FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ہماری زبان یکم تا ۲۸؍اکتوبر ۲۰۱۵ء

 

 

                پروفیسر حنیف نقوی کی یومِ ولادت

                17اکتوبر کے موقعے پر خصوصی پیش کش

 

پروفیسرحنیف نقوی نمبر

 

ولادت: 17 اکتوبر 1936 —  وفات: 22 دسمبر2012

 

مرتبہ: جاوید رحمانی

 

 

پروفیسر حنیف نقوی نمبر کیوں ؟

 

پروفیسرحنیف نقوی کے نام کے ساتھ ہمارے ذہنوں میں سچ، صرف سچ اور سچ کے سوا کچھ بھی نہیں کا تصور اسی طرح اُبھرتا ہے جس طرح محمود شیرانی اور قاضی عبدالودود کے ناموں کے ساتھ اُبھرتا تھا۔ وہ ہمارے زمانے کے ان معدودے چند محققین میں سے ایک تھے جن کی تحقیق کا مقصد سچ اور صرف سچ کی تلاش تھا اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ انھوں نے تحقیق کو کسی غیر ادبی و غیر تحقیقی مقصد کی حصول یابی کا ذریعہ نہیں بنایا اور دنیاوی کامرانیوں کے لیے کبھی تحقیق کی حرمت کا سودا نہیں کیا۔ ایسے سچے اور کھرے محقق پہلے بھی کمیاب تھے اور اب تو خیر نایاب ہی ہیں ! ان کے یہاں تحقیق، حق کی تلاش اور اس کے موثّر اظہار کا نام ہے خواہ اس سے ان بتوں کی مسیحائی پر حرف کیوں نہ آئے جن کو عرصۂ دراز سے پوجا جا رہا ہو۔ وہ تحقیق میں تعمیری، تخریبی، مثبت، منفی اور اہم اور غیر اہم کی تقسیم کو قبول نہیں کرتے تھے اور سچ اور مکمل سچ سے غیر مشروط وابستگی کے قائل تھے۔

محمد حسن نے قاضی عبدالودود کو ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی کا نام بتایا تھا، اس طرزِ زندگی کی ہمارے زمانے میں روشن ترین مثال حنیف نقوی کی شخصیت تھی۔ ان کے اندازِ تحقیق کو بھی ’منفی تحقیق‘ جیسے مبہم فقرے کی نذر کرنے کی کوشش کی گئی اور ان کے مقابلے میں بعض بے حد معمولی محققین کو ’تعمیری تحقیق‘ کی بیساکھی کے سہارے بڑا بنانے کی کوشش بھی کی گئی مگر حنیف نقوی تحقیق میں اس نام نہاد تقسیم و تفریق کے قائل نہیں تھے۔ انھوں نے ہر غلطی کی تصحیح اور بُرائی کی بیخ کنی کو اپنا فرضِ منصبی سمجھا ’’بلا لحاظ اس کے کہ اس غلطی یا برائی کا قد و قامت یا پھیلاؤ کم ہے یا زیادہ‘‘۔ وہ باریک تحقیق، منفی تحقیق، موٹی تحقیق، تعمیری تحقیق جیسی درجہ بندیوں کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے اور فنِ تحقیق سے گہری طبعی مناسبت رکھتے تھے۔ ان کی فارسی شعر و ادب سے بھی گہری وابستگی تھی۔ وہ محقق کی ذمہ داریوں کا بھی گہرا شعور رکھتے تھے۔ انھوں نے شعرائے اردو کے تذکروں پر جو کام کیا وہ بے حد اہم ہے اور اس پر ابھی تک بہت کم اضافہ کیا جا سکا ہے۔ غالبؔ پر ان کی بیشتر تحریریں اس قدر عالمانہ ہیں کہ ان سے فکر و خیال کی بے شمار شمعیں مدتوں روشن ہوتی رہیں گی۔ سوداؔ کے سالِ ولادت و وفات کا مسئلہ ہو یا انشاؔ  اور اقبالؔ کے سالہاے ولادت کا، ان سب کو انھوں نے جس طرح حل کیا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ غالبؔ کی تاریخِ ولادت کے سلسلے میں البتہ ان سے اتفاق مشکل ہے۔ میرؔ و مصحفیؔ کے سلسلے میں بھی ان کا کام بہت وقیع ہے اور ’مآثرِ غالب‘ مولفہ قاضی عبدالودود کی تدوینِ جدید میں انھوں نے قاضی صاحب کے کام پر جو اضافہ کیا ہے وہ انتہائی غیر معمولی ہے اور یہ صرف حنیف نقوی ہی کر سکتے تھے۔ اسی طرح ’تلامذۂ غالب‘ کے سلسلے میں مالک رام پر ان کے ارادات کو بھی غیر معمولی سمجھنا چاہیے۔ شعرا و اُدبا کے سوانح میں اہم اور غیر اہم، معروف اور غیر معروف جیسی اضافتوں سے بے نیاز ان کی گہری دل چسپی تھی۔ ان کا مطالعہ بے حد وسیع تھا اور وہ بہت سی ایسی چیزوں کو بھی حساب میں رکھتے تھے جن کا بظاہر اس موضوع سے کوئی رشتہ معلوم نہیں ہوتا اور جن کو ہمارے بہت سے محققین معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے تھے۔ وہ دروغِ مصلحت بیں کو ہی نہیں بلکہ سکوتِ کذب آئیں کو بھی اصولِ تحقیق کے منافی خیال کرتے تھے ان کی شخصیت اور کارناموں کے اعتراف کی ایک چھوٹی سی کوشش ’ہماری زبان‘ کا یہ نمبر ہے۔ اس کی تیاری میں پروفیسر ظفر احمد صدیقی، پروفیسر سیّد حسن عباس اور ڈاکٹر شمس بدایونی کا جو تعاون ہمیں ملا وہ ہماری توقع سے بہت زیادہ تھا اور اس کے لیے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ پروفیسر شمیم حنفی اور قاضی افضال حسین کے مضامین ’ارمغانِ علمی نذرِ حنیف نقوی‘ (مرتّبہ پروفیسر سیّد حسن عباس) سے لیے گئے ہیں اور لُبنیٰ نقوی کا مضمون ’کتاب نما‘ سے۔

ڈاکٹر جاوید رحمانی

 

 

 

حنیف نقوی کا ماتم

 

                شمس الرحمن فاروقی

 

یہ [مراسلہ] میرے لیے حنیف نقوی کے تعزیت نامے کا حکم رکھتا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ میں نے حنیف نقوی کی کتاب ’غالب اور جہانِ غالب‘ پڑھنے کے کچھ دن بعد انھیں فون کیا اور کتاب کی تعریف کی۔ ظاہر ہے کہ یہ تعریف میرے مبلغِ علم کی ہی مناسبت سے تھی، کیونکہ میں محقق اور ماہرِ غالبیات نہیں ہوں۔ بہرحال مرحوم (جو ان دنوں بوجہ علالت مزاج اپنے آبائی قصبے میں قیام پذیر تھے ) بہت خوش ہوئے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں یہ باتیں سرسری گفتگو کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں یہ سب آپ کو لکھ بھیجوں گا ’’تاکہ سند رہے اور وقت پر کام آئے۔ ‘‘ مرحوم اس جملے پر محظوظ ہوئے اور اس دن کے بعد میری ان کی بات فون پر متعدد بار ہوئی اور میں نے ہر بار اپنے وعدے کی تجدید کی کہ ’’غالب اور جہانِ غالب‘‘ کے بارے میں لکھ کر بھیجوں گا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ اس کے کچھ متوقع بھی تھے۔

میں نے زیرِ نظر خط لکھ کر مرحوم کی خدمت میں بذریعہ رجسٹری روانہ کیا اور خدا جانے کیوں، کس خیال کے تحت، اس کی ایک نقل صدیق الرحمن قدوائی کو بھیج دی لیکن نقوی صاحب کی طرف سے اس کی رسید نہ آئی تھی کہ ان کے واقعے کی خبر اخبار میں دیکھی:

سنا یہ واقعہ جن نے اسے تاسف تھا

میں نے فوراً ان کے گھر فون کیا تو ان کے بیٹے سے بات ہوئی۔ تعزیت کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا میرا خط انھیں حال ہی میں مل گیا تھا؟ صاحب زادے نے بتایا کہ میں تو گورکھپور میں رہتا ہوں اور ایک ہی دو دن ہوئے یہاں پہنچا ہوں، اس لیے مجھے اس خط کے بارے میں کوئی علم نہیں، اماں سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ میں نے انھیں منع کیا کہ غمگین ماں کو زحمت نہ دو، میری طرف سے صرف تعزیت کر دو۔

مجھے نہیں معلوم کہ میرا خط مرحوم نقوی صاحب کی نگاہ سے گزر سکا یا نہیں۔ میں دعا کرتا رہتا ہوں کہ مل گیا ہو، اور انھوں نے مجھے وعدہ خلاف نہ سمجھا ہو۔ صدیق الرحمن قدوائی سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ان کو تو خط مل ہی گیا تھا، اور وہ اسے ’غالب نامہ‘ کی اگلی اشاعت میں شائع بھی کر دیں گے۔ چناں چہ ’غالب نامہ‘ کی تازہ اشاعت (جنوری 2013) میں یہ مراسلہ شامل ہے اور میں وہیں سے اسے لے کر حنیف نقوی کو خراجِ عقیدت کے طور پر شائع کر رہا ہوں۔ اب ان جیسا شاید ہی پیدا ہو:

آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند

(شمس الرحمن فاروقی)

2 دسمبر 2012

برادرِ عزیز حنیف نقوی سلام علیکم

آپ کی تازہ کتاب ’غالب اور جہانِ غالب‘ میں نے بے انتہا دل چسپی سے پڑھی۔ یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہی نہیں، اردو نثر کے سنجیدہ، متین اور علمی اسلوب کا بھی عمدہ نمونہ ہے۔ میں اس کتاب کی تصنیف پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور اس کی اشاعت کے لیے آپ کے ناشر غالب انسٹی ٹیوٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

اس کتاب کا ہر صفحہ میرے لیے ایک جہانِ حیرت ہے۔ کس کس جگہ سے آپ نے مآخذ حاصل کیے ہیں اور منتشر کڑیوں کو کس خوبی سے ملایا ہے ! لگتا ہے کوئی کتاب، خواہ وہ کتنی ہی مجہول اور گمنام کیوں نہ ہو، لیکن جس کا تعلق موضوعِ گفتگو سے ہو، ایسی نہیں جو آپ کی نظر سے نہ گزری ہو، اور اس کی تفصیلات آپ کو مستحضر نہ ہوں۔

معاملہ صرف گمنام اور مجہول کتابوں کا نہیں، معاملہ یہ بھی ہے کہ کڑیاں جوڑنے کے لیے آپ نے جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے، ان کے نام یا موضوع سے متبادر نہیں ہوتا کہ یہ آپ کے لیے مفیدِ مقصد ہوں گی۔ مثلاً غالب کے نام (اسد اللہ، اسد اللہ الغالب وغیرہ) کے بارے میں مالک رام صاحب مرحوم کے خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ غالب نے بہت شروع ہی میں ’اسد اللہ الغالب‘ لکھنے کا التزام کیا تھا، آپ نے بتایا ہے کہ مثنوی ’بادِ مخالف‘ کے اس نسخے میں، جو مسعود حسن رضوی ادیب صاحب کے مملوکہ مجموعۂ مکاتیب غالب میں شامل ہے اور جو کہ اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محفوظ ہے، اس کے سر عنوان ’ یا اسداللہ الغالب‘ لکھا ہوا ہے۔ ’بادِ مخالف‘ مطبوعہ صورت میں ہر جگہ دستیاب ہے۔ بھلا کون ہے جس نے وہ مخطوطہ دیکھا ہو اور کون ہے جس نے مخطوطہ دیکھ کر اس کے بارے میں اتنی ذرا سی بات یاد بھی رکھی ہو؟

دوسری مثال یہ کہ جب حکیم احسن اللہ خاں نے فارسی نثر نگاروں کا ایک گلدستہ ترتیب دینا چاہا تو انھوں نے غالب اور مومن سے ان کی نثر کے نمونے مانگے۔ حالی کہتے ہیں کہ غالب نے حکیم موصوف کے خط کا جواب کلکتہ سے لکھا تھا۔ یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں جس پر زیادہ دھیان ضروری ہو، اگر وہ خط کلکتے سے نہیں بھی لکھا گیا تو کیا قباحت ہو گئی؟ لیکن آپ کا مزاج چھوٹی سے چھوٹی بات کو نگاہِ تحقیق سے دیکھنے اور اس کی حقیقت جانے بغیر مطمئن نہیں ہوتا۔ لہٰذا آپ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’انشائے مومن‘ میں ایک خط مومن کا ہے جو 1835 کا ہے اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن اس وقت حکیم احسن اللہ خاں کی فرمایش (کہ اپنی نثر کا نمونہ بھیجیے ) پوری نہ کر سکے تھے کیوں کہ ان دنوں وہ فریزر کی چیرہ دستیوں سے بہت پریشان تھے۔ فریزر نے اپنے قتل (مورخہ22 مارچ 1835) سے ایک دن پہلے مومن کی ایک موروثی زمین ضبط کر لی تھی۔ لہٰذا اس خط سے ذیلی شہادت یہ بھی ملتی ہے کہ حکیم احسن اللہ خاں اپنا گلدستہ 1828-29 میں نہیں، بلکہ 1835 کے آس پاس مرتب کر رہے تھے۔ لہٰذا حکیم صاحب کے نام غالب کے خط کی تاریخ ان کے قیامِ کلکتہ کے تمام ہونے کے بہت بعد کی ہے اور یہاں حالی سے سہو ہوا ہے۔

غالب کے ایک شاگرد حضرت ولایت علی خاں ولایت و عزیز کے بارے میں آپ لکھتے ہیں کہ ان کے والد منشی یحییٰ خاں کے استاد کا نام مولوی احسان اللہ ممتاز اناوی تھا۔ اس کے ثبوت میں مسعود حسن رضوی کا مضمون مطبوعہ ماہنامہ ’نیا دور‘ لکھنؤ بابت جنوری 1974 کا حوالہ دیتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مسعود حسن رضوی صاحب مرحوم کا وہ مضمون سیکڑوں لوگوں نے پڑھا ہو گا لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہ ہو گا جسے یہ مضمون یاد ہو، چہ جائے کہ اس کے مشمولات یاد ہوں۔ یہ حافظے کا کمال نہیں، کمال سے بڑھ کر کوئی چیز ہے جس کا اظہار آپ کی تحریروں میں مسلسل نظر آتا ہے۔ اسی مضمون میں غالب کے ایک خط کے بارے میں آپ لکھتے ہیں کہ یہ خط متعدد جگہ شائع ہوا (آپ نے تفصیل دی ہے جسے میں حذف کرتا ہوں ) لیکن ’متفرقاتِ غالب‘ مرتبہ مسعود حسن رضوی ادیب کے سوا اس کا متن کہیں بھی درست نہیں ہے۔ بھلا غالب کے ایک فارسی خط کے متن کی درستی کا اس قدر اہتمام اور معلومات آج حنیف نقوی کے سوا کس بندۂ خدا کی علمی لیاقت کا کرشمہ ہو سکتا ہے ؟

’بنارسی کی دوستی‘‘ نامی مضمون میں آپ نے جس تفحص اور دقتِ عقل سے کام لے کر ’بنارسی‘ کی شخصیت کو محقق کیا ہے اس کی داد میں اپنے مضمون ’حنیف نقوی کی جاسوسیاں ‘ میں دے چکا ہوں۔ یہ مضمون آپ کی نظر سے گزرا ہو گا۔ لیکن وہاں دو باتیں بخوفِ طوالت میں نے نہیں لکھی تھیں، ایک تو یہ کہ آپ نے بتایا ہے کہ یہ ’بنارسی‘ شخص (جس کا نام عزیز ہے ) ایک مثنوی کا مصنف ہے اور اس کا واحد قلمی نسخہ جو بخطِ شاعر ہے، رضا لائبریری رام پور میں محفوظ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسی شخص کے بارے میں غالب نے اپنے خط میں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ بظاہر ’مدبر‘ (یعنی باب تفعیل بر وزن مفعل ہے )۔ اور اس لفظ نے قاضی عبدالودود جیسے شخص کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا کہ اس ’مدبر‘ کے بارے میں وہ کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ آپ نے یہ کہہ کر معاملہ بالکل صاف کر دیا کہ یہ لفظ در حقیقت مدبر (یعنی باب افعال سے، بر وزن مفعل یا مخلص ہے ) اور اس کے معنی ہیں ’ افلاس اور ادبار میں مبتلا‘۔

خط بہت طویل ہو رہا ہے اور مجھے زیادہ لکھنے کی تاب بھی نہیں کہ طبیعت پوری طرح درست نہیں، لہٰذا صرف ایک اور مضمون کا ذکر کرتا ہوں اور اسے تمام کرتا ہوں۔ یہ مضمون مرزا عاشور بیگ کے بارے میں ہے جنھیں غالب نے ایک خط میں اپنا بھانجا لکھا ہے اور جو سنہ 1857 کی دارو گیر میں انگریزوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ ان کے حالات بظاہر معدوم ہیں اور بظاہر یہ کوئی ایسے شخص بھی نہیں جن کی تفصیلات میں کسی کو بہت دل چسپی ہو، لیکن غالب کے طالب علموں کے لیے ان کی کچھ اہمیت ضرور ہے۔ یہ آپ کی دقّتِ نظر اور تلاش اور وسعتِ حافظہ تھی جس کی بنا پر ہمیں معلوم ہو سکا کہ مرزا رفیع بیگ وحشی (خدا جانے یہ کون صاحب ہیں۔ میں فارسی کے دو شاعروں مرزا رفیع واعظ اور حسن بیگ رفیع سے ضرور واقف ہوں۔ بھلا رفیع بیگ وحشی کا دیوان کس نے دیکھا ہے ) کے دیوان اور عاشور بیگ کے ایک ذرا کم عمر معاصر سرور الدولہ آغا مرزا بیگ کی خود نوشت میں مرزا عاشور بیگ کا ذکر ملتا ہے۔ آفریں، صد آفریں۔

اس کتاب کے لیے میں آپ کو جس قدر مبارک باد دوں، کم ہے کہ اس کی بدولت مجھے انیسویں صدی کی ادبی تاریخ کے چند ایسے گوشوں اور شخصیتوں کے بارے میں معلوم ہو سکا جن کے حالات تو کیا، جن کا نام بھی ہم میں سے اکثر کے لیے پردۂ خفا ہی میں رہتا اگر یہ کتاب نہ ہوتی۔

امید کرتا ہوں کہ اب آپ کی طبیعت مکمل طور پر بہتر ہو گی۔ اس خط کی نقل جناب صدیق الرحمن قدوائی کی خدمت میں روانہ کر رہا ہوں۔

آپ کا، شمس الرحمن فاروقی

———————–

پروفیسر شمس الرحمن فاروقی

C-29، ہیسٹنگس روڈ، الٰہ آباد-211001

٭٭٭

 

 

 

حنیف نقوی صاحب: ایک تاثر

 

                صدیق الرحمن قدوائی

علم و تحقیق کے مختلف شعبوں میں دل چسپی تو ہمارے ہاں ہمیشہ تھی، خصوصاً مشرقی زبانوں اور علوم کی تفصیلات کو دریافت کرنے کے شوق و شغف نے مطالعے کے لیے نئی نئی جہتیں روشن کر دی تھیں۔ پریس کے آنے کے بعد طباعت و اشاعت کی سہولتوں نے اس سلسلے کو اور فروغ دیا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب اور زبانوں سے دل چسپی بھی بڑھتی گئی۔ اس طرح علم و ادب کا خزانہ بھی بڑھا اور غور و فکر کے لیے نئے نئے مسائل اور نئے نئے علاقوں کی طرف نظریں جمنے لگیں۔ اس فضا میں ادبی تحقیق کو بھی بہت فائدہ ہوا۔ مسائل اور ان کے حل کی دریافت کے لیے جدید طریقِ کار سامنے آنے لگے۔ علمی دنیا کے حدود اتنے وسیع ہو گئے کہ اب کسی ایک علم سے واقفیت ناکافی سمجھی جانے لگی اور مختلف علوم کی تحقیق و تدریس سے بڑھتی ہوئی دل چسپی نے جانے بوجھے حقائق کو نئے نئے زاویوں سے دیکھنے اور ان کی گہرائیوں میں اترنے کی طرف مائل کیا جن کا پہلے علم ہی نہ تھا۔

ہمارے ہاں علم و ادب کی دنیا میں دانشوروں اور مفکروں کا ایک ایسا گروہ وجود میں آیا جو ادب، آرٹ اور تخلیقی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ نئی نئی دریافتوں کی طرف مائل ہوا۔ سرسیّد اور شبلی کے دور میں لوگ بڑی تعداد میں اس طرف مائل ہونے لگے۔

ہمارے زمانے میں بزرگوں کی ایک نسل محمود شیرانی اور قاضی عبدالودود، امتیاز علی عرشیؔ اور مالک رام جیسے محققوں کے زیرِ اثر یونیورسٹیوں میں اور اداروں کے باہر ظہور میں آنے لگی۔ پروفیسر حنیف نقوی ان ہی لوگوں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ آزادی کے بعد ادبی مطالعے کی طرف خاص توجہ دینے والوں میں تھے اور انھوں نے اپنے علمی کارناموں کے ذریعے بہت جلد اپنے لیے ایک اہم مقام بنا لیا۔ یونیورسٹی سے تعلق کی بنا پر انھوں نے درس و تدریس پر خاص توجہ دی اور نوجوانوں میں یہ شعور پیدا کیا کہ ادب اور آرٹ کو صرف لطف اندوز ہونے کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ اس کے اندر چھپے ہوئے حقائق کی جانب بھی توجہ دیں۔ ادب سے دل چسپی رکھنے والوں کی فکر کو نئی سمتوں میں دیکھنے کی طرف مائل کریں۔ حنیف نقوی صاحب نے مختلف موضوعات کے ساتھ ساتھ غالبیات کو خاص طور سے اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور اپنی دیدہ ریزی اور جستجو سے غالبؔ، ان کے عہد اور ان کے ہم عصروں سے متعلق ان گوشوں کو عیاں کیا جو غالبؔ کے مطالعے کے سلسلے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں مگر جنھیں وقت اور تاریخ کی گرد نے نظروں سے اوجھل کر دیا تھا۔ ان کے مقالات بڑی تعداد میں ہندستان و پاکستان کے رسائل میں شائع ہوئے جنھیں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہے گا۔ حنیف نقوی صاحب کو فارسی زبان و ادب سے بڑی دل چسپی تھی۔ اردو زبان پر فارسی کے اثرات کی بنا پر ہمارے متعدد محققوں نے اس کی طرف توجہ دی مگر ہمارے ہاں اُس پر گہری نظر رکھنے والے جو فارسی زبان و ادب اور ہند و ایران کی تاریخ کے مختلف ادوار میں علم و تحقیق کی دنیا کے نشیب و فراز سے مناسب واقفیت رکھتے ہوں کم ہیں اس کی وجہ مخطوطات و مواد کی کمیابی بلکہ بعض چیزوں تک نارسائی بھی ہے اور اس کمی پر قابو پانے کے لیے جس مشقت اور ذہانت اور ذوق و جستجو کی ضرورت ہے وہ عام طور سے زیادہ نظر نہیں آئی۔ حنیف نقوی صاحب ان چند لوگوں میں تھے جنھوں نے اپنے شوق اور اپنی محنت سے اس پہلو کی طرف خاص توجہ دی تھی۔ ان کی تحریریں، ان کے تبصرے اور مذاکروں میں ان کی تقریریں بہت حد تک اس خلا کو پُر کرتی تھیں۔

حنیف نقوی صاحب بنارس ہندو یونیورسٹی میں تمام عمر پڑھاتے رہے مگر وہ وہیں تک محدود نہیں رہے، ملک کے سارے علمی اداروں کی سرگرمیوں میں وہ شریک ہوتے اور ان سے استفادہ کرنے والوں کی بڑی تعداد سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ یونیورسٹی سے سبک دوش تو ہو گئے تھے مگر ان کی علمی اور تحقیقی سرگرمیاں آخر وقت تک جاری رہیں جن میں سے بہت کچھ ان کی کتابوں میں محفوظ ہے۔

پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی

271، جامعہ نگر، نئی دہلی 110025  ٭٭٭

 

پروفیسر حنیف نقوی

 

                شمیم حنفی

 

جو لمحہ گزر جائے، دیکھتے دیکھتے کہانی بن جاتا ہے۔ اس لمحے کی تصویر بھی چاہے جتنی مانوس ہو، سامنے آتی ہے تو بس ایک خواب کی طرح۔ حنیف نقوی صاحب سے ملاقات کی پہلی صبح کا آج خیال آیا تو یہ احساس بھی ہوا کہ اب اس صبح کے اور میرے درمیان چالیس برس کی دوری حائل ہو چکی ہے، لیکن اس ملاقات کا نقش اتنا گہرا، اتنا روشن اور واضح ہے کہ صرف کل کی سی بات لگتی ہے۔ اس عرصے میں دنیا کیا سے کیا ہو گئی، مگر نہیں بدلے تو حنیف صاحب۔

ان سے میری پہلی ملاقات علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں ہوئی تھی۔ حنیف صاحب اس وقت عتیق احمد صدیقی مرحوم کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تعارف کے بعد ان سے باتیں ہوئیں تو اندازہ ہوا کہ علی گڑھ میں ہوتے ہوئے بھی وہ کسی اور دنیا کے باسی تھے۔ گفتگو میں بہت کھرے اور دو ٹوک، لہجے میں، زبان و بیان میں ذرا سی بھی مصلحت کیشی نہیں، چاہے کسی سے دوبدو مخاطب ہوں یا کسی کا غائبانہ ذکر ہو، حنیف صاحب کی روش ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ بے مروتی کی حد کو پہنچی ہوئی صاف گوئی اور دیانت داری، ان کی تحریر ہو یا تقریر، اپنے قاری یا سامع کو بروقت اپنی اخلاقی اساس کے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہے اور تحقیق، تدریس، تنقید کا تو سارا تماشا ہی ایک اخلاقی اساس پر قائم ہے۔ اس تماشے میں جھوٹ کا گزر نہیں اور بڑے سے بڑا تماشا گر بھی ہزار کوشش کے باوجود اپنے آپ کو چھپا نہیں سکتا۔

اپنے میلانِ طبع کے لحاظ سے حنیف نقوی صاحب ایک روایتی معلم اور محقق ہیں۔ انھوں نے تدریس و تعلیم کے مشغلے میں ایک عمر گزار دی اور ہر محاذ پر اپنا اعتبار محفوظ اور مستحکم رکھا۔ تحقیق و تنقید اور تعلیم و تدریس کی دنیا میں کیسے کیسے چراغ بجھتے چلے گئے اور اب اس دنیا، خاص طور پر اردو زبان و ادب کے پس منظر میں اس دنیا کے حال پر نظر ڈالی جائے تو ہر طرف عبرت کا سامان دکھائی دیتا ہے۔ چور ا چکے، جعل ساز، دنیا طلبی کے فن میں طاق اور علم و ادب سے یکسر بیگانہ اور اساس مہیا کرنے والی اخلاقی اور تہذیبی قدروں سے محروم لوگوں نے ادھم مچا رکھی ہے۔ تھوڑا بہت سنبھالا جن اصحاب نے اس دنیا کو دے رکھا ہے وہ اقلیت میں ہیں اور حنیف نقوی صاحب اس اقلیتی گروہ میں بھی الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے کسی بھی سطح پر نہ تو آج کی دنیا کے چلن کو قبول کیا، نہ جھوٹی شہرت اور مقبولیت کے پھیر میں پڑے، نہ کبھی مفاہمت کا رویہ اختیار کیا۔ بہ ظاہر یہ ایک عام سی بات ہے اور ادب کی دنیا میں ہمیشہ سے یہی کچھ ہوتا آیا ہے، لیکن ہمارے عہد کی بدبختی یہ ہے کہ یہی عام اور متوقع باتیں، اب عجیب اور انوکھی دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے اساتذہ جنھوں نے پڑھنے پڑھانے کو وظیفۂ حیات بنا لیا ہو اور زندگی کی عام ترغیبات سے اپنا دامن کھینچ لیا ہو، خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ حنیف نقوی صاحب کو دور پاس سے دیکھتے ہوئے چالیس برس گزر گئے، ہندستان پاکستان کے نامور ادیبوں اور اساتذہ کو میں نے ہمیشہ ان کا معترف اور مدّاح پایا اور یہ صورتِ حال اس وقت ہے جب حنیف صاحب کو نہ تو جلسے جلوس سے دل چسپی ہے نہ تعلقاتِ عامہ کا دائرہ بڑھانے اور لوگوں سے ملنے ملانے کا شوق، نہ سستی شہرت اور مقبولیت کے حربے آزمانے کی عادت۔ وہ اپنی چھوٹی سی دنیا میں خوش ہیں۔ دوستوں کا بہت مختصر اور محدود حلقہ۔ اسی طرح ان کے علمی اور ادبی مشاغل کے حدود بھی متعین ہیں اور انھوں نے ایک خاص سطح اور نوعیت کی سرگرمیوں کے لیے اپنے آپ کو مخصوص کر لیا ہے۔ اردو تذکروں کی روایت پر، اسی کے ساتھ ساتھ اٹھارہویں صدی کے ادب پر ان کا کام غیر معمولی ہے، لیکن وہ جو ایک جمالیاتی روکھاپن اور سخت گیری ادب کو صرف تحقیق و تفتیش کا موضوع سمجھنے والوں میں عام ہے، حنیف صاحب اس سے دور دکھائی دیتے ہیں۔ اچھے شعر انھیں یاد بہت ہیں اور بے ساختہ ان کی داد بھی دیتے ہیں۔ اس کا ایک سبب جو واضح ہے، فارسی شعر و ادب سے ان کا غیر رسمی شغف اور روایتی شاعری کی فنی قدروں پر ان کی ماہرانہ گرفت ہے۔

اردو کی ادبی روایت، اپنی تمام تر ترقی اور تجدّد کے باوجود فارسی ادب کی روایت، بالخصوص فارسی شاعری کے اسالیب سے اب بھی بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ حنیف صاحب فارسی سے طبعی مناسبت رکھتے ہیں اور فارسی شعر کا ذوق ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ اپنے شاعر ہونے کا وہ کبھی اظہار و اعلان نہیں کرتے، تاہم فارسی اشعار کے جو منظوم ترجمے انھوں نے کیے ہیں، ان کی خوبی کا رمز اسی حقیقت میں چھپا ہوا ہے کہ حنیف صاحب کو فارسی زبان کے تخلیقی تقاضوں اور آداب سے واقفیت صرف علمی سطح پر نہیں۔ فارسی شاعری کے ذوق میں وہ خوب ڈوبے ہوئے ہیں اس لیے، انھوں نے اس میدان میں بہتوں کی گرفت کی ہے اور علمی سطح پر اپنی بحثوں میں وہ اچھے اچھوں پر حاوی دکھائی دیتے ہیں۔

حنیف صاحب کے اس امتیاز کے پیچھے متعدد دل چسپ کہانیاں روپوش ہیں۔ یہاں ان کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے تاہم اس امتیاز کے ساتھ ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو جو میرے تجربے میں آیا ہے، اس کا تذکرہ ضروری ہے۔ حنیف صاحب کے یہاں علمی معاملات میں کسی تکلف، مفاہمت اور رعایت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے باوجود ان کی طبیعت میں انکسار کی وہ شائستگی نمایاں ہے جس سے ہمارے بر خود غلط علما اور اساتذہ کا باطن بالعموم خالی رہا ہے۔ اپنے بزرگوں کی گرفت کرنے میں تمام تر جراحت اور جسارت کے باوجود حنیف صاحب کبھی بے قابو نہیں ہوتے اور خاص طور پر اپنے اساتذہ کے سلسلے میں تو ان کا رویہ اتنا نرم اور متین ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اس پر حیرت ہوتی ہے۔ پروفیسر ابو محمد سحر اور پروفیسر گیان چند جین کے وہ باضابطہ شاگرد رہے ہیں۔ سحر صاحب کی شخصیت ان تمام اوصاف کا مجموعہ تھی جو اب ہماری علمی اور تعلیمی دنیا کے مطلعے سے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ گوشہ گیر، کم سخن، کم آمیز اور ہمیشہ اپنے آپ میں مگن رہنے والے۔ اسی طرح جین صاحب نے بھی ایک عالمانہ متانت اور وقار کے ساتھ زندگی گزار دی، سواے عمر کے آخری مرحلے میں ’ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب‘ نے ان کے علمی اور ادبی رویوں کی صحت پر ایک سوالیہ نشان بھی ثبت کر دیا۔ ان کی اس تصنیف کے پیچھے کون سے محرکات تھے اور کس مجبوری یا معذوری کے تحت جین صاحب خود اپنے ساتھ اس زیادتی کے مرتکب ہوئے، اس کی پوری روداد سامنے آ چکی ہے۔ حنیف نقوی صاحب کو اس پورے تماشے کے پس منظر اور اس کے اسباب کا علم خود جین صاحب کے واسطے سے براہِ راست ہوا تھا، لیکن حنیف صاحب کی اعلا ظرفی اور استاد شاگرد کے رشتے کی اخلاقیات میں ان کے یقین کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ حنیف صاحب نے جین صاحب کے احترام میں ذرا سی بھی کمی نہیں آنے دی، نہ کسی تلخی کو راہ دی، نہ ان سے تعلق پر آنچ آنے دی۔ ان کے سامنے کبھی یہ مسئلہ چھڑا بھی تو وہ بس خاموش رہے اور بات وہیں ختم کر دی۔

اصل میں ذاتی شرافت کی وہ قدریں جو حنیف نقوی صاحب کو اپنے بزرگوں سے ملی تھیں، ان کے ساتھ ساتھ یہ واقعہ بھی اہم ہے کہ حنیف صاحب نے ادب اور انسانی علوم کے مطالعے سے وہ ساری روشنی بھی اپنے سینے میں اُتار لی جو ایک عمر کے ریاض کا حاصل ہوتی ہے۔ ان کی شخصیت میں وہ رکھ رکھاؤ ملتا ہے جس سے معلّمی کے پیشے کی پہچان قائم ہوتی تھی۔ پڑھے لکھے لوگ تو اور بھی بہت ہیں لیکن معلّمی کی اخلاقیات کا پاس رکھنے والے اب اس کم عیار زمانے میں روز بہ روز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ حنیف صاحب کی شہرت کا ایک پہلو، ان کی تنقید و تحقیق کے علاوہ اپنے منصب سے ان کا شغف بھی ہے۔ ادب کے شعبوں میں خاص کر اردو میں حنیف صاحب کے پایے کے اساتذہ بس گنتی کے رہ گئے ہیں۔ کیا قیامت ہے کہ دنیا طلبی کے چکر میں اب اساتذہ تک اپنے وقار کو داؤں پر لگا دیتے ہیں۔ میں نے حنیف صاحب کو اپنے حال پر ہمیشہ قانع اور دنیا سے ہمیشہ بے نیاز دیکھا، ان سے کم تر صلاحیت رکھنے والے زندگی کی دوڑ میں ان سے آگے نکل گئے، لیکن حنیف صاحب کو میں نے کبھی بھی اپنی قسمت یا اپنے زمانے سے شکایت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ایسا حیران کُن ضبط و تحمل اور اپنے منصب سے ایسی لگن حنیف صاحب کو منتخبات کی صف میں بھی دوسروں سے ممیز کرتی ہے۔ اپنی تہذیبی، علمی، معاشرتی اور مذہبی روایات کا وہ انتہائی گہرا شعور رکھتے ہیں اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس شعور کے ساتھ وہ اپنے آپ سے مطمئن بھی ہیں۔ ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہے، کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہے۔

——————–

پروفیسر شمیم حنفی

B-144، ذاکر باغ، اوکھلا روڈ،  نئی دہلی – 110025

٭٭٭

 

 

 

میرے ابّو

 

                لُبنیٰ نقوی

 

22دسمبر کی وہ رات 8.20 کا وقت تھا، میرے موبائل پر رنگ ہوئی۔ میری چچازاد بہن سمیرہ کا فون تھا، وہ صرف رو رہی تھی اور ابو ابو کہہ رہی تھی۔ میں سن بھی نہیں پائی کہ فون میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میں بُری طرح کانپنے لگی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں نے تھوڑی دیر پہلے تو ابو سے بات کی تھی۔ اتفاق سے میرے شوہر نور الصباح صاحب بھی گھر پر نہیں تھے۔ وہ ابو سے ملاقات کر کے سہسوان سے واپس لوٹ رہے تھے اور ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا۔

وہ دن ہے اور آج تک رات کے 8.20 ہونے والے ہوتے ہیں اور میرے دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے جس کو الفاظ کا جامہ پہنانا بہت مشکل ہے۔

والدین تو سبھی کے قابلِ تعریف ہوتے ہیں۔ ان کی محبت، قربانی اور دعائیں زندگی بھر ہمارے کام آتی ہیں۔ ابو کی غیر موجودگی میں ان کے لیے کچھ لکھ پانا، میں بتا نہیں سکتی کہ کتنا مشکل ہو رہا ہے۔ بار بار قلم اٹھاتی ہوں اور قلم آگے نہیں بڑھتا ہے۔

ابو کے لائق اور عزیز شاگرد جناب ظفر احمد صدیقی کے بہت اصرار پر میرے اندر ہمت آئی۔ میں ابو کی اولاد میں سب سے بڑی ہوں اس لیے ان کو بھی مجھ سے بہت لگاؤ تھا۔ ہم پانچ بہنوں اور ایک بھائی کی تربیت میں ابو کا بہت ہاتھ ہے۔ میری ماں بہت نیک سیرت اور سادہ خاتون ہیں۔ زندگی کس طرح بسر کی جائے، یہ ہم کو ابو نے ہی سکھایا۔ مجھے قرآن پاک بھی ابو نے پڑھایا اور ایک اچھے ٹیوٹر کا حق بھی ادا کیا۔ مغرب سے عشا کے درمیان ہم بہن بھائی کو پڑھاتے اور اچھی تعلیم اور علم کے حصول پر زور دیتے تھے۔ ابو کو اپنے رشتہ داروں سے بھی بہت محبت تھی۔ انھوں نے ہر بڑے کو عزت اور ہر چھوٹے کو محبت دی۔ ان کی محبت میں دکھاوا بالکل نہیں تھا۔ ابو بہت صاف گو تھے۔ میں ان سے کہتی ابو آپ کچھ زیادہ ہی صدق بیانی سے کام لے لیتے ہیں تو وہ کہتے کہ بیٹا نام کا کچھ تو اثر آئے گا۔ غلط بات ان کو ذرا بھی برداشت نہیں ہوتی تھی۔ خاندان کے ہر چھوٹے بڑے انسان کو ان پر فخر تھا۔ ضرورت مندوں کی بہت خاموشی سے مدد کرتے۔ ابو بہت سخی تھے اور کسی کی پریشانی نہیں دیکھ پاتے تھے۔ گھر میں کسی کی بھی طبیعت خراب ہوتی تو پریشان ہو جاتے تھے۔

نیوز سننا اور اخبار پڑھنا ان کا روز کا معمول تھا۔ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ بیٹھتے تو دل چسپ اور پُرتکلف باتیں کرتے۔ مشاعروں اور جلسوں سے دور ہی رہتے تھے۔ ابو کو شطرنج (Scrabble) کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ ان کے کچھ اصول تھے جن کا وہ بہت خیال رکھتے تھے۔ کسی کی خیریت معلوم کرنی ہو یا مبارک باد دینی ہو اس میں وہ سب سے بازی مار لے جاتے تھے۔ ابو کو پودوں کا بھی بہت شوق تھا خاص طور سے گلاب ان کو بہت پسند تھا۔

جہاں تک دواؤں کا تعلق ہے بہت پابندی سے استعمال کرتے تھے۔ سرجری، فریکچر اور کینسر سے بہت ڈرتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ ان کو کوئی مہلک بیماری نہیں ہوئی۔ سگریٹ اور سگار کا بہت شوق تھا مگر پچھلے 25 سالوں سے بالکل چھوڑ دی تھی۔ سانس پھولنے کی وجہ سے چلنے میں دشواری ہونے لگی تھی تو اب چھڑی کا استعمال کرنے لگے تھے۔

ابو اپنے استاد پروفیسر گیان چند جین اور ڈاکٹر ابو محمد سحر، اپنے مخلص دوست رشید حسن خاں اور مولانا عرشیؔ کا اکثر ذکر کرتے۔ اردو ادب اور ان شخصیات سے متعلق باتیں بھی بتایا کرتے۔ عرشیؔ صاحب تو بہت پہلے مرحوم ہو چکے تھے، باقی لوگوں سے اکثر فون پر بھی بات کیا کرتے تھے۔ جن لوگوں سے ان کی خط و کتابت رہتی ان کے نام ہیں جناب نیّر مسعود، جناب مالک رام، جناب کالڑا، اخلاق اثر صاحب، کالی داس گپتا رضا صاحب، شمس الرحمن فاروقی صاحب، ڈاکٹر مختار شمیم، قاضی افضال صاحب۔ کچھ لوگوں سے ان کو خاص لگاؤ تھا، مثلاً ان کے بڑے بھائی جناب شریف احمد، میرے بڑے ماموں جناب صغیر احمد اور ان کے کچھ دوست جناب آغا جمیل شاہ کاشمیری، ڈاکٹر ناظم جعفری، جناب حکم چند نیّر، جناب حبیب احمد، پروفیسر شمیم حنفی اور ان کے شاگرد جناب ظفر احمد صدیقی۔ کچھ لوگ برابر ابو کے پاس گھر بھی آیا کرتے تھے۔ وہ ایک شفیق استاد بھی تھے اور کرم فرما بھی۔

ڈاکٹر حبیب اللہ، ڈاکٹر حسن عباس، ڈاکٹر نسیم احمد، ڈاکٹر عبدالسلیم، ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی، شمیم اختر صاحبہ، ڈاکٹر قمر جہاں، ڈاکٹر رفعت جہاں اور ڈاکٹر یعقوب یاور اور آغا نہال احمد شاہ سے ابو بہت محبت کرتے تھے۔ ابو کو موسمی کھانوں کا بہت شوق تھا۔ وہ بہت سادہ مگر ذائقہ دار کھانا پسند کرتے تھے، مگر کسی کی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ ابو کو آئس کریم کا بہت شوق تھا۔ لفاظی، جھوٹ اور دکھاوے سے نفرت تھی۔ شہرت اور پیسے کے لیے کبھی بھی اپنے ظرف کو گروی نہیں رکھا۔ ابو بہت نمازی اور ایمان والے تھے۔ اُن کے دل میں ہر وقت خوفِ خدا رہتا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

پروفیسر حنیف نقوی

 

                 قاضی افضال حسین

 

1972-73 کے زمانے میں پروفیسر محمود الٰہی ایک تذکرہ (غالباً ’نکات الشعرا‘) مرتّب کر رہے تھے، اُس زمانے میں کبھی کبھی اردو میں تذکروں پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر محمود الٰہی سے قلمی نسخوں کی جستجو اور ان کی دستیابی کے متعلق بحیثیت طالبِ علم ہمیں جو کچھ اطلاعات ملیں، ان سے تحقیق کی دشواریوں کا کسی حد تک اندازہ ہوا۔ کبھی یہ ذکر ہوتا کہ مولوی عبدالحق صاحب کو فلاں کتاب کا ایک نسخہ دریائے موسیٰ میں بہتا ہوا ملا۔ ایک روز ذکر ہوا کہ غالبؔ کی شراب کا نسخہ ایک پرچے پر لکھا ہوا ایک بساطی کی دکان پر ملا۔ کبھی کسی نواب صاحب کے کتب خانے میں کسی ایک کتاب کے ساتھ دوسری کتاب کے خطی نسخے کی جلد بندھی ملی وغیرہ۔ خیال ہوا بوسیدہ خطی نسخہ پڑھنا اور اسے مرتّب کرنا تو اپنی جگہ اس کا ملنا بھی غیبی امداد کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک دن ہمارے ایک ہم سبق نے جن کا حوصلہ یہ واقعات سن کر بھی ابھی تک پست نہیں ہوا تھا، استادِ گرامی سے پوچھا کہ ’’سر اگر میں آپ کی نگرانی میں Ph.D کے لیے کسی ایک تذکرے کی ترتیب و تدوین کا موضوع منتخب کروں تو کیسا رہے گا؟‘‘ محمود الٰہی صاحب نے فرمایا ایک صاحب حنیف نقوی ہیں، انھوں نے بھوپال سے ڈاکٹر ابو محمد سحر کی زیرِ نگرانی اردو میں تذکروں پر Ph.D کا مقالہ لکھا ہے اور بہت محنت سے کام کیا ہے۔

ہم نے پہلی مرتبہ حنیف نقوی صاحب کا نام ایم اے فائنل کی اسی کلاس میں سنا اور اس بات سے بہت مرعوب ہوئے کہ جن تذکروں میں کوئی نایاب ہے، کسی کا صرف ایک نسخہ بان کی پور کے کتب خانے میں ہے، کسی کا ایک نسخہ تو لندن کی لائبریری میں ہے اور دوسرے کا پتا چلا ہے کہ پیرس کے مضافات کے کسی کتب خانے میں ہے، آخر یہ سب نسخہ ہائے منتشر نقوی صاحب نے جمع کیسے کیے ہوں گے ؟ ان کا پڑھنا اور باہم مقابلہ کرنا تو بعد کی بات ہے۔

پھر وہ کتاب ’شعرائے اردو کے تذکرے ‘ 1976 میں چھپ کر آئی تو ہم نے یہ مقالہ اسی مرعوبیت کے زیرِ اثر پڑھا جو ہم پر نقوی صاحب کی محنت اور لگن کے متعلق محمود الٰہی صاحب کی فراہم کردہ اطلاعات کے سبب طاری ہوئی تھی۔ اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے کہ کہیں کسی رسالے میں پروفیسر حنیف نقوی کا مضمون دیکھ لیتے ہیں تو پورا مضمون ایک ہی نشست میں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس پر حیرت کرتے ہیں کہ اس موضوع کے متعلق نقوی صاحب نے اتنا سارا مواد کہاں سے جمع کر لیا اور پھر ان کی تنقیح اور تجزیہ، یہ سب کچھ بہت گہرے علمی انہماک کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ’غالب کا سفرِ کلکتہ‘ یا ’غالب کی تاریخِ پیدائش‘ تو خیر مشکل ہی سہی، لیکن محققین کے درمیان بحث کا موضوع ہیں لیکن ’غالب کے عہد میں ڈاک کا نظام‘ جیسے غیر ادبی موضوع کے متعلق حنیف نقوی صاحب کی فراہم کردہ اطلاعات اتنی مکمل ہیں کہ خود ڈاک خانے کے افسران بھی قدرے حیرت زدہ رہ جائیں۔

اس علمی شغف اور تحقیق کے فن میں انہماک کا سلسلہ اب بھی اسی شوق و جوش سے جاری ہے۔ ابھی چند ماہ قبل سہ ماہی ’نوائے ادب‘ بابت اپریل تا ستمبر 2009 میں نقوی صاحب کا مضمون ’منشائے مصنف سے انحراف: محرکات اور اسباب‘ شائع ہوا ہے۔ زیرِ بحث مسئلہ یہ ہے کہ محقق اصل خطی نسخے کو پڑھتے یا نقل کرتے ہوئے اس نوع کا سہو/ انحراف کیسے اور کیوں کرتا ہے جو لکھنے والے کی واضح منشا کے خلاف ہو۔ بیس صفحات کے اس مضمون کو پڑھ کر یہ خیال ہوا کہ شاید اب اس موضوع کی کوئی جہت ایسی نہیں جس پر مزید لکھنے کی ضرورت پیش آئے۔

نقوی صاحب کے مضامین پڑھتے اور ان کا ذکر سنتے ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد ان سے پہلی ملاقات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک سمینار میں ہوئی۔ یہ ملاقات اس لیے بھی یاد رہ گئی کہ اس میں نقوی صاحب کے ساتھ ایک حادثہ گزرا۔ فجر کی نماز کے بعد اسٹیشن سے یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس آتے ہوئے کچھ لٹیرے لڑکوں نے نقوی صاحب کا سوٹ کیس چھین لیا اور وہ بھی ان لوگوں کے سامنے جو فجر کی نماز کے بعد یونیورسٹی کیمپس میں ٹہل رہے تھے، اس حادثے کی وجہ سے نقوی صاحب پر غصے اور جھنجھلاہٹ کی کیفیت طاری تھی اور ہم سب انتہائی درجہ نادم۔ ’غالب تنقید کے سو سال‘ پر یہ دو دنوں کا سمینار تھا۔ انتہائی غصے اور جھنجھلاہٹ کے باوجود دوسرے دن نقوی صاحب سمینار میں تشریف لائے اور غالبؔ کے مجموعے ’باغِ دو در‘ کے موضوع پر بالکل برجستہ (Spontaneous) گفتگو کی۔ یہ گفتگو اتنی پُر مغز اور حوالوں سے بھری ہوئی تھی کہ سمینار ہال میں موجود تمام لوگ حیرت زدہ تھے۔

اس کے بعد متعدد سمیناروں میں نقوی صاحب کو مقالہ پڑھتے اور بحثوں میں حصہ لیتے دیکھتا رہا ہوں اور ہر بار یہ تاثر گہرا ہوتا گیا کہ نقوی صاحب بے حد ذی علم اور مرتب اس کالر ہیں۔ نقوی صاحب کو مذاکروں میں کبھی طویل اور غیر ضروری گفتگو کرتے نہیں سنا گیا مگر وہ اپنی بات کہتے بغیر رعایت کے ہیں، یعنی کوئی بات محض اس لیے نہیں کہنا کہ اس سے شرکائے بحث میں کسی کی کم علمی ظاہر ہو گی یا اس کی تردید ہو گی یہ نقوی صاحب کا طریقہ نہیں۔ البتہ اپنی ذاتی محفلوں میں بعض مرتبہ ان کا طرز قدرے شدید ہو جاتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ اپنی صاف گوئی پر اعتماد کر کے وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں جو اس سے قدرے نرم طریقے سے بھی کہی جا سکتی ہیں۔ یہ میرا تاثر ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔

علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں ڈی۔ ایس۔ اے پروگرام کے تحت Visiting Professor کے تقرر کا بھی اختیار دیا گیا تھا۔ اس منصب کے لیے پروفیسر حنیف نقوی سے زیادہ کون مستحق ہو سکتا تھا۔ ان سے درخواست کی گئی کہ وہ D. S. A پروگرام کے تحت Visiting Professor کا منصب قبول فرما لیں جو از راہِ خورد نوازی قدرے تکلف کے بعد نقوی صاحب نے قبول فرما لیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں نقوی صاحب کی شب و روز کی مصروفیات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ نقوی صاحب کے پاس پڑھنے لکھنے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں۔ وہ اپنی نوجوانی کے زمانے میں تھوڑے وقفے (یکم فروری 1968 تا 13 جولائی 1969) کے لیے علی گڑھ میں ملازمت کر چکے تھے۔ اس وقت ان کی یہاں بعض لوگوں سے ملاقات بھی رہی ہو گی، لیکن جب ایک طویل عرصے کے بعد وہ یہاں Visiting Professor کی حیثیت سے لوٹے تو انھیں پروفیسر مختار الدین احمد اور پروفیسر نذیر احمد کے علاوہ کسی سے ملنے نہیں جانا تھا۔ وہ یہاں کبھی بازار بھی نہیں گئے اور یونیورسٹی میں بھی گیسٹ ہاؤس، شعبۂ اردو اور مولانا آزاد لائبریری کے علاوہ انھیں کہیں دیکھا نہیں گیا۔ خود گیسٹ ہاؤس کے اس کمرے میں جہاں نقوی صاحب ٹھہرے ہوئے تھے، ان کے کپڑوں کے ایک چھوٹے بکس کے علاوہ چند کتابیں تھیں اور کچھ نہیں۔ ایسی محدود ضرورتوں والا علمی شخص اب ہماری دانش گاہوں میں مفقود ہوتا جا رہا ہے۔

علی گڑھ میں اپنے قیام کے دوران پروفیسر حنیف نقوی نے طلبہ کی انجمن اردوئے معلی کے زیرِ اہتمام طلبہ اور اساتذہ کے لیے Ph.D کی سطح پر تحقیق کی شرائط کے متعلق ایک مبسوط مقالہ بھی پڑھا جس کی کاپیاں بعد میں ریسرچ اسکالرز میں تقسیم کی گئیں۔

میں نقوی صاحب کی ذاتی زندگی سے بالکل واقف نہیں اس لیے کہ انھوں نے کبھی اس کے متعلق گفتگو کی ہی نہیں۔ ان کی ایک بچّی لُبنیٰ کئی سال پہلے یہاں اردو میں ایم۔ اے کر رہی تھی، اس کی نیکی، سنجیدگی اور پڑھنے میں دل چسپی نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ تب کسی نے بتایا کہ یہ حنیف نقوی صاحب کی بیٹی ہے، لیکن خود انھوں نے کبھی اس کے متعلق گفتگو نہیں کی۔ البتہ ان کے بعض شاگردوں سے میری خوب ملاقات ہے۔ نقوی صاحب سے محبت اور ان کے لیے دل میں احترام ان سب کے درمیان قدرِ مشترک ہے۔ اپنے استاد کے لیے عقیدت اور یہ احترام خود نقوی صاحب کی صفت ہے جو ان کے تقریباً تمام طالبِ علموں میں منتقل ہوئی۔ اپنی طالبِ علمی کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے نقوی صاحب ڈاکٹر ابو محمد سحر کا ذکر جس محبت سے کرتے ہیں وہ واقعی قابلِ قدر ہے۔ گیان چند جین کی کتاب ’ایک بھاشا دو لکھاوٹ، ایک ادب‘ شائع ہوئی تو اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والوں کو بہت دکھ ہوا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد نقوی صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس کتاب کے متعلق اپنی ہر گفتگو میں انھوں نے یہ بات دُہرائی کہ جین صاحب میرے استاد ہیں، میں اس حیثیت سے ان کا احترام کرتا ہوں۔ رہے اس کتاب کے مندرجات، تو اس میں کوئی نئی بات نہیں، یہ سب باتیں جین صاحب پہلے بھی کہتے رہے ہیں۔ یہ اعلا ظرفی، ان کی ذاتی شرافت کے علاوہ ان کے علمی مزاج کی دین ہے اور ہم سب کے لیے مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔

ابھی چند ماہ پہلے کی ملاقات میں ذکر آیا کہ اگر آپ طلبہ کی رہنمائی کے لیے ’تحقیق کے مسائل‘ پر کوئی کتابچہ تحریر فرما دیں تو بہت اچھا ہو۔ فرمایا اب کام کرنے میں تھک جاتا ہوں اور تحقیق جیسے میدان میں کام کرنے کے لیے جس محنت اور انہماک کی ضرورت ہے اب اپنے اندر اس کی قوت کم پاتا ہوں، مگر اس کے باوجود اس زمانے میں جو تازہ تحریریں سامنے آئی ہیں اور جو دو تین کتابیں اشاعت کی منتظر ہیں ان سے تو کہیں ضعف یا اضمحلال کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ خدا معلوم نقوی صاحب کے ذہن میں اس سے اعلا تحقیق کا کیا معیار ہے ؟(یکم فروری 1968 تا 13 جولائی 1969)

————————–

پروفیسر قاضی افضال حسین

شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

٭٭٭

 

 

 

 

پروفیسر حنیف نقوی محقق غالب

 

                ظفر احمد صدیقی

 

پروفیسر حنیف نقوی (1936-2012) عصرِ حاضر کے نامور محقق تھے۔ دقّتِ نظر، اصابتِ رائے اور تحقیقی حزم و احتیاط کے لحاظ سے وہ محمود شیرانی، قاضی عبدالودود، مولانا امتیاز علی خاں عرشی اور رشید حسن خاں کی صف کے آدمی تھے۔ تحقیق سے ان کے مزاج کو طبعی مناسبت تھی۔ ان کے استاد ڈاکٹر ابو محمد سحرؔ نے جو خود بھی اعلا درجے کے محقق تھے، ان کی تحقیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشا۔ انھوں نے اپنے تحقیقی کاموں کا آغاز شعرائے اردو کے تذکروں سے کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ’نکات الشعرا‘ سے ’گلشنِ بے خار‘ تک اٹھارویں اور انیسویں صدی کے 23 تذکروں کا بالاستیعاب مطالعہ کر کے ان کی قدرو قیمت کا تعین کیا۔ تذکروں پر تحقیق اور ان کے تقابلی مطالعے کے نتیجے میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے بیشتر اہم اور غیر اہم شعرا کے سوانح حیات، نمونۂ کلام، سنینِ وفات، معرکہ آرائیوں نیز ان دونوں صدیوں کی ادبی و تہذیبی سرگرمیوں سے متعلق انھیں ایسی واقفیت حاصل ہو گئی جس میں کوئی دوسرا شریک و سہیم نہ تھا۔ مطالعے کی وسعت کے ساتھ ساتھ ان کا حافظہ بھی نہایت قوی تھا اس لیے کسی شاعر کے احوال و آثار یا کسی شعر کے انتساب یا کسی شعر کے صحیح متن وغیرہ امور کے بارے میں جب بھی ان سے کوئی استفسار کیا جاتا تو فی الفور اور تسلی بخش جواب دیتے۔

تذکروں کے سوانحی عناصر کے مطالعے کی وجہ سے انھیں سوانحی تحقیق سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ چناں چہ ادبی شخصیات سے متعلق انھوں نے تحقیقی مقالات کا سلسلہ شروع کیا جن میں مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت لکھے ہوئے مقالات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں :

۱-     منشی احمد حسین سحرؔ

۲-     مرزا حاتم علی بیگ مہرؔ

۳-     مرزا کلب حسین خاں نادرؔ

۴-     ولایت علی خاں ولایتؔ و عزیزؔ صفی پوری

۵-     ثاقبؔ لکھنوی

ان میں سے حاتم علی مہرؔ کا شمار غالبؔ کے احباب میں اور ولایت علی خاں ولایتؔ و عزیزؔ کا شمار ان کے تلامذہ میں کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ان شخصیات پر کام کرتے ہوئے پروفیسر حنیف نقوی بہ تدریج غالبؔ اور ان کے احوال و آثار کی طرف متوجہ ہوتے چلے گئے۔ اس توجہ کا ایک باعث یہ بھی ہوا کہ غالب صدی کی مناسبت سے جب غالبؔ سے متعلق تصانیف، مجموعہ ہائے مضامین اور رسائل کے خاص نمبروں کا ایک سیلاب سا آ گیا تو شوقِ مطالعہ اور ذوقِ جستجو کے سبب انھوں نے اس پورے ذخیرے کا کم و بیش مطالعہ کر ڈالا، لیکن اس کے بیشتر حصے کو انھوں نے پوری طرح قابلِ اعتماد نہیں پایا۔ تقریباً دس سال تک مطالعے کے بعد انھوں نے 1980 سے غالبؔ سے متعلق مضامین و مقالات کا سلسلہ شروع کیا اور پھر تواتر و تسلسل کے ساتھ آخرِ حیات تک لکھتے ہی رہے۔ تیس بتیس سال کا یہ عرصہ ان کی ذہنی و فکری پختگی و بالیدگی کا تھا، لہٰذا اس دوران انھوں نے جو کچھ لکھا وہ قدرِ اول کی چیز ہے۔

غالبیات سے متعلق نقوی صاحب نے تین درجن یا اس سے کچھ زائد مقالات تحریر کیے ہیں، جن میں سے بیشتر اب ان کے تین مجموعوں میں شامل ہیں : ۱- غالب: احوال و آثار ۲- غالب کی چند فارسی تصانیف ۳- غالب اور جہانِ غالب۔ ان کے علاوہ ’مآثرِ غالب‘ مرتبہ قاضی عبدالودود کی انھوں نے ترتیب و تدوینِ جدید بھی کی ہے۔ ’غالب- احوال و آثار‘ (طبع دوم، 2007) میں شامل مضامین کے عنوانات حسبِ ذیل ہیں :

غالب کا سالِ ولادت/ غالب کا سفر کلکتہ/ غالب اور معارضۂ کلکتہ/ غالب کے عہد میں ڈاک کا نظام/ منشی نول کشور اور غالب/ غالب کی ایک غزل اور مرزا یوسف/ غالب سے منسوب ایک شعر/ تلامذۂ غالب پر ایک نظر/ تلامذۂ غالب (طبع ثانی) پر ایک نظر/ تلامذۂ غالب۔ ایک بازدید۔

غالبؔ سے متعلق طویل مطالعات کے بعد نقوی صاحب اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ غالبؔ کی فارسی تحریروں پر حاوی ہوئے بغیر غالبؔ سے مربوط کسی مسئلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی جا سکتی۔ اس لیے انھوں نے غالبؔ کی فارسی تحریروں کی طرف بھی توجہ کی اور وقتاً فوقتاً ان کے بارے میں مضامین سپردِ قلم کرتے رہے۔ ’غالب کی چند فارسی تصانیف‘ اسی طرح کے مضامین پر مشتمل ہے جن کے عنوانات حسبِ ذیل ہیں :

میخانۂ آرزو سر انجام/ پنج آہنگ کا قدیم ترین نسخہ/ پنج آہنگ۔ ترتیب سے طباعت تک/ باغ دو در۔ دریافت سے تدوین تک / دستنبو۔ غالب کا روزنامچۂ غدر/ متفرقاتِ غالب / غالب کی چھٹی فارسی مثنوی/ مثنوی نموداریِ شان نبوت و ولایت۔ چند وضاحتیں / مثنوی چراغِ دیر کے دو ترجمے۔

’غالب اور جہانِ غالب‘ نقوی صاحب کا تازہ ترین مجموعۂ مضامین ہے جو 2012 میں شائع ہوا ہے۔ اس میں ایک مضمون غالبؔ کی مہروں سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ بقیہ تمام مضامین بہ قولِ مصنف ’’ایسے افراد کے احوال و اذکار پر مشتمل ہیں جو کسی نہ کسی اعتبار سے غالبؔ سے متعلق ہیں اور ان کی رودادِ حیات کے کسی نہ کسی باب کی تکمیل کرتے ہیں۔ ‘‘ اس کے مشتملات کی فہرست کا بھی یہاں نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے :

غالب کی مہریں /مرزا غالب اور علامہ فضل حق خیر آبادی/ حکیم احسن اللہ خاں اور مرزا غالب/ شاگردِ غالب۔ ولایت علی خاں ولایتؔ و عزیزؔ صفی پوری /بنارسی کی دوستی/ غالب اور 1857 کے مقتولین/ مرزا عاشور بیگ/ مرزا خداداد بیگ/ سبحان علی خاں / مولوی خلیل الدین خاں / منشی عاشق علی خاں / نواب میر جعفر علی خاں / حکیم سید احسن مودودی/ ارشاد حسین خاں / شیخ اکرام الدین۔

بحیثیتِ محقق پروفیسر حنیف نقوی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنی ہر تحریر میں یا تو نئی معلومات پیش کرتے ہیں یا پرانی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں یا کسی نہ کسی غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہیں۔ عام مضامین و مقالات کے علاوہ غالبیات سے متعلق ان کی تمام تحریریں بھی اسی رنگ و آہنگ کی حامل ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایک مختصر مقالے میں موضوع زیر بحث سے متعلق ان کی تمام تحریروں کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ اس لیے محققِ غالب کی حیثیت سے ان کی انفرادیت کو نمایاں کرنے کے لیے یہاں ان کے صرف ایک مضمون کے حوالے سے قدرے مفصل گفتگو کی جاتی ہے۔ محض اتفاق ہے کہ نقوی صاحب کا یہ مضمون ان کے مذکور الصدور مجموعوں میں سے کسی میں شامل نہیں۔ اس کا عنوان ہے ’غالب کا ایک متنازعہ فیہ خط‘ یہ سہ ماہی ’فکرو تحقیق‘ کے شمارہ اپریل تا جون 2006 میں شائع ہوا ہے۔ اس کا باعثِ تحریر یہ ہے کہ سید قدرت اللہ نقوی نے پاکستان میں غالبؔ کا ایک خط دریافت کیا جو ہندستان میں پہلی بار ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ نئی دہلی کے شمارہ 8 اپریل 1990 میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس خط کا متن حسب ذیل ہے :

خان صاحب، جمیل المناقب، عمیم الاحسان، سعادت و اقبال تو اماں سلمہ اللہ تعالیٰ، بعد ادائے ہدیۂ سلام مسنون و دعائے ترقی دولت روز افزوں، غالب خونیں جگر کہتا ہے : ’’اللہ اللہ! میرے آقائے نامدار، صاحب دلدل و ذوالفقار علیہ الصلوٰۃ و السلام کا قول حق ہے :

عَرَفْتُ رَبّیِ بِفَسخِ العَزائِم

آپ کا قصد تھا کہ کان پور سے الٰہ آباد اور وہاں سے کلکتے جائیں، سویہ واقعہ ہوا کہ کان پور سے آپ پھر لکھنؤ آئیں۔

واللہ احسان حسین خاں بہادر کا حال سن کر بیتاب ہو گیا۔ اتنی طاقت کہاں کہ یہاں سے علی گڑھ تک ڈاک اور وہاں سے آگرہ تک اور کان پور تک ریل اور پھر کان پور سے لکھنؤ ڈاک میں پہنچوں اور ان کو دیکھوں۔ ناچار دعا پر مدار ہے۔ خالصاً للہ جناب کی صحت کی نوید بھیجو۔

یہ نہ جاننا کہ غالب نے اس خدمت محقر میں قصور کیا۔ کتاب فروشوں کو کہہ رکھا ہے، مولویوں سے سوال کر چکا۔ تفہیماتِ شیخ ولی اللہ کا کہیں پتہ نہ لگا۔ یہ کتاب معرض انطباع میں نہیں آئی۔ قلمی کہیں موجود نہیں۔

ہائے ہائے میرا دوست نوروز علی خاں خدا بخشے اس کو، کیسا لطیف اور خلیق اور دانا آدمی تھا۔ میں کیوں افسوس کروں ؟ کیا مجھ کو ہمیشہ یہاں رہنا ہے ؟ بہ قول شیخ علی حزیں :

مستِ گزارہ ایم چوں موج از قفاے ہم

درکاروانِ ما قدمے نیست استوار

آگے پیچھے سب ادھر کو چلے جاتے ہیں، کوئی دو دن آگے گیا، کوئی دو دن پیچھے چل نکلا۔

نجات کا طالب

غالب

۱۴؍فروری ۱۸۶۴ء‘‘

اس خط کی اشاعت کے بعد غالب نامہ، نئی دہلی کے شمارہ جنوری 1991 میں پروفیسر نذیر احمد کا ایک مفصل مضمون ’غالب کے ایک نایاب خط کے بارے میں چند توضیحات‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون میں انھوں نے اس خط کی اصلیت کے بارے میں چند شبہات کا اظہار کیا جن کا ماحصل یہ ہے :

۱۔      اس خط کے القاب میں ’’سعادت و اقبال تو اماں ‘‘ کی ترکیب آئی ہے لیکن غالبؔ کے دوسرے خطوط میں ’’سعادت و اقبال نشاں ‘‘ بہ تکرار آیا ہے۔ اس دعوے کی تائید میں پروفیسر نذیر احمد نے میاں داد خاں سیاح کے نام کے نو خطوط سے، اور حکیم غلام نجف سے موسوم دو خطوں سے کل گیارہ مثالیں پیش کی ہیں۔

۲۔      اس خط میں شہر کا نام، ’کول‘ کے بجائے علی گڑھ آیا ہے۔ نذیر صاحب کا کہنا ہے کہ اگرچہ ’علی گڑھ‘ اس شہر کا نام غالبؔ کے زمانے میں پڑ چکا تھا لیکن زیادہ شہرت ’کول‘ کے نام سے تھی۔ پھر غالبؔ کے خطوط سے اس کی آٹھ مثالیں پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’اس بنا پر جس تحریر میں ’کول‘ کے بجائے ’علی گڑھ‘ آئے، اس کے بارے میں شبہہ ہونے لگتا ہے۔

۳۔      اس خط میں آدمیوں کے سفر کے سلسلے میں ’بہ سبیل ڈاک‘ کے بجائے ’ڈاک میں ‘ آیا ہے۔ حالاں کہ آدمیوں کے سفر کے سلسلے میں غالبؔ نے متعدد بار ’ڈاک میں ‘ کے بجائے ’بہ سبیل ڈاک‘ لکھا ہے۔ اس کے بعد غالبؔ کے متعدد خطوط سے، ’بہ سبیل ڈاک‘ کی مثالیں پیش کی ہیں۔ آخر میں لکھتے ہیں : ’’اگرچہ غالبؔ کی ساری تحریریں اس انداز سے میری نظر سے نہیں گزریں، لیکن تھوڑا بہت جو دیکھا ہے، اس کے لحاظ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ غالبؔ کا اسلوب متذکرۃ الصدر خط میں عام خطوط سے کچھ الگ سا ہے۔

۴۔     اس خط کا ایک جملہ اس طرح ہے : ’’کیسا لطیف، خلیق اور دانا آدمی تھا‘‘ پروفیسر نذیر احمد کی رائے ہے کہ لفظ ’لطیف‘ یہاں بہ معنی مہربان و نیکوکار استعمال ہوا ہے اور لطیف بہ معنی مہربان اگرچہ عربی وفارسی میں مستعمل ہے، لیکن اردو میں یہ عموماً  کثیف کی ضد کے طور پر آتا ہے۔ اس لیے اس خط میں لفظ ’’لطیف‘‘ محلِ نظر ہے۔

پروفیسر نذیر احمد کے مضمون کی اشاعت کے بعد ڈاکٹر خلیق انجم نے بھی اس خط کے بارے میں شبہے کا اظہار کرتے ہوئے ’غالب کے خطوط‘ جلد چہارم، اشاعت 1993 میں یہ الفاظ تحریر کیے :

’’پروفیسر نذیر احمد کا ’غالب نامہ‘ میں اس خط پر عالمانہ مقالہ شائع ہوا۔ نذیر صاحب کو اس خط کے اصلی ہونے کے بارے میں شبہہ ہے۔ میرا بھی خیال ہے کہ جب تک کچھ اور شواہد نہ ملیں اسے اصلی نہیں سمجھنا چاہیے ‘‘۔

اس کے تقریباً دس سال بعد 2002 میں انھوں نے غالب انٹر نیشنل سمینار کے لیے ’غالب کے جعلی خطوط‘ کے عنوان سے ایک مقالہ تحریر کیا تو اس میں اپنے سابقہ خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے حسب ذیل عبارت لکھی:

’’میں خطوطِ غالب کی چوتھی جلد کا تنقیدی ایڈیشن تیار کر چکا تھا۔ ابھی یہ کتاب پریس میں جانے والی تھی کہ پاکستان کے سید قدرت نقوی مرحوم کا خط ملا جس کے ساتھ غالب کے ایک خط کی نقل منسلک تھی۔ نقوی صاحب نے خط میں لکھا تھا کہ انھیں یہ خط کسی مخطوطے میں ملا تھا۔ میں نے اس خط کو بہت غور سے پڑھا۔ اس خط کے متن میں دو نام ایسے آئے تھے جو غالب کے کم سے کم دو مطبوعہ خطوں میں موجود تھے۔ ایک نام تھا نوروز علی خاں۔ غالب نے ان صاحب کا ذکر غلام حسین قدر بلگرامی کے 14 فروری 1864 (کذا) کے خط میں کیا تھا، اور دوسرا نام ہے احسان خاں (کذا) کا۔ غالب نے ان صاحب کا ذکر منشی سیل چند کے نام (مورخہ 11جون 1867) میں کیا ہے۔ ان شواہد سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خط اصلی ہیں (کذا)، لیکن جن لوگوں کی غالب کے خطوط پر گہری نظر ہے وہی جانتے ہیں کہ اس خط میں متن کا اسلوب غالب کا نہیں ‘‘۔

اس کے بعد انھوں نے پروفیسر نذیر احمد کے ذکر کردہ شبہات کا بیان اپنے الفاظ میں اس طرح کیا ہے کہ نذیر صاحب نے جو باتیں محتاط انداز میں شبہے کے طور پر کہی تھیں، خلیق صاحب نے انھیں یقین کے درجے میں پہنچا دیا اور آخر میں یہ فیصلہ کر دیا کہ ’’یہ خط غالبؔ کا نہیں ہے۔ ہمیں اسے اصلی ثابت کرنے کے لیے اور بہت سے شواہد کی ضرورت ہو گی جن کا ملنا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔ ‘‘ اس بحث کے دوران انھوں نے یہ بھی لکھا کہ:

’’کم از کم دو ماہرینِ غالب ایسے ہیں جنھوں نے اس خط کو اصلی ماننے سے ان کار کیا ہے۔ ایک تو پروفیسر نذیر احمد جن کا مقالہ غالب نامہ (نئی دہلی، 1991) میں شائع ہوا ہے۔ دوسرے ڈاکٹر کمال احمد صدیقی جنھوں نے اس خط کے بارے میں صرف ایک فقرہ لکھا ہے، وہ یہ کہ خط جعلی ہے ‘‘۔

سید قدرت نقوی کے دریافت کردہ مذکور الصدر مکتوب کے بارے میں محققینِ غالبؔ کے رد عمل کو پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پروفیسر نذیر احمد نے جب اس خط کی اصلیت پر شبہے کا اظہار کیا تو ڈاکٹر خلیق انجم نے جو پانچ جلدوں میں خطوطِ غالب کے مرتب ہیں، ان کے شبہات کی تصدیق و تصویب کر دی۔ اسی طرح کمال احمد صدیقی نے بھی صراحتاً اسے جعلی قرار دے دیا۔ لیکن خلیق انجم یا کمال احمد صدیقی دونوں میں سے کسی نے بھی پروفیسر نذیر احمد کے پیش کردہ شبہات اور دلائل پر غور و فکر کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

پروفیسر حنیف نقوی مرحوم کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ کسی دعوے اور اس کے دلائل کو غور و فکر اور تحلیل و تجزیے کے عمل سے گزارے بغیر قبول نہیں کرتے تھے۔ سو اس خط کے سلسلے میں بھی انھوں نے یہی کیا۔ نذیر صاحب کا پہلا شبہ خط کے القاب کے سلسلے میں یہ تھا کہ غالبؔ کا محبوب فقرہ ’’سعادت و اقبال نشاں ‘‘ ہے نہ کہ ’’سعادت و اقبال تو اماں ‘‘۔ اس ضمن میں نقوی صاحب نے پہلی بات یہ کہی ہے کہ غالبؔ کا ذخیرۂ الفاظ ایسا محدود نہ تھا کہ اگر انھوں نے چند خطوط میں ’’سعادت و اقبال نشاں ‘‘ لکھ دیا تو اب ہمیشہ یہی فقرہ استعمال کرتے۔ دوسرے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ غالبؔ کی مستند تحریروں میں ’’سعادت نشاں و اقبال تو اماں ‘‘ کی ترکیب کہیں ملتی بھی ہے یا نہیں ؟ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں : ’’ہم نے غالبؔ کے خطوط کی چاروں جلدوں کے ان آخری حصوں کی جن میں خطوط کی سلسلہ وارفہرستیں مع ان کے ابتدائی فقروں کے پیش کی گئی ہیں سرسری طور پر ورق گردانی کی تو یہ معلوم ہوا کہ غالبؔ نے ’’سعادت و اقبال تواماں ‘‘ کی ترکیب کم از کم تین بار ضرور استعمال کی ہے۔ ‘‘ یہ تینوں مثالیں حسب ذیل ہیں :

۱۔      سید صاحب جمیل المناقب عالی خاندان، سعادت و اقبال تو اماں (بنام سید بدر الدین کاشف)

۲۔      منشی صاحب الطاف نشاں، سعادت و اقبال تو اماں (بنام منشی حبیب اللہ)

۳۔     مخدوم زادۂ مرتضوی، دود ماں، سعادت و اقبال تو اماں (بنام سید فرزند احمد صفیر بلگرامی)

اس ضمن میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ غالب نے پنج آہنگ کے آہنگ اول میں ’’درالقاب و آداب، ومایتعلق بہا‘‘ عنوان کے تحت جو مختلف القاب تحریر کیے ہیں، ان میں ایک لقب یہ بھی ہے : ’’سعادت نشاں اقبال تو اماں حفظہ اللہ تعالیٰ‘‘

القاب ہی کے حوالے سے وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ سید قدرت نقوی کے دریافت کردہ خط کے ابتدائی القاب میں ’جمیل المناقب، عمیم الاحسان‘کی ترکیبیں بھی آئی ہیں، اگرچہ ان کو اس بحث میں شامل نہیں کیا گیا ہے، تاہم قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ترکیبیں بھی غالبؔ کے دوسرے خطوط میں موجود ہیں۔ مثلاً نواب امین الدین احمد خاں کے خط میں ہے : ’’برادر صاحب جمیل المناقب، عمیم الاحسان، اسی طرح مکتوب موسوم بہ پیارے لال آشوبؔ میں ہے : ’’جناب بابو صاحب جمیل المناقب، عمیم الاحسان۔ ‘‘

اس بحث کے بعد نقوی صاحب نے پروفیسر نذیر احمد کے پیش کردہ دوسرے مشتبہ اندراج یعنی کول کے بجائے علی گڑھ کے استعمال پر بھی محققانہ انداز سے گفتگو کی ہے۔ چناں چہ لکھتے ہیں :

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ غالبؔ عموماً ’کول‘ ہی لکھتے تھے۔ لیکن ’علی گڑھ‘ کی حیثیت ان کے لیے شجرِ ممنوعہ کی ہرگز نہ تھی۔ اس کے بعد انھوں نے چھے مختلف خطوط کے اقتباسات اس بات کے ثبوت میں پیش کیے ہیں کہ غالبؔ نے شہر کا نام ’’کول‘‘ کے بجائے ’’علی گڑھ‘‘ لکھا ہے۔ اقتباسات ملاحظہ ہوں :

۱- ’’ایک مہربانی نامہ سکندر آباد سے اور ایک علی گڑھ سے پہنچا‘‘۔ (بنام تفتہؔ)

۲۔ ’’منشی ہر گوپال تفتہ۔ بہت دنوں سے علی گڑھ میں ہیں۔ ‘‘ (بہ نام سید بدر الدین کاشفؔ)

۳- ’’تم کو مبارک ہو… الحمد للہ کہ بخیریت یہ سب کام کر کر علی گڑھ سے آئے ‘‘۔ (بہ نام حقیرؔ)

۴- ’’مرزا یوسف علی ابن مرزا نجف علی علی گڑھ سے آئے۔ ‘‘ (بہ نام حقیرؔ)

۵- ’’میں نہیں جانتا تھا کہ تم کہاں ہو، تنہا میاں عبد اللطیف کو علی گڑھ میں سمجھا ہوا تھا‘‘۔ (بہ نام حقیرؔ)

۶-میں چاہتا تھا کہ جب آپ علی گڑھ آ لیں اور مجھ کو اطلاع دیں تو میں خط لکھوں ‘‘۔ (بہ نام حقیرؔ)

یہاں نقوی صاحب نے دو مثالیں اس کی بھی پیش کی ہیں کہ غالب نے بعض اوقات ’علی گڑھ‘ اور ’کول‘ دونوں نام ایک ساتھ بھی استعمال کیے ہیں :

۱- ’’علی گڑھ کول صوبہ نہیں، سرکار ہو تو ہو۔ ‘‘(بہ نام حقیرؔ)

۲- ’’میں نے دفتر میں بہ قید علی گڑھ کول مفتی صدر الدین خاں صاحب کا اور تمھارا نام لکھ دیا۔ ‘‘ (بہ نام حقیرؔ)

پروفیسر نذیر احمد کا تیسرا شبہہ انسانوں کے سفر کے لیے ’بہ سبیل ڈاک‘ کے بجائے ’ڈاک میں ‘کے استعمال سے متعلق تھا۔ اس سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے نقوی صاحب رقم طراز ہیں :

’’بہ سبیل ڈاک‘‘ کا معاملہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے کہ اسے بہ طور کلیہ انسانی سفر کے لیے مرزا صاحب کی ترجیحات میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ چناں چہ انوار الدولہ سعد الدین شفقؔ کے نام ایک خط میں انھوں نے ’ڈاک‘ میں اور ’بہ سبیل ڈاک‘ دونوں متنازعہ فیہ صورتیں بہ یک وقت ایک ہی مفہوم میں استعمال کی ہیں۔ لکھتے ہیں : ’’قصد تھا کہ فتح پور تک ڈاک میں جاؤں گا۔ وہاں سے نواب علی بہادر کے ہاں کوئی سواری میں باندے جا کر ہفتے بھر رہ کر کالپی ہوتا ہوا، آپ کے قدم دیکھتا ہوا بہ سبیل ڈاک دلّی چلا آؤں گا۔ ‘‘

اس کے بعد انھوں نے صرف ’ڈاک میں ‘ کے استعمال کی بھی دو مثالیں پیش کی ہیں :

۱- ’’بہ مجرد استماع اس خبر کے ڈاک میں بیٹھ کر میرٹھ گیا۔ چار دن وہاں رہا، پھر ڈاک میں اپنے گھر آیا۔ ‘‘(بہ نام مجروحؔ)

۲- ’’شکرم میں ’کرانچی میں، چوپہیے میں یعنی ڈاک میں آئیں … ڈاک کو زنہار کوئی نہیں روکتا۔

(بہ نام مجروحؔ)

نقوی صاحب نے خطوطِ غالب سے مثالیں پیش کرتے ہوئے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ غالبؔ نے انسانوں کے سفر کے لیے ’بہ سبیل ڈاک‘ اور ’ڈاک میں ‘ کے علاوہ ’ڈاک گاڑی میں ‘، ’ڈاک سے ‘، ’بہ طریق ڈاک‘ اور ’بہ سواری ڈاک‘ کا بھی استعمال کیا ہے۔ اس کے بعد مثالوں کی روشنی میں یہ بھی بتایا ہے کہ غالبؔ کے ہاں ’بہ سبیل ڈاک‘ کا استعمال صرف انسانوں کے سفر کے لیے مخصوص نہ تھا۔ انھوں نے اسے خطوں اور پارسلوں کے نقل و حمل کے لیے بھی بلا تکلف اور بہ کثرت استعمال کیا ہے۔ یہاں انھوں نے بہ طور مثال غالبؔ کے خطوط سے دس اقتباسات پیش کیے ہیں۔ ان میں سے بعض یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔

۱-     خط میرے تمھارے پاس بہت ہوں گے۔ اگر ان کا ایک پارسل بنا کر بہ سبیل ڈاک بھیج دو گے تو موجب میری خوشی کا ہو گا۔ (بہ نام علائیؔ)

۲-     دو خط تمھارے بہ سبیل ڈاک آئے۔ (بہ نام مجروحؔ)

۳-     آج پانچواں دن ہے کہ نواب لیفٹیننٹ گورنر کا خط مقام الٰہ آباد سے بہ سبیل ڈاک آیا۔ (بہ نام مجروحؔ)

پروفیسر نذیر احمد نے متنازعہ فیہ خط کے سلسلے میں لفظ ’لطیف‘ کے محلِ استعمال کو بھی توجہ طلب قرار دیا تھا۔ نقوی صاحب نے یہاں نذیر صاحب کی اس رائے سے اتفاق کیا ہے کہ اردو میں لفظ ’لطیف‘ بالعموم کثیف کی ضد کے طور پر مستعمل ہے۔ لیکن انھیں نذیر صاحب کے اس خیال سے اختلاف ہے کہ زیر بحث خط میں یہ ’مہربان‘ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ نقوی صاحب کے بہ قول اس خط میں یہ لفظ پُر لطف یا دل چسپ کے مرادف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر غالبؔ نے اس سے خوش طبع یا خوش گفتار کے معنی مراد لیے ہیں۔ اس کا قرینہ انھوں نے یہ پیش کیا ہے کہ:

’’فارسی کے ایک خط موسوم بہ مظفر حسین خاں میں غالب نے نوروز علی خاں کی زبان کے لیے ’دل ربائیاں ‘ کا لاحقہ بہ طور صفت استعمال کیا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی گفتگو بے حد پُر لطف اور دل چسپ ہوتی تھی۔ مظفر حسین خاں کے نام ہی ایک اور خط میں ان کی فسوں کاریِ گفتار کا ذکر آیا ہے۔ اس پس منظر میں لفظ ’لطیف‘ کا یہ استعمال نہایت بلیغ اور برمحل معلوم ہوتا ہے ‘‘۔

اپنے اس بیان کی تقویت کے لیے غالبؔ کے ایک اور خط کے حوالے سے رقم طراز ہیں :

’’ہمارے اس قیاس کو کہ غالب نے یہاں لفظ ’لطیف‘ سے ’خوش طبع ‘ یا ’خوش گفتار‘ کے معنی مراد لیے ہیں، ان کے ایک اور بیان سے بھی تقویت ملتی ہے۔ مولوی عبدالرزاق شاکرؔ کے نام ایک خط میں خواجہ غلام غوث خاں بے خبرؔ کے متعلق لکھتے ہیں : ’’حسن صورت وہ کہ جو دیکھے، پہلی نظر میں حسن خلق و لطف طبع اس کو نظر آئے۔ ‘‘ حسن صورت کے ان لوازم یعنی’حسن خلق‘ اور ’لطف طبع‘ کو مد نظر رکھ کر ’لطیف‘ اور ’خلیق‘ کے درمیان معنوی مناسبت کا تعین کیا جائے تو غالب کے ما فی الضمیر تک پہنچنا زیادہ آسان ہو گا۔ ‘‘

غالبؔ کے زیر بحث مکتوب سے متعلق پروفیسر نذیر احمد کے تمام شکوک و شبہات کے محققانہ ازالے کے بعد نقوی صاحب نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس خط میں حضرت علیؓ کا قول: ’’عَرَفْتُ رَبی بِفَسْخِ العزائم‘‘جس محل میں وارد ہوا ہے۔ اسی محل میں غالبؔ نے اسے دوسرے خطوط میں بھی استعمال کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خط غالبؔ کے اسلوب اور ترجیحات سے مختلف اور الگ نہیں، بلکہ اس سے قریب تر ہے۔ زیرِ بحث خط میں مذکور الصدور قول اس طرح آیا ہے :

’’غالب خونیں جگر کہتا ہے : ’’اللہ اللہ میرے آقائے نامدار، صاحب دلدل و ذوالفقار علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قولِ حق ہے : ’عرفت رَبی بِفَسْخِ العزائم‘ آپ کا قصد تھا کہ کان پور سے الٰہ آباد اور وہاں سے کلکتے جائیں، سویہ واقعہ ہوا کہ کان پور سے آپ پھر لکھنؤ آئیں ‘‘۔

اور منشی نبی بخش خاں حقیرؔ کے نام خط میں یہ اس طرح استعمال ہوا ہے :

’’بھائی خدا کی قسم یہ سفر میرے لیے دل خواہ اور موافقِ مزاج تھا۔ مگر غور کرو کہ کیا اتفاق ہوا۔ اس صورت میں رخصت نہیں مانگی جاتی اور رخصت لیے بغیر جانا نہیں ہو سکتا۔ عَرْفْتُ رَبی بِفَسْخِ العَزائِم۔ ‘‘

انہی کے نام ایک اور خط میں یہ اس طرح وارد ہوا ہے :

’’منشی عبداللطیف کی تنہائی نے یہ تقریب پیدا کی کہ سب لوگ اکبر آباد چلے گئے۔ ’’عَرفْتُ رَبِی بِفَسْخِ العَزائِم‘‘ تفصیل پھر لکھوں گا‘‘۔

غالبؔ کے زیر بحث مکتوب پر مکتوب الیہ کا نام درج نہیں ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد چوں کہ پروفیسر نذیر احمد، ڈاکٹر خلیق انجم اور کمال احمد صدیقی نے اسے مشکوک یا جعلی قرار دے دیا، اس لیے ان حضرات نے اس کے مکتوب الیہ کی تلاش اور تعین کی کوشش بھی نہیں کی۔ خود اس خط کے دریافت کنندہ سید قدرت نقوی نے ان محققین کے جواب میں نہ کچھ لکھا اور نہ مکتوب الیہ کا سراغ لگانے کی کوشش کی لیکن پروفیسر حنیف نقوی نے اس خط سے متعلق تمام شبہات کے ازالے کے بعد اپنے مضمون کے آخر میں مکتوب الیہ کا تعین بھی کر دیا ہے۔ چناں چہ لکھتے ہیں :

’’راقم السطور مختلف قرائن و شواہد کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس خط کے مخاطب مظفر حسین خاں ہیں، جن کے نامد  و خط پنج آہنگ میں موجود ہیں ‘‘۔

اس کے بعد نقوی صاحب نے ان قرائن کی تفصیل ذکر کی ہے۔ ذیل میں اس کا بیان کیا جاتا ہے :

۱-     اس خط میں غالب نے لکھا ہے : ’’واللہ احسان حسین خاں بہادر کا حال سن کر بیتاب ہو گیا۔ خالصاً للہ جلد جناب کی صحت کی نوید بھیجو۔ ‘‘ غالب کے خطوط جلد چہارم (ص1541) کے حوالے سے نقوی صاحب بتاتے ہیں کہ یہ احسان حسین خاں، مظفر حسین خاں حقیقی بھائی تھے، اسی لیے غالب نے ان سے بھائی کے نوید صحت کی درخواست کی ہے۔

۲-     زیر بحث خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ لکھنؤ سے کان پور آئے تھے اور پھر احسان حسین خاں کی علالت کی اطلاع پا کر وہاں سے دوبارہ لکھنؤ چلے گئے تھے۔ یہاں نقوی صاحب نے غالب کے خطوط، جلد چہارم (ص 1541) اور مکاتیب غالب مرتبہ مولانا امتیاز علی خاں عرشی (حواشی ص40)کے حوالے سے بتایا ہے کہ احسان حسین خاں اور مظفر حسین کا آبائی وطن یا کم از کم وطنِ ثانی لکھنؤ تھا۔

۳-     اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ نوروز علی خاں کی تعزیت کی غرض سے کان پور آئے تھے۔ نقوی صاحب نے کلیاتِ نثر غالب میں شامل ایک فارسی خط کے حوالے سے لکھا ہے کہ مظفر حسین خاں، نو روز علی خاں کے دوستانِ دیریں میں سے تھے اور نوروز علی خاں کا وطن کان پور تھا۔

۴-     اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ کا ارادہ کان پور سے الہ آباد ہو کر کلکتے جانے کا تھا۔ یہاں نقوی صاحب نے غالبؔ کے ایک فارسی اور ایک اردو خط کے حوالے سے لکھا ہے کہ مظفر حسین خاں نے کلکتے میں کسبِ معاش کی کوئی صورت پیدا کر لی تھی، جس کی وجہ سے اس شہر کے ساتھ ان کا مستقل رابطہ قائم ہو گیا تھا۔

۵۔     اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ کو شاہ ولی اللہ دہلوی کی تصنیف ’’التفہیمات الالٰہیۃ‘‘ کی تلاش تھی اور اس سلسلے میں انھوں نے غالبؔ سے رجوع کیا تھا۔ یہاں نقوی صاحب نے پہلے تو یہ بتایا ہے کہ تفہیمات میں تصوف کے دقیق اور پیچیدہ مسائل سے نہایت عالمانہ انداز میں بحث کی گئی ہے۔ پھر مولانا امتیاز علی خاں عرشی کے حوالے سے یہ اطلاع بہم پہنچائی ہے کہ مظفر حسین خاں فلسفہ و حکمت جیسے کئی موضوعات پر عربی میں بعض رسائل کے مصنف ہیں، انھیں کتابوں کے مطالعے اور ان پر حاشیہ آرائی سے دل چسپی تھی۔ وہ مخطوطات و مطبوعات پر مشتمل ایک اچھے کتب خانے کے مالک بھی تھے۔ آخر میں کہتے ہیں کہ ان تفصیلات کے پیشِ نظر ’’تفہیمات شیخ ولی اللہ دہلوی کی تلاش و طلب کا حوالہ مظفر حسین خاں کی طرف اس خط کے انتساب کا ایک اور قرینہ فراہم کرتا ہے۔ ‘‘

مضمون کے آخر میں حاصلِ بحث کے طور پر نقوی صاحب لکھتے ہیں : ’’ان معروضات کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ خط غالبؔ ہی کا ہے اور اس کے مکتوب الیہ مظفر حسین خاں ہیں۔ ‘‘

گذشتہ صفحات میں پیش کردہ تفصیلات کے حوالے سے امورِ ذیل قابلِ توجہ ہیں :

الف-  غالب کا زیر بحث خط ’ہماری زبان‘ نئی دہلی کے شمارہ 8 اپریل 1990 میں شائع ہوا اور اس سے متعلق پروفیسر نذیر احمد کا مفصل مضمون غالب نامہ کے شمارہ جنوری 1991 میں اشاعت پذیر ہوا۔ یعنی اول الذکر کی اشاعت کے چند ماہ کے اندر ہی پروفیسر نذیر احمد نے اپنا مضمون تیار کر لیا تھا۔ ان کا مضمون اگرچہ مفصل ہے اور انھوں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں خطوطِ غالب سے مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ لیکن نقوی صاحب کے استدراکات کی روشنی میں یہ بات بھی واضح ہے کہ انھوں نے غالبؔ کے خطوط کا مطالعہ سرسری طور پر کیا تھا اور دقت پسندی و باریک بینی کو کام میں لائے بغیر عجلت اور رواداری میں غالبؔ کے اسلوبِ نگارش سے متعلق کچھ آرا قائم کر لی تھیں، جن کی بنیاد پر انھوں نے زیرِ بحث خط کی اصلیت پر شبہے کا اظہار کیا تھا، لیکن ان کی یہ آرا غلط فہمی پر مبنی تھیں۔

ب-   جہاں تک ڈاکٹر خلیق انجم کا تعلق ہے تو انھوں نے زیر بحث خط کے سلسلے میں خود کچھ نہیں کیا بلکہ اس خط کی اشاعت کے تین سال بعد 1993 میں پروفیسر نذیر احمد صاحب کے حوالے سے صرف یہ لکھا کہ اسے اصلی نہیں سمجھنا چاہیے۔ پھر اس کے نوسال بعد 2002 میں پروفیسر نذیر احمد کی باتوں کو دہراتے ہوئے اسے بالکلیہ جعلی قرار دے دیا۔ گویا بارہ سال کے عرصے میں خود انھوں نے اس خط کے سلسلے میں نہ تو کوئی آزادانہ تحقیق پیش کی اور نہ اس پر کسی پہلو یا کسی زاویے سے کوئی بات آگے بڑھائی۔ یہاں تک کہ اپنی ہی مرتبہ ’’ غالب کے خطوط‘‘ کی جلدوں کے آخر میں شامل فہرستوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔ اس کے ساتھ ہی انھیں اپنے آپ پر ایسا اعتماد بھی رہا کہ نذیر صاحب کے شبہات کو یقین کے درجے پر پہنچا دیا۔

ج۔     اس بحث میں ڈاکٹر کمال احمد صدیقی کا بھی نام لیا گیا ہے۔ لیکن انھوں نے تو پروفیسر نذیر احمد کی کہی ہوئی باتوں کو دہرانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ کسی قسم کی تفصیل میں گئے بغیر صرف یہ کہنا کافی سمجھا کہ خط جعلی ہے۔

د۔      موخر الذکر دونوں محققین کے برخلاف نقوی صاحب نے پروفیسر نذیر احمد کے پیش کردہ جملہ شبہات پر الگ الگ غور کیا اور جیسا کہ ان کے استدراکات سے واضح ہے۔ انھوں نے ’غالب کے خطوط‘ کی تمام جلدیں دقتِ نظر کے ساتھ بار بار اور بالاستیعاب پڑھیں۔ اس کے علاوہ پنج آہنگ اور غالبؔ کی دوسری فارسی تحریروں پر بھی گہری نگاہ ڈالی۔ دوسری جانب انھوں نے صرف شبہات کے ازالے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ خط کے اصلی ہونے کے دوسرے مؤیدات بھی پیش کیے۔ نیز اس خط میں وارد دیگر القاب اور بعض عربی اقوال کی خطوطِ غالب سے مماثلتیں بھی تلاش کیں۔ پھر آخر میں اس خط کے نامعلوم الاسم مکتوب الیہ کا سراغ بھی لگالیا اور اس سلسلے میں ایسے قوی قرائن و شواہد پیش کیے جن کی تردید بظاہر ممکن نہیں۔ ان سب کے بعد مکتوب الیہ کی سوانح و شخصیت سے متعلق گراں قدر معلومات بھی فراہم کر دیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ محققِ غالب کی حیثیت سے وہ اپنے معاصرین کے درمیان نہایت ممتاز ہیں اور غالب شناس کی اصطلاح صحیح معنوں میں انہی پر صادق آتی ہے۔ آخر میں یہ بات بھی لائقِ ذکر ہے کہ انھوں نے زیر بحث خط پر غور و فکر، پھر غالب کی تحریروں کے مطالعے، نیزنوع بہ نوع جزئیات کی تلاش و تحقیق میں سالہا سال صَرف کر دیے اس کے بعد کہیں جا کر پیشِ نظر مضمون کی شکل میں اپنا حاصلِ مطالعہ پیش کیا۔

———————

پروفیسر ظفر احمد صدیقی

شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

٭٭٭

 

 

 

 

’تحقیق و تدوین‘ پر ایک نظر

 

                مجاور حسین رضوی

 

’’اپنے وعدوں کو پورا کرو‘‘ مگر وہ کیا کرے جسے مشیتِ الٰہی اور قضا و قدر کے فیصلوں کے سامنے اس طرح سر جھکانا پڑے کہ وعدہ وفا نہ کر سکے۔ تین سال قبل مجھے حنیف نقوی کی کتاب ’تحقیق و تدوین‘ ملی تھی۔ میں ان کے بارے میں ’ڈاکٹر حنیف نقوی شخص اور محقق‘ کے عنوان سے ’ارمغانِ علمی‘ کے لیے ڈاکٹر حسن عباس صاحب کو ایک مضمون روانہ کر چکا تھا۔ فون پر ان سے برابر گفتگو ہوتی رہی تھی، وہ میرے قدر دان تھے یا ٹوٹ کر چاہنے والے — یہ میں نہیں لکھ سکتا لیکن یہ ضرور ہے کہ جب بھی کبھی میں نے کوئی بات ان سے کہی، انھوں نے توجہ دی، جو کچھ لکھا، اس سے کبھی لطف اندوز بھی ہوئے اور اعتراض بھی کیا، اصلاح بھی کی۔

اب یہ ہوا کہ 2010 میں، میں گر پڑا، پسلیاں ٹوٹ گئیں، کچھ مہینے بعد پھر گرا تو وہی پسلیاں اپنی طاقت کا امتحان لینے پر تُل گئیں اور مضروب ہونے کے باوجود اتنا سخت جان ثابت کیا کہ اب تک زندہ ہوں۔

’’تحقیق و تدوین‘‘ پر میں نے تبصرے کا وعدہ کیا تھا، اس سے پہلے کہ وعدہ پورا کرتا، میری کتاب ’تنقید و تجزیہ‘ ان کے پاس پہنچی، انھوں نے فون پر نہایت آمرانہ شان سے یہ فرمایا کہ ’’میں نے تجزیہ کاٹ دیا اور تفہیم لکھ دیا۔ ‘‘ میں نے سبب نہیں پوچھا، خود ہی کہا کہ اس نام کی ایک کتاب شائع ہو چکی ہے۔ کتاب کا پروف اس طرح پڑھا کہ دوبارہ کمپوزنگ کرانی پڑی اور یہ مجموعۂ مضامین جس کا اصل مسودہ ’تنقید و تجزیہ‘ کا عنوان رکھتا تھا، کسی نہایت ہی خوش ذوق شخص نے غائب کر دیا۔ خیال تھا کہ وہ خوش ذوق شخص ان مضامین کو اپنے نام سے شائع کرالے گا، لیکن وہ بھی نہ ہوا۔ بہرحال اب یہ ’تنقید و تفہیم‘ کے عنوان سے جو حنیف نقوی مرحوم کے لطفِ خاص کا آئینہ دار ہے، شائع ہو رہا ہے۔ یہ مجموعہ میرے لیے شخصی وراثت ہے اور خلوص و محبت کی تاریخی دستاویز۔

میرا خیال یہ تھا کہ تحقیق و تدوین پر تبصرہ کرنے سے پہلے ان سے بہت سے سوالات کروں گا، کچھ باتیں میں نے کبھی ان سے دریافت بھی کی تھیں، انھوں نے توجہ بھی کی اور اصلاح بھی کی۔ مثلاً پہلا مضمون ’مبادیاتِ تحقیق‘ کا پہلا فقرہ ’’تحقیق حقائق کی بازیافت کا عمل ہے ‘‘ میرے لیے یہ فقرہ ناقابلِ برداشت تھا،ا س لیے کہ نوے کی دہائی میں بغیر سوچے سمجھے لوگ یہ لکھتے آئے تھے کہ تحقیق حقائق کی بازیافت ہے، میرے خیال میں تحقیق صرف بازیافت نہیں ہے، دریافت بھی ہے، فخر دین نظامی کی کدم راؤ پدم راؤ، یا کلمۃ الحقائق (حضرت جانم) یا خیر البیان— یہ سب بازیافت نہیں، نئی دریافتیں ہیں۔ اور حضرت بندہ نواز سے منسوب تمام تصانیف ان کی نہیں ہیں، معراج العاشقین، شکار نامہ ان کی نہیں ہیں، ابھاروڈیا ابھنگ کا تصور اردو والوں نے مرہٹی سے مستعار لیا ہے، اس لیے ان پر بازیافت کا اطلاق نہیں ہو گا۔

میں نے ان سے عرض کیا کہ ایک تو آپ اس بازیافت کو اس لیے ترک کریں کہ تحقیق صرف ’’پسرے گم کرد‘‘ نہیں ہے اور اسی کے ساتھ میں نے یہ بھی گزارش کی تھی کہ ایم اے پاس کرنے کے بعد ہمارے طالب علم تنویر احمد علوی یا قاضی صاحب کی ریاضتی تحقیق یا دیگر محققین کے اصولوں اور شرائط کی تفہیم آسانی سے نہیں کر پاتے۔ انھوں نے میری درخواست منظور کر لی۔ اس مجموعے کا آخری مضمون ’جامعاتی تحقیق مراحل اور طریقِ کار‘ ہے۔ میرے خیال سے تحقیق کی سنگلاخ وادی میں قدم رکھنے والے ہر طالب علم کو یہ مضمون زبانی یاد کر لینا چاہیے۔ اس مضمون میں انھوں نے تحقیق کی صحیح تعریف لکھی ہے یعنی ’’تحقیق نتائج خیز حقائق تک پہنچنے کا نام ہے۔ ‘‘ اس مجموعے کے مضامین کی بیت الغزل ’معاصر شہادتیں اور استناد کا مسئلہ‘ ہے۔ اس میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے کلام کے اوپر تحقیقی گرفت، انشاء اللہ خاں انشا کی تاریخِ پیدایش وغیرہ کے ساتھ علامہ اقبال کی تاریخ ولادت کا تعین دلائل و شواہد کے ساتھ کیا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ان کی صحیح تاریخِ ولادت 29 دسمبر 1873 ہے (9 نومبر 1877 نہیں )۔

غالبؔ کے سلسلے میں بھی وہ یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ان کی تاریخِ ولادت بھی 1797 نہیں ہے بلکہ 1794 ہے۔ راقم الحروف نے نسخۂ رضا کے مرتب اور دیانت دار محقق کالی داس گپتا رضا کو اس طرف متوجہ کیا اور گزارش کی کہ آپ فیصلہ کریں، لیکن وہ ہنس کر ٹال گئے اور انھوں نے میری بات پر کوئی توجہ نہیں کی۔ یہ مودبانہ درخواست ہے کہ محققینِ غالب اور اقبال اس سلسلے میں حنیف نقوی مرحوم کی تحریروں سے استفادہ کریں اور غلطی کی اصلاح کر لیں۔

اس مجموعے کا ایک بہت دلچسپ مضمون ’منشائے مصنف سے انحراف محرکات اور اسباب‘ ہے۔ اس مضمون میں بہت سارے گوشے ایسے ہیں جو قابلِ توجہ بھی ہیں اور دلچسپ بھی اور معلومات افزا بھی۔ مثلاً یقین کے بارے میں مولوی عبدالحق کی سہل پسندی کی مثال جو یقین اور احمد گجراتی کے سلسلے میں ہے یا یہ معرکہ خیز دریافت کہ ناسخ کی اصلاحات جو مشہور ہیں وہ ناسخ کی نہیں، ان کے شاگرد رشک کی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آغا حشر کے ڈراموں کی اصلاح نواب رضا علی خاں والیِ رام پور نے بھی فرمائی لیکن بعض الفاظ کے سلسلے میں جو معلومات ملتی ہیں وہ بظاہر مضحک بھی کہی جا سکتی ہیں مگر وہ دلچسپ ہیں۔ مثلاً ایک لفظ ’لیثرغس‘ (لی ثُر غُ س) ہے، جس کے معنی سرسام یا دماغی بخار کے ہیں، اسی مضمون میں بعض معرکے کے اشعار کا انتساب اور اس کی صحیح قرأت بھی درج ہے، افادیت کے خیال سے اسے نقل کیا جاتا ہے۔

’فسانۂ عجائب‘ کے آغاز میں منتظر لکھنوی کے شعر کا صحیح متن درج ہے، جو اس طرح ہے :

یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ

سن رکھو تم فسانہ ہیں ہم لوگ

کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

یہ شعر ذوقؔ کا ہے، اور پہلا مصرع جو پڑھا جاتا ہے، وہ اصلاحِ عوام ہے (اور اچھی اصلاح ہے )

بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی

بیچ ہی ڈالیں جو یوسف سا برادر پائیں

یہ میر سوزؔ کا شعر ہے اور اصلاً ’’بیچ کھاتے ہیں ‘‘ تھا جو ’’بیچ ہی ڈالیں ‘‘ ہو گیا۔

خدا کی دین کا موسی سے پوچھیے احوال

کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے

یہ شعر نواب آصف الدولہ سے منسوب ہے لیکن قاضی عبدالودود کی تحقیق کے مطابق آغا علی خاں مہرؔ لکھنوی کا ہے۔ اصل شعر میں ’مل جائے ‘ کے بجائے ’ہو جائے ‘ تھا۔ اسی طرح ایک اور شعر ہے :

بعد مرنے کے میری قبر پر آیا وہ میرؔ

یاد آئی میرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد

یہ شعر میر صاحب کے صاحبزادے میر عسکری عرف میر کلو عرشؔ کا ہے اور اس کا پہلا مصرع یوں ہے :

زندگی بھر نہ ملا قبر پر آیا آخر

ایک مضمون ’تاریخی مادے صحت اور استنباطِ نتائج‘ ہے۔ اس میں بظاہر تاریخی مادے اور صحتِ متن کے اوپر بحث ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم طالب علموں کے لیے لوگوں کی تاریخِ وفات کا تعین ہے۔ خصوصاً ناسخ کے سلسلے کی بحث اور شبیہ الحسن صاحب کی ناسخ کے سلسلے میں جو گرفت کی گئی ہے وہ حنیف نقوی صاحب کی جرأت اور گہرے مطالعے کا نتیجہ ہے۔

ایک مضمون ’دکنی متون اور قرأت کے مسائل‘ ہے۔ خاکسار خود دکنی پڑھاتا رہا ہے لیکن حق یہ ہے کہ اس کا متن اور الفاظ کی قرأت دکنیات کے ماہر سے خصوصاً ڈاکٹر زینت ساجدہ مرحومہ سے یا ڈاکٹر حسینی شاہد مرحوم سے پڑھ لیا کرتا تھا اور اس کی مشق بھی کرتا تھا۔ معانی کی حد تک بہرحال لغت موجود تھی جو میں نے اپنی 1979 کی ڈائری میں پوری پوری نقل کر لی تھی جو آج بھی موجود ہے، لیکن دل چسپ بات یہ ہوئی کہ دکنیات کے طلبہ و طالبات کی تعداد سال دو سال کے اندر تقریباً ’نہیں ‘ ہو گئی تھی۔ جین صاحب کو دکنی بالکل نہیں آتی تھی اور وہ حوصلہ شکنی بھی کرتے تھے، عزیزم محترم رحمت علی خاں جب شعبے میں آئے تو وہ مجھے کسی حد تک باخبر نظر آئے۔ نقوی صاحب کا یہ مضمون دکنیات کے مسودے سامنے رکھ کر پڑھنے کی چیز ہے۔

ایک مضمون ’قدیم طرزِ املا اور تدوین کے مسائل‘ ہے، اور بعض ایسے گوشوں کی طرف متوجہ کرتا ہے جو بحث طلب ہیں۔ ذاتی طور پر راقم الحروف کئی الفاظ اور تراکیب میں قدیم طرزِ املا کا قائل ہے اور رشید حسن خاں صاحب سے باضابطہ بحث کر چکا ہے۔ نقوی صاحب بہرحال ہیں تو خاں صاحب کے ہی مکتبۂ فکر کے آدمی، مگر انھوں نے جو مثالیں دی ہیں وہ طرزِ املا کی کم ’’ غلطیہائے کتابت مت پوچھ‘‘ کی زیادہ ہیں۔ جہاں نالہ رسا نہیں ہے بلکہ رسّا ہے۔ سب سے دل چسپ مثال مبتذل اور مبتدل کی ہے۔

گیان چند جین اور قاضی عبدالودود پر ان کا بارہ صفحے کا ایک مضمون ہے۔ یہ اس مجموعے کا سب سے دل چسپ مضمون ہے۔ جین صاحب نے ’بت شکن محقق‘ اپنے مجموعۂ مضامین ’حقائق‘ میں شامل کیا۔ ’حقائق ‘ جین صاحب کی ہی نگرانی میں شائع ہوا تھا اور مجھے جین صاحب ہی کی وجہ سے ’اشترو سوزن‘ اور خواجہ احمد فاروقی کی ’میر حیات اور شاعری‘ پر قاضی صاحب کا تبصرہ پڑھنے کو ملا تھا۔ میں نے نہایت ادب سے جین صاحب کی خدمت میں رضا نقوی واہی کی نظم پیش کی تھی، جس کا ایک مصرع تحقیق کی دنیا میں قطب مینار کی حیثیت رکھتا ہے، وہ مصرع یوں ہے :

اس نے سب نقطے گنے ہیں میر کے دیوان کے

میں نے عرض کیا تھا، اگر تحقیق اس لیے ہوتی ہے کہ اسے پڑھا جائے تو قاضی صاحب کی تحقیق تحقیق نہیں ہے، کوئی بھی عبارت ہو اگر وہ دلچسپی نہیں رکھتی (اپنے موضوع سے متعلق افراد کے لیے ) وہ تحقیق بے کار ہے۔ نقوی نے اس تصور سے اتفاق کیا ہے، تحریر کو دلکش ہونا چاہیے، شگفتہ ہونا چاہیے اور اگر کہیں ایسی نثر ہے جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے تو وہ تحقیق بلاشبہ مستحسن ہے۔

راقم الحروف نے یہی باتیں حنیف صاحب کے لیے ’ڈاکٹر حنیف نقوی: شخص اور محقق‘ میں لکھی ہیں۔ ان کے یہاں یہ سقم نہیں ہے۔ پڑھنے میں دل لگتا ہے اور میر صاحب کی تقلید میں یہ فقرہ لکھتے ہوئے فخر ہوتا ہے کہ عبارت ’با مزہ‘ ہوتی ہے۔

جین صاحب پر جو مضمون نقوی نے لکھا ہے، اس میں حقِ شاگردی ادا کیا ہے، لکھتے ہیں :

’’یہ کارنامہ جین صاحب نے انجام دیا ہے اور بعض جزوی اختلافات سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے اس کا حق ادا کر دیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ‘‘

وہ جزوی اختلافات کیا ہیں، اس کی نشان دہی نہیں کی ہے، اور گویا حقِ شاگردی ادا کیا ہے۔ حالانکہ آخری پیراگراف میں ان کی حق گوئی شاگردانہ مرتبے پر حاوی ہو گئی ہے۔

تاریخ نگاری کے اصول و آداب میں انھوں نے صرف رشید حسن خاں صاحب کے نقطۂ نظر سے کہیں اتفاق اور کہیں اختلاف کیا ہے۔

تدوین سحر البیان میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ سحر البیان کا نام میر حسن کا دیا ہوا نہیں ہے، بلکہ شہرت عام کی دین ہے۔

اس مجموعے کے مضامین، ترقیمہ مہریں اور عرض دید وغیرہ صرف ان لوگوں کے لیے مفید ہیں جو کلاسیکی متون پر کوئی تحقیقی کام کرنا چاہتے ہیں۔

مجموعے کے آخری مضمون ’جامعاتی تحقیق مراحل اور طریقِ کار‘ کا تذکرہ ابتدا میں کیا جا چکا ہے۔ یہاں صرف اتنا اضافہ کرنا ہے کہ یہ مضمون ایم اے کے بعد جو طلبہ سلسلۂ تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔ یہ لازمی ہے کہ اسے جامعات کے نصاب میں شامل کر دیا جائے، اس لیے کہ یہ مدرسین کے لیے، خصوصاً اردو مصنّفین کے لیے آزمایش کا دور ہے۔ ہر بوالہوس حسن پرستی شعار کرتے ہوئے ایم اے کی ڈگری لے کر پی ایچ۔ ڈی کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ اب نیٹ (Net)کی قدغن ہے۔ مگر نیٹ کا امتحان بھی طالب علم کی علمی و ادبی صلاحیتوں کے تعین میں ناکامیاب اور ’تیر‘ نہیں ’تُکّا‘ کا مصداق بن گیا ہے۔ اگر صحیح ٹِک لگ گیا تو سبحان اللہ ورنہ انا للہ۔ اب اگر کوئی پیمانہ ہے تو وہ تحقیق کے ذریعے ادبی مسائل کی تفہیم ہے بشرطیکہ طریقِ تحقیق سے باخبری ہو۔ حنیف نقوی نے اس مضمون میں بے حد پیچیدہ اور حساس مسائل کو مولانا حالی کی طرح عام فہم اور ذہن نشین بنا دیا ہے۔

یہ وعدہ تھا جو حنیف نقوی کی ادبی وراثت کے جانشین، امین اور پاسدار پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے مجھے بروقت یاد دلایا۔ میں ان کا صمیمِ قلب سے شکر گزار ہوں۔ مسلک کے اعتبار سے میرا تعلق ملتِ گریہ کن سے ہے اور جو میرے ڈاکٹر حنیف نقوی سے شخصی روابط تھے اس کے پیشِ نظر ہر لفظ آنسو کی ایک بوند اور ہر سطر گریہ کی غمناک صدا میں گم ہو گئی تھی۔ کتنی بار زخمی احساس کو سنبھالنا پڑا ہے، یہ میرا ہی دل جانتا ہے۔ میں کیسے لکھوں :

اس ایک شخص میں تھیں دل ربائیاں کیا کیا

ہزار لوگ ملیں گے مگر کہاں وہ شخص

———————-

پروفیسر مجاور حسین رضوی

258، وِرام کھنڈ، گومتی نگر،  لکھنؤ226010-

٭٭٭

 

 

 

 

مثنوی ’چراغِ دیر‘ کے تین ترجمے حنیف نقوی کی نظر میں

 

                سیّد حسن عباس

 

پروفیسر حنیف نقوی (1936-2012) اردو شعر و ادب کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے متعارف نام ہے۔ کلاسیکی ادب ہو یا جدید ادب پروفیسرنقوی کا مطالعہ بہت گہرا اور وسیع تھا جو ان کی تحریروں سے بخوبی عیاں ہے۔ فارسی شعر و ادب کے بارے میں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے کیوں کہ انھوں نے غالب کی فارسی نثر و نظم کا جس طرح باریکی سے مطالعہ کیا تھاویسا مطالعہ بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عصرِ حاضر میں ان کا شمار ماہرینِ غالبیات کے درمیان نہایت محتاط اور ذمہ دار محقق و ناقد کے طور پر کیا جاتا ہے۔ جہاں انھوں نے اور بہت سے تحقیقی کارنامے انجام دیے ہیں، وہیں غالب کی شہرۂ آفاق مثنوی ’چراغِ دیر‘ کا نہ صرف منظوم اردو ترجمہ کیا بلکہ اس کے دیگر ترجموں کا بہ غائر مطالعہ اور محاکمہ بھی کیا اور اپنے اخذ کردہ نتائج کو سپردِ تحریر بھی کیا ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان سے روشنی حاصل کر سکیں۔ اس سلسلے میں ان کا مضمون مثنوی چراغ دیر کے دو ترجمے، قابل مطالعہ ہے جو ان کے مجموعے ’غالب کی چند فارسی تصانیف‘ میں شامل ہے۔

غالب کا ’’سومناتِ خیال‘‘ کے نام سے علی سردار جعفری کی کتاب مذکورہ مثنوی کا اردو نثر میں ترجمہ ہے۔ اسے پروفیسر جابر حسین نے اردو مرکز پٹنہ سے 1997 میں شائع کیا تھا۔ کتاب میں پروفیسر جابر حسین کی ’اپنی بات‘ کے علاوہ خود جعفری صاحب کا ساڑھے چودہ صفحات کا مقدمہ بھی شامل ہے۔ کُل صفحات کی تعداد 60ہے۔

علی سردار جعفری کی علمی ادبی شخصیت کی ایک جہت ان کی غالب شناسی بھی ہے اور پروفیسر حنیف نقوی بھی غالب شناس تھے۔ اگر چہ سردار جعفری کی طرح حنیف نقوی کی دستار فضیلت پُر پیچ نہیں مگر حنیف نقوی بھی تحقیق و تنقید کے مردِ میدان تھے یعنی: سب ایک طرف جمع ہیں میں ایک طرف ہوں۔ دونوں میں غالب شناسی قدرِ مشترک کہی جا سکتی ہے۔ غالب شناسی کے باب میں سردار جعفری نے انگریزی میں غالب اور اس کی شاعری، بہ اشتراک قرۃ العین حیدر اور ’دیوانِ غالب‘ کی تدوین کے علاوہ غالب کی مشہور زمانہ فارسی مثنوی ’چراغ دیر‘ کا اردو ترجمہ ’غالب کا سومناتِ خیال‘ کے نام سے شایع کرایا۔ جب کہ حنیف نقوی کے غالب پر جو کام منظرِ عام پر آ چکے ہیں اُن کی تفصیل حسب ذیل ہے :

(۱)    مآ ثرِ غالب (ترتیب جدید) ادارہ تحقیقات اردو پٹنہ بارِ دوم 1990۔ یہی ایڈیشن کراچی سے ادارہ یادگارِ غالب نے 1998 میں شایع کیا۔

(۲)    مرزا غالب کے پنج آہنگ کا قدیم ترین خطی نسخہ (عکسی اڈیشن) پٹنہ 1997

(۳)   غالب- احوال و آثار، لکھنؤ، بارِ اول 1990 (۷ مقالے ) دہلی بارِ دوم 2007 (10 مقالے )

(۴) غالب کی چند فارسی تصانیف – دہلی 2005 (9 مقالے )

(۵) غالب کی فارسی مکتوب نگاری، دہلی 2008

(۶) غالب اور جہانِ غالب، دہلی 2012 (15 مقالے )

ڈاکٹر شمس بدایونی کے مطابق : غالب اور غالبیات کے متعلق انھوں نے ( یعنی نقوی صاحب نے ) کُل 50 مقالات لکھے جن میں 33 مقالات مذکورہ بالا مجموعوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ باقی ۱۷ مقالات کتابی صورت میں شائع نہیں ہو سکے، (کتاب نما، دہلی، نومبر 2013،ص 83 نقوی نمبر)۔

پروفیسر جابر حسین جب بہار قانون ساز کونسل کے چیر مین تھے تو انھوں نے کونسل میں شعبۂ اردو قائم کر کے غالب کی دو صد سالہ تقریبات منانے کا اعلان کیا اور علی سردار جعفری سے غالب کی فارسی شاعری سے متعلق ایک مقالہ جس سے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی عکاسی ہوتی ہو، تحریر کرنے کی گذارش کی۔ اس موضوع کے لیے غالب کی فارسی مثنوی ’چراغ دیر‘ سے اچھا کون سا موضوع ہو سکتا تھا۔ لہذا ’غالب کا سومنات خیال‘ کے عنوان سے مذکورہ مثنوی کا اردو نثر میں ترجمہ کر کے اپنے مقدمے کے ساتھ مسوّدہ پروفیسر جابر حسین کو بھیج دیا اور خط میں یہ تاکید کی کہ انھوں نے ترجمے میں ماہر غالبیات جناب کالی داس گپتا رضاؔ سے استفادہ کیا ہے لہٰذا کتاب میں اس استفادے کا ذکر ضرور کر دیا جائے۔ اس طرح یہ کتاب اردو مرکز عظیم آباد، پٹنہ سے 1997 میں ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہو کر منظر عام پر آئی۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سردار جعفری کے ترجمے کی اشاعت کے بعد خود کالی داس گپتا رضاؔ  نے بھی اس مثنوی کا اردو ترجمہ پہلے ’آجکل‘ دہلی، جون 1999 اور پھر دسمبر 1999 کے ’نیا دور‘ لکھنؤ میں شائع کیا۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ غالبؔ  اپنی خاندانی پنشن کے سلسلے میں کلکتہ جاتے ہوئے بنارس ٹھہرے تھے۔ وہ  ’’27 نومبر 1827‘‘ کو بذریعۂ کشتی الہ آ باد پہنچے، وہاں سے 28 نومبر کی صبح کشتی سے ہی بنارس کے لیے روانہ ہوئے اور غالب شناسوں کا خیال ہے کہ یکم دسمبر تک وہ ضرور بنارس پہنچ گئے ہوں گے۔ بنارس انھیں بہت پسند آیا اور لگ بھگ ایک مہینے تک یہاں قیام پذیر رہے اور 29 دسمبر 1827 کو کلکتہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس طرح مثنوی ’چراغِ دیر‘ دسمبر 1827 میں بنارس میں تصنیف کی گئی۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ غالبؔ نے جس وقت یہ مثنوی کہی تھی ان کی عمر تقریباً 30 سال کی تھی۔

جیسا کہ عرض کیا گیا کہ غالب اور متعلقاتِ غالب پروفیسر حنیف نقوی کی دل چسپی کے موضوعات رہے ہیں لہٰذا انھوں نے مثنوی ’چراغِ دیر‘ کے ترجموں کو بھی بغور دیکھا اور اُن کے حسن و قبح کو برملا کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی کیوں کہ وہ کسی کے نام، علمیت اور جاہ و منصب سے مرعوب ہونے والے محقق و ناقد نہیں تھے۔ حنیف نقوی نے ’غالب کا سومناتِ خیال‘ لفظ بہ لفظ پڑھا اور اسی طرح کالی داس گپتا رضاؔ کے ترجمے کو بھی۔ دونوں میں حیرت انگیز لفظی اور معنوی مماثلت دیکھ کر انھوں نے جعفری صاحب کو ایک خط لکھا لیکن بقول نقوی صاحب، جعفری صاحب نے اُس خط کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا اور کچھ ایسا جواب دیا جس سے بد دل ہو کر نقوی صاحب نے اپنے خیالات اور مطالعے کے نتائج کو ایک مضمون ’مثنوی چراغِ دیر کے دو ترجمے ‘ کے عنوان سے ’ہماری زبان‘ نئی دہلی میں اشاعت کے لیے بھیج دیا۔ مضمون چھپنے کے بعد جعفری صاحب نے انھیں 27 دسمبر 1999 کو ایک پوسٹ کارڈ بھیجا۔ لکھتے ہیں :

’’ہماری زبان کے دسمبر کے دو پرچوں میں آپ کا مضمون ’مثنوی چراغِ دیر کے دو ترجمے ‘ شائع ہوا ہے۔ میں نے مضمون پڑھا۔ خوشی ہوئی کہ آپ نے انتہائی علمی سنجید گی کے ساتھ میرے ترجمے کی غلطیاں ظاہر کی ہیں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ میری کتاب ’غالب کا سومنات خیال‘ کا نیا ایڈیشن نئے ترجمے کے ساتھ شائع ہو گا۔ ایک چھوٹا سا مضمون ’ہماری زبان‘ کے لیے لکھ رہا ہوں۔ ایک بار پھر آپ کا شکریہ۔ امید ہے کہ مزاج بخیر ہو گا۔

آپ کا سردار جعفری‘‘

اسی سلسلے میں یعنی ’ہماری زبان‘ میں شائع نقوی صاحب کے مضمون ’چراغِ دیر کے دو ترجمے ‘ کی بابت کالی داس گپتا رضاؔ نے یکم دسمبر 1999 کے مکتوب بنام نقوی صاحب میں لکھا:

 

’’محبِ مکرم تسلیم

آج ’ہماری زبان‘ کا تازہ شمارہ موصول ہوا۔ میں نے چراغ دیر کا ترجمہ مع مضمون آٹھ دس سال سے لکھ رکھا تھا اور اُسے بہر حال غالب و غالبیات سے متعلق میرے مضامین میں چھپنا ہی تھا، سو چھپ گیا۔

جب جعفری صاحب ’سومنات خیال ‘ لکھ رہے تھے تو انھوں نے یہ مضمون مجھ سے منگوا لیا تھا۔ پھر وہ میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور پورا دن بیٹھ کر ہم دونوں نے اس ترجمے پر غور کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ’سومناتِ خیال‘ کی تکمیل کی۔

آپ کے مضمون سے یہ تاثّر پیدا ہوتا ہے کہ جیسے جعفری صاحب نے سرقہ کیا ہو۔ یہ قطعی غلط ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ یہ تاثر نہ پیدا ہونے دیں۔ نہ میں غالبیات کا ماہر ہوں نہ مجھے فارسی دانی پر ناز ہے۔ آپ نے اس میں جو خامیاں نکالی ہیں اُس سے تو میں مستفیدہوں گا ہی، مگر افسوس یہ ہے کہ ترجمہ چھاپنے یا چھپوانے سے پہلے میں نے آپ کی نظر سے کیوں نہ گذار لیا۔ آپ میرے لیے کوئی اجنبی تو نہ تھے۔ میری فارسی ایسی ہی ہے جیسے کہ غالب کی عربی۔ چند کتابیں اور چھپ گئی ہیں، جلد ہی بھجواؤں گا۔

مخلص

کالی داس گپتا رضاؔ‘‘

 

کالی داس گپتا رضاؔ کے اِس خط کا جواب 12دسمبر 1999 کو نقوی صاحب نے تحریر کیا، لکھتے ہیں :

 

’’محترمی تسلیم

گرامی نامہ مورخہ یکم دسمبر، ۷ کو موصول ہوا۔ امید ہے کہ اس عرصے میں آپ نے مضمون کی دوسری اور آخری قسط بھی ملاحظہ فرما لی ہو گی۔ آپ کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ میں نے اس مضمون میں بالارادہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جعفری صاحب نے آپ کے مضمون سے سرقہ کیا ہے لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ مضمون میں ترجمے کے جو نمونے پیش کیے گئے ہیں انھیں پڑھ کر ہر ذی شعور قاری یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ یہ صریحاً سرقے کا معاملہ ہے۔ سرقہ کس نے کیا، اس کا فیصلہ صرف واقفِ حال اور دقیقہ رس حضرات ہی کر سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ’غالب کا سومنات خیال‘ کی اشاعت کے بعد، آپ اپنا یہ ترجمہ یا مضمون اشاعت کے لیے نہ بھیجتے تو اچھا ہوتا کیوں کہ بہ حیثیت مجموعی اس میں کوئی ایسی نئی یا اہم بات نہیں کہی گئی ہے جس کا سامنے آنا ضروری تھا۔ اگر یہ ترجمہ یا مضمون شائع نہ ہوا ہوتا تو سرقے کا تاثر پیدا ہونے کا سوال ہی نہ اٹھتا‘‘۔

نقوی صاحب مزید لکھتے ہیں :

’’1997 میں ’سومناتِ خیال‘ کی اشاعت کے کچھ دنوں بعد ہی میں نے جعفری جعفری صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھ کر اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ اس میں بعض اشعار کے ترجمے میرے نزدیک اطمینان بخش نہیں۔ موصوف نے اُس خط کا جواب کچھ ایسے الفاظ میں عنایت فرمایا کہ اس کے بعد میں نے تفصیلات اُن کی خدمت میں پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ لیکن ترجمے کی اشاعت کے بعد یہ محسوس ہوا کہ اب اس معاملے میں خاموش رہنا علمی دیانت کے منافی ہو گا خاص طور پر اس لیے، کہ عام قارئین فارسی نہیں جانتے۔ چناں چہ یہ تراجم اگر اسی صورت میں قبول کر لیے گئے تو یہ اِس مثنوی اور اس کے مصنف، دونوں کے ساتھ زیادتی ہو گی‘‘۔

نقوی صاحب نے جعفری صاحب اور کالی داس گپتا رضاؔ کے ترجموں کا مقابلہ و موازنہ کر کے 27 مثالیں پیش کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ ترجمے لفظی اعتبار سے بھی یکساں ہیں اور بقیہ میں لفظوں کا جو ہیر پھیر ہے وہ بھی صاف ظاہر ہے۔ اِن 27 شعروں میں سے پہلے اور 27 ویں شعر کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں تاکہ آپ بھی ان کی لفظی یکسانیت ملاحظہ فرما سکیں۔ شعر:

نفس ابر یشم ساز فغان است

بسان نے تپم در استخوان است

جعفری: میر انفس (سانس) سازِ فغاں کا تار ہے اور میری ہڈیوں میں بانسری کی طرح حرارت بھری ہوئی ہے۔

رضا : سانس فغاں کے ساز کا تار ہے۔ میری ہڈیوں میں بانسری کی طرح آگ بھری ہوئی ہے۔

آخری مثال، شعر:

نفس تا خود فرو ننشیند از پای

دمی از جادہ پیمائی میا سای

جعفری: جب تک سانس کی ڈور ٹوٹ نہیں جاتی، اُس وقت تک راستہ طے کرنا نہ چھوڑو۔

رضا : جب تک سانس کی ڈور ٹوٹ نہیں جاتی، راستہ طے کرنا نہ چھوڑو۔

نقوی صاحب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نظم میں یہ کیفیت پائی جائے تو اسے توارد سے تعبیر کر کے دامن بچا لیا جاتا ہے۔ نثر میں یہ صورت رونما ہو تو اسے کیا نام دینا مناسب ہو گا، یہ فیصلہ انھوں نے قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔

اس طرح ترجمے کا دوسرا پہلو، معنی و مطلب کی تفہیم اور اس کے مناسب اظہار سے تعلق رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی مذکورہ دونوں ترجمے ’محل غور‘ کی منزل میں ہمیں ڈال دیتے ہیں۔ شعر:

سپس در لالہ زاری جا توان کرد

وطن را داغ استغنا توان کرد

جعفری صاحب فرماتے ہیں : کسی لالہ زار میں بھی جگہ مل سکتی ہے اور وطن کی یاد کو داغِ استغنا بنایا جا سکتا ہے (یعنی وطن کی یاد سے بے نیاز ہو سکتے ہیں لیکن یہ بے نیازی دل پر داغ بن کر رہ جائے گی)

رضا صاحب کا ارشاد ہے : اور نہیں تو کسی لالہ زار میں جگہ مل سکتی ہے اور آدمی اپنے وطن (کی یاد) سے مستغنی ہو سکتا ہے (یعنی دہلی کو بہ ہر حال چھوڑا جا سکتا ہے )

نقوی صاحب کا محاکمہ۔ فرماتے ہیں : دونوں ترجموں میں اہمیت وطن کو دی گئی ہے حالاں کہ شاعر کا موضوع گفتگو فی نفسہ وطن ہے، وطن کی یاد نہیں۔ دشواری تمام تر ’داغ استغنا توان کرد‘ کی پیدا کردہ ہے جس کی تہ تک پہنچنے سے دونوں حضرات قاصر رہے ہیں۔ جعفری صاحب نے اس کا ترجمہ ’داغ استغنا بنایا جا سکتا ہے ‘ کر کے اس کی جو تعبیر فرمائی ہے، وہ حد درجہ دور از کار ہے۔ اگر لغت کی طرف رجوع کیا گیا ہوتا تو یہ بات صاف ہو جاتی کہ ’داغ کردن‘ کے معنی ٹھپّا لگانا یا مہر لگانا ہیں۔ اس طرح ’وطن را داغ استغنا کردن‘ کا مفہوم وطن پر استغنا کی مہر لگا دینا یعنی وطن سے پوری طرح بے تعلقی اختیار کر لینا، یادِ وطن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دینا قرار پائیں گے۔ اس کی بجائے وطن کی یاد سے مستغنی ہو جانا یا اس استغنا کا دل پر داغ بن کر رہ جانا بالکل مختلف کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جو شاعر کا مقصود نہیں۔ آخر میں نقوی صاحب کا ریمارکس قابلِ توجہ ہے، لکھتے ہیں :

’’یہ چند نمونے ہیں چراغِ دیر کے ان دو ترجموں کے جن کے ساتھ سردار جعفری اور کالی داس گپتا رضاؔ جیسے اساطینِ شعر و ادب کے نام وابستہ ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ ہمارے یہاں فارسی زبان و ادب کا ذوق نہایت تیزی کے ساتھ رو بہ زوال ہے تاہم یہ دونوں حضرات جس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اس سے زبان کی مزاج شناسی اور تحسینِ شعر کے معاملے میں نا پختگی و نا تمامی کا یہ اظہار خلافِ توقع ہے۔ یہ صورت نہ ہوتی تو محض ترجمہ نگاروں کی شخصیات کا لحاظ کرتے ہوئے یہ دونوں ناقص ترجمے اشاعت کے لیے ہر گز قبول نہ کیے جاتے۔ ‘‘

ظ۔ انصاری نے بھی ’مثنویاتِ غالب‘ کا نثر میں زیادہ تر لفظی اردو ترجمہ کیا ہے۔ ان کے ترجمے پر نقوی صاحب نے کوئی مضمون تو نہیں لکھا لیکن اپنے ایک خط میں ایک مختصر سا تبصرہ کر کے مذکورہ ترجمے کے بارے میں اپنی رائے ضرور واضح کر دی ہے۔ جناب مہر الٰہی ندیم نے ایک مکتوب میں نقوی صاحب سے دریافت کیا تھا کہ چراغِ دیر کے کتنے اردو ترجموں کی بابت آپ کو علم ہے ؟ نیز غالبؔ کی مثنوی ’ابر گہر بار‘ کے کسی منظوم ترجمے سے واقفیت ہو تو بتائیے۔ اس کے جواب میں نقوی صاحب 24جولائی 1995 کے مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :

’’مثنوی ’ابر گہر بار‘ کے کسی منظوم ترجمے کا مجھے علم نہیں۔ نثر میں اس کا ترجمہ ظ۔ انصاری کی کتاب ’مثنویاتِ غالب‘ میں شامل ہے۔ لیکن انصاری صاحب کی فارسی دانی مشکوک ہے۔ ‘‘

اس آخری جملے سے ’مثنویاتِ غالب‘ کی اہمیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔

آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ میرے پیشِ نظر مثنوی ’چراغِ دیر‘ کے پانچ منظوم اور تین منثور ترجمے ہیں۔ ان کو پڑھنے سے احساس ہوتا ہے کہ مترجمین غالبؔ کے فکر و خیال کی پیچیدگیوں کو نثر میں بخوبی سلجھانے میں کم تر جگہ ہی کامیاب ہوئے ہیں ورنہ زیادہ تر لفظی ترجمہ کر کے آگے بڑھ گئے البتہ جن حضرات نے منظوم ترجمہ کیا ہے، ان کے ترجمے منثور ترجموں سے کافی حد تک رساہیں جن میں خود پروفیسر حنیف نقوی کا بھی ایک منظوم ترجمہ ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر خلیق انجم کی یہ رائے نقل کر کے زحمت تمام کرتا ہوں :

’’آپ کا نوازش نامہ اور چراغ دیر کا ترجمہ دونوں موصول ہوئے۔ ترجمہ پڑھ کر لطف آ گیا۔ بہت ہی رواں دواں اور شگفتہ ہے۔ ترجمہ نہیں تخلیق لگتا ہے۔ میں نے اپنی کتاب میں آپ کا کیا ہوا ’چراغِ دیر‘ کا ترجمہ شامل کر لیا ہے۔ پہلے میں نے خود ترجمہ کیا تھا مگر وہ نثر میں تھا اور اُسے پڑھ کر وہ لطف نہیں آ رہا تھا جو آپ کے ترجمے سے آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنا ترجمہ نکال لیا۔ ‘‘ (مکتوب مورخہ 5 جنوری 1999 بنام حنیف نقوی)

———————

پروفیسر سیّد حسن عباس

شعبۂ فارسی، بنارس ہندو یونیورسٹی، بنارس

٭٭٭

 

 

 

 

ہمزہ کی قیمت کے بارے میں پروفیسر گیان چند جین کے استفسار کے جواب میں

 

                پروفیسر حنیف نقوی کا مکتوب

 

۲۵ ؍نومبر ۱۹۷۸ء

مخدومی و محترمی زاد مجدکم تسلیم

گرامی نامہ مورخہ ۲۱؍ نومبر آج صبح موصول ہوا۔ جواباً عرض ہے کہ فارسی و اردو میں ہمزہ کی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں۔ یہ بالعموم ’یا‘ کے بدل کے طور پر مستعمل ہے مثلاً فرمائش، زیبائش، گویائی، کیجئے، کہئے وغیرہ میں۔ ان تمام الفاظ میں ہمزہ کے دس عدد محسوب ہوں گے۔ ’جائے پیدائش‘ یا ’آئے جائے ‘ وغیرہ الفاظ میں ہمزہ لکھتے ہیں لیکن صرف ’ے ‘ کے دس عدد شمار کیے جاتے ہیں۔ ’گئے ‘ اور ’گئی‘ ’کئے ‘ اور ’کئی‘ میں دو دو ’ے‘ محسوب ہوتی ہیں۔ بعض مقامات پر ہمزہ کسی حرف علت صحیح کی بجائے خفیف مصوتے کا کام دیتی ہے۔ وہاں اس کے اعداد محسوب نہیں ہوتے۔ لکھنو کے بارے میں میر حسنؔ کا یہ مصرع تو یقیناً آپ کو یاد ہو گا: ’کوفہ کا یہ شہر ہم عدد ہے ‘ ’کوفہ‘ کے اعداد 111 ہوتے ہیں، لکھنو ٔ کے اعداد بھی 111 ہی ہیں۔ ہمزہ لکھتے ضرور ہیں لیکن حساب میں شامل نہیں کرتے۔

عربی میں ہمزہ کی ایک مستقل حیثیت ہے چنانچہ اِ ذَا جاءَ و ما شاءَ وغیرہ میں اس کا ایک ایک عدد محسوب ہو گا۔ مستثنیات کے طور پر فارسی میں بھی ایسی ایک دو تاریخیں مل جاتی ہیں جن میں ’احیاء سخن‘ اور ’التقاء ساکنین‘ لکھ کر ہمزہ کا ایک عدد لیا گیا ہے لیکن یہ بات قاعدۂ کلیہ کے خلاف ہے۔ اصولاً  ان صورتوں میں ’احیائے سخن‘ اور ’التقائے ساکنین‘ لکھنا چاہیے اور ہمزہ مبدل بہ یا کے دس عدد لینا چاہئیں۔ امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہو گا۔

نیاز مند

حنیف نقوی

Dr. Gian Chand Jain

Head of the Deptt. of Urdu, Allahabad University, Allahabad 211002

نوٹ: داغؔ دہلوی کے شاگرد میر مہدی حسن المؔ حیدرآبادی نے ’گلبنِ تاریخ‘ میں ہمزے کی قیمت کے سلسلے میں لکھا ہے ’’اہلِ جمل نے اس کے لیے کوئی عدد مقر ر نہیں کیا اور نہ یہ حروفِ ابجد میں داخل ہے۔ پس تاریخ میں اس کا کوئی عدد نہ لیا جائے بلکہ بجائے حرکت تصور کریں ‘‘۔ جلالؔ (میر ضامن علی) نے یائے معروف ہمزہ دار کے بیس عدد اور یائے مجہول یا ہمزہ کے دس عدد لینے کی وکالت کی ہے۔

جاوید رحمانی

٭٭٭

 

 

 

حنیف نقوی کے تحقیقی امتیازات

 

                آفتاب احمد آفاقی

 

پروفیسر حنیف نقوی کا شمار ان محققین میں ہوتا ہے جن کے یہاں احتیاط پسندی، دلیلوں اور دعووں کی بنیاد پر استنباطِ نتائج اور تحقیق کو ترتیبِ مقدمات اور فکری تنظیم سے آشنا کرنے کی روایت پائی جاتی ہے۔ اردو میں اس روایت کی طرح ڈالنے کا سہرا حافظ محمود شیرانی کے سر ہے جسے بعد میں قاضی عبد الودود نے نہ صرف تقویت بخشی بلکہ اردو تحقیق کو سائنٹفک طریقۂ کار اور بینا لعلمی مطالعے کی اہمیت سے بھی روشناس کرایا۔ قاضی صاحب کے بعد اس طرزِ تحقیق کی پیروی کرنے والوں میں رشید حسن خاں اور حنیف نقوی کے نام بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ ان دونوں محققین میں فرق یہ ہے کہ جہاں رشید حسن خاں کی تحقیق کا اہم منبع و مرکز تدوینِ متن اور textual research سے عبارت ہے، وہیں نقوی صاحب کی تمام تر توجہات و ترجیحات مختلف نوعیت کی تحقیق پر ر ہی ہے۔ تاہم ان دونوں کا یہ اختصاص بھی قابلِ ذکر ہے کہ دونوں نے اپنی تحقیق کی بنائے ترجیح کلاسیکی شعر و ادب کی تحقیق وجستجو پر رکھی اور جدید شعر و ادب اور تنقید کو کبھی لائقِ توجہ نہیں سمجھا، خصوصاً حنیف نقوی نے زندگی بھر اپنی توجہ، کلاسیکی فن پاروں، ادبی شخصیات اور ان کے کارناموں سے متعلق نئی دریافت یا ان کے متعلق محققین کی فروگذاشت کی نشاندہی پر مر کوز رکھی اور اپنی دیدہ ریزی، تبحرِ علمی اور وسعتِ مطالعہ کی بدولت متقدمین اور متاخرین کے متعین کردہ مفروضات اور قیاسی نتائج کو دلائل و براہین کی روشنی میں رد کر کے اصل صورتِ واقعہ سے رو شناس کرتے رہے۔

پروفیسر حنیف نقوی تحقیق کی دنیا میں اپنے زمانۂ طالبِ علمی کے کاموں کی بدولت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے تھے۔ پروفیسر ابو محمد سحر کی نگرانی میں ’اردو شعرا کے تذکروں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘ کے موضوع پر انھیں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی، جو بعد میں ’شعرائے اردو کے تذکرے ‘ کے نام سے کتابی شکل میں اشاعت پذیر ہوئی اور آج بھی اپنے موضوع اور تحقیقی معیار کے لحاظ سے حوالہ جات کا حکم رکھتی ہے، جسے تذکراتی تحقیق کا عمدہ نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ تذکروں کے علاوہ سوانحی تحقیق سے بھی دل چسپی لی، اس ضمن میں ’تلاش و تعا رف‘، ’انتخابِ کلامِ رجب علی بیگ سرور‘، ’غالب احوال و آثار‘، ’رجب علی بیگ سرور:چند تحقیقی مباحث‘، ’مآثرِ غالب:تصحیح و ترتیبِ جدید‘، پنچ آہنگ: قدیم نسخہ، ’دیوانِ ناسخ‘ نسخۂ بنارس، ’رائے بینی نرائن دہلوی:سوانح اور ادبی خدمات‘، ’میر و صاًجھا، خصو صاًوی: جاز عبیدراہمکیمصحفی‘، ’غالب کی فارسی مکتوب نگاری‘، ’تحقیق و تدوین: مسائل اور مباحث‘، ’تذکرۂ شعرائے سہسوان‘، ’حیات العلما‘ اور آخری کتاب ’غالب جہانِ غالب‘ جیسی تحقیقی کتابیں اس کی بیّن مثال ہیں۔

حنیف نقوی کا علمی، ادبی اور تحقیقی سفر نصف صدی کو محیط ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا انھوں نے اپنے تحقیقی سفر کا آغاز ’شعرائے اردو کے تذکرے ‘ سے کیا لیکن اس اولین کتاب سے ہی ایسی جست لگائی کہ ان کا شمار معتبر محققوں میں ہونے لگا۔ اس کتاب میں انھوں نے تذکرے کے مبادیات، معنوی و فکری پہلو، اس کی افادیت اور محرکات کے علاوہ دکنی ادب کی تاریخ پر بڑی دیانتداری کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ تذکرہ نگاری کے تقاضے کے تحت چند بنیادی مباحث کی نشاندہی بھی کی مثلاً یہ کہ ایک تذکرہ نگار کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ علم و ادب کا رسیا ہو، وسعتِ مطالعہ، اظہارو ابلاغ پر قدرت کے ساتھ علمی ثقافت اور شعر و ادب کی تخلیق سے مکمل روابط کو بھی ضروری قرار دیا۔ اتنا ہی نہیں، انھوں نے تذکرے کے صحتِ متن، استناد اور تطبیق کے علاوہ جہاں کہیں بھی استدراک کی ضرورت تھی گریز نہیں کیا۔

یوں تو حنیف نقوی کے تحقیق کے موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے تاہم تذکراتی اور سوانحی تحقیق کے علاوہ غالب اور متعلقاتِ غالب ان کی دل چسپی کے خاص موضوع رہے ہیں۔ واضح رہے کہ نقوی صاحب کے ورودِبنارس ہندو یونی ورسٹی سے قبل، شعبۂ اردو کے استاد مولوی مہیش پرشاد نے خطوط غالب کی تدوین کر کے غالب شناسی کی ایک نئی طرح ڈالی تھی، غالب کی شخصیت اور ان کے عہد سے بطورِ خاص دل چسپی اور میلان ممکن ہے مہیش پرشاد کی تحریروں سے پیدا ہوئے ہوں، اس نسبت سے ہم انھیں اس سلسلے کی ایک اہم کڑی بھی کہہ سکتے ہیں۔

جیسا کہ تحریر کیا جا چکا ہے کہ نقوی صاحب ان کلاسیکی ادبی شخصیات کی تلاش و جستجو میں ہمیشہ مصروف رہے جو تاریخ کے اوراق میں دفن ہو چکے ہیں۔ اس نوع کی تحقیق اصلاً گمشدہ کڑیوں کو جوڑ کر ادبی تاریخ مرتب کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ حنیف نقوی نے رجب علی بیگ سرور، منشی احمد حسن مہر، مرزا حاتم علی بیگ، بینی نارائن جہاں جیسی ادبی شخصیات کے متعلق جو نئی تحقیقات پیش کی ہیں اس کی بنا پر ان ادیبوں سے متعلق نہ صرف یہ کہ ہماری معلومات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ کئی قیاسی اور گمراہ کن خیالات رد بھی ہوئے ہیں۔ مثلاً حنیف نقوی نے ’فسانۂ عجا ئب‘ کے مصنف رجب علی بیگ سرور کے سالِ وفات کی نہ صرف قطعی تاریخ متعین کی ہے بلکہ تاریخِ بنارس کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ بنارس میں جو قبرسرور سے منسوب کی جاتی ہے وہ اصلاًکسی دوسرے رجب علی بیگ کی ہے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ’تلاش و تعارف‘ میں شامل آٹھ تحقیقی مضامین کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ’بہارِ بے خزاں ‘ کے مصنف منشی احمد حسن سحر کے متعلق ہماری معلومات ناقص تھی، تذکرے اور ادبی تاریخیں بھی اس سلسلے میں خاموش نظر آتی ہیں۔ حنیف نقوی نے تلاش و جستجو کے بعد ان کے سوانحی حالات پیش کیے۔ مرزا حاتم علی بیگ مہر جن سے غالب کے روابط تھے، سے متعلق تحقیق اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ سیدعبدالولی عزلت سورتی، مرزا کلب حسین خاں نادر، ولایت علی خان ولایت و عزیز صفی پوری، مرزا ثاقب لکھنوی وغیرہ سے متعلق تحقیقی مقالات بھی اسی نوعیت کے ہیں اسی طرح ان کی کتاب ’رائے بینی نرائن دہلوی: سوانح اور ادبی خدمات‘ تحقیقی اعتبار سے بے حد اہم ہے جس میں انھوں نے بینی نرائن سے متعلق بعض مفروضات کی تردید کی۔ ان کے شجرۂ خاندان، پرورش و پرداخت کے علاوہ یہ بھی ثابت کیا کہ بینی نرائن فورٹ ولیم کالج کے ملازم نہیں بلکہ ملازمت کے متمنی تھے اسی طرح ان کے شاعر ہونے اور جہاں تخلص اختیار کرنے کے تذکرہ نگاروں کے بیانات کو سراسر خلافِ واقعہ قرار دیا۔ علاوہ ازیں بینی نرائن کی آٹھ کتابوں کو متعارف کرانے کا سہرا بھی نقوی صاحب کے سر ہے۔

حنیف نقوی کی کتاب ’میر و مصحفی‘ جو 2003 میں منظرِ عام پر آئی تھی، تحقیقی نقطۂ نظر سے بے حد اہم ہے۔ مشمولہ مضامین میں ’مصحفی سے منسوب دو تذکرے ‘ مضمون اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ مصحفی سے منسوب ان دونوں تذکروں یعنی ’ید بیضا‘ اور ’نورِ ازل‘ کے وجودِ خارجی سے ہی ان کار کیا ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ یہ تحقیقی مضمون مشیر احمد علوی کے ایک مضمون کی اشاعت کے بعد اس وقت تحریر کیا گیا، جب علوی کا مضمون ماہنامہ’ نگار‘ کے مصحفی نمبر میں بعنوان ’مصحفی کی دو گمشدہ بیاض‘ کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوا۔ حنیف نقوی نے داخلی اور خارجی شہادتوں کی بنیاد پر یہ ثابت کیا ہے کہ متذکرہ تذکرے جو مصحفی سے منسوب کیے گئے ہیں یہ اصلاً ان کے تذکرے ’تذکرۂ ہندی‘ کی تحریف شدہ شکل ہیں، جو شہرت طلبی کے پیشِ نظر مضمون نگار نے تحریر کیے ہیں۔

واضح رہے کہ حنیف نقوی کی تحقیقی دل چسپی کا موضوع غالب، ان کے معاصرین اور ان کے تلامذہ رہے ہیں۔ غالب اور متعلقاتِ غالب کے ضمن میں تحقیقات کے پہلو بہ پہلو غالبیات کے تعلق سے دوسرے محققین کے تسامحات اور فروگذاشتوں کی نشاندہی بھی ان کی تحقیق کا خاصہ رہا ہے۔ انھوں نے غالب کے سلسلے میں محض مبتدیوں یا نیم محققین کی خامہ فرسائیوں کی گرفت نہیں کی بلکہ قاضی عبدالودود، مالک رام، کالیداس گپتا رضا اور خلیق انجم جیسے ممتاز محققین اور ماہرِ غالبیات بھی ان کی زد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ’مآثرِ غالب‘ مولّفہ قاضی عبدالودود کی نئی تدوین جن خطوط پر نقوی صاحب نے کی ہے وہ مثالی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ نقوی صاحب نے نہ صرف مفصّل مقدمہ اور حواشی لکھا بلکہ قاضی صاحب کی تحریروں میں تصحیحات کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ اسی طرح مالک رام کی تالیف ’تلامذۂ غالب‘ پر انھوں نے جو مضمون لکھے اس کی رو سے تلامذۂ غالب کے سیاق میں مالک رام نے حقائق کی غلط تعبیر کی ہے نیز انھوں نے اہم ماخذات سے استفادہ نہیں کیا۔ نقوی صاحب نے متعدد شعرا کے تراجم میں قابلِ تر میم اور وضاحت طلب مقامات کی نشاندہی کے علاوہ غالب کے مزید دس شاگردوں کے ناموں کے اضافے بھی کیے۔

یہ امر ملحوظِ خاطر رہے کہ تحقیق میں نقوی صاحب کا طریقۂ کار یہ رہا ہے کہ کسی موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے اس سے متعلق دستیاب مواد اور معلومات کا مطالعہ گہرائی کے ساتھ کیا جائے، اس سلسلے میں اہم اور غیر اہم کی تخصیص نہیں۔ وہ تمام مواد کی بڑی عرق ریزی اور انہماک کے ساتھ دستاویزی شہادتوں کی روشنی میں جانچ پرکھ کرتے اور منصفانہ تجزیئے نیزمناسب جرح و تعدیل کے بعد ہی استخراج و استنباطِ نتائج کرتے ہیں۔ غالب اور متعلقاتِ غالب کے سلسلے میں ان کے تحقیقی مقالات، ان کے اسی نقطۂ نظر کا ثمرہ قرار دیے جا سکتے ہیں جن میں انھوں نے جہاں ماضی بعید کے محققین کے قائم کردہ تصوّرات کو تاریخی حقائق کی روشنی میں جانچا پرکھا ہے، وہیں قریبی پیش روؤں کے خیالات سے بھی انحراف کرتے ہوئے غالب کی سوانح کے تعلق سے بعض اہم تحقیقات پیش کی ہیں۔ ’غالب کا سالِ ولادت‘، غالب کا سفرِ کلکتہ، غالب اور معارضۂ کلکتہ کی گتھیاں جس طرح دلائل و براہین کے ساتھ انھوں نے سلجھایا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے۔ غالب کی زندگی کے باب میں، یہ ایسے موضوعات ہیں جو ایک مدت سے ہمارے محققین کی دل چسپی کا محور و مرکز رہے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں جو نظریات قائم کئے گئے ہیں بہ قول نقوی ’’ان کی بنیاد کمزور ماخذ پر رکھی گئی ہے ‘‘۔ غالب کی پیدائش کے سلسلے میں عام طور پر محققین کی رائے ہے کی ان کی ولادت ۸؍رجب ۱۲۱۲ھ کو ہوئی لیکن نقوی صاحب نے اس پر اعتراض وارد کیا ہے اور غالب کی مختلف تحریروں، کتب اور خطوط کی روشنی میں جو غالب کی سالِ پیدائش متعین کی ہے اس کی رو سے غالب کی تاریخ و سنہ پیدائش ۸؍رجب ۱۲۰۸ھ مطابق 9 فروری 1794 قرار پاتا ہے۔ غالب کی ولادت سے متعلق یہ تحقیق، مالک رام ہی نہیں بلکہ تمام غالب شناسوں کے خیالات کو رد کرتی ہے۔ اسی طرح غالب کا سفرِ کلکتہ جو بہ قول حنیف نقوی ’’غالب کی زندگی کا اہم ترین واقعہ ہے ‘‘ کے متعلق تفصیلات ایک مدّت تک اطمینان بخش نہیں ملتی تھیں جس کی وجہ سے کلکتے کے سفر کی روداد پر بہت حد تک پردہ پڑا ہوا تھا۔ حنیف نقوی نے اس سفر سے متعلق معلومات، تحقیق کی بِنا پر اس طرح پیش کی ہیں کہ اس سفر کا مقصد، سفر کی منزلیں، مختلف مقامات پر ان کے قیام، اس کی مدت، لکھنؤ کی شعری و ادبی کار گذاریاں اور کلکتہ میں پیش آنے والے واقعات کی تفصیلات تاریخ وار واضح ہو گئی ہیں۔

حنیف نقوی نے معاصرینِ غالب، احبابِ غالب اور تلامذۂ غالب سے متعلق بڑی تعداد میں تحقیقی مقالات لکھے ہیں بعد کو انھیں تر میم و اضافے کے ساتھ اپنی کتابوں میں شامل بھی کیے۔ واقعہ یہ ہے کہ غالب کے ضمن میں جن افراد کو نقوی صاحب نے موضوع بنایا ہے، غالب کی شخصیت اور ان کے عہد کے مطالعے کے وقت اُن پر ہماری نظر ٹھہرتی ہے اور یہ افراد ہماری توجہ کے متقاضی بھی ہیں، اس لحاظ سے ان کی اہمیت مسلّم ہے۔ اردو میں منشی نول کشور نے بحیثیت اردو ناشر جو خدمات انجام دی ہیں وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں، تاہم غالب اور منشی جی کے تعلقات اور اس کی نوعیت سے متعلق علم، کم ہی لوگوں کو ہو گا۔ حنیف نقوی نے ان دونوں کے مراسم کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے یہ تحریر کیا ہے کہ جولائی 1860 میں منشی میاں داد نسّاخ کی وساطت سے ان دونوں کے درمیان براہِ راست روابط قائم ہوئے، اور 18 جولائی 1860 کو غالب نے پہلا خط نول کشور کو تحریر کیا تھا۔ بعد کو ان کے تعلقات مزید مستحکم ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ غالب کی بعض کتابیں مثلاً قاطعِ برہان، اور ’کلیاتِ نظمِ فارسی‘ نول کشور کے پریس سے اشاعت پذیر ہوئیں اور مرزا غالب کا نام مطبع اودھ اخبار کے حلقۂ مصنّفین میں شامل ہو گیا۔ غالب کے معاصر فضلِ حق خیر آبادی اور بعض فارسی تصانیف جیسے پنچ آہنگ، دستنبو، غالب کا روزنامچہ غدر وغیرہ کے سلسلے میں بھی یہی رویہّ اختیار کیا گیا ہے۔ ان تمام مسئلوں کو قیاس کی جگہ حقائق اور شواہد کی روشنی میں سلجھایا گیا ہے۔

یہاں غالب سے متعلق حنیف نقوی کی آخری کتاب ’غالب اور جہانِ غالب‘ غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سے شائع ہوئی اور جسے بجا طور پر غالبیات میں ایک اہم اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے، کا تذکرہ خصوصی طور پر کرنا اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ انتقال سے محض ایک روز قبل فون سے یہ حکم دیا تھا کہ اس پر ایک مضمون لکھنا ہے۔ کاش ان کی یہ خواہش میں زندگی میں پوری کر سکتا تو میرے لیے سعادت کی بات ہوتی۔ نقوی صاحب کی دوسری کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ان کے غالب سے متعلق متعدد مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین وقتاً فوقتاً ہند و پاک کے مقتدر ادبی جریدوں کی زینت بن چکے ہیں۔ غالب بقول نقوی ’’اپنے دور کے شاعروں اور ادیبوں میں سب سے زیادہ فعال اور متحرّک شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اپنے ہم خیال اور ہم مذاق لوگوں کو دوست بنانے اور معاشرے کے با اثر افراد سے راہ ورسم استوار کرنے کا زبردست ملکہ رکھتے تھے۔ اس معاملے میں ان کا کوئی ہمعصر، ان کا شریک و سہیم نہ تھا‘‘ غالب کی انہی صفات کے باعث ملک کے طول و عرض میں ان کے احباب، شناساؤں اور شاگردوں کا ایک بڑا حلقہ تیار ہو گیا تھا، جن سے غالب کے راہ و رسم تھے۔ غالب کے مطالعے کے سلسلے میں ان شخصیات کا مطالعہ اس لےا بھی نا گزیر ہو جاتا ہے کہ ان کے بغیر غالب کی رودادِ حیات مکمل نہیں ہوتی اس لحاظ سے حنیف نقوی کی متذکرہ کتاب کی اہمیت تفہیمِ غالب کے سلسلے میں دوچند ہو جاتی ہے۔ ان مضامین میں پہلا مضمون بعنوان ’غالب کی مہریں ‘ اس لحاظ سے مختلف نوعیت کا ہے کہ اس کا تعلق اشخاص کے بجائے اشیا سے ہے۔ ’غالب کی مہریں ‘ بہ ظاہر ایک عام عنوان لگتا ہے تاہم نقوی صاحب نے نہ صرف غالب کی تمام مہروں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے بلکہ ار دو کے معتبر محقق اور ماہرِ غالبیات مالک رام نے مہروں کے حوالے سے غالب کی نفسیات کو سمجھنے کی جو کوشش کی تھی اور بعض دل چسپ نکتے نکالے تھے، ان کے اخذ کردہ بعض نتائج کو بھی رد کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر غالب کی مہروں کے تعلق سے مالک رام نے جو معروضات پیش کیے ہیں ان سے نقوی صاحب مطمئن نہیں۔ مالک رام کی پیش کردہ مختلف توضیحات کی روشنی میں ان مہروں کا ازسرِ نو جائزہ لیا ہے۔ واضح رہے کہ غالب کی بعض مہروں پر ’محمد اسداللہ ‘ یا ’اسدللہ‘ لکھا ہوا ملتا ہے۔ نام کی اس تبدیلی کو مالک رام نے غالب کے عقیدے میں در آئے بدلاؤ کا ثمرہ قرار دیا ہے۔ لیکن حنیف نقوی نے مختلف دلائل کی روشنی میں مالک رام کی توضیحات کو رد کر دیا ہے اور انھوں نے جو جواز پیش کیے ہیں وہ زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتے ہیں، اس لیے کہ غالب نے اپنی خود نوشت تحریروں، سرکاری مراسلوں اور عرض داشتوں میں کبھی ’اسداللہ خاں ‘کہیں ’محمد اسداللہ ‘ اور کہیں ’اسداللہ ‘ لکھا ہے۔ اس بنیاد پر نقوی صاحب کا خیال ہے کہ اس معاملے میں وہ کسی طے شدہ ضابطے کے پابند نہیں تھے۔ دوسری اور تیسری صورتوں میں اصل نام ’اسداللہ‘ کے ساتھ لفظِ محمد کے اضافے کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے رشتے کے ایک سالے کے بیٹے کا نام بھی ’اسداللہ‘ تھا اور ان کی مہر پر یہی نام کندہ تھا۔ چوں کہ غالب اپنے تشخص کے سلسلے میں خاصے حساس تھے، اس لیے عین ممکن ہے کہ انھوں نے اپنے اور برادرِ نسبتی کے درمیان امتیاز کی غرض سے اپنی مہر پر ’محمد اسد اللہ‘ کندہ کرا لیا ہو۔ ان دلائل و براہین کے بعد نقوی صاحب اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’یہ مہر نہ تو مذہبی نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتی ہے اور نہ ہی کسی ’داخلی اور ذہنی انقلاب‘ کی آئینہ دار اور نہ اخلاقی سطح پر کسی ’قلبِ ماہیت‘ کی نشاندہی کرتی ہے ‘‘ بہ ظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ بہ طور خاص سرکاری کاغذات پر ثبت کرنے کے لیے تیار کرائی گئی تھی۔ لیکن مالک رام کے اس بنیادی موقف کا اعتراف کرتے ہیں جس کے مطابق ’’یہ مہریں اپنا ایک نفسیاتی، مذہبی یا تاریخی پس منظر رکھتی ہیں اور غالب کی پُر پیچ شخصیت اور ذہن و مزاج کی تفہیم میں دوسرے خارجی وسائل کے ساتھ ان مہروں کا کردار بھی مناسب توجہ کا مستحق ہے ‘‘۔

بعد کے مضامین مثلاً ’غالب اور علامہ فضلِ حق‘، حکیم احسان اللہ خاں اور غالب‘، مرزا عاشور بیگ، مرزا خداداد بیگ، سبحان علی، مولوی خلیل الدین خاں، منشی عاشق علی خاں، نواب میر جعفر علی، حکیم سید احمد حسن مودودی، ارشاد حسین خاں اور شیخ اکرام الدین وغیرہ جیسے مضامین غالب کے احباب کی شخصیت اور غالب سے ان کے تعلقات پر مبنی ہیں جب کہ ’’ولایت علی خاں ولایت و عزیز صفی پوری‘‘ کا تعلق غالب کے شاگردوں سے ہے۔ ان مضامین کے مطالعے سے نہ صرف غالب سے ان کے تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ ان ادبی شخصیات کی زندگی، ان کے کارنامے ان کی علمی و ادبی فتوحات کے پہلو بہ پہلو اس عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی حالات سے ہم بخوبی واقف ہوتے ہیں۔

حنیف نقوی نے تحقیق کی مبادیات اور اس کے اطلاق سے بھی دل چسپی لی ہے، ہر چند کہ اردو کے اہم محققین مثلاً قاضی عبدالودود، امتیاز علی خاں عرشی، مالک رام، گیان چند جین اور رشید حسن خاں وغیرہ کی اس ضمن میں کوششیں بے حد اہم ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نقوی صاحب اردو میں مبادیاتِ تحقیق کے تعلق سے پیش کردہ تصورات کے مویّد ہونے کے باوجود جدید تقاضوں کے تحت اس کے دائرۂ کار میں وسعت چاہتے ہیں۔ نیز جامعات اور دانش گاہوں میں تدریسِ متن اور تحقیق و تدوین سے مطمئن نہیں۔ ان کی کتاب ’تحقیق و تدوین: مسائل اور مباحث‘ کے مضامین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حنیف نقوی تحقیق کو حقائق کی بازیافت، تاریخ کی بھولی بسری سچائیوں کو از سرِ نو منظم و مربوط کرنے کے علاوہ تہذیبی تشخص کے عرفان کا بھی ایک اہم ذریعہ تصور کرتے ہیں، جس کے بغیر نہ علوم و فنون کا کارواں نئی جہتوں سے آشنا ہو سکتا ہے اور نہ نئے آفاق سے روشناس ہونا ممکن ہے۔ اردو کی حد تک تحقیق کے سیاق میں یہ خیال بالکل نیا اور عصری تقاضوں کا زائیدہ کہا جا سکتا ہے، اس لیے کہ حنیف نقوی تحقیق کا رشتہ محض ادب کی بجائے زندگی فہمی، فن اور تہذیب کی قدر شناسی اور شعورِ حیات کے ادراک سے جوڑتے ہیں۔ اور یہی فہم و بصیرت ہماری زندگی کو خوب سے خوب تر کرنے میں ممد و معاون ہوتی ہیں اور تحقیق کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔

بہر حال حنیف نقوی ہمارے عہد کے ممتاز اور معتبر محقق تھے جنھوں نے ایک طرف اردو تحقیق میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے تو دوسری طرف اردو تحقیق سے شغف رکھنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت بھی کی ہے۔ اس لحاظ سے ان کی علمی و ادبی خدمات اردو تحقیق اور ہماری نئی نسل کے لیے قیمتی اثاثے کا حکم رکھتی ہیں۔

———————-

ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی۔ شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی، وارانسی

٭٭٭

 

پروفیسر حنیف نقوی کی تحریروں کا اشاریہ

 

                شمس بدایونی

 

[یہ اشاریہ ڈاکٹر شمس بدایونی نے اپنی کتاب ’حنیف نقوی کی ابتدائی تحریریں ‘ کے لیے تیار کیا تھا جو عنقریب شائع ہو گی۔ انھوں نے از راہِ کرم اپنی کتاب کی اشاعت سے پہلے یہ اشاریہ ہمیں عنایت کیا جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ (ادارہ)]

ادبی تحقیق بالخصوص شعرائے اردو و فارسی کے تذکروں، غالب اور متعلقاتِ غالب پر مشتمل تحقیق، پروفیسر حنیف نقوی (ف22دسمبر2012) کے تذکرے کے بغیر نامکمل رہے گی۔ وہ محمود شیرانی (ف1946) قاضی عبد الودود (ف 1984) اور مولانا امتیاز علی خاں عرشی (ف 1981) کی طرح نظریہ ساز محقق نہیں تھے، لیکن روایت ساز تھے اور بعض صورتوں میں وہ اپنے ان پیش رو بزرگوں سے زیادہ صاحبِ نظر اور صاحب علم و خبر محسوس ہوتے ہیں۔ وہ بیش بہا حوالے ڈھونڈنے، نامکمل معلومات کو مکمل کرنے، نادر و کمیاب مصادر کی تلاش، تخریج و تعلیقات، متن کے بین السطور پوشیدہ داخلی شواہد کی دریافت میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ ان کے تحقیقی شواہد و نتائج نے تحقیق کے بعض مفروضات پر کاری ضرب لگائی، شاید انہی خوبیوں کی بدولت وہ قاضی عبدالودود کی طرح محققوں کے محقق بن کر ابھرے۔

حنیف نقوی نے 1955کے اواخر میں قلم سے رشتہ استوار کیا۔ (ارمغان علمی ص۔ 445)، انھوں نے پہلا مضمون کب اور کس عنوان سے لکھا ؟ اور ان کی پہلی تحریر کس رسالے میں شائع ہوئی ؟ اس سلسلے میں ان کے دو بیانات ملتے ہیں۔ ان کے پہلے بیان (خود نوشت حالات)کے بہ موجب انھوں نے پہلا مضمون بہ عنوان ’خطوطِ غالب کی نفسیات‘ مطبوعہ ’شاعر‘ بمبئی فروری1956لکھا اور یہ ان کی اوّلین مطبوعہ تحریر بھی تھی۔ (شاعر ہم عصر اردو ادب نمبر 1997، ص248) لیکن 1992 میں مرحوم سعادت علی صدیقی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے ’حالی اور اردو ادب‘ عنوان سے لکھے جانے والے مضمون کو اپنی پہلی تحریری کاوش قرار دیا اور اشاعت کے لحاظ سے ’خطوطِ غالب کی نفسیات‘ کو اولین مطبوعہ تحریر لکھا۔ (ارمغانِ علمی، ص:445)، چوں کہ یہ دونوں بیانات محض حافظے کی بنیاد پر قلم بند کیے گئے تھے، اس لیے ان میں پیش کردہ اطلاعات فی نفسہ درست نہیں۔ اس سلسلے کی توضیح سطورِ آئندہ میں پیش کی جائے گی، لیکن ڈاکٹر حسن عباس نے ’ارمغانِ علمی‘ میں ان اشاعتوں سے پیشتر کا بھی ایک اندراج دیا ہے۔ یہ اندراج بایں طور مشکوک ہو گیا ہے کہ اس میں غالب اور اقبال پر مضامین کی اشاعت کے دو یکساں حوالے ملتے ہیں :

٭     اقبال ایک مصلح : ماہنامہ، جمہوریت، کراچی، دسمبر، 1955، صفحات: 23 تا 26

٭     غالب خطوط کے آئینے میں : ماہنامہ، جمہوریت، کراچی، دسمبر1955، صفحات : 23تا 26

حنیف نقوی کے فراہم کردہ بایوڈیٹا (Bio-Data) میں مذکورہ بالا مضامین کا اندراج اس طرح ہے :

٭     اقبال ایک مصلح، ماہنامہ جمہوریت، کراچی، فروری 1956

٭     خطوطِ غالب کی نفسیات، ماہنامہ، شاعر، ممبئی، مارچ 1956

’’غالب – خطوط کے آئینے میں ‘‘ عنوان کا اس بایو ڈیٹا میں اندراج ہی نہیں۔

راقم الحروف جن دنوں ’غالب اور بدایوں ‘ کی تالیف کر رہا تھا، اس نے حنیف نقوی سے غالب پر اُن کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحریروں (معلوم کتب و مقالات کے علاوہ ) کی فہرست طلب کی تھی۔ انھوں نے فل اس کیپ سائز کے کاغذ پر ایک فہرست بھیجی تھی۔ راقم الحروف نے اپنی کتاب ’غالب اور بدایوں ‘ (ناشر : غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، 2010) میں حنیف نقوی کی فراہم کردہ فہرست ہی سے اندراج کیا، جس کے مطابق ’خطوطِ غالب کی نفسیات‘ مضمون ’شاعر‘ فروری(صحیح: مارچ) 1956 میں اور ڈاکٹر حسن عباس کا درج کردہ عنوان ’غالب خطوط کے آئینے میں ‘ ماہنامہ ’معیار‘ میرٹھ، مارچ1956 میں شائع ہوا۔

جناب تسلیم غوری (بدایوں) نے مجھے حنیف نقوی کے ایک مضمون بہ عنوان ’مثنوی گلزارِ نسیم‘ مطبوعہ ماہنامہ ’مومن‘ بدایوں، جنوری 1956 کا عکس بھیجا ہے جو ’خطوطِ غالب کی نفسیات‘ (صحیح: غالب کے خطوط کی نفسیات) سے دو ماہ پیشتر شائع ہوا تھا۔ لہٰذا جب تک حسن عباس کے پیش کردہ اندراج کی صحت کا ثبوت فراہم نہیں ہو جاتا، تب تک اسی مضمون یعنی ’مثنوی گلزارِ نسیم‘ کو ان کی پہلی تحریری کاوش اور پہلی مطبوعہ تحریر کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ حنیف نقوی کے مذکورہ بالا بیان جس میں انھوں نے شاعر فروری (صحیح : مارچ) 1956 میں شائع شدہ مضمون کو پہلی مطبوعہ تحریر قرار دیا ہے، سہوِ حافظہ پر محمول کرنا چاہیے۔

یہاں یہ بتا دینا بھی مناسب ہو گا کہ حنیف نقوی کا تحریر کردہ آخری مقالہ بہ عنوان ’پروفیسر ابو محمد سحر بہ حیثیت غالب شناس‘ بھوپال میں پروفیسر سحر پر منعقدہ سمینار 22,23 دسمبر2012 میں ان کے شاگردِ رشید پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے پیش کیا۔ یہ مقالہ اس سمینار میں پڑھے گئے مقالات کے مجموعے ’یاد گارِ سحر‘ میں شامل ہو کر شائع ہو چکا ہے۔

حنیف نقوی نے اوائل 1956 سے اواخر 2012تک کامل 57 سال کی مدّت میں جن موضوعات و عنوانات کے تحت تصانیف و مقالات لکھے، راقم الحروف کی نظر میں ان کی موضوعاتی تقسیم کچھ اس طرح سے ہو گی:

.1     شعرائے اردو و فارسی کے تذکرے اور تذکرہ نگار۔

.2     مرزا غالب اور غالبیات۔

.3     معروف و غیر معروف ادبی شخصیات کی حیات و خدمات (یعنی تنقیدی مضامین و سوانحی تحقیق )۔

.4     اصول اور متعلقات تحقیق و تدوین۔

.5     متفرق موضوعات پر بعض فرمائشی مضامین اور چند علمی مقالے۔

حنیف نقوی نے پروفیسر آل احمد سرور اور مرزا حسن عسکری کی طرح مستقل تصانیف کے بجائے کثرت سے مضامین و مقالات لکھے۔ انھوں نے ایک موضوع پر مشتمل مقالات کو مرتب کر کے کتابی صورت میں طبع بھی کرا دیا، جس کے سبب ان مقالات سے استفادے کا دائرہ وسیع ہو گیا اور وہ کسی ایک موضوع پر تالیف کی صورت میں مدّتوں کام آتے رہیں گے۔ ان کی مطبوعہ کتب کی تقسیم کی صورت یہ ہو گی:

.1 تصنیفات، .2 ترتیب و تدوین، .3 مجموعۂ مقالات

پیشِ نظر اشاریے کو مذکورہ بالا تقسیم کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ اشاریے میں کسی بھی کتاب اور مقالے کی پہلی اشاعت کو اوّلیت دی ہے۔ مقالات کا دوبارہ کسی کتاب یا رسالے میں شائع ہونا یا مصنف کے مجموعۂ مضامین میں شامل ہونے کے حوالے کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔ ایسی صورت میں اشاعتِ ثانی یا ثالث کا اندراج اشاعتِ اوّل کے بعد زمانی ترتیب سے کر دیا گیا ہے، خواہ سالِ اشاعت میں فصل رہا ہو۔ اس طور مصنف کے ایک مقالے کی متعدد اشاعتوں سے واقفیت کے ساتھ ہی مقالات کے تبدیل شدہ عنوانات اور ان کی صحیح تعداد کا علم بھی ہو سکے گا۔

یہاں اس امر کا اظہار کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ 2010 عیسوی میں ڈاکٹر سید حسن عباس (بنارس) نے ’ارمغانِ علمی‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب حنیف نقوی کی حیات و خدمات پر مرتّب کر کے ان کی نذر کی تھی۔ اس کتاب میں ’شناس نامہ ‘ عنوان کے تحت انھوں نے حنیف نقوی کی مطبوعہ کتب و مقالات کی فہرست بھی دی ہے۔ زیر نظر اشاریے کی ترتیب کے دوران یہ فہرست میرے پیشِ نظر رہی ہے۔ اس فہرست میں بعض مقالات کے اندراج مکرّر ہیں اور بعض کے عنوانات مطبوعہ صورت سے مختلف ہیں، انھیں مطبوعہ عنوان کے مطابق کر دیا گیا ہے۔ یہ عنوانات تمام تر مصنف یعنی حنیف نقوی کے تبدیل کردہ ہیں۔ اپنی مرتّبہ انگریزی فہرست میں بھی انھوں نے اس بدلی ہوئی صورت کو برقرار رکھا ہے۔ لہٰذا اس کا تعلق مرتبِ ’ارمغانِ علمی‘ یعنی ڈاکٹر حسن عباس سے مطلق نہیں ہے۔ ایسے تمام عنوانات کی نشاندہی حواشی میں کر دی گئی ہے۔

جن دنوں میں ’غالب اور بدایوں ‘ کی تالیف میں مشغول تھا، میری طلب پر انھوں نے اپنا بائیو ڈیٹا بہ زبانِ انگریزی مجھے بھیجا تھا۔ یہ بائیو ڈیٹا غالباً جنوری 2006 میں کسی سرکاری انعام کمیٹی کی فرمائش پر تیار کیا گیا تھا۔ اس میں ان کی مطبوعہ کتابوں اور مقالوں کی زمانی فہرست بھی ہے، جس میں دسمبر2005 تک کے اندراجات ہیں۔

راقم الحروف نے دسمبر 2005 کے بعد سے جولائی2015 کے درمیان شائع ہونے والی ان کی کتابوں اور مقالوں کا اشاریے میں اضافہ کر دیا ہے۔ انگریزی فہرست میں بعض جگہ مقالات کے عنوان مخفّف کر کے لکھے گئے ہیں انھیں اصل عنوان کے مطابق کر دیا ہے۔ اس زمانی فہرست سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فروری 1970 سے مارچ 1976 تک کُل چھ سال ایک ماہ وہ رسائل کی دنیا سے دور رہے۔ یعنی اس درمیان ان کا کوئی مقالہ یا مضمون کسی ادبی رسالے میں شائع نہیں ہوا تھا۔

جن رسائل کے اشاریے مطبوعہ موجود ہیں، ان سے بھی اس فہرست کے اندراجات کی تطبیق کر کے جزوی ترمیم و اصلاح کر لی گئی ہے۔ ’غالب اور بدایوں ‘ میں غالبیات سے متعلق نقل کردہ اشاریے کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔ غرض کہ اس اشاریے کو بہر صورت صحیح خطوط پر مرتب کرنے اور زیادہ سے زیادہ مفیدِ مطلب بنانے کی سعی کی گئی ہے۔

حنیف نقوی نے بعض شخصیات پر متعدّد مقالات لکھے ہیں۔ ان کا علاحدہ علاحدہ اندراج کیا ہے، لیکن بعض مطبوعہ مقالوں پر لگاتار اضافے اور نظر ثانی کی ہے اور نئے سرے سے انھیں شائع بھی کرایا ہے۔ ایسی تحریروں کا اندراج کرتے ہوئے تمام مقالوں کو پہلی اشاعت کے تحت ہی شمار کیا ہے۔

سطورِ گزشتہ میں جن شقوں کے تحت حنیف نقوی کے مقالات کی تقسیم کی گئی ہے، ہر شق کے تحت شامل مقالات کی مجموعی تعداد اور اس تعداد میں سے کتنے مقالات مصنف کے اپنے مرتبہ مجموعۂ مقالات میں شامل ہو چکے ہیں، حسب ذیل جدول سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے :

حنیف نقوی نے اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق کل ۱۶۰ مضامین و مقالات لکھے ہیں۔ ۱؎ 85 ان کے مرتبہ مجموعۂ مقالات میں شامل ہو چکے ہیں۔ (160-85=75) 75 مقالات میں سے دو مقالات کتابی شکل اختیار کر گئے اور دو ’’حیات العلما‘‘ میں شامل ہوئے اور ایک ’’تذکرہ شعرائے سہسوان‘‘ کا مقدمہ بنا۔ اس طور (75-5=70) مضامین و مقالات کو مرتب و شائع کرنے کی سعی و تدبیر کی جانی چاہیے۔ (اس تعداد میں دیباچے اور مکتوبات شامل نہیں ہیں )۔

اس سلسلے کی خوش آیند بات یہ ہے کہ حنیف نقوی کے مضامین و مقالات کے حسب ذیل مجموعے منتظرِ اشاعت ہیں :

1۔     حنیف نقوی کے ابتدائی مضامین، مرتبہ شمس بدایونی، 17مضامین

2۔     غالب کے فارسی خطوط، مرتبہ حنیف نقوی، 9مقالات

3۔     تذکرے اور تبصرے، مرتبہ حنیف نقوی، 14مضامین، کل تعداد40

(70-40=30) اب صرف تیس مضامین کی ترتیب و اشاعت کی طرف توجہ دینا ہو گی۔

حنیف نقوی نے اپنے ہم عصر مصنّفین کی کتابوں پر مقدمے، پیش لفظ، دیباچے وغیرہ عام طور پر نہیں لکھے۔ اِس بدعت سے انھوں نے خود کو بہت دور رکھا، تاہم بعض دوستوں اور خرُدوں کے اصرار پر انھوں نے جو تحریریں لکھیں انھیں پانچویں شق متفرقات کے تحت آخر میں شامل کر لیا گیا ہے۔ کسی علمی مسئلے پر طویل قسم کے چند خطوط بھی دستیاب ہیں ان کی نشان دہی بھی متفرقات کے تحت ہی کر دی گئی ہے۔

مجھے امید ہے کہ حنیف نقوی کی تحریروں پر مشتمل یہ اشاریہ آیندہ توضیحی اشاریے کی صورت میں مرتب کیا جائے گا۔

 

تصنیفات

 

.1     شعرائے اردو کے تذکرے /ناشر: نسیم بک ڈپو، لکھنؤ، طبع اول 1976۔ صفحات:898، (نکات الشعرا سے گلشنِ بے خار تک)، بار دگر/ناشر:اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، طبع دوم، 1998 ص:740

.2            رائے بینی نرائن دہلوی(سوانح اور ادبی خدمات)/ناشر:انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی، طبع اول 1997، صفحات :130

٭     ترتیب و تدوین :

.3     انتخاب کربل کتھا (مع مقدمہ و فرہنگ) /ناشر: اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، طبع اول، 1983، ص:104

انتخاب کربل کتھا (مع مقدمہ و فرہنگ)/ ناشر: اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، طبع دوم، 1991، ص:104

انتخاب کربل کتھا (مع مقدمہ و فرہنگ) /ناشر : اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، طبع سوم، 2003، ص:104

انتخاب کربل کتھا (مع مقدمہ و فرہنگ ) /ناشر: اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، طبع چہارم، 2007، صفحات :104

.4     انتخاب کلام رجب علی بیگ سرور / ناشر : اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، طبع اول، 1988، صفحات :96

.5    مآثرِ غالب (تصحیح و ترتیبِ جدید) / ناشر : ادارہ تحقیقات اردو پٹنہ، طبع دوم، 1995، صفحات: 120

بارِ دگر (تصحیح و ترتیب جدید ) / ناشر : ادارہ یادگارِ غالب کراچی، بار سوم 2000، صفحات: 256(بہ اضافہ اردو ترجمہ خطوط فارسی از پر تو روہیلہ)

.6     مرزا غالب کے پنج آہنگ کا قدیم ترین خطی نسخہ (عکسی اڈیشن) خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ، طبع اول، 1997، صفحات:144

.7            دیوانِ ناسخ (عکسی اڈیشن) نسخۂ بنارس /خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ، طبع اول، 1997،ص :193

.8            حیات العلما (ترتیب و تدوینِ جدید) (یعنی تذکرۂ علمائے سہسوان مؤلف سید محمد عبد الباقی سہسوانی)، قومی اردو کونسل، دہلی، طبع دوم، 2010، صفحات :237

.9     تذکرۂ شعرائے سہسوان (مؤلف : حکیم سید اعجاز احمد معجز سہسوانی )، مطبوعہ : اسکرین پلے وارانسی، طبع اول 2010، صفحات: 200

٭     مجموعۂ مقالات :

.10   تلاش و تعارف (7مقالات)/ ناشر: نصرت پبلشرس، لکھنؤ، طبع اول، 1987، صفحات :280

.11   غالب احوال و آثار (7مقالات) /ناشر : نصرت پبلشرس، لکھنؤ، طبعِ اول، 1990، صفحات: 234

بار دگر (10مقالات)، غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، طبعِ دوم، 2007، صفحات:320

.12 رجب علی بیگ سرور۔ چند تحقیقی مباحث (4مقالات) /انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی، طبعِ اول1991، صفحات:108

.13 میر و مصحفی (6 مقالات) /بھارت آفسیٹ، دہلی، طبع اول، 2003، صفحات:156

.14 غالب کی چند فارسی تصانیف (9 مقالات)/غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی، طبع اول، 2005، صفحات: 154

.15 غالب کی فارسی مکتوب نگاری (نظام یادگاری خطبہ) /شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی دہلی، طبعِ اول، 2008، صفحات : 40

.16تحقیق و تدوین۔ مسائل اور مباحث (14مضامین) /اسکرین پلے وارانسی، طبعِ اول، 2010، صفحات:248

.17   غالب اور جہانِ غالب (15مضامین و مقالات)/غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی طبعِ اول، 2012، صفحات:264

.18تحقیق و تعارف (۲۰ مضامین و مقالات)/ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، اول 2013 صفحات: 288

 

غیر مطبوعہ کتب۲؎

 

.1     تقویمِ غالب : غالب کی زندگی کے واقعات، خصوصاً ان کے اردو و فارسی خطوط کی ہجری سنوں سے تطبیق میں تقویم کے تخمینی حساب سے ایک دو دن کا فرق واقع ہو جاتا ہے۔ اس فرق کو رفع کرنے لیے غالب اور ان کے معاصرین کی تحریروں کی مدد سے ان کے زمانۂ حیات میں وقوع پذیر واقعات و امور کی طے شدہ یا معیّن تاریخوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک تقویم مرتب کی تھی، جس کا پہلا حوالہ مآثرِ غالب، طبع دوم (ص:107)، کی فہرستِ مآخذ میں تیرہویں نمبر پر بایں طور پر آیا ہے : تقویم غالب از حنیف نقوی (غیر مطبوعہ)۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کتاب نے مسوّدے کی شکل اختیار کر لی تھی البتہّ مبیّضے کی شکل اختیار نہ کر سکی۔ فی الوقت اس کا مسوّدہ ان کے شاگرد ظفر احمد صدیقی کے پاس محفوظ ہے۔

.2     مولوی مہیش پرشاد بہ حیثیت غالب شناس۔ (سوانح، غالب سے متعلق مضامین اور خطوطِ غالب کا جائزہ): یہ کتاب پروفیسر ظفر احمد صدیقی (علی گڑھ) کے بہ قول : نوٹس کی صورت میں ہے، مسوّدے کی شکل اختیار نہیں کر سکی۔ اس کا اوّلین حوالہ راقم الحروف کی کتاب ’غالب اور بدایوں ‘ (ص:286)، میں آیا ہے، جو نقوی صاحب کی ارسال کردہ فہرستِ کتب و مقالات کی بنیاد پر تھا۔ وفات سے پیشتر یہ تمام مواد انھوں نے ظفر صاحب کو سونپ دیا تھا کہ وہ اِسے بہ وقتِ فرصت مرتّب کریں۔ ظفر احمد صدیقی نے 16فروری 2013 کوبنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کی جانب سے منعقدہ مولوی مہیش پرشاد توسیعی خطبے میں اس کا اظہار کیا۔

.3     باقیاتِ نوا : ظہور اللہ خاں نوا بدایونی (ف 1830) کے اردو کلام کا مجموعہ، مفصّل تعارفی مقدمے کے ساتھ۔ اس کتاب کا ذکر ڈاکٹر سعادت علی صدیقی (ف1992) کو دیے گئے ایک تحریری انٹرویو میں آیا ہے۔ (ارمغانِ علمی، ص: 446) اس انٹرویو میں خدا بخش لائبریری، پٹنہ سے مستقبل میں شائع ہونے والی کتابوں کے نام کے ساتھ اس کا نام بھی تھا۔ تین کتابیں : پنج آہنگ، دیوانِ ناسخ، مآثرِ غالب، خدا بخش کی جانب سے طبع ہو گئیں، ’باقیاتِ نوا‘ غیر مطبوعہ رہی۔

.4     تذکرے اور تبصرے : یہ مجموعۂ مضامین کمپوز کیا ہوا نقوی کے اہلِ خانہ کے پاس محفوظ تھا۔ یہ اشاعت کے مراحل میں تھا کہ وقتِ موعود آ پہنچا۔ اس میں تذکروں پر8 مضامین اور 6 تبصرے یکجا کیے گئے ہیں۔ دو طویل خط بھی تبصروں کے ضمن میں شامل کر لیے گئے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل ایک مضمون بہ عنوان ’خم خانۂ جاوید‘ (تاریخِ تصنیف یکم ستمبر 2012) اور دو خط بہ سلسلہ کتب میری معلومات کے مطابق غیر مطبوعہ ہیں۔ فی الوقت کتاب کا مسوّدہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی تحویل میں ہے۔

.5     غالب کے فارسی خطوط: ظفر احمد صدیقی نے اطلاع دی کہ نقوی مرحوم نے ایک فائل پر مذکورہ عنوان لکھ کر اس کے اندر 9 مضامین رکھ دیے تھے۔ غالباً فارسی خطوط سے متعلق تحریر کردہ ان مضامین کو کتابی شکل میں مرتّب کرنے کا ارادہ رہا ہو گا۔ یہ فائل ظفر صاحب کی تحویل میں تھی جو غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کو سونپ دی گئی ہے۔ امید ہے کہ اس کے مضامین اسی عنوان سے جلد شائع ہوں گے۔ اس فائل سے بھی دو غیر مطبوعہ مقالوں کا علم ہوا۔

 

مقالات

 

شعرائے اردو فارسی کے تذکرے اور تذکرہ نگار (یعنی تذکراتی تحقیق) :

.1            نکات الشعرا/ماہنامہ : آجکل، دہلی، جولائی 1962

.2            اردو کے چند شعرا، تذکرۂ سروِ آزاد کی روشنی میں، ۳؎ ماہنامہ نیا دور، لکھنؤ، جولائی، 1962

.3     عمدۂ منتخبہ /سہ ماہی اردو ادب، علی گڑھ، شمارہ:2، 1964

.4     گلزارِ ابراہیم اور گلشنِ ہند/ماہنامہ نگار، کراچی، ستمبر1964

.5     تذکرۂ بزم سخن/ماہنامہ نوائے سیفیہ، بھوپال، دسمبر /1964

.6     گلشنِ بے خار، سہ ماہی اردو ادب، علی گڑھ، شمارہ:1، 1965

.7            دستورا لفصاحت اور شعرائے اردو۴؎ /ماہنامہ نگار، کراچی، دسمبر1965 سہ ماہی فکرو تحقیق، دہلی، جنوری تا مارچ 2010

.8            نکات الشعرا کی ایک اور روایت’ ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ علی گڑھ، 22تا 28مارچ، 1968

.9     تذکرۂ ہندی، سہ ماہی اردو ادب علی گڑھ، شمارہ:4، 1968

.10 ریاض الفصحا، سہ ماہی اردو ادب علی گڑھ، شمارہ:2، 1969

.11 ریاضِ حسنی/ماہنامہ نیا دور، لکھنؤ، جنوری 1970

.12 منشی احمد حسین سحر، نیا دور، لکھنؤ، نومبر1976باردگر، مشمولہ : تلاش و تعارف، ص:36 تا 64

.13 میر کے دیوانِ سوم کا ایک نادر قلمی نسخہ /نیا دور، لکھنؤ، فروری1978

بار دگر/ماہنامہ نقوش (میر نمبر جلد سوم)، لاہور، اگست1983 مشمولہ: میر و مصحفی، ص: 9 تا 35

.14 مرزا کلب حسین خاں نادر /نیا دور، لکھنؤ، ستمبر، 1982 مشمولہ :تلاش و تعارف، ص: 65 تا 96

.15 نکات الشعرا کے مختلف خطی نسخے /نقوش میر نمبر جلد سوم، لاہور اگست 1983 مشمولہ : میر و مصحفی، ص:36 تا 72

.16 مرزا دبیر، شعرائے اردو کے تذکروں میں /نیا دور لکھنؤ، اگست 1987 مشمولہ: تحقیق و تعارف، ص: 121تا 143

.17 تذکرۂ شعرائے سہسوان۔ ایک تعارف۵؎ /رضا لائبریری جرنل، رامپور، شمارہ:4,5، 1999 مشمولہ: تذکرہ شعرائے سہسوان، مطبوعہ 2010

.18 میر اور انعام اللہ خاں یقیں /شش ماہی غالب نامہ، دہلی، جولائی2000، مشمولہ: میر، تنقیدی و تحقیقی جائزے، ص:321تا 331، ناشر : غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، 2000مشمولہ : میر و مصحفی، ص:73 تا 82

.19 مصحفی سے منسوب دو تذکرے / نیا دور لکھنؤ، مئی جون، 2002، رضا لائبریری جرنل، رامپور، شمارہ :8-9، 2002، مشمولہ : ارمغانِ شیرانی لاہور2008، ص:177 تا196، مشمولہ : میر و مصحفی، ص:107 تا 127

.20 عقدِ ثریا /غالب نامہ، دہلی، جنوری 2005، فکرو تحقیق، دہلی، جنوری، مارچ، 2005، مشمولہ : غلام ہمدانی مصحفی۔ تحقیقی و تنقیدی جائزے، ص:73تا 92، غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، 2005

.21 کچھ مخزنِ نکات کے بارے میں / مشمولہ : قائم چاند پوری۔ حیات و خدمات، ص:42تا 52، غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی، 2011

.22 تذکرۂ بے جگر کا مؤلف خیراتی لعل بے جگر/نیا دور لکھنؤ، اگست، 2012

.23 تذکرۂ مسرور /آجکل، دہلی، مارچ 2013

.24 خم خانۂ جاوید، مشمولہ ’تذکرے اور تبصرے ‘ (قلمی مجموعۂ مضامین، مملوکہ ظفر احمد صدیقی علی گڑھ) غیر مطبوعہ مضمون

 

غالب اور غالبیات

 

.1            غالب، خطوط کے آئینے میں ۶؎ ماہنامہ معیار، میرٹھ، مارچ 1956

غالب کے خطوط کی نفسیات۷؎ ماہنامہ شاعر، ممبئی، مارچ1956

.2            غالب کے ایک باکمال شاگرد، ولایت علی خاں ولایت /ماہنامہ آجکل دہلی، اپریل1963شاگردِ غالب، ولایت علی خاں ولایت و عزیز صفی پوری/دو ماہی اکادمی، لکھنؤ، ستمبر، اکتوبر1981، ولایت علی خاں ولایت و عزیز صفی پوری/ مشمولہ تلاش و تعارف، ص۔ 182تا 231۔

شاگردِ غالب، ولایت علی خاں ولایت و عزیز صفی پوری/مشمولہ غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 108, تا152

.3 منشی نول کشور اور غالب /نیا دور (نول کشور نمبر)، لکھنؤ، نومبر، دسمبر 1980

مشمولہ: غالب احوال و آثار، طبع اول، ص۔ 99تا 151طبعِ دوم: ص۔ 147تا 198

.4 غالب سے منسوب ایک شعر /آجکل، دہلی، ستمبر 1980

مشمولہ: غالب احوال و آثار، طبعِ اول، ص: 152 تا 159 طبعِ دوم ص: 209تا 217

.5 غالب کا سفرِ کلکتہ / شش ماہی غالب نامہ، دہلی، جنوری1981

استدراک /غالب نامہ، دہلی، جولائی 1981

غالب کا سفرِ کلکتہ /مشمولہ: تحقیقات (پروفیسر نذیر احمد)، ص:38,63

غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، 1997، غالب احوال و آثار، طبعِ اول، ص: 57تا 87

غالب احوال و آثار، طبعِ دوم،ص 60-89

.6 غالب کی ایک غزل اور مرزا یوسف / آجکل، دہلی، جولائی، 1982

مشمولہ : غالب احوال و آثار، طبعِ اول، ص۔ 88-98

مشمولہ : غالب احوال و آثار، طبعِ دوم، ص۔ 199, 208

.7 غالب کے دو شعر / روزنامہ، قومی آواز، لکھنؤ، 20جنوری، 1983

.8 تلامذۂ غالب پر ایک نظر / دو ماہی اکادمی، لکھنؤ، جنوری، فروری 1983

مشمولہ: غالب احوال و آثار، طبعِ اول، ص۔ 160, 204

مشمولہ : غالب احوال و آثار، طبعِ دوم، ص۔ 218-265

.9 غالب کا سالِ ولادت /غالب نامہ، دہلی، جنوری، 1985 مشمولہ: غالب احوال و آثار، اول: 17 تا 56، دوم:21 تا 59

.10 غالب کا ایک شعر /ہفت روزہ ’ہماری زبان‘، دہلی 22تا 28 ستمبر1985

.11 تلامذۂ غالب (طبعِ ثانی) پر ایک نظر /دو ماہی اکادمی، لکھنؤ، جولائی، اگست1986

مشمولہ: غالب احوال و آثار، طبعِ اول، ص:205-233

مشمولہ: غالب احوال و آثار، طبعِ دوم، ص:266, 297

.12  غالب کے خطوط (جلد اول) ایک جائزہ /(پہلی قسط)، اکادمی، لکھنؤ، ستمبر، اکتوبر، 1986

غالب کے خطوط (جلد اول) ایک جائزہ /(دوسری قسط)، اکادمی، لکھنؤ، نومبر، دسمبر، 1986

غالب کے خطوط (جلد اول) ایک جائزہ /(تیسری قسط)، اکادمی، جنوری، فروری 1987

.13 غالب اور عیوبِ قوافی / ہماری زبان، دہلی، 22تا 28مارچ، 1990 مشمولہ: تحقیق و تعارف: 115 تا 120

.14 غالب کے عہد میں ڈاک کا نظام /غالب نامہ، دہلی، جنوری، 1991

مشمولہ: غالب احوال و آثار، طبعِ دوم۔ ص۔ 119تا 146

.15 غالب کی چھٹی فارسی مثنوی، ماہنامہ ایوانِ اردو، دہلی، اپریل 1991

مشمولہ : غالب کی چند فارسی تصانیف، ص۔ 126-132

.16   غالب کے چار غیر مطبوعہ خطوط /آجکل، دہلی، اگست، 1993، ششماہی غالب/کراچی، شمارہ: 11,18، 1995

.17   پنج آہنگ ترتیب سے اشاعت تک، غالب نامہ، دہلی، جولائی1994

پنج آہنگ ترتیب سے طباعت تک مشمولہ: غالب کی چند فارسی تصانیف، ص۔ 54-71

.18 میخانۂ آرزو سر انجام /مشمولہ: یادگار نامہ فخر الدین علی احمد، ص۔ 451- 471، مشمولہ : غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی 1994

مشمولہ : غالب کی چند فارسی تصانیف، ص۔ 9تا 28

.19 پنج آہنگ کا قدیم ترین قلمی نسخہ، مشمولہ:تحقیقی تصورات،ص 77-102

مشمولہ : شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی، دہلی، 1995

مشمولہ : غالب کی چند فارسی تصانیف، ص29-53

.20 مرزا غالب اور علامہ فضلِ حق خیر آبادی /غالب نامہ، دہلی، جولائی 1996

مشمولہ: غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 48تا 76

.21 متفرقاتِ غالب /غالب نامہ، دہلی، جنوری، 1997

مشمولہ : غالب کی چند فارسی تصانیف، ص۔ 104-125

.22 باغِ دو در۔ دریافت سے تدوین تک غالب نامہ، دہلی، جولائی 1999

مشمولہ : غالب کی چند فارسی تصانیف، ص۔ 72 -86

.23 غالب کے فارسی خطوط /نیا دور /لکھنؤ، دسمبر، 1999

.24 مثنوی چراغِ دیر کے دو ترجمے (قسط اول) /ہماری زبان، دہلی، یکم تا 7دسمبر1999

مثنوی چراغِ دیر کے دو ترجمے (قسط دوم)، ہماری زبان، دہلی، 8تا 14 دسمبر1999

مشمولہ : غالب کی چند فارسی تصانیف، ص۔ 142تا 154

.25 غالب کا روز نامچۂ غدر /سہ ماہی اردو ادب، دہلی، اپریل، جون 2000

مشمولہ : غالب کی چند فارسی تصانیف، ص۔ 86-104

.26 غالب اور معارضۂ کلکتہ /ششماہی غالب، کراچی، شمارہ۔ 19، 2000 نیا دور، لکھنؤ، جون2003

مشمولہ : غالب احوال و آثار، طبعِ دوم، ص۔ 90تا 118

.27 پروفیسر عبد القوی دسنوی۔ بہ حیثیت غالب شناس /مشمولہ : عبد القوی دسنوی۔ ایک مطالعہ،ص 68 تا86 دبستانِ بھوپال، بھوپال 2001

.28 غالب کا ایک فارسی خط اور ان کا سفرِ فیروز پور/غالب نامہ، دہلی، جولائی، 2003۔ مشمولہ : غالب کی مکتوب نگاری، ص۔ 17تا 35 ناشر : غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، 2003

.29 تلامذۂ غالب۔ ایک بازدید، سہ ماہی فکرو تحقیق، دہلی، اکتوبر، دسمبر 2005

مشمولہ : غالب احوال و آثار، طبع دوم، ص۔ 298تا 320

.30 مثنوی نموداریِ شانِ نبوّت و ولایت۔ چند وضاحتیں /مشمولہ: غالب کی چند فارسی تصانیف،ص 133-141

.31   غالب کا ایک متنازعہ فیہ خط /فکرو تحقیق، دہلی، اپریل، جون، 2006

.32   قصّہ چراغِ دیر کے دو ترجموں کا /ہماری زبان، دہلی، 22تا 28 جنوری2007

.33 غالب کی مہریں / غالب نامہ، دہلی، جنوری، 2007، ششماہی مخزن، لاہور، شمارہ۔ 15، 2008 مشمولہ: غالب اور جہانِ غالب، ص13تا 47

.34 غالب سے منسوب تین جعلی تحریریں /فکرو تحقیق، دہلی، جنوری تا مارچ، 2007

.35 عہدِ غالب کی دو ممتاز شخصیتیں ۸؎ فکرو تحقیق، دہلی، اکتوبر تا دسمبر 2007

مولوی خلیل الدین خاں /مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب،ص 217, 225

منشی عاشق علی خاں، مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 226-237

.36 غالب کا ایک نو دریافت فارسی خط /آجکل، دہلی، فروری، 2008

.37 مرزا خدا داد بیگ۹؎ /ماہنامہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ، جولائی، 2008

مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 193-205

.38 حکیم احسن اللہ خاں اور مرزا غالب / اردو ادب، دہلی، جنوری تا مارچ 2009

مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 77-107

.39 بنارسی کی دوستی /’آجکل‘ دہلی، مارچ 2009، مشمولہ: غالب اور بنارس، ص۔ 30-44، غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، 2010

مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 153-167

.40 مرزا عاشور بیگ۱۰؎ / آجکل /دہلی، ستمبر، 2009 مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 181-192

.41 حکیم سید احمد حسین مودودی /جہانِ غالب، دہلی، شمارہ۔ 9، 2010

مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 246-253

.42 ارشاد حسین خاں ۱۱؎ / جہانِ غالب، دہلی، شمارہ۔ 10، 2010

مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 254-259

.43 نواب میر جعفر علی خاں /جہانِ غالب، دہلی، شمارہ۔ 11، 2011

مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 238-245

.44 شیخ اکرام الدین/ مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 260, 264

.45   سبحان علی خاں / جہانِ غالب، دہلی شمارہ:12، 2012

مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 206-216

.46 غالب اور سنہ 1857 کے مقتولین / مشمولہ : غالب اور جہانِ غالب، ص۔ 168-180

.47پروفیسر ابو محمد سحر بہ حیثیت غالب شناس/ مشمولہ یادگارِ سحر، مرتبہ طاہرہ وحید عباسی، شاہدہ پروین، بھوپال 2015، ص:3تا51

غیر مطبوعہ مقالے :

.48   غالب کو برا کیوں کہو /مقالہ دلاور فگار سمینار، بدایوں، منعقدہ، 6مارچ 1999 میں پڑھا گیا۔

.49 تفہیمِ غالب کی دشواریاں، فارسی خطوط کے حوالے سے /غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے سمینار منعقدہ دسمبر 2005 میں پڑھا گیا۔

.50 نامہ ہائے فارسی غالب۔ (مرتب : سید اکبر علی ترمذی۔ بحوالہ ارمغانِ علمی، ص۔ 428)

.51 غالب کے تین فارسی خطوط /مشمولہ قلمی کتاب ’غالب کے فارسی خطوط‘، مملوکہ ظفر احمد صدیقی۔

.52   جنون بریلوی سے منسوب دو فارسی خطوط، مشمولہ ’غالب کے فارسی خطوط‘ (قلمی)

شعری کاوشیں

(الف) مثنوی چراغِ دیر (منظوم اردو ترجمہ) آجکل، دہلی، جولائی 1991

مشمولہ : غالب کا سفرِ کلکتہ الخ … ص55 تا 73 (از ڈاکٹر خلیق انجم) غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، 2005

مشمولہ: غالب اور بنارس،ص 182- 193، غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی، 2010

مشمولہ : ارمغانِ علمی، ص۔ 602-611

(ب ) تضمین بر غزلِ نعتیہ غالب /سہ ماہی ادراک، گوپال پور، اکتوبر، دسمبر 2004 مشمولہ : ارمغانِ علمی، ص۔ 21

معروف و غیر معروف ادبی شخصیات کی حیات و خدمات (یعنی اوّلین تنقیدی مضامین اور سوانحی تحقیق)

 

اوّلین تنقیدی مضامین

.1     مثنوی گلزارِ نسیم /ماہنامہ مومن، بدایوں، جنوری 1956

نسیم اور ان کی مثنوی۱۲؎ / ماہنامہ شاعر بمبئی، جولائی1957

.2     اردو زبان و ادب اور حالی۱۳؎، ماہنامہ کردار بھوپال مارچ 1956

.3     فانی کی شاعری /ماہنامہ جمہوریت، کراچی، مارچ1956

.4     مومن اردو کا بے نظیر غزل گو / ماہنامہ شاعر، ممبئی، جون، 1956

مومن کی غزل گوئی، مشمولہ:نگارشاتِ ادب، سرسید بک ڈپو علی گڑھ، 1957

.5     مثنوی کیدِ فرنگ /ماہنامہ، نیا دور، لکھنؤ، مارچ 1958

.6     یادِ رفتگاں (تسلیم سہسوانی) ماہنامہ آجکل دہلی، نومبر 1958

منشی انوار حسین تسلیم سہسوانی/ ماہنامہ نگار، کراچی، مارچ، 1964

.7     لکھنؤ اور غزل کی روایات۱۴؎ ماہنامہ شاعر بمبئی، جنوری 1959

.8     چکبست اور ان کا آرٹ/ ماہنامہ پاسبان، چنڈی گڑھ، مئی 1961

.9 صابر حسین صبا، نیا دور، لکھنؤ، جولائی1961

.10   اعجاز احمد معجز/ سہ ماہی اردو ادب، علی گڑھ، شمارہ:3، 1961

.11   عبد العزیز اعجاز /آجکل، دہلی، دسمبر 1961

.12   دربارِ بھوپال کا ایک شاعر، جمیل احمد جمیل سہسوانی/ سہ ماہی اردو ادب، علی گڑھ، شمارہ۔ 3، 1963

سوانحی تحقیق

.13 شیخ علی بخش بیمار: حیات و خدمات، نیا دور، لکھنؤ، جولائی 1963

.14مصحفی کا سالِ ولادت، ہفت روزہ ہماری زبان، دہلی، 8تا 14اپریل 1966

.15رائے بینی نرائن دہلوی (قسط اول ) سہ ماہی نوائے ادب، بمبئی، اپریل تا جون1977

رائے بینی نرائن دہلوی (قسط دوم) سہ ماہی نوائے ادب، بمبئی، اکتوبر تا دسمبر1977

بارِ دگر / اردو ادب۱۵؎ (خاص نمبر) دہلی، شمارہ :1تا 4، 1997

.16سید عبد الولی عزلت سورتی (حیات و کارنامے ) نیا دور، لکھنؤ، اکتوبر 1977

بارِ دگر / مشمولہ : تلاش و تعارف، ص۔ 9تا 35

.17مولانا عبد الماجد اور علامہ سلیمان ندوی /نیا دور (عبد الماجد نمبر)، لکھنؤ، اپریل، مئی، 1978

.18منظوماتِ آگاہ کے نثری دیباچے /نیا دور (جمہوریت نمبر)، لکھنؤ، جنوری، 1979 مشمولہ: تحقیق و تعارف، ص75 تا 91

.19منشی انوار حسین تسلیم سہسوانی/ ماہنامہ، تعمیرِ ہریانہ، چنڈی گڑھ، جولائی، اگست 1979

بارِ دگر / اردو ادب، دہلی، شمارہ:1، 1980

.20   مرزا ثاقب لکھنوی: کچھ نئی دریافتیں کچھ تازہ انکشافات /نیا دور، لکھنؤ، فروری 1980، تلاش و تعارف، ص232تا 276

.21مولانا محمد علی جوہر کا آبائی وطن/ ماہنامہ نگار، دہلی، اپریل، مئی1980

مولانا محمد علی جوہر کے خاندان کا رامپور سے تعلق، مشمولہ: تحقیق و تعارف،ص 239 تا 246

.22   مرزا حاتم علی بیگ مہر (حیات و خدمات)، نیا دور (یوم آزادی نمبر) لکھنؤ، اگست۱۶؎ 1980

.23منشی نول کشور بعض نظموں اور قطعات کی روشنی میں /نیا دور (نول کشور نمبر)، لکھنؤ، نومبر، دسمبر 1980

.24مرزا حاتم علی مہر۔ اصل حقائق (قسط اول ) ہفت روزہ ہماری زبان، دہلی، 15تا 21جون1981

ایضاً ( قسط دوم )، ہفت روزہ ہماری زبان، دہلی، 22تا 28جون، 1981

ایضاً ( قسط سوم )، ہفت روزہ ہماری زبان، دہلی، 8تا 14جولائی 1981

ایضاً (قسط چہارم) ہفت روزہ ہماری زبان، دہلی، 15تا 21جولائی 1981

.25مرزا حاتم علی مہر۔ تحقیقِ مزید /نیا دور، لکھنؤ، جنوری، فروری، 1982

مرزا حاتم علی بیگ مہر /مشمولہ:تلاش و تعارف، ص۔ 98تا107

.26آغا حشر بہ حیثیت محبِ وطن / ماہنامہ خبر نامہ، اردو اکادمی لکھنؤ، جنوری، فروری1982

.27   بنواری لال شعلہ /ششماہی غالب نامہ، دہلی، جنوری، 1983 مشمولہ: تحقیق و تعارف،ص 9 تا 35

.28مرزا رجب علی بیگ سرور اور بنارس /غالب نامہ، دہلی، جولائی، 1983

مشمولہ : رجب علی بیگ سرور، چند تحقیقی مباحث۔ ص۔ 11تا 27

.29   فضلی اور ان کی کربل کتھا (قسط اول) غالب نامہ دہلی، جنوری 1984

فضلی اور ان کی کربل کتھا (قسط دوم) غالب نامہ، دہلی، جولائی، 1984

.30کچھ فسانۂ عجائب اور سرور کے بارے میں /دو ماہی اکادمی، لکھنؤ، مارچ، اپریل 1985

مشمولہ : رجب علی بیگ سرور۔ چند تحقیقی مباحث۔ ص۔ 28تا 55

.31بیاض آبرو /آجکل، دہلی، اپریل 1986 مشمولہ: تحقیق و تعارف،ص 9 تا 35

.32دیوانِ ناسخ کا ایک نادر قلمی نسخہ / آجکل، دہلی، جولائی، 1987

بار دگر /ماہنامہ نقوش، لاہور، دسمبر 1987

.33مقدمہ کلامِ سرور /دو ماہی اکادمی، لکھنؤ، مارچ، اپریل، 1988

مشمولہ : رجب علی بیگ سرور۔ چند تحقیقی مباحث۔ ص۔ 90تا 106

.34مولانا محمد بشیر سہسوانی /مشمولہ : نذرِ مختار، نذرِ مختار کمیٹی، دہلی، ص۔ 461 تا 475، 1988

بارِ دگر (قسط اول و دوم ) /ماہنامہ محدّث، بنارس، مارچ و اپریل 1989

مولانا محمد بشیر فاروقی/مشمولہ : حیات العلما، ص۔ 189-203

.35سودا کا ایک قصیدہ /ہفت روزہ ہماری زبان، دہلی22تا 28اپریل1989

.36شیخ علی بخش بیمار /سہ ماہی اردو، کراچی، اپریل تا جون1990

بارِ دگر / خدا بخش لائبریری جرنل، پٹنہ، شمارہ۔ 9-10، 1997

مصحفی کے ایک عزیز اور شاگرد۔ شیخ علی بخش بیمار، مشمولہ : میر و مصحفی، ص۔ 128تا 156

.37   اعجاز منشی عبد العزیز اعجاز رقم۱۷؎ ( بہ زبانِ فارسی ) / دانش نامہ زبان، ادبیاتِ فارسی، ج/1،ص 462,463 فرہنگستان زبان و ادب، فارسی، تہران، 2005 مشمولہ: (بہ زبانِ اردو) تحقیق و تعارف،ص 173 تا176

.38 تسلیم، منشی انوار حسین سہسوانی ( بہ زبانِ فارسی) /دانش نامہ زبان و ادبیات فارسی،ج 2،ص 113-132 فرہنگستان زبان و ادب، تہران، 2008، مشمولہ: (بہ زبانِ اردو) تحقیق و تعارف،ص 145تا 154

.39مصحفی کا سالِ ولادت /خدا بخش لائبریری جرنل، پٹنہ، شمارہ۔ 11، 1998

مشمولہ : یادگار نامہ قاضی عبد الودود، ص۔ 347-372

غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، 2000 مشمولہ : میر و مصحفی، ص۔ 83تا 106

.40سودا کا سالِ ولادت /غالب نامہ، دہلی، جولائی، 2001

ایضاً مشمولہ : مرزا محمد رفیع سودا۔ تنقیدی و تحقیقی جائزے، ص59تا 64 غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، 2001

ایضاً مشمولہ : متعلقاتِ سودا (مرتبہ ڈاکٹر نسیم احمد)، ص۔ 12تا 18

ایضاً مشمولہ تحقیق و تعارف، ص37 تا42

.41مکاتیبِ حالی /غالب نامہ، دہلی، جولائی، 2004

مشمولہ: الطاف حسین حالی۔ تحقیقی و تنقیدی جائزے۔ (دہلی 1982)

مشمولہ: تحقیق و تعارف،ص 174تا 189

.42شبستانِ سرور کا ماخذ /غالب نامہ، دہلی، جولائی، 2004

ایضاً سہ ماہی صحیفہ لاہور، اکتوبر تا دسمبر2006مشمولہ: تحقیق و تعارف،ص 103تا 114

.43فسانۂ عجائب کا حقِ اشاعت /نیا دور، لکھنؤ، جون2005

مشمولہ: تحقیق و تعارف،ص 93 تا 102

.44حکیم احسن اللہ خاں، چند معروضات اردو ادب، دہلی، جولائی تا ستمبر 2005

.45محاکمۂ تسلیم بہ مقدمہ انیس و دبیر / قومی زبان، کراچی، جون، 2007

مشمولہ:انیس و دبیر: حیات و خدمات، ص۔ 118-129

غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، 2007 مشمولہ: تحقیق و تعارف: 155تا 165

.46منشی محمد صابر حسین صبا/ رضا لائبریری جرنل، رامپور، شمارہ:14-15، 2007

.47بے جگر خیراتی لعل سکندر آبادی (بہ زبانِ فارسی) دانش نامہ زبان و ادبیاتِ فارسی، ج2، ص990-991

فرہنگستانِ زبان و ادب، تہران، 2008

.48مولوی سید عبد الخالق نقوی۱۸؎ /فکرو تحقیق، دہلی، اکتوبر تا دسمبر، 2009

بارِ دگر /مشمولہ : حیات العلما،ص 228-233

.49میر کا دیوانِ چہارم۱۹؎ /نیا دور (میر نمبر)، لکھنؤ، اکتوبر، دسمبر 2010 مشمولہ: تحقیق و تعارف،ص 43 تا 59

.50پروفیسر مختار الدین احمد /ہماری زبان، دہلی، 15تا21ستمبر، 2010 مشمولہ: تحقیق و تعارف،ص 283 تا

288

 

اصول اور متعلقاتِ

 

تحقیق و تدوین

 

.1     تاریخی مادّے / سہ ماہی نوائے ادب، بمبئی، اپریل، جون1976

تاریخی مادّے، صحتِ متن اور استنباطِ نتائج/اردو ادب، دہلی، اپریل، جون2004

مشمولہ : تحقیق و تدوینِ مسائل اور مباحث، ص۔ 99تا 123

.2     فسانہ عجائب کا بنیادی متن ایک جائزہ/دو ماہی اکادمی، لکھنؤ، جولائی، اگست1985

مشمولہ: رجب علی بیگ سرور، چند تحقیقی مباحث، ص۔ 56 تا 89

.3     دکنی یا قدیم اردو/ماہنامہ شب خون، الٰہ آباد، دسمبر 1987

.4     دکنی نہیں قدیم اردو/ماہنامہ شب خون، الٰہ آباد، دسمبر1988

.5     دکنی مثنوی اور قرأت کے مسائل (قسط اول)/ فکرو تحقیق، دہلی، جنوری تا مارچ1989

دکنی مثنوی اور قرأت کے مسائل (قسط دوم)/ فکرو تحقیق، دہلی، جون، جولائی 1989

مشمولہ : تحقیق و تدوین …ص 124 تا 137

.6     ترقیمہ، رضا لائبریری جرنل، رامپور، شمارہ۔ 3، 1996مشمولہ : تحقیق و تدوین، ص200تا 211

.7     عرض دید /غالب نامہ، دہلی، جولائی 1998رضا لائبریری جرنل، رامپور، شمارہ۔ 18-19، 2009 مشمولہ : تحقیق و تدوین، ص۔ 222تا235

.8     رشید حسن خاں اور آدابِ تاریخ نگاری /سہ ماہی ترسیل بمبئی، جنوری، جون1999

ادبی تاریخ نگاری۔ رشید حسن خاں کا نقطۂ نظر /مشمولہ :رشید حسن خاں، حیات اور ادبی خدمات، ص75 تا 84مرتب اطہر فاروقی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی، 2002، رشید حسن خاں اور آدابِ تاریخ نگاری /مشمولہ: رشید حسن خاں : کچھ یادیں کچھ جائزے،ص 164 تا 176 مرتب: جاوید رحمانی، مکتبہ الحمرا، دربھنگہ، 2008، تاریخ نگاری کے اصول و آداب۔ رشید حسن خاں کا نقطۂ نظر / مشمولہ : تحقیق و تدوینص 166تا 179

.9    ڈاکٹر گیان چند اور قاضی عبد الودود / فکرو تحقیق، دہلی، جولائی، ستمبر 1999مشمولہ : تحقیق و تدوین،ص 153تا 165

.10تدوینِ سحر البیان (قسط اول) / ماہنامہ کتاب نما، دہلی، جنوری، 2001

تدوینِ سحر البیان (قسط دوم) ماہنامہ کتاب نما، دہلی، فروری 2001

مشمولہ : تحقیق و تدوین،ص 180تا 199

.11قدیم طرزِ املا اور تدوینِ متن کے مسائل /سہ ماہی فکرو تحقیق، علی گڑھ، ستمبر 2001

.12مبادیاتِ تحقیق/ فکرو تحقیق، دہلی، جولائی، ستمبر2004

مشمولہ : تحقیق و تدوین،ص 12 تا 27، شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی، دہلی، 2006

مشمولہ : تحقیق و تدوین،ص 11تا 25

.13مہریں /یادگار نامہ یوسف حسین خاں، ص264-271، غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، 2004

آرٹس فیکلٹی جرنل، علی گڑھ، جنوری 2005مشمولہ : تحقیق و تدوین …ص۔ 212تا 221

.14منشاے مصنّف سے انحراف۔ محرّکات اور اسباب/ نوائے ادب، بمبئی، اپریل تا ستمبر2009

مشمولہ : تحقیق و تدوین ص65تا98

.15معاصر شہادتیں اور استناد کا مسئلہ /فکرو تحقیق، دہلی، اپریل تا جون 2009

مشمولہ : تحقیق و تدوینص 26تا 47

.16بنیادی نسخے کا انتخاب /مشمولہ : تحقیق و تدوین ص۔ 48تا64

.17جامعاتی تحقیق۔ مراحل اور طریقِ کار/ مشمولہ : تحقیق و تدوین ص۔ 236تا 247

 

متفرقات

 

.1 بہادر شاہ ظفر/ ماہنامہ نگار لکھنؤ، ستمبر 1858 (ہندی سے ترجمہ)

.2     اقبال ایک مصلح۲۰؎ /ماہنامہ جمہوریت، کراچی، فروری، 1956

.3     بعض اشعار کا غلط انتساب، (قسط اول)/ماہنامہ نیا دور، لکھنؤ، اکتوبر 1958

بعض اشعار کا غلط انتساب (قسط دوم) /ماہنامہ نیا دور، لکھنؤ، جنوری 1959

بعض اشعار کا غلط انتساب (قسط سوم) ماہنامہ نیا دور، لکھنؤ، جون 1959

بعض اشعار کا غلط انتساب (قسط چہارم)/ماہنامہ نیا دور، لکھنؤ، اکتوبر 1989

بعض اشعار کا غلط انتساب (قسط پنجم) ماہنامہ نیا دور، لکھنؤ، مئی 1960

.4     مثنوی ہدایت در تعریف بنارس /آجکل، دہلی، اپریل، 1979

.5     اردو مثنوی شمالی ہند میں شاعر، بمبئی، دسمبر1979

مشمولہ : مدھیہ پردیش میں اردو ادب کے پچیس سال،ص 200 تا 228

ناشر : مدھیہ پردیش اردو اکادمی، بھوپال، 1981 مشمولہ: تحقیق و تعارف،ص 61 تا 73

.6     بچوں کے اقبال/نیا دور (اطفال نمبر)، لکھنؤ، نومبر دسمبر، 1979

.7     وفات جوہر پر اقبال کے قطعے کی دو تضمین /ماہنامہ جامعہ، دہلی، جون، 1980

اقبال کے ایک فارسی قطعے کی تضمین۔ مشمولہ: تحقیق و تعارف،ص 259 تا 272

.8     انسان اور انسانیت جوش کی رباعیوں میں، دو ماہی اکادمی، لکھنؤ، مارچ، اپریل1964

.9     اقبال سے منسوب ایک غزل، ماہنامہ تیر نیم کش (اقبال نمبر)، مراد آباد، اپریل1996، تحقیق و تعارف، ص: 247 تا 258

.10تضمین اللغات سے متعلق چند معروضات / ماہنامہ شب خون، الٰہ آباد، مارچ، اپریل1999

.11کچھ کالرا صاحب کے بارے میں /ہماری زبان، دہلی 15تا 21، اگست، 1999۔ تحقیق و تعارف،ص 273 تا 282

.12تضمین اللغات پر مباحثہ /شب خون، الٰہ آباد، اکتوبر، 1999

.13شاعر کا اقبال نمبر۔ ایک جائزہ /مجلس اقبال، بھوپال، شمارہ:8، 2001

.14اودھ اخبار کی ادبی قدرو قیمت /نیا دور، لکھنؤ، نومبر، 2003

مشمولہ : منشی نول کشور اور ان کا عہد، ص۔ 68-88

ناشر : شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی، 2004 مشمولہ: تحقیق و تعارف، ص: 213 تا 238

.15کلیدی خطبہ۲۱؎، رسالہ جامعاتِ ہند، جے پور۔ فروری 2005

.16ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب، چند معروضات/ ماہنامہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ، دسمبر، 2007

.17گیتا کا قدیم ترین منظوم ترجمہ/ آجکل، دہلی، مارچ 2013

 

تعارف

 

تنویرِ خیال (مجموعۂ سانیٹ)/ ناظم جعفری، مطبوعہ: وارانسی، 1978، ص۔ 11تا21

اشارے (پیشِ لفظ) دل بھی کوئی چیز ہے (مجموعۂ غزلیات)/ عاصم محمد آبادی۔

مطبوعہ: وارانسی، 2002

تعارف۔ مقالاتِ عباس جلد اول/ ڈاکٹر سید حسن عباس، مطبوعہ : وارانسی، 2009،ص 7تا9

فلیپ پر رائے۔ مشمولہ :شاخیں گلاب کی (افسانوں کا مجموعہ) سعید فریدی، مطبوعہ، وارانسی، 2000

فلیپ پر رائے۔ مشمولہ: مکتوباتی ادب/ ڈاکٹر شمس بدایونی، مطبوعہ، دہلی، 2010

 

 علمی خطوط

 

.1     بنام پروفیسر معین الرحمن، لاہور، بہ سلسلہ نسخۂ دیوانِ غالب، تاریخ، سے عاری، مشمولہ:ا رمغانِ علمی، ص579 تا 580

.2     بنام ڈاکٹر عابد پیشاوری / مکتوبہ 22ستمبر1996، متعلق ’مثنویات میر تحقیق و تدوین‘، مؤلفہ : ربیب الدین، مشمولہ: ارمغانِ علمی،ص 591-601

.3     مدیر شاعر بمبئی /متعلق، شمشیر تیز تر، مشمولہ: شاعر، بمبئی، جون یا جولائی 2002

.4     مدیر فکر و تحقیق دہلی متعلق راقم الحروف کے مضمون ’’غالب کی تین فراموش شدہ تحریریں ‘‘۔ سہ ماہی فکر و تحقیق دہلی۔ شمارہ:۱، 2005

.5 مدیر جہانِ غالب، دہلی، متعلق غالب اور باندہ / جہانِ غالب، دہلی، شمارہ: 6، 2008

.6     مدیر معارف، متعلق بہارستان، گلستان معارف، اعظم گڑھ، فروری 2012

 

 غیر مطبوعہ خطوط

 

.7 بنام ڈاکٹر سید صفدر رضا کھنڈوی، مکتوبہ 17؍ جنوری2010۔ یہ مکتوب الیہ کی کتاب ’’اردو کی ترقی میں نماڑ کا حصہ‘‘ سے متعلق ہے۔ نقوی نے اس خط کی نقل محفوظ رکھی اور اسے اپنی کتاب ’تذکرے اور تبصرے ‘ میں کتاب کے نام سے شامل کیا۔

.8     بنام علیم صبا نویدی مکتوبہ 22 جنوری 2010، یہ بھی مکتوب الیہ کی کتاب ’اردو ادب کا اولین نقاد باقر آگاہ‘ کے پوسٹ مارٹم پر مشتمل ہے۔ ’تذکرے اور تبصرے ‘ میں کتاب مذکور کے عنوان سے اس خط کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

٭٭

 

 حواشی

 

۱؎     دیکھیے حاشیہ نمبر، 5,8,17

۲؎      ارمغانِ علمی میں پیش کردہ تعارفِ کتب میں ان کا ذکر نہیں آ سکا ہے۔

۳؎      انگریزی فہرست اور ارمغانِ علمی (ص39)، میں اس کا عنوان سروِ آزاد اور شعرائے اردو، درج ہے۔

۴؎      انگریزی فہرست میں صرف دستور الفصاحت درج ہے۔

۵؎      انگریزی فہرست اور ارمغانِ علمی (ص39)، میں صرف تذکرۂ شعرائے سہسوان عنوان لکھا ہے۔ اس مخطوطے کو بعد میں مرتب کر کے کتابی شکل میں شائع کیا گیا (2010)

۶؎      یہ دونوں ایک ہی مضمون ہیں اس لیے اس کو علاحدہ شمار نہیں کیا گیا۔ ارمغانِ علمی (ص۔ 43)، میں اس کی اشاعت ماہنامہ جمہوریت کراچی دسمبر1955 میں دکھائی گئی ہے، جو درست نہیں۔ راقم الحروف نے جناب حسن عباس سے فون پر استفسار کیا انھوں نے بتایا کہ مقالات کی فہرست حنیف نقوی مرحوم ہی سے حاصل کی گئی تھی نقل اور کمپوزنگ میں کس سے کہاں بھول ہوئی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

۷؎     اپنے خود نوشت حالات اور انٹرویو میں (جس کے حوالے سطورِ گزشتہ میں گزر چکے ہیں )، اس کا عنوان ’خطوط غالب کی نفسیات‘ لکھا گیا ہے اور اس کی اشاعت فروری 1956 بتائی گئی ہے۔ غالب اور بدایوں (ص۔ 352)، اور انگریزی فہرست میں یہی عنوان لکھا گیا ہے۔ ارمغانِ علمی (ص43) میں یہ عنوان کمپوز ہونے سے رہ گیا۔ البتہ اشاعت کا اندراج انگریزی فہرست اور ارمغان میں درست ہے۔ راقم الحروف نے ڈاکٹر اطہر مسعود خاں (رامپور) کے توسط سے اس مضمون کا عکس حاصل کر لیا ہے ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔

۸؎      فکرو تحقیق دہلی میں یہ مقالہ اسی عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں مولوی خلیل الدین خاں اور منشی عاشق علی خاں کے دستیاب کوائف پیش کیے گئے ہیں، لیکن ارمغانِ علمی (ص45) میں اس کا عنوان ’غالب کے عہد کی دو ممتاز شخصیات ‘ اختیار کیا گیا ہے۔ اپنے مجموعۂ مضامین ’غالب اور جہانِ غالب ‘ میں مذکورہ دونوں شخصیات کو علاحدہ علاحدہ ناموں سے شامل کرنے کے سبب مجموعۂ مقالات میں شامل مقالات کی تعداد میں ایک کا اضافہ ہو گیا لیکن راقم الحروف نے اسے اولین عنوان کے تحت مقالہ ہی شمار کیا ہے۔

۹؎      نبیرۂ غالب

۱۰؎     ہم شیر زادۂ غالب

۱۱؎     پسرِ شاگردِ غالب

۱۲؎     ’مثنوی گلزارِ نسیم ‘ اور ’نسیم اور ان کی مثنوی‘ دونوں ایک ہی مضمون ہیں۔ البتہ دوسری اشاعت، ترمیم شدہ و اصلاح شدہ ہے، اس لیے انھیں ایک ہی شمار کیا گیا۔ ارمغانِ علمی میں پہلی اشاعت کا مذکور نہیں۔ دونوں مضامین کی عکسی کاپیاں فراہم ہو گئی ہیں۔

۱۳؎     حنیف نقوی نے اپنے انٹرویو میں اس کا عنوان ’حالی اور اردو ادب‘ لکھا ہے۔ (ارمغانِ علمی، ص445)، انگریزی فہرستِ مضامین میں ’حالی کی ادبی خدمات‘ ہے، اور یہی عنوان ارمغانِ علمی کی فہرستِ مضامین میں بھی ملتا ہے۔ (ص40)

۱۴؎     ارمغانِ علمی (ص۔ 41) میں عنوان ہے ’لکھنؤ اور غزل گوئی کی روایت‘۔ اس مضمون کی بھی عکسی کاپی ڈاکٹر اطہر مسعود خاں نے فراہم کر دی ہے۔ ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔

۱۵؎     سہ ماہی اردو ادب نے اس مقالے کو اولاً خاص نمبر کی صورت میں شائع کیا بعد میں اس کو کتابی شکل دے دی گئی۔

۱۶؎     ارمغانِ علمی میں کمپوزنگ کی غلطی سے جولائی1981درج ہو گیا ہے۔ ص۔ 40

۱۷؎    فکر و تحقیق (دہلی) کے مطبوعہ اشاریے میں مضمون نمبر 38, 37 کا علاحدہ اندراج نہیں تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹرحسن عباس (مرتب ارمغانِ علمی ) نے اطلاع دی کہ نقوی صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’ دانش نامۂ زبان و ادبیاتِ فارسی‘‘ میں شامل اعجاز سہسوانی اور تسلیم سہسوانی پر مضامین میرے نوشتہ نہیں۔ ‘‘ لیکن بعد از وفات حنیف نقوی کی کتاب ’’تحقیق و تعارف‘‘ میں ان دونوں مضامین کی شمولیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ حنیف نقوی ہی کے مصنّفہ ہیں اور علاحدہ مضمون کی صورت رکھتے ہیں۔ بایں وجہ اِن کا علاحدہ اندراج کیا گیا۔

اس انسا ئیکلوپیڈیا میں حنیف نقوی کے تین مضامین شامل ہیں۔ ان تینوں کا ذکر ارمغانِ علمی میں ملتا ہے۔ (ص49)، لیکن کتابی تفصیلات نہیں۔ میری طلب پر ڈاکٹر حسن عباس نے کتابی کوائف سے مطلع کیا ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔

۱۸؎     یہ مضمون اور 34نمبر کا مضمون حنیف نقوی کے مدوّن تذکرے ’حیات العلما‘، 2010 میں ضمیمے کے تحت شامل ہے۔

۱۹؎     ارمغانِ علمی (ص40) میں دیوانِ چہارم کے بعد یہ اضافہ بھی ملتا ہے کہ ’ایک اہم قلمی نسخہ‘۔

۲۰؎    ارمغانِ علمی میں اس کی اشاعت دسمبر 1955 میں دکھائی گئی ہے (ص37) جو درست نہیں معلوم ہوتی۔ راقم الحروف نے انگریزی فہرست میں درج ماہ و سالِ اشاعت کو نقل کیا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں حنیف نقوی نے اسے پاکستانی رسائل میں شائع ہونے والا پہلا مضمون لکھا ہے اور ماہ و سالِ اشاعت فروری 1956 درج کیا ہے۔ البتہ اس کا عنوان اقبال ریفارمر کی حیثیت سے لکھا ہے۔

۲۱؎     8 جنوری 2005عیسوی کو راجستھان یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام انجمن اساتذۂ اردو جامعاتِ ہند کی صوبائی شاخ نے راجستھان میں ’ اردو تحقیق: سمت و رفتار‘ کے موضوع پر یک روزہ سیمینار کیا تھا۔ تحقیق کے مسائل پر کلیدی خطبہ پروفیسر نقوی نے پیش کیا۔ بعد میں انجمن اساتذۂ اردو جامعات ہند کے ترجمان رسالہ ’جامعاتِ ہند‘ میں مع رودادِ سیمینار اسے شامل کیا گیا۔ یہ رسالہ ڈاکٹر مختار شمیم (بھوپال) نے فراہم کیا۔ ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔

شق نمبر   کل تعداد مقالات مصنف کے مرتّبہ مقالات غیر مرتّبہ مقالات
.1 تذکراتی تحقیق 24 08 16
.2 غالبیات 52 35 17
.3 حیات و خدمات      
  تنقیدی مضامین 12 12
  سوانحی تحقیق 38 23 15
.4 اصولِ تحقیق 17 15 2
.5 متفرقات 17 4 13
    160 85 75

(مطبوعہ: سہ ماہی فکر و تحقیق دہلی، اپریل مئی جون ۲۰۱۴ء)

——————

ڈاکٹر شمس بدایونی

۵۸- نیو آزاد پُرم کالونی، چھاؤنی اشرف خاں، عزت نگر، بریلی (یوپی)

٭٭٭

 

پروفیسر حنیف نقوی کی یاد میں

 

                تسلیم غوری بدایونی

 

پروفیسر حنیف نقوی کو مرحوم کہتے اور لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مرنا سب کو ہے اور موت برحق ہے مگر کچھ موتیں ایسی ہوتی ہیں جو عوام و خواص کے دل و دماغ پر اپنے اثرات چھوڑ جاتی ہیں، پروفیسر حنیف نقوی کی موت بھی اُن میں سے ایک ہے، بقولِ شاعر:

آہ گلچینِ ازل سے کیسی نادانی ہوئی

پھول وہ توڑا کہ گلشن بھر میں ویرانی ہوئی

پروفیسر حنیف نقوی کو ہم سے بچھڑے ہوئے دوسال سے زائد ہو گئے ہیں مگر ایسا نہیں لگتا کہ وہ ہم سے دور اور بہت دور جا چکے ہیں، بقولِ پیامؔ ککرالوی:

اس بلندی پر پہنچ کر مجھ کو آوازیں نہ دو

میں قریب آؤں گا پھر بھی فاصلہ رہ جائے گا

مرحوم کو راقم الحروف سے والہانہ محبت تھی، نہ صرف مجھ سے بلکہ وہ ہر اُس شخص سے دلی محبت کرتے تھے جس میں اردو ادب کی خدمت کرنے کا جذبہ موجزن ہوتا۔ مرحوم اردو ادب کے صفِ اوّل کے تحقیق و تنقید نگار تھے، اُن کی تنقید کا نشانہ ہمیشہ وہ قلم کار رہے جو اردو ادب کے بُت سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے قلم کی جولانیوں سے بڑے بڑے بُتوں کے پندار کو توڑا، اس میں اُن کو نہ ستائش کی تمنا تھی نہ صلے کی پروا، ہاں اُن کی تحقیق اور تنقید سے اردو ادب کو ضرور فائدہ پہنچا۔ مرحوم کو اردو ادب کے ساتھ ساتھ فارسی ادب پر بھی عبور حاصل تھا۔ مرحوم منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے شاعری بھی کرتے تھے جو اُن کا پیدائشی حق تھا مگر اُن کی شعری صلاحیتیں پروفیسر آلِ احمد سرور کی طرح ان کی نثر نگاری کے سامنے ماند پڑ گئیں۔

پروفیسر حنیف نقوی کا تعلق مدینۃ العلم اور مدینۃ الاولیا جیسے ناموں سے شہرت یافتہ بدایوں کی اس تاریخی بستی سے تھا جو تاریخ کے اوراق میں سہسوان کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔

بدایوں اپنی قدامت کی وجہ سے ہمیشہ تاریخ کے اوراق میں سنہرے اور جلی حروف میں لکھا جاتا رہا ہے۔ ہندو عہد میں بدایوں ویدوں کی تعلیم کا مرکز تھا جہاں دور دراز علاقوں سے طالبِ علم آ کر اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے، اُس زمانے میں اس علاقے کو ویدا مؤ نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ 1196 میں یہ علاقہ مسلمانوں کے زیرِ اقتدار آیا۔ عہدِ مسلم میں سلاطینِ دہلی کے اوّلین تین سلطان: سلطان قطب الدین ایبک، سلطان شمس الدین التمش اور سلطان رکن الدین فیروز سلطان بننے سے قبل بدایوں کے گورنر رہ چکے تھے۔ بدایوں کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ قلعۂ دہلی کے ایک دروازے کا نام بدایوں دروازہ تھا۔ حضرت امیرخسروؔ اپنے روحانی پیشوا حضرت خواجہ نظام الدین سلطان الاولیا محبوبِ الٰہی کا وطنِ مالوف ہونے کے سبب بدایوں کی مٹی کو اپنی آنکھوں میں بہ طورِ سرمہ لگانے کی آرزو رکھتے تھے، لکھتے ہیں :

زبس کہ مرکزِ اہلِ بصیرت منبع جو داست

بجائے سرمہ در دیدہ کشم خاکِ بداؤں را

یہ بدایوں کی مٹی کا ہی فیضان ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین محبوبِ الٰہی، حضرت امیرخسروؔ، رضیہ سلطان، قاضی محمد جلیس، مولوی ظہور اللہ خاں نواؔ، مولانا برکت اللہ خاں (جو بعد کو بھوپالی کہلائے )، مولانا فیض احمد رسواؔ، منشی مبارک علی سوختہ (جن کو پنڈت جواہر لعل نہرو کا اولین استاد ہونے کا شرف حاصل ہے )، منشی شوکت علی خاں فانیؔ، پروفیسر ضیاء احمد، پروفیسر ابواللیث صدیقی، اختر انصاری، پروفیسر آل احمد سرور، مولانا انجم فوقی، شکیلؔ بدایونی، ویریندر پرشاد سکسینہ، دلاور فگارؔ، عرفانؔ صدیقی، اسعدؔ بدایونی، اداؔ جعفری اور جیلانی بانو جیسی شخصیات بدایوں کی مٹی میں لوٹ کر پروان چڑھیں اور اپنے اپنے میدان میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمکیں۔

اسی سرزمین سے چالیس کلومیٹر دور مائل بہ مغرب ایک تاریخی بستی سہسوان کے نام سے آباد ہے جو آج کل تحصیل کا صدر مقام ہے۔ 1824 سے 1838 تک سہسوان کو ضلع بدایوں کا صدر مقام رہنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔ یہ بستی بھی بدایوں کی طرح ہندو عہد کی یادگار ہے۔ ایک زمانے میں سہسوان کا کیوڑا اور سہسوان گھرانے کا سنگیت دور دور تک مشہور تھا۔ پدم بھوشن مشتاق حسین خاں سہسوان گھرانے کے ہی فرد تھے۔ جس طرح سہسوان کا کیوڑا اور سہسوان گھرانے کا سنگیت دور دور تک مشہور تھا اُسی طرح سہسوان میں آباد خاندانِ ساداتِ نقوی کے جیالوں کی علمیت، حقانیت اور شجاعت کی خوشبو بھی دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ انگریزی عہد میں صوبہ اتر پردیش کے جن چار عالموں کو پہلی بار شمس العلما کے خطاب سے سرفراز کیا گیا اُن میں ایک سیّد امیر احمد فاضلی اسی ساداتِ نقوی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ریاست بھوپال کے درباری شاعر سیّد جمیل احمد جمیلؔ اسی خاندانِ سادات کے فرزند تھے۔ غالبؔ کے تین نامور شاگرد عالم علی خاں مائلؔ، ابراہیم علی خاں وفاؔ اور حکیم سیّد احمد حسن فداؔ و جمالیؔ کا نسبی سلسلہ بھی اسی خاندانِ سادات پر منتہی ہوتا ہے گو کہ مذکورہ تینوں شاگردانِ غالبؔ بڑودہ کے تعلق سے یاد کیے جاتے ہیں۔ مشہورِ زمانہ کتاب ’مومن و غالب‘ کے مصنف سیّد اعجاز احمد معجزؔ بھی اسی خاندان کے فردِ فرید تھے جن کی آغوش میں رہ کر پروفیسر حنیف نقوی نے تعلیمی تربیت پائی اور شعری نکات سیکھے۔

پروفیسر حنیف نقوی کی پیدائش اسی ساداتِ نقوی خاندان میں 17 اکتوبر 1936 کو ہوئی تھی۔ بعض تذکرہ نگاروں نے اُن کی تاریخ و سنِ پیدائش 29 دسمبر 1938 درج کی ہے جو درست نہیں ہے۔ حنیف نقوی کے والدِ ماجد سیّد عقیل احمد نقوی طبیہ کالج دہلی سے سند یافتہ طبیب تھے، وہ اپنے بیٹے کو اپنی طرح طبیب بنانا چاہتے تھے مگر قدرت کو اُن سے اردو ادب کی زلفیں سنوارنے کا کام لینا تھا اسی لیے انھوں نے طب کے مقابلے درس و تدریس کی جانب توجہ دی اور اپنی منزل کا ہر امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔

حنیف نقوی کی تعلیم و تربیت میں معجزؔ سہسوانی کے ساتھ ساتھ اُن کے نانا منشی شاکر حسین نکہتؔ سہسوانی کا بھی ہاتھ تھا جو عربی، فارسی اور اردو کے بلند مرتبہ ادیب و شاعر تھے۔ نکہتؔ سہسوانی کے والدِ ماجد منشی صابر حسین صدیقی صباؔ سہسوانی نے نواب کلب علی خاں والیِ رامپور کی مدح میں مثنوی شوکتِ خسروی لکھ کر انعام و اکرام اور خطاب نظامیِ ہند حاصل کیا تھا۔ نکہتؔ کے حقیقی تایا منشی انوار حسین تسلیمؔ سہسوانی کا نام بھی کسی تعریف و تعارف کا محتاج نہیں، گویا حنیف نقوی کو شعر و ادب کا ذوق اپنی ددیہال اور ننہال سے وراثت میں ملا تھا اسی ماحول کا اثر تھا کہ وہ جسمانی امراض کے طبیب نہ بن کر علم و ادب کے ڈاکٹر اور پروفیسر بنے۔

پروفیسر حنیف نقوی نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا شاعری سے کی تھی مگر بھوپال میں قیام کے دوران انھوں نے اپنے ذوق کو جلا بخشنے کے لیے نثر کے میدان میں قدم رکھا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی میں پہلا مضمون کس پر لکھا یہ تو مرحوم ہی اچھی طرح جانتے ہوں گے مگر دنیائے ادب میں اُن کا جو مضمون پہلی مرتبہ شائع ہوا وہ مثنوی گلزارِ نسیم پر تھا جو سرزمینِ بدایوں سے مولانا محمودالحسن کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی و اصلاحی ماہنامہ ’مومن‘ کے جنوری 1956 کے شمارے میں شائع ہوا تھا جب کہ حنیف نقوی صاحب اپنا پہلا مطبوعہ مضمون ’خطوطِ غالبؔ کی نفسیات‘ کو لکھتے تھے جو ماہنامہ ’شاعر‘ کے فروری 1956 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ میں اس کا فیصلہ اربابِ ادب پر چھوڑتا ہوں کہ وہ نقوی مرحوم کے کس مطبوعہ مضمون کو اوّلیت کا درجہ دیتے ہیں۔

خیر، پہلا مضمون گلزارِ نسیم پر تھا یا غالبؔ کے خطوط کی نفسیات پر، اس سے ہٹ کر مجھے یہ کہنے اور لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ حنیف نقوی اپنی تحریر میں ایک ایک لفظ چن چن کر، خوب چھان پھٹک اور ٹھونک بجا کر لکھتے تھے۔ کسی واقعے کو تاریخی اور واقعاتی کسوٹی پر خوب کس کر تحریر کرتے تھے۔ وہ کسی قلم کار کی بات یا تحریر پر آنکھ موند کر عمل نہیں کرتے تھے۔ وہ زیرِ بحث مسئلے اور اس کے تعلق سے جملہ جزئیات پر مکمل یکسوئی کے ساتھ غور و فکر کے بعد نتیجہ اخذ کرتے اور اُس کے بعد اپنا فیصلہ قلم و قرطاس کے حوالے کرتے تھے۔ اس میں چاہے کتنی ہی محنت کیوں نہ کرنا پڑتی یا کتنا ہی وقت کیوں نہ صرف ہوتا وہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں لیتے تھے، اسی لیے ان کی نثر میں چاشنی کم ہوتی تھی۔ حنیف نقوی کا خط بہت خوب صورت تھا ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے چھاپ دیا ہو۔

پروفیسر حنیف نقوی اپنے اساتذہ خاص کر پروفیسر ابو محمد سحر اور پروفیسر گیان چند جین کا ذکر بڑے ادب و احترام سے کرتے تھے، اگر کسی ادبی موضوع پر اختلاف بھی ہوتا تو وہ اپنے کردار سے نہیں ہٹتے تھے۔ کئی مواقع ایسے آئے جب مرحوم کو اپنے استاد پروفیسر گیان چند جین سے ادبی اختلاف رہا اور انھوں نے بہ بانگِ دُہل تحریری اور تقریری طور پر اختلاف کیا مگر اپنے استاد کی بزرگی اور دانائی کا اعتراف کرتے ہوئے ادب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

پروفیسر حنیف نقوی اپنے دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بھی بڑے خلوص اور محبت سے کیا کرتے تھے۔ اکثر پروفیسر حسن عباس اور پروفیسر ظفر احمد صدیقی کا ذکر کرتے اور ہمیشہ مذکورہ دونوں شخصیات کی ادبی و علمی خدمات کا دل کھول کر اعتراف کرتے، مرحوم ادبی بخیل نہ تھے۔ ظفر صاحب کو وہ اپنا جانشین سمجھتے تھے۔ میں جب بھی مرحوم سے اُن کے زیرِ قلم ظہور اللہ خاں نواؔ اور مولوی مہیش پرشاد کے تعلق سے استفسار کرتا تو یہی کہتے ’’دیکھیے صاحب مواد اکٹھا کر رہے ہیں اگر ہم نہیں کر پائے تو یہ کام ظفر صاحب کریں گے، اُن میں کام کرنے کی صلاحیتیں بدرجۂ اتم موجود ہیں ‘‘۔

مجھے اُس وقت بہت خوشی ہوئی جب میں نے یہ پڑھا کہ ظفر صاحب نے مولوی مہیش پرشاد پر کام کرنے کا ڈول ڈال دیا ہے۔ مجھے یہ امید ہی نہیں یقین ہے کہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی مولوی مہیش پرشاد کے ساتھ ساتھ ظہور اللہ خاں نواؔ بدایونی پر بھی حنیف نقوی کی امیدوں کے شایانِ شان کام انجام دیں گے جس طرح حنیف نقوی نے اپنے اوّلین استاد مولوی اعجاز احمد معجزؔ سہسوانی کے مرتّب کردہ غیر مطبوعہ تذکرہ ’شعرائے سہسوان‘ کو کڑی محنت، لگن اور ژرف نگاہی سے مطالعہ کرنے کے بعد اپنے عہد تک مکمل کر کے شائع کر دیا۔

پروفیسر حنیف نقوی نے تقریباً ڈیڑھ درجن نثری مطبوعات اپنی یادگار چھوڑیں جن میں اُن کی پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ’شعرائے اردو کے تذکرے ‘ اُن کا اہم کارنامہ ہے جس کو اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ نے دوسری اشاعت کے طور پر 1998 میں شائع کر دیا ہے۔

اردو والوں میں یہ قدیم روایت ہے کہ وہ اپنے محسن اور مربی کی قدر و منزلت اس کے مرنے کے بعد کیا کرتے ہیں۔ آٹے میں نمک برابر ایسے اردو قلم کار ہوں گے جن کی ادبی خدمات کا اعتراف اُن کی زندگی میں کیا گیا۔ حنیف نقوی بھی ایسے خوش نصیبوں میں سے ایک تھے جن کا ادبی اعزاز اُن کی زندگی میں کیا گیا اور اُن کے چاہنے والوں نے اُن کی ادبی خدمات پر دل کھول کر لکھا جس کو پروفیسر حسن عباس نے ’ارمغانِ علمی‘ کے نام سے ترتیب دے کر پروفیسر حنیف نقوی کی نذر کیا جس کے لیے پروفیسر حسن عباس اردو والوں خاص کر اہلِ بدایوں کی جانب سے شکریے اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔

میں سرسیّد ایجوکیشنل سوسائٹی کے اربابِ حل و عقد کا صمیمِ قلب سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے اردو ادب کے ایک نامور سپوت کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بدایوں میں سمینار کا انعقاد کیا۔ سوسائٹی کے اراکین سے میری استدعا ہے کہ وہ سوسائٹی کے زیرِ اہتمام چلنے والے اپنے ادارے کے اُس ہونہار طالبِ علم کو ہر سال پروفیسر حنیف نقوی کی یاد میں حنیف نقوی ایوارڈ دینا شروع کریں جس میں اردو پڑھنے اور جاننے کی صلاحیتیں موجود ہوں، یہ پروفیسر حنیف نقوی کے لیے سچی خراجِ عقیدت ہو گی۔

پروفیسر حنیف نقوی مرے نہیں وہ زندہ ہیں اور وہ اُس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اس دنیا میں اُن کی ایک بھی تخلیق باقی رہے گی۔

——————-

244، سرائے جالندھری

بدایوں 243601- [یوپی]

٭٭٭

 

 

 

 

پروفیسر حنیف نقوی محققین کے درمیان

 

                ٹی۔ آر۔ رینا

 

22 دسمبر 2012 کی سرد رات کے ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے موبائل کی گھنٹی بجی، میں ابھی سویا نہیں تھا۔ میں نے فون اُٹھایا۔ دوسری طرف سے پروفیسر حسن عباس (شعبۂ فارسی بنارس ہندو یونیورسٹی) کی آواز سنائی دی۔ اُنھوں نے بھرے گلے سے اتنا کہا کہ ’’پروفیسر حنیف نقوی انتقال کر گئے، وہ اپنے گاؤں گئے ہوئے تھے ‘‘۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میں نے کہا یہ کب ہوا؟ انھوں نے جواب دیا ’ابھی ابھی خبر آئی ہے ‘۔ ہم زیادہ بات چیت نہیں کر پائے۔ ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ نقوی صاحب نے مجھے اپنے گاؤں سے فون کیا تھا، میری خیریت معلوم کی تھی اور یہ پوچھا تھا کہ مرحوم رشید حسن خاں کے خطوط کے دوسرے مجموعے کا کام کہاں تک پہنچا ہے۔ میں نے اُن کی صحت سے متعلق دریافت کیا تو اُنھوں نے جواب دیا ’’نقاہت محسوس ہو رہی ہے، جی چاہ رہا تھا کہ یہاں کے لوگوں سے مل لوں اِس لیے گاؤں چلا آیا، کچھ دن یہاں رہوں گا‘‘۔

اُن کی بڑی خواہش تھی کہ مرحوم رشید حسن خاں صاحب کے خطوط کا دوسرا مجموعہ جلد از جلد شائع ہو جائے۔ ’رشید حسن خاں کے خطوط‘ کا پہلا مجموعہ راقم نے فروری 2011 میں شائع کیا تھا، اُس میں خاں صاحب کے لکھے ہوئے نقوی صاحب کے نام 39 خطوط شامل ہیں اور دوسرے مجموعے کے لیے اُنھوں نے 95 اصل خطوط روانہ کیے تھے جن کے زیروکس بنوا کر راقم نے واپس کر دیے تھے۔

26 فروری 2006 کو رشید حسن خاں صاحب کا انتقال ہوا۔ ماہ مارچ کے بعد راقم نے اُن کے خطوط جمع کرنے کے لیے انجمن ترقی اردو (ہند) کے ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ کے ایک شمارے میں اشتہار دے دیا۔ پروفیسر حنیف نقوی کا پتا مجھے اسلم محمود صاحب (لکھنؤ) اور ڈاکٹر شمس بدایونی (بریلی) کی وساطت سے ملا۔ تب میں نے اُن کی خدمت میں ایک خط ارسال کیاجس کا جواب اُنھوں نے بڑی شفقت سے اِس طرح دیا:

 

CK 46/30-B, 3rd Floor

Benia Bagh, Varanasi-221001

Phone No. 0542-2412891

22 مارچ 2007

مکرمی! تسلیم

آپ کا نوازش نامہ مورخہ 22 جنوری موصول ہوا۔ا دھر کچھ دنوں سے بنارس میں رہنے کا اتفاق کم ہی ہوا، اِس لیے ڈاک جمع ہوتی رہی اور جواب میں تاخیر۔ 31مارچ 2006 سے 7فروری 2007 تک دائیں آنکھ کے تین آپریشن ہو چکے ہیں۔ ہر مہینے بھاگ کر دلّی جانا پڑتا ہے۔ پرسوں پھر جانے کا ارادہ ہے۔ وہاں سے بھوپال جانے کا پروگرام ہے، واپسی اِنشاء اللہ 20 اپریل کے آس پاس ہو گی۔

مضمون آپ نے توجّہ سے پڑھا اِس کے لیے ممنون ہوں۔

خاں صاحب کے خطوط میرے پاس ہیں ضرور، لیکن کہاں رکھے ہیں، کتنے باقی ہیں اور کتنے ضائع ہو گئے، یہ بتانا فی الوقت ممکن نہیں، تین بار مکانات کی تبدیلی کے دوران بہت سی چیزیں ضائع ہو گئیں، اس لیے اِس سلسلے میں معافی کا خواستگار ہوں۔ بہار میں کام کام کی طرح نہیں کیا جاتا اور بہار ہی کی کیا تخصیص ہے، پورے ملک کا یہی حال ہے۔ تحقیق ’کارِ ہوسِ مژگاں ‘ بن گئی ہے، خاں صاحب پر تحقیقی کام کرنے کے لیے وسعتِ علم اور ارمانِ نظر کے ساتھ ساتھ دماغ سوزی اور دیدہ ریزی بھی درکار ہے اور اب یہ اوصاف نایاب ہیں۔

امید ہے کہ مزاج بخیر ہو گا۔

مخلص حنیف نقوی‘‘

 

اس کے بعد خطوط کا سلسلہ چل نکلا۔ جب بھی میں خط لکھتا وہ باقاعدگی سے میرے خط کا جواب دیتے۔

نقوی صاحب اپنے وقت کے محققوں میں صفِ اوّل میں شمار ہوتے تھے، یہی حال ان کی تدوین کا بھی تھا۔ عربی، فارسی اور اردو کے قدیم و جدید ادب پر اُن کی گہری نظر تھی۔ وہ ماہرِ غالبیات بھی تھے۔ مولوی مہیش پرشاد سے لے کر اُن کے دَور تک جتنے لوگوں نے غالبؔ سے متعلق کام کیا، نقوی صاحب نے اِس میں مزید اضافے کیے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ غالبؔ سے متعلق کام اُس طرح آگے نہیں بڑھ پائے گا کیوں کہ یونیورسٹیوں میں اردو کی حالت سے سبھی واقف ہیں اور فارسی میں کام نہ ہونے کے برابر ہے۔

جن شخصیات نے غالبؔ پر کیے گئے مولوی مہیش پرشاد کے کام کی روایت کو آگے بڑھایا اُن میں مولانا امتیاز علی خاں عرشیؔ، مالک رام، کالی داس گپتا رضا، ڈاکٹر خلیق انجم، اکبر علی خاں عرشی زادہ اور نثار احمد فاروقی کے علاوہ ناموں کی ایک طویل فہرست ہے، جنھوں نے کسی نہ کسی صورت میں غالبؔ سے متعلق تحقیق میں اضافے کیے ہیں۔ لیکن نقوی صاحب نے غالبؔ سے متعلق جو کام کیا ہے اُس میں اضافے کے لیے کسی ایک اور نقوی کی ضرورت محسوس ہو گی۔

نقوی صاحب کا تحقیقی میدان اُن تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اس کی وسعت دوسرے محققین تک پھیلی ہوئی تھی۔ بہت سے محققین اور تدوین نگاروں نے ان کی تحقیقی بصیرت سے استفادہ کیا۔ وہ بہت ہی وسیع دل و دماغ کے مالک تھے۔ ہر ایک مشاہیرِ ادب کے خطوط اور اُن کے پوچھے ہوئے سوالات کا جواب وہ شواہد اور تفصیل سے دیتے، چاہے اِس کے لیے اُنھیں کتنا ہی وقت کیوں نہ صرف کرنا پڑے اور کتنے ہی قدیم نسخوں اور تذکروں کی ورق گردانی کیوں نہ کرنی پڑے، ان کار کے لیے اُن کی طبیعت میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس بات کی تصدیق کے لیے راقم مشاہیرِ ادب کے چند خطوط کے اقتباسات پیش کر رہا ہے تاکہ یہ بات صاف ہو جائے کہ نامور محققین نے تحقیق و تدوین میں ان سے وقتاً فوقتاً مدد لی ہے۔

خطوط وہ آئینہ ہوتے ہیں جن میں مکتوب نگار کی شخصیت کی جھلک نمایاں طور پر اور مکتوب الیہ سے اُس کے تعلقات کے روشن پہلو صاف نظر آتے ہیں۔

نقوی صاحب نے اپنی کتاب ’شعرائے اردو کے تذکرے ‘ میں قاضی عبدالودود کے کسی مضمون مشمولہ میرؔ نمبر میں خواجہ میر دردؔ سے متعلق اپنی اختلافی رائے کا اظہار کر دیا اور یہ کتاب اُنھیں بھیج دی۔ علالت کی وجہ سے قاضی صاحب نے اسے سرسری دیکھا اور انھیں وہ اختلافی عبارت نظر آئی۔ اُنھوں نے 29 دسمبر 1976 کو پٹنہ سے نقوی صاحب کو خط لکھا:

 

’’مکرمی!

کتاب ملی، بہت بہت شکریہ۔ ۔ ۔ میں نے اسے جا بجا سے دیکھا۔ ایک جگہ مجھ پر اعتراض نظر آیا۔ اگر آپ براہِ مہربانی میری عبارت جس پر اعتراض ہے بجنسہٖ نقل کر کے بھیج دیں تو اعتراض تسلیم کرنے کے قابل ہوا تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا۔ میں اپنی سابق رائے پر قائم رہا تو اس کی وجہ بتاؤں گا۔

ایک صاحب نے مجھے لکھنؤ سے لکھا تھا کہ آپ نے اس کتاب میں کئی جگہ مجھ پر اعتراض کیے ہیں۔ آپ اگر صفحات کا حوالہ دیں تو بڑی عنایت ہو گی۔ امید کہ آپ بخیر ہوں گے۔

خیر اندیش

قاضی عبدالودود‘‘

 

نقوی صاحب نے جس احترام و شائستگی سے اس خط کا جواب دیا وہ ملاحظہ فرمائیں :

’’میں اپنے بزرگوں اور محسنوں کا احترام ملحوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ آپ میرے بزرگ بھی ہیں اور محسن بھی۔ میں نے آپ کے ماندۂ علم و فضل سے زلّہ رُبائی کی ہے اور اسے اپنے لیے باعثِ شرف سمجھتا ہوں۔ لیکن اختلافِ رائے کو اس احترام و عقیدت کے منافی نہیں سمجھتا۔ لکھنؤ کے وہ صاحب غالباً اختلافِ رائے اور اعتراض کے نازک فرق سے واقف نہیں ‘‘۔

(بحوالہ ’ارمغانِ علمی نذرِ حنیف نقوی‘ از ڈاکٹر سیّد حسن عباس، اشاعت 2010، ص462، مرکز تحقیقاتِ اردو فارسی، گوپال پور، باقر گنج، سیوان، بہار)

’گلشنِ سخن‘ مرتّبہ پروفیسر سیّد مسعود حسن رضوی 1965 میں شائع ہونے والا تھا۔ اُس کے مندرجات سے متعلق نقوی صاحب نے بہ ذریعۂ خط اُن کی توجّہ مبذول کروائی۔ رضوی صاحب اپنے مکتوب مرقومہ 9 جون 1965 میں لکھتے ہیں :

 

’’عزیزِ مکرم سلام مسنون!

آپ کا 27مئی کا لکھا ہوا خط 29 کو مل گیا تھا۔ عدیم الفرصتی جواب میں تاخیر کی ذمہ دار ہے۔ بہرحال میں معذرت خواہ ہوں۔ ’گلشنِ سخن‘ کے بارے میں آپ نے جو اطلاعیں دی ہیں اُن کے لیے میں شکر گزار ہوں۔ لیکن افسوس ہے کہ اب میں اُن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ کتاب نصف سے زیادہ چھپ چکی ہے اور اس کی موہوم امید بھی نہیں ہے کہ میری زندگی میں اس کے دوسرے اڈیشن کی نوبت آئے گی۔ بہرحال، آپ کا کارڈ محفوظ رہے گا۔ شاید کبھی کسی کے کام آ جائے۔

خیراندیش

سیّد مسعود حسن رضوی‘‘

(بحوالہ ’ارمغانِ علمی نذرِ حنیف نقوی‘ ص467)

مالک رام صاحب ’تلامذۂ غالب‘ کے دوسرے اڈیشن کی تیاری میں مصروف تھے، نقوی صاحب نے غالبؔ کے چند شاگردوں کے نام انھیں بھیجے جن میں سرور تبریزی کا نام بھی شامل تھا، جو سورت کے نواب میر افضل کے میر منشی تھے۔ اس کے جواب میں مالک رام صاحب نقوی صاحب کو اپنے مکتوب مرقومہ 23 اپریل 1983 میں لکھتے ہیں :

 

’’مکرمی ڈاکٹر صاحب، آداب!

بہت دن ہوئے آپ نے کسی خط میں سرور تبریزی کے بارے میں کچھ (لکھا) تھا۔ آپ کا وہ خط کہیں ادھر اُدھر ہو گیا ہے اور فوری طور پر دستیاب نہیں ہو رہا ہے۔ اب جو ’تلامذۂ غالب‘ کی نظرِ ثانی میں ردیف ’س‘ تک پہنچا تو خیال آیا۔ لکھیے کہ آپ کیا چاہتے تھے۔ سرور تبریزی غالبؔ کے شاگرد تو ہیں نہیں۔ آپ نے مزید فرمایا تھا کہ آپ کو چودھری عبدالغفور سرورؔ کے ۹۳ اشعار مختلف مآخذ سے ملے ہیں۔ یہ سب نقل کرواکے عنایت کر دیجیے تاکہ ایک جگہ محفوظ ہو جائیں۔

آپ کو یہ سُن کر خوشی ہو گی کہ کتابت کا کام (اگرچہ رُک رُک کر) خوش اسلوبی سے ہو رہا ہے۔ کتاب شاید سال کے آخر تک طبع ہو، لیکن اب کے ضخامت تقریباً ڈیوڑھی ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اسی لحاظ سے قیمت بھی بڑھ جائے گی اِسے خریدے گا کون! میری صحت کچھ بہت ٹھیک نہیں۔ اتنی بھی غنیمت ہے۔ دعا کرتے رہیے گا۔

والسلام والاکرام

خاکسار

مالک رام‘‘

(ارمغانِ علمی نذرِ حنیف نقوی، ص471-72)

 

مولانا امتیاز علی عرشیؔ صاحب نے ’دستور الفصاحت‘ مرتّب کیا۔ نقوی صاحب نے اپنی کتاب ’اردو شاعروں کے تذکرے ‘ میں اس کے کچھ مندرجات سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا اور اس کا ایک نسخہ عرشیؔ صاحب کی خدمت میں بھیج دیا۔ اُنھوں نے اوّل تا آخر اس کا مطالعہ کیا اور اپنے خیالات اپنے مکتوب مرقومہ 5 اکتوبر 1978 میں یوں پیش کیا:

 

’’عزیزِ مکرم، تسلیم!

آپ کا تحفہ ’اردو شاعروں کے تذکرے ‘ ملا، اِس لطف و کرم کا دلی شکریہ قبول فرمائیں۔ میں نے اِس تحقیقی مقالے کو اوّل تا آخر پڑھا۔ آپ نے جس لگن سے مسالہ اکٹھا کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔ اور جس دیدہ ریزی سے اِسے مرتّب کیا ہے وہ مستحقِ تحسین و آفرین ہے۔ میں نے ’دستورالفصاحت‘ کے دیباچے میں لکھا تھا، ’میں نے کوشش کی ہے کہ حتی الامکان اِس مسئلے سے سیر حاصل بحث کروں۔ چوں کہ خود مجھے بھی غلط فہمی ہونے کا امکان ہے، اِس لیے چاہتا ہوں کہ ملک کے اربابِ تحقیق اس حصّے پر گہری نظر ڈال کر اپنی رائے کا اظہار فرمائیں۔

خدا کا شکر ہے کہ آپ نے میری اس تمنا کو پورا کر دیا۔ اگر میری زندگی میں ’دستورالفصاحت‘ کا دوسرا اڈیشن چھپا تو میں آپ کی اس بیش قیمت کتاب سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا۔

پروردگار آپ کی عمر اور علم دونوں میں برکت عطا فرمائے۔ آمین، دعا گو

عرشی‘‘

(ارمغانِ علمی نذرِ حنیف نقوی، ص473)

 

’ارمغانِ علمی نذرِ حنیف نقوی‘ میں پروفیسر سیّد حسن عباس نے پروفیسر گیان چند جین کے بیس خط شامل کیے ہیں، ہر خط میں جین صاحب نے کسی نہ کسی صورت میں نقوی صاحب سے تحقیق کے میدان میں مدد مانگی ہے۔ یہاں صرف ایک خط نقل کیا جاتا ہے جو 17 مئی 1956 کا ہے، جب نقوی صاحب انٹرمیڈیٹ کے طالبِ علم تھے اور جین صاحب شاید ’اردو مثنوی شمالی ہند میں ‘ مرتّب کرنے کے لیے مواد جمع کر رہے تھے۔ تاریخی اندراج کے مطابق جین صاحب کا یہ پہلا خط ہے۔ متن ملاحظہ فرمائیں :

 

’’عزیزی حنیف صاحب دعاہا!

مجھے آپ کے خط کا انتظار تھا۔ آج 15تاریخ کا مکتوبہ نہایت خوش خط رقعہ ملا۔ آپ کا ذوقِ تحقیق دیکھ کر نہایت مسرت ہوتی ہے۔ میں نے کوئی بی۔ اے کا طالبِ علم بھی ایسا نہیں دیکھا کہ جسے تحقیق سے شوق ہو۔ آپ انٹرمیڈیٹ میں ہی اتنی معلومات فراہم کر رہے ہیں۔

(۱) ذیل کی مثنویوں کے بارے میں یہ لکھیے کہ اِن کا مصنف کون ہے اور یہ کس تاریخ میں تصنیف ہوئیں۔ جن کی تاریخِ تصنیف نہ معلوم ہو سکے ان کی تاریخِ طباعت لکھ دیجیے۔ تاریخِ تصنیف یا تو مثنوی کے اختتام پر دی ہوئی ہوتی ہے یا ابتدا میں حمد و نعت وغیرہ کے بعد۔

’سببِ تالیف‘ کے عنوان سے بعض اوقات کچھ اشعار ہوتے ہیں۔ ان میں مادۂ تاریخ درج کر دیتے ہیں۔ اگر تاریخ معلوم نہ ہو سکے تو اِن کا زمانہ قیاس کرنا چاہیے۔ بعض اوقات حمد و نعت کے بعد حاکمِ وقت کی مدح ہوتی ہے، اس سے تاریخ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

ذیل کی مثنویوں میں سے دو تین کے بارے میں مجھے شبہ ہے کہ یہ بھی میری دیکھی ہوئی ہیں لیکن اس وقت اپنے Notes میں انھیں پا نہ سکا۔ ہاں تو ذیل کی مثنویوں کا مصنف اور سال تحریر کیجیے۔ ’گلزارِ عشق‘، ’فرہنگِ عشق‘، ’شگوفۂ عشق‘، ’دل ستاں ‘، ’جاں ستاں ‘، ’مثنوی دلآویز‘، ’ترانۂ غریب‘، ’نامۂ عشاق‘، ’کیدِ فرنگ‘۔

ان کے موضوع کے بارے میں بھی ایک لفظ لکھیے کہ یہ عشقیہ قصّہ ہے یا سوانح ہے یا محض عشق کے جذبات کا بیان ہے۔

(۲) ’گلشنِ عشق‘ نام کی تین مثنویاں تین مختلف اشخاص نے لکھی ہیں خواجہ بادشاہ سفیر، امام اور عنایت اللہ روشن۔ آپ کے پاس کون سی مثنوی ہے۔ ’گلزارِ عشق‘ عشرت کی مصنّفہ تو نہیں۔

(۳) ’لیلیٰ مجنوں ‘ بہت سی مثنویوں کا نام ہے۔ آپ کے پاس کس کی مصنّفہ ہے۔ غالباً ہوسؔ کی ہو گی۔ یہ میرے پاس ہے۔ باقی مثنویاں یا میرے پاس ہیں یا بھوپال میں کسی دوسری جگہ موجود ہیں۔

(۴) دکنی مثنویوں کے بارے میں کئی اچھی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہ میرے موضوع کے احاطہ میں نہیں۔ میں نے محض شمالی ہند کی مثنویوں سے علاقہ رکھا ہے۔ لیکن ایک باب میں دکنی مثنویوں کا بھی مفصّل ذکر کیا ہے۔ آپ لکھیے کہ آپ کے پاس جو تحقیقی مقالہ ہے وہ کسی رسالے میں شائع ہوا یا علاحدہ کتابی صورت میں۔ اس کا مصنف کون ہے۔ مقالہ کہاں سے شائع ہو گا۔

(۵) اگر آپ کے پاس اردو شعرا کے قلمی کلیات یا دیوان ہوں تو ان کی تفصیل لکھیے۔

(۶) کیا آپ کے پاس ذیل کی کتابیں ہیں :

۱- کلیاتِ انشا، ۲-کلیاتِ محسن کاکوروی، ۳- کاشف الحقائق دو جلد (تنقید) از امداد امام اثر، ۴- مشرقی تمدن کا آخری نمونہ یعنی گزشتہ لکھنؤ از شر رؔ۔ یہ مضامینِ شر ر کی کسی جلد کا نام ہے، ۵- ’اودھ پنچ‘ کے کچھ پرچے۔

(۷) کیا آپ کے پاس اردو شعرا کے تذکرے ہیں۔ یہ تذکرے اکثر فارسی میں ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس جو تذکرے ہوں، ان کے نام لکھیے۔

ذیل کے اشعار کے مصنف معلوم ہو سکے :

رستم رہا زمین پہ نہ سام رہ گیا

مردوں کا آسماں کے تلے نام رہ گیا

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند

کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

(قائم چاند پوری شاگردِ سوداؔ)

ناسخؔ کا یہ مہمل شعر تو آپ نے پڑھا ہو گا:

آدمی مخمل میں دیکھے مورچے بادام میں

ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں

ترچھی نظروں سے نہ دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ الخ

(ناسخؔ)

یہ شعر ناسخؔ اور وزیرؔ دونوں کے نام سے ملتا ہے۔ آپ ناسخؔ اور وزیرؔ کے کلّیات میں دیکھیے۔ غالباً کالج میں بھی وزیرؔ کا کلّیات ہے۔ میں بھی دیکھوں گا۔ اوپر لکھے ہوئے تمام استفسارات کا جواب لکھیے۔

اِس میں آپ کا بہت سا وقت صرف ہو گا۔

دعا گو

گیان چند

میرے پتے میں کالج کا نام نہ لکھیے محض مندرجہ بالا پتا کافی ہے ‘‘۔

(ارمغانِ علمی نذرِ حنیف نقوی 475-77)

اتنا طویل خط جین صاحب نے نقوی صاحب کو تب لکھا جب وہ گورنمنٹ حمیدیہ کالج بھوپال میں زیرِ تعلیم تھے۔ جین صاحب نے نقوی صاحب کے اندر چھُپے ہوئے محقق کو پہچان لیا تھا۔ اس خط کے علاوہ 19 اور ایسے معلوماتی اور دریافتی خط ہیں جنھیں یہاں نقل نہیں کیا جا سکتا۔ جین صاحب کا آخری خط جو نقوی صاحب کے نام کا ہے وہ 5 جولائی 2005 کو امریکہ سے درج ذیل پتے سے لکھا گیا ہے :

23, Nevada Irvine

CA 92606-1764 USA

جس وقت جین صاحب پارکن سن کی بیماری میں مبتلا تھے اور ٹھیک سے لکھ نہیں سکتے تھے تو وہ نقوی صاحب سے فون پر بات کیا کرتے تھے۔ نقوی صاحب کے حلقۂ احباب میں برصغیر ہند و پاک کی بہت سی ادبی شخصیات تھیں، ان میں سے چند کے اسماے گرامی اس طرح ہیں : پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر مختار الدین احمد، پروفیسر ابو محمد سحر، خواجہ احمد فاروقی، علی سردار جعفری، کالی داس گپتا رضا، وامق جون پوری، پروفیسر نیّر مسعود، سیّد مرتضیٰ حسین فاضل، مشفق خواجہ، پرتو روہیلہ، ڈاکٹر لطیف الزماں، ڈاکٹر سیّد معین الرحمن، پروفیسر عابد پیشاوری، ڈاکٹر شمس بدایونی اور آخر میں رشید حسن خاں صاحب کا نام درج کرتا ہوں کیوں کہ خاں صاحب نے نقوی صاحب کو بہت سے خط لکھے، جن میں سے نقوی صاحب نے 137 محفوظ رکھے، کچھ تلف بھی ہو گئے۔ ایسا انھوں نے ایک خط میں لکھا ہے۔

خاں صاحب اور نقوی صاحب ہم عصر تھے۔ خاں صاحب کی تاریخِ پیدائش 25 دسمبر 1925 ہے جب کہ نقوی صاحب 17 اکتوبر 1936 کو اس فانی دنیا میں وارد ہوئے۔

رشید حسن خاں صاحب نے کلاسیکی شعرا کے چند دواوین کے انتخاب شائع کیے ہیں اور ساتھ ہی کلاسیکی ادب کے متون مثلاً: ’فسانۂ عجائب‘، ’باغ و بہار‘، ’سحرالبیان‘، ’گلزارِ نسیم‘، ’مثنویاتِ شوق‘، ’مصطلحاتِ ٹھگی‘ اور ’زٹل نامہ‘ (جعفر زٹلّی) کی بھی تدوین کی ہے۔

خاں صاحب نے جو اتنے خطوط نقوی صاحب کو لکھے یہ سب کے سب اپنے تدوینی کاموں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے لکھے۔ جہاں کہیں خاں صاحب کسی الجھن میں مبتلا ہوتے یا اپنی کسی معلومات کی تصدیق کرنا چاہتے تو فوراً بہ ذریعۂ خط نقوی صاحب سے رابطہ قائم کرتے۔ نقوی صاحب اُن کی ایک ایک بات اور سوال کا جواب شواہد اور تفصیل سے دیتے اور وہ انھی کے نام کے ساتھ حوالۂ کتاب کرتے۔

خاں صاحب نے کافی طویل خطوط انھیں لکھے۔ ظاہر ہے ان کے جواب بھی طویل ہی ہوں گے۔ مگر خاں صاحب کی ایک کمزوری نے ادب کا بہت بڑا نقصان کر دیا۔ انھوں نے کسی ایک بھی مشہور ادیب کا ایک بھی خط محفوظ نہیں رکھا، سب کے سب تلف کر دیے۔

راقم نے ’رشید حسن خاں کے خطوط‘ کے پہلے مجموعے میں 61 حضرات کے 1038 خطوط فروری 2011 میں شائع کیے تھے۔ اب دوسرے مجموعے کے لیے تقریباً ڈھائی سو سے اوپر اور جمع کر لیے ہیں اور عنقریب ہی یہ مجموعہ بھی کمپوزنگ کے لیے جانے والا ہے۔ اگر تیرہ سو خطوط کے تیرہ سو جوابات محفوظ ہوتے تو یہ کتنا بڑا ادبی سرمایہ ہوتا۔

آج غالبؔ، سرسیّد، شبلی، حالیؔ، اقبالؔ، پریم چند اور دوسرے مشاہیرِ ادب کی ایک ایک تحریر کو جمع کیا جا رہا ہے، جن سے ادب میں نئے نئے اضافے ہو رہے ہیں۔ لیکن نقوی صاحب کے خطوط (بنام خاں صاحب) کے نہ محفوظ ہونے سے جو ادبی نقصان ہوا ہے اس کی تلافی تو ہو نہیں سکتی۔

اب راقم خاں صاحب کے چند خطوط کے اقتباسات نقل کرنا چاہے گا تاکہ ان کی روشنی میں یہ بات صاف ہو جائے کہ نقوی صاحب سے انھوں نے کس صورت میں مدد حاصل کی ہے۔ ساتھ ہی بہ حیثیت محقق اور مدون نقوی صاحب کا درجہ متعین کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔

رشید حسن خاں صاحب کا جو پہلا خط حنیف نقوی صاحب سے دستیاب ہوا ہے وہ 20 فروری 1980 کا ٹی سی 9، گائر ہال دہلی یونیورسٹی، دہلی 110007 سے تحریر کردہ ہے۔ ان دونوں کی ابھی تک آپسی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ خاں صاحب اُس وقت ’فسانۂ عجائب‘ مرتّب کر رہے تھے اور نقوی صاحب اُس وقت بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بہ حیثیتِ لکچرار منصبی فرائض انجام دے رہے تھے۔ اردو ادبی دنیا میں بہ حیثیت محقق ان کا نام ہو چکا تھا۔ ان کے چند مضامین خاں صاحب کی نظر سے گزر چکے تھے۔ انھی باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے خاں صاحب لکھتے ہیں :

 

’’مکرمی حنیف نقوی صاحب! تسلیم

مجھے آپ سے باضابطہ شرفِ ملاقات حاصل نہیں (البتہ غائبانہ شناسائی ضرور ہے ) اس کے باوجود توقع کرتا ہوں کہ یہ خط محرومِ جواب نہیں رہے گا۔ اس عنایت کے لیے منّت پذیر ہوں گا۔

میں آج کل ’فسانۂ عجائب‘ کا متن مرتّب کر رہا ہوں۔ یہ شعبۂ اردو کی اس کیم کا پہلا جز ہے۔ اس سلسلے میں مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ میں نے بجائے خود یہ خیال باندھ لیا ہے کہ آپ اس سلسلے میں استعانت سے دریغ نہیں کریں گے۔

’فسانۂ عجائب‘ کے حقوقِ اشاعت منشی نول کشور نے مصنّف سے خرید لیے تھے ؟ یہ 1867 (1283ھ ) کی بات ہے اور اُسی سال اُنھوں نے اس کتاب کا ایک اڈیشن (غالباً مصوّر) شائع کیا۔ یہ گویا اس پریس سے پہلا باضابطہ اڈیشن نکلا تھا۔ (اگرچہ اس سے پہلے بھی یہ کتاب وہاں سے چھپ چکی تھی) میں با وصف تلاش اس اشاعت کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ لکھنؤ میں بھی کہیں نہیں ملی۔

خیال آیا کہ بنارس سے سرور کا جو تعلق رہا ہے، اُس کے پیشِ نظر یہ امکان ہے کہ وہاں کسی کتاب خانے میں یہ اشاعت محفوظ ہو۔ اس سلسلے میں آپ کو زحمت دینا چاہتا ہوں۔ اگر آپ زحمت گوارا کر کے یہ معلوم کر سکیں کہ وہاں کسی کتاب خانے میں یہ اڈیشن موجود ہے، تو ممنون ہوں گا۔

اس سلسلے میں اگر آپ کوئی اور مشورہ یا اطّلاع دے سکیں تو اس کے لیے بہ طورِ خاص شکر گزار ہوں گا۔ اس زحمت دہی کے لیے معذرت طلب ہوں اور آپ کے خط (کے ) لیے چشم براہ۔

مخلص

رشید حسن خاں ‘‘

(’رشید حسن خاں کے خطوط‘ مرتّب راقم الحروف، اشاعت فروری 2011، ص313)

 

خاں صاحب میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بات کو گھما پھرا کر کرنے کے عادی نہیں تھے۔ تحقیقی کاموں میں وہ اپنے سے چھوٹوں سے پوچھنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ خدا جانے نقوی صاحب نے ان کے اس خط کا کب اور کیا جواب دیا، کیوں کہ جیساکہ پہلے ذکر آ چکا ہے انھیں خط محفوظ کرنے کا شوق نہیں تھا۔ لیکن اُن کے مکتوب مرقومہ 18 مارچ 1980 کے متن سے پتا چلتا ہے کہ نقوی صاحب نے وہ کتاب تلاش کر لی جس کا ذکر خاں صاحب نے اپنے مذکورہ بالا خط میں کیا تھا:

 

’’محبِ مکرم!

آپ کا خط ملا تھا، آپ نے جس تعلقِ خاطر کے ساتھ کتاب تلاش کی، اُس کے لیے منّت پذیر ہوں۔ آپ کے حسنِ اخلاق سے یہ بھی توقع کرتا ہوں کہ آئندہ بھی مجھے آپ سے گراں قدر مدد ملتی رہے گی۔ مہاراجہ کی لائبریری میں تلاش کرنا یوں بیکار ہے کہ اگر وہ کتاب وہاں ہو بھی تو میں اُس سے استفادہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا اُس کا خیال ہی کیوں کیا جائے۔

بھائی! آپ سے ایک اور مسئلے میں مدد لینا چاہتا ہوں۔ ’فسانۂ عجائب‘ میں شعر بہت سے ہیں اور میرا احوال یہ ہے کہ میں اس معاملے میں بہت پس ماندہ ہوں۔ یعنی مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ کون سا شعر کس کا ہے۔ آپ نے اس موضوع پر کام کیا ہے اور آپ کے مضامین کی ایک دو قسطیں اب سے کئی سال پہلے میں نے پڑھی تھیں۔ اس لیے چاہتا یہ ہوں کہ میں اپنے خط میں بالاقساط کچھ اشعار لکھتا رہوں اور اُن میں سے جن اشعار کا انتساب آپ کے ذہن میں ہو، آپ اُس سے مجھے مطلّع کر دیں۔ یہ مسلّم ہے کہ سب اشعار کی تخریج مشکل اور بہت مشکل ہے، بس جن اشعار کا انتساب معلوم ہو سکے، وہ کم سہی، وہی بہت ہے۔ آسمان کے تاروں کو کون گِن سکا ہے۔

میں کچھ اشعار اس خط میں لکھ رہا ہوں، زحمت گوارا کر کے یہ دیکھیے کہ ان میں سے کسی ایک یا چند اشعار کا انتساب معلوم ہو سکتا ہے ‘‘۔

(رشید حسن خاں کے خطوط، ص314)

خط کافی طویل ہے، پورا نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ خاں صاحب نے اسی خط کے ساتھ ایک صفحے پر پہلی قسط میں 27 اشعار لکھ بھیجے تاکہ جواب اُسی صفحے پر دیا جا سکے، اُنھیں (نقوی صاحب کو) دوبارہ اشعار لکھنے کی زحمت گوارا نہ کرنی پڑے۔

رشید حسن خاں صاحب کے مکتوب 3 ستمبر 1980 اور غالباً 15 ستمبر 1980 (خط پر تاریخ نہیں لفافے پر ڈاک خانے کی 17 تاریخ کی مہر صاف نظر آتی ہے ) کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے ایوانِ غالب میں ماہ دسمبر میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی غالبؔ سمینار میں نقوی صاحب کی شمولیت کی منظوری غالبؔ سمینار کمیٹی سے لے لی اور ساتھ ہی اُنھیں ’غالب نامہ‘ کے شمارے کے لیے غالبؔ پر کوئی مضمون بھیجنے کی درخواست بھی کی ہے۔ خاں صاحب اس کمیٹی کے رکن تھے، وہ چاہتے تھے کہ اس طرح نقوی صاحب سے ملاقات بھی ہو جائے گی اور دوسرے، نقوی صاحب کا اس طرح سے دائرۂ احباب بھی بڑھ جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔

نقوی صاحب کا مضمون ’غالب کا سفرِ کلکتہ‘ خاں صاحب تک پہنچ گیا اور انھوں نے اسے دفتر بھجوا دیا۔ خاں صاحب کو نقوی صاحب کی تحقیقی و تدوینی صلاحیت پر بھرپور اعتماد تھا۔ انھیں معلوم تھا کہ نقوی صاحب اس میدان میں پیش آنے والی مشکلات سے اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے اپنے دل کے پوشیدہ راز بھی اُن پر ظاہر کرنے میں ہچکچاتے نہیں تھے۔

’فسانۂ عجائب‘ کے متن کی تدوین اور کتابت مکمل ہو چکی تھی اور کتاب پریس جانے کو تیار تھی کہ خاں صاحب کو اچانک پٹنہ جانا پڑا، وہاں لائبریری میں اُنھیں سرور کا آخری نظرِ ثانی شدہ مطبوعہ نسخہ 1280 ہجری کا ملا۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق سب کو یہ معلوم تھا کہ 1276 ہجری کا ’فسانۂ عجائب‘ کا آخری نظرِ ثانی شدہ نسخہ ہے۔ خاں صاحب چاہتے تو اس کا کسی سے ذکر کیے بغیر ’فسانۂ عجائب‘ کو شائع کروا دیتے، مگر اُن کے تحقیقی و تدوینی اصولوں اور ضمیر نے ایسا کرنا قبول نہیں کیا۔ اس کا ذکر وہ نقوی صاحب سے اپنے مکتوب مرقومہ 5 جنوری 1981 میں یوں کرتے ہیں :

’’اب میری داستانِ پریشانی بھی سُن لیجیے۔ ’فسانۂ عجائب‘ کی کتابت اور تصحیح مکمل ہو چکی تھی۔ یہ ڈیڑھ سال سے زیادہ کی محنت کی کمائی تھی۔ پٹنے جو گیا تو وہاں ایک نیا مطبوعہ نسخہ ملا، 1280ھ کا۔ اب تک ہم سب کا خیال یہ تھا کہ آخری نسخہ 1276ھ کا ہے مطبع افضل المطابع کانپور کا۔ یہ بھی اُسی مطبعے کا ہے لیکن گویا اس مطبعے سے دوبارہ چار سال کے بعد چھپا ہے اور اسی اشاعت میں سرورؔ نے جی بھر کے ترمیمیں اور تبدیلیاں کی ہیں۔ اس طرح وہ ساری کتابت بے کار گئی۔ میں بہ آسانی یہ لکھ سکتا تھا کہ کام کی تکمیل کے بعد فلاں نسخہ ملا، لیکن یہ ایمان داری اور اصول دونوں کے خلاف ہوتا۔ طبیعت کو یہ بے ایمانی گوارا نہیں ہوپائی اور اس سارے کام کو کالعدم قرار دے کر، اب ازسرِنو پرسوں سے اس کام کو شروع کیا گیا ہے۔ سخت کوفت ہوئی لیکن یہ اطمینان بھی ہوا کہ اب اصولِ تدوین کے مطابق کام ہو گا اور یہ متن گویا قابلِ اعتبار ہو گا۔ تعجب اس پر ہے کہ اس نسخے کا حال اب تک معلوم نہیں ہو پایا تھا، اگرچہ مطبوعہ ہے۔

دوسرے لوگ کچھ بھی کہیں، مجھے یقین ہے کہ آپ اس پریشانی (کو) گوارا کرنے پر ضرور مطمئن ہوں گے اور ایسے ہی چند اور حضرات ہوں گے اور میں سب کے لیے نہیں، ایسے ہی چند حضرات کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔ جلدی کا میں قائل نہیں۔ جب بھی چھپے گا چھپ جائے گا۔ البتہ سارے کیے ہوئے کام کو ازسرِنو مرتّب کرنے میں اور ازسرِنو حواشی لکھنے میں اور اختلافِ نسخ تیار کرنے میں اُلجھن ضرور ہے اور بہت ہے، لیکن یہ ناگزیر ہے، اس کا شکوہ کیا۔ پچھلے دو تین ہفتے اسی ناگزیر الجھن میں گزرے ہیں۔

رشید حسن خاں ‘‘

(رشید حسن خاں کے خطوط، ص326)

نقوی صاحب کی گرفت قدیم اردو شعرا کے تذکروں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ بہت سے کلاسیکی متن جو 1985 تک تدوینی اصولوں پر مرتّب ہو کر شائع ہو چکے تھے، انھیں بھی وہ معیاری نہیں مانتے تھے۔ اس کی ایک مثال یوں پیش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ایک خط مرقومہ ماہِ ستمبر 1985 میں خاں صاحب کو لکھتے ہیں کہ: ’’فسانۂ عجائب کا اب تک شائع شدہ کوئی نسخہ معیاری اور قابلِ اعتنا قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘۔ خاں صاحب انھیں اپنے خط مرقومہ 9 ستمبر 1985 میں یوں جواب دیتے ہیں :

’’آپ نے بہت صحیح بات لکھی ہے کہ ’فسانۂ عجائب کا اب تک شائع شدہ کوئی نسخہ معیاری اور قابلِ اعتنا قرار نہیں دیا جا سکتا‘۔ میں اس سے سو فیصدی متفق ہوں۔ یار لوگ اِدھر اُدھر کی تنقیدی باتیں لکھ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ تدوین کا حق ادا ہو گیا۔ تدوین کیا ہے، اس سے کم سروکار رکھتے ہیں اور نہیں جانتے کہ تدوین کا مطلب ہے حرف حرف اور لفظ لفظ کا حساب دینا اور خیالات پر دعووں کی بنیاد نہ رکھنا۔ تعجب ہوا اس پر کہ میرے کرم فرما جین صاحب نے ’آجکل‘ والے مضمون میں دو ایسے نسخوں کی تدوین کے لحاظ سے تعریف کی ہے، جو تدوین کے معیار پر کسی طرح پورے نہیں اُترتے، اس کے برعکس غلط نگاری اور غلط اندیشی کی مثالوں سے یہ نسخے بھرے ہوئے ہیں۔ اب کسے رہنما کرے کوئی! سچ یہ ہے کہ تدوین، تحقیق سے آگے کی چیز ہے ‘‘۔

(رشید حسن خاں کے خطوط،ص 336-37)

آپ دیکھتے ہیں کہ نقوی صاحب نے ’فسانۂ عجائب‘ کے کسی بھی نسخے کو معیاری نہیں مانا۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ وہ تدوین کے اصولوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ تحقیق و تدوین کے فرق کو بھی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نقوی صاحب کے ساتھ رشید حسن خاں صاحب کے تعلقات زندگی کے آخری ایام (26 سال یعنی 20 فروری 1980 سے 26 فروری 2006) تک رہے۔ اس دوران خاں صاحب نے جتنے کلاسیکی متن مرتّب کیے (جن کے نام پہلے آ چکے ہیں ) اُن میں کسی نہ کسی صورت نقوی صاحب کی مدد شامل رہی ہے۔

نقوی صاحب بہت پہلے ’مرزا رجب علی بیگ سرورؔ‘ پر کام کر چکے تھے اور یہ کام معیاری بھی تھا، مگر وہ ادبی دنیا سے اتنے متعارف نہیں ہوئے تھے۔ خاں صاحب کے مشورے سے یہ غالبؔ کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے غالبؔ سے متعلق نہایت عمدہ تحقیقی مضامین لکھے، جنھیں خاں صاحب نے ’غالب نامہ‘ میں شائع کروایا۔ ساتھ ہی انھیں بین الاقوامی غالبؔ سمینار جو دسمبر 1983 میں غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی میں منعقد ہوا، میں پہلی بار شرکت کے لیے مدعو بھی کیا۔

19دسمبر 1983 کے خط میں رشید حسن خاں نقوی صاحب کو لکھتے ہیں :

’’آج ’غالب نامہ‘ پریس کے لیے تیار ہو پایا۔ میں نے پچھلے خط میں وعدہ کیا تھا کہ آپ کو مطلع کروں گا کہ آپ کے مضمون کے کتنے صفحات شامل ہو سکیں گے۔ اسی سلسلے میں یہ چند سطریں حوالۂ قلم کر رہا ہوں

آپ کے اس مقالے کے 22 صفحات اس شمارے میں شامل ہیں جو آپ کے نوشتہ سوا تیرہ صفحات کے برابر ہیں۔

میں نے تو یہ چاہا تھا کہ مکمل مقالہ ایک ہی شمارے میں شائع ہو، لیکن آپ کا اصرار تھا کہ ابتدائی صفحات اس بار ضرور چھپ جائیں، اس لیے میں نے اپنی رائے پر عمل نہیں کیا۔ بات یہ ہے کہ ایسے اچھے مقالوں کا ایک حصہ اگر ایک بار چھپ جائے تو پھر دوسری اشاعت تک بہت سے قارئین کے ذہن سے وہ ابتدائی مباحث نکل چکے ہوتے ہیں ‘‘۔ (غیر مطبوعہ)

خاں صاحب چاہتے تھے کہ نقوی صاحب غالبؔ سے متعلق زیادہ سے زیادہ کام کریں۔ ان کی دوربین نگاہوں نے نقوی صاحب کے اندر کے محقق و مدون کی پہچان کر لی تھی۔ جوہری ایک نظر ہیرے کو دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ وہ نقوی صاحب سے ایسا کام لینا چاہتے تھے جو آج تک کسی نے نہ کیا ہو۔

وہ 2 اگست 1984 کے خط میں لکھتے ہیں :

’’ایک بات دریافت طلب ہے : کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ غالبؔ کے فارسی کلام سے متعلق کوئی حصہ بہ غرضِ تدوین آپ کو دیا جا سکے، نثر یا نظم، کیا ایسی کوئی صورت نکل سکتی ہے کہ حصّۂ قصائد و مثنویات کو آپ مرتّب کر سکیں۔ ’پنج آہنگ‘ بھی ہو سکتی ہے اور ’مہر نیم روز‘ بھی۔ آخر الذکر درجۂ مجبوری‘‘۔ (غیر مطبوعہ)

نقوی صاحب نے خاں صاحب کو کیا جواب دیا، اُس کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ پہلے بتائی جا چکی ہے۔ پندرہ دن کے بعد خاں صاحب اسی سلسلے کا ایک اور خط لکھتے ہیں، اُس کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں :

’’غالبؔ کے کلامِ فارسی کی تدوین کو آپ اپنے ذمّے لے لیجیے۔ یہ کام عمر بھر کی کمائی ثابت ہو گا اور مزید شہرت و ناموری کا سبب بھی بنے گا اور ایک اچھا کام بھی ہو جائے گا۔

مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ اب ہمارے یہاں قاضی صاحب اور عرشیؔ صاحب جیسے کام کرنے والے موجود نہیں اور اب توقع بھی نہیں پائی جاتی، مگر یہ بھی صحیح ہے کہ کچھ نئے لوگ ایسے ہیں جو تحقیق و تدوین دونوں کاموں کو انجام دے سکتے ہیں اور اُنھی سے اب کام لینا ہے۔ یہ بھی دوچار سے زیادہ نہیں اور اس تعداد میں بھی اضافہ اب مشکل معلوم ہوتا ہے۔ (خدا کرے میرا یہ خیال غلط ثابت ہو)۔

غالبؔ کے کلامِ فارسی کی تدوین کو آپ اپنے ذمّے لے لیجیے۔ یہ کام عمر بھر کی کمائی ثابت ہو گا اور مزید شہرت و ناموری کا سبب بھی بنے گا اور ایک اچھا کام بھی ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ضروری مآخذ کے عکس آپ کو ملنا چاہیے۔ آپ براہِ کرم یہ کیجیے کہ ایک فہرست اُن مآخذ کی بنا دیجیے جن کی ضرورت ہو گی۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ (میرے خط کا حوالہ دے کر) ایک ضابطے کا خط لکھ دیجیے خواہ سکریٹری کے نام، خواہ چیرمین پبلی کیشن کمیٹی کے نام، کہ آپ اس کام کو انجام دیں گے، اور یہ کہ آپ کو فلاں فلاں عکس درکار ہوں گے۔ یہ خط آٹھ دس دن کے اندر اگر آ جائے تو خوب ہو۔

اسے رجسٹرڈ بھیجیے گا (محض احتیاطاً) ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ رفعت سروش صاحب کے نام اِسے آنا چاہیے، یعنی لفافے پر پتا اُن کا ہو، اندر خطاب سکریٹری یا چیرمین سے ہو۔

دیکھیے میرے بھائی! میری ذاتی خواہش ہے اس کام کو مکمل کرانے کی، اس لیے یہ ساری کھکھیڑ اُٹھا رہا ہوں۔ دفتر کا احوال آپ خوب جانتے ہیں۔ جو کام دفتر والوں کے حوالے ہو گا، اُس میں غیر ضروری تاخیر لازمی ہے، اس لیے میری تجویز ہے کہ جس قدر عکس درکار ہوں، اگر آپ اُن کو اپنے طور پر حاصل کر لیں تو یہ کام جلد ہو گا اور بہ حسن و خوبی، بلکہ یوں کہیے کہ ہو جائے گا، ورنہ ٹلتا رہے گا۔ جس قدر صرف آپ کا اس پر آئے گا، وہ سب ادارے کی طرف سے برداشت کیا جائے گا، یعنی آپ کو ادا کر دیا جائے گا، یہ میری ذمّے داری ہو گی۔ میں اس کی باضابطہ منظوری لے کر درجِ رجسٹر کرالوں گا اور آپ کو باضابطہ بھی مطلع کر دوں گا۔ جس قدر عکس آپ حاصل کریں گے، اِس طرح وہ سب ملکیت ہوں گے ایوانِ غالب کی لائبریری کی۔ کام کی تکمیل کے بعد وہ لائبریری کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ بس ایک اُلجھن ہو گی رام پور کی لائبریری بند پڑی ہے، اُس کا کیا بنے گا، یہ معلوم نہیں۔ خیر، دیکھا جائے گا۔ آپ پہلے منظوری کا خط لکھ دیجیے، تاکہ میں کمیٹی میں پیش کر کے ان تفصیلات کو ضابطے کے اندر طے کرالوں اور پھر آپ کو باقاعدہ اطلاع دوں۔ کام آپ ابھی سے شروع کر دیجیے کیوں کہ پہلے تو اپنے ہاتھ سے آپ کو متن تیار کرنا ہو گا، وہ شروع کر دیجیے، اختلاف کا احوال بعد کو طے ہوتا رہے گا۔ جو نسخے یہاں کتاب خانے میں ہیں، وہ آپ حاصل کر سکتے ہیں۔ کچھ نسخے آپ کے پاس بھی ہوں گے۔ اُن کی بنیاد پر کام شروع کر دیجیے۔

مخلص

رشید حسن خاں ‘‘

( دہلی، 17 اگست 1984، غیر مطبوعہ)

 

خاں صاحب نے اپنے دل کی بات کھلے طور پر اس خط میں ظاہر کر دی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نقوی صاحب غالبؔ کے فارسی کلام کی تدوین ہر صورت میں کریں۔ وہ اس پروجیکٹ پر آنے والے اخراجات کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار ہیں۔

نقوی صاحب نے خاں صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ضابطے کا خط بھیج دیا جو اُنھیں 29 اگست 1984 کو ملا۔ وہ اس مسئلے کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں :

’’آپ کا لفافہ آج ہی ملا۔ شکر گزار ہوں۔ آپ کا خط اشاعتی کمیٹی کی میٹنگ میں پیش کر دیا جائے گا۔ میٹنگ شاید اگلے مہینے کے اواخر میں ہو سکے گی، اُس کے بعد باضابطہ آپ کو مطلع کروں گا۔ (اس سال کے لیے اشاعتی سب کمیٹی کا چیئرمین میں ہی ہوں )۔

ایک ضروری بات! ایوانِ غالب کی لائبریری میں جو کتابیں آپ کی فہرست میں سے موجود ہیں وہ سب آپ کو دے دی جائیں گی۔ اب رہے عکس، تو رام پور کی صورت تو یہ ہے کہ ابھی لائبریری میں تالے پڑے ہوئے ہیں، جب لائبریری کھلے گی تب وہاں کے نسخے کے متعلق کچھ کیا جا سکے گا۔

اب رہے علی گڑھ اور پٹنے کے نسخے، وہ سب آپ کو ملنا چاہیے، ضرور ملیں گے ؛ لیکن جیساکہ میں نے پچھلے خط میں لکھا تھا، اگر آپ بہ طورِ خود عکس حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو جلد تر اور بہ آسانی مل جائیں گے۔ مثلاً آپ عابد رضا بیدار صاحب کو لکھیں گے یا علی گڑھ میں کسی کو لکھیں گے تو بہ آسانی مل جائے گا۔ خرچ سارا غالب انسٹی ٹیوٹ برداشت کرے گا۔ کراچی والے نسخے کے لیے مشفق خواجہ کی مدد لی جا سکتی ہے، وہ بہت عمدہ آدمی ہیں فوراً مدد کریں گے۔

یہ کام اگر دفتر والوں پر چھوڑ دیا جائے گا، تو دفتر کا احوال آپ کو خوب معلوم ہے۔ اصل میں یہ کام میں اپنی کوشش سے اور اپنے ذوق کے مطابق کرانا چاہتا ہوں اور اسی لیے میں نے آپ کے سپرد یہ کام کرنا چاہا ہے۔ جلدی کی ضرورت بھی نہیں، میں خود عجلت کا قائل نہیں۔ ’فسانۂ عجائب‘ کا احوال آپ کو معلوم ہے۔ آپ دل لگا کر کام کیجیے، میں چاہتا ہوں کہ یہ آپ کا کام تدوین کے معیار پر پورا اُترے اور مثالی کام ہو۔ میں یہ بھی ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ بعض نئے لوگ، ذمّے داری سے زیادہ آشنا ہیں اور زیادہ اہل ہیں، اور ٹھپّا لگے ہوئے دیوالیے اس کے اہل نہیں کہ اُن کو کوئی اعلا ذمّے داری سونپی جائے۔

مخلص

رشید حسن خاں

 

ہاں، میری تجویز یہ ہے کہ کلّیاتِ نظم فارسی دو جلدوں میں ہوں ؛ ایک جلد میں غزلیں، رباعیاں، قطعات وغیرہ۔ دوسری جلد میں قصائد اور مثنویات۔ لیکن یہ قطعی تقسیم نہیں۔ کام مکمل ہونے پر صحیح فیصلہ کیا جا سکے گا۔ میری رائے یہ ضرور ہے کہ پہلے آپ غزلوں کا حصّہ شروع کریں۔ اس میں جھگڑے بھی کم ہیں، نہ ہونے کے برابر۔

پسِ پشت: سمینار والا مضمون محفوظ ہے اگلے شمارے کے لیے۔ اس بار آپ کا بقیہ مضمون طویل تھا، اِس لیے دوسرے مضمون کی شمولیت مناسب نہیں تھی۔ انصار اللہ صاحب کا طویل مضمون مولانا صہبائی پر تھا اُسے بھی روک لیا ہے اگلے شمارے کے لیے ‘‘۔

(غیر مطبوعہ، 29 اگست 1984)

 

خط کا آخری اقتباس غور طلب ہے۔ خاں صاحب نے کتنی بڑی بات بلا جھجک کہہ دی۔ اُنھیں نقوی صاحب کی تدوینی صلاحیت پر پورا اعتماد تھا کہ ان کا کیا ہوا کام تدوینی معیار پر پورا اُترے گا۔ اس بات کی تصدیق اُن کے 12 دسمبر 1984 والے خط کے دو جملوں سے مزید ہوتی ہے :

 

’’میرا جی بہرحال یہی چاہتا ہے کہ آپ اس کام کو انجام دیں۔ بہت سے دوسرے لوگ کر سکتے ہیں اس کام کو، مگر اُسی طرح کریں گے جس طرح مثلاً سلیمان حسین صاحب نے ’فسانۂ عجائب‘ کے متن کو مرتّب کیا ہے، یا جیسے بعض بزرگوں نے کچھ کام انجام کو پہنچائے ہیں ‘‘۔

(غیر مطبوعہ)

آخرکار نقوی صاحب نے رشید حسن خاں صاحب کے مشورے پر عمل کیا، اُن کی دوسری کتابوں کے ساتھ ساتھ ’غالب: احوال و آثار‘، ’پنج آہنگ‘ اور ’مآثرِ غالب‘ جیسے تحقیقی و تدوینی کارنامے منظرِ عام پر آئے، جو واقعی بہ قولِ خاں صاحب ’ان کی شہرت و ناموری کا سبب بنے ‘۔ دھیرے دھیرے انھوں نے ادب میں وہ مقام حاصل کر لیا جس کے وہ مستحق تھے۔

اب میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کے مضمون ’حنیف نقوی کی جاسوسیاں ‘ (جو پہلے نقوی صاحب کی حیات میں ’ارمغانِ علمی نذرِ حنیف نقوی‘ اور اب ’اردو دنیا‘ ماہ مارچ 2013 میں شائع ہوا ہے ) سے دو اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں، جو انھوں نے ’مآثرِ غالب‘ مرتّبہ قاضی عبدالودود سے متعلق نقوی صاحب کے حوالے سے درج کیے ہیں :

’’اس کی ایک مثال قاضی عبدالودود کی مرتّب کردہ ایک چھوٹی سی کتاب ’مآثرِ غالب‘ پر ان کے حواشی اور استدراک سے ملتی ہے۔ یہ رسالہ غالبؔ کے بعض خطوط اور بعض منظومات اور ان پر قاضی عبدالودود کے حواشی اور تدوین پر مبنی ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جانا چاہیے کہ جس کتاب پر قاضی عبدالودود نے حواشی لکھے ہوں اس پر کسی اور کو کچھ کہنے کی گنجائش کیا ہو سکتی ہے ؟ یہ کتاب 1949 میں علی گڑھ میگزین میں مختار الدین آرزوؔ صاحب نے ایک طویل مضمون کی شکل میں شائع کی تھی، بعد میں خدا بخش لائبریری نے اسے کتابی شکل میں شائع کیا اور اشاعتِ نو کے لیے حنیف نقوی سے استدراکات اور حواشی لکھوائے۔

حنیف نقوی نے جا بجا قاضی صاحب کی عبارات پر اضافے کیے ہیں یا تشنہ عبارتوں کی تکمیل کی ہے۔ مثال کے طور پر، غالبؔ کا قول تھا کہ ملا طغرا نے لفظ ’دریچہ‘ کو بتحریک سوم یعنی بر وزن فاعلن باندھا ہے۔ قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے اس سے اختلاف ہے۔ لیکن نقوی صاحب نے ملا طغرا کا شعر ڈھونڈ کر اپنے حاشیے میں درج کیا:

روز و شب دریچۂ مشرق و مغرب باز است

ورنہ از تنگی این خانہ نفس می گیرد

اسی طرح، قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ فردوسیؔ نے ’شاہنامہ‘ میں ایک جگہ ’رفت‘ کا قافیہ ’گرفت‘ کیا ہے۔ انھوں نے شعر نہیں دیا۔ لیکن حنیف نقوی نے فوراً شعر درج کر دیا:

سر و دل پُر از کینہ کرد و برفت

تو گویی کہ عہدِ فریدون گرفت

قاضی صاحب کو ’محققوں کا محقق‘ کہا گیا ہے، مگر نقوی صاحب نے ان کے کام میں بھی اضافے کیے ہیں ‘‘۔

اسی مضمون میں شمس الرحمن فاروقی صاحب نقوی صاحب کی تحقیق اور یادداشت کی داد یوں دیتے ہیں :

’’نقوی صاحب کو میں ایک مدت سے پڑھتا رہا ہوں اور شاید ہی کوئی تحریر ان کی ایسی ملی ہو جسے پڑھ کر میری معلومات میں اضافہ نہ ہوا ہو، یا میری کوئی غلط فہمی دور نہ ہوئی ہو۔ یہ ضرور ہے کہ ایک زمانے تک ان کی شہرت کچھ ’شہرت شکن‘ لوگوں کی سی تھی۔ یعنی وہ بڑے بڑے محققوں کی غلطیاں یا فروگذاشتیں ڈھونڈنے اور بیان کرنے میں ماہر تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کے کام کی بعض ایسی خوبیاں مجھ پر کھلیں جن میں مجھے ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ مثلاً ایک تو یہ کہ اگر کسی لفظ کے بارے میں سوال ہو کہ یہ کب استعمال ہوا اور کن کن پرانے شاعروں کے یہاں یہ لفظ نظر آتا ہے، تو تھوڑے سے تامل یا تھوڑی سی تلاش کے بعد حنیف نقوی آپ کے سوال کا شافی جواب دے دیں گے۔ یا مثلاً اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ کوئی شاعر اور خاص کر کوئی نسبتاً گمنام شاعر، کس کا شاگرد تھا اور کن تذکروں میں اس کا ذکر ملتا ہے تو اس کا جواب بھی حنیف نقوی کے یہاں سے فوراً یا تقریباً فوراً مل جائے گا‘‘۔

(اردو دنیا، مارچ2013، جلد 15، شمارہ3، ص10)

ادبی دنیا کے ماہرین نے نقوی صاحب کو ماہرِ غالبیات کہہ کر نوازا ہے کیوں کہ وہ غالبؔ سے متعلق کئی نئی دریافتوں کو منظرِ عام پر لائے، مثلاً ’پنج آہنگ‘ کے قدیم ترین قلمی نسخہ (نسخۂ بنارس) کی دریافت سے یہ ثابت کر دیا کہ یہ سب سے قدیم اور اوّلین نسخہ ہے۔ اسی میں درج ایک رباعی کے حوالے سے (جو کسی اور نسخے میں درج نہیں ) یہ ثابت کیا ہے کہ غالبؔ کے کلّیاتِ فارسی کا تاریخی نام ’مے خانۂ آرزو سر انجام‘ ہے اور اس کا سالِ ترتیب ۱۲۵۰ھ برآمد ہوتا ہے۔

ان سبھی آرا و شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نقوی صاحب اب تک کے ادبی محققین کے درمیان منفرد حیثیت کے مالک نظر آتے ہیں۔

————————

ڈاکٹر ٹی۔ آر۔ رینا

F-237، لوئر ہری سنگھ نگر، رہاڑی کالونی

جمّوں 180005- (جے اینڈ کے )

trrainaraina@yaho.com

٭٭٭

 

 

 

 

پروفیسر حنیف نقوی : چند باتیں، چند یادیں

 

                محمد نعمان خاں

 

بھوپال میں سکونت پذیر حنیف نقوی صاحب کے اعزا خصوصاً اُن کے خالو جناب مولوی عبدالمالک صاحب مرحوم سے میرے خاندان کے مراسم گہرے اور مضبوط تھے۔ حنیف نقوی صاحب کا وطن اگرچہ سہسوان تھا لیکن انھوں نے اپنی اعلا تعلیم کی تکمیل بھوپال میں اپنے خالو عبدالمالک صاحب کے ساتھ قیام پذیر رہ کر ہی کی تھی۔ میرے مکان سے کیوں کہ مالک صاحب کا دولت کدہ زیادہ دور نہ تھا اس لیے، میں بچپن ہی سے نقوی صاحب کا صورت آشنا تھا لیکن ان سے باقاعدہ تعارف اور بالمشافہ ملاقات کا موقع مجھے نہیں مل سکا تھا۔

بھوپال میں اعلا تعلیم کی تکمیل کے بعد نقوی صاحب کا تقرر بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بحیثیت استاد ہو جانے کے سبب وہ بنارس منتقل ہو گئے لیکن تعطیلات میں اور خاندانی تقاریب میں شرکت کی غرض سے بھوپال آمد و قیام کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ وہ جب بھی بھوپال آتے استادِ محترم پروفیسر عبدالقوی دسنوی صاحب مرحوم سے ملاقات کرنے کی خاطر شعبۂ اردو سیفیہ کالج یا دسنوی صاحب کے دولت کدے پر ضرور تشریف لاتے۔ دورانِ ملاقات دیر تک مختلف ادبی مسائل خصوصاً تحقیقی موضوعات پر گفتگو کرتے۔ ان کی گفتگو سُن کر ان کے غیر معمولی حافظے، تبحرِ علمی اور ذہانت کا اندازہ ہوتا۔

انہی ملاقاتوں کے دوران میرا اُن سے نہ صرف تعارف ہوا بلکہ مضبوط رشتہ بھی قائم ہو گیا۔ جب میری پہلی کتاب ’بھوپال ادب کے آئینے میں ‘ 1994 میں شائع ہوئی تو اس کی ایک کاپی میں نے اُن کی خدمت میں روانہ کی۔ مذکورہ بالا کتاب کے مطالعے کے بعد اُنھوں نے میرے نام تفصیلی خط ارسال کر کے کتاب کے مشمولات پر اپنی گراں قدر رائے اور حوصلہ افزا کلمات سے نوازا۔ ان سے جب بھی ملاقات کے مواقع میسر آتے وہ مجھ سے شفقت و خلوص سے پیش آتے، میرے ادبی مشاغل سے متعلق استفسار کرتے اور مخلصانہ مشوروں سے بھی نوازتے۔

اپریل 2002 میں جب میرا تقرر بہ عہدۂ ریڈر، این سی ای آر ٹی نئی دہلی ہو گیا اور وہاں مجھے CBSEسے ملحقہ اسکولوں کے طلبہ کے لیے اردو زبان کی ماڈل ٹیکسٹ بکس تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور اسکولی سطح کی تعلیم و تدریس کے لیے مادری، ثانوی اور تیسری زبان اور اردو ورژن کی درسی کتاب معاون درسی کتب نیز دیگر Instructional Material کی تیاری کا کام شروع ہوا تو ان درسی کتب کی Writer’s Team میں ملک کے جن سربرآوردہ دانشوروں اور ماہرینِ تعلیمات کو شامل کیا گیا اُن میں ایک نام پروفیسر حنیف نقوی صاحب کا بھی تھا۔ میں یہ تو جانتا تھا کہ نقوی صاحب عالم، ادیب، شاعر اور محقق تو ہیں لیکن وہ بچوں کی نفسیات کے نبض شناس، ماہرِ تعلیم بھی ہیں، اس کا اندازہ مجھے این سی ای آر ٹی Workshops میں ان کے ساتھ کام کرنے کے بعد ہی ہو سکا۔ اُن کے ساتھ کام کر کے جہاں بہت کچھ سیکھنے کے مواقع میسر آئے وہیں یہ بھی انکشاف ہوا کہ وہ درسیات کی Methodology سے ہی نہیں Pedagogy سے بھی بخوبی واقف تھے۔ متن کے انتخاب میں طلبہ کی نفسیات اور جماعت کی سطح، زبان اور مواد کے معیار کو بھی ملحوظ رکھتے تھے۔ اُنھیں اسکولی سطح پر اردو زبان کی تعلیم وتدریس کی اہمیت اور ضرورت کا بخوبی احساس تھا اس لیے، جب بھی ان سے درخواست کی جاتی یا زحمت دی جاتی، وہ اپنی عدیم الفرصتی اور خرابیِ صحت کے باوجود NCERT Workshops میں شرکت ضرور کرتے اور درسی کتب کو مفید، بہتر اور معیاری بنانے میں ہر ممکن مدد کرتے۔ ورک شاپ کا دعوت نامہ وصول ہونے اور این سی ای آر ٹی نئی دہلی آنے سے قبل بذریعے ٹیلی فون پروگرام کی نوعیت اور اس کے اغراض و مقاصد سے متعلق استفسار کرتے اور اپنی ذہن سازی کے علاوہ پروگرام سے متعلق ضروری متن و مواد بھی ساتھ لاتے۔ ورک شاپس میں ان کا Participation ہر اعتبار سے مثبت اور کار آمد ہوتا۔ مجھے ان کے ساتھ کئی ورکشاپس میں کام کرنے کے مواقع ملے۔ میں نے دیکھا اور محسوس کیا کہ وہ غیر معمولی ذہین اور وسیع المعلومات اس کالر تھے۔ ان کا حافظہ بہت تیز تھا۔ اگر انھیں زندہ Encyclopediaکہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ عربی، فارسی، اردو لغات پر وہ گہری نگاہ رکھتے تھے۔ الفاظ و مصطلحات کی وجہ تسمیہ، تراکیب کی تشکیل کے اسباب، لفظیات کا مادّہ اور ماخذ، متون کے صحیح ماخذات اور صحیح قرأت و ادائیگی، شعرا و اُدبا کی صحیح تاریخِ پیدائش اور تاریخِ وفات، مستند تاریخی کوائف، ادبی حالات اور فتوحات، استادی، شاگردی کے سلسلے، معاصرانہ چشمکیں اور ادبی معرکے، ادب پاروں کی اشاعتوں کی سنیں اور جلدیں، اہم ادبی کتب کی مشمولات انھیں ازبر تھیں۔ بغیر لغت یا کتاب Consultکیے وہ استفسارات کے جو جوابات دیتے وہ لغات یا کتب سے رجوع کرنے کے بعد صحیح ثابت ہوتے۔ کس لفظ کے آخر میں الف یا ہائے مختفی استعمال کیا جائے گا؟ ہمزہ کہاں لگے گا اور کہاں نہیں لگے گا؟ کس لفظ کو اِمالا یا ہائے مجہول و معروف کے تحت لکھا جائے گا؟ کہاں ہائے لٹکن سے کام لیا جائے گا اور کہاں دو چشمی ہے سے ؟ وغیرہ سے متعلق ان کی آراء بڑی صائب ہوتی تھیں۔ وہ محض صحیح مخرج و ادائیگی پر ہی توجہ نہیں دیتے تھے، نقطے اور شوشے بھی ان کی گرفت سے بچ نہیں پاتے تھے۔ بیشتر شرکائے ورک شاپ ان کی آرا کو اس لیے مستند تسلیم کرتے تھے کہ وہ اپنی بات تحقیقی دلائل، لسانی براہین اور منطقی استدلال کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ میرؔ کا مصرعہ ’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘ اُن پر صادق آتا تھا۔

حنیف نقوی صاحب جب بھی این سی ای آر ٹی ورکشاپ میں شرکت کی غرض سے دہلی تشریف لاتے تو این سی ای آر ٹی گیسٹ ہاؤس میں ہی قیام فرماتے۔ وقت کی نہ صرف پابندی کرتے بلکہ پورے دن ورک شاپ کی سرگرمیوں میں پوری دل چسپی کے ساتھ حصّہ لیتے اور شام ہوتے ہوتے جو کام مکمل ہونے سے بچ جاتا اسے مکمل کرنے کی خاطر اپنے روم پر لے آتے اور دوسرے دن اس کی تکمیل کا مژدہ سناتے۔ یہی معاملہ Script کے لیے پیش آتا۔ ورک شاپ کے علاوہ بھی اس پر بار بار نظرِ ثانی کر کے اپنے مشوروں سے نوازتے۔ NCERT کے ورکشاپس میں جو ماہرین شرکت فرما چکے ہیں، وہ یہ جانتے ہیں کہ متعلقہ درسی کتاب میں شامل متن کا ایک ایک لفظ، مع رموزِ اوقاف، بآوازِ بلند پڑھا جاتا ہے اور آموزگار کی عمر، نفسیات، جماعت کی سطح کے معیار، قومی تعلیمی پالیسی اور قومی درسیات کا خاکہ2005کی سفارشات کے ساتھ ساتھ لسانی اور ادبی معیار کو بھی ملحوظ رکھنے کی خاطر خاصے احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔ اس احتیاطی عمل میں تمام شرکائے ورک شاپ کی ہمہ تن شمولیت کے سبب اکثر تحریریں ترمیم وتنسیخ اور قطع و برید کے عمل سے گزرتیں۔ اُنھیں صرف و نحو کے قواعدی معیار پر پرکھا جاتا۔ دورانِ قرأت اگر کوئی اصطلاح یا ترکیب موزوں نہیں ہوتی، جملہ طویل یا بے ربط ہوتا، یا عبارت میں تعقیدِ لفظی یا تعقیدِ معنوی کی صورت پیدا ہو جاتی یا کوئی Factual Mistakeراہ پا جاتی تو نقوی صاحب کی کڑک دار آواز بآوازِ بلند پڑھنے والے کو نہ صرف روک دیتی تھی بلکہ وہ اس کی مناسب اصلاح بھی کر دیتے تھے اور اس طرح درسی کتب، وقت ضائع کیے بغیر معینہ مدت میں پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتی تھیں۔

NCERTکی جماعتِ اوّل سے بارھویں جماعت تک کی جملہ درسی کتب جب پانچ سال کی مدت اور تین مراحل میں پایۂ تکمیل کو پہنچیں تو اُن پر بہت اچھا Feedback موصول ہوا۔ بازرسی یعنی Feedback کے اس عمل نے شرکائے ورک شاپ، خصوصاً صلاح کار اور این سی ای آر ٹی کے اعلا عہدے داران اور فیکلٹی ممبران کو بھی مسرت و اطمینان سے ہمکنار کیا۔ این سی ای آر ٹی فیکلٹی کی حوصلہ افزائی کے اس عمل نے این سی ای آر ٹی میں پہلی بار کئی نئے کاموں کے آغاز کی راہیں ہموار کیں۔ ریسرچ اسٹڈی، ٹیلی کانفرنسنگ، Audio-visual تعلیمی پروگرامس کے لیے CD’sکی تیاری، 272 اردو ورژن درسی کتب، قومی درسیات کا خاکہ2005کے اردو ترجمہ، سہ لسانی لغت، عملی قواعد Supplementary readers، مشقی کتب اور اصنافِ ادب پر کتابوں کی اشاعت کے علاوہ سبھی سطحوں کے لیے Teachers Manual اور اردو ادب کی تاریخ سے متعلق راہیں ہموار ہوئیں۔ تعلیم و تدریس کو مؤثر بنانے کے لیے Inclusive Education & CCE Packages کے مسودات تیار کیے گئے۔ کتاب ’اردو زبان و ادب کی تاریخ‘ ہمارے لیے ایک چیلنج اس لیے تھی کہ اعلا ثانوی سطح کے طلبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے آسان اور دل چسپ انداز میں، پُر لطف آموزش کے نظریے کے تحت کم ضخامت میں اس کتاب کو تاریخی ادوار کے تحت مرتب کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس اہم اور ذمّے دارانہ کام کے لیے موزوں ترین نام پروفیسر حنیف نقوی کا ہی تھا۔ این سی ای آر ٹی فیکلٹی اور درسی کتب کے خصوصی صلاح کار  پروفیسر شمیم حنفی کی نگاہِ انتخاب نقوی صاحب پر ہی پڑی اور یہ طے ہو گیا کہ یہ کتاب نقوی صاحب کی زیرِ نگرانی ہی مکمل کی جائے گی۔ طبیعت کی ناسازی کے سبب نقوی صاحب زیرِ علاج تھے۔ اُن کی دونوں آنکھوں کا آپریشن ہو چکا تھا اور معالجین نے اُنھیں مطالعہ نہ کرنے اور آرام کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا لیکن جب کتاب ’تاریخِ ادب اردو‘ کی تیاری سے متعلق منعقد ہونے والے مختلف ورک شاپس میں شریک ہونے کے لیے نقوی صاحب سے التماس کیا گیا تو اُنھوں نے کوئی عذر پیش نہیں کیا اور بخوشی اپنی رضامندی ظاہر کر دی۔ نقوی صاحب نے خرابی صحت اور نقاہت کے باوجود کئی ورک شاپ میں شرکت فرمائی۔ جن ورک شاپ میں بہ وجوہ نہ آ سکے تو کتاب کا مسودہ بنارس منگوا کر اس کا مطالعہ کر کے اور سرخ روشنائی سے اس پر اصلاح کی۔

جب اس کتاب کو آخری شکل دینے کا وقت آیا تو خصوصی صلاح کار پروفیسر شمیم حنفی صاحب نے صاف کہہ دیا کہ نقوی صاحب کی شمولیت کے بغیر یہ کتاب Finalنہیں ہو سکتی۔ چناں چہ نقوی صاحب کی شمولیت کو یقینی بنانے کی خاطر اس کا آخری ورک شاپ بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں منعقد کیا گیا۔ نقوی صاحب نے ایک ہفتے کے اس ورک شاپ میں پابندی اور انہماک کے ساتھ شرکت فرمائی اور اس طرح یہ اہم منصوبہ کامیابی کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور اس کی اشاعت عمل میں آ گئی۔ آج یہ کتاب محض اسکول طلبہ و اساتذہ کی ہی نہیں کالج کے طلبہ کی بھی ضرورتوں کو پورا کر رہی ہے۔ جب بھی اس کتاب کی تعریف سنتے ہیں یا اس کا نیا اڈیشن سامنے آتا ہے تو پروفیسر حنیف نقوی صاحب بے اختیار یاد آ جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت، ان کی محبتیں، شفقتیں، زبان و ادب کے تئیں ان کی وابستگی اور وارفتگی، ان کا طریقۂ استدلال، اُن کی باتیں، اُن کی یادیں تر و تازہ ہو کر ذہن و دل کو منور و روشن کر دیتی ہیں۔

حنیف نقوی صاحب کا شمار اردو کے مستند و معتبر محققین میں ہوتا ہے۔ ان کی ادبی خدمات، تحقیقی ژرف نگاہی اور عالمانہ بصیرت کی داد اُن کے اساتذہ نے بھی دی ہے۔ مختلف علوم کی کتب اور مخطوطات کا عمیق مطالعہ، تحقیق کی خارزار، خشک زمین کی گام فرسائی، تفحص و تلاش، غور و فکر و تجزیے کی عادت اور بے باکانہ اظہار کی صلاحیت نقوی صاحب میں زمانۂ طالب علمی ہی سے تھی۔ عمر اور تجربے کے ساتھ اس میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا اور ان کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے محققین میں ہونے لگا۔ نقوی صاحب اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ انھوں نے جو وقیع اور معیاری تحقیقی کارنامے انجام دیے، اردو تحقیق کو ثروت مند بنا کر اُس کی مبادیات، Methodology، اصولِ تدوین، اصولِ حواشی اور منطقی استخراجِ نتائج سے متعلق جو تحقیقی معیار قائم کیا ہے وہ آنے والی نسلوں کے Research Scholars کے لیے رہنما اصول کا کام انجام دیتا رہے گا۔

——————-

پروفیسر محمد نعمان خاں

این سی ای آر ٹی، قطب انسٹی ٹیوشنل ایریا، نئی دہلی

٭٭٭

 

 

 

 

پروفیسر حنیف نقوی: تحقیقی مسائل اور طریقِ کار

 

(17 جنوری 2012 کو لیا گیا آخری انٹرویو)

 

                وحید الحق

 

وحیدالحق : کہتے ہیں کہ تحقیق کا آغاز ہمیشہ شک سے ہوتا ہے۔ اس مقولے سے آپ کی کیا مراد ہے ؟

حنیف نقوی:لکیر کا فقیر ہونا، اردو کا ایک عام محاورہ ہے۔ اس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو اپنے معمولاتِ زندگی میں اپنے بزرگوں یا پیش روؤں کی غیر مشروط پیروی پر کاربند ہو۔ اس کا یہ طرزِ عمل اس کے اندر اپنے معاملات و مسائل پر آزادانہ غور و فکر کی صلاحیت کے فقدان پر دلالت کرتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر کورانہ تقلید انسان کے دل و دماغ کو مفلوج کر کے اس کی قوتِ فیصلہ سلب کر لیتی ہے۔ اور قوتِ فیصلہ ان عوامل میں سر فہرست ہے جن کی امداد کے بغیر کسی بھی میدان میں کوئی بڑا اقدام نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک علمی اعتقاد کا تعلق ہے، شک اس قوتِ فیصلہ کو بیدار اور متحرک کرنے میں سب سے زیادہ فعال کردار ادا کرتا ہے۔ جو مذہبی عقائد ہمیں اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں ملے ہیں، جن سماجی رسوم نے ہماری روز مرہ کی زندگی میں ایمان و یقین کی حیثیت حاصل کر لی ہے، جن فرضی داستانوں کو ہم نے تاریخ کا درجہ دے رکھا ہے اور سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی جو روایات ہمارے ادب کا حصہ بن چکی ہیں، جب تک ہم ان پر رسماً آمنّا و صدّقنا کہتے رہنے کی بجائے انھیں شک کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے ہمیں ان کی اصلیت معلوم کرنے کی فکر لاحق نہ ہو گی اور جب تک یہ فکر ہمیں تحقیق کی راہ اپنانے پر مجبور نہ کرے گی، ہم بدستور اندھیرے میں رہیں گے، اور حقیقتِ حال ہم پر منکشف نہ ہو پائے گی۔ اس طرح شک تحقیقی عمل میں انکشافِ حال کے اہم ترین وسیلے کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے اور محقق کو مزعومات و مفروضات کے اندھیروں سے نکال کر حقائق و واقعات کی جلوہ گاہ تک پہچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

وحید الحق:زبان و ادب کے شعبے میں تحقیق کی کیا معنویت ہے اور تحقیق زبان و ادب کے تاریخی مسائل اور ادیبوں کے سوانحی مسائل کو کس طرح حل کرتی ہے۔ ادبی تحقیق کن اصولوں کو بروئے کار لاتی ہے ؟

حنیف نقوی:تحقیق کی معنویت کسی مخصوص دائرے میں محدود نہیں۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی پیش رفت کا اہم ترین وسیلہ تصور کی جاتی ہے۔ زبان و ادب کا شعبہ بھی ان شعبوں میں سے ایک ہے۔ اس شعبے سے متعلق آپ کے موجودہ سوال کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے زبان کو لیجیے۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ عرصے تک ہمارے محققین و مورخین کے درمیان ما بہ النزاع رہا کہ اردو کی پیدائش کس علاقے میں ہوئی اور وہ کس لسانی سلسلے سے تعلق رکھتی ہے۔ پروفیسر مسعود حسین خان نے اسی مسئلے کو موضوع بنا کر تحقیق کا آغاز کیا اور دلائل و شواہد سے یہ ثابت کر دیا کہ اس کا مولد و منشا دہلی اور اس کے گردو نواح کا علاقہ ہے اور یہ شور سینی اپ بھرنش کے بطن سے نمودار ہونے والی مغربی ہندی کی ایک شاخ کھڑی بولی کا ترقی یافتہ روپ ہے۔ یہ خیال بھی عام تھا کہ یہ ایک لشکری زبان ہے یعنی شاہی فوج کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے ملازمین کے باہمی اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی تھی کہ ترکی زبان میں ’اردو‘ کے معنی لشکر کے ہیں، اس لیے اس کا نام ’زبانِ اردو‘ پڑا۔ شمس الرحمن فاروقی کی تحقیق سے ظاہر ہوا کہ اس خیال کی فی الواقع کوئی اصلیت نہیں تھی۔ ازروئے لغت ’اردو‘ کے معنی ’شاہی محل‘ اور ’دارالسلطنت‘ بھی ہیں اور ’لشکر گاہ‘ اور ’لشکر‘ بھی۔ چناں چہ فارسی یا قدیم اردو کی جن تحریروں میں ’زبانِ اردوئے معلی‘ یا ’زبانِ اردو‘ کا استعمال ہوا ہے، وہاں اس سے بہ زبانِ میر امن ’اردو کی زبان‘ یعنی قلعہ دہلی یا شہر دہلی کی زبان مراد ہے۔ جس زبان کو آج ہم ’اردو‘ کہتے ہیں، وہ زمانۂ قدیم میں ’ہندی‘ کے نام سے موسوم تھی اور اس نام کی یہ معنویت کسی نہ کسی درجے میں انیسویں صدی کے چھٹے عشرے تک برقرار رہی۔ چناں چہ مرزا غالب نے اپنے 3جنوری 1858 کے ایک خط موسومہ سید بدرالدین کاشفؔ میں اپنی اردو اور فارسی غزلوں کو ’ہندی اور فارسی غزلیں ‘ اور مرزا یوسف علی خاں عزیزؔ کے نام 1859 کے ایک خط میں اردو اور فارسی نظم و نثر کے مسودات کو ’ہندی اور فارسی نظم و نثر کے مسودات‘ لکھا ہے۔ 1800 میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد اس کے اربابِ حل و عقد نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت اسے ’ہندی‘ کی بجائے ’ہندستانی‘ کہنا اور لکھنا شروع کیا اور کالج کی مطبوعات کے ذریعے اس نئے نام کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس کا اصل نام (ہندی) فارسی رسم الخط کی بجائے ناگری رسم الخط میں لکھی جانے والی تحریروں کے لیے مختص کر دیا۔ اس طرح رسم الخط کی تبدیلی کے ساتھ رائج الوقت ہندی کے بالمقابل ایک نئی ہندی تو وجود میں آ گئی لیکن اصل عوامی زبان کے لیے ان کا مجوزہ نام (ہندستانی) قبولِ عام حاصل نہ کر سکا اور رفتہ رفتہ ’زبانِ اردو‘ یا ’اردو کی زبان‘ سے مستعار نام ’اردو‘ نے اس کی جگہ حاصل کر لی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اس لفظ ’اردو‘ کا اسمِ زبان کے طور پر استعمال سب سے پہلے اسی گلکرسٹ نے 1796 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب "A Grammar of the Hindoostanee Language” میں کیا ہے جو ’ہندستانی‘ اور ’ہندی‘ کے نام سے دو علاحدہ علاحدہ زبانوں کے تصور کا زبردست پیروکار تھا۔

آپ کے سوال کا دوسرا حصہ ادب کے تاریخی مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ تحقیق ادب کی تاریخ کے تاریک گوشوں کو روشن کرنے، اس کی ٹوٹی ہوئی کڑیوں کو دوبارہ جوڑنے اور اس کی غلطیوں کو سدھارنے میں کیا کردار ادا کرتی ہے ؟ یہ موضوع خاصا وسیع ہے اور تفصیلات میں جانے کی گنجائش نہیں، اس لیے جستہ جستہ حوالوں پر اکتفا کرنا ہو گا۔ مولوی عبدالحق، حافظ محمود خاں شیرانی، قاضی عبدالودود، مولانا امتیاز علی عرشی اور رشید حسن خاں کے پایے کے محقق نہیں، اس کے باوجود تحقیق کے میدان میں انھوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں، وہ کم اہمیت کے حامل نہیں۔ شعرائے اردو کے تذکروں کا بڑا حصہ انھی کی بدولت منظرِ عام پر آیا۔ کون نہیں جانتا کہ یہ تذکرے اپنی تمام خامیوں کے باوجود ہماری ادبی تاریخ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دکنیات کا جتنا بڑا سرمایہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں دریافت اور اشاعت کی منزلوں سے گزر کر ہم تک پہنچا، اس کی اہمیت سے کون ان کار کر سکتا ہے۔ ’سب رس‘ جسے اردو کی اولین نثری تصنیف ہونے کا شرف حاصل ہے اور جس نے ہماری نثری تاریخ کو کئی صدی پیچھے تک پہنچا دیا، ان کے دریافت کردہ اسی ادبی سرمائے کا حصہ ہے۔ یہ تسلیم کہ ان کتابوں کی تدوین و ترتیب کا معیار اطمینان بخش نہیں، اس کے باوجود اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی اشاعت سے آئندہ کام کرنے والوں کی بہت سی دشواریاں دور ہو گئیں۔ ’کربل کتھا‘، ’سب رس‘ کے بعد اردو نثر کی دوسری اہم ترین کتاب ہے، جس کی دریافت تحقیق کی معنویت اور اس کی بار آوری دونوں کا مثالی نمونہ کہی جا سکتی ہے۔ پروفیسر مختار الدین احمد کو اس کی تلاش و جستجو میں جتنے ہفت خواں طے کرنے پڑے، ان سے اہلِ علم بہ خوبی واقف ہیں۔ اگر ذوقِ تحقیق رہبری نہ کرتا تو وہ یہ کارنامہ کبھی انجام نہ دے پاتے۔ ’معراج العاشقین‘ کے بارے میں عرصۂ دراز تک یہ کہا جاتا رہا کہ یہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز (متوفی 1422) کی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر حفیظ قتیل نے ’معراج العاشقین کا مصنف‘ کے نام سے ایک باقاعدہ کتاب لکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ یہ ایک دوسرے صوفی بزرگ خواجہ مخدوم شاہ حسینی کے فارسی رسالے ’تلاوت الوجود‘ کا اردو خلاصہ ہے اور خواجہ بندہ نواز کی وفات کے کم و بیش پونے تین سو سال بعد کی تصنیف ہے۔ میرؔ  کے تذکرے ’نکات الشعرا‘ کو عام طور پر شعرائے اردو کا پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن بعض محققین کا خیال ہے کہ گردیزی کے ’ تذکرۂ ریختہ گویاں ‘ کو اس پر تقدم حاصل ہے۔ راقم نے میر کے تذکرے سے گردیزی کی خوشہ چینی کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کر کے یہ واضح کر دیا کہ یہ خیال درست نہیں۔ میرؔ یقیناً گردیزی سے پہلے اپنے تذکرے کے نقشِ اول کی تکمیل سے فارغ ہو چکے تھے۔ ان مثالوں سے روشن ہے کہ تحقیق نے ہماری ادبی تاریخ کی سرحدیں بھی وسیع کی ہیں، اس کے منتشر اوراق کو یکجا کر کے ان کی شیرازہ بندی بھی کی ہے اور اس کی غلطیوں کو سدھارا بھی ہے۔

آپ کے سوال کے اس حصے کی دوسری شق ادیبوں کے سوانحی مسائل سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں بھی یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ زندگی کے کسی بھی میدان میں تمام مسائل کا تصفیہ نہ تو کبھی ایک بار میں ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ ادیبوں کے سوانح سے متعلق بہت سے مسائل کل بھی حل طلب تھے، آج بھی ہیں اور آیندہ بھی رہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ ان میں سے بہت سے مسائل حل بھی ہو چکے ہیں اور ان کے حل کا سہرا تحقیق ہی کے سر ہے۔ مثال کے طور پر شمالی ہند کے ابتدائی دور کی ایک نہایت اہم تصنیف ’بکٹ کہانی‘ کے مصنف کے بارے میں ہمارے پاس کوئی مصدقہ معلومات موجود نہ تھی۔ والہؔ  داغستانی کے تذکرے ’ریاض الشعرا‘ کے حوالے سے عام طور پر یہ مشہور تھا کہ وہ پانی پت کے ایک معلّم پیشہ مسلمان تھے جو کسی ہندو لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو کر اس کے تعاقب میں متھرا چلے گئے تھے اور وہاں ہندو مذہب اختیار کر کے ایک مندر میں گوشہ نشیں ہو گئے تھے۔ ان کے اس جذبۂ عشق سے متاثر ہو کر وہ لڑکی مسلمان ہو گئی۔ اس کے بعد دونوں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالغفار شکیل نے اکرم روہتکی متخلص بہ قطبیؔ کے تیرہ ماسے کے حوالے سے یہ ثابت کر دیا کہ ’بکٹ کہانی‘ کا مصنف مذہباً مسلمان نہیں ہندو تھا۔ اس کا اصل نام گوپال اور تخلص افضلؔ  تھا اور وہ قصبہ نارنول (ضلع مہندر گڑھ، ہریانہ) کا رہنے والا تھا۔ گلکرسٹ کے بارے میں عام شہرت یہ تھی کہ وہ فورٹ ولیم کالج کا پرنسپل تھا۔ ڈاکٹر رام بابو سکسینہ نے اپنی ’تاریخِ ادبِ اردو‘ میں اسے ایک جگہ کالج کا ’منتظمِ اعلا‘ اور دوسری جگہ ’افسرِ اعلا‘ لکھا ہے۔ عتیق صدیقی کی کتاب ’گلکرسٹ اور اس کا عہد‘ شائع ہوئی تو یہ انکشاف ہوا کہ وہ کالج کا منتظمِ اعلا یا پرنسپل نہیں، اردو کا استاد یا میر شیر علی افسوںؔ  کی زبان میں ’صاحبِ مدرسِ ہندی‘ تھا۔ غالب کے بارے میں مولانا غلام رسول مہرؔ  اور مولانا امتیاز علی عرشیؔ جیسے محققین کا بیان تھا کہ وہ شروع میں صرف اردو میں شعر کہتے تھے اور اسدؔ تخلص کرتے تھے۔ جب فارسی میں شعر کہنا شروع کیا تو غالبؔ  تخلص اختیار کیا۔ یہ دوسرا تخلص انھوں نے بطورِ خاص ’’فارسی کے لیے پسند کیا تھا، بعد میں ریختے کے اندر بھی لکھنے لگے ‘‘۔ پروفیسر ابو محمد سحرؔ  نے اس غلطی کی گرفت کی اور نسخۂ حمیدیہ (قلمی) کے حوالے سے بتایا کہ اس میں فارسی کا ایک قصیدہ بھی شامل ہے جس میں انھوں نے اسدؔ تخلص کیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ متذکرۂ بالا دونوں غالب شناسوں کے بیانات کے برخلاف غالبؔ اپنی شاعری کے ابتدائی دور ہی میں اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی فکرِ سخن کرنے لگے تھے، اور ان دونوں زبانوں میں اسدؔ ہی تخلص کرتے تھے۔ دیوانِ غالب کے قدیم ترین قلمی نسخے کی دریافت نے سحرؔ صاحب کے اس بیان کی صداقت کو مزید واضح کر دیا ہے۔ انشاؔ کی تاریخ ہائے ولادت و وفات اور غالب اور اقبال کی پیدائش کی تاریخیں بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھی جاتی رہی ہیں۔ مالک رام صاحب اور راقم السطور نے اس سلسلے کی بہت سی غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں کا ازالہ کر دیا ہے۔ مرزا رجب علی بیگ سرور نے ’فسانۂ عجائب‘ میں خود کو ’متوطنِ خطۂ بے نظیر دل پذیر‘ لکھا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لکھنؤ کے باشندے تھے۔ اس کے برخلاف ’فسانۂ عجائب‘ کی تصنیف سے قبل لکھے گئے شعرائے اردو کے تین تذکروں میں، جن میں سے ایک کے مؤلف غلام محی الدین مبتلاؔ  میرٹھی ان کے ملاقاتیوں میں سے تھے، انھیں ’خوش باشِ شہر کان پور‘ یا ’ساکنِ کان پور‘ لکھا گیا ہے۔ راقم نے اپنی کتاب ’رجب علی بیگ سرورؔ- چند تحقیقی مباحث‘ میں ان تینوں حوالوں کی روشنی میں محققین کو اس مسئلے پر ازسرِ نو غور و فکر کی جانب متوجہ کیا ہے۔ سرورؔ  کی وفات کے سلسلے میں بھی ان کے سوانح نگاروں کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ راقم نے متذکرۂ صدر کتاب ہی کے ایک مضمون میں ان مختلف فیہ بیانات کے تفصیلی جائزے کے بعد معتبر ترین معاصر شہادتوں کے حوالے سے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کی وفات ذی الحجہ 1285ھ (مارچ، اپریل 1869) کا واقعہ ہے۔ ’فسانۂ عجائب‘ کے مقدمے میں رشید حسن خاں نے بھی اسی تاریخ کو ’مرجّح‘ قرار دیا ہے۔ ان مثالوں سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اہلِ تحقیق، ادیبوں کے سوانحی مسائل سے بھی غافل نہیں ہیں۔ نئے ماخذ کی بھی تلاش کی جا رہی ہے اور پرانے ماخذ کا بھی زیادہ گہرائی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔

آپ کے سوال کا آخری حصہ ادبی تحقیق کے طریقِ کار سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں مختصراً  یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحقیق کسی ایسے دعوے کو کبھی قبول نہیں کرتی جس کی پشت پر کوئی معتبر شہادت یا معقول دلیل موجود نہ ہو، حتیٰ کہ وہ کسی شخص کے بارے میں اس کے اپنے بیانات کو بھی اس وقت تک تسلیم نہیں کرتی جب تک کہ ان کا برحق اور مطابقِ اصل ہونا پوری طرح پایۂ ثبوت کو نہ پہنچ جائے۔ چوں کہ اس کا مقصد اصل حقائق تک پہنچنا ہوتا ہے، خواہ وہ مطبوع ہوں یا نا مطبوع، وہ تمام تحفظات و تعصبات سے بالاتر ہو کر اپنا کام کرتی ہے اور حتی الامکان کسی کو یہ موقع نہیں دیتی کہ وہ اس کی نیت پر انگلی اٹھائے۔ ناگزیر حالات میں وہ قیاسات و قرائن سے بھی کام لیتی ہے لیکن ان پر مکمل انحصار کبھی نہیں کرتی۔ ہر حال میں احتیاط کا دامن تھامے رہنا اس کا معمول ہے۔

وحید الحق : آج تحقیق شدہ معلومات کی کیا صورتِ حال ہے ؟ ان پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے ؟ کیا تحقیق شدہ معلومات آج بھی تحقیق طلب ہیں ؟

حنیف نقوی: تحقیق ایک مسلسل اور متواتر عمل ہے۔ بعض معاملات میں اس کے فیصلے قطعی اور آخری ہو سکتے ہیں لیکن ہر فیصلے کو حرفِ آخر نہیں کہا جا سکتا۔ کسی بھی حل طلب مسئلے میں جو دلائل و شواہد فی الوقت ہمارے سامنے موجود ہیں ہمیں فیصلہ انھی کی بنیاد پر کرنا ہو گا، اور وقتی طور پر اسی کو صحیح مانا جائے گا لیکن یہ عین ممکن ہے کہ تحقیقِ مزید کے نتیجے میں کل ان سے زیادہ قوی شہادتیں اور پختہ ثبوت دستیاب ہو جائیں۔ ایسی صورت میں ہم پر لازم ہو گا کہ ہم اپنے سابقہ فیصلے کو رد کرنے میں کسی تامل سے کام نہ لیں یا اسے اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ مثلاً  آج کل تاریخِ ولادت کا تعین بالعموم تعلیمی اسناد کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جب تک اس سندی اندراج کے خلاف کوئی پختہ ثبوت ہمارے سامنے نہ آ جائے، ہم اسی کو صحیح تسلیم کرنے پر مجبور رہیں گے۔ لیکن بعد میں اگر کسی معتبر ذریعے سے اصل تاریخ معلوم ہو جاتی ہے تو اسے تسلیم نہ کرنا اور بہ دستور سندی شہادت کو ترجیح دیتے رہنا غلط ہو گا۔ مالک رام صاحب نے ’تذکرۂ ماہ و سال‘ میں مشہور افسانہ نگار کرشن چند کا مولد وزیرآباد، ضلع گوجراں والا اور ان کے چھوٹے بھائی مہندر ناتھ کی جائے پیدائش پونچھ (ریاست جموں کشمیر) بتائی ہے۔ معروف صحافی صابر دت کا بیان ہے کہ جب انھوں نے اپنے رسالے ’فن اور شخصیت‘ کے ’مہندر ناتھ نمبر‘ کے لیے خود مہندر ناتھ سے ان کے مختصر حالات لکھوائے تو انھوں نے اپنا مولد بھرت پور (راجستھان) لکھا، لیکن جب ان کے حسبِ خواہش یہ تحریر کرشن کو دکھائی گئی تو انھوں نے ’بھرت پور‘ کو قلم زد کر کے اس کی جگہ ’پونچھ‘ لکھ دیا۔ اسے دیکھ کر مہندر ناتھ نے کہا کہ ’’پیدا تو ہم دونوں بھائی بھرت پور ہی میں ہوئے تھے، اب اگر بھائی صاحب کہتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ پونچھ ہی رہنے دو‘‘۔ صابر دت کا یہ بیان کالی داس گپتا رضاؔ  کے مجموعۂ مضامین ’سہو و سراغ‘ کے مقدمے میں درج ہے۔ یہ مجموعہ 1980 میں شائع ہوا تھا۔ ’تذکرۂ ماہ و سال‘ اس کے گیارہ سال بعد نومبر 1991 میں شائع ہوا ہے۔ قیاس یہ کہتا ہے کہ ’سہو و سراغ‘ مالک رام صاحب کی نظر سے ضرور گزرا ہو گا۔ اس کے باوجود انھوں نے کرشن چندر کے بیان کو ترجیح دی۔ یہ ان کے اصول کے عین مطابق لیکن تحقیق کے اصول کے خلاف ہے۔ یہاں ضمناً  اس تحقیقی نکتے کی طرف اشارہ کر دینا بے محل نہ ہو گا کہ ادب کے نقطۂ نظر سے گوجراں والا اور پونچھ کے مقابلے میں بھرت پور غیر اہم جگہ ہے، چناں چہ اس کی طرف نسبت کی خاطر غلط بیانی بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کرشن چند کے بالمقابل مہندر ناتھ کا بیان قابلِ ترجیح ہے۔

وحید الحق: آپ کے نزدیک تحقیق میں معتبر نام کون کون سے ہیں ؟

حنیف نقوی: عام تصور کے مطابق تحقیق کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی ادیب، کسی مصنف، کسی عہد یا کسی علاقے کی ادبی کاوشوں کو موضوع بحث بنا کر کوئی کتاب لکھ دیتا ہے، محققین میں شمار کر لیا جا تا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تعینِ قدر کا یہ معیار عالمانہ نہیں، عامیانہ ہے۔ کسی شخص کے محقق ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ وہ اس فن کے ساتھ طبعی مناسبت رکھتا ہے یا نہیں، کیوں کہ یہ طبعی مناسبت ہی ہے جس کی بدولت انسان کے قوائے فکرو عمل کسی کام کو اس کے تقاضوں کے عین مطابق ہنر مندی اور سلیقے کے ساتھ انجام دہی کی راہیں روشن کرتے ہیں۔ اور تحقیق یقیناً  ایک کارِ دشوار ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے غیر معمولی نظم و ضبط اور صبر و تحمل کے ساتھ ساتھ مکمل بے ریائی اور غیر جانب داری شرطِ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو تحقیق کار اس معیار پر پورا نہ اترے، اسے رسماً محقق کا نام تو دیا جا سکتا ہے لیکن اصلاً  محقق نہیں کہا جا سکتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح مختلف لفظوں کو وزن اور قافیہ و ردیف کے التزام کے ساتھ ایک با معنی شکل دے دینے والے ہر شخص کو عرفِ عام میں شاعر کہہ دیا جاتا ہے، لیکن شاعری کی قبا فی الواقع اس کے جسم پر راست نہیں آتی۔ اس پس منظر میں جو محققین میری نگاہ میں مثالی حیثیت کے حامل ہیں، ان میں حافظ محمود خاں شیرانی، قاضی عبدالودود، مولانا امتیاز علی خاں عرشیؔ اور رشید حسن خاں سر فہرست ہیں۔ یہ وہ حضرات ہیں جن کے تحقیقی کارناموں کو نقائص یا کوتاہیوں سے یکسر مبرّا ہونے کی سند تو نہیں دی جا سکتی، لیکن نہ تو ان پر حصولِ معلومات کے سلسلے میں کم کوشی یا غفلت شعاری کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے اور نہ انھیں علاقائی یا مذہبی عصبیت اور ذاتی پسند و نا پسند کی بنا پر حقائق سے دانستہ چشم پوشی یا روگردانی کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے۔

وحید الحق :تحقیق کی طرف لوگوں کا رجحان و میلان کم کیوں ہے ؟

حنیف نقوی : تحقیق کا دوسرا نام ہے حق گوئی اور حق گوئی کی راہ ہمیشہ پُر خطر ہوتی ہے۔ اسے وہی لوگ کامیابی کے ساتھ طے کر سکتے ہیں جو ہوسِ جاہ و مال سے بے تعلقی اور اندیشۂ سودو زیاں سے بے نیازی کو اپنا وتیرۂ حیات بنا چکے ہوں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ محقق کا درویشی و قلندری کی صفات سے متصف ہونا ضروری ہے۔ آپ کے پچھلے سوال کے جواب میں جن چار محققین کے نام لیے گئے ہیں، ان میں سے قاضی عبدالودود کے علاوہ باقی تینوں کے بارے میں بلا خوفِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے قلندرانہ زندگی بسر کی۔ قاضی صاحب کا شمار بہار کے رؤسا میں ہوتا تھا، لیکن وہ اپنے مزاج اور رویے کے اعتبار سے ریاست و امارت کے مکروہات سے پوری طرح آزاد اور طبعی طور پر ایک فنا فی العلم انسان تھے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی بے حد اہم ہے کہ ان بزرگوں کے قابلِ رشک اکتسابات میں بڑا حصہ ان کی وسعتِ مطالعہ کا تھا۔ اپنی زبان کے علاوہ فارسی و عربی زبان پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔ ہندستان، ایران اور عرب کی تاریخ اور تہذیب و تمدن سے بھی بہ خوبی واقف تھے اور قرآن و حدیث، فقہ، تفسیر، حکمت و فلسفہ، نجوم و طب میں بھی بہ قدرِ ضرورت دخل رکھتے تھے۔ اس کے بر خلاف اب عام صورتِ حال یہ ہے کہ تخصص کے نام پر لوگ رفتہ رفتہ محدود مطالعے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں اور حصولِ علم سے زیادہ حصولِ معلومات پر توجہ دی جانے لگی ہے۔ اس کے ساتھ ہی شہرت و ناموری کے مقامِ بلند تک پہنچنے کے لیے محنتِ شاقہ کے وسیلے کی بہ نسبت تعلقات عامہ کا حربہ زیادہ کارگر ثابت ہو رہا ہے۔ ان حالات میں تحقیق جیسے دقت طلب اور صبر آزما شغل کی طرف لوگوں کا رجحان و میلان کم ہونا ایک فطری امر ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں تن آسانی اور سہل پسندی حصولِ مقاصد میں مزاحم نہ ہو وہاں کوئی دیدہ ریزی و دماغ سوزی اور کوہ کنی کی زحمت کیوں اٹھائے گا۔

وحید الحق: وہ کون سے تحقیقی موضوعات ہیں جن پر ابھی کام کی ضرورت ہے ؟

حنیف نقوی : زبان و ادب کا مطالعہ بڑے وسیع امکانات کا حامل ہوتا ہے، اس لیے اس میں تحقیقی موضوعات کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ تاہم آپ کے سوال کی مناسبت سے چند اہم موضوعات کی طرف اشارہ کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ تحقیق ہو یا تنقید دونوں کا اصل محور متن ہوتا ہے اور متن وہی معتبر مانا جاتا ہے جو منشائے مصنف کے عین مطابق اور دوسروں کے دخل و تصرف سے پوری طرح پاک و صاف ہو۔ چناں چہ جب تک کسی ادب پارے کا مستند متن ہمارے سامنے نہ ہو گا ہم اس کی قدر و قیمت کا صحیح تعین نہ کر پائیں گے۔ اسے ہماری ناکارگی اور ہمارے ادب کی بد نصیبی کے سوا کیا کہا جائے گا کہ ہم آج تک اپنے قارئین اور محققین و ناقدین کو آبروؔ ، ناجیؔ، حاتمؔ، سوداؔ، میرؔ، آتشؔ اور ناسخؔ ، جیسے اہم شعرا کے کلیات و دواوین کے مستند ایڈیشن بھی فراہم نہیں کر سکے ہیں۔ اسی طرح تحسین کی ’نو طرز مرصع‘، مہر چند مہرؔ  کی ’نو آئینِ ہندی‘ اور اسی قبیل کی بعض اور کتابیں بھی جو ’باغ و بہار‘ سے قبل یا اس کے معاً  بعد کے اردو نثر کے نہایت اہم کارنامے ہیں، ہنوز ہماری توجہ کی محتاج ہیں۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر اربابِ تحقیق کا ا ولین فرض یہ قرار پاتا ہے کہ وہ کلاس کی دور کے نمائندہ شاعروں اور نثر نگاروں کی تصانیف کے مستند ایڈیشن تیار کرنے پر زیادہ سے زیادہ توجہ صرف کریں۔ اس امید پر کہ شاید پردۂ غیب سے کسی دوسرے رشید حسن خاں کا  ظہور ہو، اس کام کو ٹالتے رہنا مناسب نہ ہو گا۔ یہ ضرور ہے کہ ’فسانۂ عجائب‘، ’باغ و بہار‘، ’سحر البیان‘، ’گلزارِ نسیم‘ اور مثنویاتِ شوق کے جو معیاری اور مثالی اڈیشن خاں صاحب نے اپنی یادگار چھوڑے ہیں، ان کا مقابلہ آئندہ شاید ہی کوئی کر پائے تاہم یہ تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ انھیں سامنے رکھ کر ان کے قریب تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ ان تدوینی کاموں کے علاوہ بعض اور موضوعات بھی ہیں جن پر بہ طورِ خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ’اردو میں تحقیق کی روایت‘ بجائے خود ایک اہم موضوع ہے جس پر اب تک کوئی مبسوط کام نہیں ہوا ہے۔ شخصیات میں اپنی اہمیت کے اعتبار سے رشید حسن خاں سرِ فہرست ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی، مولانا احسن مارہروی، مولانا حامد حسن قادری، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، مولوی مہیش پرشاد، ، مولوی نصیرالدین ہاشمی، ڈاکٹر رام بابو سکسینہ، پروفیسر ضیا احمد بدایونی، جناب مالک رام، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اور پروفیسر نورالحسن ہاشمی کی علمی و ادبی خدمات بھی اس کی مستحق ہیں کہ ان کا بالتفصیل جائزہ لیا جائے۔ پاکستان کے ایک نو جوان اس کالر ڈاکٹر ابرار عبدالسلام نے حال ہی میں نہایت محنت اور سلیقے کے ساتھ، ’آبِ حیات‘ کا ایک تحقیقی ایڈیشن مرتب کر کے شائع کیا ہے، حالی کے مقدمۂ شعرو شاعری، شبلی کے موازنۂ انیس و دبیر، امداد امام اثر کی ’کاشف الحقائق‘ اور اسی قبیل کی بعض دوسری کتابوں کو بھی اگر اسی نہج سے ترتیب دے کر ان کے نئے ایڈیشن تیار کر دیے جائیں تو یہ بھی نہایت مفید کام ہو گا۔

وحید الحق : آپ نے اپنے تحقیقی سفر میں کن محققین سے سب سے زیادہ استفادہ کیا ہے ؟

حنیف نقوی : راقم نے ایک ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جو صرف ایک پشت پہلے خانقاہیت کو خیر باد کہہ کر غیر مقلدین کی صف میں شامل ہوا تھا۔ گھر کا ماحول اس کی اجازت نہ دیتا تھا کہ جو کچھ چشمِ ظاہر سے نظر آ رہا ہے، اسے آنکھیں بند کر کے قبول کر لیا جائے۔ کیا غلط ہے اور کیا صحیح اور جو غلط ہے، وہ کیوں اور جو صحیح ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں، بزرگوں کی گفتگو اکثر اسی محور پر مرکوز رہتی تھی۔ یہی وہ ماحول تھا جس کے طفیل راقم کا ذہن تحقیق کی ’الف‘، ’ب‘ سے آشنا ہوا۔ ہائی اسکول کرنے کے بعد جب مزید تعلیم کے لیے بھوپال جانا ہوا تو وہاں ڈاکٹر گیان چند جیسے معروف و ممتاز محقق کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انھوں نے اپنے اس ناچیز شاگرد کے ذوقِ تحقیق کی آبیاری میں جس توجہِ خاص سے کام لیا وہ شرح و بیان سے اور رسمی اظہارِ تشکر سے بالاتر ہے۔ پروفیسر ابو محمد سحرؔ اس زمانے میں شبینہ کلاسز کو پڑھاتے تھے۔ ان کے حلقۂ درس میں شرکت کا شرف ایم۔ اے کی طالبِ علمی کے دوران حاصل ہوا۔ موصوف کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی مقناطیسی کشش تھی جس میں ذہانت و علمیت کے ساتھ ساتھ ان کے رکھ رکھاؤ کو بھی بڑا دخل تھا۔ چناں چہ انھوں نے بہت جلد اپنا گرویدہ بنا لیا اور اس گرویدگی نے رفتہ رفتہ نقشِ دوام کی صورت اختیار کر لی۔ یہی سبب تھا کہ تذکرہ نگاری جیسے خالص تحقیقی نوعیت کے موضوع پر پی ایچ۔ ڈی کے لیے رجسٹریشن کے وقت بطور نگراں جین صاحب کی بجائے ان کے انتخاب کو ترجیح دی اور یونیورسٹی کے نوع بہ نوع اعتراضات کے باوجود اپنی ضد پر قائم رہ کر انھی کی رہنمائی میں اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اس دوران سحرؔ صاحب نے جس طرح حقِ استادی ادا کیا، اس کی مثالیں اب تو نایاب ہیں، اُس دور میں بھی کمیاب تھیں۔ ایک ایک سطر، ایک ایک جملے اور ایک ایک لفظ کو توجہ کے ساتھ پڑھنا، حسبِ ضرورت اصلاحیں دینا، اس کے بعد رو بہ رو اصلاحات کی توجیہ ایک ایسا سبق آموز اور بصیرت افروز عمل تھا جو آج تک اس کم سواد کے لیے چراغِ راہ بنا ہوا ہے۔ موصوف کا یہ ارشاد بھی کہ کسی تحقیقی مقالے کی خامیاں نو آموز تحقیق کار کی نالائقی سے زیادہ اس کے نگراں کی نا اہلی پر دلالت کر تی ہیں، وہ حرفِ حق تھا جو اس ناکارہ کے لوحِ دل پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا اور جس نے اسے تدریسی خدمات کی انجام دہی کے زمانے میں کبھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہونے دیا۔

یونیورسٹی کے باہر جن لوگوں کی رہنمائی میں تحقیق کے اصول و آداب سیکھے، ان میں اولین ذات بابرکات مولانا امتیاز علی عرشیؔ  کی تھی۔ عرشی صاحب جیسا شریف النفس اور منکسر المزاج عالم کوئی دوسرا میری نظر سے نہیں گزرا۔ ان کا مشفقانہ اندازِ گفتگو، ان کے دامنِ فیض کے خوشہ چینوں کو بھی یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیتا کہ وہ دنیائے علم و ادب کی ایک دیو قامت شخصیت سے رو بہ رو ہیں۔ باتوں باتوں میں اس خوش اسلوبی کے ساتھ تحقیق کے رموز و نکات ذہن نشیں کرا دیتے کہ سننے والا فوری طور پر یہ اندازہ ہی نہ کر پاتا کہ بیانِ واقعہ سے اس کی تربیت مقصود تھی۔ ایک مرتبہ دورانِ گفتگو کسی تقریب سے فیضی صاحب (پروفیسر آصف علی اصغر فیضی) کا ذکر نکل آیا۔ فرمانے لگے کہ ایک بار ان کا خط آیا جس میں انھوں نے عربی کا ایک شعر نقل کر کے لکھا تھا کہ یہ شعر برسوں سے میرے حافظے میں محفوظ ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس کا مصنف کون ہے ؟ میں نے دیکھا کہ شعر کے الفاظ میں ایک غریب (قلیل الاستعمال) لفظ بھی شامل ہے تو معاً  یہ خیال آیا کہ ممکن ہے کسی لغت نگار نے اس لفظ کی سند میں یہ شعر نقل کیا ہو اور وہاں شاعر کا نام بھی درج ہو۔ چنانچہ ایک لغت کی طرف رجوع کیا۔ اس میں یہ شعر بھی مل گیا اور شاعر کا نام بھی۔ اس کے بعد شاعر کے دیوان سے اس کی تصدیق کر کے فیضی صاحب کو فوراً ً اس کی اطلاع دے دی گئی۔ اس تفصیل کا بالواسطہ پیغام یہ تھا کہ آوارہ گرد زبان زد اشعار کے مصنّفین کا پتا لگانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے۔

عرشیؔ صاحب کے بعد دوسری مثالی شخصیت قاضی عبدالودود کی تھی، جس نے اس کم سواد کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ ان سے اکتسابِ فیض کے خواہش مندوں کو آزمائش کی نہایت کڑی منزل سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس آزمائش کے بعض نازک نفسیاتی پہلو بھی ہوتے تھے، جن کی باریکیوں کو سمجھنا اور ان سے مناسب طور پر عہدہ برآ ہونا آسان کام نہ تھا۔ جو لوگ اس منزل کو کامیابی کے ساتھ سر کر لیتے وہی ان کی توجہ کے مستحق قرار پاتے تھے اور وہ ان کی دل کھول کر مدد کرتے تھے۔ موضوع سے متعلق کن کن کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے اور اگر ان میں سے کوئی کتاب غیر مطبوعہ ہے تو اس کے قلمی نسخے کہاں کہاں موجود ہیں، کن کن مآخذ پر اعتبار کیا جا سکتا ہے، کون کون سے مآخذ کمزور اور ناقابلِ اعتبار ہیں، کس مصنف یا محقق کا ذہن شخصیت پرستی، مذہبی عصبیت یا علاقائی جنبہ داری کا شکار ہے، کس شخص کی مصلحت اندیشی اسے سچ بات کہنے سے روکتی رہتی ہے اور کس کس نے حصولِ شہرت اور جلبِ منفعت کے لیے کار براری اور کامیابی کے کون کون سے حربے استعمال کیے ہیں، اس سلسلے میں معلومات کا ایک بیش قیمت خزانہ ان کے ذہن میں محفوظ تھا، جسے وہ اپنے مخاطبین کے درمیان لٹانے میں کسی بخل یا تکلف کے روادار نہ تھے۔ تقریر کی طرح تحریر میں بھی ان کی ایک منفرد شناخت تھی۔ معروف و ممتاز محققین و مصنّفین کی کتابوں پر تبصرے ہوں یا عام تحقیقی موضوعات پر مقالات و مضامین، مطالعہ و مشاہدہ کی دقیقہ رسی اور حق گوئی سے غیر مشروط وابستگی بہ بانگِ دہل ہر جگہ اپنے وجود کا اعلان اور اپنی کارفرمائی کا اظہار کرتی رہتی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ محققین کی اپنے بعد آنے والی نسل کے اندر تن آسانی و عجلت پسندی سے باز رہنے، دلیل کے بغیر کسی دعوے کو قبول نہ کرنے اور حرفِ حق کسی رو رعایت کے بغیر برملا کہنے کی ضرورت اور اہمیت کا احساس پیدا کرنے اور اس احساس کو فروغ دینے میں ان کی مسلسل تنبیہ و تادیب کا جو حصہ ہے، اسے اردو کی ادبی تاریخ کبھی فراموش نہ کر پائے گی۔

عرشی صاحب اور قاضی صاحب کے علاوہ پروفیسر مسعود حسن رضوی، جناب مالک رام اور پروفیسر مختارالدین احمد کی بزرگانہ نوازشوں نے بھی راقم کے ذہن پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔ ان حضرات کے معمولات و مشاغل نے مسلسل محنت اور لگن کے ساتھ کام کیے جانے کا حوصلہ عطا کیا نیز خوردوں کی ہمت افزائی اور علمی معاملات میں ان کی ہر گونہ معاونت کے آداب سکھائے۔ محسنین کے اس سلسلے کی آخری کڑی مرحوم رشید حسن خاں تھے۔ ان کی تحریروں سے شناسائی تو طالبِ علمی ہی کے زمانے میں ہو گئی تھی لیکن باقاعدہ ’’شرفِ تعارف‘‘ 1980 کے اوائل میں حاصل ہوا جو رفتہ رفتہ مخلصانہ روابط میں بدل گیا۔ یہ قربت فروری 2006 میں ان کی وفات تک برقرار رہی۔ چھبیس سال کے اس عرصے میں بارہا انھیں قریب سے دیکھنے، ان کے معمولاتِ زندگی کا مشاہدہ کرنے، ان کے طریقِ کار کو سمجھنے، اور اس طرح ان سے بہت کچھ سیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے۔ ان کی تین خوبیاں بہ طورِ خاص قابلِ ذکر ہیں : نمبر1: مقر رہ نظام الاوقات کے مطابق پابندی کے ساتھ کام کرنا، نمبر2: اپنے چھوٹوں سے تبادلۂ خیال اور استفادے میں عار محسوس نہ کرنا اور نمبر3: کام کے معیار کے معاملے میں کسی سطح پر مصلحت کے لیے تیار نہ ہونا۔ پہلے معاملے میں یہ خاکسار اپنی کمزوری بلکہ ناکامی کا معترف ہے، دوسرے معاملے میں حتی الامکان کسی کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوتا اور تیسرے معاملے میں تابہ مقدور اپنا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

وحید الحق : تحقیق کے طلبہ کو کن کتابوں کو بہ طورِ خاص پیشِ نظر رکھنا چاہیے ؟

حنیف نقوی: اس سوال سے آپ کا مقصد بہ ظاہر ایسی کتابوں کی نشاندہی معلوم ہوتا ہے جو تحقیق کے اصول و آداب سے واقفیت اور طریقِ کار کے تعین میں طلبہ کے لیے کارآمد اور مفیدِ مطلب ہوں۔ میرے نزدیک یہ مقصد اس قسم کی کتابوں کی بجائے مثالی نوعیت کے چند تحقیقی مقالات کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کر کے زیادہ بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تحقیق کار اپنے موضوع سے طبعی مناسبت بھی رکھتا ہو اور اس کے اندر ذوق و شوق کی بھی کمی نہ ہو۔ فنِ تحقیق سے متعلق کتابیں ان فطری صفات پر جلا تو کر سکتی ہیں، انھیں عدم سے وجود میں نہیں لا سکتیں۔ لیکن تحقیق اب کاروبارِ شوق نہ رہ کر طلبہ کی ضرورت بن گئی ہے۔ اسی نسبت سے اس کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر ان رہنما کتابوں کی طرف رجوع ناگزیر ہو گیا ہے۔ اس قسم کی کتابوں میں ڈاکٹر گیان چند جین کی ’تحقیق کا فن‘ سب سے زیادہ مفصل اور مبسوط ہے۔ اس کے مطالعے سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عبدالرزاق قریشی کی ’مبادیاتِ تحقیق‘، ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی ’اصولِ تحقیق اور تدوینِ متن‘، ڈاکٹر خلیق انجم کی ’متنی تنقید‘، پروفیسر سید محمد ہاشم کی ’تحقیق و تدوین‘اور راقم کی ’تحقیق و تدوین:مسائل اور مباحث‘ سے بھی بہ قدرِ ذوق و ظرف مدد لی جا سکتی ہے۔ حافظ محمود خاں شیرانی، قاضی عبدالودود، مولانا امتیاز علی خاں عرشیؔ، اور رشید حسن خاں کی تحریریں پختہ کار محققوں کے لیے بھی سرمۂ چشمِ بصیرت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ نو آموز تحقیق کار حسب توفیق ان سے جس قدر استفادہ کر پائیں گے، ان کے حق میں اتنا ہی بہتر ہو گا۔ خیال رہے کہ مطالعہ جتنا وسیع ہو گا، بنیاد اتنی ہی مضبوط اور نتائج اتنے ہی اطمینان بخش ہوں گے۔

وحید الحق: آپ نے تذکروں کے موضوع پر کام کیا ہے لیکن کوئی تذکرہ مرتب نہیں کیا۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟

حنیف نقوی : یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے کسی سے یہ دریافت کیا جائے کہ آپ نے غالب پر تحقیق کی ہے تو ان کا دیوان کیوں نہیں ایڈٹ کیا؟ عزیزم! تحقیق اور تدوین دو علاحدہ علاحدہ نوعیت کے کام ہیں۔ یہ قطعاً ً ضروری نہیں کہ جو شخص اچھا محقق ہو، وہ اچھا مدونِ متن بھی ہو۔ تدوینِ متن تحقیق سے آگے کی منزل ہے جس کے لیے تحقیق سے بھی زیادہ دیدہ ریزی اور دماغ سوزی درکار ہوتی ہے۔ پی ایچ۔ ڈی کے بعد ڈی۔ لٹ کے لیے علی ابراہیم خاں خلیلؔ  کے تذکرے ’گلزارِ ابراہیم‘ کو ایڈٹ کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اس کے تمام معلوم خطی نسخوں کے عکس حاصل کرنے میں کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور صرف ان دو تین نسخوں کی مدد سے جن تک رسائی ممکن تھی، الٹا سیدھا متن مرتب کر دینے پر طبیعت کسی طرح آمادہ نہ ہوئی، اس لیے یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔ یہاں ضمناً  یہ عرض کر دینا بے محل نہ ہو گا کہ اس تذکرے کے بعض قلمی نسخوں میں الحاق و اختلاف کی جو کیفیت پائی جاتی ہے، اس کے پیشِ نظر صرف ایک دو سہل الحصول نسخوں کو سامنے رکھ کراس کا متن شائع کر دینا گمراہ کن نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔

وحید الحق : آپ کے خیال میں اردو کے کن تذکروں کو ترتیب دے کر شائع کرنے کی ضرورت ہے ؟

حنیف نقوی : کسی تذکرے کے متن کو تدوین کے اصول و آداب کے مطابق مرتب کر کے شائع کرنا خاصا دقت طلب اور دشوار گزار کام ہے۔ موجودہ دور کے تحقیقی تقاضوں کے مطابق کسی بھی شاعر کے مختصر ترجمۂ احوال کا مطلوبہ معیار یہ ہو سکتا ہے کہ اس میں اس کے اور اس کے والد کے نام اور مولد و مسکن کے علاوہ اس کے استاد کا نام بھی شامل ہو اور اس کی ولادت و وفات کی تاریخیں بھی درج ہوں۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہو کہ کلام مرتب ہوا ہے یا نہیں، مرتب ہوا ہے تو مطبوعہ ہے یا غیر مطبوعہ اور اگر غیر مطبوعہ ہے تو اس کے قلمی نسخے کس کس کتب خانے میں موجود ہیں۔ تذکرہ نگار اپنے علم، سہولت یا صواب دید کے مطابق ان میں سے کچھ باتیں بتا دیتا ہے، کچھ نہیں بتا پاتایا بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔ اس لیے اصولی طور پر ایک تذکرے کے مرتب کی یہ ذمہ داری قرار پاتی ہے کہ تذکرہ نگار نے حالات کے سطورِ بالا میں پیش کردہ نقشے میں اپنی لاعلمی یا بے توجہی کے باعث جو کھانچے چھوڑ دیے ہوں، وہ تابہ مقدور تلاش و تحقیق سے کام لے کر اپنے حواشی میں ان کی تکمیل کی کوشش کرے۔ اس کے ساتھ ہی اگر مولفِ تذکرہ سے کسی واقعے کے بیان میں سہو ہوا ہو تو اس کی تصحیح کر دے۔ علاوہ بریں اس پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ انتخابِ کلام کے تحت جو اشعار دیے گئے ہوں، ان کا اصل مآخذ یا دوسرے موجود ذرائع سے مقابلہ کر کے متن کے اختلافات کی نشاندہی کرے اور اس کا بھی خیال رکھے کہ اس میں کسی دوسرے شاعر کا کلام شامل نہ ہو۔ اگر غلطی سے کسی دوسرے شاعر کا کوئی شعر انتخابِ کلام میں شامل ہو گیا ہو تو حواشی میں لازماً  اس کی بھی وضاحت کر دی جائے۔ اس معیار کو پیشِ نظر رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ شائع شدہ تذکروں میں بھی کوئی تذکرہ ایسا نہیں جو ازسرِ نو تدوین و ترتیب کا مستحق نہ ہو۔ تاہم میرے خیال میں ’عیار الشعرا‘ مولفہ خوب چند ذکاؔ ، ’مجمع الانتخاب‘ مولفہ شاہ کمال مانک پوری، ’تذکرۂ بے جگر‘ مولفہ خیراتی لال بے جگرؔ، ’گلزارِ ابراہیم‘ مولفہ علی ابراہیم خان خلیلؔ ، ’ مسرت افزا‘ مولفہ امر اللہ الہ آبادی، اور ’خم خانۂ جاوید‘ مولّفہ لالہ سری رام، وہ غیر معمولی اہمیت کے حامل تذکرے ہیں جنھیں اس ضمن میں ترجیحی فہرست میں رکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سے پہلے تینوں تذکروں کا متن ابھی تک مطبوعہ صورت میں سامنے نہیں آ سکا ہے۔

وحید الحق: جو تذکرے شائع ہو چکے ہیں ان میں تدوین کے لحاظ سے کون سا تذکرہ سب سے اچھا اور جامع ہے ؟

حنیف نقوی : جیسا کہ آپ کے گزشتہ سوال کے جواب میں عرض کیا گیا، جو تذکرے اب تک شائع ہو چکے ہیں، ان میں سے کوئی بھی تدوین و ترتیب کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا۔ البتہ تذکرہ نویسی کے فن سے غیر متعلق دو کتابوں کے ضمیمے جو اصلاً  تذکرے نہ ہوتے بھی تذکرہ نویسی کی روایت سے پوری مطابقت رکھتے ہیں، اس عمومی کیفیت سے مستثنیٰ ہیں۔ ان میں بہ اعتبار اہمیت پہلا ضمیمہ موسوم بہ ’تذکرۂ شعرا‘ مولفہ ابنِ امین اللہ طوفان ہے، جو قاضی عبدالودود کی دریافت ہے اور انھی نے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔ قاضی صاحب نے اس کے بارے میں مختصراً  صرف یہ بتایا ہے کہ ’’یہ کسی کتاب کا ضمیمہ معلوم ہوتا ہے ‘‘۔ کتاب کا نام کیا تھا، اس کا موضوع کیا تھا، اور اس کا مصنف کون تھا؟ اس سلسلے میں انھیں کوئی سراغ نہ مل سکا۔ مصنف نے اس میں کل اکتالیس شاعروں کا ذکر کیا ہے۔ اس میں ایکقوی نمبر (ہماری زبان) ۔۔۔ مرتبہ شاعر کا تخلص طوفانؔ اور نام امین اللہ ہے جو مصنف کے بقول اس کے والد تھے۔ اس نسبت سے اسے بالعموم ’تذکرۂ ابنِ امین اللہ طوفانؔ ‘، کہا جاتا ہے۔ اس کے حواشی قاضی صاحب نے نہایت توجہ اور اہتمام کے ساتھ تحریر فرمائے ہیں۔ تحقیق و تدوین کے طالبِ علم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

دوسرا ضمیمہ حکیم احد علی خاں یکتاؔ لکھنوی کی تصنیف ’دستورالفصاحت‘ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کتاب کا اصل موضوع قواعدِ صرف و نحو ہے، لیکن مصنف نے اس کی ابتدا بہ طور مقدمہ اردو زبان کی تاریخ سے کی ہے اور اختتام ’خاتمہ در تذکرۃ الشعرا‘ کے زیرِ عنوان ان پینتیس (35) ’مقبول ومعتبر‘ شعرا کے ذکر پر کیا ہے جن کے اشعار اصل کتاب میں جا بہ جا بہ طورِ سند پیش کیے گئے ہیں۔ مولانا امتیاز علی عرشیؔ نے شروع اور آخر کے ان دونوں حصوں کو یکجا کر کے اور ان پر مفصل مقدمہ اور حواشی لکھ کر انھیں ’دستورالفصاحت‘ ہی کے نام سے شائع فرما دیا ہے۔ عرشیؔ صاحب کا یہ مقدمہ بالخصوص نہایت مفید اور معلومات افزا ہے۔ اس میں انھوں نے شعرائے اردو و فارسی کے ان تذکروں اور بعض دوسری کتابوں کے بارے میں نہایت جامع تعارفی نوٹ تحریر فرمائے ہیں، جن کے حوالے سے اس تذکرے کے حواشی لکھے گئے ہیں۔ تحقیق سے دل چسپی رکھنے والے طلبہ ان نوٹس کے مطالعے سے یہ رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں کہ داخلی شہادتوں کی مدد سے کس طرح کسی کتاب کے زمانۂ تصنیف کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ راقم نے تذکروں سے متعلق اپنا تحقیقی سفر اسی مقدمے کی روشنی میں شروع کیا تھا۔

وحید الحق: آج کل تحقیق و تدوینِ متن پر کام کرنے والے لوگوں کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے ؟

حنیف نقوی : اس سلسلے میں سب سے پہلے تو میرا مشورہ یہ ہے کہ تحقیق اور تدوینِ متن سے متعلق موضوعات پر کام کرنے کی ذمہ داری صرف انھی لوگوں کو لینی چاہیے جو مسلسل مطالعے اور سخت محنت کو پورے عزم کے ساتھ اپنی زندگی کا معمول بنانے کے لیے تیار ہوں اور اس نکتے کو کبھی فراموش نہ کریں کہ عجلت پسندی، سہل انگاری تحقیق ہو یا تدوین دونوں کو بالکل راس نہیں آتی۔ ان بنیادی باتوں کے علاوہ انھیں ان امور کا بھی دھیان رکھنا ہو گا کہ وہ اپنے بزرگوں کا احترام پوری طرح ملحوظ رکھیں۔ ان کی تحریروں سے اور اگر ممکن ہو تو ان کی صحبتوں سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں، لیکن نہ تو ان سے مرعوب ہوں اور نہ ان کی کسی بات کو بغیر سند اور دلیل کے قبول کریں۔ جو کہیں اس میں کسی قسم کی پیچیدگی یا ابہام نہ ہو۔ توصیفی کلمات کے استعمال میں پوری طرح احتیاط برتیں اور سچ بات کہنے میں کسی رو رعایت سے کام نہ لیں۔ آخری بات یہ ہے کہ اگر ان کی کوئی غلطی دلائل کے ساتھ ان پر واضح کر دی جائے تو اسے قبول کر لینے میں مطلقاً  کسی پس و پیش کو راہ نہ دیں اور یہ کبھی نہ بھولیں کہ تحقیق کی سخت گیری کسی بھی حالت میں غلطیوں کا دفاع کرنے اور انھیں اپنی انا کا سوال بنا لینے کی اجازت نہیں دیتی۔

—————————-

ڈاکٹر وحید الحق

Budge Budge Urdu High School

18/A, Golam Rasul Road

PO & PS: Budge Budge

South 24 parganas

Kolkata – 700137

٭٭٭

تشکر: جاوید رحمانی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید