FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

حج اور عمرہ  کے مسائل

 

 

                محمد اقبال کیلانی

 

 

 

دیباچہ

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلاَۃ وَالسَّلاَمُ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْاَمِیْنَ وَالْعَاقِبَۃ لِلْمُتَّقِیْنَ، اَمَّا بَعْدُ !

مکۃ المکرمہ، خطہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین سرزمین،  پر کشش اور پر جلال کعبۃ اللہ کی سرزمین،  شعائر اللہ کی سرزمین،  معجزات کی سرزمین،  امن و سلامتی کی سرزمین،  فیوض و برکات کی سرزمین،  خیرات و ثمرات کی سرزمین،  سیدنا حضرت ابراہیمؑ  کی دعاؤں اور تمناؤں کی سر زمین،  سیدنا حضرت اسماعیلؑ  کے جذبہ تسلیم و رضا کی سرزمین ولادت محمدی اور بعثت نبویﷺ  کی سرزمین،  سیدنا حضرت بلالؓ کی صدائے اَحد سے معمور فضاؤں کی سرزمین،  سیدنا حضرت ابو ذر  غفاریؓ کی داستان وفا کی سرزمین شہادت گہ الفت میں قدم رکھنے والے آل یاسرؓ کی سرزمین،  مرکز انقلاب،  منبع توحید،  سرچشمہ رشد و ہدایت،  بقعہ رحمت و  انوار کی سرزمین، جہاں جنت سے لایا گیا پتھر حجر اسود موجود ہے جس پر رسول رحمتﷺ نے آنسو بہائے ،  جہاں ملتزم ہے جس پر سرور عالمﷺ نے یوں اپنے رخسار مبارک رکھے جیسے بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے چمٹ جاتا ہے ،  جہاں جنت سے لایا گیا پتھر…مقام ابراہیم… بھی ہے ،  جہاں رکن یمانی ہے جس کے چھونے سے گناہ معاف ہوتے ہیں جہاں قدرت کا ایک لافانی معجزہ زمزم ہے جس میں ہر مرض کی دوا اور ہر دکھ کا درماں موجودہ ہے۔جہاں کوہ صفا اور مروہ بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی نشانیوں میں سے نشانی قرار دیا ہے یہی وہ سرزمین ہے جہاں منیٰ کے وہ خوش نصیب ذرات ہیں جہاں امام الموحدین سیدنا حضرت ابراہیمؑ  نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنے نوجوان بیٹے کے گلے پر چھری چلائی یہی وہ سرزمین ہے جہاں میدان عرفات کے وہ مبارک سنگریزے ہیں جن پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی وہ سرزمین ہے جہاں خالق ارض و سماء میزبان ہوتا ہے اور اس کے مسکین و محتاج بندے معزز مہمان قرار پاتے ہیں۔ یہی وہ سرزمین ہے جہاں صرف دولت دین ہی نہیں دولت دنیا بھی لٹتی ہے۔ اس سر زمین پر جو شخص جتنا بڑا بھکاری بن کر آتا ہے اتنا ہی زیادہ عز و شرف کا مستحق ٹھہرتا ہے ،  جو شخص جتنا زیادہ ہاتھ پھیلانے کے آداب سے واقف ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اعزاز و اکرام کا مستحق قرار پاتا ہے۔ یہاں خالق و مخلوق کے درمیان کوئی پردہ اور حجاب باقی نہیں رہتا۔ احساس قربت اور نزول رحمت کے نظارے انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔

پس اے مصائب و آلام کے مارے ہوئے درماندہ حال لوگو! گناہوں اور معصیت میں ڈوبے ہوئے انسانو! آؤ اس سرزمین کی طرف جہاں خالق کائنات خود میزبان ہوتا ہے، جو بڑا مہر بان اور رحم فرمانے والا ہے۔ جو ایک بالشت آگے بڑھنے پر ایک بازو آگے بڑھتا ہے، جو ایک ہاتھ آگے بڑھنے پر دو ہاتھ آگے بڑھتا ہے، جو چل کر آنے والوں کی طرف دوڑ کر آتا ہے جو ہر روز اپنے خطا کار بندوں کے گناہ معاف کرنے کے لئے آسمان دنیا پر جلوہ فرما ہوتا ہے جس کی رحمت اس کے غصہ پر غالب ہے جس کی مغفرت زمین و آسمان کی وسعتوں سے بھی وسیع تر ہے۔ آؤ اس سرزمین کی طرف جہاں ایک دن میں اتنے آدمی جہنم کی آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں جتنے سارے سال میں کسی اور دن نہیں ہوتے۔ آؤ اس سر زمین کی طرف جہاں سے آدمی اس طرح گناہوں سے پاک لوٹتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،  کان لگا کر ذرا غور سے سنو،  اللہ کا پیغام لانے والا ہمارے لئے کیا پیغام لایا ہے۔

﴿ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلیٰ اَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ  ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ﴾(53:39)

"(اے نبیؐ )! کہہ دو کہ اے میرے (اللہ کے ) بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم فرمانے والا ہے۔ (سورۃ الزمر، آیت نمبر53)

 

حج کی مختصر تاریخ

 

قدیم عرب اقوام کی دو شاخیں زیادہ مشہور ہیں۔

عرب عاربہ

جنہیں قحطانی عرب کہا جاتا ہے۔ ان کا جد امجد یعرب بن یسحب بن قحطان ہے۔

عرب مستعربہ

جنہیں عدنانی عرب کہا جاتا ہے ان کے جد امجد سیدنا حضرت ابراہیمؑ  ہیں۔

سیدنا حضرت ابراہیمؑ قریباً چار ہزار سال قبل عراق کے شہر "اُور” میں پیدا ہوئے۔ "اُور” جہاں دنیاوی لحاظ سے بہت بڑا صنعتی اور تجارتی مرکز تھا وہاں دینی لحاظ سے بھی شرک کا بہت بڑا مرکز تھا۔ حضرت ابراہیمؑ کا والد "آزر” اپنی قوم کا پروہت اور پیشوا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ  نے ہوش سنبھالا تو سوچنے لگے کہ قوم جن بتوں اور پتھروں کو اپنا معبود سمجھتی ہے یہ نہ بول سکتے ہیں نہ چل پھر سکتے ہیں۔ نہ کھا پی سکتے ہیں نہ کسی کو نفع نقصان دے سکتے ہیں نہ ہی کسی کو زندگی اور موت دے سکتے ہیں ،  تو پھر انہیں اپنا رب کیوں مانا جائے ؟ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ  نے صاف صاف اعلان فرما دیا

﴿ اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ﴾(79:6)

"میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔”(سورۃ الانعام، آیت نمبر79)

اس واضح اور کھلے اعلان میں توحید کے بعد باپ نے حضرت ابراہیمؑ کو قتل کرنے اور گھر سے نکالنے کی دھمکی دے دی۔ باپ کا یہ جارحانہ طرز عمل حضرت ابراہیمؑ  کے پائے ثبات میں ذرا سی لغزش بھی پیدا نہ کر سکا اور آپ ایک لمحہ کی تاخیر کئے بغیر باپ کی وراثت،  گدی اور جاہ و عزت سب کچھ چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔

حضرت ابراہیمؑ کا دوسرا تصادم حکومت وقت کے ساتھ ہوا۔ اپنی مشرک قوم کو شرک کی حقیقت سمجھانے کے لئے موقع پا کر سرکاری خانقاہ میں گھس گئے اور بڑے بت کے علاوہ تمام بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا،  جب لوگوں کو علم ہوا تو آپ کو بادشاہ کے دربار میں طلب کیا گیا اور پوچھا گیا

"ابراہیم! کیا تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے ؟”

آپ نے جوب میں ارشاد فرمایا

"یہ سب کچھ معبودوں کے سردار نے کیا ہے، ان ٹوٹے ہوئے خداؤں سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔” پھر مزید فرمایا” لوگو! کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کر رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان پہنچانے پر۔ افسوس ہے تم پر اور تمہارے معبودوں پر جن کی تم عبادت کر رہے ہو، اللہ کو چھوڑ کر،  کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے ؟” (سورۃ الانبیاء، آیت نمبر22/23/26/27)

اس موقع پر بتوں کا نہ بول سکنا،  نفع و نقصان نہ پہنچا سکنا ایک ایسی کھلی حقیقت تھی جس کا انکار ممکن نہ تھا، لہٰذا دوسرا سوال یہ پوچھا گیا "پھر تمہارا رب کون ہے ؟” آپ نے جواب دیا "میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے۔” تب بادشاہ نے جواب دیا "زندگی اور موت تو میرے اختیار میں ہے۔” تب حضرت ابراہیمؑ نے فوراً ارشاد فرمایا "اچھا تو (میرا) اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا۔”یہ (دلیل) سن کر کافر (بادشاہ) ششدر رہ گیا۔ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر 258) اس مدلل اور مسکت جواب پر غور کرنے کی بجائے یہ شاہی فرمان جاری کیا گیا۔”جلا ڈالو اس کو اور مدد کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔”

حکومت کا یہ ظالمانہ فیصلہ بھی حضرت ابراہیمؑ  کو عقیدہ توحید سے منحرف نہ کر سکا آپ پہاڑوں کی سی استقامت اور بلندی کے ساتھ اپنے عقیدہ پر ڈٹے رہے۔ وہ ایک موحد جس کے ساتھ نہ کوئی لاؤ لشکر تھا نہ کوئی جماعت تھی نہ اسے کوئی وسائل حرب و ضرب میسر تھے نہ ہی اس کے پاس کوئی قوت تھی۔ تن تنہا پوری مشرک قوم پر بھاری ثابت ہوا، اسے راستے سے ہٹانے کے لئے پوری قوم حرکت میں آ گئی۔ آگ کا الاؤ تیار کرایا گیا اور وہ جو پہلے ہی اپنے مالک حقیقی کے نام پر اپنی جان کے علاوہ ہر چیز قربان کر کے آیا تھا اب اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنے کے لئے بے خطر آتش نمرود میں کود گیا۔ تب زندگی اور موت کے حقیقی مالک کی طرف سے فرمان جاری ہوا۔

﴿ قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلاَمًا عَلیٰ اِبْرٰہِیْمَ ﴾ (69:21)

"ہم نے کہا اے آگ !ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا ابراہیم کے لئے۔”(سورۃ الانبیاء، آیت نمبر69)

اور حضرت ابراہیمؑ آگ سے بالکل محفوظ اور مامون باہر نکل آئے۔

اس مشرک قوم کی بد نصیبی ملاحظہ ہو کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود کوئی ایک آدمی بھی آپ پر ایمان نہ لایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہاں سے ہجرت کا حکم دے دیا اور آپ عقیدہ توحید کی خاطر اپنا آبائی وطن ترک کر کے شام کے شہر "خران” تشریف لے گئے۔ وہاں سے فلسطین کا سفر اختیار کیا۔ ایک مرتبہ اپنی بیوی حضرت سارہ ؑ کے ہمراہ مصر تشریف لے گئے۔ بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے بری نیت سے دونوں کو دربار میں طلب کیا۔ حضرت سارہؑ نے اللہ کے حضور دعا فرمائی جو قبول ہوئی اور بادشاہ اسی وقت اللہ کی پکڑ میں آ گیا۔ جس سے بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ خاتون اللہ تعالیٰ کی کوئی خاص مقرب بندی ہے، چنانچہ اس نے توبہ کی اور اپنی بیٹی ہاجرہ کو حضرت سارہؑ کی خدمت میں دے دیا۔ حضرت سارہؑ  نے خود حضرت ہاجرہؑ کا نکاح حضرت ابراہیمؑ سے کروا دیا۔

مصر سے حضرت ابراہیمؑ واپس فلسطین تشریف لائے اور اسے اپنی دعوت کا مرکز بنایا۔ اسی(80)سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہؓ  کے بطن سے آپ کو ایک بیٹا (حضرت اسماعیلؑ ) عطا فرمایا۔ حضرت سارہؓ  ابھی تک بے اولاد تھیں۔ اس لئے دونوں بیویاں اکٹھی نہ رہ سکیں لہٰذا آپ حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیلؑ  کو لے کر حجاز تشریف لے آئے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی بیوی اور بیٹے کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں ٹھہرا دیا۔ واپس جانے لگے تو بیوی نے بار بار سوال کیا کہ "آپ ہمیں اس جنگل بیاباں میں کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہیں ؟” اپنی رفیقۂ حیات اور چند ماہ کے جگر گوشہ سے جدائی کا تصور یقیناً حضرت ابراہیمؑ  کے جذبات میں تلاطم برپا کر رہا ہو گا۔ آپ نے واپس پلٹے اور دیکھے بغیر صرف اتنا جواب دیا "اللہ کے حکم پر” تب وہ اللہ کی بندی سراپا تسلیم و رضا بن گئیں اور کہا کہ "پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔” اس طرح آپ اپنے اہل و عیال سے نا معلوم عرصہ کے لئے جدا ہو گئے۔ کچھ آگے جا کر حضرت ابراہیمؑ نے اپنے رب کے حضور ہاتھ پھیلا کر وہ دعا مانگی جس کے اثرات آج ہر مسلمان اس وادی ثمرات و برکات میں پہنچ کر خود دیکھ سکتا ہے۔

﴿ رَبَّنَا اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلاَۃ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃ مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ ﴾(37:14)

"اے پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اس لئے کیا ہے کہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔”(سورہ ابراہیم، آیت نمبر37)

ایسی جگہ جہاں پر حشرات الارض اور جنگلی درندوں کی موجودگی کا امکان تو ہر وقت موجود تھا لیکن کسی غمگسار اور ہمدرد انسان کی موجودگی کا تصور بھی محال تھا۔ جہاں چند دنوں کی خوراک ختم ہونے کے بعد بظاہر غذا حاصل ہونے کے قطعاً کوئی آثار نہ تھے۔ وہاں حضرت ابراہیمؑ نے اپنے اہل و عیال کو تنہا چھوڑ کر اور حضرت ہاجرہؓ  نے ایسی جگہ رہائش اختیار کر کے اللہ پر توکل کا ایسا نمونہ پیش کیا جو رہتی دنیا تک اپنی مثال آپ رہے گا۔

سیدناحضرت ابراہیمؑ  کا اپنے اہل و عیال کو اس بے آباد ویرانے میں لے جا کر بسانا بارگاہ ایزدی میں اتنا پسند آیا کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے فیصلہ فرما دیا کہ جس شخص پر حج کی عبادت فرض ہو وہ اسی طرح اپنے گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن ہو جس طرح میرا بندہ اپنے گھر سے بے گھر اور اپنے وطن سے بے وطن ہوا اور پھر اس مقام پر پہنچے جہاں ایمان نے شکست دی مادیت پرستی کو،  عشق نے شکست دی عقل پرستی کو،  اطاعت الٰہی نے شکست دی اطاعت نفس کو،  محبت الٰہی نے شکست دی محبت عیال کو،  اور زندگی نے شکست دی موت کو!

حضرت ابراہیمؑ  اس لق و دق صحرا میں اپنے اہل خانہ کے لئے جو متاع حیات چھوڑ کر گئے تھے وہ پانی کا ایک مشکیزہ اور چند کھجوریں تھیں جب وہ ختم ہو گئیں تو حضرت ہاجرہؓ بھی پیاس محسوس کرنے لگیں اور بچہ پیاس کی شدت سے رونے لگا۔

حضرت ہاجرہؓ  بے چین ہو کر قریب کی پہاڑی "صفا” کی طرف بھاگیں کہ شاید وہاں کوئی آدمی نظر آ جائے جس سے پانی لے سکیں، کوئی چیز نظر نہ آئی تو اسی پریشانی کے عالم میں دوسری پہاڑی "مروہ” کی طرف بھاگیں۔ اسی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر ہو گئے۔ ابھی "مروہ” پر ہی تھیں کہ ایک آواز سنی،  دیکھا تو حضرت جبرائیلؑ کے ایڑی مارنے سے پانی کا چشمہ وہیں نکل آیا جہاں سیدنا حضرت اسماعیلؑ لیٹے تھے۔ یہ وہی چشمہ ہے جسے آب "زمزم” کہا جاتا ہے۔ حضرت ہاجرہؓ  نے چشمہ کے گرد منڈیر بنا کر اسے حوض کی شکل دے دی۔ اب سیدہ ہاجرہؓ  اطمینان سے خود بھی زمزم پیتیں اور بچے کو بھی اطمینان سے دودھ پلاتیں۔

لمحہ بھر کے لئے تصور کیجئے کہ لق و دق و صحرا، اکیلی خاتون اور ساتھ چند ماہ کا بچہ، نہ کوئی بات سننے والا نہ سنانے والا، نہ کوئی دلاسہ دینے والا، نہ سہارا دینے والا، پُر ہول سناٹا، پہلی رات آئی ہو گی تو کیسے کٹی ہو گی، پھر جب متاع خورد و نوش ختم ہوئی ہو گی، تو اس تنہائی میں ماں کی جان پر ہی بن آئی ہو گی۔ معصوم جگر گوشہ کو بھوک اور پیاس سے روتے دیکھ کر اکیلی ماں کا کلیجہ کٹ گیا ہو گا۔ پریشانی اور اضطراب کے عالم میں بچے کی سلامتی کے لئے مامتا کے ہاتھ والہانہ انداز میں بارگاہ رب العزت میں اٹھے ہوں گے اور پھر اسی مضطربانہ کیفیت میں پانی کی تلاش میں بھاگ نکلی ہوں گی۔ کبھی صفا پر کبھی مروہ پر۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مومنہ بندی کی یہ اضطراری بھاگ دوڑ اس طرح قبول فرمائی کہ اس تمام سعی کو عبادت حج (یا عمرہ) کارکن بنا دیا۔

کچھ مدت کے بعد ایک قبیلہ "بنو جرہم” کا ادھر سے گزر ہوا۔ پانی کی سہولت دیکھ کر انہوں نے حضرت ہاجرہؓ  سے قیام کی اجازت چاہی۔ حضرت ہاجرہؓ نے پانی پر اپنا حق ملکیت تسلیم کرواتے ہوئے اجازت دے دی۔

وقت بڑی تیزی کے ساتھ پر لگا کر اڑتا رہا۔ نوے سالہ بوڑھے باپ کی امیدوں کا سہارا بچپن کی دہلیز سے گزر کر جوانی کی بہاروں سے آشنا ہونے لگا تو قدرت نے اس مرتبہ باپ کے ساتھ بیٹے کا بھی امتحان لینے کا فیصلہ کر لیا۔

حضرت ابراہیمؑ  کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے اکلوتے نوجوان بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار اور وفا شعار بندہ جو ابھی ابھی کتنے ہی کٹھن امتحانوں سے گزر کر آیا تھا،  یہ خواب دیکھ کر نہ تو رنجیدہ ہوا اور نہ ہی مستقبل کے خدشات اور وساوس کا شکار ہوا بلکہ بلا تامل ایک اطاعت گزار غلام کی مانند اپنے آقا و مالک کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور حکم کی تعمیل کے لئے فوراً فلسطین سے مکہ مکرمہ پہنچ گیا۔

باپ جب بیٹے سے ملا ہو گا تو باپ نے اپنے جگر گوشہ کو سینے سے لگا کر خوب پیار کیا ہو گا۔ جب باپ نے بیٹے کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خواب میں تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے ،  تو فرمانبردار بیٹے نے تسلیم و رضا کے اسی طرز عمل کا مظاہرہ کیا جس کا مظاہرہ اس سے پہلے عظیم باپ کر چکا تھا۔ حضرت اسماعیلؑ  کا جواب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے :

﴿ یَا اَبَتِ افْعَلْ مَا تُوٴْمَرُ سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ ﴾(102:37)

"ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے، اسے کر ڈالئے۔ ان شاء اللہ! آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔”(سورۃ الصافات، آیت نمبر102)

سعادت مند بیٹے کا جواب سن کر باپ کو اطمینان ہو گیا اور دونوں باپ بیٹا اللہ کے حکم کی تعمیل کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حضرت ابراہیمؑ  نے تاریخ انسانی کا وہ عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا جس کا مشاہدہ نہ اس سے پہلے کبھی زمین و آسمان نے کیا نہ اس کے بعد کریں گے۔ اپنے جگر گوشہ کو منہ کے بل زمین پر لٹا دیا اور چھری تیز کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور اس وقت تک پوری طاقت سے چھری اپنے بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صدا نہ آ گئی۔

﴿ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ﴾(105:37)

” (اے ابراہیم!) تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔”(سورۃ الصافات، آیت نمبر105)

چنانچہ حضرت اسماعیلؑ  کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا جسے حضرت ابراہیمؑ  نے ذبح کر دیا۔

اپنے جگر گوشہ کو اپنے ہی ہاتھوں اللہ تعالیٰ کی محبت میں قربان کرنے کا عمل بارگاہ رب العزت میں اس قدر باعث عز و شرف ٹھہرا کہ رہتی دنیا تک اہل ایمان کو خواہ وہ منیٰ میں ہوں یا منیٰ سے باہر مشرق میں ہوں یا مغرب میں یہ حکم دے دیا گیا کہ وہ ہر سال جذبہ ابراہیمی کے ساتھ ایک جانور ذبح کر کے اس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کیا کریں۔

اس انوکھے اور عجیب و غریب امتحان میں کامیابی کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ  کو ایک بہت بڑے اعزاز سے نوازنے کا فیصلہ فرمایا۔ حکم دیا گیا کہ دنیا میں میرے لئے ایک گھر تعمیر کرو۔ باپ بیٹے نے خوشی خوشی گھر کی تعمیر شروع کر دی۔ تعمیر کرتے کرتے جب حجراسود کی جگہ پہنچے تو حضرت ابراہیمؑ  نے حضرت اسماعیلؑ سے کہا "بیٹا! کوئی اچھا سا پتھر ڈھونڈ کر لاؤ۔ ” حضرت اسماعیلؑ  پتھر ڈھونڈ کر لائے، تو دیکھا کہ حضرت ابراہیمؑ وہاں کوئی دوسرا پتھر لگا چکے ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ  نے پوچھا "یہ پتھر کہاں سے آیا ہے ؟” حضرت ابراہیمؑ  نے فرمایا”یہ پتھر اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیلؑ  لے کر آئے ہیں۔” (ابن کثیر) یہ وہی پتھر ہے جسے حجر اسود کہا جاتا ہے اور طواف کے ہر چکر میں جس کا استلام کیا جاتا ہے۔ جس کے بارے میں ارشاد نبویﷺ  ہے :

"حجر اسود جنت سے بھیجا ہوا پتھر ہے جو دودھ کی طرح سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا ہے۔” (ترمذی)

دیواریں جب کافی اونچی ہو گئیں تو حضرت اسماعیلؑ  ایک پتھر اٹھا کر لائے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیمؑ  بیت اللہ شریف کی تعمیر کرتے رہے یہ وہی پتھر ہے جسے "مقام ابراہیم” کہا جاتا ہے اور جس پر آنجنابؑ  کے قدموں کے نشانات موجود ہیں۔ ارشاد نبویﷺ کے مطابق یہ پتھر بھی جنت سے بھیجا گیا ہے (ابن خزیمہ) خوش نصیب باپ اور بیٹا بیت اللہ شریف کی تعمیر کرتے رہے اور ساتھ ساتھ یہ دعا مانگتے رہے۔

﴿ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ﴾(127:2)

"اے پروردگار! ہم سے ہماری یہ خدمت قبول فرما تو سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔”(سورۃ البقرہ، آیت نمبر127)

بیت اللہ شریف کی تعمیر مکمل ہو گئی، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا :

﴿ وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ ﴾ (27:72)

"اے ابراہیم! لوگوں میں حج کے لئے اعلان کر دو۔”(سورۃ الحج، آیت نمبر 27)

حضرت ابراہیمؑ نے عرض کیا "اس بے آباد ویرانے سے باہر آبادیوں تک میری آواز کیسے پہنچے گی؟” اللہ تعالیٰ نے فرمایا "اعلان کرنا تمہارا کام ہے اور اسے لوگوں تک پہنچانا ہمارا کام ہے۔” چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ  کا یہ اعلان نہ صرف اس وقت کے زندہ انسانوں تک پہنچا دیا بلکہ عالم ارواح میں تمام روحوں تک بھی یہ آواز پہنچا دی گئی جس جس شخص کی قسمت میں بیت اللہ شریف کی زیارت لکھی تھی اس نے حضرت ابراہیمؑ  کے اعلان کے جواب میں "لَبَّیْکَ” کہی۔ حج کے تلبیہ کی اصل بنیاد حضرت ابراہیمؑ کے اسی اعلان کا جواب ہے۔ (ابن کثیر)

جب تک حضرت ابراہیمؑ  زندہ رہے۔ بیت اللہ شریف کے متولی رہے۔ آپ کی وفات کے بعد قبیلہ بنو جرہم کے سردار بیت اللہ شریف کے متولی بنے۔ بنو جرہم کے دور میں ہی دین ابراہیمی میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ متولی حضرات نذرانوں اور ہدیوں کا مال ہڑپ کرنے لگے، چنانچہ قبیلہ بنو خزاعہ نے جدال و قتال کے بعد تولیت کا منصب بنو جرہم سے چھین لیا، لیکن ان کے زمانے میں بگاڑ مزید بڑھتا گیا۔ بیت اللہ شریف بت کدے کی شکل اختیار کر گیا۔ شرک کی انتہاء کا یہ عالم کہ لات، منات، عزیٰ اور ہبل کے بتوں کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیمؑ  کے بت بھی بنا کر بیت اللہ شریف میں رکھ دئے گئے۔ بنو خزاعہ کے بعد بیت اللہ شریف کی تولیت قریش مکہ کے ہاتھ آ گئی۔ قریشی سردار قصی بن کلاب نے خزاعی سردار کی بیٹی سے شادی کر لی جس کے نتیجے میں قریشی داماد کو خزاعی سسر سے کعبہ کی تولیت حاصل ہو گئی۔

بعثت نبویﷺ کے 21 سال بعد تک (یعنی8 ہجری) تک بیت اللہ شرک اور بت پرستی کا مرکز بنا رہا اور طریق جاہلیت کے مطابق مشرک حج کرتے رہے۔ 18ہجری میں آپﷺ  نے مکہ فتح کیا تو بیت اللہ شریف کو بتوں اور تصویروں سے پاک کیا۔9 ہجری میں حج فرض ہوا، تو آپﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور فریضہ حج، اسلامی شریعت کے مطابق ادا کیا گیا۔ 10 ہجری میں رسول اکرمﷺ  نے ایک لاکھ چوبیس (یا چالیس) ہزار جان نثار صحابہ کرامؓ  کی معیت میں حیات طیبہ کا پہلا اور آخری حج” حجۃ الوداع” ادا فرمایا۔

 

حج کی بعض امتیازی تعلیمات

 

حج بلا شبہ ایک کثیر المقاصد اور کثیر الفوائد عبادت ہے جس کے دینی اور دنیاوی فوائد اس قدر ہیں کہ انہیں شمار کرنے کے لئے ایک الگ کتاب کے صفحات درکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا ہے :

﴿ لِیَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ ﴾

” لوگ یہاں آئیں اور آ کر دیکھیں کہ حج میں ان کے لئے کیسے کیسے دینی اور دنیاوی فوائد ہیں۔”

غور فرمائیے !حجاج کرام کا گھر بار اہل و عیال اور اپنی تمام مصروفیتیں چھوڑ کر اللہ کے گھر کی زیارت کے لئے طویل سفر پر نکل کھڑے ہونا رجوع الی اللہ اور توکل علی اللہ کی ایک خاص کیفیت انسان کے اندر پیدا کر دیتا ہے۔ دوران سفر خالص اللہ کی رضا کے لئے ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی برداشت کرنا یقیناً تزکیہ نفس کا باعث بنتا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے ،  مختلف زبانیں بولنے والے ،  مختلف لباس پہننے والے، مختلف رنگوں اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ایک ہی مرکز پر پہنچنے کے لئے چل پڑنا،  میقات پر پہنچ کر اپنے قومی لباس اتار کر ایک ہی طرز کا سادہ سا فقیرانہ لباس پہن لینا،  مساوات کی ایک ایسی عملی تعلیم دیتا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔ امیر،  فقیر،  شاہ،  گدا،  عربی،  عجمی،  شرقی،  غربی سبھی لوگوں کا ایک ہی لباس میں ،  ایک ہی زبان میں ،  ایک ہی رخ پر ایک جیسے الفاظ میں ترانہ توحید بلند کرنا اور پھر ایک ہی وقت میں ایک ہی رخ پر ایک ہی طریقہ پر اپنے مالک و آقا کے حضور سجدہ ریز ہونا،  زبان،  رنگ،  نسل اور وطن وغیرہ کے نام پر بنائی ہوئی قوموں کے خود تراشیدہ بتوں کو توڑ پھوڑ کر بس ایک ہی قوم۔۔۔ قوم رسول ہاشمی۔ بننے کا درس دیتا ہے ایک ہی رنگ،  یعنی اللہ کا رنگ (صِبْغَۃاللّٰہِ) اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ حرم میں داخل ہونے کی پابندیاں، احرام کی پابندیاں ،  آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ امن و سلامتی اور عزت و احترام کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں۔

غور کیجئے تو محسوس یہ ہو گا کہ اسلامی تعلیمات کا کوئی ایسا گوشہ باقی نہیں بچتا جس کی تعلیم دوران حج بلا واسطہ یا بالواسطہ نہ دی گئی ہو اتفاق اور اتحاد کی تعلیم قربانی و ایثار کی تعلیم،  نظم و ضبط کی تعلیم،  باہم و دگر مربوط رہنے کی تعلیم،  دعوت و جہاد کی تعلیم یکسوئی اور یکجہتی کی تعلیم مساوات اور مواخاۃ کی تعلیم امن و سلامتی کی تعلیم وحدت ملت کی تعلیم رجوع الی اللہ کی تعلیم اتباع سنت کی تعلیم اور عقیدہ توحید کی تعلیم۔

عقیدہ توحید اور اتباع سنت اسلام کی دو بنیادی اور اہم ترین تعلیمات ہیں۔ ان کے بارے میں ہم تفصیل سے گفتگو کریں گے کہ کس طرح دوران حج ان دونوں باتوں کی تذکیر اور تعلیم کا اہتمام کیا گیا ہے۔

 

عقیدہ توحید

 

دین اسلام میں عقیدہ توحید کی اہمیت محتاج وضاحت نہیں عقیدہ توحید اگر درست نہ ہو تو کوئی بڑے سے بڑا نیک عمل بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمﷺ  کو مخاطب کر کے یہ بات ارشاد فرمائی

﴿ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِ یْنَ ﴾(65:39)

"اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا کیا کرایا عمل ضائع ہو جائے گا اور تم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔”(سورۃ الزمر، آیت نمبر65)

سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ مشرک کے لئے جنت حرام ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿ اِنَّہٗ  مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃ وَ مَاْوَاہُ النَّارُ ﴾ (72:5)

"جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔”(سورۃ المائدہ، آیت نمبر 72)

رسول اکرمﷺ  نے اپنے ایک صحابی حضرت معاذؓ کو یہ نصیحت فرمائی:

﴿ لاَ تُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَ اِنْ قُتِّلْتَ اَوْ حُرِّقْتَ ﴾

” اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا خواہ قتل کر دئے جاؤ یا جلا دئیے جاؤ۔ ” (مسند احمد)

قیامت کے روز رسول اکرمﷺ کے چچا ابو طالب،  حضرت ابراہیمؑ کے والد،  حضرت نوحؑ  کا بیٹا اور حضرت لوطؑ  کی بیوی انبیاء کے ساتھ گہرے خونی رشتے کے باوجود جہنم میں چلے جائیں گے صرف اس لئے کہ وہ عقیدہ توحید سے محروم ہوں گے۔ اس سے عقیدہ توحید کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آئیے ایک نظر دیکھیں کہ حج کس طرح حاجی کو عقیدہ توحید میں راسخ کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

مقام حج یعنی مکہ مکرمہ پہنچنے سے کئی میل پہلے ہی جب حاجی میقات پر پہنچ کر احرام باندھتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی توحید،  تحمید،  کبریائی اور عظمت پر مشتمل تلبیہ پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے ،  مکہ پہنچ کر حاجی طواف کا آغاز کرتا ہے تو اسے اللہ کی کبریائی کے کلمات ادا کرنے کا حکم ہوتا ہے حتی کہ طواف کے ہر چکر میں حجر اسود کے پاس آ کر اسے یہی کلمات دہرانے ہوتے ہیں۔دوران طواف حاجی کو کثرت سے اللہ کا ذکر تسبیح و تہلیل اور تحمید و تقدیس کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ طواف کے بعد سعی کے لئے صفا کی طرف جانے سے پہلے پھر ایک دفعہ حاجی کو حجر اسود کے سامنے آ کر "بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ” کہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ سعی کے آغاز سے پہلے حاجی کو صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی توحید و تکبیر اور حمدو ثناء کے وہ بہترین کلمات ادا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے جو رسول اکرمؐ نے فتح مکہ کے موقع پر صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر ادا فرمائے یہی توحید،  تکبیر اور حمدو ثناء کے کلمات مروہ پہاڑی پر دھرانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ میدان عرفات میں رسول اکرمﷺ نے جس دعا کو بہترین دعا قرار دیا ہے وہ ساری کی ساری عقیدہ توحید کی تعلیم پر مشتمل ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔

﴿ لاَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ  لاَ شَرِیْکَ لَہٗ  لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَ ہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾

"اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہی اسی کی ہے حمد اسی کے لئے سزاوار ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔” (ترمذی)

قیام مزدلفہ کے دوران اللہ تعالیٰ کو مسلسل یاد کرنے کا حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدَاکُمْ ﴾ (198:2)

” مشعر الحرام (مزدلفہ کی پہاڑی کا نام ہے ) کے نزدیک اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس طرح اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے۔ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر198)

منیٰ سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے منیٰ جاتے ہوئے مسلسل تلبیہ،  تہلیل،  تحمید اور تقدیس کے کلمات بلند آواز سے پکارنے کو ہی حج مبرور کہا گیا ہے۔ قربانی کرتے وقت اللہ کا نام اور اس کی کبریائی کے اظہار کا حکم دیا گیا ہے۔ رمی جمار کی ہر کنکری پھینکنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا نعرہ بلند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ایام حج، خصوصاً ایام تشریق (12۔11اور13 ذی الحجہ) کو سال بھر کے تمام دنوں کے مقابلے میں اس لئے افضل ترین دن قرار دیا گیا ہے کہ ان دنوں میں کثرت سے اللہ کی توحید اور تکبیر بیان کی جاتی ہے۔ ان ایام میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنے کا حکم بھی قرآن مجید میں دیا گیا ہے۔

﴿ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِی اَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ ﴾ (203:2)

"اور اللہ کو گنتی کے ان چند دنوں میں خوب یاد کرو۔”(سورۃ البقرہ، آیت نمبر 203)

گویا ایام حج میں قدم قدم پر حاجی کی زبان سے بار بار اللہ کی توحید،  تکبیر،  تحمید اور تقدیس کے کلمات نکلوا کر اس بات کا پورا پورا اہتمام کر دیا گیا ہے کہ اگر کوئی حاجی پورے فہم اور شعور کے ساتھ یہ ایام مسنون طریقے سے گزارے تو عقیدہ توحید حاجی کے دل و دماغ میں پوری طرح راسخ ہو جاتا ہے۔

 

اتباع سنت کی تعلیم

 

عقیدہ توحید کے بعد اتباع سنت دین اسلام کی دوسری اہم بنیاد ہے۔ رسول، چونکہ اللہ تعالیٰ کا پیغامبر اور نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لئے رسول کی پیروی اور اتباع در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی پیروی اور اتباع ہے۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں واضح فرمایا ہے :

﴿ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ﴾(80:4)

” جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے در اصل اللہ کی اطاعت کی۔”(سورۃ النساء، آیت نمبر80)

خود رسول اکرمﷺ  نے بھی ایک حدیث میں یہی بات ارشاد فرمائی ہے :

(( مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ))

” جس نے میری اطاعت کی اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نا فرمانی کی اس نے گویا اللہ کی نافرمانی کی۔”(بخاری و مسلم)

زندگی کے ہر معاملے میں رسول اللہﷺ کی اطاعت اور پیروی ہی وہ راستہ ہے جس میں دنیا اور آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ  فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ﴾(71:33)

” اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔”(سورہ الاحزاب، آیت نمبر 71)

ایک حدیث میں رسول اکرمﷺ کا ارشاد مبارک ہے :

(( مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃ ))

"جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا۔”(بخاری)

سنت رسولﷺ کو نظر انداز کرنا یا ترک کرنا سراسر گمراہی اور موجب ہلاکت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ  فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا ﴾(36:33)

” اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کی وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔”(سورہ احزاب، آیت نمبر 36)

ایک حدیث میں آپﷺ  کا ارشاد مبارک ہے :

(( مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ ))

” جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں۔”(بخاری و مسلم)

ایک دوسری حدیث میں رسول اکرمﷺ  نے واضح طور پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے "جس نے ثواب کی خاطر ایسا عمل کیا جو میری شریعت میں موجود نہیں، وہ عمل اللہ کے ہاں مردود اور غیر مقبول ہو گا۔” (بحوالہ بخاری و مسلم)

اور یہ الفاظ تو آپﷺ اپنے ہر خطبہ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے :

((وَ شَرِّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہَا وَ کُلَّ مُحْدَثَۃ بِدْعَۃ وَ کُلَّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ وَ کُلَّ ضَلاَلَۃ فِی النَّارِ )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ

” دین میں نئی بات ایجاد کرنا بد ترین کام ہے اور دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”(بحوالہ بخاری و مسلم) اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ آگ ہے۔”(نسائی)

مذکورہ آیات اور احادیث سے باسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کے نیک اعمال اللہ کے ہاں اسی صورت میں باعث اجرو ثواب ہوں گے جب وہ سنت رسولﷺ  کے مطابق ہوں گے جو اعمال سنت رسول سے ہٹ کر ہوں گے وہ اللہ کے ہاں غیر مقبول اور مردود ٹھہریں گے۔ مناسک حج پر ایک نظر ڈالئے اور غور فرمائیے کہ یہ مناسک شروع سے لے کر آخر تک کس طرح حاجی کو اتباع سنت کی تعلیم دیتے ہیں۔

8 ذی الحجہ کو حاجی مسجد الحرام چھوڑ کر ایک بے آباد سنگریزوں بھرے میدان میں خیمہ زن ہو جاتا ہے اگر محض اجر و ثواب ہی مطلوب ہو تو مسجد الحرام میں ادا کی گئی نمازوں کا ثواب منیٰ کے مقابلے میں لاکھوں درجہ زیادہ ہے تو پھر حاجی مسجد الحرام کیوں چھوڑتا ہے ؟ اس لئے کہ رسول اکرمﷺ  کی سنت اور آپﷺ کا بتایا ہوا طریقہ یہی ہے۔ مختصر سے قیام کے بعد دوسرے روز یعنی 9 ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد حاجی پھر رخت سفر باندھتا ہے اور صرف چند کلو میٹر کے فاصلہ پر میدان عرفات میں جا ٹھہرتا ہے وہ مٹی وہی سنگریزے وہی آب و ہوا، عرفات میں آخر کون سی ایسی خوبی ہے جو منیٰ میں نہیں ؟ پھر لاکھوں انسانوں کا منیٰ کی حدود سے نکل کر عرفات میں جا کر ٹھہرنا اپنے اندر کیا حکمت رکھتا ہے ؟ یہی کہ رسول اکرمﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔

میدان عرفات میں حاجی ظہر کے وقت امام حج کا خطبہ سننے کے بعد نمازیں (ظہر اور عصر) اکٹھی اور قصر کر کے پڑھتا ہے۔ غور فرمائیے وہ حاجی جو دنیا بھر کے سارے کام کاج چھوڑ کر اپنے آپ کو اس لئے فارغ کر کے آیا ہے کہ اللہ کی عبادت کرے وہ ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ہی وقت میں اکٹھی اور قصر کر کے کیوں ادا کرتا ہے ؟ اس لئے کہ اسے اللہ کے رسولﷺ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے۔

عرفات میں چند گھنٹے قیام کے بعد حاجی پھر اپنا سامان سفر باندھتا ہے اور قریب ہی ایک دوسرے میدان،  مزدلفہ میں جا کر قیام کرتا ہے عرفات میں حاجی رات کیوں نہیں گزارتا اور مزدلفہ میں کیوں گزارتا ہے ؟ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ سنت رسولﷺ یہی ہے کہ عرفات کے سنگریزوں کو غروب آفتاب کے بعد الوداع کہا جائے اور مزدلفہ کے سنگریزوں پر آ کر رات بسر کی جائے۔

عرفات سے حاجی غروب آفتاب کے بعد روانہ ہوتا ہے لیکن مغرب کی نماز وقت پر ادا نہیں کرتا بلکہ مزدلفہ آ کر عشاء کی نماز کے ساتھ ادا کرتا ہے حالانکہ اول وقت میں نماز ادا کرنا افضل ترین عمل ہے (ترمذی)اور نماز تاخیر سے ادا کرنا نفاق کی علامت ہے پھر اس موقع پر حاجی عمداً مغرب کی نماز موخر کیوں کرتا ہے ؟ اس لئے کہ اس موقع پر نماز مغرب وقت پر ادا کرنے میں سنت رسولﷺ کی خلاف ورزی ہے اور موخر کرنے میں اطاعت رسولﷺ ہے۔

مزدلفہ میں حاجی ساری رات سو کر گزارتا ہے اور عمداً نماز تہجد ترک کرتا ہے حالانکہ رسول اکرمﷺ نے تمام نفل نمازوں میں سے تہجد کو افضل ترین نماز قرار دیا ہے۔ (مسند احمد)حاجی اس رات نماز تہجد کیوں ترک کرتا ہے ؟ صرف اس لیے کہ خود رسول اکرمﷺ نے اس رات نماز تہجد ادا نہیں فرمائی۔

مزدلفہ سے حاجی پھر پلٹ کر اسی جگہ۔۔۔۔منیٰ۔۔۔۔میں آ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا اس لئے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے۔

10ذی الحجہ کو منیٰ پہنچ کر حاجی صرف جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتا ہے حالانکہ باقی دو یا تین دنوں میں جمرہ عقبہ کے ساتھ جمرہ وسطیٰ اور جمرہ اولیٰ کو بھی کنکریاں مارتا ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ 10 ذی الحجہ کو چونکہ رسولﷺ نے صرف جمرہ عقبہ کو ہی کنکریاں ماریں جمرہ وسطیٰ اور جمرہ اولیٰ کو نہیں ماریں لہٰذا اطاعت رسولﷺ اور اتباع سنت یہی ہے کہ اس روز صرف جمرہ عقبہ کو ہی کنکریاں ماری جائیں۔

اسی روز حاجی قربانی کر کے بال کٹواتا ہے اور نہا دھو کر مکہ مکرمہ طواف زیارت کے لئے جاتا ہے تھکا ماندہ سستانے کا خواہشمند حاجی طواف زیارت کے بعد پھر انہی قدموں پر واپس منیٰ پلٹ جاتا ہے۔ صرف اس لئے کہ رسول اکرمﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔ ایام تشریق میں حاجی زوال کے بعد جمرہ وسطیٰ اور جمرہ عقبہ کو بالترتیب کنکریاں مارتا ہے لیکن اگر وہ پہلے جمرہ عقبہ پھر جمرہ وسطیٰ اور پھر جمرہ اولیٰ کو کنکریاں مارے تو اس کا یہ عمل باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ اس سے پیغمبر خداﷺ کی سنت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس کی رمی صرف اس وقت ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول اور باعث اجرو ثواب ہو گی جب وہ رسول اکرمﷺ کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق ہو گی۔

ایام تشریق منیٰ میں گزارنے کے بعد حاجی پھر مکہ مکرمہ آتا ہے اور اپنے وطن روانہ ہونے سے پہلے ایک مرتبہ پھر بیت اللہ شریف کا طواف کرتا ہے حالانکہ اس گھر کے کتنے ہی طواف وہ پہلے کر چکا ہے لیکن جب تک حاجی یہ آخری طواف۔طواف وداع۔ نہیں کرتا وہ مکہ مکرمہ سے رخصت نہیں ہو سکتا کیونکہ سنت رسولﷺ یہی ہے۔

مناسک حج شروع سے لے کر آخر تک دیکھئے اور غور کیجئے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حاجی نہ تو زمان و مکان کا بندہ ہے نہ عقل و خرد کا غلام،  بلکہ وہ بندہ اور غلام ہے صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کا جس سے مطلوب ہے غیر مشروط اطاعت رسولؐ۔ بلا چون و چرا پیروی رسولﷺ اور بلا حیل و حجت اتباع رسولﷺ ہے !

امیرالمومنین سیدنا حضرت عمرؓ نے دوران طواف حجر اسود کو مخاطب کر کے فرمایا "اللہ کی قسم! میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع دے سکتا ہے اگر میں نے رسول اللہؐ کو چومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی نہ چومتا” یہ کہہ کہ حجراسود کا استلام کیا۔ پھر فرمانے لگے "اب ہمیں طواف (عمرہ) کے پہلے تین چکروں میں رمل کرنے کی کیا ضرورت ہے رمل تو مشرکوں کو دکھانے کے لئے تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ کر دیا ہے۔” پھر خود ہی فرمایا "رمل وہ چیز ہے جسے نبی اکرمﷺ نے کیا اور نبی اکرمﷺ کی سنت چھوڑنا ہمیں پسند نہیں۔”(صحیح بخاری)

یہ ہے اتباع سنت کی وہ انقلابی فکر جو مناسک حج ایک با شعور حاجی کے اندر پیدا کر دیتے ہیں جس کا اظہار سیدنا حضرت عمرؓ نے دوران طواف کیا پس عبادت حج کا اصل مقصد یہ ٹھہرا کہ مسلمان اپنی ساری زندگی اتباع سنت پر استوار کرے اطاعت رسول اللہﷺ کو حرز جان بنا کے رکھے۔ اس کے فکرو عمل کا تمام تر دارومدار پیروی رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ہو۔

بہ مصطفی برساں خویش کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ اونہ رسیدی تمام بولہبی اوست

 

قربانی کی شرعی حیثیت

 

علم دین سے ناواقفیت،  مادہ پرستانہ ماحول اور ترقی پسندانہ افکار کی یلغار نے مل جل کر مسلمانوں کا ایمان اس قدر کمزور بنا دیا ہے کہ اسلام کی خاطر جذبہ ایثار آہستہ آہستہ مفقود ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انہی عوامل کے باعث آج ہمارے معاشرہ میں قربانی کی اہمیت کو ختم کرنے یا کم کرنے کی سوچ بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کروڑوں روپے کا سرمایہ محض قربانی پر ضائع کرنے کی بجائے اگر یہی سرمایہ قومی ترقی اور رفاہ عامہ کے کاموں پر صرف کیا جائے تو نہ صرف ملکی ترقی کے لئے سودمند ہو گا بلکہ اجر و ثواب کا باعث بھی ہو گا۔

اولاً جیسا کہ انہی صفحات میں بتایا گیا ہے کہ قربانی در اصل یادگار ہے اس عظیم الشان تاریخی واقعہ کی جس میں ابوالانبیاء سیدنا حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے نوجوان بیٹے کے گلے پر چھری چلا دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جذبہ فدا کاری کو یوں شرف قبولیت بخشا کہ بیٹے کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھجوا کر حضرت اسماعیلؑ کی جان بچا لی۔ اسی لئے رسول اللہﷺ نے عید الاضحی کی قربانی کو سنت ابراہیمی قرار دیا ہے۔ (احمد، ابن ماجہ)

غور فرمائیے ! اگر اللہ تعالیٰ حضرت اسماعیلؑ  کی قربانی قبول فرما لیتا اور اس کے بعد امت کو یہ حکم دیا جاتا کہ ہر مسلمان سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اپنے پہلے بیٹے کو اللہ کی راہ میں ذبح کرے ،  تو کتنا بڑا امتحان ہوتا اور ہم میں سے کتنے مسلمان ایسے ہوتے جو اس امتحان میں پورے اترتے ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمزور اور عاجز بندوں پر فضل و کرم فرمایا اور اولاد کی جگہ جانوروں کی قربانی قبول فرما لی۔ اس کے باوجود جو لوگ اس قربانی سے بھی راہ فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اپنے دین اور ایمان کا خود جائزہ لینا چاہئے کہ وہ ایمان کے کس درجے پر فائز ہیں ؟

ثانیاً یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ قربانی ایک عبادت ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ  کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کی جانے والی رقم کو نہ تو ضیاع قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی عبادت کی اس معینہ شکل کو از خود کسی دوسری من پسند شکل میں بدلا جا سکتا ہے۔ غور فرمائیے ! کیا ہزاروں یتیم بچوں کی کفالت پر خرچ کی گئی رقم ایک فرض نماز ترک کرنے کا کفارہ بن سکتی ہے ؟ کیا ہزاروں بیواؤں کی کفالت پر خرچ کی گئی رقم ایک فرض روزہ ترک کرنے کا کفارہ بن سکتی ہے ؟ کیا ہزاروں مریضوں کی صحت کے لئے خرچ کی گئی رقم ترک حج کا کفارہ بن سکتی ہے ؟ ہر گز نہیں ! اسی طرح قومی ترقی اور رفاہ عامہ پر خرچ کی گئی لاکھوں روپے کی رقم اللہ کی راہ میں جانوروں کا خون بہانے کا کفارہ کبھی نہیں بن سکتی۔

ثالثاً قربانی کے معاملے میں رسول اکرمﷺ کا اسوہ حسنہ بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ رسول اکرمؐ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا۔ اس سارے عرصہ میں آپؐ نے ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں فرمائی۔ حتی کہ دوران سفر بھی آپﷺ نے قربانی کا اہتمام فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  فرماتے ہیں "ہم ایک سفر میں نبی اکرمﷺ  کے ساتھ تھے ،  عید الاضحی آ گئی اور ہم لوگ ایک گائے میں سات اور ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے۔” (ترمذی) حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہؐ نے سو اونٹ قربان فرمائے۔ اونٹ خریدنے کے لئے آپﷺ نے حضرت علیؓ کو خصوصاً یمن بھیجا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اونٹوں کی اتنی بڑی تعداد نہ مکہ میں دستیاب تھی نہ مدینہ میں اور پھر یوم النحر جیسے مصروف ترین دن میں تریسٹھ اونٹ رسول اکرمﷺ  نے اپنے دست مبارک سے ذبح فرمائے۔ اونٹ ذبح کرنے میں یقیناً صحابہ کرامؓ  نے آپﷺ کی معاونت فرمائی ہو گی۔ اس کے باوجود اونٹ کو قربانی کی جگہ لانا، اسے باندھنا، اسے ذبح کرنا اور پھر اسے گرانا اس سارے عمل پر استعمال کیا گیا وقت اگر کم سے کم پانچ منٹ فی اونٹ شمار کیا جائے تب بھی آپﷺ  نے اس کام پر پانچ گھنٹے پندرہ منٹ صرف فرمائے۔

غور فرمائیے ! وہ ذات جو زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر ہر وقت امت کو دینی مسائل اور احکام سکھانے میں مصروف رہتی ہو، اس کا ایسے موقع پر جبکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار (یا چالیس ہزار) صحابہ کرامؓ  کا مجمع اردگرد موجود تھا۔ جسے آپﷺ خود فرما رہے تھے خُذُوْاعَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ یعنی "مجھ سے حج کے طریقے سیکھو۔ ” آپﷺ کا قربانی کے لیے اتنا طویل وقت نکالنا اور اتنی مشقت اٹھانا یقیناً ایک غیر معمولی فعل تھا۔ اس واقعہ کا اگر حیات طیبہ کے معاشی پہلو سے جائزہ لیا جائے تو قربانی کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

مدنی زندگی میں ایک طرف تو بیک وقت 9 گھروں کے اخراجات کا بار گراں آپﷺ کے کندھوں پر تھا۔ دوسری طرف کوئی مستقل ذریعہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے آپﷺ کی معاشی حالت ایسی تھی کہ بسا اوقات فاقہ کشی تک نوبت پہنچ جاتی۔ حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں "رسول اکرمﷺ جب سے مدینہ تشریف لائے، آل محمدﷺ  نے متواتر تین دن رات کبھی سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھائی، حتی کہ آپﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ "(بخاری) نیز فرماتی ہیں "ہم پر ایسے مہینے بھی گزرے ہیں جن میں ہم نے گھر میں آگ تک نہیں جلائی ہمارا گزارا صرف پانی اور کھجوروں پر ہوتا سوائے اس کے کہ کہیں سے گوشت (کا ہدیہ) آ جاتا۔ ” (بخاری)ایسے معاشی حالات میں رسول اکرمﷺ  کا سو اونٹ ذبح کرنے کے لئے وسائل مہیا کرنا، قربانی کی اہمیت کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رسول اللہؐ نے سو اونٹ ذبح فرمائے تو سارے گوشت کو تقسیم کرنے کا اہتمام نہیں فرمایا، بلکہ ہر اونٹ سے ایک ایک ٹکڑا حاصل کر کے اسے پکوایا اور کھایا جس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کا تقسیم نہ ہو سکنا قربانی نہ کرنے کا جواز نہیں بن سکتا۔ قربانی کا گوشت تقسیم ہو یا نہ ہو استعمال میں آئے یا نہ آئے اس سے قربانی کی اہمیت کسی صورت بھی کم نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد مبارک کا۔

﴿ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَ لاَ دِمَاؤُہَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْویٰ مِنْکُمْ ﴾ (37:22)

"اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے ،  بلکہ تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔”(سورۃ الحج،  آیت نمبر 37)

یعنی اللہ تعالیٰ کو گوشت تقسیم ہونے یا نہ ہونے سے غرض نہیں بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ کس نے کس نیت اور ارادے سے قربانی کی ہے۔

آخر میں قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے بارے میں رسول اکرمﷺ کا ایک ارشاد مبارک بھی پڑھ لیجئے۔ ارشاد نبویﷺ ہے :

"جو شخص قربانی کی استطاعت رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے وہ (نماز عید کے لئے ) ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔”(مسند احمد)

پس اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والوں کے لئے رسول اکرمﷺ کی ذات مبارک میں بہترین نمونہ ہے کہ وہ دل و جان سے ان کی پیروی اور اتباع کریں۔

 

بعض غلط العام اصطلاحات

 

(الف) حج اکبر

 

اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس سال یوم عرفہ،  جمعہ کے روز آئے وہ حج "حج اکبر” کہلاتا ہے اور اس کا ثواب عام حج کی نسبت ستر گناہ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے۔ 9 ہجری میں رسول اکرمؐ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ بعد میں سورہ توبہ کی شروع کی آیات نازل ہوئیں جن میں یہ بات بھی ارشاد فرمائی گئی:

﴿ وَ آذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَ رَسُوْلُہٗ  ﴾ (3:9)

"اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لئے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الذمہ ہیں۔” (سورۃ التوبہ، آیت نمبر3)

نزول آیات کے بعد آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بھیجا کہ آپ جا کر حج کے موقع پر لوگوں کو یہ اعلان سنادیں۔ یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ 9 ہجری میں یوم عرفہ، جمعہ کے روز نہیں تھا، لیکن قرآن مجید نے اس کے لئے "حج اکبر” کا لفظ استعمال کیا ہے۔ 10 ہجری میں جب رسول اکرمؐ نے حجۃ الوداع ادا فرمایا۔ اس سال یوم عرفہ جمعہ کے روز تھا۔ 10 ذی الحجہ کو آپﷺ نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے لوگوں سے پوچھا "یہ کون سا دن ہے ؟” لوگوں نے عرض کیا "یہ یوم النحر ہے ” آپﷺ نے ارشاد فرمایا ((ھٰذَا یَوْمُ الْحَجّ الْاَکْبَر)) یعنی "یہ حج اکبر کا دن ہے۔ "(ابو داؤد)

اس کا مطلب یہ ہے کہ یوم عرفہ، جمعہ کے روز آئے یا کسی دوسرے دن۔ ذی الحجہ میں ادا کیا گیا ہر حج،  حج اکبر ہی کہلائے گا۔ یاد رہے کہ نبی اکرمﷺ نے قربانی کے دن خطبہ دیتے ہوئے یہ بات ارشاد فرمائی کہ آج یوم نحر ہے اور یہ یوم "حج اکبر” ہے۔ گویا ہر حج میں قربانی کا دن حج اکبر کا دن ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی مسند میں ایک باب کا نام ہی یہ رکھا گیا ہے "یوم حج اکبر سے مراد یوم نحر ہے ” اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر سال یوم نحر یوم حج اکبر ہے اور ہر سال کا حج،  حج اکبر کہلاتا ہے۔

حج کو” حج اکبر” کہنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ عمرہ میں چونکہ حج کے کچھ ارکان شامل ہیں اس لئے اہل عرب عمرہ کو "حج اصغر” کہتے تھے، لہٰذا ذو الحجہ میں ادا کئے گئے حج کو "حج اصغر” سے ممیز کرنے کے لئے "حج اکبر” کی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور اب بھی اہل علم اسی مفہوم کے ساتھ یہ دونوں اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔

 

(ب)بڑا عمرہ اور چھوٹا عمرہ

 

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو عمرہ میقات سے احرام باندھ کر کیا جاتا ہے وہ بڑا عمرہ ہوتا ہے اور جو عمرہ تنعیم یا جعرانہ سے احرام باندھ کر کیا جائے وہ چھوٹا عمرہ ہوتا ہے۔ احادیث سے نہ تو چھوٹے بڑے عمرہ کے الفاظ ثابت ہیں نہ ہی مذکورہ فرق احادیث سے ثابت ہے۔ رسول اکرمﷺ  نے عمر بھر میں چار عمرے ادا فرمائے تین مدینہ منورہ سے آ کر یعنی ذوالحلیفہ سے احرام باندھ کر اور ایک غزوہ حنین سے واپسی پر جعرانہ سے احرام باندھ کر، لیکن قیام مکہ کے دوران تنعیم یا جعرانہ جا کر احرام باندھنا نہ تو رسول اکرمﷺ  سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرامؓ اور ائمہ عظام رحمہ اللہ سے، بلکہ اہل علم نے ہمیشہ ہی اس کے ناپسندیدہ ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ تنعیم یا جعرانہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ  جب نبی اکرمﷺ  کے ساتھ حجۃ الوداع کے لئے تشریف لائیں تو راستے میں انہیں حیض کی شکایت ہو گئی جس وجہ سے وہ حج سے قبل عمرہ ادا نہ کر سکیں۔ حج کے بعد نبی اکرمؐ نے ان کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکرؓ سے کہا کہ انہیں (حضرت عائشہؓ کو) تنعیم لے جاؤ تا کہ وہاں سے احرام باندھ کر یہ عمرہ کر سکیں۔ اگر ایسی ہی کوئی مجبوری یا عذر کسی کو درپیش ہو تو پھر تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کرنا درست ہے اور وہ عمرہ ویسا ہی ہو گا جیسا میقات سے احرام باندھ کر کیا گیا عمرہ۔ اسے چھوٹا عمرہ کہنا درست نہیں ہو گا۔

 

(ج)روضہ شریفہ

 

بیشتر لوگ رسول اکرمﷺ کی قبر مبارک کو روضہ شریفہ کہہ کر پکارتے ہیں حالانکہ وہ در اصل حجرہ شریفہ ہے جو ام المومنین حضرت سیدہ عائشہؓ  کا گھر ہوا کرتا تھا اور اب اسی جگہ پر آپﷺ کی قبر مبارک ہے۔

نبی اکرمؐ نے جس مقام کو "روضہ” کا نام دیا ہے وہ آپﷺ کے گھر اور آپﷺ  کے منبر کے درمیان والی جگہ ہے جسے اب سفید سنگ مر مر کے ستونوں سے ممیز کیا گیا ہے اور جہاں ہمیشہ سفید رنگ کے قالین بچھے رہتے ہیں جس کے بارے میں آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے :

(( مَا بَیْنَ بَیْتِیْ وَمِنْبَرِیْ رَوْضَۃ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃ ))

"یعنی میرے گھر اور میرے منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔” (بخاری و مسلم)

یہاں بیٹھ کر نماز پڑھنا، تلاوت کرنا اور ادعیہ اذکار اور توبہ استغفار کرنا بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔

 

(د)جمرات اور شیطان

 

جمرات یا جمار جمرہ کی جمع ہے۔ جمرہ کا مطلب ہے کنکری۔ منیٰ میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر تین ستون تعمیر کئے گئے ہیں جنہیں حاجی دوران حج باری باری سات سات کنکریاں مارتے ہیں اسی نسبت سے ان ستونوں کو جمرات کہا گیا ہے۔ رمی جمار کے بارے میں سب سے زیادہ مشہور بات یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ حضرت اسماعیلؑ  کو ذبح کرنے کے لئے جا رہے تھے تو راستے میں ان تین مقامات پر شیطان نمودار ہوا حضرت ابراہیمؑ  کو بیٹے کی قربانی دینے سے روکنے اور بہکانے کی کوشش کی حضرت ابراہیمؑ نے اسے ہر مقام پر سات سات کنکریاں ماریں اور شیطان ملعون دفعہ ہو گیا لہٰذا اس واقعہ کی یادگار کے طور پر ان مقامات پر کنکریاں پھینکی جاتی ہیں اس واقعہ کے حوالہ سے بیشتر لوگ جمرات کو شیطان کہتے ہیں جمرہ عقبہ کو بڑا شیطان جمرہ وسطیٰ کو درمیانہ شیطان اور جمرہ اولیٰ کو چھوٹا شیطان کہا جاتا ہے اور ان جمرات کو کنکریاں مارتے ہوئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کنکریاں شیطان کو ماری جا رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس مقام پر لوگوں میں ایک ناقابل بیان جنونی کیفیت سی پیدا ہو جاتی ہے۔ لوگ ہلڑ بازی،  شور و غل اور ہنگامہ کرتے ہوئے اور شیطان کو لعن طعن اور گالی گلوچ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور جمرات پر چھوٹے بڑے پتھروں کے علاوہ جوتے تک پھینکتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سامنے ستون کی شکل میں شیطان کھڑا ہے جس کی تذلیل اور رسوائی ہو رہی ہے۔

اولاً : حضرت ابراہیم سے منسوب مذکورہ واقعہ مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  کے قول کی حیثیت سے دیا گیا ہے۔ کوشش کے باوجود ہمیں اس موقف کے حق میں کوئی مرفوع حدیث نہیں مل سکی، لہٰذا محض حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  کے اس قول کی بنیاد پر رمی جمار کو مذکورہ واقعہ سے منسوب کرنا مشکل ہے۔ ممکن ہے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے یہ بات حضرت کعب بن احبار سے سنی ہو جو کہ ایک یہودی عالم تھے اور مسلمان ہو گئے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب!

ثانیاً : اگر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  کی اس روایت کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ اس سے جو بات اخذ کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ رمی جمار حضرت ابراہیمؑ کے مذکورہ واقعہ کی یادگار ہے لیکن اس سے جمرات کو شیطان قرار دینے اور جمرات پر رمی کو شیطان پر رمی قرار دینے کا جواز تو پھر بھی ثابت نہیں ہوتا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ جمرات کو شیطان کہنا اور جمرات پر رمی کو شیطان پر رمی تصور کرنا بالکل غلط اور بے بنیاد ہے صحابہ کرامؓ  تابعین اور تبع تابعین ائمہ عظام a میں سے کسی سے بھی جمرات کے بارے میں ایسا سمجھنا ثابت نہیں۔

رمی جمار کے بارے جو بات صحیح حدیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح طواف سعی،  قربانی،  وقوف عرفات اور وقوف مزدلفہ عبادات ہیں، اسی طرح رمی جمار بھی ایک عبادت ہے جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کا ذکر،  عظمت اور کبریائی بیان کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر کنکری پھینکتے وقت "اللہ اکبر” کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

جمرہ وسطیٰ اور جمرہ اولیٰ کو کنکریاں مارنے کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنے کا حکم بھی ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے 10 ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی کو منیٰ کا تحیہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک دوران حج "یوم نحر” کو نماز عید نہ پڑھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ جس طرح مسجد الحرام میں طواف تحیہ ادا کرنے کے بعد دو رکعت نماز تحیۃ المسجد ادا کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی اسی طرح رمی جمرہ عقبہ کے بعد نماز عید کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ) لہٰذا ہر حاجی پر لازم ہے کہ وہ رمی جمار کے وقت اسی متانت،  وقار اور نظم و ضبط کو برقرار رکھے ،  جو متانت وقار اور نظم و ضبط،  طواف،  سعی،  وقوف عرفات اور وقوف مزدلفہ کو عبادت سمجھتے ہوئے ملحوظ رکھا جاتا ہے۔

 

مدینہ منورہ کا سفر

 

مدینہ منورہ کا سفر کرتے ہوئے حاجی کو درج ذیل امور پیش نظر رکھنے چاہئیں۔

مدینہ منورہ کا سفر صرف مسجد نبویؐ کی زیارت کی نیت سے کرنا چاہئے۔ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے "میری اس مسجد میں ادا کی گئی نماز دوسری مساجد کے مقابلہ میں ہزار درجہ افضل ہے، سوائے مسجد حرام کے۔” (صحیح مسلم) لہٰذا مسجد نبویﷺ میں نماز پڑھ کر زیادہ اجر و ثواب حاصل کرنے کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا مسنون ہے۔

مسجد نبوی کی زیارت مناسک حج کا حصہ نہیں اگر کوئی شخص حج ادا کرنے سے پہلے یا بعد مسجد نبوی کی زیارت نہیں کرتا تو محض اس وجہ سے اس کے حج میں کوئی نقصان واقع نہیں ہو گا۔

قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا جائز نہیں۔ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے "تین مساجد کے علاوہ (حصول ثواب کی خاطر) کسی دوسری جگہ کا سفر کرنا جائز نہیں مسجد نبوی،  مسجد حرام اور مسجد اقصی۔”(صحیح مسلم) لہٰذا جائز امر یہ ہے کہ آدمی مسجد نبوی کی زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرے اور مسجد نبوی کی زیارت کے بعد قبر مبارک پر درود و سلام عرض کرے جو کہ مستحب ہے۔

مسجد نبوی میں چالیس نمازیں با جماعت ادا کر کے نفاق اور آگ سے برأت حاصل کرنے والی تمام احادیث ضعیف یا موضوع (من گھڑت) ہیں لہٰذا ایسا عقیدہ رکھنا درست نہیں۔

مسجد نبوی کی زیارت کے آداب میں سے یہ ہے کہ مسجد نبوی میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کئے جائیں اور اس کے بعد قبر مبارک پر درود و سلام عرض کیا جائے۔

قبر مبارک کی زیارت کے موقع پر درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔

آپﷺ کی قبر مبارک پر انتہائی ادب و احترام کے ساتھ آہستہ آواز سے مسنون درود و سلام عرض کیا جائے۔

درود و سلام عرض کرنے کے لئے قبر مبارک پر بار بار حاضر ہو کر ہجوم نہ کیا جائے۔

کتاب و سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ آپﷺ پر موت اسی طرح واقع ہو چکی جس طرح دوسرے انسانوں پر واقع ہوتی ہے لہٰذا اب آپؐ دنیاوی زندگی کے اعتبار سے حالت موت میں ہیں اس لئے درود و سلام پیش کرنے کے بعد قبر مبارک پر کوئی ایسی بات یا ایسی حرکت سر زد نہیں ہونی چاہئے جو اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی اور شرک کا باعث بنے۔ قبر مبارک پر حاضری کے وقت قبر شریف پر لکھی ہوئی یہ آیت اور اس کا مفہوم ہر لحظہ پیش نظر رہنا چاہئے۔

﴿فَاعْلَمْ اَنَّہٗ  لاَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ﴾(19:47)

” پس اے نبی! خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اللہ سے معافی مانگو اپنے قصور کے لئے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے لئے بھی۔ (سورۃ محمد، آیت نمبر 19)

٭٭٭

 

کتاب الحج و العمرہ کی نظر ثانی کرنے والے واجب الاحترام علماء کے لئے تہہ دل سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس علمی تعاون کو عامۃ الناس کے لئے باعث خیر و برکت بنائے اور انہیں دنیا و آخرت میں عزت و سرخروئی عطا فرمائے۔آمین!

صحت احادیث کے معاملے میں فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی حفظہ اللہ کی تحقیق سے استفادہ کیا گیا ہے۔

آخر میں حدیث پبلی کیشنز کے ان تمام معاونین کے حق میں بھی دعا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو کسی نہ کسی طرح کتب حدیث کی تیاری اور اشاعت میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کی محنت قبول فرمائے انہیں اپنے فضل و کرم سے نوازے اور دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے نوازے۔آمین۔

﴿ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمِ ﴾

” اے ہمارے پروردگار! ہماری اس محنت کو قبول فرما۔ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے اور ہم پر نظر کرم فرما،  بے شک تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم فرمانے والا ہے۔”

محمد اقبال کیلانی عفی اللہ عنہ

جامعۃ ملک سعود،  الریاض

المکۃ العربیۃ السعودیۃ

22۔ ذی الحجۃ 1313ھ

 

 

 

 

فَرْضِیَّۃ الْحَجِّ

 

حج کی فرضیت

 

مسئلہ 1:حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((بُنِیَ الْاِسْلاَمُ عَلیٰ خَمْسٍ شَہَادَۃ اَنْ لآَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلاَۃ وَ اِیْتَاءِ الزَّکَاۃ وَ الْحَجِّ وَ صَوْمِ رَمَضَانَ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے کلمہ شہادت اَشْہَدُ اَنْ لآَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ  وَرَسُوْلُہٗ  نماز قائم کرنا زکاۃ ادا کرنا حج اور رمضان کے روزے رکھنا۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 2:  ساری زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ فَقَالَ (( اَیُّہَا النَّاسُ! قَدْ فُرِضَ عَلَیْکُمُ الْحَجُّ فَحُجُّوْا )) فَقَالَ رَجُلٌ : أَکُلَّ عَامٍ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ فَسَکَتَ، حَتّیٰ قَالَہَا ثَلاَ ثًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَ لَمَا اسْتَطَعْتُمْ )) ثُمَّ قَالَ ((ذَرُوْنِیْ مَا تَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃ سُؤَالِہِمْ وَاخْتِلاَفِہِمْ عَلیٰ اَنْبِیَائِہِمْ فَإِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیْءٍ فَاْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اِذَا نَہَیْتُکُمْ عَنْ شَیْءٍ فَدَعُوْہُ)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہؐ نے ہم کو خطبہ دیا اور فرمایا "لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، لہٰذا حج کرو۔ ” ایک آدمی نے پوچھا "یا رسول اللہﷺ ! کیا ہر سال حج کریں ؟” رسول اللہﷺ  خاموش رہے، حتّیٰ کہ صحابی نے تین مرتبہ یہی سوال کیا۔ تب آپﷺ نے فرمایا "اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا اور تم یہ نہ کر سکتے۔ "پھر فرمایا "جو چیز میں تم کو بتانا چھوڑ دوں اس بارے میں تم بھی مجھ سے سوال نہ کیا کرو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء سے زیادہ سوال کرنے اور ان سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے، لہٰذا جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل کرو اور جب کسی چیز سے منع کروں تو رک جاؤ (سوال جواب مت دیا کرو)۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

فَضْلُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃ

 

حج اور عمرہ کی فضیلت

 

 

مسئلہ3: حج مبرور ادا کرنے والا جنتی ہے

 

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((اَلْعُمْرَۃ اِلَی الْعُمْرَۃ کَفَّارَۃ لِمَا بَیْنَہُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہٗ  جَزَاءٌ اِلآَ الْجَنَّۃ )) مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا "عمرہ ان تمام گناہوں کا کفارہ ہے جو موجودہ اور گزشتہ عمرہ کے درمیان سرزد ہوئے ہوں اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے ” اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے

عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِؓ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّا فَقُلْتُ : اُبْسُطْ یَمِیْنَکَ فَلِاُباَیِعْکَ فَبَسَطَ یَمِیْنَہٗ  قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِیْ قَالَ (( مَالَکَ یَا عَمْرُو؟ )) قَالَ : قُلْتُ أَرَدْتُ اَنْ أَشْتَرِطَ، قَالَ (( تَشْتَرِطُ بِمَاذَا ؟)) قُلْتُ : اَنْ یُغْفِرَلِیْ، قَالَ (( أَمَا عَلِمْتَ یَا عَمْرُوأَنَّ الْإِسْلاَمَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ  وَ اَنَّ الْہِجْرَۃ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا وَ اَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں میں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا "اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تا کہ میں آپﷺ سے بیعت کروں ” نبی اکرمؐ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا، تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا نبی اکرمﷺ نے دریافت کیا "عمرو! کیا ہوا؟” میں نے عرض کیا "(یا رسول اللہؐ ) شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ ” آپﷺ نے ارشاد فرمایا "تم کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟” میں نے عرض کیا "(گزشتہ) گناہوں کی مغفرت کی۔ ” تب آپﷺ نے ارشاد فرمایا "کیا تجھے معلوم نہیں کہ اسلام (میں داخل ہونا) گزشتہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے، ہجرت گزشتہ تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور حج گزشتہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے

 

مسئلہ 4: سنت کے مطابق حج ادا کرنے سے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں

 

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّا یَقُوْلُ ((مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَ لَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ اُمُّہٗ  )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں میں نے نبی اکرمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ” جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہ کیا وہ حج کر کے اس دن کی طرح (گناہوں سے پاک) لوٹے گا جس طرح اس کی ماں نے اسے (گناہوں سے پاک) جنا تھا "اسے بخاری نے روایت کیا ہے ۔

 

مسئلہ 5: پے درپے حج اور عمرہ محتاجی اور فقر دور کرتے ہیں

 

عَنْ عُمَرَؓ عَنِ النَّبِیِّا قَالَ (( تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃ فَإِنَّ الْمُتَابَعَۃ بَیْنَہُمَا تَنْفِی الْفَقْرَ وَ الذُّنُوْبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ  (صحیح)

حضرت عمرؓ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا "پے در پے حج اور عمرہ کرو بے شک یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے ” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 6: ایمان باللہ اور جہاد کے بعد سب سے افضل عمل حج ہے

 

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ سُئِلَ النَّبِیُّا اَیُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ (( اِیْمَانٌ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہ )) قِیْلَ ثُمَّ مَا ذَا؟ قَالَ ((أَلْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ)) قِیْلَ : ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ (( حَجٌّ مَبْرُوْرٌ)) مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے سوال کیا گیا "کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟” آپﷺ نے فرمایا "اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا” کہا گیا "اس کے بعد؟” آپؐ نے فرمایا "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا” کہا گیا "اس کے بعد؟” آپؐ نے فرمایا "حج مقبول” اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے ۔

 

مسئلہ 7: خواتین،  بوڑھے اور کمزور لوگوں کو حج کا ثواب جہاد کے برابر ملتا ہے

 

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَجُلاً جَاءَ اِلَی النَّبِیِّا فَقَالَ اِنِّیْ جَبَانٌ وَ اِنِّیْ ضَعِیْفٌ فَقَالَ ((ہَلُمَّ اِلیٰ جِہَادٍ لاَ شَوْکَۃ فِیْہِ الْحَجُّ)) رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ

حضرت حسن بن علیؓ  کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور کہا ” میں کمزور دل اور ضعیف آدمی ہوں ” آپﷺ نے فرمایا ” ایسا جہاد کر جس میں تکلیف نہیں ہے یعنی حج” اسے طبرانی نے روایت کیا ہے

عَنْ عَائِشَۃ اُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّہَا قَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ نَرَی الْجِہَادَ أَفْضَلُ الْعَمَلِ أَ فَلاَ نُجَاہِدُ ؟ قَالَ ((لاَ لٰکُنَّ أَفْضَلُ الْجِہَادِ حَجٌّ مَبْرُوْرٌ)) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

ام المومنین حضرت عائشہؓ  سے روایت ہے ،  میں نے عرض کیا "یا رسول اللہﷺ ! ہمیں معلوم ہے کہ جہاد سب سے زیادہ افضل عمل ہے، کیا ہم جہاد نہ کریں ؟” آپﷺ  نے ارشاد فرمایا "نہیں (عورتوں کے لئے ) عمدہ ترین جہاد،  حج مبرور ہے۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے ۔

 

مسئلہ8: حج اور عمرہ ادا کرنے والوں کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّا قَالَ (( أَلْغَازِیْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللّٰہِ دَعَاہُمْ فَأَجَابُوْہُ وَ سَأَلُوْہُ فَأَعْطَاہُمْ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ  (حسن)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا "غازی فی سبیل اللہ،  حاجی اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا اور انہوں نے حکم کی تعمیل کی پھر انہوں نے اللہ سے مانگا اور اللہ نے ان کو عطا فرمایا” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے

 

مسئلہ 9: رمضان میں عمرہ ادا کرنے کا ثواب حج کے برابر ہے۔

 

عَنْ اُمِّ مَعْقِلٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : لَمَّا حَجَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ حَجَّۃ الْوَدَاعِ وَ کَانَ لَنَا جَمَلٌ فَجَعَلَہٗ  أَبُوْ مَعْقِلٍؓ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ أَصَابَنَا مَرَضٌ وَ ہَلَکَ أَبُوْ مَعْقِلٍؓ وَخَرَجَ النَّبِیُّا فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ حَجِّہٖ جِئْتُہٗ  فَقَالَ ((یَا اُمَّ مَعْقِلٍ ! مَا مَنَعَکِ اَنْ تَخْرُجِیْ مَعَنَا؟)) قَالَتْ : لَقَدْ تَہَیَّأْنَا فَہَلَکَ اَبُوْ مَعْقِلٍؓ وَ کَانَ لَنَا جَمَلٌ ہُوَ الَّذِیْ نَحُجُّ عَلَیْہِ فَأَوْصیٰ بِہٖ اَبُوْ مَعْقِلٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ ((فَہَلآَ خَرَجْتِ عَلَیْہِ فَإِنَّ الْحَجَّ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَأَمَّا إِذْ فَاتَتْکِ ہٰذِہِ الْحَجَّۃ مَعَنَا فَاعْتَمِرِیْ فِیْ رَمَضَانَ فَإِنَّہَا کَحَجَّۃ )) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗ دَ  (صحیح)

حضرت ام معقلؓ  کہتی ہیں کہ جب رسول اللہؐ نے حج کیا تو ہمارے پاس ایک اونٹ تھا جسے ابو معقلؓ نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا (اسی دوران) ہمیں بیماری نے آ لیا اور ابو معقلؓ فوت ہو گئے اور رسول اکرمﷺ حج کے لئے روانہ ہو گئے جب آپﷺ حج سے فارغ ہوئے (اور واپس مدینہ تشریف لائے ) تو میں حاضر خدمت ہوئی۔ آپﷺ نے فرمایا "اے ام معقل! تو ہمارے ساتھ حج پر کیوں نہیں گئی؟” ام معقلؓ نے عرض کیا ” ہم نے تیاری کی تھی لیکن ابو معقل فوت ہو گئے اور ہمارے پاس ایک ہی اونٹ تھا جس پر ہم حج کیا کرتے تھی جسے ابو معقلؓ نے اللہ کی راہ میں دینے کی وصیت کر دی تھی” آپؐ نے فرمایا "تو اس پر کیوں نہ نکل پڑی حج بھی تو فی سبیل اللہ میں داخل ہے خیر ہمارے ساتھ تو تیرا حج نہ ہو سکا اب رمضان میں عمرہ کر لینا کیونکہ رمضان میں عمرہ (کا ثواب) حج کے برابر ہے ” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 10: رمضان میں عمرہ ادا کرنے کا ثواب رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : أَرَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَلْحَجَّ فَقَالَتِ امْرَأَۃ لِزَوْجِہَا أَحِجَّنِیْ مَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلیٰ جَمَلِکَ فَقَالَ : مَا عِنْدِیْ مَا أُحِجُّکِ عَلَیْہِ قَالَتْ : أَحْجِجْنِیْ عَلیٰ جَمَلِکَ فُلاَنٍ ! قَالَ : ذَاکَ حَبِیْسٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَأَتیٰ رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ : اِنَّ امْرَأَتِیْ تَقْرَأُ عَلَیْکَ السَّلاَمَ وَ رَحْمَۃ اللّٰہِ وَ اِنَّہَا سَأَلَتْنِی الْحَجَّ مَعَکَ ! قَالَتْ : أَحِجَّنِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقُلْتُ : مَاعِنْدِیْ مَا أُحِجُّکِ عَلَیْہِ فَقَالَتْ أَحِجَّنِیْ عَلیٰ جَمَلِکَ فُلاَنٍ، فَقُلْتُ : ذَاکَ حَبِیْسٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَقَالَ ((أَمَا اِنَّکَ لَوْ أَحْجَجْتَہَا عَلَیْہِ کَانَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ )) قَالَ : وَ اَنَّہَا أَمَرَتْنِیْ اَنْ أَسْأَلَکَ مَا یَعْدِلُ حَجَّۃ مَعَکَ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((أَقْرِئْہَا السَّلاَمَ وَ رَحْمَۃ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ  وَ أَخْبِرْہَا أَنَّہَا تَعْدِلُ حَجَّۃ مَعِیَ یَعْنِیْ عُمْرَۃ فِیْ رَمَضَانَ)) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗ دَ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے حج کا ارادہ فرمایا تو ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا مجھے بھی رسول اکرمؐ کے ساتھ حج کرا دے اس نے کہا "میرے پاس کوئی سواری نہیں جس پر تجھے حج کراؤں ” عورت نے کہا "اپنے فلاں اونٹ پر” خاوند نے کہا ” وہ تو اللہ کی راہ میں دیا جا چکا ہے ” پھر وہ آدمی رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا "یا رسول اللہﷺ  ! میری بیوی سلام عرض کرتی ہے اس نے مجھ سے آپ کے ساتھ حج کرنے کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ مجھے رسول اللہﷺ  کے ساتھ حج کرا دو، میں نے کہا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے جس پر تجھے حج کراؤں، تو اس نے کہا اپنے فلاں اونٹ پر حج کراؤ، میں نے بیوی سے کہا کہ وہ تو اللہ کی راہ میں دیا جا چکا ہے ” رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا "اگر تو اسی اونٹ پر حج کرا دیتا تو وہ (عمل) بھی فی سبیل اللہ ہوتا۔ ” اس آدمی نے عرض کیا کہ "میری بیوی نے مجھے آپؐ سے یہ بات پوچھنے کے لئے کہا ہے "کون سا عمل آپؐ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ؟” رسول اللہؐ نے فرمایا "اس عورت کو میرا سلام کہنا اور بتانا کہ "رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے

وضاحت :ایک حدیث میں رمضان المبارک میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر بتایا گیا ہے جبکہ دوسری حدیث میں رمضان المبارک میں عمرہ کا ثواب رسول اکرمﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر بتایا گیا ہے اجر و ثواب میں یہ فرق عمرہ ادا کرنے والے کی نیت،  خلوص اور عقیدہ کی بنیاد پر ہو گا۔

 

مسئلہ 11: حاجی یا معتمر اگر حج یا عمرہ ادا کرنے سے پہلے راستہ میں ہی فوت ہو جائے تب بھی اسے حج یا عمرہ کا پورا ثواب ملتا ہے

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ(( مَنْ خَرَجَ حَاجًّا اَوْ مُعْتَمِرًا اَوْ غَازِیًا ثُمَّ مَاتَ فِیْ طَرِیْقَۃ کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ  اَجْرَ الْغَازِیْ وَالْحَاجِّ وَالْمُعْتَمِرِ)) رَوَاہُ الْبَیْہَقِیُّ

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "جو شخص حج یا عمرہ یا جہاد کے ارادے سے نکلے اور اسے راستے میں ہی موت آ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے غازی،  حاجی یا عمرہ کرنے والے کا ثواب عطا فرماتا ہے ” اسے بیہقی نے روایت کیا ہے ۔

 

مسئلہ 12: حالت احرام میں فوت ہونے والا حاجی یا معتمر (عمرہ کرنے والا) قیامت کے دن تلبیہ پکارتا ہوا اٹھے گا

 

وضاحت: حدیث مسئلہ نمبر108 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

٭٭٭

 

 

 

أَہَمِیَّۃ الْحَجِّ

 

حج کی اہمیت

 

 

مسئلہ 13: وسائل رکھنے کے باوجود حج نہ کرنے والا مسلمان نہیں۔

 

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِؓ اَنَّہٗ  قَالَ لَقَدْ ہَمَمْتُ اَنْ أَبْعَثَ رِجَالاً اِلیٰ ہٰذِہِ الْأَمْصَارِ فَیَنْظُرُوْا کُلَّ مَنْ کَانَ لَہٗ  جِدَۃ وَ لَمْ یَحُجَّ لِیُضْرِبُوْا عَلَیْہِمُ الْجِزْیَۃ مَا ہُمْ بِمُسْلِمِیْنَ مَا ہُمْ بِمُسْلِمِیْنَ )) رَوَاہُ سَعِیْدٌ فِیْ سُنَنِہٖ  (حسن)

حضرت عمر بن خطابؓ کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کچھ آدمیوں کو شہروں میں بھیجوں وہ تحقیق کریں کہ جن لوگوں کو حج کی طاقت ہے اور انہوں نے حج نہیں کیا ان پر جزیہ مقرر کر دیں، ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں، ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ "اسے سعید نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے

عَنْ عَلِیٍّؓ اَنَّہٗ  قَالَ مَنْ قَدَرَ عَلَی الْحَجِّ فَتَرَکَہٗ  فَلاَ عَلَیْہِ اَنْ یَمُوْتَ یَہُوْدِیًّا أَوْ نَصْرَانِیًّا۔ رَوَاہُ سَعِیْدٌ فِیْ سُنَنِہٖ

حضرت علیؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جس نے قدرت ہونے کے باوجود حج نہ کیا، اس کے لئے برابر ہے یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر۔ ” اسے سعیدنے اپنی سنن میں روایت کیا ہے

 

مسئلہ14: وسائل میسر آنے کے بعد حج ادا کرنے میں تاخیر کرنا جائز نہیں۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْیَتَعَجَّلْ فَإِنَّہٗ  قَدْ یَمْرَضُ الْمَرِیْضُ وَ تَضِلُّ الضَّالَّۃ وَ تَعْرِضُ الْحَاجَۃ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ  (حسن)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "جو شخص حج کا ارادہ کرے اسے جلدی کرنا چاہئے کیونکہ کبھی آدمی بیمار ہو جاتا ہے، سواری کا بندوبست نہیں ہو سکتا یا کوئی رکاوٹ پیش آ جاتی ہے۔” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّا قَالَ (( تَعَجَّلُوْا اِلَی الْحَجِّ یَعْنِی الْفَرِیْضَۃ فَإِنَّ أَحَدُکُمْ لاَ یَدْرِیْ مَا یَعْرِضُ لَہٗ )) رَوَاہُ أَحْمَدُ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا "فریضہ حج ادا کرنے کے لئے جلدی کرو کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ اسے کیا عذر پیش آ جائے۔” اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 15: مرنے والے پر حج فرض ہو، تو اس کے ورثاء کو میت کی طرف سے حج ادا کرنا چاہئے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر377 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

أَلْحَجُّ وَالْعُمْرَۃ فِیْ ضَوْءِ الْقُرْآنِ

 

حج اور عمرہ قرآن مجید کی روشنی میں

 

 

استطاعت رکھنے والوں پر حج ادا کرنا فرض ہے۔

 

﴿ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ ﴾(97:3)

"لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس گھر کا حج کرے اور جو شخص اس کے حکم کی پیروی سے انکار کرے، اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔ ” (سورۃ آل عمران، آیت نمبر97)

 

مسئلہ 17: حج کے مہینے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں۔

مسئلہ  18:حج کے دوران شہوانی افعال، لڑائی جھگڑا اور دیگر تمام گناہ کے کام حرام ہیں۔

مسئلہ 19: قرض لے کر یا مانگ کر حج ادا کرنا جائز نہیں۔

 

﴿ اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوْقَ وَ لاَ جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْویٰ وَ اتَّقُوْنِ یَآ اُوْلِی الْاَلْبَابِ ﴾(197:2)

"حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں، جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرے اسے خبردار رہنا چاہئے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی گناہ، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو اور جو نیک عمل کرے، وہ اللہ کے علم میں ہو گا۔ حج سفر کے لئے زاد راہ ساتھ لے کر نکلو اور سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ (سوال کرنے سے بچنا) ہے۔ پس اے ہوشمندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔ ” (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر197)

وضاحت :حج کے مہینے شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ لڑائی اور گناہ کے کام عام حالات میں بھی منع ہیں، لیکن حالت احرام میں یہ کام بدرجہ اولیٰ منع ہیں۔ اس لئے عام حالت کے مقابلے میں دوران حج ان کا زیادہ گناہ ہے۔

 

مسئلہ 20: احرام باندھنے کے بعد کسی عذر کی بناء پر حرم نہ پہنچ سکنے پر حاجی یا معتمر (عمرہ کرنے والے )کی استطاعت کے مطابق ایک (اونٹ یا گائے یا بکری) قربانی دے کر احرام کھول سکتا ہے۔

 

مسئلہ 21: بیماری یا سر کی تکلیف کے باعث "یوم نحر” سے قبل احرام اگر کسی شخص کو کھولنا پڑے ،  تو اسے تین روزے یا صدقہ یا ایک قربانی دینی چاہئے۔

مسئلہ 22: حرم سے باہر رہنے والے لوگ حج قران اور حج تمتع ادا کر سکتے ہیں لیکن حرم کے اندر رہنے والے لوگوں کو حج قران اور حج تمتع کرنا منع ہے۔

مسئلہ 23: حج قران اور حج تمتع کرنے والوں پر قربانی ادا کرنا واجب ہے۔

مسئلہ  24: جو شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے دس روزے رکھنے چاہئیں۔

مسئلہ  25: کسی شخص کی طرف سے عمرہ یا حج کرنے کی نیت سے احرام باندھ لیا جائے تو اس حج یا عمرہ کو کسی دوسرے شخص کے نام سے نہیں کیا جا سکتا۔

 

﴿ وَ اَتِّمُوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃ لِلّٰہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ وَلاَ تَحْلِقُوْا رُءُ وْسَکُمْ حَتّیٰ یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ  فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بہٖ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ فَفِدْیَۃ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃ اَوْ نُسُکٍ فَاِذَا اَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَۃ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَۃ کَامِلَۃ ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَہْلُہٗ  حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ﴾(196:2)

اور جب حج اور عمرے کی نیت کرو، تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اسے پورا کرو اور اگر کہیں روک لئے جاؤ تو جو قربانی میسر آئے اللہ کی جناب میں پیش کرو اور جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے (یعنی ذبح نہ ہو جائے ) اپنے سر نہ مونڈو مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور (اس وجہ سے وہ اپنا سرمنڈالے ) تو اسے فدیہ کے طور پر روزے رکھنے چاہئیں یا صدقہ دینا چاہئے یا قربانی کرنی چاہئے پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے (اور تم حج سے قبل مکہ پہنچ جاؤ) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے وہ حسب مقدور قربانی دے اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات روزے گھر جا کر یعنی پورے دس روزے رکھے۔ یہ رعایت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گھر بار مسجد الحرام کے قریب نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔ ” (سورۃ البقرہ،  آیت نمبر 196)

وضاحت : روزے اور صدقہ کے بارے میں رسول اللہﷺ نے حدیث میں وضاحت ارشاد فرمائی ہے ” روزے تین رکھے جائیں یا چھ مسکینوں کو دو وقت کے کھانے کے برابر غلہ صدقہ کیا جائے۔ "جو تقریباً ساڑھے سات کلو بنتا ہے۔ ملاحظہ ہو مسئلہ نمبر 119۔ قربانی حدودِ حرم میں کسی جگہ بھی دی جا سکتی ہے۔ اگر حرم میں خود قربانی نہ دی جا سکے تو کسی دوسرے سے دلوائی جا سکتی ہے۔ یہ قربانی چونکہ کفارہ ہے اس لئے سارا گوشت مساکین اور فقراء میں تقسیم کرنا ضروری ہے اس لئے نہ خود کھانا چاہئے نہ کسی غنی کو ہدیہ دینا چاہئے۔

 

مسئلہ 26: حالت احرام میں خشکی پر شکار کرنا منع ہے اگر کوئی شکار کرے تو اسے شکار کئے گئے جانور کے برابر قربانی دینی چاہئے۔

 

﴿ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ وَ مَنْ قَتَلَہٗ  مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ہَدْیًا بٰلِغَ الْکَعْبَۃ اَوْ کَفَّارَۃ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ ﴾ (95:5)

"اے لوگو،  جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کر گزرے تو جو جانور اس نے مارا ہو اسی کے ہم پلہ ایک جانور اسے مویشیوں میں سے نذر کر دینا ہو گا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا یا پھر اسی گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا یا اس کے بقدر روزے رکھنا ہوں گے تا کہ وہ اپنے کئے کا مزہ چکھے۔ پہلے جو کچھ ہو چکا اسے اللہ نے معاف کر دیا اور جس نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔ ” (سورہ مائدہ،  آیت نمبر 95)

 

مسئلہ27:حالت احرام میں سمندی شکار کرنا اور اسے کھانا جائز ہے۔

 

﴿ اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ  مَتَاعًا لَّکُمْ وَ لِلسَّیَّارَۃ وَ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ﴾(96:5)

"تمہارے لئے سمندر کا شکار (مارنا) اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے جہاں تم ٹھہرو،  وہاں اسے کھا بھی سکتے ہو اور قافلے کے لئے زاد راہ بھی بنا سکتے ہو البتہ خشکی کا شکار تم پر حالت احرام میں حرام کیا گیا ہے لہٰذا اس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچو جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا۔ ” (سورہ مائدہ، آیت نمبر96)

 

مسئلہ 28: حج یا عمرہ کے دوران صفا اور مروہ پہاڑیوں کا طواف یعنی سعی کرنے کا حکم ہے۔

 

﴿ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ ﴾ (158:2)

"یقیناً صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں لہٰذا جو شخص بیت اللہ شریف کا حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرے اور جو شخص برضا و رغبت کوئی بھلا کام کرے گا اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔ ” (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 158)

وضاحت :زمانہ جاہلیت میں لوگوں نے صفا پر "اساف” اور مروہ پر "نائلہ” بت رکھے ہوئے تھے اور ان کا طواف کرتے تھے اس وجہ سے مسلمان صفا اور مروہ کا طواف کرنے میں متذبذب تھے کہ شاید صفا اور مروہ کی سعی زمانہ شرک کی ایجاد ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس خیال کی تردید فرمائی ہے۔

 

مسئلہ 29:حج ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تجارت کرنا بھی جائز ہے۔

مسئلہ 30: وقوف عرفات حج کا رکن ہے۔

مسئلہ 31: مزدلفہ میں اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کرنے کا حکم ہے۔ مشعر الحرام کے قریب وقوف کرنا افضل ہے۔

﴿ لَیْسَ عَلَیْکُم جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَبِّکُمْ فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدَاکُمْ وَ اِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾(199۔198:2)

"اگر حج کے ساتھ تم لوگ اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ،  تو اس میں کوئی حرج نہیں پھر جب عرفات سے (واپس) چلو تو مشعر الحرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں دی ہے ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے پھر جہاں سے دوسرے لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی مانگو یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ” (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 199۔198)

 

مسئلہ 32: ایام تشریق میں اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کرنے کا حکم ہے۔

مسئلہ 33: ایام تشریق میں منیٰ سے 12 ذی الحجہ کو واپس آنا جائز ہے ،  لیکن 13 ذی الحجہ کو واپس آنا افضل ہے۔

﴿ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِی اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقیٰ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ﴾(203:2)

"یہ گنتی کے چند روز ہیں جو تمہیں اللہ تعالیٰ کی یاد میں بسر کرنے چاہئیں پھر جو کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں واپس ہو گیا تو کوئی حرج نہیں اور جو کچھ زیادہ دیر ٹھہر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کئے ہوں اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک دن اس کے حضور تمہاری پیشی ہونے والی ہے۔ ” (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر203)

 

مسئلہ 34: حج ایک کثیر المقاصد اور کثیر الفوائد عبادت ہے۔

مسئلہ 35: طواف زیارت حج کا رکن ہے۔

﴿ وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالاً وَّ عَلیٰ کُلِّ ضَامِرٍ یَّاتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ لِّیَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ عَلیٰ مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃ الْاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْہَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ ثُمَّ الْیَقْضُوْا تَفَثَہُمْ وَالْیُوْفُوْا نُذُوْرَہُمْ وَالْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ﴾(29۔28۔27:22)

"(اے ابراہیم!) لوگوں کو حج کے لئے اذن عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں تا کہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لئے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر دنوں (یعنی ایام نحر اور ایام تشریق) میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں (یعنی ذبح کریں ) جو اس نے انہیں بخشے ہیں خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور (کسی نے اس موقع کے لئے نذر مان رکھی ہو تو) اپنی نذر پوری کریں اور قدیم گھر (یعنی بیت اللہ شریف) کا طواف کریں۔ ” (سورۃ الحج، آیت نمبر 29۔28۔27)

٭٭٭

 

 

 

 

شُرُوْطُ أَلْحَجٍّ

 

حج کی شرائط

 

 

مسئلہ 36: مالدار،  آزاد،  عاقل،  مسلمان مرد اور عورت پر حج فرض ہے۔

 

عَنْ عَلِیِّؓ عَنِ النَّبِیِّا قَالَ (( رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاَثَۃ عَنِ النَّائِمِ حَتّیٰ یَسْتَقِیْظَ وَعَنِ الصَّبِیِّ حَتّیٰ یَحْتَلِمَ وَعَنِ الْمَجْنُوْنِ حَتّیٰ یَعْقِلَ))رَوَاہُ اَبُوْدَاؤُدُ (صحیح)

حضرت علیؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا "تین شخص شرعی حکم کے مکلف نہیں ایک سویا ہوا یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے ،  دوسرا بچہ یہاں تک کہ بالغ ہو جائے اور تیسرا مجنون یہاں تک کہ اس کا جنون ختم ہو جائے۔ ” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((اَیُّمَا صَبِیٍّ حَجَّ ثُمَّ بَلَغَ الْحِنْثَ فَعَلَیْہِ اَنْ یَّحُجَّ حُجَّۃ اُخْریٰ وَاَیُّمَا عَبْدٍ حَجَّ ثُمَّ اُعْتِقَ فَعَلَیْہِ اَنْ یَّحُجَّ حَجَّۃ اُخْریٰ)) رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  کہتے ہیں رسول اللہﷺ  نے فرمایا "جو بچہ حج کرے پھر بالغ ہو جائے تو اسے استطاعت حاصل ہونے پر دوبارہ حج کرنا چاہئے اور جس غلام نے حج کیا پھر آزاد ہو گیا تو اسے (استطاعت حاصل ہونے پر) دوبارہ حج ادا کرنا چاہئے۔ ” اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔

عَنِ عُمْرَ بْنِ الْخَطَّابَؓ قَالَ بَیْنََا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ذَاتَ یَوْمٍ اِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدٌ بَیَاضِ الثِّیَابِ شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لاَ یُرَی عَلَیْہِ اَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ یَعْرِفُہُ مِنَّا اَحَدٌ حَتّیٰ جَلَسَ اِلیٰ النَّبِیِّا فَاَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ اِلیٰ رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلیٰ فَخِذَیْہِ وَقَالَ یَا مُحَمَّدُ(ا) اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلاَمِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا: اِلْاِسَلاَمُ اَنْ تَشْہَدَ اَنْ لآَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللّٰہِ وَتُقِیْمَ الصَّلاَۃ وَتُوٴْتِیَ الزَّکٰوۃ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً…۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے ایک روز ہم رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر تھے اتنے میں ایک شخص نہایت سفید کپڑوں والا نہایت سیاہ بالوں والا آیا جس پر سفر کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی اسے نہیں پہچانتا تھا،  آ کر نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے نبی اکرمﷺ کے گھٹنوں سے ملا دئیے اور اپنی دونوں ہتھیلیاں آپ کی رانوں پر رکھ لیں اور کہنے لگا "اے محمدؐ ! مجھے اسلام کے بارے میں بتلائیے۔ ” آپﷺ نے ارشاد فرمایا "اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد (ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں ،  نماز قائم کرو،  زکوٰۃ ادا کرو،  رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ شریف کا حج کرو،  بشرطیکہ تم وہاں تک جانے کی قدرت رکھتے ہو۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

عَنْ اَنَسؓ قَیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا السَّبِیْلُ ؟ قَالَ: ((اَلزَّادُ وَالرَّاحِلَۃ))۔ رَوَاہُ الدَّارُالْقُطْنِیُّ

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا "یا رسول اللہﷺ ! "سبیل” سے کیا مراد ہے ؟” آپؐ نے ارشاد فرمایا "سفر خرچ اور سواری۔ ” اسے دار قطنی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 37: سفر حج کے لئے عورت کے ساتھ خاوند یا کسی محرم (مثلاً باپ،  بھائی،  بیٹا،  چچا یا ماموں وغیرہ) کا ہونا شرط ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّا یَخْطُبُ یَقُوْلُ ((لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِاِمْرَاَۃ اِلآَ وَمَعَہَا ذُوْ مَحْرَمٍ وَلاَ تُسَافِرِ الْمَرْاَۃ اِلآَ مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ )) فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ اِنَّ امْرَاَتِیْ خَرَجَتْ حَاجَّۃ وَاِنِّیْ اکْتُتِبْتُ فِیْ غَزْوَۃ کَذَا وَکَذَا قَالَ ((انْطَلِقْ فَحُجَّ مَعَ امْرَاَتِکَ ))رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں میں نے نبی اکرمﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے "کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہر گز تنہائی میں نہ ملے اِلا یہ کہ اس (عورت) کا محرم ساتھ ہو نہ ہی کوئی عورت محرم کے بغیر سفر کرے۔ ” ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے عرض کیا "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میری بیوی حج کے لئے چلی گئی اور میں نے فلاں فلاں غزوہ میں اپنا نام لکھوا دیا ہے۔ ” آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا "جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔ ” اسے مسلم نے رویت کیا ہے۔

عَنْ یَحْییٰ بِنْ عَبَّادٍ قَالَ کَتَبَتْ اِمْرَاَۃ مِنْ اَہْلِ الرَّایْ اِلَی اِبْرَاہِیْمَ النَّخْعِیَّ اِنِّیْ لَمْ اَحُجَّ حَجَّۃ الْاِسْلاَمِ وَاَنَا مُوْسِرَۃ لَیْسَ لِیْ ذُوْ مَحْرَمٍ فَکَتَبَ اِلَیْہَا اَنّکِ مِمَّنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہَ لَہٗ  سَبِیْلاً۔ ذَکَرَہُ فِیْ فِقَۃ السُّنَّۃ

حضرت یحییٰ بن عباد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رے (ایران کا ایک شہر) کی ایک عورت نے حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاد) کو لکھا کہ” میں نے فرض حج ادا نہیں کیا اور میں مالدار ہوں لیکن میرا محرم نہیں ہے (میرے لئے کیا حکم ہے ؟)” حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے عورت کو جواب لکھا "تو ان لوگوں میں سے ہے جن پر اللہ نے حج فرض نہیں کیا۔ ” یہ روایت فقہ السنہ میں ہے۔

وضاحت :حرام رشتوں کی تفصیل درج ذیل ہے :

والدہ، والد کی والدہ اور ماں کی والدہ خواہ حقیقی ہو یا سوتیلی بیٹی،  پوتی،  نواسی (حقیقی اور سوتیلی)بہن (حقیقی اور سوتیلی)پھوپھی (حقیقی اور سوتیلی)خالہ (حقیقی اور سوتیلی)بھتیجی (خواہ حقیقی بھائی کی بیٹی ہو یا سوتیلے بھائی کی) بھانجی (خواہ حقیقی بہن کی بیٹی ہو یا سوتیلی بہن کی)رضاعی ماں رضاعی بہن (خواہ حقیقی ماں کا دودھ پینے کی وجہ سے یا ایک ہی اَنّا کا دودھ پینے کی وجہ سے بیوی کی والدہ بیٹے ،  پوتے اور نواسے کی بیوی۔

 

مسئلہ 38: راستے کا پر امن ہونا اور حکومت کی طرف سے رکاوٹ نہ ہونا بھی حج کی شرائط ہیں۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر14کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 39: عورت کے لئے شوہر کی وفات کے بعد حالت عدت میں نہ ہونا بھی سفر حج کے لئے شرط ہے۔

 

عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِؓ اَنَّ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِؓ کَانَ یَرُدُّ الْمُتَوَفِّیْ عَنْہُنَّ اَزْوَاجَہُنَّ مِنَ الْبَیْدَاءِ یَمْنَعُہُنَّ الْحَجَّ۔ رَوَاہُ مَالِکٌ

حضرت سعید بن مسیبؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ ان عورتوں کو، جو خاوند فوت ہو جانے کی وجہ سے حالت عدت میں ہوتیں، مقام بیداء سے واپس لوٹا دیتے اور حج نہ کرنے دیتے۔ اسے مالک نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 40: حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنے سے حج کا فرض ہونا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ41: چھوٹی عمر میں حج ادا کرنے سے حج کا فرض ہونا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ42: بیٹوں یا بیٹیوں کے غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے حج کا ساقط ہونا سنت سے ثابت نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

أَلْمَوَاقِیْتُ

 

میقات کے مسائل

 

مسئلہ43: میقات کی دو قسمیں ہیں

 

(ا)میقات مکانی :وہ مقامات جہاں سے حج یا عمرہ کرنے والا احرام باندھتا ہے۔

(ب)میقات زمانی : وہ زمانہ جس کے اندر اندر حج کرنا ضروری ہے۔

 

مسئلہ44: باہر سے آنے والے حاجیوں کے لئے درج ذیل پانچ میقات ہیں۔

 

اہل مدینہ یا اس راستے سے آنے والوں کے لئے ذوالحلیفہ (نیا نام بیئر علی) میقات ہے۔

اہل شام یا اس راستے سے آنے والوں (مثلاً مصر،  لیبیا،  الجزائر اور مراکش وغیرہ) کے لئے حجفہ میقات ہے۔

اہل نجد یا اس راستے سے آنے والوں (مثلاً بحرین،  دمام،  الریاض وغیرہ) کے لئے قرن المنازل (نیا نام سیل کبیر) میقات ہے۔

اہل یمن یا اس راستے سے آنے والوں (مثلاً پاکستان،  ہندوستان،  بنگلہ دیش وغیرہ) کے لئے یلملم (نیا نام سعدیہ) میقات ہے۔

اہل عراق یا اس راستے سے آنے والوں کے لئے ذات عرق میقات ہے۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ وَقَّتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ لِاَہْلِ الْمَدِیْنَۃ ذَا الْحُلَیْفَۃ وَلِاَہْلِ الشَّامِ وَمِصْرَ الْجُحْفَۃ وَلِاَہْلِ الْعِرَاقِ ذَاتَ عِرْقٍ وَلِاَہْلِ نَجْدٍ قَرْنًا وَلِاَہْلِ الْیَمَنِ یَلَمْلَمَ۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)

حضرت عائشہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ،  اہل شام اور اہل مصر کے لئے حجفہ،  اہل عراق کے لئے ذات عرق اور اہل نجد (ریاض) کے لئے قرنُ (المنازل) اور اہل یمن کے لئے یلملم میقات مقرر فرمائے ہیں۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ45: مکہ مکرمہ میں نیز میقات اور مکہ مکرمہ کے درمیان مستقل رہائش پذیر یعنی مقامی باشندوں اور عارضی طور پر رہائش پذیر یعنی بیرونی حجاج کو حج کے لئے رہائش گاہ سے احرام باندھنا چاہئے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ وَقَّتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ لِاَہْلِ الْمَدِیْنَۃ ذَالْحُلَیْفَۃ وَلِاَہْلِ الشَّامِ الْجُحْفَۃ وَلِاَہْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلَ وَلِاَہْلِ الْیَمَنِ یَلَمْلَمَ قَالَ فَہُنَّ لَہُنَّ وَلِمَنَ اَتیٰ عَلَیْہِنَّ مِنْ غَیْرِ اَہْلِہِنَّ مِمَّنْ اَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃ فَمَنْ کَانَ دُوْنَہُنَّ فَمِنْ اَہْلِہٖ وَکَذَا فَکَذٰلِکَ حَتَّی اَہْلُ مَکَّۃ یُہِلُّوْنَ مِنْہَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ،  اہل شام کے لئے حجفہ،  اہل نجد کے لئے قرن المنازل،  اہل یمن کے لئے یلملم میقات مقرر فرمائے ہیں یہ میقات ان ملکوں میں مقیم لوگوں کے لئے بھی ہیں اور ان لوگوں کے لئے بھی جو حج اور عمرے کے ارادے سے ان اطراف سے آئیں جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہوں وہ اپنی رہائش گاہ سے ہی احرام باندھیں ،  حتیٰ کہ اہل مکہ،  مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھیں۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت مکہ مکرمہ اور میقات کے درمیان رہائش پذیر لوگوں میں اہل حرم (یعنی حدود حرم کے اندر رہائش پذیر لوگ) اور اہل حل (یعنی حدود حرم سے باہر اور میقات کے اندر رہائش پذیر لوگ) دونوں شامل ہیں ملازمت کی غرض سے آئے ہوئے میقات کے اندر مقیم غیر ملکی حضرات کا شمار بھی مستقل رہائش پذیر یعنی مقامی باشندوں میں ہو گا یاد رہے کہ جدہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان کوئی میقات نہیں ہے لہٰذا حج یا عمرہ کے لئے آنے والے بیرونی حضرات کا جدہ پہنچ کر احرام باندھنا جائز نہیں۔ قطر،  کویت،  دمام اور الریاض وغیرہ سے بذریعہ کار آنے والے حضرات کو قرن المنازل یا سیل کبیر (طائف اور مکہ کے درمیان میقات) پہنچ کر احرام باندھنا چاہئے جبکہ براستہ ہوائی جہاز جدہ پہنچ کر مکہ مکرمہ آنے والے حضرات کو اپنے شہر یا ملک سے احرام باندھنا چاہئے ،  البتہ احرام کی نیت اور تلبیہ میقات پر پہنچ کر کہنا چاہئے۔ جدہ کے مقامی لوگوں کو حج اور عمرہ کے لئے جدہ سے ہی احرام باندھنا چاہئے سعودی عرب کے کسی شہر یا غیر ممالک سے کاروبار یا ڈیوٹی کی نیت سے جدہ آنے والے حضرات اپنے کاروبار یا ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد عمرہ یا حج کا ارادہ کریں تو وہ جدہ سے ہی احرام باندھیں۔ واللہ اعلم بالصواب!

 

مسئلہ46: حدود حرم میں عارضی طور پر مقیم یعنی بیرونی حضرات کو بوقت ضرورت عمرہ کا احرام حدود حرم سے باہر یعنی حل میں کسی مقام مثلاً تنعیم یا جعرانہ جا کر باندھنا چاہئے۔

عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَخْبَرَہٗ  اَنَّ النَّبِیَّا اَمَرَہُ اَنْ یُّرْدِفَ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَیُعْمِرَہَا مِنَ التَّنْعِیْمِ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبدالرحمان بن ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا "حضرت عائشہؓ  کو اپنے ساتھ سواری پر بٹھا کر لے جائیں اور تنعیم سے (احرام باندھ کر) ان کو عمرہ کرائیں۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے

وضاحت :حج پروازوں میں میقات پر پہنچنے سے قبل میقات کا اعلان کیا جاتا ہے تا کہ جو لوگ احرام باندھنا چاہیں وہ احرام باندھ لیں۔ عام پروازوں میں اگر جہاز کے عملہ کو پہلے سے کہہ دیا جائے ،  تو میقات پہنچنے سے قبل میقات کی اطلاع فراہم کر دی جاتی ہے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ فَیْ قَوْلِہٖ﴿ بَرَآۃ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ﴾ قَالَ لَمَّا قَفَلَ النَّبِیُّا مِنْ حُنَیْنٍ اِعْتَمَرَ مِنَ الْجِعْرَانَۃ ثُمَّ اَمَّرَ اَبَابَکْرٍ عَلیٰ تِلْکَ الْحَجَّۃ۔ رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمَۃ  (صحیح)
حضرت ابو ہریرہؓ اللہ تعالیٰ کے ارشاد مبارک ﴿بَرَآۃ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ﴾ "اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان برأت ہے۔ "(سورۃ التوبہ، آیت نمبر1) کی تفسیر کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی اکرمﷺ جنگ حنین سے واپس تشریف لائے تو جعرانہ سے (احرام باندھ کر) عمرہ ادا کیا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اس (کے بعد ادا کئے گئے ) حج کا امیر مقرر فرمایا۔ اس کو ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :غیر ممالک یا سعودی عرب کے کسی شہر سے کاروبار یا عارضی ڈیوٹی کے لئے مکہ مکرمہ آنے والے حضرات کاروبار یا ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد عمرہ کی نیت کریں تو انہیں تنعیم یا جعرانہ جا کر احرام باندھنا چاہئے۔ حدود حرم میں مستقل رہائش پذیر مقامی باشندے عمرہ کا احرام اپنی رہائش گاہ سے باندھ سکتے ہیں مکہ مکرمہ میں کام کرنے والے غیر ملکی ملازمین یا تاجر حضرات کے لئے احکامات وہی ہیں جو مکہ معظمہ میں رہائش پذیر مقامی باشندوں کے ہیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)۔

 

مسئلہ47: حدود حرم کے اندر عارضی طور پر مقیم یعنی بیرونی خواتین اگر ایام حیض کی وجہ سے عمرہ ادا نہ کر سکیں تو ایام حیض ختم ہونے کے بعد حدود حرم سے باہر تنعیم یا جعرانہ جا کر احرام باندھ کر عمرہ ادا کر سکتی ہیں۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّہَا اَہَلَّتْ بِعُمْرَۃ فَقَدِمَتْ وَلَمْ تَطُفْ بِالْبَیْتِ حَتّیٰ حَاضَتْ فَنَسَکَتِ الْمَنَاسِکَ کُلَّہَا وَقَدْ اَہَلَّتْ بِالْحَجِّ فَقَالَ لَہَا النَّبِیُّا یَوْمَ النَّفْرِ ((یَسَعُکِ طَوَافُکِ لِحَجِّکِ وَعُمْرَتِکِ )) فَاَبَتْ فَبَعَثَ بِہَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اِلَی التَّنْعِیْمِ فَاعْتَمَرَتْ بَعْدَ الْحَجِّ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرہ کا احرام باندھا۔ مکہ مکرمہ آئیں ابھی بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کیا تھا کہ حائضہ ہو گئیں۔ (لہٰذا طواف کے علاوہ باقی) مناسک حج ادا کئے اور (حج کے دنوں میں ) حج کا احرام باندھا۔ رسول اللہﷺ  نے منیٰ سے روانگی کے دن حضرت عائشہؓ سے فرمایا” تمہارا طواف (افاضہ) حج اور عمرہ دونوں کے لئے کافی ہو گا۔ ” حضرت عائشہؓ  نہ مانیں ،  تو رسول اللہﷺ نے ان کے بھائی حضرت عبدالرحمان (بن ابی بکر صدیقؓ ) کے ساتھ تنعیم بھیج دیا (جہاں سے وہ احرام باندھ کر مکہ آئیں اور) حج کے بعد عمرہ ادا کیا۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ48: بار بار تنعیم یا جعرانہ سے احرام باندھ کر بکثرت عمرے کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ49: میقات پر پہنچ کر احرام باندھنا افضل ہے لیکن میقات سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ بَیْدَاؤُکُمْ ہٰذِہِ الَّتِیْ تَکْذِبُوْنَ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ فِیْہَا مَا اَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلآَ مِنْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ یَعْنِیْ ذَالْحُلَیْفَۃ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  فرماتے ہیں بیداء وہ جگہ ہے (مسجد ذی الحلیفہ سے آگے مکہ کی طرف) جس کے بارے میں تم رسول اللہﷺ  کی نسبت غلط بات کرتے ہو (کہ آپﷺ  نے بیداء سے احرام باندھا حالانکہ) آپؐ نے مسجد ذی الحلیفہ کے نزدیک (احرام باندھ کر) لبیک پکارنا شروع کیا۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّہٗ  اَہَلَّ مِنْ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ۔ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ

حضرت نافعؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیت المقدس سے احرام باندھا۔ اسے شافعی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ50: حج یا عمرہ ادا کرنے والا بغیر احرام میقات سے گزر جائے تو اسے واپس اسی میقات پر جا کر احرام باندھنا چاہئے جس سے گزر کر آیا ہے۔

عَنْ اَبِیْ الشَّعْثَاءََؓ اَنَّہُ رَاْی ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَرُدُّ مَنْ جَاوَزَ الْمِیْقَاتَ غَیْرَ مُحْرِمٍ۔ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ

حضرت ابوشعثاءؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو دیکھا کہ جو شخص احرام باندھے بغیر میقات سے گزر جاتا اسے میقات پر واپس لوٹاتے (تا کہ احرام باندھ کر آئے )۔ اسے شافعی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ51: حج یا عمرہ کرنے والا بغیر احرام کے میقات سے گزر جائے اور پھر اس کے لئے میقات پر واپس جانا ممکن نہ ہو تو اسے ایک بکری ذبح کر کے فقراء میں تقسیم کرنا چاہئے اور احرام پہن کر حج یا عمرہ ادا کرنا چاہئے۔

 

وضاحت۔ حدیث مسئلہ نمبر 119 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ52: حج یا عمرہ کی نیت نہ ہو تو احرام باندھے بغیر میقات سے گزرنا اور مکہ مکرمہ میں داخل ہونا جائز ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ دَخَلَ مَکَّۃ وَقَالَ قُتَیْبَۃ دَخَلَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃ وَعَلَیْہِ عِمَامَۃ سَوْدَاءُ بِغَیْرِ اِحْرَامٍ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ مکہ میں داخل ہوئے اور (حدیث کے ایک راوی) قتیبہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے روز مکہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ کے سر پر سیاہ پگڑی تھی اور آپؐ بغیر احرام کے تھے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ53: عمرہ کا احرام سال کے کسی بھی حصے میں باندھا جا سکتا ہے۔

مسئلہ54: حج کے مہینوں یا حج کے دنوں میں عمرہ کا احرام باندھنے سے حج فرض نہیں ہوتا۔

عَنْ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍؓ قَالَ فِیْ کُلِّ شَہْرٍ عُمْرَۃ۔ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ

حضرت علی بن ابو طالبؓ فرماتے ہیں کہ عمرہ ہر مہینے میں ادا کیا جا سکتا ہے۔ اسے شافعی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ55: حج کا احرام حج کے مہینوں میں ہی باندھنا چاہئے۔

مسئلہ56: حج کے مہینے یہ ہیں۔ شوال،  ذوالقعدہ اور ذوالحجہ۔

عَنْ اِبْنِ جُرَیْحٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ قَالَ قُلْتُ لِنَافِعٍؓ أَ سَمِعْتَ عَبِدِاللّٰہِ بِنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُسَمّیٰ اَشْہُرَ الْحَجَّ ؟ قَالَ نَعَمْ کَانَ یُسَمِّیْ شَوَّالُ ذُوْالْقَعْدَۃ وَذُوْ الْحَجَّۃ قُلْتُ لِنَافِعٍ فَاِنْ اَہَلَّ اِنْسَانٌ بِالْحَجِّ قَبْلَہُنْ ؟ قَالَ لَمْ اَسْمَعُ فِیْ ذٰلِکَ مِنْہُ شَیْئًا۔ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ

حضرت ابن جریح رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے حضرت نافعؓ سے دریافت کیا "تم نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  کو حج کے مہینوں کا نام لیتے ہوئے سنا ہے ؟” حضرت نافعؓ نے کہا "ہاں ! حضرت عبد اللہؓ شوال،  ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کو حج کے مہینے شمار کرتے تھے۔ ” میں نے حضرت نافعؓ سے کہا "اگر انسان ان حج کے مہینوں سے پہلے احرام باندھ لے تو پھر؟” تو حضرت نافعؓ نے کہا”میں نے اس بارے میں ان سے کچھ نہیں سنا ( کہ ایسا کرنا بھی جائز ہے۔ )” اسے شافعی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مِنَ السُّنَّۃ اَنْ لآَ یُحْرِمَ الرَّجُلُ بِالْحَجِّ اِلآَ فِیْ اَشْہُرِ الْحَجِّ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  فرماتے ہیں "سنت یہ ہے کہ آدمی حج کا احرام حج کے مہینوں میں ہی باندھے۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

أَنْوَاع الْإِحْرَامِ

 

احرام کی قسمیں

 

مسئلہ57: احرام کی درج ذیل قسمیں ہیں۔

 

عمرہ  : اس میں صرف عمرہ کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے۔

حج افراد : اس میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے۔

حج قران : اس میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے اکٹھا احرام باندھا جاتا ہے اور حج  مکمل ہونے کے بعد کھولا جاتا ہے۔

تمتع : اس میں پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے اور عمرہ مکمل ہونے  کے بعد کھول دیا جاتا ہے۔ ایام حج میں اپنی رہائش گاہ سے ہی دوبارہ احرام باندھا جاتا ہے اور حج مکمل ہونے کے بعد کھولا جاتا ہے۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّہَا قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ عَامَ حَجَّۃ الْوَدَاعِ فَمِنَّا مَنْ اَہَلَّ بِعُمْرَۃ وَمِنَّا مَنْ اَہَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَۃ وَمِنَّا مَنْ اَہَلَّ بِالْحَجِّّ وَاَہَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ بِالْحَجِّ فَاَمَّا مَنْ اَہَلَّ بِعُمْرَۃ فَحَلَّ وَاَمَّا مَنْ اَہَلَّ بِحَجٍّ اَوْ جَمَعَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃ فَلَمْ یَحِلُّوْ حَتّیٰ کَانَ یَوْمُ النَّحْرِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اللہﷺ کے ساتھ (حج کے لئے ) نکلے ہم میں سے بعض لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا اور بعض نے حج اور عمرہ دونوں کا (یعنی حج قران کا) بعض نے صرف حج کا( یعنی حج افراد کا) اور نبی اکرمﷺ نے حج کا احرام باندھا تھا۔ پس جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ (عمرہ ادا کرنے کے بعد) حلال ہو گئے (یعنی احرام کھول دیا) جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا وہ قربانی کے دن تک احرام میں ہی رہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :حج تمتع کرنے والا شخص اگر حج کے مہینوں (شوال یا ذیقعدہ) میں عمرہ ادا کرنے کے بعد اپنے شہر مثلاً جدہ،  ریاض،  دمام وغیرہ یا اپنے ملک مثلاً پاکستان،  ہندوستان واپس چلا جائے اور ایام حج میں آ کر صرف حج کر لے ،  تو اس کا حج تمتع درست نہیں ہو گا۔ حج تمتع کے لئے گھر سے نکلنے کے بعد ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج ادا کرنا ضروری ہے۔

 

مسئلہ58: حج قران کا احرام باندھنے کے لئے قربانی کا جانور ساتھ لے جانا مسنون ہے۔

مسئلہ59: جو لوگ قربانی کا جانور مکہ ساتھ لے کر نہ جائیں ان کے لئے حج تمتع کا احرام باندھنا مسنون ہے۔

عَنْ اَسْمَاءَ بِنْتِ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ مُحْرِمِیْنِ فَقَالَ النَّبِیُّا (( مَنْ کَانَ مَعَہٗ  ہَدْیٌ فَلْیُقِمْ عَلَی اِحْرَامِہٖ وَمَنْ لَّمْ یَکُنْ مَّعَہٗ  ہَْدْیٌ فَلْیُحْلِلْ قَالَتْ فَلَمْ یَکُنْ مَعِیَ ہَدْیٌ فَاَحْلَلْتُ وَکَانَ مَعَ الزُّبَیْرِ ہَدْیٌ فَلَمْ یَحِلَّ )) رَوَاہُ اِبْنُ مَاجَۃ

(صحیح)

حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ  فرماتی ہیں کہ ہم حالت احرام میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ (حج کے لئے ) نکلے۔ نبی اکرمﷺ  نے فرمایا "جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے وہ (عمرہ ادا کرنے کے بعد) احرام میں ہی رہے اور جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں ہے وہ احرام اتار دے۔ "حضرت اسماءؓ  فرماتی ہیں ” میرے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا لہٰذا میں نے احرام کھول دیا۔” حضرت زبیرؓ (حضرت اسماءؓ کے شوہر) کے ساتھ قربانی کا جانور تھا اس لئے وہ احرام میں ہی رہے۔” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

عَنْ جَابِرٍؓ اَنَّ النِّبِیَّا سَاقَ ہَدْیًا فِیْ حَجِّہِ۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ حج میں اپنی قربانی مدینہ سے ساتھ لے کر گئے تھے۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : سعودی عرب کے مختلف شہروں میں حج سے ہفتہ عشرہ قبل قربانی کے لئے فروخت کئے جانے والے کوپن اگر اپنے شہر سے خرید کر مکہ مکرمہ کا سفر اختیار کیا جائے تو وہ قربانی کا بدل بن سکتا ہے اور حاجی حج قران کا احرام باندھ سکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

 

مسئلہ60: نبی اکرمؐ نے حج قران کا احرام باندھا تھا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ اَخْبِرْنِیْ اَبُّوْ طَلْحَۃ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَرْنَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃ۔ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ (صحیح)

حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ مجھے حضرت ابو طلحہؓ نے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے حج اور عمرہ ملا کر ادا کئے۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

عَنْ اَنَسٍؓ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّا یَقُوْلُ :لَبَّیْکَ بِعُمْرَۃ وَحَجَّۃ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ  (صحیح)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرمﷺ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "میں عمرے اور حج کے لئے حاضر ہوں۔” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ61: جو حاجی قربانی کا جانور اپنی رہائش گاہ سے مکہ لے جائے ،  وہ صرف حج قران ہی ادا کر سکتا ہے۔

مسئلہ62: حج تمتع کا احرام باندھنا افضل ہے۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّہَا قَالَتْ قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ لِاَرْبَعٍ مَضَیْنَ مِنْ ذِیْ الْحِجَّۃ اَوْ خَمْسٍ فَدَخَلَ عَلَیَّ وَہُوَ غَضْبَانُ فَقُلْتُ مَنْ اَغْضَبَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَدْخَلَہُ اللّٰہُ النَّارَ قَالَ (( اَوَمَا شَعَرْتِ اَنِّیْ اَمَرْتُ النَّاسَ بِاَمْرٍ فَاِذَا ہُمْ یَتَرَدَّدُوْنَ)) قَالَ الْحَکَمُ : کَاَنَّہُمْ یَتَرَدَّدُوْنَ اَحْسِبُ (( وَلَوْ اَنِّیْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ اَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْہَدْیَ مَعِیَ حَتّیٰ اَشْتَرِیَہُ ثُمَّ اَحِلُّ کَمَا حَلُّوْا ))رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ذی الحجہ کی چوتھی یا پانچویں تاریخ کو مکہ پہنچے اور غصہ کی حالت میں میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا "یا رسول اللہﷺ ! اللہ اس کو آگ میں ڈالے جس نے آپﷺ  کو غصہ دلا یا ہے ؟” رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا "تمہیں علم نہیں کہ میں نے لوگوں کو ایک بات کا حکم دیا ہے اور وہ اس کی تعمیل میں تردد کر رہے ہیں۔” (حدیث کے ایک راوی) حکم کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے رسولﷺ نے یوں فرمایا "گویا کہ لوگ تردد کرتے ہیں۔” پھر آپﷺ  نے ارشاد فرمایا "اگر میں پہلے سے وہ بات جانتا جو مجھے بعد میں معلوم ہوئی ہے تو قربانی کا جانور (مدینہ سے ) اپنے ساتھ نہ لاتا اور (یہیں مکہ سے )خرید لیتا پھر جس طرح لوگوں نے (عمرہ ادا کرنے کے بعد تمتع کے لئے ) احرام کھولا اسی طرح میں بھی کھول دیتا۔” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

فَسْخُ الْحَجِّ اِلَی الْعُمْرَۃ

 

                حج کی نیت کو عمرہ کی نیت میں بدلنا

 

مسئلہ63: میقات سے حج افراد یا حج قران کی نیت سے احرام باندھنے والا شخص،  مکہ مکرمہ پہنچنے سے پہلے یا مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد حج تمتع کرنا چاہے تو اپنی نیت بدل سکتا ہے اور حج کے احرام کو عمرہ کے احرام میں تبدیل کر سکتا ہے۔

مسئلہ64: اگر حج قران ادا کرنے والا شخص اپنے ساتھ قربانی کا جانور مکہ مکرمہ لے کر آیا ہو تو وہ حج کی نیت عمرہ میں تبدیل نہیں کر سکتا۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَدِمْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ مُہِلِّیْنَ بِالْحَجِّ فَاَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ اَنْ نَّجْعَلَہَا عُمْرَۃ وَنَحِلَّ قَالَ : وَکَانَ مَعَہُ الْہَدْیُ فَلَمْ یَسْتَطِعْ اَنْ یَّجْعَلَہَا عُمْرَۃ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کی لبیک پکارتے ہوئے (مکہ مکرمہ) آئے۔ ہمیں آپﷺ نے حکم دیا "اپنے حج کو عمرہ بنا لیں اور حلال ہو جائیں۔” راوی کہتے ہیں کہ چونکہ رسول اکرمﷺ  کے ساتھ قربانی کا جانور تھا (جو آپﷺ مدینہ سے اپنے ساتھ لائے تھے ) اس لئے آپﷺ اپنے حج (قران) کو عمرہ میں نہ بدل سکے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ65: میقات سے عمرہ کی نیت سے احرام باندھنے والے شخص کا عمرہ کی نیت کو حج کی نیت میں بدلنا سنت سے ثابت نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

أَحْکَامُ الْإِحْرَامِ

 

احرام کے مسائل

 

مسئلہ66: عمرہ یا حج کے لئے احرام باندھنا فرض ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر46/45 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ67: احرام کے لباس میں تہہ بند،  چادر اور ایسے جوتے (جو ٹخنوں سے نیچے تک ہوں ) شامل ہیں۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَدِیْثٍ لَہٗ  عَنِ النَّبِیِّا قَالَ (( وَلْیُحْرِمْ اَحَدَکُمْ فِیْ اَزَارٍ وَّرِدَاءٍ وَنَعْلَیْنِ فَاِنْ لَّمْ یَجِدْ نَعْلَیْنِ فَلْیَلْبَسْ خُفَّیْنِ وَلِیَقْطَعْہُمَا اَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ )) رَوَاہُ اَحْمَدُ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا "تمہیں تہہ بند،  چادر اور جوتوں میں احرام باندھنا چاہئے اگر جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لو لیکن انہیں ٹخنوں سے نیچے تک کاٹ لو۔” اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ68: اگر محرم کو احرام باندھنے کے لئے تہہ بند نہ مل سکے تو پائجامہ استعمال کر سکتا ہے اور اگر ٹخنوں سے نیچے تک کا جوتا نہ ملے تو عام جوتا بھی استعمال کر سکتا ہے۔

عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( مَنْ لَّمْ یَجِدْ نَعْلَیْنِ فَلْیَلْبَسْ خُفَّیْنِ وَمَنْ لَّمْ یَجِدْ اِزَارًا فَلْیَلْبَسْ سَرَاوِیْلَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابرؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا "جسے (احرام باندھنے کے لئے ) جوتے نہ ملیں وہ موزے پہن لے اور جسے تہہ بند نہ ملے وہ پائجامہ پہن لے۔” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ69: اگر محرم بھول کر یا لا علمی میں سلے ہوئے کپڑے پہن لے یا سر کپڑے سے ڈھانک لے یا خوشبو استعمال کر لے یا ناخن نوچ لے یا بال اکھاڑ لے تو اس پر کوئی فدیہ یا دم نہیں۔ البتہ یاد آتے ہی یا علم ہوتے ہی اس کام سے رک جانا ضروری ہے۔

 

عَنْ یَعْلیٰؓ قَالَ اَتَی النَّبِیَّا رَجُلٌ وَہُوَ بِالْجِعْرَانَۃ وَاَنَا عِنْدَ النَّبِیِّا وَعَلَیْہِ مُقَطَّعَاتٌ یَعْنِی جُبَّۃ وَہُوَ مُتَضَمِّخٌ بِالْخَلُوْقِ فَقَالَ اِنِّیْ اَحْرَمْتُ بِالْعُمْرَۃ وَعَلَیَّ ہٰذَا وَاَنَا مُتَضَمِّخٌ بِالْخَلُوْقِ فَقَالَ لَہٗ  النَّبِیَّا (( مَا کُنْتُ صَانِعًا فِیْ حَجِّکَ )) قَالَ : اَنْزِعُ عَنِّیْ ہٰذِہِ الثِّیَابَ وَاَغْسِلُ َنِّیْ ہٰذَا الْخَلُوْقَ فَقَالَ لَہٗ  النَّبِیُّا ((مَا کُنْتَ صَانِعًا فِیْ حَجِّکَ فَاصْنَعْہُ فِیْ عُمْرَتِکَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت یعلیؓ کہتے ہیں جب آپﷺ جعرانہ میں تھے تو ایک آدمی حاضر خدمت ہوا اور میں اس وقت آپﷺ کے پاس موجود تھا وہ سائل جبہ پہنے ہوئے تھا اور اس میں خوشبو لگی ہوئی تھی۔ اس نے عرض کیا "میں نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور میں نے یہ جبہ پہن رکھا ہے جس پر خوشبو لگی ہے۔” آپﷺ  نے اس سے دریافت فرمایا "(اگر تم حج کرنا چاہتے تو) حج میں کیا کرتے ؟” اس نے عرض کیا "میں یہ کپڑے اتار ڈالتا اور خوشبو دھو ڈالتا۔” آپﷺ نے فرمایا ” جو کچھ حج میں کرتے ہو وہی عمرے میں کرو۔” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ70: حالت حیض یا نفاس میں عمرہ یا حج کے لئے آنے والی خواتین کو بھی میقات سے احرام باندھنا چاہئے۔

مسئلہ71: اگر بیماری کا خوف نہ ہو،  تو حیض یا نفاس والی خواتین کو احرام باندھنے سے پہلے غسل کرنا چاہئے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر357 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ72: خواتین کا احرام وہی لباس ہے جو وہ عام زندگی میں استعمال کرتی ہیں ان کے لئے کوئی خاص لباس بنانا سنت سے ثابت نہیں۔

 

مسئلہ73: احرام باندھتے وقت خواتین کا سر کے بالوں کو باندھنا یا بال باندھنے کے لئے خصوصی کپڑا سلوانا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ74: احرام کے لئے رنگ دار کپڑوں کا استعمال جائز ہے لیکن سفید کپڑوں کا استعمال مستحب ہے۔

عَنْ سَمُرَۃؓ عَنِ النَّبِیِّا قَالَ (( الْبَسُوْا مِنْ ثِیَابِکُمُ الْبَیَاضَ فَاِنَّہَا اَطْہَرُ وَاَطْیَبُ وَکَفِّنُوْا فِیْہَا مَوْتَاکُمْ )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)

حضرت سمرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا "سفید کپڑے پہنا کرو، یہ سب سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے اور انہی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ:75 ایسی چادر جس پر خوشبو لگی ہو،  احرام کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں۔

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّہٗ  قَالَ نَہیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَنْ یَّلْبَسَ الْمُحْرِمُ ثَوْبًا مَصْبُوْغًا بِوَرْسٍ اَوْ زَعْفَرَانٍ۔ رَوَاہُ اِبْنِ مَاجَۃ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے احرام پہننے والے کوورس (رنگ کی ایک قسم) اور زعفران میں رنگی ہوئی چادریں استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ76: احرام باندھنے کے لئے غسل کرنا مسنون ہے۔

 

عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍؓ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّہ رَاْیَ النَّبِیَّا تَجَرَّدَ لِاَہْلاَلِہٖ وَاغْتَسَلَ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ نبی اکرمؐ احرام باندھنے کے لئے الگ ہوئے اور غسل فرمایا۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ77: احرام باندھنے سے قبل مردوں کا جسم پر خوشبو لگانا سنت ہے۔

 

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کُنْتُ اُطَیِّبُ رَسُوْلَ اللّٰہِ بِاَطْیَبِ مَا اَقْدِرُ عَلَیْہِ قَبْلَ اَنْ یُحْرِمَ ثُمَّ یُحْرِمُ۔ رَوَاہُ مُسْلِم

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہﷺ  کو احرام باندھنے سے قبل اچھی طرح خوشبو لگاتی تھی، پھر آپ احرام باندھتے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

2

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ صَلّیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ الظُّہْرَ بِذِی الْحُلَیْفَۃ ثُمَّ دَعَا بِنَاقَتِہِ فَاَشْعَرَہَا فِیْ صَفْحَۃ سَنَامِہَا الْاَیْمَنَ وَسَلَتَ الدَّمَ وَقَلَّدَہَا نَعْلَیْنِ ثُمَّ رَکِبَ رَاحِلَتَہٗ  فَلَمَّا اسْتَوَتْ بِہٖ عَلَی الْبَیْدَاءِ اَہَّلَ بِالْحَجِّ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے (ظہر کی) نماز ذوالحلیفہ میں ادا فرمائی اپنی (قربانی کی) اونٹنی طلب فرمائی، اس کی کوہان کی داہنی طرف ایک زخم لگایا، خون صاف کیا اور اس کے گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈالا،  پھر اپنی سواری (والی اونٹنی) پر سوار ہوئے، جب اونٹنی بیداء (مقام کا نام) پر سیدھی کھڑی ہوئی تو حج کے لئے تلبیہ پکارا۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ79: احرام باندھنے کے لئے دو نفل ادا کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ80: احرام باندھنے سے پہلے حج اور عمرہ دونوں کی نیت کرنے کے لئے درج ذیل الفاظ کہنا مسنون ہے۔

عَنْ اَنَسٍؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یُلَبِّیْ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَۃ جَمِیْعًا یَقُوْلُ: لَبَّیْکَ عُمْرَۃ وَحَجًّا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو حج اور عمرہ دونوں کے لئے تلبیہ پکارتے سنا ہے۔ آپ فرماتے تھے "لَبَّیْکَ عُمْرَۃ وَ حَجًّا۔” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ81: طواف عمرہ میں احرام کی چادر دائیں کندھے سے نکال کر بائیں پر ڈالنا مسنون ہے۔اسے اضطباع کہتے ہیں۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر158/149 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ28: احرام کی حالت اضطباع صرف طواف عمرہ کے لئے مخصوص ہے۔عام حالات میں خصوصاً نماز کے وقت دونوں کندھے احرام کی چادر سے ڈھانکنے ضروری ہیں۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ ا:لاَ یُصَلِّی اَحَدُکُمْ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَیْسَ عَلَی عَاتِقَیْہِ شَیْءٌ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندوں پر کوئی چیز نہ ہو۔” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ83: احرام باندھنے کے بعد تلبیہ کہنا مسنون ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر123 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ84: میقات سے قبل احرام باندھنا جائز ہے لیکن میقات پر پہنچ کر باندھنا افضل ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر49کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ85: میقات سے پہلے احرام باندھنے کی صورت میں احرام کی نیت اور تلبیہ میقات پر پہنچ کر کہنا شروع کرنا چاہئے۔

عَنْ عُمْرَ بْنِ خَطَّابَؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ(( اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ))۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عمر بن خطابؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے ” اعمال (کے اجر و ثواب) کا دارومدار نیتوں پر ہے۔” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

وضاحت:  احرام کی پابندیاں وہیں سے شروع ہوں گی جہاں سے احرام کی نیت کی جائے گی۔

 

مسئلہ86: احرام باندھنے کے بعد کوئی رکاوٹ پیش آ جانے کی وجہ سے عمرہ یا حج ادا نہ کر سکنے کی صورت میں حاجی یا معتمر (عمرہ کرنے والا) کو ایک جانور ذبح کر کے احرام کھول دینا چاہئے۔

 

وضاحت: حدیث مسئلہ نمبر121 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ87: اگر کسی شخص کو بیماری یا سر کی تکلیف کے باعث یوم نحر سے قبل احرام کھولنا پڑے تو تین روزے رکھنے چاہئیں یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا چاہئے یا ایک بکری ذبح کرنی چاہئے۔

 

وضاحت: حدیث مسئلہ نمبر21 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ88: اگر کسی شخص کو بیماری وغیرہ کا خوف ہو اور وہ احرام باندھتے وقت یہ نیت کر لے کہ اگر بیماری بڑھ گئی تو میں وہیں احرام کھول دوں گا تو ایسے شخص پر حج یا عمرہ ادا کرنے سے قبل احرام کھولنے پر کوئی فدیہ یا دم نہیں ہو گا۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلَی ضُبَاعَۃ بِنْتِ الزُّبَیْرِ فَقَالَ لَہَا اَرَدْتِ الْحَجَّ ؟ قَالَتْ وَاللّٰہِ مَا اَجِدُنِیْ اِلآَ وَجِعَۃ فَقَالَ لَہَا (( حُجِّیْ وَاشْتَرِطِیْ وَقُوْلِیْ اَللّٰہُمَّ مَحِلِّیْ حَیْثُ حَبَسْتَنِیْ )) وَکَانَتْ تَحْتَ الْمِقْدَادِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ضباعہ بنت زبیرؓ ،  جو کہ حضرت مقدادؓ کے نکاح میں تھیں ،  کے ہاں تشریف لائے اور پوچھا "کیا تم نے حج کا ارادہ کیا ہے ؟ "انہوں نے کہا "اللہ کی قسم! میں اکثر بیمار ہو جاتی ہوں۔” آپﷺ نے ارشاد فرمایا "حج کرو،  لیکن (احرام باندھتے وقت) یہ شرط کر لو "اے اللہ! جہاں تو نے مجھے روک دیا،  میں وہیں احرام کھول دوں گی۔” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ89: حج یا عمرہ ادا کرنے والے عالم یا بزرگ کی رفاقت حاصل کرنے کے لئے احرام باندھتے وقت اگر یہ نیت کی جائے کہ جو "احرام فلاں کا وہی میرا” تو یہ جائز ہے۔

عَنْ اَنَسٍؓ قَالَ قَدِمَ عَلِیٌّؓ عَلَی النَّبِیِّا مِنَ الْیَمَنِ فَقَالَ (( بِمَ اَہْلَلْتَ یَا عَلِیُّ؟)) قَالَ اَہْلَلْتُ کَاِہْلاَلِ النَّبِیِّا قَالَ ((لَوْلاَ اَنَّ مَعِیَ الْہَدْیِ لَاَحْلَلْتُ))مَتَفَقٌّ عَلَیْہِ

حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ (یمن سے ) رسول اللہﷺ کی خدمت میں (حالت احرام میں ) حاضر ہوئے۔ آپﷺ  نے پوچھا "تم نے کس نیت سے احرام باندھا ہے ؟” حضرت علیؓ نے عرض کیا ” میں نے آپﷺ  کے احرام کی مانند احرام باندھا ہے۔” رسول اللہﷺ نے فرمایا "اگر میرے پاس قربانی کا جانور نہ ہوتا تو میں (عمرہ ادا کرنے کے بعد) حلال ہو جاتا۔” اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

مُبَاحَاتُ الْإِحْرَامِ

 

                حالت احرام میں جائز امور

 

مسئلہ90: احرام کی حالت میں سر دھونا،  سر ملنا اور غسل کرنا جائز ہے۔

 

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ وَالْمِسْوَرَ بْنِ مَخْرَمَۃث اَنَّہُمَا اخْتَلَفَا بْالْاَبْوَاءِ فَقَالَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ یَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَاْسَہُ وَقَالَ الْمِسْوَرُ لاَ یَغْسِلُ الْمُجْرِمُ رَاْسَہُ فَاَرْسَلَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ اِلَی اَبِیْ اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیِّ اَسْاَلُہُ عَنْ ذٰلِکَ فَوَجَدْتُّہٗ  یَغْتَسِلُ بَیْنَ الْقَرْنَیْنِ وَہُوَ یَسْتَتِرُ بِثُوْبٍ قَالَ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَقَالَ مَنْ ہٰذَا ؟ فَقُلْتُ اَنَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ حُنَیْنٍ اَرْسَلَنِیْ اِلَیْکَ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ عَبَّاسٍ اَسْاَلُکَ کَیْفَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَغْسِلُ رَاْسَہُ وَہُوَ مُحْرِمٌ ؟ فَوَضَعَ اَبُوْ اَیُّوْبَ (ص)یَدَہُ عَلَی الثَّوْبِ فَطَاْطَاَہُ حَتّیٰ بَدَالِیْ رَاْسُہٗ  ثُمَّ قَالَ لِاِنْسَانٍ یَصُبُّ اصْبُبْ فَصَبَّ عَلَی رَاْسِہٖ ثُمَّ حَرَّکَ رَاْسَہُ بِیَدَیْہِ فَاَقْبَلَ بِہِمَا وَاَدْبَرَ ثُمَّ قَالَ ہٰکَذَا رَاَیْتُہٗ ا یَفْعَلُ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہؓ  میں ابواء کے مقام پر تکرار ہوئی حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  کہتے تھے کہ محرم سر دھو سکتا ہے اور حضرت مسورؓ کہتے تھے کہ نہیں دھو سکتا۔ حضرت مسور بن مخرمہؓ نے کہا کہ مجھے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  نے حضرت ابو ایوبؓ کے پاس بھیجا کہ ان سے یہ مسئلہ پوچھوں۔ میں نے ان کو کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے پایا وہ ایک کپڑے سے پردہ کئے ہوئے تھے۔ میں نے السلام علیکم کہا، تو انہوں نے پوچھا "کون ہے ؟” میں نے کہا "میں عبد اللہ بن حنین ہوں، اور عبد اللہ ابن عباسؓ  نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے کہ آپ سے پوچھوں کہ رسول اکرمﷺ احرام میں کیونکر سردھوتے تھے ؟” حضرت ابو ایوبؓ نے اپنے دونوں ہاتھ کپڑے پر رکھے اور سر جھکایا یہاں تک کہ مجھے نظر آیا اور اس آدمی سے کہا جو ان پر پانی ڈالتا تھا کہ پانی ڈالو پھر انہوں نے سر کو ہلایا اور اپنے ہاتھ سے آگے پیچھے ملا۔ پھر انہوں نے کہا ” میں نے نبی اکرمﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔ "اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : ہاتھ منہ صاف کرنے یا غسل کرنے کے لئے ایسا صابن استعمال کیا جا سکتا ہے جس میں خوشبو نہ ہو۔

 

مسئلہ91: حالت احرام میں آنکھوں کے علاج کے لئے سرمہ یا کوئی دوا ڈالنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں خوشبو نہ ہو۔

 

عَنْ عُثْمَانَؓ حَدَّثَ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ فِیْ الرَّجُلِ اِذَا اشْتَکیٰ عَیْنَیْہِ وَہُوَ مُحْرِمٌ ضَمَّدَہُمَا بِالصَّبْرِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے حالت احرام میں جس کی آنکھیں دکھتی ہوں اس کے بارے میں ارشاد فرمایا "کہ وہ اپنی آنکھوں پر ایلوے (دوا کا نام) کا لیپ کرے۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

قَالَ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَکْتَحِلِ الْمُحْرِمُ بِاَیِّ کُحْلٍ اِذَا رَمَدَ مَا لَمْ یَکْتَحِلِ بِطِیْبٍ وَمِنْ غَیْرِ رَمَدٍ۔ ذَکَرَہُ فِیْ فِقَۃ السُّنَّۃ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  فرماتے ہیں محرم جو سرمہ چاہے استعمال کر سکتا ہے خواہ آنکھیں دکھتی ہوں یا نہ دکھتی ہوں بشرطیکہ سرمہ میں خوشبو نہ ہو۔ یہ روایت فقہ السنہ میں ہے

 

مسئلہ92: حالت احرام میں علاج کے طور پر جسم کے کسی حصہ سے خون نکلوانا اور مرہم پٹی کروانا جائز ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا احْتَجَمَ وَہُوَ مُحْرِمٌ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حالت احرام میں پچھنے لگوائے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ93: حالت احرام میں ایسا تیل اور صابن استعمال کرنا جائز ہے جس میں خوشبو نہ ہو۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا اَنَّہُ ادَّہَنَ بِزَیْتٍ غَیْرِ مُقَتَّتٍ وَہُوَ مُحْرِمٌ۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حالت احرام میں ایسا تیل استعمال کیا جس میں خوشبو نہیں تھی۔ ” اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ94: حالت احرام میں خوشبو دار پھول سونگھنا جائز ہے۔

مسئلہ95: حالت احرام میں انگوٹھی،  پیٹی،  عینک اور گھڑی وغیرہ استعمال کرنا جائز ہے۔

مسئلہ96: کھائی اور پی جانے والی ادویات کے ذریعے حالت احرام میں علاج کرنا جائز ہے۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَشَمُّ الْمُحْرِمُ الرَّیْحَانَ وَیَنْظُرُ فِیْ الْمِرْاَۃ وَیَتَدَاوَی بِمَا یَاکُلُ الزَّیْتَ وَالسَّمْنَ وَقَالَ عَطَاءٌ یَتَخَتَّمُ وَیَلْبَسُ الْہِمْیَانَ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  فرماتے ہیں محرم ریحان (پھول) سونگھ سکتا ہے، آئینہ دیکھ سکتا ہے اور جن چیزوں کو کھا سکتا ہے مثلاً تیل اور گھی (وغیرہ) ان کو دوا کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ حضرت عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں محرم انگوٹھی پہن سکتا ہے اور پیٹی باندھ سکتا ہے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ97: حالت احرام میں سر اور بدن کھجلانا جائز ہے۔

 

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا سُئِلَتْ عَنِ الْمُحْرِمِ یُحِکُّ جَسَدَہٗ  قَالَتْ نَعَمْ فَلْیُحَکِّکْہُ وَ الْیُشَدِّدُ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عائشہؓ  سے پوچھا گیا "کیا محرم بدن کھجلا سکتا ہے ؟ "کہا "ہاں بلکہ زور سے کھجلائے۔” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ98: حالت احرام میں خیمہ،  چھت یا چھتری سے سر پر سایہ کرنا جائز ہے۔

 

عَنْ اُمِّ الْحُصَیْنِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : حَجَجْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَجَّۃ الْوَدَاعِ فَرَأَیْتُ اُسَامَۃ وَ بِلاَ لاً وَ اَحَدَہُمَا اٰخِذٌ بِخِطَامِ نَاقَۃ النَّبِیِّا وَالْآخِرُ رَافِعٌ ثَوْبَۃ یَسْتُرُہٗ  مِنَ الْحَرِّ حَتّیٰ رَمیٰ جَمْرَۃ الْعَقَبَۃ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ام حصینؓ  کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ہمراہ حج ادا کیا، تو میں نے حضرت اسامہ بن زیدؓ اور بلالؓ کو دیکھا کہ ان میں سے ایک نے نبی اکرمﷺ کی اونٹنی کی مہار پکڑی ہوئی تھی اور دوسرے نے اپنے کپڑے سے آپﷺ پر سایہ کیا ہوا تھا تا کہ آپ کو گرمی سے بچائے، یہاں تک کہ آپﷺ  نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ99: محرم احرام کی چادریں دھو سکتا ہے اگر تبدیل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر69کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ100: عورت حالت احرام میں زیور استعمال کر سکتی ہے نیز رنگین کپڑے بھی پہن سکتی ہے۔

 

وَلَمْ تَرَ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بَأْسًا بِالْحُلِیِّ وَالثَّوْبِ الْأَسْوَدِ وَالْمُوَرَّدِ وَالْخُفِّ لِلْمَرْأَۃ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عائشہؓ  کے نزدیک عورت کے لئے حالت احرام میں زیور پہننے، سیاہ اور گلابی رنگ کا کپڑا پہننے اور موزے پہننے میں کوئی حرج نہیں۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ101: حالت احرام میں بچے یا نوکر کو علم و ادب سکھانے کے لئے سرزنش کرنا جائز ہے۔

 

عَنْ اَسْمَاءَ بِنْتِ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حُجَّاجًا حَتّیٰ اِذَا کُنَّا بِالْعَرْجِ نَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ نَزَلْنَا فَجَلَسَتْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اِلیٰ جَنْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَ جَلَسْتُ اِلیٰ جَنْبِ اَبِیْ وَ کَانَتْ زِمَالَۃ اَبِیْ بَکْرٍ وَ زِمَالَۃ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَاحِدَۃ مَعَ غُلاَمٍ لِاَبِیْ بَکْرِ فَجَلَسَ اَبُوْ بَکْرٍ یَنْتَظِرُ اَنْ یَطْلُعَ عَلَیْہِ فَطَلَعَ وَ لَیْسَ مَعَہٗ  بَعِیْرُہٗ  قَالَ اَیْنَ بَعِیْرُکَ ؟ قَالَ اَضْلَلْتُہُ الْبَارِحَۃ قَالَ : فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍؓ بَعِیْرٌ وَاحِدٌ تُضِلُّہٗ  قَالَ فَطَفَقَ یَضْرِبُہٗ  وَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَتَبَسَّمُ وَ یَقُوْلُ (( اُنْظُرُوْا اِلیٰ ہٰذَا الْمُحْرِمِ مَا یَصْنَعُ؟)) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗ دَ  (حسن)

حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ  سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اکرمﷺ کے ساتھ حج کے لئے نکلے جب ہم عرج (کے مقام پر) پہنچے تو رسول اللہﷺ اور ہم سب نے پڑاؤ ڈالا۔ حضرت عائشہؓ  نبی اکرمﷺ کے قریب اور میں اپنے والد (حضرت ابو بکر صدیقؓ ) کے پاس بیٹھ گئی۔ حضرت ابو بکرؓ اور رسول اللہﷺ کا سامان ایک ہی اونٹنی پر تھا اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کا غلام بھی (سامان کی نگرانی کے لئے ) ساتھ تھا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ (عرج کے مقام پر) بیٹھ کر غلام کا انتظار کرنے لگے۔ جب وہ آیا، تو اس کے ساتھ اونٹ نہیں تھا۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے پوچھا "اونٹ کہاں ہے ؟” غلام نے عرض کیا "وہ تو گزشتہ رات مجھ سے گم ہو گیا۔”حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا”ایک ہی تو اونٹ تھا اسی کو تم نے گم کر دیا”اور غلام کو مارنے لگے۔ نبی اکرمﷺ (دیکھ کر) مسکرائے اور فرمایا "اس محرم کی طرف دیکھو یہ کیا کر رہا ہے۔” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ102: حالت احرام میں سمندری جانور کا شکار کرنا،  اس کی خرید و فروخت کرنا اور اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر27 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ103: حالت احرام میں سانپ،  بچھو،  کوا،  چیل اور کاٹنے والا کتا اور دیگر درندے مثلاً شیر،  چیتا وغیرہ کو حرم میں بھی مارنا جائز ہے۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّا اَنَّہٗ  قَالَ (( خَمْسٌ فَوَاسِقُ یُقْتَلْنَ فِی الْحِلِّ وَالْحَرَمِ : الْحَیَّۃ وَالْغُرَابُ الْأَبْقَعُ وَالْفَأْرَۃ وَالْکَلْبُ الْعَقُوْرُ وَالْحُدَیَّا)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا "پانچ موذی جانوروں کو حل یا حرم میں ہر کہیں مارا جائے، سانپ، چتکبرا کوا، چوہا، کاٹنے والا کتا اور چیل۔” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ104: حالت احرام میں مچھر، مکھی، جوں، کاٹنے والی چیونٹی وغیرہ کو بھی مارا جا سکتا ہے۔

عَنْ عَطَاءٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ اَنَّ رَجُلاً سَأَلَہٗ  عَنِ الْقِرَدَۃ تَدُّبُ عَلَیْہِ وَ ہُوَ مُحْرِمٌ فَقَالَ :أَلْقِ عَنْکَ مَالَیْسَ مِنْکَ۔ ذَکَرَہٗ  فِیْ فِقْہِ السُّنَّۃ

حضرت عطاء رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے سوال کیا "محرم پر اگر پسو یا چیونٹی چلنے لگے تو کیا حکم ہے ؟” انہوں نے کہا "جو چیز تجھ سے نہیں اسے اتار پھینک۔” یہ روایت فقہ السنہ میں ہے۔

 

مسئلہ105: بوقت ضرورت محرم اپنے ساتھ ہتھیا ر رکھ سکتا ہے۔

 

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍؓ قَالَ إِعْتَمَرَ النَّبِیُّا فِیْ ذِی الْقَعْدَۃ فَأَبیٰ أَہْلُ مَکَّۃ أَنْ یَدَعُوْہُ یَدْخُلُ مَکَّۃ حَتّیٰ قَاضَاہُمْ عَلیٰ اَنْ لاَ یَدْخُلُ مَکَّۃ سِلاَحٌ اِلآَ فِی الْقِرَابِ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ذوالقعدہ میں عمرہ کرنے کے لئے (مدینہ سے مکہ) تشریف لائے (حدیبیہ کے مقام پر) اہل مکہ نے نبی اکرمﷺ  کو مکہ میں آنے سے روک دیا یہاں تک کہ نبی اکرمﷺ نے اہل مکہ سے اس بات پر صلح کر لی کہ رسول اکرمﷺ (اگلے سال) مکہ (عمرۃ القضاہ کے لئے ) تشریف لائیں گے اور ان کی تلواریں میانوں میں ہوں گی۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

مَمْنُوْعَاتُ الْإِحْرَامِ

 

حالت احرام میں ممنوع امور

 

مسئلہ106: حالت احرام میں درج ذیل چیزوں کا استعمال نا جائز ہے۔

 

سلا ہوا کپڑا پہننا (مردوں کے لئے )

سر پر پگڑی،  ٹوپی یا کپڑا اوڑھنا (مردوں کے لئے )

موزے ،  جرابیں یا ایسا جوتا پہننا جو ٹخنوں سے اونچا ہو (مردوں کے لئے )۔

جسم یا احرام کے کپڑوں پر خوشبو لگانا (عورتوں اور مردوں کے لئے )۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَجُلاً قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا یَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّیَابِ ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( لاَ یَلْبَسُ الْقُمُصَ وَلاَ الْعَمَائِمَ وَ لَا السَّرَاوِیْلاَتِ وَلاَ الْبَرَانِسَ وَ لاَ الْخِفَافَ الِآَ أَحَدٌ لاَ یَجِدُ نَعْلَیْنِ فَلْیَلْبَسْ خُفَّیْنِ وَلْیَقْطَعْہُمَا اَسْفَلُ مِنَ الْکَعْبَیْنِ وَلاَ تَلْبَسُوْا مِنَ الثِّیَابِ شَیْئًا مَسَّہٗ  زَعْفَرَانٌ اَوْ وَرْسٌ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا "یا رسول اللہؐ ! محرم کون سے کپڑے پہنے؟” آپﷺ نے ارشاد فرمایا "قمیص، پگڑی، پائجامہ اور کوٹ نہ پہنے نہ ہی موزے پہنے، ہاں البتہ جسے جوتیاں نہ ملیں وہ موزے ٹخنوں تک کاٹ کر پہن لے نیز زعفران یا ورس (یا کوئی بھی خوشبو) لگا ہوا کپڑا بھی استعمال نہ کرے۔” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ107: احرام پہننے کے بعد احرام کی چادروں یا جسم پر خوشبو لگانا منع ہے۔

مسئلہ108: محرم اگر فوت ہو جائے تب بھی اسے خوشبو نہیں لگانی چاہئے نہ ہی اس کا سر ڈھانپنا چاہئے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَجُلاً کَانَ مَعَ النَّبِیِّا فَوَقَصَتْہُ نَاقَتُہٗ  وَہُوَ مُحْرِمٌ فَمَاتَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( اِغْسِلُوْہُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَکَفِّنُوْہُ فِیْ ثَوْبَیْہِ وَلاَ تَمَسُّوْہُ بَطِیْبٍ وَّلاَ تُخَمِّرُوْ رَاْسَہُ فَاِنَّہُ یُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃ مُلَبِّیًا)) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) ایک آدمی حالت احرام میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھا اس کی اونٹنی نے اسے (گرا کر) اس کی گردن توڑ دی اور وہ فوت ہو گیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا "اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور (احرام کے ) دونوں کپڑوں میں اسے کفن دو،  اسے خوشبو نہ لگاؤ،  نہ ہی اس کا سر ڈھانپو۔ یہ قیامت کے دن تلبیہ کہتے ہوئے اٹھے گا۔ ” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ109: محرم نہ نکاح کر سکتا ہے نہ کراسکتا ہے نہ ہی نکاح کا پیغام بھیج سکتا ہے۔

 

عَنْ اَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَؓ یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( لاَ یَنْکِحَ الْمُحْرِمُ وَلاَ یُنْکَحُ وَلاَ یَخْطُبُ)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابانؓ کہتے ہیں میں نے حضرت عثمانؓ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا "محرم نکاح کرے نہ کروائے اور نہ ہی نکاح کا پیغام بھیجے۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ110: احرام کی حالت میں خشکی کے جانور کا شکار کرنا اور ذبح کرنا دونوں منع ہیں۔

مسئلہ111: احرام کی حالت میں کسی شکاری کی مدد کرنا بھی منع ہے۔

مسئلہ112: اگر کوئی شخص حالت احرام میں نہ ہو اور وہ اپنے لئے از خود شکار کرے تو محرم کے لئے کھانا جائز ہے لیکن اگر وہ محرم کو دینے کی نیت سے شکار کیا گیا ہو تو پھر محرم کے لئے کھانا جائز نہیں۔

عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ خَرَجَ حَاجًّا وَخَرَجْنَا مَعَہٗ  قَالَ فَصَرَفَ مِنْ اَصْحَابِہٖ فِیْہِمْ اَبُوْ قَتَادَۃؓ فَقَالَ ((خُذُواْ سَاحِلَ الْبَحْرِ حَتّیٰ تَلْقُوْنِیْ )) قَالَ فَاَخُذُوْا سَاحِلَ الْبَحْرِ فَلَمَّا انْصَرَفُوْا قِبَلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اَحْرَمُوْا کُلُّہُمْ اِلآَ اَبَا قَتَادَۃ فَاِنَّہٗ  لَمْ یُحْرِمْ فَبَیْنَمَا ہُمْ یَسِیْرُوْنَ اِذْ رَاَوْا حُمُرَ وَحْشٍ فَحَمَلَ عَلَیْہَا اَبُوْ قَتَادَۃ فَعَقَرَ مِنْہَا اَتَانًا فَنَزَلُوْا فَاَکَلُوْا مِنْ لَحْمِہَا قَالَ فَقَالُوْا اَکَلْنَا لَحْمًا وَّنَحْنُ مُحْرِمُوْنَ قَالَ فَحَمَلُوْا مَا بَقِیَ مِنْ لَحْمٍ الْاَتَانِ فَلَمَّا اَتَوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا کُنَّا اَحْرَمْنَا وَکَانَ اَبُوْ قَتَادَۃؓ لَمْ یُحْرِمْ فَرَاَیْنَا حُمُرَ وَحْشٍ فَحَمَلَ عَلَیْہَا اَبُوْ قَتَادَۃؓ فَعَقَرَ مِنْہَا اَتَانًا فَنَزَلْنَا فَاَکَلْنَا مِنْ لَحْمِہَا فَقُلْنَا نَاکُلُ لَحْمَ صَیْدٍ وَّنَحْنُ مُحْرِمُوْنَ فَحَمَلْنَا مَا بَقِیَ مِنْ لَحْمِہَا فَقَالَ (( ہَلْ مِنْکُمْ اَحَدٌ اَمَرَہُ اَوْ اَشَارَ اِلَیْہِ بِشَیْءٍ؟)) قَالَ : قَالُوْا لاَ، قَالَ (( فَکُلُوْا مَا بَقِیَ مِنْ لَحْمِہَا ))۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابو قتادہؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ مدینہ سے حج کے لیے نکلے اور ہم بھی آپﷺ  کے ساتھ نکلے۔ حضرت ابو قتادہؓ نے کہا کہ آپﷺ  نے اور راہ لی اور اپنے صحابہؓ  میں سے بعض کو فرمایا "تم ساحل سمندر کی راہ لو حتی کہ مجھ سے آ ملو۔ ” انہی میں حضرت ابو قتادہؓ بھی تھے۔ ان لوگوں نے ساحل بحر کی راہ لی۔ پھر جب وہ رسول اکرمﷺ  کے پاس پہنچے تو انہوں نے احرام باندھ لئے سوائے حضرت ابو قتادہؓ کے انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا وہ چلے جا رہے تھے کہ انہوں نے راستہ میں وحشی گدھوں کو دیکھا۔ حضرت ابو قتادہؓ نے ان پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک گدھی کی کونچیں کاٹ دیں چنانچہ سب نے ایک جگہ پڑاؤ کیا،  اس کا گوشت کھایا پھر انہوں نے (آپس میں ) کہا کہ ہم نے گوشت کھایا حالانکہ ہم محرم تھے۔ اس کا باقی گوشت ساتھ لے لیا۔ پھر جب رسول اکرمﷺ کے پاس پہنچے تو عرض کیا "یا رسول اللہ (ﷺ !) ہم نے احرام باندھ لیا تھا لیکن حضرت ابو قتادہؓ نے نہیں باندھا تھا پھر ہم نے چند وحشی گدھے دیکھے اور حضرت ابو قتادہؓ نے ان پر حملہ کر کے ایک کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ ہم نے پڑاؤ ڈالا اور سب نے اس کا گوشت کھایا۔ پھر ہم نے کہا کہ ہم شکار کا گوشت کھا رہے ہیں حالانکہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں اور اس کا باقی گوشت ہم لے آئے ہیں۔ آپؐ نے فرما یا "کسی نے تم میں سے اس کا اسے حکم دیا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟” تو انہوں نے عرض کیا "نہیں !” آپﷺ  نے فرمایا "اس کا جو گوشت باقی ہے وہ بھی کھا لو۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَامَۃؓ اَنَّہٗ  اَہْدیٰ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ حِمَارًا وَحَشِیًّا وَہُوَ بِالْاَبْوَاءِ اَوْ بَوِدَّانِ فَرَدُّہُ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ فَلَمَّا اَنْ رَاَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا فِیْ وَجْہِیْ قَالَ :اِنَّا لَمْ نَرُدَّہُ عَلَیْکَ اِلآَ اَنَّا حُرُمٌ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت صعب بن جثامہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرمﷺ کو ایک جنگلی گدھا (شکار کر کے ) ہدیہ پیش کیا۔ اس وقت آپﷺ وادی ابواء یا ودان میں تھے۔ رسول اللہﷺ نے ہدیہ واپس لوٹا دیا لیکن جب آپﷺ  نے صعبؓ کے چہرے پر ملال دیکھا تو فرمایا ہم نے یہ ہدیہ صرف اس لئے لوٹایا ہے کہ ہم احرام میں ہیں۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ113: محرم عورت کے لیے چہرہ کا پردہ کرنا منع ہے البتہ بوقت ضرورت چہرے کو چھپانے کے لئے عورت چادر یا اوڑھنی وغیرہ استعمال کر سکتی ہے اگر اوڑھنی چہرے کو چھوئے تو کوئی حرج نہیں۔

مسئلہ114: محرم عورت کے لئے دستانے پہننا منع ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا قَالَ (( وَلاَ تَنَقَّبِ الْمَرْاَۃ الْحَرَامُ وَلاَ تَلْبَسِ الْقُفَّازِیْنَ)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے فرمایا "احرام والی عورت نقاب اور دستانے استعمال نہ کرے۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ مُحْرِمَاتٌ فَاِذَا حَاذَوْ بِنَا سَدَلَتْ اِحْدَانَا جِلْبَابَہَا مِنْ رَاسِہَا عَلَی وَجْہِہَا فَاِذَا حَاذَوْنَا کَشَفْنَاہُ۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَاَبُوْ دَاؤُدَ وَاِبْنُ مَاجَۃ

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ  کے ساتھ حالت احرام میں تھیں اور قافلے ہمارے سامنے سے گزرتے تھے جب وہ سامنے آتے تو ہم اپنی چادریں منہ پر لٹکا لیتیں اور جب وہ گزر جاتے ،  تو منہ کھول لیتیں۔ اسے احمد،  ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ115: حالت احرام میں جنسی افعال یا گفتگو،  لڑائی جھگڑا یا کوئی نافرمانی کا کام کرنا منع ہے۔

 

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ قَالَ النَّبِیُّا (( مَنْ حَجَّ ہٰذَا الْبَیْتَ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ اُمُّہٗ  )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے اللہ (کی رضا) کے لئے حج کیا اور اس میں کوئی جنسی بات یا جنسی عمل نہیں کیا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی وہ (حج کے بعد اسی طرح گناہوں سے پاک ہو کر) اس دن کی طرح گھر واپس آتا ہے جس دن اس کی ماں نے اسے (گناہوں سے پاک) جنا تھا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ116: حالت احرام میں شکار کرنے یا کھانے کا فدیہ ایک دنبے کی قربانی دینا ہے۔

 

عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِیْ الضَّبُعِ یُصِیْبُہُ الْمُحْرِمُ کَبْشًا وَجَعَلَہُ مِنَ الصَّیْدِ۔ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ (صحیح)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ  نے حالت احرام میں بجو (یا گوہ )کا شکار کرنے پر ایک دنبے کی قربانی فدیہ مقرر فرمایا ہے اور اسے شکار قرار دیا ہے۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ117: حالت احرام میں بال کاٹنا،  سر منڈانا یا ناخن کاٹنا منع ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر21 کے تحت سورہ بقرہ کی آیت 196ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ118: حالت احرام میں بیوی سے صحبت کرنا منع ہے ایسا کرنے پر حج باطل ہو جاتا ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر122کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

اَلْفِدْیَۃ

 

فدیہ کے مسائل

 

 

مسئلہ119: حاجی یا معتمر(عمرہ کرنے والا) ممنوعات احرام میں سے کوئی کام کرے، تو اس پر ایک قربانی اگر یہ ممکن نہ ہو تو چھ مسکینوں کا کھانا اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو تین دن کے روزوں کا فدیہ ادا کرنا ضروری ہے۔

مسئلہ120: بیماری یا سر کی تکلیف کے باعث یوم نحر سے قبل احرام کھولنا پڑے تو مذکورہ فدیہ ادا کرنا ہو گا۔

عَنْ عَبْدَاللّٰہِ بْنِ مَعْقِلٍؓ قَالَ قَعَدْتُ اِلیٰ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃؓ فِیْ ہٰذَا الْمَسْجِدِ یَعْنِیْ مَسْجِدَ الْکُوْفَۃ فَسَاَلْتُہٗ  عَنْ فِدْیَۃ مِّنْ صِیَامٍ فَقَالَ حُمِلْتُ اِلَی النَّبِیِّا وَالْقُمَّلُ یَتَنَاثَرُ عَلَی وَجْہِیْ فَقَالَ (( مَا کُنْتُ اُرَی اَنَّ الْجَہْدَ قَدْ بَلَغَ بِکَ ہٰذَا اَمَا تَجِدُ شَاۃ)) قُلْتُ : لاَ قَالَ (( صُمْ ثَلاَثَۃ اَیَّامِ اَوْ اَطْعِمْ سِتَّۃ مَسَاکِیْنَ لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ طَعَامٍ وَاحْلِقْ رَاْسَکَ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن معقلؓ کہتے ہیں میں حضرت کعب بن عجرہؓ کے پاس کوفہ کی اس مسجد میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے ان سے روزے کے فدیہ کے بارے میں سوال کیا (کہ یہ کتنا ہونا چاہئے اس پر) انہوں نے بتایا کہ (حالت احرام میں ) مجھے نبی اکرمﷺ  کے پاس لے جایا گیا اس حال میں کہ جوئیں (کثرت کی وجہ سے ) میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا "میرا خیال نہیں تھا کہ تمہیں اتنی زیادہ تکلیف ہو گی،  اچھا بتاؤ ایک بکری ذبح کرنے کی استطاعت رکھتے ہو؟” میں نے عرض کیا "نہیں !) آپﷺ  نے ارشاد فرمایا ” تو پھر تین روزے رکھ لو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ (یا) ہر مسکین کو ایک وقت کے کھانے کے عوض نصف صاع (1 1/4 کلو گرام) غلہ یا اس کی قیمت دے دو اور اپنا سر منڈوا لو۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ121: احرام باندھنے کے بعد کسی رکاوٹ کے باعث حج یا عمرہ ادا نہ کر سکنے کی صورت میں حاجی یا معتمر کو ایک جانور ذبح کر کے احرام کھول دینا چاہئے۔

عَنْ نَافِعٍ اَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا خَرَجَ مُعْتَمِرًا فِیْ الْفِتْنَۃ فَقَالَ اِنْ صُدِدْتُ عَنِ الْبَیْتِ صَنَعْنَا کَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَاَہَلَّ بِعُمْرَۃ مِنْ اَجْلِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کَانَ اَہَلَّ بِعُمْرَۃ عَامَ الْحُدَیْبِیَۃ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  فتنوں کے زمانہ میں عمرہ کے لئے نکلے تو کہنے لگے "اگر میں خانہ کعبہ پہنچنے سے روک دیا گیا تو وہی کروں گا جو ہم نے آپﷺ کے زمانے میں کیا تھا۔ ” (یعنی کفار مکہ کے روکنے پر رسول اللہﷺ نے جانور قربان کر کے احرام کھولنے کا حکم دے دیا تھا) چنانچہ انہوں نے عمرہ کا احرام باندھا کیونکہ حدیبیہ والے سال رسول اللہﷺ نے عمرہ کا ہی احرام باندھا تھا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ122: حالت احرام میں بیوی سے صحبت کرنے کا فدیہ ایک اونٹ کی قربانی اور دوسرا حج ادا کرنا ہے۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابٍ وَعَلَیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ وَاَبَا ہُرَیْرَۃث اَنَّہُمْ سُئِلُوْا عَنْ رَجُلٌ اَصَابَ اَہْلُہٗ  وَہُوَ مُحْرِمٌ بِالْحَجِّ فَقَالُوْا یَنْفُذَانِ یَمِیْضَانِ لِوَجْہِہِمَا حَتّیٰ یَقْضِیَا حَجَّہُمَا ثُمَّ عَلَیْہَا حَجُّ قَابِلٍ وَالْہَدْیُ۔ رَوَاہُ مَالِکٌ فِیْ الْمُؤْطَا

حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت ابو ہریرہؓ سے حالت احرام میں اپنی بیوی سے صحبت کرنے والے کے بارے میں پوچھا گیا،  تو انہوں نے فرمایا "دونوں میاں بیوی حج کے ارکان ادا کریں یہاں تک کہ حج مکمل ہو جائے۔ پھر اگلے سال دوسرا حج ادا کریں اور ساتھ قربانی کریں۔ ” اسے مالک نے موطا میں روایت کیا ہے۔

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍؓ اَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ وَقَعَ بِاَہْلِہٖ وَہُوَ بِمِنًی قَبْلَ اَنْ یُفِیْضَ فَاَمَرَہٗ  اَنْ یَنْحَرَ بَدَنَۃ۔ رَوَاہُ مَالِکٌ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے کسی آدمی نے سوال کیا کہ اس آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے جس نے منیٰ میں اپنی بیوی سے صحبت کی؟ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  نے فرمایا "وہ ایک اونٹ کی قربانی دے۔ ” اسے مالک نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : فدیہ کی قربانی حج کی قربانی کے علاوہ ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

اَلتَّلْبِیَۃ

 

 تلبیہ کے مسائل

 

مسئلہ123: عمرہ یا حج کا احرام باندھنے کے بعد تلبیہ کہنے کا حکم ہے۔

 

عَنْ اُمِّ سَلَمَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ :یَا آلَ مُحَمَّدٍا مَنْ حَجَّ مِنْکُمْ فَلْیُہَلِّلْ فِیْ حَجَّۃ۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَاِبْنُ حَبَّانَ

حضرت ام سلمہؓ  کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "اے محمد! (ﷺ ) کے گھر والو تم میں سے جو شخص حج کرے اسے تلبیہ پکارنا چاہئے۔ ” اسے احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ124: تلبیہ کہنے کی فضیلت

 

عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیُّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ قَالَ (( مَا مِنْ مَلَبٍّ یُلَبِّیْ اِلآَ لَبّیٰ مَا عَنْ یَمِیْنِہٖ وَشِمَالِہٖ مِنْ حَجَرٍ اَوْ شَجَرٍ اَوْ مَدَرٍ حَتّیٰ تَنْقَطِعَ الْاَرْضُ مِنْ ہَاہُنَا وَہَاہُنَا )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ  (صحیح)

حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "جب کوئی تلبیہ کہنے والا تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں زمین کے آخری کناروں تک تمام پتھر،  درخت اور کنکر بھی لبیک پکارتے ہیں۔ (جس کا ثواب تلبیہ کہنے والے کو ملتا ہے )۔ ” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ125: تلبیہ کے مسنون الفاظ درج ذیل ہیں۔

عَنْ عَبْدَاللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ تَلْبِیَۃ رَسُوْلِ اللّٰہِ :لَبَّیْکَ اللّٰہُمَ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃ لَکَ وَالْمُلْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ  کے تلبیہ کے الفاظ یہ تھے۔ "حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں ،  میں حاضر ہوں ،  تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں بیشک حمد تیرے ہی لائق ہے ساری نعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں۔ بادشاہی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ126: تلبیہ کے لئے درج ذیل الفاظ کہنے بھی مسنون ہیں۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ کَانَ مِنْ تَلْبِیَۃ النَّبِیِّا لَبَّیْکَ اِلٰہَ الْحَقِّ۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ  (صحیح)

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ  تلبیہ کے لئے یہ الفاظ بھی ادا فرماتے "اے الٰہ الحق! میں حاضر ہوں۔ ” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ127: حج کا احرام باندھنے اور تلبیہ کہنے کے بعد ایک مرتبہ اَللّٰھُمَّ حِجَّۃ لاَ رِیَاءَ فِیْھَا وَلاَ سُمْعَۃ کہنا مسنون ہے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ قَالَ حَجَّ النَّبِیُّا عَلَی رَحْلٍ رَثٍّ وَقَطِیْفَۃ تُسَاوِیْ اَرْبَعَۃ دَرَاہِمَ اَوْ لاَ تَساوِی ثُمَّ قَالَ :اَللّٰہُمَّ حِجَّۃ لاَ رِیَاءَ فِیْہَا وَلاَ سُمْعَۃ۔ رَوَاہُ ابْنِ مَاجَۃ  (صحیح)

حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے ایسی سواری پر حج کیا جس کی زین پرانی تھی اور آپﷺ  کے جسم پر ایسی چادر تھی جو چار درہم یا اس سے بھی کم قیمت کی تھی۔ آپﷺ  یہ فرما رہے تھے "یا اللہ! میں ایسا حج کر رہا ہوں جس میں نہ ریاء ہے نہ کسی شہرت کی طلب مقصود ہے۔ ” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ128: تلبیہ کہنے کے بعد جنت حاصل کرنے اور جہنم سے پناہ مانگنے کی دعاء کرنا مسنون ہے۔

 

عَنْ خُزَیْمَۃ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ اَبِیْہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّا اَنَّہُ کَانَ اِذَا فَرَغَ مِنْ تَلْبِیَۃ سَاَلَ اللّٰہَ رِضْوَانَۃ وَالْجَنَۃ وَاسْتَعْفَاہُ بِرَحْمَۃ مِّنَ النَّارِ۔ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ

حضرت خزیمہ (بن ثابت)ؓ اپنے باپ (حضرت ثابتؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ  جب تلبیہ سے فارغ ہوتے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی اور جنت کا سوال کرتے نیز اللہ تعالیٰ کی رحمت کے وسیلے سے آگ سے معافی مانگتے۔ اسے شافعی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ129: تلبیہ کے بعد اِنِّیْ اُرِیْدُ الْحَجَّ فَیَسِّرْہُ لِیْ……کے الفاظ کہنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ130: بلند آواز سے تلبیہ کہنا حج کے اجرو ثواب میں اضافہ کا باعث ہے۔

 

عَنْ اَبِیْ بَکْرِ الصِّدِیْقِؓ اَنَّ النَّبِیَّا سُئِلَ اَیُّ الْحَجِّ اَفْضَلُ ؟ قَالَ (( اَلْعَجُّ وَالثَّجُّ)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ  (صحیح)

حضرت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ  سے دریافت کیا گیا "کون سا حج افضل ہے ؟” آپﷺ  نے ارشاد فرمایا ” جس میں بلند آواز سے تلبیہ پکارا جائے اور قربانی دی جائے۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ131: صرف مردوں کو بلند آواز سے تلبیہ پکارنا چاہئے۔

 

عَنْ خَلآَدِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ اَبِیْہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا قَالَ : اَتَانِیْ جِبْرِیْلُ فَاَمَرَنِیْ اَنْ آمُرَ اَصْحَابِیْ اَنْ یَّرْفَعُوْا اَصْوَاتَہُمْ بِالْاِہْلاَلِ۔ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ  (صحیح)

حضرت خلاد بن سائبؓ اپنے باپ (حضرت سائبؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ  نے فرمایا "میرے پاس جبریلؑ آئے اور مجھے (اللہ کی طرف سے ) حکم دیا کہ میں اپنے اصحاب کو حکم دوں کہ وہ تلبیہ بلند آواز سے کہیں۔ ” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ132: عورت کو بلند آواز سے تلبیہ نہیں کہنا چاہئے بلکہ صرف اتنی آواز سے جسے وہ خود سن سکے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ عَنِ النَّبِیِّا قَالَ : اَلتَّسْبِیْحُ لِلْرِّجَالِ وَالتَّصْفِیْقُ لِلنِّسَاءِ فِیْ الصَّلاَۃ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے نبی اکرمﷺ  نے فرمایا "نماز میں (امام کے بھولنے پر) مردوں کے لئے سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا ہے اور عورتوں کے لئے ہاتھ پر ہاتھ مارنا ہے۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ133: عمرہ میں طواف شروع کرنے سے پہلے تلبیہ کہنا بند کر دینا چاہئے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا کَانَ یُمْسِکُ عَنِ التَّلْبِیَّۃ فِیْ الْعُمْرَۃ اِذَا اسْتَلَمَ الْحَجَرَ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  عمرہ میں حجر اسود کا استلام کرتے ہی تلبیہ کہنا بند کر دیتے۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ134: حج میں دس ذی الحجہ (قربانی کے دن) جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے سے پہلے تلبیہ کہنا بند کر دینا چاہئے۔

عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَبّیٰ حَتّیٰ رَمَی جَمْرَۃ الْعَقَبَۃ۔ رَوَاہُ اَبُوْ دَاؤٗ دَ (صحیح)

حضرت فضل بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ  نے (اپنے حج میں ) جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہا۔ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ135: اہل قافلہ کا اجتماعی طور پر بلند آواز سے تلبیہ کہنا سنت سے ثابت نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

دُخُوْلُ مَکَّۃ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ

 

مکہ مکرمہ اور مسجد حرام میں داخل ہونے کے مسائل

 

مسئلہ136: مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے قبل وادی طوی (نیا نام آبار زاہد) میں رات بسر کرنا مسنون ہے۔

مسئلہ137: مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے قبل غسل کرنا مستحب ہے۔

مسئلہ138: مکہ مکرمہ میں دن کے وقت داخل ہونا مستحب ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّہٗ  کَانَ یُلَبِّیْ مِنْ ذِیْ الْحُلَیْفَۃ حَتّیٰ اِذَا یَبْلُغَ الْحَرَمَ ثُمَّ یُمْسِکُ حَتّیٰ اِذَا جَاءَ ذَا طُوًی بَاتَ بِہٖ حَتّیٰ یُصْبِحَ فَاِذَا صَلَّی الْغَدَاۃ اغْتَسَلَ وَزَعَمَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ فَعَلَ ذٰلِکَ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  ذوالحلیفہ سے تلبیہ پکارنا شروع کرتے حدود حرم میں پہنچتے تو رک جاتے اور رات ذی طویٰ میں بسر کرتے۔ پھر صبح کی نماز ادا کر لیتے تو غسل فرماتے (اور پھر مکہ معظمہ میں داخل ہوتے ) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  یقین رکھتے کہ رسول اکرمﷺ  نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ139: مکہ مکرمہ میں کدائی کے راستے داخل ہونا مستحب ہے اور باب الشبیکہ کے قریب محلہ شامیہ کی نچلی گھاٹی کے راستہ واپس آنا مستحب ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیُ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا کَانَ یَدْخُلُ مَکَّۃ مِنْ کَدَاءٍ مِنْ ثِنِّیَۃ الْبَطْحَاءِ وَیَخْرُجُ مِنَ الثَّنِّیَۃ السُّفْلیٰ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  مکہ معظمہ میں بطحا والی اونچی گھاٹی سے کدائی کے راستے داخل ہوتے اور نچلی گھاٹی سے واپس تشریف لاتے۔ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ140: مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت درج ذیل دعا پڑھنا مسنون ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کُنَّا نُسَافِرُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَاِذَا رَاَیْ قَرْیَۃ یُّرِیْدُ اَنْ یَّدْخُلَہَا قَالَ :اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہَا (ثَلاَثًا)اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنَاجَنَاہَا وَحَبِّبْنَا اِلیٰ اَہْلِہَا وَحَبِّبْ صَالِحَ اَہْلَہَا اِلَیْنَا۔ رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اکرمﷺ  کے ساتھ سفر میں ہوتے جب آپﷺ وہ بستی دیکھتے جس میں داخل ہونا چاہتے تو تین مرتبہ فرماتے اے اللہ! ہمیں اس بستی میں برکت عطا فرما۔ اس بستی کے پھلوں سے ہمیں مستفید فرما۔ اور وہاں کے لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت ڈال دے اور وہاں کے نیک افراد کو ہمارے لئے محبوب بنا دے۔ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ141: مسجد الحرام میں باب بنی شیبہ (اب باب السلام) سے داخل ہونا مسنون ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَمَّا قَدِمَ فِیْ عُقْدِ قُرَیْشٍ، فَلَمَّا دَخَلَ مَکَّۃ دَخَلَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ الْاَعْظَمِ۔ رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمَۃ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ جب رسول اکرمﷺ  قریش مکہ سے معاہدہ کے تحت مکہ تشریف لائے تو (مسجد الحرام میں ) اسی عظیم باب (باب بنی شیبہ) سے داخل ہوئے۔ اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : نبی اکرمﷺ  کے زمانہ میں مسجد الحرام کی حد باب بنی شیبہ تک تھی۔ آج کل باب بنی شیبہ کے بالکل سامنے باب السلام پڑتا ہے، اگر حاجی باب السلام سے داخل ہو کر سیدھا بیت اللہ شریف کی طرف چلے تو وہ از خود باب بنی شیبہ سے گزرے گا۔

مسئلہ142: مسجد الحرام میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہئے بِسْمِ اللّٰہِ وَ السَّلاَمُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ اور نکلتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہئے بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلاَمُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ فَضْلِکَ

عَنْ فَاطِمَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِنْتِ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَتْ :کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ یَقُوْلُ (( بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلاَمُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ا)اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ)) وَاِذَا خَرَجَ قَالَ (( بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلاَمُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ا) اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ فَضْلِکَ)) رَوَاہُ اِبْنِ مَاجَۃ (صحیح)

حضرت فاطمہؓ  بنت رسولﷺ کہتی ہیں رسول اکرمﷺ  جب مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے "اللہ کے نام سے داخل ہوتا ہوں ،  اللہ کے رسول پر سلام ہو۔ اے اللہ! میرے گناہ معاف فرما اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لئے کھول دے ” جب مسجد سے باہر نکلتے تو یہ کلمات ادا فرماتے اللہ کے نام سے مسجد سے نکلتا ہوں ،  اللہ کے رسول پر سلام ہو۔ اے اللہ! میرے گناہ معاف فرما اور اپنے فضل کے دروازے میرے لئے کھول دے ” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : مسجد الحرام میں داخل ہونے اور نکلنے کی وہی دعا ہے جو عام مساجد کے لئے ہے کوئی الگ خصوصی دعا رسول اکرمؐ سے ثابت نہیں۔

 

مسئلہ143: بیت اللہ شریف کو دیکھ کر دعا کرنا مستحب ہے۔

 

عَنْ سَعِیْدِ بْنِ مُسَیَّبٍؓ اَنَّہٗ  کَانَ حِیْنَ یَنْظُرُ اِلَی الْبَیْتِ یَقُوْلُ :اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ فَحَیِّنَا رَبِّنَا بِالسَّلاَمِ۔ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ

حضرت سعید بن مسیبؓ جب بیت اللہ شریف کی طرف دیکھتے تو فرماتے "تو سراپا سلامتی ہے اور سلامتی تجھی سے حاصل ہو سکتی ہے اے ہمارے پروردگار! ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ۔ ” اسے شافعی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ144: مسجد حرام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے وضو کر کے طواف کرنا مسنون ہے۔

 

عَنْ عُرْوَۃ بْنِ الزُّبَیْرِؓ فَقَالَ قَدْ حَجَّ النَّبِیَّ فَاَخْبَرَتَنِیْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ اَوَّلَ شَیْءٍ بَدَأَ بِہٖ حِیْنَ قَدِمَ النَّبِیُّا مَکَّۃ اَنَّہٗ  تَوَضًّا ثُمَّ طَافَ بِالْبَیْتِ۔ مُتَفَقٌّ عَلَیْہِ

حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ  کے حج کے بارے میں حضرت عائشہؓ نے مجھے بتایا کہ جب رسول اکرمﷺ  مکہ مکرمہ (مسجد حرام) تشریف لائے تو سب سے پہلے آپﷺ نے وضو کیا پھر بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ اسے بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : اگر فرض نماز کھڑی ہو یا قضا نماز ادا کرنی ہو تو پہلے نماز ادا کرنی چاہئے اور پھر طواف کرنا چاہئے۔

 

مسئلہ145: مسجد الحرام میں داخل ہو کر تحیۃ المسجد ادا کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ146: مسجد الحرام سے نکلتے وقت الٹے پاؤں واپس آنا سنت سے ثابت نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

اَنْوَاعُ الطَّوَافِ

 

طواف کی اقسام

 

مسئلہ147: طواف کی پانچ اقسام ہیں۔

 

طواف قدوم(یا طواف تحیۃ یا طواف ورود) طواف عمرہ

طواف افاضہ(یا طواف زیارت یا طواف حج) طواف وداع

نفلی طواف

پانچوں اقسام کی تفصیل درج ذیل ہے۔

 

مسئلہ148: مکہ مکرمہ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے جو طواف کیا جاتا ہے اسے طواف قدوم یا طواف تحیۃ یا طواف ورود کہا جاتا ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَقَدْ حَجَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَطَافَ بِالْبَیْتِ قَبْلَ اَنْ یَّاتِیَ الْمَوْقِفَ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے حج ادا کیا اور عرفات جانے سے قبل طواف (تحیہ) ادا کیا۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : طواف قدوم مسنون ہے واجب نہیں۔ لہٰذا اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ جانے کی بجائے سیدھا منیٰ یا عرفات چلا جائے تو اس پر کوئی دم یا فدیہ نہیں ہے۔

 

مسئلہ149: عمرہ ادا کرنے والا شخص مکہ معظمہ پہنچ کر سب سے پہلے جو طواف ادا کرتا ہے اسے طواف عمرہ کہا جاتا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَاَصْحَابُہٗ  اعْتَمَرُوْا مِنَ الْجَعْرَانَۃ فَرَمَلُوْا بِالْبَیْتِ وَجَعَلُوْا اَرْدِیَتَہُمْ تَحْتَ آبَاطِہِمْ قَدْ قَذَفُوْہَا عَلَی عَوَاتِقِہِمُ الْیُسْرٰیٰ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤد  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ  اور آپﷺ  کے صحابہ نے جعرانہ سے (احرام باندھ کر) عمرہ کیا تو (طواف عمرہ میں ) اپنی چادریں دائیں مونڈھوں کے نیچے سے نکال کر بائیں مونڈھوں پر ڈال لیں۔ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : طواف عمرہ، عمرہ کا رکن ہے۔ اس کے بغیر عمرہ ادا نہیں ہوتا۔

 

مسئلہ150:  معتمر (عمرہ ادا کرنے والا) کا طواف عمرہ ہی اس کا طواف قدوم یا طواف تحیہ یا طواف ورود کہلائے گا۔

 

10 ذی الحجہ کو منیٰ میں قربانی کرنے کے بعد مکہ مکرمہ آ کر بیت اللہ شریف کا طواف کرنا فرض ہے اسے طواف افاضہ یا طواف زیارت یا طواف حج کہتے ہیں۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَرَادَ مِنْ صَفِیَّۃ بَعْضَ مَا یُرِیْدُ الرَّجُلُ مِنْ اَہْلِہٖ فَقَالُوْا اِنَّہَا حَائِضٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! قَالَ (( وَاِنَّہَا لَحَابِسَتُنَا )) فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّہَا قَدْ زَارَتْ یَوْمَ النَّحْرِ قَالَ ((فَلْتَنْفِرْ مَعَکُمْ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ  نے اپنی (زوجہ) حضرت صفیہؓ  سے اس کام کا ارادہ کیا جو مرد اپنی بیوی سے کرتا ہے ،  انہوں (دوسری ازواج مطہرات) نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! صفیہ تو حیض سے ہیں۔ رسول اکرمﷺ  نے فرمایا پھر تو اس نے ہمیں (مدینہ واپس جانے سے ) روک لیا۔ ازواج مطہرات نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! صفیہ قربانی کے دن طواف زیارت تو کر چکی ہیں۔ تب آپؐ نے ارشاد فرمایا پھر وہ تمہارے ساتھ (واپس) روانہ ہو جائیں۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ151: حج ادا کرنے کے بعد مکہ معظمہ سے رخصت ہونے سے قبل بیت اللہ شریف کا طواف کرنا واجب ہے۔ اسے طواف وداع کہتے ہیں۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر348کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ152: طواف قدوم،  طواف عمرہ،  طواف افاضہ اور طواف وداع کے علاوہ جو بھی طواف کیا جائے گا وہ نفلی طواف کہلائے گا۔

 

وضاحت : بیت اللہ شریف میں قیام کے دوران تمام نفلی عبادات میں سے نفلی طواف سب سے افضل عبادت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!

٭٭٭

 

 

 

 

اَلطَّوَافُ

 

طواف کے مسائل

 

مسئلہ153: بیت اللہ شریف کے ایک طواف کا ثواب ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔

 

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ ((مَنْ طَافَ بِالْبَیْتِ وَصَلّیٰ رَکْعَتَیْنِ کَانَ کَعِتْقِ رَقَبَۃ)) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ (صحیح)

حضرت عبد ا للہ بن عمرؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے بیت اللہ شریف کا طواف کیا اور دو رکعتیں ادا کیں گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ154: طواف کے لئے ستر پوشی شرط (فرض) ہے۔

 

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ اَنَّ اَبَابَکْرٍ الصَّدِّیْقِؓ بَعَثَہُ فِیْ الْحَجَّۃ الَّتَی اَمَّرَاہُ عَلَیْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ قَبْلَ حَجَّۃ الْوِدَاعِ یَوْمَ النَّحْرِ فِیْ رَہْطٍ یُؤَذِّنُ فِیْ النَّاسِ اَنْ لآَ یَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ وَلاَ یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے حجۃ الوداع سے قبل انہیں اس حج میں بھیجا جس میں رسول اکرمﷺ نے انہیں (یعنی حضرت ابو بکرؓ کو) امیر مقرر کیا تھا تا کہ وہ قربانی کے دن (یعنی 10 ذی الحجہ) منیٰ میں لوگوں کے درمیان عام اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کوئی شخص عریاں ہو کر بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ155: طواف کے لئے ہر طرح کی نجاست سے پاک ہونا ضروری ہے۔

 

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّا قَالَ : اَلْحَائِضُ تَقْضِیْ الْمَنَاسِکَ کُلَّہَا اِلآَ الطَّوَافَ بِالْبَیْتِ۔ رَوَاہُ اَحْمَدٌ

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے فرمایا "حیض والی عورت طواف کے علاوہ باقی تمام احکام پورے کرے۔ ” اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ156: طواف کے لئے با وضو ہونا ضروری ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر144کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ157: استحاضہ،  بواسیر،  پیشاب اور مذی وغیرہ کے بیمار کو ہر طواف کے لئے نیا وضو کرنا چاہئے۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ فَاطِمَۃ بِنْتَ اَبِیْ حُبَیْشٍ کَانَتْ تُسْتَحَاضُ فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (( اِنَّ دَمَ الْحَیْضِ دَمٌ اَسْوَدُ یُعْرَفُ فَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَاَمْسِکِیْ عَنِ الصَّلاَۃ وَ اِذَا کَانَ الْآخَرُ فَتَوَضَّئِیْ وَصَلِّیْ۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (حسن)

حضرت عائشہؓ  سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیشؓ استحاضہ کی مریضہ تھیں۔ انہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا،  حیض کے خون کا رنگ سیاہ ہوتا ہے جو پہچانا جاتا ہے اگر یہ ہو تو نماز نہ پڑھو اور اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا خون ہو تو پھر (ہر بار) وضو کرو اور نماز ادا کرو۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ158: طواف قدوم اور طواف عمرہ میں اضطباع (احرام) کی چادریں دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا مسنون ہے۔

 

وضاحت:حدیث مسئلہ نمبر149کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

طواف کے بعد خصوصاً نماز کے وقت اضطباع جائز نہیں۔ ملاحظہ ہو مسئلہ نمبر 82

 

مسئلہ159: طواف کی ابتداء حجر اسود کو بوسہ دینے (یا ہاتھ چھو کر ہاتھ کو بوسہ دینے ) سے کرنی چاہئے۔

مسئلہ160: طواف میں بیت اللہ شریف بائیں طرف ہونا چاہئے۔

مسئلہ161: ایک طواف بیت اللہ شریف کے گرد سات چکروں پر مشتمل ہونا چاہئے۔

مسئلہ162: طواف قدوم کے پہلے تین چکروں میں رمل (کندھے اکڑا کر تیز تیز اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا) مسنون ہے۔

مسئلہ163: سات چکر پورے کرنے کے بعد مقام ابراہیم پر آ کر دو رکعت نماز ادا کرنا مسنون ہے۔

مسئلہ164: دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد صفا اور مروہ پر جانے سے قبل حجر اسود کا استلام کرنا مسنون ہے۔

عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّا مَکَّۃ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاسْتَلَمَ الْحَجَرَ ثُمَّ مَضیٰ عَلیٰ یَمِیْنِہٖ فَرَمَلَ ثَلاَثًا وَمَشَی اَرْبَعًا ثُمَّ اَتَی الْمَقَامَ فَقَالَ ﴿ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلّیٰ﴾ فَصَلّیٰ رَکْعَتَیْنِ وَالْمَقَامُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْبَیْتِ ثُمَّ اَتَی الْحَجَرَ بَعْدَ الرَّکْعَتَیْنِ فَاسْتَلَمَہُ ثُمَّ خَرَجَ اِلَی الصَّفَا۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرمﷺ  مکہ تشریف لائے اور مسجد حرام میں داخل ہوئے تو حجر اسود کا استلام کیا پھر بیت اللہ شریف کی دائیں طرف چلنا شروع کیا۔ تین چکروں میں رمل کیا۔ (باقی) چار چکروں میں عام رفتار سے چلے (سات چکر پورے کرنے کے بعد) مقام ابراہیم کی طرف تشریف لائے اور یہ آیت تلاوت فرمائی ” اور مقام ابراہیم کو اپنی جائے نماز بناؤ۔ ” (سورہ بقرہ، آیت نمبر 125) وہاں دو رکعت نماز ادا کی۔ (اس وقت) مقام ابراہیم،  رسول اللہﷺ اور بیت اللہ شریف کے درمیان تھا۔ نماز کے بعد پھر آپؐ حجر اسود کے پاس تشریف لائے ،  استلام کیا اور صفا کی طرف (سعی کے لئے ) تشریف لے گئے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : طواف قدوم کے پہلے تین چکروں میں رمل صرف مردوں کے لئے ہے، عورتوں کے لئے نہیں۔ ملاحظہ ہو مسئلہ نمبر212

 

مسئلہ165: حجر اسود کا استلام (ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو بوسہ دینا) کرتے وقت بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہنا مسنون ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا کَانَ یَاتِیَ الْبَیْتَ فَیَسْتَلِمَ الْحَجَرَ وَیَقُوْلُ : بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ۔ رَوَاہُ اَحْمْدُ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  بیت اللہ شریف (کے طواف کے لئے ) تشریف لاتے تو حجر اسود کا ستلام کرتے اور فرماتے "بِسْمِ اللّٰہِ،  اَللّٰہُ اَکْبَرُ” اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ166: حجر اسود کو چھونے کے بعد ہاتھ کو بوسہ دینا مسنون ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّہٗ  سَاَلَہٗ  رَجُلٌ عَنِ اسْتِلاَمِ الَْحَجَرِ فَقَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَسْتَلِمُہٗ  وَیُقَبِّلُہٗ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی نے حجر اسود کے استلام کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا "میں نے رسول اللہﷺ کو حجر اسود کو چھونے کے بعد ہاتھ کو چومتے ہوئے دیکھا ہے۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ167: ہجوم کی وجہ سے حجر اسود کو بوسہ دینا ممکن نہ ہو تو ہاتھ یا چھڑی سے حجر اسود کو چھو کر اسے بوسہ دے لینا چاہئے۔

عَنْ اَبِیْ الطَّفَیْلِؓ یَقُوْلُ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ وَیَسْتَلِمُ الرُّکْنَ بِمَحْجَنٍ مَعَہُ وَیُقَبِّلُ الْمَحْجَنَ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابو طفیلؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ  کو بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے دیکھا آپﷺ  حجر اسود کو اپنی چھڑی سے چھوتے اور اسے چوم لیتے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ168: ہجوم کے وقت حجر اسود کا بوسہ لینے کے لئے دھکم پیل اور مزاحمت کرنا جائز نہیں۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ اِذَا وَجَدْتَ عَلَی الرُّکْنِ زِحَامًا فَانْصَرِفْ وَلاَتَقِفْ۔ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  فرماتے ہیں جب حجر اسود پر بھیڑ ہو تو (بوسہ دینے کے لئے ) وہاں نہ ٹھہرو بلکہ (اشارہ کر کے ) نکل جاؤ۔ اسے شافعی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ169: طواف کے ہر چکر میں حجر اسود اور رکن یمانی کو ہاتھ سے چھونا مسنون ہے۔

مسئلہ170: سواری پر یا چارپائی پر طواف کرنا جائز ہے۔

مسئلہ171: طواف کے ہر چکر میں حجر اسود کا استلام کرنا مسنون ہے۔

مسئلہ172: استلام کرتے وقت صرف”اَللّٰہُ اَکْبَرُ”کے الفاظ کہنا بھی جائز ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ طَافَ بِالْبَیْتِ وَہُوَ عَلیٰ بِعِیْرٍ کُلَّمَا اَتیٰ عَلَی الرُّکْنِ اَشَارَ اِلَیْہِ بِشَیْءٍ فِیْ یَدِہٖ وَکَبَّرَ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بیت اللہ شریف کا طواف اونٹ پر بیٹھ کر کیا۔ جب بھی آپﷺ حجر اسود کے پاس آتے تو آپؐ کے ہاتھ میں جو چیز تھی (یعنی چھڑی)اس سے اشارہ کرتے اور "اللہ اکبر "کہتے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ لاَ یَدَعُ اَنْ یَّسْتَلِمَ الرُّکْنَ الْیَمَانِیَ وَالْحَجَرَ فِیْ کُلِّ طَوَافِہٖ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدً  (حسن)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  فرماتے ہیں رسول اکرمﷺ کسی چکر میں بھی حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام کرنا نہیں چھوڑتے تھے۔ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام میں فرق درج ذیل ہے۔

 

حجر اسود

 

موقع ملنے پرحجراسودکومنہ سے چومنا مسنون ہے۔

چومنا ممکن نہ ہو تو حجر اسود کو ہاتھ سے چھو کر ہاتھ چومنا مسنون ہے۔

حجر اسود کو ہاتھ سے چھونا ممکن نہ ہو تو دور سے اشارہ کرنا مسنون ہے۔

حجر اسود کو چھوتے یا اشارہ کرتے وقت بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ یا اللّٰہُ اَکْبَرُ کہنا مسنون ہے۔

 

رکن یمانی

 

رکن یمانی کو منہ سے چومنا مسنون نہیں بلکہ صرف ہاتھ سے چھونا مسنون ہے۔

رکن یمانی کو ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو چومنامسنون نہیں۔

رکن یمانی کو ہاتھ سے چھونا ممکن نہ ہو تو دورسے اشارہ کرنا مسنون نہیں۔

رکن یمانی کو چھوتے وقت بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ یا اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہنا مسنون نہیں

 

مسئلہ173: حجر اسود اور رکن یمانی کو چھونے کی فضیلت۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ : اِنَّ مَسْحَہُمَا یَحُطُّ الْخَطَایَا۔ رَوَاہُ بْنِ خُزَیْمَۃ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا ہے "ان دونوں (پتھروں ) کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ "اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ174: حجر اسود قیامت کے دن استلام کرنے والوں کے حق میں گواہی دے گا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( فِیْ الْحَجَرِ وَاللّٰہِ لَیَبْعَثَنَّہٗ  اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃ لَہٗ  عَیْنَانِ یُبْصِرُ بِہِمَا وَلِسَانٌ یَنْطِقُ بِہٖ یَشْہَدُ عَلیٰ مَنِ اسْتَلَمْہُ بِحَقِّ)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے حجر اسود کے بارے میں یہ بات ارشاد فرمائی "اللہ کی قسم! قیامت کے روز اللہ تعالیٰ حجر اسود کو اس طرح اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے یہ دیکھے گا اور زبان ہو گی جس سے بات کرے گا اور ہر اس شخص کے حق میں گواہی دے گا جس نے ایمان کے ساتھ اسے چھوا ہو گا۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ175: حجر اسود پر سجدہ کرنا مسنون ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا رَاَیْتُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابَ قَبَّلَ وَسَجَدَ عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ فَعََلَ ہٰکَذَا فَفَعَلْتُ۔ رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمَۃ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو حجر اسود کو چومتے اور اس پر سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایسا کرنے کے بعد فرمایا "میں نے رسول اللہﷺ  کو ایسا کرتے دیکھا ہے اس لئے میں نے بھی ایسا کیا ہے۔ ” اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ176: حجر اسود پر آنسو بہانا مسنون ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ اسْتَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ الْحِجْرَ وَاسْتَلَمْہُ ثُمَّ وَضَعَ شَفَتَیِہِ یَبْکِیْ طَوِیْلاً فَاِذَا عُمَرَ یَبْکِیْ طَوْیَلاً فَقاَل یاَ عُمَرُ(( ہُنَا تُسْکَبُ الْعَبَرَاتُ))۔ رَوَاہُ حَاکِمْ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  حجر اسود کے پاس تشریف لائے۔ اسے بوسہ دیا۔ پھر اپنے ہونٹ اس پر رکھ کر دیر تک آنسو بہاتے رہے۔ حضرت عمرؓ (جو آپﷺ  کے پاس کھڑے تھے ) بھی دیر تک روتے رہے۔ آپﷺ  نے ارشاد فرمایا "اے عمر (ؓ )! یہاں آنسو بہائے جاتے ہیں۔ ” اسے حاکم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ177: رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان درج ذیل دعاء مانگنا مسنون ہے۔

 

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ السَّائِبِؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ مَا بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ (رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃ وَّفِیْ الْآخِرَۃ حَسَنَۃ وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ)۔ رَوَاہُ اَبُوْ دَاؤُدَ  (حسن)

حضرت عبد اللہ بن سائبؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ  کو رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعاء مانگتے ہوئے سنا ہے "اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور آگ کے عذاب سے بچا لے۔ ” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ178: حطیم بیت اللہ شریف کا (غیر مسقف) حصہ ہے لہٰذا حطیم کے باہر سے طواف کرنا چاہئے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ الْحِجْرُ مِنَ الْبَیْتَ لِاَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ طَافَ بِالْبَیْتِ مِنْ وَرَائَہٖ قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۔ رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمَۃ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے حطیم بیت اللہ شریف کا حصہ ہے کیونکہ رسول اکرمﷺ نے بیت اللہ شریف کا طواف حطیم کے باہر سے کیا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے "پرانے گھر کا طواف کرو۔ ” اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ179: دوران طواف تلاوت قرآن،  تسبیح و تہلیل اور ادعیہ و اذکار کرنا چاہئے۔

مسئلہ180: دوران طواف بوقت ضرورت بات کرنا جائز ہے۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّا قَالَ اِنَّمَا جُعِلَ رَمِیِ الْجِمَارُ وَالطَّوَافُ بِالْبَیْتِ لاِِقَامَۃ ذِکْرِ اللّٰہِ لَیْسَ لِغَیْرِہٖ وَزَادَ الْاٰخَرُوْنَ فِیْ الْحَدِیْثِ وَالسَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ۔ رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمَۃ  (صحیح)

حضرت عائشہؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے فرمایا "رمی جمار اور بیت اللہ شریف کے طواف کو اللہ کا ذکر قائم کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں۔ ” بعض راویوں نے حدیث میں صفا اور مروہ کی سعی کا اضافہ بھی کیا ہے۔ اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

عَنْ طَاؤُسٍ رَحِمَۃ اللّٰہِ عَلَیْہِ عَنْ رَجُلٍ اَدْرَکَ النَّبِیَّا قَالَ (( الطَّوَافُ بِالْبَیْتِ صَلاَۃ فَاَقِّلُوْا مِنَ الْکَلاَمِ)) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ  (صحیح)

حضرت طاؤسؓ ایک ایسے آدمی سے روایت کرتے ہیں جس نے نبی اکرمﷺ  کو دیکھا آپﷺ نے فرمایا "بیت اللہ شریف کا طواف نماز کی طرح ہے لہٰذا دوران طواف کم سے کم بات کرو۔ ” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ181: دوران طواف اگر کوئی شرعی عذر (مثلاً فرض نماز کا قیام) پیش آ جائے تو طواف کا سلسلہ منقطع کرنا جائز ہے۔

مسئلہ182: طواف کا سلسلہ منقطع کرنا پڑے تو عذر دور ہونے کے بعد پہلے چکر شمار کر کے باقی چکر پورے کرنے چاہئیں۔

مسئلہ183: باقی چکروں کا آغاز اسی جگہ سے کرنا چاہئے جہاں سے طواف کا سلسلہ منقطع کیا تھا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّہُ کَانَ یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ فَاُقِیْمَتِ الصَّلاَ ۃ فَصَلّیٰ مَعَ الْقَوْمِ ثُمَّ قَامَ فَبَنَی عَلیٰ مَا مَضیٰ مِنْ طَوَافِہٖ۔ ذَکَرَہُ فِیْ فِقَہِ السُّنَّۃ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرتے (اسی دوران)نماز کھڑی ہو جاتی تو لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرتے اور طواف کے جتنے چکر ادا کر چکے ہوتے اس کے بعد باقی چکر ادا کرتے۔ یہ روایت فقہ السنہ میں ہے۔

 

مسئلہ184: طواف کی دو رکعتوں میں سے پہلی میں سورہ کافرون اور دوسری میں سورہ اخلاص پڑھنا مسنون ہے۔

 

عَنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَرَاَ فِیْ رَکْعَتَی الطَّوَافِ بِسُوْرَتَیِ الْاِخْلاَصِ قُلْ یَا اَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ وَقُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے طواف کی دو رکعتوں میں سے ایک میں قُلْ یَا اَیّھَالْکَافِرُوْنَ اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ تلاوت فرمائی۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ185: بیت اللہ شریف کا طواف اور نماز، ممنوعہ اوقات میں بھی جائز ہیں۔

 

عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍؓ اَنَّ النَّبِیَّا قَالَ ((یَا بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ لاَ تَمْنَعُنَّ اَحَدًا طَافَ بِہٰذَا الْبَیْتِ وَصَلّیٰ اَیَّ سَاعَۃ شَاءَ مِنْ لَیْلٍ اَوْ نَہَارٍ)) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ  (صحیح)

حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا "اے بنو عبد مناف! دن اور رات کی کسی گھڑی میں لوگوں کو بیت اللہ شریف کا طواف کرنے اور نماز اد کرنے سے منع نہ کرو۔ ” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : یاد رہے ممنوعہ اوقات میں طلوع آفتاب، زوال اور غروب آفتاب کے تین اوقات شامل ہیں۔

 

مسئلہ186: عمرہ ادا کرنے والے شخص کو طواف عمرہ شروع کرنے سے پہلے تلبیہ کہنا بند کر دینا چاہئے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر133کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ187: طواف مکمل کرنے کے بعد آب زمزم پینا اور اس کا کچھ حصہ سر پر بہانا مستحب ہے۔

عَنْ جَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِؓ اَنَّ النَّبِیَّا رَمَلَ ثَلاَثَۃ اَطْوَافٍ مِنَ الْحَجَرِ اِلَی الْحَجَرِ وَصَلّیٰ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ عَادَ اِلَی الْحَجَرِ ثُمَّ ذَہَبَ اِلَی زَمْزَمَ فَشَرِبَ مِنْہَا وَصَبَّ عَلیٰ رَاسِہٖ ثُمَّ رَجَعَ فَاسْتَلَمَ الرُّکْنَ ثُمَّ رَجَعَ اِلَی الصَّفَا فَقَالَ ابْدَءُ بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِہٖ۔ رَوَاہُ اَحْمَدٌ (صحیح)

حضرت جابر بن عبد اللہؓ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے (طواف کے پہلے ) تین چکروں میں حجر اسود سے لے کر حجر اسود تک رمل کیا (طواف مکمل کرنے کے بعد) دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر حجر اسود کی طرف لوٹے (اور اس کا استلام کیا) پھر آپﷺ  زمزم کی طرف تشریف لائے اور زمزم پیا اور (کچھ حصہ) سر پر ڈالا۔ پھر پلٹ کر حجر اسود کا استلام کیا اور اس کے بعد صفا کی طرف یہ کہتے ہوئے تشریف لائے اَبْدَءُ بِمَا بَدَاءَ اللّٰہ (ترجمہ میں سعی کا آغاز صفا سے کرتا ہوں جس کے ذکر سے اللہ عزوجل نے (قرآن مجید میں آیت کا) آغاز فرمایا۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : مذکورہ حدیث شریف میں نبی اکرمﷺ  کا دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد حجر اسود کے استلام کرنے کو محدثین نے راوی کا سہو قرار دیا ہے کیونکہ متفق علیہ احادیث میں ایسا نہیں ہے۔

 

مسئلہ188: زمزم روئے زمین کے تمام پانیوں سے بہتر پانی ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا قَالَ : خَیْرُ مَاءٍ عَلیٰ وَجْہِ الْاَرْضِ مَاءُ زَمْزَمْ فِیْہِ طَعَامٌ مِنَ الطُّعْمِ وَشِفَاءٌ مِّنَ السُّقْمِ۔ رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ (حسن)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے فرمایا "روئے زمین پر سب سے بہتر پانی زمزم ہے جو کہ بھوکے کے لئے کھانا اور بیمار کے لئے شفاء ہے۔ ” اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ189: زمزم پینے سے قبل مانگی گئی دعاء قبول ہوتی ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِؓ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ ((مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہٗ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ  (صحیح)

حضرت جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ زمزم کا پانی جس ارادے سے پیا جائے وہ پورا ہوتا ہے۔ ” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ190: زمزم پینے سے قبل رسول اکرمﷺ  سے کوئی خاص دعاء مانگنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ191: حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  زمزم پینے سے قبل درج ذیل دعاء مانگا کرتے تھے۔

کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اِذَا شَرِبَہُ قَالَ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّرِزْقًا وَّاسِعًا وَّشِفَاءً مِّنْ کُلِّ دَاءٍ۔ رَوَاہُ الْمُنْذِرِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  جب زمزم پیتے تو یہ دعاء مانگتے "اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم،  وسیع رزق اور ہر بیماری سے شفا کا سوال کرتا ہوں۔ ” اسے منذری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ192: حضرت جابر بن عبد اللہؓ زمزم پینے سے قبل درج ذیل دعاء مانگا کرتے تھے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ (( مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہٗ  وَہٰذَا اَشْرِبُہٗ  بِعَطَشِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃ ثُمَّ شَرِبَ)) رَوَاہُ اَحْمَدٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "زمزم جس نیت سے پیا جائے وہ پوری ہوتی ہے لہٰذا میں اس نیت سے پیتا ہوں کہ قیامت کے روز (میدان حشر میں ) پیاس کی شدت سے محفوظ رہوں۔ ” پھر زمزم نوش فرماتے۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ193: زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پینا مستحب ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ سَقِیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ مِنْ زَمْزَمَ فَشَرِبَ وَہُوَ قَائِمٌ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ کو زمزم پلایا تو آپﷺ  نے کھڑے ہو کر پیا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ194: زمزم پینے کے بعد ملتزم سے چمٹ کر دعاء مانگنا مستحب ہے۔

 

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یُلْزِقُ وَجْہَہٗ  وَصَدْرَہٗ  بِالْمُلْتَزَمِ۔ ذَکَرَہٗ  فِیْ فِقَہُ السُّنَّۃ

حضرت عمرو اپنے باپ شعیب سے ،  شعیب اپنے دادا (حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو ملتزم کے ساتھ اپنا چہرہ اور سینہ چمٹائے ہوئے دیکھا۔ یہ روایت فقہ السنہ میں ہے۔

 

مسئلہ195: طواف افاضہ ادا کرنے سے قبل اگر کوئی حاجی فوت ہو جائے تو کسی دوسرے ساتھی کو اس کا باقی حج (یعنی طواف زیارت) مکمل کرنے کی ضرورت نہیں۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر108کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ196: اگر کسی کو طواف کے چکروں کی تعداد میں شک ہو جائے ،  تو کم تعداد شمار کر کے باقی چکروں سے طواف مکمل کرنا چاہئے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر220کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

٭٭٭

 

 

 

مباحات طواف

 

٭طواف کے لئے نَوَیْتُ طَوَافِیْ ھٰذَا جیسے الفاظ سے نیت کرنا۔

٭حجر اسود کا استلام کرتے وقت نماز کی طرح دونوں ہاتھ بلند کرنا۔

٭استلام کے بعداَللّٰھُمَّ اِیْمَانًا بِکَ وَ تَصْدِیْقًا بِکِتَابِکَ وَعَلیٰ سُنَّۃ نَبِیِّکَ کے الفاظ کہنا۔

٭دوران طواف سینے پر ہاتھ باندھنا۔

٭بیت اللہ شریف کے دروازے کے سامنے اَللّٰھُمَّ اِنَّ الْبَیْتَ بَیْتِکَ الْحَرَمَ نَبِیِّکَ کے الفاظ کہنا۔
٭دوران طواف اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ حَجًّا مَّبْرُوْرًا وَّذَنْبًا مَّغْفُوْرًا وَّسَعْیًا مَّشْکُوْرًا وَّ تِجَارَۃ لَّنْ تَبُوْرْا یَا عَزِیْزِ یَا غَفَّارَ کہنا۔

٭دوران طواف رکن شامی،  رکن عراق یا مقام ابراہیم کا استلام کرنا۔

٭بارش کے دوران یہ سمجھتے ہوئے طواف کرنا کہ اس سے گزشتہ سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔

٭دوران طواف رکن یمانی کو بوسہ دینا۔

٭رکن یمانی کو چھونے کے بعد (حجر اسود کی طرح) ہاتھ کو بوسہ دینا۔

٭ہجوم کے باعث رکن یمانی کو چھو نہ سکنے کی صورت میں حجر اسود کی طرح دور سے اشارہ کرنا۔

٭رکن یمانی کو چھوتے ہوئے حجر اسود کی طرح بِسْمِ اللّٰہِ،  اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہنا۔

٭حجر اسود کو ہجوم کے باعث چھو نہ سکنے کی صورت میں دور سے اشارہ کرنے کے بعد ہاتھ کو چومنا۔

٭حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے امام سے پہلے سلام پھیر دینا۔

٭حجر اسود کا بوسہ لیتے وقت آواز نکالنا۔

٭دوران طواف پہلے ،  دوسرے ،  تیسرے ،  چوتھے ،  پانچویں ،  چھٹے اور ساتویں چکر میں الگ الگ مخصوص دعاؤں کا اہتمام کرنا۔

٭طواف عمرہ کے سارے چکروں میں رمل کرنا۔

٭حجر اسود کے سامنے فرش پر سیاہ پتھر کی لائین پر ہی طواف کی دو رکعت نماز ادا کرنا۔

٭حجر اسود یا بیت اللہ شریف یا غلاف کعبہ کو چھو کر اپنے جسم پر ملنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ اس سے شفا یا برکت حاصل ہو گی۔

٭حجر اسود کے سامنے دیر تک استلام کے لئے کھڑے رہنا اور بار بار رفع یدین کی طرح ہاتھ بلند کرنا اور بار بار بسم اللہ،  اللہ اکبر کہنا۔

٭دوران طواف،  مطوف (طواف کرانے والے ) کا با آواز بلند دعائیں مانگنا اور حجاج کے گروپ کا پیچھے پیچھے بلند آواز سے اس کا اعادہ کرنا۔

٭ہجوم کے وقت مقام ابراہیم کے نزدیک نماز طواف ادا کرنے کے لئے مزاحمت کرنا۔

٭٭٭

 

 

 

 

عَلَی الْحَاجِّ کَمْ طَوَافًا

 

حاجی پر کتنے طواف واجب ہیں

 

مسئلہ197: حج افراد ادا کرنے والے شخص (مفرد) کے ذمہ دو طواف واجب ہیں ایک طواف افاضہ دوسرا طواف وداع۔

مسئلہ198: حج قران ادا کرنے والے شخص (قارن) کے ذمہ تین طواف واجب ہیں ایک عمرہ کا دوسرا حج کا اور تیسرا طواف وداع۔

مسئلہ199: حج تمتع ادا کرنے والے شخص (متمتع) کے ذمہ تین طواف واجب ہیں۔ پہلا طواف عمرہ کا، دوسرا طواف حج کا جو کہ طواف زیارت کہلائے گا اور تیسرا طواف وداع۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجَ النَّبِیِّ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّا فِیْ حَجَّۃ الْوَدَاعِ فَاَہْلَلْنَا بِعُمْرَۃ…فَطَافَ الَّذِیْنَ اَہَلُّوْا بِالْعُمْرَۃ بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ ثُمَّ حَلُّوْا ثُمَّ طَافُوْا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ اَنْ رَجَعُوْا مِنْ مِنیٰ وَاَمَّا الَّذِیْنَ جَمَعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃ فَاِنَّمَا طَافُوْا طَوَافًا وَاحِدًا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عائشہؓ  رسول اکرمﷺ  کی زوجہ محترمہ سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اکرمﷺ  کے ساتھ (مدینہ منورہ) سے نکلے ہم نے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ پھر جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا انہوں نے بیت اللہ شریف کا طواف (یعنی طواف عمرہ) ادا کیا،  صفا اور مروہ کی سعی کی پھر احرام کھول دیا۔ پھر (ایام حج میں 10 ذی الحجہ کو) منیٰ سے (واپس) مکہ آ کر پھر طواف (یعنی طواف حج) ادا کیا جن لوگوں نے عمرہ اور حج کا اکٹھا احرام باندھا (یعنی قارن) انہوں نے ایک ہی طواف زیارت) ادا کیا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کَانَ النَّاسُ یَنْصَرِفُوْنَ فِیْ کُلِّ وَجْہٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((لاَ یَنْفِرَنَّ اَحَدٌ حَتّیٰ یَکُوْنَ آخِرُ عَہْدِہٖ بِالْبَیْتِ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  فرماتے ہیں لوگ (حج ادا کرنے کے بعد) جدھر چاہتے چلے جاتے ،  تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا”کوئی شخص اس وقت تک نہ جائے جب تک آخری بار طواف نہ کر لے ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

اَلسَّعْیُ

 

سعی کے مسائل

 

مسئلہ200: صفا اور مروہ کی سعی کے لئے وضو ضروری نہیں البتہ با وضو ہونا افضل ہے۔

مسئلہ201: حائضہ خاتون دوران حیض سعی کر سکتی ہے۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّا وَلاَ نَرَی اِلآَ الْحَجَّ حَتّیٰ اِذَا کُنَّا بِسَرِفَ اَوْ قَرِیْبٍ مِنْہَا حِضْتُ فَدَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّا وَاَنَّا اَبْکِیْ فَقَالَ أَ نَفِسْتِ یَعْنِیْ الْحَیْضَۃ قَالَتْ: قُلْتُ نَعَمْ قَالَ (( اِنَّ ہٰذَہٖ شَیْءٌ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلیٰ بَنَاتِ آدَمَ فَاقْضِیْ مَا یَقْضِیْ الْحَاجُّ غَیْرَ اَنْ لاَ تَطُوْفِیْ بِالْبَیْتِ حَتّیٰ تَغْتَسِلِیْ)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ ہم نبی اکرمﷺ  کے ساتھ حج کے ارادے سے (مدینہ سے ) نکلے جب ہم لوگ سرف یا اس کے قریب پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی۔ رسول اللہﷺ  تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپﷺ نے پوچھا "کیا تمہیں حیض آیا ہے ؟” میں نے عرض کیا "ہاں !” آپﷺ  نے ارشاد فرمایا "یہ وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کی بیٹیوں کے لئے لکھ دی ہے ،  لہٰذا اب تم طواف کے علاوہ حاجیوں والے سب کام کرو۔ طواف اس وقت کرنا جب غسل کر لو۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : اب صفا اور مروہ چونکہ مسجد الحرام میں شامل ہو چکی ہیں اس لئے حائضہ کو غسل کرنے کے بعد ہی سعی کرنی چاہئے۔

 

مسئلہ202: سعی،  حج یا عمرہ کا رکن ہے اگر یہ ادا نہ کیا جائے تو حج ہوتا ہے نہ عمرہ۔

 

عَنْ صَفِیَّۃ بِنْتِ شَیْبَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ اَمْرَاَۃ اَخْبَرَتْہَا اَنَّہَا سَمِعَتِ النَّبِیَّا بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ یَقُوْلُ (( کُتِبَ عَلَیْکُمُ السَّعْیُ فَاسْعَوْا)) رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمَۃ  (صحیح)

حضرت صفیہ بنت شیبہؓ  سے روایت ہے کہ ایک عورت نے انہیں بتایا کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کو صفا اور مروہ کے درمیان (سعی کرتے ہوئے ) یہ کہتے ہوئے سنا "تم پر (حج یا عمرہ کے دوران) سعی فرض کی گئی ہے ،  لہٰذا سعی کرو۔ ” اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ203: صفا اور مروہ کی سعی کے لئے آنے سے قبل حجر اسود کا استلام کرنا مسنون ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر164کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ204: طواف مکمل کرنے کے بعد سعی کے لئے باب صفا سے گزر کر پہلے صفا پہاڑی پر آنا چاہئے اور راستے میں قرآن مجید کی آیت اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ پڑھنی چاہئے۔

مسئلہ205: صفا پہاڑی پر اتنا چڑھنا چاہئے کہ بیت اللہ شریف نظر آنے لگے۔

مسئلہ206: صفا پہاڑی پر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعاء کے لئے ہاتھ بلند کر کے تین مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہنا چاہئے۔

مسئلہ207: تین مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہنے کے بعد درج ذیل کلمات تین مرتبہ کہنے چاہئیں اور درمیان میں دعائیں مانگنی چاہئیں۔

مسئلہ208: تین مرتبہ لاَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ  لاَ شَرِیْکَ لَہٗ … کہنے کے بعد دعائیں مانگنا مسنون ہے۔

 عَنْ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ قِصَّۃ حَجَّۃ الْوَدَاعِ قَالَ : ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ اِلَی الصَّفَا فَلَمَّا دَنَا مِنَ الصَّفَا قَرَأَ ﴿ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ ﴾ اَبْدَأُ بِمَا بَدَا اللّٰہُ بِہٖ، فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرِقِیَ عَلَیْہِ حَتّیٰ رَاَی الْبَیْتَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃ فَوَحَّدَ اللّٰہَ وَکَبَّرَہٗ  وَقَالَ (( لاَ اِلٰہِ اِلآَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ  لاَ شَرِیْکَ لَہٗ  لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ لاَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ  اَنْجَزَ وَعْدَہٗ  وَنَصَرَ عَبْدَہٗ  وَہَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ )) ثُمَّ دَعَا بَیْنَ ذٰلِکَ قَالَ مِثْلَ ہٰذَا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ … اَلْحَدِیْثِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ حجۃ الوداع کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں "پھر آپﷺ  باب صفا سے صفا پہاڑی کی طرف نکلے ،  جب پہاڑی کے قریب پہنچے تو یہ آیت تلاوت فرمائی۔ "بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ” میں (سعی کی) ابتداء اسی (پہاڑی) سے کرتا ہوں جس (کے ذکر) سے اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں ) ابتداء کی۔ پس آپﷺ  نے سعی کی ابتداء صفا سے کی۔ آپﷺ صفا پہاڑی کی اتنی بلندی پر چڑھے کہ بیت اللہ شریف نظر آ گیا۔ پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور تکبیر (ان الفاظ میں ) بیان فرمائی "اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں وہ اکیلا ہے ،  اس کا کوئی شریک نہیں بادشاہی اور حمد اسی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تمام لشکروں کو تنہا شکست دی۔ ” پھر اس کے درمیان دعا فرمائی۔ یہ عمل آپﷺ نے تین مرتبہ دہرایا۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : لاَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ وَحَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ  کہنے کے بعد رسول اللہﷺ نے جو دعائیں مانگیں ان کا ذکر احادیث میں نہیں ملتا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

 

مسئلہ209: صفا پہاڑی پر دعا مانگنے سے پہلے تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ بلند کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ210: صفا پہاڑی سے اتر کر مروہ کی طرف آتے ہوئے سبز رنگ کے ستونوں کے درمیان تیز تیز چلنا چاہئے۔

مسئلہ211: مروہ پہاڑی پر چڑھتے ہوئے اور چڑھنے کے بعد وہی عمل دہرانا چاہئے جو صفا پر کیا تھا۔

عَنْ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِؓ فِیْ قِصَّۃ حَجَّۃ الْوَدَاعِ قَالَ …ثُمَّ نَزَلَ اِلَی الْمَرْوَۃ حَتّیٰ اِذَا انْصَبَّّتْ قَدَمَاہُ فِیْ بَطْنِ الْوَادِیْ سَعیٰ حَتَّی اِذَا صَعِدَتَا مَشیٰ حَتّیٰ اَتَی الْمَرْوَۃ فَفَعَلَ عَلَی الْمَرْوَِۃ کَمَا فَعَلَ عَلَی الصَّفَا…اَلْحَدِیْثِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ حجۃ الوداع کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں پھر نبی اکرمﷺ  صفا سے اترے اور مروہ کی طرف آئے جب آپﷺ کے قدم مبارک نشیبی جگہ تک پہنچے تو آپﷺ دوڑے۔ یہاں تک کہ جب آپ کے دونوں قدم مبارک (نشیبی جگہ سے ) اوپر چڑھنے لگے تو آپﷺ عام چال چلنے لگے حتی کہ مروہ تک پہنچ گئے اور وہاں وہ کچھ کیا جو صفا پر کیا تھا۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ212: سبز ستونوں کے درمیان دوڑنے کا حکم صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّہٗ  قَالَ لَیْسَ عَلَی النِّسَاءِ سَعْیٌ بِالْبَیْتِ وَلاَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ۔ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نہ تو بیت اللہ شریف کے گرد تیز چلنے کا حکم عورتوں کے لئے ہے نہ ہی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کا حکم عورتوں کے لئے ہے۔ اسے شافعی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ213: بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے سبز ستونوں کے درمیان تیز تیز نہ چلنے میں کوئی حرج نہیں۔

عَنْ کَثِیْرِ بْنِ جَمْہَانِ السُّلَمِیِّؓ قَالَ رَاَیْتُ ابْنَ عُمَرَؓ یَمْشِیْ فِیْ الْمَسْعِیْ فَقُلْتُ لَہٗ  اَتَمْشِیْ فِیْ الْمَسْعیٰ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ ؟ فَقَالَ لَئِنْ سَعَیْتُ لَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَسْعیٰ وَلَئِنْ مَشَیْتُ لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَمْشِیْ وَاَنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ۔ رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمَۃ (صحیح)

حضرت کثیر بن جمہان سلمیؓ کہتے ہیں میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو صفا مروہ کے درمیان عام چال چلتے دیکھا تو کہا "آپ صفا اور مروہ کے درمیان عام چال (کیوں ) چل رہے ہیں ؟” حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  نے فرمایا "اگر میں دوڑوں تو (بھی درست ہے کہ) میں نے رسول اللہﷺ  کو دوڑتے دیکھا ہے اور اگر عام چال چلوں تو (بھی درست ہے کہ) میں نے نبی اکرمﷺ  کو عام چال چلتے بھی دیکھا ہے اور میں بوڑھا آدمی ہوں (اس لئے عام چال چل رہا ہوں )۔ ” اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ214: دوران سعی کثرت سے تسبیح و تہلیل اور حمد و ثنا کرنی چاہئے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر179کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ215: صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگانے سے ایک سعی مکمل ہوتی ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَدِمَ فَطَافَ بِالْبَیْتِ سَبْعًا وَّصَلّیٰ خَلْفَ الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ وَسَعیٰ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ سَبْعًا لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اَسْوَۃ حَسَنَۃ۔ رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمِۃ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  نے فرمایا رسول اللہﷺ  مکہ مکرمہ تشریف لائے تو بیت اللہ شریف کے گرد سات چکر لگائے پھر مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی اور اس کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگا کر سعی مکمل کی اور یقیناً مسلمانوں کے لئے رسول اللہﷺ  کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔ اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : صفا سے مروہ تک ایک چکر کہلاتا ہے جبکہ مروہ سے صفا تک دوسرا چکر کہلاتا ہے اس طرح صفا سے شروع کئے گئے سات چکر مروہ پر ختم ہوتے ہیں۔

 

مسئلہ216: کسی عذر سے سعی مکمل کرنے سے قبل سعی کا سلسلہ منقطع کیا جا سکتا ہے۔

مسئلہ217: عذر دور ہونے کے بعد سعی کا باقی حصہ اسی جگہ سے شروع کرنا چاہئے جہاں سے منقطع ہوا تھا۔

عَنْ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّہٗ  کَانَ یَطُوْفُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ فَاَعْجَلَہُ الْبَوْلُ فَتَنَحّیٰ وَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّا ثُمَّ قَامَ عَلَی مَضیٰ۔ رَوَاہُ سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر رہے تھے کہ انہیں پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی چنانچہ اپنی حاجت پوری کرنے چلے گئے پھر (واپس لوٹے تو) پانی منگوایا،  وضو کیا اور پھر باقی سعی پوری کی۔ اسے سعید بن منصور نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : دوران سعی فرض نماز کھڑی ہو جائے تو سعی ترک کر کے فرض نماز ادا کرنی چاہئے اور دوبارہ سعی اسی جگہ سے شروع کرنی چاہئے جہاں سے ترک کی تھی۔

 

مسئلہ218: کسی عذر سے سوار ہو کر سعی کرنا جائز ہے۔

 

عَنْ قُدَامَۃ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَسْعیٰ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ عَلیٰ بَعِیْرٍ لاَ ضَرَبَ وَلاَ طَرَدَ وَلاَ اِلَیْکَ اِلَیْکَ۔ ذَکَرَہُ فِیْ شَرَحِ السُّنَّۃ

حضرت قدامہ بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ  کو اونٹ پر صفا اور مروہ کی سعی کرتے دیکھا ہے آپﷺ  نہ اونٹنی کو مارتے نہ بھگاتے اور نہ ہٹو ہٹو کہتے۔ یہ روایت شرح السنہ میں ہے۔

وضاحت : اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو اٹھا کر سعی کرے اور حامل اور محمول دونوں کی نیت سعی کی ہو تو بیک وقت دونوں کی سعی ہو جائے گی۔ انشاء اللہ!

 

مسئلہ219: بیت اللہ شریف کا طواف کرنے کے بعد اگر سعی کرنے میں تاخیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔

 

کَانَ عَطَاءٌ وَالْحَسَنُ لاَ یَرَیَانِ بَاسًا لِّمَنْ طَافَ اَوَّلَ النَّہَارِ اَنْ یُّؤَخِّرَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ اِلَی الْعِشَاءِ۔ ذَکَرَہُ فِیْ شَرَحِ السُّنَّۃ

حضرت عطا رحمہ اللہ اور حضرت حسن رحمہ اللہ بیت اللہ شریف کا طواف پہلے پہر کرنے اور صفا و مروہ کی سعی پچھلے پہر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرتے۔ یہ روایت شرح السنہ میں ہے۔

 

مسئلہ220: اگر کسی کو سعی یا طواف کے چکروں کی تعداد کے بارے میں شک ہو جائے تو کم تعداد کا یقین حاصل کر کے سعی یا طواف مکمل کرنا چاہئے۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ : اِذََا شَکَّ اَحَدُکُمْ فِیْ الثِّنْتَیْنِ وَالْوَاحِدِۃ فَلْیَجْعَلْہَا وََاحِدَۃ وَّاِذَا شَکَّ فِیْ الثِّنْتَیْنِ وَالثَّلاَثِ فَلْیَجْعَلْہَا ثِنْتَیْنِ وَاِذَا شَکَّ فِیْ الثَّلاَثِ وَالْاَرْبَعِ فَلْیَجْعَلْہَا ثَلاَثًا ثُمَّ لِیُتِمَّ مَا بَقِیَ مِنْ صَلاَتِہٖ حَتّیٰ یَکُوْنَ الْوَہْمُ فِیْ الزِّیَادَۃ ثُمَّ یَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ وَہُوَ جَالِسٌ قَبْلَ اَنْ یُسَلِّمَ۔ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ (صحیح)

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں میں نے نبی اکرمﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو (نماز کی رکعات کی تعداد میں ) شک ہو جائے کہ دو پڑھی ہیں یا ایک،  تو وہ اسے ایک شمار کرے اور اگر دو یا تین کا شک ہو،  تو دو شمار کرے اور اگر تین یا چار کا شک ہو،  تو تین شمار کرے اور اپنی باقی نماز پوری کرے تا کہ وہم زائد رکعت میں رہے (اور کم رکعات کے یقین سے نماز مکمل ہو جائے ) پھر سلام پھیرنے سے قبل بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : یاد رہے نماز کی رکعات میں شک ہو جانے پر کم رکعات کا یقین حاصل کرنے کے بعد سجدہ سہو ادا کرنا پڑتا ہے لیکن طواف یا سعی کے چکروں میں شک پڑنے پر کم چکروں کا یقین حاصل کر کے طواف اور سعی مکمل کرنے کے بعد کوئی فدیہ یا دم نہیں۔

 

مسئلہ221: سعی کے سات چکر مکمل ہونے پر عمرہ (یا حج تمتع) ادا کرنے والوں کو مروہ پر اپنے بال کٹوانے یا منڈوانے چاہئیں۔

 

عَنْ مُعَاوِیَۃؓ اَنَّہٗ  قَصَّرَ عَنِ النَّبِیِّا بِمِشْقَؓ فِیْ عُمْرَتِہٖ عَلَی الْمَرْوَۃ۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)

حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرہ ادا کرنے کے بعد نبی اکرمﷺ کے بال مروہ پر تیر کے پھل سے کاٹے۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : بال کتروانے یا منڈوانے کے بارے میں دوسرے مسائل ایام حج کے باب میں ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ222: سر کے بال کٹوانے یا منڈوانے کے بعد عمرہ (یا حج تمتع) کرنے والوں کو اپنا احرام کھول دینا چاہئے۔

مسئلہ223: حج قران کرنے والے حضرات کو سعی کے بعد نہ تو بال منڈوانے چاہئیں نہ ہی احرام کھولنا چاہئے بلکہ حالت احرام میں ہی ایام حج کا انتظار کرنا چاہئے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر59,58,57 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ224: بال کٹوانے کے بعد عمرہ ادا کرنے والے کو احرام کھول دینا چاہئے۔

مسئلہ225: احرام کھولنے کے ساتھ ہی عمرہ مکمل ہو جائے گا۔

عَنْ جَابِرٍؓ اَمَرَ النَّبِیُّا اَصْحَابَہٗ  اَنْ یَجْعَلُوْہَا عُمْرَۃ وَیَطُوْفُوْا ثُمَّ یُقَصِّرُوْا وَیَحِلُّوْا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے صحابہ کرامؓ  کو حکم دیا کہ "وہ (اپنے حج کو) عمرہ بنا دیں اور بیت اللہ شریف اور صفا و مروہ کا طواف کر کے بال کٹوا لیں اور احرام کھول دیں۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : عمرہ مکمل کرنے کے بعد حج تمتع ادا کرنے والے حجاج کو احرام کھولنے کے بعد ایام حج کا انتظار کرنا چاہئے۔

 

مسئلہ226: 8 ذی الحجہ کو منیٰ جانے سے قبل (قارن) حج کی سعی ادا کر سکتا ہے۔

 

عَنْ اُسَامَۃ بْنِ شَرِیْکِؓ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ النِّبِیِّ حَاجًّا فَکَانَ النَّاسُ یَاتُوْنَہٗ  فَمَنْ قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ سَعَیْتُ قَبْلَ اَنْ اَطُوْفَ اَوْ قَدَّمْتُ شَیْئًا اَوْ اَخَّرْتُ شَیْئًا فَکَانَ یَقُوْلُ (( لاَ حَرَجَ لاَ حَرَجَ اِلآَ عَلیٰ رَجُلٍ اقْتَرَضَ عِرْضَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ وَہُوَ ظَالِمٌ فَذٰلِکَ الَّذِیْ حَرَجَ وَہَلَکَ)) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤُدَ (صحیح)

حضرت اسامہ بن شریکؓ کہتے ہیں میں حج کے لئے نبی اکرمﷺ  کے ساتھ (مدینہ سے ) نکلا لوگ نبی اکرمﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوتے (اور مسائل دریافت کرتے ) جس کسی نے بھی عرض کیا "یا رسول اللہ (ﷺ )! میں نے طواف (افاضہ) کرنے سے پہلے (حج کی) سعی کر لی ہے (یا یوں کہا کہ) میں نے ایک چیز پہلے کی اور دوسری بعد میں۔ ” آپﷺ  ارشاد فرماتے "اس میں کوئی گناہ نہیں ،  کوئی گناہ نہیں ،  ہاں البتہ جو شخص کسی مسلمان کی ظلم کرتے ہوئے آبرو ریزی کرے اس کے لئے گناہ ہے اور ہلاکت بھی۔ ” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

مباحات سعی

 

٭صفا اور مروہ پہاڑی پر کھڑے ہو کر دعاء کرنے کے لئے دیوار تک پہنچنا۔

٭دوران سعی رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَ تَجَاوِزُ عَمَّا تَعْلَمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمُ کے الفاظ ادا کرنا۔

٭صفا سے مروہ تک اور مروہ سے صفا تک صرف ایک چکر شمار کرنا۔

٭سعی کے پہلے ،  دوسرے ،  تیسرے ،  چوتھے ،  پانچویں ،  چھٹے اور ساتویں چکر میں الگ الگ مروجہ دعائیں مانگنا۔

٭سعی کے بعد دو رکعت نفل ادا کرنا۔

٭صفا اور مروہ پر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعا مانگنے سے قبل رفع یدین کی طرح تین بار ہاتھ بلند کرنا۔

٭صفا اور مروہ کے تمام راستے میں عام چال چلنے کی بجائے بھاگنا۔

٭٭٭

 

 

 

 

عَلَی الْحَاجِّ کَمْ سَعْیًا

 

حاجی پر کتنی سعی واجب ہیں

 

مسئلہ227: حج تمتع ادا کرنے والوں پر دوسعی واجب ہیں پہلی عمرہ کی جو کہ مکہ پہنچتے ہی عمرہ کے لئے ادا کی جائے اور دوسری حج کی جو قربانی کے دن (10 ذی الحجہ )طواف زیارت کے بعد کی جائے۔

 

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّہَا قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فِیْ حَجَّۃ الْوَدَاعِ قَالَتْ فَطَافَ الَّذِیْنَ اَہَلُّوْا بِالْعُمْرَۃ بِالْبَیْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃ ثُمَّ حَلُّوا ثُمَّ طَافُوْا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ اَنْ رَجَعُوْا مِنْ مِنًی لِحَجِّہِمْ۔ رَوَاہُ ابْنِ خُزَیْمَۃ  (صحیح)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے لئے رسول اللہﷺ کے ساتھ(مدینہ سے ) نکلے۔ جن لوگوں نے عمرے کے لئے احرام باندھا تھا انہوں نے بیت اللہ شریف کا طواف کیا، صفا اور مروہ کی سعی کی اور اپنا احرام کھول دیا۔ پھر(قربانی کے دن)منی سے واپس آنے کے بعد (طواف زیارت کے ساتھ)حج کے لئے صفا اور مروہ کی دوبارہ سعی کی۔ اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ228: حج افراد ادا کرنے والوں پر حج کی صرف ایک سعی واجب ہے جو قربانی کے دن طواف زیارت کے بعد کی جائے گی۔

مسئلہ229: حج قران ادا کرنے والوں پر دو سعی واجب ہیں ایک عمرہ کی اور دوسری حج کی۔

مسئلہ230: قارن اگر عمرہ کی سعی کرتے وقت عمرہ اور حج دونوں کی سعی کی نیت کر لے تو دو الگ الگ سعی کرنے کی بجائے ایک ہی سعی کافی ہے۔

 

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِؓ یَقُوْلُ لَمْ یَطُفِ النَّبِیُّا وَلاَ اَصْحَابُہٗ  بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ اِلآَ طَوَافًا وَّاحِدًا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے (حج قران میں )صفا اور مروہ کی سعی ایک مرتبہ ہی کی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّہَا حَاضَتْ بِسَرِفَ فَتَطَہَّرَتْ بِعَرَفَۃ فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (( یُجْزِئُ عَنْکِ طَوَافُکِ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃ عَنْ حَجِّکِ وَعُمْرَتِکِ)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ (حجۃ الوداع کے موقع پر مدینے سے مکہ آتے ہوئے (ایک مقام)سرف پر حائضہ ہو گئیں اور غسل حیض عرفہ میں کیا۔ رسول اللہﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا”تمہاری صفا اور مروہ کی ایک سعی تمہارے حج اور عمرہ دونوں کے لئے کافی ہے۔

وضاحت :سہولت کے لئے حج قران یا حج افراد کی سعی 8ذی الحجہ کو منی سے قبل کرنا جائز ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!

٭٭٭

 

 

 

اَیَّامُ الْحَجِّ

 

ایام حج کے مسائل

 

                8 ذِیْ الْحَجَّۃ یَوْمُ التَّرْوِیَّۃ

 

مسئلہ231: عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کھولنے والے بیرونی حجاج (یعنی متمتع) نیز میقات کے اندر رہائش پذیر حج کے خواہش مند تمام حضرات کو 8ذی الحجہ کو اپنی رہائش گاہ سے احرام باندھنا چاہئے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ وَقَّتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ …فَمَنْ کَانَ دُوْنَہُنَّ فَمِنْ اَہْلِہٖ وَکَذَا فَکَذٰلِکَ حَتّیٰ اَہْلُ مَکَّۃ یُہِلُّوْنَ مِنْہَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے (احرام باندھنے کے لئے ) میقات کے اندر رہنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنی اپنی رہائش گاہ سے ہی احرام باندھیں حتی کہ مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر لوگ مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھیں۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : حج افراد اور حج قران ادا کرنے والے بیرونی حجاج کو میقات سے باندھے ہوئے پہلے احرام کے ساتھ ہی 8 ذی الحجہ کو منیٰ میں پہنچنا چاہئے۔

 

مسئلہ232: 8 ذی الحجہ کو نماز ظہر سے قبل منیٰ پہنچنا مسنون ہے۔

مسئلہ233: مکہ مکرمہ سے سواری پر منیٰ جانا جائز ہے۔

مسئلہ234: منیٰ میں 8 ذی الحجہ کی نماز ظہر،  عصر،  مغرب،  عشاء اور 9ذی الحجہ کی نماز فجر،  پانچ نمازیں مکمل کرنا مسنون ہے۔

عَنْ جِابِرٍؓ فِیْ حَدِیْثِ حَجَّۃ الْوَدَاعِ…فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ التَّرْوِیَّۃ تَوَجَّہُوْا اِلیٰ مِنًی فَاَہَلُّوْا بِالْحَجِّ وَرَکِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَصَلّیٰ بِہَا الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعَشِاءَ وَ الْفَجَرَ ثُمَّ مَکَثَ قَلِیْلاً حَتّیٰ طَلَعَتِ الشَّمْسُ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابرؓ سے حجۃ الوداع کی حدیث میں روایت ہے جب یوم ترویہ(8 ذی الحجہ) کا دن آیا،  تو صحابہ کرامؓ نے (مکہ مکرمہ سے ہی) احرام باندھا اور منیٰ کے لئے روانہ ہوئے۔ رسول اکرمﷺ سواری پر نکلے اور منیٰ میں ظہر،  عصر،  مغرب اور عشاء اور (9 ذی الحجہ کی) فجر کی نمازیں ادا کیں۔ پھر (عرفات روانہ ہونے سے قبل) تھوڑی دیر رکے۔ یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ (پھر عرفات روانہ ہوئے ) اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ235: 8 ذی الحجہ کو ظہر سے قبل منیٰ پہنچنا اور وہاں پانچ نمازیں ادا کرنا سنت ہے، واجب نہیں۔

اَنَّ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا لَمْ تَخْرُجْ مِنْ مَکَّۃ یَوْمَ التَّرْوِیَۃ حَتّیٰ دَخَلَ اللَّیْلَ وَذَہَبَ ثُلُثَہٗ۔ رَوَاہُ اْبُن المُنْذِرِ

حضرت عائشہؓ  8ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ سے منیٰ رات گئے پہنچیں حتی کہ ایک تہائی رات گزر گئی۔ اسے ابن منذر نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : اگر کوئی شخص8 ذی الحجہ کو منیٰ نہ جا سکے اور9 ذی الحجہ کو سیدھا عرفات پہنچ جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں نہ ہی کوئی دم یا فدیہ ہے۔

 

مسئلہ236: دوران حج منیٰ، عرفات، مزدلفہ ہر جگہ مقامی اور غیر مقامی سب لوگوں کو تمام نمازیں قصر ادا کرنا چاہئیں۔

عَنْ حَارِثَۃ ابْنِ وَہْبٍ الْخُزَاعِیِّؓ قَالَ صَلَّیْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ بِمَنًی وَالنَّاسُ اَکْثَرُ مَا کَانُوْا فَصَلّیٰ رَکْعَتَیْنِ فِیْ حَجَّۃ الْوَدَاعِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت حارثہ بن وہب خزاعیؓ فرماتے ہیں میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرمﷺ  کے پیچھے نماز پڑھی۔ اس موقع پر آپﷺ  کے ساتھ بہت سے (مقامی اور غیر مقامی) لوگ تھے۔ آپﷺ نے سارے حجۃ الوداع میں (سب کو) دو رکعتیں (یعنی قصر) نماز پڑھائی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍؓ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ مِنَ الْمَدْیْنَۃ اِلیٰ مَکَّۃ فَصَلّیٰ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ حَتّیٰ رَجَعَ قُلْتُ کَمْ اَقَامَ بِمَکَّۃ قَالَ عَشْرًا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ (حج کے لئے ) مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے ،  تو (اس تمام عرصہ میں ) دو دو رکعتیں ادا کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مدینہ واپس پہنچ گئے۔ راوی نے پوچھا کہ "آپ مکہ میں کتنے دن ٹھہرے ؟” حضرت انس بن مالکؓ نے جواب دیا "دس روز۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : رسول اکرمﷺ  حج کے موقع پر4 ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے۔ 7,6,5 ذی الحجہ مکہ مکرمہ میں قیام فرمایا۔ 8 ذی الحجہ کو منیٰ، 9 ذی الحجہ کو عرفات اور مزدلفہ، 13,12,11,10 ذی الحجہ کو منیٰ میں قیام فرمایا اور14 ذی الحجہ کو مدینہ روانہ ہو گئے۔ اس طرح آپﷺ  کا مکہ مکرمہ میں قیام دس روز تک رہا۔ اس دوران آپﷺ  ہر جگہ قصر نماز ادا فرماتے رہے۔

 

مسئلہ237: دوران حج منیٰ،  عرفات اور مزدلفہ کسی بھی جگہ نبی اکرمﷺ کا مقامی لوگوں کو پوری نماز ادا کرنے کا حکم دینا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔

مسئلہ238: 8 ذی الحجہ کو منیٰ جانے سے پہلے طواف افاضہ کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

 

                9 ذِیْ الْحَجَّۃ یَوْمُ الْعَرَفَۃ

 

مسئلہ239: 9 ذی الحجہ (یوم عرفہ) کو سورج طلوع ہونے کے بعد منیٰ سے عرفات روانہ ہونا چاہئے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر234کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ240: منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے تکبیر و تہلیل اور تلبیہ پکارنا مسنون ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ غَدَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ مِنْ مِنًی اِلَی عَرَفَاتِ مِنَّا الْمُلَبِّی وَمِنَّا الْمُکَبِّرُ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  فرماتے ہیں ہم رسول اللہﷺ  کے ساتھ منیٰ سے عرفات جانے کے لئے نکلے۔ ہم میں سے کوئی تلبیہ کہہ رہا تھا اور کوئی تکبیر۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : تکبیر سے مراد”اَللّٰہُ اَکْبَرُ” کہنا، تہلیل سے مراد”لاَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ” کہنا اور تلبیہ سے مراد”لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ”پکارنا ہے۔

 

مسئلہ241: منیٰ سے سیدھا میدان عرفات پہنچنے کے بجائے پہلے وادی نمرہ میں زوال آفتاب تک رکنا مسنون ہے۔

مسئلہ242: زوال آفتاب کے بعد مسجد نمرہ میں پہلے امام کا خطبہ سننا اور پھر ظہر و عصر کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع اور قصر کر کے پڑھنا مسنون ہے۔

مسئلہ243: دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نفل یا سنت نماز ادا نہیں کرنی چاہئے۔

مسئلہ244: ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرنے کے بعد میدان عرفات میں داخل ہونا مسنون ہے۔

مسئلہ245: زوال آفتاب سے قبل وقوف عرفہ جائز نہیں۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَدِیْثِ حَجَّۃ الْوَدَاعِ قَالَ…فَسَارَ سُوْلُ اللّٰہِ وَلاَ تَشُکُّ قُرَیْشٌ اِلآَ اَنَّہٗ  وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ کَمَا کَانَتْ قُرَیْشٌ تَصْنَعُ فِیْ الْجَاہِلِیَّۃ فَاَجَازَ رَسُوْلُ اللّٰہِ حَتّیٰ اَتیٰ عَرَفَۃ فَوَجَدَ الْقُبَّۃ قَدْ ضُرِبْتَ لَہٗ  بِنَمِرَۃ فَنَزَلَ بِہَا حَتّیٰ اِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ اَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَہٗ  فَاَتیٰ بَطْنَ الْوَادِیْ فَخَطَبَ النَّاسَ…ثُمَّ اَذَّنَ ثُمَّ اَقَامَ فَصَلّیٰ الظُّہْرَ ثُمَّ اَقَامَ فَصَلّیٰ الْعَصْرَ وَلَمْ یُصَلِّ بَیْنَہُمَا شَیْئًا ثُمَّ رَکِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ حَتّیٰ اَتَی الْمُوْقِفَ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ  حجۃ الوداع والی حدیث میں فرماتے ہیں پھر رسول اکرمﷺ (منیٰ سے عرفات کی طرف) چلے ،  قریش یقین رکھتے تھے کہ آپﷺ  مزدلفہ میں ہی قیام فرمائیں گے جیسا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے لیکن آپﷺ  (مزدلفہ سے ) آگے چلے گئے یہاں تک کہ عرفات میں پہنچ گئے جہاں وادی نمرہ میں آپﷺ  کے لئے خیمہ لگایا گیا تھا۔ آپﷺ  نے وہاں قیام فرمایا۔ جب آفتاب ڈھل گیا،  تو آپﷺ  نے (اپنی) قصواء اونٹنی تیار کرنے کا حکم دیا۔ آپؐ اس پر سوار ہو کر وادی (نمرہ) کے بیچ میں تشریف لائے (آج کل مسجد نمرہ اسی جگہ پر ہے ) وہاں آپﷺ  نے لوگوں کو خطبہ دیا۔ پھر اذان اور اقامت ہوئی اور آپﷺ  نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ دوبارہ اقامت ہوئی اور آپﷺ  نے عصر کی نماز پڑھائی۔ ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی (نفل یا سنت) نماز نہیں پڑھی گئی۔ پھر آپﷺ  (اپنی اونٹنی پر) سوار ہوئے اور (عرفات میں ) کھڑے ہونے کی جگہ تشریف لائے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :منیٰ سے آ کر وادی نمرہ (یا عرنہ) میں زوال آفتاب تک رکنا اور زوال آفتاب کے بعد وادی عرفات میں داخل ہونا افضل ہے لیکن ہجوم کے باعث اگر کوئی ایسا نہ کر سکے تو کوئی حرج نہیں۔

حجۃ الوداع میں "یوم عرفہ” جمعہ کے روز تھا لیکن آپﷺ نے دونوں رکعتوں میں قرات جہر سے نہیں کی۔ گویا آپﷺ نے نماز جمعہ ادا نہیں کی بلکہ ظہر کی نماز قصر کر کے ادا فرمائی۔

اگر کسی شخص کو امام حج کے ساتھ کسی شرعی عذر کے باعث با جماعت نماز پڑھنے کا موقع نہ ملے ،  تو اسے اپنے خیمہ میں دونوں نمازیں (ظہر اور عصر) جمع اور قصر ادا کرنی چاہئیں۔ افراد زیادہ ہوں تو با جماعت جمع اور قصر نمازیں ادا کرنی چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب!

 

مسئلہ246: مقامی اور غیر مقامی صحابہ کرامؓ نے نبی اکرمﷺ  کے پیچھے عرفات میں ظہر و عصر کی نمازیں جمع اور قصر کر کے پڑھیں۔ آپﷺ  کا مقامی حضرات کو نماز پوری کرنے کا حکم دینا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔

مسئلہ247: وقوف عرفہ فرض ہے اگر یہ رہ جائے تو حج ادا نہیں ہوتا نہ ہی فدیہ دینے سے اس کی تلافی ہوتی ہے۔

مسئلہ248: وقوف عرفہ کا وقت9ذی الحجہ کے دن زوال سے لے کر10 ذی الحجہ کی طلوع فجر تک ہے۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَعْمُرَؓ قَالَ شَہِدْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ فَاَتَاہُ نَاسٌ فَسَاَلُوْہُ عَنِ الْحَجِّ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( اَلْحَجُّ عَرَفَۃ فَمَنْ اَدْرَکَ لَیْلَۃ عَرَفَۃ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجَرِ مِنْ لَیْلَۃ جَمْعٍ فَقَدْ تَمَّ حَجُّہٗ )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ  (صحیح)

حضرت عبدالرحمن بن یعمرؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ  کے پاس تھا کہ کچھ لوگ آئے اور حج کے بارے میں پوچھا،  تو آپﷺ  نے فرمایا "حج عرفات میں ٹھہرنے کا نام ہے جو شخص مزدلفہ کی رات (یعنی 9 اور 10 ذی الحجہ کی درمیانی رات) طلوع فجر سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے اس کا حج ادا ہو گیا۔ ” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : اگر کسی شخص نے لاعلمی سے یا غلطی سے وادی عرفات کی بجائے وادی نمرہ میں وقوف کیا تو اس کا حج ادا نہیں ہو گا۔ ملاحظہ ہو مسئلہ نمبر254

جو شخص 10 ذی الحجہ کی طلوع فجر سے پہلے پہلے گھڑی بھر کے لئے بھی میدان عرفات میں پہنچ جائے اس کا حج ادا ہو جاتا ہے۔

مسئلہ249: نماز ظہر اور عصر ادا کرنے کے بعد جبل رحمت (پرانا نام جبل آلال) کے قریب وقوف کرنا (کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا) مستحب ہے لیکن میدان عرفات میں کسی بھی جگہ وقوف کرنا جائز ہے۔

عَنْ جَابِرٍؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ (( نَحَرْتُ ہَاہُنَا وَمِنًی کُلُّہَا مَنْحَرٌ فَانْحَرُوْا فِیْ رِحَالِکُمْ وَوَقَفْتُ ہَاہُنَا وَعَرَفَۃ کُلُّہَا مَوْقِفٌ وَوَقَفْتُ ہَاہُنَا وَجَمْعٌ کُلُّہَا مَوْقِفٌ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "میں نے یہاں قربانی کی ہے اور منیٰ کا میدان سارے کا سارا قربانی کی جگہ ہے ،  لہٰذا تم لوگ اپنی قیام گاہوں پر ہی قربانی کر لو اور میں نے یہاں (جبل رحمت کے قریب) وقوف کیا ہے جبکہ پورا میدان عرفات کی جگہ ہے۔۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ250: میدان عرفات میں وقوف کے لئے قبلہ رو کھڑے ہونا مسنون ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدَاللّٰہِؓ فِیْ حَدِیْثِ حِجَّۃ الْوَدَاعِ…وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃ فَلَمْ یَزَلْ وَاقِفًا حَتّیٰ غَرَبَتِ الشَّمْسُ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ حجۃ الوداع والی حدیث میں فرماتے ہیں (اونٹنی پر سوار ہونے کے بعد) نبی اکرمﷺ قبلہ رو ہوئے اور غروب آفتاب تک وقوف فرمایا۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ251: میدان عرفات میں دوران وقوف ہاتھ اٹھانا مسنون ہے۔

 

عَنْ اُسَامَۃ بْنِ زَیْدٍؓ کُنْتَ رَدِیْفَ النَّبِیِّا بِعَرَفَاتٍ فَرَفَعَ یَدَیْہِ یَدْعُوْ فَمَالَتْ بِہٖ نَاقَتُہٗ  فَسَقَطَ خِطَامُہَا فَتَنَاوَلَ الْخِطَامَ بِاَحْدَیْ یَدَیْہِ وَہُوَ رَافِعٌ یَدَہُ الْاُخْریٰ۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)

حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں میں عرفات میں نبی اکرمﷺ کے پیچھے (اونٹنی پر سوار) تھا آپﷺ  نے دعا مانگنے کے لئے دونوں ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔ اسی دوران آپﷺ  کی اونٹنی مڑی۔ اس کی نکیل ہاتھ سے گر گئی،  تو آپﷺ  نے ایک ہاتھ سے اس کی نکیل تھام لی اور دوسرا ہاتھ دعاء کے لئے اٹھائے رکھا۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ252: وقوف کے لئے جبل رحمت کے اوپر چڑھنا یا اس کی طرف منہ کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ253: وقوف کے لئے میدان عرفات میں آنا ضروری ہے۔

مسئلہ254: جس شخص نے غلطی سے یا لاعلمی میں وادی عرفات کی بجائے وادی نمرہ میں وقوف کیا،  اس کا حج ادا نہیں ہو گا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : عَرَفَۃ کُلَّہَا مَوْقِفٌ وَارْتَفِعُوْا عِنْ بَطْنٍ عُرْنَۃ وَمُزْدَلِفَۃ کُلَّہَا مُوْقِفٌ، وَارْتَفِعُوْا عَنْ بَطْنٍ مُحَسَّرٍ وَمِنیٰ کُلَّہَا مُنْحَرٌ۔ رَوَاہُ الطَّحَاوِیُّ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  کہتے ہیں رسول اکرمﷺ  نے فرمایا”میدان عرفات سارے کا سارا موقف ہے لیکن وادی عرنہ (یعنی نمرہ) سے بچے رہو (یعنی اس میں وقوف نہ کرو) اور مزدلفہ سارے کا سارا موقف ہے لیکن وادی محسرسے بچے رہو اور منیٰ سارے کا سارا قربان گاہ ہے۔ ” اسے طحاوی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : وادی عرفات اور وادی نمرہ دونوں ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مسجد نمرہ کا ایک حصہ وادی عرفات میں ہے اور دوسرا وادی نمرہ میں مسجد کے اندر بورڈ لگا کر اس کی نشاندہی کی گئی ہے لہٰذا مسجد نمرہ میں قیام سے قبل حدود عرفات کی تحقیق کر لینی چاہئے تاکہ حج باطل نہ ہو۔

 

مسئلہ255: میدان عرفات قبولیت دعا کی بہترین جگہ اور یوم عرفہ قبولیت دعا کا بہترین دن ہے۔

مسئلہ256: میدان عرفات میں مانگی جانے والی بہترین دعا درج ذیل ہے۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ اَنَّ النَّبِیَّا قَالَ (( خَیْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ یَوْمِ عَرَفَۃ وَََخَیْرُ مَا قُلْتُ اَنَا وَالنَّبِیُّوْنَ مِنْ قَبْلِیْ لاَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ  لاَ شَرِیْکَ لَہٗ  لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوْ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ))۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت عمرو بن شعیبؓ  اپنے باپ (شعیبؓ ) سے ،  شعیب اپنے دادا (حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ  نے فرمایا "بہترین دعاء عرفہ کے دن کی دعاء ہے اور بہترین کلمات جو میں نے کہے اور جو مجھ سے پہلے انبیاء oنے کہے وہ یہ ہیں ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،  بادشاہی اسی کے لئے ہے حمد کے لائق وہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : مذکورہ دعا کے علاوہ دوران وقوف آپﷺ نے جو دعائیں مانگیں ان کی تفصیل احادیث میں نہیں ملتی۔ واللہ اعلم بالصواب!

دعا مانگنے کے آداب،  دعا میں جائز اور نا جائز امور،  قبو لیت دعا کے الفاظ وغیرہ اور منتخب قرآنی و نبوی دعاؤں کے لئے مولف کی کتاب "کتاب الدعا” ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ257: یوم عرفہ آگ سے برأت کا دن ہے۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ (( مَا مِنْ یَوْمٍ اَکْثَرَ مِنْ اَنْ یُعْتِقَ اللّٰہُ فِیْہِ عَبْدًا مِّنَ النَّارِ مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃ وَاِنَّہٗ  لَیَدْنُوْ ثَّم یُبَاہِیْ بِہِمُ الْمَلاَئِکَۃ فَیَقُوْلُ مَا اَرَادَ ہٰٓوٴُلاَءِ؟۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ  کہتی ہیں کہ رسول اکرمﷺ  نے فرمایا "عرفہ کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کثرت سے بندوں کو آگ سے آزاد کرے اس روز اللہ (اپنے بندوں کے ) بہت قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان (حاجیوں ) کی وجہ سے فخر کرتا ہے اور فرشتوں سے پوچھتا ہے (ذرا بتاؤ تو) یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ258: میدان عرفات میں وقوف کے لئے غسل کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ259: میدان عرفات میں موجود حجاج کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنا منع ہے البتہ غیر حجاج کے لئے جائز ہے۔

عَنْ عُقْبَۃ بْنِ عَامِرٍؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : یَوْمُ عَرَفَۃ وَیَوْمُ النَّحْرِ وَاَیَّامُ التَّشْرِیْقِ عِیْدُنَا اْہْلَ الْاِسْلاَمِ وَہِیَ اَیَّامُ اَکْلٍ وَشُرْبٍ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ  (صحیح)

حضرت عقبہ بن عامرؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ  نے فرمایا "عرفہ کا دن،  قربانی کا دن اور ایام تشریق مسلمانوں کی عید کے دن اور کھانے پینے کے دن ہیں۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلِ اللّٰہِ : صِیَامُ یَوْمِ عَرَفَۃ اَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُکَفِّرَ السُّنَّۃ الَّتِیْ قَبْلَہُ وَالسُّنَّۃ الَّتِیْ بَعْدَہُ وَصِیَامُ یَوْمِ عَاشُوْرَاءَ اَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُّکَفِّرَ السُّنَّۃ الَّتِیْ قَبْلَہُ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابو قتادہؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ  نے فرمایا "یوم عرفہ کے روزہ (کے ثواب) کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ (اس کے ذریعہ) گزشتہ ایک سال اور آنے والے ایک سال کے (صغیرہ) گناہ معاف فرما دے گا اور یوم عاشورہ (10محرم) کے روزے (کے ثواب) کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ (اس کے ذریعے ) وہ گزشتہ ایک سال کے (صغیرہ) گناہ معاف فرما دے گا۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ260: سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی نماز ادا کئے بغیر میدان عرفات سے مزدلفہ آنا چاہئے۔

مسئلہ261: عرفات سے مزدلفہ آتے ہوئے اطمینان،  سنجیدگی اور وقار کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

عَنْ جابِرِبْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَدِیْثٍ حَجَّۃ الْوَدَاعِ قَالَ…وَاَرْدَفَ اُسَامَۃ خَلْفَہُ وَدَفَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامِ حَتّیٰ اِنَّ رِاسَہَا لَیُصِیْبُ مَوْرِکَ رِحْلِہِ وَیَقُوْلُ بِیَدِہِ الْیُمْنیٰ (( اَیُّہَا النَّاسُ السَّکِیْنَۃ السَّکِیْنَۃ ))کُلَّمَا اَتَی حَبْلاً مِنَ الْحِبَالِ اَرْخَی لَہَا قَلِیْلاً حَتّیٰ تَصْعَدَ حَتّیٰ اَتَی الْمُزْدَلِفَۃ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ حجۃ الوداع والی حدیث میں فرماتے ہیں (وقوف عرفہ کے بعد) رسول اللہﷺ  نے حضرت اسامہؓ کو اپنے پیچھے (اونٹنی پر) سوار کرایا اور آگے بڑھے۔ آپﷺ  نے (اپنی اونٹنی) قصواء کی مہار اس قدر کھینچی ہوئی تھی کہ اونٹنی کا سر (کجاوے کے ) مورک (کجاوے کا وہ حصہ جس میں سوار اپنا پاؤں رکھ سکتا ہے ) سے لگ رہا تھا۔ آپﷺ  اپنے داہنے ہاتھ سے (اشارہ کر کے ) فرما رہے تھے "لوگو! سکون اور اطمینان سے چلو۔ ” (راستے میں ) جب کوئی ریت کا ٹیلا آتا تو آپﷺ  اونٹنی کی مہار ذرا ڈھیلی کر دیتے اور وہ ٹیلے پر چڑھ جاتی حتی کہ آپ مزدلفہ پہنچ گئے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :غروب آفتاب سے قبل میدان عرفات چھوڑنے پر ایک جانور کی قربانی واجب ہے۔

 

مسئلہ262: منیٰ سے عرفات اور عرفات سے مزدلفہ آتے ہوئے تلبیہ کہنا مسنون ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر276کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

                9ذِیْ الْحَجَّۃ (لَیْلَۃ الْجَمْعِ)

 

مسئلہ263: 9 اور10ذی الحجہ کی درمیانی رات مزدلفہ میں بسر کرنا واجب ہے۔

مسئلہ 264 :9ذی الحجہ کو مغرب اور عشاء کی نمازیں قصر اور جمع کر کے مزدلفہ میں آ کر ادا کرنی چاہئیں۔

مسئلہ 265: دونوں نمازوں کے درمیان کوئی سنت یا نفل ادا نہیں کرنے چاہئیں۔

مسئلہ266: دونوں نمازیں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ ادا کرنی چاہئیں۔

مسئلہ 267: مزدلفہ کی رات جاگ کر عبادت کرنے کی بجائے سو کر گزارنا مسنون ہے۔

مسئلہ 268: نماز فجر ادا کرنے کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہو کر اچھی طرح روشنی پھیلنے تک وقوف کرنا (دعائیں مانگنا) چاہئے۔

مسئلہ 269: آفتاب طلوع ہونے سے تھوڑا قبل روشنی پھیلتے ہی مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہو جانا چاہئے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِیْ حَدِیْثِ حِجَّۃ الْوَدَاعِ قَالَ…حَتّیٰ اَتَی الْمُزْدَلِفَۃ فَصَلَّی بِہَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِاَذَانِ وَاحِدٍ وَاِقَامَتَیْنِ وَلَمْ یُسَبِّحْ بَیْنَہُمَا شَیْئًا ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ حَتّیٰ طَلَعَ الْفَجْرُ وَصَلَّی الْفَجْرَ حَیْنَ تَبَیَّنَ لَہٗ  الصُّبْحُ بِاَذَانِ وَاِقَامَۃ ثُمَّ رَکِبَ الْقَصْوَاءَ حَتّیٰ اَتَی الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃ فَدَعَاہُ وَکَبَّرَہٗ  وَہَلَّلَہٗ  وَوَحَّدَہُ فَلَمْ یَزَلْ وَاقِفًا حَتّیٰ اَسْفَرَ جِدًّا فَدَفَعَ قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ  حجۃ الوداع والی حدیث میں بیان فرماتے ہیں کہ مزدلفہ آ کر آپﷺ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ ادا کیں۔ دونوں نمازوں کے درمیان آپﷺ  نے کوئی دوسری نماز (نفل وغیرہ) ادا نہیں فرمائی۔ پھر آپﷺ نے طلوع فجر تک آرام فرمایا۔ جب صبح نمودار ہوئی تو فجر کی نماز،  اذان اور اقامت کہنے کے بعد (با جماعت) ادا فرمائی پھر (اپنی اونٹنی) قصواء پر سوار ہوئے حتی کہ مشعر الحرام تک تشریف لائے پھر قبلہ رخ ہو کر دعائیں مانگیں ،  تکبیر و تہلیل کی اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان فرمائی حتی کہ صبح خوب روشنی ہو گئی۔ پھر آپﷺ سورج طلوع ہونے سے پہلے (منیٰ کے لئے ) روانہ ہو گئے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : اگر کوئی شخص مزدلفہ میں رات بسر نہ کر سکے تو اسے ایک جانور کی قربانی دینی چاہئے۔

 

مسئلہ 270: مزدلفہ میں نماز فجر عام دنوں کی نسبت وقت سے پہلے ادا کرنا مسنون ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِؓ قَالَ مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلّیٰ صَلاَۃ اِلآَ لِمِیْقَاتِہَا اِلآَ صَلاَتَیْنِ صَلاَۃ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ وَصَلّیٰ الْفَجْرِ یَوْمَئِذٍ قَبْلَ مِیْقَاتِہَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اکرمﷺ  کو ہمیشہ وقت پر نمازیں پڑھتے دیکھا ہے سوائے دو نمازوں کے، مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز جمع کر کے (یعنی مغرب کی نماز تاخیر سے ادا کی) اور اس دن نماز فجر آپﷺ نے وقت سے پہلے ادا فرمائی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 271: جس شخص نے نماز فجر مزدلفہ میں پالی اس کا وقوف مزدلفہ درست ہو گا اس پر کوئی فدیہ ہے نہ دم۔

عَنْ عُرْوَۃ بْنِ مُضَرِّسٍ بْنِ اَوْسٍ بْنِ حَارِثَۃ بْنِ لاَمَ الطَّائِیِّث قَالَ : اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ بِالْمُزْدَلِفَۃ حِیْنَ خَرَجَ اِلَی الصَّلاَۃ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ جِئْتُ مِنْ جَبَلِیْ طَیٍّ اَکْلَلْتُ رَاحِلَتِیْ وَاتَّبَعْتُ نَفْسِیْ وَاللّٰہِ مَا تَرَکْتُ مِنْ حَبَلِ اِلآَ وَقَفْتُ عَلَیْہِ فَہَلْ لِیْ مِنْ حَجٍّ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( مَنْ شَہِدَ صَلاَ تَنَا ہٰذِہٖ وَوَقَفَ مَعَنَا حَتّیٰ یُدْفَعَ وَقَدْ وَقَفَ بِعَرَفَۃ قَبْلَ ذٰلِکَ لَیْلاً اَوْ نَہَارًا فَقَدْ تَمَّ حَجُّہٗ  وَقَضیٰ تَفَثَہُ)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ(صحیح)

حضرت عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام طائیؓ کہتے ہیں میں مزدلفہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپﷺ  نماز کے لئے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا "یا رسول اللہ (ﷺ )! میں قبیلہ طے کے پہاڑوں سے آیا ہوں۔ میں نے اپنی اونٹنی کو خوب دوڑایا اور اپنے آپ کو بھی خوب تھکایا (جلدی پہنچنے کے لئے ) اور اللہ کی قسم! میں نے راستے میں کوئی پہاڑ ایسا نہیں چھوڑا جس پر (عرفات کے تصور سے ) وقوف نہ کیا ہو،  کیا میرا حج ہے یا نہیں ؟” آپﷺ  نے ارشاد فرمایا "جو شخص مزدلفہ میں ہماری اس نماز (فجر) میں حاضر ہوا اور ہمارے ساتھ وقوف (مزدلفہ) کر لیا یہاں تک کہ منیٰ کو روانہ ہو اور اس سے پہلے وقوف عرفہ بھی کر چکا ہو خواہ رات کے وقت یا دن کے وقت اس کا حج ہو گیا اور میل کچیل دور ہو گیا۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : اگر کوئی شخص نماز عشاء کے آخری وقت (آدھی رات) تک کسی وجہ سے مزدلفہ نہ پہنچ سکے تو اسے نماز مغرب اور نماز عشاء دونوں جمع اور قصر کر کے مزدلفہ سے باہر جہاں کہیں ہو وہیں ادا کر لینی چاہئیں اور بعد میں مزدلفہ پہنچ جانا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب!

 

مسئلہ 272: مزدلفہ کا سارا میدان موقف (وقوف کرنے کی جگہ)ہے ہر حاجی اپنی اپنی قیام گاہ پر کھڑے ہو کر دعائیں مانگ سکتا ہے لیکن مشعر الحرام پہاڑی کے دامن میں (جہاں آج کل مسجد ہے ) کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا افضل ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر249کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 273: مزدلفہ میں کھڑے ہو کر دعائیں مانگنے کے لئے قبلہ رو ہونا اور ہاتھ اٹھانا مسنون ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر250,251کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 274: کمزوروں ،  بیماروں ،  بچوں ،  بوڑھوں اور عورتوں کو آدھی رات کے بعد مزدلفہ سے منیٰ جانے کی اجازت ہے۔

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَتْ سَوْدَۃ امْرَأَۃ ضَخْمَۃ ثَبِطَۃ فَاسْتَاذَنَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنْ تُفِیْضَ مِنْ جَمْعٍ بِلَیْلٍ فَاَذِنَ لَہَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں (ام المومنین)حضرت سودہؓ  بھاری بھرکم خاتون تھیں۔ اسی لئے انہوں نے رسول اللہﷺ  سے رات کے وقت مزدلفہ سے (منیٰ) روانہ ہونے کی اجازت چاہی تو آپﷺ  نے انہیں اجازت دے دی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 275: مزدلفہ سے سکون اور وقار کے ساتھ منیٰ آنا چاہئے لیکن وادی محسر سے تیزی کے ساتھ گزرنا چاہئے۔

عَنْ جَابِرٍؓ اَنَّ النَّبِیَّا اَوْضَعَ فِیْ وَادِیْ مُحَسِّرٍ وَزَادَ فِیْہِ بِشْرٌ وَاَفَاضَ مِنْ جَمْعٍ وَعَلَیْہِ السَّکِیْنَۃ وَاَمَرَہُمْ بِالسَّکِیْنَۃ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ  (صحیح)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  (مزدلفہ سے منیٰ آتے ہوئے ) وادی محسر سے تیزی سے گزرے۔ راوی بشر نے اس میں اضافہ کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ  مزدلفہ سے سکون اور سنجیدگی کے ساتھ لوٹے اور لوگوں کو بھی سکون اور سنجیدگی سے چلنے کا حکم دیا۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : وادی محسر،  مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان ایک وادی ہے جہاں اصحاب فیل پر عذاب نازل ہوا تھا۔ اس لئے آپﷺ نے وہاں سے جلدی جلدی گزرنے کا حکم دیا ہے۔

 

مسئلہ 276: مزدلفہ سے منیٰ آتے ہوئے تلبیہ کہنا مسنون ہے۔

عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضَِی اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّہٗ  کَانَ رَدِیْفَ النَّبِیِّا فَلَمْ یَزَلْ یُلَبِّیْ حَتّیٰ رَمیٰ جَمْرَۃ الْعَقَبَۃ۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ  (صحیح)

حضرت فضل بن عباسؓ  (مزدلفہ سے منیٰ آتے ہوئے ) نبی اکرمﷺ  کے پیچھے سوار تھے ان کا بیان ہے کہ آپﷺ  جمرہ عقبہ کو رمی کرنے تک تلبیہ کہتے رہے۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 277: وقوف مزدلفہ کے بعد منیٰ روانہ ہونے سے پہلے صرف جمرہ عقبہ کی رمی کے لئے مزدلفہ سے سات کنکریاں چننا مستحب ہے۔ واجب نہیں۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر298کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

                10 ذِیْ الْحَجَّہ،  یَوْم النَّحْرِ

 

مسئلہ 278: یوم النحر (قربانی کے دن) منیٰ پہنچ کر سب سے پہلے جمرہ عقبہ (جو مکہ کی طرف ہے ) کو کنکریاں مارنی چاہئیں پھر قربانی کرنی چاہئے پھر حجامت بنوانی چاہئے اور اس کے بعد مکہ مکرمہ جا کر طواف افاضہ کرنا چاہئے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ رَمیٰ جَمْرَۃ الْعَقَبَۃ ثُمَّ انْصَرَفَ اِلَی الْبُدْنِ فَنَحَرَہَا وَالْحَجَّامُ جَالِسٌ وَقَالَ بِیَدِہٖ عَنْ رَاسِہٖ فَحَلَقَ شِقَّہٗ  الْاَیْمَنَ فَقَسَمَہٗ  فِیْمَن یَلِیْہِ ثُمَّ قَالَ اِحْلِقِ الشِّقَّ الْآخَرَ، فَقَالَ (( اَیْنَ اَبُوْ طَلْحَۃ ؟ )) فَاَعْطَاہُ اِیَّاہُ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ  نے (مزدلفہ سے منیٰ آنے کے بعد پہلے ) جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں پھر اونٹوں کی طرف تشریف لائے اور انہیں ذبح کیا (پاس ہی) حجام بیٹھا تھا آپؐ نے اسے ہاتھ کے اشارے سے سر مونڈنے کا حکم دیا۔ اس نے سر کا دایاں حصہ مونڈ دیا۔ آپﷺ نے بال نزدیک بیٹھے ہوئے لوگوں میں تقسیم کر دئیے۔ پھر آپؐ نے حجام کو سر کا بایاں حصہ مونڈنے کا حکم دیا۔ پھر پوچھا "ابو طلحہؓ کہاں ہے ؟” (وہ حاضر ہوئے تو) آپﷺ نے وہ بال ان کو عنایت فرما دئیے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَاضَ یَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ رَجَعَ فَصَلَّی الظُّہْرَ بَمَنًی رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے قربانی کے دن ہی طواف افاضہ کیا پھر (مکہ سے ) منیٰ واپس جا کر نماز ظہر ادا فرمائی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 279: قربانی کے دن جمرہ عقبہ پر رمی (کنکریاں مارنا)،  قربانی،  حجامت اور طواف زیارت بالترتیب کرنے افضل ہیں لیکن اگر کوئی شخص جانے بوجھے یا بے جانے بوجھے یا بھول کر آگے پیچھے کر دے تو کوئی حرج نہیں۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِث قَالَ وَقَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِیْ حَجَّۃ الْوَدَاعِ بِمَنًی لِلنَّاسِ یَسْاَلُوْنَہٗ  فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَمْ اَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ اَنْ اَنْحَرَ فَقَالَ (( اِذْبَحْ وَلاَ حَرَجَ )) ثُمَّ جَاءَ ٗ ہ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَمْ اَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ اَنْ اَرْمِیْ فَقَالَ (( اِرْمِ وَلاَ حَرَجَ )) قَالَ فَمَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَنْ شَیْءٍ قُدِّمَ وَلاَ اُخِّرَ اِلآَ قَالَ اِفْعَلْ وَلاَ حَرَجَ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں کھڑے ہوئے تا کہ لوگ آپﷺ  سے مسائل دریافت کر سکیں۔ ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا "میں نے لا علمی میں قربانی سے پہلے حجامت کروا لی۔ ” آپﷺ  نے ارشاد فرمایا "اب قربانی کر لو،  کوئی حرج نہیں۔ ” دوسرا شخص حاضر ہوا اور عرض کیا "یا رسول اللہ (ﷺ )! میں نے کنکریاں مارنے سے قبل لا علمی میں قربانی کر لی۔ ” آپﷺ  نے فرمایا "اب کنکریاں مار لو،  کوئی حرج کی بات نہیں۔ ” غرض رسول اللہﷺ سے تقدیم اور تاخیر کے معاملے میں جو بھی سوال کیا گیا اس کے جواب میں آپﷺ نے یہی جواب ارشاد فرمایا "اب کر لو،  کوئی حرج کی بات نہیں۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 280: طواف زیارۃ کے بعد حج کی سعی ادا کرنی چاہئے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر 227کے تحت ملاحظہ فرمائیں

 

مسئلہ 281: حج کو حج اکبر اور قربانی کے دن (10 ذو الحجہ) کو یوم حج اکبر کہا جاتا ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَقَفَ یَوْمَ النَّحْرِ بَیْنَ الْجَمَرَاتِ فِیْ الْحَجَّۃ الَّتِیْ حَجَّ فَقَالَ ((اَیُّ یَوْمٍ ہٰذَا ؟ )) قَالُوْا یَوْمُ النَّحْرِ قَالَ (( ہٰذَا یَوْمُ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ)) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤُدَ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ قربانی کے روز (منیٰ میں ) جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اس حج میں جو آپﷺ  نے ادا کیا ارشاد فرمایا "(لوگو!) یہ کون سا دن ہے ؟” صحابہ کرامؓ  نے عرض کیا "قربانی کا دن۔ ” آپﷺ نے ارشاد فرمایا "یہ یوم حج اکبر ہے۔ ” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 282: 10 ذی الحجہ کو منیٰ میں نماز عید ادا کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

 

وضاحت :رمی جمرہ عقبہ،  قربانی،  حجامت اور طواف زیارت کے مسائل بالترتیب آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

رَمْیُ الْجَمْرَۃ الْعَقَبَۃ

 

جمرہ عقبہ کی رمی کے مسائل

 

مسئلہ 283: جمرہ عقبہ پر رمی کرنا واجب ہے۔

عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ رَاَیْتُ النَّبِیَّا یَرْمِیْ عَلیٰ رَاحِلَتِہٖ یَوْمَ النَّحْرِ وَیَقُوْلُ (( لِتَاخُذُوْا مَنَاسِکَکُمْ فَاِنِّیْ لاَ اَدْرِیْ لَعَلِّی لاَ اَحُجُّ بَعْد حَجَّتِیْ ہٰذِہٖ)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو قربانی کے دن اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے دیکھا ہے آپﷺ  فرما رہے تھے "مجھ سے اپنے حج کے طریقے سیکھ لو کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس حج کے بعد دوسرا حج کر سکوں یا نہ کر سکوں ؟” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :کسی صورت میں رمی نہ کی جا سکے تو ایک دم (جانور کی قربانی) واجب ہو گا۔

رسولﷺ  کے مذکورہ الفاظ فَاِنِّیْ لاَ اَدْرِیْ کی وجہ سے آپؐ کے حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔

 

مسئلہ 284: جمرہ عقبہ کی رمی سے پہلے تلبیہ کہنا بند کر دینا چاہئے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر290کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 285: جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے کا افضل وقت طلوع آفتاب کے بعد چاشت کا وقت ہے لیکن کسی عذر کی بناء پر11ذی الحجہ کی طلوع فجر تک کنکریاں مارنے کی رخصت ہے۔

مسئلہ 286: ایام تشریق (13,12,11 ذی الحجہ) میں رمی جمار کا وقت زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک ہے۔

 

عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ رَمیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ الْجَمْرَۃ یَوْمَ النَّحْرِ ضُحًی وَاَمَّا بَعْدُ فَاِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ  نے قربانی کے روز جمرہ عقبہ کو دن چڑھے کنکریاں ماریں جبکہ اس کے بعد (ایام تشریق میں ) دن ڈھلے رمی فرمائی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یُسْئَلُ اَیَّامَ مِنًی فَیَقُوْلُ(( لاَ حَرَجَ)) فَسَاَلُہٗ  رَجُلٌ فَقَالَ حَلَقْتُ قَبْلَ اَنْ اَذْبَحَ ؟ قَالَ (( لاَ حَرَجَ )) فَقَالَ: رَجُلٌ رَمَیْتُ بَعْدَ مَا اَمْسَیْتُ ؟ قَالَ ((لاَ حَرَجَ )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ منیٰ میں لوگ رسول اکرمﷺ  سے سوال پوچھتے آپﷺ فرماتے "کوئی حرج نہیں۔ ” ایک آدمی نے پوچھا "میں نے قربانی سے پہلے حجامت بنوائی ہے۔ ” آپؐ نے فرمایا "کوئی حرج نہیں۔ ” دوسرے آدمی نے پوچھا "میں نے شام کے بعد (جمرہ عقبہ کو) کنکریاں ماریں۔ ” آپﷺ  نے ارشاد فرمایا "کوئی حرج نہیں۔ ” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :حوض کے اردگرد پڑی ہوئی کنکریاں رمی کے لئے استعمال کرنا جائز ہے البتہ جو کنکریاں حوض کے اندر گری ہوں انہیں دوبارہ رمی کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں۔

اگر کنکری ستون (جمرہ) کو نہ لگے لیکن حوض کے اندر گرے تو رمی درست ہو گی

اگر کنکری حوض کے اندر نہ گرے تو رمی دوبارہ کرنی چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب!

 

مسئلہ 287: سورج طلوع ہونے سے پہلے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا منع ہے خواہ بوڑھے ہوں خواہ بچے ،  خواتین ہوں یا مریض۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا قَدَّمَ ضَعَفَۃ اَہْلِہٖ وَقَالَ : لاَ تَرْمُوْا الْجَمَرَۃ حَتّیٰ تَطْلُعَ الشَّمْسُ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے اپنے گھر کے ضعیف افراد کو رات کے وقت ہی منیٰ روانہ فرما دیا اور انہیں فرمایا "جمرہ عقبہ کو سورج طلوع ہونے سے پہلے کنکریاں نہ مارنا۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : اگر کوئی شخص سورج طلوع ہونے سے قبل رمی کر لے ،  تو اسے سورج طلوع ہونے کے بعد رمی دوبارہ کرنی چاہئے۔

 

مسئلہ 288: ہر جمرہ کو الگ الگ سات کنکریاں مارنی چاہئیں۔

مسئلہ 289: کنکری مارتے وقت "اللہ اکبر” کہنا مسنون ہے۔

مسئلہ 290:جمرہ عقبہ کی رمی سے پہلے تلبیہ کہنا بند کر دینا چاہئے۔

 

عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کُنْتُ رِدْفَ النَّبِیِّا فَلَمْ یَزَلْ یُلَبِّیْ حَتّیٰ رَمَی جَمْرَۃ الْعَقَبَۃ فَرَمَاہَا بِسَبْعِ حَصیَاتٍ یُکَبِّرُ مَعَ کُلِّ حَصَاۃ۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ  (صحیح)

حضرت فضل بن عباسؓ  فرماتے ہیں (قربانی کے دن) میں نبی اکرمﷺ  کے پیچھے سوار تھا۔ آپﷺ  جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہتے رہے۔ آپﷺ  نے جمرہ عقبہ کو سات (الگ الگ) کنکریاں ماریں اور ہر کنکری مارتے وقت "اللہ اکبر” کہا۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : مٹھی بھر کر ایک ہی مرتبہ سات کنکریاں مارنا جائز نہیں ایسی صورت میں مسنون طریقے کے مطابق دوبارہ رمی کرنا چاہئے اگر یہ ممکن نہ ہو تو ایک دم (جانور کی قربانی) واجب ہو گی۔

 

مسئلہ 291: مکہ مکرمہ بائیں ہاتھ اور منیٰ دائیں ہاتھ رکھتے ہوئے رمی کرنا مستحب ہے۔

 

عَنْ عَبْدِاللّٰہِؓ اَنَّہٗ  انْتَہیٰ اِلَی الْجَمْرَۃ الْکُبْریٰ جَعَلَ الْبَیْتَ عَنْ یَسَارِہِ وَمِنًی عَنْ یَمِیْنِہٖ وَرَمیٰ بِسَبْعٍ وَقَالَ ہٰکَذَا رَمَی الَّذِیْ اُنْزِلَتْ عَلَیْہِ سُوْرَۃ الْبَقَرَۃ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جب جمرہ عقبہ پر پہنچے تو بیت اللہ شریف کو اپنی بائیں طرف اور منیٰ کو دائیں طرف رکھتے ہوئے جمرہ کو سات کنکریاں ماریں اور فرمایا "اس طرح رمی کی اس ذات نے جس پر سورہ بقرہ نازل کی گئی۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 292: جمرہ عقبہ کی رمی کے فوراً بعد واپس آ جانا چاہئے وہاں رکنا چاہئے نہ دعا مانگنی چاہئے۔

مسئلہ 293: جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی کو کنکریاں مارنے کے بعد ذرا ہٹ کر قبلہ رو ہو کر دعاء مانگنا مسنون ہے۔

 

عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ بَلَغَنَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کَانَ اِذَا رَمَی الْجَمْرَۃ الَّتِیْ تَلِی الْمَنْحَرَ مَنْحَرَ مِنًی رَمَاہَا بِسَبْعِ حَصَیَاتِ یُکَبِّرُ کُلَّمَا رَمَی بِحَصَاۃ ثُمَّ تَقَدَّمَ اَمَامَہَا فَوَقَفَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃ رَافِعًا یَدَیْہِ یَدْعُوْ یُطِیْلُ الْوُقُوْفَ ثُمَّ یَاتِی الْجَمْرَۃ الثَّانِیَۃ فَیَرْمِیْہَا بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ یُکَبِّرُ کُلَّمَا رَمَی بِحَصَاۃ ثُمَّ یَنْحَدِرُ ذَاتَ الشِّمَالِ فَیَقِفُ مُسْتَقْبِلَ الْبَیْتِ رَافِعًا یَدَیْہِ یَدْعُوْ ثُمَّ یَاتِی الْجُمْرَۃ الَّتِیْ عِنْدَ الْعَقَبَۃ فَیَرْمِیْہَا بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ وَلاَ یَقِفُ عِنْدَہَا۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ  (صحیح)

ابن شہاب زہری کہتے ہیں ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ رسول اللہﷺ جب اس جمرہ کو کنکریاں مارتے ،  جو منیٰ میں قربان گاہ کے نزدیک ہے (یعنی جمرہ اولی) تو اسے سات کنکریاں مارتے ،  ہر کنکری مارتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر آگے بڑھتے اور قبلہ رو ہو کر کھڑے ہو جاتے اور دونوں ہاتھ (دعاء کے لئے ) اٹھاتے اور دیر تک اسی حالت میں وقوف فرماتے پھر دوسرے جمرے (یعنی جمرہ وسطی) کے پاس آتے۔ اسے سات کنکریاں مارتے ہر کنکری مارتے وقت "اللہ اکبر” کہتے۔ پھر بائیں طرف مڑتے اور قبلہ رو کھڑے ہو جاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے اسے سات کنکریاں مارتے اور اس کے پاس (دعاء کے لئے ) وقوف نہیں فرماتے تھے۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 294: رمی جمار کا مقصد اللہ کا ذکر اور اللہ کی عبادت کرنا ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر179کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 295: رمی کے لئے کنکری کا حجم چنے کے دانے سے کچھ بڑا ہونا چاہئے۔

 

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِؓ یَقُوْلُ رَاَیْتُ النَّبِیَّا رَمَی الْجَمْرَۃ بِمِثْلِ حَصَی الْخَذْفِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں میں نے نبی اکرمﷺ کو رمی جمار کرتے دیکھا۔ آپﷺ  نے جمرہ کو وہ کنکریاں ماریں جنہیں دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکا جا سکے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 296: چنے کے دانے سے زیادہ بڑی کنکریاں مارنا منع ہے۔

مسئلہ 297: سواری پر رمی کرنا جائز ہے۔

مسئلہ 298: وقوف مزدلفہ کے بعد منیٰ روانہ ہونے سے پہلے صرف جمرہ عقبہ کی رمی کے لئے مزدلفہ سے سات کنکریاں چننا مستحب ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ غَدَاۃ الْعَقَبَۃ وَہُوَ عَلیٰ رَاحِلَتِہٖ(( ہَاتَ الْقُطْ لِیْ)) فَلْقَطْتُ لَہ حَصَیَاتٍ ہُنَّ حَصَی الْخَذْفٍ، فَلَمَّا وَضَعْتُہُنَّ فِیْ یَدِہٖ قَالَ (( بِاِمْثَالِ ہٰٓوُلاَءِ وَاِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِیْ الدِّیْنِ فَاِنَّمَا اَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِیْ الدِّیْنِ )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے جمرہ عقبہ کو رمی کرنے کی صبح مجھے فرمایا "آؤ میرے لئے کنکریاں چنو۔ ” اس وقت آپﷺ  (مزدلفہ سے منیٰ جانے کے لئے ) اونٹنی پر سوار تھے۔ میں نے آپﷺ  کے لئے ایسی کنکریاں اکٹھی کیں جنہیں دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکا جا سکے۔ جب میں نے وہ کنکریاں آپﷺ  کے ہاتھ میں رکھ دیں تو فرمایا "ہاں ! ایسی ہی کنکریاں ٹھیک ہیں۔ (اور یاد رکھو) دین میں مبالغہ کرنے سے بچو۔ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو (شدت) نے ہی ہلاک کیا۔ ” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : ایام تشریق کے دوران رمی کے لئے کسی بھی جگہ سے کنکریاں لی جا سکتی ہیں۔

 

مسئلہ 299: بچوں،  بیماروں اور بوڑھوں کی طرف سے رمی کرنا جائز ہے۔

 

عَنْ جَابِرٍؓ قَال حَجَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَمَعَنَا النِّسَآءُ وَالصِّبْیَانُ فَلَبَّیْنَا عَنِ الصِّبْیَانِ وَرَمَیْنَا عَنْہُمْ۔ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں ہم نے رسول اکرمﷺ  کے ساتھ حج کیا۔ ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے۔ ہم نے بچوں کی طرف سے تلبیہ بھی کہا اور ان کی طرف سے کنکریاں بھی ماریں۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : دوسروں کی طرف سے رمی کرنے والے آدمی کو پہلے اپنی رمی مکمل کرنی چاہئے۔ پھر دوسرے کی طرف سے کرنی چاہئے۔

یہ ضروری نہیں کہ رمی کرنے والا تینوں جمرات کی رمی مکمل کر کے پھر دوسرے کی طرف سے شروع کرے بلکہ ایک ہی جمرہ پر پہلے اپنی طرف سے رمی مکمل کرے اور پھر دوسرے کی طرف سے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے جمرے پر رمی مکمل کرنی چاہئے۔

 

                رمی سے متعلق غیر مسنون افعال

 

ایام تشریق کی رمی کے لئے مزدلفہ سے کنکریاں چننا۔

٭رمی سے قبل کنکریوں کو دھونا۔

٭سات کنکریاں بیک وقت مارنا۔

٭رمی کے وقت اللہ اکبر کے بعدرَغْمًا لِّلشَّیْطَانِ وَرِضًا لِّلرَّحْمَانِ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حَجًّا مَّبْرُوْرًا کے الفاظ کہنا۔

٭قدرت کے باوجود رمی خود نہ کرنا۔

٭رمی کرتے وقت یہ عقیدہ رکھنا کہ شیطان کو مار رہے ہیں۔

٭رمی کے لئے پتھر یا جوتے استعمال کرنا۔

٭رمی کرتے وقت شیطان کو گالیاں دینا۔

٭رمی کے لئے جاتے ہوئے ادعیہ،  اذکار کی بجائے ہنگامہ اور شور و غل کرتے ہوئے جانا۔

٭جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی کی رمی کے بعد دعا ترک کرنا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اَلنَّحْرُ

 

قربانی کے مسائل

 

مسئلہ 300: حج قران اور حج تمتع کرنے والوں پر قربانی کرنا واجب ہے جو قربانی نہ کر سکے اسے حج کے دنوں میں تین اور گھر واپس جا کر سات (کل دس) روزے رکھنے چاہئیں۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ…فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّا مَکَّۃ قَالَ لِلنَّاسِ ((مَنْ کَانَ مِنْکُمْ اَہْدیٰ فَاِنَّہٗ  لاَ یَحِلُّ مِنْ شَیْءٍ حَرُمَ مِنْہُ حَتّیٰ یَقْضِیَ حَجَّہُ وَمَنْ لَّمْ یَکُنْ مِّنْکُمْ اَہْدیٰ فَلْیَطُفْ بِالْبَیْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃ وَلْیُقَصِّرْ وَلْیَحْلِلْ ثُمَّ لِیُہِلَّ بِالْحَجِّ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ ہَدْیًا فَلْیَصُمْ ثَلاَثَۃ اَیَّامٍ فِیْ الْحَجِّ وَسَبْعَۃ اِذَا رَجَعَ اِلیٰ اَہْلِہٖ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  فرماتے ہیں جب نبی اکرمﷺ  مکہ مکرمہ پہنچے تو لوگوں سے فرمایا "تم میں سے جو شخص اپنے ساتھ قربانی کا جانور لایا وہ بیت اللہ شریف کا طواف کرے۔ صفا و مروہ کی سعی کرے اور بال کٹوا کر احرام کھول دے پھر (8 ذی الحجہ کو ) حج کا احرام باندھے ،  جو شخص قربانی کا جانور نہ پائے (یعنی استطاعت نہ رکھے ) وہ حج کے دنوں میں تین اور گھر واپس جا کر سات روزے رکھے۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : حج افراد کرنے والے کے لئے قربانی کرنا ضروری نہیں چاہے کرے چاہے نہ کرے حج کے دنوں میں تین روزے عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد کسی بھی وقت رکھے جا سکتے ہیں اگر عید سے قبل روزے نہ رکھے جا سکیں تو ایام تشریق (13,12,11 ذی الحجہ) میں رکھے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ عام حالت میں حاجی اور غیر حاجی سب کے لئے ایام تشریق میں روزے رکھنا منع ہیں۔ گھر واپس جا کر سات روزے مسلسل یا الگ الگ رکھنا دونوں طرح جائز ہے اگر کوئی شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور دوران حج بیمار ہو جائے اور تین روزے رکھنے کی استطاعت بھی نہ رکھتا ہو،  تو اسے اپنے گھر پہنچ کر دس روزے مکمل کرنے چاہئیں۔ واللہ اعلم بالصواب!

 

مسئلہ 301: منیٰ یا مکہ میں کسی بھی جگہ حج کی قربانی کرنا جائز ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ ((کُلُّ عَرَفَۃ مَوْقِفٌ وَّ کُلُّ مِنًی مَنْحَرٌ وَکُلُّ الْمُزْدَلِفَۃ مَوْقِفٌ وَکُلُّ فِجَاجِ مَکَّۃ طَرِیْقٌ وَمَنْحَرٌ ))رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ (صحیح)

حضرت جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "سارا عرفات موقف ہے سارا منیٰ قربان گاہ ہے۔ سارا مزدلفہ موقف ہے۔ مکہ کی ساری گلیاں راستہ اور قربان گاہ ہیں۔ ” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : دم کی قربانی بھی منیٰ اور مکہ سے باہر کرنی جائز نہیں۔

 

مسئلہ 302: 10 ذی الحجہ کی صبح سے لے کر13 ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک چار دن قربانی کرنا جائز ہے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ عَنِ النَّبِیِّا کُلُّ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ ذَبْحٌ۔ رَوَاہُ الْبَیْہَقِیُّ (حسن)

حضرت ابو ہریرہؓ ،  نبی اکرمﷺ  سے روایت کرتے ہیں کہ ایام تشریق کے تمام دن قربانی کے دن ہیں۔ ” اسے بیہقی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 303: 10 ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد قربانی کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی شخص کسی وجہ سے کنکریاں مارنے سے قبل قربانی کر لے تو کوئی حرج نہیں۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر279کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 304: جانور ذبح کرنے کے آداب۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ اَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِؓ بِحَّدِ الشِّفَارِ وَاَنْ نُّوَاریٰ عَنِ الْبَہَائِمِ وَقَالَ ((اِذَا ذَبَحَ اَحَدُکُمْ فَلْیُجْہِزْ)) رَوَاہُ ابْنِ مَاجَۃ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے (جانور ذبح کرنے سے قبل) چھری تیز کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ چھری کو جانور سے چھپایا جائے اور جب ذبح کرنا ہو تو جلدی جلدی ذبح کیا جائے۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 305: قربانی کے وقت جانور کا منہ قبلہ کی طرف کرنا مستحب ہے۔

مسئلہ 306: قربانی سے قبل بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ کہنا مسنون ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِؓ قَالَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ذَبَحَ یَوْمُ الْعِیْدِ کَبْشَیْنِ ثُمَّ قَالَ حِیْنَ وَجَّہْہُمَا اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ  وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُّحَمَّدٍ وَّاُمَّتِہٖ۔ رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمَۃ (صحیح)

حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے عید کے روز دو مینڈھے ذبح کئے۔ دونوں کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کر کے یہ آیت پڑھی میں نے اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں ہر گز مشرکوں سے نہیں ہوں۔ (سورہ انعام،  آیت نمبر 78)بے شک میری نماز اور میری قربانی میرا جینا اور مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا ہوں۔ (سورہ انعام،  آیت نمبر163,162) (مذکورہ آیت تلاوت کرنے کے بعد آپﷺ  نے یہ کلمات ارشاد فرمائے ) یا اللہ! یہ جانور تو نے ہی دیا تھا اور تیرے ہی نام پر میں نے اسے قربان کیا ہے۔ محمد (ﷺ ) اور ان کی امت کی طرف سے۔ اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : ایک صحیح حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں (اللہ کے نام سے ذبح کرتا  ہوں ،  یا اللہ اسے آل محمد اور امت محمدﷺ کی طرف سے قبول فرما۔ (ابو داؤد،  کتاب الاضاحی باب مایستحب من الضحایا) لہٰذا قربانی کرتے وقت اِللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنَّا کے الفاظ کہنا بھی مسنون ہیں۔

 

مسئلہ 307: دوسرے سے قربانی کروانی جائز ہے لیکن خود کرنا افضل ہے۔

مسئلہ 308: استطاعت کے مطابق ایک سے زیادہ قربانی دینا بھی مسنون ہے۔

مسئلہ 309: اپنے جانور کی قربانی سے گوشت خود کھانا مسنون ہے۔

مسئلہ 310: قربانی کا سارا گوشت استعمال کرنا ضروری نہیں۔

 

عَنْ جَابِرِ فِیْ قِصَّۃ حَجَّۃ الْوَدَاعِ قَالَ…ثُمَّ انْصَرِفَ اِلَی الْمَنْحَرَفَنَحَرَ ثَلاَثًا وَّسِتِّیْنَ بِیَدِہٖ ثُمَّ اعْطیٰ عَلِیًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَاَشْرَکَہٗ  فِیْ ہَدْیَۃ ثُمَّ اَمَرَ مِنْ کُلِّ بَدَنَۃ بِبَضْعَۃ فَجُعِلَتْ فِیْ قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَاَکَلاَ مِنْ لَحْمِہَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِہَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابرؓ سے حجۃ الوداع کی حدیث میں روایت ہے کہ (رمی کے بعد) نبی اکرمؐ قربان گاہ تشریف لائے اور تریسٹھ (63) اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کئے۔ باقی اونٹ (37) حضرت علیؓ کو دئیے جنہیں حضرت علیؓ نے ذبح کیا۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بھی اپنی قربانی میں شریک کیا پھر آپﷺ نے ہر اونٹ سے گوشت کا ٹکڑا لینے کا حکم دیا جسے ہنڈیا میں ڈال کر پکایا گیا۔ رسول اللہؐ اور حضرت علیؓ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور شور با پیا۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 311: قربانی کے لئے موٹا تازہ اور عمدہ جانور خریدنا چاہئے۔

مسئلہ 312: خصی جانور کی قربانی جائز ہے۔

مسئلہ 313: کسی دوسرے زندہ یا فوت شدہ شخص کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے۔

 

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کَانَ اِذَا اَرَادَ اَنْ یُّضَحِّیَ اشْتَریٰ کَبْشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ سَمِیْنَیْنِ اَقْرَنَیْنِ اَمْلَحَیْنِ مَوْجُوءَ یْنِ فَذَبَحَ اَحَدَہُمَا عَنْ اُمَّتِہٖ لِمَنْ شَہِدَ لِلّٰہِ بِالتَّوْحَیْدِ وَشَہِدَ لَہٗ  بِالْبَلاَغِ وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ ا۔ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃ (صحیح)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب بھی قربانی کرنے کا ارادہ فرماتے ،  تو دو موٹے تازے ،  سینگوں والے ،  سیاہ رنگ دار،  خصی مینڈھے خریدتے۔ ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح کرتے جو اللہ کی توحید کی گواہی دینے والے اور حضرت محمدﷺ کی رسالت کے قائل ہیں اور دوسرا محمد(ﷺ ) اور آل محمد (ﷺ ) کی طرف سے ذبح کرتے۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 314: قربانی کی بجائے اس کی قیمت صدقہ کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

اَلْحَلْقُ وَالتَّقْصِیْرُ

 

سرمنڈوانے اور بال کٹوانے کے مسائل

 

مسئلہ 315: 10 ذی الحجہ کو قربانی کے بعد سرمنڈوانا یا سر کے بال کٹوانا واجب ہے۔

مسئلہ 316: پہلے سر کا دایاں حصہ پھر بایاں حصہ منڈوانا مستحب ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر278 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

حلق یا تقصیر ترک کرنے پر ایک دم (مکہ یا منیٰ میں ) دینا واجب ہے۔

مسئلہ 317: اگرکسی عذر یا بھول چوک یا لاعلمی کی وجہ سے قربانی سے پہلے حجامت کروا لی جائے تو کوئی حرج نہیں۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر279 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 318: حلق یا تقصیر کے وقت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ مَا ھَدَانَا وَاَنْعَمَ عَلَیْنَا اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ نَاصِیَتِیْ بِیْدِکْ کے الفاظ سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 319: خواتین کو انگشت بھر بال خود یا کسی محرم سے کٹوانے چاہئیں۔

مسئلہ 320: خواتین کے لئے سر کے سارے بال منڈوانا یا کٹوانا منع ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر363 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

بال کٹواتے ہوئے خواتین کو پردے کا اہتمام ضرور کرنا چاہئے۔

 

مسئلہ 321: سر کے مختلف حصوں سے تھوڑے تھوڑے بال کاٹ کر احرام اتارنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 322: حلق یا تقصیر کے لئے قبلہ رو بیٹھنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 323: سر کا کچھ حصہ منڈوانا اور کچھ حصہ چھوڑ دینا منع ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ نَہیٰ عَنِ الْقَزَعِ قَالَ قُلْتُ لِنَافِعٍ وَمَا الْقَزَعُ ؟ قَالَ یُحْلَقُ بَعْضَ رَأْسِ الصَّبِیِّ وَیُتْرَکُ بَعْضٌ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے قزع سے منع فرمایا ہے (حدیث کے ایک راوی) نے حضرت نافعؓ (دوسرے راوی) سے پوچھا "قزع کا کیا مطلب ہے ؟” حضرت نافعؓ نے فرمایا "سر کا کچھ حصہ مونڈ دینا اور کچھ چھوڑ دینا۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 324: اگر کوئی مرد یا عورت سعی کے بعد بال کٹوانے بھول جائے تو یاد آنے پر بال کٹوا لینے چاہئیں اور بال کٹوانے کے بعد احرام اتارنا چاہئے اس صورت میں کوئی دم یا فدیہ نہیں ہو گا۔

مسئلہ 325: اگر کوئی مرد یا عورت بال کٹوائے بغیر بھول کر احرام اتار دے تو یاد آنے پر اسے دوبارہ احرام باندھ کر بال کٹوانے چاہئیں اور پھر احرام اتارنا چاہئے۔ اس صورت میں بھی کوئی دم یا فدیہ نہیں ہو گا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ (( اِنَّ اللّٰہَ وَضَعَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَاَ وَالنِّسْیَانَ وَمَا اسْتُکْرِہُوْا عَلَیْہِ)) رَوَاہُ الْحَاکِمُ وَالدَّارُقُطْنِیُّ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "اللہ تعالیٰ نے میرے امت کی بھول چوک کو معاف فرما دیا ہے اور جو کام زبردستی کرائے جائیں وہ بھی معاف ہیں۔ ” اسے حاکم اور دار قطنی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 326: بال کٹوانے سے بال منڈوانا افضل ہے۔

عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِیْنَ )) قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلِلْمُقَصِّرِیْنَ ؟ قَالَ (( اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِیْنَ)) قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ لِلْمُقَصِّرِیْنَ ؟ قَالَ ((اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِیْنَ ))، قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلِلْمُقَصِّرِیْنَ ؟ قَالَ ((وَ لِلْمُقَصِّرِیْنَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (صحابہ کرامؓ کے کسی سوال کے جواب میں ) فرمایا "اللہ! سرمنڈوانے والوں کی مغفرت فرما۔ ” صحابہ کرامؓ نے عرض کیا "یا رسول اللہ (ﷺ )! سرکے بال کٹوانے والوں کے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ ” آپﷺ نے پھر ارشاد فرمایا "یا اللہ! سرمنڈوانے والوں کی مغفرت فرما۔ ” صحابہ کرامؓ نے پھر عرض کیا "یا رسول اللہﷺ ! بال کٹوانے والوں کے لئے بھی مغفرت کے لیے دعاء فرمائیں۔ ” آپﷺ  نے پھر ارشاد فرمایا "یا اللہ! سرمنڈوانے والوں کی مغفرت فرما۔ ” صحابہ کرامؓ نے عرض کیا "یا رسول اللہؐ ! بال کٹوانے والوں کے لئے بھی مغفرت کی دعاء فرمائیں۔ ” تب آپﷺ نے (چوتھی مرتبہ) ارشاد فرمایا "یا اللہ! بال کٹوانے والوں کی بھی مغفرت فرما۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 327: حجامت کرانے کے بعد ناخن ترشوانا مستحب ہے۔

 

قَالَ ابْنُ مُنْذِرٍ ثَبَتَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَمَّا حَلَقَ رَاسَہُ قَلَمَ ظَفَارَہُ۔ ذَکَرَہُ فِیْ فِقَہِ السُّنَّۃ

ابن منذر کہتے ہیں یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے جب سر منڈایا تو اپنے ناخن بھی ترشوائے۔ یہ روایت فقہ السنہ میں ہے۔

 

مسئلہ 328: حلق یا تقصیر کے بعد محرم کے لئے بیوی کے سوا تمام چیزیں حلال ہو جاتی ہیں جو احرام کی وجہ سے حرام تھیں ،  مثلاً خوشبو لگانا،  سلے کپڑے پہننا،  شکار کرنا وغیرہ۔

 

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کُنْتُ اُطَیِّبُ النَّبِیَّا قَبْلَ اَنْ یُّحْرِمَ وَیَوْمَ النَّحْرِ قَبْلَ اَنْ یَّطُوْفَ بِالْبَیْتِ بِطِیْبٍ فِیْہِ مِسْکٌ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ  کو احرام باندھنے سے پہلے اور قربانی کے دن بیت اللہ شریف کا طواف (زیارت) کرنے سے پہلے خوشبو لگائی۔ اس خوشبو میں مشک شامل تھی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : حلق یا تقصیر کے بعد حلال ہونے کو شرعی اصطلاح میں تحلل اول کہا جاتا ہے اور تحلل ثانی طواف زیارت کے بعد ہوتا ہے جس میں بیوی بھی حلال ہو جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

طَوَافُ الزِّیَارَۃ

 

طواف زیارت کے مسائل

 

مسئلہ 329: 10 ذی الحجہ کو قربانی کے بعد مکہ مکرمہ آ کر طواف زیارت (یا طواف افاضہ) کرنا فرض ہے۔

مسئلہ 330: طواف زیارت کے بعد آب زمزم پینا مستحب ہے۔

عَنْ جَابِرٍؓ فِیْ قِصَّۃ حَجَّۃ الْوَدَاعِ قَالَ…اَنَّ النَّبِیَّ انْصَرَفَ اِلَی الْمَنْحَرِ ثُمَّ رَکِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَاَفَاضَ اِلَی الْبَیْتِ فَصَلّیٰ بِمَکَّۃ الظُّہْرَ فَاَتیٰ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَسْقُوْنَ عَلیٰ زَمْزَمَ فَقَالَ (( اِنْزَعُوْا بَنِی عَبْدِالْمُطَّلِبِ فَلَوْلاَ اَنْ یَغْلِبَکُمُ النَّاسُ عَلیٰ سِقَایَتِکُمْ لَنَزَعْتُ مَعَکُمْ فَنَاوَلُوْہُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْہُ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابرؓ سے حجۃ الوداع والی حدیث میں روایت ہے کہ نبی اکرمؐ قربان گاہ تشریف لائے۔ اونٹ ذبح کئے پھر اونٹنی پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور طواف افاضہ کیا۔ ظہر کی نماز مکہ میں ادا کی اس کے بعد بنی عبدالمطلب کے پاس تشریف لائے جو لوگوں کو زمزم پلا رہے تھے۔ آپﷺ نے انہیں فرمایا "اے بنو عبدالمطلب! خوب پانی نکالو (اور لوگوں کو پلاؤ) اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ (میرے پانی نکال کر پینے یا پلانے کے بعد) لوگ (خود پانی نکالنے کی سنت ادا کرنے کے لئے ) تم سے ڈول زبردستی حاصل کر لیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ مل کر پانی نکالتا۔ ” تب بنی عبدالمطلب کے لوگوں نے پانی کا ایک ڈول (نکال کر) آپؐ کو دیا اور آپﷺ  نے اس سے پیا۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :کسی شرعی عذر کی وجہ سے 10 ذی الحجہ کو طواف زیارت نہ کیا جا سکے تو13,12,11 ذی الحجہ تک کسی بھی دن کیا جا سکتا ہے۔ اس تاخیر پر کوئی فدیہ یا دم نہیں طواف زیارت موخر کرنے کی صورت میں 12 یا 13 ذی الحجہ کو طواف زیارت اور طواف وداع دونوں کی نیت سے ایک ہی طواف کر لیا جائے تو کافی ہو گا۔ انشاء اللہ طواف زیارت چونکہ حج کا رکن ہے اس لئے ادا نہ کرنے پر اس کا کفارہ،  دم یا فدیہ دینے سے اس کی تلافی نہیں ہوتی طواف زیارت کئے بغیر حائضہ کا اس نیت سے طائف،  جدہ یا ریاض وغیرہ چلے جانا کہ حیض کے بعد واپس آ کر طواف زیارت کر لے گی،  جائز نہیں۔ (ملاحظہ ہو مسئلہ نمبر 150)

 

مسئلہ 331: طواف زیارت کے بعد احرام کی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں حتی کہ بیوی سے تعلق کی پابندی بھی ختم جو جاتی ہے۔ شرعی اصطلاح میں اسے "تحلل ثانی” کہا جاتا ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر150کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 332: طواف زیارت میں رمل درست نہیں۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَمْ یَرْمَلَ فِیْ السَّبْعِ الَّذِیْ اَفَاضَ فِیْہِ۔ رَوَاہُ ابْنِ خُزَیْمَۃ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے طواف افاضہ کے سات چکروں میں رمل نہیں فرمایا۔ اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 333: 10ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی سے پہلے طواف زیارت کرنا جائز ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر279کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 334: 8 ذی الحجہ کو منیٰ جانے سے پہلے طواف زیارت کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 335: طواف زیارت کے بعد حج کی سعی ادا کر کے رات واپس منیٰ میں آ کر گزارنا واجب ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر336کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

رات منیٰ سے باہر گزارنے پر ایک دم واجب ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

اَیَّامُ التَّشْرِیْقِ

 

ایام تشریق کے مسائل

 

مسئلہ 336: طواف افاضہ کے بعد منیٰ واپس آنا ضروری ہے۔

مسئلہ 337: اجر و ثواب کے اعتبار سے ایام تشریق سال کے باقی تمام دنوں سے زیادہ افضل ہیں۔

مسئلہ 338: ایام تشریق کی تمام راتیں منیٰ میں بسر کرنی واجب ہیں۔

مسئلہ 339: ایام تشریق میں روزانہ تینوں جمروں (جمرہ اولیٰ،  جمرہ وسطیٰ اور جمرہ عقبہ) کو بالترتیب زوال آفتاب کے بعد کنکریاں مارنی واجب ہیں۔

مسئلہ 340: جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطیٰ کو کنکریاں مارنے کے بعد ذرا ہٹ کر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعاء کرنا مسنون ہے۔

 

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ اَفَاضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ مِنْ آخِرِ یَوْمِہٖ حِیْنَ صَلَّی الظُّہْرُ ثُمَّ رَجَعَ اِلیٰ مِنًی فَمَکَثَ بِہَا لَیَالِیَ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ یَرْمِیْ الْجَمْرَۃ اِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ کُلُّ جَمْرَۃ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ یُکَبِّرُ مَعَ کُلِّ حَصَاۃ وَیَقِفُ عِنْدَ الْاُوْلیٰ وَالثَّانِیَۃ فَیُطِیْلُ الْقِیَامِ وَیَتَضَرَّعُ وَیَرْمِیْ الثَّالِثَۃ وَلاَ یَقِفُ عِنْدَہَا۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ (صحیح)

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے دن کے دوسرے حصہ میں طواف افاضہ کیا اور ظہر کی نماز بھی ادا فرمائی پھر واپس تشریف لائے اور ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں ہی گزاریں (اس دوران) زوال آفتاب کے بعد (تینوں ) جمرات کو کنکریاں ماریں ہر جمرہ کو سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری مارتے وقت "اللہ اکبر” کہتے۔ پہلے (جمرہ اولیٰ) اور دوسرے جمرہ (جمرہ وسطی) کے پاس دیر تک قیام کیا اور آہ و زاری (سے دعاء) کرتے رہے۔ تیسرے جمرہ (جمرہ عقبہ) کو کنکریاں مارنے کے بعد آپﷺ نے وقوف نہیں فرمایا۔ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : اگر کوئی شخص13,12,11 ذی الحجہ (تین ایام) منیٰ میں بسر نہ کرنا چاہے تو12,11کے دو دن بسر کرنے کے بعد واپس آ سکتا ہے۔ (ملاحظہ ہو مسئلہ نمبر33) 12 ذی الحجہ کو منیٰ سے واپس آنے والے حجاج کو غروب آفتاب سے پہلے منیٰ سے نکل آنا چاہئے اگر منیٰ میں سورج غروب ہو گیا اور13 ذی الحجہ کی رات شروع ہو گئی تو13 ذی الحجہ کی کنکریاں مارنا واجب ہو جائے گا ایام تشریق میں زوال سے پہلے کی گئی رمی دہرانی چاہئے یا اس کی جگہ ایک جانور کی قربانی دینی چاہئے تینوں جمرات کی بالترتیب رمی کرنا واجب ہے اگر ترتیب میں خلل واقع ہو جائے تو دوبارہ درست ترتیب کے ساتھ رمی کرنی چاہئے یا اس کی جگہ ایک جانور کی قربانی دینی چاہئے بلا عذر ایام تشریق کی رات منیٰ میں نہ گزارنے پر دم واجب ہے۔

 

مسئلہ 341: کسی خاص مجبوری کی وجہ سے ایام تشریق کی راتیں مکہ مکرمہ میں گزارنے کی رخصت ہے۔

 

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِؓ اسْتَأْذَنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنْ یَبِیْتَ بِمَکَّۃ لَیَالِیَ مِنًی مِنْ اَجْلِ سِقَایَتِہٖ فَاَذِنْ لَّہٗ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ نے حاجیوں کو پانی پلانے کے لئے ایام تشریق کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت رسول اللہﷺ  سے طلب کی تو آپﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 342: منیٰ میں ایام تشریق کے دوران اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنا چاہئے۔

عَنْ نُبَیْشَۃ الْہُذَلِیِّص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( اَیَّامُ التَّشْرِیْقِ اَیَّامُ اَکْلٍ و شُرْبٍ)) وَفِی رَوَایَۃ وَذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت نبیشہ ہذلیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ یہ اللہ کو یاد کرنے کے دن ہیں۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّا قَالَ (( مَا مِنْ اَیَّامٍ اَعْظَمُ عِنْدَ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ  وَلاَ اَحَبُّ اِلَیْہِ مِنَ الْعَمَلِ فِیْہِنَّ مِنْ ہٰذِہِ الْاَیَّامِ الْعَشْرِ فَاکْثِرُوْا فِیْہِنَّ مِنَ التَّہْلِیْلِ وَالتَّکْبِیْرِ وَالتَّحْمِیْدِ )) رَوَاہُ اَحْمَدٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا کوئی اور دن نہیں۔ جس میں کئے گئے اعمال اللہ تعالیٰ کو (ان دنوں کے اعمال کے مقابلے میں ) زیادہ محبوب ہوں۔ لہٰذا ان دنوں میں کثرت سے لاَ اِلٰہَ اِلآَ للّٰہُ ،  اَللّٰہُ اَکْبَرُ،  اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہو۔ ” اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ایام تشریق میں درج ذیل الفاظ سے تکبیرو تہلیل فرمایا کرتے۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ (ابن ابی شیبہ)

 

مسئلہ 343: 12 ذی الحجہ کو منیٰ سے واپس آنا ہو تو اسی روز13 ذی الحجہ کو رمی کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 344: طواف وداع کے بعد رمی کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 345: ایام تشریق کے دوران روزانہ نفلی طواف کرنا مستحب ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا کَانَ یَزُوْرُ الْبَیْتَ کُلَّ لَیْلَۃ مَادَامَ بِمِنًی۔ رَوَاہُ الْبَیْہِقِیُّ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ  (ایام تشریق کے دوران) جب تک منیٰ میں رہے روزانہ بیت اللہ شریف کا طواف کرتے رہے۔ اسے بیہقی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 346: ایام تشریق کے دوران تمام نمازیں مسجد خیف میں ادا کرنا مستحب ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَرْفُوْعًا صَلَّی فِیْ الْمَسْجِدِ الْخَیْفِ سَبْعُوْنَ نَبِیًّا۔ رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ (حسن)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  نبی اکرمﷺ  سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ  نے فرمایا "مسجد خیف میں ستر انبیاء کرام نے نماز ادا فرمائی۔ ” اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 347: جو متمتع یا قارن حاجی قربانی نہ دے سکے وہ ایام تشریق میں روزے رکھ سکتا ہے۔

 

عَنْ عَائِشَۃ وَاِبْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالاَ لَمْ یُرَخَّصْ فِیْ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ اَنْ یُصَمْنَ اِلآَ لِمَنْ لَمْ یَجِدِ الْہُدْیَ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عائشہؓ  اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایام تشریق میں کسی آدمی کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی سوائے اس (حاجی) کے جو قربانی نہ دے سکے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

طَوَافُ الْوَدَاعِ

 

طواف وداع

 

مسئلہ 348: حج مکمل کرنے کے بعد مکہ مکرمہ سے رخصت ہونے سے قبل طواف وداع کرنا واجب ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کَانَ النَّاسُ یَنْصَرِفُوْنَ فِیْ کُلِّ وَجْہٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( لاَ یَنْفِرَنَّ اَحَدٌ حَتّیٰ یَکُوْنَ آخِرُ عَہْدِہٖ بِالْبَیْتِ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں لوگ (حج ادا کرنے کے بعد) جدھر چاہتے چلے جاتے تو آپﷺ  نے ارشاد فرمایا "کوئی شخص اس وقت تک نہ جائے جب تک آخری بار طواف نہ کرے۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے

وضاحت :طواف وداع ترک کرنے پر ایک دم واجب ہے۔ 12ذی الحجہ کو طواف وداع ادا کرنے کے بعد منیٰ آ کر رمی کرنا درست نہیں اہل جدہ یا اہل طائف کا 12 ذی الحجہ کو منیٰ سے ہی جدہ یا طائف اس نیت سے واپس چلے جانا تاکہ ہجوم کم ہونے کے بعد واپس آ کر طواف وداع ادا کر لیں گے جائز نہیں۔ ایسا کرنے پر ایک دم واجب ہو گا طواف وداع صرف اسی وقت ادا کرنا چاہئے جب مکہ مکرمہ سے رخصت ہونے کا ارادہ ہو،  رات کے وقت طواف وداع کر کے دن کو سفر شروع کرنا درست نہیں عمرہ ادا کرنے کے بعد طواف وداع کرنا واجب نہیں، مستحب ہے مکہ کے لوگ طواف وداع سے مستثنیٰ ہیں۔

 

مسئلہ 349: حائضہ کو طواف وداع کے بغیر مکہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ اُمِرَ النَّاسُ اَنْ یَّکُوْنَ آخِرُ عَہْدِہِمْ بِالْبَیْتِ اِلآَ اَنَّہٗ  خُفِّفَ عَنِ الْمَرْاَۃ الْحَائِضِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہﷺ کی طرف سے ) حکم دیا گیا ہے کہ (مکہ سے رخصت ہوتے ہوئے ) ان کا آخری عمل بیت اللہ شریف کا طواف ہو۔ البتہ حائضہ عورت کو اس کی رخصت دی ہے (کہ وہ طواف کئے بغیر مکہ مکرمہ سے چلی جائے ) اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 350: طواف وداع کے بعد مسجد حرام سے الٹے پاؤں باہر نکلنا سنت سے ثابت نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

حَجُّ النِّسَاءِ

 

خواتین کا حج

 

مسئلہ 351: عورت اگر خود مالدار ہو تو اس پر حج فرض ہے ورنہ نہیں۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر36کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 352: خواتین پر حج فرض ہونے کے لئے مالی استطاعت کے علاوہ محرم کا ساتھ ہونا بھی شرط ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر37کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 353: کسی عورت کا غیر محرم مرد کو محرم بنا کر حج کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 354: جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے ،  اسے دوران عدت حج کا سفر کرنا منع ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر39کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 355: کسی عورت کا محرم کے بغیر خواتین کے گروپ میں شریک ہو کر حج کا سفر کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 356: خواتین کو حج کا ثواب جہاد کے برابر ملتا ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر7کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 357: حج یا عمرہ کے لئے آنے والی خواتین کو احرام باندھنے کے لئے حالت حیض یا نفاس میں بھی غسل کرنا چاہئے بشرطیکہ بیماری کا خوف نہ ہو۔

 

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : نُفِسَتْ اَسَمآءُ بِنْتُ عُمَیْسٍ بِمُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ بِالشَّجَرَۃ فَاَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَبَا بَکْرٍ یَامُرُہَا اَنْ تَغْتَسِلَ وَتُہِلَّ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ شجرہ کے مقام پر حضرت محمد بن ابو بکر صدیقؓ کی پیدائش کے باعث حضرت اسماء بنت عمیسؓ  حالت نفاس میں تھیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو حکم دیا کہ اسماءؓ  (اپنی بیوی) سے کہیں غسل کر کے احرام باندھ لیں۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 358: عورت حالت حیض میں طواف کے علاوہ باقی تمام ارکان حج ادا کر سکتی ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر155کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 359: عورت کا حالت احرام میں سر کے بالوں کو باندھنا یا احرام کے لئے خصوصی لباس سلوانا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 360: حالت احرام میں عورت کو ممکن حد تک پردہ کا اہتمام کرنا چاہئے

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر154کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 361: عورت کے لئے طواف قدوم میں رمل سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 362: دوران سعی عورت کا میلین اخضرین (سبز ستونوں ) کے درمیان بھاگنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 363: عورت کے لئے سارے سر کے بال کتروانا یا منڈوانا منع ہے اسے صرف دو انگلی کے برابر بال کتروانے چاہئیں۔

 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا: لَیْسَ عَلَی النِّسَاءِ الْحَلْقٌ اِنَّمَا عَلَی النِّسَاءِ التَّقْصِیْرُ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "عورتیں سر نہ منڈوائیں بلکہ صرف بال کٹوائیں۔ ” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 364: حج ادا کرنے والی حائضہ خواتین کو طواف وداع نہ کرنے کی رخصت ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر349کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 365: عورت کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی حج ادا کرنا منع ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ فِیْ اِمْرَأَۃ کَانَ لَہَا زَوْجٌ وَ لَہَا مَالٌ فَلاَ یَاْذَنُ لَہَا فِی الْحَجِّ قَالَ ((لَیْسَ لَہَا اَنْ تَنْطَلِقُ اِلآَ بِاِذْنِ زَوْجِہَا)) رَوَاہُ الدَّارُ قُطْنِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ رسول اللہﷺ سے اس عورت کے بارے میں روایت کرتے ہیں جس کا شوہر ہے اور عورت خود مالدار ہے۔ شوہر اسے (نفلی) حج کی اجازت نہیں دیتا،  اس عورت کے بارے میں رسول اکرمﷺ  نے ارشاد فرمایا "ایسی عورت کو شوہر کی اجازت کے بغیر حج پر نہیں جانا چاہئے۔ ” اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

حَجُّ الصَّبِیِ

 

بچہ کا حج

 

مسئلہ 366: نابالغ بچوں کو حج کروانا چاہئے اس کا ثواب بچے کے علاوہ والدین کو بھی ملتا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا لَقِیَ رَکْبًا بِالرَّوْحَاءِ فَقَالَ (( مَنِ الْقَوْمُ؟ )) قَالُوْا : الْمُسْلِمُوْنَ، فَقَالُوْا مَنْ اَنْتَ ؟ قَالَ ((رَسُوْلُ اللّٰہِ )) فَرَفَعَتْ اِلَیْہِ اِمْرَأَۃ صَبِیًّا فَقَالَتْ اَلِہَذَا حَجٌّ ؟ قَالَ (( نَعَمْ وَلِکِ اَجْرٌ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ روحاء کے مقام پر ایک قافلے سے ملے آپؐ نے پوچھا "تم کون لوگ ہو؟” انہوں نے جواب دیا "ہم مسلمان ہیں۔ ” پھر قافلہ والوں نے پوچھا "آپ کون ہیں ؟” حضور اکرمؐ نے جواب دیا "میں اللہ کا رسول ہوں۔ ” قافلہ میں سے ایک خاتون اپنے بچے کو اٹھا لائی اور آپﷺ سے پوچھا ” کیا اس بچے کا حج ہو جائے گا؟” رسول اللہﷺ نے فرمایا "ہاں ! ہو جائے گا اور ثواب تمہیں ملے گا۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :میقات پر پہنچ کر بچے کے سر پرست کو بچے کی طرف سے نیت کرنی چاہئے کہ میں اس بچے کو محرم بناتا ہوں اگر بچہ (لڑکا) سمجھدار ہو تو اسے احرام کی چادریں پہنانی چاہئیں اگر بچہ کم سن یا شیر خوار ہو تو اس کے سلے ہوئے کپڑے اتار کر ایک چادر میں لپیٹ لینا چاہئے یہی اس کا احرام ہو گا حسب ضرورت بچے کو حالت احرام میں پلاسٹک کی نیکر یا پیمپر وغیرہ لگانا جائز ہے بچے کی طرف سے ان کے کسی ایک سرپرست کو تلبیہ کہنا چاہئے بچے کو اٹھا کر طواف یا سعی کی جائے تو حامل اور محمول دونوں کی بیک وقت سعی ہو جاتی ہے طواف کے بعد با شعور بچے کو مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز پڑھوانی چاہئے طواف کے بعد بچے کو بھی زمزم پلانا چاہئے سعی کے بعد بچے کا حلق یا قصر کروانا چاہئے ایام حج میں بچے کے سرپرست کو بچے کی طرف سے رمی کرنا چاہئے ہر بچے کی طرف سے حسب احکام حج الگ الگ قربانی دینی ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!

 

مسئلہ 367: بچے کی طرف سے احرام کی خلاف ورزی یا کسی دوسری غلطی پر کوئی دم یا فدیہ نہیں۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر36کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 368: بچپن میں حج کرنے والے بچوں کو بلوغت کے بعد حج فرض ہونے پر دوبارہ حج کرنا چاہئے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ النَّبِیُّا (( اَیُّمَا صَبِیٍّ حَجَّ ثُمََّ بَلَغَ الْحِنْثَ فَعَلَیْہِ اَنْ یَّحُجَّ حَجَّۃ اُخْریَٰ وَاَیُّمَا عَبْدٍ ثُمَّ اُعْتِقَ فَعَلَیْہِ اَنَّ یَّحُجَّ حَجَّۃ اُخْریٰ ))رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا "جو بچہ حج کرے پھر بالغ ہو جائے تو (استطاعت ملنے پر) اسے دوبارہ حج کرنا چاہئے اور جس غلام نے حج کیا پھر آزاد کیا گیا،  تو اسے (استطاعت ملنے پر) دوبارہ حج کرنا چاہئے۔ ” اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

أَلْحَجُّ عَنِ الْغَیْرِ

 

دوسروں کی طرف سے حج کرنے کے مسائل

 

                (ا)اَلْحَجُّ عَنِ الْحَیِّ

 

مسئلہ 369: صاحب استطاعت لیکن بوڑھا، کمزور، مفلوج یا دائمی مریض اپنے مال میں سے کسی ایسے شخص کو حج کرا دے جو پہلے اپنا فرض حج ادا کر چکا ہو، تو اس معذور شخص کا حج ادا ہو جائے گا۔ اسے حج بدل کہتے ہیں۔

مسئلہ 370: اگر کوئی شخص اپنے مال میں سے کسی دوسرے زندہ شخص کی طرف سے نفلی حج ادا کرے تو اس کا اجر و ثواب حج کرنے والے اور جس کی طرف سے کیا گیا ہے، دونوں کو ملے گا۔ ان شاء اللہ!

مسئلہ 371: عورت، مرد کی طرف سے حج ادا کر سکتی ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّہٗ  قَالَ :کَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِیْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَجَآءَ تْہُ اِمْرَاَۃ مِنْ خَثْعَمَ تَسْتَفْتِیَہِ فَجَعَلَ الْفَضْلُ یَنْظُرُ اِلَیْہَا وَتَنْظُرُ اِلَیْہِ فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَصْرِفُ وَجْہَ الْفَضْلِ اِلَی الْشِّقِّ الْآخَرِ قَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ فَرِیْضَۃ اللّٰہِ عَلَی عِبَادِہٖ فِی الْحَجِّ اَدْرَکَتْ اَبِیْ شَیْخًا کَبِیْرًا لاَ یَسْتَطِیْعُ اَنْ یَثْبُتَ عَلَی الرَّاحِلَۃ اَفَاَحُجُّ عَنْہُ قَالَ (( نَعَمْ)) وَذٰلِکَ فِیْ حَجَّۃ الْوَدَاعِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ فضل بن عباسؓ  (حج کے موقع پر) نبی اکرمﷺ  کے پیچھے سوار تھے۔ قبیلہ خثعم کی ایک عورت حاضر ہوئی اور مسئلہ پوچھنے لگی۔ حضرت فضل بن عباسؓ اس عورت کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت فضل بن عباسؓ کو دیکھنے لگی۔ رسول اللہﷺ نے حضرت فضلؓ کا چہرہ (ہاتھ سے پکڑ کر ) دوسری طرف پھیر دیا۔ اس عورت نے عرض کیا "یا رسول اللہﷺ ! اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے ،  میرا باپ بوڑھا ہے ،  سواری پر سوار نہیں ہو سکتا،  کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کر سکتی ہوں ؟” آپؐ نے فرمایا”ہاں ! کر سکتی ہو۔ ” یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا سَمِعَ رَجُلاً یَقُوْلُ لَبَّیْکَ عَنْ شُبْرُمَۃ قَالَ ((مَنْ شُبْرُمَۃ ؟)) قال : اَخٌ لِیْ اَوْ قَرِیْبٌ لِّی قَالَ ((حَجَجْتَ عَنْ نَّفْسِکَ ؟ )) قَالَ : لاَ، قَالَ ((حَجُّ عَنْ نَّفْسِکَ ثُمَّ حُجَّ عَنْ شُبُرْمَۃ )) رَوَاہُ اَبُوْدَاوٴُدَ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک کہتے سنا تو پوچھا "شبرمہ کون ہے ؟” اس نے عرض کیا "میرا بھائی! یا کہا "میرا قریبی رشتہ دار۔ ” آپﷺ نے پوچھا ” کیا تو نے اپنا حج کیا ہے ؟” اس نے عرض کیا "نہیں !” آپﷺ نے فرمایا "پہلے اپنا حج ادا کرو،  پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔ ” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 372: زندہ،  صاحب استطاعت اور صحت مند آدمی کی طرف سے حج بدل ادا کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 373: حج بدل میں میقات پر پہنچ کر احرام باندھتے وقت حج کروانے والے کا نام لینا چاہئے لیکن اگر یاد نہ رہے تو حج میں کوئی نقص واقع نہیں ہو گا۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر375کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 374: کسی دوسرے شخص کی طرف سے عمرہ یا حج ادا کرنے کی نیت سے احرام باندھ لیا جائے تو پھر اس عمرہ یا حج کو کسی تیسرے شخص کے نام سے ادا کرنا جائز نہیں۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر25کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 375: کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کے علاوہ عمرہ کرنا بھی جائز ہے اس کا اجرو ثواب حج و عمرہ کرنے والے اور جس کی طرف سے کیا گیا ہے دونوں کو ملے گا۔ انشاء اللہ!

عَنْ اَبِیْ رَزِیْنِ بْنِ عَقِیْلِیْؓ اَنَّہٗ  قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ اَبِیْ شَیْخٌ کَبِیْرٌ لآَ یَسْتَطِیْعُ الْحَجَّ وَلاَ الْعُمْرَۃ وَالظَّعْنَ ؟ قَالَ ((حُجَّ عَنْ اَبِیْکَ وَاعْتَمِرَ ))رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)

حضرت ابو رزین عقیلیؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ  سے عرض کیا "یا رسول اللہ (ﷺ )! میرا باپ بوڑھا ہے حج کی طاقت نہیں رکھتا نہ عمرہ کی اور نہ ہی اونٹ پر سوار ہونے کی،  (اس کے لئے کیا حکم ہے ؟)” آپﷺ نے ارشاد فرمایا "اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کر۔ ” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :کسی دوسرے کی طرف سے حج یا عمرہ کرنا ہو تو ایک وقت میں صرف ایک آدمی کی طرف سے ہی عمرہ یا حج کی نیت کرنی چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب!

 

                (ب)اَلْحَجُّ عَنِ الْمَیِّتِ

 

مسئلہ 376: حج کی نذر ماننے والا شخص اگر حج کئے بغیر فوت ہو جائے اور اس کے ورثاء اس کی طرف سے حج ادا کریں تو مرنے والے کی نذر پوری ہو جائے گی خواہ مرنے والا وصیت کرے یا نہ کرے۔

مسئلہ 377: صاحب استطاعت شخص اگر حج کئے بغیر فوت ہو جائے اور اس کے ورثاء اس کے مال میں سے حج ادا کریں ،  تو فوت ہونے والے شخص کا فرض حج ادا ہو جائے گا،  خواہ فوت ہونے والا وصیت کرے یا نہ کرے۔

مسئلہ 378: مرد، عورت کی طرف سے حج ادا کر سکتا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ امْرَأَۃ مِنْ جُہَیْنَۃ جَاءَ تْ اِلَی النَّبِیِّا فَقَالَتْ : اِنَّ اُمِّیْ نَذَرَتْ اَنْ تَحُجَّ فَلَمْ تَحُجَّ حَتّیٰ مَاتَتْ اَفَاحُجُّ عَنْہَا ؟ قَالَ (( نَعَمْ حُجِّیْ عَنْہَا أَ رَاَیْتِ لَوْ کَانَ عَلَی اُمِّکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ قَاضِیَتَہٗ  اقْضُوْا اللّٰہَ فَاللّٰہُ اَحَقٌّ بِالْوَفَاءِ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا”میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی،  لیکن مرنے سے قبل حج نہیں کر سکی،  کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟” آپﷺ نے ارشاد فرمایا "ہاں ! اس کی طرف سے حج کرو،  ہاں ! دیکھو اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا نہ کرتیں ؟ پس اللہ کا قرض ادا کرو۔ اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ اَمْرَاَۃ نَذَرَتْ اَنْ تَحُجَّ فَمَاتَتْ فَاَتیٰ اَخُوْہَا النَّبِیَّا فَسَأَلُہٗ  عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ (( أَ رَاَیْتَ لَوْ کَانَ عَلیٰ اُخْتِکَ دَیْنٌ اَکُنْتَ قَاضِیَتَہٗ  ؟)) قَالَ : نَعَمْ ! قَالَ(( فَاقْضُوا اللّٰہَ فَہُوَ اَحَقُّ بِالْوَفَاءِ )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ ایک عورت نے حج کی نذر مانی،  فوت ہوئی تو اس کا بھائی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مسئلہ دریافت کیا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا "اگر تیری بہن پر قرض ہوتا تو کیا ادا کرتا؟” اس نے کہا "ہاں، یا رسول اللہﷺ !” آپﷺ  نے فرمایا "تو پھر اللہ کا قرض ادا کرو اور اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

حُرْمَۃ مَکَّۃ الْمُکَرْمَۃ

 

مکہ مکرمہ کی حرمت کے مسائل

 

مسئلہ 379: شہر مکہ کو اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش کے روز سے ہی قابل احترام بنایا ہے۔

مسئلہ380: حرم مکہ کی حدود میں کسی جانور کا شکار کرنا،  شکار کو ڈرانا یا اس کا پیچھا کرنا منع ہے۔

مسئلہ381: حرم مکہ میں از خود اگنے والے درختوں ،  پودوں اور ہری گھاس کو کاٹنا منع ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ … یَوْمَ الْفَتْحِ فَتْحِ مَکَّۃ (( اِنَّ ہٰذَا الْبَلَدَ حَرَّمَہُ اللّٰہُ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ فَہُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَۃ اللّٰہِ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃ وَاِنَّہٗ  لَمْ یَحِلَّ الْقِتَالُ فِیْہِ لِاَحَدٍ قَبْلِیْ وَلَمْ یَحِلَّ لِیْ اِلآَسَاعَۃ مِنْ نَہَارٍ فَہُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَۃ اللّٰہِ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃ لاَ یُعْضَدُ شَوْکُہُ وَلاَ یُنَفَّرُ صَیْدُہٗ  وَلاَ یَلْتَقِطُ اِلآَ مَنْ عَرَّفَہَا وَلاَ یُخْتَلَی خَلاَہَا )) فَقَالَ الْعَبَّاسُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِلآَ الْاِذْخِرَ فَاِنَّہٗ  لِقِیْنِہِمْ وَلِبُیُوْتِہِمْ فَقَالَ ((اِلآَ الْاِذْخِرَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے روز فرمایا "بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش کے دن سے ہی اس شہر کو محترم ٹھہرایا ہے اور وہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمت سے قیامت تک محترم رہے گا مجھ سے پہلے کسی کے لئے اس شہر میں قتال حلال نہیں ہوا اور میرے لئے بھی دن کی ایک گھڑی بھر کے لئے حلال ہوا تھا پس وہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حرمت کے تحت قیامت تک کے لئے قابل احترام شہر ہے لہٰذا اس (میں از خود اگے ہوئے درخت) کا کانٹا نہ توڑا جائے نہ اس میں شکار بھگایا جائے نہ اس میں گری پڑی چیز اٹھائی جائے ہاں البتہ وہ شخص اٹھا سکتا ہے جو اسے (مالک تک) پہنچائے اس کی (خودرو) سبز گھاس نہ کاٹی جائے۔ ” حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے عرض کیا "یا رسول اللہﷺ  ! اذخر (کی اجازت دے دیجئے ) کہ یہ لوگوں کے چولہوں (میں جلانے کے لئے ) اور گھروں (میں چھتوں میں ڈالنے کے لئے ) استعمال ہوتی ہے۔ ” تب آپؐ نے ارشاد فرمایا "اس کی اجازت ہے۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ382: حرم مکہ کی حدود کا تعین حضرت ابراہیمؑ اور حرم مدنی کی حدود کا تعین رسول اکرمﷺ  نے کیا ہے۔

عَنْ رَافِعٍ بْنِ خَدِیْجٍؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( اِنَّ اِبْرَاہِیْمَں حَرَّمَ مَکَّۃ وَاِنِّیْ اُحَرِّمُ مَا بَیْنَ لاَ بَتَیْہَا )) یُرِیْدُ الْمَدِیْنَۃ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت رافع بن خدیجؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "حضرت ابراہیمؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں دونوں سیاہ پتھروں والے ٹیلوں کے درمیان والی جگہ یعنی مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ نے حرم مکی کی جو حدود متعین فرمائیں وہ درج ذیل ہیں۔ شمال کی طرف مکہ مکرمہ سے چار میل (تنعیم تک) مشرق کی طرف مکہ مکرمہ سے تقریباً دس میل (جعرانہ تک) شمال مشرق کی طرف مکہ مکرمہ سے تقریباً نو میل (وادی نخلہ تک) مغرب کی طرف مکہ مکرمہ سے آٹھ میل حدیبیہ (نیا نام شمیسی) تک۔ حکومت نے علامت کے طور پر چاروں سمتوں میں مذکورہ مقامات پر سفید ستون بنائے ہوئے ہیں۔

 

مسئلہ383: مکہ مکرمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کا محبوب ترین شہر ہے۔

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ حَمْرَاءِ الزُّہْدِیِّؓ قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَاقِفًا عَلَی الْحَزْوَرَۃ فَقَالَ (( وَاللّٰہِ اِنَّکِ لَخَیْرُ اَرْضِ اللّٰہِ وَاَحَبُّ اَرْضِ اللّٰہِ اِلَی اللّٰہِ وَلَوْلاَ اَنِّیْ اُخْرِجْتُ مِنْکِ مَا خَرَجْتُ ))۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عدی حمراءؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو حزورہ کے اوپر کھڑے یہ فرماتے ہوئے دیکھا ہے "اللہ کی قسم! (اے مکہ!) تو اللہ کی ساری زمین سے بہتر ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر میں یہاں سے نکالا نہ جاتا تومیں کبھی یہاں سے نہ نکلتا۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ لِمَکَّۃ (( مَا اَطْیَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَّاَحَبَّکِ اِلَیَّ وَلَوْلاَ اَنَّ قَوْمِیْ اَخْرِجُوْنِیْ مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَیْرَکِ ))رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مکہ سے مخاطب ہو کر فرمایا ” تو کیا ہی اچھا شہر ہے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ،  اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کسی دوسری جگہ سکونت اختیار نہ کرتا۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 384: دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔

 

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( لَیْسَ مِنْ بَلَدٍ اِلآَ سَیَطَوٴُہُ الدَّجَّالُ اِلآَ مَکَّۃ وَالْمَدِیْنَۃ وَلَیْسَ نَقَبٌ مِنْ اَنْقَابِہَا اِلآَ عَلَیْہِ الْمَلاَئِکَۃ صَافِیْنَ تَحْرُسُہَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس میں دجال کا گزر نہ ہو سوا مکہ اور مدینہ کے۔ ان کے تمام راستوں پر فرشتے صف در صف پہرہ دے رہے ہیں۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ385: مکہ مکرمہ میں بلا ضرورت ہتھیار لے کر چلنا منع ہے۔

عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ (( لاَ یَحِلُّ لِاَحَدِکُمْ اَنْ یَحْمِلَ بِمَکَّۃ السِّلاَحَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابرؓ کہتے ہیں میں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی شخص کے لئے مکہ میں ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ386: مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام، میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔

 

عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((صَلاَ ۃ ٌفِیْ مَسْجِدِیْ اَفَضَلُ مِنْ اَلْفِ صَلاَۃ فِیْمَا سِوَاہُ اِلآَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامَ وَصَلاَۃ فِیْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَفْضَلُ مِنْ مِائَۃ اَلْفِ صَلاَۃ فِیْہِ سِوَاہُ۔ رَوَاہُ اَحْمَدٌ  (صحیح)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "میری مسجد میں نماز ادا کرنے کا اجر (دوسری مساجد کے مقابلے میں ) ہزار گنا زیادہ ہے سوائے مسجد حرام کے اور مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب (دوسری مساجد کے مقابلے میں ) ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔ ” اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ387: دنیا میں سب سے پہلے مکہ مکرمہ کی مسجد، مسجدالحرام کی تعمیر کی گئی۔

عَنْ اَبِیْ ذَرٍؓ قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِیْ الْاَرْضِ اَوَّلُ ؟ قَالَ (( اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ )) قُلْتُ : ثُمَّ اَیِّ ؟ قَالَ (( اَلْمَسْجِدُ الْاَقْصیٰ )) قُلْتُ : کَمْ بَیْنَہُمَا ؟ قَالَ ((اَرْبَعُوْنَ سَنَۃ وَاَیْنَمَا اَدْرَکَتْکَ الصَّلاَۃ فَصَلِّ فَہُوَ مَسْجِدٌ)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابو ذرؓ کہتے ہیں میں نے عرض کیا "یا رسول اللہﷺ  ! زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟” آپﷺ نے ارشاد فرمایا”مسجد حرام” میں نے عرض کیا "اس کے بعد کون سی؟” آپؐ نے ارشاد فرمایا "مسجد اقصیٰ” میں نے عرض کیا "ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ حائل ہے ؟” آپؐ نے فرمایا "چالیس سال! اور تجھے جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے وہیں نماز پڑھ لے۔ وہ جگہ مسجد (ہی)ہے۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 388: مکہ مکرمہ کی مسجد، مسجدالحرام، نماز کے ممنوعہ اوقات سے مستثنیٰ ہے۔

عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍؓ اَنَّ النَّبِیَّا قَالَ (( یَا بَنِی عَبْدِمَنَافٍ لاَ تَمْنَعُوْا اَحَدًا طَافَ بِہٰذَا الْبَیْتِ وَصَلّیٰ ایَٰۃ سَاعَۃ شَاءَ مِنْ لَیْلٍ اَوْ نَہَارٍ))۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا "اے بنو عبد مناف! بیت اللہ شریف کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے کسی کو منع نہ کرو خواہ دن اور رات کا کوئی سا وقت ہو۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

حُرْمَۃ الْمَدِیْنَۃ الْمُنَوَّرَۃ

 

مدینہ منورہ کی حرمت کے مسائل

 

مسئلہ 389: مدینہ منورہ بھی مکہ مکرمہ کی طرح حرمت والا ہے جس میں درخت کاٹنا یا شکار کرنا منع ہے۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر380۔381۔382کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 390: مدینہ منورہ کا دوسرا نام "طابہ” ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ (( اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ سَمَّی الْمَدِیْنَۃ طَابَۃ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام "طابہ” رکھا ہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 391: مدینہ منورہ میں طاعون کی بیماری کبھی نہیں پھیلے گی اور نہ اس میں دجال داخل ہو سکے گا۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( عَلیٰ اَنْقَابِ الْمَدِیْنَۃ مَلاَئِکَۃ لآَ یَدْخُلُہَا الطَّاعُوْنُ وَلاَ الدَّجَّالُ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ کبھی طاعون پھیل سکتا ہے نہ دجال داخل ہو سکتا ہے۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 392: مدینہ میں موت تک مستقل قیام رسول اکرمﷺ  کی شفاعت کا باعث ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( مَنِ اسْتَطَاعَ اَنْ یَّمُوْتَ بِالْمَدِیْنَۃ فَلْیَمُتْ بِہَا فَاِنِّیْ اَشْفَعُ لِمَنْ یَّمُوْتُ بِہَا )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا "جو شخص مدینہ منورہ میں مر سکتا ہو (یعنی یہاں آ کر موت تک قیام کر سکتا ہو) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہئے کیونکہ میں اس شخص کے لئے سفارش کروں گا جو مدینہ میں مرے گا۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 383: مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ کی نسبت دوگنی برکت رکھی گئی ہے۔

عَنْ اَنَسٍؓ عَنِ النَّبِیِّا قَالَ (( اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِیْنَۃ ضِعْفَیْ مَا جَعَلْتَ بِمَکَّۃ مِنَ الْبَرْکَۃ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا” یا اللہ! مکہ کو تو نے جتنی برکت عطا فرمائی ہے، مدینہ کو اس سے دوگنی برکت عطا فرما۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 394: مدینہ میں مصائب اور آزمائشوں پر صبر کرنے والوں کے لئے رسول اللہؐ قیامت کے روز سفارش کریں گے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ (( مَنْ صَبَرَ عَلَی لَأْوَائِہَا کُنْتُ لَہٗ  شَفِیْعًا اَوْ شَہِیْدًا یَوْمَ الْقِیَامَۃ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا ہے جس نے (مدینہ میں قیام کے دوران آنے ولی)مشکلات و مصائب پر صبر کیا قیامت کے روز میں اس (کے ایمان) کی گواہی دوں گا یا فرمایا "اس کی سفارش کروں گا۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 395: مدینہ منورہ میں قیامت تک اہل ایمان باقی رہیں گے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ (( اِنَّ الْاِیْمَانَ لَیَأْرِزُ اِلَی الْمَدِیْنَۃ کَمَا تَأْرِزُ الْحَیَّۃ اِلیٰ جُحْرِہَا )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "(قیامت کے قریب) ایمان مدینہ میں سمٹ کر اسی طرح واپس آ جائے گا جس طرح سانپ پھر پھرا کر اپنے بل میں واپس آ جاتا ہے۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 396: مدینہ منورہ کے پہاڑ "اُحد” سے بھی رسول اللہﷺ  کو محبت تھی۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اِلَی خَیْبَرَ اَخْدُمُہٗ  فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ رَاجِعًا وَبَدَا لَہٗ  اُحُدٌ قَالَ (( ہٰذَا جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہٗ  )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں خیبر جانے کے لئے نبی اکرمﷺ کے ساتھ (گھر سے نکلا )وہاں خیبر میں آپﷺ  کی خدمت کرتا رہا،  نبی اکرمﷺ  خیبر سے مدینہ واپس لوٹے ،  احد پہاڑ دکھائی دیا تو فرمایا "یہ پہاڑ وہ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 397: مدینہ منورہ کی کھجور "عجوہ” جنت کا پھل ہے جس میں زہر اور جادو کے لئے شفا رکھی گئی ہے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( اَلْعْجَوْۃ مِنَ الْجَنَّۃ وَفِیہَا شِفَاءٌ مِّنَ السُّمِّ ))رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہؐ نے فرمایا "عجوہ کھجور جنت کا پھل ہے اور اس میں زہر کے لئے شفاء ہے۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ سَعْدِ بْنِ وَقَّاصٍؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( مَنْ تَصَبَّحَ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعَ تَمَرَاتٍ عَجْوَۃ لَمْ یَضُرَّہٗ  فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمَ سُمٌّ وَلاَ سِحْرٌ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت سعد بن وقاصؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا "جو شخص ہر روز صبح کے وقت سات عدد عجوہ کھجوریں کھائے گا اس کو اس روز زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 398: مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے وضو یا غسل کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 399: مدینہ منورہ میں ننگے پاؤں داخل ہونا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 400: مدینہ منورہ کی عمارتیں نظر آنے پر مروجہ الفاظ اَللّٰھُمَّ ھٰذَا حَرَمُ نَبِیُّکَ …پڑھنا مسنون ہے۔

مسئلہ 401: مدینہ منورہ میں داخل ہوتے وقت بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلیٰ مِلَّۃ رَسُوْلِ اللّٰہِ رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَانًا نَّصِیْرًا پڑھنا سنت سے ثابت نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

زِیَارَۃ مَسْجِدِ النَّبِیِّ

 

زیارت مسجدنبویﷺ کے مسائل

 

مسئلہ 402: مسجد نبویﷺ کی زیارت کرنے اور اس میں نماز پڑھ کر زیادہ اجرو ثواب حاصل کرنے کی نیت سے مدینہ کا سفر کرنا مسنون ہے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّا (( لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلآَ اِلیٰ ثَلاَثَۃ مَسَاجِدَ مَسْجِدِیْ ہٰذَا وَمَسْجِدِ الْحَرَامَ وَمَسْجِدِ الْاَقْصیٰ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابو ہریرہؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں "تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا (زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے )سفر اختیار نہ کیا جائے مسجد نبوی مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 403: مسجد نبویؐ میں نماز کا ثواب مسجد حرام کے علاوہ باقی تمام مساجد سے ہزار گناہ زیادہ ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّا قَالَ (( صَلاَۃ فِیْ مَسْجِدِیْ ہٰذَا اَفْضَلُ مِنْ اَلْفِ صَلاَۃ فِیْمَا سِوَاہُ اِلآَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا "میری اس مسجد میں نماز کا ثواب باقی مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے سوائے مسجد حرام کے۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 404: مسجد نبویﷺ  میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت عام مساجد کی دعا مانگنا مسنون ہے۔

عَنْ اَبِیْ حُمَیْدٍ اَوْ عَنْ اَبِیْ اُسَیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیَقُلْ (( اَللّٰہُمَّ افتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ)) وَاِذَا خَرَجَ فَلْیَقُلْ ((اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابو حمید یا ابو اسیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو وہ یہ دعا مانگے "یا اللہ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ ” اور جب مسجد سے باہر نکلے تو یہ دعا مانگے "یا اللہ! میں تیرے فضل کا طالب ہوں۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 405: مسجد میں داخل ہونے کے بعد پہلے تحیۃ المسجد ادا کرنی چاہئے پھر قبر مبارک پر حاضر ہو کر درود و سلام پڑھنا چاہئے۔

عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃؓ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ جَالِسٌ بَیْنَ ظَہْرَانِی النَّاسِ قَالَ فَجَلَسْتُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( مَا مَنَعْکَ اَنْ تَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ اَنْ تَجْلِسَ؟)) قَالَ : فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ رَاَیْتُکَ جَالِسًا وَالنَاسُ جُلُوْسٌ، قَالَ (( فَاِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلاَ یَجْلِسَ حَتّیٰ یَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت ابو قتادہؓ کہتے ہیں میں مسجد نبوی (ﷺ ) میں حاضر ہوا اور رسول اللہﷺ صحابہ کرامؓ  کے درمیان تشریف فرما تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا "بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں (تحیۃ المسجد) پڑھنے سے آپ کو کس چیز نے روکا؟” حضرت ابو قتادہؓ نے عرض کیا "یا رسول اللہﷺ ! میں نے آپ کو اور لوگوں کو بیٹھے دیکھا (تومیں بھی بیٹھ گیا)” آپﷺ نے ارشاد فرمایا” جب کوئی شخص مسجد میں آئے تو اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک دو رکعت (تحیۃ المسجد) ادا نہ کر لے۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 406: مسجد نبویؐ میں اگر روضۃ الجنۃ میں عبادت کرنے کا موقع مل جائے تو وہ زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ عَنِ النَّبِیِّا قَالَ (( مَا بَیْنَ بَیْتِیْ وَمِنْبَرِیْ رَوْضَۃ مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃ وَمِنبَرِی عَلیٰ حَوْضِیْ )) رَوَاہُ البُخَارِیُّ

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا "میرے حجرے اور منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر واقع ہے۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :ریاض الجنۃ کو سفید سنگ مرمر کے ستونوں اور سفید قالینوں سے نمایاں کیا گیا ہے اس جگہ کا دوسرا نام "روضہ شریف "ہے اور جہاں آپﷺ کی قبر مبارک ہے ،  اسے حجرہ شریف کہا جاتا ہے۔

 

مسئلہ 407: نفاق اور جہنم سے برأت کے لئے مسجد نبویؐ میں چالیس نمازیں پوری کرنے کا اہتمام کرنا صحیح احادیث سے ثابت نہیں۔

 

وضاحت :من صلی فی مسجدی اربعین صلاۃ کتبت لہ براۃ من النار ونجاۃ من العذاب وبراۃ من النفاقترجمہ: جس شخص نے میری مسجد میں قضا کئے بغیر (مسلسل) چالیس نمازیں ادا کیں ،  اس کے لئے آگ سے برأت، عذاب سے نجات اور نفاق سے برأت لکھی جائے گی) طبرانی کی مذکورہ بالا حدیث اور اسی مضمون کی ترمذی اور ابن ماجہ کی احادیث ضعیف ہیں۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سلسلہ احادیث الضعیفہ و الموضوعہ للا لبانی الجزء الاول،  حدیث نمبر364

 

مسئلہ 408: مسجد نبویﷺ کی زیارت کے بعد الٹے پاؤں واپس آنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 409: مسجد نبویؐ میں ہر نماز کے بعد بلند آواز سے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسوْلَ اللّٰہِ کہنا سنت سے ثابت نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

زِیَارَۃ قَبْرِالنَّبِیِّ

 

قبر مبارک کی زیارت کے مسائل

 

مسئلہ 410: آپؐ کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا جائز نہیں۔

 

وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر402کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

 

مسئلہ 411: مسجد نبویﷺ کی زیارت کے بعد رسول اکرمؐ کی قبر مبارک کی زیارت کرنا مستحب ہے۔

مسئلہ 412: قبر مبارک کے سامنے با ادب کھڑے ہو کر آہستہ آواز سے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کہہ کر سلام کہنا چاہئے۔

 

عَنْ نَافِعٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ اَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ اِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ ثُمَّ اَتَی الْقَبَرَ فَقَالَ :اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَبَابَکْرٍ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَبَتَاہُ۔ رَوَاہُ الْبَیْہِقِیُّ (صحیح)

حضرت نافع aسے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سفر سے واپس آ کر مسجد تشریف لاتے تو (تحیۃ المسجد ادا کرنے کے بعد) قبر پر حاضر ہوتے اور یوں سلام کرتے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (پھر حضرت ابو بکر صدیقؓ کو یوں سلام کرتے ) اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَبَابَکْرٍ(پھر حضرت عمرؓ کو ان الفاظ سے سلام کرتے ) اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَبَتَاہُ۔ اسے بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : سلام کے لئے تشہد کے یہ الفاظ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ  کہنے بھی درست ہیں۔

 

مسئلہ 413: قبر مبارک پر سلام کہنے کے بعد درود شریف پڑھنا بھی مستحب ہے۔

 

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ رَحِمَۃ اللّٰہِ قَالَ رَاَیْتُ عَبْدِاللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقِفُ عَلیٰ قَبَرِ النَّبِیِّ(ا ) فَیُصَلِّی عَلَی النَّبِیِّا وَ عَلیٰ اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا۔ رَوَاہُ مَالِکٌ

حضرت عبد اللہ بن دینارؓ فرماتے ہیں میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک پر کھڑے ہو کر نبی اکرمﷺ ،  حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ پر درود شریف پڑھتے دیکھا ہے۔ اسے مالک نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ پر درود بھیجنے سے مراد ان کے لئے دعاء کرنا ہے۔

 

مسئلہ 414: نبی اکرمﷺ پر درود بھیجنے کے لئے مسنون الفاظ درج ذیل ہیں۔

عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃؓ قَالَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَمَّا السَّلاَمُ عَلَیْکَ فَقَدْ عَرَفْنَاہُ فَکَیْفَ الصَّلاَۃ عَلَیْکَ ؟ قَالَ :قُوْلُوْا(( اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ (ا)وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ (ا) کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ (ں ) وَعَلیٰ آلِ اِبْرَاہِیْمَ(ں )اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ(ا)وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ(ا)کَما بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ (ں )وَعَلیٰ آلِ اِبْرَاہِیْمَ(ں ) اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ))۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت کعب بن عجرہؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ سے عرض کیا گیا "یا رسول اللہ (ﷺ )! آپ پر سلام کہنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہے آپ پر درود کیسے بھیجا جائے ؟” آپؐ نے ارشاد فرمایا "کہو اے اللہ! محمد (ﷺ )اور آل محمد(ﷺ )پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم (ؑ ) اور آل ابراہیم (ؑ ) پر رحمت نازل فرمائی تھی۔ بے شک تو اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ اے اللہ! محمد(ﷺ )اور آل محمد(ﷺ )پر اسی طرح برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم (ؑ ) اور آل ابراہیم (ؑ )پر برکتیں نازل فرمائیں بے شک تو اپنی ذات میں آپ محمود ہے اور بزرگ ہے۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 415: رسول اللہﷺ کی قبر مبارک پر نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، رکوع کی طرح جھکنا، سجدہ کرنا یا تلاوت اور ذکر کے لئے بیٹھنا، اس کا طواف کرنا،  اس کی طرف منہ کر کے دعاء کرنا یا نماز پڑھنا منع ہے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((اَللّٰہُمَّ لاَ تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثَنَا لَعَنَ اللّٰہُ قَوْمًا اتَّخَذُوْا قُبُوْرًا اَثْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ )) رَوَاہُ اَحْمَدٌ (صحیح)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے نے فرمایا” یا اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ ” اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 416: ہر نماز کے بعد درود و سلام کے لئے رسول اکرمؐ کی قبر مبارک پر حاضری کا اہتمام کرنا اور وہاں دیر تک کھڑے رہنا درست نہیں۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( لاَ تَجْعَلُوْ بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا وَلاَ تَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیدًا وَصَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلاَ تَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَیْثُ کُنْتُمْ )) رَوَاہُ اَبُوْدَاوٴُدَ (صحیح)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ (یعنی گھروں میں نفل نماز پڑھو اور قرآن مجید کی تلاوت کیا کرو) اور میری قبر کو تہوار نہ بناؤ اور مجھ پر درود بھیجو،  تم جہاں کہیں بھی ہو گے تمہارا درود مجھے پہنچ جائے گا۔ ” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 417: خواتین کا زیارت کے لئے بار بار نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک پر آنا پسندیدہ نہیں۔

 

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَعَنَ زَوَّرَاتِ الْقُبُوْرِ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے بکثرت قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 418: قبر مبارک کی زیارت کا واجب ہونا صحیح احادیث سے ثابت نہیں۔

 

                قبر مبارک کی زیارت کے بارے میں ضعیف اور موضوع احادیث

 

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ” جس نے میرے مرنے کے بعد حج کیا پھر میری قبر کی زیارت کی اس نے گویا میری زندگی میں زیارت کی۔ اسے طبرانی،  دار قطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : یہ حدیث موضوع ہے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سلسلہ احادیث الضعیفہ و الموضوعہ للالبانی جلد نمبر1،  حدیث نمبر 47

 

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "جس نے حج کیا اور میری (قبر کی) زیارت نہ کی اس نے مجھ پر ظلم کیا۔ ” اسے دیلمی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت :یہ حدیث موضوع ہے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سلسلہ احادیث الضعیفہ و الموضوعہ للالبانی جلد نمبر1،  حدیث نمبر45

 

حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "جس نے مدینہ آ کر ثواب کی نیت سے میری (قبر کی) زیارت کی،  قیامت کے دن میں اس کے حق میں گواہی دوں گا اور سفارش بھی کروں گا۔ ” اسے بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : یہ حدیث ضعیف ہے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ضعیف الجامع الصغیر للالبانی جلد نمبر 5،  حدیث نمبر5619

 

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا "جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے سفارش کرنا مجھ پر واجب ہے۔ ” اسے بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : یہ حدیث موضوع ہے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سلسلہ احادیث الضعیفہ و الموضوعہ للالبانی جلد نمبر5،  حدیث نمبر 5618

 

آل خطاب سے ایک آدمی روایت کرتا ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے فرمایا "جس نے ارادتاً میری (قبر کی) زیارت کی،  وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہو گا جس نے مدینہ میں قیام کیا اور اس دوران آنے والی مصیبتوں پر صبر کیا میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کے لئے سفارش کروں گا،  جو شخص حرم مکہ یا حرم مدینہ میں سے کسی ایک میں فوت ہو گا اللہ اسے قیامت کے دن امن دئیے گئے لوگوں کے ساتھ اٹھائے گا۔ ” اسے بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : یہ حدیث ضعیف ہے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مشکوٰۃ المصابیح للالبانی کتاب الحج حرم المدینہ حر سا اللہ تعالیٰ،  الفصل الثالث

 

رسول اللہﷺ  نے فرمایا "جس نے ایک ہی سال میں میری اور میرے باپ ابراہیمؑ کی زیارت کی وہ جنت میں داخل ہو گا۔

وضاحت : یہ حدیث موضوع ہے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سلسلہ احادیث الضعیفہ و الموضو عہ للالبانی جلد نمبر1،  حدیث نمبر 46

 

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "جس نے حالت اسلام میں حج کیا اور میری قبر کی زیارت کی جہاد کیا اور بیت المقدس میں مجھ پر درود بھیجا اللہ تعالیٰ فرائض میں کوتاہی کے بارے میں اس سے سوال نہیں کرے گا۔ ” اسے سخاوی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : یہ حدیث موضوع ہے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سلسلہ احادیث الضعیفہ و الموضو عہ للالبانی جلد نمبر1،  حدیث نمبر 4

 

قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا۔

مسجد نبوی میں داخل ہونے کے بعد تحیۃ المسجد ادا کئے بغیر سیدھے قبر مبارک پر چلے جانا۔

قبر مبارک کی طرف منہ کر کے دعا کرنا۔

حصول برکت کے لئے قبر مبارک کی جالیوں ،  دیواروں ،  دروازوں کو چھونا،  بوسے دینا یا اپنے جسم سے لگانا۔

قبر مبارک پر کھڑے ہو کر غیر مسنون درود مثلاً درود تاج،  درود لکھی،  درود ماہی،  درود اکبر،  درود مقدس اور درود تنجینا وغیرہ پڑھنا۔

اپنی حاجتیں اور مرادیں کاغذ پر لکھ کر جالیوں کے اندر پھینکنا۔

قبر مبارک پر قرآن خوانی یا نعت خوانی کے لئے بیٹھنا۔

قبر پر بیٹھ کر مراقبہ کرنا۔

قبر پر درود و سلام کے بعد قرآن مجید کی آیت وَلَوْ اَنّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا…تلاوت کر کے آپﷺ سے استغفار کی درخواست کرنا۔

درود و سلام پڑھنے کے بعد اَلشَّفَاعَۃ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلْاَمَانُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَتَوَسَّلُ بِکَ یَا رَسُوْلَ للّٰہِ بَجَاہِ مُحَمَّدٍ اشْفِنِیْ یَا اللّٰہُ جیسے کلمات کہنا۔

ہجوم کے باوجود درودو سلام پڑھنے کے لئے قبر پر آنا۔

دعاء کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کو وسیلہ بنانا۔

یہ عقیدہ رکھنا جس طرح رسولﷺ اپنی حیات طیبہ میں ہماری گزارشات سنتے تھے اب بھی اسی طرح ہماری گزار شات سن رہے ہیں۔

یہ عقیدہ رکھنا کہ درود و سلام کے لئے حاضر ہونے والوں کے احوال،  اعمال اور نیتوں کو آپﷺ جانتے ہیں۔

یہ عقیدہ رکھنا کہ قبر مبارک کے قریب کھڑے ہو کر مانگی گئی دعاء ضرور قبول ہو گی۔

قبر مبارک کی زیارت کے بعد الٹے پاؤں واپس پلٹنا۔

مدینہ منورہ جانے والوں کے ذریعے آپﷺ کو سلام بھجوانا۔

رجب،  شعبان یا رمضان میں قبر مبارک کی زیارت کا خصوصی اہتمام کرنا۔

قبر مبارک پر اعتکاف کرنا یا قبر کا طواف کرنا۔

قبر مبارک کے سامنے نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر بے حس و حرکت کھڑے ہونا۔

بارش کے بعد قبر مبارک کے سبز گنبد سے گرنے والے قطروں کو تبرک کے طور پر جمع کرنا۔

قبر مبارک کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا۔

٭٭٭

 

 

 

زِیَارَۃ مَسْجِدِ قُبَاءَ

 

مسجدقباء کی زیارت کے مسائل

 

مسئلہ 419: مسجد قباء کی زیارت کرنا مسنون ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کَانَ یَزُوْرُ قُبَاءً رَاکِبًا وَّمَاشِیًا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سوار ہو کر اور کبھی پیدل چل کر مسجد قباء کی زیارت فرمایا کرتے تھے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 420: مسجد قباء میں تحیۃ المسجد ادا کرنے کا ثواب عمرہ کے برابر ہے۔

عَنْ سَعْلِ بْنِ حُنَیْفٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( مَنْ خَرَجَ حَتّیٰ یَاتِیْ ہٰذَا الْمَسْجِدَ مَسْجِدَ قُبَاءٍ فَصَلّیٰ فِیْہِ کَانَ لَہٗ  عَدْلَ عُمْرَۃ )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)

حضرت سہل بن حنیفؓ کہتے ہیں رسول اللہؐ نے فرمایا "جو شخص (اپنے گھر سے ) نکلے اور اس مسجد یعنی مسجد قباء میں آ کر (دو رکعت) نماز پڑھے ،  تو اسے عمرہ کے برابر ثواب ملے گا۔ ” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 421: مسجد قباء کے علاوہ ثواب کی نیت سے مدینہ منورہ کی باقی مساجد کی زیارت کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

 

وضاحت : تاریخی مقامات کی حیثیت سے دیگر مقامات کو دیکھنا معیوب نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب!

٭٭٭

 

 

 

 

زِیَارَۃ الْقُبُوْرِ

 

قبروں کی زیارت کے مسائل

 

مسئلہ 422: مدینہ منورہ کے قبرستان (جنت البقیع) اور شہداء احد کی قبروں کی زیارت کرنا مسنون ہے۔

عَنْ بُرَیْدَۃؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((قَدْ کُنْتَ نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃ الْقُبُوْرِ فَقَدْ اُذِنَ لِمُحَمَّدٍا فِیْ زِیَارَۃ قَبْرِ اُمِّہٖ فَزُوْرُوْہَا فَاِنَّہَا تُذَکِّرُ الْآخِرَۃ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت بریدہؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا "میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب محمد (ﷺ )کو اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ لہٰذا تم بھی قبروں کی زیارت کر لیا کرو۔ قبر کی زیارت کرنا آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 423: زیارت قبور کے موقع پر درج ذیل دعاء مانگنا مسنون ہے۔

عَنْ بُرَیْدَۃؓ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یُعَلِّمُہُمْ اِذَا خَرَجُوْا اِلَی الْمَقَابِرِ(( اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلاَحِقُوْنَ نَسْئَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں قبرستان جانے کے لئے رسول اللہﷺ  صحابہ کرامؓ  کو یہ دعا سکھایا کرتے تھے "اے اس گھر کے رہنے والو مومنو اور مسلمانو! تم پر سلامتی ہو ہم بھی انشاء اللہ تمہارے پاس آنے والے ہیں۔ ہم اپنے لئے اور تمہارے لئے اللہ سے عافیت مانگتے ہیں۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : اہل بقیع کے لئے دعاء کرتے ہوئے آخر میں درج ذیل الفاظ کا اضافہ بھی سنت سے ثابت ہیں اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاھَلِ الْبَقِیْعِ الْغَرْقَدَ یاللہ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما۔

 

مسئلہ 424: رسول اللہﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کے بعد جنت البقیع کی زیارت کا خصوصی اہتمام کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

خُطْبَاتُ حَجَّۃ الْوَدَاعِ

 

خطبات حجۃ الوداع

 

مسئلہ 425: 9 ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد رسول اکرمﷺ  اپنی اونٹنی "قصواء” پر سوار ہو کر وادی عرنہ کے آخری حصہ تک تشریف لائے (جہاں اب مسجد نمرہ ہے ) اور اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے درج ذیل خطبہ ارشاد فرمایا۔

عَنْ جَابِرٍ بْنِ عَبْدِاللّٰہِؓ فِیْ حَدِیْثِ حَجَّۃ الْوَدَاعِ قَالَ فَخَطَبَ النَّاسَ وَ قَالَ ((اِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ہٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ہٰذَا الَاَ کُلُّ شَیْءٍ مِنْ اَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضَوْعٌ وَدِمَاءُ الْجَاہِلِیَّۃ مَوْضُوْعَۃ وَاِنَّ اَوَّلَ دَمٍ اَضَعُ مِنْ دِمَاءِ نَا دَمُ ابْنِ رَبِیْعَۃ بْنِ الْحَارِثِ کَانَ مَسْتَرْضِعًا فَیْ بَنِیْ سَعْدٍ فَقَتَلَتْہُ ہُذَیْلٌ وَرِبَا الْجَاہِلِیَّۃ مَوْضُوْعٌ وَّاَوَّلُ رِبًا اَضَعُ رِبَانَا رَبَا عَبَاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِّ فَاِنَّہٗ  مَوْضُوْعٌ کُلُّہٗ  فَاتَّقُوْا اللّٰہَ فِی النِّسَاءِ فَاِنَّکُمْ اَخَذْتُمُوْہُنَّ بِاَمَانِ اللّٰہِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَہُنَّ بِکَلِمَۃ اللّٰہِ وَ لَکُمْ عَلَیْہِنَّ اَنْ لآَ یُوَطِّئَنَّ فُرُشَکُمْ اَحَدًا تَکْرِہُوْنَہٗ  فَاِنْ فَعَلنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوْہُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ وَلَہُنَّ عَلَیْکُم رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ  اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابُ اللّٰہِ وَاَنْتُمَ تُسْأَلُوْنَ عَنِّی فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ؟ )) قَالُوْا نَشْہَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلََّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ فَقَالَ بِاِصْبَعِہِ السَّبَابَۃ یَرْفَعُہَا اِلَی السَّمَاءِ وَیَنْکُتُہَا اِلَی النَّاسِ ((اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ ))ثَلاَثَ مَرَّاتٍ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے حجۃ الوداع کی حدیث میں روایت ہے کہ آپﷺ نے (عرفات میں ) خطبہ ارشاد فرمایا”مسلمانو! تمہارے خون اور مال ایک دوسرے کے لئے اسی طرح حرمت والے ہیں ،  جس طرح آج کا یہ دن حرمت والا ہے ،  اس (حرمت والے ) مہینے میں اور تمہارے اس (حرمت والے ) شہر میں۔ خبردار! زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے رکھ دی گئی ہے (یعنی ختم کر دی گئی ہے ) اور زمانہ جاہلیت کے خون بھی ختم کر دئیے گئے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا خون معاف کرتا ہوں یہ ابن ربیعہ بن حارث کا خون ہے جو بنو سعد میں دودھ پیتا تھا اور اسے ہذیل نے قتل کر ڈالا۔ زمانہ جاہلیت کے سود بھی ختم کر دئیے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا سود معاف کرتا ہوں جو کہ عباسؓ بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ وہ سارے کا سارا معاف کر دیا گیا ہے۔ عورتوں کے حقوق (کے بارے میں ) اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم لوگوں نے انہیں اللہ کی ضمانت پر حاصل کیا ہے اور ان کا ستر تمہارے لئے اللہ کے حکم سے جائز ہوا ہے اور سنو! مردوں کا حق اپنی عورتوں پر یہ ہے کہ وہ (یعنی عورتیں ) تمہارے بستر پر (یعنی تمہارے گھر میں ) کسی ایسے آدمی کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو اگر عورتیں ایسا کریں تو انہیں ایسا مارو جس سے انہیں سخت چوٹ نہ لگے اور ہاں ! عورتوں کا حق مردوں پر یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق انہیں روٹی کپڑا مہیا کریں۔ (خبردار!) میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر اسے مضبوطی سے تھامو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ ہے اللہ کی کتاب! (قیامت کے دن) تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا،  تم لوگ کیا جواب دو گے ؟” صحابہ کرامؓ نے عرض کیا "ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ (ﷺ ) نے (اللہ کا) پیغام پہنچا دیا۔ حق رسالت ادا کیا اور (اپنی امت کی) خیر خواہی کی۔ ” پھر آپﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین مرتبہ ارشاد فرمایا "اے اللہ گواہ رہنا!” اے اللہ گواہ رہنا!” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

 مسئلہ 426: درج ذیل خطبہ بھی رسول اللہؐ نے میدان عرفات میں ہی ارشاد فرمایا۔

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَہُوَ عَلیٰ نَاقَتِہِ الْمُخَضَرْمَۃ بِعَرَفَاتٍ فَقَالَ ((اَتَدْرُوْنَ اَیُّ یَوْمٍ ہٰذَا ؟ وَاَیُّ شَہْرٍ ہٰذَا ؟وَاَیُّ بَلَدٍ ہٰذَا ؟قَالُوْا :ہٰذَا بَلَدٌ حَرَامٌ وَّشَہْرٌ حَرَامٌ وَّیَوْمٌ حَرَامٌ قَالَ :اَلاَ وَاِنَّ اَمْوَالَکُمْ وَدِمَائَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃ شَہْرِکُمْ ہٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ہٰذَا فِیْ یَوْمِکُمْ ہٰذَا اَلاَ وَاِنِّی فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ وَاُکَاثِرُ بِکُمُ الْاُمَمِ فَلاَ تُسَوِّدُوْا وَجْہِیْ اِلآَ وَاِنِّی مُسْتَنْقِذٌ اُنَاسًا وَمُسْتَنْقِذٌ مِنِّی اُنَاسُ فَاَقُوْلُ یَارَبِّ اَصَیْحَابِیْ ؟ فَیَقُوْلُ اِنَّکَ لاَ تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوْا بَعْدَکَ۔ ))رَوَاہُ ابْنِ مَاجَۃ  (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عرفات میں اپنی کان کٹی ) اونٹنی پر سوار تھے اور ارشاد فرمایا "لوگو! کیا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے ؟ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ یہ کون سا شہر ہے ؟” صحابہ کرامؓ  نے عرض کیا "یہ حرمت والا شہر ہے ،  حرمت والا مہینہ ہے اور حرمت والا دن ہے۔ ” تب آپؐ نے ارشاد فرمایا "خبردار! تمہارے مال اور تمہارے خون ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح اس مہینے کی حرمت۔ اس (حرمت والے ) شہر میں اور اس (حرمت والے ) دن میں۔ خبردار! میں حوض کوثر پر تمہارا استقبال کروں گا اور دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔ مجھے رسوا نہ کرنا اور سنو! بعض لوگوں کو میں (سفارش کر کے ) جہنم سے بچاؤں گا جبکہ بعض دوسرے لوگ مجھ سے چھین لئے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا یا رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے "اے نبی! تو نہیں جانتا تیرے بعد انہوں نے (دین میں ) کون کون سی نئی چیزیں ایجاد کر لیں (یعنی بدعات شروع کر دیں )” ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 427:  قربانی کے دن (10ذی الحجہ) رسول اکرمؐ نے منیٰ میں جمرات کے درمیان کھڑے ہو کر درج ذیل خطبہ ارشاد فرمایا۔

عَنْ سَلَیْمَانِ بْنِ عَمْرَو بْنِ الْاَحْوَؓ عَنْ اَبِیْہِث قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلِ فِی حَجَّۃ الْوَدَاعِ ((یَا اَیُّہَا النَّاسُ اَلاَ اَیُّ یَوْمٍ اَحْرَمُ ؟))ثَلاَثَ مَرَّاتٍ قَالُوْا یَوْمُ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ قَالَ :((فَاِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ بَیْنَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ہٰذَا فِیْ بِلَدِکُمْ ہٰذَا اَلاَ لاَ یَجْنِیْ جَانٍ اِلآَ عَلیٰ نَفْسِہٖ وَلاَ یَجْنِیْ وَالِدٌ عَلیٰ وَلَدِہٖ وَلاَ مَوْلُوْدٌ عَلیٰ وَالِدِہٖ اَلاَ اِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ اَیِسَ اَنْ یُّعْبَدَ فِیْ بِلَدِکُمْ ہٰذَا اَبَدًا وَلٰکِنَ سَیَکُوْنُ لَہٗ  طَاعَۃ فِیْ بَعْضِ مَا تَحْتَقِرُوْنَ مِن اَعْمَالِکُمْ فَیَرْضیٰ بِہَا اَلاَ وَکُلُّ دَمٍ مِنْ دِمَاءِ الْجَاہِلِیَّۃ مَوْضُوْعٌ وَاَوَّلُ مَا اَضَعُ مِنْہَا دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ (کَانَ مُسْتَرْضِعًا فِیْ بَنِی لَیْثٍ فَقَتَلْتُہٗ  ہُذَیْلٌ )اَلاَ وَاِنَّ کُلَّ رِبًا مِنْ رِبَا الْجَاہِلِیَّۃ مَوْضُوْعٌ، لَکُمْ رَوٴُوْسُ اَمْوَلِکُمْ لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ اَلاَ یَا اَمَّتَاہُ ہَلْ بَلَّغْتُ ؟))ثَلاَثَ مَرَّاتٍ۔ قَالُوْا نَعَمْ۔ قَالَ :((اَللّٰہُمَّ اَشْہَدْ ))ثَلاَثَ مَرَّاتٍ۔ رَوَاہُ ابْنِ مَاجَۃ  (صحیح)

حضرت سلیمان بن عمرو بن احوصؓ  اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو حجۃ الوداع میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے (آپﷺ نے فرمایا) "اے لوگو! کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟” آپﷺ نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا "حج اکبر (قربانی) کا دن۔ ” پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا "تمہارے خون،  تمہارے مال اور تمہاری عزتیں اسی طرح ایک دوسرے پر حرام ہیں جس طرح اس شہر مکہ میں ،  اس (حج کے )مہینہ میں ،  آج (قربانی کے دن) تمہارے خون،  مال عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں۔ خبردار! جو قصور کرے گا اس کا وبال اسی پر ہو گا،  باپ کے قصور کا بیٹے سے اور بیٹے کے قصور کا باپ سے بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ خبردار! شیطان اس بات سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ اس شہر (مکہ) میں کبھی اس (شیطان) کی عبادت کی جائے گی۔ لہٰذا اب وہ اسی بات پر راضی ہے کہ( شرک کے علاوہ )دوسرے اعمال، جنہیں تم معمولی سمجھتے ہو، ان میں اس کی پیروی کی جائے۔ سنو! زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف کئے جاتے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنی (چچا حارث بن عبدالمطلب) کا خون معاف کرتا ہوں (جنہیں ہذیل نے اس وقت قتل کر دیا تھا جب وہ بنولیث میں دودھ پیتے تھے ) اور سنو! زمانہ جاہلیت کے تمام سود معاف کئے جاتے ہیں ہاں ! البتہ اصل زر کے تم حق دار ہوتا کہ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے۔ خبردار! اے میرے امت کے لوگو! کیا میں نے تمہیں (اللہ کا) پیغام پہنچا نہیں دیا؟” آپﷺ نے تین مرتبہ یہ سوال کیا۔ صحابہ کرامؓ  نے عرض کیا "ہاں !” (یا رسول اللہﷺ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا) آپﷺ نے ارشاد فرمایا "اے اللہ! گواہ رہنا۔ ” یہ الفاظ آپﷺ  نے تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔ ” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 428: قربانی کے روز رسول اللہﷺ نے درج ذیل خطبہ بھی ارشاد فرمایا ہے۔

عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃؓ قَالَ خَطَبَنَا النَّبِیُّا یَوْمُ النَّحْرِ قَالَ :((اِنَّ الزَّمَانَ قَدِاسْتَدَارَ کَہَیْئَۃ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ السَّنَۃ اِثْنَا عَشَرَ شَہْرًا مِنْہَا اَرْبَعَۃ حُرُمٌ ثَلاَثَ مَتَوالِیَاتٌ، ذُوْالْقَعْدَۃ وَذُوالْحَجَّۃ وَالْمُحَرَّمِ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِیْ بَیْنَ جُمَادیٰ وَشَعْبَانَ )) وَقَالَ :((اَیُّ شَہْرٍ ہٰذَا؟)) قُلَنَا :اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ  اَعْلَمُ فَسَکَتَ حَتّیٰ ظَنَّنَا اَنَّہٗ  سَیُسَمِّیْہِ بِغَیْرِ اِسْمِہٖ فَقَالَ ((اَلَیْسَ ذَا الْحَجَّۃ ؟))قُلْنَا بَلیٰ قَالَ ((اَیُّ بَلَدٍ ہٰذَا ؟))قُلَنَا :اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ  اَعْلَمُ فَسَکَتَ حَتّیٰ ظَنَّنَا اَنَّہٗ  سَیُسَمِّیْہِ بِغَیْرِ اِسْمِہٖ فَقَالَ : (( اَلَیْسَ یَوْمُ النَّحْرِ ؟))قُلْنَا بَلیٰ قَالَ ((فَاِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ بَیْنَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ہٰذَا، فِیْ شَہْرِکُمْ ہٰذَا وَسَتَلَقَّوْنَ رَبُّہَمْ فَیَسْاَلَکُمْ عَنْ اَعْمَالِکُمْ اَلاَ فَلاَ تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ ضَلاَلاً یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابِ بَعْضٍ اَلاَ ہَلْ بَلَّغْتُ ؟))قَالُوْ :نَعَمْ !قَالَ ((اَللّٰہُمَّ اَشْہَدْ، فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدَ الْغَائِبَ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ اَوْعیٰ مِنْ سَامِعٍ۔ مُتَفَقٌّ عَلَیْہِ

حضرت ابو بکرؓ سے روایت ہے کہ قربانی کے روز نبی اکرمؐ نے ہمیں خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا (لوگو! زمانہ پھر پھرا کر اسی حالت پر آ گیا ہے جس حالت پر اس روز تھا جس روز اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا،  ایک سال،  بارہ مہینوں پر مشتمل ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ تین مسلسل (یعنی) ذوالقعدہ،  ذوالحجہ،  محرم اور ایک (قبیلہ) مضر کا رجب،  جو کہ (جمادی الثانی) اور شعبان کے درمیان پڑتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا "یہ کون سا مہینہ ہے ؟” ہم نے عرض کیا "اللہ اور اس کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔ ” تب آپؐ نے سکوت فرمایا حتی کہ ہم نے سوچا شاید آپﷺ  اس مہینے کا نام ذوالحجہ کے علاوہ کوئی دوسرا بتائیں گے لیکن آپﷺ نے فرمایا "کیا ذی الحجہ نہیں ہے ؟” ہم نے عرض کیا "کیوں نہیں۔ ” آپﷺ  نے پھر پوچھا "یہ کون سا شہر ہے ؟” ہم نے عرض کیا "اللہ اور اس کا رسولﷺ  بہتر جانتے ہیں۔ ” آپﷺ نے سکوت فرمایا حتی کہ ہم نے سوچا شاید آپﷺ اس شہر کا نام مکہ کے علاوہ کچھ اور بتائیں گے لیکن آپﷺ نے فرمایا "کیا یہ شہر مکہ نہیں ہے ؟” ہم نے عرض کیا "کیوں نہیں !” آپﷺ نے پھر پوچھا” یہ کون سا دن ہے ؟”ہم نے عرض کیا "اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ” آپﷺ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے سوچا شاید آپﷺ  اس دن کا نام”یَوْمُ النَّحْرِ”کی بجائے کچھ اور بتائیں گے۔ تب آپﷺ نے فرمایا "کیا یہ یوم نحر نہیں ہے ؟” ہم نے عرض کیا "کیوں نہیں !” پھر آپﷺ  نے ارشاد فرمایا "لوگو! تمہارے خون،  تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح اس حرمت والے مہینے میں اور اس حرمت والے شہر میں ،  اس حرمت والے دن میں ،  تمہارے خون،  تمہارے مال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں۔ (یاد رکھو!) عنقریب تم لوگ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہو اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا۔ خبردار! میری وفات کے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگ جاؤ۔ لوگو! بتاؤ،  کیا میں نے (تمہیں اللہ کا پیغام ) پہنچا دیا (یا نہیں ) صحابہ کرامؓ نے عرض کیا "ہاں ! پہنچا دیا۔ ” آپﷺ  نے (آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر ) فرمایا "اے اللہ! گواہ رہنا۔ ” پھر فرمایا "جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ غیر موجود لوگوں تک (دین کا پیغام) پہنچائیں۔ بعض اوقات پہنچائے گئے لوگ سننے والوں کی نسبت بات کو زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ” اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : زمانہ پھر پھرا کر اسی حالت پر آ گیا ہے جس حالت پر اس روز تھا جس روز اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ "جس کا پس منظر یہ ہے کہ قریش مکہ جب حرام مہینوں میں لڑنا چاہتے تو ان کے نام بدل دیتے اور جنگ و جدال کے بعد آنے والے مہینوں کے نام اپنی طرف سے حرام مہینے رکھ لیتے۔ اس طرح کفار مکہ نے مہینوں کو غلط ملط کر رکھا تھا لیکن جس سال آپ نے حج ادا فرمایا اس سال اللہ تعالیٰ کے حساب کے مطابق اور قریش مکہ کے حساب سے بھی وہ ذو الحجہ کا ہی مہینہ بنتا تھا۔ مذکورہ بالا الفاظ میں رسول اللہ نے اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے مضر ایک قبیلہ کا نام تھا جو رجب کے مہینے کو بہت اچھا سمجھتا تھا اس لئے رسول اللہﷺ نے رجب کو اس قبیلے کے نام سے منسوب فرمایا۔

 

مسئلہ 429: 12 ذی الحجہ کو منیٰ میں رسول اکرمﷺ نے درج ذیل خطبہ ارشاد فرمایا۔

عَنْ اَبِیْ نَضْرَۃؓ حَدَّثَنِیْ مَنْ سَمِعَ خَطْبَۃ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَسْطَ اَیَّامُ التَّشْرِیْقِ فَقَالَ ((یَا اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ اَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلیٰ عَجَمِیٍّ وَلاَ لِعَجَمِیٍّ عَلیٰ عَرَبِیِّ وَلاَ لِاَحْمَرَ عَلیٰ اَسْوَدَ وَلاَ اَسْوَدَ عَلیٰ اَحْمَرَ اِلآَ التَّقْویٰ، اَبَلَّغْتُ ؟)) قَالُوْا بَلَّغَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ثُمَّ قَالَ :((اَیُّ یَوْمٍ ہٰذَا ؟))قَالُوْا یَوْمٌ حَرَامٌ ثُمَّ قَالَ ((اَیُّ شَہْرٍ ہٰذَا؟)) قَالُوْا شَہْرٌ حَرَامٌ، ثُمَّ قَالَ ((اَیُّ بَلَدٍ ہٰذَا ؟))قَالُوْا بَلَدٌ حَرَامٌ، قَالَ ((فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ بَیْنَکُمْ ہٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ہٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ہٰذَا أَ بَلَّغْتَ ؟)) قَالُوْا بَلَّغَ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ ((لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدِ الْغَائِبِ ))۔ رَوَاہُ اَحْمَدٌ (صحیح)

حضرت ابو نضرۃؓ سے روایت ہے کہ جس شخص نے ایام تشریق کے وسط (یعنی 12ذی الحجہ) کو رسول اللہﷺ سے حجۃ الوداع کا خطبہ سنا۔ اس نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا "اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ سنو کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ،  نہ ہی کسی سرخ رنگ والے کو سیاہ رنگ والے پر اور نہ کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ پر فضیلت حاصل ہے ،  مگر تقویٰ کی بنیاد پر (لوگو!) کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے ؟” صحابہ کرامؓ نے عرض کیا "ہاں یا رسول اللہﷺ آپ نے پہنچا دیا ہے۔ پھر آپﷺ نے دریافت فرمایا "یہ کون سا دن ہے ؟” صحابہ کرامؓ  نے عرض کیا "یہ حرمت والا دن ہے۔ ” پھر آپﷺ نے دریافت فرمایا”یہ کون سا مہینہ ہے ؟” صحابہ کرامؓ نے عرض کیا "یہ حرمت والا مہینہ ہے۔ ” پھر آپﷺ نے دریافت فرمایا ” یہ کون سا شہر ہے ؟” صحابہ کرامؓ نے عرض کیا "یہ حرمت والا شہر (مکہ) ہے۔ ” پھر آپﷺ نے فرمایا "اللہ تعالیٰ نے تمہارے خون اور مال ایک دوسرے پر حرام قرار دئیے ہیں۔ جس طرح تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس دن کو حرمت والا قرار دیا ہے۔ کیا میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟صحابہ کرامؓ نے عرض کیا "اللہ کے رسولؐ نے پیغام پہنچا دیا۔ ” تب آپؐ نے ارشاد فرمایا "یہاں موجود لوگوں کو غیر موجود لوگوں تک دین کا پیغام پہنچانا چاہئے۔ ” اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 430: منیٰ میں مقام خیف پر (جہاں آج کل مسجد خیف ہے ) رسول اکرمؐ نے درج ذیل خطبہ ارشاد فرمایا۔

 

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرٍ بِنْ مُطْعَمٍؓ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ : قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ بَالْخَیْفِ مِنْ مِنًی فَقَالَ ((نَضَّرَ اللّٰہُ اِمْرَاءً سَمِعَ مَقَالَتِیْ فَبَلَّغْہَا۔ فَرُبَّ حَامِلٍ فِقْہٍ غَیْرُ فَقِیْہٍ وَرَبُّ حَامِلِ فِقَہٍ اِلیٰ مَنْ ہُوَ اَفْقَہُ مِنْہُ ثَلاَثٌ لاَ یَغُلُّ عَلَیْہِنَّ قَلْبُ مُوْمِنٍ اِخْلاَصُ الْعَمَلِ لِلّٰہِ وَالنَّصِیْحَۃ لِوُلاَۃ الْمُسْلِمِیْنَ وَلُزُوْمُ جَمَاعَتِہُمْ فَاِنَّ دَعَوْتَہُمْ تُحِیْطُ مِنْ وَرَائِہِمْ۔ رَوَاہُ ابْنِ مَاجَۃ  (حسن)

حضرت محمد بن جبیر بن معطمؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ منیٰ میں مسجد خیف کے مقام پر خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا "اللہ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے مجھ سے بات سنی اور دوسروں تک پہنچائی۔ بعض اوقات فقہ کی باتیں پہنچانے والے خود فقیہ نہیں ہوتے اور بعض لوگ جو بات سن کر دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ وہ (یعنی پہنچائے گئے ) ان سے (یعنی پہنچانے والوں سے ) زیادہ فقیہہ ہوتے ہیں۔ تین باتیں ایسی ہیں جن میں مومن کا دل خیانت نہیں کرتا خالص اللہ کے لئے عمل کرنا 2مسلمان حاکموں کی بھلائی چاہنا 3مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ملے رہنا کیونکہ جماعت کے ساتھ رہنے والے کو (جماعت کے ) لوگوں کی دعائیں گھیرے رہتی ہیں۔ ” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 431: خطبہ حجۃ الوداع کے بعض دیگر ارشادات درج ذیل ہیں۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ خَطَبَ النَّاسَ فِیْ حِجَّۃ الْوَدَاعِ فَقَالَ ((قَدْ یَئِسَ الشَّیْطَانُ بِاَنْ یُّعْبَدَ بِاَرْضِکُمْ وَلٰکِنَّہٗ  رِضیٰ اَنْ یُّطَاعَ فِیْمَا سِویٰ ذٰلِکَ مِمَّا تُحَاقِرُوْنَ مِنْ اَعْمَالِکُمْ فَاحْذَرُوْا یَا اَیُّہَا النَّاسُ اِنِّی قَدْ تَّرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ فَلَنْ تَضِلُّوْا اَبَدًا کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃ نَبِیِّہٖ (ا ) اِنَّ کُلُّ مُسْلِمِ اَخُ الْمُسْلِمِ أَلْمُسْلِمُوْنَ اِخَوْۃ وَلاَ یَحِلُّ لِإِمْریٴٍ مِنْ مَالِ اَخِیْہِ وَاِلآَ مَا اَعْطَاہُ عَنْ طِیْبِ نَفْسٍ وَلاَ تَظْلِمُوْا وَلاَ تَرْجِعُوْا مِنْ بَعْدِیْ کُفَّارًا یَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ))۔ رَوَاہُ الْحَاکِمُ  (حسن)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے حجۃ الوداع کے روز لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا "شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ تمہاری اس سر زمین پر کبھی اس کی بندگی کی جائے گی لہٰذا اب وہ اسی بات پر راضی ہے کہ (شرک کے علاوہ) دوسرے اعمال جنہیں تم معمولی سمجھتے ہو،  ان میں اس کی پیروی کی جائے ،  لہٰذا شیطان سے خبردار ہو۔ بے شک میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں جسے اگر مضبوطی سے پکڑو گے ،  تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے نبیﷺ کی سنت۔ (سنو!) بے شک ہر مسلمان،  دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ (اس طرح) سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور کسی آدمی کے لئے اپنے بھائی کے مال سے کوئی چیز لینا جائز نہیں ،  ہاں اگر وہ آدمی خود اپنی خوشی سے دے۔ آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو اور میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔ ” اسے حاکم نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

مَسَائِلٌ مُّتَفَرقَۃ

 

متفرق مسائل

 

مسئلہ 432: رسول اللہﷺ  نے ساری حیات طیبہ میں چار عمرے اور ایک حج ادا فرمایا۔

عَنْ قَتَادَۃؓ اَنَّ اَنْسًاؓ اَخْبَرَہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ اِعْتَمَرَ اَرْبَعَ عُمَرٍ کُلُّہُنَّ فِیْ ذِی الْقَعْدَۃ اِلآَ الَّتِیْ مَعَ حَجَّتِہٗ  عُمْرَۃ مِّنَ الْحَدَیْبِیَۃ اَوْ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃ فِیْ ذِیْ الْقَعْدَۃ وَعُمْرَۃ مِّنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فِیْ ذِیْ الْقَعْدَۃ وَعُمْرَۃ مِنْ جِعْرَانَۃ حَیْثُ قَسَمَ غَنَائِمَ حُنَیْنٍ فِیْ ذِیْ الْقَعْدَۃ وَعُمْرَۃ مَعَ حَجَّتِہٖ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت قتادہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت انسؓ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہﷺ  نے چار عمرے ادا کئے ہیں۔ حج والے عمرے کے سوا باقی سارے عمرے ذوالقعدہ (کے مہینے ) میں ادا کئے ہیں ایک عمرہ حدیبیہ سے یا (صلح) حدیبیہ کے موقع پر ذوالقعدہ میں۔ دوسرا اگلے سال ذوالقعدہ میں تیسرا ،  ذوالقعدہ میں جعرانہ سے جہاں پر نبی اکرمﷺ نے غزوہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کی اور چوتھا وہ عمرہ جو آپؐ نے (ذوالحجہ میں ) اپنے حج کے ساتھ ادا فرمایا۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 433: نفلی حج انسان جتنی مرتبہ چاہے ادا کر سکتا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ الْاَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍؓ سَاَلَ النَّبِیَّا فَقَالَ یَا رَسُوْلِ اللّٰہِ أَلْحَجُّ فِیْ کُلِّ سَنَۃ اَوْ مَرَّۃ وَاحِدَۃ ؟قَالَ (( بَلْ مَرَّۃ وَاحِدَۃ فَمَنِ اسْتَطَاعَ فَتَطَوَّعَ )) رَوَاہُ ابْنِ مَاجَۃ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت اقرع بن حابسؓ نے نبی اکرمﷺ سے عرض کیا "یا رسول اللہ (ﷺ )! کیا حج ہر سال فرض ہے یا ایک ہی بار ہے ؟” آپﷺ نے فرمایا "ایک ہی بار فرض ہے البتہ جو طاقت رکھے وہ نفل حج ادا کرے۔ ” اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 434: حج اور عمرے کا ثواب خرچ اور تکلیف کے مطابق ملتا ہے۔

 

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ رَوَایَۃ اَنَّ النَّبِیَّا قَالَ لَہَا فِیْ الْعُمْرَۃ وَلٰکِنَّہَا عَلیٰ قَدْرٍ نَفْقَتِکَ اَوْ نَصَبِکَ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر نبی اکرمﷺ نے ان (حضرت عائشہؓ ) سے عمرہ کے (ثواب کے ) بارے میں فرمایا کہ اس کا ثواب خرچ یا مشقت کے مطابق ملتا ہے۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 435: حج یا عمرہ میں زیادہ اجر و ثواب حاصل کرنے کی نیت سے اپنے آپ کو جان بوجھ کر مشقت میں ڈالنا جائز نہیں۔

عَنْ اَنَسٍؓ قَالَ مَرَّ النَّبِیُّا بِشَیْخٍ کَبِیْرٍ یَتَہَادَی بَیْنَ ابْنَیْہِ فَقَالَ ل((مَا بَالُ ہٰذَا؟)) قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ نَذَرَ اَنْ یَّمْشِیَ قَالَ (( اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَغَنِیٌّ عَنْ تَعْذِیْبِ ہٰذَا نَفْسُہٗ  )) قَالَ فَاَمَرُہٗ  اَنْ یَرْکَبَ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ کا گزر ایک ایسے بوڑھے شخص پر ہوا جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے چل رہا تھا۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا "کیا حال ہے اس کا؟” لوگوں نے عرض کیا "یا رسول اللہﷺ  ! اس نے (بیت اللہ شریف تک) پیدل چل کر پہنچنے کی منت مانی ہے۔ ” تو آپﷺ  نے ارشاد فرمایا "اللہ تعالیٰ اس بات سے بے نیاز ہے کہ یہ شخص اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا کرے۔ ” راوی کہتے ہیں پھر نبی اکرمﷺ  نے اسے حکم دیا "کہ سوار ہو جائے۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 436: حطیم (کعبہ شریف کا غیر مسقف حصہ) میں نماز ادا کرنا مستحب ہے۔

 

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : کُنْتُ اُحِبُّ اَنْ اَدْخُلَ الْبَیْتَ فَاُصَلِّیْ فِیْہِ فَاَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ بِیَدِیْ فَاَدْخَلَنِی الْحِجْرَ فَقَالَ (( اِذَا اَرَدْتِ دُخُوْلَ الْبَیْتِ فَصَلّیٰ ہَاہُنَا فَاِنَّمَا ہُوَ قِطْعَۃ مِنَ الْبَیْتِ وَلٰکِنَّ قَوْمَکِ اقْتَصَرُوْا حَیْثُ بَنَوْہُ۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)

حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ میں کعبہ شریف میں داخل ہو کر نماز پڑھنا چاہتی تھی۔ رسول اللہؐ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے حطیم میں لے گئے اور فرمایا "جب تم بیت اللہ شریف کے اندر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں (حطیم میں ) کھڑے ہو کر نماز پڑھ لو۔ یہ بھی بیت اللہ شریف کا حصہ ہے۔ تیری قوم نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کے وقت (حلال کمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ) اسے (اسی غیر مسقف حالت میں ) تھوڑا سا تعمیر کر دیا تھا۔ ” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 437: بیت اللہ شریف کے اندر جانے کی سعادت نصیب ہو تو بیت اللہ شریف کے دروازے کے مقابل کی دیوار کی طرف منہ کر کے ستونوں کے درمیان کھڑے ہو کر دو رکعت نماز ادا کرنی چاہئے اس کے بعد بیت اللہ شریف کے چاروں کونوں میں کھڑے ہو کر اللہ کی تکبیر،  توحید اور تحمید کے کلمات نیز توبہ استغفار اور دعائیں مانگنی چاہئیں۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ الْکَعْبَۃ وَدَنَا خُرُوْجُہٗ  و وَجَدْتُ شَیْئًا فَذَہَبْتُ فَجِئْتُ سَرِیْعًا فَوَجَدْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ خَارِجًا فَسَاَلْتُ بِلاَلاً اَصَلّیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِیْ الْکَعْبَۃ قَالَ نَعَمْ رَکَعَتَیْنِ بَیْنَ السَّارِیَتَیْنِ۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کعبہ شریف میں داخل ہوئے اور نکلنے ہی والے تھے کہ مجھے کوئی چیز یاد آ گئی اور میں وہاں سے چلا گیا اور جلدی جلدی واپس آ گیا،  لیکن اتنے میں ہی رسول اللہﷺ کو کعبہ شریف سے نکلتے ہوئے پایا۔ میں نے حضرت بلالؓ سے دریافت کیا "کیا رسول اللہﷺ  نے کعبہ شریف میں نماز پڑھی ہے ؟” حضرت بلالؓ نے جواب دیا "ہاں ! دو ستونوں کے درمیان دو رکعت نماز ادا فرمائی ہے۔ ” اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ اُسَامَۃ بْنِ زَیْدٍؓ اَنَّہُ دَخَلَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ وَقَالَ ثُمَّ انْصَرَفَ اِلیٰ اَرْکَانِ الْبَیْتِ یَسْتَقْبِلُ کُلَّ رُکْنٍ مِّنْہَا بِالتَّکْبِیْرِ وَالتَّہْلِیْلِ وَالتَّحْمِیْدِ وَسَاَلَ اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَہٗ۔ رَوَاہُ اِبْنِ خُزَیْمَۃ (صحیح)

حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ (کعبہ شریف میں )داخل ہوئے۔ پھر حدیث بیان کی اور کہا کہ (نماز کے بعد) نبی اکرمﷺ کعبہ شریف کے کونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ہر کونے کے سامنے کھڑے ہو کہ تکبیر،  توحید اور تحمید کے کلمات ارشاد فرمائے۔ اللہ سے دعاء اور استغفار کی۔ اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 438: حجر اسود اور مقام ابراہیم دونوں جنت کے پتھر ہیں۔

 

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((اَلرُّکْنُ وَالْمَقَامُ یَاقُوْتَتَانِ مِنْ یَاقُوْتِ الْجَنَّۃ طَمَسَ اللّٰہُ نُوْرَہُمَا وَلَوْلَمْ یَطْمِسْ نُوْرَہُمَا لَاَضَاءَ تَا مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ رَوَاہُ ابْنِ خُزَیْمَۃ (حسن)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے قیمتی پتھروں میں سے دو پتھر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں پتھروں کی روشنی ختم کر دی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ دونوں پتھر مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کر دیتے ” اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 439: حجر اسود جنت سے اتارا گیا پتھر ہے ،  جو دودھ کی طرح سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے سیاہ ہو گیا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (( نَزَلَ الْحَجْرُ الْاَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّۃ وَہُوَ اَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْہُ خَطَایَا بَنِی آدَمَ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا "حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا ہے۔ ” اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 440: حجر اسود کو چومنا اور بیت اللہ شریف کا طواف کرنا شرک نہیں بلکہ سنت رسولؐ کی اتباع اور پیروی کرنا ہے۔

 

عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَسْلَمَ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ عُمْرَ ابْنِ الْخَطَّابِث قَالَ لِلرُّکْنِ اَمَا وَاللّٰہِ اِنِّی لَاَعْلَمُ اَنَّکَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ وَلَوْلاَ اِنِّی رَاَیْتُ النَّبِیَّا اسْتَلَمَکَ مَا اسْتَلَمْتُکَ فَاسْتَلَمَہُ ثُمَّ قَالَ مَا لَنَا وَلِلرَّمَلِ ؟ اِنَّمَا کُنَّا رَاَیْنَا الْمُشْرِکِیْنَ وَقَدْ اَہْلَکَہُمُ اللّٰہُ ثُمَّ قَالَ شَیْءٌ صَنَعَہُ النَّبِیَّا فَلاَ نُحِبُّ اَنْ نَّتْرُکَہُ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت زید اپنے باپ حضرت اسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے حجر اسود کو مخاطب کر کے فرمایا "اللہ کی قسم! میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع دے سکتا ہے اگر میں نے رسول اللہﷺ  کو چومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی نہ چومتا۔ ” یہ کہہ کر حجر اسود کا استلام کیا۔ پھر فرمانے لگے "اب ہمیں (طواف کے پہلے تین چکروں میں ) رمل کرنے کی کیا ضرورت ہے رمل تو مشرکوں کو دکھانے کے لئے کیا تھا اور اب اللہ نے انہیں تباہ کر دیا ہے پھر خود ہی فرمایا "کوئی چیز جسے رسول اللہﷺ نے کیا ہو اسے چھوڑنا ہمیں پسند نہیں۔ ” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 441: حج یا عمرہ کے بعد مکہ مکرمہ سے آب زمزم کا تحفہ ساتھ لے جانا مستحب ہے۔

 

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّہَاکَانَتْ تَحْمِلُ مِنْ مَآءِ زَمْزَمَ وَتُخْبِرُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کَانَ یَحْمِلُہُ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت عائشہؓ زمزم کا پانی (مکہ سے مدینہ) لے جایا کرتی تھیں اور فرماتیں رسول اللہؐ بھی لے جایا کرتے تھے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 442: دوران حج تجارت یا مزدوری کرنا جائز ہے۔

عَنْ اَبِی اُمَامَۃ التَّیْمِیِّ قَالَ :کُنْتُ رَجُلاً اُکْرِیْ فِیْ ہٰذَا الْوَجْہِ وَکَانَ نَاسٌ یَقُوْلُوْنَ لِیْ اِنَّہٗ  لَیْسَ لَکَ حَجٌّ فَلَقِیْتُ ابْنَ عُمَرَ فَقُلْتُ یَا اَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اِنِّیْ رَجُلٌ اُکْرِیْ فِیْ ہٰذَا الْوَجْہِ وَاِنَّ نَاسًا یَقُوْلُوْنَ لِیْ اِنَّہُ لَیْسَ لَکَ حَجٌّ ؟فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ اَلَیْسَ تُحْرِمُ وَتُلَبِّیْ وَتَطُوْفُ بِالْبَیْتِ وَتَفِیْضُ مِنْ عَرَفَاتٍ وَتَرْمِی الْجِمَارَ ؟ قَالَ قُلْتُ بَلیٰ قَالَ فَاِنَّ لَکَ حَجًّا جَاءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّا فَسَاَلُہُ عَنْ مِثْلِ مَا سَاَلْتَنِیْ عَنْہُ فَسَکَتَ عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَلَمْ یُجِبْہُ حَتّیٰ نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْایَٰۃ ﴿ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِکُمْ ﴾فَاَرْسَلَ اِلَیْہِ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَقَرَأَ عَلَیْہِ ہٰذِہِ الْایَٰۃ وَقَالَ (( لَکَ حَجٌّ )) رَوَاہُ اَبُوْ دَاوٴُدَ (صحیح)
حضرت ابو امامہ تیمی کہتے ہیں میں موسم حج میں حجاج کی باربرداری کا کام کرتا تھا کچھ لوگ کہتے تھے تمہارا حج نہیں ہوا،  چنانچہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے ملا اور عرض کیا "اے ابو عبدالرحمان! میں حجاج کی باربرداری کا کام کرتا ہوں اور کچھ لوگ کہتے ہیں تمہارا حج نہیں ہوا؟” حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  نے فرمایا "کیا تم نے احرام نہیں باندھا؟ کیا تم نے تلبیہ نہیں کہا؟ کیا تم نے بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کیا؟ کیا تم عرفات سے ہو کر نہیں آئے کیا تم نے رمی جمار نہیں کی؟” میں نے عرض کیا "کیوں نہیں (سب کچھ کیا ہے )” حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا "تو پھر تمہارا حج ہو گیا ہے۔ ” (سنو) ایک آدمی نبی اکرمﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ  سے یہی مسئلہ پوچھا،  جو تم نے مجھ سے پوچھا ہے۔ اس پر رسولﷺ  خاموش رہے حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِکُمْ ﴾(سورہ بقرہ، آیت نمبر197) تب رسول اللہﷺ  نے اس آدمی کی طرف پیغام بھیجا اس کے سامنے یہ آیت پڑھی اور فرمایا” تیرا حج ہو گیا۔ ” اسے ابو داؤ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 443: قبولیت حج کے لئے رزق حلال شرط ہے۔

 

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ :اِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ حَاجًّا بِنَفَقَۃ طَیَّبَۃ وَوَضَعَ رِجْلَہُ فِی الْغَرْزِ فَنَادیٰ لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ نَادَاہُ مُنَادٍ مِّنَ السَّمَاءِ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ زَادُکَ حَلاَلٌ وَرَاحِلَتُکَ حَلاَلٌ وَحَجُّکَ مَبْرُوْرٌ غَیْرُ مَازُوْرٍ وَاِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ بِالنَّفَقَۃ الْخَبِیْثَۃ فَوَضَعَ رِجْلَہُ فِیْ الْغَزْرِ فَنَادیٰ لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ نَادَاہُ مُنَادٍ مِنَ السَّمَآءِ لاَ سَعْدَیْکَ زَادُکَ حَرَامٌ وَنَفْقَتُکَ حَرَامٌ وَّحَجُّکَ مَازُوْرٌ وَ غَیْرُ مَاجُوْرٍ۔ رَوَاہُ الطِّبْرَانِیُّ

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا "جب آدمی حج کے لئے رزق حلال لے کر نکلتا ہے اور رکاب میں اپنا پاؤں رکھتا ہے اور لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ پکارتا ہے تو آسمان سے ایک منادی نداء کرتا ہے تیرا لبیک قبول ہو اور رحمت الٰہی تجھ پر نازل ہو،  تیرا سفر خرچ حلال اور تیری سواری حلال اور تیرا حج مقبول، گناہوں سے پاک ہے اور جب آدمی حرام کمائی کے ساتھ حج کے لئے نکلتا ہے اور رکاب میں پاؤں رکھتا ہے اور لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ پکارتا ہے تو آسمان سے نداء کرنے والا نداء کرتا ہے تیری لبیک قبول نہیں نہ تجھ پر رحمت ہو،  تیرا سفر خرچ حرام،  تیری کمائی حرام اور تیرا حج گناہوں سے آلودہ اور بے اجر ہے۔ ” اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 444: سفر حج پر نکلنے سے پہلے گھر میں دو رکعت نفل ادا کرنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 445: سفر حج پر روانگی سے قبل بزرگوں اور ولیوں سے اجازت لینا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 446: سفر حج پر روانگی سے قبل بزرگوں اور ولیوں کی قبروں کی زیارت کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 447: گھر سے نکلتے ہوئے درج ذیل دعا مانگنا مسنون ہے۔

 

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ اَنَّ النَّبِیَّا قَالَ :اِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَیْتِہٖ فَقَالَ بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃ اِلآَ بِاللّٰہِ قَالَ یُقَالُ حِیْنَئِذٍ ہُدِیْتَ وَکُفِیْتَ وَ وُقِیْتَ فَتَتَنَحّیٰ لَہُ الشَّیَاطِیْنُ فَیَقُوْلُ شَیْطَانٌ آخَرُ کَیْفَ لَکَ بِرَجُلٍ قَدْ ہُدِیَ وَکُفِیَ وَوُقِیَ۔ رَوَاہُ اَبْوَدَاوٴُدَ (صحیح)

حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "جب آدمی اپنے گھر سے نکلے اور یہ دعا مانگے "اللہ کے نام سے (نکلتا ہوں ) اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں ،  نقصان سے بچنے کی طاقت اور فائدے کے حصول کی قوت اللہ کی توفیق کے بغیر (کسی میں نہیں ہے ) اس وقت اس کے حق میں یہ بات کہی جاتی ہے (سارے کاموں میں ) تیری رہنمائی کی گئی۔ تو کفایت کیا گیا اور (ہر طرح کی برائی اور خسارے سے ) بچا لیا گیا۔ پس شیطان اس سے الگ ہو جاتا ہے اور دوسرا شیطان اس سے کہتا ہے تم اس شخص پر کیسے قابو پا سکتے ہو جس کی راہنمائی کی گئی کفایت کیا گیا اور محفوظ کیا گیا۔ ” اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 448: سواری پر سوار ہونے کے بعد آغاز سفر میں اور سفر سے واپسی پر درج ذیل دعا مانگنا مسنون ہے۔

 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ کَانَ اِذَا اسْتَویٰ عَلَی بَعِیْرَۃ خَارِجًا اِلَی سَفَرٍ کَبَّرَ ثَلاَثًا ثُمَّ قَالَ سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ  مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضیٰ اَللّٰہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرِنَا ہٰذَا وَاَطْوِعَنَّا بَعْدَہٗ  اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِیْ السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃ فِیْ الْاَہْلِ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَابَۃ الْمَنْظَرِ وَسُوْءِ الْمُنْقَلَبِ فِیْ الْمَالِ وَالْاَہْلِ وَاَذَا رَجَعَ قَالَہُنَّ وَزَادَ فِیْہِنَّ آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  جب اپنے اونٹ پر سفر پر جانے کے لئے سوار ہو جاتے تو تین مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہ کر یہ دعا پڑھتے "پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اس سواری کو مسخر کیا ہم اسے مسخر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور ہمیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹنا ہے اے اللہ! اس سفر میں ہم تجھ سے نیکی،  تقویٰ اور ایسے عمل کا سوال کرتے ہیں جس سے تو راضی ہو یا اللہ ہمارے لئے ہمارا سفر آسان فرما دے اور اس کی لمبائی کم کر دے یا اللہ سفر میں تو ہی ہمارا محافظ ہے اور اہل و عیال کی خبر گیری کرنے والا ہے یا اللہ میں سفر کی مشقت (دوران سفر حادثہ کی وجہ سے ) برے منظر اور اہل و عیال میں بری حالت کے ساتھ واپس آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ” جب رسول اللہﷺ  سفر سے واپس تشریف لاتے تب بھی یہی دعا پڑھتے اور ساتھ ان الفاظ کا اضافہ فرماتے "ہم واپس آنے والے توبہ کرنے والے عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں۔ ” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 449: اہل قافلہ کو دوران سفر امیر مقرر کر کے سفر کرنا چاہئے۔

 

قَالَ عُمَرُؓ اِذَ اکَانَ نَفَرٌ ثَلاَثٌ فَلْیُوٴَمَّرُوْا اَحَدَہُمْ ذَاکَ اَمِیْرٌ اَمَرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ رَوَاہُ ابْنِ خُزَیْمَۃ (صحیح)

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب تین آدمی (سفر میں ) ہوں تو اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں امیر بنانے کا حکم رسول اکرمﷺ  نے دیا ہے۔ اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 450: دوران سفر بلندی پر چڑھتے ہوئے اَللّٰہُ اَکْبَرُ اور بلندی سے نیچے اترتے ہوئے سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا مسنون ہے۔

 

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کُنَّا اِذَا صَعِدْنَا کَبَّرْنَا وَاِذَا نَزَلْنَا سَبَّحْنَا رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں (دوران سفرمیں ) جب ہم بلندی پر چڑھتے تو اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے اور جب بلندی سے نیچے اترتے تو سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 451: حج ادا کرنے کے بعد اپنے اہل و عیال میں جلدی واپس جانا اجر عظیم کا باعث ہے۔

 

عَنْ عَائِشَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ :اِذَا قَضیٰ اَحَدُکُمْ حَجَّہْ فَلْیُعَجِّلِ الرَّحْلَۃ اِلیٰ اَہْلِہٖ فَاِنَّہُ اَعْظَمُ لِاَجْرِہٖ۔ رَوَاہُ دَارُ قُطْنِیُّ وَالْحَاکِمُ (صحیح)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "جب کوئی شخص اپنا حج مکمل کر لے تو اسے اپنے اہل و عیال میں (واپس) آنے کے لئے جلدی کرنا چاہئے، یہ اس کے لئے اجر عظیم کا باعث ہے۔ ” اسے دار قطنی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

 

مسئلہ 452: مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے وضو یا غسل کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 453: سفر حج کے دوران جہاں کہیں قافلہ ٹھہرے وہاں دو رکعت نفل کا اہتمام کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 454: ثواب کی نیت سے غار حرا یا غار ثور کا سفر کرنا آثار صحابہ سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 455: مسجد عائشہؓ میں نماز پڑھنے کے لئے سفر کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 456: حصول برکت کے لئے آب زمزم میں کپڑے یا کفن بھگونا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ 457: میزاب کے نیچے اَللّٰھُمَّ اَظِلَّنِیْ فِیْ ظِلِّکَ یَوْمَ لاَ ظِلَّ اِلآَ ظِلَّکَ کہنا سنت سے ثابت نہیں۔

 

وضاحت : کعبہ شریف کی چھت پر حطیم شریف کی سمت بارش کا پانی نیچے گرانے کے لئے جو پرنالہ لگایا گیا ہے، اسے میزاب کہتے ہیں۔

 

مسئلہ 458: مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کی مٹی کو خاک شفا سمجھنا،  اسے کھانا اور اپنے ساتھ لانا سنت سے ثابت نہیں۔

٭٭٭

تشکر:مکتبہ جبرئیل، مرثد ہاشمی جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید