FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

دھُوپ کے پگھلنے تک

 

حصہ پنجم

 

               امجد جاوید

 

 

 

 

 

جعفر اپنے آفس میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ جب سے مائرہ یہاں سے ہو کر گئی ہے، اس کی اپنی ذات میں بہت تبدیلی آ گئی تھی۔ اسے یہ تو کنفرم ہو گیا تھا کہ مائرہ اس کے بلاوے سے زیادہ فہد کی کشش میں وہاں تک کھنچی چلی آئی ہے۔ وہ یہ سب جانتے ہوئے بھی مایوس نہیں تھا، اسے ہلکا سا دکھ ہو رہا تھا کہ جا کر اس نے فون بھی نہیں کیا تھا۔ تب اس نے سوچا اگر اس نے فون نہیں کیا تو وہ خود کر لے۔ یہ سوچ کر وہ مسکرا دیا۔ اس نے اپنا فون اٹھایا اور مائرہ کے نمبر ڈائل کر دئیے۔ لمحوں میں اس سے رابطہ ہو گیا۔ حال احوال کے بعد اس نے پوچھا

’’کیسا لگا تمہیں فہد کا گاؤں ؟‘‘ نا چاہتے ہوئے بھی اس کے لبوں سے نکل گیا تو مائرہ نے کچھ بھی محسوس نہ کرتے ہوئے پر جوش انداز میں کہا

’’میں سوچ رہی ہوں جعفر کہ وہاں کچھ دن رہ کر زبردست سی رپورٹ بناؤں۔ ہم ترقی کی بات کرتے ہیں ، لیکن کہاں ہے ترقی؟ میں اس علاقے کو مثال کے طور پر پیش کروں گی۔ وہاں انسان بستے ہیں ، کیا جدید دنیا کی سہولتوں پر ان کا کوئی حق نہیں اب دیکھو پیسے کے زور پر وہ ایم این اے نے اپنا ہاں تو فون ٹاور لگوا لیا اور دوسرے عوام اس سہولت سے محروم ہیں۔ اسی طرح باقی معاملات میں ہے۔ ‘‘

’’تمہیں یاد ہے مائرہ۔ مجھے تم نے یہ بات پہلے بھی کہی تھی لیکن اس وقت تمہارے لہجے میں یہ شدت نہیں تھی۔ ہمارا میڈیا بھی ابھی تک عوام کے ان مسائل تک نہیں پہنچ سکا جس پر شعور دینا چاہئے ؟خیر، تم نے تبصرہ نہیں کیا؟‘‘ جعفر نے خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا تو مائرہ نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا

’’جعفر، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے۔ انسان سامنے پڑی ہوئی شے کو نہیں سمجھ پاتا۔ یونہی خواہ مخواہ الجھن کا شکار رہتا ہے۔ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ ‘‘

’’تم کہنا کیا چاہ رہی ہو۔ کیا الجھن ہے۔ کسے سمجھ نہیں پاتی ہو؟‘‘ جعفر نے پوچھا

’’بعض اوقات حالات ایسے بن جاتے ہیں۔ جس سے ہمارے اپنے ہی بد گمان ہو جاتے ہیں۔ مجھے یہ بتاؤ۔ ہمیں اپنوں کی بد گمانی دور کر دینی چاہیے نا؟‘‘ جواب دینے کی بجائے اس نے سوال کر دیا۔ جس پر جعفر بولا

’’بالکل۔ !کیوں نہیں اپنوں کے درمیان الجھن نہیں ہونی چاہیے۔ کوئی بھی تعلق ہو اس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے۔ اسے صاف ہونا چاہئے۔ ‘‘

’’میرا اور تمہارا تعلق کیا ہے۔ تم میرے بہت اچھے دوست ہو۔ اس کے علاوہ ہمارے درمیان کوئی تعلق نہیں اور ۔۔۔‘‘ مائرہ نے کہنا چاہا تو جعفر تیزی سے بات کاٹ کر شکوہ بھرے لہجے میں بولا

’’نہیں مائرہ ہم فقط دوست ہی نہیں کچھ اور بھی ہیں۔ یہ بات تمہیں اب تک سمجھ آ جانی چاہئے تھی۔ ضروری تو نہیں ہوتا کہ اظہار ہی کیا جائے۔ ‘‘

’’کیوں۔ !کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمارے درمیان کچھ اور تعلق اظہار مطلب؟‘‘ مائرہ نے حیرت سے پوچھا

’’ہاں مائرہ۔ !میں تمہیں چاہتا ہوں۔ اور میں تمہارے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ ‘‘ جعفر نے ہمت کر کے اظہار کر دیا تو مائرہ نے چونک کر حیرت بھرے لہجے میں پوچھا

’’تم جعفریہ سوچ بھی کیسے سکتے ہو کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں فہد سے محبت کرتی ہوں ، اسے چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’مگر میں جانتا ہوں کہ وہ تمہیں کبھی نہیں اپنائے گا۔ وہ اب لوٹ کر کبھی واپس نہیں آئے گا۔ اس نے اپنی الگ سے دنیا بنا لی ہے۔ یہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ آئی ہو۔ ‘‘ جعفر نے اسے بتایا تو وہ غصے میں بولی

’’نہیں جعفر، تم فہد کی بات نہیں اپنی بات کہو، میں تو تمہیں ایک دوست سمجھتی تھی اور تم کیا سوچتے رہے، تم نے میرے اعتماد کو دھوکا دیا۔ تم وہ جعفر نہیں ہو، اب تم مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا۔ میں نہیں چاہتی کہ میں ۔۔۔‘‘

وہ کہہ نہیں پائی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جعفر بے بسی سے اس کی طرف سے رونے کی آواز سنتا رہا۔ اچانک فون بند ہو گیا۔ اس نے فون کو بے بسی سے دیکھا پھر ایک طرف اچھال دیا۔ وہ بہت مایوس ہو گیا تھا۔

رات گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔ دھیمی روشنی میں مائرہ اپنے بیڈ روم سوچتی چلی جا رہی تھی۔ اسے جعفر کا جذباتی پن یاد آ رہا تھا۔

’’ہاں مائرہ۔ !میں تمہیں چاہتا ہوں۔ اور میں تمہارے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتا۔۔۔مگر میں جانتا ہوں کہ وہ تمہیں کبھی نہیں اپنائے گا۔ وہ اب لوٹ کر کبھی واپس نہیں آئے گا۔ اس نے اپنی الگ سے دنیا بنا لی ہے۔ ۔۔۔میں جھوٹ نہیں بولتا اور پھر تم سے تو غلط بیانی کر ہی نہیں سکتا یہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ آئی ہو۔ ‘‘

مائرہ نے اذیت سے اپنے بالوں میں انگلیاں پھیریں اور بڑبڑاتے ہوئے بولی

’’یہ تم کیا سوچ رہے ہو جعفر۔ !مجھے تو فہد کا انتظار کرنا ہے۔ اور تم مجھے یقین ہے۔ وہ لوٹ کر ضرور آئے گا اور اگر نہ آیا تو ؟جعفر کی بات ٹھیک ہو ئی تو کیا میں جعفر جیسا دوست بھی گنوا بیٹھوں گی۔ یا خدایا۔ !میں کس دوراہے پر آن کھڑی ہوں۔ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ کیا مجھے اپنا آپ حالات کے دھارے پر چھوڑ دینا چاہئے۔ مجھے کوئی نہ کوئی تو فیصلہ کرنا ہو گا، میں فہد کو میں چاہتی ہوں اور جعفر مجھے، میں کیا کروں ، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا؟‘‘

اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنی کنپٹیوں کو دبایا اور پھر بے بس سی ہو کر اپنے بیڈ پر ڈھیر ہو گئی۔

جعفر اپنی سرکاری رہائش گاہ میں اپنے بیڈ پر پڑا سوچتا چلا جا رہا تھا۔ اسے یہ تو پتہ تھا کہ مائرہ ناراض ہو گئی ہے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کا اب رد عمل کیا ہو گا۔ وہ یہ سوچ کر ہی کرب سے گذر جاتا کہ وہ اس کا ساتھ چھوڑ جائے گی۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا، اس نے کئی بار نمبر بھی ملائے لیکن ہر بار رک گیا۔ تبھی اسے کچھ نہ سوجھا تو اس نے ملک نعیم کے نمبر ملا لئے۔ رابطہ ہو جانے پر جعفر نے پوچھا

’’سنائیے کیا حال ہے؟ کیسے چل رہی ہے آپ کی سیاست اور کیا کہتا ہے آپ کا علاقہ ؟

’’سب ٹھیک ہے اور بہت اچھا ہے۔ چوہدری کے خلاف جو نفرت ہے۔ لوگ اسی وجہ سے میرے قریب آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور میں انہیں اپنے قریب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ‘‘

ملک نعیم نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو جعفر بولا

’’ہاں یہ جو جاگیرداری سسٹم میں لوگ ہیں نا، یہ فقط چند لوگوں کو نواز کر اپنا مطلب نکالتے ہیں۔ دراصل وہ حاکمیت چاہتے ہیں۔ ایسی حاکمیت جس میں کم از کم عوام کی بھلائی نہیں ہوتی۔ آپ کا علاقہ تو زیادہ تر دیہاتی ہے۔ ‘‘

’’ہاں۔ ! زیادہ دیہاتی ہے، میں کام کر رہا ہوں وہاں پر، فہد کی وجہ سے میں جلدی کامیابی حاصل کر لوں گا۔ ‘ ‘

ملک نعیم نے حوصلہ افزا انداز میں کہا تو جعفر بولا

’’اس کی وجہ سے کیسے، وہ کیسے ؟‘‘

’’اس نے بڑی تیزی سے اپنے گاؤں قسمت پور اور پھر اردگرد کے علاقے میں اپنا اثرورسوخ بنایا ہے۔ گو چوہدری نے جو اپنا خوف برسوں سے لوگوں پر مسلط کیا ہے۔ اسے ختم کرنے میں کچھ تو وقت لگے گا۔ وہ جو یہاں میرے حامی اور سپورٹرتھے۔ اس کے لیے بھی وہ بہت اہم ثابت ہو رہا ہے۔ ‘‘ ملک نعیم نے بتایا

’’یہ تو بہت اچھی بات ہے میں نے کہا تھا نا کہ وہ آپ کے لیے بہت اہم ہو گا۔ ‘‘ جعفر نے کہارو ملک نعیم بولا ’’اصل میں یہ ایک نئی لہر کی وجہ سے بھی ہے لوگ سابقہ چہروں کو ان کے کاموں کو دیکھ کر اُکتا چکے ہیں ، وہ نئی سوچ چاہتے ہیں ، نئی قیادت چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’وہ اس لئے ملک صاحب کہ نسل نئی آ گئی ہے، انہیں وقت کی تبدیلی کا شعور ہے، وہ اپنے اردگرد بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ‘‘ جعفر نے تبصرہ کیا رو ملک نعیم بولا

’’اصل میں یہ وقت ہی تو ہے جو سب کچھ بدل دیتا ہے لوگ کب تک ان کرپٹ سیاست دانوں کو مقدس گائے بنا کر رکھیں جب وہ عوام کے لیے کچھ نہیں کریں گے تو عوام بھی انہیں ووٹ نہیں دیں گی۔ ‘‘

’’یہ تبدیلی تو ایک فطری عمل ہے۔ ‘‘ وہ بولا

’’بس اب تو الیکشن کا انتظار ہے مجھے یقین ہے کہ اس سے پہلے سب ٹھیک کر لوں گا۔ ‘‘ ملک نعیم نے کہا

’’میرے لائق جو بھی ہو۔ تو مجھے بتائیے گا۔ اچھا اب اجازت۔ اللہ حافظ۔ ‘‘ جعفر نے اچانک کہا

’’ضرور بتاؤ گا۔ اللہ حافظ‘‘ ملک نے کہا تو جعفر نے فون بند کر دیا۔ اس نے تو سوچا تھا کہ کچھ دل بہل جائے گا مگر وہاں باتیں ہی دوسری شروع ہو گئیں تھیں۔

وہ اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھا سوچ رہا تھا۔ اسے بہت سارے خیال آ رہے تھے۔ اسے فہد کی بات یاد آ رہی تھی کہ مائرہ کا بہت خیال رکھنا، میرے جانے کے بعد سب کچھ اطمینان سے بتا دینا کہ میرا گاؤں جانا کتنا ضروری ہے۔ بس وعدہ کرو، جو تمہیں کہا ہے وہی کرو گے۔ پھر اسے مائرہ کی بات یاد آئی جو اسے بہت دکھ دے ہی تھی کہ تم جعفریہ سوچ بھی کیسے سکتے ہو، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں فہد سے محبت کرتی ہوں ، اسے چاہتی ہوں۔ وہ اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا ’’مائرہ سے اپنے من کی بات کہہ کر، اپنے جذبات کا اظہار کر کے، میں نے کہیں غلطی تو نہیں کی؟ وہ کیا سوچے گی۔ یہی کہ میں نے اس کی دوستی کا غلط مطلب لیا۔ میں جو اس کے خواب دیکھتا رہا ہوں۔ اس کی چاہت کو اپنے دل میں لیے پھرتا ہوں ، کیا میں غلط ہوں یا فہد کی چاہت میں بھیگتی مائرہ کا انتظار کرتے ہوئے وقت ضائع کر رہا ہوں۔ مجھے کیا کرنا چاہئے کوئی فیصلہ کر لینا چاہئے یا پھر۔ خود کو حالات پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ‘‘

اس نے تلخی سے آنکھیں موند کر صوفے سے ٹیک لگا لی۔ وہ بہت دل برداشتہ ہو چکا تھا۔

جعفر صوفے پر نیم دراز نجانے کب سو گیا تھا۔ اس کے منہ پر کتاب تھی۔ رات کا نجانے کون سا پہر تھا کہ اس کے فون کی بیل بجی۔ اس نے بے زاری سے فون اٹھا کر اسکرین دیکھا تو یوں چونکا کہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ کال رسیو کر کے جلدی سے بولا

’’یس مائرہ، تم، اس وقت؟‘‘

’’ہاں۔ !میں اور کیا اس وقت میں تمہیں فون نہیں کر سکتی۔ ‘‘ مائرہ نے عام سے لہجے میں کہا

’’ایسی تو کوئی بات نہیں۔ بس وہ تم بھی جانتی ہو۔ ‘‘ اس نے الجھتے ہوئے جواب دیا تو وہ سنجیدگی سے بولی

’’دیکھو۔ !ہم بہت اچھے دوست ہیں اور دوستوں میں غلط فہمیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اچھے دوست تو وہی ہوتے ہیں نا، اپنی غلط فہمیاں دور کر لیں۔ اس میں کوئی شرمندگی والی بات نہیں ہے۔ ‘‘

’’کیا چاہتی ہو تم؟‘‘ جعفر نے اسی الجھن میں پوچھا تو مائرہ نے مضبوط لہجے میں کہا

’’کچھ نہیں۔ بس اتنا چاہتی ہوں کہ ہم دونوں نے جو اپنے دل میں چھپا چھپا کر باتیں رکھی ہوئی ہیں ، وہ ہمیں ایک دوسرے سے کہہ دینی چاہئیں۔ ہمارے درمیان کوئی نیا تعلق بنتا ہے یا نہیں۔ اہمیت اس کی نہیں بلکہ ہمارے لیے اہم یہ ہونا چاہئے کہ ہماری دوستی پہ کوئی حرف نہ آئے۔ ‘‘

’’اگر تم ایسا سوچتی ہو تو پھر میرے ضمیر پر جو اتنا بوجھ ہے وہ اتر جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ آخر ہمارے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ ‘‘ جعفر نے سنجیدگی سے کہا

’’جعفر۔ !میں تم سے آج طے نہیں کروں گی۔ بلکہ کبھی بھی نہیں طے نہیں کروں گی۔ ہم اسے وقت پر چھوڑ دیتے ہیں پلیز۔۔۔‘‘ اس نے منّت بھرے انداز میں کہا تو جعفر سکون سے بولا

’’اوکے، اب یہ طے ہے کہ ہم نے کبھی آپس میں ایسی کوئی بات ہی نہیں کی تھی۔ اور سناؤ کیسی ہو۔ ‘‘

’’ اب میں پر سکون ہوں۔ اور سکون سے سو پاؤں گی۔ باقی باتیں صبح کریں گے۔ ‘‘ مائرہ نے کہا اور فون بند کر دیا۔ جعفر نے فون ایک طرف رکھا اور بیڈ پرجا لیٹا۔ بات کر کے وہ اچھا محسوس کر رہا تھا۔

٭٭

 

صبح کی نماز کے بعد ماسٹر دین محمد گلی میں چلتا آ رہا تھا۔ ایسے میں سامنے سے ایک عورت آ گئی۔ وہ قریب آ کر رکی جیسے وہ اس سے بات کرنا چاہ رہی ہو۔ ماسٹر دین محمد رک گیا تو وہ عورت بولی

’’ماسٹر جی۔ کیا حال ہے آپ کا؟‘‘

’’میں ٹھیک ہوں بہن۔ تو سنا۔ گھر میں سب ٹھیک ہیں نا۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے سکون سے پوچھا تو وہ عورت بولی ’’سب ٹھیک ہیں۔ ویسے ماسٹر جی۔ میں کئی دنوں سے سوچ رہی تھی کہ آپ کی طرف آؤں۔ میں نے آپ سے ایک بات کرنا تھی۔ ‘‘

’’خیر تو ہے نا بہن۔ ایسی کیا بات کرنا تھی۔ ‘‘ اس نے پوچھا تو وہ عورت شکوہ بھرے لہجے میں بولی

’’دیکھیں نا۔ میں تو وہی کہوں گی۔ جو آپ کے فائدے کی بات ہو۔ گاؤں میں لوگ بڑی باتیں بنا رہے ہیں۔ ایسا کچھ کہتے ہیں کہ بس توبہ ہی بھلی۔ ‘‘

’’ایسا کیا کہتے ہیں ؟‘‘ ماسٹر دین محمد نے حیرت سے پوچھا تو اس عورت نے انتہائی طنزیہ لہجے میں کہا

’’یہی کہ ایک جوان جہان لڑکا آپ کے گھر میں رہتا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اور اگر اسے رکھنا آپ کی مجبوری ہے کہ وہ آپ باپ بیٹی کو کھلاتا پلاتا ہے، روپیہ پیسہ دیتا ہے تو پھر آپ کیوں نہیں فہد کی شادی سلمٰی سے کر دیتے؟‘‘

یہ سن کر ماسٹر دین محمد چونک گیا۔ اس نے خود پر قابو رکھا اور بڑے تحمل سے پوچھا

’’ایسا کون کہتا ہے ؟‘‘

’’سارے گاؤں والے۔ کسی کی زبان تو نہیں روکی جا سکتی۔ ویسے آپ پریشان نہ ہونا بھی نہیں چاہیے، یہ صلاح ہے بھی ٹھیک، نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری۔ رنگ بھی چوکھا آئے۔ کوئی خرچہ نہیں ، اور بیٹی بیاہ دو۔ فہد گھر جوائی بھی رہے گا۔ ‘‘ اس عورت کے لہجے میں طنز کے ساتھ حقارت بھی تھی۔ تبھی ماسٹر دین محمد نے تحمل سے جواب دیا

’’یہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں بالکل غلط کہہ رہے ہیں۔ ‘‘

’’دیکھیں نا ماسٹر جی آپ سیانے بندے ہیں ، بھلا بتائیں جوان جہان لڑکی گھر میں ہے تو پھر جب ایک جوان جہان لڑکا گھر میں جب چاہے آئے، جب چاہے جائے کوئی روک ٹوک نہیں تو پھر اس پر اگر لوگ باتیں بنائیں ، وہ کیسے غلط ہو گئیں بھلا؟ ‘‘

’’فہد میرے بیٹوں کی طرح ہے۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے خود پر قابو رکھتے ہوئے کہا حالانکہ اسے شدید غصہ آ رہا تھا تبھی وہ عورت تنک کر بولی

’’ ہو گا، پر سگا تو نہیں ہے، اب دیکھیں نا، اس کا کون سا اپنا گھر نہیں ہے پھر کیوں دن رات آپ کے گھر میں پڑا رہتا ہے۔ اب یہ مت کہئے گا کہ وہ سلمی پر اپنی دولت نہیں وار رہا۔ ‘‘

’’بہت برا کہہ رہے ہیں لوگ۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے کہا

’’بالکل جی جب وہ اکھٹے گاؤں میں اکیلے ادھر اُدھر گھومیں پھریں گے ساتھ ساتھ دکھائی دیں گے تو یہی سوچیں گے نا کہ ان میں کوئی خاص ہی تعلق ہے۔ ‘‘ اس عورت نے ماسٹر کے بدلتے چہرے کو دیکھا اور پھر جلدی سے بولی، ’’خیر۔ ! اس وقت تو مجھے جلدی ہے میں پھر آؤں گی گھر، تب تفصیل سے بات کروں گی۔ اللہ حافظ۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی۔ ماسٹر چند لمحے وہیں سن کھڑا رہا پھر قدم بڑھاتا ہوا چل دیا۔ اس کی چال میں قطعاً اعتماد نہیں رہا تھا۔

ماسٹر دین محمد صحن میں آ کر چارپائی پر ڈھے جانے والے انداز میں بیٹھا۔ سلمی کچن میں تھی، وہ پانی کا گلاس لے کر آئی اور وہ اسے تھماتے ہوئے پوچھا

’’ابا جی۔ ناشتہ لاؤں آپ کے لیے؟‘‘

’’نہیں پتر۔ !تو بس میرے لیے ایک چائے کی پیالی لے آ۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے کہا توسلمٰی نے گہری نگاہوں سے دیکھا اور پھر دھیرے سے اپنے باپ کے پاس بیٹھ کر پوچھا

’’ابا جی، کیا بات ہے، آپ نے ٹھیک طرح سے بات نہیں کی، آپ کا لہجہ آپ کا ساتھ نہیں دے رہا، کیا ہوا ؟‘‘

’’کچھ نہیں پتر۔ بعض اوقات انسان ایسے موڑ پر آن کھڑا ہوتا ہے جہاں پر لفظ گنگ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کہنے والی بات بھی کہی نہیں جا سکتی۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا توسلمٰی بولی

’’اباجی۔ !ایسی کون سی بات ہے جو آپ مجھ سے بھی کہہ نہیں پا رہے ہیں۔ مجھے نہیں یاد۔ پہلے کبھی ایسا وقت ہم پر آیا ہو کہ ہم بات ہی نہ کر سکیں ؟‘‘

’’یہ بات ہی ایسی ہے پتر۔ !بتانا بھی چاہتا ہوں لیکن کہہ نہیں پا رہا ہوں۔ ‘‘ وہ بے چارگی سے بولا

’’آپ کہہ دیں اور آپ کو یہ بات کہنا ہو گی۔ کیا میں آپ کے کرب کا اندازہ نہیں کر سکتی؟‘‘ سلمی نے دکھی لہجے میں کہا توماسٹر دین محمد بہت مشکل سے بولا، ’’ تو پھر سنو۔ !‘‘ یہ کہہ کر اس نے عورت والی بات سلمی سے کہہ دی۔ سلمی نے بڑے تحمل سے بات سن کر کہا

’’اباجی۔ !جب سے فہد آیا ہے۔ مجھے اسی بات کا ڈر تھا۔ آپ فہد سے کچھ نہیں کہیں گے۔ میں خود اس سے بات کر لوں گی۔ ‘‘

’’کیا کہو گی اس سے، مجھے اس کی ناراضگی کا ڈر نہیں لیکن ان حالات میں اس کا دل نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ ہمارے سوا اس کا ہے کون یہاں پر۔ وہ دشمنوں سے نبرد آز ما ہے اس وقت۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے سسکتے ہوئے کہا توسلمٰی نے اس حوصلہ دینے والے انداز میں کہا

’’میں سمجھتی ہوں اباجی۔ مجھے کیا کرنا میں آپ کے لیے ناشتہ لاتی ہوں۔ ‘‘سلمٰی یہ کہتے ہوئے اٹھ گئی اور ماسٹر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ یہ ان کے لئے ایک نیا امتحان تھا۔

سہ پہر کا وقت تھا۔ ملک نعیم کے ہاں سے واپسی پر فہد ماسٹر دین محمد کو خوشخبری دینا چاہتا تھا۔ وہ گھر میں آیا تو سنسان گھر دیکھ کر ایک لمحے کو ٹھٹکا۔ وہ انگلی میں کار کی چابی گھوما رہا تھا، اسے روک کراس نے سنسان دالان کو دیکھا۔ تبھی اجنبی چہرہ لئے سلمٰی اندر سے دالان میں آئی۔ فہد طویل سانس لے کر دالان میں چلا گیا پھر کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا

’’یہ آج معمول سے ہٹ کر اتنی خاموشی کیوں ہے۔ استادجی کدھر ہیں ؟‘‘

’’آ گئے آپ؟‘‘سلمٰی نے اجنبی لہجے میں پوچھا

’’ تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ اور یہ تم کس اجنبی لہجے میں مجھ سے بات کر رہی ہو؟‘‘ فہد نے چونک کر پوچھا توسلمٰی نے اسی کھردرے لہجے میں جواب دیا

’’فہد۔ !میں نے آپ سے کہا تھا ناکہ میں سب کچھ برداشت کر سکتی ہوں۔ لیکن جب بات میری عزت تک آئے گی۔ وہ میں برداشت نہیں کر پاؤں گی۔ ‘‘

’’تم کیا کہنا چاہتی ہو۔ صاف لفظوں میں کہو؟‘‘ فہد نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے پوچھا تو سلمٰی بولی

’’یہی کہ آپ اب اس گھر میں مت آیا کریں۔ ‘‘

اس نے بڑی مشکل سے کہا، جس پر فہد نے اسے غور سے دیکھا اور بڑے تحمل سے کہا

’’سلمٰی۔ !میں یہ نہیں پوچھوں گا کہ کیوں ؟گھر تمہارا ہے، تم کہہ رہی ہو لیکن بس مجھے اتنا بتا دو، کیا استاد جی بھی ایسا ہی چاہتے ہیں ؟‘‘

’’ہاں۔ !وہ بھی چاہتے ہیں۔ ‘‘ اس نے بہ مشکل کہا تو فہد چند لمحے خاموشی کے بعد پوچھا

’’سلمٰی کیا میں سمجھ لوں کہ وہ جنگ جو ہم لڑ رہے تھے، کیا اب مجھے وہ جنگ تنہا لڑنا ہو گی۔ ‘‘

’’نہیں۔ !میں آپ کے ساتھ برابر کھڑی ہوں اس وقت تک، جب تک ہمیں کامیابی نہیں مل جاتی یا پھر میرا وجود ختم ہو جائے گا۔ ‘‘

’’میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ میں جانتا ہوں تعلق کے لیے ملنا ضروری تو نہیں ہوتا۔ ‘‘ فہد نے مسکراتے ہوئے کہا اور اٹھ گیا۔ اس نے لمحہ بھر کو اس کی طرف بھر پور نگاہوں سے دیکھا اور مڑ کر چلا گیا۔ سلمٰی نے ایک بار ہاتھ بڑھا کر اسے روکنا چاہا لیکن پھر خود پر قابو پا کر رک گئی۔ فہد بڑھتا ہوا دروازہ پارکر گیا تو سلمٰی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جبکہ فہد سلگتے ہوئے دماغ کے ساتھ کار میں آ بیٹھا۔

فہد اپنے گھر میں بستر پر لیٹا بہت افسردگی سے سوچتا چلا جا رہا تھا کہ یہ سلمی کو کیا ہوا؟ اس کا لہجہ اس قدر اجنبی کیوں ہو گیا تھا۔ کسی نے سازش کی ہے یا کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے ؟ کیا ہوا اس کو، کم از کم مجھے بتانا تو چاہئے تھا کہ آخر ہوا کیا ہے؟ کسی نے کچھ کہا۔ کوئی بات ہوئی؟ معلوم تو ہونا چاہئے۔ اس کے خیالات کا تانتا چھاکے کے آ جانے سے ٹوٹ گیا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا اور آتے ہی بولا

’’اُو فہد، یار دیکھو اپنا فون چلا کر، وہ موبائل فون چالو ہو گیا ہے ہمارے علاقے میں۔ ‘‘

’’اچھا کب؟‘‘ فہد نے کہا اور قریب پڑا فون اٹھا کر اسے آن کر دیا۔ سگنل آ رہے تھے۔ اس دوران چھاکا بتاتا چلا گیا۔

’’ابھی میں آ رہا تھا تو لوگ باتیں کر رہے تھے۔ ٹارو والے اسے چلا گئے ہیں ، یار مجھے بھی چلانا سکھا دے۔ ‘‘

’’ہاں یار آ گئے ہیں سگنل۔ چل تو چائے بنا۔ پھر میں تجھے بتاتا ہوں۔ یہ کیسے چلتا ہے۔ ‘‘ فہد نے کہا تو چھاکا کمرے سے چلا گیا۔ فہد نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر مسکراتے ہوئے نمبر پش کرنے لگا۔

اس وقت مائرہ اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی سوچوں میں گم تھی۔ اس کا فون بجا ہے تو اس نے دیکھا، پھر چونک کر فون ریسیوکر لیا۔

’’ہیلو۔ !فہد تم کہاں سے بات کر رہے ہو۔ ‘‘

’’اپنے گاؤں قسمت نگرسے مائرہ۔ !میرے گاؤں سے نکل کر ہوا میں سرسرانے والی پہلی آواز تمہارے نام ہے۔ ‘‘ فہد نے خوشگوار موڈ میں کہا تو مائرہ ہنستے ہوئے بولی

’’اُوہ۔ !فون سروس شروع ہو گئی وہاں ، اچھا لگا مجھے بہت اچھا لگا۔ تم نے مجھے کال کی۔ ‘‘

’’کچھ ایسی ہی احساس میں بھی محسوس کر رہا ہوں۔ اعتراف کرتا ہوں۔ میں نے تمہارے یہاں آ کر چلے جانے کو بہت مس کیا۔ ‘‘ فہد نے کہا تو مائرہ ایک دم سے کھلتے ہوئے بولی

’’واؤ سچی فہد۔ !ویسے مجھے بھی بڑی تشنگی محسوس ہوئی۔ میں اسے بیان نہیں کر سکتی۔ تمہارے پاس آئی بھی اور تم سے اتنی ڈھیر ساری باتیں بھی نہ کر سکی۔ اینی ہاؤکیسے ہو تم؟‘‘

’’مائرہ۔ !کیا تم کسی ایسے انسان کے احساسات کا تعین کر سکتی ہو جیسے صرف اپنی ذات کو منوانا ہو بلکہ اسے اپنوں کے وقار کو بھی تسلیم کرانا ہو۔ شاید تم اسے دماغی خلل قرار دو۔ مگر سچ یہی ہے۔ من کی دنیا کے تقاضے عجیب ہوتے ہیں ہے نا، میں بس ایسا ہی ہوں۔ ‘‘ فہد نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا تو مائرہ بولی

’’پہلے تو نہیں لیکن اب سمجھ رہی ہوں۔ تم نے خود اپنے آپ کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ تو اس کی ایک معقول وجہ ہے تمہارے پاس۔ میں سمجھتی ہوں۔ ‘‘

’’تم سمجھتی گئی ہو مائرہ۔ ! میرے لیے اتنا ہی بہت ہے۔ میں ایسے حالات میں گھرا ہوا ہوں ، یہ تو طے ہے کہ میں جنگ ہار کر یہاں سے بھاگنے والا نہیں ہوں۔ بلکہ خود کو فنا کر دینے تک سینہ سپررہنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ ‘‘ فہد کے لہجے میں وہی عزم تھا، جسے وہ پہلے بھی محسوس کر چکی تھی۔ اس لئے سکون سے پوچھا

’’کیا میں تمہارے لیے کچھ کر سکتی ہوں ؟‘‘

’’ہاں۔ !بہت کچھ۔ اتنا کہ جتنا کوئی بھی نہ کر سکے۔ بس تم اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔ یہی میرے لیے بہت ہے۔ ‘‘ فہد نے خلوص سے کہا تو وہ اس کی بات نظر انداز کر کے بولی

’’فہد میں نے ایک پلان بنایا ہے۔ وہ میں نے جعفر سے بھی ڈسکس کیا ہے۔ اس بارے میں چند دن بعد میں تمہیں بتاؤں گی۔ ‘‘ اس نے جذباتی انداز میں یوں کہا جیسے رو دے گی۔ پھر خود پر قابو پا کر بولی، ’’ اچھا میں اب فون بند کرتی ہوں میں بعد میں کروں گی۔ ‘‘ اس نے ایک دم سے فون بند کر دیا تھا۔ فہد نے حیرت سے سیل فون کو دیکھا پھر دھیرے سے مسکرا کر فون ایک جانب رکھ دیا۔

٭٭

 

بشریٰ بیگم حویلی میں ایک کھڑکی کے پاس کھڑی، دیکھ تو باہر رہی تھی لیکن گہری سوچ میں کھوئی ہوئی تھی۔ اسے رانی کے آنے کا بھی احساس نہیں ہوا۔ جبکہ رانی اسے ساکت دیکھ کر چونک گئی۔ وہ کچھ اور ہی سمجھی، اس لئے تیزی سے بولی

’’چوہدرانی جی، چوہدرانی جی چوہدرانی جی۔ ‘‘

اس کے یوں خوف زدہ لہجے پر بشریٰ بیگم نے چونکتے ہوئے رانی کو دیکھا اور پھر آہستہ سے بولی

’’ آں ہاں ۔۔۔کیا بات ہے؟‘‘

’چوہدرانی جی۔ خیر تو ہے ناں۔ میں نے پہلے کبھی آپ کو اتنا پریشان نہیں دیکھا۔ کہیں نکے چوہدری کی وجہ سے تو۔۔۔پر یہ کون سا نئی بات ہے۔ وڈھے چوہدری سب سنبھال لیں گے۔ ‘‘ رانی نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا

’’نہیں ، بات وہ نہیں جو تم سمجھتی ہو۔ میں تو کی اس ضد کے بارے میں سوچ رہی ہوں ، جو اس نے ماسٹر دین محمد کی بیٹی کے لیے کی ہے۔ وہ نہیں جانتا۔ یہ ضد اس کے لیے خطر ناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا تورانی بولی

’’میں نے تو سنا ہے چوہدرانی جی۔ نکا چوہدری اس سے بڑی محبت کرتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ، بڑی پرانی بات ہے۔ ‘‘

’’محبت ہی تو نہیں کرتا وہ اس سے۔ اگر محبت کرتا ہوتا نا تو حالات ایسے نہ بنتے۔ وہ اس سے نفرت کرتا ہے۔ اس کی وجہ کچھ بھی ہو۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے دکھ سے کہا

’’پھر تو یہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ اور ماسٹر دین محمد یا سلمٰی وہ کہاں مانیں گے۔ ‘‘ رانی نے گھبراتے ہوئے کہا

’’وہ نہ بھی مانیں۔ لیکن بات جب ضد کی آ جائے تو یہ چوہدری نفع نقصان نہیں دیکھتے۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے اسی لہجے میں کہا جیسے اسے بہت افسوس ہو رہا ہو

’’ہاں !یہ تو ہے، پر اب کیا ہو سکتا ہے۔ نکا چوہدری تو اپنی ضد کا پکا ہے۔ ‘‘ رانی نے کہا

’’بہت کچھ ہو سکتا ہے رانی، بہت کچھ، جب تک فہد ہے۔ سلمٰی پر کوئی آنچ نہیں آئے گی، یہ میں جانتی ہوں۔ ہاں اگر فہد نہ رہا تو شاید حالات بدل جائیں۔ اس لیے فہد کی سلامتی بہت ضروری ہے۔ بہت ضروری۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے حتمی لہجے میں کہا تورانی بولی

’’آپ کو پتہ ہے چوہدرانی جی، وہ فہد حویلی والوں کے کتنا خلاف ہو رہا ہے اور پھر بھی آپ؟‘‘

’’ہاں پھر بھی، اب ہمیں ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ تو میرا ایک کا م کر۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا تو رانی بولی

جی چوہدرانی جی، بولیں۔ ‘‘

’’کسی ذریعے سے کسی طرح میر ی ملاقات فہد سے کروا دے، میں اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے کہا تورانی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور دھیرے سے بولی

’’چوہدرانی جی، آپ کہتی ہیں تو میں کچھ کرتی ہوں۔ ‘‘

بشریٰ بیگم نے گہری سانس لیا اور پھر باہر دیکھنے لگی، حیرت زدہ سی رانی اس کی طرف دیکھتی رہ گئی۔ وہ نجانے کیا سوچ رہی تھی۔

رانی اسی دوپہر سراج کے ڈیرے پر جا پہنچی۔ سراج اور رانی دونوں کھیت کی منڈھیر پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

’’آج تم دن کے وقت آ گئی۔ پھر تم اتنی دیر سے آئی ہوئی ہو اور بڑی خاموش خاموش سی ہو، کیا پریشانی ہے؟‘‘ سراج نے پوچھا تو رانی ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی

’’پریشانی تو کوئی نہیں ہے۔ میں تم سے ایک بات کرنا چاہ رہی ہوں ، سوچ رہی ہوں کہ تم سے کیسے بات کروں ؟‘‘

’’اگر کوئی بات کہنی ہے تو کہو، اس میں سوچنا کیا؟‘‘ سراج نے کہا تو رانی بولی

’’پتہ نہیں ، مجھے وہ بات تم سے کہنی بھی چاہئے یا نہیں۔ اصل میں سراج، وہ چوہدرانی کا ایک کام ہے، اس نے وہ مجھے کرنے کے لیے کہا ہے۔ ‘‘

’’چوہدرانی کا کام، دیکھ رانی، اگر اس نے کوئی دھمکی دی ہے تو چپ چاپ واپس چلی جا، بہت سن لیں میں نے اس خاندان کی دھمکیاں اور۔۔۔‘‘ سراج نے غصے میں کہا تو رانی اس کی بات کاٹ کر تیزی سے بولی ’’ایسا نہیں ہے سراج، وہ صرف فہد سے ملنا چاہتی ہے اس سے بات کرنا چاہتی ہے۔ وہ وڈھے اور نکے چوہدری کی طرح خون خرابہ نہیں چاہتی۔ چوہدرانی نے اتنا کہا ہے کہ میں ملنا چاہتی ہوں فہد سے۔ ظاہر ہے وہ کوئی ایسی بات کرنا چاہتی ہو گی، جس سے یہ لڑائی ختم ہو جائے۔ ‘‘

’’رانی، ان چوہدریوں نے ظلم ہی اتنے کیے ہیں کہ اب زخموں پر جتنا بھی مرہم رکھ دیا جائے وہ زخم بھریں گے نہیں۔ ‘‘سراج نے اسے حقیقت بتائی

’’تم اگر اسے فہد سے ملا دو تو ممکن ہے کوئی راہ نکل ہی آئے؟‘‘ رانی نے صلاح دی توسراج نے خلوص سے کہا

’’تو یقین رکھ رانی، میں پورے خلوص کے ساتھ فہد سے ملوا دوں گا، وہ اگر نہ بھی مانا تو میں منا لوں گا۔ آگے اللہ کی مرضی۔ ‘‘

’’مجھے تم پر یقین ہے سراج، اللہ کرے یہ ظلم، خون خرابہ اور لڑائی بند ہو جائے۔ اچھا اب میں چلتی ہوں بہت دیر ہو گئی ہے۔ ‘‘ رانی نے اٹھتے ہوئے کہا تو سراج بھی اٹھ کے بولا

’’ٹھیک ہے، میں تجھے بتا دوں گا۔ آؤ تجھے چھوڑ دوں۔ ‘‘

وہ دونوں منڈھیر سے اٹھ کر آگے بڑھے۔ تبھی ان کے عقب میں ماکھا نمودار ہوا۔ وہ انہیں یوں دیکھ رہا تھا جیسے اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا ہو۔ سراج اور رانی کو خبر ہی نہیں تھی کہ دشمنوں کی نگاہ ان پر پڑ چکی ہے۔

ماکھا بڑے مضطرب انداز میں ڈیرے کے صحن میں کھڑا تھا۔ اتنے میں کبیر کی گاڑی آ کر رکی اور اس میں سے کبیر باہر نکلا۔ ماکھا تیزی سے سے اس کی جانب بڑھا۔ وہ جیسے ہی قریب آیا تو چوہدری کبیر نے پوچھا

’’اوئے ماکھے، خیر تو ہے نا، ایسے کیوں کھڑا ہے؟‘‘

’’نکے چوہدری جی میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ ‘‘ ماکھے نے تیزی سے کہا تو چوہدری کبیر سنجیدگی سے پوچھا

’’ وہ کیوں ؟ میرا انتظار کیوں کر رہا تھا؟‘‘

’’بات ہی کچھ ایسی ہے، نکے چوہدری جی۔ ‘‘ وہ جھجکتے ہوئے بولی تو اس نے غصے میں کہا

’’تو چل پھر منہ کھول، بتا کیا بات ہے۔ منہ میں گھنگنیاں ڈالی ہوئی ہیں کیا؟‘‘

’’وہ حویلی میں آپ کی نوکرانی ہے نا جی، وہ کیا نام ہے اس کا رانی۔۔۔‘‘ ماکھے نے کہا

’’ہاں کیا ہوا اسے؟‘‘ چوہدری کبیر بولا

’’آج میں نے اس کو سراج کے ساتھ بیٹھے ہوئے اور بڑی گہری باتیں کرتے ہوئے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کتنی دیر تک وہ اس کے کھیتوں میں اس کے ساتھ رہی ہے۔ پھر سراج اسے کافی دور تک چھوڑنے آیا۔ اور۔۔۔‘‘

’’تو سچ کہہ رہا ہے۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے تصدیق چاہی تو ماکھا جلدی سے بولا

’’میں جھوٹ کیوں بولوں گا جی، پھر میں نے گاؤں کے کچھ بندوں سے بھی معلوم کیا، وہ دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں جی، محبت کرتے ہیں جی وہ ایک دوسری کے ساتھ۔ ‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے ماکھے پر حویلی کی ملازمہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ ملے، یہ کیسے ممکن ہے؟‘ چوہدری کبیر نے غصے میں کہا اور واپس اپنی گاڑی میں جا بیٹھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور ڈیرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔

اس وقت بشریٰ بیگم اپنے بیڈ پر اور رانی اس کے پاس قالین پر بیٹھ ہوئی تھی۔ بشریٰ بیگم نے اس سے پوچھا

’’ہاں اب بتا، وہ فہد سے ملنے کی کوئی راہ نکلی ؟‘‘

’’چوہدرانی جی وہ سراج ہے نا، امین ارائیں کا بھائی، ان کا ہمارے گھر آنا جانا ہے۔ اس کا گھر ہمارے گھر کے قریب ہی ہے لیکن میں اسے اکیلے میں اس کے ڈیرے پر ملی تھی، اور اس کے ساتھ اطمینان سے بات کی۔ ‘‘ رانی نے تحمل سے کہا

’’تو اس نے تمہاری بات سن لی؟‘‘ بشریٰ بیگم نے حیرت سے پوچھا تورانی بولی

’’پہلے تو اس نے بہت غصہ کیا کہ میں ایسی بات کہنے کیوں آ گئی ہوں ، پھر جب میں نے آپ کے بارے میں بتایا کہ آپ خون خرابہ نہیں چاہتی ہو تو پھر اس نے میری بات پر سوچا۔ ‘‘

’’اچھا تو پھر کیا کہا اس نے ؟‘‘ بشریٰ بیگم نے تجسس سے پوچھا تورانی نے سکون سے بتایا ’’میں نے اس سے یہ کہا تھا نا کہ آپ فقط فہد سے ملنا چاہتی ہیں تم کوئی ایسا بندوبست کرو کہ آپ دونوں کی ملاقات ہو جائے پھر جو فیصلہ ہو گا وہ بعد کی بات ہے۔ ‘‘

’’وہی تو میں پوچھ رہی ہوں کہ اس نے کیا کہا؟‘‘ بشریٰ بیگم نے بت صبری سے پوچھا

’’وہ مان گیا، اس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ آج ہی فہد سے بات کرے گا۔ بلکہ اسے مجبور کرے گا کہ چوہدرانی جی کی بات سن لے، پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ‘‘ رانی نے بتایا تو بشریٰ بیگم نے سوچتے ہوئے پوچھا

’’ کیا خیال ہے سراج کی بات فہد مان جائے گا۔ ویسے اگر تم سیدھے فہدسے بات کر لیتی تو زیادہ اچھا تھا۔ ‘‘

’’نہ چوہدرانی جی مجھے اس سے ڈر لگتا ہے، اسی لیے تو میں نے سراج سے بات کی ہے، وہ تو ہمارے گاؤں کا ہے نا۔ ‘‘ رانی نے خود میں سمٹتے ہوئے کہا تو بشریٰ بیگم نے سکون سے کہا

’’اچھا چل ٹھیک ہے۔ اب کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، میں فہد سے مل کر کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لوں گی۔ ‘‘

’’اللہ کرے امن ہو جائے۔ ‘‘ رانی نے دعا کی تو بشریٰ بیگم نے کہا

’’اب تو جا، اپنا کام کر، میں ذرا آرام کر لوں ، بہت تھک گئی ہوں۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ نیم دراز سی ہو گئی اور رانی اٹھ کر باہر چلی گئی۔

رانی صفائی ستھرائی میں مشغول تھی کہ چوہدری کبیر کمرے میں آیا اور اس نے آتے ہی اس کی چوٹی سے پکڑ کر زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مار دیا۔ پھر غصے میں پھنکارتے ہوئے بولا

’’ تم حویلی کی ملازمہ ہو کر ہمارے ہی دشمنوں سے پیا ر کی پینگیں بڑھاؤ۔ انہیں یہاں کے راز بتاؤ۔ ‘‘

’’نن۔۔۔ نن، نہیں چوہدری جی، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ‘‘ رانی نے خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا تو چوہدری کبیر پاگل ہوتے ہوئے بولا

’’ غلط فہمی۔۔۔ وہ بھی مجھے ہوئی ہے، بتا تو سراج سے ملی تھی، کیا یہ جھوٹ ہے؟‘‘

’’میں گئی تھی اس کے پاس لیکن ۔۔۔‘‘ اس نے کہنا چاہا مگر چوہدری کبیر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’ہمارا ہی نمک کھاتی ہو اور ہمارے ہی خلاف دشمنوں سے ملتی ہو۔ میں تو کسی کو اپنے خلاف سوچنے نہیں دیتا اور تم ہو کہ حویلی کی باتیں باہر جا کر دشمنوں کو بتاتی ہو؟‘‘

’’ ایسا کچھ نہیں ہے نکے چوہدری جی ایسا کچھ نہیں ہے۔ ‘‘ رانی روتے ہوئے ڈر کے بولی

’’تو بولو، وہاں کیا کرنے گئی تھی کیوں ملتی ہو سراج سے وہ بھی اس کے کھیتوں میں جا کر۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے جس طرح الزام دینے والے انداز میں کہا تو رانی نے عزت پر حرف آتا محسوس کر کے دلیری سے بولی

’’یہ سچ ہے کہ میں اس سے ملی ہوں مگر میرا یقین کریں حویلی کے خلاف میں نے۔۔۔‘‘

’’خاموش!!!‘‘ چوہدری کبیر نے دھاڑتے ہوئے کہا تورانی سہم گئی اور سہمے ہوئے انداز میں کبیر کی طرف دیکھا تو وہ نفرت سے بولا

’’پتہ نہیں کب سے تم یہاں کی باتیں انہیں بتا رہی ہو۔ میں بھی کہوں حالات ہماری گرفت میں کیوں نہیں آ رہے ہیں۔ ہمارے ہی گھر کا بھیدی۔۔۔ تمہیں سزا ملے گی اور ضرور ملے گی۔ ‘‘

’’میں نہیں چوہدری جی آپ چوہدرانی جی سے پوچھ لیں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ ‘‘ رانی ہذیانی انداز بولی تو کبیر اسے تھپڑ دے مارا۔ اور پھر اچانک رُک کراس کے بدن کو گہری نظر سے دیکھتے ہوئے چوہدری کبیر بدلے ہوئے لہجے بولا

’’ میں مجھے تو آج معلوم ہوا ہے کہ تم جوان ہو گئی ہو شادی کرنا چاہتی ہو، سراج کے ساتھ۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ اس کی جانب بڑھا تورانی اس کی نیت سمجھتے ہوئے بولی

’’ نہ چوہدری جی نہ میرے قریب مت آنا۔ ‘‘

کبیر رکا نہیں بلکہ اس کی بانہیں تھام لیں۔ وہ کسی بے بس پرندے کی مانند اس کی گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئی۔ وہ کمرے سے نکل جانا چاہتی تھی، لیکن ایسا نہ کر سکی۔ کبیر نے اسے دبوچ لیا تھا۔

ایک چیخ حویلی میں گونج کر رہ گئی۔ لٹی پٹی رانی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ کبیر کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ اس نے حقارت سے اس کی طرف دیکھا اور اپنے کپڑے درست کرتا ہوا اٹھا۔ وہ باہر جانے کے لئے مڑا تو سامنے دروازے میں بشریٰ بیگم کھڑی تھی۔ وہ شدید حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔ کبیر قریب سے خاموشی کے ساتھ باہر نکل گیا، بشریٰ جیسے ہی اس کے قریب آئی، رانی سسک پڑی تو بشریٰ بیگم نے دھیرے سے پوچھا

’’رانی، بولو کیا ہوا، بولو رانی؟‘‘

رانی ایک ٹک اس کی طرف دیکھتی رہی پھر نفی میں سر ہلا دیا۔ بشریٰ بیگم نے حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا

’’ یہ تو نے اچھا نہیں کیا کبیر، مان توڑ دیا ہے تو نے میرا، بھروسہ ٹوٹ گیا ہے میر ا۔۔۔‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے رانی کی طرف متوجہ ہو کر بولی۔ ’’ اٹھ جا، اس سے پہلے کہ حویلی کے دوسرے ملازموں کو معلوم ہو، اپنا آپ سمیٹ لے۔ ‘‘

’’نہیں بیگم صاحبہ، رانی اب نہیں رہی، ختم ہو گئی ہے۔ ‘‘

رانی نے انتہائی دکھ سے کہا تو بشریٰ بیگم دانت پیستے ہوئے بولی

’’کبیر۔ !‘‘

وہ انتہائی غصے میں اٹھ کر باہر چلی گئی۔ رانی وہیں دیوار کے ساتھ لگی ہوئے بے دم سی پڑی رہی۔

بشریٰ بیگم کو کبیر گھر نہیں ملا۔ وہ پہلے تو اسے خود حویلی میں تلاش کرتی رہی پھر اسے نوکروں سے معلوم ہوا کہ کبیر اپنی گاڑی میں باہر چلا گیا ہے۔ بشریٰ دالان میں غصے میں بے حال اور پریشان سی کھڑی رہی پھر چونک کر اس طرف چل پڑی جہاں وہ رانی کو چھوڑ آئی تھی۔ اس نے کوریڈور میں چلتے ہوئے اسے آواز دی مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اس کی آواز گونج کر رہ گئی۔ تبھی وہ اس کمرے کے دروازے تک آ کر رک گئی۔ وہ اندر دیکھ کر ششدر رہ گئی۔ رانی پنکھے سے جھول رہی تھی۔ یہ دہشت زدہ منظر دیکھ کر بے ساختہ بشریٰ بیگم کے منہ سے چیخ نکل گئی۔

٭٭

 

فہد اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے والی چارپائی پر اور سراج بیٹھا باتیں کہہ رہا تھا۔

’’یار آج صبح رانی آئی تھی بشریٰ بیگم کا پیغام لے کر۔ ‘‘

’’رانی اور وہ بھی بشریٰ بیگم کا پیغام لے کر، خیر تو ہے نا، کیا کہتی ہے؟‘‘ فہد نے چونکتے ہوئے پوچھا تو سراج بولا

’’چوہدرانی تم سے ملنا چاہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ۔۔۔‘‘ لفظ اس کے منہ ہی میں ہوتے ہیں کہ چھاکا تیزی سے گھر میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اسے یوں آتے دیکھ کو وہ دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا اور فہد نے پوچھا

’’خیر تو ہے چھاکے، کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟‘‘

’’غضب ہو گیا سراج، حویلی میں رانی نے خود کشی کر لی ہے۔ مگر لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسے قتل کیا گیا ہے۔ ‘‘ چھاکے نے کہا تو وہ دونوں بری طرح چونک گئے۔ سراج نے بڑبڑانے والے انداز میں پاچھا

’’خود کشی۔۔۔ مگر کیوں ؟ کس لیے؟ تمہیں کس نے کہا؟‘‘

’’حویلی کے مالی نے مجھے ساری تفصیل بتائی ہے۔ کبیر نے رانی کو کسی جوگا بھی نہیں چھوڑا تھا، اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور ابھی کچھ لوگ اسے دفنا کر آئے ہیں۔ ‘‘ چھاکے نے بتایا توسراج کے غصہ پھیلتا چلا گیا۔ فہد کا حیرت اور دکھ ملا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ کس کیفیت سے گذر رہا ہے۔

’’رانی کو پامال کر کے، اسے قتل کر کے دفن بھی کر دیا گیا۔ ‘‘ سراج نے انتہائی حیرت سے پوچھا

’’حویلی والوں نے اسے خاموشی سے دفنا دیا ہے تاکہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، مگر اتنا بڑا ظلم چھپ تو نہیں سکتا نا۔ ‘‘ چھاکے نے بتایا

یہ سنتے ہی سراج غصے میں اٹھا۔ چار پائی پر پڑی گن اٹھائی اور تیزی سے باہر کی طرف لپکتا چلا گیا۔ فہد نے بھاگ کر اسے پکڑا توسراج نے حیرت اور شکوہ بھرے انداز میں کہا

’’ نہیں فہد، کیا اب بھی مجھے تم روکو گے؟‘‘

’’تم کیوں اس کے گندے خون سے اپنے ہاتھ گندے کرنا چاہتے ہو۔ تھوڑا صبر کر لو۔ یقین کرو مجھ پر، ہم بدلہ لیں گے اور ضرور لیں گے، اس وقت میرے کہنے پر رک جاؤ۔ ‘‘ فہد نے اس کے ہاتھ سے گن چھینتے ہوئے کہا

’’کب تک صبر کروں فہد، رانی میری محبت تھی یار، اس بے غیرت نے میرے بھائی کو قتل کیا۔ اب رانی کو اب بھی اسے چھوڑ دوں۔ نہیں فہد نہیں ، تم میں حوصلہ ہو گا مجھ میں اب نہیں رہا۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھرا گئی۔

’’میری بات تو سنو، میں چلوں گا تیرے ساتھ لیکن۔۔۔‘‘ فہد کہتا ہوا رک گیا کہ سراج اس کی بات کاٹتے ہوئے باہر کی جانب جاتے ہوئے بولا

’’ وہ قتل پر قتل کئے جا رہا ہے اور میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤں۔ اب وقت آ گیا ہے فہد، تم میرا ساتھ دو یا نہ دو میں آج اسے ختم کر دوں گا۔ ‘‘

’’تم کیا سمجھتے ہو، وہ ہمارے انتظار میں نہیں ہو گا؟اس نے اپنے ڈیرے پر غنڈوں کی فوج بیٹھائی ہو گی۔ اندھا دھند چڑھائی ہمارے نقصان میں جائے گی، یہ بات تم کیوں نہیں سمجھتے ہو؟ ذرا سا صبر کرو۔ میرے کہنے پر۔ ‘‘ فہد نے اسے سمجھایا توسراج نے انتہائی غصے میں کہا

’’یار یہی ہو گا نا کہ میں مر جاؤں گا۔ اب مجھے مر ہی جانا چاہئے۔ ‘‘

’’مریں گے تمہارے دشمن، تم ایک بار ادھر بیٹھو، میں تمہیں سمجھاتا ہوں۔ ہم نے کرنا کیا ہے۔ میری بات اگر تمہاری سمجھ میں آ جائے تو پھر جو چاہے کرنا، آؤ بیٹھو۔ ‘‘ فہد نے اسے پکڑا اور وہ اس کے کاندھے سے لگ کر رونے لگ گیا۔

رانی کے خود کشی کرنے والی بات کوئی معمولی نہیں تھی۔ جنگل کی آگ کی مانند پورے قسمت نگر میں پھیل گئی۔ صبح ہو جانے تک یہ بات ہر بندے کو معلوم ہو گئی۔

اس وقت سلمی سکول میں کرسی پر بیٹھی ہوئی ایک کاپی دیکھ رہی تھی۔ ایک بچہ اس کے پاس کھڑا تھا۔ تبھی اس کے پاس صفیہ اور ایک عورت آ گئیں۔ صفیہ نے آتے ہی بتایا

’’سلمی، حویلی میں رانی نے خود کشی کر لی ہے۔ راتوں رات بے چاری کو خاموشی سے دفنا بھی دیا۔ ‘‘

’’ کیا۔۔۔ کیوں ؟‘‘ سلمی انتہائی حیرت سے پوچھا

’’خود کشی کی تو بات اڑائی گئی ہے، اصل میں چوہدری کبیر نے اس کی عزت سے کھیل کر قتل کیا ہے۔ ‘‘

تب صفیہ نے اسے وہ روداد سنائی جو قسمت نگر میں پھیل چکی تھی۔ سلمی بے حد جذباتی ہو رہی تھی۔ اس کے آنسو نکل پڑے۔ اسے بہت دکھ ہوا تھا۔

’’وہ بے چاری غریب لڑکی ان حویلی والوں کے ظلم کا سہہ کر دفن ہو گئی، کون پوچھتا ہے سلمٰی۔ ! کس نے سوال کرنا ہے ان حویلی وا لوں سے؟‘‘ عورت نے کہا توسلمی چونکتے ہوئے بولی

’’ میں ۔۔۔ میں کروں گی سوال، نہیں بخشوں گی ان حویلی والوں کو۔ میں لوں گی رانی کے خون کا حساب۔ صفیہ تم ان بچوں کو گھر بھیج کر آ جانا میں دیکھتی ہوں۔ آؤ میرے ساتھ۔ ‘‘

سلمی اس عورت کو اپنے ساتھ لے کر سکول سے باہر کی طرف چل پڑی۔

٭٭

 

حبیب الرحمن اپنے گھر کے لان میں بید کی کرسی پر بیٹھا انگریزی اخبار پڑھ رہا تھا۔ ایسے میں اندر سے مائرہ آ کر اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

’’پاپا۔ یہ اخبار چھوڑیں اور میری بات سنیں۔ میں آپ سے ایک اہم بات کرنا چاہ رہی ہوں۔ ‘‘ مائرہ نے کہا تواس نے اخبار سے نگاہیں ہٹا کر مسکراتے ہوئے کہا

’’اہم بات اور وہ تم کرنا چاہتی ہو۔ تو کہو میں سن رہا ہوں۔ ‘‘

’’پاپا۔ !میں کہیں پر تھوڑی سی انویسٹمٹ کرنا چاہتی ہوں۔ ظاہر ہے اس کے لیے مجھے کچھ سرمایہ چاہئے۔ آپ دیں گے؟‘‘ مائرہ نے لاڈ سے کہا تو حبیب الرحمن نے حیرت سے پوچھا۔

’’ تم بزنس کرو گی، کر سکو گی؟‘‘

’’پاپا۔ !بزنس نہ کر سکی تو میرے پاس تجربہ تو ہو گا۔ آپ سرمایہ دیں گے؟‘‘ مائرہ نے کمزور سی دلیل دے کر پوچھا

’’بیٹا۔ !تم نے کبھی مجھ سے کچھ نہیں مانگا اور پھر یہ سارا کچھ تمہارا ہی تو ہے۔ جتنا چاہے سرمایہ لینا اور مجھے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں کہ تم یہ سرمایہ کہاں لگا رہی ہو۔ ‘‘

حبیب الرحمن نے اعتماد سے کہا تو مائرہ خوش ہوتے ہوئے بولی

’’تھینک یو پاپا۔ آپ مجھ پر اتنا اعتماد کرتے ہیں۔ میں آپ کو پوری تفصیل بتاؤں گی۔ لیکن اس سے پہلے میں خود پوری معلومات لینا چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’ اگر بات معلومات کی حد تک ہے تو ایک بات پوچھوں بیٹا، تم یہ سرمایہ لگا کہاں رہی ہو ؟شاید میں تمہیں کوئی اچھا مشورہ دے دوں۔ ‘‘ حبیب الرحمن نے سنجیدگی سے پوچھا تو مائرہ بولی

’’پاپا میں یہ سرمایہ ایک فیکٹری میں لگانا چاہ رہی ہوں اور یہ محض منافع کمانے کے لیے نہیں۔ ‘‘

’’تو پھر کس مقصد کے لیے؟‘‘ اس نے پوچھا

’’پاپا، جب ہم کسی بھی علاقے کے بے روز گار نوجوانوں کے لیے روزگار کا بندوبست کرتے ہیں نا تو وہاں پر خوشحالی آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں پر موجود جاگیر داروں کے تسلط کے تلے پسے ہوئے لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں تو وہ لوگ جب اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں اور اپنی ووٹ کا درست استعمال کرتے ہیں۔ جس سے بہترین نمائندے آگے آتے ہیں اور بہترین حکومت بنتی ہے۔ ‘‘ مائرہ نے تفصیل سے بتایا تو حبیب الرحمن نے پوچھا

’’ہوں ، یہ تو اس وقت ہمارے ملک کی اہم ضرورت ہے کیا تم کسی مخصوص علاقے میں یہ کام کرنا چاہ رہی ہو۔ ‘‘

’’جی پاپا۔ ‘‘ مائرہ نے کہا حبیب الرحمن نے مسکراتے ہوئے کہا

’’ گڈ لک بیٹا، میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ کیا اب میں اخبار پڑھ لوں ؟‘‘

’’ جی بالکل پڑھیں۔ میں آپ کے لیے خود چائے بنا لاتی ہوں۔ ‘‘ مائرہ نے ہنستے ہوئے کہا تو حبیب الرحمن نے آنکھیں بند کر کے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ چلی گئی تو حبیب الرحمن اخبار پڑھنے لگا۔

مائرہ آفس میں داخل ہو ئی تھی کہ اس کا سیل فون بجا۔ اس نے اسکرین دیکھ کر فون رسیو کر لیا اور بولی

’’کیسے ہو جعفر؟‘‘

’’میں بالکل ٹھیک ہوں تم سناؤ۔ ‘‘ وہ تیزی سے بولا تو مائرہ نے تشویش سے پوچھا

’’میں تو ٹھیک ہوں مگر تمہاری آواز سے نہیں لگتا کہ تم ٹھیک ہو، بات کیا ہے؟‘‘

’’میں تمہیں قسمت نگر میں ہونے والی ایک واردات کے بارے میں بتانا چاہ رہا تھا۔ یقین جانو اس کا مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر جعفر نے نہایت اختصار سے بتایا تو مائرہ نے انتہائی دکھ سے کہا

’’اوہ یہ تو بہت برا ہوا کیا تم نے فہد سے بات کی؟‘‘

’’اب تو میرا اوراس کا ہر لمحے رابطہ رہتا ہے۔ اسی نے ہی بتایا بلکہ فہد کا ایک دوست سراج اسی رانی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ میں قسمت نگر جا رہا ہوں۔ حویلی بھی جاؤں گا لیکن اس کے لئے کوئی ابتدائی رپورٹ ہو نا۔ یہ لوگ قتل پر قتل کئے جا رہے ہیں اور ہم کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ ‘‘ جعفر نے دکھ سے کہا تو مائرہ نے تیزی سے کہا

’’جعفر، میں تمہیں بعد میں فون کرتی ہوں۔ مجھے کچھ سوچنے دو۔ ‘‘

’’اوکے، میں نور پور جا کر پھر تم سے بات کرتا ہوں۔ بلکہ قسمت نگر سے معلومات لے کر بتاتا ہوں۔ ‘‘ اس نے کہ اور فون بند کر دیا۔ مائرہ ایک دم سے دکھی اور پریشان ہو گئی تھی۔ وہ کچھ دیر اپنے آفس میں بیٹھی رہی۔ پھر ایک دم سے اس نے فیصلہ کر لیا۔

اس وقت فہد اپنی زمین پر چھاکے کے ساتھ چلتا جا رہا تھا۔ وہ اسے بتا رہا تھا

’’چھاکے۔ ابھی تمہیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ یہ سب کیسے ہو گا میری آنکھ سے دیکھو۔ یہاں جو فصلیں اُگتی ہیں۔ یہاں فیکٹریاں لگیں گی تو بے شمار لوگوں کو روزگار ملے گا۔ ‘‘

’’لیکن فہد یہ فصلیں کہاں اُگیں گی۔ اس طرح فیکٹریاں لگتی رہیں تو یہ کسان لوگ کہاں جائیں گے۔ ‘‘ چھاکے نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا تو فہد نے سمجھایا

’’ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں مزدور زیادہ ہیں اور مزدوری کم۔ مزدور کم ہوں گے تو مزدوری زیادہ ہو جائے گی۔ ماضی میں یہی زمین بے آباد تھی۔ ایسی بے شمار زمینیں بے آباد پڑی ہیں۔ انہیں آباد کرنا ہے۔ پیٹ میں روٹی جائے گی نا تو مستقبل کے بارے سوچنا بھی آ جائے گی۔ اللہ کی زمین بہت بڑی ہے۔ اور جو زرعی ملک نہیں بھی ہیں وہ امیر ہیں۔ بس یہی وسائل کی تقسیم ہی ترقی کی طرف لے گئی۔ غریب کا حق اسے ملنا چاہیے۔ ‘‘لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ فون کی بیل بجی۔ اسکرین دیکھ کر فون رسیو کرتے ہوئے بولا

’’ہیلو۔ !مائرہ۔ ‘‘

’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘

’’میں اس وقت اس زمین پر ہوں جہاں فیکٹری لگانی ہے۔ میرے ساتھ میرا دوست ہے۔ ‘‘ اس نے بتایا تو مائرہ بولی

’’اچھاسنو، تمہیں جتنا فنانس چاہیے، میں دوں گی۔ پاپا سے میری بات ہو گئی ہے۔ اب یہ کیسے کرنا ہے۔ کیا ہونا ہے مجھے نہیں پتہ۔ ‘‘

’’تم میری بزنس پارٹنر بننا چاہتی ہو۔ ویل کم، یہ ٹھیک رہے گا۔ ‘‘ فہد نے کہا تو مائرہ خفا لہجے میں بولی

’’ میں تو بہت کچھ چاہتی ہوں۔ مگر تم ہی نہیں مان رہے ہو۔ خیر۔ !ابھی میری جعفر سے بات ہوئی ہے، وہ رانی والے معاملے پر۔ میں خود آ رہی ہوں۔ سلمی سے کہنا پریشان نہیں ہونا۔ اب میں کچھ دن قسمت نگر ہی میں رہوں گی۔ ‘‘

’’ واقعی، کب آ رہی ہو؟‘‘ فہد نے حیرت سے پوچھا تو مائرہ نے گہری سنجیدگی سے بتایا

’’بہت جلدی، ہمارا رابطہ تو رہے گا۔ اوکے میں بعد میں فون کرتی ہوں۔ اللہ حافظ۔ ‘‘

فون بند ہو گیا۔ فہد کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھا گئی۔ وہ چند لمحے سوچتا ہے پھر سر جھٹک کر چھاکے سے بولا

’’ آؤ چلیں۔ ‘‘

وہ دونوں سڑک کنارے کھڑی کار کی جانب بڑھ گئے۔ اس کا رخ سلمی کے آفس کی طرف تھا۔

سلمٰی میز کے اس پار کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ سامنے صفیہ کے ساتھ چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ سلمٰی ان سے بات کر رہی تھی۔

’’میں نے آپ سب کو یہاں اس لیے بلایا ہے کہ اس آفس کا ہم باقاعدہ افتتاح کریں گے تا کہ پورے علاقے میں پتہ چلے کہ یہ آفس ہم نے کس مقصد کے لیے بنایا ہے۔ لیکن اس وقت رانی والا معاملہ انتہائی دکھ بھرا اور سنگین ہے۔ میں آپ سب کو یہ بتانا چاہ رہی ہوں کہ میں لڑوں گی رانی کا مقدمہ۔ اس سے پہلے بھی میں صفیہ کی جنگ لڑ رہی ہوں۔ ‘‘

’’باجی آپ ہمیں بتائیں۔ ہمیں کیا کرنا ہو گا؟‘‘ ایک عورت نے پوچھا توسلمٰی نے کہا

’’اپنے گھروں میں اپنے مردوں سے بات کریں ہم سب مل کر اس مقصد کو حاصل کر نا ہے۔ ‘‘

’’باجی، آپ برا نہ مناؤ تو ایک بات کہوں۔ ‘‘ دوسری عورت نے کہا توسلمٰی بولی

’’ کہو۔ برا ماننے والی کیا بات ہے۔ ‘‘

’’آپ یہاں جو بھی کر رہی ہے، ہمیں اس کی سمجھ ہے یا نہیں لیکن یہاں کے لوگ کیسے ہیں آپ کو پتہ ہے۔ ‘‘

’’ ہماری بات لوگ سمجھیں گے۔ آج تھوڑے لوگ ہوں گے تو کل زیادہ ہوں گے۔ دھیرے دھیرے ہماری بات کی سمجھ سب کو آ جائے گی۔ ایک بار حوصلہ کر لیا جائے نا تو پھر ڈرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ دیکھنا ایک دن یہ سارے لوگ اپنے ساتھ ہوں گے۔ دیکھو۔ !ہمارا کسی کے ساتھ جھگڑا تو نہیں ہے۔ ہم تو اپنے حق کی بات کرتے ہیں۔ اور ہمارے جو حالات ہیں ، ان میں حق چھین لینا پڑنا ہے۔ ہمارا خدا ہماری مدد کرے گا۔ یہاں بیٹھ کر عورتوں کے جو چھوٹے موٹے مسئلے ہیں ہم خود حل کر سکیں وہ لڑکیاں جو پڑھ نہیں سکیں۔ انہیں تعلیم دے سکیں۔ اردگرد گاؤں کی عورتوں کو پتہ ہو کہ اس علاقے میں ان کی آواز سننے والا کوئی ہے۔ اس لئے سب سے پہلے رانی بارے آواز بلند کرنی ہے۔ ‘‘

’’ ہم غریب لوگ کسی کا مسئلہ کیا حل کریں گے؟‘‘ ایک عورت نے پوچھا تو سلمی نے کہا

’’مانا کہ ہم غریب ہیں بے بس ہیں۔ لیکن کب تک ؟کیا تم نہیں چاہتی ہو کہ تمہاری اولاد ان جاگیرداروں کی غلامی سے نکلے۔ ہم نے کسی سے لڑائی نہیں کرنی بلکہ اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘

’’یہ صفیہ نے چوہدریوں کی بات نہیں مانی، اسے اپنے گھر سے نکلنا پڑا یہ تو اچھا ہو تم نے اسے سنبھال لیا ایسی تو کتنی ہیں۔ کس کس کو سنبھالیں گی۔ ‘‘دوسری عورت نے پوچھا تو سلمی بولی

’’جب تک مجھ میں حوصلہ اور قوت رہی۔ اب آپ لوگ بتائیں۔ میرا ساتھ دیں گی یا نہیں ؟‘‘

’’میں شاید پہلی عورت ہوں۔ جس نے چوہدریوں کی بات نہیں مانی۔ وہ اپنی طاقت آزمائیں۔ میں اپنا صبر آزماؤں گی۔ اور سچ یہ ہے ہمیشہ صبر کی فتح ہوتی ہے۔ ‘‘

’’ یہ ٹھیک ہے کہ رانی پر ظلم ہوا۔ ہم عورتیں اپنی عزت نہیں کریں گی تو کان کرے گا۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں ، ہر طرح، ‘‘دوسری عورت نے کہا تو سب اس کی ہمنوا ہو گئیں۔ ان کا جوش و جذبہ دیکھ کر سلمی ایک دم جذباتی ہو گئی اور بولی

’’ آج سے میں رانی کا بدلہ لینے کا اعلان کرتی ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اٹھ گئی۔ اسے اب فہد سے ملنا تھا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

 

دھُوپ کے پگھلنے تک

 

حصہ چہارم

 

               امجد جاوید

 

 

 

 

 

 

حویلی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے چوہدری جلال نے بڑے کروفر سے فون بند کر کے رکھا۔ پھر قریب کھڑے منشی سے پوچھا

’’ہاں بول منشی کیا بات ہے؟ ‘‘

’’وہ جی باہر اے ایس پی صاحب آئے ہیں۔ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ‘‘ منشی نے دھیمے سے لہجے میں کہا تو چوہدری جلال نے بڑبڑاتے ہوئے کہا

’’ اے ایس پی! وہ کیا کرنے آیا ہے یہاں ، بلاؤ‘‘

منشی پلٹ گیا تو چوہدری جلال کے چہرے پر تشویش کے آثار ابھر آئے۔ چند لمحوں بعد جعفر اندر گیا۔ تو چوہدری جلال نے بجائے بٹھانے کے، دور ہی سے پوچھا

’’کیسے آنا ہوا اے ایس پی؟‘‘

’’آپ اور آپ کے بیٹے کبیر کے خلاف میرے پاس درخواست آئی ہے۔ اس کے بارے میں ’’تفتیش‘‘ کرنے آیا ہوں ، چوہدری صاحب۔ ‘‘ جعفر نے طنزیہ انداز میں کہا تو چوہدری جلال نے غصے میں کہا ’’تفتیش؟آج تک کسی کی اتنی جرات نہیں ہوئی کہ یہاں آ کر ایسی بات کرے۔ بول کس نے ہمارے خلاف درخواست دی ہے۔ وہ خود یہاں آ کر انکار کرے گا کہ اس نے درخواست نہیں دی۔ ‘‘

’’ نہ چوہدری صاحب نہ، یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ آپ ایسا نہیں کر سکیں گے اور اگر ایسا زعم ہے تو بلا لیں اسے ماسٹر دین محمد کی بیٹی سلمی نے درخوست دی ہے۔ میں دیکھوں یہ انکار کیسے ہوتا ہے۔ کیا طریقہ ہے آپ کے پاس منّت کرتے ہیں یا تشدد۔ ‘‘

یہ سنتے ہی چوہدری جلال کا رنگ اڑ گیا۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس لئے حیرت سے بولا

’’سلمی نے۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا ؟‘‘

’’ایسا ہو گیا ہے چوہدری صاحب اور اب سیدھے سبھاؤ مجھے بتائیں کہ رانی نے خود کشی کیوں کی؟ اور کیسے کی؟‘‘ جعفر نے غصے اور حقارت سے کہا تو چوہدری جلال نے چند لمحے سوچ کر کہا

’’اس نے چوری کی تھی۔ سزا کے خوف سے اس نے خود کشی کر لی۔ بس اتنی سی بات ہے۔ تھانے میں ہم نے رپورٹ کر دی تھی، قانونی کاروائی بھی پوری کی، اب تم کیا تفتیش کر رہے ہو؟‘‘

’’یہ کہ خود کشی تو اس نے کی لیکن کیوں کی؟ کس نے اسے خودکشی پر مجبور کیا۔ درخواست میں کچھ اور لکھا ہے۔ میں یہی معلوم کرنے آیا ہوں۔ اور چوہدری صاحب۔ میں نہیں سمجھتا کہ آپ اتنی بھی سمجھ نہیں رکھتے کہ رانی کا پوسٹ مارٹم کئے بغیر دفنا دیا گیا؟سچ کیا ہے یہ آج نہیں تو کل معلوم ہو جائے گا۔ ‘‘ جعفر نے کہا تو چوہدری جلال ہتک آمیز انداز میں بولا

’’جو تمہاری ڈیوٹی ہے نا تم وہ کرو، ایویں ادھر ادھر کیوں وقت ضائع کرتے پھر رہے ہو۔ اب کچھ مزید پوچھنا ہے یا۔۔۔‘‘

’’میں ڈیوٹی ہی کر رہا ہوں ، یہ سبق مجھے نہ دیں۔ جہاں تک میرے علم میں بات آئی ہے، وہ یہ ہے کہ رانی نے خودکشی نہیں کی، اسے قتل کیا گیا ہے اور اس کی عزت تم لوگوں کے ہاتھوں پامال ہوئی ہے۔ ابھی مجھے آپ سے کچھ نہیں پوچھنا لیکن بہت جلد آپ مجھے خود بتائیں گے کیونکہ مجھے ڈیوٹی کرنا ہے غلامی نہیں۔ ‘‘

جعفر نے غصے میں کہا تو چوہدری جلال نے سوچتے ہوئے تحمل سے کہا

’’تمہارا خون کچھ زیادہ ہی گرم لگتا ہے اے ایس پی۔ خیر میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ تمہاری ان فضول قسم کی تفتیشوں میں اپنا وقت ضائع کروں۔ میرے منشی سے بات کر لیا کرو اور جاؤ۔ ‘‘

’’اوکے میں چلتا ہوں لیکن ایک بات کہتا چلوں ، وقت کسی کا نہیں ہوتا جب یہ ہاتھ سے نکلتا ہے، تب سمجھ آ تی ہے۔ ‘‘ جعفر نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا اور پلٹ کر باہر کی سمت چل دیا۔ چوہدری جلال اس کی طرف غصے سے دیکھتا رہا۔

چوہدری جلال ڈرائنگ روم ہی میں ٹہل رہا تھا۔ اس کے چہرے پر تشویش اور غصے کے ملے جلے تاثرات تھے۔ اتنے میں چوہدری کبیر اور منشی وہیں آ گئے تو چوہدری جلال ان کی طرف دیکھ کر دھاڑتے ہوئے کہا

’’میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ میری حویلی میں کوئی معمولی افسر آ کر اونچی آواز میں بات کرے۔ مگر وہ اے ایس پی اتنی باتیں کر کے گیا ہے۔ بہت ایمان دار بنتا ہے۔ اس کی کیا جرات تھی کہ یہ سب کہے لیکن اسے تو سلمی نے درخواست دی وہ کچھ زیادہ ہی پر پُرزے نہیں نکالنے لگی۔ ‘‘

’’اس کی جرات صرف اور صرف فہد کی وجہ سے ہوئی ہے بابا، ورنہ وہ کیا کر سکتی ہے۔ میں نے تو آپ کو کہا تھا کہ اس چڑیا ہی کو قید کر لیں مگر آپ نے۔۔۔‘‘ چوہدری کبیر کہتے ہوئے رُک گیا تو چوہدری جلال بولا

’’مگر اس کی اوقات نہیں ہے کہ ہمارے خاندان کا حصہ بنے‘‘

’’میں کون سا اسے اپنے خاندان کا حصہ بنا رہوں بابا۔ فہد جس کاندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہا ہے میں نے تو وہ کاندھا قابو کرنا ہے بس۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے کہا

’’تمہاری بات میری سمجھ میں آتی ہے لیکن۔۔۔‘‘ چوہدری جلال نے کہنا چاہا مگر چوہدری کبیر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا

’’آپ سوچتے ہی رہیں گے اور پانی سر سے گذر جائے گا۔ آپ اپنے ووٹوں کی سیاست کی سوچتے ہیں لیکن میں اس علاقے پر اپنی حکمرانی کے بارے میں سوچتا ہوں۔ ووٹ تو پھر بھی ہمیں ہی ملنے ہے یہ لوگ پیار سے ماننے والے نہیں ہیں۔ ‘‘

’’تیرا کیا خیال ہے منشی؟‘‘ چوہدری جلال نے پوچھا تو منشی نے بلا تردد کہا

’’نکے چوہدری جی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ان پر اگر بھر پور وار نہ کیا گیا تو یہ ہماری جان کو آ جائیں گے۔ سلمی کی شادی، اگر نکے چوہدری جی سے ہو گئی تو فہد کی چابی ہمارے ہاتھ آ جائے گی اور وہ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ پھر یہ حالات ہی نہیں رہیں گے۔ ‘‘

’’کیا وہ ماسٹر مان جائے گا، وہ تو آرام سے نہیں مانے گا؟‘‘ چوہدری جلال نے پوچھا تو چوہدری کبیر نے حقارت سے کہا

’’اسے ماننا ہو گا، وہ جس طرح بھی مانے۔ آپ ایک بار بات کر لیں پھر میں اسے منا لوں گا، مجھے اپنے طریقے سے منانا آتا ہے۔ ‘‘

’ٹھیک ہے منشی، ابھی بُلا اس ماسٹر کو، میں کرتا ہوں بات۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ اندر کی طرف چلا گیا تو منشی پلٹ گیا۔ کبیر کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔

چوہدری جلال اضطرابی انداز میں ٹہل رہا تھا کہ منشی کے ساتھ ماسٹر دین محمد اعتماد کے ساتھ اندر آ گیا۔ دونوں آمنے سامنے ہوئے تو چوہدری جلال نے کہا

’’خوش آمدیدماسٹر دین محمد جی آیاں نوں ، آؤ بیٹھو۔ میں تم سے ایک بہت ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’میں یہیں کھڑا ہی ٹھیک ہوں۔ آپ کہیں میں سن رہا ہوں۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے کسی تاثر کے بغیر کہا تو چوہدری جلال تحمل سے بولا

’’ماسٹر دین محمد۔ !غیروں جیسی باتیں مت کرو، ماضی میں جو ہونا تھا۔ وہ ہو چکا۔ آؤ۔ بیٹھو۔ !اور میری بات غور سے سن لو۔ ‘‘

’’ایسی بات کیا چوہدری۔ جس سے ماضی کی ساری باتیں بھلائی جا سکتی ہیں اور پھر۔۔۔کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم ماضی کی باتیں بھول جائیں ؟‘‘ ماسٹر دین محمد نے سوال کیا تو چوہدری جلال نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا

’’اُوئے ماسٹر۔ !تو نے ابھی سے ناراضگی والی باتیں شروع کر دی ہیں۔ آؤ۔ ادھر آؤ۔ بیٹھو۔ ‘‘

ماسٹر دین محمد کھڑا رہا، تو وہ اسے باور کرانے کے لیے بولا ’’میں اپنے ساتھ بیٹھا رہا ہوں۔ عزت اور مان دے رہا ہوں تمہیں ، اپنے ساتھ بٹھا کر۔ ‘‘

’’چوہدری، سیدھا کہو تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ ‘‘

ماسٹر دین محمد بھی اکتائے ہوئے لہجے میں بول تو چوہدری جلال نے اس کی طرف دیکھ کر کہا

’’تو پھر سنو۔ !مانا کہ ماضی میں تمہارے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوئیں۔ لیکن اب میں چاہتا ہوں کہ تمہیں عزت دوں۔ تمہاری بیٹی سلمی اس حویلی کی بہو بن کر رہے۔ ‘‘

’’چوہدری۔ !میں جانتا ہوں کہ صبر کیا ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ صبر کی حد کیا ہوتی ہے۔ تو کون ہوتا ہے کسی کو عزت دینے والا۔ عزت اور ذلت فقط میرے اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے مجبور نہ کر کہ میں اپنا صبر توڑ دوں۔ ‘‘ ماسٹر دین محمدسخت لہجے میں بولا تو چوہدری جلال نے غصے میں کہا

’’میرے سامنے انکار کا مطلب تم سے زیادہ اچھی طرح اور کون جانتا ہے۔ تمہاری یہ تلخ بات میں اس لیے برداشت کر رہا ہوں کہ میں تم سے ناطہ جوڑنا چاہتا ہوں جا سوچ لے اور بہت اچھی طرح سوچ کر فیصلہ کر لے۔ نکاح ہوتے ہی کروڑوں کی جائیداد سلمٰی کے نام کر دوں گا۔ ‘‘

’’چوہدری۔ !اپنی حویلی میں بلا کر تم نے یہ بات کی۔ اچھا نہیں کیا۔ میرا جواب بھی سن لو۔ ہم مر تو سکتے ہیں لیکن تمہاری یہ بات نہیں مان سکتے۔ ‘‘ ماسٹر دین محمدسخت لہجے میں کہا تو چوہدری جلال بولا ’’ٹھنڈے دماغ سے سوچو ماسٹر ٹھنڈے دماغ سے، چند روپوں کی نوکری تلاش کرنے والی لڑکی کے دن پھر جائیں گے، کروڑوں کی جائیداد ملے گی۔ زندگی سنور جائے گی، اس کی بھی اور تیری بھی۔ جاؤ جا کر سوچو۔ ورنہ میں خود ہی تمہاری ہاں سن لوں گا۔ ‘‘

’’میرا آج بھی اور کل بھی یہی جواب ہے چوہدری۔ تم ۔۔۔‘‘ ماسٹر دین محمد نے کہنا چاہا تو چوہدری جلال ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا

’’بس۔ ! جاؤ لے جاؤ منشی اسے اور سمجھاؤ۔ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا اسے یہ بھی سمجھا دو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے رخ پھیر لیا۔ منشی اسے باہر کی جانب لے گیا۔ ماسٹر دین محمد نہایت افسردہ باہر چلا گیا۔

چوہدری جلال لان میں بیٹھا فون پر بات کر رہا تھا۔ چوہدری کبیر کی گاڑی پورچ میں رکی اور وہ کار سے اتر کر سیدھا اپنے باپ کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ چوہدری جلال فون بند کر کے کہا

’’ کبیر۔ ! کہاں تھے، تم مجھے تم سے ضروری بات کرنا ہے۔ ‘‘

’’بابا۔ !نور پور کے بھی اور یہاں کے بھی سارے معاملات کو دیکھنے کے لیے آپ ہی نے کہا تھا۔ وہی دیکھ رہا ہوں ، مصروف تو ہونا ہی ہے۔ خیر آپ بتائیں کیا بات کرنا تھی۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے کہا

’’دیکھو، میں نے تمہیں کبھی کچھ نہیں کہا، تم جو مرضی کرتے رہے ہو۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم مجھے مشکل میں ڈال دو، تمہاری وجہ سے میں بہت پریشان ہو گیا ہوں۔ ‘‘چوہدری جلال نے کہا تو چوہدری کبیر بولا

’’ایسی بھی کیا بات ہو گئی بابا؟‘‘

’’میڈیا کی رپورٹ نے اپنا اثر تو کیا ہے نا پارٹی کی طرف سے پوچھ گچھ کی گئی ہے کہ معاملہ کیا ہے، یہ ذرا سی چنگاری بھڑک بھی سکتی ہے۔ اس لیے میں اب تمہیں سمجھا رہا ہوں جو قدم بھی اٹھاؤ وہ بہت سوچ سمجھ کر اٹھاؤ۔ ‘‘

’’بابا آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ یہ جوسلمٰی نے ہماری ناک کے نیچے آفس کھول لیا ہے۔ یہ صرف آپ کی ڈھیل کی وجہ سے ہوا۔ آپ اب سیاست دان بن کر ہی سوچ رہے ہیں۔ اس علاقے کا بڑا زمیندار نہیں ، یہ کبھی نہ کھلتا۔ ‘‘چوہدری کبیر نے غصے میں کہا

’’تم رانی کے معاملے میں بے وقوفی نہ کرتے۔ یہی بات تمہیں سمجھا رہا ہوں۔ اور ایسے دفتر جو ہوتے ہیں نا ڈیرے داری کی طرح ہوتے ہیں۔ عوام چار دن کھا پی لے گی، پھر کون جائے گا ان کے پاس۔ کب تک چلا سکتے ہیں وہ ڈیرے داری۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا

’’اگر ایسا ہی ہوتا نا تو پریشانی والی بات نہیں تھی۔ اس آفس کا باقاعدہ افتتاح ہے۔ پتہ ہے کون کرے گا؟‘‘ چوہدری کبیر تشویش سے کہا

’’کون ہے؟‘‘ چوہدری جلال نے پوچھا

’’ملک نعیم، وہی ملک نعیم جس کو آپ مات دیتے رہے ہیں۔ وہی آج ہمارے علاقے میں اپنی سیاست چمکانے کی کوشش میں ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ ‘‘ چوہدری کبیر کے لہجے میں حقارت تھی تو چوہدری جلال بولا

’’اس کی یہ جرات ہو گئی۔ ‘‘

’’وہ چند دنوں میں یہاں آئے گا۔ عوامی حقوق کی نعرہ بازی میں لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکائے گا۔ بھوکے ننگے لوگوں کی باتیں کرے گا اور چلا جائے گا۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے یوں کہا جیسے ملک نعیم کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو

’’کبیر۔ !یہ صرف آفس ہی نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے خلاف ایک مرکز بنایا جا رہا ہے۔ فہد بہت سوچ سمجھ کر چال چل رہا ہے۔ نذیر کی بیوی کے باعث وہ پہلے ہی لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر رہا ہے۔ یہ آفس نہیں ہونا چاہئے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے فیصلہ کن لہجے میں کہا تو چوہدری کبیر بولا

’’میں آج شام تک ہی۔۔۔‘‘ اس نے کہنا چاہا تو چوہدری جلال نے تیزی سے کہا

’’نہیں کبیر۔ خود کچھ نہیں کرتے، یہ وقت ہوش کا ہے۔ جوش کا نہیں بلکہ چند دن صبر۔ فہد نے جو ماحول بنایا ہے ناوہ اسی کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ نہ آفس رہے گا اور نہ ان کی سیاست اب کھیل میں مزہ آئے گا۔ انہیں لوگوں کی ہمدردیاں نہ لینے دو۔ ‘‘

’’وہ جو لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکائیں گے؟‘‘ چوہدری کبیر نے حیرت سے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’اچھا ہے نا، ہماری دہشت کی بات ہی کریں گے۔ یہی وقت ہے جب لوگوں میں ان کے خلاف نفرت پھیلائی جا سکتی ہے، کرنے دو انہیں جلسے جلوس کرنے دو خیر۔ !تم فریش ہو جاؤ پھر بتاتا ہوں کہ اب کیا کرنا ہے۔ منشی کو بھی بلوا لو۔ ‘‘

چوہدری جلال نے کہا تو چوہدری کبیر اٹھ کر اندر چلا گیا۔

٭٭

 

ماسٹر دین محمد اس وقت گھر میں اکیلا تھا۔ وہ چارپائی پر لیٹا ہوا کتاب پڑھ رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہو ئی اور اس کے ساتھ ہی منشی کی آواز آئی۔

’’ماسٹر دین محمد، گھر پر ہی ہو نا۔ ‘‘

اس آواز کے ساتھ ہی منشی اندر آ گیا۔ اس نے دالان میں لیٹے ہوئے ماسٹر کو دیکھا اور اس کی جانب بڑھ گیا، پھر اس کے قریب بیٹھ گیا توماسٹر دین محمد نے یوں پوچھا جیسے خود پر قابو پا رہا ہو۔

’’کیسے آئے ہو تم؟‘‘

’’یہی پوچھنے کہ تم نے اپنی بیٹی کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ چوہدری صاحب زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتے۔ ‘‘ منشی نے کہا توماسٹر دین محمد بولا

’’اس نے اپنے گھر بلا کر ایسی گھٹیا اور نیچ بات کی تھی اور اب تم میرے گھر میں بیٹھ کر کمینی حرکت کر رہے ہو۔ ‘‘

’’سنوماسٹر۔ !کیا تو نہیں جانتا کہ تو نے ذرا سی غلطی کی تھی اور تجھے بڑی سزا دی گئی۔ اب اگر کوئی ایسی بات کی تو یہ سزا تیری آئندہ نسل بھگتے گی۔ فہد کو پناہ دے کر تم نے اچھا نہیں کیا۔ ‘‘ منشی نے کہا تو ماسٹر دین محمد بے خوف لہجے بولا

’’وہ دن گذر گئے۔ اب مجھے اور میری بیٹی کو موت سے ڈر نہیں لگتا۔ چوہدری نے سکول بند کروایا، وہ اب کھل گیا ہے۔ تیرے چوہدری کی اب یہ اوقات نہیں کہ اسے بند کروا دے۔ کہہ دینا اپنے چوہدری کو اور سمجھا دینا اسے آئندہ ایسی فضول سوچ بھی نہ سوچے۔ ورنہ شریف آدمی جب اپنی آئی پر آ جائے تو تیرے چوہدری جیسے کئی بے غیرت بہا کر لے جائے۔ ‘‘

’’تو نہیں جانتا۔ تیری بیٹی اگر نکے چوہدری کی دلہن نہ بنی تواس کا حشر کیا ہو گا تیرے پاس یہی ایک موقعہ ہے۔ عزت سے اپنی بیٹی کو رخصت کر دے، ورنہ شاید اسے رانی کی طرح؟‘‘ منشی نے دھمکی لگائی تو ماسٹر دین محمد نے غصے میں کہا

’’تم یہاں سے چلے جاؤ تو اچھا ہے، ورنہ ابھی تیرے جوتے مار دوں گا۔ دفعہ ہو جاؤ۔ ‘‘

یہ سن کے منشی خباثت سے مسکرا دیا پھر اٹھ کر باہر کی جانب چل دیا۔

ماسٹر دین محمد بے بسی سے آسمان کی طرف دیکھا اور دل مسوس کر رہ گیا۔ وہ دوبارہ لیٹ تو گیا لیکن کتاب نہ پڑھ سکا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ چوہدری نے مجھے ذلیل کرنے کا کوئی نیا طریقہ ڈھونڈا ہے۔ کیا وہ نہیں سمجھتا کہ میں اپنی بیٹی انہیں کیسے دے دوں گا۔ نہیں وہ کوئی بہت گہری سازش کر رہے ہیں یا پھر وہ صفیہ کی مدد کرنے پرسلمٰی کو انتقام کا نشانہ بنانا چاہ رہے ہیں۔ اب تو اس نے رانی کے بارے بھی اپنی آواز بلند کر دی ہے۔ ضرور یہ کوئی سازش ہے۔ میری پھول سی بیٹی۔ !ان درندوں کے ظلم کا شکار ہو جائے، میں کبھی ایسے نہیں ہونے دوں گا۔

اسے کے تصور میں ایک بھیانک منظر ابھرا۔ اس کی بیٹی سلمی ایک صحرائی ویرانے میں درختوں کے درمیان اکیلی بھاگتی جا ر ہی تھی اور زور زور سے چیختے ہوئے پکار رہی تھی۔

’’ابا۔ !مجھے بچا لو ابا مجھے بچا لو مجھے بچا لو۔ ‘‘

ماسٹر دین محمد ایک دم سے چونکتے ہوئے بڑبڑایا

’’نہیں میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گا۔ صبر کی وہ حد آ گئی ہے۔ جہاں زباں بندی جرم بن جاتی ہے میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ مجھے فہد سے بات کرنی چاہئے۔ ‘‘

یہ بڑبڑاتے ہوئے اس کا چہرہ غصے سے بھر گیا۔ کچھ دیر ایسی کیفیت میں رہا اور پھر اچانک اپنا دل پکڑ کر رہ گیا۔

ماسٹر دین محمد بستر پر نڈھال پڑا ہوا تھا۔ سلمی اور صفیہ اس کے پاس تھیں۔ تبھی ماسٹر دین محمد نے پہلے دروازے کی طرف دیکھا اور پھر کراہتے ہوئے پوچھا

’’فہد نہیں آیا ابھی تک؟‘‘

’’ابا۔ !آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں آ جائے گا وہ۔ آپ کتنی بار پوچھ چکے ہیں۔ ‘‘ سلمی نے دھیرے سے کہا

’’مجھے نہیں لگتا کہ وہ آئے گا۔ مجھے خود ہی جانا پڑے گا اس کے پاس۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے بے چارگی سے کہا۔ اتنے میں فہد دروازے میں نمودار ہوا تو صفیہ بولی

’’وہ آ گیا ہے فہد۔ ‘‘

یہ سن کرماسٹر دین محمد کے چہرے پر سکون پھیل گیا۔ فہد اس کے قریب آ کر بولا

’’حکم استاد جی۔ میں آ گیا ہوں۔ لیکن آپ کو ہوا کیا ہے ایک دم سے ؟ ‘‘

’’اچھا ہوا تو آ گیا ہے پتر۔ میں نے تم سے بہت ضروری بات کرنا تھی۔ اکیلے میں۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔ سلمٰی اور صفیہ کے چہرے کے تاثرات ایک دم سے بدل گئے اور وہ اندر چلی گئیں۔ تنہائی پا کرماسٹر دین محمد نے کہا

’’بیٹا۔ ! شاید چوہدری کوئی نئی سازش کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’ کیسی سازش، اور کیا۔ آپ مجھے کھل کر بتائیں۔ ‘‘

فہد نے کہا توماسٹر دین محمد نے حویلی میں بلوانے اور منشی کے آنے تک ساری بات اسے بتا دی۔ اس دوران فہد کا رنگ غصے میں سرخ ہو تا چلا گیا۔ وہ خود پر قابو پاتے ہوئے بولا۔

’’اپنی طاقت کے زعم میں یہ اس نے اچھا نہیں کیا استاد جی۔ میں اب تک بڑے صبر سے اس کا مقابلہ کرتا آیا ہوں۔ بات عزت تک آ گئی ہے۔ اب وہ حد پار کر گیا ہے۔ اب صبر کرنا بزدلی ہو گی۔ ‘‘

’’صبر ہر حال میں کرنا ہے پتر اور خصوصاًاس وقت جب سامنے کوئی گھٹیا قسم کے دشمن سے ہوں۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے اس سے کہا تو وہ غصے میں بولا

’’جیسے آپ کا حکم استاد جی، لیکن اتنی اجازت ضرور دیں کہ گھٹیا دشمن کو احساس ضرور دلاؤں کہ وہ کس قدر گھٹیا ہے۔ کمینے دشمن کے ساتھ اچھا سلوک، نیکی نہیں ہوتی۔ ‘‘

’’یہ تیری مرضی ہے پترجیسے تو چاہیے۔ لیکن سلمٰی کو بچا لو۔ وہ بڑا اوچھا وار کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’میں جانتا ہوں استا د جی۔ یہ منافقت اسی دن سے شروع ہوئی تھی، جب سلمی نے مجھے یہاں آنے سے روکا تھا۔ میں نے بھی منفی پروپیگنڈا سنا ہے اور سن رہا ہوں۔ منافقوں سے نپٹنا مجھے آتا ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ اپنا خیال رکھیں۔ میں یہ سب دیکھ لوں گا۔ اب یہ میرا معاملہ ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے استاد جی کا ہاتھ تھپتھپایا اور اٹھ کر تیزی سے باہر کی جانب بڑھ گیا۔ سلمٰی اسے دیکھتی رہ گئی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ اس نے بہت جلدی کی تھی۔

٭٭

 

چوہدری جلال اور بشریٰ بیگم حویلی کے اندرونی دالان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ چوہدری جلال نے اپنی بیوی کے چہرے پر دیکھا اور پوچھا

’’کیا بات ہے بیگم۔ !خیریت تو ہے نا، تم بہت اداس لگ رہی ہو؟‘‘

’’جی چوہدری صاحب۔ !خیریت ہے۔ بس آپ کو ایسے لگ رہی ہوں۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے نگاہیں چراتے ہوئے کہا تو چوہدری جلال نے اصرار کرتے ہوئے پوچھا

’’کچھ تو ہے۔ ویسے اگر تم نہ بتانا چاہو تو۔۔۔‘‘

’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، میں بس وہ سوچ رہی تھی کہ وہ ماسٹر دین محمد کی بیٹی ہے نا سلمٰی۔ اس نے عمر حیات والے گھر میں آفس بنا لیا ہے۔ اب باقاعدہ اس کا افتتاح بھی کرنے والی ہے۔ مجھے جہاں تک پتہ چلا ہے، وہاں بیٹھ کر یہ اعلان کر رہی ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرے گی۔ میں یہ سوچ رہی ہوں یہ سب وہ رانی کے لیے کر رہی ہے، یا اس کے رد عمل کے طور پر؟‘‘ بشریٰ بیگم نے الجھتے ہوئے پوچھا تو چوہدری جلال مسکراتے ہوئے بولا

’’وہ سلمی بے چاری، اپنا حق نہیں لے پائی، کسی کو کیا حق دلائے گی۔ یہ سب وہ فہد کے کہنے پر لوگوں کو اکھٹا کرنے کے لیے ڈرامہ کر رہی ہے۔ ‘‘

’’جو کچھ بھی ہے چوہدری صاحب، وہ گاؤں کی اتنی عورتوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے بتایا تو چوہدری جلال بولا

’’ہاں مگرسوچنے والی بات یہ ہے کہ اب اس کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی لمبی سازش ہو رہی ہے۔ خیر انہیں نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ‘‘

’’کیسی سازش کیا ہونے والا ہے؟‘‘ بشریٰ بیگم نے چونکتے ہوئے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’بیگم۔ !میں کبیر کو صرف ایک جذباتی نوجوان سمجھتا تھا۔ لیکن اب پتہ چل رہا ہے وہ دور کی سوچتا ہے۔ اس نے جو سلمٰی کو اپنی دلہن بنانے کے لیے کہا ہے نا، تو بالکل درست کہا ہے۔ مجھے اب دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس کی شادی سلمی سے ہو جانی چاہئے۔ ‘‘

’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ وہ کیا مان جائیں گے، ماسٹر دین محمد مان جائے گا جو ساری زندگی آپ کا عتاب سہتا رہا ہے؟ ‘‘ بشریٰ بیگم نے حیرت سے پوچھا

’’یہی تو بات ہے، وہ عتاب کیوں سہتارہا۔ اگر اس میں ذرا سی بھی جان ہوتی تو یہاں سے چلا جاتا۔ اب بھی وہ میری بات ٹال نہیں سکے گا۔ تم دیکھ لینا۔ ورنہ میں جو چاہوں وہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ ‘‘ چوہدری نے غرور سے کہا تو بشریٰ بیگم بولی

’’لیکن چوہدری صاحب، پہلے وہ اکیلے تھے۔ اب فہد ہے نا، انکے پاس۔ ‘‘

’’جو میں سمجھتا ہوں۔ وہ تم نہیں سمجھ پاؤ گی بیگم، اب فہد کو اکیلا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اب وہ سلمی، عوام کی نہیں ، ہماری خدمت کرے گی۔ تم دیکھنا، ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ مسکرایا تو۔ بشریٰ بیگم پریشان ہو گئی۔

وہ اس وقت باتیں کر رہے تھے جبکہ انہیں خبر نہیں تھی کہ حویلی کے باہر چینل کی وین پورچ میں آ رکی تھی۔ اس میں سے مائرہ کے ساتھ دوسرے لوگ اتر آئے تھے۔ انہیں ایک ملازم نے آ کر بتایا تو چوہدری جلال نے حیرت سے اسے دیکھا پھر بولا

’’ انہیں بٹھاؤ، میں آتا ہوں۔ ‘‘

ملازم یہ سن کر واپس چلا گیا۔

چینل والے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے درمیان والے صوفے پر چوہدری جلال بیٹھا ہوا تھا۔ مائرہ نے اس سے سوال کیا

’’میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ رانی نامی جس ملازمہ نے آپ کی اس حویلی میں خودکشی کی، اسے آپ نے دفنانے کی اتنی جلدی کیوں کی؟‘‘

’’ہم نے تو اسے نہیں دفنایا۔ اس کے والدین آ کر اسے لے گئے تھے۔ ہو سکتا ہے انہوں شرمندگی کی وجہ سے جلدی کی ہو کیونکہ اس نے چوری کی تھی۔ ‘‘ چوہدری جلال نے بڑے تحمل سے جواب دیا تو مائرہ نے پوچھا

’’کیا چوری کی تھی؟‘‘

’’یہی کچھ رقم تھی اور زیور، شادی قریب تھی نا اس کی۔ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ ہم اسے بیٹیوں کی طرح رخصت کرتے۔ یہ حویلی کی روایات ہے۔ ‘‘ وہ اعتماد سے بولا

’’اسی گاؤں قسمت نگر کی لڑکی سلمی نے آپ کے بیٹے پر جو الزام لگایا ہے، اس میں کس حد سچائی ہے؟‘‘ مائرہ نے سوال کیا تو چوہدری جلال بولا

’’میرا چونکہ ایک سیاسی پس منظر ہے اور میرے مخالفین مجھ پر، میرے خاندان کے افراد پر، ایسے سنگین الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ خود کشی کے فوراً بعد ہم نے پولیس کو بتایا، انہوں نے کاروائی کی۔ ‘‘

’’لیکن تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس دن تھانے میں رپورٹ درج نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی ہسپتال سے میڈیکل رپورٹ لی گئی ہے۔ کاروائی پھر کیا ہوئی، کیا آپ غلط بیانی نہیں کر رہے ہیں ؟‘‘ مائرہ نے اسے گھیرا تو چوہدری جلال اسی تحمل سے بولا

’’میں اس بارے کیا کہہ سکتا ہوں۔ میرے پاس اس کے ثبوت ہیں وہ میں آپ کو دکھا سکتا ہوں۔ ‘‘

’’یہ کاغذات آپ اپنے اثر ورسوخ سے بنوا سکتے ہیں۔ ‘‘ مائرہ نے تیزی سے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’اس پر میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اب میں سیاست بھی تو میں اپنے اثر ورسوخ سے کر رہا ہوں۔ یہ صرف مخالفین کا پروپیگنڈا ہے۔ آپ خود جائیں اور تحقیق کریں۔ ‘‘

’’میں نے تحقیق کی ہے اور اس بنیاد پر آپ سے بات کر رہی ہوں۔ رانی آپ کے بیٹے کبیر کی ہوس کا نشانہ بنی ہے اور اسے قتل کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے صفیہ نامی خاتون کے شوہر قتل کا الزام آپ کے بیٹے پر ہے۔ جس کی باقاعدہ ایف آئی درج ہوئی ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟‘‘ مائرہ نے تلخی سے کہا تو چوہدری جلال غصے پر قابو پاتے ہوئے بولا

’’آپ اگر تحقیق کر چکی ہیں تو پھر آپ میرے پاس کیا لینے آئی ہیں۔ میں ان الزامات کا سامنا کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے مخالفین کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملے گا جس سے وہ میری سیاسی ساکھ کو خراب کر سکیں۔ ‘‘

اس پر مائرہ سوال کرنے لگی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ مائرہ نے حیران ہو کر دیکھا تو چوہدری جلال بولا

’’بس بہت ہو چکے سوال، مجھے کچھ ضروری کام سے جانا ہے۔ باقی پھر سہی۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ اٹھ گیا۔ مائرہ اس کی طرف دیکھتی رہی پھر مایوسانہ انداز میں اٹھ گئی۔ اسے سمجھ آ گئی تھی۔

قسمت نگر گاؤں کی ایک گلی میں کچھ لوگوں نے ایک لکھا ہوا بینر اٹھا یا ہوا تھا۔ وہ اسے لگانا چاہ رہے تھے۔ ایک لڑکا دوسرے لڑکے کو صلاح دے رہا تھا

’’ادھر ٹھیک ہے، ادھر لگا دیتے ہیں۔ ‘‘

تبھی ان کے پاس سے ایک آدمی نے گذرتے ہوئے پوچھا

’’اُوئے لڑکو!یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’نور پور سے آنے والے مہمانوں کے لئے بینر لگا رہے ہیں۔ ‘‘ لڑکے نے جواب دیا تو آدمی نے پوچھا

’’کیا لکھا ہے اس پر؟‘‘

’’ہم ملک نعیم کی آمد پر انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر وہ سر ہلاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

کچھ لڑکے چاچا عمر حیات والے اس گھر کے سامنے جھنڈیاں لگا رہے تھے جو اب سلمی کا آفس بن چکا تھا۔

سلمٰی اور صفیہ آفس میں تھیں۔ سلمٰی میز کے پیچھے کرسی پر بیٹھی ہوئی سامنے دھرے کاغذوں پر لکھ رہی تھی اور صفیہ ساتھ میں کھڑی تھی۔ باہر ہارن بجا تو سلمٰی چونک گئی۔ اس پر صفیہ نے کہا

’’لگتا ہے فہد آیا ہے۔ ‘‘

سلمٰی خاموشی سے لکھتی رہی۔ چند لمحوں بعد فہد دروازے کے فریم میں آن کھڑا ہوا اور بڑے سنجیدہ لہجے میں بولا

’’اجازت ہے میں اندر آ سکتا ہوں ؟‘‘

سلمٰی نے اسے بڑی شاکی نگاہ سے دیکھا، پھر سر کا اشارہ کر دیا۔ وہ آ کر کرسی پر بیٹھا تو سلمی نے صفیہ سے کہا۔

’’تم جاؤ صفیہ۔ ‘‘پھر فہد کی طرف دیکھ کر کے بولی ’’ یوں اجنبیوں کی طرح اجازت لینے کی کیا ضرورت تھی۔ ‘‘

’’تم نے اپنے گھر میں آنے سے جو منع کر دیا تھا۔ سوچا کہیں یہاں بھی تو مجھ پر پابندی نہیں ہے۔ ‘‘ فہد نے دھیمے لہجے میں کہا توسلمٰی نے سکون سے کہا

’’میں نے دل میں رہنے سے تو منع نہیں کیا نا اور آپ جانتے ہو۔ ‘‘

’’میں جانتا ہی نہیں ، سمجھتا بھی ہوں۔ میں ایک بات تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں۔ تم نے دنیا کے مطابق نہیں اپنے مطابق جینا ہے۔ د نیا تو سو طرح کی باتیں کرے گی اور جینے نہیں دے گی۔ ‘‘ فہد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’کیا یہ اچھا نہیں ہے، کسی کو بات کہنے کا موقع ہی نہ دیا جائے؟‘‘ سلمی نے پوچھا

’’ذرا سوچو سلمٰی۔ !میرے آنے سے لے کر اب تک ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ اب اچانک کیوں ؟اسے سمجھ؟کسی بد گمانی میں مت پڑنا ورنہ لمحوں کا فاصلہ صدیوں پر محیط ہو جائے گا۔ مت ڈرو۔ دنیا کیا کہتی ہے۔ بس ذرا وقت کا انتظار کرو۔ ‘‘ فہد نے تحمل سے کہا توسلمی بولی

’’میں آپ سے کبھی بد گمان نہیں ہو سکتی۔ دور رہ کر بھی میں آپ کے ساتھ ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ آپ بھی مجھ سے غافل نہیں ہیں۔ اور مجھے یقین ہے یہ جدا جدا راستے ایک ہو جائیں۔ ‘‘

’’میں اس لیئے آیا ہوں کہ مائرہ، اپنی پوری ٹیم کے ساتھ یہاں قسمت نگر میں آ گئی ہے۔ اب وہ یہاں کچھ دن رہے گی، تمہارے گھر میں ، تمہارے ساتھ۔ ‘‘ فہد نے بتایا توسلمی نے مضطرب ہوتے ہوئے کہا

’’وہ گھر کیا اس کے شایان شان ہو گا وہ تو۔۔۔‘‘

’’وہ ادھر اسی گھر میں رہے گی۔ بس تم اس کا خیال رکھنا۔ ‘‘ فہد نے حتمی لہجے میں کہا تو سلمٰی بولی

’’جیسا آپ چاہو۔ میں اس بہت خیال رکھوں گی۔ ‘‘

’’دوسری بات کہ تمہیں افتتاح پر رقم کی ضرورت ہو گی، یہ لو۔ اور رابطے کے لیے یہ سیل فون۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے نوٹوں کی گڈیاں اور فون میز پر رکھ دیا۔ اور پھر کھڑا ہوا۔ سلمٰی نے نوٹوں کو دیکھ کر پھر اس کی طرف حسرت سے دیکھ کر پوچھا

’’یہ اتنی بڑی رقم اور فون؟‘‘

’’ہاں۔ !یہ رکھو۔ میں چلتا ہوں۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ سلمٰی اسے دیکھتی رہ گئی۔ یہی وہ لمحات تھے جب اسے فہد پر ٹوٹ کر پیار آیا۔ یہی تو شخص تھ اجس نے اسے اعتماد جیسی دولت سے نوازا۔ ایک دم ہی اس میں جوش بھر گیا۔ وہ اپنی حالت پر مسکرا کر رہ گئی۔ اس نے صفیہ کو آواز دے کر بلایا۔ پھر خود ہی اٹھ کر باہر نکل گئی۔

سلمٰی کے آفس کے دوسرے کمرے میں زمین پر دری بچھائے دو لڑکیاں بیٹھی کاغذ پر لکھ رہی تھیں۔ سلمٰی نے ان سے جا کر پوچھا

’’فہرست تیار ہو گئی یا ابھی ۔۔۔‘‘

’’جی باجی، بس تھوڑا سا کا م رہ گیا ہے۔ ابھی مکمل ہو جاتی ہے۔ ‘‘ ایک لڑکی نے سر اٹھا کر کہا توسلمٰی خوش ہوتے ہوئے بولی

’’شاباش، جلدی کر لو۔ پتہ ہے دوپہر تک کام مکمل کرنا ہے، شام کو افتتاح بھی ہے۔ ‘‘

لفظ اس کے منہ میں ہی میں تھے کہ صفیہ نے آ کر بتایا۔

’’وہ باہر چینل والے آئے ہیں۔ تمہارے کمرے میں ہیں۔ بلاؤں انہیں۔ ‘‘

’’ ادھر نہیں ، میں ان کے پاس جاتی ہوں۔ ‘‘

سلمٰی نے کہا اور فوراً اس طرف بڑھ گئی۔ مائرہ کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ سلمی اسے والہانہ انداز میں ملتے ہوئے بولی

’’بہت خوشی ہوئی تمہیں دوبارہ دیکھ کر۔ ‘‘

’’یقین جانو مجھے بھی بہت خوشی ہو رہی ہے۔ اب تو میں کچھ دن ادھر ہی رہوں گی۔ ‘‘ مائرہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو سلمی بولی

’’ابھی فہد یہاں سے گئے ہیں۔ تمہارے بارے میں بتا کر، آؤ بیٹھو، نہیں بلکہ گھر ہی چلتے ہیں۔ ‘‘

’’وہ بھی چلے جائیں گے، پہلے تھوڑا ساکام کر لیں۔ ‘‘ مائرہ نے کہا توسلمی بولی

’’جیسے آپ کی مرضی۔ ‘‘

کچھ دی بعدسلمی اور مائرہ آمنے سامنے بیٹھی ہوئیں۔ صفیہ ان کے پاس کھڑی تھی۔ کیمرہ مین اپنا کام کرتا تھا۔ تبھی مائرہ نے پوچھا

’’رانی کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے۔ حویلی والے تو اس کی تردید کرتے ہیں۔ ‘‘

’’ یہ حویلی والے اب تک ان بے زبانوں پر ظلم ہی کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے رانی پر ظلم کیا، اس کے ثبوت اور شواہد موجود ہیں۔ یہ ان کا کوئی پہلا ظلم نہیں ہے۔ نجانے کتنے ظلم کیے ہیں انہوں نے۔ ‘‘ سلمٰی سخت لہجے میں جواب دیا تو مائرہ نے اگلا سوال کیا

’’آپ نے یہ جو تنظیم بنائی ہے، اس کا بنیادی مقصد کیا ہے؟‘‘

’’یہاں کے لوگوں کو بتاؤں کہ ان کا حق کیا ہے۔ رانی جیسی عورتوں کے حق کے لیے میں نے لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سے بھی پہلے میں اس خاتون صفیہ کو انصاف دلانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہوں۔ جس کے شوہر کو دن دیہاڑے چوہدری کبیر نے قتل کر دیا تھا۔ ‘‘ سلمی نے کہا تو مائرہ نے پوچھا

’’کیا آپ ظلم کے خلاف لڑ سکیں گی ؟ آپ کے پاس کیا طاقت ہے؟‘‘

’’مجھے اب کوئی خوف نہیں ہے۔ کیونکہ میں فیصلہ کر چکی ہوں میں چاہے زندگی ہار جاؤں لیکن انہیں ہارنے نہیں دوں گی، جن عورتوں کا اب میں حوصلہ ہوں میں بھی اب ان ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہوں اور کرتی رہوں گی۔ ‘‘ سلمی نے جواب دیا

’’کیا آپ تفصیل سے بتائیں گی کہ انہوں نے کیا ظلم کئے ہیں۔ ‘‘ مائرہ نے پوچھا توسلمی نے جرات سے کہا ’’کیوں نہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ بتانے لگی۔ سلمی کے چہرے پر عزم جھلکنے لگتا تھا۔ اس دوران صفیہ بھی روتے ہوئے اپنا موقف ریکارڈ کروا دیا۔

سہ پہر ہو گئی تھی۔ سڑک پر گاؤں سے باہر فہد، چھاکا اور چند لوگ کھڑے تھے۔ ایک بزرگ بندے کے ہاتھ میں ہار تھا۔ وہ سبھی راہ تک رہے تھے۔ فہد اس جانب دیکھ رہا تھا۔ سارے لوگ اسی جانب دیکھ رہے تھے۔ اچانک سڑک پر کاروں کا قافلہ آتا ہوا دکھائی دیا، جو ذرا سی دیر بعد ان کے قریب آ کر رک گیا۔ ایک کار میں سے ملک نعیم ہی نکلا۔ اس نے سب سے ہاتھ ملایا۔ بزرگ آدمی نے اس کے گلے میں ہار ڈالا توسب جلوس کی صورت میں چل پڑے۔

جیسے ہی وہ سلمی کے آفس کے سامنے پہنچے۔ وہاں کافی سارے لوگ ملک نعیم اور فہد بارے استقبالی لوگ نعرے لگ رہے تھے۔ ملک نعیم زندہ باد۔ دفتر کے باہر ربن لگا ہوا تھا۔ سلمٰی اور کچھ لوگ وہاں کھڑے تھے۔ ایک لڑکی نے اس کی جانب پلیٹ میں رکھی قینچی بڑھائی۔ ملک نعیم نے ربن کاٹ دیا توہر طرف تالیاں بج اٹھیں۔ گھر کے صحن میں سٹیج بنا ہوا تھا۔ میز کے پار سلمٰی، درمیان میں ملک نعیم اور گاؤں کا ایک بزرگ بندہ بیٹھ گیا۔

انہوں نے بڑا مختصر پروگرام رکھا تھا۔ پہلے سلمی نے ڈایس پر آ کر اپنا مقصد بتایا اور پھر ملک نعیم اٹھ کر سٹیج تک آ کر بات کرنے لگا

’’قسمت نگر کے معزز لوگو!میں یہاں کوئی سیاسی تقریر نہیں کرنے آیا۔ صرف اور صرف ان عظیم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے آیا ہوں۔ جنہوں نے یہ عزم کر لیا ہے کہ عوام کو ان کے حقوق کا احساس دلایا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ وہ بھی اس آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں۔ کوئی انہیں غلام بنا کر نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ ہمارے جمہوری ملک کی اصل طاقت عوام ہیں۔ جب تک عوام اپنے حقوق کا شعور حاصل کرے گی۔ اس وقت تک کسی بھی طرح کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ یہی شعور ایک محب وطن قیادت لے کر آئے گا۔ میں بھی آپ میں سے ہوں۔ ہم سب نے مل کر اس مشن کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ آپ مجھے اپنے ساتھ پائیں گے۔ میں ہر طرح کی خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ میں آپ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلوں گا۔ ‘‘

وہاں موجود لوگوں نے تالیاں بجائیں تو وہ سٹیج سے واپس آیا۔ ملک نعیم زندہ باد کے نعرے لگتے رہے۔ وہ لوگوں میں آ گیا اور ان سے ہاتھ ملاتا رہا۔ وہ کچھ دیر ان کے ساتھ رہا اور پھر اپنے ساتھ آئے قافلے کے ساتھ چلا گیا۔

شام ڈھل کر رات میں بدل گئی تھی۔ ماسٹردین محمد کے ساتھ سلمی اور مائرہ، تینوں صحن میں بچھی ہوئی چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ یوں دکھائی دے رہا تھا، جیسے سارے کاموں سے فارغ ہو کر صرف گپ شپ کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ماسٹردین محمد کہہ رہا تھا۔

’’پہلی بات تو یہ ہے بیٹی، مجھے بہت اچھا لگا کہ تم نے ہمارے گھر کو رہنے کے لیے پسند کیا۔ جیسا بھی ہے، اس میں تمہارے رہنے کے لیے وہ سہولیات تو نہیں ہو گی۔ ‘‘

’’انکل، گھر مکینوں سے ہوتا ہے۔ بندہ وہیں رہنا پسند کرتا ہے جہاں وہ سکون محسوس کرے۔ آپ سے مل کر، سلمی سے مل کر، مجھے بہت سکون کا احساس ہوا ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے خوشگوار انداز میں پوچھا، ’’ اور دوسری بات انکل؟‘‘

’’ہاں تم ٹھیک کہتی ہو، گھر مکینوں ہی سے بنتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے بیٹی کہ تم نے جو بتایا کہ اس علاقے کی رپورٹ بناؤ گی تاکہ یہاں کا حال بیان کر سکو، یقین جانو تم وہ کام کر رہی ہو جو ان لوگوں کا کرنا چاہئے تھا جو یہاں کے نمائندے بن کر ایوانوں میں جا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ‘‘

ماسٹردین محمد نے دکھی لہجے میں کہا توسلمی بولی

’’وہ کیوں علاقے کی ترقی چائیں گے اس طرح تو ان کی علاقے پر حاکمیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ یہاں کے لوگ ان کے شکنجے سے نکل جائیں گے۔ ‘‘

’’سلمی تمہارے خیال میں اس کا حل کیا ہے؟‘‘ مائرہ نے پوچھا

’’سمپل، عوام کے نمائندے وہ لوگ ہوں ، جو ان کے مسائل حل کریں۔ کوئی مسائل حل کرنے کی سوچے گا تو حل ہوں گے نا۔ ‘‘

اس دوران ماسٹردین محمد نے چائے کا خالی کپ قریب پڑی میز پر رکھ کر اٹھتے ہوئے بولا

’’لو پتر، تم کرو باتیں ، میں نماز پڑھ کر آتا ہوں۔ ‘‘

وہ اٹھ کر باہر کی جانب گیا تو مائرہ بولی

’’پچھلی بار جب میں آئی تو بہت افراتفری میں تھی۔ اس بار بھی کچھ ایسے ہی تھا۔ لیکن پھر بھی میں تمہارے لیے کچھ گفٹ لانا نہیں بھولی۔ مجھے امید ہے تمہیں پسند آئیں گے۔ ‘‘

’’مائرہ، تمہاری مہربانی کہ تم نے مجھے یاد رکھا۔ تمہارے آنے سے ہمیں بہت سہارا ملا ہے، ورنہ یہ چوہدری اپنی گھناؤنی سازش میں کامیاب ہو جاتے۔ ‘‘ سلمی نے ممنونیت سے کہا تو مائرہ بولی

’’اب ان کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ میں پوری دنیا کو ان کا اصل چہرہ دکھاؤں گی۔ یہ کیسے لوگ ہیں۔ خیر چھوڑو یہ تو ہو گا اور مل کر ہی کریں گی۔ کوئی اور بات نہ کریں۔ ‘‘

’’ مثلاً کیس باتیں ؟‘‘ سلمی مسکراتے ہوئے پوچھا تو مائرہ نے بے تکلفی سے کہا

’’کچھ اپنے بارے میں کہو، کچھ میرے بارے میں پوچھو۔ دیکھو۔ !ہم دوست تو بن گئی ہیں لیکن ایک دوسرے کے بارے ہم اتنا نہیں جانتیں۔ ‘‘

’’ہاں یہ تو ہے۔ چلو جان لیتی ہیں ایک دوسرے کے بارے میں۔ ‘‘

سلمی نے کہا تواس پر دونوں قہقہہ لگا کر دیں۔

٭٭

 

تھکا ہوا، چھاکا صحن میں بچھی چارپائی پر آ کر بیٹھ گیا۔ اندر سے چاچا سوہنا نکلا۔ وہ خوب تیاری کئے ہوئے تھا۔ صاف ستھرے کپڑے، پگڑی وغیرہ باندھی ہوئی تھی۔ وہ آ کر چھاکے کے پاس بیٹھ گیا تو چھاکے نے حیرت سے پوچھا

’’ابا۔ ! خیر تو ہے یہ ٹہور شہور نکال کر، سرمہ ڈال کر کسی میلے میں جا رہا ہے؟‘‘

’’نہ، تو مجھے یہ بتا، دعوے تو یہ کرتا ہے کہ پورے علاقے میں تیری دس پچھ ہے، تجھے پتہ ہے اس علاقے میں کوئی میلہ ہے؟‘‘ چاچاسوہنا مصنوعی غصے میں بولا تو چھاکے نے ہنستے ہوئے کہا

’’میلہ تو نہیں ہے، پر یہ تیری تیاری ایویں ہی مغالطے میں ڈال رہی ہے نا۔ ‘‘

’’میں پتر کسی میلے پر نہیں اپنی نہو(بہو) تلاش کرنے جا رہا ہوں۔ میں نے سوچا ہے اب تیرا ویاہ کر دوں۔ عورت کے بغیر گھر کتنا سونا سونا سا لگتا ہے۔ ‘‘ چاچا سوہنا مسکراتے ہوئے بولا چھاکے نے حیرت نے پوچھا

’’ابا تجھے خیر تو ہے یہ کیسی باتیں کرنے لگ گیا ہے؟‘‘

’’میں کلّا رہ گیا ہوں پتر، جو باتیں میں ادھر ادھر سے سن رہا ہوں نا وہ بڑی خطرناک ہیں۔ ٹھیک ہے سکول کھل گیا ہے تو چوہدری ایویں ہی چپ نہیں کر گئے، اس خاموشی کے بعد جو طوفان آنے والا ہے۔ ‘‘ چاچے سوہنے نے تشویش سے کہا تو چھاکا بولا

’’او ابا، تو ایویں ہی ڈر رہا ہے۔ کچھ نہیں ہوتا۔ اگر اس دن چوہدری مجھے مار دیتے تو کیا ہوتا ؟ تو اب عیش کر، جہاں تاش کی پانچ بازیاں لگاتا ہے نا، وہاں دس لگایا کر۔ میں نہیں پڑھ سکا ابا تو آنے والی نسل تو پڑھے گی نا۔ ‘‘

’’ پتر مجھے کلّا نہ کر جائیں۔ ‘‘ چاچاسوہناجذباتی ہو کر بولا

’’تجھے کلّا ہونے کا اتنا ہی ڈر ہے نا تو سکول کے سامنے بیٹھ کر آلو چھولے بیچا کر، تیرا کچھ تو فائدہ ہو۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے ادھر ادھر دیکھ کے پوچھا، ’’کدھر ہے میرا شہزادہ؟‘‘

تبھی قریب ہی کہیں مرغا بول دیا توچاچاسوہنا ہنستے ہوئے بولا

’’لے سن لے۔ ‘‘

چھاکا اپنے مرغے کی طرف بڑھ گیا تو چاچا سوہنا باہر نکل گیا۔ اس کا رخ چوراہے کی طرف تھا۔

چوراہے میں چاچا سوہنے کے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ تاش کھیل رہا تھا۔ اردگرد لوگ بیٹھے ہوئے کھیل بھی دیکھ رہے تھے اور تبصرے بھی کر رہے تھے۔ حنیف دوکاندار بھی باہر نکل کر بیٹھا ہوا تھا۔ ایک آدمی کے ساتھ اس کی درمیان باتیں چل رہی تھیں۔

’’او یار۔ !جب سے یہ فہد آیا ہے نا گاؤں میں کوئی نا کوئی نئی بات ہی ہو رہی ہے۔ اللہ خیر ہی کرے۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے کہا تو سامنے والا بندے نے پوچھا

’’اب کیا کر دیا اس نے؟‘‘

’’ دیکھو یار۔ ماسٹر دین محمد کی بیٹی نے کوئی دفتر کھول لیا ہے۔ وہ بھی عوام کے لیے۔ اب وہ بھلا عوام کے لیے کیا کر سکے گی جو خود اکیلی نور پور تک سفر نہیں کر سکتی۔ ‘‘حنیف دوکاندار نے طنزیہ لہجے میں کہا تو وہ آدمی بولا

’’اس میں فہد کہاں سے آ گیا۔ ‘‘

’’او پاگل۔ !وہ بھی تو ماسٹر دین محمد کے گھر رہتا ہے۔ اس کی پڑھائی پٹیوں پر ہی وہ چل رہی ہے۔ سنا ہے سلمی کے ساتھ اس کا بہت زبردست عشق چل رہا ہے، ورنہ اس کی جرات کہاں تھی۔ پہلے یوں دیکھا تھا اس کو۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے سمجھایا تو آدمی بولا

’’بس یار، مجھے تو ڈر ہی لگتا ہے، گاؤں میں کوئی طوفان ہی نہ آ جائے وہ بار بار چوہدری کو ہی للکار رہے ہیں۔ ‘‘

تبھی چاچا سوہنا تاش ایک طرف رکھ کر بولا

’’تو کیوں ڈر رہا ہے۔ تیرا کسی طوفان سے کیا لینا دینا، تیرے جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں کھاتے پیتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ کسی کا درد، کسی کا احساس کوئی کوئی جانتا ہے۔ اگر تم لوگوں کا احساس کرنے والا کوئی آ ہی گیا ہے تو اسے پہچانو۔ ‘‘

’’چاچا یہ تو کیا بات کر رہا ہے؟‘‘ حنیف دوکاندار نے کہا تو چاچا سوہنا بولا

’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ شعور وہیں آتا ہے جہاں انقلاب آنا ہو۔ اس بات کو سمجھ۔ اور چھوڑ دے فہد کی مخالفت۔ تیرے یہ چوہدری تجھے بچانے نہیں آئیں گے۔ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ‘‘

’’یار۔ !کل گاؤں میں ملک نعیم آ کر چلا گیا۔ اوئے مجھے ایک بندے نے بتایا ہے کہ اس کی اور چوہدریوں آپس میں بڑی مخالفت ہو گئی۔ اپنے اس نذیرے کے معاملے میں وہ صفیہ کی حمایت کر رہا ہے۔ اسی لیے تو وہ فہد کے پاس آیا تھا۔ ‘‘ پاس بیٹھے آدمی نے بتایا تو ایک دوسرے آدمی نے کہا

’’یار اگر چوہدریوں کی مخالفت ہے تو پھر یہاں کے حالات بھی اچھے بھلے خراب ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’اُو حالات کیا خراب ہونے ہیں۔ انہوں نے ملک نعیم کے یہاں آنے کو اہمیت ہی نہیں دی۔ ورنہ اگر وہ چاہتے تو وہ یہاں آ کر تقریر نہیں کر سکتا تھا۔ چوہدری ایسے بھی نہیں ہیں کہ اپنے مخالف کو نظر انداز کر دیں۔ یہ جو خاموشی ہے نا۔ اس میں بھی کوئی نہ کوئی طوفان ہو گا۔ دیکھ لینا تم چند دنوں ہی میں دیکھ لینا۔ ‘‘

حنیف دوکاندار نے کہا تو چاچا سوہنا تڑپ کر بولا

’’اوئے سنواوئے۔ !جو طوفان آئے گا، اسے سبھی دیکھ لیں گے۔ تم یہ بتاؤ، وہ جو باتیں کر کے گیا ہے۔ وہ کیسی تھیں۔ یار، عجیب بے وقوف آدمی ہو، کیا چوہدریوں کا ظلم کر نا ہی لکھا ہے۔ وہ کون سی مخلوق ہے جو ہم غریبوں پر ظلم ہی کرتے رہیں اور ہم ظلم سہتے رہیں۔ اور تیرے جیسے منافق لوگ ان کی خوشامد ہی نہیں ، انکے خوف سے ڈراتے رہیں۔ چوہدری کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہیں کہ ان کی مخالفت نہ کی جا سکتی ہو۔ ‘‘

’’نہیں باتیں تو اس کی ٹھیک ہیں۔ مگر ان سیاست دانوں کی باتیں ہی ہوتی ہیں۔ ان پر عمل کم ہی ہوتا ہے۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے دھیمے لہجے میں کہا چا چا سوہنا بولا

’’اگر طوفان کی جگہ ملک نعیم لوگوں کے کام آنا شروع ہو جائے تو کیساہے؟‘‘

’’پھر تو چاچا ہمارے سارے مسئلے ہی نہ حل ہو جائیں۔ ‘‘ پاس بیٹھے آدمی نے کہا تو چاچا سوہنا بولا

’’تو بس پھر اس بات کو سوچو۔ غور کرو اس بات پر۔ ‘‘یہ کہہ کر اس نے اپنے پتّے اٹھائے اور کھیل میں مصروف ہو گیا۔ لوگ حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے جس نے آج چوراہے میں بیٹھ کر چوہدریوں کی بھرپور مخالفت کر دی تھی۔

٭٭

 

رات کے اندھیرے میں کاشی سڑک پر اپنی گاڑی بھگائے لے جا رہا تھا۔ ایسے میں ڈیش بورڈ پر پڑا اس کا فون بج اٹھا۔ اس نے فون اٹھایا اور اسکرین پر دیکھا پھر مسکراتے ہوئے کال رسیو کر لی۔

’’جی چوہدری صاحب، اتنی رات کو یاد کر لیا؟‘‘

دوسری طرف چوہدری جلال حویلی کے کاریڈور میں کھڑا فون کر رہا تھا۔

’’بول کاشی۔ کیا بات ہے۔ جو فون نہیں کیا۔ کیا میرا کام یاد نہیں ہے تمہیں ؟‘‘

’’میں نے سب طرح کا جائزہ لے لیا ہے۔ صرف دو دنوں میں کسی بھی وقت گاؤں سے باہر فہد کا کام ہو جائے گا۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’ہاں اس کا کام اب ہو جانا چاہئے بہت دن دے دئیے اسے۔ ‘‘

’’میرا کام کب ہو گا، چوہدری صاحب؟‘‘

کاشی اپنے مطلب پر اتر آیا تو چوہدری جلال نے دبے دبے غصے میں کہا

’’تیرا کام بھی سمجھ ہو گیا، بس علاقے میں یہ افواہ بھی نہیں اُڑنی چاہئیے کہ اس معاملے میں ہمارا کوئی بھی تعلق ہے۔ ‘‘

’’کیا یہ آپ کی شرط ہے، میرے کام کے معاملے میں میں کام کروں گا تبھی آپ میرا کام کریں گے؟‘‘ کاشی نے چونکتے ہوئے پوچھا

’’نہیں شرط نہیں میں ابھی اوپر بات کرتا ہوں بس بہت محتاط ہوں تمہارا کام ہو گیا ہے سمجھو۔ ‘‘

چوہدری جلال نے سمجھانے والی انداز میں کہا تو کاشی بولا

’’آپ جانیں اور آپ کی احتیاط۔ میں کام کر دوں گا۔ آپ بھی میرا کام کر دیں۔ باتیں نہیں صرف کام۔ ‘‘

’’کہا ہے نا، ہو جائے گا۔ تم اپنا کام کرو، اوپر سے الیکشن بھی آنے والے ہیں۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا

’’تو ٹھیک ہے آپ کا کام بھی سمجھو ہو گیا۔ ‘‘

کاشی نے حتمی انداز میں کہا اور فون بند کر دیا۔ اس کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ آ گئی تھی۔

چوہدری جلال کاریڈور میں ٹہل رہا تھا۔ اتنے میں چوہدری کبیر باہر جانے کے لیے نکلا تو اپنے باپ کو دیکھ کر اس بڑھ گیا۔ اس کی طرف دیکھ کر چوہدری جلال نے کہا

’’ابھی کاشی سے بات ہوئی تھی۔ اس نے بتایا ہے کہ دو دن میں فہد کا کام ہو جائے گا۔ ‘‘

’’یہ اس کی سزا تو نہ ہوئی نا، ایک دم ختم ہو جائے گا۔ میں سلمٰی سے شادی کر کے اسے بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم دشمنی کرتے ہیں تو وہ نسلوں تک اتر گئی۔ میں اسے تڑپتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے نفرت سے کہا

’’وقت اور حالات کی نزاکت یہی ہے بیٹے۔ ملک نعیم کا اس علاقے میں اترنا خطرے کا بہت بڑا الارم ہے، مسائل بڑھ جائیں گے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے اسے سمجھایا تو چوہدری کبیر بولا

’’محض سلمٰی کو حاصل کرنا میری ضد نہیں ہے۔ میں فہد کے ساتھ علاقے کے لوگوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں۔ کہ ہماری خاموشی، ہماری کمزوری نہیں ہوتی۔ ‘‘

’’دیکھو۔ !فہد کے بعد تم جو چاہو کرو۔ میں تمہیں نہیں روکوں گا۔ اب یہ فیصلہ تمہارا ہے۔ پہلے کیا کرنا ہے۔ سلمیٰ سے شادی یا پھر فہد۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو چوہدری کبیر بولا

’’چلیں بابا۔ میں آپ کی بات مان لیتا ہوں۔ آپ نے جو کہہ دیا ٹھیک کہہ دیا۔ ‘‘

’’یہ ہوئی نا بات۔ کاشی کو اپنا کام کرنے دو پھر دیکھتے ہیں۔ ‘‘ پنے باپ کے کہنے پر چوہدری کبیر نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر مڑ کر پورچ کی جانب چلا گیا۔

باپ بیٹے کو خبر ہی نہیں تھی کہ ان کے عقب میں بشریٰ بیگم کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی۔ اس کے چہرے پر خوف زدہ حیرت ہوئی تھی۔

٭٭

 

دن کا اجالا چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ جعفر ابھی آفس نہیں پہنچا تھا۔ ملک نعیم اور شیخ آفتاب اس کے آفس میں دونوں آمنے سامنے صوفوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

’’ملک صاحب۔ آپ نے وہاں کی ساری روداد سنا دی۔ ٹھیک ہے، لوگ آپ کے ساتھ ہوں گے۔ فہد نے وہاں بہت کام کیا ہے۔ اب آگے کا بھی تو سوچنا ہے، کیا پلاننگ ہونی چاہیئے۔ وہاں پر ہم نے بزنس ہی نہیں کرنا ووٹ بھی لینے ہیں۔ اوراس کا سارا دارومدار فہد پر ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ چوہدری جلال کو اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہو گا۔ اب فہد کی حفاظت بہت ضروری ہو گئی ہے۔ ‘‘ شیخ آفتاب نے دور اندیشی سے کہا

’’یہ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میرے علم کے مطابق اب تک چوہدری جلال نے اسے ڈرایا دھمکایا ہی ہے۔ لیکن فہد بہت حوصلہ مند جواں نکلا۔ وہ مضبوطی سے ڈٹا رہا ہے۔ لیکن کب تک شیخ صاحب۔ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔ ‘‘ ملک نعیم نے بتایا

’’جنگ وسائل سے نہیں جیتی جاتی ملک صاحب۔ !اس کے لیے حوصلہ اور دفاع چاہیے۔ اگر وہ فہد کو راستے سے ہٹا دیتے ہیں تو پھر۔۔۔؟‘‘ شیخ آفتاب نے سوال اٹھایا تو

ملک نعیم بولا

’’ہمارا وہاں سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ ‘‘

’’تو پھر سوچئے۔ یہاں سے بندے بھجیں یا وہاں سے تیار کریں۔ فہد کے گرد ایک حفاظتی حصار بنانا ہو گا۔ اور میں نے یہی بات کرنے کے لئے آپ کو یہاں آنے کی زحمت دی کہ ہم اے ایس پی صاحب سے اس سلسلے میں بات کریں۔ ‘‘ شیخ آفتاب نے احساس دلایا تو ملک نعیم نے سوچتے ہوئے کہا

’’کیوں نا یہ بات فہد سے کر لی جائے۔ وہ جو مناسب ہو گا، ہمیں بتائے گا۔ ہم اس کے لیے کریں گے۔ ‘‘

’’جیسے آپ چاہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ہم اے ایس پی سے بات کریں۔ اس کے نوٹس میں یہ بات ہونی چاہئے۔ یہ تعاون کر رہا ہے، کچھ نہ کچھ تو کرے گا۔ یہ کام جلد از جلد ہو جانا چاہئے۔ ‘‘

شیخ آفتاب کے کہنے پر وہ سر ہلا کر رہ گیا۔

کچھ دیر بعد جعفر اپنے آفس آ گیا تو دونوں سے بڑے تپاک سے ملا۔ بہت دیر باتوں کے دوران انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کر دیا۔ جعفر نے سنا اور ان کی پوری مدد کرنے کا وعدہ کر لیا۔ کچھ دیر بعد وہ چلے گئے تو جعفر نے فون اٹھا لیا۔

اس وقت فہد اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کاغذات دیکھ رہا تھا کہ اس کا فون بج اٹھا۔

’’ہاں بول، جعفر کیا بات ہے؟‘‘ فہد نے خوشگوار انداز میں کہا تو جعفر سنجیدگی سے بولا

’’کیسے ہو، کیسا چل رہا ہے، تم آئے ہی نہیں صفیہ کی پیشی پر؟‘‘

’’بس یار ادھر ایک کام آ گیا تھا۔ ‘‘ اس نے بتایا تو نے گہری سنجیدگی سے کہا

’’اچھا بات سن، آج ملک نعیم سے بات ہوئی تو اس نے ایک خدشہ ظاہر کیا، جو بہرحال درست بھی ہو سکتا ہے کہ چوہدری تجھے اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ‘‘

’’او یار ان کا بس چلے تو مجھے ابھی ختم کر دیں۔ کوئی نئی بات بتا۔ ‘‘ فہد نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بولا

’’نہیں ، میں کوئی مذاق نہیں کر رہا ہوں بالکل سیریس ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اب تو بہت محتاط رہا کر۔ اگر کہو تو میں کچھ بندے۔۔۔‘‘

’’او یار چھوڑ جو تھوڑی بہت آزادی ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ تم کب آ رہا ہے میرے پاس ؟‘‘ فہد نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا

’’دل تو بہت کرتا ہے کہ تیرے ساتھ رہوں۔ یہ ذرا معاملہ ختم ہو جائے تو پھر کھل کر تجھے ملا کروں گا۔ سنا مائرہ کدھر ہے وہ؟‘‘

جعفر اس کی بات سمجھتے ہوئے بولا تو فہد نے بتایا

’’سلمی کے پاس اس کے گھر، باقی لوگ میرے پاس۔ ‘‘

’’اچھا آنا نور پور تو سلمی کے ہاتھ کے دو چار پراٹھے تو لے آنا۔ ‘‘ جعفر نے شوخی سے کہا تو فہد ہنستے ہوئے بولا

’’تو بھی بس۔ ‘‘

اس پر دونوں ہنستے ہیں۔

٭٭

 

بشریٰ بیگم کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ ڈرائیور کار چلا رہا تھا۔ جب حویلی سے کار نکالی تو اس نے ڈرائیو کو نہیں بتایا کہ کہاں جانا ہے۔ راستے میں وہ اسے بتاتی گئی یہاں تک کہ سراج کا ڈیرہ آ جانے پر اس نے ڈرائیور سے کہا

’’گاڑی روکو۔ ‘‘

اس نے فوراً کار روک دی۔ بشریٰ بیگم نے غور دیکھا۔ اسے کچھ دور فہد اور سراج بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ وہ گاڑی سے اتری اور ان کی جانب بڑھ گئی۔

فہد اور سراج درختوں کی چھاؤں میں چارپائیوں پر آمنے سامنے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ بشریٰ بیگم کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھ کر چونک اٹھے۔ بشریٰ بیگم ان کے قریب آ کر رک گئی تو سراج نے حیرت سے کہا

’’چوہدرانی جی آپ؟‘‘

’’ہاں میں چوہدرانی بشریٰ بیگم، میں فہد سے ملنے آئی ہوں۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے فہد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تبھی فہد نے کسی تاثر کے بغیر کہا

’’جی بولیں ، میں سن رہا ہوں۔ ‘‘

’’بات صرف اتنی ہے بیٹا۔ !پتہ نہیں تم میری بات پر یقین کرو بھی یا نہیں۔ لیکن اتنا ضرور یاد رکھنا کہ میرے سینے میں بھی اک ماں کا دل دھڑک رہا ہے۔ بیٹے۔ !کیا یہ عقل مندی نہیں کہ طوفان آنے سے پہلے خود کو محفوظ کر لیا جائے۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے سمجھاتے ہوئے نرم لہجے میں کہا تو فہد بڑے تحمل سے بولا

’’میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں لیکن جو طوفان میں گھر چکے ہوں۔ ان کا کیا کیا جائے اور جن لوگوں نے طوفان اٹھا یا ہوا ہے، انہیں بھی روکنا ہے، طوفان تبھی تھمے گا۔ ‘‘

’’میں طوفان سے ہونے والی تباہی سے ڈرتی ہوں۔ وہ چاہیے کسی کی بھی ہو۔ کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ طوفان ہی نہ آنے دیا جائے۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے پوچھا جسے سمجھتے ہوئے فہد نے کہا

’’کیا چاہتی ہیں آپ، میں کیا کر سکتا ہوں ؟‘‘

’’تم تھوڑے عرصے کے لیے ہی سہی، یہاں سے چلے جاؤ۔ سلمٰی کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ ایک ماں ہونے کے ناطے میں وعدہ کرتی ہوں تم جو چاہو گے وہی ہو گا۔ ‘‘ اس نے کہا تو فہد نے سکون سے کہا

’’ا س کے لیے تو بڑا وقت درکار ہے۔ میں پہلے ہی بہت انتظار کر چکا ہوں۔ یہ آپ اچھی طرح جانتی ہیں۔ ‘‘

’’بیٹے بات سمجھنے اور سمجھانے میں تھوڑا وقت لگتا ہے نا اور طاقت تو ویسے بھی اندھی ہوتی ہے۔ میں ۔۔۔‘‘

بشریٰ بیگم نے کہنا چاہا لیکن فہد اس کی بات کاٹ کر جذباتی لہجے میں بولا

’’اندھی طاقت کی آنکھیں اس وقت کھلتی ہے، جب کوئی اسے روکنے والا سامنے آ جائے۔ پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ چوہدرانی جی آپ ظلم ہوتا تو دیکھ سکتی ہیں۔ مظلوم اگر کھڑا ہو جائے تو اسے یہاں سے چلے جانے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ آپ اپنے بیٹے اور شوہر کو سمجھائیں۔ میں بات مان بھی لوں تو کیا وہ آپ کی مان جائیں گے؟‘‘

’’بیٹا۔ !میں چاہتی ہوں کہ تم لمبی عمر گذارو۔ تم سمجھ دار ہو۔ سلمٰی ابھی۔۔۔‘‘

بشریٰ بیگم نے کہا تو فہد نے غصے میں کہا

’’آپ مجھے ڈرا رہی ہیں۔ وہ بھی موت سے۔ میں بہت پہلے بچپن میں مر گیا تھا۔ ظالموں کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہوتا ہے۔ آپ مجھے نہ نصیحت کریں ، نہ مشورہ دیں۔ بلکہ دیکھیں ظالموں کے ساتھ ہوتا کیا ہے، کیا میرے والدین نہیں تھے، کیا قصور تھا؟ میرا، امین، نذیر، رانی ان کا کیا قصور تھا، ہے جواب آپ کے پاس؟نہیں نا، تو اپنوں کو روکیں ، مجھے نہیں۔ ‘‘

’’لیکن بیٹا اگر ہم۔۔۔‘‘

’’نہیں چوہدرانی جی نہیں ، جب رانی کو بے عزت کر کے مرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ تب آپ کہاں تھیں ؟ حویلی ہی میں تھیں۔ آپ کا پتر آپ کی بات مان گیا تھا؟اگر وہ نہیں مانا تھا تو مجھ سے بھی کوئی امید نہ رکھیں۔ جائیں ‘‘

فہد نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا تو بشریٰ بیگم نے انتہائی افسوس بھر ے انداز میں اسے دیکھا اور پھر اپنے آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے واپس کار میں بیٹھ کر چلے گئی تو سراج نے دھیرے سے کہا

’’ لگتا ہے، چوہدری کوئی گہری چال چلنے والے ہیں۔ ورنہ یوں چوہدرانی کو نہ بھیجتے۔ ‘‘

’’ سراج، جب ان کی جان پر بنتی ہے نا تو یہ غریب کے پاؤں بھی دھو کر پی جاتے ہیں۔ اس بات کو سوچو، جب رانی کی عزت اس بے غیرت کبیر نے پامال کی تھی یہ اس وقت کہاں تھی، آج یہ طوفان سے ڈرانے آ گئی ہے۔ ‘‘ فہد نے غصے میں کہا تو سراج ہل کر رہ گیا۔ پہلی بار اسے فہد کی نفرت کا اندازہ ہو رہا تھا۔ تبھی اس نے کہا

’’ چل چھوڑ۔ گھر چلیں ، نور پور بھی تو جانا ہے۔ ‘‘

’’ ہاں چل۔ ‘‘ فہد نے اٹھتے ہوئے کہا تو دونوں ڈیرے سے چل پڑے۔

کچھ دیر بعد فہد گھرسے نکل کر اپنی گاڑی کے قریب آ کر بیٹھنے لگا تو چھاکا اندر سے آ کر بولا

’’یہ اپنی ڈاک تو لے لو۔ جو پوسٹ کرنی ہے۔ ورنہ آج پھر رہ جانی تھی۔ ‘‘

’’اُو یار۔ !اچھا ہوا تو نے یاد دلا دیا ورنہ نور پور جا کر یاد آتا۔ ‘‘ فہد نے کہا اور لفافے پکڑ کے ڈیش بورڈ پر رکھے پھر گاڑی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر کے بڑھا دی۔

اسے یہ خبر ہی نہیں تھی کہ کاشی موٹر سائیکل پر سوار گلی کی نکڑ پر کھڑا اس کا انتظار کر رہا ہے۔ فہد کی کار قریب سے گذر گئی تو کاشی بھی اس کے پیچھے نکل پڑا۔

فہد پہلے سلمی کا آفس گیا جہاں لڑکیاں کام کر رہی تھیں۔ صفیہ تیار ہوئی کھڑی تھی۔ سلمٰی میز پر بیٹھی کاغذ پر لکھ رہی تھی۔ وہ لکھ چکی تو کاغذ صفیہ کی جانب بڑھا کر بولی

’’صفیہ اگر ممکن ہو یا پھر تمہیں کچہری سے وقت مل جائے تو آتے ہوئے نور پور سے یہ چیزیں لیتی آنا۔ ‘‘

صفیہ نے کاغذ پکڑ لیا تو سلمی نے کچھ رقم بھی دراز سے نکال کر دی۔ وہ بھی صفیہ نے پکڑ لی۔ پھر مایوسی بھرے لہجے میں بولی

’’پڑنی تو پیشی ہے۔ نجانے مقدمہ کب شروع ہو گا؟‘‘

’’اللہ کر ے گا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس بار دیکھ لو، پھر ہم خود ملک نعیم سے بات کریں گے۔ وکیل بدل دیں گے۔ ‘‘ سلمی نے اسے سمجھایا تو صفیہ بولی

’’دیکھیں۔ کیا ہوتا ہے۔ وکیل بے چارہ تو بڑی کوشش کر رہا ہے۔ ‘‘

وہ کہہ رہی تھی کہ دروازہ ہلکا سا بجتا ہے اور فہد اندر آ کر بولا، ’’صفیہ تم تیار ہو، چلیں۔ ‘‘

’’میں جی تیار ہوں بس آپ کا انتظار کر رہی تھی۔ ‘‘

وہ آنچل سنبھالتے ہوئے بولی توسلمٰی نے ہچکچاتے ہوئے کہا

’’فہد۔ !اگر میں کہوں کہ آج آپ نہ جاؤ تو۔۔۔؟‘‘

’’کیوں میں کیوں نہ جاؤں۔ ‘‘ فہد نے پوچھا

’’آج نورپور سے محکمہ تعلیم کے کچھ لوگ آنے والے ہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے فون آیا تھا ان کا۔ وہ آپ سے بھی ملنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ سراج کو بھیج دیں صفیہ کے ساتھ؟‘‘

’’ میں دیکھتا ہوں۔ ‘‘ فہد نے سوچتے ہوئے کہا توسلمٰی نے تیزی سے کہا

’’آپ سراج بھائی سے کہہ دیں وہ چلے جائیں گے۔ آپ ٹالیں نہیں نا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ ‘‘

’’اچھا، میں دیکھتا ہوں۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ باہر کی جانب چلا گیا تو صفیہ بھی پیچھے چلی گئی۔ سلمٰی متذبذب سی بیٹھ گئی۔

قسمت نگر سے باہر جانے والی سڑک کے کنارے کاشی گھات لگائے موٹر سائیکل پر سوار تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ سٹرک پر فہد کی گاڑی آ رہی ہے۔ جیسے جیسے کار نزدیک آ رہی تھی، کاشی مضطرب ہو رہا تھا۔ کاشی الرٹ ہو گیا۔ فہد کی گاڑی گذری تو اس نے موٹر سائیکل پیچھے لگا دیا اور اس کے ساتھ ہی ریوالور نکال لیا۔ وہ گاڑی کے قریب ڈرائیونگ سائیڈ سے پہنچا اور ریوالور سیدھا کیا۔ تبھی وہ چونک گیا۔ ڈرائیونگ سیٹ پرسراج تھا جس کی نگاہ ریوالور پر پڑی۔ کاشی نے کار میں جھانکا، فہد نہیں تھا۔ اس نے موٹر سائیکل آہستہ کر لی اور ایک دم سے پیچھے رہ گیا۔ سراج گاڑی بڑھاتا لے گیا۔

سراج کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک اجنبی کس مقصد کے تحت ان کے قریب آیا اور پھر پلٹ گیا۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھی صفیہ بھی سمجھ گئی تھی۔ سراج نے فون نکالا اور فہد کو کال کی۔ فہد اس وقت سلمی کے آفس میں تھا۔ سراج نے رابطہ ہوتے ہی کہا

’’تم پر جو قاتلانہ حملے کی بات جعفر نے کہی تھی، اور چوہدرانی کی باتوں سے جو ہم نے اندازہ لگایا تھا، وہ بات حرف بحرف درست نکلا۔ ‘‘

’’ تمہیں یہ سب کیسے پتہ چلا؟‘‘ فہد نے پوچھا توسراج نے کچھ منٹ پہلے ہونے والے واقعہ کی روداد بتانے لگا۔ جسے سن کر اس نے کہا

’’ تم کچہری پہنچو، میں دیکھتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے جعفر کے نمبر پش کر دئیے۔

کاشی ایک جگہ رک گیا تھا۔ اس نے ریوالور اپنی جیب میں ڈالا اور فون نکلا کر چوہدری جلال کے نمبر پش کر دئیے۔ وہ اپنے ڈرائینگ روم میں بیٹھا ہوا تھا، شاید وہ کسی خبر کا منتظر تھا اس لئے تیزی سے پوچھا

’’ہیلو۔ !بولو، کیا ہوا؟‘‘

’’میں تو اس تک پہنچ گیا تھا لیکن وہ نہیں تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور بندہ تھا۔ لگتا ہے اسے خبر ہو گئی ہے۔ ‘‘ کاشی نے کہا تو چوہدری جلال نے غصے میں کہا

’’یہ کیسے ممکن ہے۔ کہیں وہ بندہ۔۔۔‘‘

’’نہیں ، میں نے اسے جانے دیا۔ مگر میں یہ بات نہیں مان سکتا۔ کہ اسے اطلاع نہیں ، ورنہ میں صبح سے اس کے پیچھے ہوں۔ اسے ہی نور پور جانا تھا۔ پتہ کریں اسے خبر دینے والا کون ہے؟‘‘ کاشی نے اس کی بات کاٹ کر تیزی سے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’اگر ایسا ہے تو پھر یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ خیر میں دیکھتا ہوں۔ تم میرا کام کرو، میں تمہارا کام کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، بس ایک دو دن میں ہو جائے گا۔ ‘‘ کاشی نے کہا اور فون بند کر دیا۔ جبکہ چوہدری جلال گہری سوچ میں ڈوب چکا تھا۔

٭٭

 

سلمی اپنے آفس میں بیٹھی لڑکیوں سے بات کر رہی تھی۔ ایک لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا

’’باجی۔ گاؤں میں بڑی باتیں ہو رہی ہیں۔ انہیں تو یہ یقین ہی نہیں تھا کہ دفتر کا افتتاح ہو جائے گا۔ اب تو یہ محکمہ تعلیم والے بھی آ گئے اور این جی او، والے بھی‘‘

’’ہاں۔ !میں جانتی ہوں۔ لیکن اب بہت سارے لوگ ہم سے رابطہ کر رہے ہیں۔ یہ سارے وہ لوگ ہیں جو صفیہ کی طرح ان چوہدریوں کے ستائے ہوئے ہیں۔ ‘‘ سلمی نے اسے بتایا تو وہ بولی

’’ان کا ظلم کب تک چلے گا۔ آخر ایک دن تو ختم ہو گا۔ ‘‘

’’ایک اور بات بھی ہے، کوئی بھی ہم پر اس لیئے ظلم کر جاتا ہے کہ ہم کمزور ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ہم اپنی روٹی کے چکر میں اپنی اولاد کو پڑھا لکھا کر انہیں مضبوط نہیں بناتے ہمیں خود مضبوط ہونا ہے۔ ‘‘ سلمی نے سمجھایا تو وہ لڑکی بولی

’’لیکن باجی۔ ہم غریب لوگ اتنے وسائل کہاں سے لائیں۔ ہمارے بچوں کو ہمارے ساتھ کام کر نا پڑتا ہے۔ پیٹ پالنا ہی اتنا مشکل ہے۔ ‘‘

’’میں مانتی ہوں۔ ایسا ہی ہے۔ میں کہتی ہوں حکومتیں بھی کچھ نہیں کر سکتیں اگر ہم اپنے آپ کو بدل لیں۔ ہم ایک دوسرے کی مدد کریں تو کیا نہیں ہو سکتا۔ ہم خود اپنے بچوں کو پڑھائیں۔ انہیں ہنر مند بنائیں۔ خود قربانی دے لیں۔ پھر کل ہماری اگلی نسل کا ہے۔ بچے تو ہمارے ہیں نا۔ اب دیکھو۔ !ہم سب نے ایک ہو کر یہ دفتر کھولا ہے ناجو چوہدری بھی جرات نہیں کر سکے۔ میں اکیلی تھی لیکن خدا نے ایسے حالات پیدا کر دیئے۔ لوگ میرے ساتھ ہوتے گئے۔ اب میں چوہدریوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہوں۔ ہمیں خود کو بدلنا ہے۔ بس پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آنے والے ہر دن میں لوگ ہمارے ساتھ ہوں گے۔ دیکھ لینا۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ خوش کن خیال میں گم ہو گئی۔

مائرہ صحن میں فون کان کو لگائے جعفر سے بات کر رہی تھی۔ جعفر نے اسے بتا دیا تھا کہ فہد کیسے بچ گیا ہے۔ اس پر قاتلانہ حملہ کیسے ہونے والا تھا۔

’’ تم نے ابھی سلمی کو نہیں بتانا، فہد خود ہی بتا دے گا۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے۔ ‘‘ مائرہ نے کہا پھر لمحہ بھر کو رُک کر بولی، ’’میں نے رپورٹ بھیج دی ہے ایک دو دن میں اسے اچھی طرح بنا لیا جائے گا تو پھر آن ائیر کر دی جائے گا۔ ‘‘

’’بس رپورٹ ایسی ہونی چاہئے کہ ہلچل مچ جائے۔ اس کا کچھ اثر ہو خیر، کیسی لگی تمہیں سلمی۔ ‘‘ جعفر نے ایک دم موضوع بدل کر پوچھا تو مائرہ نے کہا،

’’اسے میں نے دیکھا ہے، وہ تو ٹھیک بول لیتی ہے۔ اس نے تو بہت باتیں کی ہیں۔ بہت اچھی ہے وہ۔ ‘‘

’’اس نے بھی تو چوہدریوں کا ظلم سہا ہے۔ مطلب نکے چوہدری نے تو بہت کوشش کی لیکن یہ ہی اس کے ہاتھ نہیں آئی۔ کبھی موقع ملا تو میں ان کی کہانی سناؤں گا۔ اس کے اندر کا دکھ بول رہا تھا۔ بلکہ میں ہی کیوں تم خود سن لینا۔ میرے خیال میں اب تک دوستی ہو گئی ہو گی۔ ‘‘ جعفر نے کہا تو مائرہ نے بتایا

’’اسی کے آفس میں ہوں۔ مجھے بہت اچھا لگا ہے اس سے دوستی کر کے۔ میں اسے لے کر آؤں گی نورپور۔ ‘‘

’’یہ جب تمہیں فہد آنے کی اجازت دے گا نا تم تب ہی آ پاؤ گی۔ ‘‘

جعفر نے چھیڑتے ہوئے کہا تو مائرہ اسے نظر انداز کر کے بولی

’’اچھا پہلے مجھے بھی اس علاقے کی محرومیوں کے بارے میں اتنی سمجھ نہیں آتی تھی لیکن اب یہ رپورٹ بنا کر، لوگوں سے مل کر، سلمی سے باتیں کر کے پتہ چلا۔ ‘‘

’’جب تم نے یہاں کے پورے علاقے کا ایک وزٹ کر لیا تو بہت کچھ مزید بھی سمجھ جاؤ گی۔ میں یہاں آیا ہوں تو مجھے معلوم ہوا تھا۔ ‘‘ جعفر نے بتایا تو مائرہ نے پوچھا

’’یہاں آ کر تم نے فہد کی کیا مدد کی؟‘‘

’’پورے علاقے میں جو بھی چوہدریوں کے مخالف ہیں اپنی اپنی جگہ سب کو میں نے اپنی ہاتھ میں لے کر انہیں فہد سے متعارف کرا دیا ہے۔ ان سب کے ساتھ اس کا رابطہ ہے۔ ابھی تک لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ میرا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ ‘‘

’’ہوں میں سمجھ گئی۔ اوکے جعفر میں بھی کوشش کروں گی کہ اس کے کام آ سکوں۔ ‘‘ مائرہ نے کہا تو جعفر بولا

’’اس کے کام آ سکتی ہو۔ اسے روٹی بنا کر دینے والا کوئی نہیں ہے۔ نہیں ، بلکہ اس کے پاس تو سلمی ہے ، میرے پاس کوئی نہیں۔ ‘‘

’’مجھے آنے تو دو پھر دیکھتی ہوں تجھے۔ ‘‘ وہ مصنوعی غصے میں بولی تو جعفر ہنس دیا۔ وہ بھی ہنس دی۔ پھر فون بند کر کے سلمی کی طرف چلی گئی۔

اس وقت جعفر نے فون رکھا ہی تھا کہ ملک نعیم کا فون آ گیا۔ اس نے فوراً ہی کہا

’’ہیلو۔ !جی۔ جعفر صاحب۔ یہ الیکشن کی خبر آ رہی ہے ٹیلی وژن پر، کیا آپ نے خبر دیکھی؟‘

’’جی۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو گیا ہے۔ مجھے اطلاع ہو گئی ہوئی ہے۔ اب آپ کے لئے وقت بہت قیمتی ہے۔ ‘‘ جعفر نے کہا تو ملک نعیم بولا

’’یہ جو ملکی حالات اچانک بدل رہے ہیں۔ ان میں کچھ بھی متوقع تھا۔ بے شک اب وقت بہت قیمتی ہے الیکشن جیتنے کے لیے اب جتنا کچھ بھی کر لیا جائے وہ کم ہے۔ ‘‘

’’تو پھر الیکشن لڑنے کی بھر پور تیاریاں شروع کر دیں۔ لوگوں سے رابطہ کریں فوراً باقی آپ کو معلوم ہے کہ کیا کچھ کرنا ہے۔ اب تو ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ‘‘ جعفر نے کہا تو وہ بڑے جوش اور جذبے سے بولا

’’الیکشن کی تیاریاں تو کب کی شروع ہیں۔ بس یہ الیکشن شیڈول کا انتظار تھا۔ آپ فکر نہ کریں۔ میں دوستوں سے رابطے میں ہوں۔ ہم بھر پور طریقے سے الیکشن لڑیں گے۔

’’بس یہی اعتماد اور حوصلہ چاہئے۔ میں پوری طرح آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم رابطے میں رہیں گے۔ ‘‘ وہ خوش ہوتے ہوئے بولا تو ملک نعیم نے کہا

’’کیوں نہیں جی۔ یہ سب معاملات صلاح مشورے سے ہی چلنے ہیں۔ میں فہد سے ملتا ہوں اور الیکشن بارے پلان ترتیب دیتے ہیں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، آپ کل مجھے آفس میں ملیں۔ باقی باتیں یہاں ہوں گی اللہ حافظ۔ ‘‘ جعفر نے کہا

’’اللہ حافظ۔ ‘‘ وہ بولا اور فون رکھ دیا۔ جعفر نے بھی فون رکھا اور سوچنے لگا۔ اب فہد سے ایک ملاقات بہت ضروری تھی۔

٭٭

 

الیکشن کا اعلان ہوتے ہی حویلی کی رونقیں بڑھ گئیں تھیں۔ علاقے کے لوگ اس کے پاس آنا شروع ہو گئے تھے۔ اس وقت بھی کچھ ایسا ہی سماں تھا۔ چوہدری جلال بڑے کروفر سے ڈرائینگ روم میں تھا۔ جمیل اختر ایک طرف اوراس کے حمایتی وہ لوگ موجود تھے جو کسی نہ کسی طرح اس کی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ یہی وہ مفاد پرست ٹولہ تھا جو اسے الیکشن جتواتے اور اپنا مفاد پورا کرتے تھے۔ الیکشن کر ساتھ ہی یہ لوگ کھمبیوں کی طرح اُگتے تھے۔ چوہدری جلال ان سب کی طرف دیکھ کر کہا

’’یہاں پر آپ سب کو زحمت دینے کی وجہ تو آپ کو معلوم ہو ہی گئی ہے۔ الیکشن ہو جائیں گے۔ اس کا پتہ تو تھا لیکن اس قدر جلدی ہونے والے ہیں یہ اندازہ نہیں تھا۔ ظاہر ہے ہم نے الیکشن میں حصہ تو لینا ہے۔ اب صلاح مشورہ کر لیں کہ کیا کرنا ہے۔ ‘‘

’’چوہدری صاحب۔ پہلے تو آپ بلا مقابلہ منتخب ہوتے آئے ہیں۔ چھوٹی سیٹوں پر ہی مقابلہ ہوتا ہے۔ اس میں بھی ہمارے ہی بندے جیت گئے۔ لیکن اس دفعہ الیکشن مختلف ہو گا۔ آپ کے مقابلے میں ملک نعیم آ چکا ہے۔ ‘‘جمیل اختر وکیل نے اسے حالات سے آگاہی دی۔ تو چوہدری جلال بولا

’’میں جانتا ہوں۔ مقابلے میں ہر کوئی اتر سکتا ہے۔ یہ اس کا جمہوری حق ہے۔ لیکن ووٹ لے کر جیتنا ایک دوسرا مقابلہ ہے۔ اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘

’’چوہدری صاحب۔ !مقابلہ تو بن گیا ہے نا، باہر تو نکلنا پڑے گا نا آپ کو۔ ‘‘ اس نے اپنا مدعا بتایا تو چوہدری جلال نے سمجھتے ہوئے کہا

’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔ پہلے بھی تو نکلتے تھے۔ خیر۔ !یہ فیصلہ آپ لوگوں نے ہی کرنا ہے کہ چھوٹی سیٹوں پر الیکشن کسے لڑانا ہے ؟‘‘

’’نہیں نہیں جی۔ یہ فیصلہ آپ ہی نے کرنا ہے آپ نے تو ہمیں حکم دینا ہے۔ ہم دن رات ایک کر دیں گے۔ الیکشن ہم نے ہی جیتنا ہے۔ ‘‘ وہاں پر موجود ایک شخص نے کہا تو چوہدری جلال اسے دیکھ کر بولا

’’الیکشن تو ہم ہی نے جیتنا ہے۔ ہم نورپور اور علاقے کے لوگوں سے صلاح مشورہ کر کے پھر بندے کھڑے کریں گے۔ کیوں وکیل صاحب۔ ‘‘

’’ایسا ہی ہونا چاہئے۔ ہم ایک دو دن میں یہ میٹنگ رکھ لیتے ہیں۔ اور اس میٹنگ میں ہم یہ طے کر لیں گے کہ ایم پی اے کی سیٹ پر کس نے الیکشن لڑنا ہے۔ ‘‘ جمیل اختر نے اس کی بات سمجھتے ہوئے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’ظاہر ہے ایم این اے کی سیٹ پر تو میں ہی الیکشن لڑوں گا۔ باقی چھوٹی سیٹوں کے لیے آپ جو مناسب سمجھیں۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔ اس نے پارٹی ورکروں کو یہ باور کرا دیا تھا کہ مرضی اسی کی چلنی ہے۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھ گئی اور پارٹی ورکروں کو کھانے پر بلا لیا گیا۔

اسی دوپہر حویلی کے پورچ میں چوہدری جلال منتظر کھڑا تھا۔ اس کے سامنے ایک گاڑی آ کر رکی، جس پر فلیگ لگا ہوا تھا۔ اس میں سے پارٹی عہدیدار نکلا، جو اسی حکومت میں سینئر وزیر بھی تھا۔ وہ الیکشن کے لئے طوفانی دورے پر تھا۔ چوہدری نے بڑھ کر اس کا استقبال کیا۔ وہ اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے خوشی سے بولا

’’ خوش آمدید بہت خوشی ہوئی کہ آپ میرے غریب خانے پر تشریف لائے۔ آئیں تشریف لائیں۔ ‘‘

وہ دونوں اندر کی طرف چل پڑے۔ وہ دونوں آمنے سامنے صوفے پر تھے۔ ان کے سامنے لوازمات تھے۔ پارٹی عہدیدار وہاں موجود سیاسی ورکروں کو مل چکا تھا، ان سے وہی پرانی سیاسی گھسی پٹی باتیں اور وعدے کر چکا تھا۔ پھر چوہدری جلال کے پاس بیٹھ کر کہا

’’دیکھیں چوہدری صاحب میرے پاس اتنا وقت نہیں۔ مجھے آگے بھی جانا ہے، بس آپ سے دو بہت ضروری باتیں کرنی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس پر دھیان دیں گے۔ ‘‘

’’جی کہیں میں سن رہا ہوں۔ ‘‘

’’کل ٹی وی پر جو، آپ کے متعلق رپورٹ چلی ہے۔ اس نے نہ صرف ہلچل مچا دی ہے بلکہ پارٹی کو بھی اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ جو مرضی کریں ، جو مرضی کہہ دیں اس کا کوئی اثر نہیں ہونے والا؟آپ اپنی باتوں ہی میں جھوٹے لگ رہے تھے ٹی وی رپورٹ میں۔ کیا آپ کو بات کرنا نہیں آتی؟‘‘

تبھی چوہدری جلال گھبرائے ہوئے انداز میں پوچھا

’’ میں سمجھا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟‘‘

’’آپ کو کیا سمجھ آنی ہے۔ آپ کے بیٹے پر قتل اور عزت پامال کرنے کا مقدمہ ہے۔ ہوا آپ کی خراب ہو رہی ہے اوپر سے ادارے ہماری جان کو آئے ہوئے ہیں کہ آپ ہماری پارٹی کے ہیں کیا آپ نے الیکشن نہیں لڑنا؟‘‘ پارٹی عہدیدار نے طنزیہ انداز میں کہا تو چوہدری جلال نے تیزی سے کہا

’’الیکشن تو لڑنا ہے۔ آپ گھبرائیں نہیں۔ یہ ہماری آبائی سیٹ ہے۔ یہ پکی ہے۔ باقی رہے الزامات وہ محض مخالفین کا پراپیگنڈا ہے۔ میں ثابت کر دوں گا۔۔۔‘‘

’’معاف کیجئے گا چوہدری صاحب۔ وہ جب ثابت ہو گا سو ہو گا، اس وقت تو ہوا آپ کے مخالف ہے۔ آپ کو پارٹی نے ٹکٹ دینا ہے اور آپ کو میڈیا کے ساتھ بات کرنا نہیں آتی۔ ‘‘

’’اب اس کا کیا حل ہے کیا چاہتے ہیں آپ؟‘‘

چوہدری جلال نے پوچھا تو پارٹی عہدیدار اسے سمجھاتے ہوئے بولا

’’دیکھیں جی مجھے نہیں لگتا کہ اس بار آپ بلا مقابلہ جیت جائیں گے۔ الیکشن تو ہو گا۔ اگر آپ نے سیاست کرنی ہے تو اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ یہ پرانی باتوں کو چھوڑنا ہو گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے جی، میں دیکھتا ہوں۔ ‘‘ وہ دھیمے سے لہجے میں بولا تو پارٹی عہدیدار نے کہا

’’صرف دیکھنا ہی نہیں اس کا حل بھی نکالنا ہے۔ اداروں کا بہت دباؤ ہے ہم پر اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیسے‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اُسے سمجھانے لگا۔

٭٭

 

ملک نعیم کے گھر شیخ آفتاب، فہد اور ملک نعیم تینوں ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ ان کے درمیان موضوع الیکشن ہی تھا۔ شیخ آفتاب نے صلاح دیتے ہوئے کہا

’’فہد۔ !آپ کیوں پریشان ہیں۔ دوستوں نے جو فیصلہ کیا ہے۔ وہ بہت سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔ اور اتنے لوگوں کی رائے کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ آپ تیاری کریں الیکشن کی۔ میں سمجھ رہا ہوں کہ اب یہاں کے لوگوں میں حوصلہ ہے۔ لوگ بدل رہے ہیں ، ان کی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ‘‘

’’اور فہد، لوگ پرانے چہروں کو آزما کر اکتا چکے ہیں۔ اب نئے لوگوں کو آگے آنا چاہئے۔ لوگوں کو معلوم ہو کہ جو نئی قیادت ہے۔ وہی دراصل ان کی مخلص قیادت ہے۔ وہ نہ صرف ان کے مسائل کو سمجھتے ہیں بلکہ وہی حل کریں گے۔ ‘‘ملک نعیم نے اپنی رائے دی تو فہد بولا

’’ملک صاحب قیادت کی سوچ مثبت ہونے چاہئے مثبت سوچ کا بندہ ہی دوسروں کے دکھ درد کا احساس کرتا ہے۔ ورنہ پھر کرپشن اور لوٹ مار ہی ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ مثبت سوچ کے مالک ہیں۔ ‘‘

’’آپ کی بات ٹھیک ہے فہد۔ لیکن نوجوان قیادت کو بھی موقعہ ملنا چاہئے۔ وہ زیادہ بہتر انداز میں قوم کی خدمت کر سکتے ہیں۔ ‘‘ شیخ آفتاب نے کہا فہد بولا

’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں شیخ صاحب۔ ! لیکن میں نے الیکشن نہیں لڑنا۔ میرا جو کام ہے، وہی کرنے دیں۔ مجھے ایک عام آدمی ہی رہنے دیں۔ ‘‘

’’کیا ایک عام آدمی اسمبلی کا رُکن نہیں بن سکتا؟میرے خیال میں وہ زیادہ عوامی حقوق کی بات کر سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ نے یہاں کتنی محنت کی ہے۔ اب الیکشن تو آپ ہی کو لڑنا ہے۔ ہار جیت کو چھوڑیں۔ لوگوں کو معلوم ہو کہ آپ ہی ان کے حقیقی نمائندے ہیں۔ ‘‘ملک نعیم نے کہا تو فہد تحمل سے بولا

’’دیکھیں میں تو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کروں گا۔ اب اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں عوام کی قیادت کا حق بھی رکھتا ہوں۔ نمائندگی کا حق میرٹ پر ہونا چاہئے۔ جو بہتر نمائندے ہیں انہیں آگے لے آئیں۔ ‘‘

’’بہتر سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ملک نعیم نے پوچھا تو فہد نے جواب دیا

’’وہی جو پورے دل سے، پوری توجہ کے ساتھ خلوص نیت سے عوامی مسائل حل کرنے کی تگ و دو کر سکیں۔ ‘‘

’’ یہ جو تبدیلی کا خوشگوار جھونکا آ گیا ہے، اس سے لوگوں کو مایوس نہ کریں۔ آپ کے الیکشن پر جو خرچ آئے گا۔ اس کی فکر نہ کریں۔ وہ میں کروں گا۔ ‘‘ شیخ آفتاب نے کہا تو فہد بولا

’’بات خرچ کی نہیں ، ذمہ داری کی ہے۔ اگر آپ ایک چھوٹی سیٹ کی ذمے داری مجھ پر ڈالتے ہیں تو پھر آپ کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔ میں چاہے جسے مرضی الیکشن لڑاؤں۔ میں اس کی پوری ذمہ داری لوں گا۔ ‘‘

’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟فیصلہ تو آپ کے حق میں ہے۔ اس طرح پارٹی ٹکٹ کا مسئلہ بن جائے گا۔ ‘‘ ملک نعیم نے کہا تو فہد نے حتمی انداز میں بولا

’’سوچ لیں آپ دوبارہ صلاح مشورہ کر لیں۔ پارٹی ٹکٹ کا مسئلہ میں خود حل کر لوں گا۔ ‘‘

’’یہ سیٹ ہم نے آپ کو دی۔ جسے چاہیں الیکشن لڑائیں۔ اتنی بڑی بات ہے کہ چوہدریوں کے علاقے سے ان کے مقابلے کے لیے پورا پینل کھڑا ہو جائے۔ فہد صاحب۔ !آپ جو چاہیں سو کریں۔ ہم ہر طرح سے آپ کے ساتھ ہیں۔ ‘‘ شیخ آفتاب نے فیصلہ کن لہجے میں کہا رو ملک نعیم نے تائید کرتے ہوئے کہا

’’میری تو حمایت آپ کے ساتھ ہے ہی۔ بس جو کرنا ہے، جلدی کر لیں۔ ‘‘

’’ہو گیا۔ صرف ایک دن چاہئے۔ کل میں وہ آپ کو بتا دوں گا۔ ‘‘ فہد نے سوچتے ہوئے کہا تو شیخ آفتاب بولا ’’یہ تو ہو گیا۔ اب ہم کچھ دوسرے معاملات دیکھ لیں۔ ‘‘

اس کے یوں کہنے پر وہ تینوں دوسرے معاملات پر باتیں کرنے لگے۔

ڈھلتی ہوئی شام میں فہد نے سلمی کے آفس کے سامنے کار روکی اور آفس میں اخل ہوا۔ سلمی باہر صحن میں بیٹھی ہوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔ اس وقت فہد کو سلمٰی خوبصورت دکھائی دی۔ فہد آ کر اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا اور اسے بڑے غور سے دیکھتے ہوئے بولا۔

’’آج تم بہت اچھی لگ رہی ہو۔ ‘‘

’’ میں اچھی ہوں ، اس لیے اچھی لگ رہی ہوں۔ آپ بتائیں کیسے آنا ہوا۔ اور یہ تمہید کیوں باندھی جا رہی ہے۔ ‘‘ سلمٰی نے شوخی سے پوچھا تو فہد بولا

’’ہاں۔ !میں نے تم سے کچھ کہنا ہے سلمی۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے کہیں۔ میں سن رہی ہوں۔ ‘‘سلمٰی اٹھلا کر بولی تو فہد نے سنجیدگی سے کہا

’’یہ جو الیکشن آ رہا ہے نا، میں چاہتا ہوں تم چھوٹی سیٹ کے لیے الیکشن لڑو۔ ‘‘

اس کے یوں کہنے پرسلمٰی ایک دم سے گھبرا گئی، یوں جیسے سکتے میں آ گئی ہو۔ پھر دھیمے سے لہجے میں بولی

’’فہد میں کس طرح الیکشن لڑسکتی ہوں۔ ‘‘

’’ جس طرح دوسرے لوگ الیکشن لڑتے ہیں۔ ‘‘ فہد نے شوخی سے کہا توسلمی نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا اس کی نگاہوں میں محبت اتر آئی تھی۔ وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولی

’’جیسے آپ کا حکم۔ ٹھیک ہے سرِتسلیم خم ہے۔ ‘‘

’’لیکن؟‘‘ فہد نے اس کے ایک دم مان جانے پر پوچھنا چاہا تو وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی

’’یہ لفظ تو مجھے کہنا چاہیے تھا۔ آپ نے کہہ دیا، آپ کا حکم میں نے مان لیا۔ مجھے نہیں معلوم یہ سب کیسے ہو گا۔ میرے سامنے تو بس آپ کی ذات ہے نا شاید محبت کیا، کیوں اور کیسے نہیں جانتی۔ ‘‘

’’بس مجھے یہی اعتماد چاہیے۔ ‘‘ اس نے اطمینان سے کہا پھر سوچ کر بولا، ’’ آؤ۔ !اگر گھر جانا چاہتی ہو تو آؤ۔ میں ادھر ہی جا رہا ہوں۔ استاد جی کو بھی تو بتانا ہے نا۔ ‘‘

’’ چلیں۔ ‘‘ وہ ایک دم مان گئی اور اٹھ کر چل دی۔

ماسٹر دین محمد نے ان دونوں کو اکٹھے آتے دیکھا تو اس کے چہرے پر واضح مثبت تبدیلی آئی۔ پھر پر سکون سا ہو گیا۔ وہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے توماسٹر دین محمد نے پوچھا

’’خیر تو ہے۔ آج تم دونوں اکٹھے آئے ہو؟‘‘

’’خیر ہی ہے استا دجی۔ دراصل میں نے سلمٰی کے بارے میں ایک فیصلہ کیا ہے۔ اس بار چوہدریوں کے مقابلے میں سلمٰی الیکشن لڑے گی۔ ‘‘

’’یہ کیا بات ہوئی بھلا؟‘ ماسٹر دین محمد نے حیرت سے پوچھا تو فہد بولا

’’کیا آپ کو اچھا نہیں لگا۔ ‘‘

’’یہ فیصلہ تو تم کر ہی چکے ہو۔ میں تو بس دعا ہی دے سکتا ہوں۔ وہ دیتا رہوں گا۔ ‘‘ماسٹر دین محمد نے سوچتے ہوئے ایک دم سے کہا تو فہد نے پھر تصدیق چاہی

’’استادجی۔ آپ ہماری اس کوشش پر دل سے کیا چاہتے ہیں ؟‘‘

’’دیکھو بیٹا۔ !سچائی کا جواب اگر سچائی ہوتا نا۔ تو یہ حالات اور وقت سنہرا ہوتا۔ جھوٹ کے مقابلے میں سچائی کی جیت تو ہے لیکن اس میں بڑی مشکلات حائل ہوتی ہیں۔ اس کے لیے کبھی کبھی ایسی راہوں پر بھی جانا پڑتا ہے۔ جیسے دل اور مزاج دونوں قبول نہیں کرتے۔ ‘‘

ماسٹر دین محمد نے ڈھکے چھپے انداز میں اپنا موقف کہہ دیا تو فہد نے سکون سے کہا

’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اندھیرے میں قندیل اٹھانے والا تکلیف تو برداشت کرتا ہی ہے۔ مگر پر سکون بھی تو وہی ہوتا ہے۔ ‘‘

’’ہاں۔ !بعض اوقات ذارسی غفلت کے باعث ٹھوکر بھی لگ گئی۔ انسان ایک غلط فیصلے کی وجہ سے گمراہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ جوتم نے سلمٰی کو الیکشن لڑوانے کا فیصلہ کیا ہے کیا درست ہے؟‘‘ماسٹر دین محمد نے پوچھا

’’کیوں کیا ہوا استاد جی، آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ میں لوگوں کے حقوق کے لیے جنگ رہا ہوں۔ میں ہی اگر اپنے طبقے کی عزت نہیں دوں گا تو اور کون دے گا؟‘‘ فہد نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا توماسٹر دین محمد بولا

’’میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں تھا۔ تم اگر امیدوار ہوتے تو زیادہ اچھا تھا۔ سلمٰی لڑکی ذات ہے۔ کامیاب ہو بھی گئی تو وہ کام نہیں کر سکے گی جو تم کر سکتے ہو۔ اس نے ابھی تک نورپور نہیں دیکھا۔ وہاں دارالحکومت میں ایوانوں میں پریس کانفرنسوں میں وہ کیسے جائے گی۔ اس کی ہمت نہیں پڑے گی بیٹا۔ وہ اس قدر با ہمت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں۔ ‘‘

سلمٰی اس دوران اپنے باپ کے قریب آ گئی اور بڑے جذباتی لہجے میں بولی

’’ابا جی۔ !یہ جو دن گذرے ہیں۔ میں نے ان دنوں میں ایسی ایسی کہانیاں سنی۔ لوگوں کے ایسے حالات معلوم ہوئے ہیں کہ میں آپ کو بتاؤں تو دل ہل جائے۔ لوگ کس طرح جی رہے ہیں۔ میں اب سمجھی ہوں ، میرا دکھ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ میں ہر فورم پر جاؤں گی۔ میں بتاؤں گی کہ ہم لوگ کس کرب سے گذر رہے ہیں۔ اور ہاں اگر کوئی مشکل ہوئی تو فہد ہیں نا میرے ساتھ۔ ‘‘ سلمی عزم کے ساتھ بولی توماسٹر دین محمد نے اس کے چہرے پر دیکھا۔ پہلی بار اسے اپنی بیٹی با اعتماد لگی تھی۔ سو وہ بڑے تحمل سے بولا

’’اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ خیر۔ !تم لوگ بیٹھو، میں آتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر ماسٹر دین محمد باہر کی جانب چل دیا۔ وہ جا چکا توسلمٰی نے پوچھا

’’مجھے سمجھ نہیں آئی، ابا کیا کہنا چاہ رہے تھے۔ ‘‘

’’ان کی باتوں میں ایک باپ کے خدشات تھے۔ لیکن ہمیں کوئی ایسا موقعہ نہیں دینا چاہئے۔ جس سے کسی کے دل میں بھی بدگمانی پیدا ہو۔ ‘‘ فہد نے بتایا

’’میرے ابا کو مجھ پر اعتماد ہے۔ ‘‘ وہ اعتماد سے بولی

’’اچھی بات ہے۔ لیکن دشمن کا اعتماد نہیں۔ وہ ایسا زہر بھی اگل سکتا ہے جس سے دامن پر چھنٹے پڑ جائیں۔ ‘‘ فہد نے اسے اصل بات بتائی تو سلمٰی نے عزم سے کہا

’’کچھ نہیں ہونا۔ میرا کردار ہی لوگوں کے منہ پر ہاتھ رکھ دے گا۔ ‘‘

’’ انشا اللہ، ایسے ہی ہو گا۔ ‘‘ فہد نے کہا توسلمٰی کے چہرے پر حیا پھیل گیا۔ فہد مسکرا دیا۔

اگلے دن کی صبح صبح سراج کے ڈیرے پر فہد واک کرنے کے انداز میں ٹہل رہا تھا۔ اس کے ساتھ سراج تھا۔ ایسے میں مائرہ کی کار آ کر رکی اور وہ باہر آ گئی۔ سراج نے تیزی سے جا کر چار پائی کی طرف بٹھاتا کہ اسے بچھا دے۔ مائرہ اس پر جا بیٹھی تو فہد بھی اس کے قریب آ گیا۔ تبھی وہ پر سکون سے انداز میں بولی

’’تو یہ ہے فہد تمہارا ٹھکانہ۔ ‘‘

’’ہاں اور سمجھو میرا کیمپ آفس بھی۔ ‘‘

فہد نے کہا تواس پر دونوں ہنس دیئے۔ پھرسراج کی طرف دیکھ کر مائرہ نے پوچھا

’’کیسے ہو سراج؟‘‘

’’میں ٹھیک ہوں۔ آپ بیٹھیں میں ابھی آیا۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔ تب فہد نے کہا ’’اب سنو، میں تم سے کیا بات کرنا چاہ رہا تھا۔ جو گھر میں یا سلمی کے آفس میں نہیں ہو سکتی ہے۔ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت بھی ہے۔ ‘‘

’’یہ کیا کہہ رہے ہو۔ کیسی مدد خیر بتاؤ؟‘‘ مائرہ نے کہا تو فہد بولا

’’مجھے اس سیاسی پارٹی کا ٹکٹ چاہئے، جس میں تمہارے پاپا ہیں۔ ‘‘

’’الیکشن لڑ رہے ہو واؤ۔ بہت اچھی بات ہے مزہ آ جائے گا۔ ‘‘ مائرہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو فہد بولا

’’میں الیکشن نہیں لڑ رہا۔ بلکہ میں نے اپنے استاد جی کی بیٹی کو کامیاب کرانا ہے۔ ‘‘

’’کیوں ، اسے کیوں۔ تم کیوں نہیں۔ وہ تو بہت معصوم ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں ممولے کو شاہین سے لڑانے والی بات ہے۔ ‘‘مائرہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا

’’ مجھے بہتر اندازہ ہے کہ اپنے مقصد کے لیے مجھے کیا کرنا ہے۔ یہ وقت بہت نازک ہے، ہمیں بہت محتاط ہو کر چلنا ہے تم اپنے پاپا سے بات کرو۔ ‘‘ فہد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو مائرہ کاندھے اچکا کر بولی

’’خیر۔ !تم یہاں کی سیاست بہتر جانتے ہو۔ ٹکٹ تو مل جائے گا میں پاپا سے بات کر لوں گی بلکہ ان کو اس علاقے کی صورتحال بتا کر پوری طرح کوشش کروں گی۔ ویسے بھی ان کی پارٹی نئے لوگوں کو سامنے لا رہی ہے۔ میں خود بھی اپنی تعلقات آزمانے کی کوشش کروں گی۔ یہ تو سمجھو کام ہو گیا ہے اور کوئی بات؟‘‘

’’نہیں فی الحال تو نہیں۔ ‘‘ فہد نے سکون سے کہا تو مائرہ بولی

’’میں ابھی فون کر دیتی ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے فون کی طرف متوجہ ہو گئی۔ فہد بہت دباؤ میں محسوس کرتا ہوا اس کی طرف دیکھنے لگا۔

٭٭

 

چھاکا اپنے مرغے کے ساتھ صحن میں بیٹھا ہوا اسے بادام کھلا رہا تھا۔ قریب ہی چار پائی پر چاچا سوہنا بیٹھا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔ چھاکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا پھر مرغے کی طرف متوجہ ہو کر بولا

’’کھا شہزادے میرے ابّے کا مال، پر یہ دیکھ لے اگر تو ہار گیا، تیری یخنی میں نے ابے ہی کو پلا دینی ہے۔ ‘‘

’’اوئے کب ہے اس کا مقابلہ؟‘‘ چاچا سوہنا بولا

’’مقابلہ، جس دن وی دارے چیہر نے مجھے چلینج کر دیا اسی دن مقابلہ ہو جائے گا۔ پر تو کیوں پوچھ رہا ہے ابا۔ ‘‘

’’یار، وہ یخنی پیئے بڑا ہی عرصہ ہو گیا ہے۔ ‘‘

اس پر مرغا بول پڑا تو چھاکا بولا

’’دیکھا، یہ شہزادہ بھی مائنڈ کر گیا ہے۔ دیکھنا ابا جیت ہماری ہی ہو گی۔ کیونکہ ایک ہی تے چھاکا ہے اس سارے علاقے میں جس کی دس پوچھ ہے۔ ‘‘

’’او تیری دس پوچھ سے یاد آیا، یہ فہد اصل میں کرنا کیا چاہتا ہے اور یہ سلمی بھی ایک دفتر کھول کر بیٹھ گئی ہے۔ ‘‘ چاچا سوہنا یوں بولا جیسے تفتیش کر رہا ہو۔

’’نا ابا مجھے یہ بتا، اگر تیری سمجھ میں بات نہیں آتی تو پھر تو بات ہی کیوں کرتا ہے۔ یہ انہوں نے کچھ نہیں کیا، اللہ سائیں نے ان ظالم چوہدریوں کی رسی کھنچنے کے لیے انہیں بھیجا ہے۔ تو دیکھنا ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے۔ ‘‘ چھاکا گہری سنجیدگی سے بولا

’’اوئے میرے بھولے پتر، لوگوں کے سامنے اور خود کو سمجھانے کے لیے ہم بڑی بڑی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن یہ دل، اِسے کون سمجھائے، یہ جو فہد کرتا پھر رہا ہے اس سے کچھ ہوتا نظر تو آتا نہیں۔ ‘‘ چاچا سوہنا مایوسی سے بولا

’’ابا تو پھر تو اپنی نظر کا علاج کرا، پورے علاقے میں ہلچل ہو گئی ہے۔ ‘‘

چھاکے نے اس کی طرف دیکھ کر کہا تو چاچے سوہنے نے ایک طویل سانس لی اور بولا

’’اللہ کرے وہی ہو جو ہم سوچ رہے ہیں۔ ‘‘ پھر لمحہ بھر سوچ کر اٹھتے ہوئے بولا، ’’لے فیر پتر میں تو چلا۔ ‘‘

یہ کہہ کر چاچا سوہنا گنگناتا ہوا باہر کی طرف چل دیا

’’ جے ناں اُترئیے یار دے نال پورے۔۔۔ ایڈے پٹنے نہ سہیڑیئے نی ۔۔۔ وارث شاہ جے پیاس نہ ہووئے اندر ۔۔۔شیشے شربتاں دے نہ چھیڑئے نی۔۔۔‘‘

چوراہے میں چاچا سوہنا اور وہاں موجود لوگ، سب باتیں کر رہے تھے اور ساتھ میں تاش بھی کھیل رہے تھے۔ ایک آدمی نے حنیف دوکاندارسے کہا

’’لے بھئی حنیف۔ !الیکشن کا اعلان ہو گیا ہے۔ اب دیکھنا ہو گا چار دن ہلا گلا۔ کاریں ، جیپیں ، موٹریں دوڑیں گی، شور شرابا ہو گا۔ نعرے لگیں گے۔ ‘‘

’’اوئے اصل بات تو یہ ہے کہ یہاں ہمارے علاقے میں سے الیکشن کون لڑے گا؟‘‘ حنیف دوکاندار نے پوچھا تو اسی آدمی نے جواب دیا

’’اُوئے چوہدریوں نے ہی الیکشن لڑنا ہے۔ کسی غریب بندے کی کیا جرات ہے کہ وہ الیکشن لڑے۔ ‘‘

’’غریب کیوں نہیں لڑ سکتا۔ کیا اسے حق نہیں ، فہد ہے نا۔ ‘‘ چاچا سوہنا بولا تو وہ آدمی بولا

’’اُو بھولے بادشاہ۔ !الیکشن میں نوٹ لگانے پڑتے ہیں۔ وہ بھی لمبے نوٹ۔ ‘‘

اس پر حنیف دوکاندار قہقہہ لگا کر بولا

’’اوئے اس فہد کی کیا اوقات کہ وہ چوہدریوں کے مقابلے میں الیکشن لڑے۔ اوئے اس کی اوقات ہی کیا ہے۔ اس کے پاس تو ڈیرہ تک نہیں ہے۔ وہ کیا لڑے گا الیکشن؟‘‘

’’تو سچ کہتا ہے یار۔ وہ جیسے کہتے ہیں نا کوئی جانور گاڑی تو روک سکتا ہے لیکن گاڑی چلا نہیں سکتا۔ فہد واقعی الیکشن نہیں لڑسکتا۔ پیسہ تو اس نے سارا زمینوں پر لگا دیا ہے۔ اب ساراکچھ بیچے گا تو ہی الیکشن لڑے گا۔ ‘‘

اس آدمی نے کہا تو چاچا سوہنا بولا

’’اوئے تم لوگ تو جھلے ہو گئے ہو۔ اگر فہد نے الیکشن لڑا تو وہ جیتے گا ضرور یہ میرا دل کہتا ہے۔ ‘‘

’’اُو چاچا۔ !تو سیاست کی باتیں نہ کریں۔ اپنا کام کر فیصلہ میدان میں ہوتا ہے۔ صرف خواہش کر لینے سے سب کچھ ہاتھ نہیں آ جاتا۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے کہا تو چاچا سوہنا بولا

’’میدان میں بندے ہی لڑتے ہیں۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ الیکشن صرف نوٹوں سے لڑا جا تا ہے اس کے لیے حوصلہ اور اعتماد بھی چاہئے جو اب چوہدریوں کے پاس نہیں رہا۔ ‘‘

’’جب علاقے میں جس قدر نوٹ پھنکیں گے نا اسی قدر ووٹ اٹھا لیں گے۔ ‘‘حنیف دوکاندار نے طنز سے کہا تو چاچا سوہنا ہنستے ہوئے بولا

’’نوٹوں سے تیرے جیسے بکاؤ مال اپنا ووٹ بیچتے ہیں۔ اب نہیں بکنے والے ووٹ اب لوگوں کو شعور آ گیا ہے وقت ہی تبدیل نہیں ہوا سوچ بھی تبدیل ہو گئی ہے۔ اس بار الیکشن کا نتیجہ کچھ الگ ہی نکلے گا۔ اب ہوا چل پڑی ہے۔ ‘‘

چاچے نے بڑے اعتماد سے ان کی طرف دیکھا پھر کھیل کی طرف متوجہ ہو گیا۔

٭٭

 

حویلی کے ڈرائینگ روم میں چوہدری جلال اور وکیل جمیل اختر دونوں باتیں کر رہے تھے۔ منشی ان سے ذرا فاصلے پر بیٹھا ہوا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ وکیل نے کہا

’’مجھے آج ہی معلوم ہوا ہے کہ چھوٹی سیٹ کے لیے چوہدری کبیر کے مقابلے میں فہد کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ‘‘

’’کیا ؟کیا یہ خبر درست ہے؟‘‘ چوہدری جلال کو یہ سن کر بہت شاک لگا تھا۔

’’ہاں۔ مگر وہ نہیں مان رہا ہے۔ کیوں نہیں مان رہا۔ یہ تو معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن جلدی پتہ چل جائے گا۔ ‘‘ وکیل نے کہا تو چوہدری جلال تشویش سے بولا

’’میں تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ خیر۔ !وہ آتا ہے مقابلے میں تو آ جائے۔ لیکن وہ کیوں نہیں مان رہا۔ یہ بات سوچنے والی ہے کیا یہ معلوم ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’ویسے چند دن بعد سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ لیکن ایک مشورہ ہے۔ کیوں نا۔ اس سے مل کر اسے ٹٹولا جائے۔ اس سے بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ ‘‘ وکیل نے صالح دیتے ہوئے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’فوراً مل لیں اس سے۔ بلکہ وہ کسی سمجھوتے پر بھی راضی ہو جاتا ہے تو کر لیں۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ الیکشن نہیں جیت سکتا۔ ممکن ہے وہ ان حالات سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہو۔ فوراً ملو جو شرط بھی ہو، ہم اسے مانیں گے اگر ماننے والی ہوئی تو۔ ‘‘

’’میں آج ہی اس سے ملنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ممکن ہے وہ ہماری کسی آفر کے انتظار میں ہو۔ ‘‘

وکیل نے کہا تو چوہدری جلال تیزی سے بولا

’’یہی میں کہہ رہا ہوں۔ ممکن ہے ملک نعیم کا جو سامنے آنا ہے وہ محض ڈراوا ہی ہو۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ میں ملتا ہوں۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ چوہدری صاحب۔ !ملک نعیم نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے اس علاقے میں آنا ہی آنا تھا۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ آپ اس کا سدباب وقت سے پہلے کیوں نہیں کیا۔ ورنہ تو الیکشن میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ‘‘ وکیل نے کہا تو چوہدری جلال حیرت سے بولا

’’جانتا ہوں۔ اس کی رسی میں نے ہی ڈھیلی چھوڑی تھی۔ مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارے لوگ کیا کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’طاقت کی کشش بہت ہوتی ہے چوہدری صاحب۔ ! لوگ اسی طرف جڑتے ہیں۔ جہاں طاقت ہو۔ آپ حکومت میں ہوتے ہوئے ان کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ تو وہ آپ سے کیا توقع رکھیں۔ روایتی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ یہ آپ مان لیں۔ ‘‘

’’ وکیل صاحب۔ !ابھی آپ کہہ رہے تھے کہ طاقت کی کشش بہت ہوتی ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے مسکراتے ہوئے کہا تو وکیل جمیل اختر بولا

’’اب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ طاقت کا اصل مرکز کہاں ہے۔ یہی سمجھنا وقت کی اہم ضرورت ہے خیر۔ !میں نے آپ کو حالات سے آگاہ کر دیا۔ نور پور پر آپ کی گرفت کمزور ہو گئی ہے۔ کیونکہ کبیر وہاں کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہا ہے۔ ‘‘

اس کی بات سن کر چوہدری نے چونکتے ہوئے پوچھا

’’تو پھر کیا مشورہ دیتے ہیں آپ؟‘‘

’’یہی کہ ملک نعیم اپنی خوبیوں کے بل بوتے پر نہیں ، بلکہ ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بجائے اسے دبانے کے، خود کو عوام میں مضبوط کریں۔ میں تو یہی کہوں گا۔ آج آپ کو میڈیا کا سامنا ہے اور آپ جواب نہیں دے پا رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے یہ سوچاآپ نے؟‘‘

وکیل نے دلیل دیتے ہوئے کہا تو چوہدری جلال اکتائے ہوئے لہجے میں بولا

’’ایک تو یہ میڈیا یہ اچانک کیوں سوار ہو گیا ہے ہم پر، میں سوچتا ہوں اس پر۔ ‘‘

’’تو پھر اجازت میں چلتا ہوں۔ ‘‘

وکیل اٹھتے ہوئے بولا وکیل چلا گیا تو منشی بولا

’’چوہدری صاحب۔ ! یہ جو وکیل ہے نا، اسے سمجھ رہے ہیں آپ۔ کہیں یہ نکے چوہدری کی جگہ خود تو سیاست میں نہیں آنا چاہتا؟‘‘

’’مجھے بھی یہی شک ہے۔ لگتا ہے یہ بھی ایم پی اے بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ دیکھتا ہوں اسے بھی۔ تم چیمہ صاحب کو فون کرو اور کہو کہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ ان میڈیا والوں کا تو کوئی سد باب کریں۔ ‘‘چوہدری جلال نے کہا تو منشی اٹھتے ہوئے بولا

’’جی بہتر۔ ‘‘

وہ فون کی جانب بڑھا تو چوہدری سوچ میں پڑھ گیا۔ حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔

وکیل جمیل اختر نے حویلی سے نکل کر فہد سے رابطہ کیا۔ اس نے بات مان لی اور اس کی بات سننے پر راضی ہو گیا۔ ایک سڑک کے کنارے درختوں کے درمیان وکیل جمیل اختر کھڑا تھا۔ قریب ہی اس کی گاڑی کھڑی تھی۔ اس کی نگاہیں جس طرف لگی ہوتی ہیں۔ ادھر سے اسے فہد کی گاڑی آتی دکھائی دی جو اس کے قریب آ کر رک گئی۔ اس میں سے فہد نکلا تو وکیل کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ فہد نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ، اس کے قریب جا کر ہاتھ ملا یا اور بولا

’’جی وکیل صاحب۔ کہیے، آج آپ مجھ سے کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ دو ٹوک بات، بحث نہیں پلیز۔ ‘‘

’’پچھلی بار میں نے صرف مقدمے پر بات کی تھی۔ لیکن اب میں الیکشن کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ سنا ہے۔ آپ الیکشن لڑ رہے ہیں ؟‘‘ اس نے بھی سیدھے سبھاؤ پوچھ لیا تو فہد نے دو ٹوک لہجے میں کہا

’’نہیں۔ میں الیکشن نہیں لڑ رہا۔ آپ تک شاید یہ اطلاع درست نہیں پہنچی۔ ‘‘

’’آپ ایک سمجھ دار انسان ہیں اور جانتے ہیں کہ سیاست میں کہیں بھی کوئی حرف آخر نہیں ہوتا۔ میں ہی نہیں ، بہت سارے لوگ آپ کی سمجھ بوجھ اور صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ کیا آئندہ آنے وقت میں آپ یہاں تبدیلی چاہتے ہیں۔ ‘‘ وکیل نے محتاط لہجے میں پوچھا تو فہد صاف لہجے میں بولا

’’میں اپنے علاقے کو خوشحال دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس لیے اپنی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ ‘‘

’’میں مانتا ہوں کہ آپ کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چوہدری صاحب اپنی ماضی کی غلطیوں کو مانتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں ، ماضی کو بھلا کر اچھے اور خوشگوار تعلقات کا آغاز کیا جائے۔ ‘‘ اس نے اپنے مطلب کی بات کی تو فہد نے کہا

’’آج تو نہیں کل، اس نے ایسا کرنا ہی تھا۔ آج ایسا کیوں کر رہا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ الیکشن ہے، جس میں ان کی سیاسی پوزیشن پر بہت برا اثر پڑ چکا ہے، وہ بھی چوہدری کبیر کی وجہ سے۔ یہ الیکشن ان کے لیے بہت مشکل ثابت ہو گا۔ ‘‘

’’میں نے تسلیم کر تا ہوں۔ لیکن اب آپ کی حمایت ہو گی تو یہ مشکل نہیں رہے گی۔ ‘‘وکیل نے اصل مدعا کہا تو فہد مسکراتے ہوئے بولا

’’میری حمایت یا مخالفت ان کا کیا بگاڑ سکتی ہے وکیل صاحب۔ یہ تو ان کی خاندانی سیٹ ہے۔ نکال ہی لیں گے۔ وہ آرام سے نکال لیں گے۔ ‘‘

’’دیکھیں آپ ہی نے کہا ہے کہ بحث نہیں۔ سیدھی بات کرتا ہوں۔ آپ نے علاقے میں خاصا اثرورسوخ بنا لیا ہے۔ اس لیے ملک نعیم آپ کو بھی الیکشن لڑانا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو آپ مضبوط امیدوار کے ساتھ جڑیں۔ میں ضمانت دیتا ہوں۔ چوہدری آئندہ آپ کی راہ میں نہیں آئیں گے۔ آپ جیسی چاہیں سیاست کریں۔ ‘‘

وکیل نے اسے آفر دی تو فہد بولا

’’میں سوچتا ہوں اور اپنے دوستوں سے مشورہ کر کے آپ کو بتا دیتا ہوں۔ ‘‘

’’میں شدت سے منتظر رہوں گا۔ ‘‘

وکیل نے کہا تو دونوں نے ہاتھ ملایا اور ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنی اپنی گاڑیوں کی جانب بڑھ گئے۔

٭٭

 

چوہدری کے ڈیرے پر چوہدری کبیر کے سامنے ماکھا کھڑا تھا۔ چوہدری کبیر صوفے پر بیٹھا میز پر دھری ایش ٹرے کو اضراری انداز میں گما رہا تھا۔ تبھی ماکھے نے کہا

’’جی چوہدری صاحب۔ !آپ نے مجھے یاد کیا؟‘‘

’’یار یہ نذیر والا مقدمہ لمبا ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اوپر سے الیکشن آ گئے ہیں۔ یہ کب تک چلتا رہے گا یار؟‘‘ چوہدری کبیر نے کہا تو ماکھا بولا

’’آپ جیسے حکم دیں۔ ختم کر دیتے ہیں وہ مدعی عورت؟‘‘

’’نہیں نہیں ابھی اسے نہیں چھیڑنا، اسے تو صلح کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ وہ جو چشم دید گواہ بنا پھر تا ہے۔ وہی نہیں رہے گا تو کیس میں جان کہاں سے رہے گی۔ اسے کچھ اس طرح پار کر دے کہ۔۔۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے اسے سمجھایا

’’میں سمجھ گیا۔ میں آج ہی اسے ادھر لے آتا ہوں۔ ‘‘ ماکھے نے کہا

’’نہیں یار۔ !اسے ادھر نہیں لانا۔ وہیں اس کا کام کر دینا ہے۔ ویسے بھی علاقے میں پیغام جانا چاہئے۔ ہماری مخالفت کرنے والے بندے کا کیا حال ہوتا ہے۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے حقارت سے کہا تو ماکھا بولا

’’ہو گیا جی، آپ فکر نہ کریں۔ بڑے دنوں بعد کوئی ہڈ پیر ہلانے کا موقع ملا ہے۔ فکر نہ کریں جی۔ لیکن ایک بات عرض کروں۔ ‘‘

’’بولو۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے اس کی طرف دیکھ کر کہا

’’آپ نے وڈھے چوہدری جی سے بات کر لی ہے انہوں نے ہتھ ہولا رکھنے کو کہا ہے۔ کہیں وہ ناراض ہی نہ ہو جائیں۔ ‘‘ ماکھے نے اسے یاد دلایا

’’او یار انہیں تو اپنی سیاست کی پڑی ہوئی ہے۔ ادھر سارا کچھ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ اوئے علاقے پر رعب اور دبدبہ ہو گا لوگ خوف کھائیں گے ہمیں ووٹ دیں گے تو جا میں انہیں سمجھا لوں گا۔ اب جا۔ ‘‘ اس نے قدرے غصے میں کہا تو ماکھا چلا گیا۔

چھاکا پیدل ہی گاؤں کی گلی میں جا رہا تھا۔ عقب سے جیپ پر سوار ماکھا اور اس کے ساتھی آ رہے تھے۔ وہ اسلحہ لہرا رہے تھے۔ انہوں نے چھاکے کے پاس جیپ روکی اور تیزی سے اتر کر اردگرد گھیرا ڈال لیا۔ چھاکا ایک دم سے گھبرا گیا، پھر رعب سے بولا

’’کیا بات ہے؟اس طرح میرا راستہ کیوں روکا تم لوگوں نے؟‘‘

’’تو چشم دید گواہ ہے نا مگر تیرا چشم دید گواہ کوئی نہیں ہو گا۔ چل تجھے تیری سانسوں سے آزاد کرتے ہیں۔ ‘‘یہ کہہ کر ماکھے نے گن سیدھی کی ہی تھی کہ ایک گن اس کی کنپٹی پر آ کر لگ گئی۔

’’تیرا چشم دید کون ہو گا؟‘‘ سراج نے نے پوچھا تو ماکھا گھبرا گیا۔ چھاکے کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی تو ماکھا بولا

’’ سراج تم ؟‘‘

’’ہاں میں ، میں ساری کہانی سمجھ گیا ہوں۔ جب تک ایک غریب ہی دوسرے غریب کا دشمن رہے گا۔ اس وقت تک ہم سب کی حالت نہیں بدل سکتی۔ تیرے اور میرے ہاتھ میں بندوق کس نے دی۔ ہم حفاظت کس کی کر رہے ہیں۔ سوچو۔ پر تُو کیاسوچے گا۔ تیرے جیسے ذہنی غلام تو اپنی عقل بھی ان مفاد پرست سیاست دانوں کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں۔ ‘‘ سراج نے نفرت سے کہا تو ماکھا بولا

’’طاقت کا اپنا ہی نشہ ہوتا ہے، جس نشے میں اب تو بات کر رہا ہے۔ گن ہٹا کے دیکھ پھر میں تجھے بتاتا ہوں طاقت کیا شے ہوتی ہے۔ ‘‘

’’تو سوچ تُو، یہ طاقت کس کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اپنے جیسے غریب کو مارنے کے لیے؟ تف ہے تم پر، میں ابھی تجھے مار سکتا ہوں لیکن ماروں گا نہیں ، چل ہٹ اور چلا جا یہاں سے۔ پھینک دے یہ گن۔ ‘‘

سراج نے کہا تو ماکھے نے گن ہٹا کر پھینک دی۔

’’چوہدری سے کہہ دینا، اب ہمارے کسی بندے کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے۔ ورنہ آنکھیں نکال لیں گے۔ ہم اپنی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ چل بھاگ۔ ‘‘سراج نے گن کا بولٹ مارتے ہوئے کہا تو ماکھا سب کو اشارہ کرتے ہوئے جیپ میں بیٹھ گیا۔ وہ سب چلے گئے

’’میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ تم یہاں آ جاؤ گے؟‘‘ چھاکے نے کہا تو سراج بولا

’’رانی کے بعد اب وہ کسی پر ظلم کریں میں انہیں یہ موقع نہیں دینا چاہتا تو بھی خیال رکھا کر۔ یہ پتہ کر کہ نکا چوہدری ہمیں ملے گا کہاں پر، اب اسے ختم کرنا ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر سراج حیران سے چھاکے کو لے کر ایک جانب چل دیا۔

ماکھا ڈیرے پر پہنچ چکا تھا۔ چوہدری کبیر شدید غصے اور حیرت میں تھا اور ماکھا سر جھکائے قریب کھڑا تھا۔

’’یہ سراج، کدھر سے آ گیا پھر ہمارے راستے میں۔ ‘‘

’’میں نہیں جانتا نکے چوہدری جی، چھاکا فقط چند لمحوں کا مہمان تھا اگر وہ نہ آتا تو۔ ‘‘ ماکھے نے اپنی صفائی دی تو چوہدری کبیر نے غصے میں کہا

’’ اُوے ماکھے جب وہ تمہارے راستے میں آ ہی گیا تھا تو اس بھی پھڑکا دیتا، پر نہیں ، یہ کام تم لوگوں سے نہیں ہو گا جی کر تا ہے تمہیں ہی گولی مار دوں۔ لیکن سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ اس نے یہ بندوق کب سے اٹھا لی؟‘‘

’’کیا فہد نے اپنی سیکورٹی بنا لی ہے یہ جاننا بڑا ضروری ہے۔ ورنہ وہ ہمارے لیے دردِسر بن جائے گا۔ ‘‘ ماکھے نے تشویش سے کہا تو چوہدری کبیر بولا

’’اوے تم لوگوں سے کچھ نہیں ہو گا تمہیں تو یہ بھی نہیں پتہ۔ تم لوگوں نے خاک علاقے کو اپنے قابو میں رکھنا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے تم لوگ مر گئے ہو۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ بے چینی سے بولا، ’’یہ نذیرے والا معاملہ اتنا لمبا کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے لگتا ہے، اب مجھے خود ہی اسے ختم کرنا پڑے گا۔ ‘‘

’’یہ بڑا آسان ہے کہ میں جاؤں اور فہد اور سراج کو مار دوں لیکن آپ نے الیکشن بھی لڑنا ہے چوہدری صاحب۔ !میرے خیال میں یہ معاملہ وڈھے چوہدری صاحب پر چھوڑ دیں۔ ابھی تک رانی کا معاملہ بھی سر پر ہے۔ ‘‘ ماکھے نے اسے یاد دلایا تو چوہدری کبیر نے غصے میں کہا

’’بکواس نہیں کر اوئے، بھاڑ میں گیا الیکشن، چھاکے کے قتل کا رانی سے کیا تعلق ؟میں دیکھتا ہوں انہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے میز پر پڑی کار کی چابی اٹھائی اور باہر کی جانب چل دیا۔

٭٭

 

سہ پہر کا وقت تھا۔ سورج مغرب کی طرف جھک گیا تھا۔ کھیت کے کنارے فہداورسلمٰی چلے جا رہے تھے۔ فہد نے رک کر اس سے پوچھا

’’سلمٰی۔ !کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ صفیہ اپنے شوہر کے قاتل کو سزا دلوانا چاہتی ہے۔ میرا مطلب ہے اس کا وہ جوش، وہ جذبہ کہیں ٹھنڈا تو نہیں پڑ گیا۔ ‘‘

’’نہیں تو، اس پر اگر پہلے کی طرح دباؤ نہیں ہے نا تو وہ پہلے جیسی مایوس بھی نہیں ہے۔ مگر بات کیا ہے۔ ‘‘ سلمٰی نے چونکتے ہوئے پوچھا تو فہد نے جواب دیا

’’بات یہ ہے کہ چوہدری جلال ایسے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ جیسے کوئی دیوار سے لگ کر بات کرتا ہے۔ کیونکہ چوہدری اب دیوار سے لگنے والا ہے۔ اب وہ اپنی بقا کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ‘‘

’’ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ مگر جب تک صفیہ میرے ساتھ ہے۔ کسی لالچ یا دباؤ میں نہیں آئے گی۔ مجھے یقین ہے۔ ‘‘ سلمی نے اسے یقین دلایا تو وہ بولا

’’حالات بدل رہے ہیں۔ آنے والوں چند دنوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ چوہدری جلال اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ‘‘

’’آپ فکر نہ کریں۔ میں اب ہر آنے والے طوفان اور زلزلے کے لیے خود کر تیار کر چکی ہوں۔ آپ کی محبت نے مجھے اتنا حوصلہ دیا ہے کہ میں بے خطر آگ میں کودنے پر تیار ہوں اور میں اپنا یہ دعویٰ وقت آنے پر ثابت بھی کر دوں گی۔ ‘‘ سلمی نے عزم سے کہا

’’ہم ساری زندگی حالات کو سمجھتے اور اس کے ساتھ نبرد آزمائی میں گذار دیتے ہیں۔ آسانیاں تو بس یقین اور اعتماد کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اور یہ قوتیں صرف محبت کے دامن میں ہوتی ہیں۔ سلمٰی زندگی میں بہت سارے فیصلے کرنا مشکل ہو گئے۔ لیکن یہ محبت ہی تو ہوتی ہے جیسے معیار بنا کر انسان اپنے فیصلے کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ‘‘ فہد بڑے نرم لہجے میں بولا

’’اور محبت کا فیصلہ یہ بھی تو وقت ہی کرتا ہے نا کون کس کے لیے کتنی محبت رکھتا ہے۔ آپ صفیہ کی فکر نہ کریں۔ ‘‘ سلمٰی نے حیا بار آنکھوں سے کہا اور قدم بڑھا دیئے۔ فہد نے حیرت سے اسے دیکھا، اس سے پہلے وہ کوئی بات کرتا، اسی لمحے سراج کا فون آ گیا۔ اس نے چھاکے پر حملے کی تفصیل بتائی تو فہد کو ایک دم سے غصہ آ گیا۔ اس نے اسی وقت وکیل کو فون ملایا۔

’’جی فہد صاحب۔ کیسے مزاج ہیں ؟‘‘

’’میرے مزاج تو ٹھیک ہیں۔ مگر لگتا نہیں کہ چوہدریوں کے مزاج درست ہیں۔ ‘‘

’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟‘‘ وکیل نے پوچھا تو فہد بولا

’’آپ نے جو مجھ سے بات کی تھی۔ اب وہ مجھے صرف آپ ہی کی خواہش لگتی ہے۔ چوہدریوں کو اس کی ضرورت نہیں۔ ‘‘

’’ہوا کیا ہے بتائیں تو؟‘‘ وکیل نے پوچھا تو فہد نے بتایا۔ جسے وکیل سنتا رہا۔ تب فہد نے کہا ’’ایک طرف وہ صلح کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ ہمارا ساتھی مارنے کے لئے بندے بھیجتے ہیں۔ اب بتائیں مجھے کیا کرنا چاہئے؟‘‘

’’وہی جو آپ کا دل چاہتا ہے۔ جو آپ بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ یہی سمجھیں کہ میں نے آپ سے بات کی ہی نہیں۔ ‘‘ وکیل نے افسردہ لہجے میں کہا تو فہد نے غصے میں کہا

’’ اور ساتھ میں یہ بات آپ سمجھا دیں انہیں۔ کبیر کول گام ڈال دیں۔ گولی مجھے بھی چلانی آتی ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ سلمی خوف زدہ نہیں ہوئی بلکہ اس نے کہا

’’ فہد، لگتا ہے اب صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا، انہیں سبق دینا ہو گا۔ ‘‘

’’ ایسے ہی لگتا ہے۔ ‘‘فہد نے کہا تو دونوں پلٹ کر کار کی جانب چل دئیے۔

فہد اس وقت سلمی کو چھوڑ کر اپنے گھر پہنچا ہی تھا کہ ملک نعیم کی گاڑی اس کے گارڈ ز کے جلوس ساتھ گھر کے باہر آن رکی۔ فہد کے پا س سراج بیٹھا ہوا تھا۔ ملک نعیم اندر آ گیا تو دونوں اس کے ساتھ تپاک سے ملے۔ فہد نے خوشگوار لہجے میں پوچھا

’’ملک صاحب آپ؟‘‘

’’میں یہ بات فون پر بھی کر سکتا تھا لیکن میں خود آنا مناسب سمجھا۔ ‘‘

ملک نعیم نے سنجیدہ لہجے میں کہا اور چارپائی پر بیٹھ گیا۔

’’ایسی کیا بات ہو گئی‘‘ فہد بھی پوچھتے ہوئے بیٹھ گیا

’’مجھے پارٹی ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ ان میں آپ کا نام نہیں ، آپ کے ریفرنس سے سلمٰی امیدوار ہو گی۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا۔ یہ دیکھیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک لیٹر اس کے سامنے رکھ دیا۔ تو فہد نے خوشگوار لہجے میں کہا

’’اُوہ۔ !تو سلمٰی کو پارٹی ٹکٹ مل گیا۔ ‘‘

’’فہد۔ !مجھے کم از کم پہلے بتا تو دیا ہوتا۔ میں آپ کے لیے کوشش کر رہا ہوں اور اوپر سے سلمٰی کے لیے۔ ‘‘

ملک نعیم نے کہا تو فہد نے سمجھایا

’’پارٹی کے جو بڑے ہیں۔ انہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے نا، تو بس ٹھیک ہے۔ آپ الیکشن مہم کا آغاز کریں۔ ‘‘

’’ مجھے اتنا تو مجھے اعتماد ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں۔ ٹھیک ہی کر رہے ہوں گے۔ لیکن ایسا نام جس کے بارے میں لوگ جانتے تک نہیں۔ اور خود امیدوار ایک عام سی لڑکی۔ جسے سیاست کی الف بے کا نہیں پتہ، یہ کیسے چلے گا؟‘‘ ملک نعیم نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا

’’سب ٹھیک ہو جائے ملک صاحب۔ !یہ میری ذمے داری ہے، آپ کیا پسند کریں گے۔ چائے یا ٹھنڈا؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’فہد آپ اب بھی سوچ لیں۔ کل کاغذ جمع ہونے ہیں پھر سوچنے سمجھنے کا موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ‘‘ ملک نعیم نے کہا تو فہد اسے حوصلہ دیتے ہوئے بولا

’’آپ فکر نہ کریں۔ بتائیں ، ٹھنڈا پئیں گے یا چائے ؟‘‘

’’چلیں ، دیکھتے ہیں۔ ‘‘ ملک نعیم نے سکون سے کہا تو فہد بولا

’’آپ سکون کریں۔ میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔ ‘‘

وہ دونوں باتیں کرنے لگے تو سراج چائے بنوانے کے لئے اٹھ گیا۔

٭٭

 

نور پور کی عدالت میں کافی رش تھا۔ اس دن الیکشن میں حصہ لینے والوں کی حتمی فہرست لگنا تھی۔ دوسرے لوگوں کی طرح فہد، سلمٰی، سراج اور ان کے ساتھ لوگ انتظار میں کھڑے تھے۔ کافی دیر بعد بلاوی نے عدالت کے باہر حتمی فہرست لگا دی۔ فہد جلدی سے آگے بڑھا۔ فہرست پر انگلی رکھ کر سلمی کا نام تلاش کرتے ہوئے نام پڑھ کر اس کے چہرے پر خوشی پھیل گئی۔ سلمی کے کاغذات منظور ہو گئے تھے۔ اب وہ الیکشن لڑ سکتی تھی۔ وہ خوشگوار چہرے کے ساتھ واپس پلٹا تو سامنے کاشی کھڑا تھا۔ اس نے فہد کے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا

’’زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے فہد۔ اپنی طاقت سے زیادہ اُڑنے والا بہت جلد گر کر مر جاتا ہے۔ ‘‘

فہد نے اس کے چہرے پر دیکھا اور کوئی سخت جواب دینے لگا تھا وہ ایک طرف چل دیا۔ فہد اس کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ وہ ایک طرح سے فہد کو وارننگ دے گیا تھا۔ فہد نے ایک دم سے اپنا سر جھٹک دیا۔ دشمن تو یہی چاہتے تھے کہ اسے ذہنی اذیت دیں۔ اسے اسی وار سے بچنا تھا۔ تبھی اس نے دیکھا عدالت میں ایک لینڈ کروزر احاطہ عدالت میں آ کر رک گئی۔ اس میں سے مائرہ باہر نکلی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ فہد پر نگاہ پڑی تو وہ اس جانب بڑھ آئی۔ دونوں آمنے سامنے تھے۔ مائرہ بہت جاذب نظر لگ رہی تھی۔ دور کھڑی سلمٰی نے انہیں دیکھا۔ وہ قریب آئے توسراج نے کہا

’’ہمیں نکلنا چاہئیے اب۔ ‘‘

’’ہاں کیوں نہیں چلو۔ ‘‘ فہد بولا تو مائرہ نے سلمی سے کہا

’’آؤ سلمٰی ادھر، میرے ساتھ جیپ میں بیٹھو۔ ہم نے ایک بڑے جلوس کے ساتھ تمہارے گاؤں جانا ہے۔ ‘‘

’’جلوس، کہاں ہے جلوس ؟‘‘

فہد نے پوچھا تو مائرہ نے عدالت کے باہر ایک قافلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

’’وہ دیکھوسامنے جلوس، ہمارا منتظر ہے اس جیپ کا ڈرائیور یہاں کا ایک بڑا کاروباری آدمی ہے۔ یہاں بازار کا ایک چکر لگائیں گے، پھر گاؤں جائیں گے۔ ‘‘

’’کیوں مائرہ کیوں ؟‘‘ فہد نے دھیرے سے پوچھا

’’اپنی طاقت کا اظہار، انتخابی روایت کا حصہ الیکشن کی عین ضرورت۔ زیادہ فکر نہ کرو آ جاؤ۔ ہمارے پیچھے پیچھے اپنی گاڑی میں۔ آؤ سلمٰی۔ ‘‘

سلمٰی، فہد کا عندیہ پا کر مائرہ کے ساتھ چل پڑی۔ وہ لینڈ کروزر میں بیٹھ گئی۔ کچھ لمحوں میں بعد مائرہ اور سلمٰی سن روف کھول کر کھڑی تھیں۔ اور جلوس آگے بڑھ رہا تھا۔

رات ہو چکی تھی۔ سلمی کے گھر میں رونق لگی ہوئی تھی۔ وہ سبھی صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ فہد نے مائرہ سے پوچھا

’’یہ تم نے جلوس کیسے بنا لیا۔ یہ سب کیسے کیا تم نے؟‘‘

’’الیکشن میں ذرا رعب شعب جمانا پڑتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں صبح ہی نور پور چلی گئی تھی۔ وہاں موجود اپنے لوگوں سے ملی ہوں۔ پاپا کا ریفرنس تھا۔ انہوں نے جلوس کا اہتمام کیا۔ نورپور کی حد تک تو میں سب اوکے کر آئی ہوں۔ باقی کی پلاننگ ہم کر لیتے ہیں۔ ‘‘

’’اور جعفر۔۔۔‘‘ فہد نے پوچھا

’’الیکشن کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں نا۔ وہ دو دن بعد آئے گا۔ پوسٹر، بینر وغیرہ لے کر۔ پاپا نے اسے روک دیا تھا۔ پھر نور پور میں کام بھی بہت ہے اور وہ پولیس آفیسر ہے۔ یوں کھلم کھلا تو ہمارے کام کرنے سے رہا۔ تاخیر سے سہی لیکن وہ آئے گا ضرور۔ ‘‘

’’مائرہ بیٹی۔ !یہ الیکشن کے دنوں میں تو صحافی لوگوں کا کام بہت بڑھ جاتا ہے۔ ان کے کیرئیر کے لیے بھی یہ بہت اچھا موقع ہوتا ہے۔ تمہارے کام کا تو بہت حرج ہو گانا۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے پوچھا تو مائرہ بولی

’’انکل۔ !اس وقت سلمٰی کا الیکشن میرے نزدیک سب سے زیادہ اہم ہے۔ ‘‘

اس پر فہد نے چونک کر مائرہ کو دیکھا توسلمٰی نے سب سے کہا

’’مائرہ۔ !کھانے کے بعد لمبی بات کریں گے، تم فریش ہو جاؤ۔ ‘‘

’’ اور تھوڑا آرام کر لینا بیٹی۔ پھر باتیں بھی ہوتی رہیں گی۔ ‘‘

ماسٹر دین محمد نے کہا تو مائرہ نے اٹھتے ہوئے فہد کو دیکھا۔ وہ اسے ممنونیت سے دیکھ رہا تھا۔

٭٭

 

چوہدری کے ڈرائینگ روم میں بڑی اہم میٹنگ ہو رہی تھی۔ وکیل کے ساتھ دو اور لوگ بھی تھے جو خاصے سوبر اور امیر کبیر دکھائی دے رہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو الیکشن میں چوہدری کے ہر معاملہ کے مشیر تھے۔ وکیل، چوہدری کبیر کی بات کر کے بولا

’’چوہدری صاحب۔ !آپ یہ تسلیم کر لیں کہ فہد نے ہی آپ کی سیاسی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچایا ہے، چوہدری کبیر نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور اس الیکشن میں آپ کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ‘‘

’’ کبیر کی چھوڑو، فہد بارے سچی بات تو یہ ہے کہ اس نے لوگوں میں نجانے کیا پھونک دیا ہے۔ سب اس سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’آپ نے اسے فقط ایک پڑھا لکھا جوان سمجھنے کی غلطی کی ہے۔ وہ بہت سمجھ دار ہے۔ ‘‘ وکیل نے کہا تو چوہدری جلال نے تنک کر کہا

’’یہاں کتنے سمجھ دار دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ کیا کر لیا انہوں نے آج تک، کچھ بھی تو نہیں۔ اتنے برس آزادی کو گذر گئے سوائے الیکشن مہنگا ہونے کے اور کیا تبدیلی آئی ہے۔ ‘‘

’’شکر کریں کہ عام آدمی کو اپنی اہمیت کا نہیں پتہ۔ یہی عام آدمی تبدیلی لاتے ہیں۔ جیسے کہ فہد نے آپ کو بھی سیاسی پارٹی کی چھتری تلے آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہمیں یہاں بیٹھ کر سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کامیابی کسے ملے گی۔ اس نے مخالف امیدوار مقابلے کے لیے کھڑا کر دیا اور ٹکٹ بھی لے لیا۔ مانیں کہ وہ دانا دشمن ہے۔ ‘‘ وکیل نے اسے حقیقت سے آ گاہ کیا تو وہاں موجود ایک شخص نے پوچھا

’’ایک اناڑی لڑکی کو ٹکٹ دلوانے کا فیصلہ ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ فہد نے ایساکیوں کیا؟‘‘

’’وہ جو ہونا تھا ہوا چوہدری صاحب، اب آپ آگے کی سوچیں۔ اب دو ہی آپشن ہیں۔ یا تو فہد کو دہشت زدہ کر کے یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا جائے یا پھر کچھ دو کچھ لو، کی پالیسی اپناتے ہوئے ڈیلنگ کر لی جائے۔ ‘‘

دوسرے شخص نے صلاح دی تو وکیل بولا

’’ ابھی یہی تو بات ہوئی ہے، دونوں آپشن نا کام ہو چکے ہیں۔ اب تو الیکشن جیت کر ہی کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لڑ بھڑ کر نہیں ، عوامی ریلا فہد کے ساتھ ہے۔ کیوں چوہدری صاحب؟‘‘

’’جمیل صاحب درست کہہ رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں لڑنا ہی ہو گا۔ اب الیکشن جیتنے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے۔ ‘‘ پہلے شخص نے کہا تو چوہدری جلال نے پوچھا

’’وہ کیا؟‘‘

’’فہد ہماری طرح ایلیٹ کلاس سے نہیں ہے۔ اس کے اردگرد نوٹوں کی دیوار کھڑی کر دی جائے۔ ووٹ خریدیں۔ پبلسٹی فنڈ چار گنا کر دیں۔ ہر گاؤں کا مطالبہ مان لیا جائے۔ جیت جائیں گے تو یہ سب چار گنا ہو کر واپس آ جائے گا۔ ‘‘ اس نے طریقہ بتا دیا تو چوہدری جلال نے سر ہلاتے ہوئے کہا

’’ہاں۔ یہ ہوئی نہ بات اس کی کیا اوقات وہ کیا الیکشن لڑے گا۔ ‘‘

’’اور ہاں چوہدری صاحب۔ چھوٹے چوہدری کو سمجھا دیں۔ یہ وقت ہوش کا ہے جوش کا نہیں۔ ‘‘ وکیل نے کہا تو چوہدری جلال نے دھیمے سے کہا

’’مان لیا وکیل صاحب۔ ‘‘

’’چلیں اب طے کر لیں کہ کس نے کیا کرنا ہے۔ ‘‘ ایک شخص نے کہا تو ان میں باتیں پھیلنے لگیں۔ کافی دیر تک ہر بعد طے کر کے وہ اٹھ گئے۔

چوہدری جلال جب حویلی کے اندر آیا تو چوہدری کبیر تیار ہو کر باہر جا رہا تھا۔ اس کا چہرہ غصے میں بھرا ہوا تھا۔

’’ کیا بات ہے، کدھر جا رہے ہو؟‘‘ چوہدری جلال نے اس سے پوچھا تو چوہدری کبیر غصے میں بولا

’’ جس طرح سلمٰی جلوس کے ساتھ گاؤں واپس آئی ہے اس کے بعد کوئی چین سے کیسے سو سکتا ہے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ میرے مقابلے میں آ جائے گی۔ ‘‘

’’تو پھر کیا ہوا۔ اس بے چاری کی اپنی کیا حیثیت ہے۔ کٹھ پتلی ہے کٹھ پتلی، چند دن بعد دیکھنا ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ تم پر سکون رہنا۔ یہ الیکشن بڑے ٹھنڈے دماغ سے لڑتی ہیں۔ تم ابھی سے پریشان ہو گیا ہو۔ ‘‘ چوہدری جلال نے اسے سمجھایا تو چوہدری کبیر نے طویل سانس لے کر کہا

’’میں پریشان نہیں ہوں بابا۔ مگر آئندہ آنے والے دنوں کا اندازہ ضرور لگا رہا ہوں۔ اس بلا مقابلہ سیٹ پر اگر وہ ہمیں مقابلے کے لیے میدان میں لے آئے ہیں تو پھر انہیں مات ایسی دی جائے کہ پھر کبھی کسی کی جرات نہ ہو الیکشن لڑنے کی۔ ‘‘

’’ایسے ہی ہو گا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا اور پھر مسکراتے ہوئے روئے سخن بشریٰ بیگم کی جانب کر کے بولا، ’’بیگم۔ !اس بار تجھے بھی اپنے بیٹے کے ساتھ علاقے میں نکلنا ہو گا۔ ‘‘

’’ کیوں نہیں۔ میں اپنے پتر کے ساتھ ہر جگہ جاؤں گی۔ مجھے کون ووٹ نہیں دے سبھی دیں گے۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے کہا لیکن اس کا چہرہ اور لہجہ ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ چوہدری کبیر بولا

’’الیکشن تو ہم نے جیت ہی جانا ہے۔ بس انہیں مات ایسی دینی ہے۔ کہ یاد رکھیں۔ چلو بابا چلیں۔ ڈیرے پر بہت سارے لوگ آ گئے ہیں۔ ‘‘

دونوں باپ بیٹا نکل گئے تو بشریٰ بیگم انہیں حسرت سے دیکھ کر رو پڑی۔

الیکشن کی گہما گہمی ایک دم سے شروع ہو گئی۔ ایک طرف چوہدری جلال اپنے لوگوں کے ساتھ علاقے میں ہر گاؤں ، کھیت اور کنویں پر جانے لگا۔ تو دوسری طرف ملک نعیم اپنے لوگوں کے ساتھ علاقے میں لوگوں کے پاس جانے لگا۔ جہاں ملک نعیم کی اپنی شرافت تھی وہاں جب لوگ ماسٹر دین محمد کی بیٹی کے بارے میں سنتے تو حیران ہونے کے ساتھ ان کے دل میں ہمدردی پھیل جاتی۔ پتہ نہیں کتنے لوگ اس کے شاگرد تھے اور سبھی جانتے تھے کہ چوہدریوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ ماسٹر دین محمد کا نام ان کے لئے محترم ہو گیا۔ چوہدری جلال تک یہ ساری اطلاعیں آ رہی تھیں۔ وہ جب بھی سنتا مضطرب ہو جاتا۔

ایک رات چوہدری جلال بڑے اضطراب میں ٹہل رہا تھا۔ وہ اچانک رکا اور فون کے پاس جا کر نمبر ملایا۔ پھرمایوس ہو کر ریسیور رکھ دیا۔ اس کے چہرے پر پریشانی پر گہری ہو گئی تھی۔ اتنے میں بشریٰ بیگم چائے کا کپ لے کراس کے قریب آ گئی۔ بشریٰ بیگم نے اس کے چہرے پر دیکھ کر پوچھا

’’آپ اتنے پریشان کیوں ہیں ، جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ‘‘

’’نہیں میں پریشان نہیں ہوں۔ اپنے علاقے میں لوگ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان پر بھی تو نظر رکھنا ہے۔ ‘‘

چوہدری جلال نے کہا تو بشریٰ بیگم بولی

’’لیکن انسان کے لیے نیند بھی ضروری ہے۔ آپ کچھ دیر کے لیے سو جائیں۔ آئیں۔ ‘‘

’’نہیں تم جاؤ اور جا کر سو جاؤ مجھے ڈسٹرب نہ کرو۔ جاؤ‘‘ چوہدری جلال نے اکتاہٹ سے کہا تو بشریٰ بیگم نرم لہجے میں بولی

’’میں آپ کو ڈسٹرب کیا کروں گی آپ پہلے ہی پریشان ہیں مجھے ایک بات بتائیں کیا آپ کی اس طرح پریشانی سے الیکشن پر کوئی فرق پڑے گا؟‘‘

اس کے یوں پوچھنے پر چوہدری جلال نے خود پر قابو پاتے ہوئے چائے کا سپ لیا، پھر سوچتے ہوئے بولا ’’نہیں بیگم، تم ٹھیک کہتی ہو۔ میرے یہاں پریشان ہونے سے کچھ نہیں ہو گا لیکن سکون بھی تو نہیں ہے۔ ‘‘

’’جو ہونا ہے وہ ہو کر رہنا ہے۔ آپ کی پریشانی دیکھ کر لگتا ہے آپ علاقے سے مطمئن نہیں ہیں ؟‘‘ بشریٰ بیگم نے پوچھا تو چوہدری جلال نے دھیمے لہجے میں کہا

’’یہ جو فہد نے نئی قیادت، نئی سوچ اور تبدیلی کا نعرہ لگایا ہے نا اسی نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اس نے پوری پلاننگ کر کے الیکشن لڑا ہے۔ ‘‘

’’مگر کچھ غلطیاں ایسی ہیں جس سے آپ کا تاثر پہلے والا نہیں رہا مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہی کہ ہم نا امید ہو جائیں۔ جیت ہماری ہی ہو گی لیکن آپ اپنا خیال تو رکھیں۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’ہماری خامیاں ہیں لیکن میں نے اتنی دولت اس علاقے میں بانٹ دی ہے کہ ان کی ساری نعرہ بازی ختم کر کے رکھ دے گی، تم دیکھتی جانا بس۔ ‘‘

’’ چلیں ، آپ کچھ دیر آرام کر لیں۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے کہا تو وہ خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا

’’میں نے کہا نا مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ ‘‘

بشریٰ بیگم نے شاکی نگاہوں سے اسے دیکھا اور اٹھ گئی۔

٭٭

 

رات گہری تھی لیکن فہد کے گھر چھاکا، سراج اور فہد جاگ رہے تھے۔ فہد نے سراج سے کہا

’’دیکھو سراج۔ !یہ تمہاری ذمے داری ہے۔ ہر الیکشن کیمپ پر ہمارا جو بندہ ہو۔ اس تک یہ انتخابی فہرستیں پہنچانی ہیں۔ اور پھر ان سے رابطہ رکھنا ہے۔ پورے علاقے کی خبر یہاں ہونی چاہیے۔ ‘‘

اتنے میں چھاکے نے باہر کی جانب دیکھاتوسامنے سادہ لباس میں جعفر کھڑا تھا۔

’’جعفر۔ !تم۔ ‘‘فہد نے مسکراتے ہوئے کہا اور آگے بڑھ کر اسے گلے لگاتے ہوئے بولا، ’’اتنے دن لگا دیئے یار تم نے آتے ہوئے۔ ‘‘

’’میں تو اڑ کر آ جاتا یار لیکن تمہارے پوسٹر اور نہ جانے کیا کچھ ایک ٹرک میں بھر کے لایا ہوں۔ وہ باہر کھڑا ہے۔ سامان اتروا لو اس سے، محمودسلیم صاحب نے بھجوائے ہیں۔ ‘‘

’’میں دیکھتا ہوں آپ بیٹھو۔ ‘‘ سراج نے کہا اور باہر کی جانب نکل گیا تو چھاکے نے اٹھ کر پوچھا ’’جعفر بھائی۔ کوئی چائے وائے پیو گے یا سیدھے کھا نا ہی کھاؤ گے۔ تکلف نہ کرنا۔ سب کچھ ملتا ہے۔ ‘‘

’’اب آ گیا ہوں نا۔ سب کچھ خود کر لوں گا۔ تم فی الحال پانی پلاؤ۔ اور شور نہ ہو کہ میں ادھر ہوں سمجھے۔ ‘‘

’’سمجھ گیا۔ ‘‘ چھاکے نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ تو فہد نے پوچھا

’’پاپا تمہارے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ‘‘

’’بالکل، اور میں نے کچھ بندے تیار کیئے ہیں۔ تیرے الیکشن کا سارا کام وہ سنبھال لیں گے، تمہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ باقی میں تو ہر وقت رابطے میں ہوں۔ ‘‘ جعفر نے اسے بتایا تو فہد نے پوچھا

’’سناؤ اس چوہدری نے اوپر سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے ؟‘‘

’’ تم فکر نہ کرو، ہماری اپنے ہیں اس دباؤ کو روکنے والے تو بس جلدی سے سلمی کے ہاتھ کے پراٹھے بنوا کر کھلا میں نے ابھی واپس بھی جانا ہے۔ ‘‘ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تو فہد کا قہقہہ بھی اس میں شامل ہو گیا۔ وہ رات دیر تک گپ شپ لگانے کے بعد چلا گیا۔

اگلی صبح فہد کچھ کاغذات میں الجھا ہوا تھا۔ قریب بیٹھا ہوا سراج بھی ایک کاغذ دیکھتے ہوئے بولا

’’ فہد، جس طرح تم نے یہ لسٹ بنائی تھی اس کے مطابق سارے کام ہو گئے ہیں اب مزید بتاؤ کیا کرنا ہے۔ ‘‘

اس دوران چھاکا چائے لے کر آ گیا۔ وہ کپ ان کے پاس رکھتا ہوا بولا

’’چائے پیو اور بتاؤ کیسی ہے۔ اب تو پورے علاقے میں چھاکے کی چائے کی دس پچھ ہو گئی ہے۔ ‘‘

’’اچھا تم دونوں یہ چائے پی لو اور پھر کچھ دیر آرام کر لو اس کے بعد میں تم لوگوں کو بتاتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔ ‘‘ فہد نے کہا اور کپ اٹھا لیا۔

’’او کر لیں گے آرام یار، تو کام بتا؟‘‘ سراج نے کہا تو فہد مسکراتے ہوئے بولا

’’اچھا پھر یہ دس پچھ والی چائے پی لو بتاتا ہوں۔ ‘‘

’’چائے بھی پیتے ہیں اور اور بات بھی کر لیتے ہیں۔ ‘‘ سراج بھی کپ اٹھاتے ہوئے بولا تو فہد نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا

’’ دیکھو اب تک سارے کام ہماری سوچ کے مطابق ٹھیک ہو رہے ہیں۔ لیکن الیکشن کے ان دنوں میں ایک بات کا بہت خیال رکھنا ہے۔ چوہدری کسی نہ کسی طرح ہمیں غصہ دلانے یا ہمیں بھڑکانے کی کوشش کریں گے۔ ہمارے ساتھ لڑیں گے، جھگڑا کرنے کی کوشش کریں گے۔ الیکشن کے دن پولنگ بھی خراب کریں گے۔ ‘‘

’’بالکل۔ ! یہ تو پہلے ہی ہو رہا ہے ان کے بندے ہمارے پوسٹر بینر اتار دیتے ہیں جو ہمارے ووٹر ہیں مطلب جنہوں نے ہمارا ساتھ دینے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے وہ ان کے گھر پہنچ کر کسی کو لالچ دے رہے ہیں اور کسی کو دھمکا رہے ہیں۔ ‘‘ چھاکے نے بتایا تو فہد بولا

’’وہ اس سے بھی زیادہ کریں گے۔ وہ ہمارے جلسے خراب کرنے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘

’’لیکن ہم نہیں ہونے دیں گے، ہم نے کون سا چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ ‘‘

سراج نے غصے میں کہا تو فہد تحمل سے بولا

’’بات چوڑیوں یا کنگنوں کی نہیں ہے سراج، بات یہ ہے کہ وہ ہمارے ووٹ کی طاقت کو ضائع کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہیں اگر شکست کا احساس بھی ہو گیا نا وہ خون خرابے پر بھی اتر سکتے ہیں۔ ‘‘

’’تو پھر ہمیں کیا کرنا ہو گا خاموشی سے ان کا ہر وار سہہ جائیں۔ ‘‘ سراج نے پوچھا تو فہد نے سمجھایا

’’نہیں جہاں تک ممکن ہو تصادم سے بچنا ہے اپنی قوت ضائع نہیں ہونے دینی اور دوسری بات کہ ہماری ساری توجہ الیکشن پر ہو زیادہ سے زیادہ ووٹ کاسٹ ہوں اور یہ کام بہت تحمل سے کرنا ہے۔ ‘‘

’’تمہاری بات سن کر یہ احساس ہو گیا ہے کہ چوہدری کچھ بھی کر سکتے ہیں اس لیے ہمیں بہت محتاط ہو کر رہنا ہو گا۔ ‘‘ سراج نے بات سمجھتے ہوئے کہا تو فہد بولا

’’ہاں یہی بات میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ‘‘ آخری سپ لے کر خالی کپ چھاکے کو تھماتے ہوئے بولا، ’’ تمہاری دس پچھ والی چائے بہت مزیدار تھی یار۔ ‘‘

اس پر وہ تینوں ہنس دئیے۔

٭٭

 

سلمی اپنی الیکشن مہم کے لئے اس لینڈ کروزر پر نکلی تھی جو مائرہ نے اسے دی ہوئی تھی۔ قسمت نگر سے باہر نکلی تو اس جگہ آ گئی، جہاں کبیر نے کبھی سلمی کی ملازمت والے کاغذ پھاڑے تھے۔ اس نے ڈرائیور سے رکنے کا کہا اور سوچنے لگی کہ اگر آج وہ جاب کر رہی ہوتی تو اس طرح الیکشن میں حصہ نہ لے سکتی۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ وہ ملازمت نہ کرے۔ اسے ہی مکافات عمل کہتے ہیں۔ یہ سوچتے ہی وہ ایک دم سے حوصلہ مند ہو گئی۔ اسے یقین ہو گیا کہ اس کا ربّ اس کے ساتھ ہے۔ وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اسے چوہدری کبیر اپنی گاڑی میں رکتا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے سامنے گاڑی روک دی تھی۔

کبیر اسے طنزیہ انداز میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے گاڑی سے باہر نکل آیا۔ سلمی بھی بھوکی شیرنی کی مانند باہر نکل آئی۔ وہ اسے کینہ توز نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کہ کبیر نے طنزیہ انداز میں کہا

واہ کیا بات ہے، میں نا کہتا تھا تیرے جیسی اس علاقے میں نہیں ہے۔ جسے بات کرنا نہیں آتی وہ میرا مقابلہ کر رہی ہے۔ ‘‘

’’اُوئے کبیر، پہچان اس جگہ کو، یہیں تو نے مجھے اپنی بے بسی کا احساس دلایا تھا لیکن واری جاؤں اس سب سے بڑے منصف کے آج میں تیری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہی ہوں۔ یہ زمین بھی تیری ملکیت ہے لیکن تیری ہمت نہیں کہ تو میرا راستہ روک سکے۔ ‘‘ سلمی نے آگ اگلنے والے انداز میں کہا تو کبیر بولا

’’میری ہمت تو تب بھی تھی اور اب بھی ہے، جن لوگوں کی وجہ سے تو بول رہی ہے نا وہ۔۔۔‘‘ اس نے کہنا چاہا لیکن سلمی نے بھڑکتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا

’’تو ان کی خاک کے برابر بھی نہیں ہے کبیر، تو بھول جا انہیں ، میرا سامنا کر، میں یہاں چیلنج کرتی ہوں تو مردوں کی طرح میرا مقابلہ کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا۔ ‘‘

’’ تو اور تیری ہمت اور مقابلہ چند دن خوش ہولے پھر وہی تم، وہی میں۔ ‘‘ کبیر نے غصیلی مسکراہٹ میں طنزیہ انداز میں کہا تو سلمی بولی

’’تم، تم کیا ہو، کچھ نہیں ہو، تیرا کیا ہے؟ کچھ نہیں ہے تیر، تو اپنے باپ کی وجہ سے بات کر رہا ہے، پھر تم میں اور مجھ میں فرق کیا ہوا؟‘‘

’’تو جو مرضی کر لے، یہ الیکشن جیت نہیں سکتی، پھر۔۔۔ ‘‘ اس نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا

’’تو پھر بھی کچھ نہیں کر سکے گا اور سن الیکشن تو میں اسی وقت جیت گئی تھی جب قدرت نے مجھے تیرے مقابلے پر لا کھڑا کیا۔ اب مجھے جیت ہار سے کوئی مطلب نہیں تیری میری جنگ تو شروع ہی اب ہوئی ہے۔ اب ہر روز الیکشن ہو گا، روز ہار جیت ہو گی، دیکھتی ہوں کس میں کتنا دم ہے۔ ‘‘

سلمی نے انتہائی طنزیہ انداز میں کہا تو قریب کھڑے ماکھے نے حالات بھانپتے ہوئے کہا

’’نکے چوہدری جی چلیں۔ ہمیں پہلے ہی بہت دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘

’’ہاں لے جا اسے ورنہ الیکشن سے پہلے اسے یہاں سے بھاگنا نہ پڑ جائے۔ ‘‘ سلمی غصے میں بولی تو اس نے انتہائی غصے میں سلمی کو دیکھا مگر کچھ نہیں کہتا اور گاڑی میں جا بیٹھا۔ سلمی کھڑی رہی، کبیر کی گاڑی اس کے قریب سے ہو کر گذر گئی۔ وہ فاتحانہ مسکان کے ساتھ گاڑی میں جا بیٹھی اور ڈرائیور کو چلنے کے لئے کہا۔ اس کے من میں سرور اتر گیا تھا۔

ایسے ہی وقت ایک کچی سڑک فہد اور سراج گاڑی میں وہ پاس کے گاؤں سے کچھ لوگوں کو مل کر آ رہے تھے۔ تبھی ایک موڑ مڑتے ہی سامنے دو لوگوں کے ساتھ کاشی کھڑا دکھائی دیا۔ اس نے راستہ روکا ہوا تھا۔ فہد کو بریک لگانا پڑے۔ دونوں کی آنکھوں میں تشویش ابھر آئی۔ تبھی فہد نے کہا

’’سراج، تم باہر نہیں آؤ گے، جعفر کو فون کر دو۔ فوراً۔ ‘‘

ایسے میں کاشی اسے باہر نکل آنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا

’’باہر آؤ۔ ‘‘

فہد بڑے سکون سے با ہر آ گیا اور بولا

’’اس وقت مجھے جلد ی ہے۔ راستہ پھرکسی وقت روک لینا۔ ‘‘

’’جلدی۔ مجھے تم سے بھی زیادہ جلدی ہے پیارے۔ میں نے کہا تھا نا اونچا اڑنے والا گر جاتا ہے۔ تو نے مان لیا ہوتا تو اچھا تھا۔ اب بھگتو۔ ‘‘ کاشی نے کہا تو فہد بولا

’’تم کیا سمجھتے ہو۔ مجھے ختم کر دینے سے تم بچ جاؤ گے یا وہ تیرے چوہدری۔ یہ تم بھیانک غلطی کرو گے جو۔۔۔‘‘ لفظ اس کے منہ ہی میں رہ گئے۔ کاشی نے غصے میں ریوالور سیدھا کر کے اس پر فائر کر دیا۔ سراج باہر نکل کر ان کی طرف دوڑا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ریوالور تھا۔ اس نے فائر کر دیا۔ کاشی نے دوسرا فائر کیا جو فہد کے لگ گیا۔ سراج نے اس پر فائر کر دیا۔ وہ لوگ آنا فانا جیپ میں بیٹھے اور پلٹ گئے۔ چلتی جیپ سے کاشی نے ایک اور فائر کر دیا اور بھاگ گئے۔ سراج کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے ان کے پیچھے جائے یا فہد کو سنبھالے۔ فہد نے حال ہو رہا تھا۔ سراج جلدی سے فہد پر جھک گیا، جو کرب ناک چہرے سے اس کی طرف دیکھ کر کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن کہہ نہیں پایا۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ سراج نے جلدی سے اسے اٹھایا اور کار میں ڈال کے ہسپتال کی جانب چل پڑا۔ سراج نے جعفر کا اطلاع دے دی تھی۔ اس لئے سب ہسپتال پہنچ چکے تھے۔

فہد کو سٹریچر پر ڈال کر اندر لے جایا گیا۔ سب اس کے ساتھ تھے۔ مختلف راہداریوں سے ہوتے ہوئے آپریشن روم میں لے گئے۔ جہاں ملک نعیم کھڑا تھا۔ ڈاکٹر اسے فوراً اندر لے گئے۔

جعفر ہسپتال کے کمپاؤنڈ میں کھڑا اپنے سیل فون سے نمبر پش کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں مگر خود پر اس نے قابو پایا ہوا تھا۔ اس نے فون کان سے لگایا ہوا تھا کہ دوسری طرف رابطہ ہو جائے۔

محمود سلیم اپنے ڈرائنگ روم میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اس کا فون بجا تو اس نے ٹی وی اسکرین پر نگاہیں جمائے فون سنا۔

’’بولو جعفر کیا حال ہے۔ ‘‘

’’انکل۔ فہد ہسپتال میں ہے اور۔۔۔‘‘ جعفر نے بہت مشکل سے کہا تو محمود سلیم نے تشویش سے پوچھا

’’کیا کہہ رہے ہو تم۔ کیا ہوا سے اور تمہارا لہجہ ایسے کیوں ہے۔ ‘‘

جعفر نے محمود سلیم کو اختصار سے فہد کی حالت بارے بتا کر کہا۔

’’اس کی حالت خطرے میں ہے۔ ایک بہت اچھا ڈاکٹر تو ہے یہاں پر۔ اور اس کا ٹری منٹ بھی ٹھیک ہو رہا ہے بس وہ آنکھیں نہیں کھول رہا۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ رو دیا۔ محمود سلیم خود روتے ہوئے بولا

’’دیکھو تم میرے بہادر بیٹے ہو۔ تم حوصلہ نہیں ہارنا۔ میں ابھی یہاں سے نکلتا ہوں۔ میں آ رہا ہوں بیٹا تم حوصلہ رکھو اور رب سے دعا کرو، میں آ رہا ہوں۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ جعفر نے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے فون بند کر دیا۔

آپریشن تھیٹر کے اندر فہد ایک بیڈ پر بے ہوش پڑا تھا۔ ڈاکٹر اس کا آپریشن کر رہا تھا۔ نرسیں اس کی مدد کر رہی تھیں۔ اس نے ایک بلٹ نکال کر رکھی پھر دوسری بلٹ بھی نکال دی۔

ہسپتال کے اندر آپریشن تھیٹر کے باہر سلمٰی، مائرہ، جعفر، ملک نعیم اور سراج سب کھڑے تھے۔ سب پریشان تھے۔ تبھی ڈاکٹر باہر آیا، اس کا چہرہ افسردہ تھا۔ ملک نعیم نے آگے بڑھ کر پوچھا

’’ڈاکٹر۔ کیا حال ہے فہد کا؟‘‘

’’دیکھیں۔ آپ خود سمجھ دار ہیں۔ اسے دو گولیاں لگی ہیں۔ وہ میں نے نکال تو دی ہیں۔ لیکن ان کا اثر تو ہے۔ خون بہت بہہ گیا ہے۔ اگلے چوبیس گھنٹے بہت اہم ہیں۔ آپ سب دعا کریں۔ ‘‘ ڈاکٹر نے کہا تو جعفر نے پوچھا

’’خطرے والی بات؟‘‘

’’ ہے، میں سو فیصد اسے خطرے سے باہر نہیں کہہ سکتا۔ آپ دعا کریں۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر یہ کہہ کر وہ آگے کی جانب چل دیا۔ سلمٰی کے آنسو بہہ نکلے۔ مائرہ خود پر قابو پانے کی کوشش میں تھی۔

صبح کا سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ ماسٹر دین محمد جائے نماز پر بیٹھا دعا کر رہا تھا۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ وہ زیر لب دعا مانگ رہا تھا

’’اے وحدہٰ لا شریک، میرے مالک۔ !فہد کی زندگی دے دے۔ تو جانتا ہے کہ وہ صرف اپنے لیے نہیں جی رہا۔ کتنے لوگ اس سے وابستہ ہیں۔ وہ سب مایوس ہو جائیں گے۔ میں تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوں میرے پروردگار۔ ! اس سے کتنے لوگوں کی امیدیں بندھی ہوئی ہیں۔ اسے صحت دے دے میرے مالک زندگی اور موت تیرے ہی ہاتھ میں ہے، زندگی دے دے، میرے مالک۔ ‘‘

وہ پھر رونے لگا۔ صفیہ اس کے قریب آئی اور نرمی سے بولی

’’ماسٹر جی۔ !آپ رات پچھلے پہر سے یہاں بیٹھے ہیں۔ اٹھ جائیں۔ میرا دل کہتا ہے اسے کچھ نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’ہاں تو بھی دعا کر۔ اور جا اپنے بچوں کو کھانا دے۔ وہ بے چارے بھوکے ہوں گے۔ میں اٹھ جاتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھنے لگا تو صفیہ نے اسے سہارا دے کر دالان میں پڑی چارپائی پر بیٹھا کر چل گئی۔ ماسٹر دین محمد نے بڑی بے چارگی سے آسمان کی جانب دیکھا اور پھر آنکھیں بند کر کے رونے لگا۔

قسمت نگر کے ہر گھر میں یہ اطلاع پہنچ چکی تھی کہ فہد پر قاتلانہ حملہ ہو گیا ہے۔ سبھی سمجھ رہے تھے کہ یہ کس کا کام ہو سکتا ہے، لیکن زبان سے کوئی بھی اظہار نہیں کر رہا تھا۔ چوراہے میں چاچا سوہنا، حنیف دوکاندار اور ایک شخص تشویس ناک انداز میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

حنیف دوکاندار نے کہا

’’اُو چاچا سنا ہے۔ فہد ہسپتال میں اپنی آخری سانسوں پر ہے۔ ‘‘

’’اللہ نہ کرے وہ آخری سانسوں پر ہو۔ کچھ تو اچھا بول۔ ‘‘ چاچا سوہنا دکھ سے بولا تو ایک شخص نے کہا ’’چاچا۔ !گاؤں سے کتنے ہی لوگ شہر کے ہسپتال سے ہو کر آئے ہیں۔ وہ یہی بتاتے ہیں کہ اب فہد کی امید نہیں ہے۔ ‘‘

’’یہ تو بہت برا ہوا ہے یار اب تو الیکشن والی بات ہی سمجھ ختم ہے۔ وہ نہ رہا تو کس نے مقابلہ کرنا ہے۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے کہا تو وہ شخص بولا

’’پر یہ کیا کس نے ہے، یہ کوئی پتہ چلا؟‘‘

’’ہم تو کہہ نہیں سکتے، ظاہر ہے اس کے کوئی مخالف ہی ہو گا۔ ساری بنی بنائی کھیڈ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ‘‘

’’اچھا چل یار۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ‘‘ وہ شخص کہہ کر چل دیا۔ چاچے سوہنے نے آسمان کی جانب دیکھا اور پھر اُٹھ کر مسجد کی طرف چلا گیا۔

ہسپتال میں وہ سب ای سی یو کے باہر کھڑے تھے۔ سب غمگین تھے۔ فہد بیڈ پر پڑا تھا۔ نرس اس کے پاس کھڑی تھی جب اس نے آنکھیں کھولیں۔ فہد کو دھندلا دھندلا دکھائی دے رہا تھا۔ نرس ڈاکٹر کو بلانے دوڑی۔ سب اس کے پاس جمع ہو گئے۔ فہد نے اُکھڑی سانسوں سے کچھ کہنا چاہا لیکن کہہ نہیں پا یا۔ پھر بڑی مشکل سے دھیمی آوا ز میں بولا

’’میں کہاں ہوں ؟‘‘

’’تم ہسپتال میں ہو، سراج بر وقت تمہیں یہاں لے آیا تھا۔ دو گولیاں لگی تھی۔ لیکن اب خطرے سے باہر ہو۔ ‘‘ مائرہ نے تیزی سے بتایا تو فہد بولا

’’اور تم سب یہاں ہو؟‘‘

’’تجھے چھوڑ کر کہاں جاتے تم زندگی اور موت کے۔۔۔‘‘ جعفر نے کہنا چاہا تو وہ بات کاٹتے ہوئے بولا

’’نہیں۔ !مجھے چھوڑو، الیکشن کمپین زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، تم لوگ کمپین چھوڑ کر یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’عجیب آدمی ہو تم۔ تمہیں ہوش نہیں اور۔۔۔‘‘ جعفر نے کہا تو فہد بولا

’’ڈاکٹر مجھے دیکھنے کے لیے یہاں ہیں نا۔ یہ نازک وقت ہے کمپین کے لیے۔ مخالف تو یہی چاہتے تھے کہ تم لوگ اپنی توجہ ۔۔۔جاؤ پلیز۔ ‘‘

’’جب تک آپ ٹھیک نہیں ہو جاتے۔ ہم آپ کو کیسے چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ ‘‘

سلمی نے نرمی سے کہا تو فہدمایوسی سے بولا

’’یعنی میرا مقصد نا کام ہو گیا۔ ہاں اب مجھے مر جانا چاہئے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے چہرے پر کرب پھیل گیا تھا۔ سلمٰی نے اسے دیکھا اور تڑپ کر بولی

’’نہیں ، آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔ آپ کا مقصد پورا ہو گا۔ میں ابھی اور اسی وقت جا رہی ہوں ، آپ بس ٹھیک ہو جائیں۔ بس ایک بار آنکھیں کھول کر دیکھ لو۔ ‘‘

سلمٰی کے یوں کہنے پر فہد نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تو فوراً پلٹ گئی۔ مائرہ چند لمحے سوچتی رہی پھر وہ بھی پلٹ گئی۔ جعفر نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کئے اور پلٹا رو ملک نعیم نے اس کا کاندھا تھپتھپایا اور باہر کی جانب چل دیا۔ سراج بھی چلا گیا تو فہد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ وہاں فقط چھاکا رہ گیا جو اس کے ساتھ لگ کر رونے لگا۔

وہ پانچوں ہسپتال کے کاریڈور میں تیزی سے واپس یوں جا رہے تھے جیسے کوئی بہت بڑی مہم سر کرنے جا رہے ہوں۔ جس وقت وہ جا رہے تھے، اسی وقت ہسپتال کے باہر کار آ کر رکی۔ اس میں سے محمود سیلم اترا آیا۔

فہد آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ چھاکا اس کے پاس اداس بیٹھا ہے۔ اتنے میں محمود سلیم اندر آ گیا اور بڑے جذباتی انداز میں فہد کو دیکھا، بڑے پیار سے اس کا سر سہلایا تو فہد نے آنکھیں کھول کر خوشگوار حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے بولا

’’پاپا آپ۔ !‘‘

’’ہاں بیٹا میں ، ابھی پہنچا ہوں۔ کیسا محسوس کر رہے ہو؟‘‘

’’میں بالکل ٹھیک ہوں پاپا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ بس ایک دو دن میں یہاں سے چلے جائیں گے۔ آپ نے ذرا سا بھی پریشان نہیں ہونا۔ ‘‘ فہد نے کراہتے ہوئے کہا تومحمودسلیم نے اداس مسکراہٹ سے اسے دیکھ کر کہا

’’میں جانتا ہوں بیٹا، اللہ کرے ایسا ہی ہو، اب میں آ گیا ہوں نا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

’’ہاں پاپا آپ بیٹھیں نا میرے پاس۔ ‘‘

وہ اس کے قریب بیٹھ گیا تو چھاکے کی طرف دیکھ کر پوچھا

’’یہ کون ہے؟‘‘

اس سے پہلے کہ فہد کچھ کہتا وہ تیزی سے بولا

’’میں چھاکا جی، چاچے سوہنے کا پتر، پورے علاقے میں میری دس پچھ ہے۔ فہد میرا بچپن کا یار ہے جی۔ ‘‘

اس کے یوں کہنے پر فہد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی محمودسلیم نے اسے دیکھا اور کہا

’’تم نے اس الیکشن مہم کے لیے بالکل نہیں گھبرانا۔ میں آ گیا ہوں۔ میں سب دیکھ لوں گا اب تم صرف اپنے آپ توجہ دو۔ ‘‘

فہد اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔

سلمی شعلہ جوالا بن چکی تھی۔ وہ سارے علاقے میں پھر گئی۔ اس کے ساتھ مائرہ تھی۔ وہ تقریر کر تی گویا آگ لگا دیتی۔ کسی کے گمان میں بھی نہیں رہا کہ یہ وہی چھوئی موئی سی لڑکی ہے جو خوف زدہ گھر میں بند رہتی تھی۔ جعفر نے انہیں ہر طرح کا تحفظ دیا تھا۔ ملک نعیم نے پورے علاقے میں اپنے آدمیوں سے الیکشن مہم کا جاری رکھا ہوا تھا۔ سراج نے سب سنبھال لیا تھا۔ یہاں تک کہ الیکشن کا دن آ گیا۔

فہدہسپتال میں آنکھیں بند کئے پڑا تھا۔ ڈاکٹر اور نرس آئے۔ نرس بلڈ پریشر وغیرہ چیک کرنے لگ گئی تو ڈاکٹر نے خوش دلی سے پوچھا

’’کہئے فہد صاحب۔ !کیسا محسوس کر رہے ہیں آپ؟‘‘

’’میں ٹھیک ہوں اور آج آپ مجھے ڈسچارج کر دیں۔ آج مجھے جانا ہے۔ ‘‘ فہد نے تیزی سے کہا تو ڈاکٹر نے پریشانی سے پوچھا

’’آج، وہ کیوں ، ابھی تو چند دن مزید لگیں گے، ابھی آپ پوری طرح تندرست نہیں ہوئے۔ ‘‘

’’لیکن آج مجھے جانا ہے ڈاکٹر، آج ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ اور میرا وہاں ہونا بہت ضروری ہے، آپ سمجھیں ڈاکٹر۔ مجھے اپنا ووٹ کاسٹ کرنا ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو، لیکن اگر طبیعت خراب ہو تو فوراً یہاں آ جائیں۔ ورنہ پھر سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ ‘‘ ڈاکٹر نے کہا تو فہد جلدی سے بولا

’’میں آ جاؤں گا۔ ‘‘

’’میں ابھی آپ کو بھیج دیتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر ڈاکٹر نے چارٹ پر لکھا اور آگے بڑھ گیا۔ تبھی فہد نے چھاکے سے کہا

’’دیکھ کیا رہے ہو۔ سامان اکٹھا کرو اور گاڑی منگواؤ، ہمیں گاؤں جانا ہے۔ ‘‘

چھاکے کی آنکھوں میں خوشی کے آنسوآ گئے۔ وہ شدتِ جذبات سے بول نہیں سکا، بلکہ سیل فون پر نمبر ملاتے ہوئے آنسو صاف کر نے لگا۔

رات کے وقت سلمی کا آفس کے سامنے لوگ جمع تھے۔ ایسے میں گاڑی آ کر رکی اور اس میں سے فہد نکلا۔ مائرہ اور سلمٰی دونوں آگے بڑھیں اوراسے سہارا دیا۔ سلمی ایک طرف تھی اور مائرہ دوسری جانب۔ تبھی فہد نے مسکراتے ہوئے کہا

’’ کتنا حسین سہارا ہے۔ ‘‘

اس پر دونوں نے کچھ نہیں کہا فقط مسکرا کر رہ گئیں۔

وہ تینوں آفس میں تھے۔ فہد بہت بے چین اور نقاہت محسوس کر رہا تھا۔ تبھی مائرہ نے فون نکالتے ہوئے کہا

’’بہت وقت ہو گیا۔ ابھی تک رزلٹ نہیں آیا۔ میں ملک نعیم کو فون کرتی ہوں۔ ‘‘

’’ابھی ٹھہر و۔ !وہ خود فون کرے گا۔ ‘‘ فہد نے کہا تو سلمی بولی

’’باہر دیکھو کتنا ہجوم ہے۔ سب یہی رزلٹ سننے کے لیے آئے ہیں۔ ‘‘

اتنے میں چھاکا نے اندر آ کر کہا

’’سارے پولنگ اسٹیشنوں سے رزلٹ آ گیا ہے اور ہم جیت گئے ہیں۔ ‘‘

’’سلمٰی شدت سے رو پڑی۔ فہد پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ مائرہ نے خوشی سے سلمٰی کو گلے لگا تے ہوئے کہا

’’واؤ۔ ‘‘پھر والہانہ انداز میں فہد کے پاس جا کر بولی، ’’ فہد تم جیت گئے ہو۔ ‘‘

’’نہیں۔ ہم سب جیت گئے ہیں۔ سلمی جیت گئی ہے، تم جیت گئی ہو، چھاکا، سراج، امین ارائیں ، صفیہ، رانی سب جیت گئے ہیں۔ ‘‘

’’اوئے اب ہو گی، پورے علاقے میں ہماری دس پچھ۔ ‘‘ چھاکے نے نعرہ لگایا تو باہر بھی نعرے لگنے کی آوازیں آنے لگیں۔ اتنے میں فون آ گیا۔

’’مبارک ہو فہد۔ !سلمٰی جیت گئی ہے، ہم دوسری چھوٹی سیٹ بھی جیت گئے ہیں۔ اور انشاء اللہ بڑی بھی جیت جائیں گے۔ بہت لیڈ ہے۔ ‘‘

’’آپ کو بھی مبارک ہو۔ ‘‘ فہد نے کہا

’’نہیں یہ آپ کی کامیابی ہے، اور ہاں ، ذرا دھیان سے چوہدری کچھ بھی رد عمل دکھا سکتے ہیں۔

’’ اب میں دیکھ لوں گا۔ ‘ فہد نے دانت پیستے ہوئے کہا اور فون بند کر دیا۔ مائرہ اس کے پاس آ کر بڑے جذباتی انداز میں بولی

’’تم سچ کہتے تھے۔ انسان کے پاس اگر حوصلہ ہو تو ہو کیا نہیں کر سکتا۔ ‘‘

فہد کچھ نہیں بولا بلکہ دونوں ہاتھوں کو یوں کھول دیا جیسے دونوں کا سہارا چاہ رہا ہو۔ سلمی اور مائرہ نے اسے سہارا دیا اور آفس نے نکلتے چلے گئے۔

٭٭

 

رات کا دوسرا پہر چل رہا تھا۔ جعفر اپنے آفس تھا اور نور پور کے تھانیدار نے اندر آ کر سلیوٹ کیا اور بولا۔

’’جی سر۔ ‘

جعفر نے انتہائی تضحیک سے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا

’’اچھا کیا تم فوراً آ گئے ہو ورنہ میں تجھے۔ ۔۔۔خیر، کیا اب بھی تمہاری ہمدردیاں چوہدریوں کے ساتھ ہے اوا پھر تم انہی کی غلامی کرنا چاہتے ہو؟‘‘

تبھی تھانیدار ہاتھ باندھ کر بولا

’’سر جی میں نے نوکری کرنی ہے۔ وہ اس علاقے میں طاقتور تھے۔ آپ کو پتہ ہے وہ سر پر ہاتھ رکھتے تھے، اس لیے کرنا پڑتا تھا سر جی۔ ‘‘

’’بکواس کرتے ہو تم۔ تم اپنا فرض نہیں نبھاتے رہے ہو۔ چند ٹکوں کی خاطر اپنا ایمان فروخت کرتے رہے ہو۔ تمہیں پتہ ہے تم نے کتنا ظلم کیا ہے۔ اگراس کا ازالہ کرنے لگو تو تیری ساری عمر بھی کم ہے۔ تم مرنے کو ترسو مگر تجھے موت نہ آئے۔ بولو کیا کروں تیرے ساتھ اپنی سزا خود ہی تجویز کر لو۔ ‘‘ جعفر نے انتہائی غصے میں کہا

’’ایسا ہی ہے سر جی میں بہت گنہ گار ہوں۔ ایک بار معاف کر دیں۔ ‘‘

وہ لجاجت سے بولا تو جعفر نے نرم پڑتے ہوئے کہا

’’معافی تجھے صرف ایک صورت میں مل سکتی ہے۔ اگر تم تم اس بندے کو گرفتار کر کے لاؤ جس نے فہد پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ کیونکہ مجھے پکی خبر ہے تو اس کے بارے میں جانتا ہے۔ چوہدری کبیر کو میں خود لے کر آؤں گا۔ ‘‘

’’جی میں اس کے بارے میں جانتا ہوں۔ مجھے بس ایک دن دیں۔ میں اسے زندہ یا مردہ آپ کے سامنے پیش کر دوں گا۔ ‘‘ اس نے حتمی لہجے میں یقین دلاتے ہوئے کہا تو جعفر بولا

’’دیکھ لو، اپنے لفظوں پر غور کر لو۔ ورنہ جو کچھ میں نے تیرے بارے میں سوچا ہوا ہے، اس پر عمل نہ کر دوں۔ ‘ ‘

’’بس ایک موقع سر جی۔ ‘‘ اس نے منّت بھرے انداز میں کہا تو اسنے ایک دم کہا

’’چلو تمہیں ایک موقع دیا کل شام تک۔ ‘‘

یہ سنتے ہی تھانیدار نے فوراً سلیوٹ مارتے ہوئے کہا

تھینک یو سر جی اب اجازت دیں۔ لمحہ لمحہ قیمتی ہے۔ ‘‘

جعفر نے سر کے اشارے سے جانے کو کہا تو۔ وہ مڑا اور چلا گیا۔ جعفر مسکرا کر رہ گیا۔ اسے تھانیدار پر اعتماد نہیں تھا، اس نے اپنی فیلڈنگ لگا رکھی تھی۔

٭٭

 

رات گہری ہو چکی تھی۔ چوہدری جلال کاریڈور میں مضطرب انداز سے ٹہل رہا تھا۔ بشریٰ بیگم نے اس کے قریب آ کر کہا

’’چوہدری صاحب۔ !میں مانتی ہوں کہ آپ اس الیکشن میں بہت مصروف رہے ہیں۔ اب تو ووٹ بھی پڑ چکے، آپ اتنے پریشان ہیں۔ پتہ ہے آپ نے شام سے کچھ بھی نہیں کھایا پیا۔ آئیں کھانا کھالیں۔ ‘‘

’’ووٹوں کی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ کچھ دیر میں حتمی رزلٹ آ جائے گا۔ میں وہ سن کر ہی۔۔۔‘‘ وہ کہتے ہوئے خاموش ہو گیا۔

’’پتہ نہیں کب آئے گا رزلٹ، وقت لگے گا، جو ہو گا وہ سامنے آ جائے گا، آپ پریشان نہ ہوں۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’بیگم پہلی بار جیتنے کے لیے اتنی محنت کرنی پڑی ہے۔ پتہ نہیں کیسے کیسے لوگوں سے ملنا پڑا، کیسی کیسی بستیوں میں جانا پڑا، سیاست میں سب سے مشکل مرحلہ یہی ہے۔ ‘‘

’’کبیر ہے نا ڈیرے پروہ ۔۔۔‘‘ بشریٰ بیگم کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اتنے میں فون بجا۔ چوہدری نے جلدی سے فون ریسو کیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے چہرے کے نقوش بگڑ گئے۔ بشریٰ بیگم نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ پوچھا

’’کیا ہوا؟‘‘

’’ہم ہار گئے بیگم۔ !لیکن نہیں۔ میں نہیں ہاروں گا میں نے ہمیشہ جیت دیکھی ہے۔ ایسانہیں ہو سکتا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے غصے میں خود پر قابو پاتے ہوئے کہا تو

بشریٰ بیگم جلدی سے بولیں

’’آپ آئیں۔ !بیٹھیں۔ ابھی گنتی۔۔۔‘‘

’’ہو چکی ہے، میں بھی ہار گیا ہوں اور کبیر بھی۔ ‘‘ چوہدری جلال نے مشکل سے کہا اور دونوں افسردگی میں خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر بعد بشریٰ بیگم اسے اٹھا کر اندر لے گئی۔

دونوں بیڈ روم میں تھے۔ بشریٰ بیگم نے دھیمے سے پوچھا

’’کیا سوچ رہے ہیں آپ؟‘‘

’’پہلی بار شکست کھائی ہے نا۔ جسے نہ دل مانتا ہے اور نہ ذہن۔ یہ سب کچھ فہد کی وجہ سے ہوا ہے۔ اب میں جو اس کے ساتھ کروں گا نا۔ وہ دنیا دیکھے گی۔ پھر کسے جرات نہیں ہو گی۔ ہمارا سامنا کرنے کی۔ ‘‘ چوہدری جلال نے دانت پیستے ہوئے کہا تو بشریٰ بیگم بولی

’’چوہدری صاحب۔ !یہ سیاست ہے۔ اس میں ہار جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے۔ اسے دل پر کیوں لگاتے ہیں۔ اسے اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ اگر یہ سب فہد کی وجہ سے ہوا ہے تو سوچیں اس نے لوگوں کے دل کیسے جیتے۔ وہ کیسے کامیاب ہو گیا۔ ‘‘

’’یہ تو وقت بتائے گا نا کہ یہ جیت اُسے کتنی مہنگی پڑتی ہے۔ اسے شاید یہ علم نہیں کہ وہ سیاست کرتے کرتے عداوت بنا بیٹھا ہے۔ اور وہ بھی میرے ہی علاقے میں۔ ‘‘ چوہدری جلال نے نفرت سے کہا

’’جب آپ کے پاس طاقت تھی، تب وہ جیت گیا۔ اب تو آپ کے پاس کوئی طاقت نہیں۔ ذرا سوچیں ؟‘‘

’’بس۔ بیگم بس۔ مجھے یہ مشورے مت دو کہ اس کے آگے سر جھکا دوں۔ جنہیں آج تک میں نے اپنی جوتی کے برابر سمجھا ہے۔ تم کیا سمجھتی ہو ہم صر ف حکومتی طاقتوں کے بل بوتے پر یہاں حکمرانی کر رہے ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے غرور سے کہا تو بشریٰ بیگم تحمل سے بولی

’’آپ جو مرضی کریں ، یہ آپ کو اختیار ہے۔ لیکن آپ میر ی ایک بات ضرور مان لیں۔ خدا کے لیے۔ کبیر کو یہاں نہ رہنے دیں اسے باہر کسی بھی ملک بھجوا دیں۔ یہ وقت ٹل جائے تو ہم اسے بلا لیں گے۔ ‘‘

’’نہیں بیگم۔ !اب اگر اسے یہاں سے بھیجا تو پورے علاقے میں یہی کہا جائے گا کہ میں نے اسے فہد کے ڈر سے بھگا دیا اور پھر ان حالات میں تو مجھے اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ وہ یہیں رہے گا اور ان کمیوں کا مقابلہ کرے گا۔ ‘‘ اس نے سوچتے ہوئے کہا تو بشریٰ بیگم بولی

’’سوچ لیں چوہدری صاحب۔ !وقت ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ‘‘

’’اب وقت ہی کو تو اپنے ہاتھ میں کرنا ہے۔ انہیں ہی نہیں ، عوام کو بھی بتانا ہے کہ حکمرانی کون کر سکتا ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے نخوت سے کہا

’’وہ تو ٹھیک ہے، لیکن کبیر؟‘‘ بشریٰ بیگم نے اشارے میں کہا تو چوہدری جلال بولا

’’بس بیگم۔ !اب زیادہ بحث نہیں کرو۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ بیڈ پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند لیں۔ بشریٰ بیگم اسے دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ جیسے چوہدری جلال بھی وقت سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔

٭٭

نئے دن کا سورج طلوع ہونے کو تھا۔ قسمت نگر میں زندگی جاگ اٹھی تھی۔ فہد بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ سلمٰی اس کے لیے چائے لے کر آ گئی۔ وہ اٹھ کر بیٹھا تو سلمی اسے کپ تھما کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ پھر اس کے چہرے پر دیکھ کر بولی

’’فہد۔ !میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ہمارے حالات یوں پلٹ جائیں گے۔ ان ظالموں سے چھٹکارا بھی مل سکتا ہے۔ اور میرے ہاتھوں ان کی مات ہو گی۔ ‘‘

فہد نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا

’’تم بہت اچھی لگ رہی ہو۔ پہلے سے زیادہ خوبصورت۔ ‘‘

’’میں کچھ اور کہہ رہی ہوں اور آپ کوئی اور جواب دے رہے ہیں۔ کیا آپ مجھے بنا رہے ہیں ؟‘‘

سلمٰی نے حیرت سے کہا تو فہد پرسکون انداز سے بولا

’’نہیں ، قدرت نے تمہیں اتنا مکمل اور خوبصورت بنا دیا ہے کہ مجھے بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ خوشی ہے کہ تمہارے اندر بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔ ‘‘

’’میں شاید کچھ بھی نہیں رہی۔ میری ذات کی نفی ہو گئی ہے۔ اب تو بس آپ ہی آپ ہو۔ فہد۔ میں وہ وقت یاد کر کے بڑا عجیب محسوس کر تی ہوں جب آپ نے مجھے خواب دیکھنے کا کہا تھا۔ ‘‘ سلمی یاد کرتے ہوئے بولی

’’ابھی تو آدھے خواب پورے ہوئے ہیں۔ میرے خواب میں صرف تم اور میں نہیں ، بہت سارے لوگ شامل ہیں۔ ہم نے جو نعرے لگائے، تقریریں کیں۔ یہ فرضی، جھوٹی اور الیکشن جیتنے کے لیے نہیں کیں۔ ان پر عمل کر کے ہی ہم اپنے خواب کا سفر طے کریں گے۔ ‘‘ فہد نے گہر ی سنجیدگی سے کہا

’’آپ ساتھ ہیں نا میں خوابوں کے ہر جزیرے کو فتح کر لوں گی۔ ‘‘ وہ محبت آمیز لہجے میں بولی

’’میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ‘‘ فہد نے پر اعتماد لہجے میں کہا

’’یقین جانیں۔ پھر وقت بھی ہمارے ساتھ ہو گا۔ آپ چائے پئیں ٹھنڈی ہو جائے گی۔ میں ناشتہ بنا لوں۔ پھر باہر بیٹھ کر سبھی ناشتہ کرتے ہیں۔ ‘‘ اس نے کہا تو وہ ہاں میں سر ہلاتے ہوئے چائے پینے لگا۔ وہ اٹھ کر باہر چلی گئی۔

صبح کا سورج چڑھ آیا تھا۔ ماسٹر دین محمد، مائرہ، سلمٰی، صفیہ اور فہد بھی صحن میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ان سب کے چہرے دمک رہے تھے۔ ایسے میں مائرہ نے کہا

’’ساری رات گذر گئی، ذرا سا بھی آرام کرنے کا موقعہ نہیں ملا، جیت کی خوشی اتنی ہے کہ نیند اب بھی نہیں آ رہی ہے۔ ‘‘

’’پتر۔ !یہ کامیابی تم لوگوں کے حوصلے، یقین اور محنت کی وجہ سے ملی۔ یہ خوشی، فطری ہے، لیکن یہ کوئی منزل تو نہیں ہے۔ اصل امتحان تو اب شروع ہونا ہے۔ جس میں تم ایمانداری سے کامیاب ہو جاؤ۔ اصل کامیابی تو لوگوں کا دل جیت لینے میں ہے نا۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے کہا

’’ہاں یہ دل۔ ‘‘ مائرہ کہتے کہتے مسکرا دی۔ ’’خیر۔ !گھر کے باہر سرکاری گاڑیاں آ گئی ہیں۔ پتہ ہے کیوں۔ پورے ملک میں ہماری سیاسی پارٹی جیت گئی ہے۔ حکومت کی ڈوریں اب اسی سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں ہوں گی۔ ‘‘

’’فہد، تم کچھ نہیں بول رہے ہو۔ خاموش کیوں ہو؟‘‘ ماسٹر دین محمد نے پوچھا تو وہ بولا

’’میں اس امتحان بارے میں سوچ رہا ہوں ، جس سے اب گذرنا ہے، سلمٰی اس سے گذر بھی پائے گی یا نہیں۔ ‘‘

’’مائرہ ہے نا میرے ساتھ، جس طرح یہ کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اسی طرح وہ کامیابی بھی مل جائے گی۔ ‘‘ سلمی نے مائرہ کی طرف دیکھ کر کہا توماسٹر دین محمد بولا

’’یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ تم لوگ تھوڑا آرام کر لو۔ ‘‘

’’ابھی آرام نہیں ہے انکل۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ‘‘ مائرہ نے بڑے گھمبیر لہجے میں کہا تو فہد نے چونکتے ہوئے پوچھا

’’کیا کرنا باقی ہے؟‘‘

’’بتاؤں گی۔ بہت جلد بتاؤں گی۔ ‘‘ یہ کہہ وہ نارمل ہوتے ہوئے بولی۔ ’’آپ لوگ چائے ختم کرو تو سلمٰی کے آفس جائیں وہاں بہت سارے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی چائے پینے لگی۔

مائرہ ابھی سلمی کے آفس پہنچی ہی تھی کہ جعفر کا فون آ گیا۔ وہ قسمت نگر سے باہر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے سراج سے کہا اور اپنی گاڑی میں وہاں چلی گئی۔ کھیتوں کے پاس سڑک کنارے جعفر سادہ لباس میں کھڑا تھا۔ اس کے پاس سراج تھا۔

کچھ دیر بعد وہ تینوں کھیتوں کے کنارے سڑک پر کھڑے تھے۔ سراج ان کے ساتھ تھا۔ مائرہ نے رک کر اس سے پوچھا۔

’’یہی وہ جگہ ہے، جہاں فہد فیکٹریاں لگانا چاہ رہا ہے۔ ‘‘

’’جی، یہی جگہ ہے۔ ‘‘

’’جگہ تو مناسب ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ اپنے سیل فون سے اس جگہ کی ویڈیو بنانے لگی۔ پھراس سے پوچھا، ’’ سراج بھائی آپ کا کیا خیال ہے۔ یہاں فیکٹری لگ جانے سے یہاں کے عوام کو کتنا فائدہ ہو گا۔ ‘‘

’’فائدہ ہی فائدہ ہے۔ بے روز گاروں کو اور ان لوگوں کو جو چوہدریوں کے کمی ہیں ‘‘ سراج نے کہا تو مائرہسوچتے ہوئے بولی

’’چلو چلتے ہیں۔ ‘‘

وہ سراج کے ساتھ پلٹ کر گاڑی تک گئی۔ سراج واپس پلٹ گیا تو جعفر نے پوچھا

’’مائرہ، الیکشن ہو چکا، حکومتیں بننے، حلف اٹھانے میں تو کئی دن لگ جائیں گے۔ کب واپس جانا ہے تم نے؟‘‘

’’کیوں اتنی جلدی اکتا گئے ہو مجھ سے۔ ‘‘ مائرہ نے خوشگوار لہجے میں کہا تو جعفر بولا

’’میں اور تم سے اکتا جاؤں بلکہ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ کاش تم اسی طرح میرے ساتھ زندگی کی راہوں پر چلو‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا

’’سیدھے کیوں نہیں کہتے کہ تم یہاں سے اب جانا چاہ رہے ہو۔ ‘‘ مائرہ نے کہا

’’اور تم سیدھا جواب کیوں نہیں دیتی ہو کہ یہاں پر کیوں پڑی ہو ئی ہو۔ میرے ساتھ چلو نا نور پور، وہاں کچھ دن رہو میرے ساتھ۔ وہاں بھی تو۔۔۔‘‘

’’مجھے بھی معلوم ہے آج ہی چلتے ہیں ، آؤ چلیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ گاڑی کی جانب بڑھی تو جعفر بھی چل دیا۔

سراج اپنی بائیک پر چوراہے میں آیا تو چاچا سوہنا، حنیف دوکاندار کے ساتھ اور کئی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سب خوش تھے۔ باتیں کر رہے ہیں۔ سراج اپنی بائیک سے اتر کر ان کے پاس گیا، ہاتھ ملاتا ہوا ان میں بیٹھ گیا تو حنیف دوکاندار نے کہا

’’یہ تو انقلاب آ گیا یار۔ چوہدریوں کو اس قدر شکست ہوئی، سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ فہد نے کیا جادو کر دیا ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی۔ ‘‘

’’انقلاب جادو ٹونے سے نہیں آتے، ہمت، حوصلے اور یقین سے آتے ہیں۔ عوامی شعور سے آتے ہیں۔ تمہیں سمجھ اس لیے نہیں آ رہی ہے کہ تمہیں عوام کی قوت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ عوام ہی ایسی قوت ہیں جو ظالموں کو بے بس کر کے رکھ دیتی ہے۔ ‘‘ سراج نے کہا تو ایک آدمی ہنستے ہوئے بولا

’’تم تو اچھی بھلی تقریر کرنے لگ گئے ہو یار۔ ‘‘

’’آخر فہد کا اثر جو ہے۔ اس نے ایک عام سی لڑکی کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا۔ انہیں کیا پتہ سراج، آزاد فضاؤں میں سانس لینا کیسا ہوتا ہے۔ ابھی انہیں آزاد اور صاف فضا میں سانس لینے کا موقعہ ہی کہاں ملا ہے۔ وقت لگے گا۔ پھر انہیں ساری عقل سمجھ آ جائے گی۔ ‘‘ چاچا سوہنا حسرت سے بولا تو سراج نے کہا

’’تم نے نہ سہی چاچا، ہم نے نہ سہی لیکن آنے والی نسلیں تو صاف اور آزاد فضا میں سانس لیں گی نا۔ ‘‘

’’ یہ ہوتا ہے اصل بدلہ۔ چوہدریوں کی وہ رگ ہی کاٹ دی، جس کی وجہ سے وہ ظلم کرتے تھے۔ پتر ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ سارا علاقہ اب تم لوگوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘ چاچے سوہنے نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا توسراج اٹھ گیا۔

٭٭

 

حویلی کے ڈرائنگ روم میں چوہدری جلال اور منشی کے ساتھ تھانیدار بیٹھا ہوا تھا اور ان میں بات جاری تھی۔

’’چوہدری صاحب۔ !آپ انکار کر دیں تو یہ الگ بات ہے۔ ورنہ جس بندے نے فہد پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ اسے یہاں دیکھا گیا ہے۔ وہ آپ کی الیکشن مہم میں آپ کے ساتھ تھا۔ اس کا ثبوت، فوٹو اور ویڈیوکلپس کی صورت میں ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں۔ مدعی بھی اسے پہچان چکے ہیں۔ آپ اپنی ساکھ بچائیں اور قانون کا ساتھ دیتے ہوئے اسے ہمارے حوالے کر دیں۔ ‘‘

تھانیدار نے منّت بھرے لہجے میں کہا تو چوہدری جلال مسکراتے ہوئے بولا

’’حکومت کیا بدلی، تم لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ ہماری ساکھ تباہ ہو جائے گی۔ ہم سدا بہار ہیں اور رہیں گے۔ باقی جہاں گڑ ہوتا ہے نا۔ وہاں ہزاروں مکھیاں بھنبھناتی ہیں۔ گڑ ختم، مکھیاں غائب، اب میں کسے کہاں تلاش کرو۔ یہ تم لوگوں کا کام ہے۔ ‘‘

’’دیکھیں۔ آپ اب تعاون کریں۔ میں سرکاری ملازم ہوں ، سرکار ناراض ہو گئی تو میری نوکری چلی جائے گی۔ ‘‘ تھانیدار لجاجت سے بولا

’’مگر میں اسے کہاں سے لاؤں۔ جس کا ذکر تم کر رہے ہیں۔ رات گئی، بات گئی، دو چار چھاپے مارو، روزنامچہ کالا کرو، اسے اشتہاری قرار دے کر فائل بند کر دو۔ اب یہ بھی سبق مجھے پڑھانا پڑے گا۔ پہلے ہی تمہاری وجہ سے میرے بیٹے کبیر کا معاملہ بھی لٹک گیا ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے ناراضگی سے کہا تو تھانیدار بولا

’’ناں چوہدری صاحب۔ !ناں ، میں نے اپنے اختیارات سے کہیں زیادہ نکے چوہدری کو تحفظ دیا اب ہماری وردی کسی کی قسمت سے تو نہیں لڑ سکتی نا۔ ‘‘

’’کہاں تحفظ دیا۔ وہ کیس تو عدالت میں ہے۔ تم تعاون کرتے تو سارا معاملہ تھانے ہی میں رفع دفع ہو گیا ہوتا۔ پھر کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آتا۔ اب جاؤ، سر نہ کھاؤ۔ ‘‘ چوہدری جلال نے اکتاتے ہوئے کہا تو تھانیدار نے پھر منّت کرتے ہوئے کہا

’’نہیں چوہدری صاحب ایسے نہیں کوئی نہ کوئی حل تو ہو۔ وہ بندہ مجھے چاہئے آپ کو معلوم بھی ہے کہ یہ پیچیدہ قانونی معاملہ ہے۔ اس وقت لوگوں کے جذبات بھڑکے ہوئے ہیں۔ حالات آپ کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ پھر بھی وہ بندہ آپ پولیس کے حوالے کرنے کو تیار نہیں۔ اسے دیں اور اپنی جان چھڑائیں۔ ‘‘

’’اس نے میرا کام کیا ہے۔ پولیس کے حوالے کر دیا تو میرا نام بک دے گا ڈوبتے ڈوبتے مجھے بھی لے ڈوبے گا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے اسے سمجھایا۔

’’پھر کیا ہو گا۔ !تعاون کریں گے تو کچھ نہیں ہو گا۔ پولیس آپ کو گرفتار کرنے سے تو رہی۔ میں معاملہ ہی گول کر دوں گا۔ آپ کا کہیں نام نہیں آئے گا۔ ‘‘ تھانیدار نے صلاح دی تو چوہدری جلال نے بھڑکتے ہوئے کہا

’’یعنی سر جھکا دوں ابھی سے چھوڑو اور جاؤ اپنا کام کرو۔ ‘‘

’’میں تو اے ایس پی صاحب کے کہنے پر آپ کے پاس آیا تھا۔ لیکن۔ خیر میں چلتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے تھانیدار اٹھا اور ان سے ہاتھ ملا کر چل دیا۔ چوہدری اس کی طرف دیکھ کر دھیرے سے مسکرا دیا۔

رات کے پہلے پہر کے سناٹے میں چوہدری کے ڈیرے پر چوہدری کبیر اور کاشی باتیں کر رہے تھے۔ کاشی نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا

’’میں نے تو اپنا کام کر دیا تھا۔ اب یہ اس کی قسمت ہے کہ ابھی اوپر والے نے اس کا ویزہ نہیں منظور کیا۔ چوہدری صاحب سے پوچھو، آگے کیا کرنا ہے، اسے ختم کروں یا پھر وہ مجھے یہاں سے نکالتے ہیں۔ ‘‘

’’میری اس معاملے میں بابا سے بات ہوئی تھی۔ وہ فی الحال اسے چھیڑنا نہیں چاہ رہے ہیں۔ آج رات تم جب چاہو چلے جانا تیری رقم تجھے مل گئی ہے۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے سکون سے کہا تو کاشی بولا ’’ٹھیک ہے، میں آج رات ہی نکل جاؤں گا۔ تم چوہدری صاحب سے پوچھ لو۔ ‘‘

’’کاشی۔ !تمہیں نوٹوں کی ضرورت تو ہو گی۔ میں تمہیں ڈالر دوں گا۔ ایک کام کرو میرا جاتے جاتے۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے حسرت آمیز لہجے میں کہا تو وہ بولا

’’بولو، کیا کام ہے۔ ‘‘

’’سلمٰی نے اگر اسمبلی میں جا کر حلف اٹھا لیا تو سمجھ، ہمارا ہونا نہ ہونا برابر ہے اسے نہیں رہنا چاہئے۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے بے بسی سے کہا تو کاشی بولا

’’وہ تو بہت آسان شکار ہے۔ کہو تو آج رات ہی پار کر دوں۔ ‘‘

’’جب تمہارا دل چاہے۔ نہ وہ ہو گی، نہ حلف اٹھائے گی۔ کام ہوتے ہی تمہیں ہمارے بندے لے کر نکل جائیں گے۔ ‘‘ وہ دانت پیستے ہوئے بولا تو کاشی نے اٹھتے ہوئے کہا

’’تم اپنے بندے تیار رکھو میں آتا ہوں ابھی۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنا پسٹل نکال کر چیک کیا اور اٹھ کر چل دیا۔

رات کے گہرے اندھیرے میں ڈیرے کے باہر پولیس وین آ کر رکی۔ اس میں سے پولیس مین تیزی سے باہر نکل کر پھیل گئے۔ ان کے جعفر اور اس کے پیچھے تھانیدار تھا۔ اس کے ساتھ ہی چینل کی وین آ کے رکی۔ اس میں سے مائرہ اور کیمرہ مین نکل کر وہ بھی پھیل گئے۔ تبھی اندر سے ایک فائر ہوا تو باہر سے فائرنگ ہونے لگی۔ اچانک ہی ان میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ کچھ پولیس والے زخمی ہوئے لیکن ڈیرے پر موجود کافی بندے خون میں لت پت پڑے تھے۔ کیمرہ مین انہیں کور کر تھا۔ پولیس والوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ اس لئے چند منٹوں ہی میں ان پر قابو پا لیا۔ اچانک تھانیدار اور کبیر ایک دوسرے کے سامنے آ گئے تو تھانیدار نے کہا

’’خبردار کبیر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دو۔ ورنہ گولی مار دوں گا۔ ‘‘

’’تم۔ تم مجھے گولی مارو گے۔ کل تک ہمارا کھانے والا آج ہمیں دھمکی دے رہا ہے۔ چل مجھے یہاں سے باہر نکال۔ تجھے مالا مال کر دوں گا۔ ‘‘ کبیر نے حقارت سے کہا تو تھانیدار بولا

’’نہیں چوہدری ۔۔۔اب تیرا کھیل ختم ہو گیا ہے۔۔۔ تجھے مرنا ہو گا۔ ورنہ میں مر جاؤں گا۔ ۔۔۔ تیرے کھاتے میں قتل ہی بہت ہیں ‘‘

کبیر نے اسے شدید حیرت سے دیکھا۔ لیکن تھانیدار نے لمحہ بھر بھی تاخیر نہیں کی۔ اور اس پر فائر جھونک دئیے۔ گولیاں کبیر کے لگیں تو وہ گرتا چلا گیا۔ ایسے میں ایک فائر تھانیدار کے آ لگا۔ اسے کاشی نے گولی ماری تھی۔ کاشی گھبرا کر نکلنے کی کوشش کی تو پولیس والے نے اسے پکڑ لیا۔ پھر پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ کیمرہ مین کور کرتا رہا۔

چوہدری کی حالت انتہائی خستہ تھی۔ قریب بیٹھی بشریٰ بیگم سکتے کی سی کیفیت میں تھی۔ قریب ہی فون سیٹ کا رسیور ایک طرف پڑا ہوا تھا۔

’’وقت بدل گیا تو سارا زمانہ ہی بدل گیا۔ میں نے ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ‘‘چوہدری جلال نے انتہائی یاسییت سے کہا تو بشریٰ بیگم روتے ہوئے بولی

’’میرا پتر۔ تمہاری جھوٹی انا اور انتقام کی سیاست کی نذر ہو گیا۔ تم میرے بچے کے قاتل ہو۔ ‘‘

’’ نہیں بیگم نہیں ، کبیر کو خدا نخواستہ ایسا ویسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کے صرف زخمی ہونے کی اطلاع ہے وہ ابھی زندہ ہے۔ ‘‘چوہدری جلال نے تڑپ کر کہا

’’وہ زندہ بھی ہوا تو پولیس اسے مار دے گی۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے پاگلوں کی طرح کہا اور ایک دم سے اٹھ کر باہر جانے کو لپکتی۔ چوہدری جلال نے تیزی سے پوچھا

’’کہاں جا رہی ہو تم۔ تجھے ہو کیا گیا ہے؟‘‘

’’میرا بیٹا مر رہا ہے اور تم مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ میں کہاں جا رہی ہوں۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے ہذیانی انداز میں کہا تو چوہدری جلال سختی سے بولا

’’تم ادھر رکو میں جا رہا ہوں نا میں سب سنبھال لوں گا۔ ‘‘

’’تمہاری بات کسی نے نہیں سنی، کہاں گیا تمہارا رعب اور دبدبہ۔ تم تو ایم این اے تھے۔ اتنا غرور کدھر گیا۔ تمہاری کسی نے مدد نہیں کی، کہاں گئی تمہاری سیاسی پارٹی۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے پاگلوں کی طرح چیتے ہوئے کہا چوہدری جلال بے بسی سے بولا

’’ سب آنکھیں پھیر گئے ہیں ، سب‘‘

’’صرف ایک صورت ہے اپنے بیٹے کو بچانے کی۔ کسی طرح فہد کو جا کر منا لو میرا کبیر بچ جائے گا۔ ورنہ ۔۔۔ اگر اب بھی تم میں کوئی غرور باقی ہے تو میں خود جا رہی ہوں اس کے پاس میں کر لوں گی اس سے التجا۔ ‘‘

’’نہیں۔ بیگم، تم نہیں ، میں خود جاؤں گا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو بشریٰ بیگم نے منّت بھرے انداز میں کہا ’’تو جاؤ، میرے بچے کو لے آؤ۔ ‘‘

چوہدری نے سر جھکا دیا۔

٭٭

 

فہد اپنے گھر میں سویا ہوا تھا۔ فون بجنے پر اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے اسکرین دیکھ کر فون رسیو کیا۔

’’ہاں جعفر کیا بات اتنی رات گئے خیریت تو ہے نا۔ ‘‘

’’خیریت ہی ہے۔ اگر آ سکتے ہو تو نور پور تھانے میں آ جاؤ۔ ہم وہیں جا رہے ہیں۔ ‘‘

’’تھانے؟ وہیں جا رہیں ؟ بات کیا ہے تم اس وقت کہاں ہو؟‘‘ اس نے الجھتے ہوئے کہا تو جعفر نے بتایا

’’چوہدری جلال کے ڈیرے کے پاس ہوں اس وقت، ہم نے یہاں چھاپا مارا ہے، کافی فائرنگ بھی ہوئی ہے، وہ بندہ پکڑا گیا ہے، جس نے تم پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ کئی دوسرے اشتہاری بھی ہیں۔ چوہدری کبیر کے گولی لگی ہے۔ وہ زخمی ہے، اسے ہسپتال لے گئے ہیں۔ ‘‘

’’اُوہ۔ !تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا، تم فوراً۔ ‘‘ اس نے کہنا چاہا تو وہ بولا

’’مجھے مائرہ نے منع کیا تھا۔ وہ بھی یہاں موجود ہے اپنی صحافی ٹیم کے ساتھ، جس نے یہ ساری کاروائی ریکارڈ کی ہے۔ ان سب کو پولیس تھانے لے جا رہی ہے۔ تم آ جاؤ آ سکتے ہو تو۔ ‘‘

’’یار یہ تم لوگ کیا کر رہے ہو۔ تم فوراً مائرہ کو ادھر بھیجو پھر سب دیکھ لیتے ہیں۔ ‘‘

فہد نے پریشانی میں کہا تو جعفر نے کہا

’’ وہ ماننے والی چیر ہے تو نہیں ، میں اسے کہہ دیتا ہوں۔ وہ جانے اور۔۔۔‘‘

فہد نے فون بند کر دیا اور تیزی سے مائرہ کے نمبر ملائے۔ مائرہ مصروف تھی۔ فون بیل بجی تو اس نے مسکر ا کر کہا

’’مجھے معلوم تھا کہ تمہارا فون آئے گا۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اب یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں آ رہی ہوں ، دل پر ہاتھ رکھو۔ ‘‘

یہ کہہ کر دوسری طرف سے کچھ سنے بغیر فون بند کر دیا۔

صبح سویرے ابھی نور کا تڑکا تھا۔ فہد اس وقت ماسٹر دین محمد کے گھر جا پہنچا تھا۔ فہد اور سلمٰی صحن میں تھے۔ صفیہ ان کے پاس تھی۔ تبھی مائرہ اور سراج گھر میں آ گئے، مائرہ ان کے قریب آ کر بیٹھ گئی تو فہد نے کہا

’’مجھے توقع نہیں تھی کہ تم یوں اپنی زندگی خطرے میں ڈالو گی، یہ سب کیسے؟‘‘

’’فہد، تم اچھی طرح جانتے ہو۔ یہ چوہدری کا زہر نہ نکالا جاتا تو یہ پھر ڈستا۔ ابھی رات کے دوسرے پہراس نے ایک بندے کو یہاں بھیجا۔ سلمٰی کو ختم کرنے کے لیے۔ وہ تو جعفر کی پلاننگ تھی چھاپہ مارنے کی تاکہ کبیر کو پکڑ سکے، ہر طرف سیکورٹی کے باعث وہ کاشی بھی پکڑا گیا۔ ‘‘

’’کاشی؟وہی جو۔۔۔‘‘ سلمی نے کہا تو فہد نے

’’ہاں ، وہی جس نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ اور کبیر بھی بہت زخمی ہے۔ ‘‘

’’آؤ۔ !تھانے چلتے ہیں۔ وہاں بہت سارے کام ہیں۔ رستے میں بتا دیتی ہوں کہ میں نے یہ سب کیسے اور کیوں کیا۔ اور پھر میں نے وہیں سے ہی نور پور جانا ہے۔ میں تمہیں لینے آئی ہوں۔ ‘‘ مائرہ نے اس سے کہا توسلمٰی نے حیرت سے کہا

’’یوں آناً فاناً؟‘‘

’’بہت سارے کام کرنے ہیں وہاں ، اس سے پہلے کہ یہ گرفتار لوگ اپنے تعلق آزما لیں۔ مجھے ان کا سب کچھ آن ائیر کرنا ہے۔ ‘‘

اتنے میں ماسٹر دین محمد اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر خوشی اور خوف کا تاثر تھا۔ اس نے آتے ہی بتایا

’’وہ چوک میں ، مسجد کے پاس بہت سارے لوگ جمع ہیں چوہدری کے ڈیرے پر چھاپے کی اطلاع پورے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ہے۔ لوگ خوش ہیں۔ ‘‘

’’ہم چلیں۔ !صفیہ سامان رکھ دیا گاڑی میں۔ ‘‘ مائرہ نے کہا توماسٹردین محمد نے پوچھا

’’کیا بیٹی جا رہی ہو تم؟‘‘

’’ہاں۔ انکل مجھے بہت جلدی جانا ہے۔ میں پھر آؤں گی اور اسی طرح ڈھیر سارے دن رہوں گی۔ ‘‘ مائرہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا اور فہد کی جانب دیکھا۔۔ وہ افسردہ تھا۔ تب ماسٹر دین محمد نے کہا

’’ بیٹا، ناشتہ تو کر کے جا نا۔ ‘‘

’’ میں چائے پی لیتی ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ فہد کے سامنے بیٹھ گئی۔ وہ سب چائے پی رہے ہیں کہ فہد کا فون بج اٹھتا ہے۔ فہد اسکرین دیکھ کر مسکرا دیا۔ وہ فون کان سے لگا کر بولا

’’ان حالات میں آپ کا فون آنا ہی تھا وکیل صاحب، بتائیں ، کیا کر سکتا ہوں میں آپ کے لیے۔ ‘‘

’’آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ میں نے صلح کی کوشش کی تھی۔ مگر چوہدری کی اپنی طاقت اور دولت پر گھمنڈ تھا۔ اب نتیجہ بھگت رہا ہے۔ میں نے فون اس لیے کیا ہے کہ وہ آپ کی ہر شرط ماننے کو تیا رہے۔ ‘‘ وکیل نے کہا تو فہد بولا

’’وہ اب بھی نہیں مانے گا۔ ‘‘

’’میں جو کہہ رہا ہوں اس نے ابھی مجھے خود فون کیا ہے۔ یہ وقت ہے، اس سے ہر شرط منوانے کا اور۔۔۔‘‘ وکیل نے کہنا چاہا تو فہد بولا

’’مجبوری میں مانی گئی کوئی شرط، شرط نہیں ہوتی خیر۔ !اسے کہیں وہیں آ جائے جہاں آج سے کئی برس پہلے، اس نے استاد جی کا راستہ روکا تھا، وہیں بات کرتے ہیں۔ ‘‘

’’میں کہہ دیتا ہوں۔ ‘‘ وکیل نے کہا تو فہد نے فون بند کر دیا۔ پھر ماسٹر دین محمد کی طرف دیکھ کر بولا، ’’آئیں استاد جی، اسی جگہ پر ببول کے نیچے سڑک پر، جہاں ہمارا تانگہ روکا گیا تھا۔ ‘‘

اس نے کہا تو وہ واقعہ ایک لمحے میں اس کی نگاہوں میں گھوم گیا۔ وہ فقرہ پوری قوت کے ساتھ اس کی سماعتوں میں ابھرا کہ میں ان کمی کمینوں سے بات نہیں کرتا۔ ماسٹر جی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

صبح سویرے مختلف گلیوں سے گاڑیاں نکل کر چوراہے سے گذریں۔ چاچے سوہنے نے کھڑے ہو کر انہیں سلام کیا۔ عوام ان کے پیچھے چل دی۔ سراج اور چھاکے نے چند لڑکوں کو بتایا کہ چوہدری معافی مانگنے آ رہا ہے۔ یہ خبر پورے قسمت نگر میں پھیل گئی۔ سیل فون نے لمحوں میں سب کو باخبر کر دیا تھا۔ اسی لئے عوام امنڈ آئی تھی۔

وہ اسی سڑک پر آ گئے۔ جہاں ببول کا درخت اب بھی کھڑا تھا۔ وہاں آ کر انہوں نے گاڑیاں روکیں اور ان میں سے باہر نکل آئے۔

فہد کو ایک ایک لمحہ یاد آنے لگا جب انہیں مارا گیا تھا۔ دوسری طرف سے چوہدری جلال اور کئی لوگ آ گئے۔ وہ قریب آئے تو فہد نے اونچی آواز میں کہا

’’ابھی وہیں کھڑے رہو چوہدری جلال۔ میں نے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ ‘‘

’’میں تمہارے ساتھ صلح کرنے آیا ہوں۔ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ ‘‘ چوہدری جلال نے صلح جو انداز میں کہا

’’ہاں ، جانتا ہوں۔ تمہیں یاد ہے یہیں کھڑے ہو کر تم نے کہا تھا میں کمی کمینوں سے بات نہیں کرتا؟‘‘

’’ہاں ہاں مجھے یاد ہے مگر۔۔۔‘‘ چوہدری جلال نے کہنا چاہا تو فہد نے اس کی بات کاٹ کر کہا

’’اس وقت تم مجبور ہوئے ہو تو یہاں آئے ہو۔ ورنہ تیرے جیسا ظالم اور مغرور آدمی یہاں کبھی نہ آتا۔ اس بیٹے کے لیے تم نے میری خوشیاں برباد کیں۔ میرے والدین کو دربدر کیا۔ میرے شریف باپ کو چور بنا دیا۔ اب بتاؤ۔ وہ چور تھا یا سادھ؟‘‘

’’فہد پتر۔ !یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے۔ تم‘‘ چوہدری جلال نے عوام کی طرف دیکھ کر لجاجت سے کہا تو فہد بولا

’’نہیں چوہدری، یہی وقت ہے۔ تم آج تک انہیں چور کہتے رہے۔ لیکن سب سے بڑے چور تم ہو۔ حرام کھاتے ہو۔ زمینوں پر ناجائز قبضے کرتے ہو۔ پنچائتوں سے نفع کماتے ہو۔ مال ڈنگر کھلواتے ہو۔ بے گناہ غریبوں کے خون سے ہاتھ رنگتے ہو۔ کونسا جرم ہے جو تمہارے کھاتے میں نہیں۔ ‘‘

چوہدری جلال نے کچھ کہنا چاہا لیکن کہہ نہیں پایا فہد نے اپنی بات جاری رکھی

’’میں اپنا ہر نقصان تمہیں معاف کر دیتا ہوں لیکن تم نے جو میرے استاد جی کی شان میں گستاخی کی تھی۔ یہ جرم نا قابل برداشت ہے۔ ساری زندگی میں نے اسی آگ میں جلتے ہوئے گذاری ہے چوہدری۔ ‘‘

’’مجھے معاف کر دو بیٹا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا تو فہد بولا

’’چوہدری میرے استاد کو راضی کر لو۔ میں راضی ہو جاؤں گا۔ ‘‘

’’اگر تمہاری خوشی اسی میں ہے تو میں ایسا کر لیتا ہوں مگر خدا کے لیے میرے بیٹے کو بچاؤ وہ زخمی ہے۔ میں اسے یہاں سے دور بھجوا دوں گا وہ دوبارہ کبھی یہاں نظر نہیں آئے گا۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھا اور ماسٹر دین محمد کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے توماسٹر دین محمد نے کہا

’’بس چوہدری۔ میں کون ہوتا ہوں معاف کرنے والا، جاؤ۔ سوہنے رب کے حضور جھک کر توبہ کرو۔ وہ معاف کرنے والا ہے۔ ‘‘ پھر روئے سخن فہد کی طرف کر کے بولا، ’’فہد بیٹے۔ !ہمارے پیارے نبی ﷺ نے مکہ فتح کیا تھا نا۔ تو سب کو معاف کر دیا تھا۔ یہ سنت اپنا ؤ پتر۔ معاف کر دو میں نے معاف کیا۔ ‘‘

’’لوگ کہتے تھے آج انتقام کا دن ہے۔ مگر میرے سوہنے نبی ؑ نے فرمایا آج معافی کا دن ہے۔ جا۔ !معافی کا یہی کشکول تھام اور صفیہ بی بی کے در پر چلا جا جس کے سہاگ کو تیرے فرعونی مزاج بیٹے نے اُجاڑ کر اس کے بچوں کو یتیم کر دیا۔ جا چلا جا۔ اس سے پہلے کہ میرا خون جوش مار جائے۔ میں نے تمہیں معاف کیا۔ ‘‘

چوہدری واپس پلٹا ہی تھا کہ جعفر کی پولیس گاڑی وہاں آ گیا۔ سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ تبھی وہ چوہدری کے پاس آ کر بولا

’’بہت افسوس ہوا چوہدری صاحب۔ تیرا پتر بہت ہی بزدل نکلا۔ اس نے ہسپتال میں دم توڑ دیا ہے۔ ہم اسے بچا نہیں سکے۔ ‘‘

چوہدری کچھ نہیں کہہ پایا۔ پہلے ہونقوں کی طرح اسے دیکھتا رہا پھر دل پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا۔ اس کے ساتھ آئے لوگ اسے جلدی سے اٹھا کر لے گئے۔

وہاں صرف سلمٰی، مائرہ، فہد اور جعفر رہ گئے تھے۔ باقی سب لوگ چلے گئے تھے۔ تبھی مائرہ نے فہد سے کہا

’’فتح مبارک ہو۔ ‘‘

’’تمہیں احساس ہے کہ ذات کا دکھ کیا ہوتا ہے۔ کئی برس پہلے یہاں میں نے اپنے آپ سے عہد کیا تھا کہ میں ظلم کے خلاف لڑوں گا۔ اور فتح تک لڑتا رہوں گا۔ کیا یہ انقلاب نہیں ہے۔ اس فتح میں تم بھی میرے ساتھ شامل ہو مائرہ۔ ‘‘

’’ہاں۔ !آئندہ بھی رہوں گی۔ فہد میں تمہیں ایک خوبصورت تحفہ دینا چاہتی ہوں۔ ‘‘یہ کہہ کر اس نے سلمٰی کا ہاتھ تھام کر اس کی جانب بڑھا تے ہوئے کہا۔ ’’میں چاہوں گی کی تم سلمٰی سے شادی کر لو۔ ‘‘

’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’تم اور سلمٰی بہت سارے لوگوں کے خوابوں کی تعبیر ہو۔ میری محبت تو رہے گی۔ مگر میں دوسروں کی محبت میں حائل نہیں ہو سکتی۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے مائرہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر قریب کھڑے جعفر کا ہاتھ یوں تھام لیا جیسے وہ فہد کو بتانا چاہتی ہو کہ اس نے اپنا ساتھ جعفر کو چن لیا ہے۔ ’’ یہ ہے نا میرے ہر دکھ سکھ میں میرا ساتھ نبھانے والا میرا دوست۔ ‘‘

جعفر نے اس کی طرف بہت غور سے دیکھا پھر اس کی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کر دئیے۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتے رہے پھر پلٹ کر گاڑی کی جانب چلے گئے۔ گاڑی میں بیٹھ کر انہوں نے ہاتھ ہلایا اور گاڑی چل دی۔ فہد اور سلمٰی نے ان کے ہاتھ ہلانے کا جواب دیا پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اورقسمت نگر کی طرف پلٹ گئے۔ وہ دور تک جاتے ہوئے دکھائی دئیے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید