FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

خاکدان

 

 

                   ثروت حسین

 

پیشکش: تصنیف حیدر

 

 

ٕ

 

 

 

ثروت حسین کا یہ دوسرا مجموعہ کلام، ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جا رہا ہے۔ خاکدان نامی اس مجموعے میں غزلیں اور نظمیں دونوں موجود ہیں۔ غزلوں کا اسلوب نہایت الگ اور دلچسپ ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ غزلوں کو پڑھ کر شاعر کے یہاں موجود کسی خاص قسم کے نظریے کو قائم کاہ جائے، کیونکہ اکثر شاعر غزل کی دیرینہ اور پکی پکائی شعریات سے کام چلا کر خود کی ہی تردید اور تائید کرتا رہتا ہے اور مضمون آفرینی کے چکر میں کبھی ادھر کی ہانکتا ہے، کبھی ادھر کی لیکن ثروت کے یہاں ایسا نہیں ہے، ان کے یہاں دنیا کو سمجھنے، اسے جاننے اور پہچاننے کی کوشش اور ایک قسم کا ذہنی اضطراب ان غزلوں میں ہر جگہ صاف دکھائی دیتا ہے اور کہیں کہیں یہ رجحان پوری غزل (مثلاً سب کے لیے کیوں نہیں ) میں متواتر موجود رہتا ہے۔ نظمیں بھی کمال ہیں، خاص طور پر مجھے ‘جہالت کا علم’ اور ‘منہ زور گھوڑے ‘ بہت پسند آئیں۔ آئیے آپ بھی اس مجموعے کے مطالعے کا شوق اگر رکھتے ہوں، تو اسے پورا کیجیے اور ثروت حسین کے تعلق سے، اس کی شعری اور فکری بصیرت کے بارے میں اپنی اپنی رائے قائم کیجیے۔ یہ کلیات آج پبلیکشنز سے شائع ہو چکی ہے، اور اسے خریدنے کے لیے آپ اجمل کمال سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ادبی دنیا پر یہ کتاب انہی کے شکریے کے ساتھ اپلوڈ کی جا رہی ہے۔ (تصنیف حیدر)

٭٭٭

 

نوٹ: خاکدان مجموعہ 1998 میں شائع ہوا تھا۔

 

 

 

کبھی تیغِ تیز سپرد کی، کبھی تحفۂ گلِ تر دیا

کسی شاہ زادی کے عشق نے مرا دل ستاروں سے بھر دیا

 

یہ جو روشنی ہے کلام میں کہ برس رہی ہے تمام میں

مجھے صبر نے یہ ثمر دیا، مجھے ضبط نے یہ ہنر دیا

 

زمیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، نیا شہر ایک بساؤں گا

میرے بخت نے مرے عہد نے مجھے اختیار اگر دیا

 

کسی زخمِ تازہ کی چاہ میں کہیں بھول بیٹھوں نہ راہ میں

کسی نوجواں کی نگاہ نے جو پیام وقتِ سفر دیا

 

مرے ساتھ بود و نبود میں جو دھڑک رہا ہے وجود میں

اسی دل نے ایک جہان کا مجھے روشناس تو کر دیا

٭٭٭

 

اور دیوارِ چمن سے میں کہاں تک جاؤں گا

پھول تھامے ہاتھ میں اس کے مکاں تک جاؤں گا

 

جل اٹھے گی تیرگی میں ایک ست رنگی دھنک

شاعری کا ہاتھ تھامے میں جہاں تک جاؤں گا

 

منتظر ہو گی مری، وہ آنکھ فوآرے کے پاس

دشت سے لوٹوں گا صحنِ گلستاں تک جاؤں گا

 

آئینے میں عکس اپنا دیکھنے کے واسطے

ایک دن اس چشمۂ آبِ رواں تک جاؤں گا

 

ظلمتوں کے دشت میں ایک مشعلِ خود سوز ہوں

روشنی پھیلاؤں گا ثروت جہاں تک جاؤں گا

٭٭٭

 

جب شام ہوئی میں نے قدم گھر سے نکالا

ڈوبا ہوا خورشید سمندر سے نکالا

 

ہر چند کہ اس رہ میں تہی دست رہے ہم

سودائے محبت نہ مگر سر سے نکالا

 

جب چاند نمودار ہوا دور افق پر

ہم نے بھی پری زاد کو پتھر سے نکالا

 

دہکا تھا چمن اور دمِ صبح کسی نے

اک اور ہی مفہوم گلِ تر سے نکالا

 

اس مردِ شفق فام نے اک اسم پڑھا اور

شہزادی کو دیوار کے اندر سے نکالا

٭٭٭

 

بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا

میں ہار گیا جنگ مگر دل نہیں ہارا

 

روشن ہے مری عمر کے تاریک چمن میں

اس کنجِ ملاقات میں جو وقت گزارا

 

اپنے لیے تجویز کی شمشیرِ برہنہ

اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا

 

کچھ سیکھ لو لفظوں کو برتنے کا سلیقہ

اس شغل میں گزرا ہے بہت وقت ہمارا

 

لب کھولے پری زاد نے آہستہ سے ثروت

جوں گفتگو کرتا ہے ستارے سے ستارا

٭٭٭

 

 

 

 

نخلِ امید پہ ہم صبر کا پھل دیکھیں گے

آج اگر دیکھ نہ پائیں گے تو کل دیکھیں گے

 

چشمِ نظارہ ملی ہے تو بہرصورت ہم

آدمِ خاک کو مصروفِ عمل دیکھیں گے

 

ورقِ زیست پہ لکھیں گے کہانی اپنی

نظمِ ہستی کو کسی روز بدل دیکھیں گے

 

ساتھ رکھیں گے اسے باغ کی تنہائی میں

اور فوارے سے گرتا ہوا جَل دیکھیں گے

 

مدتوں بعد کوئی زمزمہ پرداز ہوا

آج ہم لوگ طلسماتِ غزل دیکھیں گے

 

لوٹ کر کوئی جہاں سے نہیں آتا ثروت

انہی راہوں پہ کسی وقت نکل دیکھیں گے

٭٭٭

 

 

 

ثوابت سے سیّار تک جائیں گے

زمانے کی رفتار تک جائیں گے

 

ذرا دیکھنا آدمی کے قدم

جہانوں کے اَسرار تک جائیں گے

 

نواحِ گلستاں میں خاموش رہ

یہ نالے گرفتار تک جائیں گے

 

جہاں کے جھمیلوں سے فرصت ملی

تو یارِ طرح دار تک جائیں گے

 

بندھے ہاتھ کھُل جو گئے ساتھیو

تو شاخِ ثمردار تک جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھ کو یہ رنج کھائے جاتا ہے

باغ پتّے گرائے جاتا ہے

 

دیکھ رہ گیر اس بیاباں کا

دھوپ کے سائے سائے جاتا ہے

 

’’ہے مکان و سرا و جا خالی‘‘1

’’تو کہاں منھ اٹھائے جاتا ہے ‘‘1

 

کوئی سمجھاؤ اس درندے کو

آدمی خوں بہائے جاتا ہے

 

شاعرِ بے دماغ مٹّی پر

بیل بوٹے بنائے جاتا ہے

 

زرد ہو جائے گی زمیں ثروت

کیوں ستارے گرائے جاتا ہے

 

1۔ میر

٭٭٭

 

 

 

رات ڈھلنے کے بعد کیا ہو گا

دن نکلنے کے بعد کیا ہو گا

 

سوچتا ہوں کہ اس سے بچ نکلوں

بچ نکلنے کے بعد کیا ہو گا

 

خواب ٹوٹا تو گر پڑے تارے

آنکھ ملنے کے بعد کیا ہو گا

 

رقص میں ہو گی ایک پرچھائیں

دیپ جلنے کے بعد کیا ہو گا

 

دشت چھوڑا تو کیا ملا ثروت

گھر بدلنے کے بعد کیا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

سحر ہو گی تارے چلے جائیں گے

یہ ساتھی ہمارے چلے جائیں گے

 

کسی اجنبی سرزمیں کی طرف

کنارے کنارے چلے جائیں گے

 

سنو، شب گئے بھیڑ چھٹ جائے گی

یہ عشّاق سارے چلے جائیں گے

 

ترستی رہے گی زمیں دھوپ میں

سبھی اَبر پارے چلے جائیں گے

 

وہ آئے نہ آئے مگر دوستو

اسے ہم پکارے چلے جائیں گے

 

تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم

یونہی دن گزارے چلے جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دریچے ہوادار تھے اِس جگہ

کبھی شہر و بازار تھے اِس جگہ

 

جہاں اڑ رہی ہے بیاباں کی ریت

گلستاں کے آثار تھے اِس جگہ

 

بتاتی ہے رنگت در و بام کی

زمیں پر شفق زار تھے اِس جگہ

 

کھڑا ہے جہاں سر جھکائے فلک

ستارے نمودار تھے اِس جگہ

 

مگن اپنے خوابوں کی تعبیر میں

کبھی لوگ بیدار تھے اِس جگہ

 

سمندر کو جاتے ہوئے راستے

میانِ گل و خار تھے اِس جگہ

 

اُڑا لے گئی ان کو ثروت ہوا

گُلوں کے جو انبار تھے اس جگہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پھر وہ برسات دھیان میں آئی

تب کہیں جان جان میں آئی

 

پھول پانی میں گر پڑے سارے

اچھی جنبش چٹان میں آئی

 

روشنی کا اتا پتا لینے

شبِ تیرہ جہان میں آئی

 

رقصِ سیّارگاں کی منزل بھی

سفرِ خاک دان میں آئی

 

آئینے سے نکل کے ایک پری

بازوؤں کی امان میں آئی

 

وہ مجھے ڈھونڈتی ہوئی ثروت

ایک دن گلستان میں آئی

٭٭٭

 

 

میں جو گزرا سلام کرنے لگا

پیڑ مجھ سے کلام کرنے لگا

 

دیکھ اے نوجوان میں تجھ پر

اپنی چاہت تمام کرنے لگا

 

کیوں کسی شب چراغ کی خاطر

اپنی نیندیں حرام کرنے لگا

 

سوچتا ہوں دیارِ بے پروا

کیوں مرا احترام کرنے لگا

 

عمرِ یک روز کم نہیں ثروت

کیوں تلاشِ دوام کرنے لگا

٭٭٭

 

اُسی انجمن کی طرف جاؤں گا

یہاں سے یمن کی طرف جاؤں گا

 

بیاباں سے رنجِ سفر کھینچتا

بہارِ چمن کی طرف جاؤں گا

 

زمیں پر سنان و سپر چھوڑ کر

ترے پیرہن کی طرف جاؤں گا

 

زمانہ ہوا اس کو دیکھے ہوئے

کسی دن وطن کی طرف جاؤں گا

 

تلاشِ مسرت میں دیوانہ وار

میں کارِ سخن کی طرف جاؤں گا

٭٭٭

 

وہ صبحِ مناجات کب آئے گی

یہ دولت مرے ہات کب آئے گی

 

بڑی دھوپ ہے پیڑ جلنے لگے

جزیرے میں برسات کب آئے گی

 

دھڑکتا ہوا دل یہ پوچھا کِیا

وہ شامِ ملاقات کب آئے گی

 

مشقّت بھرا دن تو رخصت ہوا

مہکتی ہوئی رات کب آئے گی

 

چھپا کر رکھا ہے جسے دل کے بیچ

مرے لب پہ وہ بات کب آئے گی

٭٭٭

 

(ساقی فاروقی کے لیے )

 

وہیں پر مرا سیم تن بھی تو ہے

اسی راستے میں وطن بھی تو ہے

 

بجھی روح کی پیاس لیکن سخی

مرے ساتھ میرا بدن بھی تو ہے

 

نہیں شامِ تیرہ سے مایوس میں

بیاباں کے پیچھے چمن بھی تو ہے

 

مشقّت بھرے دن کے آخیر پر

ستاروں بھری انجمن بھی تو ہے

 

مہکتی دہکتی لہکتی ہوئی

یہ تنہائی باغِ عدن بھی تو ہے

٭٭٭

 

 

فلک سے گلستاں اُترا زمیں پر

سلیماں نغمہ خواں اُترا زمیں پر

 

پری زادوں نے جب وہ تخت رکّھا

تو ست رنگا دھواں اُترا زمیں پر

 

کنیزیں کہہ رہی تھیں، آؤ دیکھو

سفیرِ آسماں اُترا زمیں پر

 

صحائف اور تحائف کے جلو میں

یمن کا میہماں اُترا زمیں پر

 

فلک کے دشت سے حیران و ششدر

ہجومِ کہکشاں اُترا زمیں پر

 

کشش تھی آگ جیسی خاک داں میں

کہ وہ ابرِ رواں اترا زمیں پر

 

بیاباں میں مجھے بے چین پا کر

فرشتہ ناگہاں اُترا زمیں پر

 

ہوئی جب صبح تو وہ شخص ثروتؔ

سنا کر داستاں اُترا زمیں پر

٭٭٭

 

 

 

اک روز میں بھی باغِ عدن کو نکل گیا

توڑی جو شاخِ رنگ فشاں، ہاتھ جل گیا

 

دیوار و سقف و بام نئے لگ رہے ہیں سب

یہ شہر چند روز میں کتنا بدل گیا

 

میں سو رہا تھا اور مری خواب گاہ میں

اک اژدہا چراغ کی لو کو نگل گیا

 

بچپن کی نیند ٹوٹ گئی اس کی چاپ سے

میرے لبوں سے نغمۂ صبحِ ازل گیا

 

تنہائی کے الاؤ سے روشن ہوا مکاں

ثروت جو دل کا درد تھا نغموں میں ڈھل گیا

٭٭٭

 

یک بہ یک تبدیل رنگِ آسماں کیسے ہوا

اس جگہ دیوارِ گلشن تھی، دھواں کیسے ہوا

 

شب سرائے آب و گِل میں دیکھتے ہی دیکھتے

آدمِ خاکی اسیرِ امتحاں کیسے ہوا

 

چل رہی ہے دشت و در میں واقعی بادِ مراد

آج پھر وہ شوخ تجھ پر مہرباں کیسے ہوا

 

پوچھ ہی لیجے خروشِ شامِ ابر و باد سے

منہدم آخر یہ پتھر کا مکاں کیسے ہوا

 

ابتدائے فصلِ گُل تھی اور وہ تھا بام پر

کیا کہیں اس کھیل میں دل کا زیاں کیسے ہوا

٭٭٭

 

اک کام سونپتے ہیں میاں، کر سکو اگر

روشن چراغِ دل زدگاں کر سکو اگر

 

تصویرِ باغ و راغ بدل جائے دوستو

ان ٹہنیوں کو رنگ فشاں کر سکو اگر

 

مہکے ہمارا گھر بھی گلاب و سحاب سے

دو ایک دن قیام یہاں کر سکو اگر

 

وہ رنج جو کہ اور کسی سے کہے نہ ہوں

ہم سے بیان کر دو، بیاں کر سکو اگر

 

آئندگاں کو امن ملے، آشتی ملے

ثروت علاجِ شہرِ خزاں کر سکو اگر

٭٭٭

 

 

رکھ لیتے ہیں دل بیچ، زباں پر نہیں لاتے

کچھ تیر ہیں ایسے جو کماں پر نہیں لاتے

 

ممکن ہی نہیں صبحِ بہاراں کا کھلے در

ایمان اگر شامِ خزاں پر نہیں لاتے

 

یادِ رخِ گل فام کو سینے میں چھپا رکھ

یہ جنس ہے نایاب، دکاں پر نہیں لاتے

 

کیا جانیے کس دھن میں گرفتار ہیں ثروت

مدّت سے وہ تشریف یہاں پر نہیں لاتے

٭٭٭

 

 

 

دل کو محرومِ فغاں رکھیو مت

اپنے سینے میں دھواں رکھیو مت

 

موجۂ آبِ رواں کہتی ہے

مجھ پہ بنیادِ مکاں رکھیو مت

 

سخت ہے معرکۂ جنگ و جدل

ہاتھ سے تیر و کماں رکھیو مت

 

آگ سے کھیلنے والے ہیں بہت

ان کتابوں کو یہاں رکھیو مت

 

معبدِ زیست میں سنّاٹا ہے

اس کو محرومِ اذاں رکھیو مت

٭٭٭

 

آئینے کا سکوت سمندر لگا مجھے

جس سے کلام کرتے ہوئے ڈر لگا مجھے

 

کیا رات تھی وہ پچھلے دسمبر کی دوستو

جب چودھویں کا چاند گداگر لگا مجھے

 

اترا چراغِ سبز لیے جب میں باغ میں

پھولوں کا رنگ پہلے سے بہتر لگا مجھے

 

اس جنگ جو نے نام بتایا نہیں مگر

چہرے کی تاب و تب سے سکندر لگا مجھے

 

جب میں گرا زمین پہ جھک آئیں ٹہنیاں

ثروت وہ نخلِ سبز، پیمبر لگا مجھے

٭٭٭

 

کبھی بلقیس کبھی شہرِ سبا لگتی ہے

شاعری تختِ سلیماں سے سوا لگتی ہے

 

میں کسی اور ہی عالم کی خبر لاتا ہوں

چمنستاں میں اگر آنکھ ذرا لگتی ہے

 

کس کو دیکھا ہے کہ اطراف کی ساری دنیا

آئینہ خانۂ انداز و ادا لگتی ہے

 

یورشِ وقت، اُجڑتے نہیں دیکھیں ہم نے

بستیاں جن کو فقیروں کی دعا لگتی ہے

 

ہمہ تن گوش ہوں مہمان سرا میں ثروت

ہر اک آہٹ مجھے آوازِ درا لگتی ہے

٭٭٭

 

 

زمیں بھی ایک آیت، آسماں بھی ایک آیت ہے

مرے نزدیک یہ ابرِ رواں بھی ایک آیت ہے

 

نشانی ہے بدلتے موسموں میں اس کے ہونے کی

ہوائے تیز میں برگِ خزاں بھی ایک آیت ہے

 

خزاں کی دوپہر ہے اور بیٹھا سوچتا ہوں میں

مسلسل خاک ہوتا یہ مکاں بھی ایک آیت ہے

 

فضائے دم بخود میں سانس لیتا ہے کوئی ثروت

مجھے تو جھٹ پٹے کا یہ سماں بھی ایک آیت ہے

٭٭٭

 

 

 

اس لمحہ موجود میں کیا ہے سوائے آب و گل

آدم کا رستہ دیکھتی حیرت سرائے آب و گل

 

پھولوں بھرا یہ راستہ، کس نے کیا آراستہ

اس باغ پر بھی اک نظر، نا آشنائے آب و گل!

 

یارب یہ کوئی خواب ہے یا خواب کی تعبیر ہے

انگور کی بیلوں تلے شعلے بجائے آب و گل

 

دامن زمیں کا تھام لے، تیشے سے اپنے کام لے

تیرے ہی اندر رونما فرماں روائے آب و گل

 

طغیانِ حیرانی میں ہوں، اس کی ثناخوانی میں ہوں

جس ہاتھ نے پہلے پہل رکھی بنائے آب و گل

٭٭٭

 

راہ کے پیڑ بھی فریاد کیا کرتے ہیں

جانے والوں کو بہت یاد کیا کرتے ہیں

 

گرد جمتی چلی جاتی ہے سبھی چیزوں پر

گھر کی تزئین تو افراد کیا کرتے ہیں

 

کام ہی کیا ہے تیرے زمزمہ پردازوں کو

باغ میں مدحتِ شمشاد کیا کرتے ہیں

 

پھول جھڑتے ہیں شفق فام ترے ہونٹوں سے

ایسی باتیں تو پری زاد کیا کرتے ہیں

 

ہم نے ثروت یہی جانا ہے گئے لوگوں سے

آدمی بستیاں آباد کیا کرتے ہیں

٭٭٭ؕ

 

ہم چل دیے اور دوست ہمارا نہیں آیا

کشتی کے تعاقب میں کنارا نہیں آیا

 

پہنچا بڑے ارمان لیے دشتِ فلک تک

ہاتھوں میں مگر ایک بھی تارا نہیں آیا

 

کیا سانحہ گزرا مرے رہ گیر پہ لوگو!

کیوں خیر خبر کو وہ دوبارہ نہیں آیا

 

ہم لوٹ گئے جیسے پلٹتے ہیں پرندے

ہرچند کسی در کا اشارا نہیں آیا

 

جب آئے سفر سے تو رہِ عشق میں ثروت

وہ دشت وہ بستی وہ منارا نہیں آیا

٭٭٭

 

فسونِ خاک، رنگِ آسماں حیرت میں رکھتا ہے

مجھے تو یہ در و بستِ جہاں حیرت میں رکھتا ہے

 

فرازِ کوہ پر آبِ زلال و یخ پیا میں نے

سرودِ چشمۂ آبِ رواں حیرت میں رکھتا ہے

 

کبھی بوندوں کی رم جھم روک لیتی ہے قدم میرے

کبھی دروازہ کھلنے کا سماں حیرت میں رکھتا ہے

 

شگوفے پھوٹتے ہیں پھول پھل آتے ہیں شاخوں پر

زمیں پر کاروبارِ گلستاں حیرت میں رکھتا ہے

 

عناصر کے مقابل اور زیرِ آسماں ثروت

کوئی تو ہے جو بہرِ امتحاں حیرت میں رکھتا ہے

٭٭٭

 

غنچہ و گل کا شمار، سب کے لیے کیوں نہیں

دامنِ ابرِ بہار، سب کے لیے کیوں نہیں

 

چشمۂ آبِ صفا تیرے تصرف میں کیوں

اے مرے ناقہ سوار، سب کے لیے کیوں نہیں

 

باغ کی بنیاد میں سب کا لہو ہے تو پھر

ذائقۂ برگ و بار، سب کے لیے کیوں نہیں

 

چند گھرانوں تلک تیرے کرم کی جھلک

جنبشِ ابروئے یار، سب کے لیے کیوں نہیں

 

تیری عنایت کے در مجھ پہ کھلے ہیں مگر

اے مرے پروردگار، سب کے لیے کیوں نہیں

٭٭٭

 

 

دیکھی بھالی ہوئی ہر چیز یہاں لگتی ہے

دیکھنا یہ ہے، مری آنکھ کہاں لگتی ہے

 

زرد ملبوس پہن کر وہ چمن میں آئی

وہ بھی منجملۂ تصویرِ خزاں لگتی ہے

 

آ گئے خاک نہادوں کو جگانے والے

دیکھیے آگ سرِ کنجِ اماں لگتی ہے

 

سبزہ و گل کی زمیں اتنی پرانی ثروت

سینۂ خاک پہ چلیے تو جواں لگتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

میری کشتی ٹوٹ رہی ہے، سر سے اونچا پانی ہے

پانی کاٹتے جیون بیتا، پھر بھی کتنا پانی ہے

 

تم بھی خوش ہو اپنے گھر میں اور میں اپنے سمندر میں

اپنی اپنی مٹی ہے اور اپنا اپنا پانی ہے

 

تم اک ندّی، تم اک دریا، اس سے آگے کیا ہو تم

جتنا تم نے سوچ رکھا ہے اس سے زیادہ پانی ہے

 

کھلا سمندر میرا گھر ہے، میری قبر بھی ہو تو کیا

بازوؤں جیسی لہریں ہیں اور آنکھوں جیسا پانی ہے

 

اتنی سچی، ایسی مکمل تنہائی کب دیکھی تھی

دور دور تک کوئی نہیں ہے، سورج ہے یا پانی ہے

 

جانے عمر کے کس حصے میں اس پر یہ احوال کھلے

اس کی کہانی مٹی ہے اور میرا قصہ پانی ہے

 

اک لڑکی کا چہرہ ثروت دل کی تہوں میں تیر گیا

ٹوٹتے بنتے ساحل ہیں اور جھاگ اڑاتا پانی ہے

٭٭٭

 

 

 

قسم اس آگ اور پانی کی

موت اچھی ہے بس جوانی کی

 

اور بھی ہیں روایتیں لیکن

اک روایت ہے خوں فشانی کی

 

جسے انجام تم سمجھتی ہو

ابتدا ہے کسی کہانی کی

 

رنج کی ریت ہے کناروں پر

موج گزری تھی شادمانی کی

 

چوم لیں میری انگلیاں ثروت

اُس نے اتنی تو مہربانی کی

٭٭٭

 

اے ہم چراغ آؤ، اے ہم صلیب آؤ

اس بھیڑ سے نکل کر میرے قریب آؤ

 

کانٹوں کا تاج لے کر، میرا خراج لے کر

اے بدنصیب آؤ، اے خوش نصیب آؤ

 

کوزے میں خون دیکھو، میرا جنون دیکھو

صبحِ کفن سے پہلے میرے حبیب آؤ

 

پھر اس کے بعد تم کو اک خواب میں ملوں گا

نغموں کا طشت لے کر اے عندلیب آؤ

 

اس آخری سخن سے سلگاؤ اپنے پتھر

دیکھو وہ ڈھل رہی ہے شامِ مہیب، آؤ

٭٭٭

 

یک بہ یک منظرِ ہستی کا نیا ہو جانا

دھوپ میں سرمئی مٹی کا ہرا ہو جانا

 

صبح کے شہر میں اک شور ہے شادابی کا

گلِ دیوار ذرا بوسہ نما ہو جانا

 

کوئی اقلیم نہیں میرے تصرّف میں مگر

مجھ کو آتا ہے بہت فرماں روا ہو جانا

 

زِشت اور خوب کے مابین جلایا میں نے

جس گلِ سرخ کو تھا شعلہ نما ہو جانا

 

چشم کا آئنہ خانے میں پہنچنا ثروت

دلِ درویش کا مائل بہ دعا ہو جانا

٭٭٭

 

خواب اچھے نہیں اس عمر میں گھر کے لوگو

یہی دن رات تو ہوتے ہیں سفر کے لوگو

 

جامنی رنگ کا شعلہ کوئی لہراتا ہے

ہم تو اس آگ کو دیکھیں گے ٹھہر کے لوگو

 

یہی مٹی جو کنارے پہ نظر آتی ہے

اور ہو جاتی ہے پانی میں اُتر کے لوگو

 

اپنے ہی شہر کا احوال سنا کرتے ہیں

جیسے قصے ہوں کسی اور نگر کے لوگو

 

آج ثروت سے ملاقات ہوئی تھی اپنی

یہاں چرچے ہیں اسی آئنہ گر کے لوگو

٭٭٭

 

 

 

زمین ڈولتی ہے، آسماں گزرتا ہے

چراغ جلتے ہی کیا کیا گماں گزرتا ہے

 

یہ آگ دور کسی دشت میں لگی ہے مگر

ہمارے شہر سے ہو کر دھواں گزرتا ہے

 

میں سن رہا ہوں شگفتِ بہارِ آئندہ

اگرچہ لشکرِ بادِ خزاں گزرتا ہے

٭٭٭

 

 

اے شجرِ غنودگی، نیند مجھے بھی آ نہ جائے

میرے غیاب میں کہیں دھوپ وہ جگمگا نہ جائے

 

مزرع و ماہ کے اسیر، دیکھ یہ سُرمئی لکیر

صورتوں کو مٹا نہ دے، آئینوں کو بجھا نہ جائے

 

سب یہ ستارہ و سبو، سلسلہ ہائے کاخ و کُو

بارِ تجلیات سے خاک میں ہی سما نہ جائے

 

اے نگہِ نشانہ جو، آج ہوں اپنے روبرو

وار کوئی غلط نہ ہو، تیر کوئی خطا نہ جائے

 

خلوتیانِ ذی شرف، شور بہت ہے ہر طرف

لفظ کوئی نہ کہہ سکیں، حرف کوئی سنا نہ جائے

٭٭٭

 

 

 

 

پتھروں میں آئنہ موجود ہے

یعنی مجھ میں دوسرا موجود ہے

 

زمزمہ پیرا کوئی تو ہے یہاں

صحنِ گلشن میں ہوا موجود ہے

 

خواب ہو کر رہ گیا اپنے لیے

جاگ اٹھنے کی سزا موجود ہے

 

اک سمندر ہے دلِ عشّاق میں

جس میں ہر موجِ بلا موجود ہے

 

آسمانی گھنٹیوں کے شور میں

اس بدن کی ہر صدا موجود ہے

 

میں کتابِ خاک کھولوں تو کھلے

کیا نہیں موجود، کیا موجود ہے

 

جنتِ ارضی بلاتی ہے تمھیں

آؤ ثروت راستا موجود ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آگ میں یا آب میں رہتی ہو تم

صوفیہ، کس خواب میں رہتی ہو تم

 

شیرنی رہتی نہیں دیوار میں

کس لیے آداب میں رہتی ہو تم

 

ایک سیارے نے آ کر دی خبر

حجلۂ مہتاب میں رہتی ہو تم

 

آتشِ سیال میں جلتا ہوں میں

پارۂ سیماب میں رہتی ہو تم

 

گوشۂ نایاب میرا مستقر

عرصۂ کم یاب میں رہتی ہو تم

 

ساتواں دریاب ہے ثروت حسین

جانے کس پنجاب میں رہتی ہو تم

٭٭٭

 

 

 

صبح کے شور میں، ناموں کی فراوانی میں

عشق کرتا ہوں اسی بے سر و سامانی میں

 

سُورما جس کے کناروں سے پلٹ جاتے ہیں

میں نے کشتی کو اتارا ہے اسی پانی میں

 

صوفیہ، تم سے ملاقات کروں گا اک روز

کسی سیّارے کی جلتی ہوئی عریانی میں

 

میں نے انگور کی بیلوں میں تجھے چوم لیا

کر دیا اور اضافہ تری حیرانی میں

 

کتنا پُر شور ہے جسموں کا اندھیرا ثروت

گفتگو ختم ہوئی جاتی ہے جولانی میں

٭٭٭

 

جھوم رہی زندگی، ناچ رہی ہے اجل

سن تو سہی صوفیہ، آج ہوا میں نکل

 

ایک چمکتی سویر اور درختوں کے ڈھیر

دن کی چکا چوند میں میری کلہاڑی کا پھل

 

دھوپ بہت تیز ہے، حوصلہ انگیز ہے

دیکھ مری شیرنی، آج مرے ساتھ چل

 

چھوڑ یہ گل پیرہن، چوم لے میرا بدن

اس کے سوا کچھ نہیں تیری اداسی کا حل

 

میری تگ و تاز پر عرصۂ آفاق تنگ

کانپ رہا ہے فلک، گونج رہے ہیں جبل

٭٭٭

 

 

ساحل کی خاموش چٹانیں یا پھر گونج سمندر کی

وصل و فراق کی حد پر میں نے بود و باش مقر ر کی

 

رات گئے کیا پھول کھلا تھا بیچ ہمارے آنگن کے

یوں اُترے افلاک سے تارے جیسے فوج سکندر کی

 

گزر گیا گلدستہ تھامے ہاتھ کسی شہزادی کا

شام سے کھینچ رہی ہے دنیا آئینے کے اندر کی

 

جتنے تراشیدہ پیکر تھے ابراہیم نے توڑ دیے

ثروت اس بت خانۂ شب میں آنکھ لگی جو آذر کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کھینچے ہیں رنج، شہر کے حق میں دعا بھی کی

ہم وہ ہیں ہم نے رسمِ پیمبر ادا بھی کی

 

نکلیں گے گھر سے سیرِ زمانہ کے واسطے

ہے شرط، زندگی نے ہماری وفا بھی کی

 

کھینچی لکیر خون سے زنداں کے فرش پر

اپنے لیے جنوں کی مقر ر سزا بھی کی

 

دل چاہتا نہیں، در و دیوار چھوڑیے

اس نے ہزار پاؤں کی زنجیر وا بھی کی

٭٭٭

 

 

 

کس کنارے لگے گا آخر کار

یہ جہانِ ثوابت و سیار

 

سو رہا تھا کسی شبستاں میں

گر پڑی مجھ پہ رنگ کی دیوار

 

چل پڑی پھر ہوا خزاؤں کی

زرد پتوں کے لگ گئے انبار

 

آئنہ آئنے کا دشمن ہے

آدمی سے ہے آدمی بیزار

 

آ گئی رُت بہار کی ثروت

کھل اٹھے رنگ، جاگ اٹھی رفتار

٭٭٭

 

 

وہ راز داں، وہ دوست ہمارے چلے گئے

سن کر اذانِ فجر، ستارے چلے گئے

 

چپ سادھ لی گرفتہ دلوں نے نگر کے بیچ

شہرِ ستم میں وقت گزارے چلے گئے

 

ہم کو نہ روک پائی تری بے توجہی

دیوانگی میں تجھ کو پکارے چلے گئے

 

تا وہ بھی جشنِ فتح منائے زمین پر

ہم جنگ جان بوجھ کے ہارے چلے گئے

٭٭٭

 

 

 

جانے اس نے کیا دیکھا شہر کے منارے میں

پھر سے ہو گیا شامل زندگی کے دھارے میں

 

اسم بھول بیٹھے ہم، جسم بھول بیٹھے ہم

وہ مجھے ملی یارو رات اک ستارے میں

 

اپنے اپنے گھر جا کر سکھ کی نیند سو جائیں

تو نہیں خسارے میں، میں نہیں خسارے میں

 

میں نے دس برس پہلے جس کا نام رکھا تھا

کام کر رہی ہو گی جانے کس ادارے میں

 

موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت

لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کشی کے بارے میں

٭٭٭

 

کچھ اکتساب کیا ہے گلاب سے میں نے

لیا ہے کام خیال اور خواب سے میں نے

 

بہارِ لالہ و نسرین دیکھنے کے لیے

قدم نکالا جہانِ خراب سے میں نے

 

نگار خانۂ ہستی عجیب مستی ہے

کہ ہاتھ کھینچ لیا ہے شراب سے میں نے

 

یہ بست و بندِ مسرت مجھے پسند آیا

چنا ہے پھول ردائے چناب سے میں نے

 

خدا گواہ کہ اک اور آب کی خاطر

بچا لیا ہے مکاں سیلِ آب سے میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

دوستوں سے کہو لوٹ جائیں ابھی، آج مہمان ہے ایک آیا ہوا

یہ ملاقات کے پھول اس کے لیے، جس کی خاطر میں ثروت پرایا ہوا

 

اک مکاں سرخ پھولوں سے آراستہ، گل زمینوں کو جاتا ہوا راستہ

صبحِ شفاف میں، چار اطراف میں، رنگ بکھرے ہوئے، ابر چھایا ہوا

 

دیکھ اے مہ جبیں، سرخوشی کے تئیں، جھومتا ہے فلک، ناچتی ہے زمیں

سبز تالاب کے آئنے پر کہیں، راج ہنسوں نے ہے غل مچایا ہوا

 

مجھ کو اس کے سوا اور کیا کام تھا، عرصۂ وقت میں بے در و بام تھا

آج پہنچا ہوں دہلیز و دیوار تک زخمِ آوارگی کا ستایا ہوا

 

زائروں کے لیے پنکھ پھیلائے گا، موسموں کی رفاقت میں پھل پائے گا

قریۂ آب و گِل کے کنارے کہیں، پیڑ ہے ایک میں نے لگایا ہوا

 

دیکھتا ہوں برستی ہوئی رات کو، نذر کرتا ہوں تیری مدارات کو

میرے دل کے خزانے میں اک پھول ہے، آسمانوں کی زد سے بچایا ہوا

٭٭٭

 

 

 

کویل کو کو کرتی ہے اور پتے رنگ بدلتے ہیں

ایسے موسم میں شہزادے اٹھ کر نیند میں چلتے ہیں

 

آدھے سیارے پر پانی برس گیا نغمات لیے

آدھے سیارے کے منظر اب بھی آگ میں جلتے ہیں

 

یہ مٹی کے کورے مٹکے ان میں پانی رکھا ہے

یہ پھولوں کے گہوارے ہیں، ان میں بچے پلتے ہیں

 

باغ بھی چپ، فوارہ بھی چپ، کیسا عجب سنّاٹا ہے

کھینچے جو آزار دلوں نے، کب نغمات میں ڈھلتے ہیں

 

توسنِ شعر ہمارے حق میں تختِ سلیماں ہے ثروت

جن و ملائک پایہ تھامے آگے آگے چلتے ہیں

٭٭٭

 

یہ رسمِ انبیا زندہ ہمی سادات رکھیں گے

جہاں پر آگ دیکھیں گے، وہیں پر ہات رکھیں گے

 

زمیں ہم سے تری بے رونقی دیکھی نہیں جاتی

کہیں دریا بہائیں گے، کہیں باغات رکھیں گے

 

نہیں ہے کربلا سے واپسی کا راستہ کوئی

جہاں بھی جائیں گے، شہزادیوں کو ساتھ رکھیں گے

 

یہ صبحیں اور شامیں کتنی بے چہرہ سی ہیں ثروت

سجا کر اِن دریچوں میں نئے دن رات رکھیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دن نکلتا ہے

 

دن نکلتا ہے کسی اُجلے کبوتر کی طرح

آج کس نے میرے دل پر ہاتھ رکھا دھوپ کے پَر کی طرح

گھنٹیاں بجنے لگیں

ایک دروازہ کھلا

آج میرے ہاتھ میں اک پھول ہے

لوگ اتریں گے پہاڑوں سے کسی دن شہد کے پیالے لیے

گھڑسواروں کے قدم سے جگمگائیں گے ببول

ہونٹ کھولیں گے رسول

شاعری کاساتھ ہے

اک پری کا ہاتھ ہے

جس کی انگلی میں انگوٹھی جگمگاتی ہے کسی دل کی طرح

دل کی تہہ میں اک سمندر ہے جسے بیدار کرنا ہے مجھے

پار کرنا ہے مجھے

اُس کنارے جاؤں گا

گیت اور امید لے کر آؤں گا

تم یہاں اس نہر کے پُل سے مجھے آواز دینا

زندگی اک شور ہے ہنستے ہوئے گھر کی طرح

دن نکلتا ہے کسی اجلے کبوتر کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں ایک آدمی کی موت مرنا چاہتا ہوں

 

 

میں ان کے درمیان سے اٹھ کر آ گیا ہوں، بات یہ ہے کہ میرا علم بہت محدود ہے  اور مجھے اصطلاحوں سے خوف آتا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ میرا شہر کس عرض البلد پر واقع ہے لیکن میں ایک لڑکے کو جانتا ہوں جس کی انگلیاں قالین پر پھول کاڑھتی ہیں اور قالین سے اُڑنے والا اُون اُس کے پھیپھڑوں پر پھول کاڑھتا ہے

 

میرے دکھ بہت معمولی ہیں، میں دکھی ہوں اس مریض کے لیے جس کی بیل گاڑی اسپتال کے دروازے تک نہیں پہنچ پائے گی، میں دکھی ہوں اس عورت کے لیے جو اس بیل گاڑی کو جاتا ہوا دیکھتی ہے، میں دکھی ہوں اس بیلچے کے لیے جو بارشوں میں بھیگ رہا ہے، میں دکھی ہوں اوزاروں کے اس صندوق کے لیے جو میرے مرحوم باپ کی نشانی ہے

 

وہ مجھے پریشان رکھتے ہیں روٹی کے چند ٹکڑوں کے لیے اور بدل دیتے ہیں ایک باپ کو درندے میں، بدل دیتے ہیں ایک شاعر کو آگ میں۔ ۔ ۔ ۔

میں درندے کی موت مرنا چاہتا ہوں

میں آگ کی موت مرنا چاہتا ہوں

میں ایک آدمی کی موت مرنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

مکاشفہ

 

 

جاننے کی ضرورت نہیں

علم رکھنا خوف کو دعوت دینا ہے

خوف کے ساتھ خدا بھی آ جائے گا

علم حاصل کرنا آسان ہے

علم کو بھلانا بہت مشکل

مٹّی میں پیوست رہو

ننگے پیر چلوتاکہ انگلیاں مٹّی میں جڑپکڑسکیں

جڑیں جتنی گہری ہوں گی، شاخیں اتنی ہی اوپر جائیں گی

انسان کو مت آنے دو

وہ تمھاری شاخیں کاٹ ڈالے گا

تمھارے تنے کو چیر کر رکھ دے گا

دیکھو اس کے ہاتھ میں جو کلھاڑی ہے

اس کا دستہ بھی

کسی درخت کی لکڑی کا ہے

جبلّتوں میں زندہ رہو

یہی اصل جوہر ہے

تہذیب تصنّع ہے

لفظ، قلم اور موقلم لے لو

بانسری لے لو

انسان کو مت آنے دو

انسان کا جوہر لے لو

وہ محبّت ہے

محبت اور حیوانیت کا نیا توازن نئی دنیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جہالت کا علم

 

باغ بان پھولوں کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے

گاڑی بان گھوڑے کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے

 

درخت زمین کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے

پرندے ہوا کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں

 

دیمک دروازوں کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتی ہے

آئینہ عورت کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے

 

عورت تخلیق کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتی ہے

٭٭٭

 

ؕ

 

میں ایک بچے کی طرح ہوں

 

 

میں ایک بچے کی طرح ہوں

جو پالتو جانور اور درندے میں فرق نہیں کر سکتا

میں اس کے بہت قریب چلا جاتا ہوں

ایک عورت جس کی چھاتیاں بھرپور ہیں

میں ان کی نوک پر اپنے ہونٹ رکھنا چاہتا ہوں

میں اس کے بازوؤں پر سر رکھ کر رونا چاہتا ہوں

میں ایک بچے کی طرح ہوں۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

کاٹ دو اِس پیڑ کو

 

کاٹ دو اس پیڑ کو

جس کے سائے میں کوئی ماندہ مسافر

ایک پل سویا نہیں

کاٹ دو اس پیڑ کو

جس کے سائے میں کوئی عاشق کسی دن ٹوٹ کے

رویا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کھل اُٹھے پھول تم

 

کھل اٹھے پھول تم

اپنی خوشبو میں گُم

ہر دریچے میں دن مسکرانے لگا

وہ پرندہ جو عرصے سے خاموش تھا

چہچہانے لگا

٭٭٭

 

 

 

 

فوارے کی موت

 

گیت تھم گیا پانی کا

ریت سے اَٹ گیا فوّارہ

سوکھتے چلے گئے گُل بوٹے

اب نہیں اُترتے پرندے

کسی نے منایا نہیں سوگ

شاعر کے سوا۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

شاعری روٹھ گئی ہے مجھ سے

 

شاعری روٹھ گئی ہے مجھ سے

آسماں چپ ہے، زمیں بات نہیں کرتی ہے

بہتا پانی کسی امید پر آمادہ نہیں

خوش نہیں آتا کوئی لفظ، کوئی دروازہ

کیسے بچھڑے ہوئے لوگوں کی خبر لاتے ہیں

کس طرح روٹھے ہوئے شخص کو گھر لاتے ہیں

شہد کی مکھیاں پھولوں کی طرف جاتی ہیں

ایک فوارے کے نزدیک شجر گنتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

صبح اترتی ہے شہر میں

 

نقرئی گھنٹیاں بجاتی ہوئی صبح

اُترتی ہے شہر میں

فوارے کی اوٹ سے

بھیگا ہوا شہسوار

دیکھتا ہے

بار بار

زرد سنہری افق

جیسے فرشتہ کوئی

بکھیر رہا ہو زمین پر ورق

٭٭٭

 

 

 

 

 

پتھر کی بینچ

 

خالی پڑی رہتی ہے

پارک کے ایک کونے میں

ہوائیں گزرتی ہیں

پتوں کو گراتی ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

سیب کے باغ میں خود کلامی

 

باغ کے اندھیرے میں

سیب توڑ کر دیکھوں

آئینہ شکستہ ہے

پھر سے جوڑ کر دیکھوں

دشت و کوہ کی خاطر

شہر چھوڑ کر دیکھوں

٭٭٭

 

 

 

 

آگ مجھ کو سبز کر

 

آگ مجھ کو سبزکر

اس قدر

کہ جنگلوں کے دیودار اپنا حُسن بھول جائیں

نہ دیر تک اداس رکھ

ناشتے کی میز پر

دودھ کا گلاس رکھ

آگ۔ ۔ ۔ ۔

نان پز کے ہاتھ مت جلا

ظالموں کی کھیتیوں میں پیل جا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہوائے شب کے سامنے

 

 

ہوائے شب کے سامنے دیا لیے ہوئے ترے مکان تک گیا، ورق ورق گرے ہوئے تھے روشنی کے پھول دور تک زمین پر لکیر سی کھنچی ہوئی فلک تلک چلی گئی تو میں رکا، دیے کو طاق پر رکھا، اتارا شاخ سے گلاب اور دور کی دِشاؤں کو سراہتا ہوا پیالہ بھرمسرّتوں کی کھوج میں نکل کھڑا ہوا۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

سمندر سے روٹھا ہوا ایک ملّاح

 

 

سمندر سے روٹھا ہوا ایک ملّاح کل شام ساحل پہ یہ کہہ رہا تھا:فرشتو! مری بات مانو، سمندرکی جانب نہ جاؤ، یہیں ساحلی شہر کے بام و در کو سجاؤ کہ اس رات کی دسترس میں ستارے نہیں ہیں۔ کسی نے کہا:میں سمندر میں اُتروں گا، موتی چنوں گا، کسی جل پری سے وہ نغمہ سنوں گاجو دل میں شگوفے کھلاتا اترتا ہے پانی میں آغاز کرتا ہے اُس حمدکاجوکسی نے بلندی پہ روشن منارے کی صورت ابھاری ہے جس کے دریچے کسی اور ہی آسماں کی طرف کھل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بارشیں

(صلاح الدین محمود کے لیے )

 

 

برس گئیں۔ ۔ ۔ ۔

عجوبہ بارشیں برس گئیں

رنگ اورسنگ پر

برس گئیں

عجوبہ بارشیں برس گئیں

مری نظر کی آخری حدوں تک

فلک فلک

برس گئیں

عجوبہ بارشیں برس گئیں

اے ابرِسبز تھم ذرا

کہ میں زمین پر گری ہوئی کتاب اٹھا سکوں

خوشی کا گیت گاسکوں

٭٭٭

 

 

 

 

خوب رُو چلتے اگر تم

 

خوب رو چلتے اگر تم

دور تک پھیلی زمیں پر

سرخوشی کے بیج بوتے

دیر تک پھولوں میں سوتے

خوب رو چلتے اگر تم

شہر کی بنیاد رکھتے

لوگ ہم کو یاد رکھتے

خوب رو چلتے اگر تم

٭٭٭

 

 

 

 

 

دوپہر کی سلطنت

 

 

دوپہر کی سلطنت میں

فاختہ کچھ بولتی ہے

زندگی پر کھولتی ہے

نیند سے باہر نکل کر

میں نے اُس کے ہونٹ چکھے

آئنے پر پھول رکھے

دوپہر کی سلطنت میں

٭٭٭

 

 

 

 

ایک مکمل عورت

 

 

وہ آئی اور اس نے تمام پنجروں کے دروازے کھول دیے

پرندے اڑ گئے

پرندے چہچہاتے ہوئے اڑ گئے

وہ آئی اور اس نے الگنی کو مضبوطی سے باندھ دیا

اور رنگ برنگے کپڑے دھوپ میں پھیلا دیے

وہ آئی اور اس نے سارے نام مٹا دیے

ایک صاف، کالی سلیٹ اس کے ہاتھوں میں آئینہ بن گئی

اس نے نہیں بتایا کہ اس نے آئینے میں کیا دیکھا

اتنے میں بادل گہرے ہو گئے اور ہوا چنگھاڑنے لگی

دروازے کھڑکیاں سرپٹکنے لگے

وہ ذرا بھی نہ گھبرائی

وہ ایک مرد کی موجودگی سے واقف ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک دراوڑ نظم

 

 

ہماری مٹّی جنگلوں سے خالی نہیں

لکڑی کی بہتات مجھے پریشان رکھتی ہے

میرے اوزاروں کے صندوق پر

تم نے تالا لگا دیا

بارش ہو رہی ہے

کالی مٹی بھیگی ہوئی ہے

میں ننگے پیر اس مٹّی پر چلتا ہوں

یہ کالی مٹّی آتش فشاں کے لاوے سے بنی ہوئی ہے

آگ اب ٹھنڈی ہو چکی ہے

لیکن عورتیں اس زمین پر اب بھی رقص کرتی ہیں

ہیا لو ہیا لو بدکما

بدکما بدکما  ہیا لو

٭٭٭

 

 

 

 

قدیم سکھر

 

تمام راستے پانی کی طرف جاتے ہیں

ایک دن شہزادہ دریا پر پہنچے گا

وہ اپنی شہزادی کو پہچان لے گا

وہ کشتی کو کنارے پر لائے گا

محبت کا بیج محبت کے پھول لاتا ہے

بیج بونے کے لیے ایک باغبان کا دل چاہیے

وہ ایک گرم دن تھا

انھوں نے مجھے سایہ دیا

ٍ روٹی اور محبت کی یکجائی میں ایک کھڑکی کھلی

کھڑکی میں ایک دریا تھا

٭٭٭

 

نیلی لکیر

 

ازل سے تم بہہ رہے ہو سندھو

قریب آؤ

ہمیں سناؤ وہ سارے قصے جو تم پہ بیتے ہیں اس سفر میں

اناج گھر میں

تمھاری زر خیزیوں کی چادر بچھی ہوئی ہے

جنوب کی سمت بہنے والے مہان سندھو

تمھیں مبارک شمال کی برف کا پگھلنا

تمھارے تہذیب یافتہ کنارے اَبد کو آواز دے رہے ہیں

ہمارے ملّاح اور مچھیرے تمھاری چاہت میں نغمہ گر ہیں

زمیں کے نقشے پہ ایک نیلی لکیر جومسکرارہی ہے

وصال کا گیت گا رہی ہے

٭٭٭

 

 

محبت کا بیج

 

 

سنو اے پرندو!کئی سال پہلے یہیں اس جگہ پر

محبت کا اک بیج بویا تھا میں نے، کنارے کی مٹی

کنارے کی زرخیز مٹی خفا تھی، ہوا تھی

مگراس جگہ پر، محبت کا اک بیج بویا تھا میں نے

سنواے پرندو!

برستے شگوفوں، ہرے بازوؤں کی یہ خاموش جنّت

کئی سال پہلے کے کھوئے ہوئے بیج کا آسماں تو نہیں

جس کو میں بھول بیٹھا تھا، وہ داستاں تو نہیں

٭٭٭

 

 

 

دن نکلے تو میں بھی دیکھوں

 

دن نکلے تو میں بھی دیکھوں

باغیچے کا رنگ ہے کیسا

نیلے پھولوں والی بیلیں

اب تو چھت کو چھوتی ہوں گی

آسمان کی رنگت کیا ہے

اور ہوا میں اڑتے پکشی

کوئی سندیسہ دیتے ہوں گے

بام کی اونچائی کے اوپر میرا سورج

کس پوشاک میں نکلا ہو گا

اور کوئی ان جانا دشمن

میری تاک میں نکلا ہو گا

٭٭٭

 

 

عجائب گھر

 

اک ہاتھ پر اک ہاتھ تھا

کیا شام تھی، کیا نام تھا

 

اس سے ہمیں کیا کام تھا

وہ ہاتھ، وہ روشن دیا

 

شیشے کی اِس دیوار میں

اب بھی یہاں محفوظ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مٹی

 

 

مددگار مٹی، مددگار مٹی کے سینے پہ بادل، ہری کھیتیوں کے سمندر، جزیرے، جہاں تک نظر جائے اودے افق پر پرندے، شرابور قریے، مضافات کو جاتی پگڈنڈیوں کے سہارے، کنارے کنارے، لڑکپن کے پھول اور معصوم پتے، فراموش گاری کے گہرے کنویں کی منڈیر یں، منڈیروں پہ دیوے، مسافر تجھے کیا، تجھے دور جانا ہے، اس بیل گاڑی کے پہیے شکستہ ہیں لیکن ارادے مددگار مٹی سے رس کھینچتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یادیں

 

 

گئی گزری یادیں

گئی گزری یادوں کے کوزے میں پانی

کسی کی نشانی

گئی گزری یادوں کا ما تھا

گئی گزری یادوں کی اِک لٹ

گئی گزری یادوں کی چوکھٹ

دریچے کے دو پٹ

گئی گزری یادوں کا ہر پل

نمودار جنگل

گئی گزری یادوں کا دلکش زمانہ

گئی گزری یادوں کی خوش کن نفیری

طلسمِ اسیری۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

نیلی بارش

 

نیلی بارش تیری آنکھوں میں

جیسے یہ منظر

پہلے بھی دیکھا ہے میں نے

آئینے کے دل میں یا پھر اس دروازے میں

جو کالی مٹّی کے پاتال میں کھلتا ہے

کالی مٹی کا پاتال ہمارا بچپن

بچپن اور جنّت کی چڑیاں

(میرا دل اور میری آنکھیں )

اس نیلی بارش میں سب کچھ بھیگ رہا ہے

بھیگے رنگوں سے تصویر بناؤں

٭٭٭

 

 

بندرگاہ میں صبح

 

 

جہازوں کے عرشے پہ لاکھوں فرشتے

ہلاتے ہوں رنگین رو مال جیسے

مجھے مل گئے ہیں پر و بال جیسے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک اداس شہزادی

 

 

اتنی پیاری شہزادی کو کس نے اُداس کیا

اتنے اچھے دل کو ثروت کس نے توڑ دیا

اندھی برساتوں کے نیچے پھولوں کی بگیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

منھ زور گھوڑے

 

 

منھ زور گھوڑے

ہواؤں کے منھ زور گھوڑے

ہواؤں، صداؤں کے منھ زور گھوڑے

ہواؤں، صداؤں، گھٹاؤں کے منھ زور گھوڑے

ہواؤں، صداؤں، گھٹاؤں، دِشاؤں کے منھ زور گھوڑے

ہواؤں، صداؤں، گھٹاؤں، دِشاؤں، خلاؤں کے منھ زور گھوڑے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بنفشیِ دھند

 

 

میں اپنے اوراق گن رہا تھا

کہ آن پہنچی بہارِ تازہ

بنفشیِ دھُند سے کسی نے

مجھے پکارا

٭٭٭

 

 

 

 

بہار کا ایک دن

 

 

یوں ہی ایک دن میں نے پھولوں سے پوچھا

کہ اب تک کہاں تھے

انھوں نے بتایا کہ مٹی کے تاریک

سینے میں سوئے ہوئے تھے

گھنی کالی نیندوں میں کھوئے ہوئے تھے

وہیں پر چٹختے ہوئے بیج میں آنکھ کھولی

زمیں ہم سے بولی

کہ جاؤ

مٹی سے آزاد ہو جاؤ

تازہ ہواؤں میں گاؤ

سو ہم آ گئے ہیں

ہمارے وہ نغمے جو مٹّی میں سوئے ہوئے تھے

ہمارے لبوں پر بکھرنے لگے ہیں

پرندوں کا یہ چہچہانا ہمارا ہی رخ ہے

بہاروں کا موسم یہی ہے

یوں ہی ایک دن میں نے پھولوں سے پوچھا

٭٭٭

 

 

 

 

میں تمھیں کیا دے سکتا ہوں

 

 

میں تمھیں کیا دے سکتا ہوں

تربوز کی ایک قاش جس پر ہمارے بچوں نے دانت گاڑ دیے ہیں

ایک جال جسے چوہوں نے جگہ جگہ سے کتر لیا

نظموں کی ایک کتاب جسے گھڑونچی کی بنیاد میں دفن کر دیا گیا

ایک پالنا جس کی رسیاں کاٹ دی گئیں

ایک کوچی جو پچھلے تیس سال سے رنگوں میں ڈوبی ہوئی ہے

ایک نام جس سے میں تمھیں پکارنا چاہتا ہوں

میں تمھیں کیا دے سکتا ہوں اس ہوا دار مکان کے سوا

جہاں ہر چیز تمھارا انتظار کر رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

ماندگی کا وقفہ

 

 

ایک کوا۔ ۔ ۔ ۔

ہانپ رہا ہے دیوار پر

مت اڑاؤ اسے

ایک کتا۔ ۔ ۔

سورہا ہے دیوار کے نیچے

مت جگاؤ اسے

آدمی کا سب سے پرانا دوست سورہا ہے

ایک کتا سو رہا ہے

ایک بچہ۔ ۔ ۔

ہڈیاں جمع کرتے ہوئے

رک جاتا ہے

وہ اپنے تھیلے کو دیکھنا چاہتا ہے

اسے دیکھنے دو

ایکس کسان۔ ۔ ۔

سورج کے نیچے

ہل کی پھالی سے مٹّی چیرتے ہوئے

کچھ سوچتا ہے

کسان اورسورج سے دُور

دارالحکومت میں

ایک ڈِکٹیٹر جماہی لیتا ہے

وہ اونگھنا چاہتا ہے

جوابی انقلاب سے کچھ پہلے تک۔ ۔ ۔ ۔

وہ اونگھنا چاہتا ہے

مخیّر عوام!

اُسے مہلت دو

اُسے مہلت دو

اُسے۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

جَل پری

 

 

میں اپنے ہونٹ اس کے بالوں پر رکھ دیتا ہوں

وہ خاموش رہتی ہے

وہ خاموشی سے مجھے دیکھتی ہے

وہ مجھے ایسے دیکھتی ہے جیسے ایک عورت سمندر کو دیکھتی ہے

بہت قریب اور لاتعلق

پلٹتی ہوئی موج اس کے تلووں سے ریت بہا لاتی ہے

وہ اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے

وہ ایک شیرنی ہے جو پانی کو دیکھتے رہنا چاہتی ہے

اس کا عکس ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے

وہ دیکھتی ہے کہیں بہت نیچے

فرن کا ہلتا ہوا پودا،

مونگے کی چٹان اور ایک جَل پری

٭٭٭

 

 

 

 

 

سیّال خیالات

 

 

سیّال خیالات کے دریائے فسوں میں

کشتی ہے بہت دیر سے تیار، ستارو

 

تم دھیان ذرا رکھنا، میں آتا ہوں، پکارو

سیّارہ کسی سرخ نگینے کی طرح ہے

 

کیا لوگ ہمارے لیے یکجا نہیں ہوں گے

سیّال خیالات کے دریائے فسوں میں

٭٭٭

 

 

 

رات

 

 

رات آ پہنچی، سیّاروں کا تھال سجائے

بوجھل ہیں پھولوں کی آنکھیں، ہریالی میں

نیند کا در ہے، کیر  کا کوئی نام نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

رات

 

 

چمن کے بیچ فوارہ ستاروں کو بکھیرے جا رہا ہے

زندگی اس پل، کھلی زلفوں کی صورت مشک بُو ہے

یا، اساطیری اندھیرے میں سکوں کا سانس لیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

موجودگی کا پھول

 

 

مری موجودگی کا پھول پانی پر کھلا ہے، سلطنت

صبحِ بہاراں کی بہت نزدیک سے آواز دیتی ہے

سبک رفتار، پیہم گھومتے پہیے، گراں خوابی سے

جاگے، آفتابی پیرہن کا گھیر دیواروں کو چھوتا

پیار کرتا، رقص فرماتا، ارے، سورج نکل آیا!

٭٭٭

 

 

 

 

فرشتگاں

(صلاح الدین محمود کے واسطے )

 

 

                   (۱)

                   نیند کا فرشتہ

 

زمیں اطراف کی کالی ہوئی، جلنے لگے دِیوے

ہوائیں خشک پتّوں کو گرا کرسوگئیں شاید

فرشتہ نیند کا ناراض ہے، مجھ سے یہ کہتا ہے

بہت دن سولیے، بیدار رہ کر بھی ذرا دیکھو

اذانِ فجر ہونے تک ستاروں کی ادا دیکھو

 

 

                   (۲)

                   باران کا فرشتہ

 

 

باران کا فرشتہ

ست رنگا پھول تھامے

نیچے اُتر رہا ہے

 

 

                   (۳)

                   شش جہات کا فرشتہ

 

فرشتۂ شش جہات اکثر

ہمارے اطراف کی زمیں پر

گلابِ تازہ بکھیرتا ہے

 

                   (۴)

                   آفرینش کا فرشتہ

 

 

آفرینش کا فرشتہ

کاغذی قندیل تھامے

گفتگو کرتا ہے مجھ سے

 

 

                   (۵)

                   شادمانی کا فرشتہ

 

 

شادمانی کے فرشتے !

صبح میں چہرہ ہے کس کا

جھلملاتی شام کیا ہے

وہ جو آتی ہے چمن میں

اُس پری کا نام کیا ہے ؟

 

 

                   (۶)

                   نسیان کا فرشتہ

 

 

نسیان کے فرشتے !

وہ یاد محو کر دے

جو میرے دل کی تہہ میں

کانٹا بنی ہوئی ہے

 

 

 

                   (۷)

                   آشنائی کا فرشتہ

 

 

آشنائی کے فرشتے !

اُن زمینوں کا پتا دے

جو مری مانند تنہا

ہجر کا دکھ سہہ رہی ہیں

 

 

                   (۸)

                   خودکشی کا فرشتہ

 

خودکشی کے فرشتے کو آنے نہ دو

اس اکیلے دیے کو بجھانے نہ دو

خودکشی کے فرشتے کو آنے نہ دو

 

 

                   (۹)

                   تہجد کا فرشتہ

 

 

تہجد کا فرشتہ نیم شب کی خانقاہوں میں

اُترتا ہے، بڑی دھیرج سے میری بات سنتا ہے

اذانِ فجر ہونے تک زمیں سے پھول چنتا ہے

 

 

                   (۱ )

                   اُداسی کا فرشتہ

 

 

اداسی کا فرشتہ پنکھ پھیلائے ہوئے اے دل!

اترتا ہے مرے دالان میں سادہ ورق لے کر

یہی سادہ ورق آغاز ہے میری کہانی کا

 

 

                   (۱۱)

                   سخاوت کا فرشتہ

 

 

سخاوت کے فرشتے کو اترتا دیکھ کرسورج

ہوا رو پوش بادل میں، زمیں کہنے لگی، آؤ

طلائی، نقرئی سکّے اُچھالو شادمانی کے

کھلیں اوراق لوگوں پر کتابِ زندگانی کے

 

 

 

                   (۱۲)

                   ابدیت کا فرشتہ

 

 

ہری گھنٹیاں

ہری ہوائیں

ہراسمندر

ہری سلاخیں

ہرے پرندے

ہری قیامت

ہرا جنم دن

٭٭٭

 

 

 

 

 

جھٹ پٹے

(سائیں مرنا کی یاد میں )

 

 

مرنا تیری خامشی، بھید بھرا پاتال

اندر کا احوال، شاعر کا دل جانتا

 

مرنا تیری انگلیاں، اِکتارے کی گونج

گرتی گھائل کونج، پنکھ پسارے جھیل پر

 

مرنا تیرے بول، اڑ جائیں پر کھول

جیسے غول کے غول، پکشی دُور دِشاؤں میں

 

اک دیوارِ اجل، جلتا بلتا تھل

ڈھونڈ رہا ہر پل، اپنے موسیقار کو

 

اِکتارے کی کاٹ، نیندیں کرے اچاٹ

سونے ہیں گھر گھاٹ، گرد گرد ہے چاندنی

 

مرنا تیرا رنج، میرے دل کے بیچ

آب و گل کے بیچ، جیسے اکیلا ہنج1

 

1۔ ہنس

٭٭٭

 

 

 

 

 

علّن فقیر کے واسطے

 

 

اللہ سائیں امن کی کونپل پھوٹے پاکستان سے

سورج ابھرے، سورج ابھرے، سورج ابھرے شان سے

 

سندھ ندی کا پانی پیارا

بہتی دھارا

سچا عرب سمندرسارا

دیکھے کیسی آن سے

اللہ سائیں امن کی کونپل پھوٹے پاکستان سے

 

پاک پتن کی پیاری مٹّی

پھول کھلائے شان سے

اللہ سائیں امن کی کونپل پھوٹے پاکستان سے

تھر کی مٹی بدل دے سائیں

ٹھنڈے نخلستان سے

اللہ سائیں امن کی کونپل پھوٹے پاکستان سے

 

جرأت اور شجاعت والے

آئے بلوچستان سے

اللہ سائیں امن کی کونپل پھوٹے پاکستان سے

 

سرحد کے غیور جیالے

اترے ہیں ڈھلوان سے

اللہ سائیں امن کی کونپل پھوٹے پاکستان سے

سورج ابھرے، سورج ابھرے، سورج ابھرے شان سے

 

اردو بولی، قومی بول

پھوٹی ہے گل دان سے

اللہ سائیں امن کی کونپل پھوٹے پاکستان سے

سورج ابھرے، سورج ابھرے، سورج ابھرے شان سے

٭٭٭

ماخذ:

http://adbiduniya.com

تدوین اور  ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید