FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

جہانِ آرزو

 

 

 

سحر محمود

 

 

یقیناً یہ جہاں فانی ہے لیکن

’’جہانِ آرزو‘‘ فانی نہیں ہے

 

 

مکمل کتاب داؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

والد محترم مولانا محمود الحسن اثریؒ کی یاد میں

 

جب سے شفیق باپ کا سایہ نہیں رہا

محسوس ہو رہا ہے زمانہ نہیں رہا

 

کس کو سناؤں حالِ نشیب و فراز میں

کرتا تھا وہ جو غم کا مداوا نہیں رہا

 

سونا سا لگ رہا ہے چمن زارِ زندگی

روشن تو ہیں چراغ اجالا نہیں رہا

 

کھاتا رہا وہ ہنس کے ہر اک زخمِ زندگی

لیکن کبھی زبان پہ شکوہ نہیں رہا

 

کتنے دلوں کو فتح کیا حُسنِ خُلق سے

سب لوگ کہہ رہے ہیں مسیحا نہیں رہا

 

ایمان اور یقین کی زندہ مثال تھا

تنہا بھی رہ کے وہ کبھی تنہا نہیں رہا

 

محمود کے بغیر ادھورا ہے اب سحرؔ

ہوتا تھا جس سے نام یہ پورا نہیں رہا

٭٭

 

 

 

گزارش احوالِ واقعی

 

میرا نام میرے والدین نے فضل الرحمن رکھا ہے۔ تخلص سحر ہے۔ والد محترم کے نام کے پہلے جز محمود کو میں لاحقے کے طور پر استعمال کرتا ہوں ۔ اسی وجہ سے سحر محمود کے نام سے جانا جاتا ہوں ۔ میری پیدایش۲۶؍اگست۱۹۸۹ء میں نیپال کے ضلع کپلوستو کے ایک معروف گاؤں ابھراؤںمیں ہوئی۔ میرے والد محترم مولانا محمود الحسن اثری رحمۃ اللہ علیہ کو گاؤں اور قرب و جوار میں تقریباً تمام لوگ ان کے حسن اخلاق کی وجہ سے یاد کرتے ہیں اور انھیں ایک نیک عالمِ دین کے طور پر جانتے اور پہچانتے ہیں ۔ انھوں نے جامعہ اثریہ دار الحدیث،مؤ ناتھ بھنجنسے دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہاں سے فراغت کے بعد وہ کچھ عرصہ تک یوپی کے ضلع سدھارتھ نگر کے ایک گاؤں بکنہیا میں رہے۔ اس کے بعد قرب و جوار اور پھر ہندوستان کے مشہور شہر ممبئی میں کم و بیش دس سال تک درس و تدریس اور امامت و خطابت کے فرائض انجام دیے۔ ۱۹۹۹ سے مئی۲۰۱۵ تک سعودیہ عربیہ میں بھی خدمت دین میں مشغول رہے۔ غرض کہ انھوں نے عمر کا بڑا حصہ ملک سے باہر گزارا ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا، انھیں مخصوص چھٹیوں میں ہی گھر پر پایا۔ اس بار وہ چھٹیوں میں گھر آئے تو چھ جون ۲۰۱۵ کو میری شادی کی ذمے داری سے سبک دوش ہوئے۔ اس کے بعد وہ سفر کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ جولائی۲۰۱۵ میں سخت بیمار ہو گئے۔ مسلسل آٹھ، نو مہینے بیمار رہے۔ آخر کار ان کی یہ بیماری بہانۂ موت بن گئی اور ۳؍مارچ۲۰۱۶ کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے

میں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پھر قریب کے گاؤں منخوریا میں اپنے چچا مولانا محمد طارق نیپالی کے پاس چلا گیا اور ان کی نگرانی میں تعلیم حاصل کی۔ چوں کہ والد محترم اکثر ملک سے باہر رہتے تھے، اس لیے ہم تمام بھائیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری محترم چچا پر ہی تھی۔ محترم چچا نے ہی مجھے شعبۂ حفظ میں داخل کرایا۔ اس کے بعد انھی کے مشورے سے والد محترم نے اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہسنابل دہلی بھیج دیا۔ وہاں میرے بڑے بھائی مولانا محفوظ الرحمن ریاضی پہلے سے ہی موجود تھے۔ کچھ دنوں تک ان کی نگرانی و سرپرستی نصیب رہی۔ میں نے جامعہ اسلامیہ سنابل سے عالمیت و فضیلت کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد چند مہینے مزید دہلی میں رہا۔ پھر والد محترم کو اللہ رب العالمین نے ایک مہلک و موذی مرض میں مبتلا کر دیا۔ ان کی طبیعت روز بہ روز خراب ہوتی چلی گئی۔ ہفتہ، پندرہ دن تک ہاسپٹل ہی میں رہنا پڑتا تھا۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے میں مستقل ان کے ساتھ رہنے لگا اور آخر دم تک ان کے ساتھ رہا۔ آخری دنوں میں کچھ طبیعت سنبھلی تو میں والد محترم کی خواہش پر جامعہ مطلع العلوم ڈمرا، کپلوستو، نیپال میں مدرس ہو گیا۔ تا دمِ تحریر اسی ادارے سے وابستہ ہوں

شعر و شاعری سے مجھے بچپن سے ہی دل چسپی رہی ہے۔ میرے چچا اور پھوپھا عیسیٰ بلال فیضی دونوں اپنی بہترین اور مسحور کن آواز کی بنا پر اکثر دینی محفلوں میں مدعو کیے جاتے رہے ہیں ۔ ان سے مجھے شعر و شاعری کا ماحول ملا۔ لیکن شعر گوئی کا رجحان جامعہ سنابل کے باذوق اساتذہ کی صحبتوں اور وہاں کی ادبی محفلوں سے بنا۔ ابتدا میں اشعار سے دل چسپی کی بنا پر اپنے پسندیدہ اشعار ڈائری میں لکھ لیتا تھا۔ جب میں نے ڈائری میں بڑے شعراء کے منتخب اشعار نوٹ کرنے شروع کیے تو بیشتر اشعار اپنے خیال کی ترجمانی کرتے ہوئے بھی ملے۔ اس سے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں بھی اگر کوشش کروں تو شاعری کر سکتا ہوں ۔ چناں چہ میں نے اپنے خیالات کو شاعری کا لباس دینا شروع کر دیا۔ ابتداء میں سنابل کے ہی ایک استاذ محترم مولانا فضل الرحمن ندوی سے اصلاح لیتا تھا۔ ایک دن کسی ساتھی کے کہنے پر میں مشہور شاعر جناب گلزار دہلوی سے فون پر بات کر کے ان کے دولت خانے نوئیڈا پہنچ گیا۔ میری غزلیں اور متفرق اشعار دیکھنے کے بعد انھوں نے دو اساتذۂ سخن کا نام پیش کیا کہ میں انھیں اپنا کلام دکھا دیا کروں ۔ ان میں سر فہرست محترم ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کا نام تھا۔ ان کے اس مشورے سے میں بہت خوش بھی ہوا۔ کیوں کہ جس شخصیت کا انھوں نے انتخاب کیا تھا، ان کی نیک نامی سے میں پہلے سے بھی واقف تھا۔ سب سے بڑی خوش قسمتی میرےلیےیہ تھی کہ میں غزل کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اب نعت کی بھی اصلاح لے سکتا تھا۔ اس کے بعد سے جو سلسلہ شروع ہوا، الحمد للہ وہ اب بھی جاری ہے۔ ان شاء اللہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا

الحمد للہ میرا گھرانا ہمیشہ سے علمی رہا ہے۔ میرے پردادا جناب عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے مشہور ضلعے بستی سے نیپال آئے تھے اور یہیں رہنے لگے تھے۔ والد محترم نے بتایا کہ وہ داعی و مبلغ تھے اور فارسی میں شاعری بھی کرتے تھے۔ میرے دادا محترم جناب احمد نذیر رحمۃ اللہ علیہ نے یوں تو صرف مکتب کی تعلیم حاصل کی تھی، لیکن وہ ایک عالم ہی کی طرح کام کرتے تھے۔ محترم چچا جان بھی عالم ہیں ۔ ہم پانچ بھائی بہنیں بھی الحمد للہ علمی میدان سے جڑے ہوئے ہیں

’جہانِ آرزو‘ میرا پہلا مجموعۂ کلام ہے۔ آج جب یہ مجموعہ اشاعت کے لیے پریس جا رہا ہے، مجھے رہ رہ کر والد محترم کی یاد ستا رہی ہے۔ انھیں میری شعر گوئی سے بے انتہا دل چسپی تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں میرا شعری مجموعہ آ جائے اور وہ اسے دیکھ کر اپنیآنکھیںٹھنڈی کر لیں ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ وہ اس سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ حالاں کہ اشاعت کی کار روائی ان کی زندگی میں شروع ہو گئی تھی لیکن وہ کار روائی بہت سست تھی۔ میں والد محترم کی تیمار داری میں اس درجہ مصروف و منہمک تھا کہ کسیدوسری طرف خاطر خواہ توجہ ہی نہ ہو سکی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ والد محترم کی قبر کو نور سے بھردے اور انھیں کروٹ کروٹ سکون و راحت نصیب کرے۔ آمین

میں سب سے پہلے استاذِ محترم ڈاکٹر تابش مہدی کا شکریہ ادا کروں گا، جنھوں نے اس راہ میں ہر موڑ پر میری رہ نمائی فرمائی۔ اصلاح کے ساتھ ساتھ شاعری کے آداب بھی سکھائے بل کہ صرف شاعری کے آداب ہی نہیں ، زندگی کے آداب بھی سکھائے۔ انھوں نے مجموعے پر نظر ثانی کی اور میری شاعری کے سلسلے میں اپنے گراں قدر تاثرات بھی تحریر فرمائے۔ ان کی عظمت و اخلاق کا دل سے معترف ہوں ۔ انھیں موجودہ عہد کا استاذ الشعراء تسلیم کرتا ہوں ۔ ان کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ ان کے فن اور شخصیت پر کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ مختلف یونیورسٹیوں میں ان پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں بے حد ممنون و شکر گزار ہوں برادرانِ مکرم جناب تنویر آفاقی اور شاہ اجمل فاروق ندوی کا، جنھوں نے میری ہمت افزائی کی اور کتاب کی اشاعت میں بھرپور مدد فرمائی۔ اپنے برادرانِ عزیز حفظ الرحمن، شمیم الرحمن اور ان تمام دوستوں کا بھی شکر گزار ہوں ، جنھوں نے اس سلسلے میں میری مدد کی۔ محسنین کی فہرست بہت طویل ہے۔ سب کا نام لینا اس وقت ممکن نہیں ۔ میں سب کا تہ دل سے شکر گزار ہوں

 

سحر محمود

۱۳؍مارچ۲۰۱۶

 

 

 

ڈاکٹر تابش مہدی

 

حرفے چند

 

زبان و ادب کی ترویج و ارتقا میں مدارس و مکاتب کا ہمیشہ اہم رول رہا ہے۔ خصوصاً ً اردو زبان و ادب کے سلسلے میں یہ بات بڑی ذمّے داری کے ساتھ کہی جا سکتی ہے۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے جن اہم شخصیات کے نام لیے جاتے ہیں یا زبان و بیان کے سلسلے میں جن سے استناد کیا جاتا ہے، اُن سب کا تعلق مدارس و مکاتب ہی سے تھا۔ ہندستان اور اس کے ہم سایہ ملک بنگلا دیشیا نیپال میں آج جو کچھ اردو کی چمک دمک ہے، مدارس و مکاتب ہی کی وجہ سے ہے۔ ہمارے نوجوان سخن ور جناب سحر محمود بھی مدرسہ و مکتب کی دین ہیں ۔ ان کے پاس شعر و ادب کی جو کچھ پونجی ہے، وہ مدرسہ و مکتب ہی کا فیضان ہے

عزیز القدر سحر محمود ایک نیک و صالح نوجوان ہیں ۔ نیکی و صالحیت ان کے چہرے بشرے سے بھی ظاہر ہوتی رہتی ہے اور ان کی حرکات و سکنات اور اخلاق و کردار سے بھی۔ وہ وطناًنیپالی ہیں ۔ نیپال کے ایک دین دار، مہذب، معزز اور پڑھے لکھے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ علم دوستی اور ادب نوازی ان کی خاندانی روایت ہے۔ یہ خاندانی روایت اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی ودیعت کی ہے۔ انھوں نے اپنی خاندانی روایت کے مطابق سب سے پہلے حفظِ قرآن مجید کیا۔ اس کے بعد اسلامیات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انھوں نے جامعہ اسلامیہسنابل دہلی میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے انھوں نے عالمیت و فضیلت کی اسناد حاصل کیں ۔ انھیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ حفظِ قرآن مجید کے عالمیمسابقے میں وہ مکہ مکرمہ (سعودیہ عربیہ) بھیجاچکے ہیں اور وہاں بھی انھوں نے امتیازی نمبر حاصل کیے ہیں

عزیزم سحر محمود کو اللہ تعالیٰ نے علم دین اور دوسری اخلاقی خوبیوں کے ساتھ شعر گوئی کا بھی ذوق ودیعت فرمایا ہے۔ گزشتہ کئی برس سے وہ مشقِ سخن کر رہے ہیں اور سنجیدہ علمی و ادبی طبقے میں ایک شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ گرچہ انھیں وادیِ سخن میں قدم رکھے ہوے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا، لیکن اپنی مشق و مزاولت اور کثرتِ مطالعہ سے وہ اس میدان میں کافی آگے نکل چکے ہیں

سحر محمود سخن وری میں میرے شاگرد ہیں ۔ جب تک وہ دلّی میں تھے، مجھ سے مسلسل ملتے رہے، میرے ساتھ شعر و سخن کی محفلوں میں بھی شریک ہوتے رہے اور دہلی کی طرحی نشستوں میں بھی پابندی کے ساتھ حصہ لیتے رہے۔ دلّی کے دورانِ قیام میں وہ بزم شہباز دہلی کے نہایت سرگرم و فعال رکن تھے۔ ادارۂ ادب اسلامی ہند کی ادبی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں ۔ ان سب کے پیش نظر میں کہہ سکتا ہوں کہ سحر محمود سلمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کم عمری اور وادیِ سخن میں نو واردی کے باوجود اتنی ترقی کر لی ہے اور اس مقام تک پہنچ چکے ہیں ، جہاں پہنچنے کے لیے مشق و ممارست کی ایک عمر درکار ہے۔ زبان و بیان اور عروض و فن کے رموز سے بھی بڑی حد تک وہ آشنا ہیں ۔ ان کے اشعار سے قدم قدم پر ان کی بہترین صلاحیت، مشق و مطالعہ اور ذہانت و شعور کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے اشعار پڑھ کر یا خود ان کی زبان سے سن کر کوئی یہ نہیں محسوس کر سکے گا کہ شاعر کی عمرِ شاعری اتنی کم ہے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں :

وہ اکثر چھیڑ دیتے ہیں مرے دیرینہ زخموں کو

نہ جانے کیوں انھیں میری خوشی تکلیف دیتی ہے

بہت اچھا تھا جب نا آشنا تھا حسنِ دنیا سے

مجھے اب ہوش مندی، آگہی تکلیف دیتی ہے

اس کی کسی حسیں پہ نظر کس طرح جمے

دامن میں جس کے دولتِ حسنِ نظر نہیں

مسکرا کر بھی اگر کوئی کبھی ملتا ہے

اِس زمانے میں یہی بات بڑی ہے یارو

ہم اکیلے ہیں مقابل ہے زمانہ سارا

سخت دشوار ہے رسموں سے بغاوت کرنا

اے خدا! اُن کو یہ احساس کی شدت دے دے

وہ چلے آئیں مرے دل کی صدا سے پہلے

چشمِ حق بیں میں دنیایہ کچھ بھی نہیں

صرف آنکھوں میں دل کش بنا دی گئی

نتیجہ اپنی وفا کا سبھی کو ہے مطلوب

یہ راہ وہ ہے کہ جاں سے گزرنا پڑتا ہے

ان اشعار سے شاعر کے فکری و فنی ارتقا کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ اشعار اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہ ابھرتا ہوا شاعر خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہے، فکری جہات اور فنی دست رس اور لسانی چابک دستیوں کی جستجو میں مسلسل سرگرداں ہے۔ یہ تلاش وجستجو ہی ایک نوجوان شاعر کو پختہ کار اور بڑا شاعر بناتی ہے

سحر محمود کی شاعری، شاعری برائے شاعری یا سخن برائے سخن نہیں ہے۔ یہ زندگی کی شاعری ہے۔ ان کے ایک ایک شعر سے زندگی اور اس کے مقصد کا اِحساس ہوتا ہے۔ ان کے ہر شعر میں قاری کو کچھ دینے کا شعور ملتا ہے۔ یہی ایک اچھی اور بڑی شاعری کی پہچان ہے

’جہانِ آرزو‘ عزیزی سحر محمود سلمہ اللہ تعالیٰ کا پہلا مجموعہ ہے۔ گویایہ ان کی شاعری و سخن وری کا پہلا پڑاؤ ہے۔ ان کی مشق، توجہ اور لگن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان شاء اللہ وہ جادۂ سخن میں رواں اور دواں رہیں گے اور بہت جلد اپنی اس منزل کو پالیں گے، جو ہر ایک اچھے اور عظیم تخلیق کار کی جستجو کا محور و مرکز ہوتی ہے۔ میں ان کے روشن شعری مستقبل کے لیے دعا کرتا ہوں

بیتالراضیہ                                        تابش مہدی

جی۵؍اے،ابوالفضلانکلیو

جامعہ نگر

نئی دہلی-۱۱۰۰۲۵

رابطہ: 9818327947

 

 

 

 

حمد

 

تجھ پر ہی میری آس ہے پروردگار دیکھ

عصیاں کا میرے کچھ بھی نہیں ہے شمار دیکھ

 

مالک! ہے تجھ پہ رازِ بشر آشکار دیکھ

کس کے لیے ہے چشم مری اشک بار دیکھ

 

جیسا بھی ہوں میں حاضرِ دربار ہوں خدا!

تیرے سوا نہیں ہے کوئی غم گسار دیکھ

 

ماں باپ کی محبتیں کچھ بھی نہیں کریم!

رہتا ہے میرے سامنے تیرا ہی پیار دیکھ

 

 

ہم ہیں فقیر اور تری ذات ہے غنی

تجھ پر ہی کائنات کا ہے انحصار دیکھ

 

احساس جس کو ہوتا ہے اپنے گناہ کا

تیرے ہی در پہ آتا ہے وہ بار بار دیکھ

 

در در پہ حال دل کا سناتا ہے کیوں سحرؔ

ناداں ! درِ کریم پہ دامن پسار دیکھ

٭٭٭

 

 

 

نعتیں

 

نبی نے بات وہ کی ہے جو خود ان کے خدا نے کی

یہ میری ہی نہیں یہرائے ہے سارے زمانے کی

 

نبی کو فکر تھی ان کو بھی راہِ حق پہ لانے کی

کہ جن کو فکر رہتی تھی اُنھیں جڑ سے مٹانے کی

 

یہ اک ایسی حقیقت ہے کہ خود تاریخ شاہد ہے

’’محبت دشمنوں سے بھی حبیب کبریا نے کی‘‘

 

ہوں اپنے یا پرائے سب کے لب پر نام ہے ان کا

ہماری کیا حقیقت مدح خود رب العلیٰ نے کی

 

زباں سے بات جو نکلی وہ خوش بو بن کے بکھری ہے

ادا بھی خوب تھی میرے نبی کے مسکرانے کی

 

ہے نفسی نفسی کا عالم مگر اس حال میں دیکھو

نبی ہیں فکر میں امت کو اپنی بخشوانے کی

 

ابو بکر و عمر، عثمان و حیدر کی وہ عظمت ہے

کہ تربیت خود ان کی تاجدار انبیاء نے کی

 

سحر اس وقت تک ہرگز قیامت آ نہیں سکتی

جہاں میں گونج ہے جب تک محمدؐ کے ترانے کی

٭٭٭

 

 

 

آپ کا جو بھی ہے مرتبامصطفیٰ

’فہم و ادراک سے ماورا مصطفی‘

 

نعت کہنے کو کہہ تو رہا ہوں مگر

نعت کا حق ہو کیسے ادا مصطفیٰ

 

آپ کے ساتھ طائف میں کیا کیا ہوا

پھر بھی لب پر تھا حرفِ دعا مصطفیٰ

 

نورِ اسلام سے آپ نے عمر بھر

سارے عالم کو روشن کیامصطفیٰ

 

دین میں رہزنی بھی در آنے لگی

ہے کہاں آپ کا آئنہ مصطفیٰ

 

اے سحرؔ مصطفی کا ہے یہمرتبا

جن و انساں کے ہیں رہ نما مصطفیٰ

٭٭٭

 

 

 

 

اسوۂ احمدِ مرسلؐ کی ضیا ہو جیسے

یوں منور ہے یہ دل غارِ حرا ہو جیسے

 

دوریِ سنتِ نبویؐ کی سزا ہو جیسے

جس طرف دیکھیے اک حشر بپا ہو جیسے

 

اس طرح حبِّ نبیؐ دل میں بسا لو اپنے

خانۂ دل میں وہ خود جلوہ نما ہو جیسے

 

آپؐ کی آنکھوں نے پہچان لیا بھوکے ہیں

بو ہریرہ کی طلب دل کی صدا ہو جیسے

 

بزمِ تابش(۱)سے سحرؔ جڑ کے یہ محسوس ہوا

نعت کہنا بھی مقدر میں لکھا ہو جیسے

٭٭٭

۱۔ تابشؔ مہدی، استادِ محترم

 

 

 

 

ذکرِ آقا جو عام کرتا ہے

اس کو عالم سلام کرتا ہے

 

نرم لہجہ نبیِ مرسل کا

دشمنوں کو بھی رام کرتا ہے

 

نفرتوں کا گزر نہیں کوئی

وہ محبت کو عام کرتا ہے

 

میرے آقا امین و صادق ہیں

ہر کوئی احترام کرتا ہے

 

مرتبہ مصطفی کا کیا کہیے

وہ دلوں میں قیام کرتا ہے

 

کتنا خوش بخت ہے جو آقا کا

تذکرہ صبح و شام کرتا ہے

 

ذکرِ صدق و صفا نبی کا سحرؔ

ہر کوئی خاص و عام کرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ دل جس میں خدا ہے جانتا ہے

مرے سرکار کا کیامرتبا ہے

 

نبی نے جو کہا میں نے کیا ہے

یہی میرا خدا بھی چاہتا ہے

 

دکھی دل کی یہی واحد دوا ہے

ادھر جاؤ، جدھر کو مصطفی ہے

 

مدینہ رہنے والوں سے سنا ہے

مدینہ منبعِ رشد و ہدا ہے

 

مدینے کی فضا بھی کیا فضا ہے

وہاں جو بھی گیا اس کا ہوا ہے

 

مدینہ سب سے الفت چاہتا ہے

یہی تو مرکزِ خیر الوریٰ ہے

 

مدینہ میرے دل کو بھا گیا ہے

یہی آرام گاہِ مصطفی ہے

 

سحرؔ مدحِ نبی میں کر رہا ہوں

پسندیدہیہ میرا مشغلہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مصطفی کییاد سے دل کو سجانا چاہیے

’’آنسوؤں کو شاہِ دیں کا آستانہ چاہیے ‘‘

 

احمدِ مرسلؐ سے قربت کا بہانہ چاہیے

صُفّہ والوں کی طرح اک آشیانہ چاہیے

 

یہ بھی تو محبوبِ باری سے ہے نسبت کی دلیل

نعت کے نغمے مسلسل گنگنانا چاہیے

 

سیرتِ اصحاب سے ہم کو ملا ہے یہ سبق

آپ کا ارشاد ہو تو سر جھکانا چاہیے

٭٭٭

 

 

کیا بیاں مرتبا کرے کوئی

مصطفی سا ہوا کرے کوئی

 

آپصلِ علیٰ کہیں جب بھی

ذکرِ خیر الوریٰ کرے کوئی

 

ان کا ثانی جہاں میں کوئی نہیں

اور تعریف کیا کرے کوئی

 

ہے عبادت ثنائے احمد بھی

کیسے دل سے جدا کرے کوئی

 

تذکرہ ان کے جاں نثاروں کا

نعت میں بھی کیا کرے کوئی

 

امتی میں بھی ہوں سحرؔ ان کا

میرا بھی تذکرہ کرے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

خوش بخت ہے وہ شخص مقدر کا دھنی ہے

جس دل میں محبت مرے آقا کی بسی ہے

 

اللہ کی اطاعت ہے محمد کی اطاعت

اللہ نے قرآن میں یہ بات کہی ہے

 

ہو پیشِ نظر جس کے بھی سرکار کا اسوہ

کس بات کی اس شخص کو دنیا میں کمی ہے

 

ہوتی ہے شب و روز جہاں بارشِ رحمت

پیغمبرِ اسلام محمد کی گلی ہے

 

دنیا کو یہیں سے ہے ملا نورِ ہدایت

’’یہ شہرِ نبی، شہرِ نبی، شہرِ نبی ہے ‘‘

 

کیا پوچھتے ہو مجھ سے شہِ دین کا اخلاق

قرآن کی کیا تم نے تلاوت نہیں کی ہے ؟

 

انصارومہاجر کی اخوت سے یقیناً

ایثار و محبت کو نئی سمت ملی ہے

 

یارانِ محمد کے عجب نام ہیں اے دل!

بوبکر و عمر ہے کوئی عثمان و علی ہے

 

اس بات کا قائل ہے سحرؔ سارا زمانہ

اللہ کے محبوب کی ہر بات بھلی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کرتے ہیں صدق دل سے جو مدحت رسول کی

حاصل انھی کو ہو گی شفاعت رسول کی

 

دل میں اگر ہے واقعی الفت رسول کی

’’آپس کے جھگڑے چھوڑ دے امت رسول کی‘‘

 

ہر حرف سے جھلکتی ہے عظمت رسول کی

پڑھ جائیے کہیں سے بھی سیرت رسول کی

 

صبر و رضا کا اعلیٰ نمونہ اسے کہیں

عشرت کا حال ہو کہ ہو عسرت رسول کی

 

کیا کہنا ایسے شخص کی قسمت کا دوستو!

جس کو ملی جہان میں صحبت رسول کی

 

اس کی نظر میں سارے صحابہ ہیں محترم

ہے جس کے دل میں کچھ بھی عقیدت رسول کی

 

صدیق ہوں عمر ہوں کہ عثمان و بو تراب

حاصل ہر ایک کو تھی طریقت رسول کی

 

بعد از نبی صحابہ کا ہے مرتبہ بلند

شاہد ہے اس پہ خود ہی شریعت رسول کی

 

اللہ سے دعا ہے شب و روز یہ سحرؔ

حاصل ہو مجھ کو حشر میں قربت رسول کی

٭٭٭

 

 

 

دشمن بھی ہو گئے ہیں طرف دارِ مصطفیٰ

’’اللہ رے کرشمۂ کردارِ مصطفی‘‘

 

صدق و صفا کے پھول کھلے ہیں چہار سو

خوشبو لٹا رہا ہے چمن زارِ مصطفیٰ

 

کتنی خزائیں آئیں اور آ کر چلی گئیں

لیکن ہرا بھرا ہے یہ گلزارِ مصطفیٰ

 

جاں سے زیادہ رکھتے ہیں جو بھی انھیں عزیز

کھلتے ہیں ایسے لوگوں پہ اسرارِ مصطفیٰ

 

اللہ غم گسار ہے ان کا خدا گواہ

ارض و سما بھی ہیں میاں ! غم خوارِ مصطفیٰ

 

قرآں میں رب یہ کہتا ہے صلو علی النبی

اللہ نے دیا ہے یہ معیارِمصطفیٰ

 

دعویٰ ہے گمرہی سے وہ بچ جائے گا ضرور

اپنا لے زندگی میں جو اطوارِ مصطفیٰ

 

ہے آرزو یہی کہ میں ہو جاؤں اے سحرؔ

حسان جیسا شاعرِ دربارِ مصطفیٰ

٭٭٭

 

 

 

 

 

حلیمہ سعدیہ تجھ کو بلا رہا ہے کوئی

ترا نصیب سجانے کو آ رہا ہے کوئی

 

عرب کی دھوپ میں ہے گرم ریت کا بستر

احد، احد کی صدائیں لگا رہا ہے کوئی

 

ہوئے ہیں چاند کے ٹکڑے بس اک اشارے پر

جہاں میں ایسا بھی معجز نما رہا ہے کوئی

 

سکونِ دل کے لیے رحمتوں کی نگری میں

’’عجیب شان سے طیبہ کو جا رہا ہے کوئی‘‘

 

اکٹھا ہیں سبھی ذکرِ رسول کی خاطر

ہجوم اہل فلک کا بھی آ رہا ہے کوئی

 

سحرؔ نبی ہی کی عظمت کا یہ بھی مظہر ہے

نبی کے ذکر کی محفل سجا رہا ہے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل فتح جتنا آپ کی مسکان سے ہوا

اتنا کہاں یہ جنگ کے سامان سے ہوا

 

جو کام بھی ہوا وہ دل و جان سے ہوا

’’عرفانِ حق پیمبر ذی شان سے ہوا‘‘

 

انساں کی زندگی کا ہوا مسئلہ جو حل

ارشادِ مصطفی سے اور قرآن سے ہوا

 

یثرب مدینہ ہو کے ہوا رحمتوں کا شہر

یہ سب رسولِ پاک کے فیضان سے ہوا

 

حیراں ہیں ، جس کو دیکھ کے خاوندِ سعدیہ

وہ معجزہ تو خاص ہی مہمان سے ہوا

 

سارے صحابہ لائقِ تعریف ہیں سحرؔ

دیں سر بلند حلقۂ ایمان سے ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

غزلیں

 

آگہی شرط ہے آدابِ وفا سے پہلے

سوچنا چاہیےیہ حرفِ گلہ سے پہلے

 

اے خدا! ان کو یہ احساس کی شدت دے دے

وہ چلے آئیں مرے دل کی صدا سے پہلے

 

یہ ازل ہی سے محبت کا رہا ہے دستور

دیکھیں ہم ان کی رضا اپنی رضا سے پہلے

 

آج کے دور میں ہے جرم محبت کرنا

سوچنا پڑتا ہے یہ لطف و عطا سے پہلے

 

بعد مرنے کے پشیماں تو سبھی ہوں گے سحرؔ

بات تو جب ہے کہ توبہ ہو قضا سے پہلے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عدل کے موافق جب فیصلہ نہیں ہوتا

پھر نہ پوچھیے کیا کیا حادثہ نہیں ہوتا

 

جبر اور تشدد سے بات بن نہیں سکتی

کام کوئی بھی ایسا دیرپا نہیں ہوتا

 

زندگی کی امیدیں کب کی ختم ہو جاتیں

اے خدا! اگر تیرا آسرا نہیں ہوتا

 

غیر کا سہارا وہ کیا بنے گا اے ناداں !

جس سے اپنے بچوں کا حق ادا نہیں ہوتا

 

خوں بیان کرتا ہے، چیختی ہیں لاشیں بھی

قتل کرنے والوں کو کیا پتا نہیں ہوتا

 

خال خال ملتے ہیں اس جہانِ ہستی میں

فیصلہ سحر جن کا ناروا نہیں ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

آپ کچھ بھی نہ زیر و زبر دیکھیے

آپ کو جو بھی کرنا ہے کر دیکھیے

 

شخصیت اور صورت کا کیا دیکھنا؟

میری با توں میں کیا ہے اثر دیکھیے

 

میں تو بس آپ کے ہاتھ بِک جاؤں گا

آپ میری طرف اک نظر دیکھیے

 

کچھ تھکن کا نہ احساس ہو گا کبھی

ہو کے میرا کبھی ہم سفر دیکھیے

 

رسمِ الفت نبھانے کا جذبہ تو ہو

کتنی آسان ہے رہ گزر دیکھیے

 

جن کی یادوں میں گزری ہے یہ زندگی

میری حالت سے ہیں بے خبر دیکھیے

 

کتنی آسانیاں ہیں میسر سحرؔ

ہے پریشان پھر بھی بشر دیکھیے

٭٭٭

 

 

 

 

ادب میں جس کو ملے سروری وہی کچھ ہے

’’نہ لکھنوی ہے کوئی شے نہ دہلوی کچھ ہے ‘‘

 

کہاں پہ ختم کریں اور کریں کہاں سے شروع

کتابِ عشق کا ہر باب اور ہی کچھ ہے

 

اک آدھ کوئی غزل تم بھی کہہ کے تو دیکھو

پتا چلے گا تمھیں بھی کہ شاعری کچھ ہے

 

فریب کاری کے آتے تھے اس کو اتنے ہنر

میں سوچتا ہی رہا مجھ میں ہی کمی کچھ ہے

 

ترقیوں کے سبھی راستے ہوئے مسدود

متاعِ علم و ہنر ہے نہ فن گری کچھ ہے

 

وہاں پہ دفترِ اعمال ہی کی ہے قیمت

گدائی چیز ہے کوئی نہ خسروی کچھ ہے

 

طلب میں ان کی جو ہوتی ہیں مشکلیں حائل

مزہ ہے درد میں یہ درد اور ہی کچھ ہے

 

ہر ایک بزمِ جہاں میں ہو منفرد سب سے

تمھارا ربط ستاروں سے واقعی کچھ ہے

 

تمام عمر سفر میں گزار دی یوں ہی

سحرؔیہ میں نے نہ جانا کہ زندگی کچھ ہے ٭٭٭

 

 

 

 

 

اگر رب نے دنیا بنائی نہ ہوتی

ہمیں آپ سے آشنائی نہ ہوتی

 

یہ نظمِ جہاں کا تقاضا تھا ورنہ

زمانے میں شاہی، گدائی نہ ہوتی

 

اگر متحد ہوتی امت نبی کی

خدا کی قسم جگ ہنسائی نہ ہوتی

 

جو دامِ زلیخا میں آ جاتے یوسف

کبھی ان کی حامی خدائی نہ ہوتی

 

طریقِ ہدایت نہ ملتا کسی کو

نبی کی اگر رہ نمائی نہ ہوتی

 

سحرؔ ربِ اکبر کا ہے فیض ورنہ

کبھی شاعری ہم کو آئی نہ ہوتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اصل میں موت تو خوشیوں کی گھڑی ہے یارو!

زندگی کرب ہے، اشکوں کی جھڑی ہے یارو!

 

کوئی روتا ہی نہیں غیر کی بربادی پر

ہر بشر کو یہاں اپنی ہی پڑی ہے یارو!

 

وقت آنے پہ ہر اک شخص دغا دیتا ہے

ایسا لگتا ہے قیامت کی گھڑی ہے یارو!

 

اپنے انجام سے غافل نہ رہو فکر کرو

موت فرمان لیے سر پہ کھڑی ہے یارو!

 

مسکرا کر بھی اگر کوئی کبھی ملتا ہے

اس زمانے میں یہی بات بڑی ہے یارو!

 

راہ چلتوں کو یہ پیغام سحرؔ دیتا ہے

حسنِ کردار تو جادو کی چھڑی ہے یارو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

اگر سکون نہیں اپنے آشیانے میں

تو زندگی ہے اجیرن میاں ! زمانے میں

 

ہے خوں کا پیاسایہاںبھائی ایک بھائی کا

بڑا فساد ہے انسان کے فسانے میں

 

جو ہیں ہوس کے پجاری وہ مال و زر کے لیے

نہیں ہے خوف انھیں خوں کا خوں بہانے میں

 

تمام عہدِ جوانی گزر گیایوں ہی

انھیں ہمیں اور ہمیں ان کو آزمانے میں

 

کسی سے کچھ نہ کہیں گے ہوں لاکھ غم اب تو

بہت ہے ذلت و رسوائی غم سنانے میں

 

تمام عمر مرا غم سے بس رہا رشتہ

مزہ سا آنے لگا مجھ کو زخم کھانے میں

 

سنا ہے رب اسے عقبیٰ میں بخش دیتا ہے

سزائیں دیتا ہے جس کو سحرؔ زمانے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اندھیرے سے زیادہ روشنی تکلیف دیتی ہے

زمانے کو مری زندہ دلی تکلیف دیتی ہے

 

بہت اچھا تھا جب نا آشنا تھا حسنِ دنیا سے

مجھے اب ہوش مندی، آگہی تکلیف دیتی ہے

 

وہ اکثر چھیڑ دیتے ہیں مرے دیرینہ زخموں کو

نہ جانے کیوں انھیں میری خوشی تکلیف دیتی ہے

 

جو اپنے سینوں میں دل کی بہ جائے سنگ رکھتے ہیں

انھیں ہم اہلِ دل کی سر خوشی تکلیف دیتی ہے

 

ہو تکمیلِ ہوس جس دوستی کا منتہا اے دل!

مجھے وہ رسم و راہِ عاشقی تکلیف دیتی ہے

 

خدا کے فضل سے مجھ کو سبھی کچھ مل گیا لیکن

مجھے اس بزم میں ان کی کمی تکلیف دیتی ہے

 

سحرؔ! وابستہ میری شاعری ہے ان کی یادوں سے

کبھی پر کیف ہوتی ہے کبھی تکلیف دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بچپن کی یادوں کو بھلائے ایک زمانہ بیت گیا

ہم کو دیس سے باہر آئے ایک زمانہ بیت گیا

 

گلیوں اور بازاروں میں ، میں مارا مارا پھرتا ہوں

خوشیوں کی اک بزم سجائے ایک زمانہ بیت گیا

 

میری طرف بھی چشمِ کرم احباب کبھی فرمائیں گے

ان سے یہ امید لگائے ایک زمانہ بیت گیا

 

کس کو خبر کب پوری ہو گی خوابوں کی تعبیر مرے

نیندوں کو پلکوں پہ سجائے ایک زمانہ بیت گیا

 

اس دنیا میں اپنے پرائے کی ہے سحرؔ پہچان کسے ؟

محفلِ جاں میں مجھ کو آئے ایک زمانہ بیت گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیکھی ہے میں نے یہ بھی نیرنگیِ زمانہ

انصاف کی ردا میں اندازِ ظالمانہ

 

کتنے حسین دن تھے انجان تھے جہاں سے

آتا ہے یاد اب وہ گزرا ہوا زمانہ

 

تیرے ہی دم سے یارب! آباد ہے یہ دنیا

ہے بس یہی حقیقت باقی جوہے فسانہ

 

کوئی نہیں دکھاتا اب تو ہنر شناسی

اٹھتی ہے جو نظر بھی ہوتی ہے ناقدانہ

 

کتنا حسین تیرا اندازِ گفتگو ہے

جی چاہتا ہے لکھ دوں تجھ پر کوئی فسانہ

 

تم کیا گئے کہ دنیا مغموم لگ رہی ہے

اب زندگی یہ مجھ کو لگتی ہے قید خانہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمھارے غم کو غمِ جاں بنا لیا میں نے

کہ جنگلوں کو گُلوں سے سجا دیا میں نے

 

نہ جانے کتنی امیدیں لہو لہو کر کے

دلِ تباہ کو جینا سکھا دیا میں نے

 

سبب ہو کچھ بھی، انھیں روٹھنے کی عادت ہے

یہ سوچنا ہی غلط ہے کہ کیا کیا میں نے

 

ہر ایک بات مرے حق میں تھی مگر پھر بھی

جو فیصلہ تھا بہت سوچ کر کیا میں نے

 

اسے نہ بھول سکا ہوں نہ بھول پاؤں گا

یہ تجربہ تو کئی بار کر لیا میں نے

 

ترے بغیر مری پیاس بجھ نہیں پائی

ہمیشہیاد کیا تجھ کو ساقیا میں نے

 

مری بھی خامشی دیکھی نہیں گئی ان سے

کسی کا ضبطِ سخن آزما لیا میں نے

 

علاج سوزِ دروں کا نہ ہو سکا پھر بھی

سحرؔ بنامِ دوا زہر بھی پیا میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے خودی کے عالم میں رازِ ارتقا پایا

ہر طرف ترا جلوہ تیرا نقشِ پا پایا

 

کارزارِ ہستی میں کیا بتائیں کیا پایا

’عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا‘

 

التفات سے ان کی حد سے بھی سوا پایا

لب کھلے نہ تھے پھر بھی دل کا مدّعا پایا

 

نشّۂ محبت بھی کیا عجیب ہوتا ہے

میں نے سارے عالم کو اس میں ہی گھرا پایا

 

میں تو بھول بیٹھا تھا ان کو زعم میں اپنے

آج تک نہ ان جیسا درد آشنا پایا

 

ان سے مل کے اکثر میں سوچتا یہ رہتا ہوں

کیا عمل کیا میں نے اور کیا صلہ پایا

 

شمع ہوں کہ پروانے فرق کچھ نہیں ان میں

جان ایک ہے لیکن جسم کو جدا پایا

 

ایک پل گزارا تھا میں نے جو رفاقت میں

دل سے آج تک اس کو میں نہیں بھلا پایا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے تابیوں کا دور تھا منظر عجیب تھا

شرم و حیا کا پاس بھی دل بر عجیب تھا

 

ہم قتل کب ہوئے یہ پتا ہی نہیں چلا

انداز تھا عجب کہ وہ خنجر عجیب تھا

 

امیدِ باریابی تو مجھ کو نہ تھی مگر

ساحل پہ آ گیا میں سمندر عجیب تھا

 

دم بھر کو بھی نگاہ نہ چہرے پہ ٹِک سکی

اس پیکرِ جمال کا تیور عجیب تھا

 

تنہا بھی رہ کے ہم کبھی تنہا نہیں ہوئے

ہم راہ اس کی یادوں کا دفتر عجیب تھا

 

ہم دم گمان ہوتا تھا پھولوں کی سیج کا

خاروں سے وہ سجا ہوا بستر عجیب تھا

 

ہم محوِ جستجو تھے سحرؔ مستقل مگر

منزل ملی نہ پھر بھی مقدر عجیب تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مُنہ سے جو کچھ بولو بھیا

پہلے اس کو تولو بھیا

 

بوجھ ذرا کم ہو جائے گا

یاد میں ان کی رولو بھیا

 

تنہا کب تک چلتے رہو گے

ساتھ کسی کے ہولو بھیا

 

یہ گلیاں بدنام بہت ہیں

جلدیہاں سے ڈولو بھیا

 

میں نے بھی یہ سیکھ لیا ہے

پیار ہو جس سے بولو بھیا

 

اچھا ہے یہ درد کسی کا

اپنے دل میں سمولو بھیا

 

دیر ہوئی میں کان دھرے ہوں

دروازہ تو کھولو بھیا

٭٭٭

 

 

 

 

چمن میں رہ کے بھی کیوں دل کی ویرانی نہیں جاتی

بس اتنی بات پر لوگوں کی حیرانی نہیں جاتی

 

مقدر پر ہوا ہوں جب سے میں راضی اسی دن سے

خوشی ہو یا کہ غم چہرے کی تابانی نہیں جاتی

 

فرشتے بھی ہماری قسمتوں پر ناز کرتے ہیں

مگر اپنی حقیقت ہم سے پہچانی نہیں جاتی

 

انا کا مسئلہ دیوانگی سے کم نہیں ہوتا

حقیقت کتنی بھی واضح ہو وہ مانی نہیں جاتی

 

حقیقت میں وہ آئینہ صفت انسان ہوتا ہے

کہ توبہ کر کے بھی جس کی پشیمانی نہیں جاتی

 

یہ شکوے اور یہ حیلے، بہانے کیوں عبث کیجے

جنہیں بچنا ہو ان کی پاک دامانی نہیں جاتی

 

نظر میں پھر رہا ہے بس کسی کے حسن کا منظر

مذاقِ دید کی وہ جلوہ سامانی نہیں جاتی

 

محبت کے لیے اب تو ریا کاری ضروری ہے

یہاں اہل جنوں کی قدر پہچانی نہیں جاتی

 

قیامت کی نشانی یہ نہیں تو اور پھر کیا ہے ؟

لباس اچھے ہیں لیکن پھر بھی عریانی نہیں جاتی

 

تعلق دوریوں سے اور بھی مضبوط ہوتا ہے

سحرؔ انساں کی لیکنخوئے نادانی نہیں جاتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

داستاں کیا تھی اور کیا بنا دی گئی

کچھ گھٹا دی گئی کچھ بڑھا دی گئی

 

کر کے تجدیدِ عہدِ وفا دل نشیں

’’قید کی اور مدت بڑھا دی گئی‘‘

 

جاں ہتھیلی پہ لے کر پہنچ ہی گئے

اہل دل کو جہاں بھی صدا دی گئی

 

ربط باہم وہ پہلے سا باقی نہیں

کیسی صورت جہاں کی بنا دی گئی

 

چشمِ حق بیں میں دنیایہ کچھ بھی نہیں

صرف آنکھوں میں دل کش بنا دی گئی

 

بھول پانا انھیں اب تو ممکن نہیں

دل میں کیسی یہ صورت بسا دی گئی

 

کھو گئے کن خیالوں میں تم اے سحرؔ

محفلِ جان و دل تو سجا دی گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

درد کی صورت میں وہ عمدہ سا تحفہ دے گیا

بے وفا دنیا میں جینے کا سہارا دے گیا

 

جسم ہے آزاد لیکن دل اسیرِ عشق ہے

کچھ حقیقت دے گیا، وہ کچھ فسانہ دے گیا

 

ساری دنیا ایک دن یوں ہی فنا ہو جائے گی

جلتے جلتے ایک پروانہ اشارہ دے گیا

 

اپنے مستقبل کو روشن کرنے نکلے تھے مگر

’’شہر کا سورج تو آنکھوں کو اندھیرا دے گیا‘‘

 

ہو گئے کافور سارے غم بہ یک لخت و نظر

جب کبھی وہ دادِ امید تمنا دے گیا

 

کس قدر ویران ہے اس کے بنا سارا چمن

سوچتا رہتا ہوں وہ کیا لے گیا کیا دے گیا

 

رقص فرما ذہن میں ہے اب بھی وہ صورت سحرؔ

جاتے جاتے اپنی یادوں کا خزانہ دے گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل میں جاگا ہے حوصلہ کوئی

پھر نہ ہو جائے حادثہ کوئی

 

ان کو دیکھا تو یاد آنے لگا

عمرِ رفتہ کا واقعہ کوئی

 

پھر ارادہ بدل گیا میرا

دل پہ قابو نہیں رہا کوئی

 

میرے چہرے پہ سب نگاہیں تھیں

میرے دل سے نہیں ملا کوئی

 

مل ہی جائے گی خود بہ خود منزل

ڈھونڈ لو سیدھا راستا کوئی

 

زندگی کیا ہے اک شعور کا نام

کہہ رہا ہے یہ جا بجا کوئی

 

میں کسی اور ہی جہان میں ہوں

جب سے مل کر چلا گیا کوئی

 

فیصلہ اپنا وہ بتائیں سحر

پھر کریں ہم بھی فیصلہ کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل سے یہاں کسی کو لگاتا نہیں کوئی

ہم کو بھی اس جہان میں بھاتا نہیں کوئی

 

قسمیں وفا کی کھاتے ہیں سب لوگ ہی مگر

عہدِ وفا کی رسم نبھاتا نہیں کوئی

 

تاریکیوں میں لانے کی رسمیں تو عام ہیں

بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتا نہیں کوئی

 

اندھی عقیدتوں کا چلن عام ہے یہاں

لیکن چراغِ فکر جلاتا نہیں کوئی

 

کہنا ہو جو بھی صاف کہو، بے جھجک کہو

اپنوں سے کوئی بات چھپاتا نہیں کوئی

 

شاید کسی عدو نے ترے کان بھر دیے

ورنہ نگاہ یوں تو چراتا نہیں کوئی

 

جس میں ذرا بھی کبر کا ہوتا ہے شائبہ

اس کو نگاہ میں کبھی لاتا نہیں کوئی

 

انکوضرور مجھ سے لگاوٹ ہے کچھ نہ کچھ

یوں حالِ دل کسی کو سناتا نہیں کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہے باعثِ سکونِ سخن ور تمھارا نام

لیتا ہے اس لیے وہ برابر تمھارا نام

 

مجھ کو یقیں ہے تم بھی بہت مضطرب رہے

جب بھی لیا ہے میں نے تڑپ کر تمھارا نام

 

اٹھتا ہے جب تباہیِ دل کا کبھی سوال

آآ کے ٹھہر جاتا ہے لب پر تمھارا نام

 

میرے تمام شعروں میں اک جاں سی پڑ گئی

لکھی غزل جو ذہن میں رکھ کر تمھارا نام

 

کیسے مٹائے موجِ حوادث تمھی کہو

ہے نقش ذہن و دل پہ گلِ تر تمھارا نام

 

تہذیب کے خلاف ہے اظہارِ عاشقی

آتا نہیں ہے اس لیے لب پر تمھارا نام

 

یہ صرف والہانہ محبت کی بات ہے

میری سخن وری کا ہے محور تمھارا نام

 

حد درجہ جاں گداز ہیں یادوں کے سلسلے

کیسے سحرؔ بھلائے گا دل بر تمھارا نام

٭٭٭

 

 

ہےیہ صورت غم کے بس اظہار کی

ڈھال دیجے شکل میں اشعار کی

 

خیریت مطلوب ہے دل دار کی

داستاں مت چھیڑیے سنسار کی

 

ہے عجب صورت یہاں تکرار کی

دل کی مانیں بات یا دل دار کی

 

خاصیتیہ دل کے ہے دربار کی

قدر ہوتی ہے یہاں بس پیار کی

 

ہے خوشی اتنے میں ہی بیمار کی

کوئی صورت تو ہوئی دیدار کی

 

ذمے داری تم پہ ہے گھر بار کی

حرکتیں چھوڑو میاں ! بے کار کی

 

دل میں رہتے ہیں مگر انجان سے

جانے کیا مرضی ہے اپنے یار کی

 

مسئلہ پند و نصیحت کا درست

چھاپ پڑتی ہے مگر کردار کی

 

ہر تعلق کا ہے کچھ مقصد سحرؔ

کون سنتا ہے کسی لاچار کی                                        ٭٭٭

 

 

ہر گھڑی مجھ کو بے قرار نہ کر

زندگی میری سوگ وار نہ کر

 

جس کے ساحل کا کچھ پتا ہی نہیں

ایسی کشتی کو اختیار نہ کر

 

بے خودی میری بے خودی نہ رہے

اتنا احسان غم گسار نہ کر

 

اس قدر مجھ پہ التفات و کرم

میرے محسن تو شرمسار نہ کر

 

پاک کر لے ہوس سے دل پہلے

کون کہتا ہے تجھ کو پیار نہ کر

 

اپنے وعدے کا رکھ بھرم اے دوست!

کشت امید ریگ زار نہ کر

 

خیر خواہی کے نام پر ہرگز

میرے عیبوں کا اشتہار نہ کر

 

آدمی ہے تو آدمی ہی رہ

آدمیت کو داغ دار نہ کر

 

جو سحرؔ دل سے بھول بیٹھا ہو

تذکرہ اس کا بار بار نہ کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم دل کی نگاہوں سے جہاں دیکھ رہے ہیں

وہ بات نظر والے کہاں دیکھ رہے ہیں

 

جن ہاتھوں میں کل امن کا پرچم تھا انھی میں

حیرت ہے کہ شمشیر و سناں دیکھ رہے ہیں

 

کیا جانیے کیوں سوگ کا منظر ہے چمن میں

خاموش زباں ، اشک رواں دیکھ رہے ہیں

 

آخر کوئی افسوس کرے بھی تو کہاں تک؟

ہر سمت تباہی کا سماں دیکھ رہے ہیں

 

آئے گا دل و جاں بھی لٹانے کا زمانہ

کچھ آج بھی الفت کا نشاں دیکھ رہے ہیں

 

ممکن ہے خرد مندوں کو دیوانہ بنا دے

جو عزم مرے دل میں جواں دیکھ رہے ہیں

 

ان سے کوئی امید وفا رکھے تو کیسے ؟

ہر بات میں جو سود و زیاں دیکھ رہے ہیں

 

خاموشی سے حل اپنے مسائل نہیں ہوں گے

کچھ کہیے سحرؔ اہل زباں دیکھ رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک انساں کو کسی انساں سے کیا مل جائے گا

’’جس کی قسمت میں ہے جو لکھا ہوا مل جائے گا‘‘

 

ایک بار اپنی جفاؤں کا وہ کر لیں اعتراف

مجھ کو اپنے سارے زخموں کا صلہ مل جائے گا

 

مجھ کو مل جائے اگر ان کے کرم کا سائباں

زندگانی کا یقیناً حوصلہ مل جائے گا

 

خود کو اوصافِ حسیں سے کیجیے آراستہ

اجنبی چہروں میں کوئی آشنا مل جائے گا

 

اپنے مالک سے سحرؔ وابستگی پیدا کرو

ایک دن جنت کا تم کو راستا مل جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

ہم ان کے ظلم و تشدد پہ صبر کرتے ہیں

سمجھ نہ لے کبھی کوئی کہ ان سے ڈرتے ہیں

 

خزاں میں بھی تو وہ مسرور و شاد رہتے تھے

یہ کیا ہوا جو بہاروں سے آج ڈرتے ہیں

 

ضرور ان پہ کوئی کوہِ رنج ٹوٹا ہے

اسی سبب وہ نظر پھیر کر گزرتے ہیں

 

نصیب ان کو سکونِ حیات ہو کیسے

جو اپنے آپ میں گھل گھل کے جیتے مرتے ہیں

 

سحرؔ کریں نہ بھلا رب کا شکریہ کیوں کر؟

اسی کے لطف و عنایت سے دن گزرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اک بار مل لیے تھے کہیں زندگی سے ہم

محروم ہو گئے تھے جہانِ خوشی سے ہم

 

اب اپنی خواہشوں کا ہمیں کچھ پتا نہیں

وابستہ ہو گئے ہیں انھی کی خوشی سے ہم

 

ان پر تو اعتماد ہمیں تھا بہت مگر

واقف نہ تھے زمانے کی فتنہ گری سے ہم

 

جو زخم بھر چکے ہیں کہیں پھر ہرے نہ ہوں

گزرے نہیں یہ سوچ کے ان کی گلی سے ہم

 

دردِ جدائی مرگِ مسلسل سے کم نہیں

تھے ان کے ساتھ کتنی ہنسی اور خوشی سے ہم

 

تم بزدلی کہو اسے چاہے وفا کہو

ہر ظلم ان کا سہتے رہے خامشی سے ہم

 

اس پر بھی شکوہ سارے زمانے کو ہے سحر

ہنس بول کر جو ملتے ہیں ہر آدمی سے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

الٰہی مجھ پہ ہو اتنا کرم تو اچھا ہے

رفیق میرا ہو، ان کا ہی غم تو اچھا ہے

 

انھی کا درد رہے میری زندگی میں رواں

ملے نہ اور مجھے کوئی غم تو اچھا ہے

 

میں ان کے جور و جفا کو، وفا سمجھتا ہوں

سدا رہے یہی باقی بھرم تو اچھا ہے

 

تمہارے لطف و عنایت کا ہے جہاں قائل

مری طرف بھی ہو چشمِ کرم تو اچھا ہے

 

تعلقات تو بنتے بگڑتے رہتے ہیں

زمینِ دل رہے اس پر بھی نم تو اچھا ہے

 

سپاٹ لہجہ مناسب نہیں سحرؔ صاحب!

ذرا ذرا سا رہے زیر و بم تو اچھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

حسنِ تصورات کے جلوے نہیں رہے

میری حیات میں وہ اجالے نہیں رہے

 

محسوس کر رہے تھے جو انسانیت کا درد

پارینہ قصے ہو گئے چہرے نہیں رہے

 

محتاط رہنا پڑتا ہے اب ان کے سامنے

بچے ہمارے عہد کے بچے نہیں رہے

 

اردو ادب کے نام پہ سجتی ہیں محفلیں

لیکن ادب کے طور طریقے نہیں رہے

 

لوگوں نے میرے خوابوں کی تعبیر چھین لی

پلکوں پہ جو سجائے تھے سپنے نہیں رہے

 

حیراں ہیں اس جہان میں جائیں کہاں سحرؔ

جن کے لیے تباہ ہوئے تھے نہیں رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب دینِ حق کے راستے ہم وار ہو گئے

دشمن بھی اس پہ چلنے کو تیار ہو گئے

 

افسوس ایسے دین فروشوں کی عقل پر

احکام جن کے واسطے بیوپار ہو گئے

 

کیسی ہوا چلی ہے ترقی کے نام پر

سبغیرتیںلٹانے پہ تیار ہو گئے

 

اچھائیوں کا اب تو زمانہ نہیں رہا

سچ بول کے بھی ہم تو گنہ گار ہو گئے

 

خوں ریزی و فساد بھلا کیسے ختم ہو

حاکم ہی قاتلوں کے طرف دار ہو گئے

 

دکھلاتا کون کس کو صداقت کا آئنہ

سب خود فریبیوں میں گرفتار ہو گئے

 

جذبات دل کے دیکھنے والا کوئی نہیں

محسن تھے جتنے اپنے ادا کار ہو گئے

 

جن کو سلیقہ جھوٹ کا آتا ہے اے سحرؔ

وہ سب ہمارے دور کے سردار ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس زمانے میں کیا ہم کریں

کس سے اب رابطہ ہم کریں

 

اپنے ہی دشمنِ جاں ہوئے

کس سے شکوہ گلہ ہم کریں

 

بے وفا ہیں کہ وہ با وفا

کیسےیہ فیصلہ ہم کریں

 

غم کی تو انتہا ہی نہیں

مسکرا کر جیا ہم کریں

 

ہے تقاضا یہی وقت کا

سب سے مل کر رہا ہم کریں

 

تیرگی ہو جہاں بھی سحرؔ

نور کا سلسلہ ہم کریں

٭٭٭

 

 

 

 

جو دل میں کوئی چور رکھا کرتے نہیں ہیں

ناکامیِ الفت کا گلہ کرتے نہیں ہیں

 

وہ لوگ ہی چلتے ہیں سدا سر کو اٹھا کر

نخوت سے کسی سے جو ملا کرتے نہیں ہیں

 

معراجِ محبت انھیں ہوتی ہے میسر

نفرت سے کسی سے جو ملا کرتے نہیں ہیں

 

کیا جانیے کیوں مجھ سے ملا کرتے ہیں چھپ کر

خوابوں میں جو آنے سے حیا کرتے نہیں ہیں

 

پورا جسے کرنے پہ نہ قدرت ہو سحرؔ جی!

وعدہ کبھی ہم ایسا کیا کرتے نہیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جینا سکھا رہی ہے تاریکیوں کے بن میں

’جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں ‘

 

نزدیک وہ نہیں ہیں پھر بھی ہیں پاس میرے

ان کے بدن کی خوشبو رہتی ہے پیرہن میں

 

ناسور بن نہ جائے دل میں دبا دبا کے

جو بات بھی ہے کہہ دو رکھو نہ اپنے من میں

 

خانہ بدوش ہیں وہ ان کو خبر کہاں ہے

اہلِ وطن بھی اکثر رہتے ہیں کب وطن میں

 

آنکھوں کی روشنی ہی اب ماند پڑ گئی ہے

یا پھر کوئی کمی ہے مہتاب کی کرن میں

 

عاجز(۱) سے بے خبر ہو کیا بات کر رہے ہو

ممتاز تھا سخن میں ،یکتا تھا اپنے فن میں

 

یوں ہی ادھر ادھر کیوں پھرتے ہو مارے مارے

آؤ سحرؔ سنا دو کچھ اپنی انجمن میں

٭٭٭

(۱) حضرت کلیم عاجز

 

 

 

 

جو شمعِ دل جلانا جانتا ہے

اسے سارا زمانہ جانتا ہے

 

نگاہیں منتظر رہتی ہیں اس کی

وہ میرا آشیانہ جانتا ہے

 

میں اس کے در پہ جاؤں بھی تو کیسے

مجھے پورا گھرانا جانتا ہے

 

امیرِ شہر سے دھوکا نہ کھانا

بہت باتیں بنانا جانتا ہے

 

سحرؔ ڈرتا نہیں ہے دھمکیوں سے

غموں میں مسکرانا جانتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہنے کو تو دنیا میں وفا دار بہت ہیں

لیکن جو نظر ڈالو تو غدار بہت ہیں

 

حاصل ہے جنھیں دولتِ دنیا کی حکومت

دنیا سے وہی لوگ بھی بیزار بہت ہیں

 

کیا جادو بیانی انھیں بخشی ہے خدا نے

ہر لفظ میں اعجاز ہے، فن کار بہت ہیں

 

باتیں جو کریں دل میں ہر اک بات اتر جائے

موزوں ہیں ، مناسب ہیں ، طرح دار بہت ہیں

 

جو بھی تمھیں کہنا ہو ذرا سوچ کے کہنا

اس عہد کے بچے بھی سمجھ دار بہت ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کون کہتا ہے کسی سے نہ محبت کرنا

شرط ہے اس کے تقاضوں کی حفاظت کرنا

 

میں نے سیکھا ہے اس انساں سے محبت کرنا

جس کا شیوہ تھا عدو پر بھی عنایت کرنا

 

دوستی ہے مری آئینہ صفت لوگوں سے

اچھا لگتا ہے صداقت کی حمایت کرنا

 

یہ عجب بات ہے مل جاتے ہی مال و دولت

سیکھ جاتا ہے ہر اک شخص سیاست کرنا

 

ہم اکیلے ہیں مقابل ہے زمانہ سارا

سخت دشوار ہے رسموں سے بغاوت کرنا

 

اس کے سینے میں بھی دل ہے یہ میں کیسے مانوں

جس کو آتا نہیں بچوں پہ بھی شفقت کرنا

 

کیا سمجھ پائیں گے یہ بات وہ ایمان فروش

کتنا دشوار ہے ایماں کی حفاظت کرنا

 

زندگی اپنی مشابہ ہے پرندوں سے سحرؔ

لکھا ہے دونوں کی تقدیر میں ہجرت کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی کا قلب و جگر پر کچھ اختیار نہیں

کبھی سکوں ہی سکوں ہے کبھی قرار نہیں

 

جو دل کو بھائے اسی میں ہے ہر خوشی مضمر

بغیر اس کے کوئی موسمِ بہار نہیں

 

غمِ جہاں نے کیا ہے نڈھال کچھ ایسا

کہ اپنی ذات پہ خود ہم کو اعتبار نہیں

 

بہت قدیم ہیں رسمِ وفا کی یہ باتیں

حقیقتوں میں اب ان کا کوئی شمار نہیں

 

ہر ایک شخص کو تعریف اپنی پیاری ہے

کسی کی بات کسی کو بھی خوش گوار نہیں

 

حرام رزق کے اسباب میں سے یہ بھی ہے

حلال رزق کے حالات سازگار نہیں

 

نئے زمانے نے ثابت یہ کر دیا ہے سحر

جو اہل زر نہیں ان کا کوئی وقار نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں کیا بتاؤں مجھے اس سے پیار کتنا ہے

یہ دل کی بات ہے دل میں رہے تو اچھا ہے

 

نتیجہ اپنی وفا کا سبھی کو ہے مطلوب

یہ راہ وہ ہے کہ جاں سے گزرنا پڑتا ہے

 

کسی کی ظاہری حالت پہ جائیے نہ کبھی

دلوں کا حال تو بہتر خدا سمجھتا ہے

 

زمانہ روٹھ رہا ہے تو روٹھ جانے دو

وہ کام کرتے رہو بس تمھیں جو کرنا ہے

 

ہر ایک حال میں خوش رہنے کا ہنر سیکھو

غمِ جہاں سے بشر کا قدیم رشتہ ہے

 

سنے گا کون یہاں کس کی داستانِ الم

ہر ایک شخص یہاں اپنے غم میں رہتا ہے

 

رہِ طلب میں یہ ادنیٰ سی چوٹ کیا معنی؟

ابھی تو اور بھی زخموں کو تم کو بھرنا ہے

 

چلے ہو کرنے مسیحائی تم سحرؔ محمود

یہ بزدلوں کا نہیں اہلِ دل کا رستا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرا تو بس ایک ہی پیغام ہے

خود کشی مردہ دلوں کا کام ہے

 

میں نے سمجھا اور جانا ہے یہی

’زندگی زندہ دلی کا نام ہے ‘

 

فرض ہم اپنا ادا کرتے رہیں

کامیابی تو خدا کا کام ہے

 

عقل والوں نے یہ جانا ہی نہیں

بے حجابی ایک قتلِ عام ہے

 

پیار، ایثار و محبت آج کل

عام نظروں میں خیالِ خام ہے

 

انتظارِ صبح کس کے واسطے ؟

صبح کا انجام بھی تو شام ہے

 

روز مرتے اور جیتے ہیں سحرؔ

زندگی کا موت ہی انجام ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ملا لو ہاتھ بھلا دو وہ دشمنی کا سفر

ہے انتظار میں مدت سے دوستی کا سفر

 

مجھے مٹانے کی ضد میں ہے تیرگی کا سفر

مری تلاش میں رہتا ہے روشنی کا سفر

 

فریب دیتا ہی رہتا ہے ہر کسی کا سفر

بڑا عجیب ہے انساں کی زندگی کا سفر

 

کہاں پڑے ہو میاں ! چھوڑو عاشقی کا سفر

یہ عاشقی کا سفر تو ہے تشنگی کا سفر

 

یہ سوچ سوچ کے ہر غم کو بھول جاتا ہوں

کہ دائمی کبھی ہوتا نہیں خوشی کا سفر

 

کمی ہے اپنی کہ ہم دیکھتے ہیں اوروں کو

کبھی نہ سوچا الگ ہے ہر آدمی کا سفر

 

بیان کرتی ہے ہر غم کو چشمِ نظارہ

مگر سمجھ نہیں سکتی ہے بے بسی کا سفر

 

ابھی ہے وقت کہ لیں ہم بھی عقل کے ناخن

جنوں نے چھوڑ دیا کب کا بے خودی کا سفر

 

میں کیسے بھول سکوں گا وہ درد کا منظر

نظر کے سامنے ہے آج بھی کسی کا سفر

 

ہے چند روزہ سفر زندگی کا پھر بھی سحرؔ

عزیز دوست بھی کرتے ہیں بے رخی کا سفر

٭٭٭

 

 

 

 

 

محبت کی فراوانی نہیں ہے

زمانے ! کوئی حیرانی نہیں ہے

 

اسے جس طرح تم چاہو بہا دو

ہے خوں انسان کا پانی نہیں ہے

 

بلند آوازِ حق کرتا رہوں گا

مجھے تسلیم آسانی نہیں ہے

 

یقیناًیہ جہاں فانی ہے لیکن

جہانِ آرزو فانی نہیں ہے

 

بہت اس کو خدائی کا ہے غرّہ

وہ جس میں بوئے سلطانی نہیں ہے

 

غزل ہے یا سحرؔ کچھ اور ہے یہ

ترا انداز رومانی نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کو دیکھ لیا تھا بس اک نظر کے لیے

اسی کا ہو گیا اس دن سے عمر بھر کے لیے

 

عجیب بات ہے منزل ہے سامنے میرے

قدمیہ اٹھتے نہیں ہیں مگر سفر کے لیے

 

بہت نصیب سے ملتا ہے پیار دنیا میں

یہ سیم تن کے لیے ہے نہ مال و زر کے لیے

 

ہزار بار ہے تُف ایسی ناخدائی پر

مسافروں کو جو چھوڑ آتی ہو بھنور کے لیے

 

خدا ہی جانے کہ کیا بات اس کے دل میں ہے

وہ جان دینے پہ آمادہ ہے کھنڈر کے لیے

 

اسے خبر ہی نہیں اس کی حیثیت کیا ہے

وہ قیمتی ہے بہت آج بھی سحرؔ کے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ ہو پہلو میں دل تو دل لگی تکلیف دیتی ہے

خدا شاہد یہ ناقص زندگی تکلیف دیتی ہے

 

ریا و خود نمائی کے سوا اب کیا رہا باقی

مجھے تہذیب کی صورت نئی تکلیف دیتی ہے

 

فریبِ رنگ و بو لگتا ہے اب تو فصلِ گل مجھ کو

بہاروں کیادائے دلبری تکلیف دیتی ہے

 

کوئی آواز ہو ان کی صدا آتی ہے کانوں میں

پرندو! کب تمھاری نغمگی تکلیف دیتی ہے

 

جو وحشت کی گھڑی تھی ختم اب وہ ہو گئی لیکن

کبھی جب یاد آتی ہے بڑی تکلیف دیتی ہے

 

زمانے کے ستم تکلیف دہ اتنے نہیں ہوتے

مجھے جتنی تمھاری بے رخی تکلیف دیتی ہے

 

اگر دل شاملِ غم ہو تو پھر معراج ہو جائے

کہوں کیسے کوئی مشکل گھڑی تکلیف دیتی ہے

 

رفیق و ہم نوا کوئی نہ کوئی ہم سفر اپنا

سحرؔ مجھ کو یہ طرزِ زندگی تکلیف دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ روز و شب نے نہ شام و سحر نے لوٹا ہے

مجھے تو صرف کسی کی نظر نے لوٹا ہے

 

کسی کو شہر نے لوٹا تو آ گیا گھر کو

مگر وہ جائے کہاں جس کو گھر نے لوٹا ہے

 

یہ سنتے آئے تھے رہ زن نے قافلہ لوٹا

مگر ہمیں تو کسی راہ بر نے لوٹا ہے

 

ہزاروں لوگ لٹے مفلسی کے ہاتھوں سے

مگر کچھ ایسے بھی ہیں جن کو زر نے لوٹا ہے

 

یہ بات ہم نے سنی بھی ہے اور پڑھی بھی ہے

سدا کسی کو کسی معتبر نے لوٹا ہے

 

ہمارا حال بھی ناقابلِ بیاں ہے سحرؔ

دوا کے نام پہ اک چارہ گر نے لوٹا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

محبت مری کار گر ہو گئی ہے

انھیں بھی اب اس کی خبر ہو گئی ہے

 

ہوئے منکشف جب سے آلامِ دنیا

مری شرحِ غم مختصر ہو گئی ہے

 

طوالت شبِ ہجر کی توبہ توبہ

شبِ ہجر عمرِ خضر ہو گئی ہے

 

اِدھر درد اٹّھا اُدھر آہ نکلی

فغانِ سحر معتبر ہو گئی ہے

 

سحرؔ دل کو بے دار رکھیے مسلسل

کبھی یہ کہو گے سحر ہو گئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پیچیدہ مسئلہ ہے بہت انتخاب کا

اللہ بس نکالے گا حل اضطراب کا

 

اشیا کو ان کے ضد سے ہی پہچانتے ہیں لوگ

’کانٹے کرا رہے ہیں تعارف گلاب کا‘

 

دیوانہ بے خطر جو سرِ دار آ گیا

مظہر ہے یہ بھی آپ کے خط کے جواب کا

 

خوں ریزی و فساد کا عالم کہ الاماں

اب تو بس انتظار ہے رب کے عذاب کا

 

کافی دنوں سے خط ہے نہ پیغام ہے کوئی

کچھ حال مل سکا نہیں عالی جناب کا

 

جنت میں پوری ہوں گی سبھی خواہشیں مگر

ہو گا مزہ کچھ اور شراب و شباب کا

 

یہ بھی شرف کی اور سعادت کی بات ہے

وہ درس دے رہے ہیں ہمیں دل کے باب کا

 

لوگوں کے دل میں رہنا بھی اعجاز ہے سحر

مجھ کو نہیں ہے شوق کسی بھی خطاب کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

روشنی زندگی کی دکھا دے مجھے

اپنی موجودگی کا پتا دے مجھے

 

گم ہوئے راستے بحرِ ظلمات میں

میری ہستی کا کوئی سرا دے مجھے

 

کچھ بھی تیرے لیے غیر ممکن نہیں

تیری منشا ہے کیایہ بتا دے مجھے

 

تیرے ہاتھوں میں ہی دل کی جاگیر ہے

تو مٹا دے مجھے یا بنا دے مجھے

 

مشکلوں میں نہ ہو جاؤں تجھ سے جدا

صبر ایوب کا اے خدا دے مجھے

 

اپنے حالات سے بے خبر ہوں بہت

میں کہاں ہوں یہ تو ہی بتا دے مجھے

 

پیار ہی پیار ہو، امن ہی امن ہو

کوئی ایسا ٹھکانا بتا دے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سجدہ ترے علاوہ کوئی معتبر نہیں

غیروں کو چاہتا ہوں مگر اس قدر نہیں

 

تم کو مقامِ عشق کی بالکل خبر نہیں

منزل درست، سمتِ سفر معتبر نہیں

 

کوتاہیِ عمل نے کہاں لا کھڑا کیا

میرے کریم! اب تو ہنر بھی ہنر نہیں

 

اس کی کسی حسیں پہ نظر کس طرح جمے

دامن میں جس کے دولتِ حسنِ نظر نہیں

 

دانش وری نصیب کے آگے نہ ٹک سکی

ہر چیز مل گئی ہے مگر وقت پر نہیں

 

ناکامیوں میں خود ہیں برابر کے ہم شریک

تقدیر ہی پہ بات میاں ! منحصر نہیں

 

طعنہ بھلے ہی لوگ دیں حق بات کے لیے

کوئی بھی اے سحرؔ مجھے خوف و خطر نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تقدیر میں لگتا ہے لکھا اور ہی کچھ ہے

’ہم اور ہی سمجھے تھے ہوا اور ہی کچھ ہے ‘

 

جو کچھ بھی کتابوں میں پڑھا اور ہی کچھ ہے

لیکن مجھے دنیا سے ملا اور ہی کچھ ہے

 

ایسا بھی ہوا ہے کہ ہوا اور ہی کچھ تھا

لوگوں کی زبانوں پہ رہا اور ہی کچھ ہے

 

معصوم سے بچوں کو ابھی اس کی خبر کیا

ناکردہ گناہوں کی سزا اور ہی کچھ ہے

 

کچھ خونِ تمنا سے ملی ہے اسے رونق

سمجھا تھا جسے رنگِ حنا اور ہی کچھ ہے

 

کہتے ہیں جسے شاعر و فن کار غزل میں

وہ پیار، وفا اور جفا، اور ہی کچھ ہے

 

واقف ہیں سحرؔ ان کے ہر اک ناز و ادا سے

انجان سا رہنے میں مزا اور ہی کچھ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمھارے در کی جس نے چاکری کی

نہیں ہو گی اسے پروا کسی کی

 

میں اپنے آپ میں کچھ بھی نہیں ہوں

میں جو کچھ ہوں بدولت آپ ہی کی

 

اسے شاعر نہ کہیے کچھ بھی کہیے

نہ ہو خو جس میں کچھ دیوانگی کی

 

جنونِ شوق کا فیضان کہیے

حقیقت ہو گئی وا زندگی کی

 

ضرورت پڑتی ہے سب کو سفر میں

کسی اہلِ نظر کی رہبری کی

 

سحرؔ ہے آدمی وہ شخص جس نے

’دلِ بیمار کی چارہ گری کی‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

صحنِ دل میں مرے خوشیوں کا گزر ہے کہ نہیں

شب کی ظلمات میں امیدِ سحر ہے کہ نہیں

 

بے خبر تو ہی بتا تجھ کو خبر ہے کہ نہیں

تیرے ہاتھوں میں مرا خونِ جگر ہے کہ نہیں

 

ان کی آنکھوں سے جو اک اشک کا قطرہ ٹپکا

آنکھوں والو! یہ بتاؤ وہ گہر ہے کہ نہیں

 

پر خطر راہ ہے آساں نہیں منزل پانا

عزم و ہمت کا کوئی زادِ سفر ہے کہ نہیں

 

مجھ کو کچھ غم نہیں ٹھکرا دیں زمانے والے

میری خاطر مرے اللہ کا در ہے کہ نہیں

 

میں نے تو سب کے ہی جذبات کا رکھا ہے خیال

میری را توں کی سحرؔ! کوئی سحر ہے کہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

وفورِ شوق میں حد سے گزر جانا نہیں اچھا

تڑپنا ٹھیک ہے اوروں کو تڑپانا نہیں اچھا

 

رفیقو! کچھ مداوا بھی کرو دردِ جگر کا تم

ہمیشہیوں ہی ناصح بن کے سمجھانا نہیں اچھا

 

ہوس آگیں نگاہیں گھورتی رہتی ہیں ہر لمحہ

سنو اے جانِ من! تنہا کہیں جانا نہیں اچھا

 

قدم جب آزمایش کی گھڑی میں لڑکھڑاتے ہیں

دلِ زندہ یہ کہتا ہے کہ گھبرانا نہیں اچھا

 

خدا کے فیصلے کو صبر سے تسلیم کرتے ہیں

وہ ناداں ہیں جو گھبراتے ہیں ، گھبرانا نہیں اچھا

 

حیا اچھی ہے لیکن بے محل اچھی نہیں ہوتی

خدا شاہد کہ حق گوئی میں شرمانا نہیں اچھا

 

سحرؔ دل دار ہو ایسا کہ جس پر ناز ہو دل کو

اگر ایسا نہیں تو دل کو تڑپانا نہیں اچھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس کی تقدیر ہے غم جس میں کدورت ہو گی

شادماں ہو گا وہ دل، جس میں محبت ہو گی

 

اپنی بے خبری پہ افسوس بہت ہو گا اسے

منکشف اس پہ جو خود اپنی حقیقت ہو گی

 

وہ بھی دن آئے گا دیکھو گے جو آئینہ کبھی

تم کو خود اپنی ہی تصویر سے وحشت ہو گی

 

زندگانی میں کسی شخص کے کام آ جاؤ

بعد مرنے کے کہاں پھر تمھیں فرصت ہو گی

 

جان دینا ہی محبت میں ضروری تو نہیں

زندہ رہنے سے محبت کی حفاظت ہو گی

 

ڈھونڈ لیجے اے سحرؔ ملنے کا موقع ورنہ

تم ہی ہو گے نہ تمھیں ملنے کی فرصت ہو گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

وادیِ حسن میں جب حسن کے ساماں ہوں گے

ہم سخن ور بھی بہ ہر حال غزل خواں ہوں گے

 

دل میں جن کے بھی محبت کی رمق کچھ ہو گی

شدتِ غم سے وہی چاک گریباں ہوں گے

 

ہم نے مانی نہ اگر شرط زلیخاؤںکی

ہم بھی یوسف کی طرح داخلِ زنداں ہوں گے

 

دیکھا جاتا نہیں جن سے بھی کسی کا ہنسنا

وہ بھی روئیں گے کسی روز پشیماں ہوں گے

 

جن کو محبوب کے محبوب سے نفرت ہو گی

در حقیقت وہ سحرؔ! دشمنِ جاناں ہوں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ اگر بے وفا نہیں ہوتا

مجھ پہ عالم بھی وا نہیں ہوتا

 

تم نہ حد سے اگر بڑھے ہوتے

میں بھی بے ضابطہ نہیں ہوتا

 

لوگ جتنا برا سمجھتے ہیں

کوئی اتنا برا نہیں ہوتا

 

سب کو میزانِ حق پہ مت تولو

سب کو حق کا پتا نہیں ہوتا

 

شیطنت راج کر رہی ہو جہاں

آدمی کا بھلا نہیں ہوتا

 

خود سری کاش چھوڑ دیتا وہ

سر تو تن سے جدا نہیں ہوتا

 

دل اگر ساتھ دے تو لہجہ بھی

بے اثر، بے سرا نہیں ہوتا

 

صاف ہوتا جو دل سحرؔ! ان کا

پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

وہ جو اک تارا ٹوٹا جا رہا ہے

کوئی شیطان مارا جا رہا ہے

 

اٹھو اب چھٹ چکی تاریکیِ شب

’وہ نکلی دھوپ سایہ جا رہا ہے ‘

 

نہیں ہے حد شقاوت کی کہ بچہ

شکم میں ماں کے مارا جا رہا ہے

 

غموں کے دھوپ میں ہنستا بہت ہوں

انھیں یہ غم ہی کھایا جا رہا ہے

 

چھپانے کے لیے سچائیوں کو

بھلا کیوں جھوٹ بولا جا رہا ہے

 

امیرِ شہر تجھ سے پوچھتا ہوں

کیوں ناحق خوں بہایا جا رہا ہے

 

جو روز و شب ستم ڈھاتے ہیں سب پر

انھیں سر پر بٹھایا جا رہا ہے

 

غریبی جاں گسل ہے مانتا ہوں

مگر کیوں سر جھکایا جا رہا ہے

 

سحرؔ! ایمان کی کر لو حفاظت

کہ اب ایماں خریدا جا رہا ہے                         ٭٭٭

 

 

یہاں جس کا بھی سکہ بولتا ہے

وہی حد سے زیادہ بولتا ہے

 

وہ کچھ کہتا نہیں اپنی طرف سے

میاں ! بس اس کا عہدہ بولتا ہے

 

مناسب ہے بڑوں کے بعد بولوں

ادب کا یہ تقاضا بولتا ہے

 

دلوں پر رہتی ہے اس کی حکومت

جو سب کے ساتھ ہنستا بولتا ہے

 

جہاں میں اب بھی قائم ہے محبت

یہ دل والوں کا رشتہ بولتا ہے

 

ہمارے بچے جو کچھ کر رہے ہیں

فقط ماحول ان کا بولتا ہے

 

وہ میرا ہے وہ میرا ہی رہے گا

سحرؔ! اس کا سراپا بولتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ ترقی کی بلندی پہ ہی گھر رکھتے ہیں

راز دل کے جو چھپانے کا ہنر رکھتے ہیں

 

دل میں جو کد نہیں رکھتا ہے کسی انساں سے

اس کو محبوب سبھی اہلِ نظر رکھتے ہیں

 

یہ تو سچ ہے کہ مرے ہاتھ ہیں زر سے خالی

دل کی سیپی میں مگر لعل و گہر رکھتے ہیں

 

کیسے پہنچے گی ہر اک گھر میں کرن خوشیوں کی

اہلِ ثروت ہی یہاں شمس و قمر رکھتے ہیں

 

راحتیں جن کے تلے سب کو میسر ہوں سحرؔ!

جادۂ زیست میں ہم ایسے شجر رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہاں جس نے اداکاری نہیں کی

وہ ناداں ہے، سمجھ داری نہیں کی

 

خدا کا فضل ہے میں صاف گو ہوں

کسی کی بھی طرف داری نہیں کی

 

سبھی نے اپنا اپنا حق جتایا

کسی نے میری غم خواری نہیں کی

 

ہمیشہ سر اٹھا کر میں چلا ہوں

کسی کی ناز برداری نہیں کی

 

سحرؔ! جس کیسینچائی ہو لہو سے

کبھی ایسی زمیں داری نہیں کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہاں کے لوگوں کو خالق سے بھی شکایت ہے

ہم آپ چیز ہیں کیا؟ کیا ہماری وقعت ہے

 

کوئی بھی حال ہو ہم لوگ شاد رہتے ہیں

یہی شعار ہمارا ہے اور فطرت ہے

 

قریب آ کے ہی ان پر یہ منکشف ہو گا

کہ زندگی میں ہمیں حاجتِ رفاقت ہے

 

یہ بات بھول نہ جائیں سدا رہے ملحوظ

رہے گا ویسا ہی جس طرح جس کی فطرت ہے

 

خدا کے سامنے رکھیں تو کوئی بات بنے

جو اس کے بندے ہیں ان کو تو خود ہی حاجت ہے

 

غضب تو یہ ہے کہ ہم غور ہی نہیں کرتے

خدا کی ذات ہے کیا اس کی کیا عبادت ہے

 

محبتوں کا سفر اب بھی ہے جاری لیکن

یہ بات وقت بتائے گا کس میں ہمت ہے

 

تلاشِ عشرتِ دنیا میں کس لیے بھٹکیں

سحرؔ کے واسطے دنیا بھیجائے راحت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ آرزو ہے اسے غم کی کچھ ہوا نہ لگے

میں اس طرح اسے چاہوں اسے پتا نہ لگے

 

وہ چاہتے ہیں کہ میں دل کی بات ان سے کہوں

مجھے خیال کبھی ان کو کچھ برا نہ لگے

 

سمجھیے اس نے محبت کسی سے کی ہے ضرور

تمھاری کوئی ادا جب اسے خطا نہ لگے

 

میں جس مقام پہ ہوں خامشی ہی بہتر ہے

میں کچھ کہوں بھی تو شاید انھیں بہانہ لگے

 

ہمیشہ آتے رہیں وہ مزاج پرسی کو

ہے آرزو کہ مجھے کوئی بھی دوا نہ لگے

 

حسینیادوںکا دفتر ہے دفن سینے میں

ہر ایک لمحہ مجھے یادوں کا خزانہ لگے

 

بغیر ان کے گھٹن ہوتی ہیں بہاروں میں

وہ ساتھ ہوں تو کوئی پل بھی بے مزا نہ لگے

 

یہ کس طرح کا تعلق ہے کیسی مجبوری

کہ واسطہ بھی رہے اور واسطہ نہ لگے

 

اسے حقیر سمجھنے کی بھول مت کرنا

جو دیکھنے میں کسی طور کام کا نہ لگے

 

جو دل پہ گزری ہے وہ دل ہی جانتا ہے سحر!ؔ

ہنسی ہے لب پہ کہ دنیا کو حادثہ نہ لگے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ دل کہنے کو اپنا دل رہا ہے

مگر بس ان کا ہی بسمل رہا ہے

 

زمانے سے اسے کیا لینا دینا

یہ انساں اپنا خود قاتل رہا ہے

 

سنایہ ہے کہ وہ ہیں آنے والے

اسی باعث تو چہرہ کھل رہا ہے

 

کوئی ہو گا کہیں لیکنیہاں پر

وہی بس رونقِ محفل رہا ہے

 

خدا محفوظ رکھے چشمِ بد سے

مرا دل بھی کسی سے مل رہا ہے

 

اسی سے کچھ رمق ہے زندگی میں

وہ میری زیست کا حاصل رہا ہے

 

سحرؔ! یہ بات کب سمجھے گا انساں

وہی پائے گا جس قابل رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ امتحاں بھی عجب امتحان ہوتا ہے

یہاں یقیں سے زیادہ گمان ہوتا ہے

 

خدا کسی پہ اگر مہربان ہوتا ہے

زمیں پہ رہ کے بھی وہ آسمان ہوتا ہے

 

مری تو ساری امیدیں ہیں تجھ سے وابستہ

تو مہرباں تو جہاں مہربان ہوتا ہے

 

ہر ایک دل میں جگہ ہوتی ہے یہ سچ ہے مگر

مکین جیسا ہو ویسا مکان ہوتا ہے

 

مرے خدا مجھے کافر نہ یہ بنا ڈالیں

ہر ایک بات پہ سو سو گمان ہوتا ہے

 

جسے ہم آفتِ ایمان و ہوش سمجھے تھے

اسی کے ذکر سے دل شادمان ہوتا ہے

 

وفا کی راہ میں جاں دینے والا ہی تو سحرؔ!

نگاہِ حق میں سدا کامران ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ سوچو اختیار محبت کیے بغیر

کیسے کٹے گی عمر رفاقت کیے بغیر

 

شاید کسی کے پیار میں پاگل ہوا ہے دل

ہر بات مان لیتا ہے حجت کیے بغیر

 

بوئے وفا کہاں ہے امیرانِ شہر میں

وہ جی نہیں سکیں گے سیاست کیے بغیر

 

ہر رشتۂ امید ہے قائم خلوص سے

کیجے نباہ کوئی خیانت کیے بغیر

 

ہرگز نہ راس آئے گا گلزارِ زندگی

پیدا دل و نگاہ میں وسعت کیے بغیر

 

وہ آدمی ہے رشک کے قابل جو عمر بھر

سب کچھ سہے کسی کو ملامت کیے بغیر

 

تنگ آ گیا ہوں ایسی فضا سے جہاں کے لوگ

رہتے نہیں ہیں شکوۂ قدرت کیے بغیر

 

حاصل نہ ہو سکے گا یہاں خاص امتیاز

پیدا کلام میں کوئی ندرت کیے بغیر

 

وہ ہم سے بدگمان ہیں کچھ اس طرح سحرؔ

بنتی نہیں ہے بات وضاحت کیے بغیر

٭٭٭

 

 

 

 

یوں تو سب کو گمان ہے پیارے

کون جانِ جہان ہے پیارے

 

جب سے تو مہربان ہے پیارے

منتشر میرا دھیان ہے پیارے

 

تیری با توں میں جان ہے پیارے

ساتھ تیرے جہان ہے پیارے

 

گالیوں کی جگہ دعائیں دیں

یہ تو نبیوں کی شان ہے پیارے

 

بھول بیٹھا ہوں زندگی کا پتا

اب تو بس تیرا دھیان ہے پیارے

 

دل کی باتیں تو دل سمجھتا ہے

دل کی اپنی زبان ہے پیارے

 

بے بسی، بے بسی سی رہتی ہے

بے زبانی زبان ہے پیارے

 

کان دھرتے نہیں تمھی ورنہ

وقت کی بھی زبان ہے پیارے

 

کوئی ظالم ہے کوئی ہے مظلوم

سب کی یہ داستان ہے پیارے

 

دور اپنوں سے ہو رہے ہو سحرؔ!

خوب اونچی اڑان ہے پیارے

٭٭٭

 

 

 

 

ضبطِ غم ہے نہ تاب ہے اے دوست!

زندگی اک عذاب ہے اے دوست!

 

آج کے دورِ بے حجابی میں

بے حجابی حجاب ہے اے دوست!

 

مارا مارا جو پھر رہا ہے یہاں

کوئی خانہ خراب ہے اے دوست!

 

کس کو معلوم غم کے ماروں کا

کیا حساب و کتاب ہے اے دوست!

 

وہ تو دیوانہ ہے وہ کیا جانے

کیا غلط کیا صواب ہے اے دوست!

 

دل پہ اپنے ہی بس نہیں چلتا

کیسا عہدِ شباب ہے اے دوست!

 

رازِ دل چہرہ کھول دیتا ہے

اک مکمل کتاب ہے اے دوست!

 

پیار، ایثار اور قربانی

ایک دیرینہ خواب ہے اے دوست!

 

جس کا کوئی نصاب ہے ہی نہیں

عشق ایسی کتاب ہے اے دوست!

 

زندگی کی کوئی کتاب نہیں

زندگی خود کتاب ہے اے دوست!

 

جس کو حاصل ثبات قدمی ہے

بس وہی کامیاب ہے اے دوست!

 

سچ تو یہ ہے سحرؔ! کہ بس دنیا

عالمِ احتساب ہے اے دوست!

٭٭٭

 

 

 

 

 

زیست میں ایسا کوئی وقت بھی آیا ہو گا

خواب ہر ایک نے پلکوں پہ سجایا ہو گا

 

ہر طرف ہے یہاں فردوس بہ داماں منظر

کوئی جنت سے اتر کر یہاں آیا ہو گا

 

بیر سایوں سے کہاں ہوتی ہے انسانوں کو

’’آندھیو! تم نے درختوں کو گرایا ہو گا‘‘

 

وہ تو پتھر تھے پگھل کیسے گئے کیا معلوم؟

دل کے قریے میں کوئی چپکے سے آیا ہو گا

 

زندگی میں کوئی کھٹکا نہ رہا ہو گا اسے

راستا جس نے بھی لوگوں کو دکھایا ہو گا

 

کس میں جرأت ہے ترے سامنے گویائی کی

کوئی کم ظرف تری بزم میں آیا ہو گا

 

رنج و غم کو کسی دشمن سے نہ منسوب کرو

تم نے یہ اپنے ہی ہاتھوں سے کمایا ہو گا

 

وقت کے ساتھ بدل جانا سحرؔ! ٹھیک نہیں

ورنہ اپنا بھی کسی روز پرایا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندہ رہوں کہ جان پہ میری بنی رہے

اے دل نواز! تجھ سے مری دوستی رہے

 

جسموں پہ ہے تمھارے لباسِ ستم گری

اس پر بھی آرزو ہے کہ عزت بنی رہے

 

مہنگائیوںسے رہتا ہے دن رات سابقہ

اب آپ ہی بتائیں کہاں آدمی رہے

 

کچھ اس طرح سے دل کی یہ محفل سجائیے

تاریکیوں میں چاروں طرف روشنی رہے

 

جیتا ہے کون عیش و مسرت کی زندگی

ہو دل پسند کوئی تو پھر کیا کمی رہے

 

وہ ہم سے بدگمان ہیں ہم ان سے بدگمان

ایسے میں خوش گوار کہاں زندگی رہے

 

سن کر کسی زباں سے محبت کا تذکرہ

محفل میں کافی دیر سحرؔ! ہم دکھی رہے

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی کو جو سکوں کل تھا بیابانوں میں

وہ سکوں اب نہیں حاصل ہے گلستانوں میں

 

قوم و ملت کے مسائل پہ نظر کس کی ہے

سب ہی مد ہوش نظر آتے ہیں میخانوں میں

 

غیر کی عزت و ناموس جسے پیاری ہو

حملہ آور نہیں ہوتا وہ حرم خانوں میں

 

اشرفِ خلق کے القاب تو حاصل ہیں مگر

اب شرافت کہاں باقی رہی انسانوں میں

 

بھوک کے زور سے مر جاتی ہے اولادِ غریب

اب تو ایثار کا جذبہ نہیں انسانوں میں

 

اس سے اچھا ہے کہ جنگل میں بسیرا کر لیں

جان محفوظ نہیں رہ کے بھی انسانوں میں

 

اس کو توحید کی لذت کا نہ ہو گا احساس

سر جھکاتا ہو جو ہر روز صنم خانوں میں

 

زندگی کے بھلا حل ہوں گے مسائل کیسے

ہم نے قرآں کو سجا رکھا ہے جزدانوں میں

 

غور کیا کرتے حقیقت پہ ہماری وہ سحرؔ!

لوگ کھوئے ہوئے بیٹھے رہے افسانوں میں                                    ٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی یہ ہے کہ وجہِ زندگی بن جائیے

رات کے ماحول میں اک روشنی بن جائیے

 

بے جھجک لکھتا رہوں میں جس میں رازِ زندگی

آپ میرے حق میں ایسی ڈائری بن جائیے

 

خوش رہے گا آپ سے بھی یہ جہاں بس شرط ہے

جو بھی چاہت ہو جہاں کی بس وہی بن جائیے

 

آپ سے چھٹ کر تو میری زندگی کچھ بھی نہیں

آپ ہی میری مکمل زندگی بن جائیے

 

میرے حق میں آپ کا ہر فیصلہ منظور ہے

آپ تو بس میرے حق میں منصفی بن جائیے

 

شرپسندوں کے مقدر میں تو بس شر ہے سدا

آپ تو اچھا بھلا اک آدمی بن جائیے

 

اپنے ہاتھوں میں ہے اپنی زندگی میرے عزیز!

جنتی بن جائیےیا دوزخی بن جائیے

 

در بہ در پھرنے بھٹکنے سے نہیں کچھ فائدہ

اے سحر محمود! اب تو مذہبی بن جائیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ تو نہ کہہ سکوں گا کہ تجھ سا نہیں کوئی

لیکن مری نگاہ میں جچتا نہیں کوئی

 

نکلے تمھارے سامنے ہر خارِ آرزو

اس درد کا تو اور مداوا نہیں کوئی

 

مرضی ہے اس کی یاد رکھے یا کہ بھول جائے

دل پر کسی کا زور تو چلتا نہیں کوئی

 

ان کا ہی نام وردِ زباں رہتا ہے سدا

اس سے تو بڑھ کے اور سہارا نہیں کوئی

 

جاں دینے ہی سے مسئلے ہو جاتے حل اگر

بے وجہ زہر زیست کا پیتا نہیں کوئی

 

ہو جستجو تو کیا نہیں ملتا ہے اے سحرؔ!

لیکنیہاں کسی کو پرکھتا نہیں کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب کسی سے معاملہ کیجے

ہے مناسب کہ لکھ لیا کیجے

 

لغزشوں کا گمان رہتا ہے

گفتگو کم سے کم کیا کیجے

 

فیصلے تجربے سے ہوتے ہیں

کون فیصل ہے فیصلہ کیجے

 

زندگی ہو گی خوش گوار بہت

دل کا دروازہ اور وا کیجے

 

دشمنی دوستی سے ہوتی ہے

دوستی سوچ کر کیا کیجے

 

داغِ رسوائی مٹ سکا ہے کہاں ؟

خود کو کتنا بھی پارسا کیجے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

قطعات و متفرقات

 

 

کہیں بھی پھول کھلا یا کوئی کلی چٹخی

کسی کے دامنِ ہستی کی وہ بنے زینت

رکھے ہیں کس نے مرے گھر میں مسکرا کے قدم

خدا کرے کہ مہکتی رہے مری قسمت

٭٭

 

 

 

پاسِ تہذیبِ وفا کے سانچے میں ڈھلتے رہے

عمر بھر یوں ہی جگر کی آگ میں جلتے رہے

خار زارِ راہ کچھ ہمت نہ پسپا کر سکے

آبلہ پائی میں اپنی راہ ہم چلتے رہے

٭٭

 

خوشی و غم کے سوا اور زندگی کیا ہے

اگر نہ غم ہو تو پھر لذتِ خوشی کیا ہے

نہیں ہے کوئی جو مقصد تو زندگی کیا ہے

اگر خلوص نہیں لطفِ بندگی کیا ہے

٭٭

 

 

 

 

 

دیوانوں ہی کے پیار کا یہ احترام ہے

اک مقبرے کو تاج محل نام دے دیا

ان کو جو یاد کر کے کچھ الفاظ لکھ دیے

لوگوں نے بس اسی کو غزل نام دے دیا

٭٭

 

 

حیات جذبۂ وارفتگی نہ چھوڑے گی

ہم ایسے لوگوں کو ہرگز خودی نہ چھوڑے گی

اثر ہے سوزِ محبت کا اے سحر! جب تک

یہ بات طے ہے کہ دیوانگی نہ چھوڑے گی

٭٭

 

 

 

اس سے امید کیا بھلائی کی

عمر بھر جس نے بے وفائی کی

خود نمائی مزاج ہے جس کا

بات کرتا ہے پارسائی کی

٭٭

 

 

 

 

 

 

میں تو بس پیار میں کچھ بول دیا کرتا ہوں

آپ ہر بات کو الزام سمجھ لیتے ہیں

٭٭

اس دور میں عورت کے پردے پہ بھی حیرت ہے

سچ کہیے تو برقعے کو برقعے کی ضرورت ہے

٭٭

بس ایک تو ہے جسے کچھ خبر نہیں ورنہ

تمام شہر سمجھتا ہے تیرا بسمل ہوں

٭٭

خبر کیسے ہو جذبۂ دل کی ان کو

ہمیں یاد جو صبح و شام آ رہے ہیں

٭٭

عصمتیں تار تار ہوتی ہیں

کیا اسی واسطے جوانی ہے

٭٭

حذر! اے یاس و محرومی یہاں پر کام کیا تیرا

دلِ مومن ہے یہ ایمان کی جلوہ نمائی ہے

٭٭

وہ اجنبی تھا مرے واسطے تو اچھا تھا

ہوئی ہے جب سے شناسائی بے قراری ہے

٭٭

میں اپنے بارے میں جب کوئی بات لکھتا ہوں

زمانہ کہتا ہے یہ داستان میری ہے

٭٭

زمانے والے موسم کو عبث الزام دیتے ہیں

محبت میں کوئی موسم کبھی حائل نہیں ہوتا

٭٭

جذبۂ صدق بیاں جرأتِ اظہار نہیں

زندگانی کا یہاں اب کوئی معیار نہیں

٭٭

دل میں کیسی ہے خلش، کون سا غم لاحق ہے

لب پہ اصرار نہیں ، شوخیِ گفتار نہیں

٭٭

بات کرتے ہیں سبھی امن و اماں کی لیکن

ساتھ چلنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں

٭٭

نشاں بھی ڈھونڈنے پر اب نہیں ملتا وفاؤں کا

جدھر دیکھو ادھر چرچا ہے بس چرچا جفاؤں کا

 

ہر اک بندہ ہے طالب ایک دوجے سے وفاؤں کا

تو آخر ختم کیسے سلسلہ ہو یہ جفاؤں کا؟

 

ہم اپنا زاویہ تبدیل کر لیں سوچنے کا جو

تو پھر ہر مسئلہ حل ہے وفاؤں کا جفاؤں کا

٭٭٭

تشکر: شاعر، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب داؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل