FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

جادۂ فکر

 

 

 

               شبیر ناقدؔ

 

 

 

 

 

 

 

تو جس سے بھی کرے اظہارِ اُلفت جس قدر ناداں

وہی بے درد ہوتا ہے وہی مغرور ہوتا ہے

 

مری خلوت مرے خوابوں میں آیا کر سدا ناقدؔ

ترے آنے سے دل تسکین سے معمور ہوتا ہے

 

(شبیر ناقدؔ)

 

 

 

انتسا ب

 

والد مرحوم کے نام

وہ پیکرِ افکار

ہستی میں تھے جس کی اسلاف کے آثار

وہ بندۂ جواد

گھٹی میں تھی جس کے اخلاص ومحبت

میرے لئے تھاخلد کی چھاؤں

بِن اُس کے لگے زندگی بحران کی مانند

سر پہ مرے وہ شخص تھا آکاش وفا کا

میرے لیے جس شخص نے سکھ چین گنوایا

دکھ درد اُٹھایا

آلام بھی جھیلے

اک ابرِ کرم تھا

یارب یہ دعا ہے کہ ہو اُ س پر تیری رحمت

 

 

 

 

زمانے نے ہے لاکھ ہم کو مٹایا

سو ہر بار مر مر کے ہم جی اٹھے ہیں

 

نہیں سنگ باری ہوئی صرف ناقدؔ

ترے شہر میں پابجولاں چلے ہیں

 

(شبیر ناقدؔ)

 

 

 

 

 

پیش منظر

 

خالقِ کائنات نے بے شمار مخلوقات تخلیق فرمائیں جن میں سے اس کا ایک شاہکار حضرتِ انسان ہے جسے اس نے دماغ  و شعور نگاہ و نطق اور سا معہ و شامہ جیسی شاندار حسیّات سے بہر ور فرما دیا مزید براں اس صانعِ لوح و قلم نے علمِ بیان و علمِ بدیع سے پیکرِ خاکی تواضع فرمائی ہمارے  خیال میں طبع موزوں کا عطا ہونا بھی ایک امرِ خوش نصیبی ہے کہ اس توفیق کلام کے ہوتے ہوئے انسان مؤثر پیرایۂ اظہار پر قدرت رکھتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر ندرت فکر بھی میسر آ جائے تو پاؤ بارہ ہیں۔

ایک شاعر ایک عرصہ کی فکر ی ریاضت کو مرتب و مجتمع کر کے اپنے اہلِ عصر کے سامنے لاتا ہے اور یہ عمل ایک سلسلۂ مراحل کی طرح مربوط بھی ہوتا ہے اور طویل بھی جس میں سخنور کی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار آتی ہیں اور اگر حیاتِ چند روزہ میں اور بعد کے زمانوں میں اسے مقبولیت حاصل ہو جائے تو یہ بھی بڑی بات ہے گویا اس نے اپنی کشید جاں کی قیمت وصول کر لی زیرِ نظر کتاب ’’جادہ فکر‘‘ کے شاعرِ با شعور شبیر ناقدؔ کی یہ چوتھی  لگاتار شعری کاوش ہے ہمارے خیال میں صرف 38 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس قدر فنی سرمایہ بہم پہنچانا ایک بڑا کارنامہ ہے اصحاب نظر نے شہادت دی ہے کہ شبیر ناقدؔ ایک فطری شاعر محسوس ہوتے ہیں جن میں تصنع و تفاخر کا نام و نشان تک نہیں وہ تسلسل سے لکھنے کے قائل ہیں ایک برجستگی و بے ساختگی ان کے ہاں بین السطور محسوس ہوتی ہے وہ لکھتے لکھتے ایسی گہری باتیں کر جاتے ہیں جو دل کو چھو لیتی ہیں۔

ہمارے خیال میں ان کا یہ شعری مجموعہ ایک دلچسپ بیاض ہے جس میں ہر طرح کے مضامین رنگارنگی دکھاتے نظر آتے ہیں وہ شوکتِ الفاظ کے قائل نہیں لیکن چلتے چلتے برحبستہ انداز میں خوبصورت صنائع پیش کر جاتے ہیں ہمیں ان کی باقاعدہ نگاری بہت پسند ہے اگرچہ ان کیفیات کے تحت ہونے والی شاعری ایک سمندر کا سماں رکھتی ہے ظاہر ہے کہ سمندر میں کبھی امواج ہوتی ہیں تو کہیں سکون ہوتا ہے کہیں غواصی کر کے جواہر مہیا کیے جاتے ہیں تو کہیں صدف بھی پائی جاتی ہیں کہیں لذیذ مچھلیاں میسر آتی ہیں تو کہیں بڑی بڑی بحری مخلوقات بھی پائی جاتی ہیں اپنے خیال میں یہی گوناگونی اور بوقلمونی شبیر ناقِدؔ کے وسیع شعری کینوس پر محیط تصاویر کا طرۂ امتیاز ہے۔

لکھنے کو تو اور بھی بہت کچھ شاعر اور اُن کے شعری مجموعے کے حوالے سے لکھا جا سکتا ہے لیکن ہم زیادہ دیر کتاب اور قاری کے درمیان حائل رہنے کے حق میں نہیں ہیں ہمیں مجموعہ کے مطالعہ کے دوران بہت سے اچھے اشعار ملے ہیں جن میں سے چند قارئین کی پیشگی تواضع طبع کے لیے حسنِ انتخاب کا قرینہ نبھاتے ہوئے خوان شعور پر دھرتے ہیں۔

ہے تیری عطا جو خرد کی ہے دولت

کرم ہے ترا تو نے بخشی بصیرت

سخن تو نے بخشا ہے تیرا کرم ہے

تری روز و شب مجھ پہ جاری ہے رحمت

(حمدِ باری تعالیٰ)

بہت مجبور تھا انساں فضائے ظلم و دہشت میں

حقوقِ آدمیت کی حفاظت کے لیے آئے

(نعتِ سرکارِ دو عالم)

جو طوفانوں میں پلتے ہیں

وہ دنیا کو بدلتے ہیں

(زمانہ ساز)

دمِ نزع مجھ پر یہ عقدہ کھلا

مَیں خود بھی تو اپنا کبھی نہ رہا

(دمِ واپسیں )

عجب میری طبیعت ہے

مجھے وہ پیار کرتی ہے

خوشامد میں سمجھتا ہوں

اگر نفرت وہ کرتی ہے

بغاوت میں سمجھتا ہوں

(طُرفہ طبیعت)

زمانہ کب بدلتا ہے؟

فقط قدریں بدلتی ہیں

یہ قدریں کیوں بدلتی ہیں ؟

انہیں ہم خود بدلتے ہیں

(بدلتی اقدار)

اب غزلوں کے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیے:

انا کو کوئی نہ ٹھیس پہنچے

نہ لب پہ حرفِ سوال رکھنا

………

دل و جگر میں وہ جلوہ گر ہے

مرا سدا سے وہ ہمسفر ہے

………

خرد کی حکمرانی ہے

ہوئی رخصت جوانی ہے

………

اگر تونے سمجھا ہے رازِ خودی

جہاں میں ہے ممکن تری سروری

………

عجب روپ دیکھا ہے زلفوں کا ناقدؔ

ہوئے جس پہ اکثر گھٹاؤں کے جھگڑے

………

بپا فتن ہیں جہاں میں جس سے

وہ زر ہے وہ زن ہے وہ زمیں ہے

………

خزاں زدہ ہے نصیب میرا

خفا ہے مجھ سے حبیب میرا

………

سنو اگر پاپ تم سے ہوں گے

دکھائی دے گا خراب چہرہ

………

ابھی سے خاک مت ڈالو

ابھی تو ہم نہائے ہیں

………

امر کر دیا میں نے ناقدؔ غزل کو

بنی فن کی خلعت مری بے لباسی

 

ابوالبیَّان ظہور احمد فاتحؔ

(فاتح منزل)

تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خاں

0332-6066364

 

 

 

 

حمدِ باری تعالیٰ

 

زمیں آسماں سب بنائے ہیں تو نے

عجب رنگ جگ میں دکھائے ہیں تو نے

 

مجھے جن کے باعث ہدایت ملی ہے

وہ احکام مجھ کو بتائے ہیں تو نے

 

مرے پاس جو کچھ ہے تیری عطا ہے

کہ ہر دم مرے ساتھ تیری وفا ہے

 

ہے تیری عطا جو خرد کی ہے دولت

کرم ہے ترا تو نے بخشی بصیرت

 

سخن تو نے بخشا ہے تیرا کرم ہے

تری روز و شب مجھ پہ جاری ہے رحمت

 

تو خالق ہے مالک ہے معبودِ یکتا

تو داتا ہے میں تیرے در کا ہوں منگتا

 

 

 

 

 

نعت سرکارِ دو عالم

 

وہ دنیا میں فروغِ آدمیت کے لیے آئے

وہ نادانوں میں اظہارِ حقیقت کے لیے آئے

 

وہ آئے تاکہ استیصال کر دیں بے حیائی کا

زمانے میں وہ تدریسِ شرافت کے لیے آئے

 

وہ آئے خارزارِ کذب کو نابود کرنے کو

وہ خود صادق تھے ترویجِ صداقت کے لیے آئے

 

جہاں میں عام بیماری تھی شرک و بت پرستی کی

زمانے میں وہ تعلیمِ عبادت کے لیے آئے

 

طرفدارانِ باطل عام تھے ہر سمت دنیا میں

وہ حق کی پاسداری و شہادت کے لیے آئے

 

بہت مجبور تھا انساں فضائے ظلم و دہشت میں

حقوقِ آدمیت کی حفاظت کے لیے آئے

 

کسے سرکارؐ سے پہلے تھا ادراکِ اذاں ناقدؔ

رسولِ پاک تکمیلِ رسالت کے لیے آئے

 

 

 

 

 

مینارِ عظمت

 

حسینؑ اسلام کی بقا ہے

گواہ صحرائے کربلا ہے

 

اسی کا چرچا سدا رہے گا

لبوں پہ حرفِ وفا رہے گا

 

ہے دین باقی اسی کے دم سے

دلوں میں ہے سوز اس کے غم سے

 

حسینؑ نے وہ سبق سکھایا

نہ کوئی مثلِ یزید آیا

 

حسینؑ حرفِ وفا ہے یارو

میں کیا بتاؤں کہ کیا ہے یارو؟

 

 

 

 

 

 

جو رابطے ہیں بحال رکھنا

سدا وفا کا خیال رکھنا

 

مرے مقدر میں غم لکھے ہیں

نہ میرا مَن میں ملال رکھنا

 

انا کو کوئی نہ ٹھیس پہنچے

نہ لب پہ حرفِ سوال رکھنا

 

ہے مختصر سا قیام اپنا

مرے نوشتے سنبھال رکھنا

 

بہت ضروری ہے فکرِ فردا

مگر نگاہوں میں حال رکھنا

 

ہے با کمالوں کا یہ زمانہ

سخن میں ناقدؔ کمال رکھنا

 

 

 

ضرورتوں کے غلام سارے

انہیں سے منسوب کام سارے

 

سبھی کا اُس سے ہے اک تعلق

اُسی سے وابستہ نام سارے

 

کیا ہے اعراض دوستوں نے

ہوئے ہیں جب ختم دام سارے

 

خیالی دنیا سے باہر آؤ

خیال ہوتے ہیں خام سارے

 

ہمارے جتنے بھی تھے مخالف

ہوئے ہیں ناقدؔ وہ رام سارے

 

 

 

 

 

دل و جگر میں وہ جلوہ گر ہے

میرا سدا سے وہ ہم سفر ہے

 

ہے چاروں جانب نگاہ میری

زمانے  والوں سے باخبر ہے

 

ہمارا دل ہے تمھارا مسکن

تمھاری الفت کا اک نگر ہے

 

سخن میں کیسے کریں ریاضت؟

سخن میں  باقی کہاں اثر ہے؟

 

سدا جو وقف ستم ہے ناقدؔ

وہ میرا دل ہے مِرا جگر ہے

 

 

 

 

 

بھلا کیسے بھولو گے میری وفا کو؟

رکھو گے سدا یاد مجھ بے نوا کو

 

مِری جان جتنے مظالم بھی ڈھاؤ

سزا میں نہ سمجھوں تمھاری سزا کو

 

تمہاری نزاکت کا میں قدر داں ہوں

نہ جانے کوئی یوں تمہاری ادا کو

 

جفائیں تمھاری بھی مسرور کن ہیں

وفا کیوں نہ سمجھوں تمھاری جفا کو؟

 

مرا جینا تجھ بن ہے پل پل جہنم

یہ باور کرانا ہے اس دلربا کو

 

محبت کے انجام کو کیسے جانو؟

ابھی تم نے سمجھا نہیں ابتدا کو

 

میں ہوں ایک طرفہ طبیعت کا مالک

نہ جانو گے ہرگز مرے مدّعا کو

 

ہوں دردِ محبت کا مارا ہوا میں

نہ پہنچے گا کوئی مِری انتہا کو

 

بہت وقت ہے کارِ عصیاں میں گزرا

خدارا کرو یاد اب تو خدا کو

 

سخن ہے مرا سادگی سے عبارت

سمجھتے ہیں سب میری طرز ادا کو

 

کرے کیسے خائف مجھے موت ناقدؔ؟

بقا میں سمجھتا ہوں اپنی فنا کو

 

 

 

 

چمن ہے مرا اب خزاؤں کی زد میں

چھپا ہے یہی دکھ مرے خال و خد میں

 

ابھی دور ہیں اپنی منزل سے کیوں ہم؟

ہوا خرچ بے حد ترقی کی مد میں

 

رہی ہے صداقت سے نسبت ہماری

ملے گی ہمیں کامیابی ابد میں

 

کرو کام تم نیکیوں کے ہمیشہ

کریں گے چراغاں عمل ہی لحد میں

 

گناہ تم کو ہر دم پریشاں کریں گے

سکوں کب میسر ہے اعمالِ بد میں ؟

 

کسی کو نہ ناقدؔ کوئی خوف ہو گا

رہے گا جو ہر شخص اپنی ہی حد میں

 

 

 

 

 

قحطِ محبت

 

 

یہ نگری جو ہے کم ظرفوں کی اس نگری سے میرا کیا؟

یہ بستی احمقوں کی ہے سو اس بستی سے میرا کیا؟

 

سکوں قسمت نہیں میری سدا غم ہی  مقدر ہیں

کسی سے کیا مجھے شکوہ یہاں سب لوگ پتھر ہیں ؟

 

جفا کا ہے جہاں خوگر وفاداری سے عاری ہے

لبوں پر گیت کیا مچلیں زباں پر آہ و زاری ہے

 

کوئی ہو مہرباں میرا کوئی  ہو چارہ گر میرا

مرے دکھ سکھ کا ساتھی ہو کوئی ہو ہمسفر میرا

 

کسی نے بھی نہیں بخشی مجھے الفت مجھے قربت

جہاں ہے بے وفا سارا کسی میں بھی نہیں چاہت

 

 

 

 

نغمۂ وجدان

 

ہر چہرے پہ اک رعنائی

رب نے کیا خِلعَت بنائی

 

بات مرے وجدان میں آئی

سب انسان ہیں بھائی بھائی

 

آئی یہ آواز فلک سے

پیار ہے بالا تر ہر شک سے

 

ہر اک نے یہ بات کہی ہے

بخشش کا اک راز یہی ہے

 

اپناؤ اندازِ محبت

ہر دل میں ہو وافر چاہت

 

 

 

 

 

درد آشنا

 

تم کیا جانو درد کی موجیں ؟

تم کیا سمجھو کرب کی ٹیسیں ؟

 

ہجر کی شب کٹتی ایسے

دوزخ میں ہو جیون جیسے

 

بے چینی سکرات ہے یارو

سو سالوں کی رات ہے یارو

 

لمحہ لمحہ دوزخ اپنا

پل پل گویا  برزخ اپنا

 

غم تو ہے اک تپتا لاوا

جو ڈوبا وہ پھر نہیں نکلا

 

 

 

 

وہ کون ہے کیا ہے؟

 

یہ کس نے مجھے دور سے پکارا؟

صدا ناشناسا لگی ہے شناسا

تعلق نہیں ہے مجھے جس سے کوئی

مگر اس کا انداز معصوم سا ہے

مجھے اس میں اک جاذبیت لگی ہے

یہ سنسان راہوں سے کس نے سدا دی

یہ کس نے قلم کو مرے بخش دی ہے

جوانی مگر جاوداں سی جوانی

یقیناً وہی ہے

قلم کی یہ دولت عطا کی ہے جس نے

مری روح اس کی بدولت  تپاں ہے

اسی میں ہی رازِ محبت نہاں ہے

وہی میرا سب کچھ ہے میرا جہاں ہے

اسی میں بہاراں اسی میں خزاں ہے

وہی میری عشرت بھری داستاں ہے

 

 

 

 

 

سوغاتیں

 

خلوص و محبت کے مکتوب لکھنا

رقم کر کے حرفِ وفا بھیج دینا

مرے ساتھ وہ تیری چاہت کی باتیں

مروت کی باتیں  محبت کی باتیں

مجھے یاد ہیں آج تک وہ مِری جاں

بھلانے سے ان کو میں قاصر رہا ہوں

مری زندگی کی ہیں سوغاتیں ساری

ہے اُن کی بدولت حسِیں میرا جیون

انھیں سے ہے پیوستہ سانسوں کی ڈوری

انھیں کے ہی  دم سے مرا فن جواں ہے

انھیں سے ہی مجھ پر کوئی مہرباں ہے

مودَّت کا بخشا انھوں نے جہاں ہے

 

 

 

 

 

محبت کو میں نے اداؤں میں دیکھا

صنم کی انوکھی جفاؤں میں دیکھا

 

زوال اس کا جانا ہے میں نے یقینی

کسی کو جو اُڑتا ہواؤں میں دیکھا

 

بہت مضطرب اہلِ ثروت بھی پائے

سکوں کو نہ دولت کی چھاؤں میں دیکھا

 

زمانے پلٹ آئیں جب تو پکارے

بڑا زور تیری صداؤں میں دیکھا

 

یہاں سُکھ سکوں کا تصور نہیں ہے

دھُواں میں نے ناقدؔ فضاؤں میں دیکھا

 

 

 

 

 

 

غمِ ہجراں ستاتا ہے صنم جب دُور ہوتا ہے

کہ تنہائی میں دل میرا بہت مجبور ہوتا ہے

 

وہ جس نے چھین لیں خوشیاں وہ جس نے ہیں الم بخشے

وہ میرا شیشۂ دل توڑ کر مسرُور ہوتا ہے

 

تو جس سے بھی کرے اظہارِ اُلفت جس قدر ناداں

وہی بے درد ہوتا ہے وہی مغرور ہوتا ہے

 

زمانے میں جو حق کی پاسداری میں معاون ہو

وہی قانون ہوتا ہے وہی دَستور ہوتا ہے

 

مری خلوت مرے خوابوں میں آیا کر سدا ناقدؔ

ترے آنے سے دل تسکین سے معمور ہوتا ہے

 

 

 

 

کوئی بھی ہمسفر نہیں

کوئی بھی چارہ گر نہیں

 

اگر ہے میرا غم تجھے

بتا کیوں آنکھ تر نہیں ؟

 

نہ دیکھ پائے جو تجھے

وہ نور کیا نظر نہیں ؟

 

عمیق جس کی جڑ نہ ہو

وہ پیار کا شجر نہیں

 

وبال پھر ہے زندگی

اگر کوئی ہُنر نہیں

 

سمجھ نہ شاعری اُسے

سخن میں جب اثر نہیں

 

نہ بیٹھ ناقدؔ حزیں

ترا کوئی نگر نہیں

 

 

 

 

میں آرزو کے حصار میں ہوں

تباہیوں کے غبار میں ہوں

 

مجھے تو دم بھر سکوں نہیں ہے

میں بے کلی کے فشار میں  ہوں

 

ہے مجھ پہ طاری جو بے خودی سی

سو مفلسی کے خمار میں ہوں

 

مجھے زمانے کی کیا خبر ہو؟

میں گم تیرے انتظار میں ہوں

 

کوئی بھی ہم دم نہیں ہے میرا

میں بے کسی کے مزار میں ہوں

 

جہاں کوئی ہم نفس نہیں ہے

میں ایسے اجڑے دیار میں ہوں

 

شکیب کیسے نہ ساتھ چھوڑے؟

مصیبتیں جب قطار میں ہوں

 

عطا ہو سب کو خلوص ناقدؔ

قلوب جشنِ بہار میں ہوں

 

 

 

 

 

 

 

ہم آباد من کا نگر کرتے کرتے

تھکے زندگی کا سفر کرتے کرتے

 

اندھیروں میں ہم نے گزارا ہے جیون

ہوئی ختم ہستی سحر کرتے کرتے

 

نہ پائی خوشی کی رفاقت ذرا بھی

کٹی عمر غم میں بسر کرتے کرتے

 

نہ اُس نے سُنی میری فریاد کوئی

فغاں رہ گئی یوں اثر کرتے کرتے

 

ہوئے زندگی سے جو بیزار ناقدؔ

گنوا ڈالا خود کو مفر کرتے کرتے

 

 

 

 

احساسِ کرب

 

 

اپنی ہستی موت سے بدتر

جیون اپنا سارا مضطر

دکھ اپنے حصے میں آئے

سکھ چاہت میں ہوئے پرائے

خوشیوں کی اُمید نہیں ہے

قسمت میں ہی عید نہیں ہے

اب تو مرگ ہے اپنی منزل

دنیا سے بیزار ہوا دل

اب کے اجل کی آس لیے ہوں

ایک یہی احساس لیے ہوں

اک روگی ہے اپنا من بھی

سوز میں جلتا ہے اب تن بھی

کیسے میں اب تم کو پاؤں ؟

تم سے کیسے پیار نبھاؤں ؟

ہم دونوں مجبور ہیں کتنے؟

دل سے دل بھی دور ہیں کتنے؟

پیار وفا کا کال یہاں ہے

سال برا ہر سال یہاں ہے

 

 

 

 

 

جانِ منزل

 

رتجگوں کا مجھے ہمسفر مل گیا

چارہ جو مل گیا چارہ گر مل گیا

 

زندگی کٹ رہی تھی بیابان میں

چین فرحت کا پر کیف گھر مل گیا

 

جس کی برسوں سے مجھ کو تمنا رہی

پیارا اخلاص کا وہ نگر مل گیا

 

دیر تک تیرگی میں بھٹکتا رہا

آخرش میرا نورِ نظر مل گیا

 

جس کو پانے کی خاطر میں کوشاں رہا

اب وہ دل مل گیا وہ جگر مل گیا

 

چاند تاروں میں ڈھونڈا تھا ناقدؔ جسے

مرحبا آج وہ اپنے گھر مل گیا

 

 

 

سوزش

 

سوزاں رہنا کام ہمارا

کام یہ صبح و شام ہمارا

 

روگی من ہے چین سے عاری

ہستی اپنی ہے دکھیاری

 

چین سکوں اب پاس نہیں ہے

راحت کا احساس نہیں ہے

 

مجھ کو دنیا نے غم بخشے

سکھ کے لمحے مجھ سے چھینے

 

کرب میں اپنا جیون ہے اب

اپنا حال اجیرن ہے اب

 

 

 

 

زمانہ ساز

 

جو طوفانوں میں پلتے ہیں

وہ دنیا کو بدلتے ہیں

 

وہ عالم کو جگاتے ہیں

اسی میں چین پاتے ہیں

 

وہ کرتے ہیں جہاں فرحاں

مگر رہتے ہیں خود سوزاں

 

مظالم سے نہیں ڈرتے

سدا حق بات ہیں کرتے

 

کبھی بھی وہ نہیں جھُکتے

سرِ راہ نہیں رُکتے

 

 

 

 

رازِ کُن فَکاں

 

ہے ممکن مری جان ہو جاؤ تم بھی

کسی روز پاگل

یہ بہتر ہے اوروں کی رسوایؤں کا

نہ تم ذکر چھیڑو

کسی فلسفی کا مقولہ سنا ہے

خرد عارضی ہے نہیں یہ دوامی

جو دنیا میں شہرت ترے حسن کی  ہے

یہ تیری صباحت خدا کی عطا ہے

یہی بات سچ ہے جو دنیا نے کی ہے

یہی بات حق ہے جو میں نے کہی ہے

یہاں تو یہ عالم ہے

مری چیز کوئی بھی میری نہیں ہے

اسی کے مماثل

کوئی چیز تیری بھی تیری نہیں ہے

اسی کا فلک ہے اسی کی زمیں ہے

وہی مہرباں ہے وہی دل نشیں ہے

وہی ذات ہے جو دلوں میں نہاں ہے

ازل سے وہی ذات ہی جاوداں ہے

اسی کے تصرف میں سارا جہاں ہے

جو کم فہم ہیں وہ نہ مانیں کہاں ہے؟

زمیں آسماں اس کی مدحت کناں ہے

اسے اپنا رب مانتا ہے زمانہ

سناتا ہے ہر ذرہ اس کا فسانہ

وہ ذاتِ مقدّس کہ ہے ذات باری

یہ خلقت اسی کی ہے ساری کی ساری

جسے چاہیے کامیابی ہماری

بنایا ہے انساں کو اس نے خلیفہ

ہے اس نے یہ دولت قلم کی عطا کی

زمانے میں جس نے بھی اس سے وفا کی

جہاں میں رہا  نام زندہ اسی کا

رہا بن کے ہر دم جو بندہ اسی کا

 

 

 

 

 

جستجو

 

تجھ کو ڈھونڈوں !

شب کی تاریکی میں ڈھونڈوں

تجھ کو ڈھونڈوں !

چاند ستاروں کی محفل میں

سورج کی روشن ٹکیا میں

تیرے ہیں عکّاس یہ سارے

ان سے پھوٹیں تیرے جلوے

عقل میں تو ہے دل میں تو ہے

ارض پہ تو افلاک پہ تو ہے

تیرا پَرتو ہیں نظارے

 

 

 

 

 

ترے ہجر میں ایسے رسوا ہوئے ہیں

فزوں اب ہمارے الم ہو گئے ہیں

 

ہمارا ہی خوں ہے تمھاری رگوں میں

رہے ہم سے تم کو عموماً گلے ہیں

 

زمانے نے ہے لاکھ ہم کو مٹایا

سو ہر بار مر مر کے ہم جی اٹھے ہیں

 

سمجھتے ہیں اہلِ خرد ہم کو پاگل

کہاں عقل والے کہاں منچلے ہیں ؟

 

تھیں غمازِ بیگانگی تیری باتیں

مگر پیار تیرے میں راسخ رہے ہیں

 

مرے خواب سارے ہوئے ریزہ ریزہ

محبت سے اتنے مجھے غم ملے ہیں

 

ہمیشہ کیے میں نے جس پر ہیں احساں

یہ غم سارے اس کے ہی بخشے ہوئے ہیں

 

نہیں سنگ باری ہوئی صرف ناقدؔ

ترے شہر میں پابجولاں چلے ہیں

 

 

 

 

تو نے سمجھا ہی نہیں رازِ حیات

سوچ تیری اس لیے ہے بے ثبات

 

فہم تیری ماورائے صدق ہے

دن کو بھی ناداں سمجھ بیٹھا ہے رات

 

زیست کا گہنا فقط اخلاص ہے

کون سمجھے گا مگر میری یہ بات؟

 

چار سو وحشت کے سائے ہیں محیط

اور لگا رکھی ہے میری غم نے گھات

 

ہر قدم پر ہے نیا دکھ منتظر

اس کو سمجھو تم نہ ہر گز اپنی مات

 

عشق میں ناقدؔ ہوا ہوں بے قرار

کلبۂ کاہش بنی ہے میری ذات

 

 

 

 

 

جگر غم سے سلگتا ہے

یہ جیون زہر لگتا ہے

 

مجھے بے چین رکھتا ہے

جو غم پہلو میں پلتا ہے

 

صداقت کا نشاں ہے یہ

جبیں پر جو چمکتا ہے

 

دکھوں میں شب گزرتی ہے

نیا سورج نکلتا ہے

 

اسی گل نے ہے مرجھانا

چمن میں جو مہکتا ہے

 

جسے میں معتبر سمجھوں

وہی رستہ بدلتا ہے

 

میں مقصد سے ہوں بیگانہ

یہی خدشہ کھٹکتا ہے

 

وہ میرا کر سکے گا کیا؟

سدا جو مجھ سے جلتا ہے

 

اسی کا خوف ہے ہر دم

جو ناقدؔ ساتھ چلتا ہے

 

 

 

 

خرد کی حکمرانی ہے

ہوئی رخصت جوانی ہے

 

بدی کا دور دورہ ہے

قیامت کی نشانی ہے

 

ہیں سب احساس سے عاری

فروغِ بے زبانی ہے

 

تیرے نینوں میں کاجل ہے

مری آنکھوں میں پانی ہے

 

سدا جو غرقِ عصیاں ہے

وہی اُمت بچانی ہے

 

جہاں رویا جسے پڑھ کر

میری چاہت کی بانی ہے

 

ہو جس میں کچھ سخن فہمی

غزل اس کو سنانی ہے

 

کہاں خوشیاں میسر ہیں ؟

سراسر سرگرانی ہے

 

کہیں انصاف بکتا ہے

کہیں رشوت ستانی ہے

 

بتائی بات جو میں نے

کسی نے کیا بتانی ہے؟

 

کوئی سمجھے بھلا کیسے؟

عجب میری کہانی ہے

 

میں آوارہ سا بنجارہ

طبیعت لامکانی ہے

 

جفاؤں کا ہے تو خوگر

تری عادت پرانی ہے

 

مجھے تو نے قلم بخشا

یہ تیری مہربانی ہے

 

مجھے دیدار کی خواہش

تو محوِ لن ترانی ہے

 

قلم میرا نہیں رکتا

سخن میں وہ روانی ہے

 

تجھے سمجھا مسیحا میں

تری ہر بات مانی ہے

 

جفا تو کر مگر ہم نے

وفا کرنے کی ٹھانی ہے

 

ہے یوں مصروف خدمت میں

کہ جیسے نوکرانی ہے

 

سکوں آساں نہیں ناقدؔ

عجب آتش بجانی ہے

 

 

 

 

 

اگر تو نے سمجھا ہے راز خودی

جہاں میں ہے ممکن تری سروری

 

نہ مظلوم خود کو سمجھنا کبھی

کہ جوہر ہے تیرا تری زندگی

 

تو تسخیر کر عالم آب و گل

نہیں مجھ کو بھاتی تری بے بسی

 

اگر دل ترا ہے غنی غم نہ کر

کہ بے معنی ہے پھر تری مفلسی

 

وہ کر ختم جو تجھ میں معیوب ہے

تو کر اچھے اوصاف سے دوستی

 

ہیں تھوڑے بہت ظلمتوں کے یہ دن

رہے گی نہ ناقدؔ سدا تیرگی

 

 

 

سخنِ حقیقی

 

جہاں میں ذرا دیر جو بھی رہا ہے

یہ دیکھا کہ آہیں وہ بھرتا گیا ہے

 

بہائے یہاں اشک لوگوں نے چھم چھم

میسر ہوا چین دنیا میں کم کم

 

جو عبد خدا ہے اسی کی خدائی

گوارا نہیں رب کو اس کی جدائی

 

محبت کا پرچار جو بھی کرے گا

خداوند کا پیار اس سے بڑھے گا

 

رہے گا زمانے کا محبوب بن کر

طواغیت سے جو کرے جنگ تن کر

 

 

 

 

تلازمہ

 

جو سوچوں میں سنوارا ہے

جو لفظوں میں تراشا ہے

 

وہی تیرا تصور ہے

وہی تیرا تہوُّر ہے

 

تخیّل میں سمائی ہے

مصور نے بنائی ہے

 

وہی تصویر تیری ہے

وہی تصویر میری ہے

 

مجھے جس کی ضرورت ہے

وہی تیری عنایت ہے

 

وہ تیری ہی محبت ہے

وہ میری بھی محبت ہے

 

تجھے مجھ سے شکایت ہے

مجھے تجھ سے شکایت ہے

 

شکایت ہے مقدر سے

شکایت ہے ستم گر سے

 

تجھے بھی میری حسرت ہے

مجھے بھی تیری حسرت ہے

 

یہی تو اک حقیقت ہے

یہی تو اک حکایت ہے

 

 

 

 

مریضِ خمار

 

کتنا بد قسمت ہے وہ جو مبتلا نشّے میں ہے؟

مال جو تھا پاس اس کے سب جلا نشّے میں ہے

 

گھر کی کوئی چیز بھی بد بخت نے چھوڑی نہیں

یوں ہوا محتاج اس کے پاس اب کوڑی نہیں

 

ُٓپاس جو کچھ بھی تھا اس کے نذرِ نشہ ہو گیا

پہلے کچھ پانے سے دیوانہ بہت کچھ کھو گیا

 

نشے کے عادی نے یاروں کو بھی یہ تحفہ دیا

جو تھا اس کا دوست اس کی ہی روش اپنا گیا

 

تھام لی ہاتھوں میں سگریٹ چھوڑ کر اپنی کتاب

نسل نو پر ہو رہا ہے آہ نازل کیا عذاب؟

 

اڑ گئے نشے میں جو تھے فیس کے پیسے تمام

ہو گیا برباد ہنستا بستا گھر کیسے تمام؟

 

ہے دعا یا رب دکھا ملت کو سیدھا راستہ

کام جو بھی ہیں غلط اس قوم کو سارے بھُلا

 

 

 

 

تجزیّہ

 

 

مجھے روحِ بے چین بخشی گئی ہے

سکوں مجھ کو آتا نہیں ہے کہیں بھی

زمانے کے تیور ہیں بدلے ہوئے سے

مجھے اس نے بخشی ہے حسرت کی دولت

یہاں کچھ بھی پُر لطف پایا نہیں ہے

گراں اب ہیں لمحات برسوں کی صورت

مری آنکھ سے اشک جاری ہیں پیہم

میں اب اس نتیجے پہ پہنچا ہوں ناقدؔ

سدا ملتی دنیا میں فرحت نہیں ہے

کسی کو بھی حاصل مسرت نہیں ہے

کسی کو کسی سے محبت نہیں ہے

کسی من میں مطلق مروت نہیں ہے

کسی میں بھی ذوقِ اخوت نہیں ہے

بشر کی یہاں قدر و قیمت نہیں ہے

کسی کو برائی سے نفرت نہیں ہے

گناہوں سے بچنے کی عادت نہیں ہے

کسی کو فرائض سے اُلفت نہیں ہے

مساوات شرم و شرافت نہیں ہے

 

 

 

 

نظر دُور تک نظاروں سے آگے

کہ ہے میری منزل ستاروں سے آگے

 

فراواں مرے پاس غم ہو گئے ہیں

سو میں دیکھتا ہوں بہاروں سے آگے

 

اُسی موج سے دشت سیراب ہو گا

بڑھے گی جو اپنے کناروں سے آگے

 

کسی ایک سے مجھ کو الفت نہیں ہے

مرا دائرہ ہے ہزاروں سے آگے

 

سہارے یہ سب عارضی سے ہیں ناقدؔ

سہارا ہے اک ان سہاروں سے آگے

 

 

 

 

 

ہوا تیری چاہت میں میں ایسا رُسوا

زمانے کے ہر سکھ سکوں کو ہوں ترسا

 

مرے نام سے ہے جڑا نام تیرا

ہوا میری شہرت سے بھی تیرا چرچا

 

مسائل تو ہیں میرے سر پر فراواں

مگر  حال تم نے کبھی بھی نہ پوچھا

 

کہاں کی محبت کہاں کے ہیں وعدے؟

نہ تو میرا مِتوا، نہ میں تیرا مِتوا

 

وفا اس سے کی ہے محبت بھی کی ہے

ستم یہ ہے ناقدؔ نہیں اُس نے چاہا

 

 

 

 

مری کر رہی ہے خرد پاسداری

ہے ویسے تو دشمن یہ مخلوق ساری

 

ملی بھوک افلاس ورثے میں مجھ کو

سدا تیری قائم رہی تاجداری

 

کہا مجھ کو شیطاں نے یہ کان میں ہے

تِرے چاروں جانب ہیں میرے حواری

 

گوارا نہیں ہے ذرا بھی تکبّر

مجھے راس آئی فقط انکساری

 

یہی ایک خواہش یہی ایک مقصد

جہاں میں ہمیشہ کروں  خاکساری

 

خزاں سے اگرچہ رفاقت رہی ہے

مگر میرے سینے میں دل ہے بہاری

 

میرے یار مخلص ہیں ہم چاہے جتنے

نہیں سنتا کوئی ہماری تمہاری

 

جو ناقدؔ رہے گا پریشان و مُضطر

کرے گا بھلا کون پھر غمگساری؟

 

 

 

 

ہمارا ہے یہ المیہ دکھوں میں آنکھ کھولی ہے

غموں کے ہی سمندر میں ہماری ذات ڈوبی ہے

 

اسے عادت ہے شوخی کی شرارت بھی وہ کرتی ہے

ستم گر ہے وہ اس درجہ ستم کر کے بھی ہنستی ہے

 

جفا کر کے بھی دل میں وہ مرے دن رات بستی ہے

بہت ہے اس میں عیاری مگر صورت سے بھولی ہے

 

بھلاؤں کس طرح اس کو مرے من میں وہ رہتی ہے؟

صباحت کی پری ہے وہ مگر قامت میں چھوٹی ہے

 

مجھے تو نے رُلایا ہے مجھے پاگل بنایا ہے

نہیں کچھ دوش قسمت کا تمھاری ہی یہ مستی ہے

 

مرا چولہا نہیں جلتا مرے بچے ہیں فاقے سے

ہے گھر میں رقص غربت کا نہ سالن ہے نہ روٹی ہے

 

کوئی شکوہ نہیں لب پر میں ہوں تقدیر سے راضی

مری قسمت نہیں خوشیاں مرے مولا کی مرضی ہے

 

مرا ارمان ہے ناقدؔ مری تو جان ہے ناقدؔ

یہ اس کی بات بھاتی ہے خبر بھی ہے وہ جھوٹی ہے

 

 

 

 

 

سارے بندھن توڑ کے آ جا

مجھ سے پیت کی ریت نبھا جا

 

خوشیوں سے سر شار ہو من بھی

کوئی ایسا گیت سنا جا

 

تیرے پیار کو ہر پل ترسیں

مجھ کو اپنا میت بنا جا

 

دان مجھے کر قربت اپنی

میرا روٹھا من پرچا جا

 

غم کی ظلمت پاس نہ آئے

کوئی ایسی جوت جگا جا

 

من دھرتی ہے بے حد پیاسی

آکے اس کی پیاس بجھا جا

 

برسوں سے بے چین ہیں ناقدؔ

پل دو پل کو دل بہلا جا

 

 

 

 

تیری بدولت

 

مجھے خوف سود و زیاں کا نہیں ہے

یہاں کا نہیں ہے وہاں کا نہیں ہے

 

سو ہر غم سے اب کے رفاقت ہے میری

خوشی سے بھی وابستہ الفت ہے میری

 

مصائب و آلام سے ماورا ہوں

مسرت و راحت سے بھی آشنا ہوں

 

سکوں مجھ کو بخشا تری دوستی نے

فراواں کیے سُکھ تری عاشقی نے

 

ترے قرب سے سُکھ جہاں کا ملا ہے

مری فِکر کی تجھ سے ہی ابتدا ہے

 

 

 

 

بہروپیا

 

اس کو ایسا روگ ملا ہے

جیون بھر کا سوگ ملا ہے

 

کوئی اس کو سمجھے سادھو

کوئی جانے اس کو مادھو

 

خود سے یہ انجان ہوا ہے

ہر غم کی پہچان ہوا ہے

 

یہ جوگی ہے بنجارہ ہے

بن بینائی آوارہ ہے

 

گلی گلی کی خاک یہ چھانے

سارے جگ کو پاگل جانے

 

 

 

 

 

حُسنِ ہمسفر

 

مسافر حسیں ہے سفر بھی حسیں ہے

مرے سامنے بیٹھی اک مہ جبیں ہے

 

عیاں مجھ پہ اس کی صباحت ہوئی ہے

مگر دیکھنے میں وہ پردہ نشیں ہے

 

زمانے کی نظروں سے اوجھل ہے لیکن

وہ اک نازنیں ہے بہت دل نشیں ہے

 

میں کیا نام دوں اب صباحت کو اس کی؟

وہ میرے لیے اک گلِ یاسمیں ہے

 

کسی سمت میری نظر اٹھ نہ پائے

نظر میں مِری وہ رُخِ آتشیں ہے

 

نزاکت نفاست سبھی کچھ قیامت

ہیں ریشم سی زلفیں بدن مر مریں ہے

 

کرو بند ناقدؔ مری جان لکھنا

سبھی کچھ ہے موجود کیا کچھ نہیں ہے؟

 

 

 

 

سوکن

 

ترا میرا مقسوم تو مشترک ہے

بڑھاؤ نہ یوں شاخسانہ انا کا

کہ جیون ہمارا تو ہے چار دن کا

گزر جائے سارا خوشی ہی خوشی میں

فراواں محبت رہے زندگی میں

ضروری ہے جھگڑوں سے نفرت بغاوت

یہ ضد چھوڑ دو چھوڑ دو یہ حماقت

کہ اس کشمکش میں ہے پیہم تباہی

گھروں کو بھی سنسان اس نے کیا ہے

سماں اپنے گھر کا بھی دوزخ ہوا ہے

سو اس بے کلی نے ہمیں کیا دیا ہے؟

 

 

 

آج کی عورت

 

چلی بے حیائی کے رستے پہ ایسی

نہیں پاس کچھ اس کو شرم و حیا کا

بخار اس کو فیشن کا بھی چڑھ گیا ہے

ہے گھیرے ہوئے جنس کا سیل اس کو

نہیں فکر اس کو ثواب و گناہ کی

ہو جیسے کوئی رخشِ سرکش روانہ

محالات میں ہے اسے روک لینا

دعا ہے خدا اس کو بخشے ہدایت

یہ اقدارِ قوم و شریعت کو سمجھے

 

 

 

 

 

یہاں وحشت کے سائے ہیں

غموں کے ابر چھائے ہیں

 

یہ سانسیں قہر لگتی ہیں

ستم دنیا نے ڈھائے ہیں

 

بچھاؤں کیوں نہ میں پلکیں ؟

وہ میرے گھر میں آئے ہیں

 

کریں مسرور جو دل کو

وہ قصّے بھی سنائے ہیں

 

نہ کوئی جو بتا پائے

وہ راز اب کے بتائے ہیں

 

بنیں گے وہ مرے قاتل

جو پہلو میں سُلائے ہیں

 

جو گھر برباد کر دیں گے

وہ مہماں بھی بلائے ہیں

 

ابھی سے خاک مت ڈالو

ابھی تو ہم نہائے ہیں

 

کوئی بھی اب نہیں اپنا

سبھی ناقدؔ پرائے ہیں

 

 

 

 

کب خلقت چین سے سوتی ہے؟

ہر رات بھیانک ہوتی ہے

 

رسوائی قسمت بنتی ہے

جب قوم خلوص کو کھوتی ہے

 

وہ نسل تو ڈوب کے رہتی ہے

جو کشتی آپ ڈبوتی ہے

 

وہ قوم امر ہو جاتی ہے

جو بیج خلوص کا بوتی ہے

 

جب من میلا ہو جاتا ہے

جاں نیر سے اس کو دھوتی ہے

 

میں اس کو دیکھ کے روتا ہوں

وہ مجھ کو دیکھ کے روتی ہے

 

مری یاد میں اب وہ راتوں کو

نیروں کے ہار پروتی ہے

 

مجھے بے حد اچھا لگتا ہے

تری آنکھ میں ناقدؔ موتی ہے

 

 

 

 

 

برسوں سے چاہ تیری

تکتا ہوں راہ تیری

 

مجھ کو ہے رحم آیا

سن لی جو آہ تیری

 

ہر دم کرے پریشان

الفت ہے واہ تیری

 

کیوں زندگی ہوئی ہے

وقفِ گناہ تیری

 

رہ  جائے کاش اُونچی

سب سے کلاہ تیری

 

ہر آن مُستعد ہے

ناقدؔ سپاہ تیری

 

 

 

 

 

مرا کوئی بھی دِل رُبا ہو نہ پایا

کسی سے بھی وعدہ وفا ہو نہ پایا

 

یہاں کوئی چاہت کے لائق نہیں ہے

کسی سے بھی یہ حق ادا ہو نہ پایا

 

زمانے کا ہر کام ہم نے کیا ہے

بتاؤ ہمیں ہم سے کیا ہو نہ پایا؟

 

سدا کی ہے دھرتی کی ہم نے حفاظت

فریضہ یہ ہم سے قضا ہو نہ پایا

 

نشانہ ستم کا بنے ہم ہیں ناقدؔ

ہمیں پیار لیکن عطا ہو نہ پایا

 

 

 

 

 

تیرا جینا گرچہ دو بھر ہو گیا

جسم کے نیزے پہ اپنا سر اٹھا

 

خوب ہے تم نے مری جاں جو کیا

ہو نہیں سکتے مگر تم سے خفا

 

ٹھنڈے دل سے بیٹھ کر سوچو کبھی

کون اب کی بار ہے خود سر ہوا

 

تیرے میرے درمیاں اک فرق ہے

بے وفا سا، تو ہے میں ہوں با وفا

 

کامیابی گر تجھے مطلوب ہے

سر کو اپنے بھی علم اب کے بنا

 

بازیِ دل ہار کے خلوت میں وہ

آج ناقدؔ ہے حزیں بیٹھا ہوا

 

 

 

 

گنجِ حکمت

 

ملے ہیں جو جیون کے کچھ ثانیئے

سو بہتر ہے احکامِ رب مانیئے

 

شب و روز اس کو پکارا کریں

یوں جیون کو اپنے سنوارا کریں

 

مدد مانگیں ہر دم اسی سے ہی ہم

مصائب ہمارے کرے گا وہ کم

 

وہی بھولے بسروں کا غمخوار ہے

نہیں جس کا کوئی مدد گار ہے

 

اسے مانتا ہے یہ سارا جہاں

نشاں جس میں عظمت کے سارے عیاں

 

 

 

 

مادرِ گیتی

 

 

قوم کے ہم جانباز جیالے

دشمن سے نہیں ڈرنے والے

 

دیس ہمارا جان ہماری

اس میں پنہاں آن ہماری

 

دھرتی کا ہر ذرہ پیارا

جو ہے ہماری آنکھ کا تارا

 

اپنے گلشن کے خود مالی

اس کی کرتے ہیں رکھوالی

 

اس کے دم سے جیون اپنا

پورا اس سے ہے ہر سپنا

 

 

 

 

حُسنِ فطرت

 

مجھے تو ثُریّا میں رخشاں ملا

ترے سامنے چاند گہنا گیا

 

اُتر آئی تیرے لیے چاندنی

ہے تیرے حوالے سے یہ روشنی

 

ترے دم سے ارض و سما شاد ہیں

زمانے ترے دم سے آباد ہیں

 

تیرے حُسن سے حُسن شرما گیا

تو جس دم سرِ میکدہ آ گیا

 

تری جب تجلّی عیاں ہو گئی

تو ہر چیز محوِ فغاں ہو گئی

 

 

 

 

ماحول

 

پیڑوں پہ خامشی ہے

پنچھی بھی سو گئے ہیں

 

پچھلا پہر ہے شب کا

اس وقت اک مسافر

 

دل کا دیا جلائے

آشا کی روشنی میں

 

چاہت کی خوشبوؤں میں

تکتا ہے راہ تیری

 

 

 

 

ہائیکو

 

فکر کی وادی میں ہوں

پاس آ سکتا نہیں

ایک پل کو بھی سکوں

 

 

 

 

حیاتِ لا طائل

 

مری زندگی نے کئی بھیس بدلے کئی روپ دھارے

قناعت نہیں کی کسی حال میں بھی

کوئی بھی ادا اس نے اچھی نہ پائی

ہمیشہ رہی ہے یہ بے تاب و مضطر

مسلسل یہ اپنی ہی رو میں رواں ہے

نہیں اس کو معلوم راحت کہاں ہے؟

کہ چوگرد اس کے بھیانک سماں ہے

بہت کم ملے اس کو فرحت کے لمحے

رہی مثل شب تیرگی اس کا مسکن

ہوئی ہے بہ ایں حال یہ اب اجیرن

کوئی اب سکوں کی توقّع نہیں ہے

رہے گی سدا یہ اسی رنگ میں ہی

اسی کشمکش میں اسی جنگ میں ہی

 

 

 

 

 

مری خلوتوں کا مداوا کرو

سو بھولے سے ہی پاس آیا کرو

 

مرا نام جانے گا کیسے جہاں ؟

اگر جانِ جاں تم نہ چرچا  کرو

 

بس اتنی سی ہے التجا آپ سے

مرے حال پر رحم کھایا کرو

 

مرا سب کی خاطر یہ پیغام ہے

کہ اہلِ محبت کی رکشا کرو

 

بہت بے ضرر ہوں مری جان میں

مجھے تم نہ ہر گز ستایا کرو

 

مجھے خوب دنیا نے رسوا کیا

میری جان تم بھی نہ رسوا کرو

 

مری شاعری عشق سے ہے حسیں

سنو تم اسے اور سُنایا کرو

 

ہو تیرا مرا پیار ایسی مثال

جو تڑپوں اگر میں تو تڑپا کرو

 

یہی اہل دنیا کا اب طَور ہے

جو بھولے تمھیں بھول جایا کرو

 

تمہاری محبت کو ترسا ہوں میں

مرے پیار کو تم بھی ترسا کرو

 

یہی کامیابی کا معیار ہے

جو دنیا سنے گیت گایا کرو

 

اذیّت مجھے اس سے ہوتی ہے جاں

سو مجھ سے کبھی تم نہ روٹھا کرو

 

نہیں فرق پڑتا ذرا ہم سخن

جو احوال ناقدؔ کا پوچھا کرو

 

 

 

 

 

مری فکر ہے میرؔ و فانیؔ سے آگے

سماں اور ہے سر گرانی سے آگے

 

ترے پیار میں ہم کو دکھ ہی ملے ہیں

بڑھی ہے وفا مہربانی سے آگے

 

وفاؤں کے بدلے جفائیں ملی ہیں

ہے انجام یہ ہر کہانی سے آگے

 

ہو شب جتنی لمبی سحر ہے یقینی

ہے ساحل سمندر کے پانی سے آگے

 

مری آس تم سے ہے وابستہ ناقدؔ

کرم ہو گا ایذا رسانی سے آگے

 

 

 

 

 

ابھی تک کسی نے لکھا کچھ نہیں ہے

کہا ہے جو میں نے کہا کچھ نہیں ہے

 

مری تھک گئی ہے زباں کہتے کہتے

کہا تم نے میں نے سنا کچھ نہیں ہے

 

مرے ساتھ تو ظلم بے حد ہوئے ہیں

کہا تم نے مجھ سے ہوا کچھ نہیں ہے

 

سدا کی اگرچہ ادب کی ہی خدمت

مگر اس جہاں سے ملا کچھ نہیں ہے

 

مٹاتا رہا ہوں جہاں سے ستم کو

مگر مجھ سے ناقدؔ مٹا کچھ نہیں ہے

 

 

 

 

 

سدا مجھ کو مقروض رکھتی ہے غربت

بنی زندگانی سراسر اذیت

 

نہیں میرے بھاگوں میں خوشیوں کی دولت

بھلا کیسے پاؤں میں اک پل مسرت؟

 

یہاں سکھ سکوں کو ترستی ہے خلقت

لٹیروں کی آئی ہے جب سے حکومت

 

کرپشن مرے دیس میں بڑھ گئی ہے

مرے ملک میں کچھ ہے ایسی قیادت

 

خدا کا دیا پاس سب کچھ ہے ناقدؔ

نہیں ہے مرے پاس صرف ایک راحت

 

 

 

 

ہے تصویرِ غم ہم نے جو بات کی

کہانی ہے اپنی غمِ ذات کی

 

شب وصل نعمت ہے جنت مثال

خوشی یاد ہے مجھ کو اس رات کی

 

ترے ہجر میں اشک جاری ہوئے

مثالی سی نیروں نے برسات کی

 

تجھے میں نے کھو کے بھی کھویا نہیں

نہیں یہ کہانی مری مات کی

 

سدا غم ہی تخلیق میں نے کیے

ہے غایت یہی غم کے بہتات کی

 

سماعت کو ناقدؔ نہ غمگین کرے

جو ہے داستاں میرے صدمات کی

 

 

 

 

باتونی

 

 

بات پہ بات بناتا جائے

اپنی سب کو سناتا جائے

اپنے فسانے بن سکتا ہے

یہ نہ کسی کی سن سکتا ہے

سب کو یہ حیرت میں ڈالے

کرتا ہے یوں جادو کالے

روپ ہے یوں تو اس کا نقلی

پر کرتا ہے باتیں عقلی

عمل سے بالکل عاری ہے یہ

جھوٹ کی راہ پر جاری ہے یہ

اس کے ہیں انداز نرالے

گمراہی میں سب کو ڈالے

اس کا طور بھی سادھو سا ہے

بیٹھا بالکل مادھو سا ہے

چکنی چیڑی باتیں اس کی

عقل نہ لوٹی اس نے کس کی؟

 

 

 

 

 

اہلِ خانہ کے نام

 

مرا جینا مرنا تمھارے لیئے ہے

مرا ہنسنا رونا تمھارے لیئے ہے

 

تمہارے لیے ہے مری زندگانی

تمہارے ہی دم سے ہے میری جوانی

 

تمہاری بدولت ہے جیون کی فرحت

تمہاری مسرت ہے میری مسرت

 

مجھے اپنے کاوش سے ہے پیار بے حد

کہ بیگم بھی میری ہے دلدار بے حد

 

میں جیون کے غٖم ان کی خاطر سہوں گا

سدا ان کی خوشیوں کی خاطر جیوں گا

 

رہے ان کے سر پر سدا میرا سایہ

کہ یہ میری پونجی ہیں میں ان کا مایہ

 

 

 

 

خراج تحسین

(اُستادِ محترم ابو البیان ظہور احمد فاتحِ کے پس منظر میں )

 

 

حوالہ تو ہے مِری بقا کا

ہے ذکر لازم تِری وفا کا

 

ادب کے تجھ سے چراغ روشن

اٹوٹ ہے تیرا اس سے بندھن

 

سخن میں تیری مثال مشکل

کسی میں ہو یہ کمال مشکل

 

ہے شاعری باکمال تیری

نہیں جہاں میں مثال تیری

 

ہیں تیرے اشعار سب سے نرالے

جنہیں کریں خوش خلوص والے

 

غزل تری ہے ادب خزینہ

شعور کا ہے یہ سب خزینہ

 

ہے نظم بھی تیری گنجِ حکمت

ہے جس میں شامل تری ریاضت

 

 

 

 

اقبالؔ کے حضور

 

ملت پہ ترا فیض ہے احسان ہے اقبالؔ

تو صاحبِ اقبال ہے ذیشان ہے اقبالؔ

 

جو درسِ خودی قوم کو تو دیتا رہا ہے

اس نقطۂ بُرّاق میں قوموں کی بقا ہے

 

اسلام کی تشریح تری فکرِ حسیں ہے

تو عظمتِ اسلاف کی مدحت کا امیں ہے

 

ہے تیرے حسیں خواب کی تعبیر یہ دھرتی

ہے تیری جواں فکر کی تصویر یہ دھرتی

 

ہے ایک درخشدہ ستارہ تیری ہستی

سیلاب زمانہ ہے کنارہ تیری ہستی

 

 

 

 

بیادِ فیضؔ

 

 

ٰٖفیضؔ زندہ ہے میرے گیتوں میں

اِس سے اعراض تو ممکن ہی نہیں

میرے من میں بھی سخن ہیں اس کے

اِس نے گائے ہیں وفا کے نغمے

اِس پہ جتنے بھی ستم گزرے ہیں

عکس ان کا ہے سخن میں اس کے

سوز بھی ساز بھی فن میں اِس کے

 

 

 

 

بے تابی

 

کب سے بے چین ہے مضطرب ہے مری جاں مری آتما؟

جب سے بچھڑا ہے ارواح کے عالمِ ابتدائی سے تو

لوگ لاکھوں گناہوں کے با وصف بے چین ہوتے ہیں

ایک میں ہوں کہ بے تاب رکھتی ہے موہوم سی اک خطا

 

 

 

 

نہ جاہ و منصب نہ شان و شوکت

نہ شکل و صورت نہ مال و دولت

 

سکوں سے عاری مری طبیعت

مری مخالف رہی مشیّت

 

گراں رہے ہیں سدا سے لمحے

مرا مقدّر نہیں ہے راحت

 

یہ تن بدن کرب، کربلا ہے

مجھے اذیت ہوئی ودیعت

 

جہاں یہ بگڑا ہوا ہے سارا

کروں میں کس کس کو اب ملامت؟

 

کبھی بھی تنہا نہیں رہا ہوں

دکھوں کی ہر دم رہی رفاقت

 

تری ادائیں نہیں ہیں دلکش

مجھے تری اب نہیں ضرورت

 

تری جفائیں ہیں اک معمّہ

میں ان کی کیسے کروں وضاحت؟

 

مری معاون مری انا ہے

کرے نہ ناقدؔ کوئی حمایت

 

 

 

 

 

 

مسافر ہوں میں جادۂ کہکشاں کا

مجھے غم نہیں ہے یہاں کا وہاں کا

 

ملی ہے پذیرائی میرے سخن کو

کرشمہ ہے سارا یہ میری زباں کا

 

الم کوئی کیسے پریشاں کرے اب؟

کہ مطلق نہیں دکھ مجھے اس جہاں کا

 

مجھے زخم پہ زخم اس نے دئیے ہیں

یہ سارا فسانہ ہے سالِ رواں کا

 

بڑھوں گا میں چپ چاپ منزل کی جانب

نہیں خوف ناقدؔ  خروشِ سگاں کا

 

 

 

 

 

محبت کے دل ڈھونڈتا ہے بہانے

نئے لکھتا رہتا ہوں میں نِت فسانے

 

زمانے سے تو کوئی شکوہ نہیں ہے

ستاتے ہیں مجھ کو مرے دوستانے

 

مری فکر محدود ہرگز نہ سمجھو

سمائے ہیں میری نظر میں زمانے

 

نہیں ایسی باتوں سے اب جی بہلتا

سناؤ نہ بے شک مجھے گیت گانے

 

رہے جو وفاؤں کے خوگر ہمیشہ

نہیں دوست ناقدؔ رہے وہ پرانے

 

 

 

 

 

تجھ بن کتنے درد سہے ہیں ؟

پل پل چھم چھم نیر بہے ہیں

 

آگ کا دریا پار کیا ہے

میت کے پھر بھی میت رہے ہیں

 

تیرے نام کا ورد ہیں سارے

ہجر میں جو بھی شعر کہے ہیں

 

کب ہیں تیری یاد سے غافل؟

وابستہ ہر سانس رہے ہیں

 

ہم ناقدؔ اخلاص کے بندے

چاہت میں نیلام ہوئے ہیں

 

 

 

 

جو کوئی آئے خوشی سے آئے درِ محبت کھلا ہوا ہے

کسی سے نفرت نہیں ہے دل میں وہ پیار ہم کو عطا ہوا ہے

 

گزارا آوارگی میں جیون سو ہم حقیقت سمجھ نہ پائے

گلہ فقط ہم کو بس یہی ہے نہ ایک وعدہ وفا ہوا ہے

 

بنے گا کیسے مرا مسیحا جفاؤں کا جو ہوا ہے خوگر؟

کرے گا کیسے وہ خیر خواہی جو دشمنوں سے ملا ہوا ہے ؟

 

ہمارے ہونٹوں پہ ہے تبسّم زباں شکایت سے بھی ہے عاری

تری جدائی کا ایک غم بھی ہمارے دل میں چھپا ہوا ہے

 

نہیں ہے کوئی ہمارا مونس نہ ہے کوئی غمگسار اپنا

کسی نے ناقدؔ نہ پیار سمجھا نہ حق وفا کا ادا ہوا ہے

 

 

 

 

یاد صنم کی

 

 

رات کو اکثر یاد میں تیری نیند نہ آئے

اس عالم میں میں نے خون کے دیپ جلائے

 

جانِ تمنّا تو نے دل کا چین چرایا

جان پہ اپنی کھیل کے میں نے تجھ کو پایا

 

تیرے دم سے قائم و دائم میری راحت

تیرے ساتھ ہی وابستہ ہے میری عشرت

 

جاری ہے بس ہر دم تیرا ذکر زباں پر

لہراتا ہے تیرا پرچم کشورِ جاں پر

 

لکھتا رہتا ہوں میں تیرے ہی افسانے

تو موجود نہ ہو تو شہر بھی ویرانے

 

جذبۂ اُلفت ناقدؔ یوں ہی قائم ہو

من مندر میں پیار سجن کا دائم ہو

 

 

 

 

 

حاصلِ فکر

 

عطا تجھ کو کیسی وجاہت ہوئی؟

کہ ہر دل میں تیری ہی چاہت ہوئی

 

میں کچھ بھی مگر سوچ پاتا نہیں

سمجھ میں مری کچھ بھی آتا نہیں

 

تری ذات عشرت کا اک رنگ ہے

ترا حسن فطرت کا اک رنگ ہے

 

ترے حُسن میں شوخیاں ہیں کئی

مرے دل نے یہ بات مجھ سے کہی

 

تو اک حسنِ فطرت کا شہکار ہے

مری جان امرت تِرا پیار ہے

 

 

 

 

 

ٹیپو سلطان

 

تاریخ کے صفحات میں ٹیپو وہ جواں ہے

میسور ابھی اس کی جلالت کا نشاں ہے

 

در اصل ہے اک حوصلہ و عزم کا شاہکار

جس  کے لئے ملت ابھی مصروف فُغاں ہے

 

وہ اہل حرم دیر بھی ہے جس کا مداح خواں

انداز سے حیدر کی بسالت بھی عیاں ہے

 

جاں دے کے کیا ہند میں اسلام کو تازہ

وہ جس کی رواداری بھی توحید فشاں ہے

 

یوں ملتِ خوابیدہ کی تقدیر سنواری

فرمایا اٹھو غافلو اب وقتِ اذاں ہے

 

 

 

 

روح و بدن

 

عجب ہے روح و بدن کا بندھن

جسم تو چاہے مادی لذت

چاہے نفس کی ہر آسائش

زن زر زیور اور زمینیں

ساری چیزیں اِس کو پیاری

ان سے ہو اس کی دلداری

ان کی خاطر ہر عیّاری

روح کو علیّین کی خواہش

پکے سچے دین کی خواہش

دنیا میں بے تاب رہے یہ

روح کی دولت خیر سخاوت

نخوت و کبر سے ہے بیگانی

اس کا ہے انداز یگانہ

دھن دولت کو ٹھوکر مارے

ہیچ یہ دنیا کو گردانے

نفس کی بالکل بات نہ مانے

اپنے رب کی حمد سنائے

وقت کا مصرف وِرد وظیفہ

اس میں ہے سر شار یہ ہر دم

 

 

 

 

دمِ واپسیں

 

نہ جی بھر کے یاروں سے باتیں ہوئیں

مجھے کتنی جلدی قضا لے گئی؟

یہ جیون تو کچھ بھی نہیں دوستو

ادھورے سے خوابوں کا یہ نام ہے

جسے لوگ دیتے ہیں نیکی کا نام

حقیقت میں اچھّا یہی کام ہے

یہی وقتِ مشکل ہوا منکشف

زمانے میں کوئی کسی کا نہیں

دمِ نزع مجھ پر یہ عقیدہ کھُلا

میں خود بھی تو اپنا کبھی نہ رہا

اگر زندگی کرتا اپنے لئے

مرے پاس کچھ ہوتے اچھّے عمل

مگر یہ بھی ہے میری خوش قسمتی

کہ آخر میں حق کی شہادت بھی دی

بڑھے پھر قدم سوئے عقبی مِرے

جو کہنے تھے وہ راز سب کہہ دیئے

 

 

 

 

ترے نام ہیں میرے گیت بھی

مری ہار بھی مری جیت بھی

 

یہ میری وفا کا قصور ہے

ہیں خفا خفا میرے میت بھی

 

مِرے دم قدم سے ہے دوستی

مِرے دم قدم سے ہے پیت بھی

 

مِرا فن وقارِ خلوص ہے

ہے اسی سے پیار کی ریت بھی

 

نہ ذرا خیال رہا مجھے

مری زندگی گئی بیت بھی

 

میں جہاں ہوں ناقدِؔ خستہ تن

ہے وہ بت کدہ بھی مسیت بھی

 

 

 

 

 

مجھے غم دیئے ہیں مرے دل رُبا نے

رلایا سدا مجھ کو میری وفا نے

 

کرم یاد تیرے کروں اب کے کتنے؟

ستم لاکھوں ڈھائے ہیں تیری ادا نے

 

سبب موت کا اور کوئی نہیں تھا

فقط مار ڈالا ہے تیری جفا نے

 

ترے عشوے غمزے بھی قاتل تھے بے حد

کیا مجھ کو دیوانہ تیری حیا نے

 

ترے پاس تو میں نے آنا نہیں تھا

کیا مُلتفت مجھ کو تیری صدا نے

 

زمانہ جسے تھا مٹانے سے قاصر

کیا اس کو نابود حکمِ قضا نے

 

مرا جسم گرمی سے جھُلسا ہوا ہے

حمایت نہ فرمائی میری ہوا نے

 

جلایا نہیں دھوپ نے صرف مجھ کو

دیا ساتھ میرا نہ میری رِدا نے

 

نہیں میری قسمت میں پھولوں کی خوشبو

دیا مجھ کو پیغام بادِ صبا نے

 

کسی فردِ واحد سے کیا ہو شکایت؟

کیا جبر مجھ پر ہے ارض و سما نے

 

کوئی اور تو وصف مجھ میں نہیں ہے

کیا معتبر مجھ کو میری نوا نے

 

رہا ہوں حزیں میں مسلسل جہاں میں

میری کایا پلٹی نہ میری دُعا نے

 

مجھے کرب سانسوں نے بخشا ہے ناقدؔ

پریشاں مجھے کر دیا ہے سزا نے

 

 

 

 

ہوں میں ایک اجڑے ہوئے گھر کا باسی

مقدر ہے میرا سدا کی اُداسی

 

ہے اک راحتِ جاں کی ہر دم تمنا

مرا دل بھی پیاسا نظر بھی ہے پیاسی

 

مجھے میری الفت نے ویراں کیا ہے

انوکھی ہے تیری وفا ناشناسی

 

مصائب نے بے کل کیا مجھ کو ایسا

مسلط خرد پہ ہے اک بد حواسی

 

امر کر دیا میں نے ناقدؔ غزل کو

بنی فن کی خِلعت مری بے لباسی

 

 

 

 

 

مرے تھک گئے ہیں قدم چلتے چلتے

ملے کاش مجھ کو صنم چلتے چلتے

 

نہ پائی خوشی کی رفاقت ذرا بھی

سدا میں نے پائے الم چلتے چلتے

 

سجی تھی مرے ہاں بھی خوشیوں کی محفل

ہوا میرا مقسوم غم چلتے چلتے

 

اسی موڑ پر مجھ کو منزل ملے گی

دل و جاں جہاں ہوں بہم چلتے چلتے

 

مرے حُزن کی انتہا ہو گئی ہے

مرا رُک گیا ہے قلم چلتے چلتے

 

بھروسہ نہیں زندگانی کا ناقدؔ

نکل جائے گا میرا دم چلتے چلتے

 

 

 

 

 

میں نقیبِ میرؔ بجا سہی

مرا نغمہ رنج فزا سہی

 

مرے طور سے ہے گریز کیوں ؟

مجھے کچھ سبب تو بتا سہی!

 

کوئی بات جو ہو شُنیدنی

کوئی بات ایسی سنا سہی

 

مری جان میں ہوں جو بے وفا

تو حضور اہلِ وفا سہی

 

جو ستم ہے ناقدِؔ زار پر

نہیں ناروا یہ روا سہی

 

 

 

 

سُلطانِ دل

 

جب سے سنبھلیں میری سوچیں

ذہن میں ہر دم تیری سوچیں

 

تُجھ کو دم بھر بھول نہ پاؤں

تیرے پیار کے نغمے گاؤں

 

ذہن میں ہر دم تو رقصاں ہے

ہر آہنگ میں تو پنہاں ہے

 

دل دیتا ہے تیری گواہی

تیرے احساں لا متناہی

 

ہر لب پر ہیں تیرے فسانے

ہیں تیرے مشتاق زمانے

 

سب کچھ تیرے پیار میں پایا

تیرے پیار کا نغمہ گایا

 

تو ہے میری فکر میں ہر دم

تو ہے میرے ذکر میں ہر دم

 

 

 

 

باتیں تیری

پیار میں سب کچھ کھویا میں نے

بیج خلوص کا بویا میں نے

 

لیکن اب کچھ پاس نہیں ہے

اس کا بھی احساس نہیں ہے

 

پائی درد کی دولت تجھ سے

کیوں ہو آج شکایت تجھ سے

 

کرب ہے تیرے پیار میں پایا

دکھ میں نے سنسار میں پایا

 

ہر اک جور و ستم میں تو ہے

شامل ہر اک غم میں تو ہے

 

تجھ بن جیون بیت نہ پائے

ہر پل تیرے نغمے گائے

 

جب سے تیری قربت پائی

فُرقت کی کچھ سوچ نہ آئی

 

میں لکھوں گا تیرے فسانے

جن کے ہیں مشتاق زمانے

 

 

حُرّیت

 

حُرّیت ایک جذبہ ہے جو دل میں نہاں ہے

انساں کے لئے اصل میں یہ روحِ رواں ہے

 

قدرت سے عطا پیکرِ خاکی کو ہوا ہے

منعم کی عنایت ہے کہ یہ مجھ میں تپاں ہے

 

میں پوچھتا ہوں زیست کی ظلمات سے اکثر

وہ غزنوی و طارق و ایوبی کہاں ہے

 

دیتی ہیں جواب اس کا مری سوچ کی لہریں

فانی ہے جہاں باقی حقیقت کا نشاں ہے

 

تسلیم ہے اصحابِ خرد کو یہ حقیقت

بے حرّیتِ فکر المناک جہاں ہے

 

 

 

 

 

حُزنِ با مروّت

 

مری زندگی خود کلامی میں گزری

کسی نے تکلم کے قابل نہ سمجھا

مجھے سب نے ٹھکرایا ادنی سمجھ کر

کسی نے بھی قربت کے لائق نہ جانا

دلاسہ دیا میں نے قلبِ حزیں کو

ذرا آہ روکی ذرا اشک پونچھے

کیا غور میں نے جہاں کے چلن پر

جسے میں نے دیکھا معمہ سا پایا

کسی کو بھی مطلق سمجھ میں نہ پایا

ہرا رہ گیا یونہی زخمِ تمنا

ملی انجمن مجھ کو اپنے دُکھوں کی

بھلا کیسے رکھتا خبر دوسروں کی؟

دکھوں نے مرے مجھ کو بخشی مروت

مجھے بس یہی ایک شے تھی ضرورت

کبھی پھر نہ خاطر میں آئی کدورت

 

 

 

 

 

البیلی خواہش

 

نیند آتی نہیں

چین آتا نہیں

کوئی آتا نہیں

کوئی جاتا نہیں

کوئی آتا ہے گر

کوئی بھاتا نہیں

نیند آئے مجھے

چین آئے مجھے

کوئی آئے یہاں

دل لبھائے مِرا

کوئی اپنا تو ہو

کوئی غمخوار ہو

دل نہ لاچار ہو

دل نہ بیزار ہو

دل نہ بیمار ہو

الفتیں بھی بڑھیں

نفرتیں پھر نہ ہوں

کوئی بستی تو ہو

جس میں ساجن ملے

جس میں راحت ملے

جس میں چاہت ملے

غنچۂ دل کھلے

دور ہوں کلفتیں

عام ہوں الفتیں

میں وہاں جا بسوں

 

 

 

 

 

طرفہ طبیعت

 

عجب میری طبیعت ہے

مجھے وہ پیار کرتی ہے

خوشامد میں سمجھتا ہوں

اگر نفرت وہ کرتی ہے

بغاوت میں سمجھتا ہوں

 

 

 

 

 

مِرا اگر یار دل نشیں ہے

تو دل میرا کس لئے حزیں ہے؟

 

جسے میں سمجھا کیا قیامت

وہ تیری ہی چشمِ آتشیں ہے

 

بڑھے ہیں آلام اب جو اتنے

تو حشر کا روز کیا قریں ہے؟

 

بپا فتن ہیں جہاں میں جس سے

وہ زر ہے وہ زن ہے وہ زمیں ہے

 

تو اپنی عظمت سے کیوں ہے غافل؟

یہاں خلافت کا تو امیں ہے

 

سنوارے ناقدؔ وہ کیسے جیون؟

جو کُشتۂ چشمِ سُرمگیں ہے

 

 

 

 

 

خزاں زدہ ہے نصیب میرا

خفا ہے مجھ سے حبیب میرا

 

یہ روگ بخشا ہے جس نے مجھ کو

وہ بے وفا ہے طبیب میرا

 

اسی کو میں نے ہے رام کرنا

ہے مجھ سے نالاں رقیب میرا

 

وہ ساتھ دیتا ہے مشکلوں میں

عجب ہے یارِ غریب میرا

 

کسی سے شکوہ نہیں ہے ناقدؔ

کہ ہے مقدر مُہیب میرا

 

 

 

 

مری روح میں تو نے گھر کیوں بنایا؟

مجھے تو نے آشُفتہ سر کیوں بنایا؟

 

مرے ساتھ کیوں تو نے کی ہے محبت؟

مجھے اپنا نورِ نظر کیوں بنایا

 

یہاں پیار اخلاص بالکل نہیں ہے

بتا اے خدا یہ نگر کیوں بنایا؟

 

رہے جس کے سائے سے محروم خلقت

بتا تو سہی وہ شجر کیوں بنایا؟

 

مفاسد کو پھیلایا جس نے ہمیشہ

اسے میرے مولا بشر کیوں بنایا؟

 

اگر قاتلِ آرزو تھا وہ ناقدؔ

تو پہلے اسے چارہ گر کیوں بنایا؟

 

 

 

 

ناگزیر

 

جاناں مجھ کو تو مل جائے

پھول تمنا کا کھِل جائے

 

تجھ کو پانا ہی جیون ہے

تجھ بن محض اجیرن من ہے

 

میں لازم ملزوم ہو تم ہی

چاہت ہو مقسوم ہو تم ہی

 

تم ہو خوابوں کی شہزادی

تم سے ہے من کی آبادی

 

ہم کب تک یوں دور رہیں گے؟

ملنے کو مجبور رہیں گے

 

 

 

 

چِتاؤنی

 

میں حالات سے جنگ کروں گا

اپنے آپ کو تنگ کروں گا

 

دم لوں گا میں تجھ کو پا کر

رکھوں گا پہلو میں لا کر

 

ہم دونوں جب مل جائیں گے

پھول چمن میں کھل جائیں گے

 

لازم ہے تم پیار کو سمجھو

میرے قول و اقرار کو سمجھو

 

دنیا پیار بغیر ہے دوزخ

جیون بن جاتا ہے برزخ

 

گر ٹھکرایا پیار کو تم نے

میرے قول اقرار کو تم نے

 

ہرگز چین نہ پاؤ گے تم

من کو روگ لگاؤ گے تم

 

 

 

 

 

آشتی

 

آشتی امن کا پیامی ہوں

راہ حق کا معین و حامی ہوں

 

خاتمہ اختلاف کا چاہوں

عدل و انصاف کا بھی رسیا ہوں

 

چار سو ملک میں ہو آبادی

اور دائم رہے یہ آزادی

 

چین بھی ہو قرار بھی دل میں

ہر کسی سے ہو پیار بھی دل میں

 

دشت بھی لالہ زار ہو جائے

عام ہر سو بہار ہو جائے

 

غم سے آزاد ہو جہاں سارا

کوئی بھی ہو نہ درد کا مارا

 

 

 

 

 

تَشنہ و گُرسنہ

 

میں بھوکا ہوں

میں پیاسا ہوں

من میرا صدیوں سے بھوکا

ہونٹ مرے جنموں سے پیاسے

کوئی آئے

بھوک مٹائے

پیاس بجھائے

من کو یوں سیراب وہ کر دے

راحت میری قسمت کر دے

اپنی جان نچھاور کر دے

اپنی آن نچھاور کر دے

 

 

 

 

 

شومیِ قسمت

 

اکیلے ہی گزرے میری زندگانی

نہ پایا کوئی ہمسفر میں نے اپنا

 

رہا کوستا اپنی ہی بے کسی کو

مرا گرچہ الفت کا جذبہ جواں تھا

 

مگر اہلِ دنیا میں معدوم تھا یہ

انھیں راہ الفت پہ لاتا رہا میں

 

انہیں کے لئے گیت گاتا رہا میں

محبت کا بربط بجاتا رہا میں

 

بہت تھے جہاں میں محبت کے دشمن

بہ ایں حال میں کچھ بھی کرنے نہ پایا

 

ہوا غصب میری محبت کا مقصد

بنی پھر ہزیمت ہی میرا مقدر

 

 

 

 

 

تیرے چرچے دشت و بن قریہ بہ قریہ کو بہ کو

تو ہی میرا ہے مسیحا تو ہی میرا چارہ جو

 

تجھ کو پا کر خود کو کھوؤں یوں ملے اک بے خودی

میرے من میں موجزن ہے ایک ایسی آرزو

 

رند بھی مستی میں ہیں اور جام بھی گردش میں ہے

ہے مگر میرا تقاضا لائے کوئی اک سبو

 

تیری ذلت میری ذلت تیری عظمت میری عظمت

تو ہی میرا عشق ہے اور تو ہی میری آبرو

 

تنگ دنیا نے کیا ہے اب ہمارا قافیہ

کیا کریں گے جی کے ناقدؔ ہیں مصائب چار سو؟

 

 

 

 

 

ترا ذکر ہوتا رہے گا زباں سے

مہک تیری آتی رہے گی بیاں سے

 

ہوا زندگی سے میں بیزار یکسر

ملیں نفرتیں جب مجھے اس جہاں سے

 

یہ کہتی ہے دنیا محبت عبث ہے

نہیں فائدہ کوئی کارِ زیاں سے

 

بہت یاد آتے ہو اس وقت ہمدم

اڑیں دو پرندے اگر آشیاں سے

 

گماں گزرا گلشن بھی روتا ہے تجھ بن

ہوا جب گزر دوستی کے نشاں سے

 

ہوئی کار گر کچھ نہ فریاد میری

نہ کچھ بن پڑا نالۂ خونچکاں سے

 

بڑھو یو نہی ناقدؔ سدا سوئے منزل

ڈرو تم نہ ہر گز خروشِ سگاں سے

 

 

 

 

خراج مانگے جہاں یہ مجھ سے جہالتوں کا

مجھے مسلسل ہے سامنا کچھ حماقتوں کا

 

مجھے مسائل کریں پریشان و تنگ اکثر

جو مجھ پہ ہے بھاری بوجھ بے حد کفالتوں کا

 

جو میں نے دیکھی مصیبتیں ہیں اذیتیں ہیں

کیا دھرا ہے یہ سارا میرے ہی دوستوں کا

 

پسند آتے نہیں جو لوگوں کو شعر میرے

قصور اس میں ہے سارا ان کی سماعتوں کا

 

ادب کو میں نے بشوق سمجھا بغور جانا

کلام ناقدؔ پڑھا ہے معروف شاعروں کا

 

 

 

 

 

مری ہمسفر رہی ہے مری مستقل مزاجی

بے شک عیاں ہے اس میں ہستی مری کتابی

 

مجھ کو کرے پریشاں ہر وقت بھوک میری

ہیں ہونٹ میرے تشنہ میری نگاہ پیاسی

 

مجھ کو ستا رہی ہے جو ظلم ڈھا رہی ہے

دنیا نے کیا ہیں سیکھے انداز سامراجی؟

 

ان میں خرد بھی شامل قصے بھی ہیں جنوں کے

میرا سخن عوامی شاعر ہوں انقلابی

 

ہے سنگدل زمانہ ظالم ہیں لوگ بے حد

ہر سمت اجنبیت ہر سو ہے بد حواسی

 

تو با وفا نہیں ہے تو مہرباں نہیں ہے

مانی ہوئی ہے بے شک تیری جفا مذاقی

 

شب کو سکوں نہ پایا دن بھی گراں گزارا

دل کو جلا رہی ہے اب شام کی اداسی

 

چلنا ہے سنگ تیرے رستہ نہیں بدلنا

مطلوب ہے مجھے بس تیری ہی ہمرکابی

 

ہے دہر میں مسلم مانے کوئی نہ جانے

وصفِ عظیم ناقدؔ اپنی وفا شناسی

 

 

 

 

مری قوم کو علم و دانش کی قطعاً ضرورت نہیں ہے

سو میری نظر میں کوئی اس سے بڑھ کر جہالت نہیں ہے

 

انہیں مال و دولت کی خواہش نے رسوا کیا ہے یقیناً

مروّت سے عاری ہوئے ہیں کوئی ان کی عزت نہیں ہے

 

اخوت نہیں ہے نہ کچھ خاص وحدت ہے ان کی صفوں میں

یہ بے حس ہیں ایسے مؤثر کوئی بھی امامت نہیں ہے

 

مری آگہی بے اثر ہو رہی ہے یہ غم ہے مجھے اب

کوئی کیسے سمجھے کسی میں بھی اتنی فراست نہیں ہے؟

 

دیا درس میں نے خلوص و محبت کا صدق و صفا کا

سوا اس کے ناقدؔ کے جیون میں کوئی عبادت نہیں ہے

 

 

 

 

 

یادوں کی ناگن

 

مجھے ڈستی رہتی ہیں یادیں تری اب

سدا یاد رہتی ہیں باتیں تری اب

 

ترے بن ہے سنسان خوشیوں کا آنگن

سو اجڑا ہے تیری بدولت نشیمن

 

یہ جیون مرا اب کے دوزخ ہوا ہے

اذیت میں ہر سانس میں نے لیا ہے

 

مجھے ایک پل چین آتا نہیں ہے

مِرا دل سکوں اب کے پاتا نہیں ہے

 

مجھے بخش دو اب کے قربت کی دولت

میسر مجھے بھی ہو راحت کی دولت

 

 

 

 

قُرب

 

میرے پاس مِرا ساجن ہے

میری چاہت کا گلشن ہے

 

میرا چین قرار اسی میں

میرا جشن بہار اسی میں

 

اور تو کچھ مطلوب نہیں ہے

شئے کوئی محبوب نہیں ہے

 

ہر دم اس کے عشق میں جینا

اس کے پیار کا امرت پینا

 

جو بخشے تسکین جگر کو

کر ڈالے جو مست نگر کو

 

 

 

 

ستم گر سے

 

خون جگر میرا پیتی ہو

میں ہارا ہوں تم جیتی ہو

 

تیروں سے چھلنی ہے سینہ

تم ہو اک بے درد حسینہ

 

تم کو کچھ احساس نہیں ہے

پیار وفا کا پاس نہیں ہے

 

خوشیاں تیری غم اپنے ہیں

سارے درد الم اپنے ہیں

 

تیری دان ہے کرب یہ میرا

جیون سارا درد کا دھارا

 

 

 

 

کشتگانِ شب

 

شب بھر جاگتے رہتے ہیں ہم

سو کر بھی بیدار ہیں ہم

پھرتے رہتے ہیں آوارہ

کھو گیا چین سکون ہمارا

لوگ کہیں ہمیں بنجارے

درد کے مرے

اور دکھیارے

 

 

 

 

نوائے وقت

 

وقت کی آواز سن

وقت کا کچھ ساتھ دے

بے کسوں کے ساتھ رہ

بے کسوں کا ساتھ دے

 

 

 

 

معرکہ

 

کنارے پہ میدان کے میں ہوں بیٹھا

سر معرکہ ہوں قلم کے ذریعے

ادب کی بھی تخلیق پیہم  ہے جاری

مری فوج دشمن سے پیکار میں ہے

نہیں دائرہ جنگ کا  بڑھنے دیتی

اگر جنگ کا دائرہ مجھ تک آیا

نہ پائے گی کاہل سپہ میری مجھ کو

کروں گا میں دشمن کا بڑھ کر صفایا

اسے ماروں گا خود میں زندہ رہوں گا

اگر مر گیا پھر بھی زندہ رہوں گا

 

 

 

 

 

تھک کے چکنا چور ہوئے ہیں

ہم پیدا مزدور ہوئے ہیں

 

من دنیا کو سوز جلائے

ہم بھی کوہِ طور ہوئے ہیں

 

حزن جو اپنا میت ہوا ہے

ہر دکھ میں مذکور ہوئے ہیں

 

تیری دید کو ترسیں نیناں

جب سے تجھ سے دور ہوئے ہیں

 

چھم چھم آنکھ سے آنسو برسے

رو رو کر مجبور ہوئے ہیں

 

نین ہمارے ان کا مسکن

وہ نینوں کا نور ہوئے ہیں

 

ناقدؔ سچ نہ لکھنے دیں گے

یوں ظالم دستور ہوئے ہیں

 

 

 

 

 

وہ وحشت برستی ہے  دیوارو در سے

مجھے خوف آتا ہے اب اپنے گھر سے

 

ترے شہر کا میں گدا گر ہوں ادنیٰ

ملے مجھ کو صدمات تیرے نگر سے

 

سدا جس کی رکشا میں کرتا رہا ہوں

ثمر میں نے پایا نہیں اس شجر سے

 

ثمر سے مجھے کوئی رغبت نہیں ہے

مری ابتدائے خطا تھی ثمر سے

 

بنایا تھا کیا اس لئے ہی نشیمن؟

کہ گردوں سے اس پہ فقط آگ برسے

 

پریشان گزریں گے دن تیرے سارے

صدا میں نے کی ہے سماعت سحر سے

 

مناجات سے مجھ کو رغبت رہی ہے

دعا میری پھر بھی ہے خالی اثر سے

 

مجھے تو کسی سے بھی شکوہ نہیں ہے

شکایت اگر ہے تو نور نظر سے

 

کسی بد نظر کا ہوں میں صید جاناں

خدا دور رکھے تمہیں بد نظر سے

 

ہمیں جس سے مطلوب تھی چارہ سازی

ملے زخم ہم کو اسی چارہ گر سے

 

ترا ہجر اب میری قسمت بنے گا

شب و روز لرزاں ہوں میں اس خبر سے

 

مجھے زندگانی سے رغبت نہیں ہے

سروکار دن رات ہے بس مفر سے

 

عدم اب کے ناقدؔ کو آغوش میں لے

یہ اب تھک چکا ہے مسلسل سفر سے

 

 

 

 

 

مٹا دو مری جاں اناؤں کے جھگڑے

نہ آغاز ہوں پھر سزاؤں کے جھگڑے

 

مرے دل میں کوئی کشا کش نہیں ہے

اگر ہیں تو تیری اداؤں کے جھگڑے

 

نہیں معتدل موسمِ دل بھی اب کے

فراواں ہوئے ہیں ہواؤں کے جھگڑے

 

ریاضت سے بھی چین ملتا نہیں ہے

نہیں ختم ہوتے دعاؤں کے جھگڑے

 

اذیت کی اک راجدھانی ہے من بھی

ہوئے جس پہ اکثر بلاؤں کے جھگڑے

 

فضاؤں میں بارود اڑتا ہے ہر دم

ابھی ہیں بقایا خلاؤں کے جھگڑے

 

عجب روپ دیکھا ہے زلفوں کا ناقدؔ

رہے جس پہ اکثر گھٹاؤں کے جھگڑے

 

 

 

 

محبتوں کا نصاب چہرہ

یہ قُربتوں کا ہے خواب چہرہ

 

ادب میں اک تازگی سی آئی

پڑھا جو تیرا کتاب چہرہ

 

تھا خاص منشور چاہتوں کا

بنا ہے پھِر کیوں عذاب چہرہ؟

 

یہ میری مستی مرا نشہ ہے

ترا حریفِ شراب چہرہ

 

بھلا سکوں گا اسے میں کیسے؟

ہے یاد ہر پل شباب چہرہ

 

تھا عکس جس میں مری وفا کا

ہے مائلِ انقلاب چہرہ

 

نگاہیں کب سے ترس رہی ہیں ؟

دکھاؤ اب تو جناب چہرہ

 

سنو اگر پاپ تم سے ہوں گے

دکھائی دے گا خراب چہرہ

 

جلا نہ ڈالے مرے بدن کو

کہیں ترا آفتاب چہرہ

 

یہ آج کیوں ماند پڑ گیا ہے؟

ترا تو تھا مہتاب چہرہ

 

مہک ہوئی روح میں سرایت

جو دیکھا تیرا گلاب چہرہ

 

جو میں نے دیکھا ہوئے وہ بر ہم

ہزار لایا عذاب چہرہ

 

بڑھی تری دید کی جو خواہش

ہوا ہے زیرِ حجاب چہرہ

 

وہ جس کے دم سے تھیں رونقیں سب

ہوا وہ ناقدؔ سراب چہرہ

 

 

 

 

 

اے دوست کبھی آؤ یادوں کے جھروکے میں

ایسے تو نہ تڑپاؤ یادوں کے جھروکے میں

 

برباد ملوں گا میں نا شاد ملوں گا میں

تم دیکھ اگر پاؤ یادوں کے جھروکے میں

 

ہر وقت پریشاں ہوں جیون سے گریزاں ہوں

اتنا نہ ستم ڈھاؤ یادوں کے جھروکے میں

 

کچھ دان کرو تم بھی احسان کرو تم بھی

سولی پہ نہ لٹکاؤ یادوں کے جھروکے میں

 

ہے پاس اگر میرا احساس اگر میرا

لِلّٰہ چلے آؤ یادوں کے جھروکے میں

 

تم پاس رہو میرے ہمراز بنو میرے

کچھ سال ٹھہر جاؤ یادوں کے جھروکے میں

 

چاہت کی تمنّا ہے الفت کا تقاضا ہے

ناقدؔ کا بھی غم کھاؤ یادوں کے جھروکے میں

 

 

 

 

مجاہد

 

سلام کہتی ہے تجھ کو ملت

ہے تجھ پہ نازاں بہت شجاعت

 

تو استعارہ رہِ وفا کا

تو مردِ محبوب ہے خدا کا

 

عظیم دھرتی کی تو بقا ہے

تجھے شہیدوں نے دی دعا ہے

 

تو حوصلوں کی چٹان بھی ہے

تو عظمتوں کا نشان بھی ہے

 

تو رشکِ ٹیپو تو ابنِ قاسم

رہے ترا یہ خلوص قائم

 

 

 

 

تو اور میں

 

تم بوجھو تو ہم جانیں

کیسے ہیں یہ افسانے؟

کچھ بھی میرے پاس نہیں

اس کا بھی احساس نہیں

میری دنیا ہے تنہائی

تیری دنیا ہے شہنائی

تو نے یہ کیا خوب کہا؟

مجھ کو اک مجذوب کہا

میں بھی اک سودائی ہوں

بندہ اک مولائی ہوں

میری دنیا الجھی سی

تیری دنیا سلجھی سی

میں نے یوں محسوس کیا ہے

تو نے مجھے محبوس کیا ہے

تیرے لب سے برسیں پھول

ہم بیٹھیں غمگین ملول

 

 

 

پیسہ

 

جب بھی پیسہ ہاتھ میں ہو

جو کرنا چاہو کر لو

 

پیسے سے جب جیب ہو عاری

پھر لگتی ہے اک بیزاری

 

اس کا نام شرافت ہے

یہ سچ اور حقیقت ہے

 

پیسہ ہے دھرتی کا راج

اس میں پِنہاں کل اور آج

 

پیسے نے سکھ چین گنوایا

پیسہ ہی ہے راحت لایا

 

 

 

 

جہانِ شاعر

 

ہے شاعر کی دنیا

تو حرفوں کی دنیا

یہ لفظوں کی دنیا

یہ شعروں کی دنیا

یہ نظموں کی دنیا

یہ غزلوں کی دنیا

یہ نوحوں کی دنیا

یہ نغموں کی دنیا

بہت دل نشیں ہے

خیالوں کی دنیا

حقیقت میں ہے اک فسانوں کی دنیا

یہ پورے ادھورے سے خوابوں کی دنیا

یہ ہے دیکھنے میں فقیروں کی دنیا

مگر اس پہ قربان شاہوں کی دنیا

کبھی وقت ہو تو ذرا آ کے دیکھو

ہے کیسی یہ اخلاص کیشوں کی دنیا؟

 

 

 

 

ندائے حسرت

 

 

جو المیہ میں نے دل پر اوڑھ رکھا ہے

وہ المیہ میری اگلی نسلوں کا ہے

پاس مرے من کے رہتی ہے محرومی

وہ محرومی ہے میرے اسلاف کا ورثہ

میرا ماضی ناداری ہے

میرا حال پریشانی ہے

میرا فردا فکر کا حامل

جیون سارا کرب کا دھارا

اچھے مستقبل کے خواہاں

میرے بچے

بدلتی اقدر

زمانہ کب بدلتا ہے؟

فقط قدریں بدلتی ہیں

یہ قدریں کیوں بدلتی ہیں ؟

انہیں ہم خود بدلتے ہیں

 

 

 

 

 

مجھے دوستوں نے دیا غم کا تحفہ

سو میرا مقدر ہوا غم کا تحفہ

 

مجھے حزن سے یوں محبت ہوئی ہے

کہ میں نے خوشی سے لیا غم کا تحفہ

 

مری فکر ہے ایک سوزِ مجسم

ہوا میری خاطر سزا غم کا تحفہ

 

زمانہ جسے آگہی جانتا ہے

اسی کو ہے میں نے لکھا غم کا تحفہ

 

الم بھی تو ہے اک مقدّس امانت

اگر ہے خوشی کی جزا غم کا تحفہ

 

غزل جب اسے میں نے اپنی سنائی

تو اس نے غزل کو کہا غم کا تحفہ

 

ہے اتنی سی میری گزارش یہ ساقی

بہت تشنہ لب ہوں پلا غم کا تحفہ

 

گیا میں خمستاں میں جب تو خوشی سے

بنامِ جدائی پیا غمکا تحفہ

 

کہا میں نے اس کو سنانی ہے بِپتا

اُنھوں نے کہا پھر سنا غم کا تحفہ

 

کہانی جو کل رات میں نے سنائی

تو سن کر پری نے کہا غم کا تحفہ

 

تمہیں کیوں ہے انکار صہبا سے ناقدؔ؟

محبت میں ہے یہ روا غم کا تحفہ

 

 

 

 

میں نے تم کو پا لیا ہے پیار کی مسافت میں

میت بھی بنا لیا ہے پیار کی مسافت میں

 

نیر بھی بہائے ہیں غیر بھی ہنسائے ہیں

گیت گنگنایا ہے پیار کی مسافت میں

 

آج ایک دلبر کو اک حسیں ستم گر کو

ہمسفر بنایا ہے پیار کی مسافت میں

 

آپ کا شناسا ہے دِل شدید پیاسا ہے

زخمِ جور کھایا ہے پیار کی مسافت میں

 

ناقدِؔ پریشاں نے بلبلِ گلستاں نے

خود کو بھی بھلایا ہے پیار کی مسافت میں

 

 

 

 

ہر وقت وہ ملتا ہے احساس کی منزل میں

میں نے اسے پایا ہے احساس کی منزل میں

 

جب یاد کیا اس کو جب دی ہے صدا اس کو

وہ دوڑ کے آیا ہے احساس کی منزل میں

 

تو بھول گیا مجھ کو میں یاد نہیں تجھ کو

کب تو نے بلایا ہے احساس کی منزل میں ؟

 

ہم روپ نگیں اس کا ہر رنگ حسیں اس کا

وہ شخص نرالا ہے احساس کی منزل میں

 

یادوں کے جھروکے میں اک چاند سا چہرہ ہے

اک تیرا سراپا ہے احساس کی منزل میں

 

وہ پاس بھی ہوتا ہے وہ دور بھی ہوتا ہے

اک پھول سا کِھلتا ہے احساس کی منزل میں

 

وہ میرا مسیحا ہے وہ میرا سہارا ہے

میں نے اسے چاہا ہے احساس کی منزل میں

 

ہر روپ نرالا ہے ہر عکس بھی طُرفہ ہے

جیون بھی تماشا ہے احساس کی منزل میں

 

وہ گیت بھی ہے میرا سنگیت بھی ہے میرا

ناقدؔ اسے گایا ہے احساس کی منزل میں

 

 

 

 

مدہوش مجھے کر دو اب لمس کی لذت سے

میں ناخوش و نالاں ہوں ہر وقت کی حسرت سے

 

ہر پل میں ترستا ہوں ملنے کو تڑپتا ہوں

تسکین مجھے بخشو تم اپنی ہی قُربت سے

 

گو بات میں تُندی ہے لہجے میں بھی تلخی ہے

وہ ٹوٹ کے روئیں گے گزریں گے جو تُربت سے

 

ہے عزم جواں میرا مدّاح جہاں میرا

سوچوں میں بھی رفعت ہے بڑھ کر کسی پربت سے

 

ناقدؔ نے سکوں پایا نزدیک جو تو آیا

آرام بہت پایا بڑھ کر کسی جنت سے

 

 

 

 

یہی التجا ہے مجھے یاد رکھنا

مری یاد سے دل کو آباد رکھنا

 

بلاسے ودیعت نہ کرنا محبت

مگر دل کی نفرت سے آزاد رکھنا

 

زمانہ تمھیں غم عنایت کرے گا

مگر من کی دھرتی کو تم شاد رکھنا

 

مری جان کیسا ترا مشغلہ ہے؟

سدا میرے دل کو ہی برباد رکھنا

 

تڑپنے کی عادت ہے مجھ کو ستم گر

پروں کو مرے کَس کے صیّاد رکھنا

 

مرا کام ناقدؔ ہے راحت رسانی

کسی کو ہے کیا میں نے نا شاد رکھنا؟

 

 

 

 

بے چین تمنا

 

سدا بے وفاؤں سے کی ہیں وفائیں

بہائے ہیں آنسو بھریں سرد آہیں

مرا دل محبت پہ مائل نہیں ہے

سکوں الفتوں بھی میں حاصل نہیں ہے

کیا مجھ کو بیزار سا نفرتوں نے

ستم مجھ پہ ڈھائے سدا قربتوں نے

کیا چاہتوں نے ہے بیزار جیون

ہوئی اس لئے زندگی بھی اجیرن

مسرت کی ہو مجھ کو امید کیسے؟

کسی دن ہو اپنی بھلا عید کیسے؟

بہت دور راحت سے میں ہو گیا ہوں

مسائل کی اک بھیڑ میں کھو گیا ہوں

ذرا بھی مجھے راس آئی نہ چاہت

کہ ہستی بنی اپنی خاطر قیامت

مرے مولا مجھ کو سکوں بخش دے اب

خوشی زندگی میں فزوں بخش دے اب

 

 

 

 

حالِ زار

 

گراں بار مجھ پر یہ جیون ہوا ہے

مرا چین یارو اجیرن ہوا ہے

 

ستم سہنے کا اور یارا نہیں ہے

مجھے اب کے جیون بھی پیارا نہیں ہے

 

مقدر مرانت حوادث بنے ہیں

ستم مجھ پہ قسمت کے بے حد ہوئے ہیں

 

زمانہ یہ سارا ستم گر ہوا ہے

یہاں غم پہ غم مجھ کو پیہم ملا ہے

 

جسے دیکھئے ہے مِرے خوں کا پیاسا

شناسا بھی لگتا ہے اب نا شناسا

 

 

 

 

عالمِ یاس

 

باسی ہوں میں یاس نگر کا

راندہ ہوں میں آس نگر کا

 

چکنا چور ہوئے ہیں سپنے

چھوڑ گئے ہیں مجھ کو اپنے

 

خوشیوں سے دامن ہے خالی

ہے میری تقدیر نرالی

 

من دھرتی سنسان ہوئی ہے

بے چینی مہمان ہوئی ہے

 

پیار کی دنیا راس نہ آئی

قسمت میں لکھی رسوائی

 

راحت کوسوں دور ہوئی ہے

تن دھرتی مجبور ہوئی ہے

 

 

 

 

فرق

 

یہ دشت و بن یہ کاخ و کو

یہ منزلِ دیر و حرم

یہ مقتل و زنداں کہیں

یہ میکدے یہ ہاؤ ہو

مجھ کو ہے تِری جستجو

ہے تو ہی میری آرزو

ڈھونڈوں کا تجھ کو کُو بَہ کُو

رکھ ہر ستم ہر درد و غم مجھ پہ روا اے دل ربا

تو بے وفا میں با وفا تو پار سا میں نار سا

 

 

 

 

امکانی الم

 

یہ کس کا ڈھول بجتا ہے؟

یہ کس کے شادیانے ہیں ؟

جو میرا ہو نہیں پایا

کسی کا ہو گیا شاید!

مقدر سو گیا شاید!

وہ مجھ سے کھو گیا شاید!

میں جی پاؤں گی اب کیسے؟

سہوں گی یہ غضب کیسے؟

نہ ہنسنا ہے مرے بس، میں

نہ رونا ہے مرے بس میں

نہ جینا ہے مرے بس میں

نہ مرنا ہے مرے بس میں

نہیں کچھ بھی مرے بس میں

کہ طوفاں میں سفینہ ہے

غموں کا جام پینا ہے

سو اب ایسے ہی جینا ہے

 

 

 

 

 

محبتوں کے سفر میں ہم نے گنوائی اپنی حیات ساری

یہ ہم نے سوچا نہیں کبھی کہ ہماری سانسیں بھی ہیں ادھاری

 

جو تھے جہالت کے سب خبائث وہ اس جہاں میں بھی جلوہ گرہیں

عبث ہیں تہذیبِ نوکے دعوے روا ہے اب کے بھی کار وکاری

 

حسین ایّام تھے وہ بچپن کے جب ہمیں کوئی غم نہیں تھا

جو مل کے کھیلے تھے گلی ڈنڈا جو ساتھ کھیلتے تھے چاند ماری

 

نہیں مقدّر میں میرے خوشیاں غموں کا اک سلسلہ رواں ہے

جہاں کے دکھ بھی تو میرے دکھ ہیں ہوئی حالت بھی اضطراری

 

کسی بھی غم سے نہ مار کھاؤں کسی ڈگر پر نہ ڈگمگاؤں

گھرا اگرچہ ہوں مسئلوں میں مگر ہے سینے میں دل بہاری

 

جہاں کی خوشیاں ہیں پاس تیرے دکھوں کا کوئی گزر نہیں ہے

تری رعایا تو مر رہی ہے تری تو قائم ہے تاج داری

 

مرے مصائب بڑھے مسلسل کسی کو مجھ پہ نہ ترس آیا

رہا ہوں دن رات غم میں غلطاں مرا وظیفہ ہے اشک باری

 

تری رفاقت ہے اک اذیت ہوئی مکدّر مری طبیعت

کیا ہے جس نے مجھے ہے بسمل ہے تیرے نینوں کی وہ کٹاری

 

جو ساتھ تیرے ہیں کی وفائیں حقیقتاً ہیں مری خطائیں

مری وفا کا نہ پاس تجھ کو ہے طور تیرا جفا شعاری

 

تری محبت سے کیا ملا ہے مجھے تو ناقدؔ یہی گِلہ ہے؟

کہ حزن ٹھہرا ہے میت میرا بڑھی ہے پل پل کی بے قراری

 

 

 

 

ایک ماں کے پاس ہوں اور ایک ماں سے دور ہوں

گاہے خوش ہوں اور میں گاہے بہت مجبور ہوں

 

میرے چرچے دشت و بن قریہ بہ قریہ کو بہ کو

ہر نگر ہر انجمن میں اس لئے مذکور ہوں

 

اور تو کچھ نیک نامی پاس میں رکھتا نہیں

فضل ربی ہے مروت میں ذرا مشہور ہوں

 

ظلم کیوں رکھے روا کوئی کسی انسان پر؟

اس طرح کے ملک میں قانون ہوں دستور ہوں

 

طور جل کر جل بجھا یکبارگی آرام سے

جس کی قسمت سوزِ پیہم ہے مَیں ایسا طور ہوں

 

میں بنا سکتا نہیں بیلنس گاڑیاں کوٹھیاں

میں تو اک مفلس ہوں ناقدؔ کے بے نوا مزدور ہوں

 

 

 

 

 

ترقّی کی راہیں ہیں مسدود اپنی

سو ہے ذہن میں فکرِ نابود اپنی

 

گراں ہم پہ گھڑیاں ہوئی وقت کی ہیں

ہیں مضطر کہ ہے سوچ محدود اپنی

 

جہاں میں تو ہم پابجولاں چلے ہیں

یہی ہست اپنی یہی بود اپنی

 

نہیں پاس اپنے زمانے کی خوشیاں

نہیں شئے کوئی پاس موجود اپنی

 

ہمیں فکر بس دوسروں کی ہے ناقدؔ

نہیں ہے مدارات مقصود اپنی

 

 

 

 

پیشہ سپہ گری ہے

کچھ اس پہ ناز بھی ہے

 

رکھتے نہیں ہیں کچھ بھی

اک جنسِ شاعری ہے

 

جو ہے مری معاون

وہ فکر و آگہی ہے

 

جس پہ کئے ہیں احساں

اب کے وہ اجنبی ہے

 

جس نے کیا ہے ویراں

وہ تیری دوستی ہے

 

ناقدؔ رہے ہمیشہ

من کی جو روشنی ہے

 

 

 

 

 

بہت آج کل شاعری ہو رہی ہے

سخن سے امر دوستی ہو رہی ہے

 

فقط اپنے جیون کا حاصل یہی ہے

غموں سے امر دوستی ہو رہی ہے

 

عبث آفرینش ہماری نہیں ہے

بہت کچھ ہوا عاشقی ہو رہی ہے

 

محبت کی بابت بہت کچھ ہوا ہے

عجب طور سے دل لگی ہو رہی ہے

 

مری جاں اٹھایا ہے تو نے جو پردہ

تو من میں مرے روشنی ہو رہی ہے

 

چھپایا ہے تو نے جو پردے میں چہرہ

یوں ناقدؔ فزوں تیرگی ہو رہی ہے

 

 

 

 

خوئے تنقید

 

 

ترا نَقص ٹھہری تری خود پرستی

تو مغرور ہے اور جَبِلّت کا قیدی

رہی فکر ہر دم تجھے برتری کی

ہے یہ بھی تری ذات میں ایک خامی

سدا اپنی عظمت کے گن گائے تو نے

تکبّر سے مملو رہی تیری ہستی

نہیں جھوٹے دعووں سے کچھ ہاتھ آتا

نہیں ہے ادب کم سوادوں کی نگری

گریزاں سا رہتا ہے تو کاوشوں سے

مگر تجھ کو مطلوب شہرت ہے سستی

ہے بہتر کسی پر نہ کیچڑ اچھالو

یہاں تہمتوں سے نہیں بات بنتی

تجھے اوچھے ہتھکنڈے زیبا نہیں ہیں

ترا ذہن کیا شاطروں کی ہے بستی؟

مری بات مانو تفاخر کو چھوڑو

فقط عاجزی میں ہی عظمت ہے رکھّی

نصیحت یہ ناقدؔ کی رکھ یاد ہر دم

ریا پھر ریا ہے نہیں موج مستی

 

 

 

 

 

سالِ نو

 

چلا سال اک اپنی یادیں سمیٹے

نیا سال سارے وطن کو مبارک

گیا سال جو ہے سبق اس سے سیکھیں

نئے سال میں کوئی ٹھوکر نہ کھائیں

نئے سال سے ہم کو امید یہ ہے

ہمارے لئے باعثِ خیر ہو گا

نیا سال تم کو مبارک ہو یارو

کوئی غم نہ دے یہ نیا سال تم کو

خدا دور کر دے ہمیں دکھ سے یارو

سدا واسطہ ہو ہمیں سکھ سے یارو

 

 

 

 

عورت سے

 

خدا نے تجھے وجہِ راحت بنایا

دلوں کے لیے ہے سکینت بنایا

 

ترے دم سے دنیا یہ جنت سماں ہے

تری ذات ہی صرف خدمت نشاں ہے

 

اگر تو نہ ہوتی، نہ ہوتی مسرت

سکوں کی بجائے مچلتی اذیّت

 

ترا جسم بھی تو سراپا سکوں ہے

خوشی آئے دن تیرے باعث فزوں ہے

 

سمجھتا ہوں میں تجھ کو نعمت خدا کی

حقیقت میں تو ہے عنایت خدا کی

 

 

 

 

جھوٹی محبت

 

کب پیار مجھے تم کرتی ہو؟

تم وقت گزارا کرتی ہو

باتیں بھی تمہاری جھوٹی ہیں

اظہار تمھارا جھوٹا ہے

سب قول تمھارے جھوٹے ہیں

اقرار تمھارا جھوٹا ہے؟

میں خود سے یہ کہتا رہتا ہوں

کیا یار تمھارا جھوٹا ہے؟

یہ میں دعوے سے کہتا ہوں

ہاں پیار تمہارا جھوٹا ہے

ہاں پیار تمہارا جھوٹا ہے

 

 

 

 

یہ میں تسلیم کرتا ہوں

 

تری چاہت بھی سچی ہے

مگر میرے مسائل ہیں

تجھے میں پا نہیں سکتا

تجھے گھر لا نہیں سکتا

تجھے پانے کی حسرت میں

پریشاں روز رہتا ہوں

نہ سنتا ہوں نہ کہتا ہوں

میں دیوانہ سا لگتا ہوں

دِکھائی کچھ نہیں دیتا

سُنائی کچھ نہیں دیتا

سُجھائی کچھ نہیں دیتا

 

 

 

 

 

صاحبِ ثروت سے

 

سنا ہے ترے پاس دولت بہت ہے

مجھے کیا غرض اس سے کیسے کمائی؟

مگر اس میں ہے کچھ غریبوں کا حصہ

ہے نادار لوگوں ، یتیموں کا حصہ

ہے بیواؤں کا، بے سہاروں کا حصہ

یہ حصے سبھی تو نے کرنے ادا ہیں

نہیں ان سے غفلت برتنی کبھی بھی

اگر تو نے برتی کسی وقت غفلت

تجھے حشر کے روز ہو گی ندامت

خدا تجھ سے پوچھے گا صدقے کی بابت

تو اس روز ہو گی تجھے بھی ضرورت

٭٭٭

 

 

 

 

شبیر ناقد کی دیگر تصانیف

 

شاعری

-1صلیبِ شعور (غزلیات و نظمیات) مطبوعہ دسمبر 2007ء

-2من دی مسجد (سرائیکی شاعری، غزلیں ، نظمیں ، گیت، قطعے، دوہڑے) مطبوعہ 2010ء

-3آہنگِ خاطر (غزلیات، نظمیں ، گیت، قطعات، ہائیکو) مطبوعہ 2011ء

-4صبحِ کاوش (غزلیات، نظمیں ، قطعات) زیرِ طبع

-5روح دی روہی (سرائیکی شاعری، غزلیں ، نظمیں ، قطعے، دوہڑے) زیرِ طبع

-6دل سے دور نہیں ہو تم (غزلیات، نظمیں ، قطعات)زیرِ طبع

-7کتابِ وفا (غزلیات، نظمیات، قطعات)زیرِ طبع

تنقید

-1ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل (شخصیت اور فن)مطبوعہ جون 2013ء

-2شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ اول) (تنقیدی مضامین، منتخب کلام)مطبوعہ جون 2013ء

-3شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ دوم) (تنقیدی مضامین، منتخب کلام)مطبوعہ اکتوبر 2013ء

-4شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ سوم) (تنقیدی مضامین، منتخب کلام)مطبوعہ نومبر 2013ء

-5نقدِ فن (تنقیدی مضامین)مطبوعہ جون 2014ء

-6میزانِ تنقید (تنقیدی مضامین)زیر طبع

-7تنقیدات (تنقیدی مضامین)زیرِ طبع

-8زاویّے (تنقیدی مضامین)زیر طبع

-9تجزیّات (تنقیدی مضامین)زیر طبع

-10ابوالبیَّان ظہور احمد فاتحؔ کا منشور نظم (نظمیاتی تنقیدی تجزیہ)زیرطبع

-11ابوالبیان ظہور احمد فاتح فکر و فن کے آئینے میں (غزل اور نظم کا تجزیاتی مطالعہ)زیر طبع

-12شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ چہارم) (تنقیدی مضامین، منتخب کلام)زیر طبع

-13شاعراتِ ارضِ پاک (جامع ایڈیشن، حصہ اول) 100 شاعرات کے حوالے سے

تنقیدی مضامین اور منتخب کلامزیرِ طبع

-14توضیحات (تنقیدی مضامین)زیرِ طبع

٭٭٭

تشکر: جلیل حیدر لاشاری جن کے توسط سے اس کی فائل فراہم ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدشبیر ناقدشبیر نقد