FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ختمِ نبوت کے موضوع پر چہل حدیث

               ڈاکٹر محمد سلطان شاہ

صدر شعبہ عربی و علوم اسلامیہ، جی، سی یونیورسٹی، لاہور

 

نوٹ: اس مضمون میں صحاحِ ستہ کی تمام احادیث ”موسوعة الحدیث الشریف الکتب السنة“ مطبوعہ دارالسلام للنشی التوزیع الریاض، ۲۰۰۰ ، سے نقل کی گئی ہیں اور احادیث کے نمبرز اس کے مطابق ہیں۔

اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے انسانیت کی راہنمائی کے لئے انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا اور اُن پر وحی نازل فرمائی تاکہ وہ الوہی پیغام پر عمل پیرا ہو کر اپنے امتیوں کے سامنے لائق تقلید نمونہ پیش کر سکیں۔ نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ علیہ التحیة والثناء پر اختتام پذیر ہوا۔ خلاّقِ عالمین نے اپنے محبوبِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین کے لقب سے سرفراز فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر عالم کے لیے رحمت کبریا ہیں۔ اس کے علاوہ رب کریم نے حضور سید انام صلی اللہ علیہ وسلم پر دین مبین کی تکمیل فرما دی اور وحی جیسی نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام جیسے عالمگیر (Universal)، ابدی (Eternal) اور متحرک (Dynamic) دین کو رہتی دُنیا تک کے لئے اپنا پسندیدہ دین قرار دے دیا۔ قرآن مجید میں حضور اکرم، نبی معظم، رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا اعلان اس آیت مبارکہ میں کیا گیا:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا. (سورة الاحزاب:۳۳-۴۰)

محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے،اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (بریلوی، احمد رضا خان، کنزالایمان فی ترجمة القرآن، لاہور: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ص:۵۰۹)

یہ نص قطعی ہے ختم نبوت کے اس اعلان خداوندی کے بعد کسی شخص کو قصرِ نبوت میں نقب زنی کی سعی لاحاصل نہیں کرنی چاہئے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مہبطِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے ارشادات کتب احادیث میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔ یہاں ایسی احادیث پر مبنی اربعین پیش کی جا رہی ہے تاکہ منکرین ختم نبوت پر حق واضح ہوسکے اور یہ عمل اس حقیر پر تقصیر کے لئے نجاتِ اُخروی کا باعث ہو، کیونکہ محدثین کرام نے اربعین کی فضیلت میں روایات نقل فرمائی ہیں۔ حافظ ابی نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی المتوفی ۴۳۰ھ نے حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی یہ روایت درج کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من حفظ علی اُمتی أربعین حدیثا ینفعہم اللّٰہ عز وجل بہا، قیل لہ: أدخل من أی أبواب الجنة شئت.

جس شخص نے میری اُمت کو ایسی چالیس احادیث پہنچائیں جس سے اللہ تعالیٰ عز و جل نے ان کو نفع دیا تو اُس سے کہا جائے گا جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔ (الاصفہانی، ابی نعیم احمد بن عبداللہ، حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء، مصر: مکتبہ الخانجی بشارع عبدالعزیز ومطبعة السعادہ بجوار محافظہ، ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲/)۔ ۴:۱۸۹

۱- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاَحْسَنَہ وَاَجْمَلَہ اِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّاسَ یَطُوْفُوْنَ وَیَعْجَبُوْنَ لَہ وَیَقُوْلُوْنَ، ہَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.

میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا،اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، پس لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث:۳۵۳۴، ۳۵۳۵)

۲- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ وَنَحْنُ الْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَنَحْنُ اَوَّلُ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ، یبدأ أَنَّہُمْ أُوْتُوْا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِنَا وَاُوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ.

ہم سب آخر والے روزِ قیامت سب سے مقدم ہوں گے اور ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ حالانکہ (پہلے والوں) کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں ان سب کے بعد۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعہ، باب ہدایة ہذہ الامة لیوم الجمعة، حدیث: ۱۹۷۸، ۱۹۷۹، ۱۹۸۰، ۱۹۸۱، ۱۹۸۲)

۳- حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ رہا۔ میں نے خود سنا کہ وہ یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ نبی مکرم رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔

کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الأَنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہ نَبِیٌّ وَاِنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ، قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوْا بِبَیْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، أَعْطُوْہُمْ حَقَّہُمْ، فَاِنَّ اللّٰہَ سَائِلُہُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاہُمْ.

بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء کرام کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہو جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنا دیتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، اُن کے متعلق آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بعد دوسرے کی بیعت پوری کرو اور ان کے حق اطاعت کو پورا کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی رعیت کے متعلق اُن سے سوال کرے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ذکر عن بنی اسرائیل، حدیث: ۳۴۵۵)

۴- حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کو ملا کر اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَہَاتَیْنِ.

میں اور قیامت اس طرح ملے ہوئے بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔(صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورة والنازعات، حدیث: ۴۹۳۶، کتاب الطلاق، باب اللعان، حدیث: ۵۳۰۱، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم، بعثت انا والساعة کہاتین، حدیث: ۶۵۰۳، ۶۵۰۴، ۶۵۰۵)

۵- امام مسلم نے تین اسناد سے یہ حدیث بیان کی ہے:

سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم، وَفِیْ حَدِیْثِ عُقَیْلٍ: قَالَ: قُلْتُ لِلزُّہْرِیْ: وَمَا الْعَاقِبُ؟ قَالَ: الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، عقیل کی روایت میں ہے زہری نے بیان کیا عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: ۶۱۰۷)

۶- حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ معظم، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

اِنَّ لِیْ أَسْمَاءً، اَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَاَنَا الْمَاحِی یَمْعُو اللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ، وَاَنَا الْعَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَیَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ اَحَدٌ.

بے شک میرے کئی اسماء ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا، اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل،باب فی اسمائہ صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: ۶۱۰۶)

۷- حضرت محمد بن جبیر اپنے والد گرامی حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لِیْ خَمْسَةُ أَسْمَآء اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یَمْحُوا اللّٰہ بِیَ الْکُفْرَ، وَأنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ.

میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد ہوں، اور میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر ہوں یعنی لوگ میرے بعد حشر کئے جائیں گے اور میں عاقب ہوں۔ یعنی میرے بعد دُنیا میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب ما جاء فی اسماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث: ۳۵۳۲، صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب من بعد اسمہ احمد، حدیث: ۴۸۹۶)

۸- امام مسلم نے ثقہ راویوں کے توسط سے حضرت ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے:

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُسَمِّی لَنَا نَفْسَہ أَسْمَاءَ، فَقَالَ أَنَا مُحَمَّدٌ، وأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّی، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِیُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِیُّ الرَّحْمَةِ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے اپنے کئی نام بیان کئے، آپ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور مقفی اور حاشر ہوں اور نبی التوبة اور نبی الرحمة ہوں۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث:۶۱۰۸)

۹- حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے فرمایا:

اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِیَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقِبِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.

میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹا دے گا، میں حاشر ہوں لوگوں کا میرے قدموں میں حشر کیا جائے گا، اور میں عاقب ہوں، اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث:۶۱۰۵)

۱۰- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامَکُمْ مِنْکُمْ.

اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا اور امام تم میں سے کوئی شخص ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکما بشریعة نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث:۳۹۲)

۱۱- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 اَتَقُوْمَ السَّاعَةُ حَتّٰی یَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَیَکُوْنَ بَیْنَہُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِیْمَةٌ، دَعْوَاہُمَا وَاحِدَةٌ، وَلاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِنْ ثَلاَثِیْنَ، کُلُّہُمْ یَزعُمُ أَنَّہ رَسُوْلُ اللّٰہ.

 قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو گروہ آپس میں نہ لڑیں، دونوں میں بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب جھوٹے دجال ظاہر نہ ہولیں۔ ہر ایک یہ کہے گا میں اللہ کا رسول ہوں۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الاسلام، حدیث: ۳۵۷۱)

۱۲- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّةَ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ: الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ.

 نبوت میں سے (میری وفات کے بعد) کچھ باقی نہ رہے گا مگر خوش خبریاں رہ جائیں گی۔ لوگوں نے عرض کیا خوشخبریاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا اچھے خواب۔ (صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب المبشرات، حدیث:۶۹۹۰)

۱۳- حضرت ابواُمامہ الباہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے:

 أَنَا اٰخِرُ الْأَنْبِیَاءِ، وَأَنْتُمْ اٰخِرُ الأُمَمِ.

 میں آخری نبی ہوں اور تم آخری اُمت ہو۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الفتن، باب فتنہ الدجال وخروج عیسیٰ ابن مریم وخروج یأجوج ومأجوج، حدیث: ۴۰۷۷، المستدرک للحاکم حدیث:۸۶۲۱)

۱۴- حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن.

 بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں اور انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ (المستدرک للحاکم، تفسیر سورة الاحزاب، حدیث: ۳۵۶۶، جلد:۷، ص:۴۵۳۔ مسند احمد، حدیث عرباض بن ساریہ، جلد۴، ص:۱۲۷)

۱۵- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور خاتم الانبیاء علیہ التحیة والثناء نے ارشاد فرمایا:

نَحْنُ الآخِرُوْنَ مِنْ أَہْل الدُّنْیَا، وَالأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، الْمُقْضِیُّ لَہُمْ قَبْلَ الْخَلاَئِقِ.

 ہم (امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم) اہل دنیا میں سے سب سے آخر میں آئے ہیں اور روزِ قیامت کے وہ اولین ہیں جن کا تمام مخلوقات سے پہلے حساب کتاب ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعة، باب ہدایة ہذہ الأمة لیوم الجمعة، حدیث: ۱۹۸۲)

۱۶- حضرت ضحاک بن نوفل رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلاَ اُمَّةَ بَعْدَ اُمَّتِیْ.

میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، عن ضحاک بن رمل الجہنی، حدیث: ۸۱۴۶، ج:۸، ص:۳۰۳)

۱۷- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ حضور ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

کُنْتَ أَوَّلَ النَّبِیِّیْن فِی الْخَلْقِ وَاٰخِرُہُمْ فِیْ البَعْثِ.

میں خلقت کے اعتبار سے انبیاء کرام میں پہلا ہوں اور بعثت کے اعتبار سے آخری ہوں۔ (الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، حدیث: ۴۸۵۰، ۳:۲۸۲، حدیث: ۷۱۹۰، ۴:۴۱۱)

۱۸- حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں درود شریف کے یہ الفاظ سکھائے:

اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ صَلاَتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ، وَاِمَامَ الْمُتَّقِیْنَ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ اِمَامَ الْخَیْرِ، (وَقَائِدِ) الْخَیْرِ، وَرَسُوْلِ الرَّحْمَةِ، اَللّٰہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا یَغْبِطُہ بِہِ الأَوَّلُوْنَ وَالاٰخِرُوْنَ (اس کے بعد پورا درود ابراہیمی ہے)

الٰہی اپنا درود و رحمت اور برکات رسولوں کے سردار، متقیوں کے امام ابو نبیوں کے خاتم محمد پر نازل فرما جو تیرے بندے اور رسول اور امام الخیر اور (قائد) الخیر اور رسول رحمت ہیں۔ الٰہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقام محمود پر فائز فرما جس پر اولین و آخرین رشک کرتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب اقامة الصلوٰة والسنة فیہا، باب ما جاء فی التشہد، حدیث:۹۰۶)

۱۹- حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:

 لَمَّا مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم وَقَالَ: اِنَّ لَہ مُرْضِعًا فِی الْجَنَّةِ وَلَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا.

 جب اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی (کا انتظام) ہے۔ اگر وہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وذکر وفاتہ، حدیث:۱۵۱۱)

۲۰- امام ابن ماجہ سے مروی روایت میں حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ہے:

مَاتَ وَہُوَ صَغِیْرٌ وَلَوْ قُضِیَ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم نَبِیٌّ لَعَاشَ ابْنُہ، وَلٰکِنْ لاَ نَبِیَّ بَعْدَہُ.

ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوا جب وہ چھوٹے تھے۔ اگر فیصلہ (تقدیر) یہ ہوتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو ان کا صاحبزادہ زندہ رہتا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ذکر وفاتہ، حدیث:۱۵۱۰)

۲۱- حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:

اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّہ لَمْ یَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النَّبُوَّةِ اِلاَّ الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ یَرَاہَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرٰی لَہ.

اے لوگو علاماتِ نبوت میں سے صرف رویائے صالحہ (سچا خواب) ہی باقی ہے جو مسلمان خود دیکھتا ہے یا اس کے لئے کوئی دیکھتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب تعبیر الرؤیا، حدیث:۳۸۹۹، صحیح مسلم کتاب الصلوٰة، باب النہی عن قرأة القرآن فی الرکوع والسجود، حدیث:۱۰۷۴)

۲۲- حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:

خَلَّفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ، فِی غَزْوَةِ تَبُوْکَ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! تَخَلَّفْنِیْ فِی النِّسَآءِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ: اَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہٰرُوْنَ مِنْ مُوْسٰی؟ غَیْرَ أَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ نہیں لیا بلکہ گھر پر چھوڑ دیا تو انھوں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم میرے ساتھ ایسے ہو جاؤ جیسے ہارون، موسیٰ کے ساتھ لیکن میرے بعد نبوت نہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ ، حدیث:۶۲۱۸-۶۲۲۱)

۲۳- ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور خاتم الانبیاء علیہ التحیة والثناء نے ارشاد فرمایا:

قَدْ کَانَ یَکُوْنُ فِی الأُمَمِ قَبْلَکُمْ، مَحَدَّثُوْنَ، فَاِنْ یَکُنْ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْہُمْ اَحَدٌ فَاِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْہُمْ، قَالَ: ابْنُ وَہْبٍ: تَفْسِیْرُ مُحَدَّثُوْنَ، مُلْہَمُوْنَ.

تم سے پہلے پچھلی اُمتوں میں محدث تھے۔ اگر اس امت میں کوئی محدث ہوگا تو وہ عمر بن الخطاب ہیں۔ ابن وہب نے کہا محدث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة۔ باب من فضائل عمر رضی اللہ تعالی عنہ، حدیث:۶۲۰۴)

۲۴- حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَوْ کَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔ (جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”لو کان نبی بعدی لکان عمر“ حدیث:۳۸۸۶)

۲۵- حضرت ام کرز الکعبیة رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے حضور ختی المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

ذَہَبَت النَّبُوَّةُ وَبَقِیَتِ الْمُبَشِّرَاتُ.

نبوت ختم ہو گئی، صرف مبشرات باقی رہ گئے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب تعبیر الرؤیا، حدیث:۳۸۹۶)

۲۶- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

فَاِنِّیْ آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ، وَاِنَّ مَسْجِدِیْ آخِرُ الْمَسَاجِدِ.

بے شک میں آخر الانبیاء ہوں، اور میری مسجد آخرالمساجد ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الحج، باب فضل الصلوٰة بمسجدی مکة والمدینة، حدیث:۳۳۷۶)

۲۷- حضرت نعیم بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ حضور خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی اطلاع ان الفاظ میں دی:

لاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یَخْرُجَ ثَلاَثُوْنَ کَذَابًا کُلُّہُمْ یَزْعمُ اَنَّہ نَبِیُّ.

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کذاب ظاہر نہ ہو جائیں جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ نبی ہے۔ (ابن ابی شیبہ فی مصنفہ، حدیث: ۳۷۵۶۵، ۷/۵۰۳)

۲۸- حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور سیدانام صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے مخاطب ہو کر کہا:

یٰا أَبَا ذَرٍ أَوَّلُ الْاَنْبِیَاء آدَمُ وَآخِرُہ مُحَمَّدٌ.

اے ابوذر! انبیائے کرام میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ (الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، عن ابوذر، حدیث: ۸۵:۱/۳۹)

۲۹- حضرت مصعب بن سعد اپنے والد حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں:

أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم خَرَجَ اِلٰی تَبُوْکَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِیًّا فَقَال: أَتُخَلِّفُنِیْ فِی الصِّبْیَانِ وَالنِّسَاءِ؟ قَالَ: أَلاَ تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ أَنَّہ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ.

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی جانب روانہ ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی جگہ چھوڑا تو انھوں نے عرض کیا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی مناسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۂ تبوک، حدیث: ۴۴۱۶)

۳۰- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور سیدانامصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 فُضِّلَتْ عَلٰی الأَنْبِیَآءِ بِسِتٍّ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمْ ونُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْمَغَانِمُ، وَجُعِلَتْ لِیْ الأَرْضُ طَہُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ اِلی الْخَلْقِ کَافَّةً، وَخُتِمَ بِیَ النَّبیُّوْنَ.

مجھے تمام انبیاء کرام پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی اوّل یہ کہ مجھے جوامع الکلم دئیے گئے اور دوسرے یہ کہ رُعب سے میری مدد کی گئی۔ تیسرے میرے لئے غنیمت کا مال حلال کر دیا گیا۔ چوتھے میرے لئے تمام زمین پاک اور نماز پڑھنے کی جگہ بنا دی گئی۔ پانچویں میں تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ چھٹے یہ کہ مجھ پر انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب المساجد و موضع الصلاة، حدیث:۱۱۶۷)

۳۱- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ کَانَتْ تَسُوْسُہُمْ اَنْبِیَائُہُم کُلَّمَا ذَہَبَ نَبِیٌّ خَلْفَہ نَبِیُّ وَّ اِنَّہ لَیْسَ کَائِنًا فِیْکُمْ نَبِیٌّ بَعْدِیْ.

بنی اسرائیل کا نظام حکومت ان کے انبیاء کرام چلاتے تھے جب بھی ایک نبی رخصت ہوتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آ جاتا اور بے شک میرے بعد تم میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (ابوبکر عبداللہ بن محمد ابی شیبہ، امام، المصنف، جلد۱۵، ص:۵۸۔ کراچی: ادارة القرآن ۱۴۰۶ھ)

۳۲- حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ارشاد فرمایا:

أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَیْرَ اَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

 کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ، حدیث: ۶۲۱۸)

۳۳- حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے:

وَرَأَیْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ کَتْفِہ مِثْلَ بَیْضَةِ الْحَمَامَةِ یُشْبِہُ جَسَدَہ.

 اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت دیکھی جس کا رنگ جسم کے رنگ کے مشابہ تھا۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اثبات خاتم النبوة، حدیث:۶۰۸۴)

۳۴- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں:

 قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِیْتُ خَزَآئِنَ الأَرْضِ فَوُضِعَ فِیْ یَدَیَّ اُسْوَارَانِ مِنْ ذَہَبٍ فَکَبُرَ ا عَلَیَّ وَأَہَمَّانِیْ فَأُوْحِیَ اِلَیَّ أَنِ انْفُخْہُمَا فَنَفَخْتُہُمَا فَذَہَبَا فَأَوَّلْتُہُمَا الْکَذَّابِیْن الَّذِیْنَ أَنَا بَیْنَہُمَا صَاحِبَ صَنْعَآءِ وَصَاحِبُ الْیَمَامَةِ.

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے جو مجھے بہت بھاری لگے اور میں ان سے متفکر ہوا، پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان کو پھونک مار کر اُڑادوں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اڑ گئے۔ میں نے اس خواب کی یہ تعبیر لی کہ میں دو کذابوں کے درمیان ہوں۔ ایک صاحب صنعاء ہے اور دوسرا صاحب یمامہ۔ (صحیح مسلم، کتاب الروٴیا، حدیث:۵۹۳۶)

۳۵- حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک حدیث مبارکہ کے آخر میں ہے:

 فَأْوَّلْتُہُمَا کَذَّابَیْن یَخْرُجَانِ مِنْ بَعْدِیْ فَکَانَ اَحَدُہُمَا الْعَنْسِیَّ صَاحِبَ صَنْعَآءَ وَالآخَرُ مُسَیْلِمَةَ صَاحِبُ الْیَمَامَةِ.

 میں نے اس کی یہ تعبیر لی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخصوں کا ظہور ہوگا۔ ایک ان میں سے صنعاء کا رہنے والا عنسی ہے دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسیلمہ ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الروٴیا، حدیث:۵۸۱۸- ۲۲۷۴)

۳۶- حضرت وہب بن منبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن حضرت نوح علیہ السلام کی امت کہے گی:

وَأَنّٰی عَلِمْتَ ہٰذَا یَا أَحْمَدُ وَأَنْتَ وَأُمَّتُکَ آخِرُ الأُمَمِ.

 اے احمد! آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت اُمتوں میں آخری ہیں۔ (المستدرک للحاکم، باب ذکر نوح النبی، حدیث: ۴۰۱۷-۲،۵۹۷)

۳۷- حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق فرمایا:

 أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہ لاَ نَبِیْ بَعْدِیْ.

 تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کیلئے ہارون علیہ السلام تھے۔ سنو بلاشبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

اس روایت کی بابت راوی کے استفسار پر حضرت سعد نے فرمایا: ”میں نے اس حدیث کو خود سُنا ہے۔“ انھوں نے اپنی دونوں انگلیاں کانوں پر رکھیں اور کہا اگر میں نے خود نہ سُنا ہو تو میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ، حدیث: ۶۰۹۵)

۳۸- حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کردہ ایک طویل حدیث مبارکہ میں ہے:

 بَیْنَ کَتِفَیْہ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَہُوَ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری بنی ہیں۔ (جامع الترمذی، ابواب المناقب، باب وصف آخر من علی رضی اللہ تعالی عنہ، حدیث:۳۶۳۸)

۳۹- حضرت عامر اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:

أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی، اِلاَّ اَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

تم میرے ساتھ ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے ساتھ تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن أبی طالب رضی اللہ تعالی عنہ، حدیث: ۶۲۱۷۔ سنن ابن ماجہ، کتاب السنة، باب فی فضائل اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فضل علی بن أبی طالب رضی اللہ تعالی عنہ، حدیث:۱۲۱)

۴۰- علامہ علاء الدین علی المتقی نے ”کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول رقم کیا ہے:

 لا نبی بعدی ولا أمة بعدکم، فاعبدوا ربکم، أقیموا خمسکم وصوموا شہرکم، وأطیعوا ولاة أمرکم، أدخلوا جنة ربکم.

میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اُمت، پس تم اپنے رب کی عبادت کرو اور پنج گانہ نماز قائم کرو اور اپنے پورے مہینے کے روزے رکھو اور اپنے اولو الامر کی اطاعت کرو، (پس) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔ (علی المتقی الہندی کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۴۳۶۳۸، بیروت: موسوعة الرسالة، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵/ ج:۱۵، ص:۹۴۷)

۴۱- علاء الدین علی المتقی نے ”کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں یہ حدیث نقل کی ہے:

 لا نبوة بعدی الا المبشرات، الریا الصالحة.(ایضاً، حدیث ۴۱۴۲۲، ج:۱۵، چ:۳۷۰)

۴۲- علامہ علاؤالدین علی المتقی بن حسام الدین الہندی رحمة اللہ علیہ نے ”کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے:

یا ایہا الناس! انہ لا نبی بعدی ولا امة بعدکم، الا! فاعبدوا ربکم وصلوا خمسکم، وصوموا شہرکم، وصلوا ارحامکم، وادوا زکاة اموالکم طیبة بہا انفسکم، واطیعوا ولاة امرکم، تدخلوا جنة ربکم.

اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اُمت ہے۔ سنو! اپنے رب کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز پڑھو اور اپنے مہینے (رمضان) کے روزے رکھو اور اپنی رشتہ داریاں جوڑو اور اپنے اموال کی زکوٰة خوشدلی سے ادا کرو اور اپنے اولو الامر کی اطاعت کرو، تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ (علی المتقی الہندی کنزل العمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۴۳۶۳۷، بیروت: موسوعة الرسالة، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵/، ج:۱۵،ص:۹۴۷)

۴۳- حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے امام احمد بن حنبل نے یہ حدیث مبارکہ نقل کی ہے کہ جب غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تو انھوں نے عرض کیا:

 یا رسول اللّٰہ، اتخلفنی فی الخالفة، فی النساء والصبیان؟ فقال: اما ترضی ان تکون منی بمنزلة ہارون من موسیٰ؟ قال: بلی یا رسول اللّٰہ، قال: فادبر علی مسرعا کانی انظر الی غبار قدمیہ یسطع، وقد قال حماد: فرجع علی مسرعا.

 یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے پیچھے رہ جانے والوں میں (یعنی) عورتوں اور بچوں میں جانشین بنا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون علیہ السلام  کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہیں؟ اُس (راوی) نے کہا: پس علی رضی اللہ تعالی عنہ تیزی سے مُڑے تو میں نے گویا ان کے قدموں کا غُبار اُڑتے دیکھا اور حماد نے کہا: پس علی تیزی سے مُڑے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث: ۱۴۹۰، احمد محمد شاکر (شرحہ وضع فہارسہ) مصر: دارالمعارف، ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۵/، ج:۳،ص:۵۰)

۴۴- امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں، امام طحاوی نے مشکل الآثار میں، علامہ جلال الدین سیوطی نے الدرالمنثور میں، علامہ علی المتقی الہندی نے کنزالعمال میں، امام ہیشمی نے مجمع الزوائد میں حضور ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے:

 لا نبی بعدی ولا أمة بعدک. میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمت نہیں۔ (زغلول، ابوطاہر محمد السعید بن بسیونی، موسوعة اطراف الحدیث النبوی الشریف، بیروت: دار الفکر،۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴/، ج:۷،ص:۲۸)

٭٭٭

ماخذ:

ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 94 ، رجب- شعبان 1431 ہجری مطابق جولائی 2010 ء

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید