FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

خیریات

 

 

                رؤف خیر

 

 

انتساب

 

عارج الدین

عبداللہ

عبد المحیط

آنف مظہر

آنس مظہر

عبد المہیمن

منتصر

عبد المؤمن

عبد الہادی

اریبہ امت اللہ

کے نام

 

 

 

 

تصانیف

 

(۱)    اقراء            ۱۹۷۷ء شعری مجموعہ

(۲)    ایلاف         ۱۹۸۲ء شعر ی مجموعہ

(۳)   شہداب         ۱۹۹۳ء شعر ی مجموعہ

(۴)   حیدرآباد کی خانقاہیں      ۱۹۹۴ء تحقیقی مقالہ

(۵)   خطّ خیر                ۱۹۹۷ء تنقیدی مضامین

(۶)    قنطار            ۲۰۰۱ء (علامہ اقبال کے ۱۶۳ فارسی قطعات ’’لالہ طور ‘‘کا منظوم اردو ترجمہ )

(۷)   سخنِ ملتوی              ۲۰۰۴ء شعر ی مجموعہ

(۸)   دکن کے رتن اور اربابِ فن      ۲۰۰۵ء تنقیدی مضامین

(۹)    بچشمِ خیر               ۲۰۰۶ء تنقیدی مضامین

(۱۰)   متاع خیر               ۲۰۰۵ء

صبیحہ سلطانہ کا مقالہ ’’متاع خیر ‘‘کے نام سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے ۲۰۰۵ء میں شائع ہو چکا ہے۔

 

اصلی نام :      محمد عبد الرؤف

قلمی نام :               رؤف خیر ؔ

ولدیت :              محمد ابوبکر صاحب

تاریخ پیدائش : ۵۔ نومبر ۱۹۴۸ء

مقام پیدائش :  حیدرآباد ۔ دکن

تعلیم :         ایم اے۔ اردو (عثمانیہ )

لکچر ر اردو (موظف )

 

حیدرآباد یونیورسٹی نے ’’رؤف خیر شخصیت اور فن ‘‘پر صبیحہ سطانہ کو ایم فل کی ڈگری کا مستحق قرار دیا ۔ ہند و پاک اور کل ہند مشاعروں کے علاوہ انڈین ایمبسی کی دعوت پر جد ہ،ریاض،مکہ اور مدینہ کے مشاعروں میں شرکت

 

 

 

 

 

احمد جاوید (پاکستان )

 

 

مجھے اپنے چند روزہ قیام حیدرآباد کے دوران جو چند مسرتیں او ر سعادتیں حاصل ہوئیں ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ جناب رؤف خیرؔ صاحب کے مجموعہ کلام ’’سخن ملتو ی‘‘ اور ’’پیام مشرق ‘‘کے حصہ لالۂ طور کے ترجمے ’’قنطار‘‘ کے حصول اور مطالعے کا موقع ملا ۔ دونوں کتابیں بلاشبہ اپنے قاری کو ایک ایسے تجربے سے بہرہ مند کرتی ہیں جس میں تخلیقی گہرائی،فکری صلابت اور حسنِ اظہار کی متنوع بلندیاں یک جا ہیں او ر یک جان ہیں۔ ’’سخن ملتوی ‘‘میں جو خاص الخاص وصف کارفرما نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں ایک رچی ہوئی مذہبیت جمالیات طرزِ احساس میں ڈھل گئی ہے۔

منظوم ترجمہ ایک نہایت مشکل کام ہے ،تاہم رؤف خیر صاحب نے اس مشکل راستے کو سلامتی سے طے کر دکھایا ہے۔ منظوم تراجم،اصل متن کے پوری طرح تابع نہیں رہتے۔ خیر صاحب اپنے ترجمے میں اسی دائرے میں رہتے ہیں جو اصل متن کا بنایا ہوا ہے۔ اسی لیے ان کا ترجمہ صحت کے معیار پر بھی پورا اتر تا ہے۔ ماشا ء اللہ ۔

 

احمد جاوید

نائب ناظم ادبیات

اقبال اکیڈمی،ایوان اقبال

ایجرٹن روڈ،لاہور

 

 

 

 

 

قائم ہیں شر سے خوش سخنی کی روایتیں

اب کون مانتا ہے یہاں اصل خیر ہے

اسلاف سے یہ کہہ کے تبرا نہ کیجیو

بعدِ ولی دکن میں بلا فصل خیرؔ ہے

 

 

 

 

نعت

 

 

تجھے گُر دین و دنیا کے سکھانے آپ آئے ہیں

بھٹکتا ہے کدھر تو اے زمانے آپ آئے ہیں

 

یہ چوراہے تجھے آخر کہیں کا بھی نہ چھوڑیں گے

یہ منزل ہے ادھر آ اے دوانے آپ آئے ہیں

 

نبوت اور امامت تا قیامت آپ کا حق ہے

معانی اقتدا کے بھی بتانے آپ آئے ہیں

 

میں اپنی حد سے واقف ہوں ،میں اس سرحد سے واقف ہوں

کہا آقا سے رک کر ذوالقویٰ نے آپ آئے ہیں

 

جنھیں امّی سمجھتے تھے مدینہ علم کا نکلے

پڑھے لکھوں کو بھی کیا کیا پڑھا نے آپ آئے ہیں

 

پڑے ہوں عقل پر پردے تو پھر کچھ کر نہیں سکتے

وگرنہ خیرؔ ہر پردہ اٹھانے آپ آئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مضائقہ نہیں کوئی جو پھل ہی کاٹ دیا

شجر تمام مگر بے محل ہی کاٹ دیا

 

ملا تھا وقت ہمیں ’وقفۂ صفر‘ کی طرح ٭

جھجک جھجک کے یہ انمول پل ہی کاٹ دیا

 

اڑان بھر نے کا موقع نہیں دیا اس نے

جوازِ شہپری پہلے پہل ہی کاٹ دیا

 

معلقات کو دیمک تمام چاٹ گئی

سخن کا دعویِ ضرب المثل ہی کاٹ دیا

 

چلو سنبھال لیا خاکسار کو اس نے

انا پرست سے روزِ ازل ہی کاٹ دیا

 

ہم اپنی شرط پہ رد و قبول کرتے ہیں

جو کاٹنا تھا ببانگِ دہل ہی کاٹ دیا

 

غزل تو خیرؔ جنابِ مدیر نے چھاپی

ملال یہ ہے کہ بیت الغزل ہی کاٹ دیا

٭٭٭

ZERO HOUR٭

 

 

 

 

روشنی کا نہ کال ہو اندر

روشنی بے مثال ہو اندر

 

دیپ دیپاولی کے روشن ہوں

رونقِ ماہ و سال ہو اندر

 

پیار ٹپکے روئیں روئیں سے ترے

جیسے ساگر و شال ہو اندر

 

صرف ظاہر کو تابدار نہ کر

آب داری، اُجال ہو اندر

 

کرچی کرچی ہو لاکھ اپنا وجود

آئینے کی مثال ہو اندر

 

صرف روشن نہ کر در و دیوار

حرفِ روشن کا جال ہو اندر

 

برق رفتار یاں مبارک ہوں

چال میں اعتدال ہو اندر

 

چھوٹتے ہوں جو لا جواب انار

روشنی کا سوال ہو اندر

 

کوئی صورت نہ ہو خرابی کی

آئینے میں نہ بال ہو اندر

 

ہر بُنِ مُو سے روشنی پھوٹے

حسن کا اشتعال ہو اندر

 

اس کا ثمرہ بھی سرفراز کرے

پھلجھڑی والی ڈال ہو اندر

 

موہ لے دل جمال سے اپنے

کچھ تو ایسا کمال ہو اندر

 

نور چہرے سے تب جھلکتا ہے

جب طبیعت بحال ہو اندر

 

برگِ زر بانٹ کر گلے مل لو

جب دسہری کی ڈال ہو اندر

 

تیرگی جو الٹ پلٹ کر دے

ایک ایسی کدال ہو اندر

 

روشنی دے، دھواں بھی خوشبو دے

ایسی صندل کی ٹال ہو اندر

 

دل کشادہ ہو، ہاتھ بھی ہوں کھُلے

خیرؔ مال و منال ہو اندر

٭٭٭

 

 

 

 

گماں تو تھا کہ ایسا تھا، نہیں تھا

ترا غم جان سے پیارا، نہیں تھا

 

نہ جانے وہ خفا تھا یا، نہیں تھا

کسی صورت سے کچھ کھلتا، نہیں تھا

 

وہ یہ سمجھا میں سنجیدہ، نہیں تھا

اسے کچھ میرا اندازہ، نہیں تھا

 

کتابِ خیر میں کیا کیا، نہیں تھا

وہ کافر مان کر دیتا، نہیں تھا

 

سند ہے گفتہ و ناگفتہ اس کا

بدلنے والا یہ سکہ، نہیں تھا

 

میں اپنے آپ ہی سے با خبر ہوں

قلم پر اس کا کب قبضہ، نہیں تھا

 

کرانا ہی پڑا اپنا تعارف

اب اتنا انکسار اچھا، نہیں تھا

 

جدھر دیکھو اُدھر پَو پھٹ رہی ہے

تسلط کچھ بھی راتوں کا، نہیں تھا

 

دکن میں خیرؔ ہم تو ہیں سلامت

یہاں ویسے بھی سناٹا، نہیں تھا

٭٭٭

 

 

 

لگتا ہے یہی آنکھ ابھی پائی کہاں ہے

بینائی کا دعوا تو ہے بینائی کہاں ہے

 

کہنا تو بہت کچھ ہے مگر کس سے کہوں میں

افسوس ترے شہر میں شنوائی کہاں ہے

 

رشتہ ہی لہو رنگ نہیں ہے کوئی باقی

سچ پوچھئے تو بھائی بھی اب بھائی کہاں ہے

 

ہم بھی کوئی مرنے کا ارادہ نہیں رکھتے

تم نے بھی تو جینے کی قسم کھائی کہاں ہے

 

اللہ نظَرِ بد سے بچائے ،مرے بیٹے

کمزوری ہے تو میری توانائی کہاں ہے

٭٭٭

 

 

وہ بد گما ن عجب ضد لگا کے ٹھیرا ہے

عجیب موڑ کہانی میں آ کے ٹھیرا ہے

 

وہ بچ نہ پائے گا میرے قلم کی زد سے کبھی

حریف گرچہ پسِ پشت جا کے ٹھیرا ہے

 

یہ سیل رد و حسد کیا بگاڑ لے گا مرا

یہ خاکسار تو پاؤں جما کے ٹھیرا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

                (موجودہ عالمی سیاسی صورتِ حال کے تناظر میں )

 

جنوں پسند، حریفِ خرد تو ہم بھی ہیں

عدو جو نیک نہیں ہے تو بد تو ہم بھی ہیں

 

ہزار صفر سہی اک عدد تو ہم بھی ہیں

تمہارے ساتھ ازل تا ابد تو ہم بھی ہیں

 

اب اتنا ناز سمندر مزاجیوں پہ نہ کر

کہ اپنے آپ میں اک جزر و مد تو ہم بھی ہیں

 

 

 

ہمیں قبول کہاں کم سواد کرتے ہیں

خرابِ مشغلۂ رد و کد تو ہم بھی ہیں

 

ہم اپنے آپ سے آگاہ اس قدر تو نہ تھے

چلو نشانۂ رشک و حسد تو ہم بھی ہیں

 

گلہ نہیں ہے اگر تم پہ کھُل نہیں پائے

خود اپنے آپ سے ہی نا بلد تو ہم بھی ہیں

 

عطا ہوئی ہیں بڑی بے نیازیاں اس سے

جو وہ صمد ہے تو عبدالصمد تو ہم بھی ہیں

 

کوئی ہمیں نظر انداز کر نہیں سکتا

سخن وری کے گل سر سبد تو ہم بھی ہیں

 

 

 

ہیں مہربان بہر حال اپنے یاروں پر

مخالفین کے رد میں اشد تو ہم بھی ہیں

 

پڑے ہیں خیرؔ دکن میں تو چشم کم سے نہ دیکھ

اگر چہ میرؔ نہیں ہیں سند تو ہم بھی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

یہ زمین پڑنے لگی چھوٹی نظر کے سامنے

آسماں ہی آسماں ہے بال و پر کے سامنے

 

چاک پر مٹی دھری ہے کوزہ گر کے سامنے

ظرف ہے قائم بھی اب رہنا شرر کے سامنے

 

الوداعی گر م جوشی تیری یاد آتی رہی

سردیاں سب ہیچ، اس زاد سفر کے سامنے

 

ان کی ماں مجھ سے بتا تی ہے انھیں کیا چاہئے

راست کچھ کہتے نہیں بچے ٹھہر کے سامنے

 

باپ ہی محمود تھا اس کا نہ بیٹا ہے ایاز

دھوپ پیچھے تھی نہ سایہ ہے شجر کے سامنے

 

اس کی معنی خیز سرگوشی نے کیا کیا کہہ دیا

ناولیں پھیکی ہیں حرفِ مختصر کے سامنے

 

خواب بے تعبیر ہے ، تعبیر بھی بے خواب ہے

کن سرابوں کا سفر ہے چشمِ تر کے سامنے

 

غیر ممکن کو بھی اس نے خیر ممکن کر دیا

موم ہے فولاد بھی دست ہنر کے سامنے

٭٭٭

 

 

 

 

اب اس سے پہلے کہ تن من لہو لہو ہو جائے

لہو سے قبل شہادت چلو وضو ہو جائے

 

قریب دیدہ و دل اس قدر جو تو ہو جائے

تو کیا عجب تری تعریف میں غلو ہو جائے

 

بھلے ہی ہوتی ہے دنیا تمام ہو، ہو جائے

خدا نخواستہ میرے خلاف تو ہو جائے

 

میں اپنا فون کبھی بند ہی نہیں رکھتا

نہ جانے کب اسے توفیقِ گفتگو ہو جائے

 

تمہاری چشم کرم ہی سے ہے بھرم دل کا

وہ دن نہ آئے کہ یہ جام،بے سبو ہو جائے

 

ملے ملے نہ ملے فرصت و فراغت پھر

چلو یہیں کہیں کچھ دیر ہاؤ ہو، ہو جائے

 

دماغ اس کا سنا ہے کہ آسمان پہ ہے

مری زمین پہ چل کر لہو لہو ہو جائے

 

رؤف خیر کسی پر کبھی نہیں کھلنا

جو آج یار ہے ممکن ہے کل عدو ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بچھا ہوا ہے زمین رنگ جال سا کوئی

ہے آسمان بھی ہم پر وبال سا کوئی

 

کہیں سے لاؤ ہماری مثال سا کوئی

ہماری طرح کا آشفتہ حال سا کوئی

 

وہ کر رہا ہے مسلسل دلوں پہ بمباری

دلا رہا ہے ہمیں اشتعال سا کوئی

 

لگا ہوا ہے ازل سے مرے تعاقب میں

کبھی عروج سا کوئی زوال سا کوئی

 

جو خوش جمال بھی ہے او ر ہم خیال بھی ہے

مرے لیے تو ہے مال و منال سا کوئی

 

ہمیں گزند پہنچنے کبھی نہیں دیتا

ہے ایک ہاتھ جو بنتا ہے ڈھال سا کوئی

 

ادھر ادھر کی حکایات بے سند نہ سپا

سخن سنا تو سہی حسب حال سا کوئی

 

رؤف خیر ہمارا کمال چبھتا ہے

پڑا ہے یاروں کی آنکھوں میں بال سا کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

شرطوں پہ اپنی کھیلنے والے تو ہیں وہی

مہرے ’’سفید گھر ‘‘میں بھی کالے تو ہیں وہی

 

شاخوں پہ سانپ ہیں تو شکاری ہیں تاک میں

سہمے پرندے ان کے نوالے تو ہیں وہی

 

پہچاننے میں ہم کو تکلیف ہوا انھیں

حالانکہ اپنے جاننے والے تو ہیں وہی

 

وارث بدل گئے کہ وصیت بد ل گئی

لیکن گواہ اور قبالے تو ہیں وہی

 

اب ان پہ انگلیوں کے نشانات اور ہیں

ہر چند اپنے قتل کے آلے تو ہیں وہی

 

کھلواڑ کر رہے تھے جو ہم سے وہ کھل گئے

یہ اور بات حیلے حوالے تو ہیں وہی

 

ساری حیات جن کی اندھیرے میں کٹ گئی

اندھیر ہے کہ خیرؔ جیالے تو ہیں وہی

٭٭٭

 

 

 

 

وہ سرافراز ہو وے اور کر کے سرفراز آوے

ولی جو اولیائے حرف و معنی کو نواز آوے

 

ہمارے منہ بھلا کیا خاک مجروح و مجاز آوے

ظفر، ناصر، جلالی ہی نہ مشتاق و فراز آوے

 

تیمم زاد منہ پر چوکھٹوں کی خاک مَلتا ہے

وضو کرنا لہو سے آوے تو طرز نماز آوے

 

میں کب سے راہ تکتا گوش بر آواز بیٹھا ہوں

نہ جانے کب وہ یار خوش خرام و دلنواز آوے

 

سمندر ہو کہ قطرہ ہو،رہے اوقات میں اپنی

سمندر ہو کہ قطرہ ہو اچھل جانے سے باز آوے

 

ہمیں شہ مات کیا دیتا وہ سب مہرے گنوا بیٹھا

وہ شاطر ہی سہی اب آخری بازی سے باز آوے

 

نہ کوئی راز داں اس کا نہ کوئی راز داں اپنا

زبان چشم و ابرو کے حوالے سے جو راز آوے

 

ہمیں آتا ہے بے غرقاب دریا پار کرنا بھی

مگر ہے شرط استقبال کو وہ پاکباز آوے

 

یہی ہونا تھا،ہم تو خیر کب کے ہو گئے اس کے

وہ ہم پر ناز فرماوے کبھی بہر نیاز آوے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جو آئے توڑنے پر وہ تو کیا کیا توڑ دیتا ہے

ہر اک تہذیب سے اپنا علاقہ توڑ دیتا ہے

 

نچاتا ہے نچانا چاہتا ہے جب تلک ان کو

وہ پھر کٹھ پتلیوں کا جیسے دھاگا توڑ دیتا ہے

 

وہ اکثر کاٹتا ہے بات میری درمیاں ہی سے

شکست ناروا مصرعے کو گویا توڑ دیتا ہے

 

بڑی ضدی گلہری ہے سپاری لے کے نکلی ہے

ذرا دیکھیں اسے کیسے ہمالہ توڑ دیتا ہے

 

جنوں کو روک سکتی ہیں نہ دیواریں نہ در کوئی

کہ وہ عقل و خرد کا ہر حوالہ توڑ دیتا ہے

 

سنامی موج غیرت مند پھر انصاف کرتی ہے

کنارہ جب کوئی شرم و حیا کا توڑ دیتا ہے

 

ڈبو کر ہیر کو الزام رکھ دیتا ہے دریا پر

گھڑا چپکے سے خود رانجھا ہی پکا توڑ دیتا ہے

 

اب اس کی شیر خواری دودھ دانوں سے بہلتی ہے

وہی بچپن میں جو مسکے کا مٹکا توڑ دیتا ہے

 

جو مجھ میں خیر ہے وہ ہار نے شر سے نہیں دیتا

اگر داؤ الٹ جائے تو اس کا توڑ دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کتاب خیر پڑھا کر اگر ہے کچھ لکھنا

دل و دماغ پہ چھا کر اگر ہے کچھ لکھنا

 

کتاب ہوتی نہیں ہر کتاب مت پڑھنا

الا بلا نہ لکھا کر اگر ہے کچھ لکھنا

 

کہاں سے لاؤں وہ کاغذ وہ حوصلہ وہ قلم

لکھوں جو خود سے چھپا کر اگر ہے کچھ لکھنا

 

یہ کیا کہ کرتا ہے دن رات کاغذات سیاہ

قلم کا حق بھی ادا کر اگر ہے کچھ لکھنا

 

خدا کرے کہ ترے ہاتھ ہی قلم ہو جائیں

ادب سے ہاتھ اٹھا کر اگر ہے کچھ لکھنا

 

خلاف پاس اد ب ہے لحاظ اپنا کر

ادھر ادھر سے گلا کر اگر ہے کچھ لکھنا

 

ادب میں بھی تو عجب مفتیوں کی ہے بھر مار

ذرا سنبھل کے لکھا کر اگر ہے کچھ لکھنا

 

ہر ایک شخص کو لکھنا کہاں یہ آتا ہے

ہماری طرح لکھا کر اگر ہے کچھ لکھنا

 

تعلی مطلعے میں مقطعے میں خیرؔ رکھ ایطا

سخن میں کچھ تو نیا کر اگر ہے کچھ لکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم

کوفے کا حال دیکھ رہے ہیں جہاں سے ہم

 

ہندوستان ہم سے ہے یہ بھی درست ہے

یہ بھی غلط نہیں کہ ہیں ہندوستان سے ہم

 

رکھا ہے بے نیاز اسی بے نیاز نے

وابستہ ہی نہیں ہیں کسی آستاں سے ہم

 

رکھتا نہیں ہے کوئی ’’شہادت‘‘ کا حوصلہ

اس کے خلاف لائیں گواہی کہاں سے ہم

 

محفل میں اس نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا

اٹھنے لگے تھے ایک ذرا درمیاں سے ہم

 

حد جس جگہ ہو ختم حریفاں خیرؔ کی

واللہ شروع ہوتے ہیں اکثر وہاں سے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

یہ احترام یہ اکرام کیسے نکلے گا

مرے قلم سے ترا نام کیسے نکلے گا

 

اگر شہید نہیں ہے تو پھر تو غازی ہے

وہ کار زار سے ناکام کیسے نکلے گا

 

میں جانتا ہوں مجھے رات کا ٹنی ہو گی

اب آفتاب سرِ شام کیسے نکلے گا

 

بنانے والا تو بگڑی بنا ہی دیتا ہے

تو سوچتا تھا مرا کام کیسے نکلے گا

 

بھگت رہے ہیں سزائے گناہ نا کردہ

ہمارے سر سے یہ الزام کیسے نکلے گا

 

جو لامکاں ہے اُسی کو نکالنا ہو گا

ایودھیا سے بھلا رام کیسے نکلے گا

 

نہ برف زار نہ پنجاب ہی نکل پایا

تو پھر یہ ہاتھ سے آسام کیسے نکلے گا

 

میں صاحبانِ قلم کی کتابِ خوش میں نہیں

تو میرے نام یہ انعام کیسے نکلے گا

 

کلام خیرؔ تو تم نے ابھی پڑھا ہی نہیں

خیالِ حافظ و خیام کیسے نکلے گا

 

کتابِ خوشGood books=

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یہاں تو بیٹھے ہیں ہم آزمائے دیدہ و دل

جسے گنوانا ہو، جائے گنوائے دیدہ و دل

 

بدلتی رہتی ہے آب و ہوائے دیدہ و دل

ہم ایک عمر سے ہیں آشنائے دیدہ و دل

 

کوئی لکیر کوئی نقش پائیدار نہیں

پلک جھپکتی ہے حیرت سرائے دیدہ و دل

 

یہ شہر شہر تھا اس کی گلی کی نسبت سے

بچا ہی کیا ہے یہاں اب برائے دیدہ و دل

 

خدا کرے کہ تمہیں بھی نظر یہ مل جائے

میں دیکھتا ہوں بہت ماورائے دیدہ و دل

 

الگ ہیں اس کی وفا داریاں زمانے سے

دماغ ہو گا کہاں ہم نوائے دیدہ و دل

 

فقیر اپنی جگہ مست و بے نیاز تو ہے

متاع کچھ بھی نہیں ہے سوائے دیدہ و دل

 

ترے لیے مری پہچان، امتحان بھی ہے

کبھی تو دیکھ ہٹا کر ردائے دیدہ و دل

 

نصیب چین سے پھر بیٹھنا نہیں ہو گا

اگر قبول کرو گے صلائے دیدہ و دل

 

ہے سخت میرے یقین و گمان کا معیار

خلاف عقل تو دیتے ہیں رائے دیدہ و دل

 

ہمیں خلاف توقع جو خیرؔ ملتے ہیں

کبھی وہ بھرتے نہیں زخم ہائے دیدہ و دل

٭٭٭

 

 

 

 

گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے

پرندہ بھی شکاری کی سپاری لے کے نکلا ہے

 

نکلنے والا یہ کیسی سواری لے کے نکلا ہے

مداری جیسے سانپوں کی پٹاری لے کے نکلا ہے

 

بہر قیمت وفاداری ہی ساری لے کے نکلا ہے

ہتھیلی پر اگر وہ جان پیاری لے کے نکلا ہے

 

سفاری سوٹ میں ٹاٹا سفاری لے کے نکلا ہے

وہ لیکن ذہن و دل پہ بوجھ پھاری لے کے نکلا ہے

 

یقیناً ہجرتوں کی جانکاری لے کے نکلا ہے

اگر اپنے ہی گھر سے بے قراری لے کے نکلا ہے

 

کھلونے کی تڑپ میں خود کھلونا وہ نہ بن جائے

مرا بچہ سڑک پر ریز گاری لے کے نکلا ہے

 

اگر دنیا بھی مل جائے رہے گا ہاتھ پھیلائے

عجب کشکول دنیا کا بھکاری لے کے نکلا ہے

 

خطا کاری مری امیدوار دامن رحمت

مگر مفتی تو قرآن و بخاری لے کے نکلا ہے

 

جھلکتا ہے مزاج شہر یاری ہر بن موسے

بظاہر خیرؔ حرفِ خاکساری لے کے نکلا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ہر چند کہ صاحب نظراں ہم نہیں ہوتے

وہ گوشۂ ویراں ہے جہاں ہم نہیں ہوتے

 

ہونے کو تو اے دوست کہاں ہم نہیں ہوتے

شاید تری آنکھوں پہ عیاں ہم نہیں ہوتے

 

میزان میں پاسنگ کا پتھر تو نہیں ہیں

ارزاں بھی کہاں ہیں جو گراں ہم نہیں ہوتے

 

میدانِ شہادت کو بھلا پیٹھ دکھاتے !

ہوں گے وہ کوئی اور میاں ہم نہیں ہوتے

 

آخر کو ہیں مارے ہوئے اس نام و نشاں کے

اتنا تو ہے بے نام و نشاں ہم نہیں ہوتے

 

اس گھر سے ترے نام کی تختی نہ ہٹے گی

ظاہر ہے کرائے کا مکاں ہم نہیں ہوتے

 

وابستۂ ممتاز نہ پابستۂ اورنگ

ہاں یاد رہے شاہ جہاں ہم نہیں ہوتے

 

دیتے ہیں اگر جان تو لیتے بھی ہیں جانیں

دشمن کے کبھی زیر اماں ہم نہیں ہوتے

 

دراصل امام اپنا نہ مسجد ہے وہ اپنی

بیدار جو سن کر بھی اذاں ہم نہیں ہوتے

 

اردو سے دکن اور ہے اردو بھی دکن سے

کیا کہتے ہو اب اہلِ زباں ہم نہیں ہوتے

 

ہے خیرؔ یقیناً تری فہرست میں شامل

واللہ گرفتارِ گماں ہم نہیں ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ توقع ہے کہ ہو جائیں خرابے آباد

ایک مدت سے ہیں آنکھوں کے دو آبے آباد

 

جا بجا کوچہ تعبیر ز خوابے آباد

دیدہ و دل ہیں مگر اس کے بِنا بے آباد

 

اب کہیں سونے کی چڑیا کا ٹھکانہ نہ رہا

شاخ در شاخ ہوئے خون خرابے آباد

 

کیا ضروری ہے کہ ہو رد عمل بھی ظاہر

میرے اندر ہیں بڑے شور شرابے آباد

 

اوب جاتے ہیں جو وہ نان و نمک سے گھر کے

شہر سے دور کیا کرتے ہیں دھابے آباد

 

آخرکار وہی ان کے ٹھکانے ٹھیرے

شوقیہ کرتے تھے احباب خرابے آباد

 

شہر تو شہر ہے اب شہر خموشاں نہ بچا

ایک اک موڑ پہ ہیں شور شرابے آباد

 

آج بھی ان کی ہے پہچان اُسی مٹی سے

خاک زادوں نے جسے چھوڑ دیا بے آباد

 

خیرؔ جس خاک سے ہوتے تھے پیمبر پیدا

اب اسی خاک کو کرتے ہیں دبابے آباد

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

سرابوں کی وہ محفل تو سجی ہے

مگر پیاسا جگر ہی ہے نہ جی ہے

 

کہیں ثانی تمہارا بھی اجی ہے؟

کوئی سمجھے تو یہ ذہنی کجی ہے

 

بنائے امن رکھی ہے لہو پر

عمارت میں تو بنیادی کجی ہے

 

نکھرنا ہے ابھی انسانیت کو

ابھی تصویر انساں ملگجی ہے

 

یہاں مجبور ہیں سب دل کے ہاتھوں

چلو چھٹی ہوئی گھنٹی بجی ہے

 

ستاروں سے اگر نسبت ہے تم کو

ہمارا خانوادہ سورجی ہے

 

مری تنہائی پر احسان مت کر

تری محفل تو خود میں نے تجی ہے

 

چھپاؤ خیرؔ خوشبوئے محبت

کسی کی سادہ لوحی ملتجی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کس منہ سے باریاب وہ ہو گی خدا کے پاس

پروانۂ درود نہیں ہے دعا کے پاس

 

کعبے کے ساتھ ساتھ مدینہ دکھا دیا

اللہ نے کرم یہ کیا ہے بلا کے پاس

 

دھرتی تری کنیز ہے سورج غلام ہے

تیرا چراغ رہن نہیں ہے ہوا کے پاس

 

آقا نے بہترین وظیفہ سکھا دیا

لونڈی نہ تھی غلام نہ تھا فاطمہ کے پاس

 

عرش بریں پہ صورت اصلی میں پھر ملا

دیکھا تھا جس کو آپ نے غار حرا کے پاس

 

کوثر پہ روک دیں گے فرشتے بڑھا کے ہاتھ

پہنچیں گے بدعتی جو رسولِ خدا کے پاس

 

میں کچھ نہ کر سکوں گا جو دامن تہی ہو تم

آقا نے فاطمہ سے کہا تھا بٹھا کے پاس

 

میں پڑھ رہا تھا خیرؔ جو اشعار ڈوب کے

وہ سن رہے تھے جیسے مری نعت آ کے پاس

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ نوازش جو اشارے کی نکل آئی ہے

کوئی صورت تو گزارے کی نکل آئی ہے

 

وہ مجھے دیکھ لیا کرتا ہے گاہے گاہے

آس کیا کیا نہ سہارے کی نکل آئی ہے

 

نیند کر دے نہ کہیں مشرق و مغرب کی حرام

چیخ اک درد کے مارے کی نکل آئی ہے

 

برف زادے ہیں مقامات مقدس کے حریف

آزمائش بھی شرار ے کی نکل آئی ہے

 

آسماں سونپ دیا اس نے زمیں کے بدلے

پا بجائی یہ خسارے کی نکل آئی ہے

 

بھول بیٹھے تھے بہت،پھول بہت بیٹھے تھے

اب ہوا ان کے غبارے کی نکل آئی ہے

 

ہم نے تو پھول کھلانے کی بہت کوشش کی

راہداری تری گار ے کی نکل آئی ہے

 

کاش اے خیرؔ وہ تخلیق ہماری ہوتی

جان جو سارے شمارے کی نکل آئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اگر مجھ کو قلم زد کر رہے ہیں

وہ اپنے آپ کو رد کر رہے ہیں

 

کہاں کے زلزلے کیسا سنامی

خود انساں پار ہر حد کر رہے ہیں

 

ابھی آنکھیں ہزاروں ،خواب لاکھوں

وہ ملبے سے برآمد کر رہے ہیں

 

جنھیں تحقیق کا چسکا نہیں ہے

وہ تقلید اب و جد کر رہے ہیں

 

محمد نے کہا کچھ اور ہی کچھ

غلامانِ محمد کر رہے ہیں

 

جنھیں اپنوں میں ہونا تھا مشرف

وہ غیروں کی خوشامد کر رہے ہیں

 

دکھا کر آئینہ اربابِ شر کو

جناب خیرؔ بھی حد کر رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

زندگی جیتے ہیں سمجھوتے کی، فطرت کے خلاف

ایک دنیا ہی ہے صف آراء بغاوت کے خلاف

 

کان بھی ہوتے ہیں دیواروں کے آنکھیں ہی نہیں

سر اٹھانے کی کوئی صورت نہیں چھت کے خلاف

 

قصر آخر حلق سے نیچے اترتا کیوں نہیں

جاں ہلاکت میں نہ ڈالا کر سہولت کے خلاف

 

کب سے ہوں میں بھی دکھی کب ہے بتا تو بھی سکھی

اپنی حالت پر نظر کر میری حالت کے خلاف

 

ایک بدعت کیا ہوئی رائج کہ سنت مر گئی

ہے تصوف کا یہ چکر ہی شریعت کے خلاف

 

میرے اندر کا جو شاعر ہے توازن آشنا

دیدہ و دل کب نہیں ہوتے اطاعت کے خلاف

٭٭٭

 

 

 

 

جو اپنی تشنہ لبی کی بقا ضروری ہے

سمندروں سے سلام و دعا ضروری ہے

 

وہ کہہ رہے ہیں کہ کہنا یہ کیا ضروری ہے

ہمارے واسطے یہ واسطہ ضروری ہے

 

ذرا نوشتۂ دیوار پڑھ لیا کرنا

ہر ایک بات پہ ہنگامہ کیا ضروری ہے

 

یہ باب کرب و بلا بند ہی نہیں ہوتا

نتیجہ خیز کوئی معرکہ ضروری ہے

 

میں چپ رہوں گا تو پھر چپ نہیں رہے گا کوئی

اسی لیے مرا منہ کھولنا ضروری ہے

 

سب اپنے آپ سے واقف ذرا نہیں لگتے

اب اس مکان میں اک آئینہ ضروری ہے

 

دکن میں شعرو ادب کا جو ذکر چھڑ جائے

رؤف خیرؔ ترا تذکرہ ضروری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اک حرف خوش گماں سے بہلنے لگی ہے شام

اس کے خیال ہی سے مچلنے لگی ہے شام

 

چبھنے لگی تھی آنکھ میں سورج کی روشنی

اس کے بغیر اور بھی کھلنے لگی ہے شام

٭٭٭

 

لمحہ بہ لمحہ پھولنے پھلنے لگی ہے شام

جب سے کہ آفتاب نگلنے لگی ہے شام

 

کوفے میں بھی وہ صبح قیامت سے کم نہ تھی

بغداد میں بھی رنگ بدلنے لگی ہے شام

 

شب خون مارنے پہ بھی مجبور کر گئی

دیکھا کہ اپنی حد سے نکلنے لگی ہے شام

 

اس کا عروج ہی تو ہمارا زوال ہے

بادل بنو کہ آگ اگلنے لگی ہے شام

 

کرنے لگا ہے شیخ جیالوں کی مخبری

یہ کیسے کیسے راز اگلنے لگی ہے شام

 

اے طالبان صبح، شرارت تو دیکھنا

کالک تمہارے چہروں پہ ملنے لگی ہے شام

 

یہ مغربی بساط الٹنے کی چال ہے

جو چال کے جواب میں چلنے لگی ہے شام

 

روشن ہمارے ’’تیل‘‘ سے ہوتے ہیں جن کے گھر

ان کو رہے خیال کہ ڈھلنے لگی ہے شام

 

ہر شر پسند خیرؔ سے جلتا تو ہے مگر

یہ کیوں ہمارے نام سے جلنے لگی ہے شام

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شاطر وہ خواب دیکھتا ہے شاہ مات کا

مہرہ ہے یہ سپاہی اسی کی بساط کا

 

آتا ہے سر کچلنا ہمیں شر صفات کا

یہ بت بنا ہوا ہے ہمارے ہی ہات کا

 

دن کا ٹھکانہ ہے نہ بھروسہ ہے رات کا

ہے فلسفہ عجیب حیات و ممات کا

 

نادان کیسے کیسے کنویں جھانکنے لگا

چکر خراب ہوتا ہے آب حیات کا

 

لاوا پھٹا زمیں سے کبھی آسمان سے

دن رات امتحان ہے پائے ثبات کا

 

گھر گھر کی مخبری میں بھی وہ پیش پیش ہے

پابند بھی ضرور ہے صوم و صلوۃ کا

 

فنی اشاریت، ادبیت میں حسن ہے

اظہار برملا نہ کرو جنسیات کا

 

سر پر اٹھا اٹھا کے نہ پانی میں پھینکئے

اب اس میں کیا قصور ہے لات و منات کا

 

طے ہے رؤف خیرؔ ادا کر رہا ہوں میں

کچھ فرض دن کا ہوتا ہے کچھ قرض رات کا

٭٭٭

 

 

 

 

توہین ہے ندی کی کناروں کا تال میل

ممکن نہیں ہمارے ستاروں کا تال میل

 

کرتے ہیں وہ یہودو نصاریٰ سے دوستی

آمادہ دشمنی پہ ہے یاروں کا تال میل

 

ہم بے زمیں ضرور ہیں بے آسماں نہیں

لائے گا رنگ عرض گزاروں کا تال میل

 

سمجھے گا فرد فرد کو نامرد تابکے

دن رات لال پیلے اداروں کا تال میل

 

اک دن بساطِ ظلم الٹنی ضرور ہے

ہو گا کبھی تو درد کے ماروں کا تال میل

 

وہ ایک اپنے ساتھ ہے ہم اس کے ساتھ ہیں

اب کیا بگاڑ لے گا ہزاروں کا تال میل

 

نادان یہ سمجھتے ہیں نادان ہم بھی ہیں

ہم جانتے ہیں خیرؔ اشاروں کا تال میل

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہزار حوصلہ یوں تو جہان بھر سے ملا

بڑھا وا اور ہی لیکن تری نظر سے ملا

 

ہوا میں اس نے اشارہ کوئی اچھال دیا

چلو یہ پھول تو اک شاخِ بے ثمر سے ملا

 

قدم قدم پہ ہے میرے لہو کی گل کاری

سراغ رنگ وفا میری رہگزر سے ملا

 

سفر میں ہم بھی پڑاؤ کے کب رہے قائل

نہ پھول پھل ہی نہ سایہ کسی شجر سے ملا

 

خدا کے واسطے بخشش نہ دیں مرا حق دیں

ملا ہی کیا جو کسی سے اگر مگر سے ملا

 

ابھی ابھی تو میاں تو نے آنکھ کھولی ہے

ابھی نہ آنکھ کسی چشم معتبر سے ملا

 

وہ ضد میں آپ ہی اپنے خلاف جاتا ہے

رؤف خیر کو ہر اعتبار شر سے ملا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل و دماغ کو آرام بھی نہیں ملتا

وظیفہ خوار کو اب کام بھی نہیں ملتا

 

نہ دن گزرتا ہے اپنا نہ رات کٹتی ہے

وہ ملنے والا سر شام بھی نہیں ملتا

 

یہ نرم چارہ نہیں سخت آزمائش ہے

پڑا ہوا جو کہیں دام بھی نہیں ملتا

 

خدا کو گھول کے کچھ لوگ پی گئے کب کے

ہمیں تو کوچۂ اصنام بھی نہیں ملتا

 

کسی سے کیسے کہوں یہ کتاب میری ہے

کسی ورق پہ مرا نام بھی نہیں ملتا

 

خدا سے خیرؔ ہوئیں کب کی مسجدیں خالی

ایودھیا میں کہیں رام بھی نہیں ملتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ مارتا نہ اگر موذیوں کو، مر جاتا

پھر اپنی جان بچانے کدھر کدھر جاتا

 

بھٹک رہا ہے کہ بھٹکا دیا ہے خود تو نے

خراب حال وہ کس منہ سے اپنے گھر جاتا

 

مجھے بھی رکنا تجھے روکنا نہیں آتا

ترا گمان غلط تھا کہ میں ٹھہر جاتا

 

مجھے سنبھال لیا اس نے دے کے سرکی قسم

وگرنہ جان کی بازی میں ہار کر جاتا

 

اب آسمان سے بہتر کوئی زمین نہیں

کہاں میں کر کے بھلا ترکِ مستقر جاتا

 

رکا ہوا ہوں تو کچھ اور سوچ کر ورنہ

میں لوٹ کر نہیں آتا کبھی اگر جاتا

 

ازل سے خیرؔ ہے تریاق میری گھٹی میں

مجال کیا تھی کہ زہراب کام کر جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دنیا تو بچھاتی تھی ہر موڑ پہ دام اپنا

بچ بچ کے گزرنا ہی برسوں سے ہے کام اپنا

 

مائل تھی بنانے پر دنیا تو غلام اپنا

خالی ہی رہا کب سے اس بزم میں جام اپنا

 

ہر چند کہ لمحاتی ٹھیرا ہے قیام اپنا

تا حشر کہاں ٹھیرے گا حسنِ کلام اپنا

 

آنے نہیں دیتا تھا دنیا میں نظام اپنا

مولود تو لاتا ہے ساتھ اپنے طعام پنا

 

دیوار نہ در اپنا ایوان نہ بام اپنا

ہم دوست جسے سمجھے دشمن تھا مدام اپنا

 

الزام تجھے کیا دیں تھا مال ہی خام اپنا

گرتا ہی رہا ہر دم بازار میں دام اپنا

 

کوشش تو یہی کی تھی بن جائے مقام اپنا

تھا کام تو غیروں کا جھنڈے پہ تھا نام اپنا

 

جاتے ہوئے موسم کی خدمت میں سلام اپنا

تو چھوڑ کے جاتا ہے نام اپنا مقام اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

امید ہے روشن سب ہو جائے گا حال اپنا

اب موسمِ آئندہ رکھے گا خیال اپنا

 

بھاری ہو کمالوں پر ادنی سا کمال اپنا

ہو گا نہ یوں آہستہ آہستہ زوال اپنا

 

آغاز جو اچھا ہو اچھا ہے مآل اپنا

قربان محبت پر سب مال و منال اپنا

 

سیکھو تو سہی پہلے خود رکھنا خیال اپنا

تب موسم آئندہ بن جائے گا ڈھال اپنا

 

بس ایک لطیفہ ہے سب رنج و ملال اپنا

حالات پہ ہنسنے کا موقع تو نکال اپنا

 

میزان میں دفتر کا دفتر بھی تو ڈال اپنا

انصاف کے اے طالب دہرا نہ سوال اپنا

 

ہم ہوش میں آئیں گے تو آئے گا سال اپنا

خود موسم آئندہ رکھے گا خیال اپنا

 

اب نفس کے پیروں میں رسا بھی تو ڈال اپنا

اب جیب و گریباں میں دشمن تو نہ پال اپنا

 

ہر مسجد ویراں میں پیدا ہو بلال اپنا

منزل بھی اجال اپنی رستہ بھی اجال اپنا

 

رد ہوتا رہے گا کیا ہر بار سوال اپنا

ہم پیش کریں کب تک یوں دوسرا گال اپنا

 

اے موسم آئندہ کر کچھ تو خیال اپنا

اب وقت ہے دکھلا د ے دنیا کو جلال اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جو اتحادِ دل ما و تو نہ راس آئے

تو پھر یہ طے ہے کہ دنیائے ہو نہ راس آئے

 

ہمارے دیدہ و دل سے جو دور جاتے ہو

خدا کرے کہ یہ دوری کبھو نہ راس آئے

 

ہماری آج بھی خوننابیت سلامت ہے

دعا کرو کہ کسی کا لہو نہ راس آئے

 

بہ جبر دل سہی تیری گلی سے کیا اٹھے

تو پھر خدا کی قسم کاخ و کو نہ راس آئے

 

دماغ سے نہ گئی تیری بوئے خوش بدنی

یہ حال اب ہے کہ منٹوؔ کی ’’بو‘‘ نہ راس آئے

 

رؤف خیر سلامت ہے آرزو اس کی

اب اس کے بعد کوئی آرزو نہ راس آئے

٭٭٭

 

 

 

 

بزدل

 

میں ایک بزدل

قصور اپنا قبول کرنے سے ڈر رہا تھا

وہ اک بہادر

کہ چشمِ کم سے نہ دیکھا مجھ کو

مگر میں اپنی نظر میں کم قد

چلی گئی وہ

اٹھا کے سینے پہ بوجھ بے حد

چلی گئی وہ

کہیں بھی اپنا نشاں نہ چھوڑا

میں اپنی کم ہمتی میں نادم

اندھیرے رستے پہ گھورتا ہوں

وہ بے نشاں تو نہیں ہے

پھر بھی وہ بے نشاں ہے

میں بے نشاں تو نہیں ہوں

پھر بھی میں بے نشاں ہوں

ُاُسی کے حق میں

٭٭٭

 

 

 

 

ہائیکو +تنکا

 

 

وہ اوروں کا مال

کن انکھیوں سے چاہے دیکھ

آنکھیں مت کر لال

دن میں یوں مت سپنے دیکھ

اپنی حالت پہلے دیکھ

٭

 

پرکھوں کا یہ مال

بھائی کو کھا لینے دے

وکلاء کو مت پال

اندھا ریوڑی بانٹے گا

بندر روٹی بانٹے گا

٭

 

 

بد کوئی نہ نیک

میں بھی تم بھی کلمہ گو

اپنی کشتی ایک

شیعہ ہو یا سنی ہو

للہ بم تو مت پھینکو

٭

 

جھگڑوں میں مت پڑ

جس کا مسلک اس کے ساتھ

آپس میں مت لڑ

جس کی عینک اس کے ساتھ

جا ہر دل تک اس کے ساتھ

٭

 

 

دانا بن نادان

دل پر حملے کی گھنٹی

چھٹی کا اعلان

کر لینی ہے تیاری

چھٹنے والی ہے گاڑی

٭

 

 

بے چین و بے تاب

تعبیروں سے ڈرتی ہے

آنکھیں ہیں بے خواب

اللہ اللہ کرتی ہیں

خالی آہیں بھرتی ہیں

٭

 

 

 

دفتر ہو یا ہاٹ

اندھوں کی اس نگر ی میں

ہر سو بندر بانٹ

آپس کی نادانی میں

دونوں ڈوبے پانی میں

٭

 

کچھ تو نادانی

سرزد ہوتی رہتی ہے

اکثر ہم سے بھی

سادہ لوحی اپنی ہے

لوگوں کی چالاکی ہے

٭

 

 

 

کب تک ڈھو گے یار

دانائی کے کاندھوں پر

نادانی کا بار

مہریں کانوں آنکھوں پر

چپ سی چپ ہے ہونٹوں پر

٭

 

یہ ہے سب سنجوگ

کیسے کیسے عہدوں پر

ایسے ویسے لوگ

قابض ہیں ایوانوں پر

مشفق ہیں شاگردوں پر

٭

 

 

دیکھا ہے برسوں

اکثر دھوکا ہوتا ہے

اپنوں کے ہاتھوں

یہ کیسا سمجھوتا ہے

جو پاتا ہے کھوتا ہے

٭

 

 

جائیں کس کے گھر

دروازوں پر لکھا ہے

کتوں سے بچ کر

ہر جانب اک ڈر سا ہے

ہر اک رشتہ جھوٹا ہے

٭

 

 

کس سے ہو فریاد

تجھ کو بھولا ہندوستان

مولانا آزاد

کیا پہچانیں گے نادان

سب پر ہے تیرا احسان

٭

 

 

یہ بھی ہے اک جُل

جب وہ باندھا کرتا ہے

تعریفوں کے پل

اتنا ناداں سمجھا ہے

ہم کو لوٹا کرتا ہے

٭

 

 

ناخن ٹوٹا ہے

ذہن و دل سے جو اترا

وہ کب اپنا ہے

اس سے اپنا رشتہ کیا

ہلکا ہے آخر ہلکا

٭

 

 

سب پر کھلنا مت

ایسے ویسے لوگوں سے

ملنا جلنا مت

دوری رکھ ہمسایوں سے

چو کنارہ گھاتوں سے

٭

 

 

وہ بھی نکلا حُر

جس پر لشکر نازاں تھا

وہ چڑیا بھی پھر

٭

 

جب بھی وعدہ کر

چاہے جو بھی ہو جائے

اس کو پورا کر

٭

 

نفرت کا اظہار

اب کتنی جانیں لے گا

اے وہ بم بردار

٭

 

 

گانے پر سر دھن

میری غزلیں کیا سنتا

جا قوالی سن

٭

 

نا اچھی نہ ہاں

بیٹے سارے نافرمان

گم صم دھرتی ماں

٭

 

چھوٹی موٹی بھول

ہر اک سے ہو جاتی ہے

لے مت یوں محصول

٭

 

خوش خوش رہنا ہے!

اِن سے اُن سے کیا کہنا

تم سے کہنا ہے

٭

 

جی میں ہے پوچھوں

وہ مجھ سے ناواقف کیوں

میں تو واقف ہوں

٭

 

 

دھیرے دھیرے چل

تیزی میں اندیشے ہیں

مت ہو جا پاگل

٭

 

خاموشی کب تک

دل کی دل میں رکھے گا

کاغذ پر بھی رکھ

٭

 

یہ ڈھب اپنا ہے

ذہن و دل پر جو اترا

وہ سب اپنا ہے

٭

 

 

دو شیروں کے بیچ

آئینہ بے پارہ رکھ

ہم زلفوں کے بیچ

٭

 

اپنے پیچھے چور

نقش پا تو چھوڑے گا

سلجھا لے یہ ڈور

٭

 

 

بس اتنا مت کر

چھوٹی چھوٹی باتوں سے

جی میلا مت کر

٭٭٭

 

 

 

 

سبھی یک مصرعی نظمیں بہ یک عنوان ’’ہمسایہ‘‘

 

(۱) ہمسایہ ہے ازل سے اسیرِ مسابقت

 

(۲)ہمسایہ خوش تو سمجھو ہے سوتیلا بھائی خوش

 

(۳)تمہارے بارے میں تم سے زیادہ جانتا ہے

 

(۴)وہ ہمسایہ نہیں سایہ ہے تیرا

 

(۵)نہیں ہے حقِ وراثت،اسی کا ماتم ہے

 

(۶)کسی سے کوئی بھی ہمسایہ خوش نہیں ہوتا

 

(۷)کرے پردہ پڑوسن سے پڑوسن

 

(۸)پڑوسی کو پڑوسن دل سے کب بھائی سمجھتی ہے

 

(۹)پڑوسن کے جو بچے ہیں پڑوسی ہی سمجھتے ہیں

 

(۱۰)لڑائی ساس بہو میں اسی کے دم سے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

’’جان‘‘ کے عنوان پر یک مصرعی نظمیں سبھی

 

(۱)جان دینا بزدلی ہے جان لے

 

(۲)ترپ کا آخری پتہ ہی جان ہوتا ہے

 

(۳)اس دیوِ نام دار کی طوطے میں جان ہے

 

(۴)جان سے بڑھ کے جانِ من بھی نہیں

 

(۵)موذی کی جان بخشنا، توہینِ جان ہے

 

(۶)جان لینا بھی جان دینا ہے

 

(۷)جان میں جان آ گئی تم سے

 

(۸)جان دینے کی شرط ہے جاناں

 

(۹)میں اپنی جان بچا کر کہاں چلا آیا

 

(۱۰)میری جان کی قیمت تیری جان ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یک مصرعی نظمیں

 

 

مکان :

چراگاہوں سے جب چھوٹو تو اپنے آشیاں پہنچو

 

پروین شا کر:

مدھوبالا سخن کی اک ریبیکا ٭

٭(دنیا کا حسین ترین سنگِ مرمر کا مجسمہ جو سالار جنگ میوزیم میں ہے )

 

عرفان صدیقی :

یہ یارِ غار تو خاک نجف کا ہے پیوند

 

انیس و دبیر:

پہنچ گئے لبِ دجلہ تلاشِ زم زم میں

 

حالیؔ:

ازارِ شعر ٹخنو ں سے ہے اوپر

 

احمد فراز:

پرانی شہرتیں ہیں او ر ہم ہیں

 

فراق :

بے خواب اس کے جسم میں راون بھی رام بھی

 

جگن ناتھ آزاد :

ایک کوّا گائے پر بیٹھا ہوا ہے

 

میراؔ جی:

گولے ہیں ،جوئے با رہے میراؔ کا خواب ہے

 

ATMکا چوکیدار :

بیٹھا ہوا ہے پیاسا کنویں کے منڈیر پر

 

نقاد(مدیرِ مباحثہ):

بہاری اشرفی بھی یک رخی ہے

 

ناسخ:

میں اپنے آپ کو منسوخ کر نہیں سکتا

 

اعلانِ جنگ:

ہم کو آتا نہیں الفاظ کو واپس لینا

 

درویش کا کشکول :

دریا کے منہ پہ کاسۂ حباب الٹ دیا

 

تعلق :

تمہارے گھر کے آگے فیل ہوتی ہے مری گاڑی

 

شاعر سے :

مرے مصرعے پر مصرع مت لگانا

 

گیا ن چند جین :

مینگنی دودھ میں ڈال دی

 

البم :

مرے بغیر ادھورا ہے تیرا البم بھی

 

ٹیسٹ ٹیوب بے بی :

ہے تخم مستعار سے سرشار سر زمیں

٭٭٭

 

 

سیاسی یک مصرعی نظمیں

 

 

نہرو:

اس کا ہر خواب پورا ہوا

 

گاندھی:

جاگتی آنکھوں کے سپنے لے گیا

 

سردار پٹیل:

خواب واب کا قائل ہی کبھی نہیں لگتا

 

اندرا گاندھی:

دیووں کے قبضے میں سپنوں کی رانی

 

راجیو گاندھی:

سپنوں کے مارے کو مارا گیا

 

سونیا گاندھی:

نہ وہ قصاص کی قائل نہ خوں بہا کی ہے

 

را ہول گاندھی:

نیند کا کچا ہے لیکن خواب پکے دیکھتا ہے

 

پرینکا گاندھی:

الگ دن رات اس کے خواب اس کے

 

لال بہادر شاستری:

کابوس کے غضب سے بے خواب ہو گیا وہ

 

اڈوانی :

گھوم رہا ہے سپنے لے کر خوابوں کا سوداگر

 

واجپئی:

دیدے گھٹنے خواب ہوئے

 

مولانا ابوالکلام آزاد:

ارے تم کیا تمہارا خواب ہی کیا

 

سر سید احمد خاں :

تمہارا خواب سچا خواب کی تعبیر بھی سچی

 

جناح:

(دوسروں کے ) خواب کی تعبیر ان کو مل گئی

 

اقبال:

سرہانے خواب رکھ کر سو رہا ہے ؟!

 

ساٹھا پاٹھا:

میں ہوں تو ساٹھ سال کا،سٹھیا نہیں گیا

 

نواسے :

تھے کس قدر عزیز نواسے رسول کو

 

ہدایت :

میں جہاں رکھتا ہوں جو چیز وہیں رہنے دو

 

کئی چاند تھے سرِ آسماں :

حرام زادی نے داغ حرام زدگی دیا

 

ناپسندیدہ رشتہ دار :

درختِ نیم پہ یہ قرضدار کا پتہ

 

ظالم بہو:

سسرال میں لڑکی ہے کہ دریا میں ہے گھڑیال

 

بظاہر :

بظاہر وہ ’’یک زوجئے ‘‘ تو رہے ہیں

 

 

اہل قلم :

جیب میں ہم بھی تو سرخی کا قلم رکھتے ہیں

 

تقسیم :

ادب کی امت امام گوپی نظام شمس میں بٹ گئی ہے

 

پیش بندی و پابندی :

قلم برہنہ صحافیہ،پا برہنہ آؤ

 

انصاف :

شہادت دے بھلے مقتول،قاتل چھوٹ جاتا ہے

 

ہم سے زمانہ :

فرزندِ جامعہ پہ کرے ناز جامعہ

 

سیاست :

زاہد کی سیاست ہے رندوں کو لڑا دینا

 

دونوں :

اک سلسلے میں دونوں ہی بے سلسلہ ہوئے

 

روٹی کپڑا اور مکان :

ہمراہ بہرحال ہیں جمراتِ ثلاثہ

 

یادِ ماضی :

دن رات رقم دفتر ماتم نہیں کرتے

 

بھاگی ہوئی نومسلم :

بالغ نہیں ہے وہ ابھی سرکاری طور پر

 

نومسلم کا مسلم دوست:

زمینِ کفر میں اسلامی جھنڈا گاڑتا ہے

 

بے نیاز :

کرو نہ ہم کو حوالے امام ضامن کے

 

بے امام:

نہیں ہیں ہاتھ میں ناڑے امام ضامن کے

 

میر:

حشر ات میں وہ اژدرِ بے زہر گھرا ہے

 

سودا:

ہاتھوں میں دامِ شعر ہے انعام کی طرح

 

غالب :

تو کسی کا نہیں تھا اپنا تھا

 

اقبال:

کیا بے خود ۔ خودی اور بے خودی نے

 

داغ:

نظر اوپر قلم زیبِ کمر ہے

 

بہادر شاہ ظفر:

تو ظفر تھا تو ظفر یاب کئی تھے تجھ سے

 

یگانہ :

وہ شیشہ بکف ہاتھ سے شیشہ نہیں رکھتا

 

جوش ملیح آبادی :

مومنوں کا کافروں تھا،کافروں کا مومن تھا

 

امیر مینائی :

ہاتھ چھوٹے ہیں آستینیں بڑی

 

شکیب جلالی :

بیمۂ شعر نے مرحوم کو دھنوان کیا

 

کرامت علی کرامت :

تو اضافی نہ بن اضافہ بن

 

 

مغنی تبسم:

بدلتے رہتے ہیں وہ اپنا ’چشمہ‘

 

ذکی بلگرامی :

پڑا تھا آنکھ پہ آشوبِ ذات کا پردہ

 

مصلح الدین سعدی :

کرگس کی نگاہوں میں وہ شاہین مجسم

 

رضا وصفی :

کوئی ہمارے علاوہ جو ہے ،تو آئینہ

 

شاذ تمکنت :

شبنم مزاج اور کرن کا رفیق تھا

 

اقبال متین :

نوح بھی،کشتی بھی وہ طوفان بھی

 

خورشید احمد جامی :

وہ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ جانتے ہیں انھیں

 

مضطر مجاز:

انیسِ غالب و اقبال اور دبیرِ عدم

 

اوج یعقوبی :

وہ شاعر کم تھے شاعر گر زیادہ

 

صفی اورنگ آبادی :

جامِ سفال ان کا وہ جامِ سفال کے

 

مخدوم :

ہے اس کی ذات میں سرخی بھی سانولا پن بھی

 

سلیمان اریب:

نہ اس کو پاسِ گریباں نہ پاسِ دستِ صبا

 

شبلی نعمانی :

فیضِ عرب ہے او ر عطیہ عجم کا ہے

 

شمس الرحمن فاروقی :

الگ شیشہ الگ شیشے کا نمبر

 

گوپی چند نارنگ:

دیوار پر ہیں کانچ کے ٹکڑے لگے ہوئے

 

اندر باہر :

میرے بچے ملک سے باہر نہیں ہے شکر ہے ’’اندر ‘‘نہیں ہیں

 

مسلمان بیوی :

نصف بہتر تین پتھر کے مثلث پر ٹکی ہے

 

مسلمان شوہر :

وہ سربلند بہرحال’’ گھوکرو‘‘ کی طرح

 

 

مسلمان بہن :

بظاہر بھائی کی ہمدرد لیکن …

 

مسلمان بھائی :

سب کچھ ہے بہن کے لیے تر کے کے سوائے

 

مسلمان بیٹا :

وہ ہر لحاظ سے اورنگ زیب ہوتا ہے

 

ماں باپ :

ماں باپ ہی غلط ہوں تو اولاد بھی غلط

 

اولاد :

ایسی اولاد تو دشمن کو بھی اللہ نہ دے

 

رشتہ دار :

خوشی سے غم زدہ غم سے ہمارے خوش نظر آئے

٭٭٭

 

 

 

 

تم

 

مجھے معلوم ہے

میں ہوں تو تم ہو

اگر میں ٹوٹ جاؤں گا تو تم بھی

ٹوٹ جاؤ گی

میں

میں پاگل ہوں

مگر اتنا بھی اب پاگل نہیں ہوں

تمہارے بعد اس گھر میں

کوئی عورت نہ آئے گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ماں /باپ کی دعا

 

ہیں عبادت میں تری سرکو جھکا نے والے

دین و دنیا کا ہیں یہ نام جگانے والے

ٹیٹوا ظالم دوراں کا دبانے والے

وقت پڑ جائے تو پھر سر بھی کٹانے والے

میرے مالک مرے بچوں کی حفاظت فرما

عام ہے چشم کرم خاص عنایت فرما

میرے اللہ لڑائی نہ کوئی فرضی ہو

مانگ اجڑے نہ بھری گود کوئی خالی ہو

موت تو موت ہے اُس کی ہو کہ اب اِس کی ہو

زد میں وہ فرقہ پرستوں کی نہ پولس کی ہو

میرے بچوں کو کسی جال میں پھنسنے مت دے

میرے دشمن کو مرے حال پہ ہنسنے مت دے

میرے بچے مری طاقت مری کمزوری ہیں

جان دے سکتا ہوں ان کے لیے لے سکتا ہوں

میرے مالک میرے بچوں کو سبک دوشی دے

میں کوئی بوجھ اٹھانے سے کہاں تھکتا ہوں

میرے مالک مرے بچوں کو فراغت دے دے

سیر چشمی دے ،توکل دے ،قناعت دے دے

٭٭٭

 

 

 

 

حاجیو!

 

 

حاجیو ۔ اپنی دعاؤں میں مجھے یاد رکھو

سنگ اسود کوکرو میری طرف سے بھی سلام

ہو دعا سنگِ ملامت نہ میرے سر کو ملے

یہ دعا میرے لیے مانگنا دورانِ طواف

کوئی گردش نہ میری راہ کی دیوار بنے

 

تم مصلے پہ کھڑے ہو کے دعا یہ مانگو

میں کسی غیر کے آگے نہ جھکاؤں کندھے

حلق سے گھونٹ جو زم زم کے اتارو تو کہو

بھوک اور پیاس سے اللہ بچائے رکھے

 

سعی کرتے ہوئے مابین صفا مروہ کے

یہ دعا مانگو کہ پاؤں میں نہ چکر ہو کبھی

بال کٹواؤ تو میرے لیے مانگو یہ دعا

دل ہی آزادہ نہ شرمندہ مرا سر ہو کبھی

 

یہ دعا مانگو جو شیطانوں کو کنکر مارو

مجھ سے یہ روپ میں انسان کے دھوکا نہ کریں

وقتِ قربانی دعا میرے لیے بھی کرنا

مال و اسباب مری جان کا سودا نہ کریں

حاضری روضۂ اطہر پہ مدینے میں جو ہو

میری جانب سے بھی ہو پیش درود اور سلام

کعبۃ اللہ و مدینہ کی زیارت ہو نصیب

یہ سعادت ہے بڑی اس میں نہیں کوئی کلام

 

حاجیوں اپنی دعاؤں میں مجھے یاد رکھو

حج مبارک ہو تمھیں عید مسرت لائے

مانگنا میرے لیے وقتِ طواف رخصت

یہ سعادت مرے حصے میں بھی اک دن آئے

٭٭٭

 

 

 

 

صداقت نامۂ ناباقی لے کر

 

صداقت نامۂ ناباقی لے کر

وظیفے پر الگ جب ہو رہے تھے

ہمیں ثابت یہ کرنا پڑ رہا تھا

کسی کا کچھ بھی ہم باقی نہیں ہیں

نہ دینی ہیں کتابیں یا رسالے

نہ دینے ہیں کسی شعبے کے آلے

نہ ساماں کھیل کے کرنے تھے واپس

(کہ فرصت ہی کہاں تھی کھیلنے کی )

ہمارے نام باقی کچھ نہیں تھا

 

اٹھے ہم جائزہ دفتر کا دے کر

صداقت نامۂ ناباقی لے کر

وظیفے کا اسی پر فیصلہ تھا

مگر حیراں ہیں دفتر سے نکل کر

یہی اک فکر کھائے جا رہی ہے

صداقت نامۂ ناباقی ایسا

ہمیں اک اور بھی حاصل ہے کرنا

کہ جس پر دستخط ہوں ثبت اپنے

نبی،ماں باپ،بھائی اور بہن کے

چہیتی بیوی،بیٹوں ،بیٹیوں کے

پڑوسی،دوستوں کے ،دشمنوں کے

 

صداقت نامۂ ناباقی ایسا

ہے اک دفتر میں آگے پیش کرنا

اسی پر فیصلہ ہے زندگی کا

٭٭٭

صداقت نامۂ ناباقی۔ NO DUES CERTIFICATE

 

 

 

کمال کا نشہ

 

 

کچھ نفس کے غلام،نفس کے غلام ہیں

آقا نہیں جو ایک تو دس کے غلام ہیں

قبوں کے ہیں اسیر،کلس کے غلام ہیں

ہم آج تک بھی حرص و ہوس کے غلام ہیں

آزادیوں کا ذکر ہے ،شہرہ ہے ،نام ہے

آزادی کلی کا تصور ہی،خام ہے

دست دعا کبھی لب فریاد بھی ہوئے

خانہ خراب کیا کبھی آباد بھی ہوئے

گنتی میں جو نہ آئے وہ تعداد بھی ہوئے

سچ کہنا ۔ سچے معنوں میں آزاد بھی ہوئے ؟

آزادی ایک دو جے کی آزادیوں سے ہے

آبادی ایک دو جے کی آبادیوں سے ہے

آزادی فساد تو حاصل ضرور ہے

اک شوق بے نہاد تو حاصل ضرور ہے

جرموں کی اپنے داد تو حاصل ضرور ہے

پرکھوں کی جائیداد تو حاصل ضرور ہے

بھرتا نہیں ہے جی ابھی مال و منال سے

اب کیا نکل سکیں گے تعصب کے جال سے

باپوؔ کے، بہنوں ، ماؤں کے قاتل ہمیں میں ہیں

پوشیدہ دھوپ چھاؤ ں کے قاتل ہمیں میں ہیں

سرسبز رہنماؤں کے قاتل ہمیں میں ہیں

زندہ۔ مہاتماؤں کے قاتل ہمیں میں ہیں

قاتل نے سر پہ شوق سے الزام لے لیا

ہم نے بھی اس کو خلعت و انعام دے دیا

بھائی ہی پھینک دیتا ہے بھائی کو کاٹ کے

کیا کہنے اس کی شان کے ہمت کے ٹھاٹ کے

الفاظ مٹ گئے ہیں اشوکا کی لاٹ کے

گھاٹے کے تجربے ہیں اسے گھاٹ گھاٹ کے

ہیں نیک کے اسیر کہ بدکے غلام ہیں

اہلِ جنوں بھی کیسی خرد کے غلام ہیں

آزاد یوں کا لطف تو پابندیوں سے ہے

وہ خوش قدم کچھ اور حنا بندیوں سے ہے

آواز کی بقا بھی صدا بندیوں سے ہے

پینے کا جو مزہ ہے نشہ بندیوں سے ہے

ہے جام جم میں خیرؔ نہ جامِ سفال میں

ہوتا تو ہے کمال کا نشہ کمال میں

٭٭٭

 

 

میکہ

 

نندیں بہنیں کبھی نہیں بنتیں

اور دیور کہاں۔ کہا ں بھائی

ساس کے پاؤں داب لو پھر بھی

ماں کے قدموں تلے ہی جنت ہے

حکم دینا ہی ہے مزاجِ خسر

باپ بچوں پہ جاں نثار کرے

لاکھ خوش حال ہی سہی سسرال

ایک جنت سے کم نہیں میکہ

تم نے ماں باپ سے بغاوت کی

بھائی بہنوں کی بھی اہانت کی

اور میکے سے ہو گئیں محروم !

کون ظالم ہے کون ہے مظلوم؟

٭٭٭

 

 

 

سعدی بھائی کی دوسری برسی کے موقع پر

(۹جنوری ۲۰۰۵ء)

 

دکھائی دی ہے جہاں بھی سراب کی صورت

برس پڑا ہے وہیں وہ سحاب کی صورت

رموزِ خیر سے اسرارِ شر سے واقف تھا

وہ پیر خوش نظر و خوش خطاب کی صورت

پڑھوں۔ کہاں سے پڑھوں بھیگی بھیگی آنکھوں سے

نوشتۂ ورقِ انتخاب کی صورت

مجھے وہ رات کا جگنو بنا کے چھوڑ گیا

جو شخص ڈوب گیا آفتاب کی صورت

کتاب و الو کہاں بے کتاب ہے سعدی !

رؤف خیر ہے زندہ کتاب کی صورت

٭٭٭

 

ائمہ اربعہ

 

ابو حنیفہ

(۱۵۰۔ ۸۰ھ)

 

بو حنیفہ تھے تو ایرانی نژاد

اسّی میں کوفے میں وہ پیدا ہوئے

ڈیڑھ سو ہجری میں آخر بے کتاب

صفحۂ بغداد پر شیدا ہوئے

 

امام مالک

(۱۷۹۔ ۹۰ھ)

 

جو سفر مالک نے نوے سے کیا

ایک سو ستر پہ نو پر ختم تھا

آپ کے مونڈھے اتروائے گئے

مولد و مسکن مدینہ آپ کا

 

 

امام شافعی

(۲۰۴۔ ۱۵۰ھ)

 

ڈیڑھ سو ہجری میں آئے شافعی

جن کا مولد تھا فلسطینی غزہ

عمر چو ون سال تھی جب مصر میں

آئی دو سو چار میں ا ن کو قضا

 

امام احمد بن حنبل

(۲۴۱۔ ۱۶۴ھ)

 

ایک سو چونسٹھ میں شہر نجد میں

احمد حنبل جہاں پیدا ہوئے

دوسو اکتالیس میں بغداد کی

سرزمین کی آنکھ کا سرمہ ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سنگ بنیاد

 

 

میں اپنے گھر کا بزرگ و برتر

میں اپنا مالک میں اپنا نوکر

مجھے بھروسہ نہیں کسی پر

میں سنگ بنیاد آپ اپنا

حلاف بھی اپنے پہلا پتھر

٭٭٭

 

 

 

اک نظم وزیر آغا کے نام

(ڈاکٹر وزیر آغا کے تخلیقی شاہ کاروں کے حوالے سے )

 

 

یہ کیسی رس بھری آواز ہے

شام اور سائے

یہ کیا آواز ہے ؟ ۔ آواز کی خاطر

چنا ہم نے پہاڑی راستہ

دھنک آکاش پر پھیلی ہوئی ہے

سخن سارے ہمارے دم سے قائم ہیں

پگھلتی برف

دن کا زرد کوہستان

عجب اک مسکراہٹ

نردبان ۔ منزل یہ منزل

انوکھی اک کتھا ہم نے سنائی

مگر آدھی صدی کے بعد

یہ آواز کیا ہے ؟

ہم آنکھیں ہیں۔ ہماری آنکھ میں جب

پتلیاں ہیں

رسیلی گھاس میں سب تتلیاں ہی تتلیاں ہیں

ہمارے بعد تم نے دیکھنا ہے

پہاڑی راستہ بے چاپ

دن کا زرد کوہستان بے آہٹ

فلک کو بے دھنک بے مسکراہٹ

بے کتھا شام اور سائے

اور گہرے او ر گہرے

٭٭٭

 

 

 

 

ولیؔ

 

سخن کے باب میں ایسے ولی بھی ہوتے ہیں

مرید لکھنوی و دہلوی بھی ہوتے ہیں

 

جو اپنی آئینہ پیرا ہنی پہ نازاں تھے

وہی نمونۂ حیرانگی بھی ہوتے ہیں

 

لگا سکی نہ یہ باد شمال اندازہ

دکن کی خاک سے پیدا ولی بھی ہوتے ہیں

 

ولی نے جو دکنی میں کھلائے پھول وہی

حریفِ گل کدۂ فارسی بھی ہوتے ہیں

 

لگا کے جوڑ سلیقے سے دو زبانوں میں

نئی زبان کے بانی کوی بھی ہوتے ہیں

 

یہ میرؔ و حاتمؔ و فائزؔ یہ آبروؔ یک روؔ،

اثر پذیر ولی سے ولی بھی ہوتے ہیں

 

سخن شناس اگر ہیں تو مان کر دیں گے

رؤف خیرؔ جو زندہ ولی بھی ہوتے ہیں

۱۷۲۰ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے نظیر کا مشورہ اپنے بیٹے بلاول کو

 

 

مشورہ میرا اگر مانو حماقت سے بچو

کم سے کم تم ملک کی گندی سیاست سے بچو

 

یہ الگ ہے سب کسی قانون کے قائل نہیں

بے شریعت ہو تو پھر اہل شریعت سے بچو

 

لاکھ مت چھوڑو کہیں اپنے جرائم کا سراغ

عمر بھر کے خوفِ اربابِ شہادت سے بچو

 

کیا لیاقت کیا ضیا کیا ذوالفقار و بے نظیر

دیدہ عبرت اگر رکھتے ہو آفت سے بچو

 

ایک گولی ایک بے آواز لاٹھی ایک بم

جان لیوا ہے ہجوم بے نہایت سے بچو

 

اس بساط ہاؤ ہو پر ہے پیادہ بھی وزیر

آگے پیچھے سوچ لو اندھی جسارت سے بچو

 

مان لو ہے یہ صلاح خیر،ؔ ابنِ بے نظیر

کوچہ باطل میں اہلِ حق کی لعنت سے بچو

٭٭٭

 

 

 

 

 

میزان

 

ایک پلے میں کائناتِ نظر

دیدہ و دل،دماغ،فکر صحیح

ڈی وی ڈی،لیپ ٹاپ،کمپیوٹر

نصف بہتر تمام لخت جگر

پیارے ماں باپ بھائی اور بہن

ناتی پوتوں سے بولتا گھر بھر

سر چھپانے کا آسرا اک گھر

دین مالک کی باغ اور معدن

بائیک ہے کا رہے کہ سکوٹر

روحِ عالم یہ خاک کا پیکر

فارغ البال ہے بہ ہر صورت

ایک پلے میں سب متاعِ ہنر

سارے دریا پہاڑ شمس و قمر

آتش و باد اور بحر و بر

سار ے موسم کے پھول اور ثمر

اس ترازو کے ایک پلے پر

ہیں زمین و زماں یہ کون و مکاں

جیسے پاسنگ کا کوئی پتھر

دوسرے پلے میں ترازو کے

صرف اور صرف اسم اعظم ہے

حمد ہی حمد اور سجدۂ شکر

٭٭٭

 

 

 

 

منکرین حدیث

 

حدیثِ موضوع کے ہیں منکر

ضعیف احادیث کے بھی منکر

خلاف مسلک حدیث ہو تو

صحاح ستہ کے بھی ہیں منکر

کہ منکر ین حدیث ہیں سب

(عجیب اہل حدیث ہیں سب)

٭٭٭

 

 

 

مرثیۂ محافظ حیدر

 

تو نے جس پربھی نظر ڈالی محافظ حیدر

ٹھیری ہستی وہ نظر والی محافظ حیدر

تجھ پہ خوش پیرہنی،خوش سخنی ختم ہوئی

تو نے منزل تو کوئی پالی محافظ حیدر

تو نے بے راہروی کو تو کبھی راہ نہ دی

زندگانی تو نہ تھی گالی محافظ حیدر

ایک پتہ بھی سر شاخِ تماشہ نہ رہا

ایک بے برگ و ثمر ڈالی محافظ حیدر

مئے کدہ اپنی جگہ تشنہ لبی اپنی جگہ

تھی طبیعت تری متوالی محافظ حیدر

شیر کی طرح جیو، موت نہ گیدڑ کی مرو

طرح ٹیپو نے ہی یہ ڈالی محافظ حیدر

منصفی تیرے لیے،خوش نظری تیرے لیے

مسندِ ظرف ترا عالی محافظ حیدر

حیدرآباد کی مٹی تھی،کہاں جا پہنچی

تیرا اللہ رہا والی محافظ حیدر

دوست احباب کی یم دوت کی عزت کی ہے

بات کب تو نے کوئی ٹالی محافظ حیدر

دستخط کرنے پہ مجبور ہے تو بھی ہم بھی

سب حلف نامۂ اقبالی محافظ حیدر

خیرؔ ہی کیا ترے قائل ترے ہم مشرب تھے

جام مئے آج ہوا خالی محافظ حیدر

۲۰۰۳ء

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ تاریخ

 

دل سبک سار اور سر بھاری

ان کی آواز تھی مگر بھاری

ساتھ تو شہ جوہے وہ ہلکا ہے

اور درپیش ہے سفر بھاری

ساتھ سایہ بھی اب نہیں کوئی

جیسے سینے پہ اک شجر بھاری

نام پر ذہن،خاک میں دل ہے

وہ سبک تر ہے ،یہ ادھر بھاری

کوئی سرکار سے نہیں بڑھ کر

سر بسر چشمِ معتبر بھاری

جس قدر وہ پیام بھاری ہے

اس قدر یہ پیامبر بھاری

ان کا دامن اگر نہ تھا میں گے

کیا چلیں گے کوئی ڈگر بھاری

قائلینِ عذاب قبر نہ قدر

جن کو ہلکی لگی خبر بھاری

خیرؔ خیرالوریٰ کی سنت سے

مہنگا پڑ جائے گا مفر بھاری

کہہ رہا تھا یہ ہاتفِ غیبی

سال گزرا یہ کس قدر بھاری

ہائے جعفر،حبیب اور محمود

منکرینِ حدیث پر بھاری

۶۹۶ +۱۳۱۲ = ۲۰۰۸

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ تاریخ

 

خیرؔ۔ کر گزرا ایک شر بھاری =۲۰۰۸ء

قالوا ۔ الزیدی منتظر بھاری =۲۰۰۸ء

منتظر بھاری،منتظَر بھاری

آزمائش ہے اب مگر بھاری

بھیگے بھیگے ہیں بال و پر بھاری

آسمانوں کا ہے سفر بھاری

آسماں پر دماغ ہے ان کا

چھوڑ پتھر یہ چوم کر بھاری

وہ مرے قتل پر ہوئے مامور

جن سے اٹھتا نہیں تبر بھاری

بس تراش و خراش ہی کرنا

ہاتھ آیا انھیں ہنر بھاری

وہ جو جوتے عدو کو مارے تھے

پڑ گئے قصہ مختصر بھاری

دیکھتے تھے وہ چشم کم سے ہمیں

ہم بھی ثابت ہوئے مگر بھاری

خیرؔ ہلکا کسی کو مت سمجھو

کچھ تو پیدا کرو نظر بھاری

٭٭٭

 

 

 

 

مناظر عاشق

 

ہے ادب پر متواتر عاشق

نام جس کا ہے مناظر عاشق

جو گنیں ہوں کہ منادر عاشق

سب ہیں مسحور تو ساحر عاشق

گھر ہے بچوں کے دلوں میں اول

اور خواتین پہ آخر عاشق

خوش گمانی ہے و تیرہ اس کا

بدگمانی سے ہے قاصر عاشق

سوچ ہے سو دوزیاں سے اونچی

کوئی بنیا ہے نہ تاجر عاشق

دسترس حرف و نوا پر اس کو

شعر معشوق ہے شاعر عاشق

رائے بیباک تو لہجہ سفاک

اور معصوم بظاہر عاشق

جیت اس کی ہے کہ کھیل اس کا ہے

دام میں آئے نہ شاطر عاشق

کشتِ زر خیز میں کیا کیا کچھ ہے

صورت خرمنِ وافر عاشق

انگنت چاہنے والے اس کے

ہے وہ معشوق بظاہر عاشق

تیغ کی تیغ قلم کا ہے قلم

یا تو دشمن رہے یا پھر عاشق

چڑ بہت زرد صحافت سے اسے

کوچۂ سبز کا طائر عاشق

ہے نہایت ہی عدیم الفرصت

گھر میں معشوق تو باہر عاشق

دشمنوں سے بھی سمجھ لیتا ہے

دوست احباب کی خاطر عاشق

عشق چھٹتا ہے کہیں لٹنے سے

دل فلسطین تو یا سر عاشق

شخصیت اس کی ہے کیا کیا تہہ دار

خالق و طابع و ناشر عاشق

کام بنتا نہیں بے صبری سے

ہے اسی واسطے صابر عاشق

کوئی پرچہ ہو،کہیں سے نکلے

ہے کسی طرح سے حاضر عاشق

مرد مومن پہ ہے عاشق شاہین

اور کبوتر پہ ہے کافر عاشق

کچھ تو تعمیر کا پہلو نکلا

حسن مزدور ہے آجر عاشق

آسماں ہو کہ زمیں ہو کوئی

ہے سفر شرط، مسافر عاشق

چاند اگر شق ہے تو ثابت حق ہے

صاحبِ دیدۂ داہر عاشق

ہے کہاں خیرؔ کہاں وہ باسی = ۱۰۶۱

بس گیا دل میں مہاجر عاشق = ۹۴۷

۲۰۰۸ء

٭٭٭

شاعر کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید