندگی کا تصور بھی کیا۔ ‘

اُس نے یہ کہتے ہوئے گلاس کو ہونٹوں سے لگایا ہی تھا کہ وجیہہ نے ہاتھ مار کے گلاس گرا دیا۔  گلاس ٹوٹ کے چکنہ چور ہو گیا۔  اُس نے وجیہہ کی طرف دیکھا۔

’نہیں لالا۔۔ ۔ پلیز آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ ‘

اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے آنسوؤں کے درمیان کہا گیا تھا۔

’احسن اُٹھاؤ بہن کو۔۔ ۔ ! ان قاتلوں کے ہاں ہم ایک منٹ بھی اور رُکنا گوارا نہیں کریں گے۔ میری بیٹی کا جنازہ اُس کے باپ کے گھر سے اُٹھے گا۔  میرے گھر کے دروازے حیات ولا کے لوگوں کے لیے بند ہیں۔ میں آپ لوگوں سے ہر رشتہ توڑتا ہوں۔ ‘

شہباز نے غصے اور حتمی لہجے کے ساتھ کہا۔

احسن بچپن سے سکندر کو جانتا تھا اس لیے اُس کا دل اس بات پہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ سکندر کسی کو مار سکتا وہ بھی زُلیخا کو۔۔ ۔۔ ؟؟؟

زُلیخا کو تتلیاں بہت پسند تھیں۔  جب بھی باغ میں جانا اُس نے تتلیوں کو دیکھ کے رونا ڈال دینا کہ مجھے تتلی پکڑکے دو۔ احسن انکار کر دیتا۔  لیکن سکندر گھنٹوں تتلیوں کے پیچھے بھاگ کے ہانپتا کانپتا آخر پکڑ ہی لاتا۔  جسے زُلیخا بس اپنے ہاتھ میں لے کے اُڑا دیتی۔

احسن کے لیے تو پھر یہ نا قابل یقین بات ہی تھی۔  لیکن آنکھوں دیکھا جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا تھا۔

ایک بھائی کے لیے اپنی جوان بہن کی میت کو اُٹھانا اُس کے لیے دُنیا میں سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔

’اور اُن سب کے لیے بھی شہباز ولا کے دروازے بند ہیں جنہوں نے حیات ولا سے کوئی رابطہ رکھا۔ ‘

جاتے وقت نازیہ نے نفرت آمیز لہجے میں کہا۔

اُن کے پیچھے سب چلے گئے۔  وجیہہ کو نازیہ نے زبردستی بھجوایا کہ اب تمہارا گھر وہ ہے تمہارے لیے وہ لوگ اہم ہونے چاہئیں۔  جاتے وقت وہ سکندر کے کندھے سے سر ٹکا کے ہچکیوں کے درمیان روئی تھی۔

اب کمرے میں بس چار نفوس رہ گئے تھے۔

آنسوؤں سے تر چہرہ لیے نازیہ۔۔  اُن کی گود میں اس ٹوٹی قیامت سے بے خبر سویا ہوا ایک ماہ کا شاہ ویز۔۔ ۔  ریزہ ریزہ ہواسکندر۔۔ ۔  اور بت بنے دیوار سے ٹیک لگا کے کھڑے حیات خان!

’سکندر ! مجھے اپنے خون سے ایسی حرکت کی اُمید ہر گز نہیں تھی۔  تم نے مجھے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔  میرے لیے آج سے تم مر گئے ہو۔  میں یہ سمجھوں گا میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے اس گاؤں سے نکل جاؤ۔ ‘

اُنہوں نے مضبوط لہجے سے اپنا آخری فیصلہ سُنا دیا۔

نازیہ تو ہول کے رہ گئیں۔

سکندر نے حیات خان کے مقابل کھڑے ہوتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہا۔

’بابا جان ! کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟؟؟ آپ تو میرایقین کیجئیے۔  میں اپنی جان لے سکتا ہوں لیکن زُلیخا کی نہیں۔ ‘

حیات خان نظریں چُراتے ہوئے بولے۔

’کاش تم نے زُلیخا کی جگہ اپنی جان لے لی ہوتی۔ ‘

انتہائی بے یقینی سے سکندر نے فقط اتنا کہا۔

’بابا جان۔۔ ۔ ! ‘

’میں یہ نام آئندہ کبھی تمہاری زُبان سے نہ سُنوں۔  تمہیں سُنائی نہیں دے رہا میں کیا کہہ رہا ہوں نکل جاؤ میرے گھر سے۔ ‘

سکندر شاہ ویز کو نازیہ سے لینے لگا۔

’خبر دار تم نے اسے ہاتھ بھی لگایا۔  بیوی کو مار سکتے ہو تو بیٹے کو بھی مار دو گے۔  اس گھر سے تم خالی ہاتھ جاؤ گے۔ ‘

حیات خان نے اُسے شاہ ویز سے دور کرتے ہوئے کہا۔

’وہ میرا بیٹا ہے میری زُلیخا کی نشانی ہے کم از کم اُسے تو مجھے لے جانے دیں۔۔ ۔ ‘

وہ سسکتا رہا اُن کے آگے گڑ گڑاتا رہا لیکن اُنہوں نے اُس کی ایک نہ سُنی۔  اُسے حیات ولا سے باہر دھکیل کے دروازہ بند کر دیا گیا۔

وہ سامنے شہباز ولا تک گیا۔  لیکن اُسے دروازے سے اندر داخل نہ ہونے دیا گیا۔

وہ فریاد کرتا رہا۔ مجھے زُلیخا کا آخری دیدار تو کرنے دو۔۔ ۔  بس ایک نظر دیکھنے دو۔۔ ۔  لیکن کسی نے نہ اُس کی سُنی۔ وہ دروازے کے پاس ہی بیٹھ کے سسکنے لگا۔

٭٭

 

 

 

 

مرگیا میں کھُلی رہی آنکھیں

یہ تیرے انتظار کی حد تھی

 

وجیہہ نے فون کر کے یوسف کو زُلیخا کے گُزر جانے کی اطلاع دی۔

اُس نے گرنے سے بچنے کے لیے دیوار کا سہارا لیا۔

زُلیخا کو غسل دے دیا گیا۔

سفید کفن پہنا دیا گیا۔

گُلاب کے پھول نچھاور کر دئیے گئے۔

لیکن زُلیخا کی آنکھیں بارہا بند کرنے پہ بھی بند نہیں ہو رہی تھیں۔

لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے۔  مرنے والی کی آنکھیں کسی کی راہ تک رہی ہیں جب تک وہ انسان نہیں پہنچے گا یہ آنکھیں بند نہیں ہوں گی۔

یوسف مریم کے ہمراہ گاؤں پہنچا۔  سکندر یوسف کو دیکھ کے اُس کے گلے لگ کے پاگلوں کی طرح رویا تھا۔

’یوسف یہ لوگ میرایقین نہیں کر رہے تم ہی بتاؤ کوئی اپنی محبت کو کیسے مار سکتا؟؟؟ یہ لوگ مجھے میری زُلیخا کا آخری دیدار بھی نہیں کرنے دے رہے۔  ‘

دُنیا جو مرضی کہتی اور دیکھتی رہے یوسف کو سکندر پہ یقین تھا۔  سکندر نہ ایسا کچھ کر سکتا نہ اُس نے کیا۔

یوسف نے بے لچک لہجے میں کہا۔

’سکندر کو زُلیخا کا آخری دیدار کرنے دیا جائے اور اُس کے جنازے میں شریک ہونے دیا جائے۔  ورنہ میں مریم کوابھی طلاق دے دوں گا۔ ‘

یوں یوسف سکندر کو لیے زُلیخا کے سرہانے پہنچا۔

سفید کفن میں لپٹا روشن چہرہ۔۔ ۔

کھُلی ہوئی آنکھیں۔۔ ۔

یوسف کو لگا جیسے وہ اُسے دیکھ کے مُسکرائی ہو۔

دھیرے سے اُس کی پلکوں کی جھالر خود بہ خود گر گئی۔

اُلٹی ہی چال چلتے ہیں دیوانگان عشق۔ آنکھوں کو بند کرتے ہیں دیدار کے لیے۔

زُلیخا کا انتظار مکمل ہوا۔۔ ۔۔

سکندر کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔

یوسف کے دل سے خون کے قطرے گر رہے تھے۔

زُلیخا کی ڈولی آ گئی۔۔ ۔

آنسوؤں۔۔  آہوں۔۔ ۔  ہچکیوں کے درمیان اُسے رُخصت کیا گیا۔

یوسف۔۔  سکندر۔۔ ۔  احسن۔۔  اور شہباز اُسے اپنے کندھوں پہ اُٹھا کے گاؤں کے قافلے کے ہمراہ اُس کی آخری آرامگاہ شہر خموشاں کی طرف چل دئیے۔

٭٭

 

 

 

 

’سکندر گاؤں چھوڑ کے چلا گیا۔  یوسف پہلے تو پھر بھی کبھی کبھار ملنے آ جایا کرتا تھالیکن اُس کے بعد اُس نے اتنے سالوں میں ایک دفعہ بھی گاؤں کی شکل نہیں دیکھی۔ شہباز ولا والے شہباز ولا چھوڑ کے حویلی جا بسے۔  جائیداد کا بٹوارا ہو گیا۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کے دُشمن بن گئے۔  میں تو اپنے بچوں کو دیکھنے کو ترس گئی ہوں۔  چلو یوسف اور سکندر تو گاؤں میں نہیں لیکن میری وجیہہ تو اسی گاؤں میں میرے پاس ہے کچھ فاصلے پہ۔  مجھے لگتا ہے میں یوں ہی آنکھوں میں اپنے بچوں کو دیکھنے کی حسرت لیے مر جاؤں گی۔ ‘

شاہ ویز نے اُن کے آنسو صاف کرتے ہوئے اُنہیں تسلی دیتے ہوئے پوچھا۔

’کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ بی بی جان۔۔ ۔  ایسا کچھ نہیں ہو گا اللہ سے اچھے کی اُمید رکھیں۔  مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ رہی رمیز کی مجھ سے کیا دُشمنی ہے ؟

بی بی جان نے حیرانی سے اُس کی طرف دیکھا۔

’کیا مطلب؟‘

’مطلب یہ کہ جب سے میں گاؤں واپس آیا ہوں رمیز مجھ پہ دو قاتلانہ حملے کروا چُکا ہے۔  اللہ کا شُکر ہے آپ کی دُعاؤں سے میں دونوں دفعہ بچ چُکا ہوں۔ ‘

’تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا تمہارے آغا جان کو پتہ ہے اس بات کا؟‘

بی بی جان نے پریشانی سے پوچھا۔

’جی پتہ ہے آغا جان کو۔  وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مجھ پہ حملے آغاشہباز خان کروا رہے ہیں۔ اور آپ کو اس لیے نہیں بتایا آپ پریشان ہوں گی۔ بابا جان نے دودھ کا گلاس آپ کے سامنے زویا کو دیا تھا؟جب زویا اوپر ماما کے پاس گئی تھیں تو تب وہ اکیلی تھیں نا؟‘

بی بی جان نے اثبات میں سر ہلایا۔

’ آپ کا ایک دفعہ بھی زویا پہ شک نہ گیا۔  آپ کے مطابق بابا جان بہت پریشانی سے نیچے آئے تھے۔  مجھے آپ کو پکڑا کے کچن سے دودھ گلاس میں ڈال کے اُسی وقت باہر آ گئے۔  پھر وہ ڈاکٹر کو لینے کے لیے چلے گئے۔ دودھ تو زویا نے ہی ماما کو پلایا تھا نا؟ مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ اس کے پیچھے زویا کا ہاتھ ہے جہاں تک مجھے لگ رہا رمیز کا بھی ہاتھ ہو گا۔  اُس کی ضرور بابا جان سے کوئی دُشمنی ہو گی اسی لیے اب مجھے بھی قتل کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ‘

بی بی جان سوچنے لگیں اس طرف اُن کا دھیان کیوں نہیں گیا۔ شاہ ویز کی بات میں زور تھا۔

’ آپ مجھے بابا جان کے کمرے کی چابی دیں میں اُن کے کمرے میں جانا چاہتا ہوں۔ ‘

بی بی جان سے چابی لے کے اُنہیں اُن کے کمرے میں چھوڑ کے وہ سکندر اور زُلیخا کی طرف آ گیا۔

کئی سالوں سے بند کمرہ آج کھُلنے جا رہا تھا۔

اب جلد ہی سچائی سامنے آنے والی تھی۔۔ ۔

تالا کھول کے دروازہ وا کیا گیا۔

موبائل کی ٹارچ آن کر کے سوئچ بورڈ ڈھونڈ کے لائٹ آن کی گئی۔

کمرہ دھول مٹی اور جالے سے اٹا ہوا تھا۔۔ ۔

لیکن کمرے میں موجود چیزیں کھلکھلا اُٹھیں۔  اُنہوں نے آنے والے کو دیکھ لیا تھا اور پہچان بھی۔

مُسکراتے ہوئے اُس کا خیر مقدم کیا گیا۔

شاہ ویز نے سب سے پہلے کمرے سے جالا صاف کیا۔

پھر اُس نے ایک ایک چیز کو چھوا۔۔ ۔

وہ اُن پہ اپنے ماں باپ کے لمس کو محسوس کر رہا تھا۔

یہ اُس کے ماں باپ کے استعمال میں رہی تھیں۔۔ ۔

اُس کی عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی۔ اُس نے الماری کھولی۔  نفاست سے ایک طرف اُس کی ماں کے کپڑے رکھے ہوئے تھے ایک طرف اُس کے باپ کے۔  وہ اُنہیں بھی چھونے لگا۔ اُس کی نظر الماری کے دراز پہ پڑی۔  ہاتھ بڑھا کے کھولا۔  اوپر ہی بلیک کور والی ایک ڈائری رکھی ہوئی تھی۔ وہ ڈائری لے کے بیڈ پہ بیٹھ گیا اور اُسے پڑھنے لگا۔

اس میں اُس کے بابا جان نے اپنی محبت کی کہانی لکھی ہوئی تھی۔۔ ۔

اس میں زُلیخا سے محبت کی کہانی لکھی ہوئی تھی۔

کس طرح سکندر حیات خان بچپن سے زُلیخا کی محبت کو دل میں بسائے جوان ہوا تھا۔

ڈائری میں لکھی آخری کچھ لائنیں اُس کی ماں کی لکھی ہوئی تھیں۔

’سکندر نے مجھے یہ ڈائری ہماری شادی کے بعد دی ہے۔ اور مجھے کہا ہے کہ میں اسے پڑھنے کے بعد اپنے خیالات لکھوں۔ میں صرف یہ لکھنا چاہوں گی کہ اسے پڑھنے کے بعد میں اس بات پہ ایمان لے آئی ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ ہمارے لیے بہترین ہوتا ہے۔  ہو سکتا جو میں اللہ سے مانگ رہی تھی وہ میرے حق میں بہتر نہ ہوتا۔  اس لیے اللہ نے مجھے بہترین سے نوازا۔۔ ۔  سکندر نے اپنی محبت کی جو شدت اس ڈائری میں لکھی ہے اُس سے زیادہ شدت میں نے اُن کی محبت میں دیکھی ہے۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گی کہ آپ کی محبت کی قدر کر سکوں۔ اور اب آپ سے آپ جتنی محبت کرنا میرا فرض ہے کیونکہ آپ کو اللہ نے میرے لیے چُنا ہے۔  اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا سایہ ہم پہ بنائے رکھیں۔۔ ۔۔ ‘

آمین !

زُلیخا سکندر حیات خان

شاہ ویز نے ڈائری بند کر دی۔  آنکھوں سے بہنے والے آنسو صاف کیے۔  اب اُسے یقین ہو گیا تھا۔  اُس کے بابا جان بے گُناہ ہیں۔  اُس نے خود سے عہد کیا۔ بابا جان میں آپ کو غلط سمجھتا رہا مجھے معاف کر دیں میں آپ کو آپ کا مقام واپس دلوا کے رہوں گا۔ وہ ڈائری لیے اپنے کمرے میں آ گیا۔  آدھی سے زیادہ رات گُزر چُکی تھی۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ بیڈ پہ ٹیک لگا کے لیٹ گیا۔  کچھ دیر ہی گُزری تھی کہ شاہ ویز کو انوشے کا خیال آیا۔

اُس نے اُسے ان بلاک کرنے کے خیال سے فیس بُک کھولی۔  ایک میسیج ریکوئیسٹ آئی ہوئی تھی۔  وہ انوشے کے نیو اکاؤنٹ سے بھیجی گئی نظم پڑھنے لگا۔ وہ اپنے انوشے کے ساتھ کیے گئے سلوک پہ شرمندہ ہونے لگا۔ اب وہ جان گیا تھا انوشے کا اُس سے رابطہ صرف ایک اتفاق تھا۔  اُس نے ’انوشے ‘ لکھ کے میسیج سینڈ کیا۔ اُسی وقت جواب آیا

’جی؟‘

’ابھی تک جاگ رہی ہو ؟‘

’مجھے اب نیند نہیں آتی۔ ‘

شاہ ویز اُس کا جواب پڑ ھ کے چُپ کا چُپ۔

’ آپ کیوں جاگ رہے ہیں ؟‘

’بس ایسے ہی۔۔  نیند نہیں آ رہی تھی۔ ‘

’ آپ ٹھیک تو ہیں ؟‘

’ہاں ٹھیک ہوں۔  الحمدُ للہ۔ ‘

دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔ چند منٹ بعد انوشے کا میسیج آیا۔

’شاہ جی؟‘

’جی؟‘

’ایک بات بتاؤں آپ ڈانٹیں گے تو نہیں ؟‘

’نہیں ڈانٹوں گا۔ ‘

’میں نے کچھ دن پہلے بابا کو آپ کے بارے میں بتادیا تھا۔ میں اُن سے پوچھنا چاہتی تھی آپ کا اُن سے کیا رشتہ ہے اور آپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟‘

’پھر۔۔ ۔۔ ؟؟؟‘

’پھر بابا نے مجھے اپنے بارے میں سب بتا دیا۔  کہ کیوں باقی سب لوگوں کے ساتھ آپ بھی بابا سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ بے گُناہ ہیں شاہ جی ! بابا آپ کو بہت یاد کرتے ہیں وہ آپ سے دُنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔  زُلیخا ماما سے بھی زیادہ۔ ‘

’جانتا ہوں۔۔ ۔ ‘

’پھر آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘

’کیونکہ پہلے نہیں جانتا تھا۔  اب جان گیا ہوں۔ ‘

’تو کیا میں اُن کو بتا دوں ؟‘

’نہیں !مجھے اُن کا نمبر سینڈ کر دو۔  ایک دو ضروری مسئلے ہیں وہ حل کر لوں۔  پھرمیں خود اُن سے بات کروں گا۔ ‘

’اوکے میں کر دیتی ہوں۔  آپ بہت اچھے ہیں شاہ!‘

’یہ جاننے کے باوجود کہ میں کتنا اچھا ہوں۔  اور کتنا اچھا تمہارے ساتھ کر چُکا ہوں۔  پھر بھی اچھا کہہ رہی ہو؟‘

’کوئی بات نہیں غصہ میں ہو جاتا کبھی کبھی ایسا۔ ‘

’عقلمند کب سے ہو گئی ہو؟‘

’جب سے آپ چھوڑ کے گئے ہیں۔ ‘

’لوٹ آؤں۔۔ ۔ ؟؟؟‘

’اس میں پوچھنے کی ضرورت ہے ؟‘

’چلو اس پہ سوچیں گے۔ ‘

’ آپ سچ میں بہت اچھے ہیں۔ ‘

’جوپہلے اچھا کہا تھا کیا وہ جھوٹ والا اچھا تھا؟‘

’ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔ ۔ ! نہیں تو۔ ‘

’پھر۔۔ ۔۔ ؟‘

یوں وہ فجر تک ایک دوسرے سے بات کرتے رہے۔ فجر کی آذان ہوتے ہی شاہ ویز وضو کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔  سب سے پہلے اُسے اللہ کو منانا تھا۔

٭٭

 

 

 

شاہ ویز نماز فجر کے بعد مسجد سے نکل کے سیر کی غرض سے کھیتوں کی طرف چلا گیا۔  سورج نکلنے کے بعد حیات ولا واپس آیا۔ اپنے کمرے سے ڈائری اُٹھا کے وہ بی بی جان کے پاس آیا۔

’بی بی جان آپ نے آغا جان کو ناشتہ کروا دیا ہے ؟‘

’ہاں میں نے ناشتہ کروا دیا ہے۔  تم دیکھ کے دوائی کھلا دو۔ تمہارے لیے ناشتہ بناؤں۔ ‘

’نہیں مجھے بھوک نہیں ابھی۔  ‘

’کیوں بھوک نہیں ؟ رات کو بھی تم نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ ‘

’بی بی جان آپ سچ کہتی تھیں آپ کا بیٹا بے گُناہ ہے۔  جب تک آغا جان بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر لیتے تب تک میں اپنے حلق سے ایک لقمہ بھی نہیں اُتاروں گا۔  اوراپنی ماں کے قاتلوں کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ‘

وہ آغا جان کے کمرے کی طرف چل دیا۔ اُس کے پیچھے بی بی جان نے بھی قدم بڑھائے لیکن شاہ ویز نے اُنہیں منع کر دیا۔

’ مجھے اکیلے بات کرنے دیں۔ ‘

بی بی جان صحن میں بچھی چارپائی پہ بیٹھ کے سب اچھا ہونے دُعا کرنے لگیں۔

شاہ ویز نے آغا جان کو دوا کھلا کے اُن کا بُخار چیک کیا۔  بُخار اُتر چُکا تھا۔

’شاہ ویز بیٹا اب تو میں اس بستر سے اُٹھ سکتا ہوں نا؟ تم نے تو مجھے نکارہ بنا کے رکھ دیا۔  ایک معمولی سا بُخار ہی تو تھا۔  ‘

وہ مُسکرا دیا۔

’ آغا جان جتنا آپ کو بُخار تھا۔  اگر آپ ایک ہفتہ اس بستر پہ آرام کرتے نہ گُزارتے تو ہفتوں نہیں اُترنے والا تھا۔ ‘

’خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں۔  یہ ہاتھ میں کیا ہے ؟‘

’ آپ کے پڑھنے کے لیے لایا ہوں۔ ‘

’اچھا! تو پھر لاؤ دو۔ ‘

آغا جان نے سائیڈ ٹیبل سے اپنی عینک پکڑ کے آنکھوں پہ لگاتے ہوئے کہا۔

’نہیں ایسے نہیں۔  اس میں کچھ راز ہیں آپ کو وعدہ کرنا ہو گا اسے مکمل پڑھیں گے۔ ‘

’اچھایار وعدہ ! اب دے بھی دو مجھے تجسس ہو رہا۔ ‘

وہ سمجھ رہے تھے یہ شاہ ویز کی ڈائری ہو گی جس میں اُس نے بچپن کی طرح وہ باتیں لکھی ہوں گی جو وہ اُن سے کہنا نہیں چاہتا ہو گا۔  اس لیے اُن کو لکھ کے دے دیں۔

شاہ ویز نے ڈائری اُن کو دے دی۔  وہ پڑھنے لگے۔  پہلی لائن ہی پڑھ کے اُنہوں نے غصے سے اُس کی طرف دیکھا۔

’ آغا جان آپ نے وعدہ کیا ہے۔  اور جہاں تک مجھے پتہ آپ وعدہ نبھانے والوں میں سے ہیں۔ ‘

یہ بات سُن کے آغا جان نے پڑھنا جاری رکھا۔

شاہ ویز خاموشی سے پاس بیٹھا آغا جان کے چہرے کے اُتاڑ چڑھاؤ دیکھتا رہا۔  پھر اُن کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو۔  اُس نے آگے بڑھ کے آنسو صاف نہیں کیے۔  بلکہ اُنہیں بہنے دیا۔  اب ان آنسوؤں نے بہنا ہی بہنا تھا۔  اب ہی تو ان آنسوؤں کے بہنے کا وقت آیا تھا۔  اب جوانی گُزر چُکی تھی۔  بڑھاپے میں انسان اپنے جذبات پہ بالکل بھی قابو نہیں رکھ سکتا۔

وہ ڈائری بند کر چُکے۔

بہتے آنسوؤں کو لرزتے ہاتھوں سے صاف کیا۔

’ آغا جان ! آج میں اپنے بابا جان کے بارے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے منع نہیں کریں گے۔ ‘

شاہ ویز نے اُن کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔

وہ بس اُسے دیکھ کے رہ گئے۔

’ آپ مجھے بتائیں آغاجان جس وجود سے کسی انسان کی سانسیں جُڑی ہوں۔  کیا وہ اُسے مارنے کا سوچ بھی سکتا ہے ؟ آپ کہتے ہیں ناکہ آپ کی سانسیں مجھ سے جُڑی ہیں تو بتائیں کیا آپ مجھے مار سکتے ہیں؟ مجھے بھی اپنے بابا کی طرح حیات ولا سے نکال سکتے ہیں ؟ یہ کہہ سکتے ہیں میرے لیے آج سے تُم مر گئے ہو۔ ‘

آنسو پھر اُن کی بوڑھی آنکھوں سے بہنے لگے۔  اُنہوں نے نفی میں سر ہلاتے شاہ ویز کا چہرہ اپنے جھڑیوں زدہ ہاتھوں میں تھام لیا۔

’تو پھر بتائیں آغا جان ! آپ نے بابا جان کے ساتھ کیوں ایسا کیا؟ کیوں نہ اُن کی بات پہ اعتبار کیا؟ ‘

’تب جس طرح میرا اپنا بھائی مجھ پہ اُنگلی اُٹھانے لگ گیا تھا۔  اسی طرح لوگوں نے بھی مجھ پہ اُنگلیاں اُٹھانے لگ جانا تھا اگر میں ایسے نہ کرتا تو۔ ‘

شاہ ویز بس اُنہیں دیکھ کے رہ گیا۔

’ آپ اپنے بھائی سے نفرت کرتے ہیں۔  آپ کو لگتا آغا جان شہباز مجھ پہ حملے کروا رہے تھے ؟ لیکن آپ یہاں بھی غلط ہیں۔  میری جان کے دُشمن وہ نہیں بلکہ رمیز امتیاز علی ہے۔ ‘

وہ ساکت زدہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگے۔

’ آپ فکر نہ کریں میں اپنی ماں کے قاتلوں کو سب کے سامنے لا کے رہوں گا۔  آپ مجھے یہ بتائیں یوسف تایا نے کیوں شادی کے بعد یہ گاؤں چھوڑ دیا تھا؟ کیوں کبھی وہ آپ سے ملنے بھی نہیں آئے ؟‘

آج اعتراف کا لمحہ تھا اُنہوں اعتراف کرنا ہی تھا اپنے سب گُناہوں کا۔

’وہ شادی سے پہلے میرے پاس آ کے گڑ گڑایا تھا۔  اُس نے کہا وہ اور زُلیخا ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔  میں اپنے فیصلے بدل لوں۔  لیکن میں نے اُس کی ایک بھی نہ سُنی۔ ‘

’ آپ کے لیے یہ فضول رسم و رواج جو نسل در نسل چلتے آ رہے ہیں اور اپنا وقار اس قدر بلند تھا کہ آپ نے ہمیشہ لوگوں کی پروا کی۔  لیکن اپنی اولاد کی نہیں۔ ‘

شاہ ویز نے آنکھوں میں افسوس لیے کہا۔  اُسے اب سمجھ آ رہا تھا کہ کیوں یوسف تایا اُس سے اتنی محبت کرتے ہیں۔  کیوں وہ اُسے لمحوں اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے۔

’ آپ کو پتہ آپ مجھ سے کیوں اتنی محبت کرتے ہیں ؟‘

آغا جان نے نم آنکھوں کے ساتھ اُسے دیکھا۔

’کیوں کہ میں اپنے بابا جان کی کاپی ہوں۔  مجھ میں آپ کو اپنا بیٹا نظر آتا ہے۔ ‘

اُس کی بات سُن کے آغا جان نے اثبات میں سر ہلاتے اُسے دونوں بازوؤں میں بھینچ کے سینے سے لگا لیا۔ شاہ ویز جب کافی دیر گُزرنے کے بعد بھی باہر نہ آیا تو بی بی جان بھی کمرے میں آ گئیں۔ اُن دونوں کو ایک دوسرے کے گلے لگ کے روتے دیکھ کے وہ بھی رونے لگیں۔

شاہ ویز بی بی جان کو دیکھتے ہوئے بولا۔

’ آپ بی بی جان کو دیکھیں، کیسے اپنی اولاد کو دیکھنے کے لیے تڑپتی رہتی ہیں۔  آپ کو ایک دفعہ بھی بی بی جان پہ ترس نہیں آیا۔  ایک ماں کے لیے اُس کی اولاد ہی اُس کی کُل کائنات ہوتی ہے۔  آپ نے ایک ماں سے اُس کی کُل کائنات ہی چھین لی؟‘

آغا جان کے پاس اب آنسوؤں کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔

’ آغا جان آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے صرف ایک فیصلے سے کتنی زندگیاں برباد ہوئی ہیں ؟‘

آغا جان نے اپنے جھر یوں زدہ ہاتھ اُن کے آگے جوڑ دئیے۔

’میں۔۔  میں۔۔ آپ سب کا گُناہگار ہوں۔  مجھے۔۔ م۔۔ معاف کر دو۔  کاش! تب میں یوسف کی بات مان لیتا۔  کاش! میں یہ بات سمجھ لیتا کہ مرنے والے تو مر گئے وہ تو اب واپس نہیں آ سکتے۔  لیکن جو زندہ ہیں اُن کی خوشی کو مد نظر رکھ کے فیصلے کرتا۔۔ ۔  لیکن مدتوں سے چلتے ان رسم و رواج کو اپناتے ہوئے میں نے اپنے بچوں کو کھو دیا۔۔ ۔  کتنا بد نصیب باپ ہوں میں۔۔ ۔ ‘

شاہ ویز نے اُن کے ہاتھوں کو تھام کے چوم لیا۔  ’ آغا جان! آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اتنا ہی کافی ہے۔  آپ نے بھی تو اتنے سال اپنے بچوں کو یاد کرتے گُزارے ہیں۔ میں نے آپ کی ان آنکھوں میں ہمیشہ اُن سے ملنے کی تڑپ دیکھی ہے۔ لیکن آپ نے انا کا پرچم ہمیشہ بُلند رکھا۔  لیکن اب میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں۔  میں حیات ولا کے مکین حیات ولا میں واپس لا کے رہوں گا۔  میں اس خاندان کو جوڑ کے رہوں گا۔ ‘          ٭٭

 

 

رمیز کی حالت پاگلوں جیسی ہو گئی تھی۔  ان دو دنوں میں اُس کا سارا غرور جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔  ایک باپ کے لیے اس سے زیادہ ذلت آمیز اور کیا بات ہو گی کہ اُس کی بیٹی دو دنوں سے گھر سے غائب ہو۔ رمیز کا بیٹا وقاص اُسی کا پر تُو تھا۔  وہ بھی بدنامی اور جگ ہنسائی کے ڈر سے دو دنوں سے گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ وہ تاک میں تھا کہ نازنین اُسے نظر آئے اور وہ زندہ درگور کر دے۔ نکاح کی رسم اُدھر کی اُدھر ہی دھری کی دھری رہ گئی۔

شاہ ویز نے نازنین والی بات سب سے چھُپا کے رکھی تھی۔ وہ یہ جنگ خود لڑنا چاہتا تھا۔

دو دن گاؤں میں رہنے کے بعد وہ پھر شہر چلا گیا۔  وہ ایک انسان کے کیے کا بدلہ دوسرے انسانوں سے لینے والوں میں سے ہر گز نہیں تھا۔  اُس نے الف سے یہ تک ساری بات نازنین کو بتا دی۔

’پہلے میرا شک زویا نامی خاتون پہ تھا۔  جو وہ گلاس لے کے چھت پہ میری ماما کے پاس گئی تھی۔  لیکن تمہارے بابا جان کا مجھ پہ حملہ کروانا میرے شک پہ پقین کی مہرثبت کر گیا ہے۔ تمہارے بابا کی ضرور میرے بابا سے کوئی ذاتی دُشمنی ہو گی جس وجہ سے میری ماں کی جان لے کے میرے بابا کو پہلے گاؤں سے نکلوایا۔  اور اب مجھے جان سے مارنے کی کوشش کروائی جا رہی ہے۔  کیونکہ میں سکندر حیات خان کا بیٹا ہوں۔ ‘

نازنین نے بہت صبر اور حوصلے سے اپنی ہچکیوں کا گلا گھونٹ کے شاہ ویز کی ساری بات سُنی۔ جس باپ کو وہ اپنا آئیڈیل سمجھتی رہی تھی۔ آج اُسی باپ کی بیٹی ہونے پہ اُسے شرمندگی ہونے لگی۔  وہ ظُلم کرنے والے لوگوں کا ساتھ دینے والوں میں سے ہر گز نہیں تھی۔

شاہ ویز کے ہاتھ پہ اپنا نازک ہاتھ رکھتے فیصلہ کُن انداز میں وہ بولی۔

’اگریہ میرے بابا اور زویا پھُپھو کی سازش تھی۔  تو پھر اُن کو اُن کے کیے کی سزا ملنی ہی چاہئیے۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ‘

شاہ ویز اب اپنے اگلے قدم کے بارے میں سوچنے لگا۔

’اس کا مطلب وجیہہ خالہ آپ کے بابا کی بہن ہیں مطلب آپ کی پھُپھو؟‘

شاہ ویز نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

نازنین نے اپنا نچلا لب دانتوں تلے دبابا۔

’کیا ہوا؟‘

’میں نے جب سے ہوش سنبھالا اُنہیں آغا جان (شہباز خان) اور بی بی جان (زُہراں ) کی زبانوں سے نکلتے نشتر کا نشانہ بنتے دیکھا ہے۔ مجھے کبھی اس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ وجیہہ خالہ اتنی اچھی ہیں بلا وجہ اُن کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے۔ ‘

’اللہ نے چاہا تو انشاء اللہ جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔  اپنے بابا جان کا نمبر دے سکتی ہو؟‘

نازنین نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اُسے نمبر لکھوایا۔

شاہ ویز نے اپنے رہائش گاہ والے ایریے سے دور جا کے ایک پی سی او سے رمیز کا نمبر ملایا۔ انتہائی سادہ لہجے میں صرف اتنا کہا۔

’میں شاہ ویز سکندر حیات خان ہوں۔  تمہاری بیٹی نازنین میرے پاس ہے۔  اگر اُسے زندہ صحیح سلامت چاہتے ہو۔  تو میرے دیے گئے ایڈریس پہ اکیلے آج شام ہونے سے پہلے پہنچ جاؤ۔  تم نے میری ماں کو بہت سیدھے طریقے سے مروایا تھا۔  لیکن تمہاری بیٹی کو میں عبرت ناک موت دوں گا کہ تمہاری آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی۔  آج شام ہونے سے پہلے ورنہ رات تک تمہاری بیٹی مردہ حالت میں تمہارے پاس پہنچ جائے گی۔ پولیس کو انوالو کر کے یا مجھے دھوکہ دینے کی غلطی بھول کے بھی مت کرنا۔  انتظار رہے گا۔ ‘

فون سُن کے رمیز کی یہ حالت تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ سمجھتا تھا یہ بات اُسی دن دفن ہو گئی تھی۔  کسی کے فرشتوں کو بھی کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔ بے وقوف! بھلا جھوٹ چھُپائے بھی چھُپتا ہے کیا؟ڈر سے اُس کا بُرا حال ہو گیا تھا۔  وہ جسے کل کا بچہ سمجھتا تھا وہ اپنی ماں کے قاتلوں کو ڈھونڈ سکتا تھا تو پھر اپنی ماں کی موت کا انتقام لینے کے لیے اُس کی بیٹی کو مار بھی سکتا تھا۔  رمیز نے دُنیا میں صرف ایک انسان سے محبت کی تھی اور بے تحاشا وہ اُس کی بیٹی تھی۔ صبح کے دس بجے کا وقت تھا وہ اکیلا ہی جیپ لے کے شہر جانے کے لیے نکل پڑا۔ دوپہر کے دو بجے وہ شاہ ویز کے دیے گئے پتے پہ موجود تھا۔ وہ لاہور کا ایک سُنسان علاقہ تھا۔ اُسے ایک جوان لڑکا اپنی طرف آتا دکھائی دیا تھا۔  اُسے پہچاننے میں ذرا دیر نہیں لگی تھی۔ وہ ہو بہو سکندر کی کاپی تھا۔ وہ اُسے جیپ میں بیٹھنے کا اشارہ کرتے خود بھی جیپ کا فرنٹ دروازہ کھولتے ہوئے بیٹھ گیا۔ رمیز ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا۔  شاہ ویز اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔

’میں جو پوچھوں اُس کا صرف ایک ہی جواب دینا وہ جو سچ ہو جدھر تم نے جھوٹ بولا اُدھر ہی سمجھو بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ ‘

اُس کی آنکھوں میں نجانے کیا تھا کہ رمیز کا سر خود بخود اثبات میں ہل گیا۔

’میری ماں کو قتل کرنے میں تمہارے ساتھ اور کس کا ہاتھ تھا؟‘

’اگر مجھے یہ یقین دلایا جائے کہ میری بیٹی ٹھیک ہے اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا تو میں بتانے کو تیار ہوں۔ ‘

’تمہاری بیٹی ابھی تک تو ٹھیک ہے اُسے کوئی نقصان نہیں پُہنچایا گیا لیکن اب اگر جواب کے علاوہ کوئی ادھر اُدھر کی بات تمہارے منہ سے نکلی تو پھر اُس کے ٹھیک رہنے کا میں یقین نہیں دلا سکتا۔ ‘

’زویا کا۔۔ ۔ !‘

’سب کے سامنے چوپال میں اپنا جُرم مان لو ! خُدا کی قسم تمہاری بیٹی کو اُسی حالت میں واپس کر دوں گا جس حالت میں اُٹھایا گیا تھا۔ ‘

ایک طرف چوپال میں اپنا جُرم ماننا گویا گاؤں بدر ہونا اور اُن کی منتخب کردہ سزا بھُگتنا۔

دوسری طرف اپنی جان سے پیاری بیٹی سے ہاتھ دھونا۔

بیٹی کی محبت کا پلڑا بھاری تھا وہ جھُک گیا۔

’مجھے منظور ہے۔ ‘

’ٹھیک ہے پھر چلتے ہیں گاؤں۔  نیک کام میں دیر کیسی ؟ملتے ہیں دوبارہ پھر آج رات چوپال میں۔ ‘

شاہ ویز نے دروازہ کھول کے نیچے چھلانگ لگائی اور اُسے جانے کا اشارہ کیا۔

اُس کے جاتے ہی شاہ ویز کچھ دور کھڑی اپنی جیپ کی طرف بڑھا۔  فلیٹ پہنچ کے اُس نے سب سے پہلا فون یوسف کو کر کے اُنہیں گاؤں جانے کے لیے تیار رہنے کا کہا۔ اور پھر آغا جان کو فون کر کے رات کو گاؤں کے سب معزز افراداور حویلی والوں کو چوپال پہ اکٹھا ہونے کاپیغام پہچانے کا کہتے خود بھی گاؤں کے لیے نکل پڑا۔  یوسف کو لے کے شام کے بعد وہ گاؤں پہنچ چُکا تھا۔ بابا جان نے یوسف کو اپنے سینے سے لگاتے اُس سے معافی مانگی۔ ایک اولاد اپنے سامنے اپنے والدین کو شرمندہ ہر گز نہیں دیکھ سکتی۔

٭٭

 

 

 

 

آسمان نے کالی چادر اوڑھ لی۔  گاؤں کی پنجائیت کی طرف سے حویلی والوں کو بھی پیغام پہنچ چُکا تھا۔  شہباز خان، احسن اور رمیز چوپال پہنچے۔  سب گاؤں کے بڑے موجود تھے سوائے حیات خان کے۔  شہباز خان پنجائیت بٹھانے کی وجہ پوچھنے ہی لگے تھے کہ حیات خان، یوسف اور شاہ ویز کے سا تھ چوپال میں داخل ہوئے۔ اپنی جگہوں پہ بیٹھنے کے بعد شاہ ویز نے بات شروع کی تھی۔ سب سے پہلے اُس نے یہ پنجائیت بٹھانے کا مقصد بیان کیا۔  اور پھر اُس نے اپنے باپ کو بے گُناہ قرار دیتے اُس کی ماں کے قاتل سے سب کو متعارف کروایا۔ رمیز نے سب کے سامنے روتے ہوئے اپنے گُناہوں کا اقرار کر لیا۔ کہ کیسے اُس نے زویا کے زریعے زہریلی دوا زُلیخا کو پلوائی تھی۔ یاد رہے امتیاز علی کی ایک سال پہلے طبعی وفات ہو چُکی تھی۔ اچھا ہوا وہ زندہ نہیں تھے۔  ورنہ اس وقت اگر وہ یہاں موجود ہوتے تو اُنہوں نے اپنے بیٹے کے کرتوتوں کی وجہ سے کسی سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہنا تھا۔ شہباز خان صدمے سے اپنی جگہ ساکت ہو گئے۔  کتنے سالوں سے وہ اپنی بیٹی کے قاتل کے ساتھ ایک ہی چھت تلے رہ رہے تھے۔  احسن نے رمیز کا گریبان پکڑ لیا۔  اُس کا ہاتھ رمیز کا گال لال کر چُکا تھا۔ چوپال میں موجود لوگ اگر چھرواتے نہ تو وہ اُسے جان سے مار کے ہی دم لیتا۔ دونوں بھائیوں شہباز خان اور حیات خان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔  شہباز خان پہل کرتے ہوئے اُٹھے۔  اپنے بڑے بھا ئی حیات خان سے معافی مانگتے ہوئے اُن کے گلے لگ کے برسوں کا غُبار نکال دیا۔

شاہ ویز نے احسن کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اُسے پُکارا۔

’ماموں جان!‘

احسن اُسے غور سے دیکھنے لگا وہ دیکھنے میں سکندر کی طرح لگتا تھا لیکن اُس کی آنکھیں ہو بہو زُلیخا کی طرح تھیں۔

احسن نے اپنے بازو وا کرتے اُسے اپنے سینے سے بھینچ لیا۔ شہباز خان بھی کافی دیر اُسے اپنے سینے سے لگا کے روتے رہے۔ شاہ ویز نے سب کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف بھی کر لیا کہ کیسے اُس نے رمیز سے سچ اُگلوانے کے لیے اُس نے اُس کی بیٹی کا اغوا کیا۔ پنجایت یہ کہتے ہوئے برخاست کر دی گئی کہ سکندر کو بُلایا جائے اُسے اپنے مجرم کو اُس کے کیے کی سزا سُنانے کا پورا حق ہے۔

٭٭

 

 

 

 

اگلے دن وعدے کے مطابق شاہ ویز نے نازنین کو بخیرو عافیت حویلی پہنچا دیا۔ اُسے دیکھ کے رمیز کی جان میں جان آئی۔  وہ کتنی ہی دیر اپنی بیٹی کو سینے سے لگائے سسکتا رہا۔ بار بار اُسے چومتا۔  سب سے ملنے کے بعد جب وہ وجیہہ کے پاس گئی تو اُنہوں نے اُسے گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔

’کیسا ہے میرا شاہ ویز؟‘

وہ اُن کے کان میں بولی۔

’بچپن سے بھی زیادہ خوبصورت۔ ‘

’تم نے اُسے بچپن میں کب دیکھا تھا؟

’بس دیکھا ہی نہیں تھا پورا ایک مہینہ اُس کے سا تھ باغ میں جا کے کھیلی بھی تھی۔ ‘

’اوہ۔۔ ۔ ! اچھا تو یہ بات تھی۔ ‘

’نہیں آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔  تب شاہ ویز پڑھنے کے لیے شہر چلا گیا تھا۔ لیکن مجھے نہیں اس بات کا علم تھا۔  یہ تو بس ایک اتفاق تھا۔  اُسے تو میں بھول بھی گئی ہوئی تھی۔ ‘

’اچھا تو محبت کرتے ہو ایک دوسرے سے ؟‘

’محبت نہیں خالہ ہماری سانسیں ایک دوسرے سے جُڑی ہیں۔ ‘

’یہ تم دونوں آپس میں کیا کھُسر پھُسر کر رہی ہو؟‘

زُہراں نے اُنہیں رازداری سے بات کرتے ہوئے پوچھا۔

’کچھ نہیں امی! ویسے ہی یہ مجھے تنگ کر رہی ہے۔  کہ میں احسن سے زیادہ محبت کرتی ہوں یا احسن مجھ سے؟‘

وجیہہ نے نازنین کو آنکھ مارتے زُہراں سے کہا۔

شہباز خان اور زُہراں رات کو سب پتہ چلنے کے بعد وجیہہ سے اپنے غلط رویے کی معافی مانگ چُکے تھے۔ احسن کا تو اُس سے ہمیشہ سے ہی اچھا رویہ رہا تھا۔ احسن اور وجیہہ کی دو بیٹیاں تھیں۔  یوسف اور مریم کا صرف ایک ہی بیٹا تھا۔ زویا کی شادی اُس کے چچا زاد کزن سے ہوئی تھی۔  اتنے سال گُزر جانے کے باوجود وہ بے اولاد تھی۔ اُس کا گاؤں آنا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ آغا حیات خان نے سکندر کو فون کر کے اُن سے معافی مانگی اور اُنہیں گاؤں واپس آنے کا کہا۔ شہناز بیگم بیو گی کی چادر اوڑھے اپنے بچوں کی کی گئی غلطیوں کی طرف سے دونوں بھائیوں حیات خان اور شہباز خان سے معافی مانگتی ہیں۔ دونوں بھائی کھُلے دل سے اُنہیں معاف کر کے سینے سے لگا لیتے ہیں۔  اس میں اُن کی بہن کا تو کوئی قصور نہیں تھا نا؟ فرشتہ صفت لوگوں کے ہاں کبھی کبھار شیطان پیدا ہو جایا کرتے ہیں نا۔  آج جمعے کی نماز کے بعد سب حویلی والے سوائے رمیز اور وقاص کے حیات ولا میں اکٹھے ہونے والے تھے۔ مرد حضرات سب نماز جمعہ کے لیے مسجد کی طرف روانہ ہو گئے۔  حویلی کی عورتیں اپنے اپنے کمروں میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے چلی گئیں۔

نازنین نماز ادا کرنے کے قر آن پاک کو اپنے سامنے رحل میں رکھے تلاوت کرنے لگی۔  اس وقت ایسا حُسن اُس کے چہرے پہ چھایا ہوا تھا کہ بے اختیار نظر اُتارنے کو دل کرتا۔  وہ سورہ کھف پڑھنے میں اتنا مُگن تھی اُسے دبے پاؤں سب سے چھُپ کے اپنے کمرے میں داخل ہوتے اپنے بھائی وقاص کا پتہ ہی نہ چلا۔  جس نے کمرے میں داخل ہونے کے بعد اندر سے کُنڈی لگا دی تھی۔  اُس نے ہاتھوں میں تیز دھار والا چاقو تھام رکھا تھا۔  وہ غیرت مند مرد تھا اُس کی غیرت کو یہ بات ہر گز گوارا نہیں تھی کہ اُس کی بہن تین دنوں سے گھر نہ آئی ہواور وہ اُسے زندہ چھوڑ دے۔ نازنین کو تب پتہ چلا جب اُس نے دوپٹے کے اوپر سے اُس کے بال ہاتھ میں جکڑ کے ’بے غیرت‘کہتے اُس کے پیٹ میں چاقو گھونپا۔  درد سے اُس کی چیخ بند کمرے میں گھونجی۔ چیخ کی گو نج دروازے سے باہر تک گئی۔ اُس نے چاقو اُس کے پیٹ سے باہر نکالا اور بے دردی سے وار پہ وار کرتا گیا۔  کمرہ نازنین کی چیخوں سے گونجتا گیا۔  حویلی کی خواتین دروازہ پیٹنے میں مصروف تھیں۔  وقاص نے تب تک بس نہ کیا جب تک اُس کی سانسوں نے اُس کا ساتھ نہ چھوڑ دیا۔ اُدھر اُس کی سانسوں نے ساتھ چھوڑا اُدھر مسجد سے نکلتے شاہ ویز کا ہاتھ اپنے دل پہ گیا۔  اُسے محسوس ہوا جیسے اُسے سانس نہیں آ رہا ہو۔  وہ کھانسنے لگا۔  یوسف نے مڑ کے اُسے دیکھا اور جلدی سے اُس کی کمر سہلانے لگا۔

’کیا ہوا؟‘

’کچھ نہیں تایا جان۔ ‘

وقاص اپنا کام تمام کرنے کے بعد چاقو اُدھر ہی پھینک کے دروازہ کھول کے خواتین کو پیچھے دھکیل کے حویلی سے بھاگ گیا۔

مسجد سے واپس آتے افراد میں رمیز بھی شامل تھا۔  اُس کی نظر کھیتوں سے نکل کے کچی سڑک کی طرف جاتے وقاص پہ پڑی۔  جس کی سفید قمیض پہ واضح خون کے چھینٹے وہ دیکھ چُکا تھا۔

’میری بیٹی۔۔ ۔  مار ڈالا اُس نے میری بیٹی کو۔۔ ۔ ‘

کہتے وہ حویلی کی طرف بھاگا۔

اُس کے پیچھے شہباز خان، حیات خان، احسن، یوسف اور شاہ ویز بھی بند ہوتے دل کے ساتھ۔

سامنے ہی رحل میں قر آن پاک کھُلا ہوا پڑا تھا جس پہ خون کے چھینٹے دکھائی دے رہے تھے۔ اُس کے ساتھ ہی نازنین زخمی پیٹ کے ساتھ مردہ حالت میں لیٹی تھی۔

ہر دیکھنے والی آنکھ اشکبار تھی۔  رمیز اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھ کے پاگل ہو گیا تھا۔

شاہ ویز کو اب سمجھ میں آیا کیوں اُس کی سانس اُکھڑی تھی۔

وہ لڑکھرایا۔۔ ۔۔ ۔۔

اُس نے خود کو گرنے سے بچانے کے لیے پاس کھڑے یوسف کا سہارا لیا۔

یوسف نے اُس کی طرف دیکھا۔

صرف ایک لمحے کے لیے اُن کی آنکھیں ملیں۔

یوسف نے اُس کا درد جان لیا۔ کیسے نہ جان پاتا؟؟؟ اس تکلیف دہ مرحلے سے وہ بھی گُزر چُکا تھا۔

اُسے سینے سے لگاتے ہوئے صحن میں لے آیا۔

نازنین کا قتل کرنے کے بعد وقاص کے فرار ہونے پہ اُسے گرفتار کرنے کے لیے پولیس کو فون کر دیا گیا۔

قدرت بھی کیسے کیسے بدلہ لیتی ہے۔۔ ۔

یہ مکافات عمل تھا۔  اُس نے کسی دوسرے کی بیٹی کی سانسیں ختم کی تھیں۔  اُس کے اپنے بیٹے نے اپنی بہن کی سانسیں اس بے دردی سے ختم کی تھیں کہ انسانیت چیخ اُٹھی۔۔ ۔

پاگل پن کے شدید دورے پڑنے پر رمیزکو پاگل خانے داخل کروا دیا گیا۔

سکندر نے ایک مہینے کے اندر آنے کا کہا۔ وہ وہاں سے اپنا بزنس وائینڈ اپ کر کے اپنی فیملی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے گاؤں واپس آ جانا چاہتا تھا۔

نازنین کے مرنے کے ایک ہفتے بعد زویا کے پورے جسم پہ فالج کا اٹیک ہونے کی خبر ملی۔

قدرت کا انتقام مکمل ہوا بہت ہی بھیانک طریقے سے۔۔ ۔۔ ۔

شہناز بیگم اپنے بچوں کی اس حالت پہ فقط اتنا کہتیں۔

کاش۔۔ ۔  کاش۔۔ ۔  میرے بچے میری بات مان لیتے۔۔ ۔

کاش میرے بچے یوں غلط راستے پہ نہ چلتے۔۔ ۔۔

اُنہوں نے تو اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی اُنہیں اچھا انسان بنانے کی۔۔ ۔ !

اب اُن کے پاس اُن کی اس حالت پہ آنسو بہانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

شہباز ولا والے اُن کی حویلی چھوڑ کے دوبارہ اپنے شہباز ولا جا بسے تھے۔

اب اس حویلی میں وہ اکیلی رہ گئی تھیں۔  حیات خان نے اُنہیں حیات ولا میں بُلا لیا۔

٭٭

 

 

 

 

رات جب اپنے پر پھیلاتی ہے تو درد زیادہ شدت سے جاگ جاتے ہیں۔  نازنین کے جانے کے بعد شاہ ویز کو چُپ لگ گئی تھی۔  نہ اُسے کھانے کا ہوش رہا تھا نہ پینے کا۔ کسی سے بھی اُس کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی۔ یوسف اور وجیہہ کے علاوہ سب اُس سے وجہ پوچھتے اُسے ہوا کیا۔  لیکن وہ خاموشی سے بس اُنہیں تکتا رہتا۔  آج کتنے ہی دنوں بعد اُس نے حیات ولا سے باہر قدم نکالے تھے۔  وہ چلتا ہوا باغوں کی طرف آ گیا۔

کتنی ہی یادیں اس جگہ سے جُڑی تھیں۔ اُس کی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب ہو رہی تھیں۔  اُس نے آج اُنہیں چھلکنے دیا۔  رات کے اندھیرے میں ضمد بیگ کی آواز سُناٹا چیرتی محسوس ہوئی۔

پیا بناجاگے۔۔  جاگے ساری رات

پیا بنا آنسو۔۔ جیسے ہو برسات

پیا بنا جاگے۔۔  جاگے ساری رات

پیا بنا آنسو۔۔  جیسے ہو برسات

ٰپیاسا میں خوشیاں دا۔۔ ۔۔

ویری تُو دُکھیاں دا۔۔ ۔۔

پانی ہُن اکھیاں دا پین دے ذرا۔۔ ۔

عشقا وے۔۔ ۔  عشقا وے۔۔ ۔

عشقا وے۔۔ ۔ عشقا وے۔۔ ۔

عشقا وے۔۔ ۔ عشقا وے۔۔ ۔

وہ اپنے مہرباں دوست کے پاس جا کے بیٹھ گیا۔  وہ رو رہا تھا۔  اُس کا دل کر رہا تھا کاش۔۔ ! وہ وقت لوٹ آئے چُپکے سے نازنین لوٹ آئے اپنے نازک ہاتھوں سے اُس کے آنسو پونچھ کے اُسے مُسکرانے پہ مجبور کرے۔۔ ۔

ضمد بیگ کی آواز ایک دفعہ پھر فضا میں گونجنے لگی۔

دل کی زمیں پہ ارماں جگائے کیوں ؟

سپنے دکھا کے اتنا رُلایا کیوں ؟

ٹیکا لا زہراں داپانی دے قہراں دا

ٹیکا لا زہراں داپانی دے قہراں دا

ٹیکا لا زہراں داپانی دے قہراں دا

پین دے۔۔ ۔  جین دے۔۔ ۔

عشقا وے۔۔ ۔  عشقا وے۔۔ ۔

عشقا وے۔۔ ۔ عشقا وے۔۔ ۔

عشقا وے۔۔ ۔ عشقا وے۔۔ ۔

وہ اپنے آنسو صاف کرتا۔  مزید بہنے والے آنسوؤں کو پیتا واپس آ گیا۔

واپس آنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں بیٹھا سامنے دیوار کو تکتا جا رہا تھا۔ وجیہہ اُس کے کمرے میں داخل ہوئی۔  اُس کے پاس بیٹھتے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

’جب اُس دن نازنین حویلی آئی تھی اُس نے تب مجھے بتایا تھا تمہارے بارے میں۔  میں نے پوچھا محبت کرتے ہو ایک دوسرے سے ؟ تب وہ بولی نہیں خالہ ہمارا محبت کا رشتہ نہیں ہے۔  ہماری سانسیں ایک دوسرے سے جُڑی ہیں۔  تم دونوں کی سانسیں ایک تھیں نا؟ ایک کی سانسیں ختم ہو جانے کا یہ مطلب نہیں کہ اب دوسرے کی سانسیں بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گی۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے وہ اپنی سانسیں بھی تمہارے حوالے کر گئی ہے۔  اُس کی جب سانسیں تھمی ہوں گی اُس وقت تم نے بھی کچھ محسوس کیا ہو گا؟‘

وجیہہ نے اپنی بات اُسے سمجھاتے اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

شاہ ویز نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

’کیا محسوس کیا تھا؟‘

’میرا سانس بند ہوا تھا۔ ‘

’ایک دفعہ بند ہونے کے بعد فوراً سانسیں چلنے بھی تو لگ گئی تھیں نا؟‘

’ہاں !‘

’تب اُس کی سانسیں بھی تمہاری سانسوں سے آ ملی تھیں۔  اب تمہارے پاس یہ اُس کی امانت ہیں۔  تمہیں انہیں سنبھال کے رکھنا ہو گا۔ تم اُسے جب بھی محسوس کرو گے وہ تمہیں اپنے بہت قریب محسوس ہو گی۔ ‘

شاہ ویز نے اُن کی بات سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔  وہ اُس کا ما تھا چومتے ہوئے اُدھر سے اُٹھ آئیں۔  شاہ ویز اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے اپنے دل کی دھک دھک سُننے لگا۔

٭٭

 

 

 

 

یوسف بھی مریم اور اپنے بیٹے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے گاؤں لوٹ آیا۔ ایک مہینے بعد سکندر بھی اپنی بیوی زُباریہ اور بچوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گاؤں واپس آ گیا۔ حیات ولا اور شہباز ولا والوں نے اُن کا پر جوش استقبال کرتے ہوئے سکندر کی دوسری بیوی زُباریہ اور اُن کے بچوں ہالے سکندر خان، اشعر سکندر خان کے ساتھ انوشے عبدُالحنان کو بھی کھُلے دل سے قبول کیا۔ سارا خاندان پھر سے ایک ہو گیا تھا۔  شاہ ویز نے بی بی جان اور آغا جان سے کیا اپنا وعدہ نبھا دیا تھا۔ اگلے دن صبح فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد شاہ ویز، سکندر کے ساتھ اپنی ماں اور نازنین کی قبر پہ سُرخ گُلاب رکھ کے آیا۔ سکندر کتنی ہی دیر زُلیخا کی قبر کی مٹی پہ نم آنکھوں کے ساتھ ہاتھ پھیرتا رہا۔

’بابا جان!‘

سکندر نے اُن کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اُنہیں پُکارا۔

اُنہوں نے اپنی آنکھیں دونوں ہتھیلیوں سے رگڑ کے اُٹھتے ہوئے اپنا بازو شاہ ویز کے کندھے پہ پھیلا کے بولے۔

’جی بابا کی جان!‘

’کچھ نہیں !‘

شاہ ویز مُسکراتے ہوئے بولا۔

وہ اُنہیں ساتھ لیے اپنا کالج دکھانے لے آیا جو ابھی تعمیر کے مراحل میں تھا۔ سکندر نے اپنے بیٹے کی کاوش کو سراہا۔  پھر اُدھر سے ہوتے انہوں نے اپنے قدم حیات ولا کی جانب بڑھا دئیے۔

’کالج کی بنیاد میرے بیٹے نے رکھی ہے۔  اس گاؤں میں ایک بڑے سے ہسپتال کی بنیاد میں رکھوں گا۔‘

’اوہو۔۔  بابا جان یہ آئیڈیا مجھے کیوں نہیں آیا تھا۔ ہسپتال تو کالج سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ ‘

’پُتر جی! جتنے مرضی جینئیس بن جاؤلیکن باپ سے آگے نہیں نکل سکتے۔ ‘

شاہ ویز کا اُن کے انداز پہ قہقہہ بے ساختہ تھا۔

’بابا جان ایک دفعہ پھر کہیے گا۔ ‘

’کیا۔۔ ۔ ؟؟؟‘

سکندر نے ماتھے پہ تیوری چڑھا کے سوالیہ انداز میں پوچھا۔

’پُتر جی۔۔ ۔ !‘ شاہ ویز نے اُن کے انداز میں پُتر جی کہا۔

سکندر نے اُس کا کان پکڑ لیا۔

’باپ کی نقلیں اُتارتے شرم نہیں آتی؟‘

شاہ ویزنے اپنا کان چھڑواتے ہوئے شرارتی لہجے میں کہا۔

’بابا جان میں نقل تھوڑی اُتار رہا ہوں میں نے تو بس ایک چھوٹی سی فرمائش کی ہے۔ ‘

یوں ہی باتیں کرتے حیات ولا کا گیٹ پار کر کے دونوں باپ بیٹوں نے اندر قدم رکھا۔

صحن میں چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔  انوشے کے علاوہ تقریباً ً سب ہی اُدھر موجود تھے۔ مریم کچن میں سلنڈر پہ ناشتہ بنانے کی بجائے بر آمدے میں مٹی کے چولہے پہ بنا رہی تھیں۔ زُباریہ ناشتہ بنانے میں اُن کی مدد کر رہی تھیں۔ اُن باپ بیٹے کو آتا دیکھ کے سب اُن کی طرف متوجہ ہوئے۔

بی بی جان کی گود میں سر رکھ کے بیٹھی ہالے نے جھوٹی ناراضگی سے منہ پھلاتے ہوئے کہا۔

’بابا جان آپ تو ادھر آ کے ہمیں تو بھول ہی گئے ہیں۔ ‘

اشعر بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے شاہ ویز سے مُخاطب ہوا۔

’تو اور کیا۔  یار بھائی آپ سے یہ اُمید نہیں تھی۔  آپ کو چاہئیے تھا آپ ہمیں اپنا گاؤں دکھا کے لاتے۔  لیکن آپ تو خود ہی بابا جان کو ساتھ لیے اکیلے اکیلے نکل پڑے۔ میں تو بہت خوش تھا مجھے ایک پارٹنر مل گیا۔  لیکن آپ نے تو میری ساری اُمیدوں پہ جوس پھیر دیا۔ ‘

پانی کی جگہ جوس کہنے پہ سب کے لبوں پہ مُسکراہٹ بکھر گئی۔

’ آپ لوگ ہنس کیوں رہے ہیں یار۔ پانی ہلکا ہوتا ہے نا۔  لیکن انہوں نے میری اُمیدوں پہ بھاری میرا مطلب لیکوئیڈ چیز پھیری ہے نا۔ ‘

شاہ ویز اُس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا۔

’یار میں نے سوچا آپ لوگ تھکے ہوئے آئے ہو دس بارہ بجے اُٹھو گے۔  جہاں تک گاؤں دیکھنے کی بات ہے تو شام کو چلیں گے سب۔ ‘

اشعر اُس کا گال چومتے ہوئے آغا جان کو بھی اندر گھسیٹ لایا۔

’دیکھا میرے بھائی نے میری ساری اُمیدوں پہ پڑا جوس ہٹا دیا ہے۔  شاہ ویز بھائی زندہ باد۔  آغا جان پائندہ باد۔ ‘

سب ایک دفعہ پھر کھلکھلا اُٹھے۔

آغا جان مُسکراتے ہوئے بولے۔

’بھئی میں نے تو ابھی تمہارے لیے کچھ نہیں کیامجھے کس خوشی میں پائندہ باد کر رہے ہو؟‘

’ آپ ہی نے تو سب کیا ہے۔  آپ نے اللہ سے اتنا پیارا بیٹا مانگا۔  پھر آپ کے بیٹے نے اللہ سے اتنے ہینڈسم دو بیٹے مانگے۔ دیکھیں نا اگر آپ نہ ہوتے تو یہ آپ کے بیٹے نہ ہوتے ہم ان کے بیٹے نہ ہوتے۔ اس لیے آپ کے ہونے کی خوشی میں ہم آپ کو پائندہ باد کر رہے ہیں۔ ‘

یوسف نے ہنستے ہوئے ساتھ بیٹھے سکندر کے کندھے پہ بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔

’سکندر اس کو کیا کھلاتے رہے ہو؟تم تواس کی عمر میں اچھے بھلے شریف سے تھے۔ ‘

یوسف کی بات پہ اشعرنے چارپائی سے بندروں کی طرح چھلانگ لگائی۔

’بڑے پاپا یہ آپ نے کیا غضب کر دیا۔  اتنا سوہنا ہینڈسم مُنڈا آپ کو بدمعاش نظر آ رہا ہے۔ ؟؟؟ ‘

وہ یہ کہتے فوراً آ غا جان کے پاس گیا۔

’ آغا جان دیکھیں کیا میں آپ کو بدمعاش لگتا ہوں۔  ‘

آغا جان نے نفی میں گردن ہلائی تو وہ بی بی جان کے پاس آیا۔

’بی بی جان کیا میں آپ کو بد معاش لگتا ہوں ؟‘

مُسکراہٹ دبائے بی بی جان بولیں۔

’بالکل بھی نہیں۔ ‘

شہناز کے پاس جا کے اُن کے گرد اپنے دونوں بازو لپیٹتے ہوئے بولا۔

’پھُپھُودادو میری پیاری پھُپھودادوکیا میں آپ کو بدمعاش لگتا ہوں۔ ‘

نفی میں گردن ہلا کے کہا گیا۔

’بالکل بھی نہیں۔ ‘

پھر گھوم کے بر آمدے میں مریم اور زُباریہ کے پاس گیا۔

’ماما۔۔ ۔  بڑی ماما آپ دونوں کو کیا میں بد معاش لگتا ہوں ؟‘

زُباریہ نے نفی میں گردن ہلائی۔  مریم بولیں۔

’نہیں تو میرا بیٹا تو ہیرو لگتا ہے۔ ‘

مریم کی بات سُن کے ہالے نے اپنا لقمہ دینا ضروری سمجھا۔

’ہیرو مطلب زیرو۔ ‘

’فی الحال میں ایک بہت اہم مسئلے پہ ڈسکشن کر رہا ہوں اس لیے تمہیں جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔‘

وہ عمیر (یوسف کا بیٹا)اور سکندر سے بھی یہی سوال دُہراتے شاہ ویز کے پاس گیا۔

’یار بھائی کیا میں آپ کو بدمعاش لگتا ہوں ؟‘

’نہیں یار آپ تو میرے شہزادے ہو۔ ‘

اشعر نے خوش ہوتے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

ہالے بی بی جان کی گود سے سر اُٹھاتے ہوئے شاہ ویز سے مُخاطب ہوئی۔

’ بھیا! اگر وہ آپ کا شہزادہ تو پھر میں کیا ہوئی؟‘

شاہ ویز نے دونوں بازو پھلاتے ہوئے کہا۔

’ آپ میری شہزادی۔ ‘

وہ بھاگتے ہوئے شاہ ویز سے آ کے لپٹ گئی۔

’دیکھا حاضرین یہ ثابت ہو گیا کہ میں بدمعاش نہیں۔ لیکن انتہائی افسوس ناک بات ہے بڑے پاپا نے مجھ چھوٹے سے ننھے مُنھے سپاہی، دیس کے راہی کو بدمعاش بول دیا۔  اب وہ ثابت کریں اُنہوں نے ایسا کیوں بولا۔ ‘

یوسف، سکندر کو آنکھ مارتے ہوئے اشعر سے بولا۔

’یار غلطی ہو گئی معاف کر دے۔ ‘

’دیکھا۔۔ ۔  دیکھا۔۔ آپ نے بابا جان کو آنکھ ماری ہے۔ ‘

سب ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔

وہ ایسا افلاطون تھا اپنے ہوتے کسی اور کو بولنے کا موقع نہیں دیتا تھا۔

’اشعر اب بس کرو۔  آ جائیں سب ناشتہ تیار ہے۔ ‘

زُباریہ نے بر آمدے میں بچھے دستر خواں پہ برتن رکھتے ہوئے کہا۔

مریم نے زُباریہ سے پوچھا۔

’بھابھی انوشے نہیں اُٹھی۔ ‘

’اُسے سفر کی وجہ سے تھوڑی تھکاوٹ ہو گئی ہے۔  اس لیے میں نے اُسے جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ ‘

مریم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

خوش گوار ماحول میں سب ناشتہ کرنے لگے۔

٭٭

 

 

 

 

ایک مہینے بعد۔۔ ۔ !

حیات ولا برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔

اندر قدم رکھیں تو دائیں طرف بڑا سا اسٹیج گیندے کے پیلے پھولوں سے سجا دکھائی دے گا۔

مرد حضرات سفید کلف لگے سوٹوں میں ملبوس گلے میں پیلے دوپٹے ڈالے مصروف سے انداز میں اپنے اپنے ذمہ لگے کام کرتے دکھائی دیں گے۔

خواتین کی اکثریت زیادہ تر پیلے رنگ کے کپڑوں میں دکھائی دے گی۔

اُبٹن، مہندی اور پھولوں کی سوندی سوندی خوشبو فضا میں رچ کے ماحول کو چار چاند لگا رہی تھی۔

انوشے کے کمرے میں جھانکو تو وہ پیلا لہنگا اور چولی جسے خوبصورت سُرخ اور سبز گوٹے سے سجھایا ہوا تھا پہنے۔

آنکھوں میں کاجل، ماتھے پہ بندیا، ہونٹوں پہ سُرخی، کانوں میں جھُمکے، ہاتھوں میں پیلی اور سبز چوریوں کے ساتھ پھولوں کے گجرے، بالوں میں پراندہ ڈالے، دوپٹے کو سر پہ سیٹ کر کے پیلے اور سفید تازہ پھولوں سے بنا تاج سر پہ ٹکائے، پاؤں میں نفیس سا پیلا کھُسہ پہنے مکمل تیاری میں نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔

شاہ ویز کے کمرے میں جھانکو تو وہ سفید شلوار قمیض پہنے، پاؤں میں کھُسہ، کلائی میں گھڑی ڈالے بڑی ہوئی شیو اور گھنی مونچھوں کے ساتھ آج کچھ زیادہ ہی ہینڈ سم لگ رہا تھا۔

مایوں کی رسم شروع ہونے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔

ایک طرف سے دوپٹے کی چھاؤں میں خواتین کے گھیرے میں دُلہن کو اسٹیج تک لایا گیا۔

دوسری طرف مردوں کے ساتھ اپنی تمام تر وجاہت لیے شاہ ویز اسٹیج پہ آ کے انوشے کے پہلو میں بیٹھ گیا۔

حیا کی لالی دھنک رنگ اوڑھ کے انوشے کے چہرے پہ بکھر گئی۔

یہ منظر دیکھنے والے کھلکھلا اُٹھے۔

حویلی کی عورتیں مہندی لگانے کے لیے اسٹیج پہ آئیں۔ شاہ ویز نے اُنہیں ہاتھ اُٹھا کے روک دیا۔

’دیکھیں بھئی، سب سے پہلے دُلہن اور دُلہا ایک دوسرے کو مہندی لگائیں گے پھر کوئی اور لگائے گا۔ ‘

فضا اوئے ہوئے کی آوازوں سے گونج اُٹھی۔

وجیہہ نے اُسے تنگ کرنے کے لیے کہا۔

’نہ بھئی ایسا تو بالکل بھی نہیں چلے گا۔  پہلے بڑے لگائیں گے پھر بعد میں تم دونوں لگاتے رہنا ایک دوسرے کو۔ ‘

شاہ ویز نے ہاتھ اُٹھا کے حتمی اندازمیں کہا۔

’دیکھیں پھو پھو۔۔ !!! اگر ایسا ہے تو نہ میں خود لگواؤں گا مہندی نہ انوشے کو لگوانے دوں گا۔ ‘

احسن نے فقرہ اُچھالا۔

’شاہ ویز بیٹا لگے رہو۔۔ ۔  ہمیں تو اپنے دل کے ارمان پورے کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ ‘

یوسف نے جوابی فقرہ اُچھالا۔

’تو اب کر لو نا۔۔ ۔  ہماری طرف سے اجازت ہے۔ ‘

’رہنے دو یار اب اس عمر میں کرتا اچھا لگوں گا؟‘

سکندر نے مُسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔

’تو پہلے کون سا اچھے لگتے ہو۔ ‘

ہال میں قہقہے گونج اُٹھے۔

پہلے سکندر اور انوشے نے ایک دوسرے کو مہندی لگائی۔

مہندی ہے رچنے والی

ہاتھوں میں گہری لالی

کہیں سکھیاں، اب کلیاں

ہاتھوں میں کھلنے والی ہیں

تیرے من کو جیون کو

نئی خوشیاں ملنے والی ہیں

پھر باقی سب نے مہندی لگا کے رسم پوری کی۔

مہندی کی رسم کے بعد ہال میں ایک طرف لڑکیاں ڈھولک تھام کے بیٹھ گئیں اور اُن کے سامنے لڑکے۔

مردوں کی طرف سے آواز آئی۔

’چلو بھئی ہو جاؤ شروع لیڈیز فرسٹ۔۔ ۔ ‘

فضا میں ڈھولک کی آواز گونجنے لگی۔

’کالا ڈوریا کُنڈے نال اڑیا اوئے

کہ چھوٹا دیورا پابھی نال لڑیا اوئے ‘

یہ بول سُننے کے بعد اشعر اپنی جگہ پہ کھڑا ہو کے چلایا۔

’ایک منٹ رکو رکو یہ جھوٹ ہے سفید جھوٹ۔ ‘

لڑکیاں اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔

زُہراں بولیں۔

’اشعر بیٹے کیا جھوٹ ہے ؟‘

وہ افسوس میں سر ہلاتا ہوا بولا۔

’چھوٹی دادویہ کہہ رہی ہیں چھوٹا دیورا پابھی نال لڑیا اوئے۔ میں کب لڑا ہوں۔  سب کے سامنے جھوٹا الزام لگا رہی ہیں۔ ‘

ہال میں پھر قہقہے گونج اُٹھے۔

بھئی اشعر پہ جھوٹا الزام لگایا گیا تھا وہ کیسے جانے دیتا؟ بس وہ اب شروع ہو چُکا تھا اُس پہ الزام لگانے کی وجہ جاننے کے لیے۔

ذرا اسٹیج پہ نظر دوڑاؤ تو اُدھر دُلہا دُلہن اکیلے بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔

شاہ ویز نے چُپکے سے انوشے کا ہاتھ تھام کے اُس کے کان میں سرگوشی کی۔

’بہت بُرا ہوں میں۔  ابھی بھی وقت ہے سوچ لویہ نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔ ‘

انوشے نے پلکوں کی جھالر اُٹھا کے اُس کی آنکھوں میں دیکھا۔

شاہ ویز کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے مُسکرا دی۔

چہار سُو محبت کے دئیے جلنے لگے۔۔ ۔۔ ۔۔ !

دھیرے سے لرزتی پلکوں کے ساتھ اُس کے کان میں سرگوشی کی۔

’شاہ جی۔۔ ۔ ! آپ کے ساتھ پہ مجھے اگر ہزار دفعہ بھی پچھتانا پڑے توہر دفعہ یہ پچھتاوا مجھے دل وجان سے قبول ہو گا۔ ‘

جواباً شاہ ویز نے آنکھوں میں بے پناہ محبت لیے اُسے دیکھا۔ حیا سے انوشے کی پلکوں کی جھالر گرنے اُٹھنے لگی۔

عمیر نے اسٹیج پہ نظر پڑنے پہ مُسکراتے ہوئے یہ منظر ہمیشہ کے لیے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔

٭٭٭

تشکر: Ideal Ideaz،کتاب ایپ

www.idealideaz.com

www.kitaabapp.com

ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل