FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

خوف کی سرداریاں

               دوجیندر دوج

جمع و ترتیب اور  اردو روپ: اعجاز عبید

 

نوٹ

دیوجیندر دوِج  کا نام ہندی میں اپنی غزلوں کے لئے جانا جاتا ہے۔ دوِج  اکثر اردو الفاظ بھی استعمال  کرتے ہیں، اور یوں  بھی غزل کا ترجمہ کرنے کی کوشش بے سود ہے۔ اس لئے محض رسم الخط کی تبدیلی کی گئی ہے، اور کچھ مشکل الفاظ کے معانی دے دئے گئے ہیں۔ تلفظ کی اردو فارسی کے لحاظ سے اغلاط کی تصحیح نہیں کی گئی ہے، اور نہ کچھ ہندی محاوروں کو بدلنے کی  کوشش کی گئی ہے۔ اس لئے اردو کے قارئین شمع، شہر وغیرہ الفاظ کے غلط العام تلفظ کو  یا اردو الفاظ کے ہندی معانی (جیسے مدعا، بمعنی معاملہ یا Issue  ، قبول کر لیں۔

اعجاز عبید

 

اگر بھٹکاؤ لے کر راہ میں رہبر نہیں آتا

کسی بھی قافلے کی پیٹھ پر خنجر نہیں آتا

تمہارے ذہن میں گر فکر منزل کی رہی ہوتی

کبھی بھٹکاؤ کا کوئی کہیں منظر نہیں آتا

تمہاری آنکھ گر پہچان میں دھوکا نہیں کھاتی

کوئی رہزن کبھی بن کر یہاں رہبر نہیں آتا

لہو کی قیمتیں گر اس قدر مندی نہیں ہوتیں

لہو سے تر بتر کوئی کہیں خنجر نہیں آتا

اگر گلیوں میں بہتے خون کا مطلب سمجھ لیتے

تمہارے گھر کے بھیتر آج یہ لشکر نہیں آتا

تمہارے دل سلگنے کا یقیں کیسے ہو لوگوں کو

اگر سینے میں شعلہ ہے تو کیوں باہر نہیں آتا

٭٭٭

 

ہر قدم پر خوف کی سرداریاں رہنے لگیں

قافلوں میں جب کبھی غداریاں رہنے لگیں

نیتیں بد اور کچھ بد کاریاں رہنے لگیں

سرحدوں پر کیوں نہ گولہ باریاں رہنے لگیں

ہر طرف لاچاریاں،دشواریاں رہنے لگیں

سرپرستی میں جہاں مکاریاں رہنے لگیں

ہر طرف ایسے حکیموں کی عجب سی بھیڑ ہے

چاہتے ہیں جو یہاں بیماریاں رہنے لگیں

پھر خرافاتوں کے جنگل کیوں نہ اگ آئیں وہاں

ذہن میں اکثر جہاں بیکاریاں رہنے لگیں

کیوں نہ سچ آ کر حلق میں ہی اٹک جائے کہو

گردنوں پر جب ہمیشہ آریاں رہنے لگیں

ان کی باتوں میں ہے جتنا جھوٹ سب جل جائے گا

آپ کی آنکھوں میں گر چنگاریاں رہنے لگیں

ہے مہک ممکن تبھی سارے زمانے کے لئے

سوچ میں دوج، کچھ اگر پھلواریاں رہنے لگیں

٭٭٭

 

یہ اجالا تو نہیں  تم  کو مٹانے والا

یہ اجالا تو اجالے کو ہے کھانے والا

آگ بستی میں تھا جو شخص لگانے والا

رہنما بھی ہے وہی آج کہا نے والا

راستہ اپنے ہی گھر کا نہیں معلوم جسے

سب کو منزل ہے وہی آج دکھانے والا

ایک بنجر سا ہی رقبہ جو لگے ہے سب کو

وہ ہتھیلی پہ بھی سرسوں ہے جمانے والا

جسکی مرضی نے تباہی کے یہ منظر بانٹے

تھا مسیحا وہ یہاں خود کو بتانے والا

جب سے کانٹوں کی تجارت ہی پھلی پھولی ہے

کوئی ملتا ہی نہیں پھول اگانے والا

رتجگوں کے سوا کیا خواب کی صورت دے گا

حادثہ روز کوئی نیند اڑانے والا

انگلیاں پھر وہ اٹھائیں گے ہمارے اوپر

پھر سے الزام کوئی ان پہ ہے آنے والا

جا بجا اس نے چھپائے ہیں کئی پھر کچھوے

پھر سے خرگوش کو کچھوا ہے ہرانے والا

جن کتابوں نے اندھیروں کے سوا کچھ نہ دیا

ہے کوئی ان کو یہاں آگ لگانے والا

کیوں بھلا شب کی سیاہی کا بنے گا وارث

دھوپ ہر شخص کے قدموں میں بچھانے والا

خود ہی جل جل کے اجالے ہوں جٹائے جس نے

وہ اندھیروں کا نہیں ساتھ نبھانے والا

آئینہ خود کو سمجھتے ہے بہت لوگ یہاں

آئینہ کون ہے  دوج ، ان کو دکھانے والا

٭٭٭

 

پروں کو کاٹ کے کیا آسمان دیجئے گا

زمین دیجئے گا یا اڑان دیجئے گا

ہماری بات کو بھی اپنے کان دیجئے گا

ہمارے حق میں بھی کوئی بیان دیجئے گا

زبان، ذات یا مذہب یہاں نہ ٹکرائیں

ہمیں حضور، وہ ہندوستان دیجئے گا

رہی ہیں دھوپ سے اب تک یہاں جو ناواقف

اب ایسی بستیوں پر بھی تو دھیان دیجئے گا

ہے زلزلوں کے فسانوں کا بس یہی وارث

سخن کو آپ نئی  سی زبان دیجئے گا

کبھی کے بھر چکے ہیں صبر کے یہ پیمانے

ذرا سا سوچ سمجھ کر زبان دیجئے گا

جو چھت ہمارے لئے بھی یہاں دلا پائے

ہمیں بھی ایسا کوئی سنودھان1 دیجئے گا

نئی کتاب بڑی دلفریب ہے لیکن

پرانی بات کو بھی قدر دان دیجئے گا

1۔ قانون

٭٭٭

 

ہماری آنکھوں کو خوابوں سے دور ہی رکھے

سوال ایسے جوابوں سے دور ہی رکھے

سلگتی ریت پہ چلنے سے کیسے کتراتے

جو پاؤں بوٹ جرابوں سے دور ہی رکھے

ہنر تو تھا ہی نہیں ان میں جی حضوری کا

اسی لئے تو خطابوں سے دور ہی رکھے

تمام عمر وہ خوشبو سے نا شناس رہے

جو بچے تازہ گلابوں سے دور ہی رکھے

وہ زندگی کے اندھیروں سے لڑتے پڑھ لکھ کر

اسی لئے تو کتابوں سے دور ہی رکھے

ہمارا ثانی کوئی میکشی میں ہو نہ سکا

اگرچہ ساری شرابوں سے دور ہی رکھے

یہ بچے یاد کیا رکھیں گے  دوج ، بڑے ہو کر

اگر نہ خون خرابوں سے دور ہی رکھے

٭٭٭

 

حضور، آپ تو جا پہنچے آسمانوں میں

سسک رہی ہے ابھی زندگی ڈھلانوں میں

ڈھلی ہے ایسے یہاں زندگی تھکانوں میں

یقین ہی نہ رہا اب ہمیں اڑانوں میں

جلے ہیں دھوپ میں، آنگن میں، کارخانوں میں

اب اور کیسے گزر ہو بھلا مکانوں میں

ہوئی ہیں مدتیں آنگن میں، وہ نہیں اتری

جو دھوپ روز ٹھہرتی ہے سایبانوں میں

جگہ کوئی جہاں سر ہم چھپا سکیں اپنا

ہم اب بھی ڈھونڈتے پھرتے ہیں سنودھانوں1 میں

ہزاروں حادثوں سے جوجھ کر ہیں ہم زندہ

دبے ہیں ریت میں ملبے میں یا کھدانوں میں

اسے تو لاکھ چھپانے کی کوششیں کر لے

وہ ڈر تو صاف ہے ظاہر ترے بیانوں میں

چلی جو بات چراغوں کا تیل ہونے کی

ہمارا ذکر بھی آئے گا ان فسانوں میں

1 آئین

٭٭٭

 

جانے کتنے ہی اجالوں کا دہن1 ہوتا ہے

لوگ کہتے ہیں یہاں روز ہون ہوتا ہے

منزلیں ان کو ہی ملتی ہے کہاں دنیا میں

رات دن سر پہ بندھا جن کے کفن ہوتا ہے

جب دھواں سانس کی چوکھٹ پہ ٹھہر جاتا ہے

تب ہواؤں کو بلانے کا جتن ہوتا ہے

کھوٹے سکے کے کوئی مول نہیں تھا جن کا

آج کے دور میں ان کا بھی چلن ہوتا ہے

بس یہی خواب فقط جرم رہا ہے اپنا

ایسی دھرتی کہ جہاں اپنا گگن ہوتا ہے

٭٭٭

 

کٹے تھے کل جو یہاں جنگلوں کی بھاشا میں

اگے ہیں آج وہی چمبلوں کی بھاشا میں

سوال زندگی کے ٹالنا نہیں اچھا

دو ٹوک بات کرو فیصلوں کی بھاشا میں

جو ویکت1 ہوتے رہے صرف آندھیوں کی طرح

وہ کانپتے بھی رہے زلزلوں کی بھاشا میں

ندی کو پی کے سمندر ہوا خموش مگر

ندی کہ بہتی رہی کلکلوں کی بھاشا میں

ہزار درد سہو لاکھ سختیاں جھیلو

بھرو نہ آہ مگر گھائلوں کی بھاشا میں

بھلے ہی زندگی موسم رہی ہو پت جھڑ کا

کہی ہے ہم نے غزل کونپلوں کی بھاشا میں

1 بیان

٭٭٭

 

بے شک بچا ہوا کوئی بھی اس کا پر نہ تھا

ہمت تھی حوصلہ تھا پرندے کو ڈر نہ تھا

دھڑ سے کٹا کے گھومتے ہیں آج ہم جسے

جھکتا کبھی یہ جھوٹ کے پیروں پہ سر نہ تھا

قدموں کی دھول چاٹ کے چھونا تھا آسمان

تھے ہم بھی با ہنر مگر ایسا ہنر نہ تھا

بھولا سحر کا شام کو لوٹا تو تھا مگر

جاتا کہاں وہ گھر میں کبھی منتظر نہ تھا

سورج کا احترام کیا اس نے عمر بھر

جس کا کہیں بھی دھوپ کی بستی میں گھر نہ تھا

اس نے ہمیں مٹانے کو مانگی ضرور تھی

یہ اور بات ہے کہ دعا میں اثر نہ تھا

منزل ہماری ختم ہوئی اس مقام پر

صحرا کی ریت تھی جہاں کوئی شجر نہ تھا

٭٭٭

دیکھ، ایسے سوال رہنے دے

بے گھروں کا خیال رہنے دے

تیری ان کی برابری کیسی

تو انہیں تنگ حال رہنے دے

ان کے ہونے کا کچھ بھرم تو رہے

ان پہ اتنی تو کھال رہنے دے

مچھلیاں کب چڑھی ہیں پیڑوں پر

اپنا ندیا میں جال رہنے دے

کیا ضرورت یہاں اجالے کی

چھوڑ، اپنی مشعل رہنے دے

بھول جائیں نہ تیرے بن جینا

بستیوں میں وبال رہنے دے

کات مت، دے رہا ہے آم یہ پیڑ

اور دو چار سال رہنے دے

جس کو چاہے خرید سکتا ہے

اپنے کھیسے میں مال رہنے دے

وہ تجھے آئینہ دکھائے گا؟

اس کی اتنی مجال!، رہنے دے

کام آئیں گے سودےبازی میں

ساتھ اپنے دلال رہنے دے

چھوڑ خرگوش کی چھلانگوں کو

اپنی کچھوے سی چال رہنے دے

٭٭٭

 

کسی کے پاس وہ طرزِ  بیاں نہیں دیکھا

صحیح  صحیح جو کہے داستاں نہیں دیکھا

دکھا رہے ہیں ابھی اس کو  سون چڑیا  ہی

ہماری آنکھ سے ہندوستاں نہیں دیکھا

شرافتوں کے مقابل ہزار شاطر ہیں

اب اس سے سخت کوئی امتحاں نہیں دیکھا

طلسمی روشنی سے جوجھتے بھی کیا پنچھی

کبھی جنہوں نے کھلا آسماں نہیں دیکھا

رہے وہ کام پر آئے  گئے کئی موسم

کہیں پھر ان سا کوئی سخت جاں نہیں دیکھا

تھے اس کے حکم کے پابند کٹ گھرے سارے

ڈرے گا کٹ گھروں سے حکمراں نہیں دیکھا

اسے تو کاٹنا تھا پیڑ بس محل کے لئے

ٹکے تھے پیڑ پر بھی آشیاں نہیں دیکھا

وہ آ گیا ہے ہمیں اب تسلیاں دے گا

ہمارا آگ میں جلتا مکاں نہیں دیکھا

کھڑے تھے دھوپ میں تن کر، بنے رہے برگد

سروں پہ جن کے کوئی سایباں نہیں دیکھا

انہوں نے بانٹ دیا، مذہبوں میں دریا کو

تٹوں 1کو جوڑتا پل درمیاں نہیں دیکھا

لپٹ کے خود سے ہی روئے بہت اکیلے میں

کہیں جو دل کا کوئی راز داں نہیں دیکھا

پلائے جو ہمیں پانی ہمارے گھر آ کر

ابھی کسی نے بھی ایسا کنواں نہیں دیکھا

یہ ملک بڑھ رہا ہے پوچھئے نہ کس جانب

بغیر منزلوں کے کارواں نہیں دیکھا

خدایا، خیر ہو، بستی میں آج پھر ہم نے

کسی کے گھر سے بھی اٹھتا دھواں نہیں دیکھا

بحث کے مُدّوں میں مولوی تھے، پنڈت تھے

وہاں  دوج ، آدمی کا ہی نشاں نہیں دیکھا

1 کناروں

٭٭٭

 

آپ کی کشتی میں بیٹھے، ڈھونڈتے ساحل رہے

سوچتے ہیں اب کہ ہم تو آج تک جاہل رہے

بستیوں کو جو ملا ہے آپ سے خیرات میں

اس میں اکثر نفرتوں کے زہر ہی شامل رہے

جب گنہگاروں کے سر پر آپ کا ہی ہاتھ ہے

وہ تو منصف ہی رہیں گے، وہ کہاں قاتل رہے ؟

زندگی کچھ آنکڑوں کا کھیل بن کر رہ گئی

اور ہم ان آنکڑوں کا دیکھتے حاصل رہے

مدتوں سے ہم تو یارو ! ایک بھارت ورش ہیں

آپ ہی پنجاب یا کشمیر یا تامل رہے

آپ سے جڑ کر چلے تو منزلوں سے دور تھے

آپ سے ہٹ کر چلے تو جانبِ منزل رہے

٭٭٭

 

اس کے ارادے صاف تھے، اس کی اٹھان صاف

بیشک اسے نہ مل سکا یہ آسمان صاف

بیشک لگے یہ آپ کو بھی آسمان صاف

دیکھی نہیں وہ پاؤں کے نیچے ڈھلان صاف

ان کو ہے چاہئیے یہاں سارا جہان صاف

گھر صاف، بستی صاف، مکین و مکان صاف

نیت ہی صاف اور نہ جب تھی زبان صاف

ہوتا کہاں پھر ان کا کوئی بھی بیان صاف

سارے گناہ قاتلوں کے پھر کرے معاف

پھر وہ کریں ثبوت بھی گم ، سب نشان صاف

گھیرے ہوئے حضور کو ہیں جی حضور جب

کیسے سنیں گے پرارتھنا یا پھر اذان صاف

اس کا قصور اتنا ہی تھا وہ تھا چشم دید

آنکھوں سے روشنی گئی منہ سے زبان صاف

٭٭٭

 

فصل ساری آپ بے شک اپنے گھر ڈھلوائیے

چند دانے میرے حصے کے مجھے دے جائیے

تیر کر خود پار کر لیں گے یہاں ہم ہر ندی

آپ اپنی کشتیوں کو دور ہی لے جائیے

رت جگے مشکل ہوئے ہیں اب ان آنکھوں کے لئے

ختم کب ہوگی کہانی یہ ہمیں بتلائیے

کب تلک چل پائے گی یہ آپ کی جادوگری

پٹیاں آنکھوں پہ جو ہیں اب انہیں کھلوائیے

یہ اندھیرا بند کمرہ، آپ ہی کی دین ہے

آپ اس میں قید ہو کر چیخیے چلائیے

سچ بیاں کرنے کی ہمت ہے اگر باقی بچی

آنکھ سے دیکھا وہاں جو سب یہاں لکھوائیے

پھر نہ جانے بادشاہت کا بنے کیا آپ کی

نفرتوں کو دور لے جا کر اگر دفنائیے

٭٭٭

 

صبح صبح یہاں مرجھائی ہر کلی بابا !

یہ دن میں رات سی کیسی ہے اب ڈھلی بابا !

اتار پھینکے گا اپنی وہ کینچلی بابا !

وہ شخص جس کو سمجھتا ہے تو ولی بابا !

ہوئے تھے پڑھ کے جسے تم کبھی ولی بابا !

کتاب آج وہ ہم نے بھی بانچ لی بابا !

خیال تیرے پرانے ، نیا زمانہ ہے

اتار پھینک پرانی تو کمبلی بابا !

سیاہ رات کو ہم دن نہیں جو کہہ پائے

مچی ہے تب سے ہی محفل میں کھلبلی بابا !

گزار دی ہے یوں کانٹوں پہ زندگی ہم نے

نہ راس آئے گی اب راہ مخملی بابا !

انہوں نے پھینک دیا ایسے اپنے ایماں کو

کہ جیسے سانپ اتارے ہے کینچلی بابا !

گیا زمانہ جہاں  جھوٹ سچ  سے ڈرتا تھا

بنا ہے جھوٹ کا اب سچ تو اردلی بابا !

ہوا چلی ہے یہ کیسی کہ سب کے سینوں پر

ہر اک نے تانی ہے بندوق کی نلی بابا !

بیان امن کے، کھیتوں میں آگ کے گولے

سمجھ میں آئی نہیں بات دوغلی بابا !

ثبوت گم ہوئے سارے گواہ بھی گم سم

گناہ پالنے کی اب ہوا چلی بابا !

یہ ہر قدم پہ نیا اک فریب دیتی ہے

نگوڑی زندگی ہے کوئی منچلی بابا !

٭٭٭

 

اگر وہ کارواں کو چھوڑ کر باہر نہیں آتا

کسی بھی سمت سے اس پر کوئی پتھر نہیں آتا

اندھیروں سے الجھ کر روشنی لے کر نہیں آتا

تو مدت سے کوئی بھٹکا مسافر گھر نہیں آتا

یہاں کچھ سر پھروں نے حادثوں کی دھند بانٹی ہے

نظر اب اس لئے دلکش کوئی منظر نہیں آتا

جو سورج ہر جگہ سندر سنہری دھوپ لاتا ہے

وہ سورج کیوں ہمارے شہر میں اکثر نہیں آتا

اگر اس دیش میں ہی دیش کے دشمن نہیں ہوتے

لٹیرا لے کے باہر سے کبھی لشکر نہیں آتا

جو خود کو بیچنے کی فطرتیں حاوی نہیں ہوتیں

ہمیں نیلام کرنے کوئی بھی تسکر1 نہیں آتا

اگر ظلموں سے لڑنے کی کوئی کوشش رہی ہوتی

ہمارے در پہ ظلموں کا کوئی منظر نہیں آتا

غزل کو جس جگہ  دوج ، چٹکلوں سی داد ملتی ہو

وہاں پھر کوئی بھی آئے مگر شاعر نہیں آتا

1 سمگلر

٭٭٭

 

ہر گھڑی روندا دکھوں کی بھیڑ نے سنتراس1 نے

ساتھ اپنا پر نہیں چھوڑا سنہری آس نے

آشواسن2، بھوک، بیکاری، گھٹن ، دھوکادھڑی

ہاں، یہی سب تو دیا ہے آپ کے وشواس نے

عمر بھر کاندھوں پہ اتنا کام کا بوجھا3 رہا

چاہ کر بھی شاہ زادی کو نہ دیکھا داس نے

اس پرندے کا ارادہ ہے اڑانوں کا مگر

پنکھ اس کے نوچ ڈالے ہیں سبھی نرواس4 نے

اپنے حصے میں تو ہے ان تنگ گلیوں کی گھٹن

آپ کو تحفے دیئے ہو ں گے کسی مدھماس5 نے

کس طرف اب رخ کریں ہم کس طرف رکھیں قدم

راستے سب ڈھک لئے ہیں سنشیوں کی گھاس نے

جل رہا تھا  روم ،  نیرو  تھا رہا بنسی بجا

ہاں مگر، اس کو کبھی بخشا نہیں اتہاس نے

1 فرسٹریشن

2 جھوٹی تسلی

3 بوجھ

4 اجنبی جگہ کا قیام

5 ہنی مون

٭٭٭

 

اب کے بھی آ کر وہ کوئی حادثہ دے جائے گا

اور اس کے پاس کیا ہے جو نیا دے جائے گا

پھر سے خنجر تھام لیں گی ہنستی گاتی بستیاں

جب نئے دنگوں کا پھر وہ مدعا دے جائے گا

 ایکلویوں  کو رکھے گا وہ ہمیشہ طاق پر

 پانڈووں  یا  کورووں  کو داخلہ دے جائے گا

قتل کر کے خود تو وہ چھپ جائے گا جا کر کہیں

اور سارے بیگناہوں کا پتہ دے جائے گا

زندگی کیا زندگی کے سائے نہ ہوں گے نصیب

ایسی منزل کا ہمیں وہ راستہ دے جائے گا

٭٭٭

 

دل و دماغ کو وہ تازگی نہیں دیتے

ہیں ایسے پھول جو خوشبو کبھی نہیں دیتے

جو اپنے آپ کو کہتے ہیں میل کے پتھر

مسافروں کو وہ رستہ صحیح نہیں دیتے

انہیں چراغ کہا نے کا حق دیا کس نے

اندھیروں میں جو کبھی روشنی نہیں دیتے

یہ چاند خود بھی تو سورج کے دم سے قائم ہیں

یہ اپنے بل پہ کبھی چاندنی نہیں دیتے

یہ   درون   ان سے انگوٹھا تو مانگ لیتے ہیں

یہ   ایکلویوں   کو شکشا کبھی نہیں دیتے

٭٭٭

 

دل کی ٹہنی پہ پتیوں جیسی

شاعری بہتی ندیوں جیسی

یاد آتی ہے بات بابا کی

اس کی تاثیر ، آنولوں جیسی

باز آ جا، نہیں تو ٹوٹے گا

تیری فطرت ہے آئینوں جیسی

زندگی کے سوال تھے مشکل

ان میں الجھن تھی فلسفوں جیسی

جب کبھی رو برو ہوئے خود کے

اپنی صورت تھی قاتلوں جیسی

تو بھی خود سے کبھی مخاطب ہو

کر کبھی بات شاعروں جیسی

خالی ہاتھوں جو لوٹ جانا ہے

چھوڑیئے ضد سکندروں جیسی

زندگانی کڑکتی دھوپ بھی تھی

اور چھایا بھی برگدوں جیسی

آپ کی گھر میں   دوج   کرے کیسے

میزبانی وہ ہوٹلوں جیسی

٭٭٭

 

ان بستیوں میں دھول دھواں پھانکتے ہوئے

بیتی تمام عمر یوں ہی کھانستے ہوئے

کچھ پتھروں کے بوجھ کو ڈھونا ہے لازمی

جی تو رہے ہیں لوگ مگر ہانپتے ہوئے

ڈھانپے ہیں ہم نے پیر تو ننگے ہوئے ہیں سر

یا پیر ننگے ہو گئے سر ڈھانپتے ہوئے

ہے زندگی قمیض کا ٹوٹا ہوا بٹن

بندھتی ہیں انگلیاں بھی جسے ٹانکتے ہوئے

ہم کو قدم قدم پہ وہ گہرائیاں ملیں

چکرا رہی ہے عقل جنہیں ماپتے ہوئے

دیتا نہیں ضمیر بھی کچھ خوف کے سوا

ڈر سا لگے ہے اس کوئیں میں جھانکتے ہوئے

انسان بے زبان سی بھیڑیں نہیں جنہیں

لے جا سکے کہیں بھی کوئی ہانکتے ہوئے

کہنے کو کہہ رہا تھا بچائے گا وہ ہمیں

اکثر دکھا ہے وہ بھی یہاں کانپتے ہوئے

٭٭٭

 

ان کی عادت بلندیوں والی

اپنی سیرت ہے سیڑھیوں والی

ہم کو ندیوں کے بیچ رہنا ہے

اپنی قسمت ہے کشتیوں والی

زندگی کے بھنور سنائیں گے

اب کہانی وہ ساحلوں والی

ہم پہ کچھ بھی لکھا نہیں جاتا

اپنی قسمت ہے حاشیوں والی

بھوکھے بچے کو ماں نے دی روٹی

چندا ماما کی لوریوں والی

آج پھر کھو گئی ہے دفتر میں

تیری عرضی شکایتوں والی

تو بھی پھنستا ہے روز جالوں میں

ہائے قسمت یہ مچھلیوں والی

تو اسے سن سکے اگر، تو سن

یہ کہانی ہے قافلوں والی

وہ زباں ان کو کیسے راس آتی

وہ زباں تھی بغاوتوں والی

بھول جاتے، مگر نہیں بھولے

اپنی بولی محبتوں والی

٭٭٭

 

مت باتیں درباری کر

سیدھی چوٹ کراری کر

اب اپنے آنسو مت پی

آہوں کو چنگاری کر

کاٹ دکھوں کے سر تو بھی

اپنی ہمت آری کر

اپنے دل کے زخموں  سی

کاغذ پر پھلکاری کر

ساری دنیا مہکے گی

اپنا من پھلواری کر

آنا ہے پھر جانا ہے

اپنی ٹھیک تیاری کر

میٹھی ہے پھر پریم ندی

مت اس کو یوں کھاری کر

٭٭٭

 

کیسی رہی بہار کی آمد نہ پوچھئے

ان موسموں کے ساتھیو مقصد نہ پوچھئے

یہ تو خدا کے رام کے بندے ہیں ان سے آپ

پوجا گھروں کے ٹوٹتے گنبد نہ پوچھئے

اس یگ میں ہو گیا ہے چلن  بونسائی  کا

یارو، کسی بھی پیڑ کا اب قد نہ پوچھئے

ہے آج بھی وہیں کا وہیں عام آدمی

کس بات پر مکھر 1ہے یہ سنسد2 نہ پوچھئے

یہ زندگی ہے اب تو سفر تیز دھوپ کا

وہ راستوں کے پیڑ وہ برگد نہ پوچھئے

1 گویا، بات کرتی ہوئی

2 پارلیامینٹ

٭٭٭

 

زندگی سے اجالے گئے

دویش 1جب جب بھی پالے  گئے

بانٹنے جو گئے روشنی

ان پہ پتھر اچھالے گئے

فصل ہے یہ وہی دیکھیئے

بیج جس کے تھے ڈالے گئے

بت بنے یا کھلونے ہوئے

لوگ سانچوں میں ڈھالے گئے

لوگ فریاد لے کر گئے

ڈال کر منھ پہ تالے گئے

پاؤں ننگے، سفر تھا کٹھن

دور تک ساتھ چھالے گئے

لے کر آئے جو سنویدنا

وہ کفن بھی اٹھا لے گئے

منھ لگیں اس قدر مچھلیاں

تال سارے کھنگالے گئے

اب سفر ہے کڑی دھوپ کا

پیڑ سب کاٹ ڈالے گئے

قاتلوں کے وہ سردار تھے

قاتلوں کو چھڑا لے گئے

لوگ تھے سیدھے سادے مگر

کیسے ہاتھوں میں بھالے گئے

ایک بھی حل نہیں ہو سکا

پرشن لاکھوں اچھالے گئے

وہ سمندر ہوئے ان میں جب

ندیاں اور نالے گئے

1برا چاہنا

٭٭٭

 

اندھیروں کی سیاہی کو تمہیں دھونے نہیں دیں گے

بھلے لوگو! یہ سورج روشنی ہونے نہیں دیں گے

تمہارے آنسؤں کو سوکھ لے گی آگ دہشت کی

تمہیں پتھر بنا دیں گے، تمہیں رونے نہیں دیں گے

سرنگیں بچھ گئیں رستوں میں، کھیتوں میں، یہاں اب تو

تمہیں وہ بیج بھی آرام سے بونے نہیں دیں گے

گھڑی بھر کے لئے جو نیند مانو مول بھی لے لی

بھیانک خواب تم کو چین سے سونے نہیں دیں گے

زمیں ہیں ہر گلی میں خون کی دیکھو، کئی پرتیں

مگر دنگے کبھی ان کو تمہیں دھونے نہیں دیں گے

ابھی  دوج ! وقت ہے رخ آستھاؤں کے بدلنے کا

یہاں معصوم سپنے وہ تمہیں بونے نہیں دیں گے

٭٭٭

 

یہ کتابیں ہدایتوں والی

صرف ان کے ہی فائدوں والی

عادتیں بھی کبھی بدلتی ہیں ؟

چھوڑ باتیں یہ پاگلوں والی

تو پکڑ صرف راستہ اپنا

ساری سڑکیں ہیں دو رخوں والی

پھر بھی تولے تھے  پر  پرندے نے

گو ہوائیں تھیں سازشوں والی

راستے  جھوٹ  کے رہے آساں

 سچ  کی راہیں تھیں مشکلوں والی

ان کی معصومیت پہ مت جانا

ان کی چالیں ہیں شاطروں والی

اب وہ پریاں کہاں سے لائیں ہم

نانی ماں کی کہانیوں والی

گھر کے برسات میں کہی ہم نے

غزلیں خوش رنگ موسموں والی

٭٭٭

 

آسمانوں میں گرجنا اور ہے

پر زمیں پر بھی برسنا اور ہے

صرف تٹ پر ہی ٹہلنا اور ہے

اور لہروں میں اترنا اور ہے

دل میں شعلوں کا سلگنا اور ہے

اور شعلوں سے گزرنا اور ہے

بجلیاں بن ٹوٹ گرنا اور ہے

بجلیاں دل میں لرزنا اور ہے

رت جگے مرضی سے کرنا اور ہے

روز نیندوں کا اچٹنا اور ہے

ہے جدا گھر میں اگانا کیکٹس

روز کانٹوں میں گزرنا اور ہے

خوشبوؤں سے ڈھانپنا خود کو جدا

پر پسینے سے مہکنا اور ہے

اس گھٹن میں سانس لینا ہے الگ

آگ سینے میں سلگنا اور ہے

جام بھر کر  دوج ، پلانا ہے جدا

قطرے  قطرے کو ترسنا اور ہے

٭٭٭

 

ہانپتا دل میں فسانہ اور ہے

کانپتا لب پر ترانہ اور ہے

جگنوؤں سا ٹمٹمانا اور ہے

پر دیئے سا جگمگانا اور ہے

بیٹھ کر ہنسنا  ہنسانا اور ہے

نفرتوں کے گل کھلانا اور ہے

کچھ نئے سکے چلانا اور ہے

اور پھر ان کو بھنانا اور ہے

مار کر ٹھوکر گرانا اور ہے

جو گریں، ان کو اٹھانا اور ہے

ٹھیک ہے چلنا پرانی راہ پر

ہاں، نئی راہیں بنانا اور ہے

جو گیا بیتا نہ اس کی بات کر

آج کل یوں بھی زمانہ اور ہے

ذات میں اپنی سمٹنا ہے جدا

خوشبوؤں سا پھیل جانا اور ہے

 دوج! اکیلے سوچنا لکھنا الگ

بیٹھ کر سننا سنانا اور ہے

٭٭٭

 

سب کی بولی ہے زلزلے والی

کیا کریں بات سلسلے والی

ان کے نزدیک جا کے سمجھو گے

ان کی ہر بات فاصلے والی

اب نہ باتوں میں ٹال تو اس کو

بات کر ایک فیصلے والی

بات ہنستے ہوئے کہیں کیسے

یاتناؤں کے سلسلے والی

سیکھ بندر کو دے کے گھبرائی

ایک چڑیا وہ گھونسلے والی

کل وہ اخبار کی بنی سرخی

ایک عورت تھی حوصلے والی

وہ اکیلا ہی بات کرتا تھا

جانے کیوں، روز قافلے والی

فکر قائم رہا ہزار برس

 دوج  کی ہستی تھی بلبلے والی

٭٭٭

 

راج محل کے نغمے جو بھی گاتے ہیں

ان کے دامن مہروں سے بھر جاتے ہیں

خالی دامن لوگ شہر کو جاتے ہیں

جھولے میں امیدیں بھر کر لاتے ہیں

بھیگ رہے ہیں ہم تو سر سے پاؤں تک

کیسے چھپر ، کیسے ان کے چھاتے ہیں

کرتے ہیں برسات کی باتیں سوکھے میں

اور پانی کی بوندوں سے ڈر جاتے ہیں

ڈھل جاتا ہے سورج کی امید میں دن

ایسے بھی تو پھول کئی مرجھاتے ہیں

پائے ہیں جو سچ کہنے کی کوشش میں

اب تک ان زخموں کو ہم سہلاتے ہیں

بستی کے کچھ لوگ خفا ہیں گیتوں سے

پھر بھی ہیں کچھ لوگ یہاں جو گاتے ہیں

 دوج  جی ! کیسے کہہ لیتے ہو تم غزلیں ؟

یہ انوبھو تو آتے آتے آتے ہیں

٭٭٭

 

کوند رہے ہیں کتنے ہی آگھات ہماری یادوں میں

اور نہیں اب کوئی بھی سوغات ہماری یادوں میں

وہ شطرنج جما بیٹھے ہیں ہر گھر کے دروازے پر

شہ ان کی تھی ، اپنی تو ہے مات ہماری یادوں میں

تاج محل کو لے کر وہ ممتاز کی باتیں کرتے ہیں

لہراتے ہیں کاریگروں کے ہاتھ ہماری یادوں میں

گھر کے سندر سوپن سن جو کر، ہم بھی کچھ پل سو جاتے

ایسی بھی تو کوئی نہیں ہے رات ہماری یادوں میں

دھوپ خیالوں کی کھلتے ہی وہ بھی آخر پگھلیں گے

بیٹھ گئے ہیں جم کر جو  ہم پات  ہماری یادوں میں

جلتا ریگستان سفر ہے، پگ پگ پر ہے تنہائی

سناٹوں کی محفل سی، ہر بات ہماری یادوں میں

سہ جانے کا، چپ رہنے کا، مطلب یہ بالکل بھی نہیں

پلتا نہیں ہے کوئی بھی پرتگھات ہماری یادوں میں

سچ کو سچ کہنا تھا جن کو آخر تک سچ کہنا تھا

کوندے ہیں   دوج ،  وہ بن کر   سقراط   ہماری یادوں میں

٭٭٭

 

چار دن اس گاؤں میں آ کر پگھل جاتے ہیں آپ

پر پہنچ کر شہر میں کتنے بدل جاتے ہیں آپ

آپ کے انداز، ہم سے پوچھئے تو موم ہیں

اپنی سودھا کے سبھی سانچوں میں ڈھل جاتے ہیں آپ

آپ کے اوقات کی اتنی خبر تو ہے ہمیں

مار کر لنگڑی ہمیں آگے نکل جاتے ہیں آپ

کشتیوں کھیلوں کے چسکے آپ کو بھی خوب ہیں

شیر بکری پر جھپٹتا ہے بہل جاتے ہیں آپ

سدھیاں ملنے پہ جیسے منتر سادھک مست ہوں

شہر میں ہوتے ہیں دنگے، پھول پھل جاتے ہیں آپ

دور تک پھیلی اندھیری بستیاں اب کیا کریں

روشنی کی بات آتی ہے تو ٹل جاتے ہیں آپ

کارواں پاگل نہیں جو آپ کے پیچھے چلیں

منزلیں آنے سے پہلے  دوج  ! پھسل جاتے ہیں آپ

٭٭٭

 

جو تھے بلند صحیح فیصلے دلانے میں

وہ لفظ بند ہیں دہشت کے کارخانے میں

جو یاد آ گئے بچے ، ضرورتیں گھر کی

تمام درد گئے بھول کارخانے میں

چلو پھر آج بھی فاقے ابال لیتے ہیں

ابھی تو دیر ہے فصلِ بہار آنے میں

ہے سیج کانٹوں کی اب اور آسماں چھت ہے

ملے گا اور بھلا کیا غریب خانے میں

جڑیں گی سیدھے کہیں زندگی سے یہ جا  کر

بھلے ہی خشک ہیں غزلیں یہ گنگنانے میں

غزل میں شعر ہی کہنا ہے  دوج  ! ہنر مندی

نیا تو کچھ بھی نہیں قافئے اٹھانے میں

٭٭٭

 

گاؤں میں جب کبھی وہ آتا ہے

رو کے سب کو یہاں رلاتا ہے

وہ جو سردار ہے قبیلے کا

پانی مانگو تو آگ لاتا ہے

آدمی ہے نہ اے زمانے کا

دوستی سب سے وہ نبھاتا ہے

بن کے بیٹھا ہے جو زمانے پر

بوجھ وہ خود کہاں اٹھاتا ہے

کالجوں میں پڑھا لکھا سب کچھ

دیکھیئے وقت کیا سکھاتا ہے

بات کرتا ہے سرفروں جیسی

آندھیوں میں دیا جلاتا ہے

کھو دتا ہے وہ کھائیاں اکثر

لوگ کہتے ہیں  پل بناتا ہے

درد سے بھاگ کر کہاں جائیں

درد سب کو گلے لگاتا ہے

آنکڑوں میں بدل دیا سب کو

اب انہیں جوڑتا گھٹاتا ہے

بھیڑ کی بات  دوج  نہیں سنتا

بھیڑ میں راستہ بناتا ہے

٭٭٭

 

جیون کے ہر موڑ پر اب تو سندیہوں کا سایہ ہے

نفرت کی تہذیب نے اپنا رنگ عجب دکھلایا ہے

گاؤوں میں جو سب لوگوں کو اک دوجے تک لاتی تھیں

کس نے آ کر ان رسموں کو آپس میں الجھایا ہے

تم نے اگر تھا امن ہی بانٹا، راہ، گلی، چوراہوں میں

سنتے ہی کیوں نام تمہارا ہر چہرہ کمہلایا ہے

سوکھ تٹوں کو ندیا تو پھر ساگر میں مل جائے گی

بیشک پورے دم سے بادل گھاٹی پر گھر آیا ہے

جن گن من کے سنوادوں کے سنکٹ سے جو لڑتی ہیں

ان غزلوں کو کچھ لوگوں نے پاگل شور بتایا ہے

اب کے بھی آئی آندھی تو بچو ! زور لگا دینا

اس گھر کو پرکھوں نے بھی تو کتنی بار بنایا ہے

باتوں کا جادوگر ہے وہ، سپنوں کا سوداگر بھی

صدیوں سے بھوکھے پیاسوں کو جس نے بھی بہلایا ہے

 سورج  پر اب تھوک رہے ہیں جس نگری کے باشندے

اس نگری کو دھوپ سے اپنی  سورج  نے نہلایا ہے

کھیل یہاں کب تھا سچ کہنا، جھوٹھ نہ بولو  دوج  تم بھی

تم نے بھی تو سچ  سچ کہہ کر اپنا آپ گنوایا ہے

٭٭٭

 

رات  دن ہم سے تو ہے الجھتی غزل

ان کی محفل میں ہوگی چہکتی غزل

شوخیوں کے نشے میں بہکتی غزل

صرف بچکانا ہے وہ مچلتی غزل

جھومتی لڑکھڑاتی غزل مت کہو

اب کہو ٹھوکروں سے سنبھلتی غزل

خامشی سازشوں کے شہر کی سنو

پھر کہو سازشوں کو کچلتی غزل

اب مکھوٹوں، نقابوں کے اس دور میں

جتنے چہرے ہیں سب کو پلٹتی غزل

دیکھیئے اس میں ساگر سی گہرائیاں

اب نہیں ہے ندی سی اپھنتی غزل

گم بناوٹ کی خوشبو میں ہوتی نہیں

یہ پسینے  پسینے مہکتی غزل

پھر یگوں کے اندھیرے کے ہے رو برو

اک نئی روشنی سی ابھرتی غزل

دن کے ہر درد سے، رنج سے جوجھ کر

رات کو  دوج  کے گھر ہے ٹھہرتی غزل

٭٭٭

 

ایک چپی آج کل سارے شہر پر چھائی ہے

اب ہوا جانے کہاں سے کیا بہا کر لائی ہے

جس سڑک پر آنکھ موندے آپ کے پیچھے چلے

آنکھ کھولی تو یہ جانا یہ سڑک تو کھائی ہے

اب چراغوں کے شہر میں راستے دکھتے نہیں

ان اجالوں سے تو ہر اک آنکھ اب چندھیائی ہے

خواب میں بھی دیکھ پانا گھر غنیمت جانئے

پوچھئے ہم سے، ہمیں تو نیند بھی کب آئی ہے

کچھ تو تیکھی  چیخ ڈالے گی ہی نیندوں میں خلل

پتھروں کے شہر سے آواز تو ٹکرائی ہے

کنکریلے راستوں میں ہمسفر کے نام پر

ساتھ   دوج   کے تشنگی ہے، بھوک ہے، تنہائی ہے

٭٭٭

 

چُپیاں جس دن خبر ہو جائیں گی

ہستیاں یہ در بدر ہو جائیں گی

آج ہیں امرت مگر کل دیکھنا

یہ دوائیں ہی زہر ہو جائیں گی

سیکھ لیں گی جب نئے انداز یہ

بستیاں ساری نگر ہو جائیں گی

سبھے جن ہیں، آستھائیں ، کیا خبر

اب ادھر ہیں ، کب ادھر ہو جائیں گی

ساحلوں سے اب ہٹا لو کشتیاں

ورنہ طوفاں کی نظر ہو جائیں گی

ہے نظامِ امن پر تم دیکھنا

امن کی باتیں غدر ہو جائیں گی

گر ارادوں میں نہی پختہ یقیں

سب دوائیں بے اثر ہو جائیں گی

منزلوں کی فکر ہے گر آپ کو

منزلیں خود ہمسفر ہو جائیں گی

زندگی مشکل سفر ہے دھوپ کا

ہمتیں آخر شجر ہو جائیں گی

٭٭٭

 

سناٹے سے بڑھ کر بولی، سناٹوں کی رانی رات

سنتراسوں کی موک چبھن کو دے جائے گی بانی رات

دن تو چنے گا کنکر پتھر، پھر بچوں کے جیسے ہی

اور کہے گی کوئی قصہ، بن جائے گی نانی رات

ساری گرمی کچھ لوگوں نے بھر لی اپنے جھولے میں

اپنے حصے میں آئی ہے لے دے کر برفانی رات

ہم نے بھی دن ہی چاہا تھا ، ہم بھی لائے تھے  سورج

جانے کیوں کچھ ساتھی جا کر لے آئے وہ پرانی رات

جانے وہ کیوں وہ شہر میں تب سے، مارا مارا پھرتا ہے

یارو، اس نے، جس دن سے ہے ، جانا دن ،پہچانی رات

آنکھ میں ہو دن کا سپنا تو آنکھوں میں کٹ جاتی ہے

 دوج ، کچھ پل کی ہی لگتی ہے پھر تو آنی جانی رات

٭٭٭

 

سورج ڈوبا ہے آنکھوں میں، آج ہے پھر سنولائی شام

سناٹے کے شور میں سہمی بیٹھی ہے پتھرائی شام

سہمے رستے تھکے مسافر اور عجب  سا سونا پن

آج ہماری بستی میں ہے دیکھو کیا کیا لائی شام

 لوٹ کہاں پائے ہیں پرندے آج بھی اپنے نیڑوں کو

برگد کی ٹہنی کی باتیں سن سن کر مرجھائی شام

سایہ سایہ بانٹ رہا ہے دہشت گھر گھر ، بستی میں

سہمی آنکھیں، ٹوٹے سپنے اور ہے اک پگلائی شام

ابھی ابھی تو دن ہے نکلا ، سورج بھی ہے پورب میں

  دوج  ! پھر کیوں اپنی آنکھوں میں آج ابھی بھر آئی شام

٭٭٭

 

زندگی کا گیت یوں تو اب نئے سر تال پر ہے

پھر بھی جانے کیوں ہماری ہر خوشی ہڑتال پر ہے

حادثے کی وجہ تو اب دوستو! ملتی نہیں ہے

آج کل مجرم کوئی بیٹھا ہوا پڑتال پر ہے

آندھیوں میں کیا کریں اب اپنے گھر کی بات بھی ہم

یہ سمجھیے ایک تنکا مکڑیوں کے جال پر ہے

کیسے اپنی بات لے کر آپ تک پہنچیں گے ہم، جب،

مسخروں کا ایک جمگھٹ آپ کی چوپال پر ہے

راستوں یا منزلوں کی فکر تو ہے بعد میں  دوج

کھید پہلے ہمسفر کی انمنی سی چال پر ہے

٭٭٭

 

خود تو غموں کے ہی رہے ہیں آسماں پہاڑ

لیکن زمین پر ہیں بہت مہرباں پہاڑ

ہیں تو بلند حوصلوں کے ترجماں پہاڑ

پر بے بسی کے بھی بنے ہیں کارواں پہاڑ

تھی موسموں کی مار تو بیشک بڈی شدید

اب تک بنے رہے ہیں مگر سخت جاں پہاڑ

سینے سلگ کے ہو رہے ہوں گے دھواں دھواں

جوالا مکھی تبھی تو ہوئے بے زباں پہاڑ

پتھرسلیٹ میں لٹا کر استھیاں تمام

مانو ددھیچی سے کھڑے ہوں جسم و جاں پہاڑ

ندیوں،سرووروں کا بھی ہوتا کہاں وجود

دیتے نہ بادلوں کو جو طرزِ بیاں پہاڑ

وہ تو رہے گا کھود کر ان کی جڑیں تمام

بیشک رہے ہیں آدمی کے سایباں پہاڑ

سینوں سے ان کے بجلیاں،سڑکیں گزر گئیں

ون، جیو، جنتو، برف، ہوا، اب کہاں پہاڑ

کچرا،کباڑ،پلاسٹک اپہار میں ملے

سیلانیوں کے  دوج ، ہوئے ہیں میزباں پہاڑ

٭٭٭

 

اندھیرے چند لوگوں کا اگر مقصد نہیں ہوتے

یہاں کے لوگ اپنے آپ میں سرحد نہیں ہوتے

نہ بھولو، تم نے یہ اونچائیاں بھی ہم سے چھینی ہیں

ہمارا قد نہیں لیتے تو آدم قد نہیں ہوتے

فریبوں کی کہانی ہے تمہارے ماپ دنڈوں میں

وگرنہ ہر جگہ بونے کبھی انگد نہیں ہوتے

تمہاری یہ عمارت روک پائے گی ہمیں کب تک

وہاں بھی تو بسیرے ہیں جہاں گنبد نہیں ہوتے

چلے ہیں گھر سے تو پھر دھوپ سے بھی جوجھنا ہوگا

سفر میں ہر جگہ سندر  گھنے برگد نہیں ہوتے

٭٭٭

 

بند کمروں کے لئے تازہ ہوا لکھتے ہیں ہم

کھڑکیاں ہوں ہر طرف ایسی دعا لکھتے ہیں ہم

آدمی کو آدمی سے دور جس نے کر دیا

ایسی سازش کے لئے ہر بد دعا لکھتے ہیں ہم

جو بچھائی جا رہی ہیں زندگی کی راہ میں

ان سرنگوں سے نکلتا راستہ لکھتے ہیں ہم

آپ نے بانٹے ہیں جو بھی روشنی کے نام پر

ان اندھیروں کو کچلتا راستہ لکھتے ہیں ہم

لا سکے سب کو برابر منزلوں کی راہ پر

ہر قدم پر ایک ایسا قافلہ لکھتے ہیں ہم

منزلوں کے نام پر ہے جن کو رہبر نے چھلا

ان کے حق میں اک مسلسل فلسفا لکھتے ہیں ہم

٭٭٭

 

تہذیب یہ نئی ہے، اس کو سلام کہئے

 راون  جو سامنے ہو، اس کو بھی  رام  کہئے

جو وہ دکھا رہے ہیں ، دیکھیں نظر سے ان کی

راتوں کو دن سمجھیئے، صبحوں کو شام کہئے

جادوگری میں ان کو ، اب ہے کمال حاصل

ان کو ہی  رام  کہئے، ان کو ہی  شیام  کہئے

موجود جب نہیں وہ خود کو خدا سمجھیئے

موجودگی میں ان کی ، خود کو غلام کہئے

ان کا نصیب وہ تھا، سب پھل انہوں نے کھائے

اپنا نصیب یہ ہے، گٹھلی کو آم کہئے

جن جن جگہوں پہ کوئی، لیلا انہوں نے کی ہے

ان سب جگہوں کو چیلو، گنگا کا دھام کہئے

بیکار الجھنوں سے گر چاہتے ہو بچنا

وہ جو بتائیں اس کو اپنا مقام کہئے

اس دورے بے بسی میں گر کامیاب ہیں وہ

قدرت کا ہی کرشمہ یا انتظام کہئے

دستور کا نبھانا بندش ہے مے کدے کی

جو ہیں گلاس خالی ان کو بھی جام کہئے

بدبو ہو تیز پھر بھی، کہئے اسے نہ بدبو

 اب ہو گیا شائد، ہم کو زکام  کہئے

یہ ملک کا مقدر، یہ آج کی سیاست

ملاؤں میں ہوئی ہے، مرغی حرام کہئے

 دوج  صدر بزم کے ہیں، وہ جو کہیں سو بہتر

باسی غزل کو ان کی تازہ کلام کہئے

٭٭٭

ہندی میں کلام کا ماخذ:

http://kavitakosh.org/kk/index.php

رسم الخط کی تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید