FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تفہیم القرآن

 

 

 

۱۲۔ سورۂ  الاحزاب تا سورۂ  فاطر

 

                   ابو الاعلیٰ مودودی

 

 

 

(۳۳) سورۃ الاَحْزَاب

 

 

نام

 

آیت  ۲۰  کے فقرہ  یَحْسَبُونَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْھَبُوْا  سے ماخوذ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

اس سورۃ کے مضامین تین اہم واقعات سے بحث کرتے ہیں۔ ایک غزوۂ اَحزاب جو شوال ۵ ہجری میں پیش آیا۔ دوسرے غزوۂ بنی قُرَیْظَہ جو ذی القعدہ ۵ ہجری میں پیش آیا۔ تیسرے حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح جو اسی سال ذی القعدہ میں ہوا۔ ان تاریخی واقعات سے سورۃ کا زمانۂ نزول ٹھیک متعیّن ہو جاتا ہے۔

 

تاریخی پس منظر

 

جنگِ اُحْد (شوّال  ۳ ھ) میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقرر کیے ہوئے تیر اندازوں کی غلطی سے لشکر اسلام کو جو شکست نصیب ہو گئی تھی اس کی وجہ سے مشرکین عرب،  یہود اور مُنافقین کی ہمّتیں بہت بڑھ گئی تھیں اور نہیں اُمید بندھ چلی تھی کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان بڑھتے ہوئے حوصلوں کا اندازہ ان واقعات سے ہو سکتا ہے جو اُحْد کے بعد پہلے ہی سال میں پیش آئے۔ جنگ اُحْد پر دو مہینوں سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ نجد کے قبیلۂ بنی اَسَدْ نے مدینہ طیّبہ پر چھاپا مارنے کی تیاریاں کیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی روک تھام کے لیے سَرِیَّۂابو سَلَمہ(اصطلاح میں سَرِیہَّ اس فوجی مہم کو کہتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود شریک نہ ہوتے تھے۔ اور غزْوہ اُس جنگ یا مہم کو کہا جاتا ہے جس میں حُضورؐ خود قیادت فرماتے تھے )  بھیجنا پڑا۔ پھر صفر ۴ھ میں قبائل عَضَل اور قارَہ نے حضُورؐ سے چند آدمی مانگے تاکہ وہ ان علاقہ میں جا کر لوگوں کو دینِ اسلام کی تعلیم دیں۔ حُضورؐ نے چھ اصحاب کو ان کے ساتھ کر دیا۔ مگر رَجیع(جدّہ اور رابِغ کے درمیان ) پہنچ کر وہ لوگ قبیلۂ ھُذَیل کے کفار کو ان بے بس مبلّغین پر چڑھا لائے،  ان میں سے چار کو قتل کر دیا،  اور دو صاحبوں (حضرت خُبَیب بن عَدِی اور حضرت زید بن الدَّثِنَّہ ) کو لے جا کر مکّۂ معظمہ میں دشمنوں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ پھر اسی ماہِ صفر میں بنی عامر کے ایک سردار کی درخواست پر حضورؐ نے ایک اور وفد جو چالیس (یا بقول بعض ۷۰)انصاری نوجوانوں پر مشتمل تھا،  نجد کی طرف روانہ کیا۔ مگر ان کے ساتھ بھی غدّاری کی گئی اور بنی سُلیم کے قبائل عُصَیَّہ اور رِعْل اور ذکْوان نے بِئر مَعُونہ کے مقام پر اچانک نرغہ کر کے ان سب کو قتل کر دیا۔ اسی دوران میں مدینے کا یہودی قبیلہ بنی النَّضِیر دلیر ہو کر مسلسل بد عہدیاں کرتا رہا،  یہاں تک کہ ربیع الاوّل ۴ ھ میں اُس نے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شہید کر دینے کی سازش تک کر ڈالی۔ پھر جمادی الاولیٰ ۴ھ  میں بنی غَطَفان کے دو قبیلوں،  بنو ثَعْلَبَہ اور بنو مُحَارِب نے مدینہ پر حملے کی تیاریاں کیں اور حضُورؐ کو خود ان کی روک تھام کے لیے جانا پڑا۔ اس طرح جنگ اُحْد کی شکست سے جو ہَوا اُکھڑی تھی وہ مسلسل سات آٹھ مہینے تک اپنا رنگ دکھاتی رہی۔

لیکن وہ صرف محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عزم و تدبّر اور صحابۂ کرام کا جذبۂ فدا کاری تھا جس نے تھوڑی مدّت کے اندر ہی حالات کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔ عربوں کے معاشی مقاطعہ نے اہل مدینہ کے لیے جینا دشوار کر رکھا تھا۔ گرد و پیش کے تمام مشرک قبائل چیرہ دست ہو رہے تھے۔ خود مدینہ کے اندر یہود اور منافقین مارِ آستین بنے ہوئے تھے۔ مگر ان مٹھی بھر مومنین صادقین نے رسولؐ خُدا کی قیادت میں پے درپے ایسے اقدامات کیے جن سے عرب میں اسلام کا رعب صرف بحال ہی نہیں ہو گیا،  بلکہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا۔

جنگِ احزاب سے پہلے کے غَزوات: ان میں سے اوّلین اقدام وہ تھا جو جنگ اُحُد کے فوراً ہی بعد کیا گیا۔ جنگ کے ٹھیک دوسرے روز جبکہ بکثرت مسلمان زخمی تھے اور بہت سے عزیز ترین اقارب کی شہادت پر کہرام برپا تھا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی زخمی اور حضرت حمزہؓ کی شہادت پر دِلفگار تھے،  حضُورؐ نے اسلام کے فِدائیوں کو پُکارا کہ لشکر کفّار کے تعاقب میں چلنا ہے تاکہ وہ کہیں راستے سے پلٹ کر پھر مدینے پر حملہ آور نہ ہو جائیں۔ حضورؐ کا اندازہ بالکل صحیح تھا کہ کفّار قریش ہاتھ آئی ہوئی فتح کا کوئی فائدہ اُٹھائے بغیر واپس تو چلے گئے ہیں، لیکن راستے میں جب کسی جگہ ٹھیریں گے تو اپنی اس حماقت پر نادم ہوں گے اور دوبارہ مدینے پر چڑھ آئیں گے۔ اس بناء پر آپ نے ان کے تعاقب کا فیصلہ کیا اور فوراً ۳۶۰ جاں نثار آپؐ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ مکّہ کے راستے میں جب حَمْرأالاسد پہنچ کر آپؐ نے تین روز تک پڑاؤ کیا تو ایک ہمدرد غیر مسلم کے ذریعہ سے آپ کو معلوم ہو گیا کہ ابو سُفْیان اپنے ۲۹۷۸ آدمیوں کے ساتھ مدینے سے ۳۶ میل دور الرَّوحأ کے مقام پر ٹھیرا ہوا تھا اور یہ لوگ فی الواقع اپنی غلطی کو محسوس کر کے پھ پلٹ آنا چاہتے تھے،  لیکن یہ سُن کر ان کی ہمت ٹوٹ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک لشکر لیے ہوئے ان کے تعاقب میں چلے آ رہے ہیں۔ اس اس کارروائی کا صرف یہی فائدہ نہیں ہوا کہ قریش کے بڑھے ہوئے حوصلے پست ہو گئے،  بلکہ گرد و پیش کے دشمنوں کو بھی یہ معلوم ہو گیا کہ مسلمانوں کی قیادت ایک انتہائی بیدار مغز اور اولوالعزم ہستی کر رہی ہے اور مسلمان اس کے اشارے پر کٹ مرنے کے لیے ہر وقت تیا رہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل،  صفحات  ۲۲۹۔ ۲۳۰۔ ۳۰۳)

پھر جوں ہی بنی اسد نے مدینے پر چھاپہ مارنے کی تیاریاں شروع کیں،  حضورؐ کے مخبروں نے بروقت آپ کو اُن کے اِرادوں سے با خبر کر دیا۔ قبل اس کے کہ وہ چڑھ آتے،  آپ نے حضرت ابو سَلَمہ (اُمّ المومنین حضرت اُم سلَمہؓ کے پہلے شوہر)کی قیادت میں ڈیڑھ سو آدمیوں کا ایک لشکر ان کی سرکوبی کے لیے بھیج دیا۔ یہ فوج اچانک ان کے سَر پر پہنچ گئی۔ بدحواسی کے عالم میں وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگ نکلے اور ان کا سارا مال اسباب مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا۔

اس کے بعد بنی النَّضیر کی باری آئی۔ جس روز انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شہید کرنے کی سازش کی اور اس کا راز فاش ہوا اُسی روز آپؐ نے ان کو نوٹس دے دیا کہ دس دن کے اندر مدینے سے نِکل جاؤ،  اس کے بعد تم میں سے جو یہاں پایا جائے گا قتل کر دیا جائے گا۔ منافقین مدینہ کے سردار عبداللہ بن اُبیّ نے ان کو تَڑی دی کہ ڈٹ جاؤ اور مدینہ چھوڑنے سے انکار کر دو،  میں دو ہزار آدمیوں کے ساتھ تمہاری مدد کروں گا، بنی قُرَیظہ تمہاری مدد کریں گے اور نجد سے بنی غَطَفان بھی تمہاری مدد کے لیے آئیں گے۔ ان باتوں میں آ کر اُنہوں نے حضورؐ کو کہلا بھیجا کہ ہم اپنا علاقہ نہیں چھوڑیں گے،  آپ سے جو کچھ کر لیجئے، حضورؐ نے نوٹس کی میعاد ختم ہوتے ہی ان کا محاصرہ کر لیا اور ان کے حامیوں میں سے کسی کی یہ ہمت نہ پڑی کہ مدد کو آتا۔ آخر کار انہوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دئے کہ ان میں سے ہر تین آدمی ایک اونٹ پر جو کچھ لاد کر لے جا سکتے ہیں لے جائیں اور باقی سب کچھ مدینہ ہی میں چھوڑ جائیں گے۔ اس طرح مضافات مدینہ کا وہ پورا محلہ جس میں بنی نَضیر رہتے تھے،  ان کے باغات اور گَڑھیوں اور سر و سامان سمیت مسلمانوں کے ہاتھ آ گیا اور اس بد عہد قبیلے کے لو گ خیبر،  وادی القُریٰ اور شام  میں تتّر بتّر ہو گئے۔

پھر آپؐ نے بنی غَطَفان کی طرف توجہ کی جو مدینے پر حملہ آور ہونے کے لیے پر تول رہے تھے۔ آپ چار سو کا لشکر لے کر نکلے اور ذات الرِّقاع کے مقام پر اس کو جالیا۔ اس اچانک حملے نے ان کے حواس باختہ کر دیے اور کسی جنگ کے بغیر وہ اپنے گھر بار اور مال اسباب چھوڑ کر پہاڑوں میں منتشر ہو گئے۔

اس کے بعد شعبان ۴ ہجری میں آپ ابو سفیان کے اُس چیلنج کا جواب دینے کے لیے نکلے جو اس نے اُحد سے پلٹتے ہوئے دیا تھا۔ خاتمۂ جنگ پر اُس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم  اور مسلمانوں کی طرف رُخ کر کے اعلان کیا تھا کہ  ان موعد کم بد رللعام المقبل(آئندہ سال بدع کے مقام پر ہمارا تمہارا پھر مقابلہ ہو گا)اور حضورؐ نے جواب میں ایک صحابی  کے ذریعہ سے یہ اعلان کرا دیا  تھا کہ نعم،  ھی بیننا وبینیک موعد(ٹھیک ہے،  یہ بات ہمارے اور تیرے درمیان طے ہو گئی )۔ اس قرار داد کے مطابق طے شدہ وقت پر آپ ۱۵ سو صحابیوں کو لے کر بدر کے مقام پر پہنچ گئے۔ اُدھر سے ابو سُفیان  دو ہزار کا لشکر لے کر چلا مگر مُرَّالظَّہران (موجودہ وادیِ فاطمہ ) سے آگے بڑھنے کی ہمّت نہ کر سکا۔ حضورؐ نے بدر میں آٹھ دن اس کا انتظار کیا اور اس دوران میں مسلمان تجارت کر کے ایک درہم کے دو درہم کماتے رہے۔ اس واقعہ سے وہ دھاک جو اُحُد میں اُکھڑی تھی پہلے سے زیادہ جم گئی۔ اس نے پورے عرب پر یہ بات کھول دی کہ اب تنہا قریش محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (اس کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، ص ۳۰۴)

اس دھاک میں ایک اور واقعہ نے مزید اضافہ کیا۔ عرب اور شام کی سرحد پر دُدمتہ الجَنْدَل (موجودہ الجَوف )ایک اہم مقام تھا جہاں اے عراق اور مصر و شام کے درمیان عرب کے تجارتی قافلے گزرتے تھے۔ اس مقام کے لوگ قافلوں کو تنگ کرتے اور اکثر لوٹ لیتے تھے۔ نبی صلّی اللہ علیہ و سلم ربیع الاوّل ۵ ھ میں ایک ہزار کا لشکر لے کر ان کی تادیب کے لیے خود تشریف لے گئے۔ وہ آپؐ کے مقابلے کی ہمت نہ کر سکے اور بستی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ اس سے پورے شمالی عرب پر اسلام کی ہیبت بیٹھ گئی اور قبائل نے یہ سمجھ لیا کہ مدینے میں جو زبردست طاقت پیدا ہوئی ہے اس کا مقابلہ اب ایک دو قبیلوں کے بس کا کام نہیں ہے۔

 

غزوۂ احزاب

 

یہ حالات تھے جن میں غزوۂ احزاب پیش آیا،  یہ غزوہ دراصل عرب کے بہت سے قبائل کا ایک مشترک حملہ تھا جو مدینے کی اس طاقت کو کچل دینے کے لئے کیا گیا تھا۔۔۔ اس کے تحریک بنی النَّضِیر کے اُن لیڈروں نے کے تھی جو جلا وطن ہو کر خیبر میں مقیم ہو گئے تھے۔ انہوں نے دَورہ کر کے قریش اور غَلْطفان اور ہُذَیل اور دوسرے بہت سے قبائل کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اب مِل کر بہت بڑی جمیعت کے ساتھ مدینے پر ٹوٹ پڑیں۔ چنانچہ ان کی کوششوں اے شوال ۵ ھ میں قبائل عرب کی اتنی بڑی جمیعت اس چھوٹی سی بستی پر حملہ آور ہو گئی جو اس سے پہلے عرب میں کبھی جمع نہ ہوئی تھی۔ اس میں شمال کی طرف  بنی النَّضِیر اور  قَیْنقُاع کے وہ یہودی آئے جو مدینے سی جلا وطن ہو کر خیبر اور وادی القُریٰ میں آباد ہوئے تھے۔ مشرق کی طرف سے غَطَفان کے قبائل(بنو سُلَیم، فَزارہ، مُرَّہ، اَشجع، سَعد اورا َسَد وغیرہ)نے پیش قدمی کی۔ اور جنوب کی طرف سے قریش اپنے حلیفوں کی ایک بھاری جمیعت لے کر آگے بڑھے۔ مجموعی طور پر ان کی تعداد دس بارہ ہزار تھی۔

یہ حملہ اگر اچانک ہوتا تو سخت تباہ کُن ہوتا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ طیّبہ میں بے خبر بیٹھے ہوئے نہ تھے بالکہ آپ کے خبر رساں اور تحریک اسلامی کے ہمدرد اور متاثرین جو تمام قبائل میں موجود تھے،  آپ کو دشمنوں کی نقل و حرکت سے برابر مطلع کرتے رہتے تھے (یہ قوم پرست جتھوں کے مقابلے میں ایک نظریاتی تحریک کی فوقیت کا ایک اہم سبب ہوتا ہے۔ قوم پرست جتھے صرف اپنی قوم کے افراد کی تائید و حمایت ہی پر انحصار رکھتے ہیں۔ لیکن ایک اُصولی و نظریاتی تحریک اپنی دعوت سے ہر سمت میں بڑھتی ہے اور خود ان جتھوں کے اندر سے اپنے حامی نکال لاتی ہے۔ )قبل اس کے کہ یہ جمِّ غفیر آپ کے شہر پہنچتا، آپ نے چھ دن کے اندر مدینہ کے شمال غربی رُخ پر ایک خندق کھُدوا لی اور کوہ سَلْع کو پشت پر لے کر تین ہزار فوج کے ساتھ خندق کی پناہ میں مدافعت کے لیے تیار ہو گئے۔ مدینہ کے جنوب میں باغات اس کثرت سے تھے (اور اب بھی ہیں ) کہ اس جانب سے کوئی حملہ اس پر نہ ہو سکتا تھا۔ مشرق میں حَرّات (لادے کی چٹانیں ) ہیں جن پر سے کوئی اجتماعی فوج کشی آسانی کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ یہی کیفیت مغربی جنوبی گوشے کی بھی ہے۔ اس لیے حملہ صرف اُحُد کے مشرقی اور مغربی گوشوں سے ہو سکتا تھا اور اسی جانب حضورؐ نے خندق کھدوا کر شہر کو محفوظ کر لیا تھا۔ یہ چیز سرے سے کفار کے جنگی نقشے میں تھی ہی نہیں کہ انہیں مدینے کے باہر خندق سے سابقہ پیش آئے گا، کیونکہ اہل عرب اس طریقِ دفاع سے نا آشنا تھے۔ نا چار انہیں جاڑے کے زمانے میں ایک طویل محاصرے کے لیے تیار ہونا پڑا جس کے لیے وہ گھروں سے تیار ہو کر نہیں آئے تھے۔

اس کے بعد کفار کے لیے صرف ایک ہی تدبیر باقی رہ گئی تھی،  اور وہ یہ کہ بنی قُر یظہ کے یہودی قبیلے کو غدّاری پر آمادہ کریں جو مدینہ طیّبہ کے جنوب مشرقی گوشے میں رہتا تھا۔ چوں کہ اس قبیلے سی مسلمانوں کا باقاعدہ حلیفانہ معاہدہ تھا جس کی رو سے مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدافعت کرنے کا پابند تھا،  اس لیے مسلمانوں نے اس طرف سی بے فکر ہو کر اپنے بال بچّے اُن گڑھیوں میں بھجو دیے تھے جو بن قریظہ کی جانب تھیں اور اُدھر مدافعت کا کوئی انتظام نہ کیا تھا۔ کفار نے اسلامی دفاع کے اس کمزور پہلو کو بھانپ لیا۔ اُن کی طرف سے بنی النَّضیر کا یہودی سردار حُیّی بن اخْطَب بنی قُریظہ کے پاس بھیجا گیا تاکہ انہیں معاہدہ توڑ کر جنگ میں شامل ہونے پر آمادہ کرے۔ ابتداءً اُنہوں نے اس سے انکار کیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارا محمد(صلی اللہ علیہ و سلم )سے معاہدہ ہے اور آج تک کبھی ہمیں ان سی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ لیکن جب ابنِ اخطب نے ان سے کہا کہ ’’دیکھو،  میں اس وقت عرب کی متحدہ طاقت اس شخص پر چڑھا لایا ہوں،  یہ اسے ختم کر دینے کا نادر موقع ہے،  اس کو اگر تم نے کھو دیا تو پھر دوسرا کوئی موقع نہ مل سکے گا‘‘، تو ذہن کی اسلام دشمنی اخلاق کے پاس و لحاظ پر غالب آ گئی اور بنی قریظہ عہد توڑنے پر آمادہ ہو گئے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس معاملے سے بھی بے خبر نہ تھے۔ آپؐ کو بر وقت اس کی اطلاع مل گئی اور آپؐ نے فوراً انصار کے سرداروں (سعد بن غُبّادہ، سعد بن مُعاذ، عبداللہ بن رواعہ اور خَوّات بن جُبیر )کو ان کے پاس تحقیقِ حال اور فہمائش کے لیے بھیجا۔ چلتے وقت آپؐ نے اُن کو ہدایت فرمائی کہ اگر بنی قُریظہ عہد پر قائم رہیں تو آ کر سارے لشکر کے سامنے علی ا لاعلان یہ خبر سُنا دینا۔ لیکن اگر وہ نقضِ عہد پر مُصر ہوں صرف مجھ کو اشارۃً اس کی اطلاع دے دینا تاکہ عام مسلمان یہ بات سُن کر پست ہمّت نہ ہو جائیں۔ یہ حضرات وہاں پہنچے تو بنی قریظہ کو پوری خباثت پر آمادہ پایا اور انہوں نے برملا ان سی کہہ دیا کہ لا عقد بیننا وبین محمد ولا عھد۔ ’’ہمارے محمدؐ کے درمیان کوئی عہد پیما نہیں ہے ‘‘،۔ اس جواب کو سن کر وہ لشکرِ اسلام میں واپس آئے اور اشارۃً حضورؐ سے عرض کر دیا :عَضَل وقارَہ۔ یعنی قبیلہ عَضَل وقارَہ نے رَجیع کے مقام پر مبلّغین اسلام کے وفد سے جو غدّاری کی تھی،  وہی کچھ اب بنی قریظہ کر رہے ہیں۔

یہ خبر بہت جلد ی مدینہ کے مسلمانوں میں پھیل گئی اور ان کے اندر اس سے سخت اضطراب پیدا ہو گیا۔ کیوں کہ اب وہ دونوں طرف سے گھیرے میں آ گئے تھے اور ان کے شہر کا وہ حصّہ خطرے میں پڑ گیا تھا جدھر دفاع کا بھی کوئی انتظام نہ تھا اور سب کے بال بچّے بھی اسی جانب تھے۔ اس پر منافقین کی سرگرمیاں اور تیز ہو گئیں اور انہوں نے اہل ایمان کے حوصلے پست کرنے کے لیے طرح طرح کے نفسیاتی حملے شروع کر دیے۔ کسی نے کہا کہ ’’ ہم سے تو وعدے تو قیصر و کسریٰ کے ملک فتح ہو جانے کے کیے جا رہے تھے، اور حال یہ ہے کہ ہم رفع حاجت کے لیے بھی نہیں نکل سکتے۔ ‘‘ کسی نے یہ کہہ کر خندق کے محاذ سے رخصت مانگی کہ اب تو ہمارے گھر ہی خطرے میں پڑ گئے ہیں ہمیں جا کر اُن کی حفاظت کرنی ہے۔ کسی نے یہاں تک خفیہ پروپگنڈا شروع کر دیا کہ حملہ آوروں سے اپنا معاملہ درست کر لو اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے حوالے کر دو۔ یہ ایسی شدید آزمائش کا وقت تھا جس میں ہر اس شخص کا پردہ فاش ہو گیا جس کے دِل میں ذرّہ برابر بھی نفاق موجود تھا۔ صرف صادق و مخلص اہل ایمان ہی تھے جو اس کڑے وقت میں بھی فدا کاری کے عزم پر ثابت قدم رہے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس نازک موقع پر بنی غطفان سے صلح کی بات چیت شروع کی اور ان کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہا کہ مدینے کے پھلوں کی پیداوار کا تیسرا حصّہ لے کر واپس چلے جائیں۔ لیکن جب انصار کے سرداروں (سعدؓبن عُبادہ اور سعدؓ بن مُعاذ) سے آپؐ نے اِن شرائط صلح کے متعلق مشورہ طلب کیا تو انہوں نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ،  یہ آپؐ کی خواہش ہے کہ ہم ایسا کریں ؟ یا یہ اللہ کا حکم ہے کہ ہمارے لیے اسے قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے ؟ یا آپؐ ہمیں بچانے کے لیے یہ تجویز فرما رہے ہیں ؟ آپؐ نے جواب دیا ’’ میں صرف تم لوگوں کو بچانے کے لیے ایسا کر رہا ہوں،  کیوں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ سارا عرب متحد ہو کر تم پر پِل پڑا ہے،  میں چاہتا ہوں کہ ان کو ایک دوسرے سے توڑ دوں۔ ‘‘اس پر دونوں سرداروں نے بالاتفاق کہا کہ ’’ اگر آپؐ ہماری خاطر یہ معاہدہ کر رہے ہیں تو اسے ختم کر دیجیے۔ یہ قبیلے ہم سے اُس وقت بھی ایک حبّہ خراج کے طور پر کبھی نہ لے سکے تھے جب ہم مشرک تھے۔ اور اب تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا شرف ہمیں حاصل ہے۔ کیا اب یہ ہم سے خراج لیں گے ؟ ہمارے اور ان کے درمیان اب صرف تلوار ہی ہے، یہاں تک کہ اللہ ہمارا اور ان کا فیصلہ کر دے ‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے معاہدے کے اس مسودے کو چاک کر دیا جس پر ابھی دستخط نہ ہوئے تھے۔

اسی دوران میں قبیلۂ غَطَفا ن کی شاخ اشجَع کے ایک صاحب نَعیم بن مسعُود مسلمان ہو کر حضورؐ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابھی تک کسی کو بھی میرے قبول اسلام کا علم نہیں ہے،  آپؐ مجھ سے اس وقت جو خدمت لینا چاہیں میں اسے انجام دے سکتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا،  تم جا کر دشمنوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوئی تدبیر کرو(اسی موقعہ پر حضورؐ نے فرمایا تھا اَلْحَرْبُ خُدْ عَۃ۔ یعنی جنگ میں دھوکہ دینا جائز ہے۔ )چنانچہ وہ پہلے بنی قُریظہ کے پاس گئے جن سے ان کا بہت میل جول تھا، اور ان سے کہا کہ قریش اور غطفان تو محاصرے سے تنگ آ کر واپس بھی جا سکتے ہیں،  ان کا کچھ نہ بگڑے گا،  مگر تمہیں مسلمانوں کے ساتھ اسی جگہ رہنا ہے،  وہ لوگ اگر چلے گئے تو تمہارا کیا بنے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ تم اس وقت تک جنگ میں حصّہ نہ لو جب تک اِن باہر سے آئے ہوئے قبائل کے چند نمایاں آدمی تمہارے پاس یرغمال کے طور پر نہ بھیج دیے جائیں۔ یہ بات بنی قریظہ کے دِل میں اُتر گئی اور انہوں نے متحدہ محاذ کے قبائل سے یرغمال طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر یہ صاحب قریش اور غطفان  کے سرداروں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ بنی قریظہ کچھ ڈھیلے پڑتے نظر آ رہے ہیں، بعید نہیں کہ وہ تم سے یرغمال کے طور پر کچھ آدمی مانگیں اور انہیں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے کر کے اپنا معاملہ صاف کر لیں۔ اس لیے ذرا ان کے ساتھ ہوشیاری سے معاملہ کرنا۔ اس سے متحدہ محاذ کے لیڈر بنی قُریظہ کی طرف سے کھٹک گئے اور انہوں نے قُرظی سرداروں کو پیغام بھیجا کہ اس طویل محاصرے سے اب ہم تنگ آ گئے ہیں،  اب ایک فیصلہ کن لڑائی ہو جانی چاہیے،  کل تم اُدھر سے حملہ کرو اور ہم اِدھر سی یکبارگی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بنی قُریظہ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ آپ لوگ اپنے چند نمایاں آدمی یرغمال کے طور پر ہمارے حوالہ نہ کر دیں،  ہم جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اس جواب سے متحدہ محاذ کے لیڈروں کو یقین آ گیا کہ نعیم کی بات سچی تھی۔ انہوں نے یرغمال دینے سے انکار کر دیا اور اس سے بنی قُریظہ نے سمجھ لیا کہ نعیم نے ہم ٹھیک مشورہ دیا تھا۔ اِس طرح یہ جنگی چال بہت کامیاب ثابت ہوئی اور اس نے دشمنوں کے کیمپ میں پھوٹ ڈال دی۔

اب محاصرہ پچیس دن سے زیادہ طویل ہو چکا تھا۔ سردی کا زمانا تھا۔ اتنے بڑے لشکر کے لیے پانی اور غذا اور چارے کی فراہمی بھی مشکل تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔ اور پھوٹ پڑ جانے سی بھی محاصرین کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ اس حالت میں یکایک ایک رات سخت آندھی کی زور سے دشمنوں کے خیمے الٹ گئے اور ان کے اندر شدید افراتفری برپا ہو گئی۔ قدرت خداوندی کا یہ کاری وار وہ نہ سہہ سکے۔ راتوں رات ہر ایک نے اپنے گھر کی راہ لی اور صبح  جب مسلمان اٹھے تو میدان میں ایک دشمن بھی موجود نہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے میدان کو دشمنوں سے خالی دیکھ کر فوراً ارشاد فرمایا: لن تغزوکم قریش بعد عا مکم ھٰذا ولکنکم تغز ونھم۔ یعنی ’’اب قریش کے لوگ تم پر کبھی چڑھائی نہ کر سکیں گے۔ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے ‘‘۔ یہ حالات  کے بالکل صحیح اندازہ تھا۔ قریش ہی نہیں،  سارے دشمن قبائل متحدہ ہو کر اسلام کے خلاف اپنا آخری داؤ چل چکے تھے۔ اس میں ہار جانے کے بعد اب  ان میں یہ ہمت ہی باقی نہ رہی تھی کہ مدینے پر حملہ آور ہونے کی جرأت کر سکتے۔ اب حملے (offensive) کی قوت دشمنوں سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو چکی تھی۔

 

غزوۂ بنی قریظہ

 

خندق سے پلٹ کر جب حضورؐ گھر پہنچے تو ظہر کے وقت جبرئیلؑ نے آ کر حکم سنایا کہ ابھی ہتھیار نہ کھولے جائیں،  بنی قریظہ کا معاملہ باقی ہے،  ان سے بھی اسی وقت نمٹ لینا چاہئے۔ یہ حکم پاتے ہیں حضورؐ نے فوراً اعلان فرمایا کہ ’’جو کوئی سمع و طاعت  پر قائم ہو وہ عصر کی نماز اس وقت تک نہ پڑھے جب تک دیار بنی قریظہ پر نہ پہنچ جائے ‘‘۔ اس اعلان کے ساتھ ہی آپؐ نے حضرت علیؓ کو ایک دستے کے ساتھ مقدمۃ الجیش کے طور پر بنی قریظہ کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ جب وہاں پہنچے تو یہودیوں نے کوٹھوں پر چڑھ کر نبی ﷺ اور مسلمانوں پر گالیوں کی بوچھار کر دی، لیکن یہ بدزبانی ان کو اس جرم عظیم کے خمیازے سے کیسے بچا سکتی تھی کہ انہوں نے عین لڑائی کے وقت معاہدہ توڑ ڈالا اور حملہ آوروں سے مل کر مدینے کی پوری آبادی کو ہلاکت کے خطرے میں مبتلا کر دیا۔ حضرت علیؓ کے دستے کو دیکھ کر وہ سمجھے تھے کہ یہ محض دھمکانے آئے ہیں۔ لیکن جب حضورؐ کی قیادت میں پورا اسلامی لشکر وہاں پہنچ گیا اور ان کی بستی کا محاصرہ کر لیا گیا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ محاصرہ کی شدت کو وہ دو تین ہفتوں سے زیادہ برداشت نہ کر سکے اور آخر کار انہوں نے اس شرط پر اپنے آپ کو نبیﷺ کے حوالے کر دیا کہ وہ قبلہ اَوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے حق میں جو فیصلہ بھی کر دیں گے اس فریقین مان لیں گے۔ اُنہوں نے حضرت سعد بن مُعاذ رضی اللہ عنہ ان کے حق میں جو فیصلہ بھی کر دیں گے اسے فریقین مان لیں گے۔ انہوں نے حضرت سعدؓ کو اس امید پر حُکم بنایا تھا کہ زمانۂ جاہلیت میں اَوس اور بنی قریظہ کے درمیان جو حلیفانہ تعلقات مدّتوں سے چلے آ رہے تھے وہ ان کا لحاظ کریں گے اور اُنہیں بھی اسی طرح مدینہ سے نِکل جانے دیں گے جس طرح پہلے بنی قَیْنقُا ع اور بنی النضیر کو نِکل جانے دیا گیا تھا۔ خود قبیلۂ اَوس کے لوگ بھی حضرت سعد ؓ سے تقاضا کر رہے تھے کہ اپنے حلیفوں کے ساتھ نرمی برتیں۔ لیکن حضرت سعدؓ ابھی بھی دیکھ چکے تھے کہ پہلے جن دو یہودی قبیلوں کو مدینہ سے نِکل جانے کا موقع دیا تھا وہ کس طرح ساری گرد و پیش کے قبائل کو بھڑکا کر مدینے پر دس بارہ ہزار کا لشکر چڑھا لائے تھے۔ اور یہ معاملہ بھی ان کی سامنے تھا کہ اس آخری یہودی قبیلے نی عین بیرونی حملے کے موقع پر بد عہدی کر کے اہل مدینہ کو تباہ کر دینے کا کیا سامان کیا تھا۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ دیا کہ بنی قریظہ کے تمام مرد قتل کر دیے جائیں،  عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے،  اور ان کی تمام املاک مسلمانوں میں تقسیم کر دی جائیں۔ اس فیصلے پر عمل کیا گیا اور جب بنی قریظہ کی گڑھیوں میں مسلمان داخل ہوئے تو انہیں پتہ چلا کہ جنگِ احزاب میں حصہ لینے کے لیے ان غدّاروں نے پندرہ سو تلواریں،  تین سو زرہیں،  دو ہزار نیزے اور پندرہ سو ڈھالیں فراہم کی تھیں۔ اگر اللہ کی تائید مسلمانوں کے شامل حال نہ ہوتی تو یہ سارا جنگی سامان عین وقت مدینہ پر عقب سے حملہ کرنی کے لیے استعمال ہوتا جبکہ مشرکین یکبارگی خندق پار کر کے ٹوٹ پڑنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ س انکشاف کے بعد تو اس امر میں شک کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی کہ حضرت سعدؓ نے ان لوگوں کے معاملہ میں جو فیصلہ دیا وہ بالکل حق تھا۔

معاشرتی اصلاحات : جنگ اُحُد اور جنگ احزاب کے درمیان،  دو سال کا یہ زمانہ اگر چہ ایسے ہنگاموں کا زمانہ تھا جن کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ کے اصحاب کو ایک دن کی لیے بھی امن اور اطمینان نصیب نہ ہوا۔ لیکن اس پوری مدّت میں نئے مسلم معاشرے کی تعمیر،  اور ہر پہلو میں زندگی کی اصلاح کا کا م برابر جاری رہا یہی زمانہ تھا جس میں مسلمانوں قوانین نکاح و طلاق قریب قریب مکمل ہو گئے اور وراثت کا قانون بنا،  شراب اور جوئے کو حرام کیا گیا،  اور معیشت و معاشرت کے دوسرے بہت سے پہلوؤں میں نئے ضابطے نافذ کئے گئے۔

اس سلسلے کا ایک اہم مسئلہ جو اصلاح کا تقاضا کر رہا تھا تَبْنِیتْ(گود لینے یا بیٹا بنانے ) کا مسئلہ تھا۔ عرب کی لوگ جس بچے کو متبنیٰ بنا لیتے تھے وہ بالکل اُن کی حقیقی اولاد کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ اسے وراثت ملتی تھی۔ اس سی منہ بولی ماں اور منہ بولی بہنیں وہی خلا ملا رکھتی تھیں جو حقیقی بیٹے اور بھائی سے رکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ منہ بولے باپ کے مر جانے کے بعد اس کی بیوہ کا نکاح اسی طرح ناجائز سمجھا جاتا تھا جس طرح سگی بہن اور حقیقی ماں کے ساتھ کسے کا نکاح حرام ہوتا ہے۔ اور یہی معاملہ اس صورت میں بھی کیا جاتا تھا جب منہ بولا بیٹا مر جائے یا اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ منہ بولے باپ کے لیے وہ عورت سگی بہو کی طرح سمجھی جاتی تھی۔ یہ رسم قدم قدم پر نکاح اور طلاق اور وراثت کے اُن قوانین سے ٹکراتی تھی جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء میں مقرر فرمائے تھے اُن کی رُو سے جو لوگ حقیقت میں وراثت کے حق دار تھے یہ رسم ان کا حق مار کر ایک ایسے شخص دلواتی تھی جو سرے سے کوئی حق نہ رکھتا تھا۔ اُن کی رُو سے جن عورتوں اور مردوں کے درمیان رشتۂ نکاح حلال تھا، یہ رسم ان کے باہمی نکاح کو حرام کرتی تھی۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ اسلامی قانون جن بد اخلاقیوں کا سدِّ باب کرنا چاہتا تھا،  یہ رسم ان کے پھیلنے میں مدد گار کیوں کہ رسم کے طور پر منہ بولے رشتے میں خواہ کتنا ہی تقدُّس پیدا کر دیا جائے،  بہر حال منہ بولی ماں،  منہ بولی بہن اور منہ بولی بیٹی حقیقی ماں اور بیٹی کی طرح نہیں  ہو سکتی۔ ان مصنوعی رشتوں کے رسمی تقدّس پر بھروسہ کر کے مردوں اور عورتوں کے درمیان جب حقیقی رشتہ داروں کا سا خلا ملا ہو تو وہ بُرے نتائج پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان وجوہ اے اسلامی قانونِ نِکاح و طلاق،  قانونِ وراثت اور قانونِ حرمتِ زنا کا یہ تقاضا تھا کہ متبنّیٰ کو حقیقی اولاد کی طرح سمجھنے کے تخیّل کا قطعی استیصال کر دیا جائے۔

لیکن یہ تخیّل محض ایک قانونی حکم کے طور پر اتنی سی بات کر دینے سے ختم نہیں ہو سکتا تھا کہ۔۔ ’’ منہ بولا رشتہ کوئی حقیقی رشتہ نہیں ہے۔ ‘‘صدیوں کے جمے ہوئے تعصبّات اور اوہام محض اقوال سے نہیں بدل جاتے۔ حکماً لوگ اس بات کو مان بھی لیتے کہ یہ رشتے حقیقی رشتے نہیں ہیں،  پھر بھی منہ بولی ماں اور منہ بولے بیٹے کے درمیان منہ بولے بھائی اور بہن کے درمیان،  منہ بولے باپ اور بیٹی کے درمیان،  منہ بولے خسر اور بہو کے درمیان نکاح کو لوگ مکروہ سمجھتے رہتے۔ نیز ان کے درمیان خلا ملا بھی کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا۔ اس لیے ناگزیر تھا کہ یہ رسم عملاً توڑی جائے،  اور خود رسول صلی اللہ علیہ و سلم بنفسِ نفیس اس کو توڑیں۔ کیوں کہ جو کام حضورؐ نے خود کیا ہو، اور اللہ کے حکم سے کیا ہو، اس کے متعلق کسی مسلمان کے ذہن میں کراہت کا تصوّر باقی نہ رہ سکتا تھا۔ اسی بنا پر جنگِ احزاب سے کچھ پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ کیا گیا کہ آپ اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارِثہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ بیوی سے خود نکاح کر لیں،  اور اس حکم کی تعمیل آپ نے محاصرۂ بنی قریظہ کے زمانی میں فرمائی۔ (غالباً تا خیر کی وجہ یہ تھی کہ عدّت ختم ہونے کا انتظار تھا، اور اسی دَوران میں جنگی مصروفیات پیش آ گئی تھیں )۔

 

نکاحِ زینب ؓ پر پروپیگنڈے کا طوفان

 

یہ کام ہونا تھا کہ حضورؐ کے خِلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان یکلخت اُٹھ کھڑا ہوا۔ مشرکین اور منافقین اور یہود سب آپ کی پے درپے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے۔ اُحُد کے بعد احزاب اور نبی قریظہ تک دو سال کی مدّت میں جس طرح وہ زک پر زک اُٹھا تے چلے گئے تھے اس کی وجہ ان کے دلوں میں آگ لگ رہی تھی۔ وہ اس بات سے بھی مایوس ہو چکے تھے کہ اب وہ کھلے میدان میں لڑ کر کبھی آپ کو زیر کر سکیں گے۔ اس لیے انہوں نے اس نکاح کے معاملے کو اپنے لیے ایک خدا داد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ اب ہم محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اُس اخلاقی برتری کو ختم کر سکیں گے جو اُن کی طاقت اور اُن کی کامیابیوں کا اصل راز ہے چنانچہ یہ افسانے تراشے کہ (معاذاللہ) محمد صلی اللہ علیہ و سلم بہو کو دیکھ کر عاشق ہو گئے تھے،  بیٹے کو اس تعلقِ خاطر کا علم ہو گیا،  اس نے بیوی کو طلاق دے دی،  اور باپ نے اس کے بہو سے بیَاہ رچا لیا۔ حالاں کہ یہ بات صریحاً لغو تھی۔ حضرت زینبؓ حضورؐ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ بچپن سے جوانی تک اُن کی ساری عمر آپ کے سامنے گزری تھی۔ کسی وقت ان کو دیکھ کر عاشق ہو جانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔ پھر آپؐ نے خود اصرار کر کے حضرت زیدؓ سے ان کا نکاح کرایا تھا۔ ان کا سارا خاندان اس پر راضی نہ تھا کہ قریش کے اتنے اُونچے گھرانے کی لڑکی ایک آزاد کردہ غلام سے بیاہی جائے۔ خود حضرت زینب ؓ بھی اس رشتے سے ناخوش تھیں۔ مگر حضورؐ کے حکم سے سب مجبور ہو گئے،  اور حضرت زیدؓ کے ساتھ ان کی شادی کر کے عرب میں اس امر کی پہلی مثال پیش کر دی گئی کہ اسلام ایک آزاد کردہ غلام کو اُٹھا کر شرفائے قریش کے برابر لے آیا ہے۔ اگر فی الواقع حضورؐ کا کوئی میلان حضرت زینبؓ کی جانب ہوتا تو زید بن حارِثہ سے ان کا نِکاح کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی، آپ خود ان سے نِکاح کر سکتے تھے۔ لیکن بے حیا مخالفین نے ان سارے حقائق کے مو جود ہوتے یہ عشق کے افسانے تصنیف کیے،  خوب نمک مرچ لگا لگا کر ان کو پھیلایا اور اس پروپیگنڈے کا صور اس زور سے پھونکا کہ خود مسلمانوں کے اندر بھی ان کی گھڑی ہوئی روایات پھیل گئیں۔

 

پردہ کے ابتدائی احکام

 

یہ بات کہ دشمنوں کے تصنیف کیے ہوئے یہ افسانے مسلمانوں کی زبانوں پر چڑھنے سے بھی نہ رُکے اس امر کی کھلی ہوئی علامت تھی کہ معاشرے میں شہوانیت کا عنصر حدِّ اعتدال سے بڑھا ہوا تھا۔ یہ خرابی اگر موجود نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ ذہن ایسی پاک ہستی کے متعلق ایسے بے سر و پا اور اس قدر گھناؤنے افسانوں کی طرف ادنیٰ التفات بھی کرتے،  کجا کہ زبانیں ان کو دُہرانے لگتیں۔ یہ ٹھیک موقع تھا جبکہ اسلامی معاشرے میں اُن اصلاحی احکام کے نفاذ کی ابتدا کی گئی جو ’’ حجاب‘‘ (پردے ) کے عنوان سے بیان کیے جاتے ہیں۔ اِ ن اصلاحات کا آغاز اس سورے سے کیا گیا،  اور ان کی تکمیل ایک سال بعد سورۂ نور میں کی گئی، جبکہ حضرت عائشہؓ پر بہتان کا فتنہ کھڑا ہوا۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورہ نور،  دیباچہ)۔

حضور کی خانگی زندگی کے معاملات:اسی زمانہ میں دو مسئلے اور بھی توجہ طلب تھے۔ اگر چہ بظاہر ان کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خانگی زندگی سے تھا،  مگر جو ذات اپنی جان خدا کے دین کو پروان چڑھانے کے لیے کھپا رہی تھی اور ہمہ تن اس کارِ عظیم میں منہمک تھی اُس کے لیے خانگی زندگی کا سکون فراہم کرنا، اور اس کو پریشانیوں سی بچانا، اور اس کو لوگوں کے شکوک و شبہات سے محفوظ رکھنا بھی خود دین ہی کے مفاد کے لیے ضروری تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نی سرکاری طور پر ان دونوں مسئلوں کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

پہلا مسئلہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُس وقت مالی حیثیت سے تنگ حال تھے۔ ابتدائی چار سال تک تو آپؐ کا کوئی ذریعۂ آمدنی تھا ہی نہیں۔ ۴ھ میں بنی النضیر کی جلا وطنی کے بعد ان کی متروکہ زمینوں کا ایک حصّہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپؐ کی ضروریات کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ مگر وہ آپؐ کے کنبے کے لیے کافی نہ تھا۔ ادھر منصبِ رسالت کے فرائض اتنے بھاری تھے کہ وہ آپؐ کے جسم اور دِل و دِماغ کے ساری طاقتیں اور آپ کے اوقات کا ایک ایک لمحہ سونتے ڈال رہے تھے اور آپ اپنی معاش کے لیے ذرہ برابر بھی کوئی فکر یا کوشش نہ کر سکتے تھے۔ اِن حالات میں جب آپؐ ازواجِ مطہّرات خرچ کی تنگی کے باعث آپؐ کے سکون طبع میں خلل انداز ہوتی تھیں تو اس سے آپؐ کے ذہن پر دُہرا بار پڑ جاتا تھا۔

دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ حضرت زینب ؓ کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے آپؐ کی چار بیویاں موجود تھیں۔ حضرت سَودہؓ، حضرت عائشہ ؓ، حضرت حَفْصہ ؓ اور حضرت اُمِّ سَلَمہؓ۔ اُمّ المومنین حضرت زینبؓ آپؐ کی پانچویں بیوی تھیں۔ اس پر مخالفین نے یہ اعتراض اُٹھایا،  اور مسلمانوں کے دِلوں میں بھی اس سے شبہات اُبھرنے لگے کہ دوسروں کے لیے تو بیک وقت چار بیویاں رکھنا ممنوع ٹھیرا دیا گیا ہے،  مگر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ پانچویں بیوی کیسے کر لی۔

 

موضوع اور مباحث

 

یہ مسائل تھے جو سُورۂ احزاب کے نزول کے زمانے میں پیش آئے تھے اور انہی پر اس سورے میں کلام فرمایا گیا ہے۔

اس کے مضامین پر غور کرنے،  اور پس منظر کو نِگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہی کہ یہ پوری سورۃ ایک خطبہ نہیں ہے جو بیک وقت نازل ہوا ہو،  بلکہ یہ متعدد احکام و فرامین اور خطبات پر مشتمل ہے جو اُس زمانہ کے اہم واقعات کے سلسلے میں یکے بعد دیگرے نازل ہوئے اور پھر یک جا جمع کر کے ایک سورۃ کی شکل میں مرتب کر دیے گئے۔ اس کے حسبِ ذیل اجزاء صاف طور پر ممیز نظر آتے ہیں۔

۱۔ پہلا رکوع غزوۂ احزاب سے کچھ پہلے نازل شدہ معلوم ہوتا ہی۔ تاریخی پس منظر کو نِگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تواس رکوع کو پڑھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے وقت حضرت زیدؓ حضرت زینب ؓ کو طلاق دے چکے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس ضرورت کو محسوس فرما رہے تھے کہ متبنیٰ کے بارے میں جاہلیت کے تصوّرات اور اوہام و رسوم کو مٹایا جائے،  اور آپؐ کو یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ لوگ منہ بولے رشتوں کے معاملے میں محض جذباتی بنیادوں پر جس قسم کے نازک اور گہرے تصوّرات رکھتے ہیں وہ اس وقت تک ہر گز نہ مٹ سکیں گے جب تک آپؐ خود آگے بڑھ کر اس رسم کو نہ توڑ دیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہے آپؐ اس بنا پر سخت متردّد تھے اور قدم بڑھاتے ہوئے ہچکچا رہے تھے کہ اگر اس موقع پر آپؐ نے حضرت زیدؓ کی مطلّقہ بیوی سے نِکاح کیا تو اسلام کے خلاف ہنگامہ اُٹھانے کے لیے منافقین اور یہود اور مشرکین کو، جو پہلے ہی بھرے بیٹھے ہیں،  ایک زبردست شوشہ ہاتھ آ جائے گا۔ اس موقع پر رکوع اوّل کی آیات نازل ہوئیں۔

۲۔ رکوع دوّم و سوّم میں غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ پر تبصرہ فرمایا گیا ہے۔ یہ اس بات کی کھُلی علامت ہے کہ یہ دونوں رکوع ان لڑائیوں کے بعد نازل ہوئے ہیں۔

۳۔ چوتھے رکوع کے آغاز سے آیت ۳۵ تک کی تقریر دو مضامین پر مشتمل ہے۔ پہلے حصّہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کو،  جو اس تنگی و عُسرت کے زمانے میں بے صبر ہو رہی تھیں،  اللہ تعالیٰ نے نوٹِس دیا ہے کہ دنیا اور اس کی زینت، اور خدا و رسول اور آخرت میں سے کسی ایک کو انتخاب کر لو۔ اگر تمہیں پہلی چیز مطلوب ہے تو صاف کہہ دو،  تمہیں ایک دن کے لیے بھی اس تنگی میں مبتلا نہ رکھا جائے گا بلکہ بخوشی رخصت کر دیا جائے گا۔ اور اگر دوسری چیز پسند ہے تو صبر کے ساتھ اللہ اور اس کے رسو ل کا ساتھ دو۔ دوسرے حصّے میں اُس معاشرتی اصلاح کی طرف پہلا قدم اُٹھایا گیا جس کی ضرورت اسلام کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ذہن اب خود محسوس کرنے لگے تھے۔ اس سلسلہ میں اصلاح کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر سے کرتے ہوئے ازواجِ مطہرات کو حکم دیا گیا کہ تبرُّجِ جاہلیّت سے پرہیز کریں،  وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھیں اور غیر مردوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں سخت احتیاط ملحوظ رکھیں۔ یہ پردے کے احکام کا آغاز تھا۔

۴۔ آیت ۳۶ سے ۴۸ تک کا مضمون حضرت زینبؓ کے ساتھ حضورؐ کے نِکاح کے سلسلہ میں ہے۔ اس میں ان تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو مخالفین کی طرف سے اس نِکاح پر کیے جا رہے تھے،  اُن تمام شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو مسلمانوں کی دِلوں میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی تھی، مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ حضورؐ کا مرتبہ و مقام کیا ہے،  اور خود حضورؐ کو کفار و منافقین کے جھوٹے پروپیگنڈے پر صبر کی تلقین فرمائی گئی ہے۔

۵۔ آیت ۴۹میں طلاق کے قانون کی ایک دفعہ بیان ہوئی ہے۔ یہ ایک منفرد آیت ہے جو غالباً انہی واقعات کے سلسلے میں کسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔

۶۔ آیت ۵۰۔ ۵۲ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے نکاح کا خاص ضابطہ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ حضورؐ اُن متعدد پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں جو ازدواجی زندگی کے معاملہ میں عام مسلمانوں پر عائد کی گئی ہیں۔

۷۔ آیت ۵۳۔ ۵۵ میں معاشرتی اصلاح کا دوسرا قدم اُٹھایا گیا۔ یہ حسب ذیل احکام پر مشتمل ہے :

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھروں میں غیر مردوں کی آمد و رفت پر پابندی۔ ملاقات اور دعوت کا ضابطہ۔ ازواج مطہرّات کے بارے میں یہ قانون کہ گھروں میں صرف ان کے قریبی رشتہ دار آ سکتے ہیں،  باقی رہے غیر مرد، تو انہیں اگر کوئی بات کہنی ہو یا کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے کہیں یا مانگیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کے بارے میں یہ حکم کہ وہ مسلمانوں کے لیے ماں کی طرح حرام ہیں ا ور حضورؐ کے بعد بھی ان میں سے کسی کے ساتھ کسے مسلمان کا نکاح نہیں ہو سکتا۔

۸۔ آیت ۵۶۔ ۵۷ میں اُن چہ میگوئیوں پر سخت تنبیہ کی گئی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح اور آپ کی خانگی زندگی پر کی جا رہی تھیں اور اہل ایمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دشمنوں کی اس عیب چینی سے اپنے دامن بچائیں اور اپنے نبیؐ پر درود بھیجیں۔ نیز یہ تلقین بھی کی گئی ہے کہ نبیؐ تو درکنار،  اہل ایمان کو تو عام مسلمانوں پر بھی تہمتیں لگانے اور الزامات عائد کرنے سے کلّی اجتناب کرنا چاہیے۔

۹۔ آیت ۵۹ میں معاشرتی اصلاح کا تیسرا قدم اُٹھایا گیا ہے۔ اس میں تمام مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ جب گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں سے اپنے آپ کو ڈھانک کر اور گھونگٹ ڈال کر نِکلیں۔

اس کے بعد آخر سورۃ تک افواہ بازی کی اُس مہم (Whispering Campaign)پر سخت زجر و توبیخ کی گئی ہے جو منافقین اور اراذل نے اس وقت برپا کر رکھی تھی۔

 

ترجمہ

 

اے نبی! (۱)اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے۔ (۲) پیروی کرو اُس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جا رہا ہے،  اللہ ہر اس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو(۳)  اللہ پر توکل کرو، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہے (۴)۔ اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دِل نہیں رکھے ہیں (۵)  نہ اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظاہر کرتے ہو تمہاری ماں بنا دیا ہے (۶)،   اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے (۷)

یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے،  اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کی نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے (۸)  اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں (۹)  نا دانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے،  لیکن اُس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرتے کرو(۱۰)

اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے (۱۱)  بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے (۱۲)،   اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں (۱۳)،   مگر کتاب اللہ کی روس سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں،  البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کر سکتے ہو(۱۴)  یہ حکیم کتابِ الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔

اور (اے نبیؐ) یاد رکھو اُس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے،  تم سے بھی اور نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں (۱۵)  تاکہ سچے لوگوں سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے (۱۶)،   اور کافروں کے لیے تو اس نے دردناک عذاب مہیا کر ہی رکھا ہے (۱۷) ع

 

تفسیر

 

(۱)جیسا کہ ہم اس سورہ کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں،  یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زید ؓ حضرت زینبؓ کو طلاق دے چکے تھے۔ اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی یہ محسوس فرما تے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ مُنہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کے رسوم و اَوہام پر ضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقع ہے،  اب آپ خود آگے بڑھ کر اپنی منہ بولے بیٹے (زیدؓ)کی مطلّقہ سے نکاح کر لینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پر ٹوٹ جائے۔ لیکن جس وجہ سے حضورؐ اس معاملہ میں قدم اُٹھاتے ہوئے جھجک رہے تھے وہ یہ خوف تھا کہ اس سے کفار و منافقین کو، جو پہلے ہی آپؐ کی پے درپے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے،  آپؐ کے خلاف پروپیگینڈا کرنے کے لیے زبردست ہتھیار مل جائے گا۔ یہ خوف کچھ اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا کہ اس سے اسلام کو زک پہنچے گی،  دشمنوں کے پروپیگینڈے سے متاثر ہو کر بہت اے لوگ جو اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں بدگمان ہو جائیں گے،  بہت سے غیر جانبدار لوگ دشمنوں میں شامل ہو جائیں گے، اور خود مسلمانوں میں سے کمزور عقل و ذہن کے لوگ شکوک و شبہات میں پڑ جائیں گے۔ اس لیے حضورؐ یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلّیت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطر ایسا قدم اُٹھانا خلاف مصلحت ہے جس اسلام کے عظیم تر مقاصد کو نقصان پہنچ جائے۔

(۲) تقریر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے ہی فقرے میں اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کے اِن اندیشوں کو رفع فرما دیا۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ہمارے دین کی مصلحت کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں ہے،  اس کو ہم زیادہ جانتے ہیں۔ ہم کو معلوم ہے کہ کس وقت کیا کام کرنا چاہیے اور کونسا کام خلافِ مصلحت ہے۔ لہٰذا تم وہ طرز عمل اختیار نہ کرو جو کفار و منافقین کی مرضی کے مطابق ہو۔ ڈرنے کے لائق ہم ہیں نہ کہ کفار و منافقین۔

(۳)اس فقرے میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی ہے اور مسلمانوں سے بھی  اور مخالفین اسلام سے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ نبی اگر اللہ کے حکم پر عمل کر کے بدنامی کا خطرہ مول لے گا اور اپنی عزت پر دشمنوں کے حملے صبر کے ساتھ برداشت کرے گا تو اللہ سے اس کی یہ وفا دارانہ خدمت چھپی نہ رہے گی۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ نبی کی عقیدت میں ثابت قدم رہیں گے اور جو شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں گے،  دونوں ہی کا حال اللہ سے مخفی نہ رہے گا۔ اور کفار و منافقین اس کو بدنام کرنے کے لیے جو دَوڑ دھوپ کریں گے اس سے بھی اللہ بے خبر نہ رہے گا۔ لہٰذا گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ہر ایک اپنے عمل کے لحاظ سے جس جزا یا سزا کا مستحق ہو گا وہ اسے مل کر رہے گی۔

(۴) اس فقرے کے مخاطب پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ حضورؐ کو ہدایت فرمائی جا رہی ہے کہ جو فرض تم پر عائد کیا گیا ہے اِسے اللہ کے بھروسے پر انجام دو اور دنیا بھر بھی اگر مخالف ہو تو اس کے پرواہ نہ کرو۔ جب آدمی کو یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو کہ فلاں حکم اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے تو پھر اسے بالکل مطمئن ہو جانا چاہیے کہ ساری خیر اور مصلحت اسی حکم کی تعمیل میں ہے۔ اس کے بعد حکمت و مصلحت دیکھنا اس شخص کا اپنا کام نہیں ہے،  بلکہ اسے اللہ کے اعتماد پر صرف تعمیل ارشاد کرنی چاہیے۔ اللہ اس کے لیے بالکل کافی ہے کہ بندہ اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دے۔ وہ رہنمائی کے لیے کافی ہے اور مدد کے لیے بھی، اور وہی اِس امر کا ضامن بھی ہے کہ اُس کی رہنمائی میں کام کرنے والا آدمی کبھی نتائج بد سے دو چار نہ ہو۔

(۵) یعنی ایک آدمی بیک وقت مومن اور منافق،  سچا اور جھوٹا،  بدکار اور نیکو کار نہیں ہو سکتا۔ اس کے سینے میں دو دِل نہیں ہیں کہ ایک دِل میں اخلاص ہو اور دوسرے  میں خدا سے بے خوفی۔ لہٰذا ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہو سکتی ہے۔ یا تو وہ مومن ہو گا یا منافق۔ یا تو وہ کافر ہو گا یا مسلم۔ اب اگر تم کسی مومن کو منافق کہہ دو یا منافق تو اس سے حقیقتِ نفس الامری نہ بدل جائے گی۔ اس شخص کی اصل حیثیت لازماً ایک ہی رہے گی۔

(۶)’’ ظِہار‘‘ عرب کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ قدیم زمانے میں عرب کے لوگ بیوی سے لڑتے ہوئے کبھی یہ کہہ بیٹھتے تھے کہ ’’تیری پیٹھ میری لئے میری کی پیٹھ جیسی ہے ‘‘۔ اور یہ بات جب کسی کے منہ سے نکل جاتی تھی تو یہ سمجھتا جاتا تھا کہ اب یہ عورت اس پر حرام ہو گئی ہے کیوں کہ وہ اسے ماں سے تشبیہ دے چکا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیوی کو ماں کہنے یا ماں کے ساتھ تشبیہ دے دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی۔ ماں تو وہی ہے جس نے آدمی کو جنا ہے۔ محض زبان ای ماں کہہ دینا حقیقت کو نہیں بدل دیتا کہ جو بیوی تھی وہ تمہارے کہنے سے ماں بن جائے۔ (یہاں ظِہار کی متعلق شریعت کا قانون بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس کا قانون سورہ مجادلہ۔ آیات ۲۔ ۴ میں بیان کیا گیا ہے )۔

(۷)یہ اصل مقصود کلام ہے۔ اوپر کے دونوں فقرے اسی تیسری بات کو ذہن نشین کرنے کے لئے بطور دلیل ارشاد ہوئے تھے۔

(۸)اس حکم کی تعمیل میں سب سے پہلے جو اصلاح نافذ کی گئی وہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کو زید بن محمدؐ کہنے کے بجائے ان کے حقیقی باپ کی نسبت سے زید بن حارثہ کہنا شروع کر دیا گیا۔ بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی ‘ اور نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے یہ روایات نقل کی ہے کہ زید بن حارثہ کو پہلے سب لوگ زید بن محمدؐ کہتے تھے۔ یہ آیت نازل ہونے کے بعد انہیں زید بن حارثہ ؓ کہنے لگے۔ مزید بر آں اس آیت کے نزول کے بعد یہ بات حرام قرار دے دی گئی کہ کو ئی شخص اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنا نسب منسوب کرے۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : من ادعیٰ الیٰ غیر ابیہ وھویعلم انہ غیر ابیہ فالجنتہ علیہ حرام۔ ’’جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بٹیا کہا ‘ در آنحالیکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے ‘ اس پر جنت حرام ہے ‘‘۔ اسی مضمون کی دوسری روایات بھی احادیث میں ملتی ہیں۔ جن میں اس فعل کو سخت گناہ قرار دیا گیا ہے۔

(۹)یعنی اس صورت میں بھی یہ درست نہ ہو گا کہ کسی شخص سے خواہ مخواہ اس کا نسب ملایا جائے۔

(۱۰)مطلب یہ ہے کہ کسی کو پیار سے بیٹا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح ماں،  بیٹی،  بہن، بھائی وغیرہ الفاظ میں بھی اگر کسی کے لیے محض اخلاقاً استعمال کر لیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اس ارادے سے یہ بات کہنا کہ جسے بیٹا یا بیٹی وغیرہ کہا جائے اس کو واقعی وہی حیثیت دے دی جائے جو اِن رشتوں کی ہے،  اور اس کے لیے وہی حقوق ہوں جو اِن رشتہ داروں کے ہیں،  اور اس دے ساتھ ویسے ہی تعلقات ہوں جیسے ان رشتہ داروں کے ساتھ ہوتے ہیں،  یہ یقیناً  قابلِ اعتراض ہے اور اس پر گرفت ہو گی۔

(۱۱) اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ پہلے اس سلسلے میں جو غلطیاں کی گئی ہیں ان کو اللہ نے معاف کیا۔ ان پر اب کوئی باز پُرس نہ ہو گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نا دانستہ افعال پر گرفت کرنے والا نہیں ہے۔ اگر بِلا ارادہ کوئی ایسی بات کے جائے جس کی ظاہری صورت ایک ممنوع فعل کی سی ہو،  مگر اس میں درحقیقت اس ممنوع فعل کی نیت نہ ہو،  تو محض فعل کی ظاہری شکل پر اللہ تعالیٰ سزا نہ دے گا۔

(۱۲)یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مسلمانوں کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے۔ کوئی رشتہ اُس رشتے سے اور کوئی تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے،  ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچّے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں،  ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں،  ان کو گمراہ کر سکتے ہیں،  ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں،  ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں،  مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں اُن کی حقیقی فلاح ہو۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں،  حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر سکتے ہیں،  لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقعی ان کے حق میں نافع ہو۔ اور جب معاملہ یہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں         باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں،  دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپؐ سے محبت رکھیں،  اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں،  اور آپؐ کے ہر حکم سرِ تسلیم خم کر دیں۔

اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سی لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ  لا یؤمن احدُ کم حتیٰ اکونَ احبَّ الیہ من والدہ وولدہ والنّاس اجمعین۔ ’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔

(۱۳)اُسی خصوصیّت کی بنا پر جو اوپر مذکور ہوئی،  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک خصوصیّت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی ماں نہیں ہیں،  لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اُسی طرح اُن کے لیے حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سِوا دُنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے۔

اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اِس معنی میں اُمہاتِ مومنین ہیں کہان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نِکاح نہیں ہو سکتا تھا۔ باقی دوسری احکام میں وہ ماں کی طرح  نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان اُن کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا۔ ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے ماں جائی بہنیں نہ تھیں کہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہوتا۔ اُن کے بھائی بہن مسلمانوں کی لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابِلِ ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رُو سے یہ مرتبہ تمام ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور اُن کی اولاد کو مرکزِ دین بنا کر سارا نظامِ دین انہی کے گرد گھما دیا،  اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہؓ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ کو بھی ہدفِ لعن و طعن بنایا، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہو گئی جس کی رُو سے ہر اُس شخص کو انھیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس شکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضورؐ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرّات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیّت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔ ابو منصُور احمد بن ابو طالب طَبْرَسِی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبد اللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا : یا ابا الحَسَنَ انّ ھٰذاالشرف باقٍ ما دُمنا علیٰ طاعۃ اللہ تعالیٰ فا یّتھن عصت اللہ تعالیٰ بعدی بالخروج علیک فطلّقھا من الازواج واسقطھاس من شرف امّھات المؤمنین، (اے ابوالحسَن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔ لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تُو طلاق دے دیجیو اور اس کو اُمّہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو)۔

اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سر اسر بے اصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سُورۂ احزاب کی آیات ۲۸۔ ۲۹ اور ۵۱۔ ۵۲ پر غور کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے۔ کیوں کہ آیت تخییر کے بعد جن ازواجِ مطہّرات نے ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضورؐ کو باقی نہ رہا تھا۔ اس مضمون کی تشریح آگے حاشیہ نمبر۴۲ و ۹۳ میں ہم نے کر دی ہے۔

علاوہ بریں ایک غیر متعصّب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس رویت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو،  اور رسولِ پاکؐ کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالا تر و بر تر ہے،  ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دُنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تُو اُسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدّعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزّت و ناموس کا پاس کتنا کچھ ہے،  اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔

(۱۴)اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا معاملہ ہے،  اُن کے ساتھ تو مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت سب سے الگ ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کے درمیان آپس کے تعلقات اس اصول پر قائم ہوں گے کہ رشتہ داروں کے حقوق ایک دوسرے پر عام لوگوں کی بہ نسبت مقدّم ہیں۔ کوئی خیرات اس صورت میں صحیح نہیں ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ،  بال بچوں،  اور بھائی بہنوں کی ضروریات  تو پوری نہ کرے اور باہر خیرات کرتا پھرے۔ زکوٰۃ سے بھی آدمی کو پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرنی ہو گی، پھر وہ دوسرے مستحقین کو دے گا۔ میراث لازماً ان لوگوں کو پہنچے گی جو رشتے میں آدمی سے قریب تر ہوں۔ دوسرے لوگوں کو اگر وہ چاہے تو ہُبّہ یا وقف یا وصیّت کے ذریعہ سے اپنا مال دے سکتا ہے،  مگر اس طرح نہیں کہ وارث محروم رہ جائیں اور سب کچھ دوسروں کو دے ڈالا جائے۔ اس حکم الٰہی سے وہ طریقہ بھی موقوف ہو گیا جو ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنے سے شروع ہوا تھا، جس کی رُو سے محض دینی برادری کے تعلق کی بنا پر مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ وراثت تو رشتہ داری کی بنا پر ہی تقسیم ہو گی، البتہ ایک شخص ہدیے،  تحفے یا وصیّت کے ذریعہ سے اپنے کسی دینی بھائی کی کوئی مدد کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

(۱۵)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بات یاد دلاتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح آپ سے بھی اللہ تعالیٰ ایک پختہ عہد لے چکا ہے جس کی آپ کو سختی کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے۔ اس عہد سے کونسا عہد مُراد ہے ؟ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آر ہا ہے اُس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سے مُراد یہ عہد ہے کہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی خود اطاعت کرے گا اور دوسروں سے کرائے گا،  اللہ کی باتوں کو بے کم و کاست پہنچائے گا اور انہیں عملاً نافذ کرنے کی سعی و جہد میں کوئی دریغ نہ کرے گا۔ قرآن مجید میں اس عہد کا ذکر متعدّد متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً:

شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحاً وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآاِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُو االدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْافِیْہِ۔ ط(الشُورٰی۔ آیت ۱۳)

اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا تمہارے لیے وہ دین جس کی ہدایت کی تھی اس نے نوحؑ کو،  اور جس کی وحی کی گئی (اے محمدؐ) تمہاری طرف، اور جس کی ہدایت کی گئی ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو۔ اس تاکید کے ساتھ کہ تم لوگ قائم کرو اس دین کو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔

وَاِذْ اَخَذَاللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُ االْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗلِلن  وَلَاتَکْتُمُوْ نَہٗ۔ ق(آل عمران۔ ۱۸۷)

اور یاد کرو اس بات کو کہ اللہ نے عہد لیا تھا اُن لوگوں سے جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لوگ اس کی تعلیم کو بیان کرو گے اور اسے چھُپاؤ گے نہیں۔

وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَا قَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ۔ قف(البقرہ۔ ۸۳)

اور یاد کرو کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سِوا کسی کی بندگی نہ کرو گے۔

اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقْ الْکِتٰبِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خُذُوْ امَٓااٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍوَّاذْکُرُوْامَافِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔ oع (الاعراف۔ آیات ۱۶۹۔ ۱۷۱)

کیا اُن سے کتاب کا عہد نہیں لیا گیا تھا؟۔۔۔ مضبوطی کے سا تھ تھامو اُس چیز کو جو ہم نے تمہیں دی ہے اور یاد رکھو اس ہدایت کو جو اس میں ہے۔ توقع ہے کہ تم اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو گے۔

وَاذْکُرُوْانِِعْمَۃَاللہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖ لااِذْقُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔۔۔۔۔۔ (المائدہ۔ ۷)

اور اے مسلمانو! یاد رکھو اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر کیا ہے اور اُس عہد کو جو اُس نے تم سے لیا ہے جبکہ تم نے کہا ’’ ہم نے سُنا اور اطاعت کی۔ ‘‘

اس عہد کو اس سیاق و سباق میں اللہ تعالیٰ جس وجہ سے یاد دلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم شماتتِ اعداء کے اندیشے سے منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کی رسم کو توڑ تے ہوئے جھجک رہے تھے۔ آپ کو بار بار یہ شرم لاحق ہو رہی تھی کہ معاملہ ایک خاتون سے شادی کرنے کا ہے۔ میں خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ محض اصلاح معاشرہ کی خاطر یہ کام کروں،  مگر دشمن یہی کہیں گے کہ یہ کام دراصل نفس پرستی کی خاطر کیا گیا ہے اور مصلح کا لبادہ اس شخص نے محض فریب دینے کے لیے اوڑھ رکھا ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ حضورؐ سے فرما رہا ہے کہ تم ہمارے مقرر کیے ہوئے پیغمبر ہو،  تمام پیغمبروں کی طرح تم سے بھی ہمارا یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی حکم ہم دیں گے اس کو خود بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے،  لہٰذا تم کسی کے طعن و تشنیع کی پروانہ کرو، کسی سے شرم اور خوف نہ کرو، اور خدمت ہم تم سے لینا چاہتے ہیں اسے بِلا تأمّل انجام دو۔

ایک گروہ اس میثاق سے وہ میثاق مُراد لیتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کے تمام انبیاء اور ان کی اُمّتوں سے اس بات کے لیے لیا گیا تھا کہ وہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لائیں گے اور اس کا ساتھ دیں گے۔ اس تاویل کی بنیاد پر اس گروہ کا دعویٰ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور حضورؐ سے بھی یہ میثاق لیا گیا ہے کہ آپؐ کے بعد جو نبی آئے آپؐ کی اُمّت اس پر ایمان لائے گی۔ لیکن آیت کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ یہ تاویل بالکل غلط ہے۔ جس سلسلۂ کلام میں یہ آیت آئی ہے اُس میں یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع ہے نہیں ہے کہ آپؐ کے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور آپ کی اُمت کو ان پر ایمان لانا چاہیے۔ یہ مفہوم اس کالیا جائے تو یہ آیت یہاں بالکل بے محل ہو جاتی ہے۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں کوئی صراحت ایسی نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہاں میثاق سے کونسا میثاق مُراد ہے۔ لامحالہ اس کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے ہم کو قرآن مجید کے دوسرے مقامات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جہاں انبیاء سے لیے ہوئے مواثیق کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب اگر سارے قرآن میں صرف ایک ہی میثاق کا ذکر ہوتا اور وہ بعد کے آنے والے انبیاء پر ایمان لانے کے بارے میں ہوتا تو یہ خیال کرنا درست ہوتا کہ یہاں بھی میثاق سے مُراد ہی میثاق ہے۔ لیکن قرآن پاک کو جس شخص نے بھی آنکھیں کھول کر پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کتاب میں بہت سے میثاقوں کا ذکر ہے جو انبیاء علیہم السلام اور ان کی اُمتوں سے لیے گئے ہیں۔ لہٰذا اُن مختلف مواثیق میں سے وہ میثاق یہاں مُراد لینا صحیح ہو گا جو اس سیاق و سباق سے مناسبت رکھتا ہو،  نہ کہ وہ میثاق جس کے ذکر کا یہاں کوئی موقع نہ ہو۔ اسی طرح کی غلط تاویلوں سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ بعض لوگ قرآن سے ہدایت لینے نہیں بیٹھتے بلکہ اُسے ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں۔

(۱۶)یعنی اللہ تعالیٰ محض عہد لے کر نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس عہد کے بارے میں وہ سوال کرنے والا ہے کہ اس کی کہاں تک پا بندی کی گئی۔ پھر جن لوگوں نے سچائی کے ساتھ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو وفا کیا ہو گا وہی صادق العہد قرار پائیں گے۔

(۱۷)اِس رکوع کے مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو اسی سورہ کی آیات ۳۶۔ ۴۱کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔

 

ترجمہ

 

اے لوگو(۱۸)،   جو ایمان لائے ہو، یاد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اُس نے تم پر کیا ہے۔ جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں (۱۹)  اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے۔ جب وہ اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے (۲۰)  جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں،  کلیجے منہ کو آ گئے،  اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اُس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بُری طرح ہلا مارے گئے (۲۱)

یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جو وعدے ہم سے کیے تھے (۲۲) وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے۔ جب اُن میں سے ایک گروہ نے کہا کہ ’’اے یثرب کے لوگو، تمہارے لیے اب ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ہے،  پلٹ چلو(۲۳)‘‘۔  جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبیؐ سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ ’’ہمارے گھر خطرے میں ہیں (۲۴)‘‘،    حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے (۲۵)،   دراصل وہ (محاذِ جنگ سے ) بھاگنا چاہتے تھے۔ اگر شہر کے اطراف سے دشمن گھس آئے ہوتے اور اُس وقت انہیں فتنے کی طرف دعوت دی (۲۶) جاتی تو یہ اس میں جا پڑتے اور مشکل ہی سے انہیں شریکِ فتنہ ہونے میں کوئی تامل نہ ہوتا۔ ان لوگوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ یہ پیٹھ نہ پھیریں گے،  اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی باز پرس تو ہونی ہی تھی(۲۷)

اے نبیؐ! ان سے کہو، اگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہارے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہو گا۔ اس کے بعد زندگی کے مزے لوٹنے کا تھوڑا ہی موقع تمہیں مل سکے گا (۲۸)  ان سے کہو، کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہو اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے ؟ اور کون اس کی رحمت کو روک سکتا ہے اگر وہ تم پر مہربانی کرنا چاہے ؟ اللہ کے مقابلے میں تو یہ لوگ کوئی حامی و مددگار نہیں پا سکتے ہیں۔

اللہ تم میں سے اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو (جنگ کے کام میں ) رکاوٹیں ڈالنے والے ہیں،  جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ’’آؤ ہماری طرف (۲۹)‘‘،  جو لڑائی میں حصہ لیتے بھی ہیں تو بس نام گنانے کو، جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں (۳۰)  خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آ جاتے ہیں (۳۱)  یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے،  اسی لیے اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کر دئیے (۳۲)

اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے (۳۳) ع

 

تفسیر

 

(۱۸) یہاں سے رکوع ۳ تک کی آیات اُس وقت نازل ہوئی تھیں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم غزوۂ بنی قریظہ سے فارغ ہو چکے تھے۔ ان دونوں رکوعوں میں غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ کے واقعات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ ان کو پڑھتے وقت اِن دونوں غزوات کی وہ تفصیلات نگاہ میں رہنی چاہییں جو ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں۔

(۱۹) یہ آندھی اُسی وقت آ گئی تھی جبکہ دشمنوں کے لشکر مدینے پر چڑھ کر آئے تھے بلکہ اُس وقت آئی تھی جب محاصرے کو تقریباً ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ نظر نہ آنے والی ’’ فوجوں ‘‘ سے مُراد وہ مخفی طاقتیں ہیں جو انسانی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اشارے پر کام کرتے رہتی ہیں اور انسانوں کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی۔ انسان واقعات و حوادث کو صرف ان کے ظاہری اسباب پر محمول کرتا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر غیر محسوس طور پر جو قوتیں کام کرتی ہیں وہ اس کے حساب میں نہیں آتیں،   حالانکہ اکثر حالات میں انہی مخفی طاقتوں کی کار فرمائی فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ یہ طاقتیں چونکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں اس لیے ’’ فوجوں ‘‘ سے مُراد فرشتے بھی لیے جا سکتے ہیں،  اگر چہ یہاں فرشتوں کی فوجیں بھیجنے کی صراحت نہیں ہے۔

(۲۰)اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ ہر طرف سے چڑھ آئے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نجد اور خیبر سے چڑھ کر آنے والے اوپر سے آئے،  اور مکہ معظمہ کی طرف سے آنے والے نیچے سے آئے۔

(۲۱)ایمان لانے والوں سے مُراد یہاں وہ سب لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کا رسول مان کر اپنے آپ کو حضورؐ کے پیروؤں میں شامل کیا تھا،  جن میں سچے اہل ایمان بھی شامل تھے اور منافقین بھی۔ اس پیراگراف میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے گروہ کا مجموعی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اس کے بعد کے تین پیرا گرافوں میں منافقین کی روش پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ پھر آخر کے دو پیراگراف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنین صادقین کے بارے میں ہیں۔

(۲۲)یعنی اس امر کے وعدے کہ اہلِ ایمان کو اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہو گی اور آخر کار غلبہ انہی کو بخشا جائے گا۔

(۲۳) اس فقرے کے دو مطلب ہیں۔ ظاہری مطلب یہ ہے کہ خندق کے سامنے کفار کے مقابلے پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے،  شہر کی طرف پلٹ چلو۔ اور باطنی مطلب یہ ہے کہ اسلام پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے،  اب اپنے آبائی مذہب کی طرف پلٹ جانا چاہیے تاکہ سارے عرب کی دمنی مول لے کر ہم نے جس خطرے میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے اُس سے بچ جائیں۔ منافقین اپنی زبان سے اس طرح کی باتیں اس لیے کہتے تھے کہ جو ان کے دام میں آ سکتا ہو اس کو تو اپنا باطنی مطلب سمجھا دیں،  لیکن جو ان کی بات سُن کر چوکناّ ہو اور اس پر گرفت کرے اس کے سامنے اپنے ظاہر الفاظ کی آڑ لے کر گرفت سے بچ جائیں۔

(۲۴)یعنی جب بنو قریظہ بھی حملہ آوروں کے ساتھ کل گئے تو ان منافقین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لشکر سے نکل بھاگنے کے لیے ایک اچھا بہانہ ہاتھ آ گیا اور انہوں نے یہ کہہ کر رخصت طلب کرنی شروع کی کہ اب تو ہمارے گھر ہی خطرے میں پڑ گئے ہیں،  لہٰذا ہمیں جا کر اپنے بال بچوں کی حفاظت کرنے کا موقع دیا جائے۔ حالانکہ اُس وقت سارے اہل مدینہ کی حفاظت کے ذمّہ در رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ بنی قریظہ کے بد عہدی سے جو خطرہ بھی پیدا ہوا تھا اس سے شہر اور اس کے باشندوں کو بچانے کی تدبیر کرنا حضورؐ کا کام تھ نہ کہ فوج کے ایک ایک فرد کا۔

(۲۵) یعنی اس خطرے سے بچاؤ کا انتظام تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کر چکے تھے۔ یہ انتظام بھی دفاع کی اُس مجموعی  سکیم ہی کا ایک حصّہ تھا جس پر سالار لشکر کی حیثیت سے حضورؐ عمل فرما رہے تھے۔ اس لیے کوئی فوری خطرہ اس وقت نہ تھا جس کی بنا پر ان کا یہ عذر کسی درجے میں بھی معقول ہوتا۔

(۲۶) یعنی اگر شہر میں داخل ہو کر فاتح کفار اِن منافقین کو دعوت دیتے کہ آؤ ہمارے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ختم کر دو۔

(۲۷)یعنی جنگِ اُحُد کی موقع پر جو کمزوری انہوں نے دکھائی تھی اس کی بعد شرمندگی و ندامت کا اظہار کر کے ان لوگوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اب آزمائش کا کوئی موقع پیش آیا تو ہم اپنے اس قصور کی تلافی کر دیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو محض باتوں سے دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ جو شخص بھی اُس سے کوئی عہد باندھتے اُس کے سامنے کوئی نہ کوئی آزمائش کا موقع وہ ضرور لے آتا ہے تاکہ اس کا جھوٹ سچ کھل جائے۔ اس لیے وہ جنگ عہد  کے دو ہی سال بعد اُس سے بھی زیادہ بڑا خطرہ سامنے لے آیا۔

(۲۸)یعنی اِس فرار سے کچھ تمہاری عمر بڑھ نہیں جائے گی۔ اس کا نتیجہ بہر حال یہ نہیں ہو گا کہ تم قیامت تک جیو اور روئے زمین کی دولت پالو۔ بھاگ کر جیو گے بھی تو زیادہ سے زیادہ چند سال ہی جیو گے اور اُتنا ہی کچھ دنیا کی زندگی کا لطف اُٹھا سکو گے جتنا تمہارے لیے مقدّر ہے۔

(۲۹) معنی چھوڑو اس پیغمبر کا ساتھ۔ کہاں دین و ایمان اور حق و صداقت کے چکّر میں پڑے ہو؟ اپنے آپ کو خطرے اور مصائب میں مبتلا کرنے کے بجائے وہی عافیت کوشی کی پالیسی اختیار کر جو ہم نے اختیار کر رکھی ہے۔

(۳۰) یعنی اپنی محنتیں،  اپنے اوقات،  اپنی فکر، اپنے مال، غرض کوئی چیز بھی وہ اُس راہ میں صرف کرنے کے لیے بخوشی تیار نہیں ہیں جس میں مومنین صادقین اپنا سب کچھ جھونکے دے رہے ہیں۔ جان کھپانا اور خطرے انگیز کرنا تو بڑی چیز ہے،  وہ کسی کام میں بھی کھلے دِل سے اہلِ ایمان دا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔

(۳۱)لغت کے اعتبار سے اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ لڑائی سے جب تم کامیاب پلٹے ہو تو وہ بڑے تپاک سے تمہارا استقبال کرتے ہیں اور چرب زبانی سے کام لے کر یہ دھونس جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی بڑے مومن ہیں اور ہم نے بھی اس کام کو فروغ دینے میں حصہ لیا ہے،  لہٰذا ہم بھی مالِ غنیمت کے حق دار ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر فتح نصیب ہوتی ہے تو مالِ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر یہ لوگ زبان کی بڑی تیزی دکھاتے ہیں اور بڑھ بڑھ کر مطالبے کرتے ہیں کہ لاؤ ہمارا حصّہ،  ہم نے بھی خدمات انجام دی ہیں،  سب کچھ تم ہی لوگ نہ لُوٹ لے جاؤ۔

(۳۲) یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد جو نمازیں انہوں نے پڑھیں،  جو روزے رکھے،  جو زکوٰتیں دیں،  اور بظاہر جو نیک کام بھی کیے ان سب کو اللہ تعالیٰ کالعدم قرار دے دیگا اور ان کا کوئی اجر انھیں نہ دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلہ اعمال کی ظاہری شکل پر نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ اس ظاہر کی تہ میں ایمان اور خلوص ہے یا نہیں۔ جب یہ چیز سرے سے ان کے اندر موجود ہی نہیں ہے تو یہ دکھاوے کے اعمال سراسر بے معنی ہیں۔ اس مقام پر یہ امر گہری توجہ کا طالب ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسولؐ کا اقرار کرتے تھے،  نمازیں پڑھتے تھے،  روزے رکھتے تھے،  زکوٰۃ بھی دیتے تھے،  اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے دوسرے نیک کاموں میں بھی شریک ہوتے تھے،  ان کی بارے میں صاف صاف فیصلہ دے دیا گیا ہے کہ یہ سرے سے ایمان لائے ہی نہیں۔ اور یہ فیصلہ صرف اس بنیاد پر دیا گیا ہے کہ کفر اور اسلام کی کشمکش میں جب کڑے آزمائش کا وقت آیا تو انہوں نے دوغلے پن کا ثبوت دیا،  دین کے مفاد یا اپنے مفاد کو ترجیح دی اور اسلام کی حفاظت کے لیے جان، مال اور محنت صَرف کرنے میں دریغ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ فیصلے کا اصل مدار یہ ظاہری اعمال نہیں ہیں،  بلکہ یہ سوال ہے کہ آدمی کی وفاداریاں کس طرف ہیں۔ جہاں خدا اور اس کے دین سے وفاداری نہیں ہے وہاں اقرار ایمان اور عبادات اور دوسری نیکیوں کی کوئی قیمت نہیں۔

(۳۳) یعنی اِن کے اعمال کوئی وزن اور قیمت نہیں رکھتے کہ ان کو ضائع کر دینا اللہ کو گراں گزرے۔ اور یہ لوگ کوئی زور بھی نہیں رکھتے کہ ان کے اعمال کو ضائع کرنا اُس کے لیے دُشوار ہو۔

 

ترجمہ

 

در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا(۳۴)،   ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (۳۵)  اور سچے مومنوں (کا حال اس وقت یہ تھا کہ (۳۶) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ ’’یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی‘‘(۳۷)  اس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچّا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے (۳۹)  انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچّوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کر لے،  بے شک اللہ غفور و رحیم ہے۔

اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے،  اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ پھر اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا(۴۰)، ع

 

تفسیر

 

(۳۴) جس سیاق و سباق میں یہ آیت ارشاد ہوئی ہے اس کے لحاظ سے رسُولؐ پاک کے طرزِ عمل کو اس جگہ نمونہ کے طور پر پیش کرنے سے مقصُود اُن لوگوں کو سبق دینا تھا جنہوں نے جنگِ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا۔ اُن سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ایمان و اسلام اور اتباعِ رسول کے مدّعی تھے۔ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسولؐ کے پیروؤں میں تم شامل ہوئے ہو اُس کا اس موقع پر کیا رویّہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو۔ خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو،  پھر تو اس کی پیروؤں کی طرف سے اِن کمزوریوں کا اظہار معقول ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حال یہ تھا کہ ہر مشقت جس کا آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپؐ خود سب کے ساتھ شریک تھے،  بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوستوں نے اُٹھائی ہو اور آپؐ نے نہ اُٹھائی ہو۔ خندق کھودنے والوں میں آپؐ خود شامل تھے۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اُٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپؐ کا حصّہ بالکل برابر کا تھا۔ محاصرے کے دَوران میں آپؐ ہر وقت محاذ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے۔ بنی قریظہ کی غدّاری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچّے مبتلا تھے اسی میں آپؐ کے بال بچّے بھی مبتلا تھے۔ آپؐ نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوں کے لیے نہ ہو۔ جس مقصدِ عظیم کے لیے آپؐ دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کر رہے تھے اُس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپؐ خود اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار تھے۔ اس لیے جو کوئی بھی آہؐ کے اتباع کا مدّعی تھا اسے یہ نمونہ  دیکھ کر اس کی  پیروی کرنی چاہیے تھی۔

یہ تو موقع محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے۔ مگر اس کے الفاظ عام ہی اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اس کے رسولؐ کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے،  بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملہ میں آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں۔

(۳۵)یعنی اللہ سے غافل آدمی کے لیے تو یہ زندگی نمونہ نہیں ہے مگر اُس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو کبھی کبھار اتفاقاً خدا کا نام لے لینے والا نہیں بلکہ کثرت سے اس کو یاد کرنے اور یاد رکھنے والا ہو۔ اسی طرح یہ زندگی اُس شخص کے لیے تو نمونہ نہیں ہے جو اللہ سے کوئی اُمّید اور آخرت کے آنے کی کوئی توقع نہ رکھتا ہو، مگر اُس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو اللہ کے فضل اور اس کی عنایات کا اُمیدوار ہو اور جسے یہ بھی خیال ہو کہ کوئی آخرت آنے والی ہے جہاں اس کی بھلائی کا سارا انحصار ہی اس پر ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کا رویّہ رسُولِؐ خُدا کے رویّے سے کس حد تک قریب تر رہا ہے۔

(۳۶) رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے نمونے کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب اللہ تعالیٰ صحابۂ کرام کے طرزِ عمل کو نمونے کے طور پر پیش فرماتا ہے تاکہ ایمان کے  جھوٹے مدعیوں اور سچّے دِل سے رسولؐ کی پیروی اختیار کرنے والوں کا کردار ایک دوسرے کے مقابلہ میں پوری طرح نمایاں کر دیا جائے۔ اگر چہ ظاہری اقرارِ ایمان میں وہ اور یہ یکساں تھے۔ مسلمانوں کے گروہ میں دونوں کا شمار ہوتا تھا اور نمازوں میں دونوں شریک ہوتے تھے۔ لیکن آزمائش کی گھڑی پیش آنے پر دونوں ایک دوسرے سے چھٹ کر الگ ہو گئے اور صاف معلوم ہو گیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے مخلص وفادار کون ہیں اور محض نام کے مسلمان کون۔

(۳۷)اس موقع پر آیت نمبر ۱۲ کو نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ وہاں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ منافق اور دِل کے روگی تھے انہوں نے دس بارہ ہزار کے لشکر کو سامنے سے اور بنی قریظہ کو پیچھے سے حملہ آور ہوتے دیکھا تو پُکار پکار کر کہنے لگے کہ’’ سارے وعدے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم سے کیے تھے محض جھوت اور فریب نکلے کہا تو ہم سے یہ گیا تھا کہ دینِ خدا پر ایمان لاؤ گے تو خدا کی تائید تمہاری پشت پر ہو گی،  عرب و عجم پر تمہارا سکّہ رواں ہو گا،  اور قیصر و کسریٰ کے خزانے تمہارے لیے کھُل جائیں گے۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ سارا عرب ہمیں مٹا دینے پر تُل گیا ہے اور کہیں سے فرشتوں کی وہ فوجیں آتی نظر نہیں آ رہیں جو ہمیں اس سیلاب بلا سے بچا لیں۔ ‘‘ اب بتایا جا رہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے وعدوں کا ایک مطلب تو وہ تھا جو اُن جھوٹے مدّعیانِ ایمان نے سمجھا تھا۔ دوسرا مفہوم وہ ہے جو ان صادق الایمان مسلمانوں نے سمجھا۔ خطرات اُمنڈتے دیکھ کر اللہ کے وعدے تو ان کو بھی یاد آئے،  مگر یہ وعدے نہیں کہ ایمان لاتے ہی اُنگلی ہلائے بغیر تم دنیا کے فرمانروا ہو جاؤ گے اور فرشتے آ کر تمہاری تاجپوشی کی رسم ادا کریں گے،  بلکہ یہ وعدے کہ سخت آزمائشوں سے تم کو گزرنا ہو گا،  مصائب کے پہاڑ تم پر ٹوٹ پڑیں گے،  گراں ترین قربانیاں تمہیں دینی ہوں گی، تب کہیں جا کر اللہ کی عنایات تم پر ہوں گی اور تمہیں دنیا اور آخرت کی وہ سرفرازیاں بخشی جائیں گی جن کا وعدہ اللہ نے اپنے مومن بندوں سے کیا ہے :

اَمْ حَسِبْتُمْ اَن تَدْ خُلُواالْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ۔ ط  مَسَّتْھُمُ الْبَاْ سَآ ئُ وَالضَّرَّآئُ وَزُلْزِلُوْ احَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ امَعَہٗ مَتٰی نَصْرُاللہِ۔ ط۔ اَلَآاِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبُٗ O(البقرہ۔ آیت ۲۱۴)

کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں بس یوں ہی داخل ہو جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی وہ حالات تو تم پر گزرے ہی نہیں جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکے ہیں۔ ان پر سختیاں اور مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا مارے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی پکار اُٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد۔۔ سنو، اللہ کی مدد قریب ہے۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓااَنْیَّقُوُلُوْٓااٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَoوَلقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنً صَدَقُوْاوَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِ بِیْنَo(العنکبوت: ۲۔ ۳)

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یہ کہنے پر وہ چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ ہم ایمان لائے ‘‘ اور انھیں آزمایا نہ جائیگا؟ حالانکہ ہم نے اُن سب لوگوں کو آزمایا ہے جو اُن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔

(۳۸) یعنی اس سیلابِ بلا کو دیکھ کر ان کے ایمان متزلزل ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئے،  اور اللہ کی فرماں برداری سے بھاگ نکلنے کے بجائے وہ اور زیادہ یقین و اطمینان کے ساتھ اپنا سب کچھ اُس کے حوالے کر دینے پر آمادہ ہو گئے۔

اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑ جاتی ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے،  یا کسی چیز سے منع کرتا ہے،  یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشاتِ نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اُس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہو گی،  اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہو گا۔ اگر چہ ابتداءً آدمی صرف کلمۂ اسلام کو قبول کر لینے سے مومن و مسلم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ کوئی سکن و جامد حالت نہیں ہی جو بس ایک ہی مقام پر ٹھیری رہتی ہو، بلکہ اس میں تنزل اور ارتقاء دونوں کے امکانات ہیں۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزّل کی موجب ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سرِ مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہو جائے اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو، اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سر بلندی کے لیے لگن اور دھُن جتنی بڑھتی چلی جائے،  ایمان اُسی نسبت سے پڑھتا چلا جاتا ہے،  یہاں تک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخِل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے۔ مسلمان مانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پاؤ،  یا یہ دوگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں،  یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کی حقوق زیادہ ہوں،  اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں۔ اِن اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابو حنیفہؒ نے یہ فرمایا ہے کہ  الایمان لا یزید ولا ینقص، ’’ایمان کم و بیش نہیں ہوتا‘‘۔

(۳۹)یعنی کوئی اللہ کی راہ میں جان دے چکا ہے اور کوئی اس کے لیے تیار ہے کہ وقت آئے تو اس کے دین کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کر دے۔

(۴۰)یعنی یہود بنی قریظہ۔

 

ترجمہ

 

اللہ ان کی گڑھیوں سے انہیں اتار لایا اور ان کے دلوں میں اس نے ایسا رُعب ڈال دیا کہ آج ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہو اور دوسرے گروہ کو قید کر رہے ہو۔ اس نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور وہ علاقہ تمہیں دیا جسے تم نے کبھی پامال نہ کیا تھا۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے نبیؐ(۴۱)!

اپنی بیویوں سے کہو،  اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور دارِ آخرت کی طالب ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکوکار  ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے (۴۲)  نبیؐ کی بیویو، تم میں سے جو کسی صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا(۴۳)،   اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے (۴۴)  اور تم میں سے جو اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل کرے گی اس کو ہم دوہرا اجر دیں گے (۴۵) اور ہم نے اس کے لیے رزقِ کریم مہیا کر رکھا ہے۔

نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو(۴۶)  اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے،  بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘(۴۷)  اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو(۴۸) اور سابق دَورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو(۴۹)  نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہل بیت نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے (۵۰)  یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں (۵۱)  بے شک اللہ لطیف (۵۲)اور باخبر ہے۔  ع

 

تفسیر

 

(۴۱) یہاں سے نمبر ۳۵ تک کی آیات جنگِ احزاب اور بنی قُریظہ سے متصل زمانے میں نازل ہوئی تھیں۔ ان کا پس منظر ہم دیباچہ میں مختصراً بیان کر آئے ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ اس زمانے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپؐ کی ازواج آپؐ کے گرد بیٹھی ہیں اور آپؐ خاموش ہیں۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ کو خطاب کر کے فرمایا :

حضرت عمر ؓ کو خطاب کر کے فرمایا : ’’ھُنَّ کَمَا تَرٰی یَسْاءَ لْنَبِی النفقۃ، ‘‘ یہ میرے گرد بیٹھی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ یہ مجھ سے خرچ کے لیے روپیہ مانگ رہی ہیں ‘‘۔ اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ علیہ و سلم کو تنگ کرتی ہو اور وہ چیز مانگتی ہو جو آپؐ کے پاس نہیں ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ اس وقت کیسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے اور کفر و اسلام کی انتہائی شدید کشمکش کے زمانے میں خرچ کے تقاضے مزاجِ مبارک پر کیا اثر ڈال رہے تھے۔

(۴۲) اس آیت کے نزول کے وقت حضورؐ کے نکاح میں چار بیویاں تھیں،  حضرت سَودہؓ، حضرت حفصہؓ، اور حضرت ام سَلمہؓ۔ ابھی حضرت زینب ؓ سے حضورؐ کا نکاح نہیں ہوا تھا۔ (احکام لابن العربی طبع مصر  ۱۹۵۸ عیسوی،  جلد ۳، ص ۱۳۔ ۱۵۱۲)۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپؐ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ ؓ سے گفتگو کی اور فرمایا ’’ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں،  جواب دینے میں جلدی نہ کرنا، اپنے والدین کی رائے لے لو، پھر فیصلہ کرو ‘‘پھر حضورؐ نے ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آیا ہے اور یہ آیت ان کو سنا دی۔ انھوں نے عرض کیا، ’’ کیا اس معاملہ کو میں اپنے والدین سے پوچھوں ؟میں تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور دار آخرت کو چاہتی ہوں۔ ‘‘ اس کے بعد حضورؐ باقی ازواج مطہرات میں سے ایک ایک سے یہی بات فرمائی، اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ ؓ نے دیا تھا۔ مسند احمد،  مسلم،  نَسائی)

اِصطلاح میں اس کو تخییر کہتے ہیں،  یعنی بیوی کو اس امر کا اختیار دینا کہ وہ شوہر کے ساتھ رہنے یا اس سے جدا ہو جانے کے درمیان کسی ایک چیز کا خود فیصلہ کر لے۔ یہ تخییر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر واجب تھی،  کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حضورؐ کو حکم دیا تھا۔ اگر ازواجِ مطہرات میں سے کوئی خاتون علیٰحدگی کا پہلو اختیار کرتیں تو آپؐ سے آپ جُدا نہ ہو جاتیں بلکہ حضورؐ کے جدا کرنے سے ہوتیں،  جیسا کہ آیت کے الفاظ’’ آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں ‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن حضورؐ پر یہ واجب تھا کہ اس صورت میں اُن کو جدا کر دیتے،  کیوں کہ نبی کی حیثیت سے آپ کا یہ منصب نہ تھا کہ اپنا وعدہ پورا نہ فرماتے۔ جدا ہو جانے کے بعد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُمّہات المومنین کے زمرے سے خارج ہو جاتیں اور اُن سے کسی دوسرے مسلمان کا نکاح حرام نہ ہوتا،  کیوں کہ وہ دُنیا اور اس کی زینت ہی کے لیے تو رسُولِؐ پاک سے علیٰحدگی اختیار کرتیں جس کا حق انہیں دیا گیا تھا، اور ظاہر ہے کہ ان کا یہ مقصد نکاح سے محروم ہو جانے کی صورت میں پورا نہ ہو سکتا تھا۔ دوسری طرف آیت کا منشا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن ازواج نے اللہ اور اس کے رسولؐ اور دارِ آخرت کو پسند کر لیا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضورؐ کے لیے باقی نہ رہا، کیوں کہ تخییر کے دو ہی پہلو تھے۔ ایک یہ کہ دنیا کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جُدا کر دیا جائے۔  دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جدا نہ کیا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ ان میں سے جو پہلو بھی کوئی خاتون کرنیں ان کے حق میں دوسرا پہلو آپ سے آپ ممنوع ہو جاتا تھا۔

اسلامی فقہ میں تخییر دراصل تفویض طلاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی شوہر اس ذریعہ سے بیوی کو اختیار دے دیتا ہے کہ چاہے تو اس کے نکاح میں رہے ورنہ الگ ہو جائے۔ اس مسئلہ میں قرآن و سنت سے استنباط کر کے فقہاء نے جو احکام بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :

۱۔ یہ اختیار ایک دفعہ عورت کو دے دینے کے بعد شوہر نہ تو اسے واپس لے سکتا ہے اور نہ عورت کو اُس کے استعمال سے روک سکتا ہے۔ البتہ عورت کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس اختیار کو استعمال ہی کرے۔ وہ چاہے تو شوہر کے ساتھ رہنے پر رضا مندی ظاہر کر دے،  چاہے علیٰحدگی کا اعلان کر دے،  اور چاہے تو کسی چیز کا اظہار نہ کرے اور اس اختیار کو یوں ہی ضائع ہو جانے دے۔

۲۔ اس اختیار کے عورت کی طرف منتقل ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ اوّل یہ کہ شوہر نے یا تو اسے صریح الفاظ میں طلاق کا اختیار دیا ہو، یا اگر طلاق کی تصریح نہ کی ہو تو پھر اس کی نیت یہ اختیار دینے کی ہو۔ مثلاً اگر وہ کہے ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ یا’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘تو اس طرح کے کنایات میں شوہر کی نیت کے بغیر طلاق کا اختیار عورت کی طرف منتقل نہ ہو گا۔ اگر عورت اس کا دعویٰ کرے اور شوہر بحلف یہ بیان دے کہ اس کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی نہ تھی تو شوہر کا بیان قبول کیا جائے گا۔ اِلّا یہ کہ عورت اس امر کی شہادت پیش کر دے کہ یہ الفاظ نا چاقی اور جھگڑے کی حالت میں،  یا طلاق کی باتیں کرتے ہوئے کہے گئے تھے،  کیوں کہ اس سیاق و سباق میں اختیار دینے کے معنی یہی سمجھے جائیں گے کہ شوہر کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی تھی۔۔ دوّم یہ کہ عورت کو معلوم ہو کہ یہ اختیار اسے دیا گیا ہے۔ اگر وہ غائب ہو تو اُسے اس کی اطلاع ملنی چاہیے،  اور اگر موجود ہو تو اسے یہ الفاظ سُننے چاہییں۔ جب تک وہ سُنے نہیں،  یا اسے اس کی خبر نہ پہنچے اختیار اس کی طرف منتقل نہ ہو گا۔

۳۔ اگر شوہر کسی وقت کی تعیین کے بغیر مطلقاً اس کو اختیار دے تو عورت اس اختیار کو کب تک استعمال کر سکتی ہے ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ جس نشست میں شوہر اس سے یہ بات کہے اُسی نشست میں عورت اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ اگر وہ کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے اُٹھ جائے،  یا کسی ایسے کام میں مشغول ہو جائے جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ وہ جواب نہیں دینا چاہتی،  تو اس کا اختیار باطل ہو جائے گا۔ یہ رائے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ،  حضرت ابن مسعودؓ، حضرت جابرؓ بن عبد اللہ، جابر بن زید، عطاء، مجاہر، شَعبِی،  نَخَعِی، امام مالک، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام اَوزاعی، سفیان ثَوری اور ابو ثَور کی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا اختیار اس نشست تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اس کے بعد بھی اسے استعمال کر سکتی ہے۔ یہ رائے حضرت حَسَن بصری، قتَادہ اور زُہْری کی ہے۔

۴۔ اگر شوہر وقت کی تعیین کر دے،  مثلاً کہے کہ ایک مہینے یا ایک سال تک تجھے اختیار ہے،  یا اتنی مدّت تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے تو یہ اختیار اسی مدّت تک اس کو حاصل رہے گا۔ البتہ اگر وہ کہے کہ تو جب چاہے اس اختیار کو استعمال کر سکتی ہے تو اس صورت میں اس کا اختیار غیر محدود ہو گا۔

۵۔ عورت اگر علیٰحدگی اختیار کرنا چاہے تو اسے واضح اور قطعی الفاظ میں اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ مبہم الفاظ جن سے مدّعا واضح نہ ہوتا ہو، مؤثر نہیں ہو سکتے۔

۶۔ قانوناً شوہر کی طرف سے عورت کو اختیار دینے کے تین صیغے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کہے ’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘ دوسرے یہ کہ وہ کہے ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ تیسرے یہ کہ وہ کہے ’’ تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے۔ ‘‘ ان میں سے ہر ایک کے قانونی نتائج الگ الگ ہیں :

الف۔ ’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘ کے الفاظ اگر شوہر نے کہے ہوں اور عورت اس کے جواب میں کوئی صریح بات ایسی کہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ علیٰحدگی اختیار کرتی ہے تو حنیفہ   کے نزدیک ایک طلاق بائن پڑ جائے گی(یعنی اس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہ ہو گا،    لیکن عدّت گزر جانے پر یہ دونوں پھر چاہیں تو باہم نکاح کر سکتے ہیں )۔ اور اگر شوہر نے    کہا ہو کہ’’ ایک طلاق کی حد تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘ تو اس صورت میں ایک            طلاق رجعی پڑے گی( معنی عدّت کے اندر شوہر رجوع کر سکتا ہے ) لیکن اگر شوہر نے  معاملہ عورت کے ہاتھ میں دیتے ہوئے تین طلاق کی نیت کی ہو، یا اس کی تصریح کی ہو تو   اس صورت میں عورت کا اختیار طلاق ہی کا ہم معنی ہو گا خواہ و ہ بصراحت اپنے اوپر تین    طلاق وارد کرے یا صرف ایک بار کہے کہ میں نے علیٰحدگی اختیار کی یا اپنے آپ کو طلاق   دی۔

ب۔   ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اگر شوہر نے عورت کو علیٰحدگی کا اختیار دیا ہو اور  عورت علیٰحدگی اختیار کرنے کی تصریح کر دے تو حنیفہ کے نزدیک ایک ہی طلاق بائن    پڑے گی خواہ شوہر کی نیت تین طلاق کا دینے کی ہو، البتہ اگر شوہر کی طرف سے تین  طلاق کا اختیار دینے کی تصریح ہو تب عورت کے اختیارِ طلاق سے تین طلاقیں واقع ہوں   گی۔ امام شافعیؒ کے نزدیک اگر شوہر نے اختیار دیتے ہوئے طلاق کی نیت کی ہو اور عورت علیٰحدگی اختیار کرے تو ایک طلاق رجعی واقع ہو گی۔ امام مالک ؒ کے نزدیک    مدخولہ بیوی پر تین طلاقیں پڑ جائیں گی لیکن اگر غیر مدخولہ کے معاملہ میں شوہر ایک  طلاق کی نیت کا دعویٰ کرے تو اسے قبول کر لیا جائے گا۔

ج۔  ’’ تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے ‘‘ کہنے کی صورت میں اگر عورت طلاق کا اختیار استعمال کرے تو طلاق رجعی ہو گی نہ کہ بائن۔

۷۔ اگر مرد کی طرف سے علیٰحدگی کا اختیار دیے جانے کے بعد عورت اسی کی بیوی بن کر رہنے پر اپنی رضا مندی ظاہر کر دے تو کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔ یہی رائے حضرت عمرؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عائشہ ؓ،  حضرت ابو الدرداءؓ،  ابن عباسؓ، اور ابن عمرؓ، کی ہے اور اسی رائے کو جمہور فقہاء نے اختیار کیا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے مسروق نے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا : خیّر رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نساء ہ فا خترنہ  اکان ذٰلک طلاقاً؟’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بیویوں کو اختیار دیا تھا اور انہوں نے حضورؐ ہی کے ساتھ رہنا پسند کر لیا تھا،  پھر کیا اسے طلاق شمار کیا گیا‘‘ ؟اس معاملہ میں صرف حضرت علیؓ اور زیدؓ بن ثابت کی یہ رائے منقول ہوئی ہے کہ ایک طلاق رجعی واقع ہو گی۔ لیکن دوسری روایت ان دونوں بزرگوں سے بھی یہی ہے کہ کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔

(۴۳)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہّرات سے کسی فحش حرکت کا اندیشہ تھا۔ بلکہ اس سے مقصود حضورؐ کی ازواج کو یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں ان کا مقام جس قدر بلند ہے اسی کے لحاظ سے ان کی ذمّہ داریاں بھی  بہت سخت ہیں،  اس لیے ان کا اخلاقی رویہّ انتہائی پاکیزہ ہونا چاہیے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لِئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ، ’’اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا سب کیا کرایا برباد ہو جائے گا‘‘ (الزمر۔ آیت ۶۵) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ حضورؐ سے شرک کا کوئی اندیشہ تھا، بلکہ اس سے مقصود حضورؐ کو اور آپؐ کے واسطہ سے عام انسانوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ شرک کتنا خطرناک جرم ہے جس سے سخت احتراز لازم ہے۔

(۴۴)۔ یعنی تم اس بھُلاوے میں نہ رہنا کہ نبی کی  بیویاں ہونا تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچا سکتا ہے،  یا تمہارے مرتبے کچھ ایسے بلند ہیں کہ اُن کی وجہ سے تمہیں پکڑنے میں اللہ کو کوئی دشواری پیش آ سکتی ہے۔

(۴۵)۔ گناہ پر دوہرے عذاب اور نیکی پر دوہرے اجر کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے میں کسی بلند مرتبے پر سرفراز فرماتا ہے وہ بالعموم لوگوں کے رہنما بن جاتے ہیں اور بندگانِ خدا کی بڑی تعداد بھلائی اور بُرائی میں انہی کی پیروی کرتی ہے۔ اُن کی بُرائی تنہا انہی کی بُرائی نہیں ہوتی بلکہ ایک قوم کے بگاڑ کی موجب بھی ہوتی ہے اور ان کی بھلائی صرف انہی کی انفرادی بھلائی نہیں ہوتی بلکہ بہت سے انسانوں کی فلاح کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس لیے جب وہ بُرے کام کرتے ہیں تو اپنے بگاڑ کے ساتھ دوسروں کے بگاڑ کی بھی سزا پاتے ہیں۔ اور جب وہ نیک کام کرتے ہیں تو انہیں اپنی نیکی کے ساتھ اس بات کی جزا بھی ملتی ہے کہ انہوں نے دوسروں کو بھلائی کی راہ دکھائی۔

اس آیت سے یہ اصول بھی نکلتا ہے کہ جہاں جتنی زیادہ حرمت ہو گی اور جس قدر زیادہ امانت کی توقع ہو گی، وہاں اسی قدر زیادہ ہتک حرمت اور ارتکابِ خیانت کا جرم شدید ہو گا اور اسی قدر زیادہ اس کا عذاب ہو گا۔ مثلاً مسجد میں شراب پینا اپنے گھر میں شراب پینے سے شدید تر جرم ہے اور اس کی سزا زیادہ سخت ہے۔ محرّمات سے زنا کرنا غیر عورت سے زنا کی بہ نسبت اشدّ ہے اور اس پر زیادہ سخت عذاب ہو گا۔

(۴۶)۔ یہاں سے آخر پیراگراف تک کی آیات وہ ہیں جن سے اسلام میں پردے کے احکام کا آغاز ہوا ہے۔ اِن آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں اِن اصلاحات کو نافذ کرنا ہے۔ ازواجِ مطہّرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرز زندگی کی ابتدا ہو گی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین خود اس کی تقلید کریں گی، کیونکہ یہی گھر اُن کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ بعض لوگ صرف اس بنیاد پر کہ ان آیات کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہّرات سے ہے،  یہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں کہ یہ احکام انہی کے لیے خاص ہیں۔ لیکن آگے ان آیات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اسے پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ کونسی بات ایسی ہے جو حضورؐ کی ازواج کے لیے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لیے مطلوب نہ ہو ؟ کیا اللہ تعالیٰ کا منشا یہی ہو سکتا تھا کہ صرف ازواجِ مطہّرات ہی گندگی سے پاک ہوں،  اور وہی اللہ و رسولؐ کی اطاعت کریں،  اور وہی نمازیں پڑھیں اور زکوٰۃ دیں ؟ اگر یہ منشا نہیں ہو سکتا تو پھر گھروں میں چین سے بیٹھے اور تبرُّج جاہلیت سے پرہیز کرنے اور غیر مردوں کے ساتھ دبی زبان سے بات نہ کرنے کا حکم ان کے لیے کیسے خاص ہو سکتا ہے اور باقی مسلمان عورتیں اس سے مستثنیٰ کیسے ہو سکتی ہیں ؟ کیا کوئی معقول دلیل ایسی ہے جس کی بنا پر ایک ہی سلسلۂ کلام کے مجموعی احکام میں سے بعض کو عام اور بعض کو خاص قرار دیا جائے ؟

رہا یہ فقرہ کہ ’’ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘ تو اس سے بھی یہ مطلب نہیں عام عورتوں کو تو بن ٹھن کر نکلنا چاہے یے اور غیر مردوں سے خوب لگاوٹ کی باتیں کرنی چاہییں ‘ البتہ تم ایسا طرزِ عمل اختیار نہ کرو۔ بلکہ اس کے برعکس یہ طرزِ کلام کچھ اس طرح کا ہی جیسے ایک شریف آدمی اپنے بچے سے کہتا ہے کہ’’ تمہیں گالی نہ بَکنی چاہیے۔ ‘‘ اس سے کوئی عقلمند آدمی بھی کہنے والے کا یہ مدّعا اخذ نہ کرے گا کہ وہ صرف اپنے بچے کے لیے گالیاں بَکنے کو بُرا سمجھتا ہے،  دوسرے بچوں میں یہ عیب موجود رہے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

(۴۷)۔ یعنی ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے،  لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور اندازِ گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے بات کرنے والے مرد کے دِل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزر سکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جا سکتی ہے۔ اُس کے لہجے میں کوئی لوچ نہ ہو،  اُس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو،  اُس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھُلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انگیخت پیدا کر دے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمّت دلائے۔ اس طرزِ گفتگو کے متعلق اللہ تعالیٰ ؟صاف فرماتا ہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جس کے دِل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں یہ فاسقات و فاجرات کا طرز کلام ہے نہ کہ مومناتِ متّقیات کا۔ اس کے ساتھ اگر سُورۂ نور کی وہ آیت بھی دیکھی جائے جس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ (اور زمین پر اس طرح پاؤں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہو) تو ربّ العٰلمین کا صاف منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اور اگر بضرورت اجنبیوں سے بولنا پڑ جائے تو پوری احتیاط کے ساتھ بات کریں۔ اسی بنا پر عورت کے لیے اذاں دینا ممنوع ہے۔ نیز اگر نماز با جماعت میں کوئی عورت موجود ہو اور امام کوئی غلطی کرے تو مرد کی طرح سبحان اللہ کہنے کی اُسے اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو صرف ہاتھ پر ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنی چاہیے تاکہ امام متنبّہ ہو جائے۔

اب یہ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار اندازِ گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے بلا ضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے،  کیا وہ کبھی اس کو پسند کر سکتا ہے کہ عورت اسٹیج پر آ کر گائے ناچے،  تھرکے، بھاؤ بتائے اور ناز و نخرے دکھائے ؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سُنا سُنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے ؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں ؟ یا ہوائی میزبان (Air-hostess)بنائی جائیں اور انھیں خاص طور پر مسافروں کا دِل لُبھانے کی تربیت دے جائے ؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھُل مِل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں ؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کی گئی ہے ؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے۔ اس میں کہیں اس کلچر کی گنجائش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کر دی جائے۔

(۴۸)۔ اصل میں لفظ قَرْنَ استعمال ہوا ہے۔ بعض اہلِ لغت نے اس کو ’’قرار ‘‘ سے ماخوذ بتایا ہے اور بعض نے ’’ وقار ‘‘ سے۔ اگر اس کو قرار سے لیا جائے تو معنی ہوں گے ’’ قرار پکڑو‘‘۔ ’’ ٹِک رہو ‘‘۔ اور اگر وقار سے لیا جائے تو مطلب ہو گا ’’ سکون سے رہو‘‘، ’’ چین سے بیٹھو ‘‘۔ دونوں صورتوں میں آیت کا منشا یہ ہے کہ عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے،  اُس کو اسی دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہییں،  اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہیے۔ یہ منشا خود آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اس کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں۔ حافظ ابو بکر بَزّار حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تو مرد لُوٹ لے گئے،  وہ جہاد کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مِل سکے ؟ جواب میں فرمایا  من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاھدین  جو تم میں سے گھر میں بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ مجاہد دِل جمعی کے ساتھ اسی وقت تو خدا کی راہ میں لڑ سکتا ہے جبکہ اسے اپنے گھر کی طرف سے پورا اطمینان ہو، اس کے بیوی اس کے گھر اور بچوں کو سنبھالے بیٹھی ہو، اور اسے کوئی خطرہ اس امر کا نہ ہو کہ پیچھے وہ کوئی گُل کھِلا بیٹھے گی۔ یہ اطمینان جو عورت اسے فراہم کرے گی وہ گھر بیٹھے اس کے جہاد میں برابر کی حصّہ دار ہو گی۔ ایک اور روایت جو بزّار اور ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کی ہے اس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ  انّ المرأۃ عورۃ فاذ اخرجت استشرفھا الشیطان و اقرب ما تکون بروحۃ ربھاوھی فی قعربیتھا۔ ’’ عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے۔ جب وہ  نِکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔ اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اُس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں ہو‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور،  حاشیہ ۴۹)

قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں،  بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دَوڑتی پھریں،  سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں،  کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں،  مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمت انجام دیں،  ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں ’’ مسافر نوازی ‘‘ کے لیے استعمال کی جائیں،  اور تعلیم و تربیت کے لیے امریکہ و انگلستان بھیجی جائیں عورت کے بیرونِ خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے جنگِ جَمَل میں حصّہ لیا تھا۔ لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ خود حضرت عائشہؓ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا۔ عبداللہ بن احمد بن   حنبل نے ز وائدالزھد میں،  اور ابن المُنذِر،  ابن ابی شَیْبَہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مَسْروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اِس آیت (وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَّ)پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹّہ بھیگ جاتا تھا، کیونکہ اس پر انہیں اپنی وہ غلطی یاد آ جاتی تھی جو اُن سے جنگ جَمَل میں ہوئی تھی۔

(۴۹)۔ اس آیت میں دو اہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا سمجھنا آیت کے منشا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ ایکََتَبُّرج ‘ دوسرے جاہلیت اولیٰ۔

تَبَرُّج کے معنی عربی زبان میں نمایاں ہونے ‘ ابھرنے اور کھُل کر سامنے آنے کے ہیں۔ ہر ظاہر اور مرتفع چیز کے لیے عرب لفظ ’’ بَرَ ج‘‘ استعمال کرتے ہیں ’’  بُرج ‘‘ کو ’’بُرج اس کے ظہور و ارتفاع کی بنا پر ہی کہا جاتا ہے۔ بادبانی کشتی کے لیے ’’بارجہ‘‘ کا لفظ اسی لیے بولا جاتا ہے کہ اس کے بادبان دور سے نمایاں ہوتے ہیں۔ عورت کے لیے جب لفظ تَبَرُّج استعمال کیا جائے تو اس کے تین مطلب ہوں گے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے چہرے اور جسم کا حُسن لوگوں کو دکھائے،  دوسرے یہ کہ وہ اپنے لباس اور زیور کی شان دوسروں کے سامنے نمایاں کرے۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنی چال ڈھال اور چَٹک مَٹک سے اپنے آپ کو نمایاں کرے۔ یہی تشریح اس لفظ کی اکابر اہلِ لُغت اور اکابر مفسرین نے کی ہے۔ مجاہد، قَتَادہ اور ابن انی نُجَیح کہتے ہیں : التبُّرج المشی بتبختُرو تکسر و تفنج ’’ تبرُّج کے معنی ہیں نازو اد ا کے ساتھ لچکے کھاتے اور اِٹھلاتے ہوئے چلنا ‘‘ مُقاتل کہتے ہیں : ابد أ قلائد ھا و قرطھا و عنقھا  ’’ عورت کا اپنے ہار اور اپنے بُندے اور اپنا گلا نمایاں کرنا‘‘۔ المبّرد کا قول ہے : ان تبدی من محاسنھاما یجب علیھا سترہٗ ’’ یہ کہ عورت اپنے وہ محاسن ظاہر کر دے جن کو اسے چھپانا چاہیے۔ ‘‘ ابو عبیدہ کی تفسیر ہے : ان تُخرج من محا سنھا ما تستدھی بہٖ شہوۃ الرّجَال۔ ’’یہ کہ عورت اپنے جسم لباس کے حسب کو نمایاں کرے جس سے مردوں کو اس کی طرف رغبت ہو‘‘۔

جاہلیّت کا لفظ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ تین جگہ اور استعمال ہوا ہے۔ ایک،  آل عمران کی آیت ۱۵۴ میں،  جہاں اللہ کی راہ میں لڑنے سے جی چُرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ ’’ اللہ کے بارے میں حق کے حلاف جاہلیّت کے سے گمان رکھتے ہیں۔ ‘‘دوسرے سُورۂ مائدہ،  آیت  ۵۰ میں،  جہاں خدا کے قانون کے بجائے کسی اور قانون کے مطابق اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ’’ کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ ‘‘ تیسرے سُورۂ فتح،  آیت ۲۶ میں،  جہاں کفّار مکہّ کے اِس فعل کو ’’ حمیت جاہلیہ ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ انہوں نے محض تعصّب کی بنا پر مسلمانوں کو عمرہ نہ کرنے دیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو الدرداء نے کسی سے جھگڑا کرتے ہوئے اس کو ماں کی گالی دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سُنا تو فرمایا’’ تم میں ابھی تک جاہلیت موجود ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ  نے فرمایا ’’ تین کام جاہلیّت کے ہیں۔ دوسروں کے نسب پر طعن کرنا،  ستاروں کی گردش سے فال لینا،  اور مُردوں پر نوحہ کرنا‘‘۔ ان تمام استعمالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جا ہلیّت سے مُراد اسلام کی اصطلاح میں ہر وہ طرزِ عمل ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اخلاق و آداب اور اسلامی ذہنیت کے خلاف ہو۔ اور جاہلیّت اولیٰ کا مطلب وہ بُرائیاں ہیں جن میں اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اور دنیا بھر کے دوسرے لوگ مبتلا تھے۔

اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرزِ عمل سے عورتوں کو روکنا چاہتا ہے وہ ان کا اپنے حسن کی نمائش کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلنا ہے۔ وہ ان کو ہدایت فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو، کیوں کہ تمہارا اصل کام گھر میں ہے نہ کہ اس سے باہر۔ لیکن اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو اس شان کے ساتھ نہ نکلو جس کے ساتھ سابق دَورِ جاہلیت میں عورتیں نکلا کرتی تھیں۔ بن ٹھن کر نکلنا،  چہرے اور جسم کے حُسن کو زیب و زینت اور چُست لباسوں یا عُریاں لباسوں سے نمایاں کرنا، اور ناز و ادا سے چلنا ایک مسلم معاشرے کی عورتوں کا کام نہیں ہے۔ یہ جاہلیت کے طور طریقے ہیں جو اسلام میں نہیں چل سکتے۔ اب یہ بات ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو ثقافت ہمارے ہاں رائج کی جا رہی ہے وہ قرآن کی رو سے اسلام کی ثقافت ہے یا جاہلیت کی ثقافت۔ البتہ اگر کوئی اور قرآن ہمارے کار فرماؤں کے پاس آ گیا ہے جس سے اسلام کی یہ نئی رُوح نِکال کر مسلمانوں میں پھیلائی جا رہی ہے تو بات دوسری ہے۔

( ۵۰)۔ جس سیاق و سباق میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اہل البیت سے مُراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں ہیں۔ کیونکہ خطاب کا آغاز ہی  یَا نِساءالنبی کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور ما قبل و ما بعد کی پوری تقریر میں وہی مخاطب ہیں۔ علاوہ بریں ’’ اہل البیت‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ٹھیک انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم ’’ گھر والوں ‘‘ کا لفظ بولتے ہیں،  اور اس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور اس کے بچے،  دونوں شامل ہوتے ہیں۔ بیوی کو مستثنٰی کر کے ’’ اہل خانہ‘‘ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔ خود قرآن مجید میں بھی اس مقام کے سوا دو مزید مقامات پر یہ لفظ آیا ہے اور دونوں جگہ اس کے مفہوم میں بیوی شامل،  بلکہ مقدم ہے۔ سورۂ ہود میں جب فرشتے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دیتے ہیں تو ان کی اہلیہ اسے سُن کر تعجب کا اظہار کرتی ہیں کہ بھلا اس بڑھاپے میں ہمارے ہاں بچہ کیسے ہو گا۔ اس پر فرشتے کہتے ہیں اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ رِحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ۔ کیا تم اللہ کے امر پر تعجب کرتی ہو؟اِس گھر کے لوگو، تم پر تو اللہ کی رحمت ہے اور اس کی برکتیں ہیں۔ ‘‘سُورۂ قصص میں جب حضرت موسیٰ ایک شیر خوار بچے کی حیثیت سے فرعون کے گھر میں پہنچتے ہیں اور فرعون کی بیوی کو کسی ایسی انّا کی  تلاش ہوتی ہے جس کا دودھ بچہ پی لے تو حضرت موسیٰؑ کی بہن جا کر کہتی ہیں  ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰٓاَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْ نَہٗ لَکُمْ۔ ’’ کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا بتہ دوں جو تمہارے لیے اس بچے کی پرورش کا ذمّہ لیں ‘‘؟ پس محاورہ، اور قرآن کے استعمالات، اور خود اس آیت کا سیاق و سباق،  ہر چیز اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ بنی صلی اللہ و سلم کے اہلِ بیت میں آپ کی ازواج مطہرات بھی داخل ہیں اور آپ کی اولاد بھی۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کا اصل خطاب ازواج سے ہے اور اولاد مفہوم لفظ سے اس میں شامل قرار پاتی ہے۔ اسی بنا پر ابن عباس اور عُروہ بن زبیر اور عکْرمہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اہل البیت سے مراد ازواج النبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔

لیکن اگر کوئی کہ کہے کہ ’’ اہل البیت ‘‘ کا لفظ صرف ازواج کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس میں دوسرا کوئی داخل نہیں ہو سکتا، تو یہ بات بھی غلط ہو گی۔ صرف یہی نہیں کہ ’’گھر والوں ‘‘ کے لفظ میں آدمی کے سب اہل و عیال شامل ہوتے ہیں،  بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود تصریح فرمائی ہے کہ وہ بھی شامل ہیں۔ ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ سے ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: تساءلنی عن رجل کان من احبّ الناس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وکانت تحتہ ابنتۃ واحبّ الناس الیہ۔ ’’تم اس شخص کے متعلق پوچھتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور جس کی بیوی حضورؐ کی وہ بیٹی تھی جو آپؐ کو سب سے بڑھ کر محبوب تھی۔ ‘‘ اس کے بعد حضرت عائشہؓ نے یہ واقعہ سُنایا کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ اور فاطمہؓ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان پر ایک کپڑا ڈال دیا اور دُعا فرمائی اللھمّ ھٰؤلاء اھلُ بیتی فاَذْھِبْ عنھُمالرّ جس و طھّر ھم تطھیراً۔ خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں،  ان سے گندگی دو دور کر دے۔ ‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، میں بھی تو آپ کے اہل بیت میں سے ہوں (یعنی مجھے بھی اس کپڑے میں داخل کر کے میرے حق میں دعا فرمائے )۔ حضورؐ نے فرمایا، ’’ تم الگ رہو، تم تو    ہو ہی۔ ‘‘اس سے ملتے جلتے مضمون کی بکثرت احادیث مسلم،  ترمذی۔ احمد، ابن جَریر، حاکم، بیہقی وغیرہ محدّثین نے انو سعید خُدریؓ،  حضرت اَنَس ؓ، حضرت اُمِّ سلمہؓ، حضرت واثِلہ بن اَسْقَع اور بعض دوسرے صحابہ ؓسے نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کے دونوں صاحبزادوں کو اپنا اہل البیت قرار دیا۔ لہٰذا اُن لوگوں کا خیال غلط ہے جو ان حضرات کو اس سے خارج ٹھہراتے ہیں۔

اِسی طرح ا ن لو گوں کی رائے بھی غلط ہے جو مذکورۂ بالا احادیث کی بنیاد پر ازواج مطہرات کو اہل البیت سے خارج ٹھیراتے ہیں۔ اول تو جو چیز صراحتہً قرآن سے ثابت ہو اس کو کسی حدیث کے بل پر  رد نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے ‘ خود ان احادیث کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو ان سے نکالا جا ربا ہے۔ ان میں سے بعض روایت میں جو یہ بات آئی یہ کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ا مّ سلمہ ؓ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس چادر کے نیچے نہیں لیا جس میں حضورؐ نے ان چاروں اصحابؓ کو لیا تھا ‘ اُس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضورؐ نے ان کو اپنے ’’گھر والوں ‘‘ سے خارج قرار دیا تھا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیویاں تو اہل بیت میں شامل تھیں ہی ‘ کیونکہ قرآن نے انہی کو مخاطب کیا تھا ‘ لیکن حضورؐ کو اندیشہ ہوا کہ ان دوسرے اصحاب کے متعلق ظاہر قرآن کے لحاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ یہ اہل بیت سے خارج ہیں،  اس لیے آپؐ نے تصریح کی  ضرورت ان کے حق میں محسوس فرمائی نہ کہ ازواجِ مطہّرات کے حق میں۔

ایک گروہ نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا ہے کہ ازواج مطہّرات کو ’’ اہل البیت ‘‘ سے خارج کر کے صرف حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد کے لیے اس لفظ کو خاص کر دیا، بلکہ اس پر مزید ستم یہ بھجی کیا ہے کہ اس کے الفاظ ’’ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے ‘‘ سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’گندگی‘‘ سے مراس خطا اور گناہ ہے اور ارشادِ اِلٰہی کی رو سے یہ اہل البیت اس سے پاک کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ تم سے گندگی دور کر دی گئی اور تم بالکل پاک کر دیے گئے۔ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تم سے گندگی کو دُور کرنا اور تمہیں پاک کر دینا چاہتا ہے۔ سیاق و سباق بھی یہ نہیں بتاتا کہ یہاں مناقبِ اہل بیت بیان کرنے مقصود ہیں،  بلکہ یہاں تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ بالفاظِ دیگر مطلب یہ  ہے کہ تم فلاں رویہّ اختیار کرو گے تو پاکیزگی کی نعمت تمہیں نصیب ہو گی ورنہ نہیں۔ تاہم اگر یُرِیْدُ اللّٰہ ُ لِیُذْ ھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ ………وَیُطَھَّرَکُمْ تَطْھِیْراً کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ نے ان کو معصوم کر دیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وضو اور غسل اور تیمم کرنے والے سب مسلمانوں کو معصوم نہ مان لیا جائے کیوں کہ ان کی متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَ کُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ۔ ’’ مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے ‘‘ (المائدہ۔ آیت ۶)۔

(۵۱)۔ اصل میں لفظ وَاذْکُرْنَ استعمال ہوا ہے، جس کے دو معنی ہیں : ’’ یاد رکھو ‘‘ اور’’ بیان کرو‘‘۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اے نبی کی بیویو، تم کبھی اس بات کو فراموش نہ کرنا کہ تمہارا گھر وہ ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیاتِ الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے،  اس لیے تمہاری ذمّہ داری بڑی سخت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گھر میں لوگ جاہلیت کے نمونے دیکھنے لگیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ نبی کی بیویو،  جو کچھ تم سُنو اور دیکھو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتی رہو، کیونکہ رسول کے ساتھ ہر وقت کی معاشرت سے بہت سی ہدایات تمہارے علم میں ایسے آئیں گی جو تمہارے سوا کسی اور ذریعہ سے لوگوں کو معلوم نہ ہو سکیں گی۔

اِس آیت میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک آیات اللہ۔ دوسرے حکمت۔ آیات اللہ سے مُراد تو کتاب اللہ کی آیات ہی ہیں۔ کگر حکمت کا لفظ وسیع ہے جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آ جاتی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو سکھاتے تھے۔ اس لفظ کا اطلاق کتاب اللہ کی تعلیمات پر بھی ہو سکتا ہے،  مگر صرف انہی کے ساتھ اس کو خاص کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن کی آیات سُنانے کے علاوہ جس حکمت کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی سیرتِ پاک سے اور اپنے ارشادات سے دیتے تھی وہ بھی لا محالہ اس میں شامل ہے۔ بعض لوگ محض اس بنیاد پر کہ آیت میں  مَا یُتْلیٰ(جو تلاوت کی جاتی ہیں )کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آیات اللہ اور حکمت سے مُراد صرف قرآن ہے،  کیونکہ ’’تلاوت‘‘ کا لفظ اصطلاحاً قرآن کی تلاوت کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ تلاوت کے لفظ کو اصطلاح کے طور پر قرآن یا کتاب اللہ کی تلاوت کے لیے مخصوص کر دینا بعد لوگوں کا فعل ہے۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ سُورۂ بقرہ آیت ۱۰۲ میں یہی لفظ جادو کے اُن منتروں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے۔ وَتَّبَعُوْ امَا تَتْلُو االشَّیٰطِیْنُ عَلیٰ مُلْکِ سُلَیْمٰنَ۔ ’’ اُنہوں نے پیروی کی اس چیز کی جس کی تلاوت کرتے تھے (یعنی جسے سُناتے تھے )شیاطین سلیمان کی بادشاہی کی طرف منسوب کر کے ‘‘۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن اس لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتا ہے۔ کتاب ا للہ کی آیات سُنانے کے لیے   اصطلاحاً مخصوص نہیں کرتا۔

(۵۲)۔ اللہ لطیف ہے۔ یعنی مخفی باتوں تک اس کا علم پہنچ جاتا ہے۔ اس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔

 

ترجمہ

 

بالیقین (۵۳) جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں (۵۴)،   مومن ہیں (۵۵)،   مطیع فرمان ہیں (۵۶)،   راست باز ہیں (۵۷)،   صابر ہیں (۵۸)،  اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں (۵۹) صدقہ دینے والے ہیں (۶۰)،   روزہ رکھنے والے ہیں،  اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں (۶۱)،   اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں (۶۳)،   اور اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے (۶۴)

کسی(۶۵)مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا(۶۶)

اے نبیؐ (۶۷)،   یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا (۶۸)

کہ ’’اپنی بیوی کو نہ چھوڑ اور اللہ سے ڈر(۶۹)‘‘۔ اُس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے  ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا، تم لوگوں سے ڈر رہے تھے،  حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو(۷۰)

پھر جب زیدؓ اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا(۷۱) تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کر دیا(۷۲) تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں (۷۳)  اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا۔ نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہو(۷۴)

یہی اللہ کی سنت ان سب انبیاء کے معاملہ میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ کا حکم ایک قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے (۷۵)  (یہ اللہ کی سنت ہے ان لوگوں کے لیے ) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے،  اور محاسبہ کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے (۷۶)

(لوگو) محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں،  مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں،  اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے (۷۷) ع

 

تفسیر

 

(۵۳)۔ پچھلے پیراگراف کے بعد متصلاً یہ مضمون ارشاد فرما کر ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف کر دیا گیا ہے کہ اوپر ازواجَ مطہرات کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ اُن کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ مسلم معاشرے کو بالعموم اپنے کردار کی اسلاح انہی ہدایات کے مطابق کرنی چاہیے۔

(۵۴)۔ یعنی جنہوں نے اسلام کو اپنے لیے ضابطۂ حیات کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے اور یہ طے کر لیا ہے کہ اب وہ اُسی کی پیروی میں زندگی بسر کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں،  جن کے اندر اسلام کے دیے ہوئے طریقِ فکر اور طرزِ زندگی کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت باقی نہیں رہی ہے۔ بلکہ وہ اس کی اطاعت اور اتباع کی راہ اختیار کر چکے ہیں۔

(۵۵)۔ یعنی جن کی یہ اطاعت محض ظاہری نہیں ہے۔ بادل نا خواستہ نہیں ہے،  بلکہ دِل سے وہ اسلام ہی کی رہنمائی کو حق مانتے ہیں۔ ان کا ایمان یہی ہے کہ فکر و عمل کا جو راستہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دکھایا ہے وہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے اور اسے کی پیروی میں ہماری فلاح ہے۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے غلط کہہ دیا ہے ان کی اپنی رائے بھی یہی ہے کہ وہ یقیناً غلط ہے،  اور جسے اللہ اور اس کے رسول نے حق کہہ دیا ہے ان کا اپنا دِل و دماغ بھی اسے برحق ہی یقین کرتا ہے۔ ان کے نفس اور ذہن کی حالت یہ نہیں ہے کہ قرآن اور سُنت سے جو حکم ثابت ہو اُسے وہ نامناسب سمجھتے ہوں اور اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہیں کہ کسی طرح اسے بدل کر اپنی رائے کے مطابق، یا دُنیا کے چلتے ہوئے طریقوں کے مطابق ڈھال بھی دیا جائے اور یہ الزام بھی اپنے سر نہ لیا جائے کہ ہم نے حکمِ خدا اور رسول میں ترمیم کر ڈالی ہے۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایمان کی صحیح کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں :

ذاق طعم الایمان من رضی با للّٰہ ربّاً و بالاسلام دینا و بِمُحمَّدٍ رسُلا۔ ایمان کا لذت ہو گیا وہ شخص جو راضی ہوا اس بات پر کہ اللہ ہی اس کا رب ہو اور اسلام ہی اس کا دین ہو اور محمدؐ ہی اس کے رسولؐ ہوں۔

اور ایک دوسری حدیث میں آپ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں۔

لایؤمن احد کم حتٰی یکون ھواہ تبعاًلما جئتُ بہٖ (شرح السنّہ) تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اُس چیز کے تابع نہ ہو جائے جسے میں لایا ہوں۔

(۵۶)۔ یعنی وہ محض مان کر رہ جاتے والے بھی نہیں ہیں بلکہ عملاً اطاعت کرنے والے ہیں۔ ان کی یہ حالت نہیں ہے کہ ایمانداری کے ساتھ حق تو اُسی چیز کو مانیں جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے حکم دیا ہے مگر عملاً اس کی خلاف ورزی کریں،  اور اپنی مخلصانہ رائے میں تو ان سب کاموں کو بُرا ہی سمجھتے رہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مگر اپنی عملی زندگی میں ارتکاب انہی کا کرتے چلے جائیں۔

(۵۷)۔ یعنی اپنی گفتار میں بھی سچے ہیں اور اپنے معاملات میں بھی کھرے ہیں۔ جھوٹ،  فریب، بدنیتی،  دغا بازی اور چَھل بٹے ان کی زندگی میں نہیں پائے جاتے۔ ان کی زبان وہی بولتی ہے جسے اُن کا ضمیر صحیح جانتا ہے۔ وہ کام وہی کرتے ہیں جا ایمانداری کے ساتھ ان کے نزدیک راستی و صداقت کے مطابق ہوتا ہے۔ اور جس سے بھی وہ کوئی معاملہ کرتے ہیں دیانت کے ساتھ کرتے ہیں۔

(۵۸)۔ یعنی خدا اور رسولؐ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے اور خدا کے دین کو قائم کرنے میں جو مشکلات بھی پیش آئیں،  جو خطرات بھی درپیش ہوں،  جو تکلیفیں بھی اُٹھانی پڑیں اور جن نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑے،  ان کا پوری ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ کوئی خوف، کوئی لالچ اور خواہشاتِ نفس کا کوئی تقاضا ان کو سیدھی راہ سے ہٹا دینے میں کامیاب نہیں ہوتا۔

(۵۹)۔ یعنی وہ تکبُّر اور استکبار اور غرورِ نفس سے خالی ہیں۔ وہ اِس حقیقت کا پورا شعور و احساس رکھتے ہیں کہ ہم بندے ہیں اور بندگی سے بالا تر ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے ان کے دِل اور جسم دونوں ہی اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں۔ ان پر خدا کا خوف غالب رہتا ہے۔ ان سے کبھی وہ رویہّ ظاہر نہیں ہوتا جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا اور خدا سے بے خوف لوگوں سے ظاہر ہوا کرتا ہے۔ ترتیبِ کلام ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اِس عام خدا ترسانہ رویہّ کے ساتھ خاص طور پر ’’خشوع‘‘ سے مُراد نماز ہے کیوں کہ اس کے بعد ہی صدقے اور روزے کا ذکر کیا گیا ہے۔

(۶۰)۔ اس سے مُراد صرف فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہی نہیں ہے،  بلکہ عام خیرات بھی اس میں شامل ہے۔ مُراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کھلے دِل سے اپنے مال صرف کرتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کی مدد کرنے میں اپنی حدِ استطاعت تک سہ کوئی دریغ نہیں کرتے۔ کوئی یتیم، کوئی بیمار،  کوئی مصیبت زدہ،  کوئی ضعیف و معذور، کوئی غریب و محتاج آدمی اُن کی بستیوں میں دستگیری سے محروم نہیں رہتا۔ اور اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے ضرورت پیش آ جائے تو اس پر اپنے مال لُٹا دینے میں وہ کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔

(۶۱)۔ اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے شامل ہیں۔

(۶۲)۔ اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زنا سے پرہیز کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ برہنگی و عُریانی سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ برہنگی و عریانی صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے کہ آدمی لباس کے بغیر بالکل ننگا ہو جائے۔ بلکہ ایسا لباس پہننا بھی برہنگی ہی ہے جو اتنا رقیق ہو کہ جسم اس میں سے جھلکتا ہو، یا اتنا چُست ہو کہ جسم کی ساخت اور اس کے نشیب و فراز سب اُس میں سے نمایاں نظر آتے ہوں۔

(۶۳)۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اُس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دِل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اُتر جاتا ہے تب ہے اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا۔ کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہو گا تو الحمد للہ کہے گا۔  سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اُٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ،  الحمد للہ،  ماشاء اللہ اور اسے طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہو گا۔  مشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر بُرائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا۔ ہر قصور سرزد ہو جانے پر اس سے معافی چاہے گا۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اُٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لیے بہر حا ل کو ئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقبل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اِسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دِل محض اِن خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً ا س کے ذکر سے تر رہے۔ یہ حالت انسان کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اُسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زند گی اس دائمی ذکرِ خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اُس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے پل رہا ہو۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک حدیث میں یوں واضح فرماتے ہیں :

عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان رجلاً ساءلہ ای المجاھدین اعظمُ اجراًیا رسول اللہَ؟ قال اکثر ھم للہِ تعَالیٰ ذکراً قال ایُّ الصایمین اکثراجرا ؟ قال اکثر ھم لِلہ  عزّو جل ذکراً ثم ذکرا لصّلوٰۃ والزکوٰ ۃ والحجّ سالصَّدَ قَۃکل ذٰلک یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر ھم لِلہ ذکراً۔ (مسند احمد) ’’ معاذ بن انَس جُہَنی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ،  جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے ؟ فرمایا جو اُن میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گاَ؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرے والا ہو۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز،  زکوٰۃ  حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضورؐ نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ ’’ جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔ ‘‘

(۶۴)۔ اس آیت میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اصل قدر و قیمت کن اوصاف کی ہے۔ یہ اسلام کی بنیادی قدریں ( Basic values) ہیں جنہیں ایک فقرے کے اندر سمیٹ دیا گیا ہے۔ ان قدروں کے لحاظ سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ عمل کے لحاظ سے تو بلاشبہ دونوں صنفوں کا دائرۂ کار الگ ہے۔ مردوں کو زندگی کے کچھ شعبوں میں کام کرنا ہے اور عورتوں کو کچھ اور شعبوں میں اگر یہ اوصاف دونوں میں یکساں موجود ہوں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں دونوں کا مرتبہ یکساں اور دونوں کا اجر برابر ہو گا۔ اس لحاظ سے ان کے مرتبے اور اجر میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ایک نے چولھا چکی سنبھالا اور دوسرے نے خلافت کی مسند پر بیٹھ کر احکام شریعت جاری کیے،  ایک نے گھر میں بچے پالے اور دوسرے نے میدانِ جنگ میں جا کر اللہ اور اس کے دین کے لیے جان لڑائی۔

(۶۵)۔ یہاں سے وہ آیات شروع ہوتی ہیں جو حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں۔

( ۶۶)۔ ابن عباس،  مجاہد،  قَتادہ،  عِکْرِمَہ اور مُقاتِل بن حَیّان کہتے ہیں کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زیدؓ کے لیے حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا تھا اور حضرت زینبؓ اور ان کے رشتہ داروں نے اسے نامنظور کر دیا تھا۔ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جب حضورؐ نے یہ پیغام دیا تو حضرت زینبؓ نے کہا،  انا خیر منہ نسباً، ’’ میں اُس سے نسب میں بہتر ہوں ‘‘۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ انہوں نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ  لاارصاہ لنفسی وانا ایّم قریش’’۔ میں اُسے اپنے لیے پسند نہیں کرتی،  میں قریش کی شریف زادی ہوں ‘‘۔ اسی طرح کا اظہارِ نا رضا مندی اُن کے بھائی عبداللہ بن جَحْش رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا۔ اس لیے کہ حضرت زید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت زینبؓ حضورؐ کی پھوپھی(اُمَیْمہَ بنت عبدالمطلب) کی صاحبزادی تھیں۔ ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی،  اور وہ بھی کوئی غیر نہیں بلکہ حضورؐ کی اپنی پھوپھی زاد بہن ہے،  اور اس کا پیغام آپؐ اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے دے دہے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور اسے سنتے ہی حضرت زینبؓ اور ان کے سب خاندان والوں نے بلا تامّل سرِ اطاعت خم کر دیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح پڑھایا، خود حضرت زیدؓ کی طرف سے دس دینار اور ۶۰ درہم مہر ادا کیا، چڑھاوے کے کپڑے دیے،  اور کچھ سامان خوراک گھر کے خرچ کے لیے بھجوا دیا۔

یہ آیت اگر چہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ہے،  مگر جو حکم اس میں بیان کیا گیا ہے وہ اسلامی آئین کا اصل الاصول ہے اور اس کا اطلاق پورے اسلامی نظامِ زندگی پر ہوتا ہے،  اس کی رو سے کسی مسلمان فرد، یا قوم،  یا ادارے،  یا عدالت،  یا پارلیمنٹ، یا ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم ثابت ہو اُس میں وہ خود اپنی آزادیِ رائے استعمال کرے۔ مسلمان ہونے کے معنی ہی خدا اور رسولؐ کے آگے اپنے آزادانہ اختیار سے دستبردار ہو جانے کے ہیں۔ کسی شخص یا قوم کا مسلمان ہونا اور اپنے لیے اس اختیار کو محفوظ بھی رکھنا،  دونوں ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ کوئی ذی عقل انسان ان دونوں رویّوں کو جمع کرنے کا تصور نہیں کر سکتا جسے مسلمان رہنا ہو اس کو لازماً حکمِ خدا و رسول کے آگے جھک جانا ہو گا۔ اور جسے نہ جھکنا ہو اس کہ سیدھی طرح ماننا پڑے گا کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ نہ مانے گا تو چاہے اپنے مسلمان ہونے کا وہ کتنا ہی ڈھول پیٹے،  خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ منافق ہی قرار پائے گا۔

(۶۷)۔ یہاں سے آیت ۴۸ تک کا مضمون اس وقت نازل ہوا جب حضرت زینب ؓ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نکاح کر چکے تھے اور اس پر منافقین ‘ یہود اور مشرکین نے آپؐ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفانِ عظیم بر پا کر رکھا تھا۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ذ ہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات ان دشمنوں کی تفہیم کے لیے نہیں تھے جو قصداً  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بدنام کرنے اور اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے جھوٹ اور بہتان اور طعن و تشنیع کی مہم چلا رہے تھے،  بلکہ اصل مقصود مسلمانوں کو ان کی اس مہم کے اثرات سے بچانا اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے محفوظ کرنا تھا۔ اس سے اگر اطمینان نصیب ہو سکتا تھا تن انہی لوگوں کو جو جانتے اور مانتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ ان بندگانِ حق کے متعلق اس وقت یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دشمنوں کے اعتراضات کہیں ان کے دلوں میں بھی شک اور ان کے دماغوں میں بھی الجھن نہ پیدا کر دیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تمام امکانی شبہات کا ازالہ فرمایا،  اور دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ بتا یا کہ ان حالات میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔

(۶۸)مراد ہیں حضرت زید،  جیسا کہ آگے بصرا حت بیان فرما دیا گیا ہے۔ اُن پر اللہ تعالیٰ کا احسان کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا احسان کیا؟اس کو سمجھنے کے لیے ضروری کہ مختصراً یہاں اُن ک قصّہ بیان کر دیا جائے۔ یہ دراصل قبیلۂ کَلْب کے ایک شخص حا رِ ثہ بن شَراحیل کے بیٹے تھے اور اُن کی ماں سُعدیٰ بنت ثَعْلَبَہ قبیلۂ طَے کی شاخ بنی مَعْن سے تھیں۔ جب یہ آٹھ سال کے بچے تھے اس وقت ان کی ماں انہیں اپنے میکے لے گئیں۔ وہاں بنی ْ قَیْن بن جَسْر کے لوگوں نے ان کے پڑاؤ پر حملہ کیا اور لوٹ مار کے ساتھ جن آدمیوں کو وہ پکڑ لے گئے اُن میں حضرت زید بھی تھے۔ پھر انہوں نے طائف کے قریب عُکاظ کے میلے میں لے جا کر ان کو بیچ دیا۔ خریدنے والے حضرت خَدِیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حِزام تھے۔ انہوں نے مکّہ لا کر اپنی پھوپھی صاحبہ کی خدمت مین نذر کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت خدیجہ ؓ کا جب نِکاح ہوا تو حضورؐ نے ا ن کے ہاں زید کو دیکھا اور ا ن کی عادات و اطوار آپؐ کو اس قدر پسند آئیں کہ آپؐ نے انہیں حضرت خدیجہؓ سے مانگ لیا۔ اس طرح یہ خوش قسمت لڑکا اُس خیرالخلائق ہستی کی خدمت میں پہنچ گیا جسے چند سال بعد اللہ تعالیٰ نبی بنانے والا تھا۔ اس وقت حضرت زید کی عمر ۱۵ سال تھی۔ کچھ مدت بعد ا ن کی باپ اور چچا کو پتہ چلا کہ ہمارا بچّہ مکّہ میں ہے۔ وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچے اور عرض کیا کہ آپ جو فدیہ چاہیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں،  آپ ہمارا بچّہ ہمیں دے دیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میں لڑکے کو بلاتا ہوں اور اسی کی مرضی پر چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے یا میرے پاس رہنا پسند کرتا ہے۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے گا تو میں کوئی فِدیہ نہ لوں گا اور اسے یوں ہی چھوڑ دوں گا۔ لیکن اگر وہ میرے پاس رہنا چاہے تو میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ جو شخص میرے پاس رہنا چاہتا ہو اسے خواہ مخواہ نکال دوں۔ انہوں نے کہا یہ تو آپؐ نے انصاف سے بھی بڑھ کر درست بات فرمائی ہے۔ آپ بچے کو بُلا کر پوچھ لیجیے۔ حضورؐ نے زید ؓ کو بُلایا اور ان سے کہا اِن دونوں صاحبوں کو جانتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں، یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا۔ آپؐ نے فرمایا،  اچھا،  تم ان کو بھی جانتے ہو اور مجھے بھی۔ اب تمہیں پوری آزادی ہے کہ چاہو ان کے ساتھ چلے جاؤ اور چاہو میرے ساتھ رہو۔ انہوں نے جواب دیا میں آپؐ کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں جانا چاہتا۔ ان کے باپ اور چچا نے کہا، زید،  کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے،  اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اِس شخص کے جو اوصاف دیکھے ہیں اُن کا تجربہ کر لینے کے بعد میں اب دُنیا میں کسی کو بھی اس پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ زید کا یہ جواب سُن کر ان کے باپ اور چچا بخوشی راضی ہو گئے۔ حضورؐ نے اسی وقت زید کو آزاد کر دیا اور حرم میں جا کر قریش کے مجمعِ عام میں اعلان فرمایا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں،  آج سے زید میرا بیٹا ہے،  یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے۔ اسی بنا پر لوگ ان کو زید بن محمدؐ کہنے لگے۔ یہ سب واقعات نبوّت سے پہلے کے ہیں پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوّت پر سرفراز ہوئے تو چار ہستیاں ایسی تھیں جنہوں نے ایک لمحہ شک و تردُّد کے بغیر آپؐ سے نبوّت کا دعویٰ سُنتے ہی اسے تسلیم کر لیا۔ ایک حضرت خدیجہؓ،  دوسرے حضرت زیدؓ، تیسرے حضرت علیؓ، اور چوتھے حضرت ابو بکرؓ۔ اُس وقت حضرت زیدؓ کی عمر ۳۰ سال تھی اور ان کو حضورؐ کی خدمت میں رہتے ہوئے ۱۵ سال گزر چکے تھے۔ ہجرت کے بعد ۴ ھ میں نبی صلی اللہ ولیہ و سلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب ؓ سے ان کا نکاح کر دیا،  اپنی طرف سے اُن کا مہر ادا کیا،  اور گھر بسانے کے لیے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا۔

یہی حالات ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ اِن الفاظ میں اشارہ فرما رہا ہے کہ ’’ جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا۔‘‘

(۶۹)۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب حضرت زید ؓ سے حضرت زینبؓ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے۔ اور انہوں نے بار بار شکایات پیش کرنے کے بعد آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں ان کو طلاق دینا چاہتا ہوں۔ حضرت زینبؓ نے اگرچہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان کر ان کے نکاح جانا قبول کر لیا تھا،  لیکن وہ اپنے دِل سے اس احساس کو کسی طرح نہ مٹا سکیں کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں، اُن کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں،  اور وہ عرب کے شریف ترین گھرانے کی بیٹی ہونے کے باوجود اس کم تر درجے کے آدمی سے بیاہی گئی ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں انہوں نے کبھی حضرت زیدؓ کو اپنے برابر کا نہ سمجھا، اور اسی وجہ سے دونوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی چلی گئیں۔ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ مدّت گزری تھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔

(۷۰)۔ بعض لوگوں نے اس فقرے کا اُلٹا مطلب یہ نکال لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود حضرت زینبؓ سے نکاح کے خواہشمند تھے،  اور آپؐ کا جی چاہتا تھا کہ حضرت زیدؓ ان کو طلاق دے دیں،  مگر جب انہوں نے آ کر عرض کیا کہ میں بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو آپؐ نے معاذاللہ اوپری دِل سے ان کو منع کیا، اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ’’ تم دِل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ ‘‘ حالاں کہ اصل بات اس کے برعکس ہے۔ اگر اس سورہ کی آیات نمبر ۱۔ ۲۔ ۳۔ اور۔ ۷ کے ساتھ ملا کر یہ فقرہ پڑھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جس زمانے میں حضرت زیدؓ اور ان کی اہلیہ کے درمیان تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اسی زمانے میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اشارہ کر چکا تھا کہ زیدؓ جب اپنی بیوی کو طلاق دیں تو ان کی مطلقہ خاتون سے آپ کو نکاح کرنا ہو گا۔ لیکن چوں کہ حضورؐ جانتے تھے کہ عرب کی اس سوسائٹی میں منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ سے نکاح کرنا کیا معنی رکھتا ہے ………اور وہ بھی عین اس حالت میں جبکہ مٹھی بھر مسلمانوں کے سوا باقی سارا عرب آپؐ کے خلاف پہلے ہی خار کھائے بیٹھا تھا۔ اِس لیے آپؐ اس شدید آزمائش میں پڑنے سے ہچکچا رہے تھے۔ اسی بنا پر جب حضرت زیدؓ نے بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضورؐ نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنے بیوی کو طلاق نہ دو۔ آپؐ کا منشا یہ تھا کہ یہ شخص طلاق نہ دے تو میں اِس بلا میں پڑنے سے بچ جاؤں،  اور نہ اس کے طلاق دے دینے کی صورت میں مجھے حکم کی تعمیل کرنی ہو گی اور پھر مجھ پر وہ کیچڑ اُچھالی جائے گی کہ پناہ بخدا۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبیؐ کو اولو العزمی اور رضا بقضا کے جس بلند مرتبے پر دیکھنا چاہتا تھا اُس کے لحاظ سے حضورؐ کی یہ بات اُس کو فروتر نظر آئی کہ آپؐ نے قصداً زیدؓ کو طلاق سے روکا تاکہ آپؐ اُس کام سے بچ جائیں جس میں آپؐ کو بدنامی کا اندیشہ تھا،  حالاں کہ اللہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر وہ کام آپؐ سے لینا چاہتا تھا۔ ’’ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو‘‘ کے الفاظ صاف صاف اسی مضمون کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

یہی بات اس آیت کی تشریح میں امام زین العابدین حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دے چکا تھا کہ زینب ؓ آپ کی بیویوں میں شامل ہونے والی ہیں،  مگر جب زیدؓ نے آ کر اُن کی شکایت آپؐ سے کی تو آپؐ نے اُن سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو نہ چھوڑو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہیں پہلے خبر دے چکا تھا کہ میں تمہارا نکاح زینبؓ سے کرنے والا ہوں،  تم زیدؓ سے یہ بات کہتے وقت اُس بات کو چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا ‘‘ (ابن جریر۔ ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم)

علامۂ آلوسی نے بھی تفسیر رُوح المعانی میں اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ عتاب کا ماحصل یہ ہے کہ تم نے زیدؓ سے یہ کیوں کہا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو، حالانکہ میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ زینبؓ تمہاری بیویوں میں شامل ہوں گی‘‘

(۷۱)۔ یعنی جب زیدؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ان کی عدّت پور ی ہو گئی۔ ’’حاجت پوری کر چکا‘‘ کے الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ زیدؓ کی اس سے کوئی حاجت باقی نہ رہی۔ اور یہ صورتِ حال محض طلاق دے دینے سے رونما نہیں ہوتی، کیوں کہ عدّت کے دَوران میں شوہر کو اگر کچھ دلچسپی باقی ہو تو وہ رجوع کر سکتا ہے،  اور شوہر کی یہ حاجت بھی مطلقہ بیوی سے باقی رہتی ہے کہ اس کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چل جائے۔ اس لیے مطلّقہ بیوی کے ساتھ اس کے سابق شوہر کی حاجت صرف اُسے وقت ختم ہو تی ہے جب عدّت گزر جائے۔

(۷۲)۔ یہ الفاظ اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نکاح خود اپنے خواہش کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر کیا تھا۔

(۷۳)۔ یہ الفاظ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک ایسی ضرورت اور مصلحت کی خاطر کرایا تھا جو اس تدبیر کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے پوری نہ ہو سکتی تھی۔ عرب میں منہ بولے رشتوں کے بارے میں جو غلط رسوم رائج ہو گئی تھیں،  ان کے توڑنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ،  اللہ کا رسول خود آگے بڑھ کر ان کو توڑ ڈالے۔ لہٰذا یہ نکاح اللہ تعالیٰ نے محض نبی کے گھر میں ایک بیوی کا اضافہ کرنے کی خاطر نہیں بلکہ ایک اہم ضرورت کی خاطر کروایا۔

(۷۴)۔ ان الفاظ سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کے لیے تو اس طرح کا نکاح محض مباح ہے مگر بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے یہ ایک فرض تھا جو اللہ نے آپ پر عائد کیا تھا۔

(۷۵)۔ یعنی انبیاء کے لیے ہمیشہ سے یہ ضابطہ مقرر رہا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم بھی آئے اس پر عمل کرنا ان کے لیے قضائے مُبْرَم ہے جس سے کوئی مفر اُن کے لیے نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر کوئی کام فرض کر دے تو اسے سہ کام کر کے ہی رہنا ہوتا ہے خواہ ساری دُنیا اس کی مخالفت پر تُل گئی ہو۔

(۷۶)۔ اصل الفاظ ہیں کَفیٰ بِا للّٰہِ حَسِیْباً۔ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر خوف اور خطرے کے مقابلے میں اللہ کافی ہے۔ دوسرے یہ کہ حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے،  اس کے سوا کسی اور کی باز پُرس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

(۷۷)۔ اس ایک فقرے میں اُن تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اِس نکاح پر کر رہے تھے۔

اُن کا اوّلین اعتراض یہ تھا کہ آپؐ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپؐ کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ ’’ محمّدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ‘‘، یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا؟ تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں۔

ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا،  اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا، آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا’’ مگر وہ اللہ کے رسولؐ ہیں ‘‘، یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصّبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔

پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا’’ اور وہ خاتم النبیین ہیں ‘‘، یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح اُن کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے،  لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسمِ جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں۔

اس کے بعد مزید زور دینے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ‘‘ یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں اِس رسمِ جاہلیّت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی۔ وہ جانتا ہے کہ اب اُس کی طرف   سے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اُس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دُنیا میں ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دُنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے۔ بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں، اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اُس کی سُنت ہونا ہی لوگوں کے دِلوں سے کراہیت کے ہر تصوّر کا قلع قمع کر دے۔

افسوس ہے کہ موجودہ زمانے میں ایک گروہ نے اس آیت کی غلط تاویلات کر کے ایک بہت بڑے فتنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس لیے ختمِ نبوت کے مسئلے کی پوری توضیح اور اس گروہ کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کی تردید کے لیے ہم نے اِس سورہ کی تفسیر کے آخر میں ایک مفصل ضمیمہ شامل کر دیا ہے۔

 

ترجمہ

 

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو(۷۸)۔  وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لے دُعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے،  وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے (۷۹)

جس روز وہ اس سے ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہو گا(۸۰) اور اُن کے لیے اللہ نے بڑا با عزت اجر فراہم کر رکھا ہے۔

اے نبیؐ (۸۱)، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر (۸۲)،   بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر (۸۳)،   اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے (۸۴) والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔ بشارت دے دو اُن لوگوں کو جو (تم پر)ایمان لائے ہیں کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل۔ اور ہر گز نہ دبو کفار و منافقین سے،  کوئی پرواہ نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی اور بھروسہ کر لو اللہ پر، اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دے۔

اَے لوگوں جو ایمان لائے ہو، جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو(۸۵) تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو۔ لہذا انہیں کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔ (۸۶)

اے نبیؐ، ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں (۸۷)،   اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں،  اور تمہاری وہ چچازاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے،  اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبیؐ کے لیے ہبہ کیا ہو اگر نبی اسے نکاح میں لینا چاہے (۸۸)۔  یہ رعایت خالصتاً تمہارے لیے ہے،  دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے (۸۹)  ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کیے ہیں۔ (تمہیں ان حدود سے ہم نے اس لیے مستثنیٰ کیا ہے ) تاکہ تمہارے اوپر کوئی تنگی نہ رہے (۹۰)،   اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ تم کو اختیار دیا جاتا ہے کہ اپنی بیویوں میں سے جس کو چاہو اپنے سے الگ رکھو، جسے چاہو اپنے ساتھ رکھو اور جسے چاہو الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلا لو۔ اس معاملے میں تم پر کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس طرح زیادہ متوقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گی، اور جو کچھ بھی تم ان کو دو گے اس پر وہ سب راضی رہیں گی (۹۱)

اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں کے دلوں میں ہے،  اور اللہ علیم و حلیم ہے (۹۲)  اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں،  اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویوں لے آؤ خواہ ان کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو (۹۳)،   البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے (۹۴)  اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔ ع

 

تفسیر

 

(۷۸)۔ اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ تلقین کرنا ہے کہ جب دشمنوں کی طرف سے اللہ کے رسول پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ ہو رہی ہو اور دینِ حق کو زک پہنچانے کے لیے ذاتِ رسول کو ہدف بنا کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہو، ایسی حالت میں اہل ایمان کا کام نہ تو یہ ہے کہ ان بیہودگیوں کو اطمینان کے ساتھ سُنتے رہیں،  اور نہ یہ کہ خود بھی دشمنوں کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں،  اور نہ یہ کہ جواب میں ان سے گالم گلوچ کرنے لگیں،  بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ عام دِنوں سے بڑھ کر اس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کو اور زیادہ یاد کریں۔ ’’ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے ‘‘ کا مفہوم حاشیہ نمبر ۶۳میں بیان کیا جا چکا ہے۔ صبح و شام تسبیح کرنے سے مُراد دائماً تسبیح کرتے رہنا ہے۔ اور تسبیح کے معنی اللہ کی پاکیزگی بیان کرنے کے ہیں نہ کہ محض دانوں والی تسبیح پھرانے کے۔

(۷۹)۔ اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ احساس دِلانا ہے کہ کفار و منافقین کی ساری جلن اور کُڑھن اُس رحمت ہی کی وجہ سے ہے جو اللہ کے اِس رسول کی بدولت تمہارے اوپر ہوئی ہے۔ اُسی کے ذریعہ سے ایمان کی دولت تمہیں نصیب ہوئی،  کفر  و جاہلیّت کی تاریکیوں سے نِکل کر تم اسلام کی روشنی میں آئے۔ اور تمہارے اندر یہ بلند اخلاقی و اجتماعی اوصاف پیدا ہوئے جن کے باعث تم علانیہ دوسروں سے برتر نظر آتے ہو۔ اسی کا غصّہ ہے جو حاسد لوگ اللہ کے رسول پر نِکال رہے ہیں۔ اس حالت میں کوئی ایسا رویہّ اختیار نہ کر بیٹھنا جس سے تم خدا کی اس رحمت سے محرم ہو جاؤ۔

صلوٰۃ کا لفظ جب علیٰ کے صلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی رحمت،  مہربانی اور شفقت کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کی طرف سے انسانوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی دعائے رحمت کے ہوتے ہیں،  یعنی ملائکہ انسانوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ تو اِن پر فضل فرما اپنی عنایات سے اِنہیں سرفراز کر ایک مفہوم یُصَلِّیْ عَلَیکُمْ کا یہ بھی ہے کہ یشیع عنکم الذکر الجمیل فی عباداللہ، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے بندوں کے درمیان ناموری عطا فرماتا ہے اور تمہیں اِس درجے کو پہنچا دیتا ہے کہ خلقِ خدا تمہاری تعریف کرنے لگتی ہے اور ملائکہ تمہاری مدح و ثنا کے چرچے کرتے ہیں۔

(۸۰)۔ اصل الفاظ ہیں تَحِیَّتھُمْ یَوْمَ یَلقَوْنَہٗ سَلٰمٗ’’ ان کا تحیّہ اس سے ملاقات کے روز سلام ہو گا۔ ‘‘ اس کے تین مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ خود السّلام علیکم کے ساتھ ان کا استقبال فرمائے گا،  جیسا کہ سُورۂ یٰسین میں فرمایا

کہ سَلاَم قَوْلاًمِّنْ رَّ بٍّ رَّ حِیْمٍ(آیت۵۸)۔ دوسرے یہ کہ ملائکہ ان کو سلام کریں گے،  جیسے سورۂ نحل میں ارشاد ہوا اَلَّذِیْنَ تَتْوَفّٰھُمُ الْمَلیٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلاَم عَلَیْکُمُ ادْخُلُواالْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ، ’’جن لو گوں کی روحیں ملائکہ اس حالت میں قبض کریں گے کہ وہ پاکیزہ لوگ تھے،  ان سے وہ کہی گے کہ سلامتی ہو تم پر،  داخل ہو جاؤ جنت میں ان نیک اعمال کی بدولت جو تم دنیا میں کرتے تھے ‘‘(آیت ۳۲)تیسرے یہ کہ وہ خود آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے، جیسے سورۂ یونس میں فرمایا ’دَعْوھُم فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتھُُمْ فِیْھَا سَلام وَاٰخِرُ دَعْوٰ ھُمْ اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ ‘‘ وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ خدایا،  پاک  ہے تیری ذات،  ان کا تحیہ ہو گا سلام اور ان کی تان ٹوٹے گی اس بات پر کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے ‘‘۔ (آیت ۱۰)

(۸۱)۔ مسلمانوں کو نصیحت کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کر کے چند کلمات تسکین ارشاد فرماتا ہے۔ مقصود کلام یہ ہے کہ آپ کو ہم نے یہ کچھ مراتب  عالیہ بخشے ہیں،  آپ کی شخصیت اس سے بہت بلند ہے کہ یہ مخالفین اپنے بہتان و افترا کے طوفان اٹھا کر آپ کا کچھ بگاڑ سکیں۔ لہٰذا آپ نہ ان کی شرارتوں سے رنجیدہ ہوں اور نہ ان کے پروپیگینڈے کو پر کاہ کے برابر بھی کوئی وقعت دیں۔ اپنے فرائض منصبی ادا کیے جائیے اور انہیں جو کچھ ان کا جی چاہے بکنے دیجیے۔ ان کے ساتھ ضمناً تمام خلق کو، جس میں مومن و کافر سب شامل ہیں،  یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا سابقہ کسی معمولی انسان سے نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی شخصیت سے ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے بلند ترین مقام پر سرفراز فرمایا ہے۔

(۸۲)۔ نبی کو’’ گواہ‘‘ بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں

ایک قولی شہادت،  یعنی یہ کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اُصولوں پر مبنی ہے،  نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے۔ خدا کی ہستی اور اس کی توحید، ملائکہ کا سجود، وحی کا نزول،  حیات بعد الموت کا وقوع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دُنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دُنیا ان باتوں کے پیش کرنے والے کا مذاق اُڑائے یا اسے دیوانہ کہے،  مگر نبی کسی کی پروا کیے بغیر اُٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہیں وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اقدار، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں، انہیں اگر ساری دُنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تب بھی نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور اُن تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دُنیا میں رائج ہوں۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حرام سمجھتی ہو،  اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو۔

دوسرے عملی شہادت،  یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اُس مسلک کا عملاً مظاہر کرے جسے دُنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اُٹھا ہے۔ جس چیز کو وہ بُرائی کہتا ہے اُس کے ہر شائبے سے اس کی زندگی پاک ہو۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے،  اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابر ی نہ کر سکے۔ جس قانونِ حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اُٹھا رکھے۔ اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے۔ اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کر لے کہ جس دین کی طرف وہ دُنیا کو بُلا رہا ہے وہ کِس معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے،  کیا کِردار اُس میں پیدا کرنا چاہتا ہے،  اور کیا نظامِ زندگی اُس سے برپا کرانا چاہتا ہے۔

تیسرے اُخروی شہادت،  یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق واضح کر دینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اِسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزا کے،  اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہیے جواس مقامِ بلند پر کھڑی ہو سکے۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دینِ حق کی قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے،  تبھی تو آخرت میں آپؐ یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کر دیا تھا، اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو گی۔ ورنہ اگر معاذاللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ آخرت میں اُن پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرینِ کے خلاف مقدمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنا نے کی کو شش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آخرت میں لو گوں کے اعمال پر شہادت دیں گے،  اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضورؐ تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں،  ورنہ بے دیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے۔ لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے عمال پر قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا ہی انتظام فرما یا ہے۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامۂ اعمال تیار کر رہے ہیں (ملاحظہ ہو ق ٓ،  آیات ۱۷۔ ۱۸اور الکہف۔ آیت ۱۴۹)اور اس کے لیے وہ لو گوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا (یٰسٓ۶۵۔ حم السجدہ ۲۰۔ ۲۱) رہے انبیاء علیم السلام،  تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے ک بندوں تک حق پہنچا دیا گیا گیا تھا۔ قرآن صاف فرماتا ہے :

’’یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْالَاعِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ (المائدہ۔ ۱۰۹)جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا،  کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا،  تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں،  تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔

اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہو گا تو وہ عرض کریں گے :

وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداًمَّادُمْتُ فَیْھِمْ فَلَمَّا تَوَ فَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔ (المائدہ۔ ۱۱۷)

میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے۔

یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیا ء علیہم السلام اعمالِ خلق کے گواہ نہیں ہوں گے۔ پھر گواہ کس چیز کے ہو نگے ؟ اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ     یہ دیتا ہے :

وَکذٰلِکَ جَعَلْنٰٰکُمْ اُمَّتہً وَّ سَطاً لِّتَکُوْنُوْا شھَُدَآئَ عَلیَ النَّاسِ  وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَْکُمْ شَھِیْداً۔ (البقرہ۔ ۱۴۳)

اور اَے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تم کو ایک امّت وَسَط بنا یا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔

وَیَوْمَ نَبْعَثُ  فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْداً عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَھِیْداً عَلیٰ ھٰٓؤُلَآئِ۔ (النحل۔ ۸۹)

اور جس روز ہم ہر اُمّت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اُن پر گواہی دے گا اور ( اے محمدؐ) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت اپنی نوعیت میں اُس شہادت سے مختلف نہ ہو گی جسے ادا کرنے کے لیے حضورؐ کی اُمّت کو اور ہر اُمّت کو اور ہر اُمّت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناضر ہونا لازم آتا ہے۔ اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضورؐ بھی اسی غرض کے لیے پیش ہوں گے۔

اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری، مسلم۔ ترمذی،  ابن ماجہ امام احمد وغیرہ ہم نے عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس،  ابو اللہ وا ء، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے،  جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں،  مگر وہ آپؐ کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رُخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے۔ حضورؐ ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا، یہ تو میرے صحابی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اُمّت کے ایک ایک شخص اور اُس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں ہیں۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضورؐ کے سامنے آپؐ کی اُمّت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں،  تو وہ کسی طرح بھی اِس مضمون سے متعارض نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضورؐ کو اُمت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس کے یہ معنی کب ہیں کہ حضورؐ ہر شخص کے اعمال کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں۔

(۸۳)۔ یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی شخص کا بطور خود ایمان و عملِ صالح پر اچھے انجام کی بشارت دینا اور کفر وبد عملی پر بُرے انجام سے ڈرانا اور بات ہے اور کسی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشر و نذیر بنا کر بھیجا جانا بالکل ہی ایک دوسری بات۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر مامور ہو وہ تو اپنی بشارت اور اپنے اِنذار کے پیچھے لازماً ایک اقتدار رکھتا ہے جس کی بنا پر اس کی بشارتوں اور اس کی تنبیہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کا کسی کام پر بشارت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس احکم الحاکمین کی طرف سے وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کام کے پسندیدہ اور مستحقِ اجر ہونے کا اعلان کر رہا ہے،  لہٰذا وہ فرض یا واجب یا مستحب ہے اور اس کا کرنے و الا ضرور اجر پائے گا۔ اور اس کا کسی کام کے بُرے انجام کی خبر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ قادر مطلق اس کام سے منع کر رہا ہے لہٰذا وہ ضرور گناہ اور حرام ہے اور یقیناً اس کا مرتکب سزا پائے گا۔ یہ حیثیت کسی غیر مامور کی بشارت اور تنبیہ کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔

(۸۴)۔ یہاں بھی ایک عام مبلغ کی تبلیغ اور نبی کی تبلیغ کے درمیان وہی فرق ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ دعوت اِلی اللہ تو ہر مبلّغ دیتا اور دے سکتا ہے،  مگر وہ اللہ کی طرف سے اِس کام پر مامور نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس نبی اللہ کے اذن (Sanction)سے دعوت دینے اُٹھتا ہے۔ اس کی دعوت نری تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بھی اس کے بھیجنے والے ربّ العالمیں کی فرمانروائی کا زور ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اللہ کے بھیجے ہوئے داعی کی مزاحمت خود اللہ کے خلاف جنگ قرار پاتی ہے،  جس طرح دُنیوی حکومتوں میں سرکاری کام انجام دینے والے سرکاری ملازم کی مزاحمت خود حکومت کے خلاف جنگ سمجھی جاتی ہے۔

۸۵۔ یہ عبارت اس باب میں صریح ہے کہ یہاں لفظ نِکاح کا اطلاق صرف عقد پر کیا گیا ہے۔ علمائے لغت میں اس امر پر بہت کچھ اختلاف ہوا ہے کہ عربی زبان میں نکاح کے اصل معنی کیا ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ وطی اور عقد کے درمیان لفظاً مشترک ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ ان دونوں میں معنیً مشترک ہے۔ تیسرا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی عقدِ ترْویج کے ہیں اور وطی کی لیے اس کو مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ اور چوتھا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی وطی کے ہیں اور عقد کے لیے یہ مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ثبوت میں ہر گروہ نے کلامِ عرب سے شواہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن رااغت اصفہانی نے پورے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ

اصل النکاح العقد ثم استعیر للجماع و محال ان یکون فی الاسل للجماع ثم استعیر للعقد۔ ’’ لفظ نکاح کی اصل معنی عقد ہی کے ہیں پھر یہ لفظ استعارۃً جماع کے لیے استعمال کیا گیا ہے،  اور یہ بات محال ہے کہ اس کے اصل معنی جماع کے ہوں اور استعارے کے طور پر اسے عقد کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ ‘‘ اِس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ جتنے الفاظ بھی جماع کے لیے عربی زبان،  یا دُنیا کی کسی دوسری زبان میں حقیقۃً وضع کیے گیے ہیں وہ سب فحش ہیں۔ کوئی شریف آدمی کسی مہذب مجلس میں ان کو زبان پر لانا بھی پسند نہیں کرتا۔ اب آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لفظ حقیقۃً اس فعل کے لیے وضع کیا گیا ہو اُسے کوئی معاشرہ شادی بیاہ کے لیے مجزو استعارے طور پر استعمال کرے۔ اس معنی کو ادا کرنے کے لیے تو دُنیا کی ہر زنان میں مہذب الفاظ ہی استعمال کیے گیے ہیں نہ کہ فحش الفاظ۔

جہاں تک قرآن اور سنت کا تعلق ہے،  ان میں نکاح ایک اصلاحی لفظ ہے جس سے مُراد یا تو مجرد عقد ہے،  یا پھر وطی بعدِ عقد۔ لیکن وطی بلا عقد کے لیے اس کو کہیں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح کی وطی کو تو قرآن اور سنت زنا اور سفاح کہتے ہیں نہ کہ نکاح۔

(۸۶)۔ یہ ایک منفرد آیت ہے جو غالباً اُسی زمانے میں طلاق کا کوئی مسئلہ پیدا ہو جانے پر نازل ہوئی تھی، اس لیے پچھلے سلسلۂ بیان اور بعد کے سلسلۂ بیان کے درمیان اس کو رکھ دیا گیا۔ اس ترتیب سے یہ بات خود مترشح ہوتی ہے کہ یہ تقریر ما سبق کے بعد اور تقریر ما بعد سے پہلے نازل ہوئی تھی۔

اس آیت سے جو قانونی احکام نکلتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :

۱) آیت میں اگرچہ’’ مومن عورتوں ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ کتابی عورتوں کے معاملہ میں قانون وہ نہیں ہے جو یہاں بیان ہوا ہے،  لیکن تمام علمائے اُمّت کا اس پر اتفاق ہے کہ معنًی یہی حکم کتابیات کے بارے میں بھی ہے۔ یعنی کتابی عورت سے بھی کسی مسلمان نے نکاح کیا ہو تو اس کی طلاق،  اس کے مہر، اس کی عدّت اور اس کو مُتعۂ طلاق دینے کے جملۂ احکام وہی ہیں جو مومن عورت سے نکاح کی صورت میں ہیں۔ علماء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مخصوص طور پر صرف مومن عورتوں کا ذکر جو کیا ہے اس سے مقصود دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مومن عورتیں ہی موزوں ہیں۔ یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح جائز ضرور ہے مگر مناسب اور پسندیدہ نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر قرآن کے اس انداز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اہل ایمان سے متوقع یہی ہے کہ وہ مومن عورتوں سے نکاح کریں گے۔

۲) ’’ہاتھ لگانے ‘‘ یا ’’مَس‘‘ کرنے سے مُراد لغت کے اعتبار سے تو محض چھونا ہے،  لیکن یہاں یہ لفظ کنایۃً مباشرت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس لحاظ سے ظاہر آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر شوہر نے مباشرت نہ کی ہو تو خواہ وہ عورت کے پاس تنہائی میں رہا ہو، بلکہ اسے ہاتھ بھی لگا چکا ہو تب بھی طلاق دینے کی صورت میں عدّت لازم نہ آئے۔ لیکن فقہاء نے برسبیلِ احتیاط یہ حکم لگایا ہے کہ اگر خَلوت صحیحہ ہو جائے (یعنی جس میں مباشرت ممکن ہو) تو اس کے بعد طلاق دینے کی صورت میں عدّت لازم آئے گی اور سقوطِ عدّت صرف اُس حالت میں ہو گا جبکہ خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو۔

۳) طلاق قبلِ خلوت کی صورت میں عدّت ساقط ہو جانے کے معنی یہ ہیں کہ اس صورت میں مرد کا حقِ رجوع باقی نہیں رہتا اور عورت کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ طلاق کے فوراً بعد جس سے چاہے نکاح کر لے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ حکم صرف طلاق قبلِ خلوت کا ہے۔ اگر خلوت سے پہلے عورت کا شوہر مر جائے تو اس صورت میں عدّتِ وفات ساقط نہیں ہوتی بلکہ عورت کو وہی چار مہینے دس دن کی عدّت گزارنی ہوتی ہے جو منکوحۂ مدخولہ کے لیے واجب ہے۔ (عدّت سے مُراد وہ مدّت ہے جس کے گزر نے سے پہلے عورت کے لیے دوسرا نکاح جائز نہ ہو۔ )

۴) مَلَکُمْ عَلَیھِنَّ مِنْ عِدَّ ۃٍ(تمہارے لیے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے ) کے الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ عِدّت عورت پر مرد کا حق ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ صرف مرد ہی کا حق ہے۔ دراصل اس میں دو حق اور بھی شامل ہیں۔ ایک حقِ اولاد۔ دوسرے حق اللہ یا حق الشرع۔ مرد کا حق وہ اس بنا پر ہے کہ اِس دَوران میں اُس کو رجوع کر لینے کا حق ہے،  نیز اس بنا پر کہ اس کی اولاد کے نسب کا ثبوت اس بات پر منحصر ہے کہ عدّت کے زمانہ میں عورت کا حاملہ ہونا یا نہ ہونا ظاہر ہو جائے۔ اولاد کا حق اس میں شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اپنے با پ سے بچے کے نسب کا ثابت ہونا اس کے قانونی حقوق قائم ہونے کے لیے ضروری ہے اور اس کے اخلاقی مرتبے کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس کا نسب مشتبہ نہ ہو۔ پھر اس میں حق اللہ (یا حق الشرع) اس لیے شامل ہو جاتا ہے کہ اگر لوگوں کو اپنے اور اپنی اولاد کے حقوق کی پروانہ بھی ہو تو خدا کی شریعت ان حقوق کی حفاظت ضروری سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو یہ پروانہ بھی لکھ کر دیدے کہ میرے مرنے کے بعد یا مجھ سے طلاق لے لینے کے بعد تیرے اُوپر میری طرف سے کوئی عدت واجب نہ ہو گی تب بھی شریعت کسے حال میں اس کو ساقط نہ کرے گی۔

۵) فَمَتِّعُوْ ھُنَّ وَسَرِّحُوْھُنَّ سَرَاحاًجَمِیْلاً (ان کو کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو) اس حکم کا منشا دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقے پر پورا کرنا ہو گا۔ اگر نکاح کے وقت مہر مقرر کیا گیا تھا اور پھر خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی تو اس صورت میں نصف مہر دینا واجب ہو گا جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳۷ میں ارشاد ہوا ہے۔ اس واجب سے زائد کچھ دینا لازم نہیں ہے مگر مستحب ہے۔ مثلاً یہ بات پسندیدہ ہے کہ نصف مہر دینے کے ساتھ مرد و ہ جوڑا بھی عورت کے پاس ہی رہنے دے جو دُلہن بننے کے لیے بھیجا گیا تھا، یا اور کچھ سامان اگر شادی کے موقع پر اسے دیا گیا تھا تو وہ واپس نہ لے لیکن اگر نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو اس صورت میں عورت کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرنا واجب ہے،  اور یہ ’’کچھ نہ کچھ ‘‘ آدمی کی حیثیت اور مقدرت کے مطابق ہونا چاہیے،  جیسا کہ بقرہ کی آیت ۲۳۶ میں فرمایا گیا ہے۔ علماء کا ایک گروہ اس بات کا بھی قائل ہے کہ مُتعۂ طلاق دینا بہرحال واجب ہے خواہ مہر مقرر کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ (اسلامی فقہ کی اصطلاح میں مُتعۂ طلاق اُس مال کو کہتے ہیں جو طلاق دے کر رخصت کرتے وقت عورت کو دیا جاتا ہے )۔

۶) بھلے طریقے سے رخصت کرنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ عورت کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے بلکہ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی تھُکّا فضیحتی کے بغیر شریفانہ طریقے سے علیٰحدگی اختیار کر لی جائے۔ ایک آدمی کو اگر عورت پسند نہیں آئی ہے یا کوئی اور وجہ شکایت پیدا ہوئی ہے جس کی بنا پر وہ اس عورت کو نہیں رکھنا چاہتا تو بھلے آدمیوں کی طرح اسے طلاق دے اور رخصت کر دے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس کے عیوب لوگوں کے سامنے بیان کرے اور اپنی شکایتوں کے دفتر کھولے تاکہ کوئی دوسرا بھی اس عورت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ قرآن کے اس ارشاد سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ طلاق کے نفاذ کو کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ معلّق کرنا خدائی تشریع کی حکمت و مصلحت کے بالکل خلاف ہے،  کیوں کہ اس صورت میں ’’ بھلے طریقے سے رخصت کرنے ‘‘ کا کوئی امکان نہیں رہتا، بلکہ مرد نہ بھی چاہے تو تھُکّا فضیحتی اور بدنامی و رسوائی ہو کر رہتی ہے۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں اس امر کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے کہ مرد کا اختیارِ طلاق کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ مشروط ہو۔ آیت بالکل صراحت کے ساتھ ناکح کو طلاق کا اختیار دے رہی ہے اور اُسی پر یہ ذمہ داری ڈال رہی ہے کہ اگر وہ ہاتھ لگانے سے پہلے عورت کو چھوڑنا چاہے تو لازماً نصف مہر دے کر یا اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مال دے کر چھوڑے۔ اس سے آیت کا مقصود صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کو کھیل بننے سے روکنے کے لیے مرد پر مالی ذمہ داری کا ایک بوجھ ڈال دیا جائے تاکہ سہ خود ہی اپنے اختیارِ طلاق دہ سوچ سمجھ کر استعمال کرے اور دو خاندانوں کے اندرونی معاملے میں کسی بیرونی مداخلت کی نوبت نہ آنے پائے،  بلکہ شوہر سرے سے کسی کو یہ بتانے پر مجبور ہی نہ ہو کہ وہ بیوی کو کیوں چھوڑ رہا ہے۔

۷) ابن عباس، سعید بن المُسَیِّب،  حسن بصری،  علی بن الحسین (زین العابدین)،  امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے آیت کے الفاظ ’’جب تم نکاح کرو پھر طلاق دے دو ‘‘ سے یہ استدلال کیا ہے کہ طلاق اُسی صورت میں واقع ہوتی ہے جبکہ اس سے پہلے نکاح ہو چکا ہو۔ نکاح سے پہلے طلاق بے اثر ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص یوں کہے کہ ’’ اگر میں فلاں عورت سے،  یا فلاں قبیلے یا قوم کی عورت سے یا کسی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ‘‘۔ تو یہ قول لغو و بے معنیٰ ہے، اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو سکتی۔ اس خیال کی تائید میں یہ احادیث پیش کی جاتی ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: لا طلاق لا بن اٰدم فی ما لا یملک، ’’ ابن آدم جس چیز کا مالک نہیں ہے اُس کے بارے میں طلاق کا اختیار استعمال کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا‘‘ (احمد، ابو داؤد،  ترمذی، ابن ماجہ ) اور لاَ طلاق قبل النکاح’’، نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں ‘‘۔ ( ابن ماجہ)۔ مگر فقہاء کی ایک بڑی جماعت یہ کہتی ہے کہ اِس آیت اور اِن احادیث کا اطلاق صرف اِس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی شخص ایک غیر عورت کو جو اس کے نکاح میں نہ ہو یوں کہے کہ ’’ تجھ پر طلاق ہے ‘‘ یا ’’ میں نے تجھے طلاق دی‘‘۔ یہ قول بلا شبہ لغو ہے جس پر کوئی قانونی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ لیکن اگر وہ یوں کہے کہ ’’ اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھ پر طلاق ہے۔ ‘‘ تو یہ نکاح سے پہلے طلاق دینا نہیں ہے بلکہ دراصل وہ شخص اس امر کا فیصلہ اور اعلان کرتا ہے کہ جب وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی تو اس پر طلاق وارد ہو گی۔ یہ قول لغو و بے اثر نہیں ہو سکتا،  بلکہ جب بھی وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی اُسی وقت اُ سپر طلاق پڑ جائے گی۔ یہ مسلک جن فقہاء کا ہے ان کے درمیان پھر اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ اس نوعیت کے ایقاعِ طلاق کی وسعت کس حد تک ہے۔

امام انو حنیفہ، امام محمد اور امام زُفَر کہتے ہیں کہ خواہ کوئی شخص عورت یا قوم یا قبیلے کی تخصیص کرے یا مثال کے طور پر عام بات اس طرح کہے کہ ’’ جس عورت سے بھی میں نکاح کروں اس پر طلاق ہے ‘‘،  دونوں صورتوں میں طلاق واقع ہو جائے گی۔ ابو بکر جَصّاص نے یہی رائے حضرت عمرؓ،  عمداللہ بن مسعود ؓ،  ابراہیم النَّخعی، مجاہد اور عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ سے بھی نقل کی ہے۔

سُفیان ثَوری اور عثمان الْبَتِّی کہتے ہیں کہ طلاق صرف اُسی صورت میں پڑے گی جب کہنے والا یوں کہے کہ ’’ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔ ‘‘حسن بن صالح، لَیث بن سعد اور عامر الشَّعبِی کہتے ہیں کہ اس طرح کی طلاق عمومیت کے ساتھ بھی پڑ سکتی ہے بشرطیکہ اس میں کسی نوع کی تخصیص ہو۔ مثلاً آدمی نے یوں کہا ہو کہ ’’ اگر میں فلاں خاندان،  یا فلاں قبیلے،  یا فلاں شہر یا ملک یا قوم کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔ ‘‘

ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک اُوپر کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے مزید شرط یہ لگاتے ہیں کہ اس میں مدّت کا بھی تعین ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر آدمی نے یوں کہا ہو کہ ’’ اگر میں اِس سال یا آئندہ دس سال کے اندر فلاں عورت یا فلاں گروہ کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ‘‘ تب یہ طلاق واقع ہو گی ورنہ نہیں۔ بلکہ امام مالکؒ اس پر اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ اگر یہ مدّت اتنی طویل ہو جس میں اس شخص کا زندہ رہنا متوقع نہ ہو تو اس کا قول نے اثر رہے گا۔

(۸۷)۔ یہ دراصل جواب ہے اُن لوگوں کے اعتراض کا جو کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) دوسرے لوگوں کے لیے تو بیک وقت چار بیویاں رکھنا ممنوع قرار دیتے ہیں،  مگر خود انہوں نے یہ پانچویں بیوی کیسے کر لی۔ اس اعتراض کی بنیاد یہ تھی کہ حضرت زینب ؓ سے نکاح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی چار بیویاں موجود تھیں۔ ایک حضرت سودہؓ جن سے  ۳ قبلِ ہجرت میں آپ نے نکاح کیا تھا۔ دوسری،  حضرت عائشہؓ جن سے نکاح تو ۳ قبل ہجرت میں ہو چکا تھا مگر ان کی رخصتی شوال ۱ ہجری میں ہوئی تھی،  تیسری،  حضرت حفصہؓ جن سے شعبان ۳ ہجری میں آپ کا نکاح ہوا۔ اور چوتھی،  حضرت اُم سَلمہ ؓ جنہیں حضورؐ نے شوال ۴ ہجری میں زوجیت کا شرف عطا فرمایا۔ اس طرح حضرت زینب ؓ آپؐ کی پانچویں بیوی تھیں۔ اس پر کفار و منافقین جو اعتراض کر رہے تھے اُس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دے رہا ہے کہ اے نبیؐ،  تمہاری یہ پانچوں بیویاں جنہیں مہر دے کر تم اپنے نکاح میں لائے ہو، ہم نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس جوان کا مطلب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے چار کی قید لگانے والے بھی ہم ہی ہیں اور اپنے نبی کو اس قید سے مستثنیٰ کرنے والے بھی ہم خود ہیں۔ اگر وہ قید لگانے کے ہم مجاز تھے تو آخر اس استثناء کے مجاز ہم کیوں نہیں ہیں۔

اس جواب کے بارے میں یہ بات پھر ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ اس سے مقصود کفار و منافقین کو مطمئن کرنا نہیں تھا بلکہ اُن مسلمانوں کو مطمئن کرنا تھا جن کے دِلوں میں مخالفینِ اسلام وسوسے ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں چونکہ یقین تھا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں نازل ہوا ہے،  اس لیے قرآن کی ایک محکم آیت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ نبی بے چار بیویوں کے عام قانون سے اپنے آپ کو خود مستثنیٰ نہیں کر لیا ہے بلکہ یہ استثنا ء کا فیصلہ ہمارا کیا ہوا ہے۔

(۸۸)۔ پانچویں بیوی کو حضورؐ کے لیے حلال کرنے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضورؐ کو چند مزید اقسام کی عورتوں سے بھی نکاح کی اجازت عطا فرمائی:

۱۔ وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے آپؐ کی ملکیت میں آئیں۔ اس اجازت کے مطابق حضورؐ نے غزوۂ قُریظہ کے سبایا میں سے حضرت رَیحانہؓ،  غزوۂ بنی المُصْطَلِق کے سبایا میں سے حضرت جُوَیْریہؓ غزوۂ خیبر کے سبایا میں سے حضرت صفیہؓ اور مُقَقَسِ مصر کی بھیجی ہوئی حضرت ماریہ قبطیہؓ کو اپنے لیے مخصوص فرمایا۔ ان میں سے مقدّم الذکر تین کو آپؐ نے آزاد کر کے ان سے نکاح کیا تھا،  لیکن حضرت ماریہؓ سے بربنائے مِلکِ یمین تمتّع فرمایا، ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ آپؐ نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا ہو۔

۲۔ آپؐ کی چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد اور خالہ زاد بہنوں میں سے وہ خواتین جنہوں نے ہجرت میں آپؐ کا ساتھ دیا ہو۔ آیت میں آپؐ کے ساتھ ’’ہجرت کرنے ‘‘ کا جو ذکر آیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سفر میں آپؐ کے ساتھ رہی ہوں،  بلکہ یہ تھا کہ وہ بھی اسلام کی خاطر راہِ خدا میں ہجرت کر چکی ہوں۔ حضورؐ کو اختیار دیا گیا کہ اِن رشتہ دار مہاجر خواتین میں سے بھی آپؐ جس سے چاہیں نکاح کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اس اجازت کے مطابق آپؐ نے ۷ ھ میں حضرت اُمّ حبیبہؓ سے نکاح فرمایا۔ (ضمناً اس آیت میں یہ صراحت بھی ہے کہ چچا،  ماموں،  پھوپھی اور خالہ کی بیٹیاں ایک مسلمان کے لیے حلال ہیں۔ اس معاملہ میں اسلامی شریعت عیسائی اور یہودی،  دونوں مذہبوں سے مختلف ہے۔ عیسائیوں کے ہاں کسی ایسی عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا جس سے سات پشت تک مرد کا نسب ملتا ہو۔ اور یہودیوں کے ہاں سگی بھانجی اور بھتیجی تک سے نکاح جائز ہے )۔

۳۔ وہ مومن عورت جو اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ہبہ کرے، یعنی بلا مہر آپ کو حضورؐ کے نکاح میں دینے کے لیے تیار ہو اور حضورؐ اسے قبول کرنا پسند فرمائیں۔ اس اجازت کی بنا پر آپؐ نے شوال ۷ ھ میں حضرت میمونہؓ کو اپنی زوجیت میں لیا۔ لیکن آپؐ نے یہ پسند نہ کیا کہ مہر کے بغیر اُن کے ہبہ سے فائدہ اُٹھائیں۔ اس لیے آپؐ نے ان کی کسی خواہش اور مطالبہ کے بغیر ان کو مہر عطا فرمایا۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ حضورؐ کے نکاح میں کوئی موہوبہ بیوی نہ تھیں۔ مگر اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آپؐ نے ہبہ کرنے والی بیوی کو بھی مہر دیے بغیر نہ رکھا۔

(۸۹)۔ اس فقرے کا تعلق اگر صرف قریب کے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ دوسرے کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ کو اس کے لیے ہبہ کرے اور وہ بلا مہر اس سے نکاح کر لے۔ اور اگر اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے مانا جائے تو اس سے مُراد یہ ہو گی کہ چار سے زیادہ نکاح کرنے کی رعایت بھی صرف حضورؐ کے لیے ہے،  عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کچھ احکام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے خاص ہیں جن میں اُمت کے دوسرے لوگ آپؐ کے ساتھ شریک نہیں ہیں۔ قرآن و سُنت کے تتبُّع سے ایسے متعدد احکام کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً حضورؐ کے لیے نماز تہجد فرض تھی اور باقی تمام اُمت کے لیے وہ نفل ہے۔ آپؐ کے لیے اور آپؐ کے خاندان والوں کے لیے صدقہ لینا حرام ہے اور کسی دوسرے کے لیے وہ حرام نہیں ہے۔ آپؐ کی میراث تقسیم نہ ہو سکتی تھی، باقی سب کی میراث کے لیے وہ احکام ہیں جو سورۂ نساء میں بیان ہوئے ہیں۔ آپؐ کے لیے چار سے زائد بیویاں حلال کی گئیں،  بیویوں کے درمیان عدل آپ پر واجب نہیں کیا گیا،  اپنے نفس کو ہبہ کر نے والی عورت سے بلا مہر نکاح کرنے کی آپؐ کو اجازت دی گئی،  اور آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی بیویاں تمام اُمت پر حرام کر دی گئیں۔ ان میں سے کوئی خصوصیت بھی ایسی نہیں ہے جو حضورؐ کے علاوہ کسی مسلمان کو حاصل ہو۔ مفسرین نے آپؐ کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی ہے کہ آپؐ کے لیے کتابیہ عورت سے نکاح ممنوع تھا، حالانکہ باقی اُمت کے لیے وہ حلال ہے۔

(۹۰)۔ یہ وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عام قاعدے سے مستثنیٰ فرمایا۔ ’’ تنگی نہ رہے ‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ آپؐ کی خواہشات نفسانی بہت بڑھی ہوئی تھیں اس لیے آپؐ کو بہت بیویاں کرنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ آپؐ صرف چار بیویوں تک محدود رہنے میں تنگی محسوس نہ فرمائیں۔ اس فقرے کا یہ مطلب صرف وہی شخص لے سکتا ہے جو تعصّب میں اندھا ہو کر اس بات کو بھول جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ۲۵ سال کی عمر میں ایک ایسی خاتون سے شادی کی تھی جن کی عمر اُس وقت ۴۰ سال تھی،  اور پوری ۲۵برس تک آپ اُن کے ساتھ نہایت خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کرتے رہے۔ پھر جب اُن کا انتقال ہو گیا تو آپ نے ایک اور سن رسیدہ خاتون حضرت سَودہؓ سے نکاح کیا اور پورے چار سال تک تنہا وہی آپ کی بیوی رہیں۔ اب آخر کون صاحبِ عقل اور ایمان دار آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ ۵۳ سال کی عمر سے گزر جانے کے بعد یکایک حضورؐ کی خواہشات نفسانی بڑھتی چلی گئیں اور آپ کو زیادہ سے زیادہ بیویوں کی ضرورت پیش آنے لگی۔ دراصل ’’ تنگی نہ رہنے ‘‘ کا مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایک طرف تو اُس کارِ عظیم کو نگاہ میں رکھے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اوپر ڈالی تھی اور دوسری طرف اُن حالات کو سمجھے جن میں یہ کار عظیم انجام دینے کے لیے آپ کو مامور کیا گیا تھا۔ تعصب سے ذہن کو پاک کر کے جو شخص بھی ان دونوں حقیقتوں کو سمجھ لے گا وہ بخوبی جان لے گا کہ بیویوں کے معاملے میں آپؐ کو کھُلی اجازت دینا کیوں ضروری تھا،  اور چار کی قید میں آپ کے لیے کیا ’’تنگی‘‘ تھی۔

حضورؐ کے سپرد جو کام کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپؐ ایک اَن گھڑ قوم کو جو اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نہیں بلکہ عام تہذیب و تمدّن کے نقطۂ نظر سے بھی نا تراشیدہ تھی، ہر شعبۂ زندگی میں تعلیم و تربیت دے کر ایک اعلیٰ درجہ کی مہذّب و شائستہ اور پاکیزہ قوم بنائیں۔ اس غرض کے لیے صرف مردوں کو تربیت دینا کافی نہ تھا، بلکہ عورتوں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری تھی۔ مگر جو اُصولِ تمدّن و تہذیب سکھانے کے لیے آپؐ مامور کیے گئے تھے اُن کی رُو سے مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ممنوع تھا اور اس قاعدے کو توڑے بغیر آپؐ کے لیے عورتوں کو براہ راست خود تربیت دینا ممکن نہ تھا۔ اس بنا پر عورتوں میں کام کرنے کی صرف یہی ایک صورت آپؐ کے لیے ممکن تھی کہ مختلف عمروں اور ذہنی صلاحیتوں کی متعدّد خواتین سے آپؐ نکاح کریں،  ان کو براہِ راست خود تعلیم و تربیت دیکر اپنی مدد کے لیے تیار کریں،  اور پھر اُن سے شہری اور بدوی اور جوان اور بوڑھی، ہر قسم کی عورتوں کو دین سکھانے اور اخلاق و تہذیب کے نئے اصول سمجھانے کا کام لیں۔

اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سُپرد یہ خدمت بھی کی گئی تھی کہ پرانے جاہلی نظامِ زندگی کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم کر دیں۔ اس خدمت کی انجام دہی میں جاہلی نظام کے علمبرداروں سے جنگ ناگزیر تھی۔ اور یہ کشمکش ایک ایسے ملک میں پیش آ رہی تھی یہاں قبائلی طرزِ زِندگی اپنی مخصوص روایات کے ساتھ رائج تھا۔ اِن حالات میں دوسری تدابیر کے ساتھ آپؐ کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ آپؐ مختلف خاندانوں میں نکاح کر کے بہت سی دوستیوں کو پختہ اور بہت سی عداوتوں کو ختم کر دیں۔ چنانچہ جن خواتین سے آپؐ نے شادیاں کیں ان کے ذاتی اوصاف کے علاوہ ان کے انتخاب میں یہ مصلحت بھی کم و بیش شامل تھی۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہؓ کے ساتھ نکاح کر کے آپؐ نے حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور زیادہ گہرا اور مستحکم کر لیا۔ حضرت امّ سلمہؓ اُس خاندان کی بیٹی تھیں جس سے ابوجہل اور خالد بن ولیدؓ کا تعلق تھا۔ اور حضرت اُم حبیبہؓ ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ ان شادیوں نے بہت بڑی حد تک ان خاندان کی دشمنی کا زور توڑ دیا،  بلکہ اُم حبیبہؓ کے ساتھ حضورؐ کا نکاح ہونے کے بعد تو ابو سفیان پھر کبھی حضورؐ کے مقابلے پر نہ آیا۔ حضرت صفیہ ؓ، جُویریہ ؓ، اور رَیحانہؓ یہودی خاندانوں سے تھیں۔ انہیں آزاد کر کے جب حضورؐ نے ان سے نکاح کیے تو آپؐ کے خلاف یہودیوں کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ گئیں۔ کیونکہ اُس زمانے کی عربی روایات کے مطابق جس شخص سے کسی قبیلے کی بیٹی بیاہی جاتی وہ صرف لڑکی کے خاندان ہی کا نہیں بلکہ پُورے قبیلے کا داماد سمجھا جاتا تھا اور داماد سے لڑنا بڑے عار کی بات تھی۔

معاشرے کی عملی اصلاح اور اس کی جاہلانہ رسوم کو توڑنا آپؐ کے فرائضِ منصبی میں شامل تھا۔ چنانچہ ایک نکاح آپؐ کو اس مقصد کے لیے بھی کرنا پڑا،  جیسا کہ اسی سور ۂ احزاب میں مفصل بیان ہو چکا ہے۔

یہ مصلحتیں اس بات کی مقتضی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے نکاح کے معاملے میں کوئی تنگی باقی نہ رکھی جائے۔ تاکہ جو کارِ عظیم آپؐ کے سپرد کیا گیا تھا اس کی ضروریات کے لحاظ سے آپؐ جتنے نکاح کرنا چاہیں کر لیں۔

اس بین سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ تعدّد ازواج صرف چند شخصی ضرورتوں کی خاطر ہی جائز ہے اور ان کے ماسوا کوئی غرض ایسی نہیں ہو سکتی جس کے لیے یہ جائز ہو۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ایک سے زائد نکاح کیے ان کی وجہ یہ نہ تھی کہ بیوی بیمار تھی،  یا بانجھ تھی،  یا اولاد نرینہ تھی،  یا کچھ یتیموں کی پر ورش کا مسئلہ در پیش تھا۔ ان محدود شخصی ضروریات کے بغیر آپؐ نے تمام نکاح یا تو تبلیغی و تعلیمی ضروریات کے لیے کیے، یا سیا سی و اجتماعی مقاصد کے لیے۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ نے خود تعدّد ازواج کو ان چند گنی چنی مخصوص اغراض تک،  جن کا آج نام لیا جا رہا ہے،  محدود نہیں رکھا اور اللہ کے رسول نے ان کے سوا بہت سے دوسرے مقاصد کے لیے متعدّد نکاح کیے تو کوئی دوسرا شخص کیا حق رکھتا یہ کہ قانون میں اپنی طرف سے چند قیود تجویز کرے اور او پر سے دعویٰ یہ کرے کہ یہ حد بندیاں وہ شریعت کے مطابق کر رہا ہے۔ در اصل ان ساری حد بندیوں کی جڑ یہ مغربی تخیّل ہے کہ تعدّدِ  ازواج بجائے خود ایک برائی ہے۔ اسی تخیّل کی بنا پر یہ نظریہ پیدا ہوا ہے کہ یہ فعل حرام اگر کبھی حلال ہو بھی سکتا ہے تو صرف شدید ناگزیر ضروریات کے لیے ہو سکتا ہے اب اس درآمد شدہ تخیّل پر اسلام کا جعلی ٹھپہ لگانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کی جائے،  قرآن و سنت اور پوری امتِ مسلمہ کا لٹریچر اس سے قطعاً نا آشنا ہے۔

(۹۱) اس آیت سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خانگی زندگی کی الجھنوں سے نجات دلانا تھا تاکہ آپؐ پورے سکون کے ساتھ اپنا کام کر سکیں۔ جب اللہ تعلی نے صاف الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو پورے اختیارات دے دیے کہ ازواجِ مطہرات میں سے جس کے ساتھ جو بر تاؤ چاہیں کریں تو اس بات کا کو ئی امکان نہ رہا کہ یہ مو من خواتین آپؐ کو کسی طرح پریشان کرتیں یا آپس میں مسابقت اور رقابت کے جھگڑے پیدا کر کے آپ کے لیے الجھنیں پیدا کرتیں۔ لیکن اللہ تعلی سے یہ اختیار پا لینے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام ازواج کے در میان پورا پورا عدل فرما یا،  کسی کو کسی پر ترجیح نہ دی،  او ربا قاعدہ باری مقرر کر کے آپؐ سب کے ہاں تشریف لے جاتے رہے۔ محدّثین میں سے صرف ابو رزین یہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم صرف چار بیویوں (حضرت عائشہؓ،  حضرت حفصہؓ،   حضرت زینب ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ ) کو باریوں کی تقسیم میں شامل کیا تھا اور باقی ازواج کے لیے کوئی باری مقرر نہ تھی۔ لیکن دوسرے تمام محدثین و مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں اور نہایت قوی روایت سے اس امر کا ثبوت پیش ہیں کہ اس اختیار کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں باری باری سے جاتے تھے اور سب سے یکساں برتاؤ کرتے تھے۔ بخاری، مسلم،  نسائی اور ابو داؤد وغیرہم حضرت عائشہ ؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ یہی رہا کہ آپؐ ہم میں سے کسی بیوی کی باری کے دن دوسری بیوی کے ہاں جاتے تو اس سے اجازت لے کر جاتے تھے۔ ‘‘ابو بکر جصاص عروہ بن زبیر کی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ و سلم باریوں کی تقسیم میں ہم میں سے کسی کو ترجیح نہ دیتے تھے۔ اگر چہ کم ہی ایسا ہو تا تھا کہ آپؐ کسی روز اپنی سب بیویوں کے ہاں نہ جاتے ہوں،  مگر جس بیوی کی باری کا دن ہو تا تھا اس کے سوا کسی دوسری بیوی کو چھوتے تک نہ تھے اور یہ روایت بھی حضرت عائشہ ؓ ہی کی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی آخری بیماری میں مبتلا ہوئے اور نقل و حرکت آپؐ لیے مشکل ہو گئی تو آپؐ نے سب بیویوں سے اجازت طلب کی کہ مجھے عائشہ ؓ  کے ہاں رہنے دو،  اور جب سب نے اجازت دے دی تب آپؐ نے آخری زمانہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں گزارا۔ ابن ابی حاتم امام زہری کا قول نقل کرتے ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم کا کسی بیوی کو باری سے محروم کرنا ثابت نہیں ہے اس سے صرف حضرت سودہ ؓ مستثنیٰ ہیں جنہوں نے خود اپنی باری بخوشی حضرت عائشہ ؓ کو بخش دی تھی،  کیوں کہ وہ بہت سن رسیدہ ہو چکی تھیں۔

اس مقام پر کسی کے دِل میں یہ شبہ نہ رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے معاذاللہ اس آیت میں اپنے نبی کے ساتھ کوئی بے جا رعایت کی تھی اور ازواجِ مطہرات کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ فرمایا تھا۔ دراصل جن عظیم مصالح کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بیویوں کی تعداد کے معاملہ میں عام قاعدے وے مستثنیٰ کیا گیا تھا، انہی مصالح کا تقاضہ یہ بھی تھا کہ آپؐ کو خانگی زندگی کا سکون بہم پہنچایا جائے اور اُن اسباب کا سدّ باب کیا جائے جو آپؐ کے لیے پریشان خاطری کے موجب ہو سکتے ہوں ازواجِ مطہرات کے لیے یہ ایک بہت بڑا شرف تھا کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم جیسی بزرگ ترین ہستی کی زوجیت حاصل ہوئی اور اس کی بدولت اُن کو یہ موقع نصیب ہوا کہ دعوت و اصلاح کے اُس عظیم الشان کام میں آپؐ کی رفیق کار بنیں جو رہتی دُنیا تک انسانیت کی فلاح کا ذریعہ بننے والا تھا۔ اس مقصد کے لیے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم غیر معمولی ایثار و قربانی سے کام لے رہے تھے اور تمام صحابۂ کرام اپنی حدِ استطاعت تک قربانیاں کر رہے تھی اسی طرح ازواج مطہرات کا بھی یہ فرض تھا کہ ایثار سے کام لیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی اس فیصلے کو تمام ازواج رسولؐ نے بخوشی قبول کیا۔

(۹۲)۔ یہ تنبیہ ہے ازواج مطہرات کے لیے بھی اور دوسرے تمام لوگوں کے لیے بھی۔ ازواج مطہرات کے لیے تنبیہ اس بات کی ہے کہ اللہ کا یہ حکم آ جانے کے بعد اگر وہ دِل میں بھی کبیدہ خاطر ہوں گی تو گرفت سے نہ بچ سکیں گی۔ اور دوسرے لوگوں کے لیے اس میں یہ تنبیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازدواجی زندگی کے متعلق کسی طرح کی بدگمانی بھی اگر انہوں نے اپنے دِل میں رکھی یا فکر و خیال کے کسی گوشے میں بھی کوئی وسوسہ پالتے رہے تو اللہ سے ان کی یہ چوری چھپی نہ رہ جائے گی۔ اس کے ساتھ اللہ کی صفتِ حِلُم کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے تاکہ آدمی کو یہ معلوم ہو جائے کہ نبیؐ کی شان میں گستاخی کا تخیل بھی اگرچہ سخت سزا کا مستوجب ہے،  لیکن جس کے دِل میں کبھی ایسا کوئی وسوسہ آیا ہو وہ اگر اسے نِکال دے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں معافی کی اُمید ہے۔

(۹۳)۔ اس ارشاد کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جو عورتیں اوپر آیت نمبر ۵۰ میں حضورؐ کے لیے حلال کی گئی ہیں ان کے سوا دوسری کوئی عورت اب آپؐ کے لیے حلال نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جب آپ کی ازواجِ مطہرات اس بات کے لیے راضی ہو گئی ہیں کہ تنگی و ترشی میں آپؐ کا ساتھ دیں اور آخرت کے لیے دُنیا کو انہوں نے تج دیا ہے،  اور اس پر بھی خوش ہیں کہ آپؐ جو برتاؤ بھی ان کے ساتھ چاہیں کریں،  تو اب آپؐ کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ ا ن میں سے کسی کو طلاق کے کر اس کی جگہ کوئی اور بیوی لے آئیں۔

(۹۴)۔ یہ آیت اس امر کی صراحت کر رہی ہے کہ منکوحہ بیویوں کے علاوہ مملوکہ عوروں سے بھی تمتع کی اجازت ہے اور ان کی لیے تعداد کی کوئی قید نہیں ہے۔ اسی مضمون کی تصریح سُورۂ نساء آیت ۳، سُورۂ مومنون آیت ۶، اور سورۂ معارج آیت ۳۰ میں بھی کی گئی ہے۔ ان تمام آیات میں مملوکہ عورتوں کو منکوحہ ازواج کے بالمقابل ایک الگ صنف کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے اور پھر ان کے ساتھ ازدواجی تعلق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ نیز سورۂ نساء کی آیت ۳ منکوحہ بیویوں کے لیے چار کی حد مقرر کرتی ہے،  مگر نہ اُس جگہ اللہ تعالیٰ نے مملوکہ عورتوں کے لیے تعداد کی حد مقرر کی ہے اور نہ دوسری متعلقہ آیات میں ایسی کسی حد کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ بلکہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ کے بعد دوسری عورتوں سے نکاح کرنا، یا موجودہ بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لانا حلال نہیں ہے،  البتہ مملوکہ عورتیں حلال ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مملوکہ عورتوں کے معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کی شریعت یہ گنجائش مالدار لوگوں کو بے حساب لونڈیاں خرید کر عیاشی کرنے کے لیے دیتی ہے۔ بلکہ یہ تو ایک بے جا فائدہ ہے جو نفس پرست لوگوں نے قانون سے اٹھایا ہے۔ قانون بجائے خود انسانوں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا،  اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ لوگ اس سے یہ فائدہ اٹھائیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے شریعت ایک مرد کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دیتی ہے،  اور اسے یہ حق بھی دیتی ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لے آئے۔ یہ قانون انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اب اگر کوئی شخص محض عیاشی کی خاطر یہ طریقہ اختیار کرے کہ چار بیویوں کو کچھ مدّت رکھ کر طلاق دیتا اور پھر ان کی جگہ بیویوں کی دوسری کھیپ لاتا چلا جائے،  تو یہ قانون کی گنجائشوں سے فائدہ اُٹھا نا ہے جس کی ذمّہ داری خود اسی شخص پر عائد ہو گی نہ کہ خدا کی شریعت پر۔ اسی طرح شریعت نے جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کو، جبکہ ان کی قوم مسلمان قیدیوں سے تبادلہ کرنے یا فدیہ دے کر اُن کو چھڑانے کے لیے تیار نہ ہو،  لونڈی بنانے کی اجازت دی،  اور جن اشخاص کی ملکیت میں وہ حکومت کی طرف سے دے دی جائیں اُن کو یہ حق دیا کہ ان عورتوں سے تمتع کریں اُن کا وجود معاشرے کے لیے اخلاقی فساد کا سبب نہ بن جائے۔ پھر چونکہ لڑائیوں میں گرفتار ہونے والے لوگوں کی کوئی تعداد معین نہیں ہو سکتی تھی اس لیے قانوناً اس امر کی بھی کوئی حد معین نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایک شخص بیک وقت کتنے غلام اور کتنے لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔ لونڈیوں اور غلاموں کی خرید و فروخت کو بھی اس بنا پر جائز رکھا گیا کہ اگر کسی لونڈی یا غلام کا نباہ ایک مالک سے نہ ہو سکے تو وہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں منتقل ہو سکے اور ایک ہی شخص کی دائمی ملکیت مالک و مملوک دونوں کے لیے عذاب نہ بن جائے۔ شریعت نے یہ سارے قواعد انسانی حالات و ضروریات کو ملحوظ رکھ کر سہولت کی خاطر بنائے تھے۔ اگر ان کو مالدار لوگوں نے عیاشی کا ذریعہ بنا لیا تو اس کا الزام انہی پر ہے نہ کہ شریعت پر۔

 

ترجمہ

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو(۹۵)  نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ(۹۶)  مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ۔ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو(۹۷)  تمہاری یہ حرکتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں،  مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے۔ اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا۔ نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے (۹۸)

تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو(۹۹)،   اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو(۱۰۰)،   یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ کو ہر بات کا علم ہے (۱۰۱)

ازواجِ نبیؐ کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے،  ان کے بھائی،  ان کے بھتیجے،  ان کے بھانجے (۱۰۲)،   ان کے میل جول کی عورتیں (۱۰۳) اور ان کے مملوک (۱۰۴) گھروں میں آئیں۔ (اے عورتو!) تمہیں اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے (۱۰۵)

اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں (۱۰۶)،   اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو(۱۰۷) جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے (۱۰۸)۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے۔ (۱۰۹) ع

 

تفسیر

 

(۹۵)۔ یہ اُس حکم عام کی تمہید ہے جو تقریباً ایک سال کے بعد سُورۂ نور کی آیت ۲۷ میں دیا گیا۔ قدیم زمانے میں اہل عرب بے تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے تھے۔ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص سے ملنا ہوتا تو وہ دروازے پر کھڑے ہو کر پکارنے اور اجازت لے کر اندر جانے کا پابند نہ تھا۔ بلکہ اندر جا کر عورتوں اور بچوں سے پوچھ لیتا تھا کہ صاحبِ خانہ گھر میں ہے یا نہیں۔ یہ جاہلانہ طریقہ بہت سی خرابیوں کا موجب تھا۔ اور بسا اوقات اس سے بہت گھناؤنے اخلاقی مفاسد کا بھی آغاز ہو جاتا تھا۔ اس لیے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص،  خواہ سہ قریبی دوست یا دور پرے کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، آپؐ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ پھر سُورۂ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں میں رائج کرنے کا عام حکم دیدیا گیا۔

(۹۶)۔ یہ اس سلسلے کا دوسرا حکم ہے۔ جو غیر مہذب عادات اہلِ عرب میں پھیلی ہوئی تھیں اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ کسی دوست یا ملاقاتی کے گھر کھانے کا وقت تاک کر پہنچ جاتے۔ یا اس کے گھر آ کر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ کھانے کا وقت ہو جائے۔ اس حرکت کی وجہ سے صاحب خانہ اکثر عجیب مشکل میں پڑ جاتا تھا۔ منہ پھوڑ کر کہے کہ میرے کھانے کا وقت ہے،  آپ تشریف لے جایئے،  تو بے مروّتی ہے۔ کھلائے تو آخر اچانک آئے ہوئے کتنے آدمیوں کو کھلائے۔ ہر وقت ہر آدمی کے بس میں یہ نہیں ہوتا کہ جب جتنے آدمی بھی اس کے ہاں آ جائیں،  ان کے کھانے کا انتظام فوراً کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ عادت سے منع فرمایا اور حکم دے دیا کہ کسی شخص کے گھر کھانے کے لیے اُس وقت جانا چاہیے جب کہ گھر والا کھانے کی دعوت دے۔ یہ حکم صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کے لیے خاص نہ تھا بلکہ اُس نمونے کے گھر میں یہ قواعد اسی لیے جاری کیے گئے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ہاں عام تہذیب کے ضابطے بن جائیں۔

(۹۷)۔ یہ ایک اور بیہودہ عادت کی اصلاح ہے۔ بعض لوگ کھانے کی دعوت میں بلائے جاتے ہیں تو کھانے سے فارغ ہو جانے کے بعد دھرنا مار کر بیٹھ جاتے ہیں اور آپس میں گفتگو کا ایسا سلسلہ چھیڑ دیتے ہیں جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتا۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ صاحبِ خانہ اور گھر کے لوگوں کو اس سے کیا زحمت ہوتی ہے۔ ناشائستہ لوگ اپنی اس عادت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی تنگ کرتے رہتے تھے اور آپؐ اپنے اخلاقِ کریمانہ کی وجہ سے اس کو برداشت کرتے تھے۔ آخر کار حضرت زینبؓ کے ولیمے کے روز یہ حرکت اذیّت رسانی کی حد سے گزر گئی۔ حضورؐ کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ رات کے وقت ولیمے کی دعوت تھی۔ عام لوگ تو کھانے سے فارغ ہو کر رخصت ہو گئے،  مگر دو تین حضرات بیٹھ کر باتیں کرنے میں لگ گئے۔ تنگ آ کر حضورؐ اُٹھے اور ازواج مطہرات کے ہاں ایک چکر لگایا۔ واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپؐ پھر پلٹ گئے اور حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں جا بیٹھے۔ اچھی خاصی رات گزر جانے پر جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ چلے گئے ہیں تب آپؐ حضرت زینب ؓ کے مکان میں تشریف لائے۔ اس کے بعد ناگزیر ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ خود ان بُری عادات پر لوگوں کو متنبہ فرمائے۔ حضرت انس ؓ کی روایت کے مطابق یہ آیات اسی موقع پر نازل ہوئی تھیں۔ (مسلم۔ نَسائی۔ ابنِ جریر)

(۹۸)۔ یہی آیت ہے جس کو آیت حجاب کہا جاتا ہے۔ بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ اس آیت کے نزول سے پہلے متعدد مرتبہ حضورؐ سے عرض کر چکے تھے کہ یا رسول اللہ،  آپؐ کے ہاں بھلے اور بُرے سب ہی قسم کے لوگ آتے ہیں۔ کاش آپ اپنی ازواج مطہرات کو پردہ کرنے کا حکم دے دیتے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے ازواج رسولؐ سے کہا کہ ’’ اگر آپ کے حق میں میری بات مانی جائے تو کبھی میری نگاہیں آپ کو نہ دیکھیں۔ ‘‘لیکن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ قانون سازی میں خود مختار نہ تھے،  اس لیے آپ اشارۂ الٰہی کے منتظر رہے۔ آخر یہ حکم آ گیا کہ محرم مردوں کے سوا (جیسا کہ آگے آیت ۵۵ میں آ رہا ہے ) کوئی مرد حضورؐ کے گھر میں نہ آئے،  اور جس کو بھی خواتین سے کوئی کام ہو وہ پردے کے پیچھے سے بات کرے۔ اِس حکم کے بعد ازواج مطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے،  اور چوں کہ حضورؐ کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا، اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے۔ آیت کا آخری فقرہ خود اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی مردوں اور عورتوں کے دِل پاک رکھنا چاہیں انہیں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔

اب جس شخص کو بھی خدا نے بینائی عطا کی ہے وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جو کتاب مردوں کو عورتوں سے رُو در رُو بات کرنے سے روکتی ہے،  اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی مصلحت یہ بتاتی ہے کہ ’’ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے ‘‘ اُس میں سے آخر یہ نرالی روح کیسے کشید کی جا سکتی ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مردوں اور عورتوں کا بے تکلف میل جول بالکل جائز ہے اور اس سے دِلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو قرآن کی پیروی نہ کرنی ہو تو اس کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ ہے کہ وہ خلاف ورزی کرے اور صاف صاف کہے کہ میں اس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ تو بڑی ہی ذلیل حرکت ہے کہ وہ قرآن کے صریح احکام کی خلاف ورزی بھی کرے اور پھر ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہے کہ یہ اسلام کی ’’روح‘‘ ہے جو میں نے نکال لی ہے۔ آخر وہ اسلام کی کونسی روح ہے جو قرآن و سُنت کے باہر کسی جگہ ان لوگوں کو مِل جاتی ہے ؟

(۹۹)۔ یہ الزام ہے اُن الزام تراشیوں کی طرف جو اُس زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کی جا رہی تھیں اور کفار و منافقین کے ساتھ بعض ضعیف الایمان مسلمان بھی ان میں حصہ لینے لگے تھے۔

(۱۰۰)۔ یہ تشریح ہے اس ارشاد کی جو آغازِ سُورہ میں گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اہلِ ایمان کی مائیں ہیں۔

(۱۰۱)۔ یعنی اگر حضورؐ کے خلاف دِل میں بھی کوئی بُرا خیال کوئی شخص رکھے گا،  یا آپؐ کی ازواج کے متعلق کسی کی نیت میں بھی کوئی برائی چھپی ہو گی تو اللہ تعالیٰ سے وہ چھپی نہ رہے گی اور وہ اس پر سزا پائے گا۔

(۱۰۲)۔ تشریح کی لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورہ نور حواشی نمبر ۳۸ تا ۴۲۔ اس سلسلے میں علامہ آلوسی کی یہ تشریح بھی قابِل ذکر ہے کہ ’’ بھائیوں،  بھانجوں،  اور بھتیجوں کے حکم میں وہ سب رشتہ دار آ جارے ہیں جو ایک عورت کے لیے حرام ہوں،  خواہ وہ نَسَبی رشتہ دار ہوں یا رضاعی۔ اس فہرست میں چچا اور ماموں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ عورت کے لیے بمنزلۂ والدین ہیں۔ یا پھر ان کے ذکر کو اس لیے ساقط کر دیا گیا کہ بھانجوں اور بھتیجوں کا ذکر آ جانے کے بعد اُن کے ذکر کی حاجت نہیں ہے،  کیوں کہ بھانجے اور بھتیجے سے پردہ نہ ہونے کی جو وجہ ہے وہی چچا اور ماموں سے پردہ نہ ہونے کی وجہ بھی ہے ‘‘۔ (روح المعانی)

(۱۰۳)۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور حاشیہ نمبر ۴۳۔

(۱۰۴)۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور حاشیہ نمبر ۴۴۔

(۱۰۵)۔ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم قطعی کے آ جانے کے بعد آئندہ کسی ایسے شخص کو گھروں میں بے حجاب آنے کی اجازت نہ دی جائے جو ان مستثنیٰ رشتہ داروں کے دائرے سے باہر ہو۔ دوسرا مطلب یہ بھی کہ خواتین کو یہ روش ہر گز نہ اختیار کرنی چاہیے کہ وہ شوہر کی موجودگی میں تو پردے کی پابندی کریں مگر جب وہ موجود نہ ہو تو غیر محرم مردوں کے سامنے پردہ اٹھا دیں۔ ان کا یہ فعل چاہے ان کے شوہر سے چھپا رہ جائے خدا سے تو نہیں چھپ سکتا۔

(۱۰۶)۔ اللہ کی طرف سے اپنے نبی پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ پر نے حد مہربان ہے،  آپ کی تعریف فرماتا ہے،  آپؐ کے کام میں برکت دیتا ہے،  آپؐ کا نام بلند کرتا ہے اور آپ پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا ہے۔ ملائکہ کی طرف سے آپؐ پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپؐ سے غایت درجے کی محبت رکھتے ہیں اور آپؐ حق میں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپؐ کو زیادہ سے زیادہ بلند مرتبے عطا فرمائے،  آپؐ کے دین کو سر بلند کرے،  آپؐ کی شریعت کو فروغ بخشے اور آپؐ کو مقام محمُود پر پہنچائے۔ سیاق و سباق پر نگاہ ڈالنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں یہ بات کس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے۔ وقت وہ تھا جب دشمنانِ اسلام اس دینِ مبین کے فروغ پر اپنے دِل کی جلن نکالنے کے لیے حضورؐ کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر رہے تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح کیچڑ اُچھال کر وہ آپؐ کے اُس اخلاقی اثر کو ختم کر دیں گے جس کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے قدم روز بروز بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ان حالات میں یہ آیت نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے دُنیا کو یہ بتایا کہ کفّار و مشرکین اور منافقین میرے نبی کو بدنام کرنے اور نیچا دکھانے کی جتنی چاہیں کوشش کر دیکھیں،  آخر کار وہ منہ کی کھائیں گے،  اس لیے کہ میں اُس پر مہربان ہوں اور ساری کائنات کا نظم و نسق جن فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے وہ سب اُس کے حامی اور ثنا خواں ہیں۔ وہ اس کی مذمت کر کے کیا پا سکتے ہیں جبکہ میں اس کا نام بلند کر رہا ہوں اور میرے فرشتے اس کی تعریفوں کے چرچے کر رہے ہیں۔ وہ اپنے اوچھے ہتھیاروں سے اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں جبکہ میری رحمتیں اور برکتیں اس کے ساتھ ہیں اور میرے فرشتے شب و روز دعا کر رہے ہیں کہ ربّ العالمین، محمدؐ کا مرتبہ اور زیادہ اونچا کر اور اس کے دین کو اور زیادہ فروغ دے۔

(۱۰۷)۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اے لوگو جن کو محمدؐ رسول اللہ کی بدولت راہِ راست نسیب ہوئی ہے،  تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسانِ عظیم کا حق ادا کرہ۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھی، اس شخص نے تمہیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے،  اس شخص نے تمہیں اُٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے،  اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پر کیے،  ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی کوئی بُرائی نہ کی تھی۔ اس لیے اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بغض وہ اس خیرِ مجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو،  جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہو جاؤ،  جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کی تعریف کرو،  جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس زیادہ تم اس کے خیر خواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے ربِّ دوجہاں ! جو طرح تیرے نبیؐ نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں،  تو بھی ان پر بے حد و بے حساب رحمت فرما، ان کا مرتبہ دُنیا میں بھی سب سے زیادہ بلند کر اور آخرت میں بھی انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔

اس آیت میں مسلمانوں کو دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک صَلُّوْا عَلَیْہِ۔ دوسرے سَلِّمُوْ اتَسْلِیْماً

صلوٰۃ کا لفظ جب عَلیٰ کے ص، لہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے تین معنی ہوتے ہیں۔ ایک،  کسی پر مائل ہونا، اس کی طرف محبت کے ساتھ متوجہ ہونا اور اُس پر جھُکنا۔ دوسرے،  کسی کی تعریف کرنا۔ تیسرے،  کسی کے حق میں دُعا کرنا۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لیے بولا جائے گا تو ظاہر ہے کہ تیسرے میں ی میں نہیں ہو سکتا،  کیوں کہ اللہ کا کسی اور وے دُعا کرنا قطعاً نا قابل تصوّر ہے۔ اس لیے لامحالہ وہ صرف پہلے دو معنوں میں ہو گا۔ لیکن جب یہ لفظ بندوں کے لیے بولا جائے گا، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انسان،  تو وہ تینوں معنوں میں ہو گا۔ ا س میں محبت کا مفہوم بھی ہو گا۔ مدح و ثنا کا مفہوم بھی اور دُعائے رحمت کا مفہوم بھی۔ لہٰذا اہلِ ایمان کو نبی صلی اللہ و علیہ و سلم کے حق میں صَلُّوْ عَلَیْہِ کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کے گرویدہ ہو جاؤ،  ان کی مدح و ثنا کرو، اور ان کے لیے دُعا کرو۔

سَلَام کا لفظ بھی دو معنی رکھتا ہے۔ ایک، ہر طرح کی آفات اور نقائص سے محفوظ رہنا، جس کے لیے ہم اردو میں سلامتی کا لفظ بولتے ہیں۔ دوسرے صلح اور عدم مخالفت۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں سَلِّمُوْ ا تِسْلِیْماً کہنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم ان کے حق میں کامل سلامتی کی دُعا کرو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم پوری طرح دِل و جان سے ان کا سا تھ دو،  اُن کی مخالفت سے پرہیز کرو، اور ان کے سچے فرمانبردار بن کر رہو۔

یہ حکم جب نازل ہوا تو متعدّد صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ،  سلام کا طریقہ تو آپؐ ہمیں بتا چکے ہیں (یعنی نماز میں السّلام علیک ایّھا النبی وراحمۃاللہ و برکاتۃٗ  اور ملاقات کے وقت  السّلام علیک یا رسول اللہ کہنا)مگر آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ کیا ہے ؟اس کے جوا ب میں حضورؐ نے بہت سے لوگوں کو مختلف مواقع پر جو درود سکھائے ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :

کعب بن عجُر ہؓ : اللّٰہم صل علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما صلیت علٰی ابراہم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید و بارک علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما بارکت علٰی ابراہیم و علٰی اٰل ابراہیم انک حمیدٌ مجید یہ درود تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرت کعب بن عجر ؓ سے بخاری،  مسلم،  ابو داؤد ترمذی،  نسائی،  ابن ماجہ،  امام احمد ؒ،  ابن ابی شیبہ،  عبدالرزاق،  ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے روایت کیا ہے۔

ابن عباسؓ : ان سے بھی بہت خفیف فرق کے ساتھ وہی درود مروی ہے جو اوپر نقل ہوا ہے (ابن جریر)

ابو ُحمید سا عدی ؓ: اللہم صلی علی محمد وازاجہ وذریتہ کما صلیت علی ابراہیم وبرک علی محمد و ازواجہ و ذریتہ کا بارکت علی ال ابراہیم انک حمیدٌ مجید (مالک،  مسلم،  ابو داود،  ترمذی، ، نسائی،  احمد،  ابن حبان، حاکم )

ابُو مسعود بدریؓ: اللّٰھُمّ صَلیّ علٰی مُحَمّدٍ وَ علیٰ اٰل محَمّدٍ کَمَا صَلّیتَ علیٰ اِبراھیمَ وَبارک عَلیٰ محمدٍوعلیٰ اٰل محَمّدٍ کما بارک علیٰ ابراھیم فی العالمین انّکَ حمیدٌ مَّجید( مالک، مسلم،  ابوداود،  ترمذی،  نَسائی، احمد، ابن جریر، ابن حبان،  حاکم)

ابو سعید خُدری ؓ : اللہم صل علی محمد عبدک ورسولک کما صلیت علی ابراھیم و بارک علی محمد و علی ال محمد کما برکت علی ابرھیم (احمد بخاری نسائی،  ابن ماجہ )

ابو ہریرہ ؓ : اللہم صل علی محمد و علی ال محمد و بارک علی محمد و علی ال محمد کما صلیت و برکت علی ابراہیم فی العالمین انک حمیدٌ مجید (نسائی )

طلحہ: اللہم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم انک حمید مجید و بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم انک حمیدٌ مجید (ابن جریر)

یہ تمام درود الفاظ کے اختلاف کے باوجود معنی میں متفق ہیں۔ ان کے اندر چند اہم نکات ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے :

اوّلاً،  ان سب میں حضورؐ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مجھ پر درود بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا،  تو محمدؐ پر درود بھیج۔ نادان لوگ جنہیں معنی کا شعور نہیں ہے اس پر فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی، اللہ تعلی تو ہم سے فرما رہا ہے کہ تم میرے نبیؐ پر درود بھجو،  مگر ہم الٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ تو درود بھیج۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبیؐ نے لو گوں کو یہ بتا یا ہے کہ تم پر ’’صلوٰۃ‘‘ کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کر سکتے ‘ اس لیے اللہ ہی سے دعا کر و کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے۔ ظاہر بات ہے کہ ہم حضورؐ مراتب بلند نہیں کر سکتے۔ اللہ ہی بلند کر سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے۔ اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے رفع ذکر کیے لیے آپؐ کے دین کو فروغ دینے کے لیے خواہ کتنی ہی کوشش کریں،  اللہ کے فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ محبت و عقیدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہو سکتی ہے ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپؐ سے منحرف کر سکتا ہے۔ اعاذنا اللہ من ذالک۔ لہٰذا حضورؐ پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اللہ سے آپ پر صلوٰۃ کی دعا کی جائے۔ جو شخص اللہم صل علی محمد کہتا ہے وہ گو یا اللہ کے حضور اپنے اعتراف کرتے ہوئے عرض کر تا ہے کہ خدا یا،  تیرے نبیؐ پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا بس میں نہیں ہے تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے۔

ثانیاً، حضورؐ کی شان کرم نے یہ گوا را نہ فرمایا کہ تنہا اپنی ہی ذات کو اس دعا کے لیے مخصوص فرما لیں، بلکہ اپنے ساتھ اپنی آل اور ازواج اور ذریّت کو بھی آپؐ نے شامل کر لیا۔ ازواج اور ذریّت کے معنی تو ظاہر ہیں۔ رہا آل کا لفظ، تو وہ محض حضورؐ کے خاندان والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں وہ سب لوگ آ جاتے ہیں جو آپؐ کے پیرو ہوں اور آپ کے طریقہ پر چلیں۔ عربی لغت کی رُو سے آل اور اہل میں فرق یہ ہے کہ کسی شخص کی آل وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں جو اس کے ساتھی، مدد گار اور متبع ہوں،  خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں اور کسی شخص کے اہل وہ سب لوگ کہے جاتے ہیں جو اس کے رشتہ دار ہوں،  خواہ وہ اس کے ساتھی اور متبع ہوں یا نہ ہوں۔ قرآن مجید میں ۱۴ مقامات پر آلِ فرعون کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے کسی جگہ بھی آل سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ ؑ کے مقابلے میں اس کے ساتھی تھے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ آیت ۴۹۔ ۵۰۔ آل عمران، ۱۱۔ الاعراف، ۱۳۰۔ المومن، ۴۶) پس آل محمد سے ہر وہ شخص خارج ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے پر نہ ہو،  خواہ وہ خاندان رسالت ہی کا ایک فرد ہو،  اور اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو حضورؐ کے نقش قدم پر چلتا ہو،  خواہ وہ حضورؐ کوئی دور کا بھی نسبی تعلق نہ رکھتا۔ البتہ خاندانِ رسالت کے وہ افراد بدرجۂ اولیٰ آلِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم  ہیں جو آپؐ سے نسبی تعلق بھی رکھتے ہیں اور آپؐ کے پیر و بھی ہیں۔

ثالثاً ہر درود جو حضورؐ نے سکھایا ہے اس میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ آپؐ  پر ویسی ہی مہربانی فر مائی جائے جیسی ابراھیم ؑ اور آل ابراہیمؑ  پر فرمائی گئی ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے میں لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی ہے۔ اس کی مختلف تاویلیں علماء نے کی ہیں۔ مگر کوئی تاویل دل کو نہیں لگتی۔ میرے نزدیک صحیح تاویل یہ ہے (والعلم عنداللہ)کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم ؑ پر ایک خاص کرم فرمایا ہے جو آج تک کسی پر نہیں فرمایا،  اور وہ یہ ہے کہ تمام وہ انسان جو نبوت اور وحی اور کتاب کو ماخذِ ہدایت مانتے ہیں وہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیشوائی پر متفق ہیں،  خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد منشاء یہ کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعلی نے تمام انبیاء کے پیروؤں کا مر جع بنایا ہے اسی طرح مجھے بھی بنا دے۔ اور کوئی ایسا شخص جو نبوت کا ماننے والا ہو،  میری نبوت پر ایمان لانے سے محروم نہ رہ جائے۔

یہ امر کہ حضورؐ پر درود بھیجنا سنت اسلام ہے جب آپؐ کا نام آئے اس کا پڑھنا مستحب ہے اور خصوصاً نماز میں اس کا پڑھنا مسنون ہے،  اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ عمر میں ایک مرتبہ حضورؐ پر درود بھیجنا فرض ہے،  کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اس کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے بعد درود کے مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

امام شافعی ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ نماز میں آخری مرتبہ جب آدمی تشہد پڑھتا ہے اُس میں صلوٰۃ علی النبی پڑھنا فرض ہے،  اگر کوئی شخص نہ پڑھے گا تو نماز نہ ہو گی۔ صحابہؓ میں سے ابنِ مسعود انصاریؓ،  ابن عمر ؓ اور جابرؓ  بن عبداللہ،  تابعین میں سے شَعبِی،  امام محمد بن کعب قُرظی اور مُقاتِل بن حَیّان، اور فقہاء میں سے اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مسلک تھا،  اور آخر میں امام احمد بن حنبلؒ نے بھی اسی کو اختیار کر لیا تھا۔ امام ابو حنیفہ ؒ،  امام مالک ؒ اور جمہور علماء مسلک یہ ہے کہ درود عمر میں ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے۔ یہ کلمۂ شہادت کی طرح ہے کہ جس نے ایک مرتبہ اللہ کی اِلہٰیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا اقرار کر لیا اس نے فرض ادا کر دیا۔ اسی طرح جس نے ایک دفعہ درود پڑھ لیا وہ فریضۂ صلوٰۃ علی النبی سے سبکدوش ہو گیا۔ اس کے بعد نہ کلمہ پڑھنا فرض ہے نہ درود۔

ایک اور گروہ نماز میں اس کا پڑھنا مطلقاً واجب قرار دیتا ہے۔ مگر تشہد کے ساتھ اس کو مقید نہیں کرتا۔

ایک دوسرے گروہ کے نزدیک ہر دعا میں اس کا پڑھنا واجب ہے۔ کچھ اور لوگ اس کے قائل ہیں کہ جب بھی حضورؐ کا نام آئے،  درود پڑھنا واجب ہے۔ اور ایک گروہ کے نزدیک ایک مجلس میں حضورؐ کا ذکر خواہ کتنی ہی مرتبہ آئے،  درود پڑھنا بس ایک دفعہ واجب ہے۔

یہ اختلافات صرف وجوب کے معاملہ میں ہیں۔ باقی رہی درود کی فضیلت،  اور اس کا موجب اجر و ثواب ہونا،  اور اس کا ایک بہت بڑی نیکی ہونا،  تو اس پر ساری اُمت متفق ہے۔ اس میں کسی ایسے شخص کو کلام نہیں ہو سکتا جو ایمان سے کچھ بھی بہرہ رکھتا ہو۔ درود تو فطری طور پر ہر اس مسلمان کے دِل سے نکلے گا جسے یہ احساس ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بعد ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں۔ اسلام اور ایمان کی جتنی قدر انسان کے دل میں ہو گی اتنی ہی زیادہ قدر اس کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے احسانات کی بھی ہو گی، اور جتنا آدمی ان احسانات کا قدر شناس ہو گا اتنا ہی زیادہ وہ حضورؐ پر درود بھیجے گا۔ پس درحقیقت کثرتِ درود ایک پیمانہ ہے جو ناپ کر بتا دیتا ہے کہ دینِ محمدؐ سے ایک آدمی کتنا گہرا تعلق رکھتا ہے اور نعمتِ ایمان کی کتنی قدر اس کے دِل میں ہے۔ اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ من صلّ عَلَیَّ صلوٰۃ لم تزل الملٰئِکۃ تصلّی علیہ ما صلّٰی علیَّ  (احمد و ابن ماجہ)’’ جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے ملائکہ اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہے ‘‘من صلّٰی علیّ واحدۃ صلی اللہ علیہ عشراً   ( جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس بار درود بھیجتا ہے۔ ‘‘ اولی الناس بی یومالقیامۃ اکثر ھم علیّ صلوٰۃ(ترمذی)’’قیامت کے روز میرے ساتھ رہنے کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجے گا۔ ‘‘البخیل الذی ذکرتُ عندہ فلم یصلّ عَلَیَّ(ترمذی) ’’بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا دوسروں کے لیے  اللّٰھمَّ صلّ علیٰ فلان  یا  صلّی اللہ علیہ و سلم۔۔۔۔ یا اسی طرح کے دوسرے الفاظ کے ساتھ صلوٰۃ جائز ہے یا نہیں،  اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ جس میں قاضی عیاض سب سے زیادہ نمایاں ہیں،  اسے مطلقاً جائز رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود غیر انبیاء پر صلوٰۃ کی متعدد مقامات پر تصریح کی ہے۔ مثلاً اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَات مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃ    (البقرہ۔ ۱۵۷) خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرْ ھُمْ وُتُزَکِّھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ۔ (التوبہ۔ ۱۰۳) ھُوَالَّذِیْ یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓعِکَتُہٗ (الاحزاب۔ ۴۳)اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی متعدد مواقع پر لفظ صلوٰۃ کے ساتھ غیر انبیاء کو دعا دی ہے۔ مثلاً ایک صحابی کے لیے آپؐ نے دُعا فرمائی کہ اللّٰھُمَّ صَلّ علیٰ اٰل ابی ادفیٰ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی بیوی کی درخواست پر فرمایا، صلی اللہ علیکِ وعلیٰ زوجِکِ جو لوگ زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے ان کے حق میں آپؐ فرماتے ہیں۔ اللھم صلِّ علیھم۔ حضرت سعد بن عبادہ کے حق میں آپؐ نے فرمایا: اللھم اجعل سَلوٰتک ورحمتکعلیٰ اٰل سَعد بن عُبادہ۔ اور مومن کی روح کے متعلق خضرؐ نے خبر دی کہ ملائکہ اس کے حق میں دعا کرتے ہیں صلی اللہ علیکا وعلیٰ جسدک۔ لیکن  جمہور اُمت کے نزدیک ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کے لیے تو درست تھا مگر ہمارے لیے درست نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب یہ اہلِ اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلوٰۃ و سلام کو انبیاء علیہم السلام کے لیے خاص کرتے ہیں اس لیے غیر انبیاء کے لیے اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسی بنا پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک مرتبہ اپنے عامل کو لکھا تھا کہ ’’ میں نے سُنا ہے کہ کچھ واعظین نے یہ نیا طریقہ شروع کیا ہے کہ وہ صلوٰۃ علی النبی کی طرح اپنے سر پرستوں اور حامیوں کے لیے بھی صلوٰۃ کا لفظ استعمال کرنے لگے ہیں۔ میرا یہ خط پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اس فعل سے روک دو اور انہیں حکم دو کہ وہ صلوٰۃ کو انبیاء کے لیے محفوظ رکھیں اور دوسرے مسلمانوں کے حق میں دُعا پر اکتفا کریں۔ ‘‘  (روح المعانی)۔ اکثریت کا یہ مسلک بھی ہے کہ حضورؐ کے سِوا کسی نبی کے لیے بھی صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے۔

(۱۰۸)۔ اللہ کو اذیت دینے سے مُراد دو چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کہ نافرمانی کی جائے،  اس کی مقابلے میں کفر و شرک اور دہریت کا رویہ اختیار کیا جائے،  اور اس کے حرام کو حلال کر لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس کے رسولؐ کو اذیت دی جائے،  اور رسول کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے۔

(۱۰۹)۔ یہ آیت بہتان کی تعریف متعین کر دیتی ہے،  یعنی جو عیب آدمی میں نہ ہو، یا جو قصور آدمی نے نہ کیا ہو وہ اس کی طرف منسوب کرنا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس کی تصریح فرمائی ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی کی روایت ہے کہ حضورؐ سے پوچھا گیا غیبت کیا ہے ؟ فرمایا ذکرک اخاک بمَا یکرہ۔ ’’ تیرا اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرنا جو اس ناگوار ہو۔ ‘‘ عرض کیا گیا اور اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو۔ فرمایا ان کان فیہ ما تقول فقد اغتبتہٗ وان لم یکن فیہ ما تقول فقد بھتّہ۔ ’’ اگر اس میں وہ عیب موجود ہے جو تُو نے بیان کیا تو تُو نے اس کی غیبت کی۔ اور اگر وہ اس میں نہیں ہے تو تُو نے اس پر بہتان لگایا۔ ‘‘ یہ فعل صرف ایک اخلاقی گناہ ہی نہیں ہے جس کی سزا آخرت میں ملنے والی ہو۔ بلکہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے قانون میں بھی جھوٹے الزامات لگانے یو جرم مستلزمِ سزا قرار دیا جائے۔

 

ترجمہ

 

اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں (۱۱۰)  یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں (۱۱۱)  اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (۱۱۲)  اگر منافقین،  اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے (۱۱۳)،   اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں (۱۱۴)،   اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے،  پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے۔ ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ  ہو گی، جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بُری طرح مارے جائیں گے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے،  اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (۱۱۵)

لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی(۱۱۶)  کہو، اس کا علم تو للہ ہی کو ہے۔ تمہیں کیا خبر، شاید کہ وہ قریب ہی آ لگی ہو۔ بہر حال یہ یقینی امر ہے کہ اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر دی ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے،  کوئی حامی و مددگار نہ پا سکیں گے۔ جس روز ان کے چہرے آگ پر اُلٹ پلٹ کیے جائیں گے اُس وقت وہ کہیں گے کہ ’’کاش ہم نے اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی ہوتی‘‘۔ اور کہیں گے ’’اے رب ہمارے،  ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہِ راست سے بے راہ کر دیا۔ اے رب،  ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر‘‘(۱۱۷) ع

 

تفسیر

 

(۱۱۰)۔ اصل الفاظ ہیں  یُدْ نِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبَھِنَّ۔ جلباب عربی زنان میں بڑی چادر کو کہتے ہیں۔ اور اِدْنَاء کے اصل معنی  قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں،  مگر جب اس کے ساتھ عَلیٰ کا صلہ آئے تو اس میں اِرْ خَاء، یعنی اوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے بعض مترجمین و مفسّرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف ’’لپیٹ لینا ‘‘ کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ  یُدْ نَیْنَ اِلَیْھِنَّ فرماتا۔ جو شخص بھی عربی زبان جانتا ہو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ یُدْ نِیْنَ عَلَیْھِنَّ کے معنی محض لپیٹ لینے کے ہو سکتے ہیں۔  مزید براں  مِنْ جَلَا ئِیْبِھِنّ کے الفاظ یہ معنی لینے میں اور زیادہ مانع ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہاں مِن تعبیض کے لیے ہے،  یعنی چادر کا ایک حصّہ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ لپیٹی جائے گی تو پوری چادر لپیٹی جائے گی نہ کہ اس کا محض ایک حصہّ۔ اس لیے آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر اُن کا ایک حصہّ،  یا ان کا پلّو اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں،  جسے عرفِ عام میں گھونگھٹ ڈالنا کہتے ہیں۔

یہی معنی عہدِ رسالت سے قریب ترین زمانے کے اکابر مفسّرین  بیان کرتے ہیں۔ ابن جریر اور ابن المنذر کی روایت ہے کہ محمد بن سَیرین ؒ نے حضرت عُبَیدۃ السّلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔ (یہ حضرت عُبیدہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں مسلمان ہو چکے تھے مگر حاضِر خدمت نہ ہو سکے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مدینہ آئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انہیں فقہ اور احا میں قاضی شُریح کا ہم پلّہ مانا جاتا تھا )۔ اُنہوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھا کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا منہ ڈھانک کر صرف ایک آنکھ کھُلی رکھی۔ ابن عباس بھی قریب قریب یہی تفسیر کرتے ہیں۔ اُن کے جو اقوال ابنِ جریر۔ ابنِ ابی حاتم اور ابن مَرْدُوْیہَ نے نقل کیے ہیں ان میں وہ کہتے ہیں ’’ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلّو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپا لیں اور صرف آنکھیں کھلی رکھیں۔ ‘‘ یہی تفسیر قَتادہ اور سُدِّی نے بھی اس آیت کی بیان کی ہے۔

عہد صحابہ و تابعین کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسّرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انہوں نے بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب  بیان کیا ہے۔ امام بنِ جریر طَبَرِی کہتے ہیں :’’یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مَنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ، یعنی شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نکلیں کہاں کے چہرے اور سر کے بال کھُلے ہوئے ہوں،  بلکہ انہیں چاہیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصّہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے۔ ‘‘ (جامع البیان جلد ۲۲۔ ص ۳۳)

علّامہ ابو بکر جصّاص کہتے ہیں :’’یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو ان عورت کو اجنبیوں سے اپنا چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت ستر اور عفّت مآبی کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ مشتبہ سیرت و کردار کے لوگ اُسے دیکھ کر کسی طمع میں مبتلا نہ ہوں۔ ‘‘ (احکام القرآن،  جلد ۳، صفحہ  ۴۵۸)

علامہ زَمَخْشَری کہتے ہیں :’’یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ، یعنی وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصّہ لٹکا لیا کریں اور اس سے اپنے چہرے اور اپنے اطراف کو اچھی طرح ڈھانک لیں۔ ‘‘ ( الکشا۔ جلد ۲، ص ۲۲۱)

علّامہ نظام الدین نیشا پوری کہتے ہیں :ید نین لیھن من جلا بیبھنّ، یعنی اپنے اوپر چادر کا ایک حصہ لٹکا لیں۔ اس طرف عورتوں کو سر اور چہرہ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ‘‘ (غرائب القرآن جلد ۲۲، ص۳۲)

امام رازی کہتے ہیں :’’ اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے،  اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پر راضی ہو گی۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا کہ یہ با پردہ عورتیں ہیں،  اس سے زنا کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ‘‘(تفسیر کبیر،  جلد ۶، ص ۵۹۱)

ضمناً ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ لے کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کئی بیٹیاں ثابت ہوتے ہیں،  کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے ’’ اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے کہو۔ ‘‘یہ الفاظ اُن لوگوں کے قول کی قطعی تردید کر دیتے ہیں جو خدا سے بے خوف ہو کر بے تکلّف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں اور باقی صاحبزادیاں حضورؐ کی اپنی صُلبی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ گیَلڑ تھیں۔ یہ لوگ تعصب  میں اندھے ہو کر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اولادِ رسولؐ کے نسب سے انکار کر کے سہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اِس کی کیسی سخت جواب دہی اُنہیں آخرت میں کرنی ہو گی۔ تمام معتبر روایات اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت خَدیِجہ ؓ کے بطن سے حضورؐ کی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمہؓ ہی نہ تھیں بلکہ تین اور بیٹیاں بھی تھیں۔ حضورؐ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق حضرت خدیجہؓ سے حضورؐ کے نکاح کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : ’’ ابراہیمؑ کے سوا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام اولاد انہی کے بطن سے پیدا ہوئی اور ان کے نام یہ ہیں۔ قاسم، اور طاہرو طیب، اور زینب، اور رُقیَّہ، اورامّ کلثوم اور فاطمہ‘‘ (سیرت ابن ہشام، جلد اول۔ ص ۳۰۲) مشہور ماہر علم انساب ہشام بن محمد بن السّائب کلبی کا بیان ہے کہ : ’’ مکہ میں نبوّت سے قبل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے،  پھر زینبؓ، پھر رقیہ، پھر اُمِ کلثوم(طبقات ابن سعد،  جلد اول،  ص ۱۳۳)۔ ابنِ حزْم نے جو انع السیرۃ میں لکھا ہے کہ حضرت خدیجہؓ کے بطن سے حضورؐ کی چار لڑکیاں تھیں،  اب سے بڑی حضرت زینبؓ ان سے چھوٹی رقیّہ ؓ،  ان سے چھوٹی فاطمہؓ، اور ان سے چھوٹی ام کلثوم (ص۳۸۔ ۳۹)۔ طَبَری، ابن سعد،  ابو جعفر محمد بن حبیب صاحب کتاب المجرَّ اور ابن عبدلبَر صاحب کتاب الاستیعاب، مستند حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے حضرت خدیجہؓ کے دو شوہر گزر چکے تھے۔ ایک ابو ھالہ تمیمی جس سے ان کے ہاں ہند بن ابو ہالہ پیدا ہوئے۔ دوسرے عیق بن عائذ مخزومی جس سے ان کے ہاں ایک لڑکی ہند نامی پیدا ہوئی۔ اس کے بعد ان کا نکاح حضورؐ سے ہوا اور تمام علمائے انساب متفق ہیں کہ آپؐ کی صلب سے ان کے ہاں وہ چاروں صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام اوپر مذکور ہوئے ہیں (ملاحظہ ہو طبری، جلد ۲، ص۴۱۱۔ طبقات ابنِ سعد،  جلد ۸، ص ۴۱ تا ۱۶۔ کتاب المجرَّ ص ۷۸، ۷۹، ۴۵۲۔ الاستیعاب جلد ۲،  ص۷۱۸)اِن تمام بیانات کو قرآن مجید کی یہ تصریح قطعی الثبوت بند کر دیتی ہے کہ حضورؐ کی ایک ہی صاحبزادی نہ تھیں بلکہ کئی صاحبزادیاں تھیں۔

(۱۱۱)۔ ’’ پہچان لی جائیں ‘‘سے مراد یہ ہے کہ ان کو س سادہ اور حیا دار لباس میں دیکھ کر ہر دیکھنے والا جان لے کہ وہ شریف اور با عصمت عورتیں ہیں،  آوارہ اور کھلاڑی نہیں ہیں کہ کوئی بد کردار انسان ان سے اپنے دِل کی تمنّا پوری کرنے کی اُمید کر سکے۔ نہ ’’ستائی جائیں ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ان کو نہ چھیڑا جائے،  ان سے تعرّض نہ کیا جائے۔

اس مقام پر ذرا ٹھیر کر یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ قرآن کا یہ حکم، اور وہ مقصدِ حکم جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کر دیا ہے،  اسلامی قانونِ معاشرت کی کیا رُوح ظاہر کر رہا ہے۔ اس سے پہلے سورۂ نور،  آیت ۳۱ میں یہ ہدایت گزر چکے ہے کہ عورتیں اپنی آرائش و زیبائش کو فلاں فلاں قسم کے مردوں اور عورتوں کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں۔ ’’ اور زمین پر پاؤں مارتے ہوئی بھی نہ چلیں کہ لوگوں کو اُس زینب کا علم ہو جو انہوں نے چھپا رکھی ہے ‘‘۔ اُس حکم کے ساتھ اگر سورۂ احزاب کی اِس آیت کو ملا کر پڑھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں چادر اوڑھنے کا جو حکم ارشاد ہوا ہے اس کا منشا اجنبیوں سے زینت چھپانا ہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ منشا اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جبکہ چادر بجائے خود سادہ ہو، ورنہ ایک مزیّن اور جاذبِ نظر کپڑا لپیٹ لینے سے تو یہ منشا اُلٹا اور فوت ہو جائے گا۔ اس پر مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصّہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں۔ کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصود گھونگھٹ ڈالنا ہے تاکہ جسم و لباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چھُپ جائے۔ پھر اس حکم کی علّت اللہ تعالیٰ خود یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ وہ مناسب ترین طریقہ ہے جس سے یہ مسلمان خواتین پہچان لی جائیں اور اذیت سے محفوظ رہیں گی۔ اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہ ہدایت اُن عورتوں کو دی جا رہی ہے جو مردوں کی نظر بازی اور ان کے شہوانی التفات سے لذّت اندوز ہونے کے بجائے اس کو اپنے لیے تکلیف دِہ اور اذیت ناک محسوس کرتی ہیں،  جو معاشرے میں اپنے آپ کو آبرو باختہ شمعِ انجمن قسم کی عورتوں میں شمار نہیں کرانا چاہتیں، بلکہ عفت مآب چراغِ خانہ ہونے کی حیثیت سے معروف ہونا چاہتے ہیں۔ ایسی شریف اور نیک خواتین سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم فی الواقع اس حیثیت سے معروف ہونا چاہ رہی ہو اور مردوں کی ہوسناک توجہات حقیقت میں تمہارے لیے موجب لذت نہیں بلکہ موجب اذیّت ہیں تو پھر اس کے لیے مناسب طریقہ یہ نہیں ہے کہ تم خوب بناؤ سنگھار کر کے پہلی رات کی دُلہن بن کر گھروں سے نِکلو اور دیکھنے والوں کی حریص نِگاہوں کے سامنے اپنا حُسن اچھی طرح نکھار نکھار کر پیش کرو، بلکہ اس غرض کے لیے تو مناسب ترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم ایک سادہ چادر میں اپنے ساری آرائش و زیبائش کو چھپا کر نِکلو،  اپنے چہرے پر گھونگھٹ ڈالو اور اس طرح چلو کہ زیور کی جھنکار بھی لوگوں کو تمہاری طرف متوجہ نہ کرے۔ جو عورت باہر نکلنے سے پہلے بن ٹھن کر تیار ہوتی ہے اور اس وقت تک گھر سے قدم نہیں نکالتی جب تک سات سنگھار نہ کر لے،  اس کی غرض اس کے سوا آخر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ دُنیا بھر کے مردوں کے لیے اپنے آپ کو جنت نگاہ بنانا چاہتی ہے اور انہیں خود دعوتِ التفات دیتی ہے۔ اس کے بعد اگر وہ یہ کہتی ہے کہ دیکھنے والوں کی بھوکی نگاہیں اسے تکلیف دیتی ہیں،  اس کے بعد اگر اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ ’’معاشرے کی بیگم ‘‘اور ’’ مقبولِ عام خاتون‘‘ ہونے کی حیثیت سے معروف نہیں ہونا چاہتی بلکہ عفت مآب گھر گرہستن بن کر رہنا چاہتی ہے تو یہ ایک فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ انسان کا قول اس کی نیت متعین نہیں کرتا بلکہ اس کی اسل نیت وہ ہوتی ہے جو اس کے عمل کی شکل اختیار کرتی ہے۔ لہٰذا جو عورت جاذِب نظر بن کر غیر مردوں کے سامنے جاتی ہے اس کا یہ عمل خود ظاہر کر دیتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا محرکات کام کر رہے ہیں۔ اسی لیے فتنے کے طالب لوگ اس سے وہی توقعات وابستہ کرتے ہیں جو ایسی عورت سے وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ قرآن عورتوں سے کہتا ہے کہ تم بیک وقت چراغ خانہ اور شمعِ انجمن نہیں بن سکتی ہو۔ چراغ خانہ بننا ہے تو اُن طور طریقوں کو چھوڑ دو جو شمعِ انجمن بننے کے لیے موزوں ہیں۔ اور وہ طرز زِندگی اختیار کرو جو چراغ خانہ بننے میں مددگار ہو سکتا ہے۔

کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا اس کے خلاف، اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطۂ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے،  بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف یہ مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے،  جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کر کے کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے۔

(۱۱۲)۔ یعنی پہلے جاہلیت کی حالت میں جو غلطیاں کی جاتی رہی ہیں اللہ اپنی مہربانی سے ان کو معاف کر دے گا،  بشرطیکہ اب صاف صاف ہدایت مل جانے کے بعد تم اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لو اور جان بوجھ کراس کی خلاف ورزی نہ کرو۔

(۱۱۳)۔ ’’ دِل کی خرابی ‘‘ سے مراد یہاں دو قسم خرابیاں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرنے کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کا بدخواہ ہو۔ دوسرے یہ کہ آدمی بدنیتی،  آوارگی اور مجرمانہ ذہنیت میں مبتلا ہو اور اس کے ناپاک رجحانات اس کی حرکات و سکنات سے پھُوٹے پڑتے ہوں۔

(۱۱۴)۔  اس سے مُراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں گھبراہٹ پھیلانے اور ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے آئے دن مدینے میں اس طرح کی خبریں اُڑایا کرتے تھے کہ فلاں جگہ مسلمانوں کو بڑی زک پہنچی ہے اور فلاں جگہ مسلمانوں کے خلاف بڑی طاقت جمع ہو رہی ہے اور عنقریب مدینہ پر اچانک حملہ ہونے والا ہے۔ اس کے ساتھ اُن کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا کہ وہ خاندان نبوت اور شرفائے مسلمین کی خانگی زندگی کے متعلق طرح طرح کے افسانے گھڑتے اور پھیلاتے تھے تاکہ اس سے عوام میں بدگمانیاں پیدا ہوں اور مسلمانوں کے اخلاقی اثر کو نقصان پہنچے۔

(۱۱۵)۔ یعنی یہ اللہ کی شریعت کا ایک مستقل ضابطہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے اور ریاست میں اس طرح کے مفسدین کو کبھی پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ جب بھی کسی معاشرے اور ریاست کا نظام خدائی شریعت پر قائم ہو گا اُس میں ایسے لوگوں کو پہلے متنبہ کر دیا جائے گا تاکہ وہ اپنی روش بدل دیں،  اور پھر جب وہ باز نہ آئیں گے تو سختی کے ساتھ ان کا استیصال کر ڈالا جائے گا۔

(۱۱۶)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سوال عموماً کفار و منافقین کیا کرتے تھے۔ اور اس سے ان کا مقصد علم حاصل کرنا نہ تھا بلکہ وہ دِل لگی اور استہزاء کے طور پر یہ بات پوچھا کرتے تھے۔ دراصل ان کو آخرت کے آنے یقین نہ تھا۔ قیامت کے تصوّر کو وہ محض ایک خالی خولی دھمکی سمجھتے تھے۔ وہ قیامت کے آنے کی تاریخ اس لیے دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے آنے سے پہلے وہ اپنے معاملات درست کر لینے کا ارادہ رکھتے ہوں،  بلکہ انکا اصل مطلب یہ ہوتا تھا کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) ہم نے تمہیں نیچا دکھانے کے لیے یہ کچھ کیا ہے اور آج تک تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے ہو، اب ذرا ہمیں بتاؤ تو سہی کہ آخر وہ قیامت کب برپا ہو گی جب ہماری خبر لی جائے گی۔

(۱۱۷)۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : اَعراف، ۱۸۷۔ النازعات، ۴۲۔ ۴۶۔ سَبا، ۳۔ ۵۔ الملک ۲۴۔ ۲۷۔ المطفّفین، ۱۰۔ ۱۷۔ الحِجر، ۲۔ ۳۔ الفرقان،  ۲۷۔ ۲۹۔ حم السجدہ، ۲۶۔ ۲۹۔

 

ترجمہ

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو (۱۱۸)،   ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیتیں دی تھیں،  پھر اللہ نے ان کی بنائی ہوئی باتوں سے اس کی برأت فرمائی اور وہ اللہ کے نزدیک با عزت تھا(۱۹۹)

اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگذر فرمائے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔  ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے،  مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے (۱۳۰)  اس بار امانت کو اٹھانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں،  اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے اور مومن مَردوں کی توبہ قبول کرے،  اللہ درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔ ع

 

تفسیر

 

(۱۱۸)۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ قرآن مجید میں ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘‘ کے الفاظ سے کہیں تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا گیا ہے،  اور کہیں مسلمانوں کی جماعت بحیثیت مجموعی مخاطب ہے جس میں مومن اور منافق اور ضعیف الایمان سب شامل ہیں،  اور کہیں رُوئے سخن خالص منافقین ہی کی طرف ہے۔ منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو  الذین اٰمنوا کہہ کر جب مخاطب کیا جاتا ہے تو اس سے مقصُود ان کو شرم دلانا ہوتا ہے کہ تم لوگ دعویٰ تو ایمان لانے کا کرتے ہو اور حرکتیں تمہاری یہ کچھ ہیں۔ سیاق و سباق پر غور کرنے سے ہر جگہ بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کس جگہ الذین اٰمنوا سے مراد کون ہیں۔ یہاں سلسلۂ کلام صاف بتا رہا ہے کہ مخاطب عام مسلمان ہیں۔

(۱۱۹)۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ اے مسلمانو ! تم یہودیوں کی سی حرکتیں نہ کرو۔ تمہاری روش اپنے نبی کے ساتھ وہ نہ ہونی چاہیے جو بنی اسرائیل کی روش موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی‘‘۔ بنی اسرائیل خود مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ان کے سب سے بڑے محسن تھے۔ جو کچھ بھی یہ قوم بنی،  انہی کی بدولت بنی،  ورنہ مصر میں اس کا انجام ہندوستان کے شودروں سے بھی بدتر ہوتا۔ لیکن اپنے اس مُحسن اعظم کے ساتھ اس قوم کاجو سلوک تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے با ئیبل کے حسبِ ذیل مقامات پر صرف ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہے :

کتاب خروج۔ ۵:۲۰۔ ۲۱۔ ۱۴ : ۱۱۔ ۱۲۔ ۳۔ ۱۷:۳۔ ۴

کتاب گنتی۔ ۱۱:۱۔ ۱۵۔ ۱۴: ۱۔ ۱۰۔ ۱۶ مکمّل۔ ۲۰:۱۔ ۵

قرآن مجید بنی اسرائیل کی اسی محسن کُشی کی طرف اشارہ کر کے مسلمانوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ یہ طرز عمل اختیار کرنے سے بچو، ورنہ پھر اُسی انجام کے لیے تیار ہو جاؤ جو یہودی دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔

یہی بات متعدد مواقع پر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں میں کچھ مال تقسیم کر رہے تھے۔ اس مجلس سے جب لوگ باہر نکلے تو ایک شخص نے کہا ’’احمدؐ نے اس تقویم میں خدا اور آخرت کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا۔ ‘‘ یہ بات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سن لی اور جا کر حضورؐ سے عرض کیا کہ آج آپ پر یہ باتیں بنائی گئی ہیں۔ آپؐ نے جواب میں فرمایا رحمۃ اللہ علیٰ موسیٰ فانہٗ اُوذی باکثر من ھٰذافَصَبَر۔ ’’اللہ کی رحمت ہو موسیٰ پر۔ انہیں اس سے زیادہ اذیتیں دی گئیں اور انہوں نے صبر کیا‘‘ (مُسند،  احمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد)

(۱۲۰)۔ کلام کو ختم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ دُنیا میں اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے اور اس حیثیت میں ہوتے ہوئے اگر وہ دُنیا کی زندگی کو محض ایک کھیل سمجھ کر بے فکری کے ساتھ غلط رویہّ اختیار کرتا ہے تو کس طرح اپنے ہاتھوں خود اپنا مستقبل خراب کرتا ہے۔

اس جگہ ’’امانت ‘‘ سے مر اد وہی ’’خلافت ‘‘ ہے جو قرآن مجید کی رُو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاقت و معصیت کی جو آزادی بخشی ہے،  اور اس آزادی کو استعمال کرنے کے لیے اُسے اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرّف کے جو اختیارات عطا کیے ہیں اُن کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرز عمل پر اجر کا اور غلط طرز عمل پر سزا کا مستحق بنے۔ یہ اختیار ات چونکہ انسان نے خود حاصل نہیں کیے ہیں بلکہ اللہ نے اسے دیے ہیں،  اور ان کے صحیح و غلط استعمال پر وہ للہ کے سامنے جواب دہ ہے،  اس لیے قرآن مجید میں دوسرے    مقامات  پر ان کو ’’خلافت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے،  اور یہاں انہی کے لیے ’’ امانت‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے، اس کا تصور دلانے کے لیے اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ آسمان و زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت و متانت کے باوجود اس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہ رکھتے تھے،  مگر انسان ضعیف البنیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھا ری بوجھ اٹھا لیا ہے۔

زمین و آسمان کے سامنے اس بارِ امانت کا پیش کیا جانا،  اور ان کا اسے اٹھانے سے انکار کرنا اور ڈر جانا ہو سکتا ہے کہ لغوی معنی میں ہو،  اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بات استعارے کی زبان میں ارشاد ہو ئی ہو۔ اللہ تعلی کا اپنی مخلوقات کے ساتھ جو تعلق ہے اسے ہم نہ جان سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں زمین اور سورج اور چاند اور پہاڑ جس طرح ہمارے لیے گونگے،  بہرے اور بے جان ہیں،  ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے لیے بھی وہ ایسے ہی ہو ں۔ اللہ اپنی ہر مخلوق سے بات کر سکتا ہے اور وہ اس کو جواب دے سکتی ہے۔ اس کی کیفیت کا سمجھنا ہمارے فہم و ادراک سے بالا تر ہے۔ اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ فی الواقع اللہ نے ان کے سامنے یہ بارِ گراں پیش کیا ہو اور وہ اسے دیکھ کر کانپ اٹھے ہوں اور انہوں نے اپنے مالک و خالق سے یہ عرض کیا ہو کہ ہم تو سرکار کے بے اختیار خادم ہی بن کر رہنے میں اپنی خیر پاتے ہیں،  ہماری ہمت نہیں کے نافرمانی کی آزادی لے کر اس کا حق ادا کر سکیں اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں حضورؐ کی سزا بر داشت کر سکیں۔ اسی طرح یہ بھی بالکل ممکن ہے  ہماری موجودہ زندگی سے پہلے پوری نوعِ انسانی کو اللہ تعلی نے کسی اور نوعیت کا وجود بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا ہو اور اس نے یہ اختیارات سنبھالنے پر خود آمادگی ظاہر کی ہو۔ اس بات کو ناممکن قرار دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس کو دائر ۂ امکان سے خارج قرار دینے کا فیصلہ تو وہی شخص کر سکتی ہے جو اپنے ذہن و فکر کی استعداد کا غلط اندازہ لگا بیٹھا ہو۔

البتہ یہ امر بھی اتنا ہی ممکن ہے کہ اللہ تعلی نے یہ بات محض تمثیلی انداز میں فرمائی ہو اور صورت معاملہ کی غیر معمولی اہمیت کا تصور دلانے کے لیے اسی طرح کا نقشہ پیش کیا گیا ہو کہ گویا ایک طرف زمین و آسمان اور ہمالہ  جیسے پہاڑ کھڑے ہیں اور دوسری طرف ۵۔ ۶فیٹ کا آدمی کھڑا ہوا ہے۔ اللہ تعلی پوچھتا ہے کہ :

’’میں اپنی ساری مخلوقات میں سے کسی ایک کو یہ طاقت بخشنا چاہتی ہوں کہ وہ میری خدائی میں رہتے ہوئے خود اپنی رضا و رغبت سے میری با لا تر ی کا اقرار اور میرے احکام اطاعت کرنا چاہے تو کرے،  ورنہ وہ میرا انکار بھی کر سکے گا اور میرے خلاف بغاوت بھی کا جھنڈا بھی لے کر اٹھ سکے گا۔ یہ آزادی دے کر میں اس سے اس طرح چھپ جاؤں گا کہ گویا میں کہیں موجود نہیں ہو ں۔ اور اس آزادی کو عمل میں لانے کے لیے میں اس کو وسیع اختیارات دوں گا،  بڑی قابلیتیں عطا کروں گا،  اور اپنی بے شمار مخلوقات پر اس کو بلا دستی بخش دوں گا،  تاکہ وہ کائنات میں جو ہنگامہ بھی بر پا کرنا چاہے کر سکے۔ اس کے بعد میں ایک وقت خاص پر اس کا حساب لوں گا جس نے میری بخشی ہوئی آ زادی کو غلط استعمال کیا ہو گا اسے وہ سزا دوں گا جو میں نے کبھی اپنی کسی مخلوق کو نہیں دی ہے،  اور جس نے نافر نی کے سارے مواقع پا کر بھی میری فرمانبرداری ہی اختیار کی ہو گی اسے وہ بلند مرتبے عطا کروں گا جو میری کسی مخلو ق کو نصیب نہیں ہوئے ہیں۔ اب بتاؤ تم میں سے کون اس امتحان گاہ میں اتر نے کو تیار ہے ‘‘؟

یہ تقریر سن کر پہلے ساری کائنات میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ پھر ایک سے ایک بڑھ کر گراں ڈیل مخلوق گھٹنے ٹیک کر التجا کر تی چلی جاتی ہے کہ اسے اس کڑے امتحان سے معاف رکھا جائے۔ آخر کا ریہ مشتِ استخواں اٹھا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے رب میں یہ امتحان دینے کے لیے تیار ہوں۔ اس امتحان کو پاس کر کے تیری سلطنت کا سب سے اونچا عہدہ مل جانے کی جو امید ہے اس کی بنا پر میں ان سب خطرات کو انگیز کر جاؤں گا جو اس آزادی و خود مختاری میں پوشیدہ ہیں۔

یہ نقشہ اپنی چشم تصور کے سامنے لا کر ہی آدمی اچھی طرح اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کائنات میں کس نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے۔ اب جو شخص اس امتحان گاہ میں بے فکر ا بن کر رہتا ہے اور کوئی احساس نہیں رکھتا کہ وہ کتنی بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے،  اور دنیا کی زندگی میں اپنے لیے کوئی رویہ انتخاب کرتے وقت جو فیصلے وہ کر تا ہے ان کے صحیح  یا غلط ہو نے سے کیا نتائج نکلنے والے ہیں،  اسی کو اللہ تعلی اس آیت میں ظلوم و جہول قرار دے رہا ہے۔ وہ جہول ہے،  کیونکہ اس احمق نے اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ لیا ہے۔ اور وہ ظلوم ہے،  کیونکہ وہ خود اپنی تباہی کا سامان کر رہا ہے اور اپنے ساتھ نہ معلوم کتنے اور لوگوں کو لے ڈوبنا چاہتا ہے۔

 

ضمیمہ ختم نبوت

 

ایک گروہ،  جس نے اِس دور میں نئی نبوّت کا فتنۂ عظیم کھڑا کیا ہے،  لفظ خَاتَم النّبیّین کے معنی ’’نبیوں کی ُمہر‘‘ کرتا ہے اور اس کا مطلب یہ لیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد جو انبیاء بھی آئیں گے وہ آپؐ کی مُہر لگنے سے نبی بنیں گے،  یا با لفاظ دیگر جب تک کسی کی نبوت پر آپؐ کی مُہر نہ لگے وہ نبی نہ ہو سکے گا۔

لیکن جس سلسلۂ بیان میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس کے اندر رکھ کر اسے دیکھا جائے تو اِس لفظ کا یہ مفہوم لینے کی قطعاً کوئی گنجائش نظر نہیں آتی،  بلکہ اگر یہی اس کے معنی ہوں تو یہاں یہ لفظ نے محل ہی نہیں،  مقصود کلام کے بھی خلاف ہو جاتا ہے (سلسلۂ بیان کو سمجھنے کے لیے اس سورہ کے حواشی نمبر ۶۷ تا۷۹ نِگاہ میں رہنے چاہییں۔ )آخر اس بات کا کیا تُک ہے کہ اوپر سے تو نکاح زینبؓ پر معترضین کے اعتراضات اور ان کے پیدا کیے ہوئے شکوک و شبہات کا جواب دیا جا رہا ہو اور یکایک یہ بات کہہ ڈالی جائے کہ محمدؐ نبیوں کی مُہر ہیں،  آئندہ جو نبی بھی بنے گا، ان کی مُہر لگ کر بنے گا۔ اس سیاق و سباق میں یہ بات نہ صرف یہ کہ بالکل بے تُکی ہے،  بلکہ اس سے وہ استدلال اُلٹا کمزور ہو جاتا ہے جو اوپر سے معترضین کے جواب میں چلا آ رہا ہے۔ اِ س صورت میں تو معترضین کے لیے یہ کہنے کا اچھا موقع تھا کہ آپ یہ کام اِس وقت نہ کرتے تو کوئی خطرہ نہ تھا۔ اِس رسم کو مٹانے کی ایسی ہی کچھ شدید ضرورت ہے تو آپ کے بعد آپ کی مُہر لگ لگ کر جو انبیاء آتے رہیں گے اُن میں سے کوئی اسے مٹا دے گا۔

ایک دوسری تاویل اس گروہ نے یہ بھی کی ہے کہ ’’ خاتم ا لنبیین‘‘ کے معنی افضل النبیین کے ہیں،  یعنی نبوت کا دروازہ تو کھُلا ہوا ہے،  البتہ کمالاتِ نبوّت حضورؐ پر ختم ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ مفہوم لینے میں بھی وہی قباحت ہے جو اوپر ہم نے بیان کی ہے۔ سیاق و سباق سے یہ مفہوم بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتا،  بلکہ اُلٹا اس کے خلاف پڑتا ہے۔ کفّار و منافقین کہہ سکتے تھے کہ حضرت، کم تر درجے کے ہی سہی۔ بہر حال آپ کے بعد بھی نبی آتے رہیں گے۔ پھر کیا ضرور تھا کہ اسر سم کو بھی آپ ہی مٹا کر تشریف لے جاتے۔

 

لُغت کی رُو سے خاتم النبیین کے معنی

 

پس جہاں تک سیاق و سباق کا تعلق ہے وہ قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں خاتم النبییّن کے معنی سلسلۂ نبوّت کو ختم کر دینے والے ہی کے لیے جائیں اور یہ سمجھا جائے کہ حضورؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ لیکن یہ صرف سیاق ہی کا تقاضا نہیں ہے،  لغت بھی اِسی معنی کی مقتضی ہے۔ عربی لغت اور محاورے کی رُو سے ’’ ختم‘‘ کے معنی مُہر لگانے،  بند کرنے،  آخر تک پہنچ جانے،  اور کسی کام کو پورا کر کے فارغ ہو جانے کے ہیں۔

خَتَمَ الْعَمَل  کے معنی ہیں فَرَغَ مِنَ الْعَمَلِ،  ’’کام سے فارغ ہو گیا۔ ‘‘

خَتَمَ الْاِنَا ءَ کے معنی ہیں ’’برتن کا منہ بند کر دیا اور اس پر مُہر لگا دی تاکہ نہ کوئی چیز اس میں سے نکلے اور نہ کچھ اس کے اندر داخل ہو‘‘

خَتَمَ الْکِتَابَ کے معنی ہیں ’’ خط بند کر کے اس پر مُہر لگا دی تاکہ خط محفوظ ہو جائے۔ ‘‘

خَتَمَ عَلَی الْقَلْبِ، ’’ دِل پر مُہر لگا دی کہ نہ کوئی بات اس کی سمجھ میں آئے،  نہ پہلے سے جمی ہوئی کوئی بات اس میں سے نِکل سکے۔ ‘‘

خِتَا مُ کُلِّ مَشْرُوبٍ، ’’ وہ مزا جو کسی چیز کو پینے کے بعد آخر میں محسوس ہوتا ہے۔ ‘‘

خَا تمۃُ کُلِّ شَیئئٍ عاقبتہ واٰخرتہ، ہر چیز کے خاتمہ سے مراد ہے اس کی عاقبت اور آخرت۔ ‘‘

خَتَمَ الشَّیْء،  بلغ اٰخرہ، ’’کسی چیز کو ختم کرنے کا مطلب ہے اس کے آخر تک پہنچ جانا۔ ‘‘ اسی معنی میں ختم قرآن بولتے ہیں اور اسی معنی میں سورتوں کی آخری آیات کو خواتیم کہا جاتا ہے۔

خَا تَمُ الْقَوْمِ، اٰخر ھم، خاتم القوم سے مراد ہے قبیلے کا آخری آدمی‘‘۔ (ملاحظہ ہو لسان العرب، قاموس اور قرب الموارد)(یہاں ہم نے لغت کی صرف تین کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن بات انہی تین کتابوں پر منحصر نہیں ہے۔ عربی زبان کی کوئی معتبر لغت اٹھا کر دیکھ لی جائے،  اس میں لفظ ’’خاتم‘‘ کی یہی تشریح ملے گی۔ لیکن منکرینِ ختمِ نبوت خدا کے دین میں نقب لگانے کے لیے لغت کو چھوڑ کر اس بات کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی شخص کو خاتم الشعراء،  یا خاتم الفقہاء یا خاتم المفسّرین کہنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جس شخص کو یہ لقب دیا گیا ہے اس کے بعد کوئی شاعر یا فقیہ یا مفسّر پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس فن کے کمالات اُس شخص پر ختم ہو گئے۔  حالانکہ مبالغے کے طور پر اس طرح کے القا ب کا استعمال یہ معنی ہر گز نہیں رکھتا کہ لغت کے اعتبار سے خاتم کے اصل معنی ہی کامل یا افضل کے ہو جائیں اور آخری کے معنی میں یہ لفظ استعمال کرنا سرے سے غلط قرار پائے۔ یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو زبان کے قواعد سے ناواقف ہو۔ کسی ز بان میں بھی یہ قاعدہ نہیں ہے کہ اگر کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی کے بجائے کبھی کبھی مجازاً کسی دوسرے معنی میں بولا جاتا ہو تو وہی معنی اس کے اصل معنی بن جائیں اور لغت کی رُو سے جو اس کے حقیقی معنی ہیں اُن میں اس کا استعمال ممنوع ہو جائے۔ آپ کسی عرب کے سامنے جب کہیں گے کہ جَاء خاتَم القوم، تو وہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ لے گا کہ قبیلے کا فاضل و کامل آدمی آ گیا،  بلکہ اس کا مطلب وہ یہی لے گا کہ پورا قبیلہ آ گیا ہے حتیٰ کہ آخری آدمی جو رہ گیا تھا وہ بھی آ گیا۔

اس کے ساتھ یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ خاتم الشعراء،  خاتم الفقہاء اور خاتم المحدثین وغیرہ القاب جو بعض لوگوں کو دیے گئے ہیں ان کے دینے والے انسان تھے اور انسان کبھی یہ نہیں جان سکتا کہ جس شخص کو وہ کسی صفت کے اعتبار سے خاتم کہہ رہا ہے اس کے بعد پھر کوئی اس صفت کا حامل پیدا نہیں ہو گا۔ اسی وجہ سے انسانی کلام میں ان القاب کی حیثیت مبالغے اور اعترافِ کمال سے زیادہ کچھ ہو ہی نہیں سکتی لیکن  جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے متعلق یہ کہہ دے کہ فلاں صفت اُس پر ختم ہو گئی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے بھی انسانی کلام کی طرح مجازی کلام سمجھ لیں۔ اللہ نے اگر کسی کو خاتم الشعراء کہہ دیا ہوتا تو یقیناً اس کے بعد کوئی شاعر نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اس نے جسے خاتم النبیّین کہہ دیا، غیر ممکن ہے کہ اس کے بعد کوئی نبی ہو سکے۔ اس لیے کہ اللہ عالم الغیب ہے اور انسان عالم الغیب نہیں ہیں۔ اللہ کا کسی کو خاتم النبیّین کہنا اور انسانوں کا کسی کو خاتم الشعراء اور خاتم الفقہاء وغیرہ کہہ دینا آخر ایک درجہ میں کیسے ہو سکتا ہے۔ )

اس بنا پر تمام اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالاتفاق خاتم النبییّن کے معنی آخر النبییّن  کے لیے ہیں۔ عربی لُغت و محاورے کی رُو سے خاتم کے معنیٰ ڈاک خانے کی مُہر کے نہیں ہیں جسے لگا لگا کر خطوط جاری کیے جاتے ہیں،  بلکہ اس سے مراد وہ مُہر ہے جو لفافے پر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ نہ اس کے اندر سے کوئی چیز باہر نکلنے  نہ باہر کی کوئی چیز اندر جائے۔

 

ختم نبوّت کے بَارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات

 

قرآن کے سیاق و سباق اور لغت کے لحاظ سے اس لفظ کا جو مفہوم ہے اسی کی تائید بنی صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریحات کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر چند صحیح ترین احادیث ہم یہاں نقل کرتے ہیں :

۱)۔ قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم کانت بنو اسرائیل تسو سھم الانبیاء۔ کلماھلک نبی خلفہ نبی، وانہ لا نبی بعد ی وسیکو زخلفاء (بخاری،  کتاب المناقب، باب ماذکر عن بنی اسرئیل)

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیا دت انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی مر جاتا تو دوسرا نبی اس کا جا نشین ہوتا۔ مگر میری بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ بلکہ خلفاء ہوں گے۔

۲)۔ قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم ان مثلی و مثل الا نبیائمن قبلی کمثل رجل بنیٰ بیتاً فا حسنہ واجملہ الّا مو ضع لبنۃ من زاویۃٍفھعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلّا وُ ضِعَتْ ھٰذہ اللبنۃ، فانا اللبنۃ۔ وانا خاتم النبیّین (بخاری،  کتاب المناقب، باب خاتم النبیّین)

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسی ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرے اور اس کی خونی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے،  مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمر مکمل ہو چکی ہے،  اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پُر کرنے کے لیے کوئی آئے )

اسی مضمون کی چار حدیثیں مسلم، کتاب الفضائل،  باب خاتم النبیین میں ہیں اور آخری حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں : فَجِعْتُ فَختمت الانبیاء، ’’پس میں آیا اور انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا۔ ‘‘

یہی حدیث انہی الفاظ میں ترمذی، کتاب المناقب، باب فضل النبی، اور کتاب الآداب، باب الامثال میں ہے۔

مُسند ابو داوٗد وطَیا لِسی میں یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت کردہ احادیث کے سلسلے میں آئی ہے اور اس کے آخری الفاظ یہ ہیں :ختم بی الانبیاء، ’’ میرے ذریعہ سے انبیاء کا سلسلہ ختم کیا گیا۔ ‘‘

مُسند احمد میں تھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ اس مضمون کی احادیث حضرت اُبَیّ بن کعبؓ،  حضرت ابو سعد  خُدرِی ؓ اور حضرت او ہریرہؓ سے نقل کی گئی ہیں۔

۳)۔ ان رسو ل اللہ صلی اللہ و سلم قال فُضِّلْتُ علی الانبیَاء بستِّ، اعطیت جوامع الکلم، ونصرت بالرعب واُحلّت لی الغنائم وجعلت لیالارض مسجداً و طھوراً،  واُرْسلتُالیالخلق کانۃ، وختم بی النبیّون۔ (مسلم،  ترمذی، ابن ماجہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے (۱) مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی(۲)مجھے رعب کے ذریعہ سے نُصرت بخشی گئی(۳) میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گیے (۴)میرے لیے زمین کو مسجد بھی بنا دیا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی (یعنی میری شریعت میں نما ز صرف مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر ہر جگہ پڑھی جا سکتی ہے اور پانے نہ ملے تو میری شریعت میں تیمم کر کے وضو کے حاجت بھی پوری کی جا سکتی ہے اور غسل کی حاجت بھی) (۵)مجھے تمام دُنیا کے لیے رسول بنا یا گیا(۶)اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔

۴)۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انّ الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی (ترمذی،  کتاب الرؤیا، باب ذہاب النبوۃ۔ مسند احمد، مرویّات انس بن مالکؓ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : رسالت اور نبوّت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔

۵)۔ قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم انا محمد،  وانا احمد وانا الماحیٰ الذی یحشر الناس علی عقبی، وانا العاقب الذی لیس بعدہٗ نبی ( بخاری و مسلم، کتاب الفضائل، باب اسماء النبی۔ ترمذی، کتاب الآداب، باب اسماء النبی۔ مُوطّا،  کتاب اسماء النبی۔ المستدرک للحاکم، کتاب التاریخ،  باب اسماء النبی)

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں محمدؐ ہوں میں احمدؐ ہوں۔ میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر محو کیا جائے گا۔ میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے (یعنی میرے بعد اب جس قیامت ہی آنی ہے )۔ اور میں عاقب ہوں،  اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔

۶)۔ قال رسول اللہ علیہ و سلم ان اللہ لم یبعث نبیّاً الاحذر امبہ الدّجّال وانا اٰخر الانبیاء وانتم اٰخرالامم وھو خارج فیکم لا محا لۃ(ابن ماجہ،  کتاب الفتن، باب الدجّال)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا جس نے اپنی اُمّت کو دجّال کے خروج سے نہ ڈرایا ہو (مگر اُن کے زمانے میں وہ نہ آیا ) اب میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امّت ہو۔ لامحالہ اب اس کو تمہارے اندر ہی نکلنا ہے۔

۷)۔ عن عبدالرحمٰن بن جبیر قال سمعت عمداللہ بن عمر و بن العاص یقول خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یوماً کالمودّع فقال انا محمّد النبی الامی ثلاثاً ولا نبی بعدی۔ (مسند احمد، مرویات عبداللہ  بن عمرو بن العاص)

عبد الرحمٰن بن جُبَیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عَمْرو بن عاص کو یہ کہتے سُنا کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مکان سے نکل کر ہما رے درمیان تشریف لائے اس انداز سے کہ گویا آپ ہم سے رخصت ہو رہے ہیں۔ آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا:’’ میں محمد نبی ہوں۔ ‘‘ پھر فرمایا:اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ‘‘

۸)۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لا نبوۃ بعد الاالمبشرات۔ قیل وما المبشرات یا رسول اللہَ؟ قال الرؤیا لحسنٖۃ۔ اوقال الرؤیا الصالحۃ۔ (مُسند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے،  صرف بشارت دینے والی باتیں ہیں ‘‘ عرض کیا گیا وہ بشارت دینے والی باتیں کیا ہیں یا رسول اللہ ؟ فرمایا اچھا خواب یا فرمایا صالح خواب۔ (یعنی وحی کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اشارہ ملے گا بھی تو بس اچھے خواب کے ذریعہ سے مل جائے گا)۔

۹)۔ قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم لو کان بعدی نبیّ لکان عمر بن الخطاب(ترمذی، کتاب المناقب)

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔

۱۰)۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لعلٍیّ انت منیّبمنزلۃ ھارون من موسیٰ،  الا انہ لانبی بعدی (بخاری و مسلم،  کتاب فضائل الصحابہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی ؓ سے فرمایا میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسیٰؑ کے ساتھ ہارون کی تھی،  مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

بخاری و مسلم نے یہ حدیث غَزوۂ تَبوک کے ذکر میں بھی نقل کی ہے۔ مُسند احمد میں اس مضمون کی دو حدیثیں حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کی گئی ہیں جب میں سے ایک کا آخری فقرہ یوں ہے : الا انہ لا نبوۃ بعدی، ’’مگر میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ ‘‘ ابو داوٗد و طیالِسی، امام احمد اور محمد بن اسحاق نے اس سلسلے میں جو تفصیلی روایات نقل کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ تبوک کے لیے تشریف لے جاتے وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ کو مدینہ طیّبہ کی حفاظت و نگرانی کے لیے اپنے پیچھے چھوڑنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔ منافقین نے اس پر طرح طرح کی با تین ان کے بارے میں کہنی شرع کر دیں انہوں نے جا کر حضورؐ سے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ، کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جا رہے ہیں ‘‘؟ اس موقع پر حضورؐ نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ تم میرے ساتھ وہی نسب رکھتے ہو جو موسیٰ کے ساتھ ہارون رکھتے تھے ‘‘۔ یعنی جس طرح حضرت موسیٰؑ نے کوہِ طور پر جاتے ہوئے حضرت ہارونؐ کو بنی اسرائیل کی نگرانی کے لیے پیچھے چھوڑا تھا  اسی طرح میں تم کو مدینے کی حفاظت کے لیے چھوڑے جا رہا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حضورؐ کو اندیشہ ہوا کہ حضرت ہارون  کے ساتھ یہ تشبیہ کہیں بعد میں کسی فتنے کی موجب نہ بن جائے،  اس لیے فورا آپؐ نے یہ تصریح فرما دی کہ میرے بعد کوئی شخص نبی ہونے والا نہیں ہے۔

۱۱)۔ عن ثوبان قال رسول اللہ علیہ و سلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وانہ سیکون فی اُمّتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی۔ (انو داوٗد، کتاب الفتن)

۱۲)۔ قال اسلنبی صلی اللہ علیہ و سلم لقود کان فیمن کانقلبکم من بنی اورائیل رجال یُکلَّمون من غیران یکو نو اانبیاء فان یکن من امتی احد بعمر۔ (بخاری، کتاب المناقب)

ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔۔۔۔۔ اور یہ کہ میری امت میں تیس کذَّاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک بنی ہونے کا دعویٰ کرے گا، حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں،  میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

اسی مضمون کی ایک اور حدیث ابو داوٗد نے کتاب الملاحم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے۔ ترمذی نے بھی حضرت ثوبان اور حضرت ابو ہریرہؓ سے یہ دونوں روایتیں نقل کی ہیں اور دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : حتی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلا ثین کلھم یزعم انہ رسول اللہ، ’’ یہاں تک کہ اُٹھیں گے تیس کے قریب جھوٹے فریبی جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا وہ اللہ کا رسول ہے۔ ‘‘

۱۲)۔ قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم لقد کان نیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل دجال یُکَلَّمون من غیران یکو نواانبیاء فان یکن من امتی احد نعمر۔ (بخاری، کتاب المناقب)

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ان میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جن سے کلام کیا جاتا تھا بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوں۔ میری امت میں اگر کوئی ہوا تو وہ عمرؓ ہو گا۔

مسلم میں اس مضمون کی جو حدیث ہے اس میں یکلَّمون  کے بجائے محمدَّ نوٰن کا لفظ ہے۔ لیکن مکلَّم اور محدَّث،  دونوں کے معنی ایک ہی ہیں،  یعنی ایسا شخص جو مکالمۂ الہٰی سے سرفراز ہونے والے بھی اس اُمّت میں اگر کوئی ہوتے تو وہ حضرت عمرؓ ہوتے۔

۱۳)۔ قال رسُول اللہ علیہ و سلم لانبی بعدی ولا امۃ بعدی امتی۔ (بَکتاب الرؤیا۔ طَبرانی ہیَقی، )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی اُمّت (یعنی کسی نئے آنے والے نبی کی اُمّت ) نہیں۔

۱۴)۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بانی اٰخر الانبیاء وان مساجد۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل الصلوٰۃ بمسجد مکہ والمدینۃ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد (یعنی مسجدِ نبوی) ہے۔ (منکرینِ ختم نبوت اس حدیث سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جس طرح حضورؐ نے اپنی مسجد کو آخرُ المساجد فرمایا، حالانکہ وہ آخری مسجد نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بھی بے شمار مسجدیں دُنیا میں بنی ہیں،  اسی طرح جب آپؐ نے فرمایا کہ میں آخر الانبیاء ہوں تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ آپؐ کے بعد نبی آتے رہیں گے،  البتہ فضیلت کے اعتبار سے آپؐ آخری نبی ہیں اور آپؐ کی مسجد آخری مسجد ہے۔ لیکن درحقیقت اسی طرح کی تاویلیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ لوگ خدا اور رسول کے کلام کو سمجھنے کی اہلیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ صحیح مسلم کے جس مقام پر یہ حدیث وارد ہوئی ہے اس کے سلسلے کی تمام احادیث کو ایک نظر ہی آدمی دیکھ لے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ حضورؐ نے اپنی مسجد کس میں فرمایا ہے۔ اس مقام پر حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، اور امّ المومنین حضرت میمونہؓ، کے حوالہ سے جو روایات امام مسلم نے نقل کی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ دُنیا میں صرف تین مساجد ایسی ہیں جن کو عام مساجد پر فضیلت حاصل ہے،  جن میں نماز پڑھنا دوسری مساجد میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ اور اسے بنا پر صرف انہی تین مسجدوں میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کر کے جانا جائز ہے،  باقی کسی مسجد کا یہ حق نہیں ہے کہ آدمی دوسری مسجدوں کو چھوڑ کر خاص طور پر اُس میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرے۔ ان میں سے پہلے مسجد الحرام ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا تھا۔ دوسرے مسجد،  مسجد اقصیٰ ہے جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا۔ اور تیسری مسجد،  مدینۂ طیّبہ کی مسجد نبوی ہے جس کی بنیاد حضورؐ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے رکھی۔ حضورؐ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ اب چونکہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے،  اس لیے میری اس مسجد کے بعد دُنیا میں کوئی چوتھی مسجد ایسی بننے والی نہیں ہے جس میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں سے زیادہ ہو اور جس کی طرف نماز کی غرض سے سفر کرکی جانا درست ہو۔

یہ احادیث بکثرت  صحابہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کی ہیں اور بکثرت محدثین نے ان کو بہت سی قوی سندوں سے نقل کیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ نے مختلف مواقع پر، مختلف طریقوں سے،  مختلف الفاظ میں اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ آپؐ آخری نبی ہیں،  آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے،  نبوت کا سلسلہ آپؐ پر ختم ہو چکا ہے اور آپؐ کے بعد جو بھی رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کریں وہ دجال و کذّاب ہیں (۱)( منکرینِ ختمِ نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ان ارشادات کے مقابلے میں اگر کوئی چیز پیش کرتے ہیں تو وہ یہ روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا قولو اانہ خاتم الانبیاء ولا تقولوالانبی بعدہٗ۔ ’’ یہ تو کہو کہ حضورؐ خاتم الانبیاء ہیں مگر یہ نہ کہو کہ آپؐ کے کوئی نبی نہیں۔ ‘‘ لیکن اوّل تو حضورؐ کے صاف صاف ارشادات کے مقابلہ میں حضرت عائشہ ؓ کے کسی قول کو پیش کرنا ہی سخت گستاخی و بے ادبی  ہے اس پر مزید یہ کہ حضرت عائشہؓ کی طرف جس روایت میں یہ قول منسوب کیا گیا ہے وہ بجائے خود غیر مستند ہے۔ اسے حدیث کی کسی معتبر کتاب میں کسی قابل ذکر محدّث نے نقل نہیں کیا ہے۔ تفسیر کی ایک کتاب دُر منشور اور لغتِ حدیث کی ایک کتاب تکملہٗ مجمع  سے اس کو نقل کیا جاتا ہے، مگر اس کی سند کا کچھ پتہ نہیں ملتا۔ ایسی ضعیف ترین روایت اور وہ بھی ایک صحابیہ کی قول کو لا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اُن ارشادات کے مقابلہ میں پیش کیا جاتا ہے جنہیں تمام اکابر محدثین نے صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔ )۔ قرآن کے الفاظ ’’ خاتم النبیین‘‘ کی اس کے زیادہ مستند و معتبر اور قطعی الثبوت تشریح اور کیا ہو سکتی ہے۔ رسول پاکٔ کا ارشاد تو بجائے خود سند و حجت ہے۔ مگر جب وہ قرآن کی ایک نص کی شرح کر رہا ہو تب تو وہ اور بھی زیادہ قوی حجّت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والا اور اس کی تفسیر کا حق دار اور کون ہو سکتا ہے کہ وہ ختمِ نبوت کا کوئی دوسرا مفہوم بیان کرے اور ہم اسے قبول کرنا کیا معنی قابل التفات بھی سمجھیں ؟

 

صحابۂ کرام کا اِجماع

 

قرآن و سنت کے بعد تیسرے درجے میں صحابۂ کرام کے اجماع کی ہے۔ یہ بات تمام معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے فوراً بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور جن لوگوں نے ان کی نبوت تسلیم کی،  اُن سب کے خلاف صحابۂ کرام نے بالاتفاق جنگ کی تھی۔

اس سلسلے میں خصوصیّت کے ساتھ مُسَیلمۂ کذّاب کا معاملہ قابلِ ذکر ہے۔ یہ شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا منکر نہ تھا بلکہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اُسے حضورؐ کے ساتھ شریکِ نبوت بنایا گیا ہے۔ اُس نے حضورؐ کی وفات سے پہلے جو عریضہ آپؐ کو لکھا تھا اس کے الفاظ یہ ہیں :

من مُسَیْلمۃ رسول اللہ الیٰ محمدٍ رسول اللہ سلام علیک فانی اُشرِکتُ فی الامر معک(طَبَری، جلد دوم، ص ۳۹۹، طبع مصر)

مُسَیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کی طرف۔ آپ پر سلام ہو۔ آپ کو معلوم ہو کہ میں آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہوں۔

علاوہ بریں مؤرخ طَبری نے یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ مُسَیلمہ کے ہاں جو اذاں دی جاتی تھی اس میں اشھدانّ محمّداً رسول اللہ کے الفاظ بھی کہے جاتے تھے۔ اس صریح اقرارِ رسالتِ محمدؐی کے باوجود اسے کافر اور خارج ا ز ملت قرار دیا گیا اور اس سے جنگ کی گئی۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بنو حنِیفیہ نیک نیتی کے ساتھ (In good faith)اُس پر ایمان لائے تھے اور انہیں واقعی اس غلط فہمی میں ڈالا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے خود شریکِ رسالت کیا ہے۔ نیز قرآن کی آیات کو اُن کے سامنے مُسِیلمہ پر نازل شدہ آیات کی حیثیت سے ایک ایسے شخص نے پیش کیا تھا جو مدینۂ طیّبہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کر کے گیا تھا (البِدایۂ و النِّہایہَ لابن کثیر،  جلد ۵، ص۵۱)۔ مگر اس کے باوجود صحابۂ کرام نے ان کو مسلمان تسلیم نہیں کیا اور ان پر فوج کشی کی۔ پھر یہ کہنے کی بھی گنجائش نہیں کہ صحابہ نے ان کے خلاف ارتداد کی بنا پر نہیں بلکہ بغاوت کے جرم میں جنگ کی تھی۔ اسلامی قانون کی رُو سے باغی مسلمانوں کے خلاف اگر جنگ کی نوبت آئے تو ان کے اسیرانِ جنگ غلام نہیں بنائے جا سکتے،  بلکہ مسلمان تو درکنار، ذمّی بھی اگر باغی ہوں تو گرفتار ہونے کے بعد ان کو غلام بنانا جائز نہیں ہے۔ لیکن مُسَیلمہ اور اس کے پیرووں پر جب چڑھائی کی گئی تو حضرت ابو بکر ؓ نے اعلان فرمایا کہ اُن کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جائے گا۔ اور جب وہ لوگ اسیر ہوئے تو فی الواقع ان کو غلام بنایا گیا۔ چنانچہ انہی میں سے ایک لونڈی حضرت علیؓ کے حصّے میں آئی جس کے بطن سے تاریخ اسلام کی مشہور شخصیّت محمد بن حَنَفیہ(حنفیہ سے مراد ہے قبیلۂ بنو حنیفہ کی عورت) نے جنم لیا ( البِدایہ والنہایہ،  جلد۶، ص ۳۱۶، ۳۲۵)۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہؓ نے جس جُرم کی بنا پر ان سے جنگ کی تھی وہ بغاوت کا جرم نہ تھا  بلکہ یہ جرم تھا کہ ایک شخص  نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اور دوسرے لوگ اس کی نبوت پر ایمان لائے۔ یہ کارروائی حضورؐ کی وفات کے فوراً بعد ہوئی ہے،  ابو بکرؓ کی قیادت میں ہوئی ہے،  اور صحابہ کی پوری جماعت کے اتفاق سے ہوئی ہے۔ اجماع صحابہ کی اس سے زیادہ صریح مثال شاید ہی کوئی اور ہو۔

 

تمام علمائے اُمّت کا اجماع

 

اجماع صحابہ کے بعد چوتھے نمبر پر مسائل دین میں جو چیز کو حجت کی حیثیت حاصل ہے وہ دور صحابہ کے بعد کے علمائے اُمت کا اجماع ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم یہ دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی سے لے کر آج تک ہر زمانے کے،  اور پوری دنیائے اسلام میں ہر ملک کے علماء اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا،  اور یہ کہ جو بھی آپؐ کے بعد اس منصب کا دعویٰ کرے،  یا اس کو مانے،  وہ کافر خارج از ملّت اسلام ہے۔ اس سلسلہ کے بھی چند شواہد ملاحظہ ہوں :

۱۔ اما م ا بوحنیفہ ؓ(۸۰ھ۔ ۱۵۰ھ) کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا ’’ مجھے موقع دوکہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں۔ ‘‘ اس پر امامِ اعظمؒ نے فرمایا کہ ’’ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرما چکے ہیں کہ’’ لا نبی بعدی‘‘(مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ لا بن احمد المکی، ج ۱۔ ص۱۶۱۔ مطبوعہ حیدرآباد ۱۳۲۱ھ)

۲۔ علاّمہ ابن جَریر طَبری (۲۲۴ھ۔ ۳۱۰ھ) اپنی مشہور تفسیر قرآن میں آیت  وَلٰکِنْ رَّسُوْ لِ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّنَ کا مطلب بیان کرتے ہیں : الذی ختم النبوۃ فطبع علیھا فلاتفتح لاحد بعدہٗ الیٰ قیام الساعۃ۔ جس نے نبوت کو ختم کر دیا اور اس پر مُہر لگا دی، اب قیامت تک یہ دروازہ کسی کے لئے نہیں کھلے گا ‘‘ (تفسیر ابنِ جریر، جلد ۲۲، صفحہ ۱۲)

۳۔ امام  طَحاوِی(۲۳۹ھ۔ ۳۲۱ھ)اپنی کتاب ’’عقیدۂ سلفیہ‘‘ میں سلف صالحین،  اور خصوصاً امام ابو حنیفہ،  امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کے عقائد بیان کرتے ہوئے نبوت کے بارے یہ عقیدہ  تحریر فرماتے ہیں :’’ اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے برگزیدہ بندے، چیدہ نبی اور پسندیدہ رسول ہیں اور وہ خاتم الانبیا ء، امام الاتقیا، سیّد المرسلین اور حبِیب ربّ العالمین ہیں،  اور ان کے بعد نبوت  کا ہر دعویٰ گمراہی اور خواہشِ نفس کی بندگی ہے۔ ‘‘ (شرح الطحاویہ فی العقیدۃ السلفیہ، دار المعارف مصر، صفحات ۱۵، ۸۷، ۹۶، ۱۰۰، ۱۰۲)

۴۔ علّامہ ابن حَزُم اندَلُسِی (۳۸۴ھ۔ ۴۵۶ھ) لکھتے ہیں : ’’ یقیناً وحی کا سلسلہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد منقطع ہو چکا ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ وحی نہیں ہوتی مگر ایک نبی کی طرف،  اور اللہ عزّوجلّ فرما چکا ہے کہ محمدؐ نہیں ہیں تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ،  مگر وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔ ‘‘ (المحلّٰی، ج۱،  ص ۲۶)

۵۔ امام غَزّالی (۴۵۰ھ۔ ۵۰۵ھ) فرماتے ہیں (امام غزالیؒ کی اس رائے کو ہم ان کی اصل عبارت کے ساتھ اس لیے نقل کر رہے ہیں کہ منکرینِ ختم نبوت نے اس حوالے کی صحت کو بڑے زور شور سے چیلنج کیا ہے۔ )

لو فتح ھٰذاا لباب(ای باب انکا رکون الاجماع حجۃ)انجرالی امور شنیعۃ وھو ان قائلا لو قال یجوز ان یبعث رسول بعد نبینا محمّد صلی اللہ علیہ و سلم فیبعد التوقف فی تکفیرہ، ومستبعد استحلۃ ذالک عند البحث تستمد من الاجماع لا محالۃ،  فان العقل لا یحیلہ، وما نقل فیہ من قولہ لانبی بعدی، ومن قولہ تعالیٰ خاتم النبیّین، فلا یعجز ھٰذا القائل عن تاْویلہٖ، فیقول خاتم النبیّین اراد بہٖ اولوالعزم من الرسل،  فان قالواالنبٰٰن عام، فلا یبعد تخصیض العام، وقولہ لا بنی بعدی لم یرد بہ الرسول و فرق بین النبی و الرسول والنبی اعلیٰ مر تبۃ من الرسول الیٰ غیرذالک من انواع الھذیان، فھٰذا و امثالہ لا یمکن ان ندعی استحالتہٗ من حیث مضرد اللفظ،  فانا فی تاویل ظواھر التشبیہ قضینا باحتمالات ابعد من ھٰذہٖ،  ولم یکن ذالک مبطلاً للنصوص،  ولکن الرد علیٰ ھٰذاالقائل ان الامۃ نھمت بالاجما ع من ھٰذااللفظ و من قوائن احوالہ انہ الھم عدم نبی بعدہٗ ابداً وعد م رسول اللہ ابداً وانّہ لیس فیہ تاویل ولا تخصیص فمنکر ھٰذا لا یکون الامنکر الاجماع ( القتصاد فی الاعتقاد، المطبعۃ الادبیہ، مصر،  ص ۱۱۴)

اگر یہ دروازہ(یعنی اجماع کو  حجت ماننے سے انکار کا دروازہ ) کھول دیا جائے تو بڑی قبیح باتوں تک  نوبت پہنچ جاتی ہے۔ مثلاً اگر کہنے والا کہے کہ بعثت ممکن ہے تو اس کی تکفیر میں تامّل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بحث کے موقع پر جو شخص اس کی تکفیر میں تامّل کو ناجائز ثابت کرنا چاہتے ہو اسے لامحالہ اجماع سے مدد لینی پڑے گی۔ کیونکہ عقل اس کے عدم جواز کا فیصلہ نہیں کرتی۔ اور جہاں تک نقل کا تعلق ہے اس عقیدے کا قائل لانبی  بعدی اور خاتم النبیّین کی تاویل کرنے سے عاجز نہ ہو گا۔ وہ  کہے گا کہ خاتم النبیین سے مراد اولو العزم رسولوں کا خاتم ہونا ہے۔ اور اگر کہا جائے کہ نبیین کا لفظ عام ہے تو عام کو خاص قرار دے دینا اس کے لیے کچھ مشکل نہ ہو گا۔ اور لانبی بعدی کے متعلق وہ کہ دے گا کہ لا رسول بعدی تو نہیں کہا گیا ہے،  رسول اور نبی میں فرق ہے،  اور نبی کا مرتبہ رسول سے بلند تر ہے۔ اور غرض اس طرح کے اعتبار سے ایسی تاویلات کو ہم محال نہیں سمجھتے،  بلکہ ظواہرِ تشبیہ کی تاویل میں ہم اس سے بھی زیادہ بعید اتمالات کی گنجائش مانتے ہیں اور اس طرح کی تاویلیں کرنے والے کے متعلق ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ نصوص کا انکار کر رہا ہے۔ لیکن اس قول کے قائل کی تردید میں ہم یہ کہیں گے کہ اُمت نے بالاتفاق اس لفظ (یعنی لانبی بعدی) سے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قرائنِ احوال سے یہ سمجھا ہے کہ حضورؐ کا مطلب یہ تھا کہ آپ کے بعد کبھی نہ کوئی نبی  آئے گا نہ رسول۔ نیز امت کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس میں کسی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو منکرِ اجماع کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

۶۔ محی السُّنَّہ بَغَوی (متوفی۵۱۰ھ)اپنی تفسیر معالم التنزیل میں  لکھتے ہیں، ’’اللہ نے آپؐ کے ذریعہ سے نبوت کو ختم کیا، پس آپؐ انبیاء کے خاتم ہیں ………اور ابن عباس کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اِس آیت میں ) یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ ‘‘ (جلد ۳، ص۱۵۸)

۷۔ علامہ زَمَخْشَری (۴۶۷ھ۔ ۵۳۸ھ) تفسیر کشّاف میں لکھتے : ’’ ہیں اگر تم کہو کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی کیسے ہوئے جبکہ حضرت عیسیٰ ؑ آخر زمانے میں نازل ہوں گے ؟ تو میں کہوں گا کہ آپؐ کا آخری نبی ہونا اس معنی میں ہے کہ بعد کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے گا، اور عیسیٰ علیہ السلام اُن لوگوں میں سے ہیں جو آپ سے پہلے نبی بنائے جا چکے تھے،  اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمدیہ کے پیرو اور آپؐ کے قبیلے کی طرف نماز پڑھنے والے کی حیثیت سے نازل ہوں گے گویا کہ وہ آپؐ ہی کی امت کے ایک فرد ہیں ‘‘۔ (جلد ۲، ص۲۱۵)

۸۔ قاضی عیاض(متوفی ۵۴۴ھ) لکھتے ہیں :’’ جو شخص خود اپنے حق میں نبوت کا دعویٰ کرے،  یا اس  بات کو جائز رکھے کہ آدمی نبوت کا اکتساب کر سکتا ہے اور صفائیِ قلب کے ذریعہ سے مرتبۂ نبوت کو پہنچ سکتا ہے،  جیسا کہ بعض فلسفی اور غالی صوفی کہتے ہیں،  اور اسی طرح جو شخص نبوت کا دعویٰ تو نہ کرے مگر یہ دعویٰ کرے کہ اس پر وحی آتی ہے …… ایسے سب لوگ کافر اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جھٹلانے والے ہیں۔ کیونکہ آپؐ خاتم النبیین ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ اور آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پہنچائی ہے کہ آپ نبوت کے ختم کرنے والے ہیں اور تمام انسانوں کی طرف آپؐ کو بھیجا گیا ہے۔ اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر مفہوم پر محمول ہے،  اس کے معنی و مفہوم میں کسی تاویل و تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا ان تمام گروہوں کے کافر ہونے میں قطعاً کوئی شک نہیں،  بر بنائے اجماع بھی اور بر بنائے نقل بھی‘‘۔ (شفاء، جلد ۲، ص۰ ۲۷۔ ۲۷۱)

۹۔ علامہ شہر ستانی (متوفی ۵۴۸ھ ) اپنی مشہور کتاب الملل و الِنَّحل میں لکھتے ہیں :’’ اور اسے طرح جو کہے ………. کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی آنے والا ہے (بجز عیسیٰ علیہ السلام کے )تو اس کے کافر ہونے میں دو آدمیوں کی درمیان بھی اختلاف نہیں ہے ‘‘ (جلد ۳، ص۲۴۹)

۱۰۔ امام رازی (۵۴۳ھ۔ ۶۰۶ھ)اپنی تفسیر کبیر میں آیت خاتم النبیین کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ اس سلسلۂ بیان میں و خاتم النبیین اس لیے فرمایا کہ جس نبی کے بعد کوئی دوسرا نبی ہو وہ اگر نویھت اور توضیح احکام کوئی کسر چھوڑ جائے تو اس کے بعد آنے والا نبی اُ سے پورا کر  سکتا ہے۔ مگر جس کے بعد کوئی آنے  والا نبی نہ ہو وہ اپنی امت پر زیادہ شفیق ہوتا ہے اور اس کو زیادہ واضح رہنمائی دیتا ہے کیونکہ اس کی مثال اُس باپ کی ہوتی ہے جو جانتا ہے کہ اس کے بیٹے کا کوئی ولیو سرپرست اُس کے بعد نہیں ہے (جلد ۶، ص ۵۸۱)

۱۱)۔ علامہ بیضاوی (متوفی ۶۸۵ھ اپنی تفسیر انوار التنزیل مین لکھتے ہیں : ’’ یعنی آپؐ انبیا ء میں سب سے آخری نبی ہیں جس نے ان کا سلسلہ ختم کر دیا، یا جس سے انبیاء کے سلسلے پر مہر کر دی گئی۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کا آپؐ کے بعد نازل ہونا اس ختمِ نبوت میں قادح نہیں ہے کیونکہ جب وہ نازل ہوں گے تو آپؐ ہی کے دین پر ہوں گے ‘‘ (جلد ۴۔ ص ۱۶۴)

۱۲)۔ علامہ حافظ الدین النَّسَفی(متوفی ۷۱۰ھ) اپنی تفسیر ’’ مدارک التنزیل ‘‘ لکھتے ہیں۔ ’’ اور آپؐ خاتم النبیین ہیں …….. یعنی نبیوں میں سب سے آخری۔ آپؐ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں نبایا جائے گا۔ رہے عیسیٰ ؑ تو وہ اُن انبیاء میں سے  ہیں جو آپؐ سے پہلے نبی بنائے جا چکے تھے۔ اور وہ جب نازل ہوں گے تو شریعتِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر عمل کرنے والے کی حیثیت سے نازل ہوں گے گویا کہ وہ آپؐ کے افراد میں سے ہیں ‘‘ (ص ۴۷۱)

۱۳)۔ علامہ علاؤالدین بغدادی(متوفی ۷۲۵ھ) اپنی تفسیر ’’ خازن‘‘ میں لکھتے ہیں :’’ وَخَا تَمَ النَّبِیّینَ، یعنی اللہ نے آپؐ پر نبوت ختم کر دی، ان نہ آپؐ کے ساتھ کوئی اس میں شریک….. وَکَانَاللہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلیمْاً، یعنی یہ بات اللہ کے علم میں ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ ‘‘ (ص۴۷۱۔ ۴۷۲)

۱۴)۔ علامہ ابنِ کثیر (متوفی ۷۷۴ھ)اپنی مشہور و معروف تفسیر میں لکھتے ہیں :’’ پس یہ آیت اس باب میں نص صریح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے،  اور جب آپؐ کے بعد نبی کوئی نہیں تو رسول درجۂ اولیٰ نہیں ہے،  کیوں کہ رسالت کا منصب خاص ہے اور نبوت کا منصب عام، ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا….حضورؐ کے بعد جو شخص بھی اس مقام کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا،  مفتری، دجّال، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے خواہ وہ کیسے ہی خرق عادت اور شعبدے اور جادو اور طلسم اور کرشمے بنا کر لے آئے ….   یہی حیثیت ہر اس شخص کی ہے جو قیامت تک اس منصب کا مدعی ہو‘‘۔ (جلد۳۔ ص۴۹۳۔ ۴۹۴)

۱۵)۔ علامہ جلال الدین سُیُو طی(متوفی۹۱۱) تفسیر جلالین میں لکھتے ہیں :’’ وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْماً، یعنی اللہ اس بات کو جانتا ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور عیسیٰؑ جب نازل ہوں گے تو آپؐ کی شریعت ہی کے مطابق عمل کریں گے ‘‘۔ (ص ۷۶۸)

۱۶)۔ علامہ ابن نُجیم(متوفی ۹۷۰ھ) اُصُولِ فقہ کی مشہور کتاب الْاَشباہ والنظائر، کتاب السّیر، باب الرِّوَّہ میں لکھتے ہیں :’’ اگر آدمی یہ نہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں ہے،  کیوں کہ یہ اُن باتوں میں سے ہے جن کا جاننا اور ماننا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ ‘‘ (ص۱۷۹)

۱۷)۔ ملّا علی قاری(متوفی ۱۰۱۶ھ) شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں :’’ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالا جماع کفر ہے ‘‘۔ (ص ۲۰۲)

۱۸)۔ شیخ اسماعیل حقی(متوفی ۱۱۳۷ھ) تفسیر رُوح البیان میں اس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ عاصم نے لفظ خاتَمت کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی ہیں آلۂ ختم کے جس سے مہر کی جاتی ہے۔ جیسے طابع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے ٹھپّا لگا یا جائے۔ مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم انبیاء میں سب سے آخر تھے جن کے ذریعہ سے نبیوں کے سلسلہ پر مُہر لگا دی گئی۔ فارسی میں اسے ’’ مُہرپیغمبراں ‘‘ کہیں گے،  یعنی آپؐ سے نبوت کا دروازہ سر  بمُہر کر دیا گیا اور پیغمبروں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ باقی قاریوں نے اسے ت کے زیر کے ساتھ خاتِم پڑھا ہے،  یعنی آپؐ مُہر کرنے والے تھے۔ فارسی میں اس کو ’’مُہر کنندۂ پیغمبراں ‘‘کہیں گے۔ اس طرح یہ لفظ بھی خاتَم کا ہم معنی ہی ہے ….. اب آپ کی اُمت کے علماء آپؐ سے صرف ولایت ہی کی میراث پائیں گے،  نبوت کی میراث آپؐ کی ختمیت کے باعث ختم ہو چکی۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کا آپ کے بعد نازل ہونا آپؐ کے خاتم النبیین ہونے میں قدح نہیں ہے کیونکہ خاتم النیین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہ بنایا جائے گا…. اور عیسیٰ آپؐ سے پہلے نبی بنائے  جا چکے تھے۔ اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیرو کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ آپؐ ہی کے قبلے کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھیں گے۔ آپؐ کی امت کے ایک فرد کی طرح ہوں گے۔ نہ اُن کی طرف وحی آئے گی اور نہ وہ نئے احکام دیں گے۔ بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلیفہ ہوں گے …… اور اہل سنت والجماعت اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما دیا’’ لا نبی بعدی‘‘ اب جو کوئی کہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی ہے تو اس کو کافر قرار دیا جائے گا، کیونکہ اس نے نص کا انکار کیا۔ اور اسی طرح اس شخص کی بھی تکفیر کی جائے گے جو اس میں شک کرے،  کیونکہ حجت نے حق کو باطل سے ممیز کر دیا ہے اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے اس کا دعویٰ باطل کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ ‘‘ جلد ۲۲ ص ۱۸۸)

۱۹)۔ قتاویٰ علمگیری، جسے بارھویں صدی ہجری میں اورنگ زیب عالمگیر کے حکم سے ہندوستان کے بہت سے علماء نے مرتب کیا تھا، اس میں لکھا ہے :’’ اگر آدمی یہ نہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں تو وہ مسلم نہیں ہے۔ اور اگر وہ کہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں یا میں پیغمبر ہوں تو اس کی تکفیر کی جائے گی‘‘(جلد۲، ص۲۶۳)

۲۰)۔ علامہ شَو کافّٰی (متوفّٰی ۱۲۵۵ھ) اپنی تفسیر فتح القدیر میں لکھتے ہیں :’’ جمہور نے لفظ خاتِم کوت کے زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور نے زبر کے ساتھ۔ پہلی قرأت  کے معنی یہ ہیں کہ آپؐ نے انبیاء کو ختم کیا، یعنی سب کے آخر میں آئے۔ اور دوسری قرأت  کے معنی یہ ہیں کہ آپ ان کے لیے مہر کی طرح ہو گئے جس کے ذریعہ سے ان کا سلسلہ سر بمہر ہو گیا اور جس کے شمول سے ان کا گروہ مزین ہوا‘‘(جلد ۴، ص ۲۷۵)

۲۱)۔ علامہ آلوسی (متوفّٰی ۱۲۷۰ھ) تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں : ’’ نبی کا لفظ رسول کی بہ نسبت عام ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خاتم النبیین ہونے سے خود بخود لازم آتا ہے کہ آپؐ خاتم المرسلین بھی ہوں۔ اور آپؐ کے خاتِم انبیاء و رُسُل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس دُنیا میں وصفِ نبوت سے آپؐ کے متصف ہونے کے بعد اب جِنّ و انس میں سے ہر ایک کے لیے نبوت کا وصف منقطع ہو گیا۔ ‘‘ (جلد ۲۲۔ ص۳۲)۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد جو شخص وحی نبوت کا مدّعی ہوا ُسے کافر قرار دیا جائے گا۔ اس امر میں مسلمانوں  کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ‘‘ جلد۲۲ ص ۳۸)۔ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خاتم النبیین ہونا ایک ایسی بات ہے جسے کتاب ا للہ نے صاف صاف بیان کیا، سنّت نے واضح طور پر اس کی تصریح کی، اور امت نے اس پر اجماع کیا۔ لہٰذا جو اس کے خلاف کوئی دعویٰ کرے اسے کافر قرار دیا جائے گا۔ ‘‘ (جلد ۲۲ ص ۳۹)

یہ ہندوستان سے لے کر مراکش اور اندلس تک،  اور ٹرکی سے لے کر یمن تک  ہر مسلمان ملک کے اکابر علماء و فقہا ء اور محدثین و مفسرین کی تشریحات ہیں۔ ہم نے ان کے ناموں کے ساتھ ان کے سنینِ ولادت و وفات بھی دے دیے ہیں جن سے ہر شخص بیک نظر معلوم کر سکتا ہے کہ پہلی صدی سے تیرھویں صدی تک تاریخِ اسلام کی ہر صدی کے اکابر اُن میں شامل ہیں۔ اگرچہ ہم چودھویں صدی  کے علمائے اسلام کی تصریحات بھی نقل کر سکتے تھے،  مگر ہم نے قصداً انہیں اس لیے چھوڑ دیا کہ اُن کی تفسیر کے جواب میں ایک شخص یہ حیلہ کر سکتا ہے کہ ان لوگوں نے اس دور کے مدعی نبوت کی ضد میں ختمِ نبوت کے یہ معنی بیان کیے ہیں۔ اس لیے ہم نے پہلے علماء کی تحریریں نقل کی ہیں جو ظاہر ہے کہ آج کے کسی سے کوئی ضد نہ رکھ سکتے تھے۔ ان تحریروں س یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ پہلی صدی سے آج تک پوری دنیائے اسلام متفقہ طور پر ’’ خاتم النبیین ‘‘ کے معنی ’’ آخری نبی ‘‘ ہی سمجھ  رہی ہے،  حضورؐ کے بعد نبوت کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند تسلیم کرنا ہر زمانے میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے،  اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں ۂا کہ جو شخص محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور جو اس کے دعوے کو مانے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔

اب یہ دیکھنا ہر صاحبِ عقل آدمی کا اپنا کام ہے کہ لفظ خاتم البنیین کا جو مفہوم لغت سے ثابت ہے،  جو قرآن کی عبارت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے،  جس کی تصریح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود فرما دی ہے،  جس پر صحابۂ کرامؓ کا اجماع ہے،  اور جسے صحابۂ کرامؓ کے زمانے سے لے کر آج تک تمام دنیا کے مسلمان بلا اختلاف مانتے رہے ہیں،  اس کے خلاف کوئی دوسرا مفہوم، لینے اور کسی نئے مدّعی کے لیے نبوت کا دروازہ کھولنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے،  اور ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان تسلیم کیا جا سکتا ہے جنہوں نے بابِ نبوت کے مفتوح ہونے کا محض خیال ہی ظاہر نہیں کیا ہے بلکہ اس دروازے سے ایک صاحب حریمِ نبوت میں داخل بھی ہو گئے ہیں اور یہ لوگ ان کے نبوت پر ایمان بھی لے آئے ہیں۔

اس سلسلے میں تین باتیں اور قابلِ غور ہیں :

کیا اللہ کو ہمارے ایمان سے کوئی دشمنی ہے ؟

پہلی بات یہ ہے کہ نبوت کا معاملہ ایک بڑا ہی نازک معاملہ ہے۔ قرآن مجید کی رُو سے یہ اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہے جن کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفر و ایمان کا انحصار ہے۔ ایک شخص نبی ہو اور آدمی اس کو نہ مانے تو کافر،  اور وہ نبی نہ ہو اور آدمی اس کو مان لے تو کافر۔ ایسے ایک نازک معاملے میں تو اللہ تعالیٰ سے کسی بے احتیاطی کی بدرجۂ اولیٰ توقع نہیں کی جا سکتی۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی آنے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ خود قرآن میں صاف صاف اس کی تصریح فرماتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے اس کاس کھُلا کھُلا اعلان کراتا اور حضور دنیا س کبھی تشریف نہ لے جاتے جب تک اپنی امت کو اچھی طرح خبردار نہ کر دیتے کہ میرے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور تمہیں ان کو ماننا ہو گا۔ آخر اللہ اور اس کے رسول کو ہمارے دین و ایمان سے کیا دشمنی تھی کہ حضورؐ کے بعد نبوت کا دروازہ تو کھُلا ہوتا اور کوئی نبی آنے والا بھی ہوتا جس پر ایمان لائے بغیر ہم مسلمان نہ ہو سکتے،  مگر ہم کو نہ صرف یہ کہ اس سے بے خبر رکھا جاتا،  بلکہ اس کے برعکس اللہ اور اس کا رسول دونوں ایسی باتیں فرما دیتے جن سے تیرہ سو برس تک ساری امت یہی سمجھتی رہی اور آج بھی سمجھ رہی ہے کہ حضورؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔

اب اگر بفرضِ محال نبوت کا دروازہ کھلا بھی ہو اور کوئی نبی آ بھی جائے تو ہم بے خوف و خطر اس کا انکار کر دیں گے۔ خطرہ ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی باز پُرس ہی کا تو ہو سکتا ہے۔ وہ قیامت کے روز ہم سے پوچھے گا تو ہم یہ سارا ریکارڈ برسر عدالت لا کر رکھ دیں گے جس سے ثابت ہو جائے گا کہ معاذاللہ اس کفر کے خطرے میں تو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہی نے ہی ہمیں ڈالا تھا۔ ہمیں قطعاً کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ ریکارڈ کو دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ ہمیں کسی نئے نبی پر ایمان نہ لانے کی سزا دے ڈالے گا۔ لیکن اگر نبوت کا دروازہ فی الواقع بند ہے اور کوئی نبی آنے والا نہیں ہے،  اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی مدعی کی نبوت پر ایمان لاتا ہے تو اسے سوچ لینا چاہیے کہ اس کفر کی پاداش سے بچنے کے لیے وہ کون سا ریکارڈ خدا کی عدالت میں پیش کر سکتا ہے جس سے وہ رہائی کی توقع رکھتا ہو۔ عدالت میں پیشی ہونے سے پہلے اسے اپنی صفائی کے مواد کا یہیں جائزہ لے لین چاہیے،  اور ہمارے پیش کردہ مواد سے مقابلہ کر کے خود ہی دیکھ لینا چاہیے کہ جس صفائی کے بھروسے پر وہ یہ کام کر رہا ہے کیا ایک عقلمند آدمی اس پر اعتماد کر کے کفر کی سزا کا خطرہ مول لے سکتا ہے ؟

 

اب نبی کی آخر ضرورت کیا ہے ؟

 

دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ نبوت کوئی ایسی صفت نہیں ہے جو ہر اُس شخص میں پیدا ہو جایا کرے جس نے عبادت اور عملِ صالح میں ترقی کر کے اپنے آپ کو اس کا اہل بنا لیا ہو۔ نہ یہ کوئی ایسا انعام ہے جو کچھ خدمات کے صلے میں عطا کیا جاتا ہو۔ بلکہ یہ ایک منصب ہے جس پر ایک خاص ضرورت کی خاطر اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مقرر کرتا ہے۔ وہ ضرورت جب داعی ہوتی ہے تو ایک نبی اس کے لیے مامور کیا جاتا ہے،  اور جب ضرورت نہیں رہتی تو خواہ مخواہ انبیاء پر انبیاء نہیں بھیجے جاتے۔

قرآن مجید سے جب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کے تقرر کی ضرورت کن کن حالات میں پیش آئی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں :

اوّل یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے کہ کہ اس میں پہلے کبھی کوئی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس تک نہ پہنچ سکتا تھا۔

دوّم یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اس وجہ سے ہو کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم بھُلا دی گئی ہو، یا اس میں تحریف ہو گئی ہو، اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو۔

سوم یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعہ مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیل دین کے لیے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔

چہارم یہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لیے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔

اب یہ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ضرورت بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد باقی نہیں رہی ہے۔

قرآن خود کہہ رہا ہے کہ حضورؐ کو تمام دُنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے اور دنیا کی تمدّنی تاریخ بتا رہی ہے کہ آپؐ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپؐ کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیاء آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔

قرآن اس پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث و سیرت کا پورا ذخیرہ اس امر کی شہادت دے رہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی تعلیم بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اس میں مسخ و تحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ جو کتاب آپ لائے تھے اس میں ایک لفظ بھی کمی و بیشی آج تک نہیں ہوئی، نہ قیامت تک ہو سکتی ہے۔ جو ہدایت آپؐ نے اپنے قول و عمل سے دی اس کے تمام آثار آج بھی اس طرح ہمیں مل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپؐ کے زمانے میں موجود ہیں۔ اس لیے دوسری ضرورت بھی ختم ہو گئی۔

پھر قرآن مجید یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ حضورؐ کے ذریعہ سے دین کی تکمیل کر دی گئی۔ لہٰذا تکمیل دین کے لیے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں رہا۔

اب رہ جاتی ہے چوتھی ضرورت،  تو اگر اس کے لیے کوئی نبی درکار ہوتا تو وہ حضورؐ کے زمانے میں آپؐ کے ساتھ مقرر کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیا گیا تو یہ بھی ساقط ہو گئی۔

اب ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ پانچویں وجہ کونسی ہے جس کے لیے آپؐ کے بعد ایک نبی کی ضرورت ہو؟ اگر کوئی کہے کہ قوم بگڑ گئی ہے اس لیے اصلاح کی خاطر ایک نبی کی ضرورت ہے،  تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ محض اصلاح کے لیے نبی دنیا میں کب آیا ہے کہ آج صرف اس کام کے لیے وہ آئے ؟ نبی تو اس لیے مقرر ہوتا ہے کہ اس پر وحی کی جائے،  اور وحی کی ضرورت یا تو کوئی نیا پیغام دینے کے لیے ہوتی ہے،  یا پچھلے پیغام کی تکمیل کرنے کے لیے،  یا اس کو تحریفات سے پاک کرنے کے لیے۔ قرآن اور سنتِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے محفوظ ہو جانے اور دین کے مکمل ہو جانے کے بعد جب وحی کی سب ممکن ضرورتیں ختم ہو چکی ہیں،  تو اب اصلاح کے لیے صرف مصلحین کی حاجت باقی ہے نہ کہ انبیاء کی۔

 

نئی نبوّت اب اُمّت کے لیے رَحمت نہیں بلکہ لعنت ہے

 

تیسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ نبی جب بھی کسی قوم میں آئے گا فوراً اس میں کفر و ایمان کا سوال اُٹھ کھڑا ہو گا۔ جو اس کو مانیں گے وہ ایک امت قرار پائیں گے اور جو اس کو نہ مانیں گے وہ لامحالہ دوسری اُمّت ہوں گے۔ اِن دونوں امتوں کا اختلاف محض فروعی اختلاف نہ ہو گا بلکہ ایک نبی پر ایمان لانے اور نہ لانے کا ایسا بنیادی اختلاف ہو گا جو انہیں اس وقت تک جمع نہ ہونے دے گا جب تک ان میں سے کوئی اپنا عقیدہ نہ چھوڑ دے۔ پھر ان کے لیے عملاً بھی ہدایت اور قانون کے ماخذ الگ الگ ہوں گے،  کیوں کہ ایک گروہ اپنے تسلیم کردہ نبی کی پیش کی ہوئی وحی اور اس کی سنت سے قانون لے گا اور دوسرا گروہ اس کے ماخذِ قانون ہونے کا سرے سے منکر ہو گا۔ اس بنا پر ان کا ایک مشترک معاشرہ بن جانا کسی طرح بھی ممکن نہ ہو گا۔

ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھے تو اس پر یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ختمِ نبوت اُمتِ مسلمہ کے لیے اللہ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے جس کی بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیر برادری بننا ممکن ہوا ہے۔ اس چیز نے مسلمانوں کو ایسے ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ کر دیا ہے جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب ہو سکتا ہو۔ اب جو شخص بھی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا ہادی و رہبر مانے اور ان کی دی ہوئی تعلیم کے سوا کسی اور ماخذِ ہدایت کی طرف رجوع کرنے کا قائل نہ ہو وہ اس برادری کا فرد ہے اور ہر وقت ہو سکتا ہے۔ یہ وحدت اس امت کو کبھی نصیب نہ ہو سکتی تھی اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہو جاتا۔ کیوں کہ ہر نبی کے آنے پر یہ  پارہ پارہ ہوتی رہتی۔

آدمی سوچے تو اس کی عقل خود یہ کہہ دے گی کہ جب تمام دنیا کے لیے ایک نبی بھیج دیا جائے،  اور جب اس نبی کے ذریعہ سے دین کی تکمیل بھی کر دی جائے،  اور جب اس نبی کی تعلیم کو پوری طرح محفوظ بھی کر دیا جائے،  تو نبوت کا دروازہ بند ہو جانا چاہیے تاکہ اس آخری نبی کی پیروی پر جمع ہو کر تمام دنیا میں ہمیشہ کے لیے اہل ایمان کی ایک ہی امت بن سکے اور بلا ضرورت نئے نئے نبیوں کی آمد سے اس امت میں بار بار تفرقہ نہ برپا ہوتا رہے۔ نبی خواہ ’’ظِلّی‘‘ ہو یا’’ بروزی‘‘، اُمتی ہو یا صاحبِ شریعت اور صاحبِ کتاب، بہر حال جو شخص نبی ہو گا اور خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ہو گا، اس کے آنے کا لازمی نتیجہ یہی ہو گا کہ اس کے ماننے والے ایک امّت بنیں اور نہ ماننے والے کافر قرار پائیں۔ یہ تفریق اس حالت میں تو ناگزیر ہے جب کہ نبی کے بھیجے جانے کی فی الواقع ضرورت ہو، مگر جب اس کے آنے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے تو خدا کی حکمت اور اس کی رحمت سے یہ بات قطعی بعید ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنے بندوں کو کفر ایمان کی کشمکش میں مبتلا کرے اور انہیں کبھی ایک امت نہ بننے دے۔ لہٰذا جو کچھ قرآن سے ثابت ہے اور جو کچھ سنت اور اجماع سے ثابت ہے عقل بھی اسی کو صحیح تسلیم کرتی ہے اور اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب نبوت کا دروازہ بند ہی رہنا چاہیے۔

 

’’مسیح مَوعُود‘‘ کی حقیقت

 

نئی نبوت کی طرف بلانے والے حضرات عام طور پر ناواقف مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ احادیث میں ’’مسیح موعود ‘‘ کے آنے کی خبر دی گئی ہے،  اور مسیح نبی تھے،  اس لیے ان کے آنے سے ختم نبوت میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی،  بلکہ ختمِ نبوت بھی برحق اور اس کے باوجود مسیح موعود کا آنا بھی برحق۔

اسی سلسلے میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ’’ مسیح موعود‘‘ سے مراد عیسیٰ ابن مریم نہیں ہیں۔ ان کا تو انتقال ہو چکا۔ اب جس کے آنے کی خبر نبوت کے خلاف نہیں ہے۔

اس فریب کا پردہ چاک کرنے کے لیے ہم یہاں پورے حوالوں کے ساتھ وہ مستند روایات نقل کیے دیتے ہیں جو اس مسئلے کے متعلق حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ اِن احادیث کو دیکھ کر ہر شخص خود معلوم کر سکتا ہے کہ حضورؐ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا فرمایا تھا اور آج اس کو کیا بنایا جا رہا ہے۔

 

احادیث درباب نزولِ عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السّلام

 

(۱)عن ابی ھریر ۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم والذی نفوی بیدہ لَیَوْ شِکَنَّ ان ینزل فِیکم ابن مریم حکماً عد لاً فیکسر الصلیب و یقتل الخنزیر و یَضَعَ الحربَ و یُفیضَ المال حتیٰ لا یقبلِہ احد حتٰی تکون السجدہ الوا حدۃ خیراً من الدّ نیا وما فیھا (بخاری کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم۔ مسلم،  باب بیان نزول عیسیٰ۔ ترمذی ابواب الفتن، باب فی نزول عیسیٰ۔ مسند احمد، کرویات ابو ہریرہؓ)

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،  ضرور اُتریں گے تمہارے درمیان ابن مریم حاکم عادل بن کر،  پھر وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے،  اور خنزیر کو ہلاک کر دیں گے۔ ( صلیب کو توڑ ڈالنے اور خنزیر کو ہلاک کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ عیسائیت ایک الگ دین کی حیثیت سے ختم ہو جائے گی۔ دینِ عیسوی کی پوری عمارت اس عقیدے پر قائم ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے (یعنی حضرت عیسیٰ) کو صلیب پر ’’ لعنت ‘‘ کی موت دی جس سے وہ انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ اور انبیاء کی امتوں کے درمیان عیسائیوں کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے صرف عقیدے کو لے کر خدا کی پوری شریعت رد کر دی حتیٰ کہ خنزیر پر تک کو حلال کر لیا جو تمام انبیاء کی شریعتوں میں حرام رہا ہے۔ پس جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آ کر خود اعلان کر دیں گے کہ نہ میں خدا کا بیٹا ہوں،  نہ میں نے صلیب پر جان دی، نہ میں کسی گناہ کا کفارہ بنا تو عیسائی عقیدے کے لیے سرے سے کوئی بنیاد ہی باقی نہ رہے گی۔ اسی طرح جب وہ بتائیں گے کہ میں نے تو نہ اپنے پیرووں کے لیے سُور حلال کیا تھا اور نہ ان کو شریعت کی پابندی سے آزاد ٹھیرایا تھا، تو عیسائیت کی دوسری امتیازی خصوصیت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ ) اور جنگ کا خاتمہ کر دیں گے (دوسری روایت میں حرت کے بجائے جزیہ کا لفظ ہے،  یعنی جزیہ ختم کر دیں گے۔ ) (دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس وقت ملّتوں کے اختلافات ختم ہو کر سب لوگ ایک مِلّت اسلام میں شامل ہو جائیں گے اور اس طرح نہ جنگ ہو گی اور نہ کسی پر جزیہ عائد کیا جائے گا۔ ا سی بات پر آگے احادیث نمبر ۵ و ۱۵  دلالت کر رہی ہیں۔ )اور مال کی وہ کثرت ہو گی کہ اس ک قبول کرنے والا کوئی نہ رہے گا اور (حالت یہ ہو جائے گی کہ لوگوں کے نزدیک خدا کے حضور) ایک سجدہ کر لینا دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔

(۲)۔ ایک اور روایت حضرت ابو ہریرہ ؓسے ان الفاظ میں ہے کہ لا تقعم السّا عۃ حتّٰی ینزل عیسٰی ابن مریم……قیامت قائم نہ ہو گی جب تک نازل نہ ہولیں عیسٰی ابن مریم……….اور اس کے بعد ہی مضمون ہے جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوا ہے (بخاری،  کتاب المظالم، باب کسرالصلیب۔ ابن ماجہ،  کتاب الفتن، باب فتنتہ الدجال)

(۳)۔ عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال کیف انتم اذانزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء،  باب نزول عیسیٰ۔ مسلم،  بیان نزول عیسیٰ۔ مسند احمد،  مرویات ابی ہریرہؓ)

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیسے ہو گے تم جبکہ تمہارے درمیان ابن مریم اتریں گے اور تمہارا امام اس وقت خود تم میں سے ہو گا۔ ‘‘ (یعنی نماز میں حضرت عیسیٰ  حضرت عیسیٰ امامت نہیں کرائیں گے بلکہ مسلمانوں کا جو امام پہلے سے ہو گا اسی کے پیچھے وہ نماز پڑھیں گے۔ )

(۴)۔ عن ابی حریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال ینزل عیسیٰ ابن مریم فیقتل الخنزیر و یمحواالصلیب و تجمع لہ الصلوٰۃ و یعطی المال حتی لا یقبل و یضع الخراج و ینزل الرَّوحاء فیحجّ منھا، او یعتمو، او یجمعھما (مسند احمد،  بسلسلہ،  مرویات ابی ہریرہؓ مسلم،  کتاب الحج۔ باب جواز التمتُّع فی الحج والقرآن)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گیپھر وہ خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو مٹا دیں گے اور ان کے لیے نماز جمع کی جائے گی اور وہ اتنا مال تقویم کریں گے کہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ہو گا اور وہ خراج ساقط کر دیں گے اور رَوحاء(مدینہ سے ۳۵ میل کے فاصلے پر ایک مقام) کے مقام پر منزل کر کے وہاں سے حج یا عمرہ کریں گے،  یا دونوں کو جمع کریں گے ( واضح رہے کہ اس زمانے میں جن صاحب کو مثیلِ مسیح قرار دیا گیا ہے  انہوں نے اپنی زندگی میں نہ حج کیا اور نہ عمرہ) راوی کو شک ہے کہ حضورؐ نے ان میں سے کونسی بات فرمائی تھی۔

(۵)۔ عن ابی ھریرۃ (بعد ذکر خروج الدجال) فبینما ھم یعدّوس للقتال یسوّون الصّفوف اذا اقیمت الصلوٰۃ فینزل عیسیٰ ؑ ابن مریم فامّھم فاذار اٰہ عدواللہ یذوب کما یذوب الملح فی الماء فلو ترکہ الانذاب حتٰی یھلک ولٰکن یقتلہ اللہ بیدہ فیریھم دمہ فی حربتہٖ( مشکوٰۃکتاب الفتن، باب الملاحم، بحوالۂ مسلم)۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے (دجّال کے خروج کا ذکر کرنے کے بعد حضورؐ نے فرمایا)اس اثنا میں کہ مسلمان اس سے لڑنے کی تیاری کر رہے ہوں گے،  صفیں باندھ رہے ہوں گے اور نماز کے لیے تکبیر اقامت کہی جاچکی ہو گی کہ عیسیٰ ابنِ مریم نازل ہو جائیں گے۔ اور نماز مین مسلمانوں کی امامت کریں گے۔ اور اللہ کا دشمن (یعنی دجّال) ان کو دیکھتے ہی اس طرح گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام اس کو اُس کے حال پر چھوڑ دیں تو وہ آپ ہی گھل کر مر جائے۔ مگر اللہ اس کو اُن کے ہاتھ سے قتل کرائے گا اور وہ اپنے نیزے میں اُس کا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔ ‘‘

(۶)۔  عن ابی ھریرۃ ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال لیس بینی وبینہٗ نبی (یعنی عیسیٰ) وانہ نازل فاذارأیتموہ ماعر فوہ رجل مربو الی الحمر ۃ والبیاص، بین ممصرتین کان راءسہ یقطروَان لم یصبہ بلل فیقاتل الناس علیالاسلام فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃویھلک اللہ فی زمانہ الملل کلھا الاا لاسلام ویھلک المسیح الدجال فیمکث فی الارض اربعین سنۃ تم یتوفی فی صلی علیہ المسلمون۔ (ابوداؤد،  کتاب الملاحم، باب خروج الدّجال۔ مُسند احمد مرویات ابو ہریرہؓ)

ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میرے اور اُن (یعنی عیسیٰ علیہ السلام)کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ اور یہ کہ وہ اُترنے والے ہیں،  پس جب تم ان کو دیکھو تو پہچان لینا،  وہ ایک میانہ قد آدمی ہیں،  رنگ مائل بسُرخی و سپیدی ہے،  دو زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے۔ ان کے سر کے بال ایسے ہوں گے گویا اب ان سے پانی ٹپکنے والا ہے،  حالانکہ وہ بھیگے ہوئے نہ ہوں گے۔ وہ اسلام پر لوگوں سے جنگ کریں گے،  صلیب کو پاش پاش کر دیں گے،  خنزیر کو قتل کر دیں گے،  جزیہ ختم دیں گے،  اور اللہ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام مِلّتوں کو مٹا دے گا، اور وہ مسیح دجال کو ہلاک کر دیں گے،  اور زمین میں وہ چالیس سال ٹھیریں گے۔ پھر ان کا انتقال ہو جائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ ‘‘

(۷)۔ عن جابر بن عبداللہ قال سمعت روسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم…….فینزل عیسیٰ ابن مریم صلی اللہ علیہ و سلم فیقو ل امیر ھم تعل فصلِّ فیقول الا ان بعضکم علیٰ بعضامراء تکرمۃ اللہ ھٰذہ الامۃ۔ (مسلم، بیاننزول عیسیٰ ابن مریم۔ مُسند احمد بسلسلہ مرویات جابرؓ بن عبداللہ)

حضرت جابربن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سُنا کہ ….پھر عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ مسلمانوں کا امیر اُن سے کہے گا کہ آئے،  آپ نماز پڑھائیے،  مگر وہ کہیں گے کہ نہیں،  تم لوگ خود ہی ایک دوسرے کے امیر ہو۔ ( یعنی تمہارا امیر خود تم ہی میں سے ہونا چاہیے۔ ) یہ وہ اُس عزّت کا لحاظ کرتے ہوئے کہیں گے جوجو اللہ نے اس اُمّت کو دی ہے۔ ‘‘

(۸)۔ عن جابر بن عبداللہ (فی قصۃ ابن صیاد)فقال عمر بن الخطاب ائذن لی فاقتلہٗ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان یکن ھو فلست صاحبہ انما صاحبہ عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام، و ان لا یکن فلیس لک ان تقتل رجلا من اھل العھد(مشکوٰۃ۔ کتاب الفتن، باب قصّۂ بن صیّاد،  بحوالہشرح السُّنہ بَغَوی)

جا بر بن عبداللہ (قصّۂ ابن صیّاد کے سلسلہ میں ) روایت کرتے ہیں کہ پھر عمر بن خطاب نے عرض کیا، یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کر دوں۔ اس پر حضورؐ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر یہ وہی شخص (یعنی دجال) ہے تو اس کے قتل کرنے والے تم نہیں ہو بلکہ اسے تو عیسیٰ بن مریم ہی قتل کریں گے۔ اور اگر یہ وہ شخص نہیں ہے تو تمہیں اہلِ عہد (یعنی ذمیوں ) میں سے ایک آدمی کو قتل کر دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ‘‘

(۹)۔ عن جابر عبداللہ (فی قصہ الدجال) فاذاھم بعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فتقام الصلوٰۃ فیقال لہ تقدم یا روح اللہ فیقول لیتقدم امامکم  فلیصلِّ بکم فاذاصلی صلوٰۃ الصبح خرجو االیہ، قال جحین یری انکذاب کما ینماث الملح فی الماء فیمشی الیہ فیقتلہٗ حتی ان الشجر والحجر ینادی یا روح اللہ ھٰذا الیھودیُّ،  فلا یترک ممن کان یتبعہ احداالاقتلہٗ۔ (مسنداحمد،  بسلسلۂ روایات جابر بن عبداللہ)

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ (دجال کا قصہ بیان کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) اس وقت یکایک عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام مسلمانوں کے درمیان آ جائیں گے۔ پھر نماز کھڑی ہو گی اور ان سے کہا جائے گا کہ اے روح اللہ آگے بڑھئے،  مگر وہ کہیں کہ نہیں،  تمہارے امام ہی کو آگے بڑھنا چاہیے،  وہی نماز پڑھائے۔ پھر صبح کی نماز سے فارغ ہو کر مسلمان دجال کے مقابلے پر نکلیں گے۔ فرمایا، جب وہ کذّاب حضرت عیسیٰ کو دیکھے گا تو گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ پھر وہ اس کی طرف بڑھیں گے اور اسے قتل کر دیں گے اور حالت یہ ہو گی کہ درخت اور پتھر پکار اٹھیں گے کہ اے روح اللہ یہ  یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ دجال کے پیرووں میں سے کوئی نہ بچے گا وہ (یعنی عیسیٰؑ ) قتل نہ کر دیں۔

(۱۰)۔ عن النواس بن سمعان ( فی قصۃ الدجّال) فبینما ھو کذٰلک اذ بعث اللہ المسیح بن مریم فینزل عندالمنارۃ البیضاء شرقی دمشق بین مھرو ذتین واضعاً کفیہ علیٰ اجنحہ ملکین اذاطاُ طأ راسہٗ قطرواذا رفعہ تحد رمنہ جمان کا للوٗلوٗ فلایحل لکافر یجد ریح نفسہ الامات و نفسہ ینتہی الیٰ حیث ینتہی طرفہ فیطلبہ حتیٰ ید کہ ببابِلُدٍّ فیقتلہ۔ (مسلم، ذکرالدجّال۔ ا بو داوٗد، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال۔ ترمذی، ابو اب الفتن،  باب فتنۃ الدّجال۔ ابن ماجہ،  کتاب الفتن، باب فتنۃالدّجال )

حضرت نَاّس بن سَمْعان کلانی (قصۂ دجال بیان کرتے ہوئے ) روایت کرتے ہیں : اس اثناء میں کہ دجال یہ کچھ کر رہا ہو گا، اللہ تعالیٰ مسیحؑ ابن مریم کو بھیج دے گا اور وہ دمشق کے مشرقی حصے میں،  سفید مینار کے پاس، زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے،  دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔ جب وہ سر جھکائیں گے تو ایسا محسوس ہو گا کہ قطرے ٹپک رہے ہیں،  اور جب سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح قطرے ڈھلکتے نظر آئیں گے۔ ان کے سانس کی ہو ا جس کافر تک پہنچے گے …….اور وہ ان کی حد نظر تک جائے گی۔۔۔۔۔۔ ………. وہ زندہ نہ بچے گا۔ پھر ابن مریم دجال کا پیچھا کریں گے اور لُدّ(واضح رہے کہ لُدّ (Lyddu)فلسطین میں ریاست اسرائیل کے دار السلطنت تل ابیب سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے اور یہودیوں نے وہاں بہت بڑا ہوائی اڈہ بنا رکھا ہے۔ ) کے دروازے پر اسے جا پکڑیں گے اور قتل کر دیں گے۔

(۱۱)۔ عن عبداللہ بن عمر وقال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یخرج الدجال فی امتی فیمکث اربعین (لا ادری اربعین یوماً اواربعین شھراً او ربعین عاماً)فیبعث اللہ عیسیٰ بن مریم کانہ عُروۃ  بن مسعود فیطلبہ ثم یمکث الناس سبع سنین لیس بین اثنین عداوۃ(مسلم، ذکر الدجال)عبداللہ بن عاص کہتے ہیں کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دجال میری امت میں نکلے گا اور چالیس( میں نہیں جانتا چالیس دن یا چالیس مہینے یاچالیس سال) (یہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا اپنا قول ہے ) رہے گا۔ پھر اللہ عیسیٰ ابن مریم کو بھیجے گا۔ ان کا حلیہ عُروہ بن مسعود (ایک صحابی) سے مشابہ ہو گا۔ وہ اس کا پیچھا کریں گے اور اسے ہلاک کر دیں گے،  پھر سات سال تک لوگ اس حال میں رہیں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان بھی عداوت نہ ہو گی۔

(۱۲)۔ عن حذیفۃ بن اسید الفاری قال اطلع النبی صلی اللہ علیہ و سلم علینا و نحن نتذاکر فقال ما تذکرون قالو انذ کر السّاعۃ قال انھالن تقوم حتیٰ ترون قبلھا عشراٰیات فذکر الدخان والدجال والدابۃ و طلوع الشمس من مغر بھا و نزول عیسیٰ ابن مریم ویاجوج و ماجوج و ثلثۃ خسوف، خسف بالمشرق و خسف بالمغرب، وخسف بجزیرۃ العرب،  و اٰ خر ذٰلک نار تخرج من الیمن تطرد الناس الیٰ محشر ھم(مسلم: کتاب الملاحم، باب امارات الساعہ)

حُذیفہ بن اسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہماری مجلس میں تشریف لائے اور ہم آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہو رہی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ہم  قیامت کا ذکر کر رہے تھے۔ فرمایا وہ ہرگز قائم نہ ہو گی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں۔ پھر آپ نے وہ دس نشانیاں یہ بتائیں : (۱) دھُواں، (۲)دجال، (۳) دابۃ الارض، (۴) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا(۵) عیسیٰ ابنِ مریم کا نزول، (۶)یاجوج و ماجوج، (۷)تین بڑے خَسَف( زمین دھس جاناLandslide)، ایک مشرق میں،  (۸)دوسرا مغرب میں،  (۹) تیسرا جزیرۃ العرب میں،  (۱۰) سب سے آخر میں ایک زبردست آگ جو یمن سے اٹھے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی۔

(۱۳)۔ عن ثوبان مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن النبی صلی اللہ و سلم عصابتان من امتی احرز ھما اللہ تعالیٰ من النار۔ عصابۃ تغزوالھند، وعصا بۃ تکون مع عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام (نسائی، کتاب  الجہاد۔ مسند احمد، بسلسلہ روایات ثُوبان)

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا’’ میری امت کے دو لشکر ایسے ہیں جن کو اللہ نے دوزخ کی آگ سے بچا لیا۔ ایک وہ لشکر جو ہندوستان پر حملہ کرے گا۔ دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریمؑ کے ساتھ ہو گا۔

(۱۴)۔ عن مُجمِّع بن جاریۃ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول یقتل ابنُ مریم الدّجال بباب لُدّ( مسنداحمد۔ ترمذی،  ابواب الفتن )

مُجَمّع بن جاریۃ انصاری کہتے ہیں،  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ ابن مریم دجال کو لُدّ کے دروازے پر قتل کریں گے۔

(۱۵)۔ عن ابی اُمامۃ الباھلی(فی حدیث طویل فی ذکر الد جال) فبینما اما مھم قد تقدم یصلّی بھم الصنح اذنز ل علیھم عیسیٰبن مریم فرجع ذٰلک الامام ینکص یمشی تھقریٰ لیتقدم عیسیٰ فیضع عیسیٰ یدہ بین کتفیہ تم یقول لہٗتقدم فصل فانھا لک اقیمت فیصلی بھم اما مھم فا ذا انصرف قال عیسیٰ علیہ السسلام افتحوا الباب فیفتح و وراء ہ الدجال ومعہ سبعون الفیھودی کلھم ذوسیف محلی وساج فاذانظر الیہ الدجال ذاب کما یذوب الملح فی الماء وینطلق ھا رباً ویقول عیسیٰ ان لی جیک ضربۃلن تسبقنی بھا فیدرکہ عندباب الُّلدِّ الشرقی فیھزم اللہ الیھود….. وتملأالارض منالمسلم کما یملأالا ناء من الماء وتکون الکلمۃ واحدۃ فلا یعبد الا اللہ تعالیٰ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنتہ الدجال)

ابو اُمامہ باہلی (ایک طویل حدیث میں دجال کا ذکر کرتے ہوئے ) روایت کرتے ہیں کہ عین اس وقت جب مسلمانوں کا امام صبح کی نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھ چکا ہو گا۔ عیسیٰ ابن مریم اُن پر اُتر آئیں گے۔ امام پیچھے پلٹے گا تاکہ عیسیٰؑ آگے بڑھیں،  مگر عیسیٰ اس کے شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہیں گے کہ نہیں تم ہی نماز پڑھاؤ کیونکہ یہ تمہارے لیے ہی کھڑی ہوئی ہے۔ چنانچہ وہی نماز پڑھائے گا۔ سلام پھیرنے کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ دروازہ کھولو ن، چنانچہ وہ کھولا جائے گا۔ باہر دجال ۷۰ ہزار مسلح یہودیوں کے ساتھ موجود ہو گا۔ جوں ہی کہ عیسیٰ علیہ السلام پر اس کی نظر پڑے گی وہ اس طرح گھُلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھُلتا ہے اور سہ بھاگ نکلے گا۔ عیسیٰ کہیں گے میرے پاس تیرے لیے ایک ایسی ضرب ہے جس سے تو بچ کر نہ جا سکے گا پھر وہ اُسے لُدّ کے مشرقی دروازے پر لے جائیں گے اور اللہ یہودیوں کو ہرا دے گا…… اور زمین مسلمانوں سے اس طرح بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جائے۔ سب  دنیا کا کلمہ ایک ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہو گی۔

(۱۶)۔ عن عثمان بن انی العاص قال  سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول .. … وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام عند صلوۃ الفجر فیقول لہ امیرھم یاروح اللہ تقدم،  صلِّ، فیقول ھٰذہ الامۃ بعضھم امراء علیٰ فیتادم امیر ھم فیصلی، فاذا قضیٰ صلوٰتہٗ اخذ عیسیٰ حربتہٗ فیذھب نحوالدجال فاذایراہ الدجال ذاب کما یذوب الرصاس فیضع حربتہ بین شندوبتہ فیقتلہٗ وینھزم اصحابہ لیس یومعِذ شیء یواری منھم احداحتیٰ ان الشجر لیقول یا مومن ھٰذا کافرو یقول الحجر یا مومن ھٰذا کافر(مُسند احمد۔ طُبرانی۔ حاکم)

عثمان بن انی العاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے ….اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فجر کی نماز کے وقت اُتر آئیں گے۔

مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا اے رُوح اللہ آپ نماز  پڑھایئے۔ سہ جواب دیں گے کہ اس امت کے لوگ خود ہی ایک دوسرے پر امیر ہیں۔ تب مسلمانوں کا امیر آگے بڑھ کر نماز پڑھائے گا۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر عیسیٰ اپنا حربہ لے کر دجال کی طرف چلیں گے۔ وہ جب ان کو دیکھے گا تو اس طرح پگھلے گا جیسے سیسہ پگھلتا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اپنے حربے سے اس کو ہلاک کر دیں گے اور اس کے ساتھی شکست کھا کر بھاگیں گے مگر کہیں انہیں چھپنے کو جگہ نہ ملے گی، حتیٰ کہ درخت پکاریں گے اے مومن،  یہ کافر یہاں موجود ہے اور پتھر پکاریں گے کہ اے مومن، یہ کافر یہاں موجود ہے۔

(۱۷)۔ عن سمرۃ بن جُنْدُب عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم(فی حدیث طویل) فیصبح فیھم عیسیٰ ابن مریم فیھزمہ اللہ وجنودہ حتیٰ ان اجذم الحائط واصل الشجر لینادی یا مومن ھٰذا کافر یستتربی فتعال اقتلہ۔

سَمُرہ  جُندُب(ایک طویل حدیث میں )نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں،  پھر صُبح کے وقت مسلمانوں کے درمیان عیسیٰ ابن مریم آ جائیں گے اور اللہ دجال اور اس کے لشکروں کو شکست دے گا یہاں تک کہ دیواریں اور درختوں کی جڑیں پکار اٹھیں گی کہ اے مومن،  یہ کافر میرے پیچھے چھپا ہوا ہے،  آ اور اسے قتل کر۔

(۱۸) عن عمر ان بن حصین انّ رسول اللہ علیہ و سلم قال  لا تزال طائفۃ من امتی علی الحق ظاھرین علیٰ من نوأ ھم حتیٰ یاتی امراللہ تبارک وتعالیٰ وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔ (مُسند احمد)

عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا: میری اُمت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو حق پر قائم اور مخالفین پر بھاری ہو گا یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فیصلہ آ جائے اور عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام نازل ہو جائیں۔

(۱۹)عن عائشۃؓ(فی قصۃ الدّجال) فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہ ثم یمکث عیسیٰ علیہ السلام فی الارض اربعین سنۃ اماماً عادلاً حَکَماً مُقسطاً۔ (مسند احمد)

حضرت عائشہؓ (دجال کے قصّے میں ) روایت کرتی ہیں : پھر عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک زمین میں ایک امامِ عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے۔ ‘‘

(۲۰)۔ عن سفینۃ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (فی قصۃالدجّال ) فینزل عیسیٰ الیہ السالم فیقتلہ اللہ تعالیٰ عند عقیۃ اُفیق۔ (مسند احمد)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام سفینہ(دجال کے قصے میں )روایت کرتے ہیں : پھر عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ دجال کو اُفیق(اَفیق، جسے آج کل رفیق کہتے ہیں، شام اور اسرائیل کی سرحد پر موجودہ ریاست شام کا آخری شہر ہے۔ اس کے آگے مغرب کی جانب چند میل کے فاصلہ پر طَبَریہ ّ نامی جھیل ہے جس میں سے دریائے اُردُن نکلتا ہے،  اور اس کے جنوب مغرب کی طرف پہاڑوں کے درمیان ایک نشیبی راستے کو عَقَبہْ اَفیق کی گھاٹی کہتے ہیں۔ ) کی گھاٹی کے قریب ہلاک کر دے گا۔

(۲۱( عن حذیفۃ(فی ذکرالدجال ) فلما قاموایصلّون نزل عیسیٰ بن مریم امامہم فصلّی بھم فلما انصرف قال ھٰکذا مْر کوابینی وبین عدداللہ………..ویسلط اللہ علیھم المسلمین فیقتلو نھم حتیٰ ان الشجر ولحجرلینادی یا عبداللہ یا عبدالرحمٰن یا مسلم ھٰذالیھودی فقتلھم فیفنیھم اللہ تعالیٰ ویظھر المسلمون فیکسرون الصلیب ویقتلون الخنزیر ویضعون الجزیۃ(مستدرک حاکم۔ مسلم میں بھی یہ روایت اختصار کے ساتھ آئی ہے۔ اور حافظ ابن حجرنے فتح الباری جلد۶ ص، ۴۵ میں اسے صحیح قرار دیا ہے )

حضرت حُذَیفہ بن یَمان (دجال کا ذکر کرتے ہوئے ) بیان کرتے ہیں :’’ پھر جب مسلمان نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوں گے تو اُن کی آنکھوں کے سامنے عیسیٰ ابن مریم اتر آئیں گے اور وہ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے پھر سلام پھیرنے کے بعد لوگوں سے کہیں گے کہ میرے اور اس دشمن خدا کے درمیان  سے ہٹ جاؤ ……..اور اللہ دجال کے ساتھیوں پر مسلمانوں کو مسلط کر دے گا اور مسلمان انھیں خوب ماریں گے یہاں تک کہ درخت اور پتھر پکار اٹھیں گے اے عبداللہ،  اے عبدالرحمٰن،  اے مسلمان، یہ رہا ایک یہودی، مار اسے۔ اس طرح اللہ ان کو فنا کر دے گا اور مسلمان غالب ہوں گے اور صلیب توڑ دیں گے،  خنزیر کو قتل کر دیں گے اور جزیہ ساقط کر دیں گے۔

یہ جملہ ۲۱ روایات ہیں جو ۱۴ صحابیوں سے صحیح سندوں کے ساتھ حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں وارد ہوئی ہیں۔ اگر چہ ان کے علاوہ دوسری بہت سی احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے،  لیکن طولِ کلام سے بچنے کے لیے ہم نے ان سب کو نقل نہیں کیا ہے بلکہ صرف وہ روایتیں لے لی ہیں جو سند کے لحاظ سے قوی تر ہیں۔

اِن احادیث سے کیا ثابت ہوتا ہے ؟

جو شخص بھی ان احادیث کو پڑھے گا وہ خود دیکھ لے گا کہ ان میں کسی ’’مسیح موعود ‘‘ یا ’’مثیلِ مسیح‘‘ یا ’’ بروزِ مسیح‘‘ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ نہ ان میں اس امر کی کوئی گنجائش ہے کہ کوئی شخص اِس زمانے میں کسی ماں کے پیٹ اور کسی باپ کے نُطفے سے پیدا ہو کر یہ دعویٰ کر دے کہ میں ہی وہ  مسیح ہوں جس کے آنے کی سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشن گوئی فرمائی تھی۔ یہ تمام حدیثیں صاف اور صریح الفاظ میں اُن عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر دے رہی ہیں جو اب سے دو ہزار سال پہلے باپ کے بغیر حضرت مریمؑ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اس مقام پر یہ بحث چھیڑنا بالکل لا حاصل ہے کہ وہ وفات پا چکے ہیں یا زندہ کہیں موجود ہیں۔ بالفرض وہ وفات ہی پا چکے ہوں تو اللہ انہیں زندہ کر کے اُٹھا لانے پر قادر ہے ( جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں انہیں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۹ ملاحظہ فرما لینی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ اس نے اپنے ایک بندے کو۱۰۰ برس تک مُردہ رکھا اور پھر زندہ کر دیا  فَاَمَاتَہُ مِائَۃَعامٍ ثمَّ بَعَثَہٗ۔ )، وگرنہ یہ بات بھی اللہ کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو اپنی کائنات میں کہیں ہزارہا سال تک زندہ رکھے اور جب چاہے دنیا میں واپس لے آئے۔ بہر حال اگر کوئی شخص حدیث کو مانتا ہو تو اُسے یہ ماننا پڑے گا کہ آنے والے سہی عیسیٰ ابن مریمؑ ہوں گے۔ اور اگر کوئی شخص حدیث کو نہ مانتا ہو تو وہ سرے سے کسی آنے والے کی آمد کا قائل ہی نہیں ہو سکتا، کیونکہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ احادیث کے سوا کسی اور چیز پر مبنی نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک عجیب مذاق ہے کہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ تولے لیا جائے احادیث سے اور پھر انہی احادیث کی اس تصریح کو نظر انداز کر دیا جائے کہ وہ آنے والے عیسیٰ ابن مریمؑ ہوں گے نہ کہ کوئی مثیلِ مسیح۔

دوسری بات جو اتنی ہی وضاحت کے ساتھ ان احادیث سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا یہ دوبارہ نزول نبی مقرر ہو کر آنے والے شخص کی حیثیت سے نہیں ہو گا۔ نہ ان پر وحی نازل ہو گی، نہ وہ خدا کی طرف سے کوئی نیا یا کوئی نئے احکام لائیں گے،  نہ وہ شریعت محمدی میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی کریں گے،  نہ ان کو تجدید دین  کے لیے دنیا میں لایا جائے گا، نہ وہ آ کر لوگوں کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیں گے،  اور نہ و ہ اپنے ماننے والوں کی ایک الگ اُمت بنائیں گے ( علماء اسلام       نے اس مسئلے کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ علامۂ تَفتازانی (۷۲۲ھ۔ ۷۹۲ھ) شرح عقائد نُسَفی میں لکھتے ہیں :

ثبت انہ اٰخرالنبیاء۔۔۔  فان قیل قد روی فی الحدیث نزول عیسی علیہ السلام بعدہ قلنا نعم لکنہ یتابع محمدعلیہ السلام لان شریعۃ قد نسخت لا یکون الیہ وحی ولا نصب احکام بل یکون خلیفۃ رسول اللہ علیہ السلام (طبع مصر، ص ۱۳۵)

دوسری بات جو اتنی ہی وضاحت کے ساتھ ان احادیث سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا یہ دوبارہ نزول نبی مقرر ہو کر آنے والے شخص کی حیثیت سے نہیں ہو گا۔ نہ ان پر وحی نازل ہو گی، نہ وہ خدا کی طرف سے کوئی نیا پیغام یا نئے احکام لائیں گے،  نہ وہ شریعتِ محمدی میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی کریں گے،   ان کو تجدید دین کے لیے دنیا میں لایا جائے گا، نہ وہ آ کر لوگوں کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیں گے،  اور نہ وہ اپنے ماننے والوں کو ایک الگ امت بنائیں گے۔ (علماء نے اس مسئلے کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ علامہ تفتازانی (۷۲۲ ھ۔ ۷۹۲ھ ) شرح عقائد نسفی میں لکھتے ہیں : یہ ثابت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں۔۔۔ اگر کہا جائے کہ آپ کے بعد عیسی علیہ السلام کے نزول کا ذکر احادیث میں آیا ہے،  تو ہم کہیں گے کہ ہاں،  آیا ہے،  مگر وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع ہوں گے،  کیونکہ ان کی شریعت تو منسوخ ہو چکی ہے،  اس لیے نہ ان کی طرف وحی ہو گی اور نہ وہ احکام مقرر کریں گے،  بلکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے نائب کی حیثیت کام کریں گے۔ اور یہی بات علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں کہتے ہیں :

ثمالہ علیہ السلام حین ینزل باق علی نبوتہ السابقۃ لم یعزل عنھا بحال لکنہ لا یتعبد بھالنسخھا نی حقہ وحق غیر ہ وتکلیفہ باحکام ہذا الشریعۃ اصلاً وفرعاً فلا یکون الیہ علیہ السلام وحی ولا نصب احکام بدیکون خلیفہ لرسول اللہ صلی اللہ لعیہ و سلم وحاکما من حکام ملتہ بین امتہ (جلد۲۲۔ ص۳۲)

پھر، عیسی علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ اپنی سابق نبوت پر باقی ہوں گے،  بہر حال اس سے معزول تو نہ ہو جائیں گے،  مگر وہ اپنی پچھلی شریعت کے پیرو نہ ہوں گے کیونکہ وہ ان کے اور دوسرے سب لوگوں کے حق میں منسوخ ہو چکی ہے،  اور اب وہ اصول اور فروغ مین اس شریعت کی پیروی پر تکلف ہوں گے،  لہذا ان پر نہ اب وحی آئے گی اور نہ انہیں انہیں احکام مقرر کرنے کا اختیار ہو گا، بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نائب اور آپ کی امت میں ملت محمدیہ کے حاکموں میں سے ایک حاکم کی حیثیت سے کام کریں گے۔

امام رازی اس بات کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں :

انتہاء الانبیاء الی مبعث محمدصلی اللہ علیہ و سلم فعند مبعثہ انتھت تلک المدۃ لا یبعدان یصیر(ای عیسی ابن مریم) بعد نزولہ تبعاً لمحمدؐ (تفسیر کبیر، ج۔ ۳۔ ص ۳۴۳)

انبیاء کا دور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت تک تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہو گئے تو انبیاء کی آمد کا زمانہ ختم ہو گیا۔ اب یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ نازل ہونے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع ہوں گے۔ )

وہ صرف ایک کار خاص بھیجے جائیں گے،  اور وہ یہ ہو گا کہ دجال کے فتنے کا استیصال کر دیں۔ اس غرض کے لیے وہ ایسے طریقے سے نازل ہوں گے کہ جن مسلمانوں کے درمیان ان کا نزول ہو گا، انہیں اس امر میں کوئی شک نہ رہے گا کہ یہ عیسیٰ ابن مریم ہی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشین گوئیوں کے مطابق ٹھیک وقت پر تشریف لائے ہیں۔ وہ آ کر مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے،  جو بھی مسلمانوں کا امام اس وقت ہو گا سی کے پیچھے نماز پڑھیں گے (اگرچہ دو روایتوں (نمر۵ و۲۱) میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہونے کے بعد پہلی نماز خود پڑھائیں گے،  لیکن بیشتر اور قوی تر روایات (نمبر ۳، ۷، ۷، ۱۵، ۱۶) یہی کہتی ہیں کہ وہ نماز میں امامت کرانے سے انکار کریں گے اور جو اس وقت مسلمانوں کا امام ہو گا اسی کو آگے بڑھائیں گے۔ اسی بات کو محدثین اور مفسرین نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے۔ ) اور جو بھی اس وقت مسلمانوں کا امیر ہو گا اسی کو آگے رکھیں گے،  تاکہ اس شبہ کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ رہے کہ ہ اپنی سابق پیغمبرانہ حیثیت کی طرح اب پھر پیغمبری کے فرائض انجام دینے کے لیے واپس آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی جماعت میں اگر خدا کا پیغمبر  موجود ہو تو نہ اس کا کوئی امام دوسرا شخص ہو سکتا ہے اور نہ امیر۔ پس جب وہ مسلمانوں کی جماعت میں آ کر محض ایک فرد کی حیثیت سے شامل ہوں گے تو یہ گویا خود بخود اس امر کا اعلان ہو گا کہ وہ پیغمبر کی حیثیت سے تشریف نہیں لائے ہیں،  اور اس بنا پر ان کی آد سے مہر نبوت کے ٹوٹنے کا قطعاً کوئی سوال پیدا نہ ہو گا۔

ان کا آنا بلا تشبیہ اسی نوعیت کا ہو گا جیسے ایک صدر ریاست کے دور میں کوئی سابق صدر آئے اور وقت کے صدر کی ماتحتی میں مملکت کی کوئی خدمت انجام دے۔ ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ایک صدر کے دور میں کسی سابق صدر کے محض آ جانے سے آئین نہیں ٹوٹتا۔ البتہ دونوں صورتوں میں آئین کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔ ایک یہ کہ سابق صدر آ کر پھر سے فرائض صدارت سنبھالنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ کوئی شخص کی سابق صدارت کا بھی انکار کر دے،  کیونکہ یہ ان تمام کاموں کے جواب کو چیلنج کرنے کا ہم معنی ہو گا جو ا سکے دور صدارت میں انجام پائے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی نہ تو بجائے خود سابق صدر کی آمد آئینی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا بھی ہے کہ ان کے محض آ جانے سے ختم نبوت نہیں ٹوٹتی۔ البتہ اگر وہ آ کر پھر نبوت کا منصب سنبھال لیں اور فائض نبوت انجام دینے شروع کر دیں،  یا کوئی شخص ان کی سابق نبوت کا بھی انکار کر دے تو اس سے اللہ تعالیٰ کے آئین نبوت کی خلاف وری لازم  آئے گی۔ احادیث نے پوری وضاحت کے ساتھ دونوں صورتوں کا سد باب کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ تصریح کرتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ اور دوسری طرف وہ خبر دیتی ہیں کہ عیسی ابن مریم ؑ دوبارہ نازل ہوں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان کی یہ آمد ثانی منصب نبوت کے فرائض انجام دینے کے لیے نہ ہو گی۔

اسی طرح ان کی آمد سے مسلمانوں کے اندر کفر و ایمان کا بھی کوئی نیا سوال پیدا نہ ہو گا۔ ان کی سابقہ نبوت پر تو آج بھی اگر کوئی ایمان نہ لائے تو کافر ہو جائے۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود ان کی اس نبوت پر ایمان رکھتے تھے اور آپ کی ساری امت ابتداء سے ان کی امت ہے۔ یہی حیثیت اس وقت بھی ہو گی۔ مسلمان کسی تازہ نبوت پر ایمان نہ لائیں گے بلکہ عیسی ابن مریم علیہ السلام کی سابقہ نبوت پر ہی ایمان رکھیں گے جس طرح آج رکھتے ہیں۔ یہ چیز نہ آج ختم نبوت کے خلاف ہے نہ اس وقت ہو گی۔

آخری بات جو ان احادیث سے،  اور بکثرت دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دجال،  جس کے فتنہ عظیم کا استیصال کرنے کے لیے حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو بھیجا جائے گا، یہودیوں میں سے ہو گا اور اپنے آپ کو ’’مسیح‘‘ کی حیثیت سے پیش کرے گا۔ اس معاملے کی حقیقت کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ یہودیوں کی تاریخ اور ان کے مذہبی تصورات سے واقف نہ ہو۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات جب نبی اسرائیل پے درپے تنزل کی حالت میں مبتلا ہوتے چلے  گئے،  یہاں تک کہ آخر کار بابل اور اسیریا کی سلطنتوں نے ان کو غلام بنا کر زمین میں تتر بتر کر دیا، تو انبیائے بنی اسرائیل نے ان کو خوشخبری دینی شروع کی  کہ خدا کی طرف سے ایک ’’مسیح ‘‘ آنے والا ہے جو ان کو اس ذلت سے نجات دلائے گا۔ ان پیشین گوئیوں کی بنا پر یہودی ایک مسیح کی آمد کے متوقع تھے جو بادشاہ ہو، لڑ کر ملک فتح کرے،  بی اسرائیل کو ملک ملک سے آ کر فلسطین میں جمع کر دے،  اور ان کی ایک زبردست قائم کر دے۔ لیکن ان کی ان توقعات کے خلاف جب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام خدا کی طرف سے مسیح ہو کر آئے اور کوئی لشکر ساتھ نہ لائے تو یہودیوں نے ان کی مسیحیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں ہلاک کرنے کے درپے ہو گئے۔ اس وقت سے آج تک دنیا بھر کے یہودی اس مسیح موعود (Promised Messiah) کے منتظر ہیں جس کے آنے کی خوشخبریاں ان کو دی گئی تھیں۔ ان کا لٹریچر اس آنے والے دور کے سہانے خوابوں سے بھر ا پڑا ہے۔ تلمود: اور ربیوں کے ادبیات میں اس کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کی خیالی لذت کے سہارے صدیوں سے یہودی جی رہے ہیں اور یہ امید لئے بیٹھے ہیں کہ یہ مسیح موعود ایک زبردست جنگی و سیاسی لیڈر ہو گا جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ (جسے یہودی اپنی میراث کا ملک سمجھتے ہیں ) انہیں واپس دلائے گا، اور دنیا کے گوشے گوشے سے یہودیوں کو لا کر اس ملک میں پھر سے جمع کر دے گا۔

اب اگر کوئی شخص مشرقی وسطیٰ کے حالات پر ایک نگاہ ڈالے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشین گوئیوں کے پس منظر میں ان کو دیکھے تو وہ فوراً یہ محسوس کرے گا کہ اس دجال اکبر کے ظہور کے لیے اسٹیج بالکل تیار ہو چکا ہے جو حضور کی دی ہوئی خبروں کے مطابق یہودیوں کا ’’مسیح موعود‘‘ بن کر اٹھے گا۔ فلسطین کے بڑے حصے سے مسلمان بے دخل کیے جا چکے ہیں اور وہاں اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست قائم کر دی گئی ہے۔ اس ریاست میں دنیا بھر کے یہودی کھنچ کھنچ کر چلے آ رہے ہیں۔ امریکہ،  برطانیہ اور فرانس نے اس کو ایک زبردست جنگی طاقت بنا دیا ہے۔ یہودی سرمائے کی بے پایاں امداد سے یہودی سائنس داں اور ماہرین فنون اس کو روز افزوں ترقی دیتے چلے جا رہے ہیں، اور اس کی یہ طاقت گردو پیش کی مسلمان قوموں کے لیے ایک خطرہ عظیم بن گئی ہے۔ اس ریاست کے لیڈروں نے اپنی اس تمنا کو کچھ چھپا کر نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنی ’’میراث کا ملک‘‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کی یہودی سلطنت کا جو نقشہ وہ ایک  مدت سے کھلم کھلا شائع کر رہے ہیں اسے مقابل کے صفحے پر ملاحظہ فرمایئے۔ اس سے ظاہر ہو کہ وہ پورا شام، پورا لبنان پورا اردن اور تقریباً سارا عراق لینے کے علاوہ ترکی سے اسکندرون، مصر سے سینا اور ڈیلٹا کا علاقہ اور سعودی عرب سے بالائی حجاز و نجد کا علاقہ لینا چاہتے ہیں جس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ کسی عالمگیر جنگ کی ہڑبونگ سے فائدہ اٹھا کر وہ ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ٹھیک اس موقع پر وہ دجال اکبر ان کا مسیح موعود بن کر اٹھے گا جس کے ظہور کی خبر دینے ہی پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں پر مصائب کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ ایک دن ایک سال کے برابر محسوس ہوتا ہو گا۔ اسی بناء پر آپ فتنۂ دجال سے خود بھی خدا کی پناہ مانگتے تھے اور اپنی امت کو بھی پناہ مانگنے کی تلقین فرماتے تھے۔

اس مسیح دجال کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کسی مثیل مسیح کو نہیں بلکہ اس اصل مسیح کو نازل فرمائے گا جسے دو ہزار برس پہلے یہودیوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا اور جسے وہ اپنی دانست میں صلیب پر چڑھا کر ٹھکانے لگا چکے تھے۔ اس حقیقی مسیح کے نزول کی جگہ ہندوستان یا افریقہ یا امریکہ میں نہیں بلکہ دمشق میں ہو گی کیونکہ یہی مقام اس وقت عین محاذ جنگ پر ہو گا۔ براہ کرم دوسرے صفحے پر نقشہ ملاحظہ فرمائے۔ اس میں آپ دیکھیں گے کہ اسرائیل کی سرحد سے دمشق بمشکل ۵۰۔ ۶۰ میل کے فاصلے پر ہے۔ پہلے جو احادیث ہم نقل کر آئے ہیں ان کا مضمون اگر آپ کو یاد ہے تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت نہ ہو گی کہ مسیح دجال ۷۰ ہزار یہودیوں کا لشکر لے کر شام میں گھسے گا اور دمشق کے سامنے جا پہنچے گا۔ ٹھیک اس ناک موقع پر دمشق کے مشرقی حصے میں ایک سفید مینار کے قریب حضرت عیسیٰؑ ابن مریم صبح دم نازل ہوں گے اور نماز فجر کے بعد مسلمانوں کو اس کے مقابلے پر لے کر نکلیں گے۔ ان کے حملے سے دجال پسپا ہو کر افیق کی گھاٹی سے (ملاحظہ ہو حدیث نمبر ۲۱) اسرائیل کی طرف پلتے گا اور وہ اس کا تعاقب کریں گے۔ آخر کا لُد کے ہوائی اڈے پر پہنچ کر وہ ان کے ہاتھوں مارا جائے گا (حدیث نمبر ۱۰، ۱۴، ۱۵) اس کے بعد یہودی چن چن کر قتل کیے جائیں گے اور ملت یہود کا خاتمہ ہو جائے گا (حدیث نمبر ۹، ۱۵، ۲۱) عیسائیت بھی حضرت عیسیٰؑ کی طرف سے اظہار حقیقت ہو جانے کے بعد ختم ہو جائے گی۔ (حدیث نمبر ۱، ۲، ۴، ۶) اور تمام ملتیں ایک ہی ملت مسلمہ میں ضم ہو جائیں گی (حدیث نمبر۶۔ ۱۵)

یہ ہے وہ حقیقت جو کسی اشتباہ بغیر احادیث میں صاف نظر آتی ہے۔ اس کے بعد امر میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے کہ ’’مسیح موعود‘‘ کے نام سے جو کاروبار ہمارے ملک میں پھیلایا گیا ہے وہ ایک جعل سازی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔

اس جعل سازی کا سب سے زیادہ مضحکہ انگیز پہلو یہ ہے کہ جو صاحب اپنے آپ کو ان پیشن گوئیوں کا مصداق قرار دیتے ہیں انہوں نے خود ابن مریم بننے کے لیے یہ دلچسپ تاول فرمائی ہے :

’’اس نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے ) براہینِ احمدیہ کے تیسرے حصے میں میرا نام مریم رکھا۔ پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے،  دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی۔۔۔ پھر۔۔۔  مریم کی طرح عیسی کی روح مجھ سے نفخ کی گئی اور استعارے کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا، اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں،  بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم میں درج ہے،  مجھے مریم سے عیسیٰ بنا دیا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔ ‘‘ (کشتی نوح۔ ص ۸۷، ۸۸، ۸۹)

یعنی پہلے مریم بنے،  پھر خود ہی حاملہ ہوئے،  پھر اپنے پیٹ سے آپ عیسیٰ ابن مریم بن کر تولد ہو گئے ! اس کے بعد یہ مشکل پی آئی کہ عیسی ابن مریم کا نزول تو احادیث کی رو س دمشق میں ہوتا تھا جو کئی ہزار برس سے شام کا ایک مشہور و معروف مقام ہے اور آج بھی دنیا کے نقشے پر اسی نام سے موجود ہے۔ یہ مشکل ایک دوسری پر لطف تاول سے یوں رفع کی گئی:

’’واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبے کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی ابطع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔۔۔  یہ قصبہ قا دیان بوجہ اس کے کہ اکثر یزیدی الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہیں دمشق سے ایک مشابہت اور مناسبت رکھتا ہے ‘‘۔ (حاشیۂ ازالۂ اوہام ص ۶۳۔ ۷۳)

پھر ایک اور الجھن یہ باقی رہ گئی کہ احادیث کی روسے ابن مریم کو ایک سفید منارہ کے پاس اترنا تھا۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مسیح صاحب نے آ کر اپنا منارہ خود بنوا  لیا۔ اب اسے کون دیکھتا ہے کہ احادیث کی رو سے منارہ وہاں ابن مریم ؑ کے نزول سے پہلے موجود ہونا چاہئے تھا، اور یہاں وہ مسیح موعود صاحب کی تشریف آوری کے بعد تعمیر کیا گیا۔

آخری اور زبردست الجھن یہ تھی کہ احادیث کی رو سے تو عیسی ابن مریم کو لُد کے دروازے پر دجال کو قتل کرنا تھا۔ اس مشکل کو رفع کرنے کی فکر میں پہلے طرح طرح کی تاویلیں کی گئیں۔ کبھی تسلیم کیا گیا کہ لُدبیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا نام ہے (ازالہ اوہام، شائع کردہ انجمن احمدیہ لاہور، تبقیطع خورد، صفحہ ۲۲۰) پھر کہا گیا کہ ’’لُد ان لوگوں کو کہتے ہیں جو بے جا جھگڑا کرنے والے ہوں۔۔۔  جب دجال کے بیجا جھگڑے کمال تک پہنچ جائیں گے تب مسیح موعود ظہور کرے گا اور اس کے تمام جھگڑوں کا خاتمہ کر دے گا ‘‘ (ازالۂ اوہام،  صفحہ ۷۳۰) لیکن جب اس سے بھی بات نہ بنی تو صاف کہہ دیا گیا کہ لُد سے مراد لدھیانہ ہے اور اس کے دروازے پر دجال کے قتل سے مراد ہے کہ اشرار کی مخالفت کے باوجود وہیں سب سے پہلے مرزا صاحب کے ہاتھ پر بیعت ہوئی (الہدیٰ ص ۹۱)

ان تاویلات کو جو شخص بھی کھلی آنکھوں سے دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ جھوٹے بہروپ (false impersonation) کا صریح ارتکاب ہے جو علی الاعلان کیا گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۳۴) سورۃ سبا

 

نام

 

آیت ۱۵ کے فقرے لقد کان لسبا فی مسکنھم آیۃ سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں سبا کا ذکر آیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

اس کے نزول کا ٹھیک زمانہ کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ انداز بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ یا تو مکہ کا دورِ متوسط ہے یا دور اول۔ اور اگر دورِ متوسط ہے تو غالباً اس کا ابتدائی زمانہ ہے جبکہ ظلم و ستم کی شدت شروع نہ ہوئی تھی اور ابھی صرف تضحیک استہزاء، افواہی جنگ، جھوٹے الزامات اور وسوسہ اندازیوں سے اسلام کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

 

موضوع اور مضمون

 

اس سورۂ میں کفار کے ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت ِ توحید و آخرت پر اور خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت پر زیادہ تر طنز و تمسخر اور بیہودہ الزامات کی شکل میں پیش کرتے تھے۔ ان اعتراضات کا جواب کہیں تو ان کو  نقل کر کے  دیا گیا ہے، اور کہیں  تقریر سے خود یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ کس اعتراض کا جواب ہے۔ جوابات اکثر و بیشتر تفہیم و تذکیر اور استدلال کے انداز  میں ہیں، لیکن کہیں کفار کو ان کی ہٹ دھرمی کے بُرے  انجام سے ڈرایا بھی گیا ہے۔ اسی سلسلہ میں حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ اور قومِ سبا کے قصے اس غرض کے لیے بیان کیے گئے ہیں کہ تمہارے سامنے تاریخ کی یہ دونوں مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف حضرت داؤدؑ اور سلیمانؑ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی طاقتیں بخشیں اور وہ شوکت و حشمت عطا کی جو پہلے کم ہی کسی کو ملی ہے، مگر یہ سب کچھ پا کر وہ کبر و غرور میں مبتلا نہ ہوئے بلکہ اپنے رب کے خلاف بغاوت کرنے کے بجائے اس کے شکر گذار بندے ہی بنے رہے۔ اور دوسری طرف سبا کی قوم ہے جسے اللہ نے جب اپنی نعمتوں سے نوازا تو وہ پھول گئی اور آخر کار اس طرح پارہ پارہ ہوئی کہ اس کے بس افسانے  ہی اب دنیا میں باقی رہ گئے ہیں۔ ان دونوں  مثالوں  کو سامنے رکھ کر خود رائے قائم کر لو کہ توحید و آخرت کے یقین اور شکر نعمت کے جذبے سے جو زندگی بنتی ہے وہ زیادہ بہتر یا وہ زندگی جو کفر و شرک اور انکارِ آخرت اور دنیا پرستی  کی بنیاد پر بنتی ہے۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

حمد اس خدا کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے (۱) اور  آخرت  میں بھی اسی کے لیے  حمد ہے (۲)۔ وہ دانا اور باخبر ہے (۳) جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے، ہر چیز کو وہ جانتا ہے، وہ رحیم اور غفور (۴) ہے۔

منکرین  کہتے ہیں کہ کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے (۵)! کہو قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی، وہ تم پر آ کر رہے گی (۶)۔ اس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ  آسمان میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں۔ رے سے بڑی اور نہ اس سے چھوٹی، سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے۔ (۷)۔ اور یہ قیامت اس لئے گی کہ جزا دے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے گی کہ جزا دے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کرتے رہے ہیں۔ ان کے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگایا ہے، ان کے لیے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے۔ (۸)۔ اے نبیؐ، علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے اور خدائے عزیز و حمید کا راستہ دکھاتا ہے (۹)۔

منکرین لوگوں سے کہتے ہیں ’’ہم بتائیں تمہیں ایسا شخص جو خبر دیتا ہے کہ جب تمہارے جسم کا ذرہ ذرہ منتشر ہو چکا ہو گا اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کر دیے جاؤ گے؟ نہ معلوم یہ شخص اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑتا ہے ہے یا اسے جنون لاحق ہے "(۱۰)۔

نہیں، بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور و ہی بری طرح بہکے ہوئے ہیں (۱۱)۔ کیا انہوں نے کبھی اس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو انہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے؟ ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں، یا آسمان کے کچھ تکڑے ان پر گرا دیں (۱۲)۔ درحقیقت اس میں ایک نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہو (۱۳)۔ ؏۱

 

تفسیر

 

۱۔ حمد کا لفظ عربی زبان میں تعریف اور شکر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں دونوں معنی مراد ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا مالک ہے تو لامحالہ اس کائنات میں جمال و کمال اور حکمت و قدرت اور صناعی و کاری گری کی جو شان بھی نظر آتی ہے اس کی تعریف کا مستحق وہی ہے۔ اور اس کائنات میں رہنے والا جس چیز سے بھی کوئی فائدہ یا لطف و لذت حاصل کر رہا ہے اس پر خدا ہی کا شکر اسے ادا کرنا چاہئے۔ کوئی  دوسرا جب ان اشیاء کی ملکیت میں شریک نہیں ہے تو اسے نہ حمد کا استحقاق پہنچتا ہے نہ شکر کا۔

۲۔ یعنی اس طرح اس دنیا کی ساری نعمتیں اسی کی بخشش ہیں اسی طرح آخرت میں بھی جو کچھ کسی کو ملے گا اسی کے خزانوں سے اور اسی کی عطا سے ملے گا، اس لیے وہاں بھی وہی تعریف کا مستحق بھی ہے اور شکر کا مستحق بھی۔

۳۔ یعنی جس کے سارے کام کمال درجہ حکمت و دانائی پر مبنی ہیں، جو کچھ کرتا ہے بالکل ٹھیک کرتا ہے۔ اور اسے اپنی ہر مخلوق کے متعلق پورا علم ہے کہ وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، کیا اس کی ضروریات ہیں، کیا کچھ اس کی مصلحت کے لیے مناسب ہے، کیا اس نے اب تک کیا ہے اور آگے کیا اس سے صادر ہونے والا ہے۔ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اسے ذرے  ذرّے کی حالت پوری طرح معلوم ہے۔

۴۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس کی سلطنت میں اگر کوئی شخص یا گروہ اس کے خلاف بغاوت کرنے کے باوجود پکڑا نہیں جا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ دنیا اندھیر نگری اور اللہ تعالیٰ اس کا چوپٹ راجہ ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رحیم ہے اور درگزر سے کام لینا اس کی عادت ہے۔ عاصی اور خاطی کو قصور سرزد ہوتے ہی پکڑ لینا، اس کا رزق بند کر دینا، اس کے جسم کو مفلوج کر دینا اس کو آناً فاناً ہلاک کر دینا، سب کچھ اس کے قبضے میں ہے، مگر وہ ایسا کرتا نہیں ہے۔ یہ اس کی شان رحیمی کا تقاضا ہے کہ قادر مطلق ہونے کے باوجود وہ نا فرمان بندوں کو ڈھیل دیتا ہے، سنبھلنے کی مہلت عطا کرتا ہے، اس جب وہ باز آ جائیں، معاف کر دیتا ہے۔

۵۔ یہ بات وہ طنز  اور تمسخر کے طور پر چند را چَندرا کر کہتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بہت دنوں سے یہ پیغمبر صاحب قیامت کے آنے کی خبر سنا رہے ہیں، مگر کچھ خبر نہیں کہ وہ آتے آتے کہاں رہ گئی۔ ہم نے اتنا کچھ انہیں جھٹلایا، اتنی گستاخیاں کیں، ان کا مذاق تک اڑایا، مگر وہ قیامت ہے کہ کسی طرح نہیں آ چکتی۔

۶۔ پروردگار کی قسم کھاتے ہوئے اس کی لیے ’’ عالم الغیب‘‘ کی  صفت استعمال کرنے سے خود بخود اس امر کی طرف اشارہ ہو گیا کہ قیامت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کا وقت خدائے عالم الغیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ یہی مضمون قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان ہو ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ و الا عراف، ۱۸۷۔ طٰہٰ، ۱۵۔ لقمان ۳۴۔ الاحزاب، ۶۳۔ الملک، ۲۵۔ ۲۶۔ النازعات، ۴۲ یا ۴۴۔

۷۔ یہ امکان آخرت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔ جیسا کہ آگے آیت نمبر۷ میں آ رہا ہے، منکرین آخرت جن وجوہ سے زندگی  بعد موت کو بعید از عقل سمجھتے تھے ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ جب سارے انسان مر کر مٹی میں رل مل جائیں گے اور ان کا ذرہ ذرہ منتشر ہو جائے تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ یہ بے شمار اجزا پھر سے اکٹھے ہوں اور کن کو جوڑ کر ہم دوبارہ اپنے  انہی اجسام کے ساتھ پیدا کر دیے  جائیں۔ اس سبہ کو یہ کہ کر رفع کیا گیا ہے کہ ہر ذرہ جو کہیں گیا ہے، خدا کے دفتر میں اس کا اندراج موجود ہے اور خدا کو معلوم ہے کہ کیا چیز کہاں گئی ہے۔ جب وہ دوبارہ پیدا کرنے کا ارادہ کرے گا تو اسے ایک ایک انسان کے اجزائے جسم کو سمیٹ لانے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی۔

۸۔ اوپر آخرت کے امکان کی دلیل تھی، اور یہ اس کے وجوب کی دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا وقت ضرور آنا ہی چاہیے جب ظالموں کو ان کے ظلم کا اور صالحوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیا جائے۔ عقل یہ چاہتی ہے اور انصاف یہ تقاضا کرتا ہے کہ جو نیکی کرے اسے انعام ملے اور جو بدی کرے وہ سزا پاے۔ اب اگر تم دیکھتے ہو کہ دنیا کی موجودگی میں نہ ہر بد کو اس کی بدی کا اور نہ ہر نیک کو اس کی نیکی کا پورا بدلہ ملتا ہے، بلکہ بسا اوقات بدی اور نیکی کے الٹے نتائج  بھی نکل آتے ہیں، تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ عقل اور انصاف کا یہ لازمی تقاضا کسی وقت ضرور پورا ہونا چاہیے۔ قیامت اور آخرت اسی وقت کا نام ہے۔ اس کا آنا نہیں آنا عقل کے خلاف اور انصاف سے بعید ہے۔ اس سلسلہ میں ایک اور نکتہ  بھی اوپر کی آیات سے واضح ہوتا ہے۔ ان میں بتایا گیا ہے کہا یمان اور عمل صالح کا نتیجہ مغفرت اور رزق کریم ہے۔ اور جو لوگ خدا کے دین کو نیچا دکھانے کے لیے معاندانہ جدوجہد کریں ان کے لیے بدترین قوم کا عذاب ہے۔ اس سے خود بخود یہ ظاہر ہو گیا کہ جو شخص سچے دل سے ایمان لائے گا اس کے عمل میں اگر کچھ خرابی بھی ہو تو وہ رزق کریم چاہے نہ پاے مگر مغفرت س محروم نہ رہے گا اور  جو شخص کافر تو ہو مگر دین حق کے مقابلے میں عند و مخالفت کی روش بھی اختیار نہ کرے وہ عذاب سے تو نہ بچ گا مگر بد ترین عذاب اس کے لیے نہیں ہے۔

۹۔ یعنی یہ معاندین  تمہارے پیش کردہ حق کو باطل ثابت کرنے کے لیے خواہ کتنا ہی زور لگائیں، ان کی یہ تدبیریں کامیاب نہیں ہو سکتیں، کیونکہ ان کی باتوں وہ جہلا ہی کو دھوکا دے سکتا ہیں۔ علم رکھنے والے لوگ ان کے فریب میں نہیں آتے۔

۱۰۔ قریش  کے سردار اس بات کو خوب جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جھوٹا تسلیم کرنا عوام الناس کے لیے سخت مشکل ہے، کیونکہ ساری قوم آپ کو صادق القول  جانتی تھی اور کبھی ساری عمر کسی نے آپ کی زبان سے کوئی جھوٹی بات نہ سنی تھی۔ اس لیے وہ لوگوں کے سامنے اپنا الزام اس شکل میں پیش کرتے تھے کہ یہ شخص جب زندگی بعد موت جیسی انہونی بات زبان سے نکالتا ہے تو لامحالہ اس کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا تو (معاذ اللہ) یہ شخص جان بوجھ کر ایک جھوٹی بات کہہ رہا ہے، یا پھر یہ منون ہے۔ لیکن یہ مجنون والی بھی اتنی ہی بے سر و پا تھی جتنی جھوٹ والی بات تھی۔ اس لیے کہ کوئی عقل کا اندھا ہی ایک کمال درجہ کے عاقل و فہیم آدمی کو مجنون مان سکتا تھا، ورنہ آنکھوں دیکھتے کوئی شخص جیتی مکھی کیسے نگل لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ بات کے جواب میں کسی استدلال کی ضرورت محسوس نہ فرمائی اور کلام صرف ان کے اس اچنبھے پر کیا جو موت کے امکان پر وہ ظاہر کرتے تھے۔

۱۱۔ یہ ان کی بات کا پہلا جواب ہے۔ اس کا مطلب  یہ ہے کہ نادانو، عقل تو تمہاری ماری گئی ہے کہ جو شخص حقیقت حال سے تمہیں آگاہ کر رہا ہے اس کی بات نہیں مانتے اور سرپٹ اس راستے پر چلے جا رہے ہو جو سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے، مگر تمہاری حماقت کی طغیانی کا یہ عالم ہے کہ الٹا اس شخص کو مجنون کہتے ہو جو تمہیں بچانے کی فکر کر رہا ہے۔

۱۲۔ یہ ان کی بات کا دوسرا جواب ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ کفار قریش جن وجوہ سے زندگی بعد موت کا انکار  کرتے تھے ان میں تین چیزیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ خدا کے محاسبے اور باز پرس کو نہیں ماننا چاہتے تھے کیونکہ اسے مان لینے کے بعد دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی ان سے چھن جاتی تھی۔ دوسرے یہ کہ وہ قیامت کے وقوع اور نظام عالم کے درہم برہم ہو جانے اور پھر سے ایک نئی کائنات بننے کو ناقابل تصور سمجھتے تھے۔ تیسرے یہ کہ جن لوگوں کو مری ہوے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہو اور جن کی ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو کر  زمین، ہوا اور پانے میں پراگندہ ہو چکی ہوں ان کا دوبارہ جسم و جان کے ساتھ جی اٹھنا ان کے نزدیک بالکل بعید ا امکان تھا۔ اوپر کا جواب ان تینوں پہلوؤں پر حاوی ہے، اور مزید براں اس میں ایک سخت تنبیہ بھی مضمر ہے۔ ان مختصر  سے فقروں میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس کی تفضیل یہ ہے۔

۱۔ اس زمین و آسمان کو اگر کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ہوتا تو تمہیں نظر آتا کہ یہ کوئی کھلونا نہیں ہے، اور نہ یہ نظام اتفاقاً بن گیا ہے، اس کائنات کی ہر چیز اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اسے ایک قادر مطلق نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا ہے۔ ایسے ایک حکیمانہ نظام میں یہ تصور کرنا کہ یہاں کسی کو عقل و تمیز و اختیارات عطا کرنے کے بعد اسے غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ چھوڑ ا جا سکتا ہے، سراسر ایک لغو بات  ہے۔

۲۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیدہ بینا کے ساتھ دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ قیامت کا آ جانا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ زمین اور آسمان جن بندشوں پر قائم ہیں ان میں ایک ذرا سا الٹ پھیر بھی ہو جائے تو آناً فاناً قیامت برپا ہو سکتی ہے۔ اور یہی نظام اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے آج یہ دنیا بنا رکھی ہے وہ ایک دوسری دنیا بھر بنا سکتا ہے۔ اس کے  لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا تو یہی دنیا کیسے بن کھڑی ہوتی۔

۳۔ تم نے آخر خالق ارض و سما کو کیا سمجھ رکھا ہے کہ مرے ہوے انسانوں کو دوبارہ پیدا کیے جانے کو اس کی قدرت سے باہر خیال کر رہے ہو، جو لوگ مرتے ہیں ان کے جسم پارہ پارہ  ہو کر خواہ کتنے ہی منتشر ہو جائیں، رہتے تواسی زمین و آسمان کے حدود میں ہیں۔ اس سے کہیں باہر تو نہیں چلے جاتی۔ پھر جس خدا کے یہ زمین و آسمان ہیں اس کیلیے کیا مشکل ہے کہ مٹی اور  پانی اور ہوا میں جو چیز جہاں بھی ہے اسے وہاں سے نکال لائے۔ تمہارے جسم میں ان جو کچھ موجود ہے وہ بھی اسی  کا جمع کیا ہوا ہے اور اسی مٹی، ہوا اور پانی میں سے نکال لایا گیا ہے۔ ان اجزا کی فراہمی اگر آج ممکن ہے تو کل کیوں غیر ممکن ہو جائے گی۔ ان تینوں دلیلوں کے ساتھ اس کلام میں یہ تنبیہ بھی پوشیدہ ہے کہ تم ہر طرف سے خدا کی خدائی میں گھرے ہوئے ہو۔ جہاں بھی جاؤ گے یہی کائنات تم پر محیط ہو گی۔ خدا کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ تم نہیں پا سکتے اور خدا کی قدرت کا حال یہ ہے کہ جب وہ چاہے تمہارے قدموں کے نیچے سے یا سر کے اوپر سے جو بلا چاہے تم پر نازل کر سکتا ہے۔ جس زمین کو آغوش مادر کی طرح تم اپنے لیے جائے سکون پاتے ہو اور اطمینان سے اس پر گھر بنائے بیٹھے ہو تمھیں کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سطح کے نیچے کیا قوتیں کام کر رہی ہیں اور کب وہ کوئی زلزلے لا کر اسی زمین کو تمہارے لیے مرقد بنا دیتی ہیں۔ جس آسمان کے نیچے تم اس اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہو گویا کہ یہ تمہارے گھر کی چھت ہے، تمہیں کیا معلوم کہ اسی آسمان سے کب کوئی بجلی گر پڑتی ہے، یا ہلاکت خیز بارش ہوتی ہے، یا اور کوئی نا گہانی آفت آ جاتی ہے۔ اس حالت میں تمہاری خدا سے یہ بے خوفی اور فکر عاقبت سے یہ غفلت اور ایک خیر خواہ کی نصیحت کے  مقابلے میں یہ یَا وَہ گوئی بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ تم اپنی شامت ہی کو دعوت دے رہے ہو۔

۱۳۔ یعنی جو شخص کسی قسم کا تعصب نہ رکھتا ہو، جا میں کوئی ہٹ دھرمی اور ضد نہ پائی جاتی ہو، بلکہ جو اخلاص کے ساتھ اپنے خدا سے طالب ہدایت ہو، وہ تو آسمان و زمین کے اس نظام کو دیکھ کر بڑے سبق لے سکتا ہے۔ لیکن جس کا دل خدا سے پھر ہوا ہو وہ کائنات میں سب کچھ دیکھے گا مگر حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی اسے سجھائی نہ دے گی۔

 

ترجمہ

 

ہم نے داؤد کو اپنے ہاں سے بڑا فضل عطا کیا تھا(۱۴)۔ (ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو (اور یہی حکم نے ) پرندوں کو دیا (۱۵)۔ ہم نے لوہے کو اس لیے نرم کر دیا اس ہدایت کے ساتھ کہ زرہیں بنا اور ان کے حلقے ٹھیک اندازے پر رکھ (۱۶)۔  (اے آل داؤد) نیک عمل کرو، جو کچھ تم کرتے ہو اس میں دیکھ رہا ہوں۔

اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک (۱۷)۔ ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا (۱۸) اور ایسے جن اس کے تابع کر دیے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے (۱۹)۔ ان میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے۔ وہ اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، اونچی عمارتیں تصویریں(۲۰)، بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی  بھاری دیگیں(۲۱)۔ اے آلِ داؤد عمل کو شکر کے طریقے پر (۲۲)، میرے بندوں میں کم ہی شکر گذار ہیں۔

پھر جب سلیمانؑ پر کا فیصلہ نافذ کیا  تو جنوں کو اس کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز اس گھُن کو سوا نہ تھی جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ اس طرح جب سلیمانؑ گر پڑا تو جنوں پر یہ بات کھل گئی  (۲۳) کہ اگر وہ غیب کے جاننے والی ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے (۲۴)۔

سبا (۲۵)کے لیے ان کی اپنے مسکن ہی میں ایک  نشانی موجود تھی(۲۶)، دو باغ دائیں اور بائیں (۲۷)۔ کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اس کا، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پرور دھار ہے بخشش فرمانے والا۔ مگر وہ منہ موڑ گئے (۲۸)۔ آخر کار ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب بھیج دیا (۲۹) اور ان کے پچھلے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انہیں دیے جن میں کڑوے کسیلے پھل اور جھاؤ کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں(۳۰)۔ یہ تھا ان کے کفر کا بدلہ جو ہم نے ان کو دیا، اور ناشکر ے انسان کے سوا ایسا بدلہ ہم اور کسی کو نہیں دیتے۔

اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان، جن کو ہم نے برکت عطا کی تھی، نمایاں بستیاں بسا دی تھیں اور ان میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے پر رکھ دی تھیں(۳۱)۔ چلو پھرو ان راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ۔ مگر انہوں نے کہا’’ اے ہمارے رب، ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کر دے ‘‘(۳۲)۔ انہوں نے اپنے آپ ظلم کیا۔ آخر کار ہم نے انہیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں بالکل تتر بتر کر ڈالا(۳۳)۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو بڑا صابر و شاکر ہو(۳۴)۔ ان کے معاملہ میں ابلیس نے اپنا گمان صحیح پایا اور انہوں نے اسی کی پیروی کی، بجز ایک تھوڑ ے سے گروہ کی جو مومن تھا(۳۵)۔ ابلیس کو ان پر کوئی اقتدار حاصل نہ تھا  مگر جو کچھ ہوا وہ اس لیے ہوا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کون آخرت کا ماننے والا ہے اور کون اس کی طرف سے شک میں پڑا ہوا ہے (۳۶)۔ تیرا رب ہر چیز پر نگران ہے (۳۷)۔ ع

 

تفسیر

 

۱۴۔ اشارہ ہے ان بے شمار عنایات کی طرف جن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نوازا تھا۔ وہ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہوداہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ فلستیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اس واقعہ سے ان کا عروج شروع ہوا یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون (موجودہ الخلیل) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے، پھر چند سال بعد تمام قباؑیل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا۔ یہ انہی کی قیادت تھی جس کی بدولت تاریخ میں پلی مرتبہ ایک ایسی خدا پرست سلطنت وجود میں آئی جس کے حدود خلیج عقبہ سے دریائے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس عنایات پر مزید وہ فضل خداوندی ہے جو علم و حکمت، عدل و انصاف، اور خدا ترسی و بندگی حق کی صورت میں ان کو نصیب ہوا (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول۔ ص ۵۹۵ تا ۵۹۸)

۱۵۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورہ انبیا آیت ۷۹ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ۱۷۴۔ ۱۷۵)

۱۶۔ یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت ۸۰ میں گزر چکا ہے اور وہاں اس کی تشریح کی جا چکی ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ص ۱۷۵۔ ۱۷۶ )

۱۷۔ یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت ۸۱ میں گزر چکا ہے اور اس کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ۱۷۶۔ ۱۷۷)

۱۸۔ بعض قدیم مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ زمین سے ایک چشمہ حضرت سلیمانؑ کے لیے پھوٹ نکلا تھا جس میں سے پانی کے بجائے پگھلا ہوا تانبہ  بہتا تھا۔ لیکن آیت کی دوسری تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں تانبے کو پگھلا نے اور اس سے طرح طرح کی چیزیں بنانے کا کام بڑے پیمانے پر کیا گیا کہ گویا وہاں تانبے کے چشمے بہ رہے تھے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، ص ۱۷۶)

۱۹۔ یہ جن جو سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کیے گیے تھے، آیا یہ دہقانی اور کوہستانی انسان تھے یا واقعی وہی جن تھے جو ایک پوشیدہ مخلوق کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہیں، اس مسئلے پر بھی سورہ انبیا  اور سورہ نحل کی تفسیر میں ہم مفصل بحث کر چکے ہیں۔

۲۰۔   اصل میں لفظ تَمَاثِیل  استعمال ہوا ہے جو تِمثَال کی جمع ہے۔ تمثال عربی زبان میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی قدرتی شے کے مشابہ بنائی جائے قطع نظر اس اصل سے  کہ وہ کوئی انسان ہو یا حیوان، کوئی درخت ہو یا پھول یا دریا یا کوئی دوسری بے جان چیز۔ التمشال اسم للشئ المصنوع مشبھا بخلا من خلق اللہ (لسان العرب)”” تمثال نام ہے ہر اس مصنوعی چیز کا جو خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے مانند بنائی گئی ہو ‘‘ التمثال کل ما صور علی صورۃ غیرہ من حیوان و غیر حیوان۔ (تفسیر کشاف) تمثال ہر اس تصویر کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی صورت کے مماثل بنائی گئی ہو، خواہ وہ جان دار ہو یا بے جان ‘‘۔ اس بنا پر قرآن مجید کے اس بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے جو ’’ تماثیل ‘‘ بنائی جاتی تھیں وہ ضرور انسانوں اور حیوانوں کی تصاویر یا ان کے مجسمے ہی ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پھول پتیاں اور قدرتی مناظر اور مختلف قسم کے نقش و نگار ہوں جب سے حضرت سلیمان نے اپنی عمارتوں کو آراستہ کرایا ہو۔

غلط فہمی کا منشا بعض مفسرین کے یہ بیانات ہیں کہ حضرت سلیمانؑ نے انبیاء اور ملائکہ کی تصویریں بنوائی تھیں۔ یہ باتیں ان حضرات نے بنی اسرائیل کی روایات سے اخذ کر لیں  اور پھر ان کی توجیہ یہ کی کہ پچھلی شریعتوں میں اس قسم کی تصویر بنانا ممنوع نہ تھا لیکن ان روایات کو بلا تحقیق نقل کرتے ہوئے ان بزرگوں کو یہ خیال نہ رہا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جس شریعت موسوی کے پیرو تھے اس میں بھی انسانی اور حیوانی تصاویر اور مجسمے اسی طرح حرام تھے جس طرح شریعت محمدیہ میں حرام ہیں۔ اور وہ یہ بھی بھول گئے کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو حضرت سلیمانؑ سے جو عداوت تھی اس کی بنا پر انہوں نے آنجناب  کو شرک و بت پرستی جادو گری اور زنا کے بد ترین الزامات سے متہم کیا ہے، اس لیے ان کی روایات پر اعتماد کر کے اس جلیل القدر پیغمبر کے بارے میں کوئی ایسی بات ہر گز قبول نہ کرنی چاہیے جو خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت کے خلاف پڑتی ہو۔ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بنی اسرائیل میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں وہ سب تورات کے پیرو تھے ان میں سے کوئی بھی نئی شریعت نہ لایا تھا جو تورات کے قانون کی ناسخ ہوتی۔ اب تورات کو دیکھیے تو اس میں بار بار بصراحت یہ حکم ملتا ہے کہ انسانی اور حیوانی تصویریں اور مجسمے قطعاً حرام ہیں :

’’تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کوئی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے ‘‘ (خروج۔ باب ۲۰۔ آیت ۴)۔

تم اپنے لیے بُت اپنے لیے بت نہ بنانا اور نہ تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لیے کھڑی کرنا اور نہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے  سجدہ کرو‘‘ (احبار۔ باب ۲۶، آیت ۱)

’’تا نہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لیے بنا لو جس کی شبیہ کسی مرد یا عورت یا زمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے کسی پرند یا زمین میں رینگنے والے جاندار یا مچھلی سے جو زمین کے بیچے پانی میں رہتی ہے ملتی ہو ‘‘(استثنا، باب ۴۔ آیت ۱۶۔ ۱۸)۔

” لعنت اس آدمی پر جو کاریگری کی صنعت کی طرح کھودی ہوئی یا ڈھالی ہوئی مورت بنا کر جو خداوند کے نزدیک مکر وہ ہے اس کو کسی پوشیدہ جگہ میں نصب کرے "” (استثناء، باب ۲۷۔ آیت ۱۵)

ان صاف اور صریح احکام کے بعد یہ بات کیسے مانی جا سکتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے انبیاء اور ملائکَ کی تصویریں یا ان کے مجسمے بنانے کا کام جِنوں سے لیا ہو گا اور یہ بات آخر ان یہودیوں کے بیان پراعتماد کر کے کیسے تسلیم کر لی جائے جو حضرت سلیمانؑ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی مشرک بیویوں کے عشق میں مبتلا ہو کر بت پرستی کرنے لگے تھے (۱۔ سلاطین۔ باب ۱۱).

تاہم مفسرین نے تو بنی اسرائیل کی یہ روایات نقل کرنے کے ساتھ اس امر کی صراحت کر دی تھی کہ شریعت محمدیہ یہ فعل حرام ہے اس لیے اب کوئی شخص حضرت سلیمانؑ کی پیروی میں تصویریں اور مجسمے بنانے کا مجاز نہیں ہے۔ لیکن موجودہ زمانے کے بعض لوگوں نے )جو اہل مغرب کی تقلید میں مصوری و بت تراشی کو حلال کرنا چاہتے ہیں، قرآن مجید کی اس آیت کو دلیل ٹھیرا لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک پیغمبر نے یہ کام کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کتاب میں اس کے اس فعل کا ذکر کیا ہے اور اس پر کسی نا پسندیدگی کا اظہار بھی نہیں فرمایا ہے تو اسے لازماً حلال ہی ہونا چاہیے۔

ان مقلدین مغرب کا یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ لفظ تماثیل جو قرآن مجید میں استعمال کیا گیا ہے، انسانی اور حیوانی تصاویر کے معنی میں صریح نہیں ہے، بلکہ اس کا اطلاق غیر جاندار اشیاء کی تصویر وں پر بھی ہوتا ہے، اس لیے محض اس لفظ کے سہارے حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ قرآن کی رو سے انسانی اور حیوانی تصاویر حلال ہیں۔ دوسرے یہ کہ نہایت کثیر التعداد اور قوی الاسناد اور متواتر ا لمعنیٰ احادیث سے ہی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ذی روح اشیاء کی تصویریں بنانے اور رکھنے کو قطعی حرام قرار دیا ہے۔ اس معاملہ میں جو ارشادات  حضورؐ سے ثابت ہیں اور جو آثار اکابر صحابہ سے منقول ہوئے ہیں انہیں ہم یہاں نقل کرتے ہیں:

۱۔ ین عایشہ اُم المومنین  ان ام جیبۃ وام سلمۃ ذکر تا کنیسۃ راْینھا بالحنشۃ فیھا تساویر نذکرتا للنبی صلی اللہ علیہ و سلم فقال ان اولٰٓعِک اذاکان فیھم الرجل الصالح فمات بنو ا علیٰ قبر ہ مسجد او صوروافیہ تلک اصور فیہ تلک صور فاولٰٓعِک شرار الخلق عنداللہ یوم القیٰمۃ (بخاری، کتاب المساجد)

ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ ؓ نے حبش میں ایک کنیسہ دیکھا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ اس کا ذکر انہوں نے بنی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا۔ حضورؐ نے فرمایا ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ جب ان میں کوئی صالح شخص ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد وہ اس کی قبر پر ایک عبادت گاہ بناتے اور اس میں یہ تصویریں بنا لیا کرتے تھے۔ یہ لوگ قیامت کے روز اللہ نزدیک بدترین خلائق قرار پائیں گے۔

۲۔ عن ابی حجیفہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  لعن المصور (بخاری، کتاب البیوع، کتاب الطلاق و کتاب اللباس)

ابو حجیفہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مصور پر لعنت فرمائی ہے۔

۳۔ عن ا بی زرعہ قال دخلتُ مع ابی حریرۃ داراً بالمدینۃ فرأی اعلاھا مصوراً یصور قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول ومن اظلم ممن ذھب یخلق کخلقی فلیخلقو احبۃ ولیخلقو اذرۃ (بخاری، کتاب اللباس۔ مُسند احمد اور مسلم کی روایت میں تصریح ہے کہ یہ مروان کا گھر تھا)

ابو زرعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے ساتھ ایک مکان میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مکان کے اوپر ایک مصور تصویریں بنا رہا ہے۔ اس پر حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا لے اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو میری تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرے۔ یہ لوگ ایک دانہ یا ایک چیونٹی تو بنا کر دکھائیں۔

۴۔ عنا بی محمد الھذلی عن لی قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی جنازۃ فقال ایکم ینطلق الی المدینۃ فلا یَدَع بھاوثناً الاکسرہ ولا قبراً الاسوّاہ ولاصورۃ الالطخھا۔ فقال رجل انا یا رسول اللہ فانطلق فھاب اھل المدینہ۔ فرجع۔ فقوال علی انا انطلق یا رسول اللہ۔ قال فانطلق، فانطلقَ ثم رجع۔ فقال یا رسول اللہ لم ادعُ بھا وثناً الا کسرتہ ولا قبراً الّا سویتہ ولا صورۃ الالطختھا۔ ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من عاد لصنعۃ شئ من ھٰذا فقد کفر بما انزل علیٰ محمدؐ(مسند احمد۔ مسلم، کتاب الجنائر اور نَسائی کتاب الجنائیر میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث منقول ہوئی ہے )۔

ابو محمد ہُذَلی  حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک جنازے میں شریک تھے۔ آپ نے فرمایا تم لوگوں میں سے کون ہے جو جا کر مدینہ میں کوئی بُت نہ چھوڑے جسے توڑ نہ دے اور کوئی قبر نہ چھوڑے زمین کے برابر نہ کر دے اور کوئی تصویر نہ چھوڑے جسے مٹا نہ دے۔ ایک شخص نے عرض کیا میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ چنانچہ وہ گیا مگر اہل مدینہ کے خوف سے یہ کام کیے بغیر پلٹ آیا۔ پھر حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں جاتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا اچھا تم جاؤ۔ حضرت علیؓ گئے اور واپس آ کر انہوں نے عرض کیا میں نے کوئی بت  نہیں چھوڑا  جسے توڑ نہ دیا ہو، اور کوئی قبر نہیں چھوڑی جسے زمین کے برابر نہ کر دیا ہو اور کوئی تصویر نہ چھوڑی جسے مٹا نہ دیا ہو۔ اس پر حضورؐ  نے فرما یا، اب اگر کسی شخص نے ان چیزوں میں سے کوئی چیز بنائی تو اس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)پر نازل ہوئی ہے۔

۵۔ عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم ………… ومن صور صورۃ عذبُ کلف ان ینفخ فیھا ولیس بنا فخ(بخاری۔ کتاب التعبیر۔ ترمذی، ابواب للباس  نسائی۔ کتاب الزینۃ۔ مسند احمد)

ابن عباس نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں’……اور جس شخص نے تصویر بنائی اسے عذاب دیا جائے گا اور مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ نہ پھونک سکے گا۔

۶۔ عن سعید بن ابی الحسن قال کنت عند ابن عباس رضی اللہ عنہما اذا تاہ رجل فقال یا اباعباس انی انسان انما معیشتی من صنعۃ یدی وانی اسنع ھٰذہ اتصاویر۔ فقال ابن عباس لا احد ثک الاما سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول۔ سمعتہ یقول من صورصور ۃً  فان اللہ  معذ بہ حتٰی ینفخ فیھا الروح ولیس بنا فخ فیھا ابداً۔ جربالرجل ربو ۃً شدیدۃواصفر وجھہ۔ فقال ویحک ان انیت الا ان تصنع فعلیک بھٰذا الشجر کل شئی لیس فیہ روح(بخاری، کتاب البیوع۔ مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینۃ۔ مسند ٓاحمد)۔

سعید بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ میں ابن عباسؓ کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا، اور اس نے کہا کہ اے ابو عباس میں ایک ایسا شخص ہوں جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے اور میرا روزگار یہ تصویریں بنانا ہے۔ ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ میں تم سے وہی بات کہوں گاجو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنی ہے۔ میں نے حضورؐ سے یہ بات سنی ہے کہ جو شخص تصویر بنائے گا اللہ اسے عذاب دے گا اور اسے نہ چھوڑے گا جب تک وہ اس میں روح نہ پھونکے، اور وہ کبھی روح نہ پھونک سکے گا۔ یہ بات سن کر وہ شخص سخت برافروختہ ہوا اور اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اس پر ابن عباسؓ نے کہا بندہ خدا، اگر تجھے تصویر بنانی ہے تو اس درخت کی بنا، یا کسی ایسی چیز کی بنا جس میں روح نہ ہو۔

۷۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے روز اللہ کے ہاں سخت تریں سزا پانے والے مصور ہوں گے۔

۸۔ عن عبداللہ بن عمران رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال ان الذین یصنعون ھٰذہ الصور یعذبون  یوم القیٰمۃ یقال لہم احیوا ما خلقتم (بخاری، کتاب اللباس۔ مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ۔ مسند احمد)

عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو لوگ یہ تصویریں بناتے ہیں ان کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے  گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو۔

۹۔ عن عائشہ رضی اللہ عنھا انھا اشتزت  نمرقۃ فیھا تصاویر فقام النبی صلی اللہ علیہ و سلم بالباب ولم ید خل فقلت اتوب الی اللہ ممّا اذنبت قال ما ھٰذہ النمر قۃ قلت لتجلس علیھا وتو سد ھا قال ان اصحاب ھٰذہ الصور یعذبون یوم القیٰمۃ یقال نہم احیواما خلقتم و ا الملا ئکۃ لا تد خل بیتاً فیہ الصورۃ۔ (بخاری، کتاب الباس، مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ، ابن ماجہ، کتاب التجارات۔ موطا، کتاب الاستیذان)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ پھر بنی صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور دروازے ہی میں کھڑے ہو گئے۔ اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ میں خدا سے توبہ کرتی ہوں ہر اس گناہ پر جو میں نے کیا ہو۔ حضورؐ نے فرمایا یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا یہ اس غرض کے لیے ہے کہ آپ یہاں تشریف رکھیں اور اس پر ٹیک لگائیں۔ فرمایا ان تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اس کو زندہ کرو۔ اس ملائکہ (یعنی ملائکہ رحمت ) کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں ہوں۔

۱۰۔ عن عائشۃ قالت دخل علَیّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم و انا متسترہ بقرام فیہ صورۃ فتلوَّ نَ وجھہ ثم  تناول الستر نھتکہ ثم قال انکن اشد الناس عذاباً یوم القیٰمۃ الذین یشبہون بخلق اللہ (مسلم، کتاب اللباس بخاری، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ)

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے ایک پردہ لٹکا رکھا تھا جو میں تصویر  تھی۔ آپؐ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپ نے اس پردے کو لے کر پھاڑ ڈالا اور فرمایا قیامت کے روز سخت ترین عذاب جن لوگوں کو یا جائے گا ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ کی تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرتے ہیں۔

۱۱۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  سفر سے واپس تشریف لائے اور میں نے اپنے دروازے پر ایک پردہ لٹکا رکھا تھا، جس میں پر دار گھوڑوں کی تصویریں تھیں۔ حضورؐ  نے حکم دیا کہ اسے اتار دو اور میں نے اتار یا۔

۱۲۔ عن جابر قال نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن الصورۃ فی البیت ونھٰی ان یصنع ذالک۔ (ترمذی، ابواب اللباس)

جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرما دیا کہ گھر میں تصویر رکھی جائے اور اس سے بھی منع فرما دیا کہ کوئی شخص تصویر بنائے۔

۱۳۔ عن ابن عباس عنا بی طلحہ عنالنبی صلی اللہ علیہ و سلم قال لا تد خل الملا ئکۃ بیتا فیہ کلب ولا صورۃ۔ (بخاری کتاب اللباس)۔

ابن عباسؓ ابوطلحہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ملائکہ (یعنی ملائکہ رحمت) کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا پلا ہوا ہو اور نہ ایسے گھر میں جس میں تصویر ہو۔

۱۴۔ عن عنداللہ بن عمر قال وعدالنبی صلی اللہ علیہ و سلم جبریل فرا ث علیہ حتی اشتد علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم فلقیہ فشکا الیہ ماوجد فقال لہْ انّا لا ند خل بیتاً فیہ صورۃ ولا کلب۔ (بخاری، کتاب اللباس۔ اس مضمون کی متعدد روایات بخاری، مسلم، ابو داوْد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، امام مالک اور امام احمد نے متعدد صحابہ سے نقل کی ہیں)۔

عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جبریلؑ  نے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آنے کا وعدہ کیا مگر بہت دیر لگ گئی اور وہ نہ آئی۔ حضورؐ کو اس سے پریشانی ہوئی اور آپ گھر سے نکلے تو وہ مل گئے۔ آپ ؐ نے ان سے شکایت کی تو انہوں نے کہا ہم کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کُتا ہو یا تصویر ہو۔

ان روایات کے مقابلے میں کچھ روایتیں ایسی پیش کی جاتی ہیں جن میں تصاویر کے معاملہ میں رخصت پائی جاتی ہے مثلاً ابو طلحہ انصاری کی یہ روایت کہ جس کپڑے میں تصویر کڑھی ہوئی ہو اس کا پردہ لٹکانے کی اجازت ہے۔ (بخاری، کتاب اللباس) اور حضرت عائشہ  کی یہ روایت کہ تصویر دار کپڑے کو پھاڑ کر جب انہوں نے گدّا بنا لیا تو حضور نے اسے بچھانے سے منع نہ فرمایا۔ (مسلم، کتاب اللباس) اور سالم بن عبداللہ بن عمر کی روایت کہ ممانعت اس تصویر کی ہے جو نمایاں مقام پر نصب کی گئی ہو، نہ کہ اس تصویر کی جو فرش کے طور پر بچھا دی گئی ہو (مسند احمد)۔ لیکن ان میں سے کوئی حدیث بھی دراصل ان احادیث کی تردید نہیں کرتی جو اوپر نقل کی گئی ہیں۔ جہاں تک تصویر بنانے کا تعلق ہے اس کا جواز ان میں سے کسی حدیث سے بھی نہیں نکلتا۔ یہ احادیث صرف اس مسئلے سے بحث کرتی ہیں کہ اگر کسی کپڑے پر تصویر بنی ہوئی ہو اور آدمی اس کو لے چکا ہو تو کیا کرے۔ اس باب میں ابو طلحہ انصاری والی روایت کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ وہ بکثرت دوسری صحیح احادیث سے ٹکراتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تصویر دار کپڑا لٹکانے سے نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ اسے پھاڑ دیا ہے۔ نیز خود حضرت ابو طلحہ کا اپنا عمل جو ترمذی اور موطّا میں منقول ہوا ہے وہ یہ ہے کہ تصویر دار پردہ تو در کنار وہ ایسا فرش بچھانے میں بھی کراہت محسوس کرتے تھے جس میں تصاویر ہوں۔ رہیں حضرت عائشہ اس سالم بن عبداللہ کی روایات تو ان سے سرف اتنا جواز نکلتا ہے کہ اگر تصویر احترام کی جگہ پر نہ ہو بلکہ ذلت کے ساتھ فرش میں رکھی  جائے اور اسے پامال کیا جائے تو وہ قابل برداشت ہے۔ ان احادیث سے آخر اس پوری ثقافت کا جواز کیسے نکالا جا سکتا ہے جو تصویر کشی اور مجسمہ سازی کے آرٹ کو تہذیب انسانی کا قابل فخر کمال قرار دیتی ہے اور اسے مسلمانوں میں رواج دینا چاہتی ہے۔

تصاویر کے معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر کار امت کے لیے جو ضابطہ چھوڑا ہے اس کا پتہ اکابر صحابہ  کے اس طرز عمل سے چلتا ہے جو انہوں نے اس باب میں اختیار کیا۔ اسلام میں یہ اصول مسلم ہے کہ معتبر اسلامی ضابطہ وہی ہے جو تمام تدریجی احکام اور ابتدائی رخصتوں کے بعد حضورؐ نے اپنے آخر عہد میں مقرر کر دیا ہو۔ اور حضورؐ کے بعد اکابر صحابہ کا کسی طریقے پر عمل درآمد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسی طریقے پر حضورؐ نے امت کو چھوڑا تھا۔ اب دیکھیے کہ تصویروں کے ساتھ اس مقدس گروہ کا کیا برتاؤ تھا۔

قال عمر رضی اللہ عنہ انا لا ندخل کنا ئسکم کن اجل التماثیل التی  فیھا الصُّوَر۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ)

حضرت عمر نے عیسائیوں سے کہا کہ ہم تمہارے کنیسوں میں اس لیے داخل نہیں ہوتے کہ ان میں تصویریں ہیں۔

کان ابن عباس یصلی فی بیعۃ الابیعۃ فیھا تماثیل (بخاری، کتاب الصلوٰۃ)

ابن عباسؓ گرجا میں نماز پڑھ لیتے تھے، مگر کسی ایسے گرجا میں نہیں جس میں تصویریں ہوں۔

عن ا بی الھیاج الاسدی قال لی عَلی الابعثک علیٰ ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان لا تدع تمثیلاً الا طمستہ ولاقبراً مشرفاً الا سویتہ ولاصورۃ الا طمستھا۔ )مسلم، کتاب الجنائز۔ نسائی، کتاب الجنائز)

ابو الہیاج اسی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے مجھ سے کہا کیا نہ بھیجوں میں تم کو اس مہم پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بھیجا تھا؟ اور وہ یہ کہ تم کوئی مجسمہ نہ چھوڑو جسے توڑ نہ دو، اور کوئی اونچی قبر نہ چھوڑو جسے زمین کے برابر نہ کر دو اور کوئی تصویر نہ چھوڑو جسے مٹا نہ دو۔

عن حنش الکنانی عن علی انہ بعث عامل شرطہِ فقال لہ اتدری علی ما ابعثک؟ علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان انحت کل صورۃ و ان اسوی کل قبر (مسند احمد)

حنش الکنانی کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے اپنی پولیس کے کوتوال سے کہا کہ تم جانتے ہو میں کس مہم پر تمہیں بھیج رہا ہوں؟ اس مہم پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بھیجا تھا۔ یہ کہ میں ہر تصویر کو مٹا دوں اور ہر قبر کو زمین کے برابر کر دوں۔

اسے ثابت شدہ اسلامی ضابطہ کو فقہائے اسلام نے تسلیم کیا ہے اور اسے قانون اسلامی کی ایک دفعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ علامہ بدر الدین  عینی توضیح کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

"”ہمارے اصحاب (یعنی فقہائے احناف )اور دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ کسی جاندار چیز کی تصویر بنانا حرام ہی نہیں، سخت حرام اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، خواہ بنانے والے نے اسے کسی ایسے استعمال کے لیے بنایا ہو جس میں اس کی تذلیل ہو، یا کسی دوسری غرض کے لیے۔ ہر حالت میں تصویر کشی حرام ہے کیوں کہ اس میں اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے۔ اسی طرح تصویر خواہ کپڑے میں ہو یا فرش میں یا دینار یا درہم یا پیسے میں، یا کسی برتن میں یا دیوار میں، بہرحال اس کا بنانا حرام ہے۔ البتہ جاندار کے سوا کسی دوسری چیز مثلاً درخت وغیرہ کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے۔ ان تمام امور میں تصویر کے سایہ دار ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی رائے امام مالک، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور دوسرے علماء کی ہے۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اس سے لڑکیوں کی گڑیاں مستثنی ہیں۔ مگر امام مالک ان کے خریدنے کو بھی ناپسند کرتے تھے۔ (عمدۃ القاری۔ ج۲۲ ص۷۰۔ اسی مسلک کو امام ثوری نے شرح مسلم میں زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو شرح نَسَدِی، مطبوعہ مصر، ج ۱۴۔ ص ۸۱۔ ۸۲)””

یہ تو ہے تصویر سازی کا حکم۔ رہا دوسرے کی بنائی ہوئی تصویر کے استعمال کا مسئلہ تو اس کے بارے میں فقہائے اسلام کے مسلک علامہ ابن حجر نے اس طرح نقل کیے ہیں: ’’ مالکی فقیہ ابن عربی کہتے ہیں کہ جس تصویر کا سایہ پڑتا ہو اس کے حرام ہونے پر تو اجماع ہے قطع نظر اس سے کہ وہ تحقیر کے ساتھ رکھی گئی ہو یا نہ۔ اس اجماع سے صرف لڑکیوں کی گڑیاں مستثنیٰ ہیں۔ ”””””’ ابن عربی یہ بھی کہتے ہیں کہ جس تصویر کا سایہ نہ پڑتا ہو وہ اگر اپنی حالت پر باقی رہے (یعنی آئنہ کی پرچھائیں کی طرح نہ ہو بلکہ چھپی ہوئی تصویر کی طرح ثابت و قائم ہو) تو وہ بھی حرام ہے، خواہ اسے حقارت کے ساتھ رکھا گیا ہو یا نہ۔ البتہ اگر اس کا سر کاٹ دیا گیا ہو یا اس کے اجزاء الگ الگ کریے گئے ہوں تو اس کا استعمال جائز ہے …… امام الحرمین نے ایک مسلک ی نقل کیا ہے کہ پردے یا تکیہ پر اگر تصویر ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہے، مگر دیوار یا چھت میں جو تصویر لگائی جائے وہ ممنوع ہے کیونکہ اس کا اعزاز ہو گا، بخلا ف اس کے پردے اور تکیے کی تصویر حقارت سے رہے گی. ابن ابی شینبہ نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ زمانہ تابعین کے علماء یہ رائے رکھتے تھے کہ فرش اور تکیہ میں تصویر کا ہونا۔ اس کے لیے باعث ذلت ہے۔ نیز ان کا یہ خیال بھی تھا کہ اونچی جگہ پر جو تصویر لگائی گئی ہو وہ حرام ہے اور قدموں میں جسے پامال کیا جاتا ہو وہ جائز ہے۔ یہی رائے ابن سیرین، سلم بن عبداللہ، عِکرمہ بن خالد اور سعید بن جُبیر سے بھی منقول ہے۔ "” (فتح الباری، ج۱۰، ص۳۰۰)

اس تفصیل سے یہ بات بھی اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ  اسلام میں تصاویر کی حرمت کوئی مختلف فیہ یا مشکوک مسئلہ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صریح ارشاد ات ‘ صحابہ کرام کے عمل اور فقہائے  اسلام کے متفقہ فتاویٰ کی رو سے ایک مسلم قانون ہے جسے آج بیرونی ثقافتوں سے متاثر لوگوں کی مو شگافیاں بادل نہیں سکتیں۔

بعض لوگ فوٹو اور ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر میں فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ شریعت بجائے خود تصویر کو حرام کرتی ہے نہ کہ تصویر سازی کے کسی خاص طریقے کو۔ فوٹو اس دستی تصویر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے درمیان جو کچھ بھی فرق      ہے سہ طریق تصویر سازی کے لحاظ سے ہے، اور اس لحاظ سے شریعت نے احکام میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔

بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ اسلام میں تصویر کی حرمت کا حکم محض شرک و بت پرستی کو روکنے کی خاطر دیا گیا تھا، اس اب اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لہٰذا یہ حکم باقی نہ رہنا چاہیے۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ اول تو احادیث میں کہیں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ تصاویر صرف شرک و بت پرستی کے خطرے سے بچانے کے لیے حرام کی گئی ہیں۔ دوسرے، یہ دعویٰ بھی بالکل بے بنیاد ہے کہ اب دنیا میں شرک و بت پرستی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ آج خود بر عظیم ہند پاکستان میں کروڑوں بت پرست مشرکین موجود ہیں، دنیا کے مختلف خطوں میں طرح طرح سے سرک ہو رہا ہے، عیسائی اہل کتاب بھی حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم اور اپنے متعدد اولیاء کی تصاویر اور مجسموں کو ہو ج رہے ہیں، حتٰی کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مخلوق پرستی کی آفتوں سے محفوظ نہیں ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف وہ تصویریں ممنوع ہونی چاہییں جو مشرکانہ نوعیت کی ہیں، یعنی ایسے اشخاص کی تصاویر اور مجسمے جن کو معبود بنا لیا گیا ہو، باقی دوسری تصویروں اور مجسموں کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کی باتیں کرے والے دراصل شارع کے احکام و ارشادات  سے قانون اخذ کرنے کے بجائے آپ ہی اپنے شارع بن بیٹھتے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں ہے کہ تصویر صرف ایک شرک و بت پرستی ہے کی موجب نہیں بنتی، بلکہ دنیا میں دوسرے بہت سے فتنوں کی موجب بھی بنی ہے اور بن رہی ہے۔ تصویر ان بڑے ذرائع میں سے ایک ہے جن سے بادشاہوں، ڈکٹیٹروں اور سیاسی لیڈروں کی عظمت کا سکہ عوام الناس کے دماغوں پر بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تصویر کی دنیا میں شہوانیت پھیلانے کے لیے بھی بہت بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے اور آج ی فتنہ ہر زمانے سے زیادہ برسر عروج ہے، تصاویر قوموں میں نفرت اور عداوت کے بیج بونے، فساد ڈلوانے اور عام لوگوں کو طرح طرح سے گمراہ کرنے کے لیے بھی بکثرت استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ اور آج سب سے زیادہ استعمال کی جا رہی ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ شارع نے تصویر کی حرمت کا حکم صرف بت پرستی کے استیصال کی خاطر دیا ہے، اصلاً غلط ہے۔ شارع نے مطلقاً جاندار اشیاء کی تصویر کو روکا ہے۔ ہم اگر خود شارع نہیں بلکہ شارع کے متبع ہیں تو ہمیں علی الاطلاق اس سے رک جانا چاہیے۔ ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اپنی طرف سے کوئی علت حکم خود تجویز کر کے اس کے لحاظ سے بعض تصویروں کو حرام اور بعض کو حلال قرار دینے لگیں۔

بعض لوگ چند بظاہر بالکل ’’بے ضرر‘‘ قسم کی تصاویر کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ آخر ان میں کیا خطرہ ہے، یہ تو شرک اور شہوانیت اور فساد انگیز ی اور سیاسی پروپیگنڈے اور ایسے ہیں دوسرے مفسدات سے قطعی پاک ہیں، پھر ان کے ممنوع ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس معاملہ میں لوگ پھر وہی غلطی کرتے ہیں کہ پہلے علت حکم خود تجویز کر لیتے ہیں اور اس کے بعد یہ سوال کرتے ہیں کہ جب فلاں چیز میں یہ علت نہیں پائی جاتی تو وہ کیوں ناجائز ہے۔ علاوہ بریں یہ لوگ اسلامی شریعت کے اس قاعدے کو بھی نہیں سمجھتے کہ وہ حلال اور حرام کے درمیان ایسی دھندلی اور مبہم حد بندیاں قائم نہیں کرتی جن سے آدمی یہ فیصلہ نہ کر سکتا ہو کہ وہ کہاں تک جواز کی حد میں ہے اور کہاں اس حد کو پار کر گیا ہے، بلکہ ایسا واضح خط امتیاز کھینچتی ہے جسے ہر شخص روز روشن کی طرح دیکھ سکتا ہو۔ تصاویر کے درمیان یہ بندی قطعی واضح ہے کہ جانداروں کی تصویریں حرام اور بے جان اشیاء کی تصویریں حلال ہیں۔ اس خط امتیاز میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے جسے احکام کی پیروی کرنی ہو وہ صاف صاف جان سکتا ہے کہ اس کے لیے کیا چیز جائز ہے اور کیا نا جائز۔ لیکن اگر جانداروں کی تصاویر میں سے بعض کو جائز اور بعض کو ناجائز  ٹھیرایا جاتا تو دونوں قسم کی تصاویر کی کوئی بڑی سے بڑی فہرست بیان کر دینے کے بعد بھی جو از کی سرحد کبھی واضح نہ ہو سکتی اور بے شمار تصویروں کے بارے میں ی اشتباہ باقی رہ جاتا کہ انہیں حد جواز کے اندر سمجھا جائے یا باہر۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے شراب کے بارے میں اسلام کا یہ حکم کہ اس سے قطعی اجتناب کیا جائے ایک صاف حد قائم کر دیتا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جاتا کہ اس کی اتنی مقدار استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے جس سے نشہ پیدا ہو تو حلال اور حرام کے درمیان کسی جگہ بھی حد فاصل قائم نہ کی جا سکتی اور کوئی شخص بھی فیصلہ نہ کر سکتا کہ کس حد تک وہ شراب پی سکتا ہے اور کہاں جا کر اسے رک جانا چاہیے۔ (مزید تفصیلی  بحث کے لیے ملاحظہ ہو رسائل و مسائل، حصہ اول، ص ۱۵۲ تا ۱۵۵)

۲۱۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بہت بڑے پیمانے پر مہمان نوازی ہوتی تھی۔ بڑے بڑے حوض جیسے لگن اس لیے بنائے گئے تھے کہ ان میں لوگوں کے لیے کھانا نکال کر رکھا جائے  اور بھاری دیگیں اس لیے بنوائی گئی تھیں کہ ان میں بیک وقت ہزاروں آدمیوں کا کھانا پک سکے۔

۲۲۔  یعنی شکر گزار بندوں کی طرح کام کرو۔ جو شخص نعمت دینے والے کا احسان محض زبان سے مانتا ہو، مگر اس کی نعمتوں کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہو، اس کا محض زبانی شکر یہ بے معنی ہے۔ اصل شکر گزار بندہ وہی ہے جو زبان سے بھی نعمت کا اعتراف کرے، اور اس کے ساتھ منعم کی عطا کردہ نعمتوں سے وہی کام بھی لے جو منعم کی مرضی کے مطابق ہو۔

۲۳۔ اصل لفظ ہیں تَبَیَّنَتِ الجِنُّ۔۔ اس فقرے کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے۔ اور دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنوں کا حال کھل گیا یا منکشف ہو گیا۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ خود جِنوں کو پتہ چل گیا کہ غیب دانی کے متعلق ان کا زعم غلط ہے۔ دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ عام لوگ جو جنوں کو غیب داں سمجھتے تھے ان پر یہ راز فاش ہو گیا کہ وہ علم غیب نہیں رکھتے۔

۲۴۔ موجودہ زمانے کے بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ حضرت سلیمان کا بیٹا رَجُبعام  چونکہ نالائق اور عیش پسند تھا اور خوشامدی مصاحبوں کیں گھرا ہوا تھا، اس لیے اپنے جلیل القدر والد کی وفات کے بعد وہ اس بار عظیم کو نہ سنبھال سکا جو اس پر آ پڑا تھا۔ اس کی جانشینی کے تھوڑ ی مدت بعد ہی سلطنت کا قصر دھڑام سے زمین پر آ رہا اور گرد و پیش کے جن سرحدی قبائل(یعنی جِنوں ) کو حضرت سلیمانؑ نے اپنی قوت قاہرہ سے خادم بنا رکھا تھا وہ سب قابو وے نکل گئے۔ لیکن یہ تاویل کسی طرح بھی قرآن کے الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن کے الفاظ جو نقشہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ پر ایسی حالت میں موت طاری ہوئی جبکہ وہ ایک عصا کے سہارے کھڑے یا بیٹھے تھے۔ اس عصا کی وجہ سے ان کا بے جان جسم اپنی جگہ قائم رہا اور جِن  یہ سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں لگے رہے کہ وہ زندہ ہیں۔ آخر کار جب عصا کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلا ہو گیا تو ان کا جسم زمین پر گر گیا اور اس وقت جنوں کو پتہ چلا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس صاف اور صریح بیان واقعہ کو آخر یہ معنی پہنانے کی معقول وجہ ہے کہ گھن سے مراد حضرت سلیمان کے بیٹے کی نالائقی ہے، اور عصا سے مراد ان کا اقتدار ہے، اور ان کے مردہ جسم کے گر جانے سے مراد ان کی سلطنت کا پارہ پارہ ہو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر یہی مضمون بیان کرنا ہوتا تو کیا اس کے لیے عربی مبین میں الفاظ موجود نہ تھے کہ اس ہیر پھیر کے ساتھ اسے بیان کیا جاتا؟ یہ پہیلیوں کی زبان آخر قرآن مجید میں کہاں استعمال کی گئی ہے؟ اور اس زمانے کے عام عرب جو اس کلام کے اولین مخاطب تھے، یہ پہیلی کیسے بوجھ سکتے تھے؟

پھر اس تاویل کا سب سے زیادہ عجیب حصہ یہ ہے کہ اس میں جنوں سے مراد وہ سرحدی قبائل لیے گیے ہیں جنہیں حضرت سلیمان نے اپنی خدمت میں لگا رکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان قبائل میں سے کون غیب دانی کا مدعی تھا اور کس کو مشرکین غیب داں سمجھتے تھے؟ آیت کے آخری الفاظ کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر پڑھے تو وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جن سے مراد یہاں لازماً کوئی ایسا گروہ ہے جو یا تو خود غیب دانی کا دعوی رکھتا تھا، یا لوگ اس کو غیب داں سمجھتے تھے، اور اس گروہ کے غیب سے نا واقف ہونے کا راز اس واقعہ نے فاش کر دیا کہ وہ حضرت سلیمانؑ کو زندہ سمجھتے ہوئے خدمت میں لگے رہے، حالاں کہ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ قرآن مجید کا یہ بیان اس کے لیے کافی تھا کہ ایک ایسا ایماندار آدمی اس کو دیکھ کر اپنے اس خیال پر نظر ثانی کر لیتا کہ جن سے مراد سرحدی قبائل ہیں۔ لیکن جو لوگ مادّہ پرست دنیا کے سامنے جِن نامی ایک پوشیدہ مخلوق کا وجود تسلیم کرتے ہوئے شرماتے ہیں وہ قرآن کی اس تصریح کے باوجود اپنی تاویل پر مُصر ہیں۔

قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مشرکین عرب جنوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے تھے، انہیں اللہ کی اولاد سمجھتے تھے اور ان سے پناہ مانگا کرتے تھے :

وَجَعَلُو لِلہِ شُرَکآَءَ الجِنَّ وَخَلَقَھُم۔ (الانعام، ۱۰۰)

اور انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا لیا حالانکہ اس نے ان کو پیدا کیا ہے۔

وَجَعَلُو  ا بَینَہْ وَبَیْنَ الجِنّۃِ نَسَبَا۔ (الصّٰفّٰت۔ ۱۵۸)

اور انہوں نے اللہ کے اور جنوں کے درمیان نسبی  تعلق تجویز کر لیا۔

وَاَنَّہْ کَانَ رِجَال مِّنَ ا لْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِ جَالٍ م/ِّنَ الْجِنِّ۔ (الجن۔ ۶)

اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے۔

انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ وہ جنوں کو عالم الغیب سمجھتے تھے اور غیب کی باتیں جاننے کے لیے ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ یہاں اسی عقیدے کی تردید کے لیے یہ واقعہ سنا رہا ہے  اور اس سے مقصود کفار عرب کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم لوگ خواہ مخواہ جاہلیت کے غلط عقائد پر اصرار کیے چلے جا رہے  ہو  حالانکہ تمہارے یہ عقائد بالکل بے بنیاد ہیں (مزید توضیح کے لیے آگے حاشیہ نمبر ۶۳ ملاحظہ ہو)

۲۵۔         سلسلۂ بیان کو سمجھنے کے لیے رکوع اول کے مضمون کو نگاہ ہیں رکھنا ضروری ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار عرب آخرت کی آمد کو بعید از عقل سمجھتے تھے۔ اور جو رسولؐ اس عقیدے کو پیش کر رہا  تھا اس کے متعلق کھلم کھلا یہ کہہ رہے تھے کہ ایسی عجیب باتیں کرنے والا آدمی یا تو مجنون ہو سکتا ہے، یا پھر وہ جان بوجھ کر افترا پردازی  کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے پہلے چند عقل دلائل ارشاد فرمائے جن کی تشریح ہم حواشی نمبر ۷۔ ۸۔ ۱۲ میں کر چکے ہیں۔ اس کے بعد رکوع دوم میں حضرت داؤد و سلیمانؑ کا قصّہ اور پھر سبا کا قصہ ایک تاریخی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس سے مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ روئے زمین پر خود نوع انسانی کی اپنی سرگزشت قانونِ مکافات کی شہادت دے رہی ہے۔ انسان اپنی تاریخ کو غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے جس کا سارا کارخانہ اندھا دھند چل رہا ہو بلکہ اس پر ایک سمیع و بصیر خدا فرمانروائی  کر رہا ہے جو شکر کی راہ اختیار کرنے والوں کے  ساتھ ایک معاملہ کرتا ہے اور  ناشکری و کافر نعمتی کی راہ چلنے والوں کے ساتھ بالکل ہی ایک دوسرا معاملہ فرماتا ہے۔ کوئی سبق لینا چاہے تو اسی تاریخ سے یہ سبق لے سکتا ہے کہ جس خدا کی سلطنت کا یہ مزاج ہے اس کی خدائی  میں نیکی اور بدی کا انجام کبھی یکساں نہیں ہو سکتا۔ اس کے عدل و انصاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے  جب نیکی کا پورا اجر اور بدی کا پورا بدلہ دیا جائے۔

۲۶۔  یعنی اس امر کی نشانی کہ جو کچھ ان کو میسر ہے وہ کسی کا عطیہ ہے نہ کہ ان کا اپنا آفریدہ۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کے بندگی و عبادت اور شکر و سپاس کا مستحق وہ خدا ہے جس نے ان کو یہ نعمتیں دی ہیں نہ کہ وہ جن کا کوئی حصہ ان نعمتوں کی بخشش میں نہیں ہے۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کی دولت لازوال نہیں ہے بلکہ طرح آئی ہے اسی طرح جا بھی  سکتی ہے۔

۲۷۔  اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں بس دوہی باغ تھے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سبا کی پوری سر زمین گلزار بنی ہوئی تھی۔ آدمی جہاں بھی کھڑا ہوتا اسے اپنے دائیں جانب بھی باغ نظر آتا اور بائیں جانب بھی۔

۲۸۔ یعنی بندگی و شکر گزاری کے بجائے انہوں نے نا فرمانی و نمک  حرامی کی روش اختیار کر لی۔

۲۹۔ اصل میں لفظ سَیْلُ الْعَرِم  استعمال کیا گیا ہے۔ عَرِم جنوبی عرب کی زبان کے لفظ عرمن سے ماخوذ ہے جس کے معنی ’’بند‘‘ کے ہیں۔ یمن کے  کھنڈروں میں جو قدیم کتبات موجودہ زمانے میں دستیاب ہوئے ہیں ان میں یہ لفظ اس معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ۵۴۲ء یا ۵۴۳ء کا ایک کتبہ جو یمن کے حبشی گورنر اَبرہہ نے سدّ مارِب کی مرمت کرانے کے بعد نصب کرایا تھا اور میں وہ اس لفظ کو بار بار بند کے معنی میں استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا سیل العَرِم سے مراد وہ سیلاب ہے جو دسی بند کے ٹوٹنے سے آئے۔

۳۰۔ یعنی سیل العَرِم کے آنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارا علاقہ برباد ہو گیا۔ سبا کے لوگوں نے پہاڑوں کے درمیان بند باندھ باندھ کر جو نہریں جاری کی تھیں وہ سب ختم ہو گئیں اور آب پاشی کا پورا نظام درہم برہم ہو گیا۔ اس کے بعد وہی علاقہ جو کبھی جنت نظیر بنا ہوا تھا خود رو  جنگلی درختوں سے بھر گیا اور اس میں کھانے کے قابل اگر کوئی چیز باقی رہ گئی تو وہ محض جھاڑی بوٹی کے بیر تھے۔

۳۱۔ ’’برکت والی بستیوں ‘‘ سے مراد شام و فلسطین کا علاقہ ہے جسے قرآن مجید میں عموماً اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف، آیت ۱۳۷۔ بنی اسرائیل، آیت ۱۔ الانبیاء، آیات ۷۱ و ۸۱)

’’نمایاں بستیوں ‘‘سے مراد ہیں ایسی بستیاں جو شاہراہ عام پر واقع ہوں، گوشوں میں چھپی ہوئی نہ ہوں۔ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بستیاں بہت زیادہ فاصلے پر نہ تھیں بلکہ متصل تھیں۔ ایک بستی کے آثار ختم ہونے کے بعد دوسری بستی کے آثار نظر آنے لگتے تھے۔

سفر کی مسافتوں کو ایک اندازے پر رکھنے سے مراد یہ ہے کہ یمن سے شام تک کا پورا سفر مسلسل آباد علاقے میں ملے ہوتا تھا جس کی ہر منزل سے دوسری منزل تک کی مسافت معلوم و متعین تھی۔ آباد علاقوں کے سفر اور غیر آباد صحرائی علاقوں کے سفر میں یہی فرق ہوتا ہے۔ صحرا میں مسافر جب تک چاہتا ہے چلتا ہے اور جب تھک جاتا ہے تو کسی جگہ پڑاؤ کر لیتا ہے۔ بخلاف اس کے آباد علاقوں میں راستے کی ایک بستی سے دوسری بستی تک کی مسافت جانی بوجھی اور متعین ہوتی ہے۔ مسافر پہلے سے پروگرام بنا سکتا ہے کہ راستے کے کن کن مقامات پر وہ ٹھیر تا ہوا جائے گا، کہاں دوپہر گزارے گا اور کہاں رات بسر کرے گا۔

۳۲۔ ضروری نہیں ہے کہ انہوں زبان ہی سے یہ دعا کی ہو۔ دراصل جو شخص بھی خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی نا شکری کرتا ہے وہ گویا زبان حال سے یہ کہتا ہے کہ خدایا، میں ان نعمتوں مستحق نہیں ہوں۔ اور اسی طرح جو قوم اللہ کے فضل سے غلط فائدہ اٹھاتی ہے وہ گویا اپنے رب سے یہ دعا کرتی ہے کہ اے پروردگار، یہ نعمتیں ہم سے سلب کر لے کیونکہ ہم ان کے قابل نہیں ہیں۔

علاوہ بریں رَبَّنَا بَا عِدْ بَیْنَ اَسْفَا رِنَا (خدایا ہمارے سفر دور دراز کر دے ) کے الفاظ سے کچھ یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ شاید سبا کی قوم کو اپنی آبادی کی کثرت کھَلنے لگی تھی اور دوسری نادان قوموں کی طرح اس نے بھی اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو خطرہ سمجھ کر انسانی نسل کی افزائش کو روکنے کی کوشش کی تھی۔

۳۳۔ یعنی سبا کی قوم   ایسی منتشر ہو ئ کہ اس پرا گندگی ضرب المثل ہو گئی- آج بہی اہل عرب اگر کسی گروہ کے انتشار کا ذکر تے ہیں ” تفر قوا ایدی سبا'” وہ تو ایسے پرا گندہ ہو گئے جیسے سبا کی قوم پر گندہ ہوئی تہی۔ ” اللہ تعالی کی طرف سے جب  زوال نعمت کا دور شروع ہوا تو سبا کے مختلف قبیلے اپنا وطن چہو ڑ چہو ڑ کر عرب کے مختلف علاقوں میں چلے گئے۔ غسانیوں نے اردن اور شام کا رُ خ کیا۔ اَوس و خز ر ج کے قبیلے یثرب میں جا بسے۔ خُز ا عہ نے جدے کے قریب تہامہ کے علاقہ میں سکونت اختیار کی۔ اَزد کا قبیلہ عمان میں جا کر آباد ہوا۔  لحنم اور کندہ بہی نکلنے پر مجبور ہوئے۔ حتی کہ ” سبا ” نام کی کوئی قوم ہی دنیا میں باقی نہ رہی۔ صرف اس کا ذکر افسانوں میں رہ گیا۔

۳۴۔ اس سیاق و سباق میں صابر و شاکر سے مراد ایسا شخص یا گروہ ہے جو اللہ کی طرف سے نعمتیں پا کر آپے سے باہر نہ ہو جائے، نہ خوشحالی پر پھولے اور نہ اس خدا کو بھول جائے جس نے یہ سب کچھ اسے عطا کیا ہے۔ ایسا انسان ان لوگوں کے حالات سے بہت کچھ   سبق لے سکتا ہے جنہوں نے عروج و ترقی کے مواقع پا کر نا فرمانی کی روش اختیار کی اور اپنے انجام بد سے دوچار ہو کر ہے۔

۳۵۔ تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قدیم زمانے سے قوم سبا میں ایک عنصر موجود تھا جو دوسرے معبودوں کو ماننے کے بجائے خدائے واحد کو مانتا تھا۔ موجودہ زمانے کی اثری تحقیقات کے سلسلے میں یمن کے کھنڈروں سے جو کتبات ملے ہیں ان میں سے بعض اس قلیل عنصر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ۶۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے کے بعض کتبات بتاتے ہیں کہ مملکت سبا کے متعدد مقامات پر ایسی عبادت گاہیں بنی ہوئی تھیں جو ذُسمو ی یا ذوسماوی (یعنی رب السماء) کی عبادت کے لیے مخصوص تھیں۔ بعض مقامات پر  اس معبود کا نام ملکن ذُ سموی(وہ بادشاہ جو آسمانوں کا مالک ہے ) لکھا گیا ہے۔ یہ عنصر مسلسل صدیوں تک یمن میں موجود رہا۔ چنانچہ ۳۷۸ ء کے ایک کتبے میں بھی الٰہ دوسموی کے نام سے ایک عبادت گاہ کی تعمیر کا ذکر ملتا ہے۔ پھر ۴۶۵ ء کے ایک کتبے میں یہ الفاظ پائے جاتے ہیں: بنصرور داالٰھن بعل سمین وارضین ( یعنی اس خدا کی مدد اور تائید سے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے )۔ اسی زمانہ کے ایک اور کتبے میں جس کی تاریخ ۴۵۸ قبل مسیح ہے اسی خدا کے لیے رحمان کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اصل الفاظ ہیں بردا رحمنن(یعنی رحمان کی مدد سے )۔

۳۶۔ یعنی ابلیس کو یہ طاقت حاصل نہ تھی کہ ان کا ارادہ تو خدا کی فرمانبرداری کرنے کا ہو مگر وہ زبردستی ان کا ہاتھ پکڑ ا کر انہیں نا فرمانی کی راہ پر کھینچ لے گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی قدرت اس کو دی تھی کہ  وہ انہیں بہکائے اور ایسے تمام لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لے جو خود اس کی پیروی کرنا چاہیں۔ اور اس اغوا کے مواقع ابلیس کو اس لیے عطا کیے گئے تاکہ آخرت کے ماننے والوں اس کی آمد میں شک رکھنے والوں کا فرق کھل جائے۔

دوسرے الفاظ میں یہ ارشاد ربانی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ عقیدہ آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو اس دنیا میں انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے کی ضامن ہو سکتی ہو۔ اگر کوئی شخص یہ نہ مانتا ہو کہ اسے مر کر دوبارہ اٹھنا ہے اور اپنے خدا کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے، تو وہ لازماً گمراہ و بد راہ ہو کر رہے گا، کیونکہ اس کے اندر سرے سے وہ احساس ذمہ داری پیدا ہی نہ ہو سکے گا جو آدمی کو راہ راست پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ اسی لیے شیطان کا سب سے بڑا حربہ، جس سے وہ آدمی کو اپنے پھندے میں پھانستا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے آخرت سے غافل کرتا ہے۔ اس کے اس فریب سے جو شخص بچ نکلے وہ کبھی اس بات پر راضی نہ ہو گا کہ اپنی اصل دائمی زندگی کے مفاد کو دنیا کی اس عارضی زندگی کے مفاد پر قربان کر دے۔ بخلاف اس کے جو شخص شیطان کے دام میں آ کر آخرت کا منکر ہو جائے، یا کم از کم اس کی طرف سے شک میں پڑ جائے، اسے کوئی چیز اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ جو نقد سَودا اِس دنیا میں ہو رہا ہے اس سے صرف اس لیے ہاتھ اٹھا لے  کہ اس سے کسی بعد کی زندگی میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ دنیا میں جو شخص بھی گمراہ ہوا ہے اسی انکار آخرت یا شک فی ا لآخرۃ کی وجہ سے ہوا ہے، اور جس نے بھی راست روی اختیار کی ہے اس کے صحیح طرز عمل کی بنیاد ایمان بالآخرۃ ہی پر قائم ہوئی ہے۔

۳۷۔ قوم سبا کی تاریخ کی طرف یہ اشارات جو قرآن مجید میں کیے گئے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معلومات بھی ہماری نگاہ میں رہیں جو اس قوم کے متعلق دوسرے تاریخ ذرائع سے فراہم ہوئی ہیں۔

تاریخ کی رو سے ’’سبا ‘‘ جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام لے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی۔ امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن عبدالبرّ اور ترمذی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ سبا عرب کے ایک شخص کا نام تھا جس کی نسل سے عرب میں حسب ذیل قبیلے پیدا ہوئے : کِنْدَہ۔ حِمْرَ۔ اَزْد۔ اَشْعَریین۔ مَذْحِج۔ اَنْمار )جس کی دو شاخیں ہیں خَثْعَمْ اور بَجیْلَہ۔ عامِلہ۔ جُدّام۔ لَحْم اور غسان۔

بہت قدیم زمانے سے دنیا میں  عرب کی اس قوم کا شہرہ تھا۔ ۲۵۰۰ قبل مسیح میں اُور کے کتبات اس کا ذکر سابوم کے نام سے کرتے ہیں۔ اس کے بعد بابِل اور آشور (اسیریا) کے کتبات میں اور اسی طرح بائیبل میں بھی کثرت سے اس کا ذکر آیا ہے، (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو زَبور، ۷۲: ۱۵۔ یرمیاہ ۶:۲۰۔ حذقی ایل ۲۷:۲۲۔ ۳۸:۱۳۔ ایوب ۶:۱۹) یونان و روم کے مورخین و جغرافیہ نویس تھیو فراسٹس (۲۸۸ قبل مسیح) کے وقت سے مسیح کے بعد کی کئی صدیوں تک مسلسل اس کا ذکر کرتے چلے گئے ہیں۔

اس کا وطن عرب کا جنوبی کونہ تھا جو آج یمن کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے عروج کا دَور گیارہ سو برس قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں ایک دولت مند قوم کی حیثیت سے اس کا شہرہ آفاق میں پھیل چکا تھا۔ آغاز میں یہ ایک آفتاب پرست قوم تھی۔ پھر جب اس کی ملکہ حضرت سلیمان (۹۶۵۔ ۹۲۶ قبل مسیح)کے ہاتھ پر ایمان لے آئی تو اغلب یہ ہے کہ اس کی غالب اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔ لیکن بعد میں نہ معلوم کس وقت اس کے اندر شرک و بُت پرستی کا پھر زور ہو گیا اور اس نے اَلْمقہ (چاند دیوتا)، عَشْتَر (زُہرہ)ذاتِ حمیم اور ذابِ بعدان (سورج دیوی) ہوبس، حرمتم یا حریمت اور ایسے ہی دوسرے بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کو ہو جنا شروع کر دیا۔ اَلْمقہ اس قوم کا سب سے بڑا دیوتا تھا، اور اس کے بادشاہ اپنے آب کو اسی دیوتا کے وکیل کی حیثیت سے اطاعت کا حق دار قرار دیتے۔ یمن میں بکثرت کتبات ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سارا ملک ان دیوتاؤں، اور خصوصاً اَلمقہ کے مندروں سے بھرا ہوا تھا اور ہر اہم واقعہ پر ان کے شکریے ادا کیے جاتے تھے۔

آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں یمن سے تقریباً ۳ ہزار کتبات فراہم ہوئے ہیں جو اس قوم کی تاریخ پر اہم روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے ساتھ عربی روایات اور رومی و یونانی تواریخ کی فراہم کردہ معلومات کو اگر جمع کر لیا جائے تو  اچھی خاصی تفصیل کی ساتھ اس کی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔ ان معلومات کی رو سے اس کی تاریخ کے اہم ادوار  حسبِ ذیل ہیں:

۱۔ ۶۵۰ قبل مسیح سے پہلے کا دَور۔ اس زمانے میں ملوک سبا کا لقب مُکَرِّ بِ سبا تھا۔ اغلب یہ ہے کہ یہ لفظ مُقَرِّب کا ہم معنی تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بادشاہ انسانوں اور خداؤں کے درمیان اپنے آپ کو واسطہ قرار دیتے تھے، یا دوسرے الفاظ میں یہ کاہن بادشاہ (Priest-Kings) تھے۔ اس زمانے میں ان کا پایہ تخت صرواح تھا جو کے کھنڈر آج بھی مارِب سے مغرب ایک دن کی راہ پر پائے جاتے ہیں اور خَربیہ کے جام سے مشہور ہیں۔ اسی دَور میں مارب کے چند بند کی بنا رکھی گئی اور  وقتاً فوقتاً مختلف بادشاہوں نے اسے وسیع کیا۔

۲۔ ۶۵۰ قبل مسیح سے ۱۱۵ قبل مسیح تک کا دور۔ اس دَور میں سبا کے بادشاہوں نے مکرب کا لقب چھوڑ کر مَلِک (بادشاہ) کا لقب اختیار کر لیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت میں مذہبیت کی جگہ سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب ہو گیا اس زمانے میں ملوکِ سبا نے صرواح کو چھوڑ کر مارب کو اپنا دار السلطنت بنایا اور اسے غیر معمولی ترقی دی۔ یہ مقام سمندر سے ۳۹۰۰ فیٹ کی بلندی پر صنعاء سے ۶۰ میل جانب مشرق واقع اور آج تک اس کے کھنڈر شہادت دے رہے ہیں کہ یہ کبھی ایک بڑی متمدن قوم کا مرکز تھا۔

۳۔ ۱۱۵ ق م سے ۳۰۰ عیسوی  تک کا دور۔ اس زمانے میں سبا کی مملکت پر حمیر کا قبیلہ غالب ہو گیا جو قوم سبا ہی کا ایک قبیلہ تھا اور تعداد میں دوسرے تمام قبائل سے بڑھا ہوا تھا۔ اس دور میں مارب کو اجاڑ کر رَیدان پایہ تخت بنایا گیا جو قبیلہ حمیر کا مرکز تھا۔ بعد میں یہ شہر ظفار کے نام سے موسوم ہوا۔ آج کل موجودہ شہر یریم کے قریب  ایک مدوَّر پہاڑی پر اس کے کھنڈر ملتے ہیں اور اسی کے قریب علاقہ میں ایک چھوٹا سا قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصوّر تک نہیں کر سکتا کہ یہ اسی قوم کی یاد گار ہے جس کے ڈنکے کبھی دنیا بھر میں بجتے تھے۔ اسی زمانے میں سلطنت کے ایک حصّہ کی حیثیت سے پہلی مرتبہ لفظ یمنت اور یمینات کا استعمال ہونا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ یمن اس پورے علاقے کا نام ہو گیا جو عرب کے جنونی مغربی کونے پر عسیر سے عدن تک اور باب المندب سے حضر موت تک واقع ہے۔ یہی دور ہے جس میں سبائیوں کا زوال شروع ہوا۔

۴۔ ۳۰۰ ء کے بعد سے آغاز اسلام تک کا دور۔ یہ قوم سبا کی تباہی کا دور ہے۔ اس دور میں ان کے ہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں۔ بیرونی قوموں کی مداخلت شروع ہوئی۔ تجارت برباد ہوئی۔ زراعت نے دم توڑا اور آخر کار آزاد ی تک ختم ہو گئی۔ پہلے رَیدانیوں، حمیریوں، اور ہمدانیوں کی باہمی نزاعات سے فائدہ اٹھا کر ۳۴۰ سے ۳۷۸ ء تک یمن پر حبشیوں کا قبضہ رہا۔ پھر آزادی تو بحال ہو گئی مگر مارب کے مشہور بند میں رخنے پڑنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ آخر کار ۴۵۰ ء یا ۴۵۱ ء میں بند کے ٹوٹنے سے وہ عظیم سیلاب آیا جس کا ذکر قرآن مجید کی آیات میں کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس کے  بعد اَبرہہ کے زمانے تک اس بن کی مسلسل مرمتیں ہوتی رہیں، لیکن جو آبادی منتشر ہو چکی تھی وہ پھر جمع نہ ہو سکی اور نہ آب پاشی اور زراعت کا وہ نظام جو درہم برہم ہو چکا  تھا، دوبارہ بحال ہو سکا۔ ۵۲۳ ء میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونو اس  نے نَجران کے عیسائیوں پر وہ ظلم و ستم برپا کیا جس کا ذکر قرآن مجید میں اصحاب الاُخدود  کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں حبش کی عیسائی سلطنت یمن پر انتقاماً حملہ آور ہو گئی اور اس نے سارا ملک فتح کر لیا۔ اس کے بعد یمن کے حبشی وائسرائے ابرہہ نے کعبہ کی مرکزیت ختم کرنے اور عرب کے پورے مغربی علاقے کو رومی حبشی اثر میں لانے کے لیے ۵۷۰ یا ۵۷۱ ء میں (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش سے چند روز قبل) مکہ و معظمہ پر حملہ کیا اور اس کی پوری فوج پر وہ تباہی آئی جسے قرآن مجید میں اصحاب الفیل کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔ آخر کار  ۵۷۵ ء میں یمن پر ایرانیوں کا قبضہ ہوا، اور اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب ۶۲۸ ء میں ایرانی گورنر باذان نے اسلام قبول کر لیا۔

قوم سبا کا عروج دراصل دو بنیادوں پر قائم تھا۔ ایک زراعت۔ دوسرے تجارت۔ زراعت کو انہوں نے آب پاشی کے ایک بہترین نظام کے ذریعہ سے ترقی دی تھی جس کے مثل کوئی دوسرا نظام آب پاشی بابل کے سوا قدیم زمانے میں کہیں نہ پایا جاتا تھا۔ ان کی سر زمین میں قدرتی دریا نہ تھے۔ بارش کے زمانے میں پہاڑوں سے برساتی نالے بہ نکلتے تھے۔ انہی نالوں پر سارے ملک میں جگہ جگہ بن باندھ کر انہوں نے تالاب بنا لیے تھے اور ان سے نہریں نکال نکال کر پورے ملک کو اس طرح سیراب کر دیا تھا کہ قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق ہر طرف ایک باغ ہی باغ نظر آتا تھا۔ اس نظام آب پاشی کا سب س بڑا مخزن آب وہ تالاب تھا جو شہر مارب کے قریب کوہ بلق کی درمیانی وادی پر بن باندھ کر تیار کیا گیا تھا مگر جب اللہ کی نظر عنایت ان سے پھر گئی تو پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں یہ عظیم الشان بند ٹوٹ گیا اور اس سے نکلنے والا سیلاب راستے میں بند توڑتا چلا گیا یہاں تک کہ ملک کا پورا نظام آب پاشی تباہ ہو کر رہ گیا۔ پھر کوئی اسے بحال نہ کر سکا۔

تجارت کے لیے اس قوم کو خدا نے بہترین جغرافی مقام عطا کیا تھا جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔ ایک ہزار برس سے زیادہ مدت تک یہی قوم مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی۔ ایک طرف ان کے بندرگاہوں میں چین کا ریشم، انڈونیشیا اور مالا بار کے گرم مسالے، ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام، بندر شتر مرغ کے پر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے اور دوسری طرف یہ ان چیزوں کو مصر اور شام کی منڈیوں میں پہنچاتے تھے جہاں سے روم و یونان تک یہ مال روانہ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ خود ان کے علاقے میں لوبان، عود، عنبر، مشک، مُرّ، قرفہ، قصب الذَّرِیرہ، سلیخہ اور دوسری ان خوشبو دار چیزوں کی بڑی پیداوار تھی جنہیں مصر و شام اور روم و یونان کے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔

اس عظیم الشان تجارت کے دو بڑے راستے تھے۔ ایک بحری۔ دوسری برّی۔ بحری تجارت کا اجارہ ہزار سال تک انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھا، کیونکہ بحر احمر کی موسمی ہواؤں، زیر آپ چٹانوں، اور لنگر اندازی کے مقامات کا راز یہی لوگ جانتے تھے اور دوسری کوئی قوم اس خطرناک سمندر میں جہاز چلانے کی ہمت نہ رکھتی تھی۔ اس بحری راستے سے  یہ لوگ اردن اور مصر کی بندرگاہوں تک اپنا مال پہنچایا کرتے تھے۔ برّی راستے عدن اور حضرموت  سے مارب پر جا کر ملتے تھے اور پھر وہاں سے ایک شاہراہ مکہ، جدہ، یثرب، العُلاء، تبوک اور ایلہ  سے گزرتے ہوئی پَٹرا تک پہنچتی تھی۔ اس کے بعد ایک راستہ مصر کی طرف اور دوسرا راستہ شام کی طرف جاتا تھا۔ اس بری راستے پر، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے، یمن سے حدود شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم تھیں اور شب و راز ان کے تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے رہتے تھے۔ آج تک ان میں سے بہت سی نو آبادیوں کے آثار اس علاقے میں موجود ہیں اور وہاں سبائی و حمیری زبان کے کتبات مل رہے ہیں۔

پہلی صدی عیسوی کے لگ بھگ زمانے میں اس تجارت پر زوال آنا شروع ہوع ہو گیا۔ مشرق اوسط میں جب یونانیوں اور پھر رومیوں کی طاقت ور سلطنتیں قائم ہوئیں تو شور مچنا شروع ہو کہ عرب تاجر اپنی اجارہ داری کے باعث مشرق کے اموال تجارت کی من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ ہم خود اس میدان میں آگے بڑھ کر اس تجارت پر قبضہ کریں۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے مصر کے یونانی الاصل فرمانروا بطلیموس ثانی (۲۸۵۔ ۲۴۶ قبل مسیح) نے اس قدیم نہر کو پھر سے کھولا جو ۱۷ سو برس پہلے فرعون سِسوسترِیس نے دریائے نیل کو بحر احمر سے ملانے کے لیے کھدوائی تھی۔ اس نحر کے ذریعہ سے مصر کا بحری بیڑا پہلی مرتبہ بحر احمر میں داخل ہوا۔ لیکن سبائیوں کے مقابلے میں یہ کوشش زیادہ کارگر نہ ہو سکی۔ پھر جب مصر پر روم کا قبضہ ہوا تو رومی زیادہ طاقت ور تجارتی بیڑا بحر احمر میں لے آئے اور اس کی پشت پر انہوں نے ایک جنگی بیڑا بھی لا کر ڈال دیا۔ اس طاقت کا مقابلہ سبائیوں کے بس میں نہ تھا۔ رومیوں نے جگہ جگہ بندرگاہوں پر اپنی تجارتی نو آبادیاں قائم کیں، ان میں جہازوں کی ضروریات فراہم کرنے کا انتظام کیا، اور جہاں ممکن ہو وہاں اپنے فوجی دستے بھی رکھ دئے۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آ گیا کہ عدن پر رومیوں کا فوجی تسلط قائم ہو گیا۔ اسے سلسلے میں رومی اور حبشی سلطنتوں نے سبائیوں کے مقابلے میں باہم ساز باز بھی کر لیا جس کی بدولت بالآخر اس قوم کی آزادی تک ختم ہو گئی۔

بحری تجارت ہاتھ وے نکل جانے کے بعد صرف بری تجارت سبائیوں کے پاس رہ گئی تھی۔ مگر بہت سے اسباب نے رفتہ رفتہ اس کی کمر بھی توڑ دی۔ پہلے نَبطیوں نے پیڑا سے الُعلا تک بالائی حجاز اور اردن کی تمام نو آبادیوں سے سبائیوں کو نکال باہر کیا۔ پھر ۱۰۶ ء میں رومیوں نے نبطی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور حجاز کی سرحد تک شام و اردن کے تمام علاقے ان کے مضبوط ہاتھو میں چلے گئے۔ اس کے بعد حبش اور روم کی متحدہ کوشش یہ رہی کہ سبائیوں کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھا کر ان کی تجارت کو بالکل تباہ کر دیا جائے۔ اسی بنا پر حبشی بار بار یمن میں مداخلت کرتے رہے یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔

اس طرح اللہ تعالیٰ کے غضب نے اس قوم کو انتہائی عروج سے گرا کر اس گڑھے میں پھینک دیا جہان سے پھر کوئی مغضوب قوم کبھی سر نہیں نکال سکی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس کی دولت کے افسانے سن سن کر یونان و روم والوں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔ اسٹاہو لکھتا ہے کہ یہ لوگ سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرتے ہیں، اور ان کے مکانوں کی چھتوں، دیواروں اور دروازوں تک میں ہاتھی دانت، سونے، چاندی اور جواہر کا کام بنا ہوا ہوتا ہے۔ پلینی کہتا ہے کہ روم اور فارس کی دولت ان کی طرف بہی چلی جا رہی ہے، یہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم ہیں، اور ان کا ور سبز و شاداب ملک باغات، کھیتوں اور مواشی سے بھرا ہوا ہے۔ آر ٹی میڈورس کہتا ہے کہ یہ لوگ عیش میں مست ہو رہے ہیں اور جلانے کی لکڑی کے بجائے دار چینی، صندل اور دوسری خوشبو دار لکڑیاں جلاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے یعنانی مورخین روایت کرتے ہیں کہ ان کے قریب سواحل سے گزرتے ہوئے تجارتی جہازوں تک خوشبو کی لپیٹیں پہنچتی ہیں۔ انہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صنعا کے بلند پہاڑی مقام پروہ فلک شگاف عمارت(Skyscraper) تعمیر کی جو قصر  غُمدان کے نام سے صدیوں تک رہا جب تک اللہ کا فضل ان کے شامل حال رہا۔ آخر کار جب انہوں نے کفران نعمت کی حد کر دی تو رب قدیر کی نظر عنایت ہمیشہ کے لیے ان سے پھر گئی اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔

 

ترجمہ

 

(اے نبی(۳۸)،  ان مشرکین سے ) کہو کہ پکار دیکھو اپنے ان معبودوں کو جنھیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو(۳۹)۔ وہ نہ آسمانوں میں کسی ذرہ برابر چیز کے مالک ہیں نہ زمین میں۔ وہ آسمان و زمین کی ملکیت میں شریک بھی نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی اللہ کا مدد گار بھی نہیں ہے۔ اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہو سکتی  بجز اس شخص کے جا کے لیے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو(۴۰)۔ حتی کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو گی تو سہ (سفارش کرنے والوں سے )پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا جواب دیا۔ وہ کہیں گے کہ ٹھیک جواب ملا ہے اور وہ بزرگ و برتر ہے (۴۱)۔

(اے نبیؐ) ان سے پوچھو، ’’ کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے ’‘؟ کہو ’’ اللہ (۴۲)۔ اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے (۴۳)۔ ان سے کہو، ’’ جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی کوئی باز پرس تم سے نہ ہو گی اور جو کچھ تم کر رہو اس کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی (۴۴)۔ ‘‘ کہو ’’ ہمارا رب ہم جمع کرے گا، پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا۔ سہ ایما زبردست حام ہے جو سب کچھ جانتا ہے (۴۵)۔ ‘‘ ان سے کہو، ’’ ذرا مجھے دکھاؤ  تو سہی وہ کون سی ہستیاں ہیں جنہیں تم نے اس کے ساتھ شریک لگا رکھا ہے (۴۶)۔ ‘‘ ہر گز نہیں، زبردست اور دانا تو بس وہ اللہ ہی ہے۔

اور (اے نبیؐ) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں(۴۷)۔

یہ لوگ تم سے کہتے ہیں کہ وہ (قیامت کا ) وعدہ کب پورا ہو گا اگر تم سچے ہو؟(۴۸)۔ کہو تمہارے لیے ایک ایسے دن کی میعاد مقرر ہے جس کے آنے میں نہ گھڑی بھی کی تا خیر تم کر سکتے ہو اور نہ ایک گھڑی بھر  پہلے اسے  لا سکتے ہو(۴۹)۔ ع

 

تفسیر

 

۳۸۔ پچھلے دو رکوع میں آخرت کے متعلق مشرکین کے غلط تصورات پر کلام فرمایا گیا تھا۔ اب تقریر کا رخ تردید شرک کے مضمون کی طرف پھر رہا ہے۔

۳۹۔ یعنی اللہ تو یوں اشخاص اور اقوام اور سلطنتوں کی قسمتیں  بناتا اور بگاڑتا ہے، جیسا کہ ابھی تم داؤد و سلیمان  علیہما السلام اور  قوم سبا کے ذکر میں سن چکے ہو۔ اب ذرا اپنے ان بناوٹی معبودوں کو پکار کر دیکھ لو، کیا ان میں بھی یہ طاقت ہے کہ کسی کے اقبال کو ادبار سے، یا اِدبار کو اقال سے بدل سکیں؟

۴۰۔ یعنی کسی کا خود مالک ہونا، یا ملکیت میں شریک ہونا، یا مدد گار خدا ہونا تو درکنار، ساری کائنات میں کوئی ایسی ہستی تک نہیں پائی جاتی جو اللہ تعالیٰ کے حضور کسی کے  حق میں بطور خود سفارش کر سکے۔ تم لوگ اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہو کہ کچھ خدا کے پیارے ایسے ہیں، یا خدا کی خدائی میں کچھ بندے ایسے زور آور ہیں کہ وہ اَڑ بیٹھیں تو خدا کو ان کی سفارش ماننی ہی پڑے گی۔ حالانکہ وہاں حال یہ ہے کہ اجازت لیے بغیر کوئی زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ جس کو اجازت ملے گی صرف وہی کچھ عرض کر سکے گا۔ اور کس کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ملے گی اسی کے حق میں عرض معروض کی جا سکے گی۔ (اسلامی عقیدہ شفاعت اور مشرکانہ عقیدہ شفاعت کے فرق کو  سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۲۶۲۔ ۲۷۵۔ ۳۵۶۔ ۳۶۸۔ ۵۵۶۔ ۵۶۲۔ جلد سوم، ص ۱۶۲۔ ۱۵۵۔ ۲۵۲)۔

۴۱۔ یہاں اس وقت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جب قیامت کے روز کوئی سفارش کرنے والا کسی کے حق میں سفارش کی اجازت طلب کرے گا۔ اس نقشے میں یہ کیفیت ہمارے سامنے آتی ہے کہ طلب اجازت کی درخواست بھیجنے کے بعد شافع اور مشفوع  دونوں نہایت بے چینی کے علم میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے جواب کے منتظر کھڑے ہیں۔ آخر کار جب اوپر سے اجازت آ جاتی ہے اور شافع کے چہرے سے مشفوع بھانپ جاتا ہے کہ معاملہ کچھ اطمینان بخش ہے تو اس کی جان میں جان آتے ہے اور وہ آگے بڑھ کر شافع سے پوچھتا ہے ’’ کیا جواب آیا‘‘؟ شافع جواب دیتا ہے کہ ٹھیک ہے، اجازت مل گئی ہے۔ اس بیان سے جو بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ  ہے کہ نادانو ! جس بڑے دربار کی شان یہ ہے اس کے متعلقو تم کس خیال خام میں پڑے ہوئے ہو کہ وہاں کوئی اپنے زور سے تم کو بخشوا لے گا یا کسی کی یہ مجال ہو گی کہ وہاں مچل کر بیٹھ جائے اور اللہ سے کہے کہ یہ تو میرے متوسّل ہیں، انہیں تو بخشنا ہی پڑے گا۔

۴۲۔ سوال اور جواب کے درمیان ایک لطیف خلا ہے۔ مخاطب مشرکین تھے جو صرف یہی نہیں کہ اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے بلکہ یہ بھی جانتے تھے کہ رزق کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھیراتے تھے۔ اب جو ان کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ بتاؤ کون تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے، تو وہ مشکل میں پڑ گئے۔ اللہ کے سوا کسی کا نام لیتے ہیں تو خود اپنے اور اپنی قوم کے عقیدے کے خلاف بات کہتے ہیں۔ ہٹ دھرمی کی بنا پر ایسی بات کہہ بھی دیں تو ڈرتے ہیں کہ خود اپنی قوم کے لوگ ہی اس کی تردید کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اور اگر تسلیم کر لیتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے تو فوراً دوسرا سوال یہ سامنے آ جاتا ہے کہ پھر یہ دوسرے کس مرض کی دوا ہیں جنہیں تم نے خدا بنا رکھا ہے؟ رزق تو دے اللہ، اور ہو جے جائیں یہ، آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ اس دو گونہ مشکل میں پڑ کر وہ دم بخود رہ جاتے ہیں۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی دوسرا معبود رازق ہے۔ پوچھنی والا جب دیکھتا ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں بولتے، تو وہ خود اپنے سوال کا جواب دیتا ہے کہ ’’ اللہ‘‘۔

۴۳۔ اس فقرے میں حکمت تبلیغ  کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے۔ اوپر کے سوال و جواب کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ کو اللہ ہی کی بندگی و پرستش کرتا ہے وہ ہدایت پر ہو اور جو اس کے سوا دوسروں کی بندگی بجا لاتا ہے وہ گمراہی میں مبتلا ہو۔ اس بنا پر بظاہر تو اس کے  بعد کہنا یہ چاہیے تھا کہ ہم ہدایت پر ہیں اور تم گمراہ ہو۔ لیکن اس طرح دو ٹوک بات کہ دینا حق گوئی کے اعتبار  سے خواہ کتنا ہی درست ہوتا حکمت تبلیغ کے لحاظ سے درست نہ ہوتا۔ کیوں کہ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے آپ صاف صاف  گمراہ کہہ دیں اور خود اپنے برسر ہدایت ہونے کا دعویٰ کریں تو وہ ضد میں مبتلا ہو جائے  گا اور سچائی کے لیے اس کے دل کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اللہ کے  رسولؐ چونکہ مجرد حق گوئی کے لیے نہیں بھیجے جاتے بلکہ ان کے سپرد یہ کام بھی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ حکیمانہ طریقے سے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کریں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نبی، اس سوال و جواب کے بعد اب  تم ان لوگوں سے صاف کہہ دو کہ تم سب گمراہ ہو اور ہدایت پر صرف ہم ہیں۔ اس کے بجائے تلقین یہ فرمائی گئی کہ انہیں اب یوں سمجھاؤ۔ ان سے کہو ہمارے اور تمہارے درمیان یہ فرق تو کھل گیا کہ ہم اسی کو معبود مانتے  جو رزق دینے والا ہے، اور تم ان کو معبود بنا رہے ہو  جو رزق دینے والے نہیں ہیں۔ اب یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ہم اور تم دونوں بیک وقت راہ راست پر ہوں۔ اس صریح فرق کے ساتھ تو ہم میں سے ایک ہی راہ راست پر ہو سکتا ہے، اور دوسرا لامحالہ گمراہ ٹھیرتا ہے۔ اس کے بعد یہ سوچنا تمہارا اپنا کام ہے کہ دلیل کے برسر ہدایت ہونے کا فیصلہ کر رہی ہے اور کون اس کی رو سے گمراہ ہے۔

۴۴۔ اوپر کی بات سامعین کو پہلے ہی سوچنے پر مجبور کر چکی تھی۔ اس پر مزید ایک فقرہ یہ فرما دیا گیا تاکہ وہ اور زیادہ تفکر سے کام لیں۔ اس سے ان کو یہ احساس دلایا گیا کہ ہدایت اور گمراہی کے اس معاملے کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنا ہم میں سے ہر ایک کے اپنے مفاد کا تقاضا ہے۔ فرض کرو کہ ہم گمراہ ہیں تو اپنی اس گمراہی کو خمیازہ ہم ہی بھگتیں گے، تم پر اس کی کوئی پکڑ نہ ہو گی۔ اس لیے یہ ہمارے اپنے مفاد کا تقاضا ہے کہ کوئی عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے خوب سوچ لیں کہ کہیں ہم غلط راہ پر تو نہیں جا رہے ہیں۔ اسی طرح تم کو بھی ہماری کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی ہی خیر خواہی کی خاطر ایک عقیدے پر جمنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ کہیں تم کسی باطل نظریے پر تو اپنی زندگی کی ساری پونجی نہیں لگا رہے ہو۔ اس معاملے میں اگر تم نے ٹھوکر کھائی تو تمہارا اپنا ہی نقصان ہو گا، ہمارا کچھ نہ بگڑے گا۔

۴۵۔ یہ اس معاملہ پر غور کرنے کے لیے آخری اور سب سے بڑا محرک ہے جس کی طرف سامعین کی توجہ دلائی گئی ہے۔ بات اسی حد پر ختم نہیں ہو جاتی کہ  اس زندگی میں ہمارے اور تمہارے درمیان حق و باطل کا اختلاف ہے اور ہم میں سے کوئی ایک ہی حق پر ہے، بلکہ اس کے آگے حقیقت نفس الامری یہ بھی ہے کہ ہمیں اور تمہیں، دونوں ہی کو اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اور رب وہ ہے جو حقیقت کو بھی جانتا ہے اور ہم دونوں گروہوں کے حالات سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔ وہاں جا کر نہ صرف اس امر کا فیصلہ ہو گا کہ ہم میں اور تم میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون۔ بلکہ اس مقدمے کا فیصلہ بھی ہو جائے گا کہ ہم نے تم پر حق واضح کرنے کے لیے کیا کچھ کیا اور تم نے باطل پرستی کی ضد میں آ کر ہماری مخالفت کس کس طرح کی۔

۴۶۔ یعنی قبل اس کی کہ تم ان معبودوں کے بھروسے پر اتنا بڑا خطرہ مول لو، ذرا مجھے یہیں بتا دو کہ ان میں کون اتنا زور آور ہے کہ اللہ کی عدالت میں وہ تمہارا حمایتی بن کر اٹھ سکتا ہو اور تمہیں اس کی گرفت سے بچا سکتا ہو۔

۴۷۔ یعنی تم صرف اسی شہر، یا اسی ملک، یا اسی زمانے کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہو۔ مگر یہ تمہارے ہم عصر اہل وطن تمہاری قدر و منزلت کو نہیں سمجھتے اور ان کو احساس نہیں ہے کہ کیسی عظیم ہستی کی بعثت سے ان کو نوازا گیا ہے۔

یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اپنے ملک یا اپنے زمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک پوری نوع بشری کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیں، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ مثلاً:

وَاُحِیَ اِلَیَّ ھٰذَاالقرآنُ لِاُنْذِرَ کُم بِہ وَمَنْ بَلَغَ (الانعام ۱۹۷)

اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو متنبہ کروں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے۔

قُلْ یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً (الاعراف۔ ۱۵۸)

اے نبی کہ دو اے انسانوں، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔

وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃلِّلعٰلَمِیْنَ(الانبیاء۔ ۱۰۷)

اور اے نبی، ہم نے نہیں بھیجا تم کو مگر تمام ایمان والوں کے لیے رحمت کے طور پر۔

تَبٰرَ کَ الَّذِیْ نَذَّلَالْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہ لِیَکُنَ لِلْعَا لَمِیْنَ نَذِیْراً۔ (الفرقان۔ ۱)

بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہان والوں کے لیے متنبہ کرنے والا ہو۔

یہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی بہت سے احادیث میں مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے۔ مثلاً:

بُعِثْتُ اِلَی الْاَحْمَرِوَلْاَسْوَدِ (مسند احمد، مرویات ابو موسیٰ اشعریؓ)

میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔

امّا انا فا رسلتُ الی الناس کلھم عامۃ وکان من قبلی انما یُرْسَلُ الیٰ قومہ(مسند احمد، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص)

میں عمومیت کے ساتھ تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ حالانکہ مجھ سے پہلے جو نبی بھی گزرا ہے وہ اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا۔

وکان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ(بخاری و مسلم، من حدیث جابر بن عبداللہ)

پہلے ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔

بعثت انا والساعۃ کھتین یعنی اصبعین۔ (بخاری و مسلم)

میری بعثت اور قیامت اس طرح ہیں، یہ فرماتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دو انگلیاں اٹھائیں۔

مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی تیسری انگلی حائل نہیں ہے اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان بھی کوئی نبوت نہیں ہے۔ میرے بعد بس قیامت ہی ہے اور قیامت تک میں ہی نبی رہنے والا ہوں۔

۴۸۔ یعنی جس وقت کے متعلق ابھی تم نے کہا ہے کہ ’’ ہمارا رب ہم کو جمع کرے گا اور ہمارے درمیان ٹھیک  ٹھیک فیصلہ کر دے گا ‘‘، وہ وقت آخر کب آئے گا؟ ایک مدت سے ہمارا مقدمہ چل رہا  ہے۔ ہم تمہیں بار بار جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کیے جا رہے ہیں۔ اب اس کا فیصلہ کیوں ہیں کر ڈالا جاتا؟

۴۹۔ دوسرے الفاظ میں اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے تمہاری خواہشات کے تابع نہیں ہیں کہ کسی کام کے لیے جو وقت تم مقرر کرو اسی وقت پر وہ اس کام کو کرنے کا پابند ہو۔ اپنے معاملات کو وہ اپنے ہی صوابدید کے مطابق انجام دیتا ہے۔ تم اسے کیا سمجھ سکتے ہو کہ اللہ کی اسکیم میں نوعِ انسانی کو کب تک اس دنیا کے اندر کام کرنے کا موقع ملنا ہے، کتنے اشخاص اور کتنی قوموں کی کس کس طرح آزمائش ہونی ہے، اور کونسا وقت اللہ ہی کی اسکیم میں مقرر ہے اسی وقت پر یہ کام ہو گا۔ نہ تمہارے تقاضوں سے وہ وقت ایک سکنڈ پہلے آئے گا اور نہ تمہاری التجاؤں سے وہ ایک سکنڈ کے لیے ٹل سکے گا۔

 

ترجمہ

 

یہ کافر کہتے ہیں کہ ’’ ہم ہرگز ان قرآن کو نہ مانیں گے اور نہ اس سے پہلے آئی ہوئی کسی کتاب کو تسلیم کریں گے (۵۰)۔ ‘‘ کاش تم دیکھو ان کا حال اس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے۔ اس وقت یہ ایک دوسرے پر الزام دھریں گے۔ جو لوگ دنیا میں دبا  کر رکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ’’ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے (۵۱)۔ ‘‘ وہ بڑے بننے والے ان دبے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گے ’’ کیا ہم نے تمہیں اس ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی تھی؟ نہیں، بلکہ تم خود مجرم تھے ‘‘(۵۲)۔ وہ دبے ہوئے لوگ ان بڑے بننے والوں سے کہیں گے، ’’ نہیں، بلکہ شب روز کی مکاری تھی جب تم ہم سے کہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیرائیں (۵۳)‘‘۔ آخر کار جب  یہ لوگ عذاب دیکھیں گے تو اپنے دلوں میں پچھتائیں گے اور ہم ان منکرین کے گلوں میں طوق ڈال دیں گے۔ کیا لوگوں کو اس کے سوا اور کوئی بدلہ دیا جا سکتا ہے کہ جیسے اعمال ان کے تھے  ویسی ہی جزا وہ پائیں؟

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں ایک خبردار کرنے والا بھیجا ہو اور اس بستی کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہ نہ کہا ہو کہ جو پیغام تم لے کر آئے ہو اس کو ہم نہیں مانتے (۵۴)۔ انہیں نے ہمیشہ یہی کہا کہ ہم تم سے زیادہ مال اولاد رکھتے ہیں اور ہم ہرگز سزا پانے والے نہیں ہیں(۵۵)۔ اے نبیؐ، ان سے  کہو میرا رب جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا عطا کرتا ہے  مگر اکثر لوگ اس کی حقیقت نہیں جانتے (۵۶)۔ ع

 

تفسیر

 

۵۰۔ مراد ہیں کفار عرب جو کسی آسمانی کتاب کو نہیں مانتے تھے۔

۵۱۔ یعنی عوام  الناس، جو آج دنیا میں اپنے لیڈروں، سرداروں، پیروں اور حاکموں کے پیچھے آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہیں، اور ان کے خلاف کسی ناصح کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہی عوام جب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ حقیقت کیا تھی اور ان کے یہ پیشوا انہیں کیا باور کرا رہے تھے، اور جب انہیں یہ پتہ چل جائے گا کہ ان رہنماؤں کی پیروی انہیں کس انجام سے دوچار کرنے والی ہے، تو یہ اپنے ان بزرگوں پر پلٹ پڑیں گے اور چیخ چیخ کر کہیں گے کہ کم بختو، تم نے ہمیں گمراہ کیا، تم ہماری ساری مصیبتوں کے ذمہ دار ہو، تم ہمیں نہ  بہکاتے تو ہم خدا کے رسولوں کی بات مان لیتے۔

۵۲۔ یعنی وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس ایسی کوئی طاقت نہ تھی جس سے ہم چند انسان تم کروڑوں انسانوں کو زبردستی اپنی پیروی پر مجبور کر دیتے۔ اگر تم ایمان لانا چاہتے تو ہماری سرداریوں اور پیشوائیوں اور حکومتوں کا تختہ اُلٹ سکتے تھے۔ ہماری فوج تو تم ہی تھے۔ ہماری دولت اور طاقت کا سر چشمہ تو تمہارے ہی ہاتھ میں تھا۔ تم نذرانے اور ٹیکس نہ دیتے تو ہم مفلس تھے۔ تم ہمارے ہاتھ پر بیعت نہ کرتے تو ہماری پیری ایک دن نہ چلتی۔ تم زندہ باد کے نعرے نہ مارتے تو کوئی ہمارا پوچھنے والا نہ ہوتا۔ تم ہماری فوج بن کر دنیا بھر سے ہمارے لیے لڑنے پر تیار نہ ہوتے تو ایک انسان پر بھی ہمارا بس نہ چل سکتا تھا۔ اب کیوں نہیں مانتے کہ دراصل تم خود اس راستے پر نہ چلنا چاہتے تھے جو رسولوں نے تمہارے سامنے پیش کیا تھا۔ تم اپنی اغراض اور خواہشات کے بندے تھے اور تمہارے نفس کی یہ مانگ رسولوں کی بتائی ہوئی راہ تقویٰ کے بجائے ہمارے ہاں پوری ہوتی تھی۔ تم حرام و حلال سے بے نیاز ہو کر عیشِ دنیا کے طالب تھے اور وہ ہمارے پاس ہی تمہیں نظر آتا تھا۔ تم ایسے پیروں کی تلاش میں تھے جو تمہیں ہر طرح کے گناہوں کی کھلی چھوٹ دیں اور کچھ نذرانہ لے کر خدا کے ہاں تمہیں  بخشوا دینے کی خود ذمہ داری لے لیں۔ تم ایسے پنڈتوں اور مولویوں کے طلب گار تھے جو ہر شرک اور ہر بدعت اور تمہارے نفس کی  ہر دل پسند چیز کو عین حق ثابت کر کے تمہارا دل خوش کریں اور اپنا کام بنائیں۔ تم کو ایسے جعل سازوں کی ضرورت تھی جو خدا کے دین کو بدل کر تمہاری خواہشات کے مطابق ایک نیا دین گھڑیں۔ تم کو ایسے لیڈر درکار تھے جو کسی نہ کسی طرح تمہاری دنیا بنا دیں خواہ عاقبت بگڑے یا درست ہو۔ تم کو ایسے حاکم مطلوب تھے جو خود بد کردار اور بد دیانت ہوں اور ان کی سرپرستی میں تمہیں ہر قسم کے گناہوں اور بد کرداریوں کی چھوٹ ملی رہے۔ اس طرح ہمارے اور تمہارے درمیان برابر کا لین دین کا سودا ہوا تھا۔ اب تم کہاں یہ ڈھونگ رچانے چلے ہو کہ گویا تم بڑے معصوم لوگ تھے اور ہم نے زبردستی تمہیں بگاڑ دیا تھا۔

۵۳۔ دوسرے الفاظ میں ان عوام کا جواب یہ ہو گا کہ تم اس ذمہ داری میں ہم کو برابر کا شریک کہاں ٹھیرائے دے رہے ہو۔ کچھ یہ بھی یاد ہے کہ تم نے اپنی چال بازیوں، فریب کاریوں اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے کیا طلسم باندھ رکھا تھا، اور رات دن خلقِ خدا کو پھانسنے کے لیے کیسے کیسے جتن تم کیا کرتے تھے۔ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ تم نے ہمارے سامنے دنیا پیش کی اور ہم اس پر ریجھ گئے۔ امر واقعہ یہ بھی تو ہے کہ تم شب و روز کی مکاریوں سے ہم کو بے وقوف بناتے تھے اور تم میں سے ہر شکاری روز ایک نیا جال بُن کر طرح طرح کی تدبیروں سے اللہ کے بندوں کو اس میں پھانستا تھا۔

قرآن مجید میں پیشواؤں اور پیروں کے اس جھگڑے کا ذکر مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے آیا ہے۔ تفصیل کے لیے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: اعراف، آیات ۳۸۔ ۳۹۔ ابراہیم، ۲۱۔ القصص، ۶۳۔ الاحزاب، ۶۶۔ ۶۸۔ المومن، ۴۷۔ ۴۸۔ حٰم السجدہ، ۲۹۔

۵۴۔ یہ بات قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا مقابلہ سب سے پہلے اور سب سے آگے بڑھ کر ان خوشحال طبقوں نے کیا ہے جو دولت و حشمت اور نفوذ و اقتدار کے مالک تھے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: الانعام، ۱۲۳۔ الاعراف، ۶۰۔ ۶۶۔ ۷۵۔ ۸۸۔ ۹۰ ہود، ۲۷۔ بنی اسرائیل، ۱۶۔ المومنون، ۲۴۔ ۳۳ تا ۳۸۔ ۴۶۔ ۴۷۔ الزُخرُف، ۲۳۔

۵۵۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ہم  تم سے زیادہ اللہ کے پیارے اور پسندیدہ لوگ ہیں، جبھی تو اس نے ہم کو ان نعمتوں سے نوازا ہے جن سے تم محروم ہو، یا کم از کم ہم سے فروتر ہو۔ اگر اللہ ہم سے راضی نہ ہوتا تو یہ سر و سامان اور یہ دولت و حشمت ہمیں کیوں دیتا۔ اب یہ بات ہم کیسے باور کر لیں کہ اللہ یہاں تو ہم پر نعمتوں کی بارش کر رہا ہے اور آخرت میں جا کر ہمیں عذاب دے گا۔ عذاب ہونا ہے تو ان پر ہونا ہے جو یہاں اس کی نوازشوں سے محروم ہیں۔

قرآن مجید میں دنیا پرستوں کی اس غلط فہمی کا بھی جگہ جگہ ذکر کر کے اس کی تردید کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: البقرہ، ۱۲۶۔ ۲۱۲۔ التوبہ، ۵۵۔ ۶۹۔ ہود، ۳۔ ۲۷۔۔ الرعد، ۲۶۔ الکہف، ۳۴ تا ۴۳۔ مریم، ۷۳ تا ۷۷۔ طٰہ، ۱۳۱۔ المومنون، ۵۵۔ ۶۱۔ الشعراء، ۱۱۱۔ القصص، ۷۶تا۸۳۔ الوم، ۹۔ المدثر، ۱۱ تا ۲۶۔ الفجر ۱۵تا ۲۰۔

۵۶۔ یعنی دنیا میں رزق کی تقسیم کا انتظام س حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اس کو یہ لوگ نہیں سمجھتے اور اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ جسے اللہ کشادہ رزق دے رہا ہے وہ اس کا محبوب ہے، اور جسے تنگی کے ساتھ دے راہ ہے وہ اس کے غضب میں مبتلا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص ذرا آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے نظر آ سکتا ہے کہ بسا اوقات بڑے نا پاک اور  گھناؤنے  کردار کے لوگ نہایت خوشحال ہوتے ہیں، اور بہت سے نیک اور شریف انسان، جن کی کردار کی خوبی کا ہر شخص معترف ہوتا ہے، تنگدستی میں مبتلا پائے جاتے ہی۔ اب آخر کون صاحب عقل آدمی یہ کہ سکتا ہے کہ اللہ کو یہ پاکیزہ اخلاق کے لوگ ناپسند ہیں اور وہ شریر و خبیث لوگ ہی اسے بھلے لگتے ہیں۔

 

ترجمہ

 

یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو۔ ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک  عمل کرے (۵۷)۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے عمل کی دُہری جزا ہے، اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے (۵۸)۔ رہے وہ لوگ جو ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے دوڑ دھوپ  کرتے ہیں، تو وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

اے نبیؐ، ان سے کہو، ’’ میرا رب اپنے بندوں میں  سے جسے چاہتا ہے کھلا رز ق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے (۵۹)۔ جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر  رازق ہے (۶۰)۔

اور جس دن وہ تمام انسانوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا‘‘ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیا کرتے تھے (۶۱)‘‘؟  تو وہ جواب دیں گے کہ ’’ پاک ہے آپ کی ذات، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ ان لوگوں سے (۶۲)۔ دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ جنوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں سے اکثر ا نہی پر ایمان لائے ہوئے تھے (۶۳)۔ ‘‘ اس وقت ہم کہیں گے کہ آج تم میں سے کوئی نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اور ظالموں سے ہم کہہ دیں گے کہ اب چکھو اس عذاب جہنم کا مزہ جسے تہم جھٹلایا کرتے تھے۔

ان لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ان معبودوں  سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ‘‘۔ اور کہتے ہیں کہ ’’ یہ (قرآن )محض ایک جھوٹ ہے گھڑا ہوا۔ ‘‘ ان کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہیں نے کہہ دیا کہ ’’ یہ تو صریح جادو ہے ‘‘۔ حالانکہ نہ ہم نے ان لوگوں کو پہلے کوئی کتاب دی تھی کہ یہ اسے پڑھتے ہوں اور نہ تم سے پہلے ان کی طرف کوئی متنبہ کرنے والا بھیجا تھا(۶۴)۔ ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ جھٹلا چکے ہیں۔ جو کچھ ہم نے انہیں دیا تھا اس کے عشرِ عشیر کو بھی یہ نہیں پہنچے ہیں۔ مگر جب انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی(۶۵)۔ ع

 

تفسیر

 

۵۷۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ سے قریب کرنے والی چیز مال اور اولاد نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل صالح ہے۔ دوسرے یہ کہ مال اور اولاد صرف اس مومن صالح انسان ہی کے لیے ذریعہ تقرُّب بن سکتے ہیں جو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت سے خدا شناس اور نیک کردار بنانے کی کوشش کرے۔

۵۸۔ اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ ان کی یہ نعمت لازوال ہو گی اور اس اجر کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا۔ کیونکہ جس عیش کے کبھی ختم ہو جانے کا خطرہ ہو اس سے انسان پوری طرح مطمئن ہو کر لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ معلوم کب یہ سب کچھ چھن جائے۔

۵۹۔ اس مضمون کو بتکرار بیان کرنے سے مقصود اس بات پر زور دینا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتی ہے جب کہ اس کی رضا سے۔ مشیتِ الہٰی کے تحت اچھے اور برے ہر طرح کے انسانوں کو رزق مل رہا ہے۔ خدا کا اقرار کرنے والے بھی رزق پا رہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی۔ نہ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی خدا کا پسندیدہ بندہ ہے، اور نہ اس کی تنگی اس امر کی علامت ہے کہ آدمی اس کا مغضوب ہے۔ مشیت کے تحت ایک ظالم اور بے ایمان آدمی پھلتا پھولتا ہے، حالانکہ ظلم اور بے ایمانی خدا کو پسند نہیں ہے۔ اور اس کے برعکس مشیت ہی کے تحت ایک سچا اور ایمان دار آدمی نقصان اٹھاتا اور تکلیفیں سہتا ہے، حالانکہ یہ صفات خدا کو پسند ہیں۔ لہٰذا وہ شخص گمراہ ہے جو مادی فوائد و منافع کو خیر و شر کا پیمانہ قرار دیتا ہے۔ اصل چیز خدا کی رضا ہے اور وہ ان اخلاقی اوصاف سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ ان اوصاف کے ساتھ اگر کسی کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہوں تو یہ بلاشبہ خدا کا فضل ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ایک شخص اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے خدا کا باغی و نافرمان بندہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سخت باز پرس اور بدترین عذاب کے لیے تیار ہو رہا ہے۔

۶۰۔ رازق، صانع، موجِد، مُعطی اور ایسی ہی دوسری بہت سی صفات ایسی ہیں جو اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں مگر مجازاً بندوں کی طرف بھی منسوب ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ہم ایک شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کے روزگار کا بندوبست کر دیا، یا اس نے یہ عطیہ دیا، یا اس نے فلاں چیز بنائی یا ایجاد کی۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خیر الرازقین کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یعنی جن جن کے متعلق تم گمان رکھتے ہو کہ وہ روزی دینے والے ہیں ان سب سے بہتر روزی دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔

۶۱۔ قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور کے مشرکین فرشتوں کو دیوی اور دیوتا قرار دے کر ان کے بُت بناتے اور ان کی پرستش کرتے رہے ہیں۔ کوئی بارش کا دیوتا ہے تو کوئی بجلی کا اور کوئی ہوا کا۔ کوئی دولت کی دیوی ہے تو کوئی علم کی اور کوئی موت و ہلاکت کی۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ قیامت کے روز ان فرشتوں سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم ہی ان لوگوں کے معبود بنے ہوئے تھے؟ اس سوال کا مطلب محض دریافت حال نہیں ہے بلکہ اس میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ کیا تم ان کی اس عبادت سے راضی تھے؟ کیا تم نے یہ کہا تھا کہ لوگو ہم تمہارے معبود ہیں، تم ہماری ہو جا کیا کرو؟ یا تم نے یہ چاہا کہ یہ لوگ تمہاری ہو جا کریں؟ قیامت میں یہ سوال صرف فرشتوں ہی سے ہیں بلکہ تمام ان ہستیوں سے کیا جائے گا جن کی دنیا میں عبادت کی گئی ہے۔ چنانچہ سورہ فرقان میں ارشاد ہوا ہے :

وَیَوْمَ یَحْشُرُ ھُمْ وَمَا یَعبُدُوْن مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَقُوْلُءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ھٰٓؤُلَآءِاَمْ ھُمْ ضَلُّو االسَّبِیْلَ۔ (آیت ۱۷)

جس روز اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اور ان ہستیوں کو جن کی یہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں جمع کریگا، پھر پوچھے گا کی تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے؟

۶۲۔ یعنی وہ جواب دیں گے کہ حضور کی ذات اس سے منزّہ اور بالا تر ہے کہ کوئی دوسرا خدائی و معبودیت میں آپ کا شریک ہو۔ ہمارا ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہم ان سے اور ان کے افعال سے بری الذمّہ ہیں۔ ہم تو حضور کے بندے ہیں۔

۶۳۔ اس فقرے میں جِن سے مراد شیاطینِ جِن ہیں۔ فرشتوں کے اس جواب کا مطلب  یہ ہے کہ بظاہر تو یہ ہمارے نام لے کر، اور اپنے تخیلات کے مطابق ہماری صورتیں بنا کر گویا ہماری عبادت کرتے تھے، لیکن دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ شیا طین کی بندگی کر رہے تھے، کیونکہ شیاطین ہی نے ان کو یہ راستہ دکھایا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا حاجت روا سمجھو اور ان کے آگے نذر و نیاز پیش کیا کرو۔

یہ آیت صریح طور پر ان لوگوں کے خیال کی غلطی واضح کر دیتی ہے جو ’’جن‘‘ کو پہاڑی علاقے علاقے کے باشندوں یا دہقانوں اور صحرائیوں کے معنی میں لیتے ہیں۔ کیا کوئی  صاحب عقل آدمی اس آیت کو پڑھ کر یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ لوگ کوہستانی اور  صحرائی اور دیہاتی آدمیوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے            اس آیت سے عبادت کے بھی ایک دوسرے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت صرف پرستش اور ہو جا پاٹ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ کسی کی حکم پر چلنا اور اس کی بے چون و چرا اطاعت کرنا بھی عبادت ہی ہے۔ حتٰی کہ اگر آدمی کسی پر لعنت بھیجتا ہو(جیسا کہ شیطان پر بھیجتا ہے ) اور پھر بھی پیروی اسی کے طریقے کیکیے جا رہا ہو تب بھی وہ اس کی عبادت کا مرتکب ہے۔ اس کی دوسری مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۳۹۸۔ ۴۸۴۔ جلد دوم، ص ۱۸۹۔ ۱۹۰۔ جلد سوم، ص ۶۹۔ ۶۵۶۔

۶۴۔ یعنی اس سے پہلے نہ کوئی کتاب خدا کی طرف سے ایسی آئی ہے اور نہ کوئی رسول ایسا آیا ہے جس نے آ کر ان کو یہ تعلیم دی ہو کہ یہ اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی و پرستش کیا کریں۔ اس لیے یہ لوگ کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ سراسر  جہالت کی بنا پر قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید کا انکار کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ان کے پاس کوئی سند نہیں ہے۔

۶۵۔ یعنی مکے کے لوگ تو اس قوت و شوکت اور اس خوشحالی کے عُشر عشیر کو بھی نہیں پہنچے ہیں جو ان قوموں کو حاصل تھی۔ مگر دیکھ لو کہ جب انہوں نے ان حقائق کو ماننے سے انکار کیا جو انبیاء علیہم السلام نے ان کے سامنے پیش کیے تھے، اور باطل پر اپنے نظام زندگی کی بنیاد رکھی تو آخر کار وہ کس طرح تباہ ہوئیں اور ان کی قوت و دولت ان کے کسی کام نہ آ سکی۔

 

ترجمہ

 

اے نبی، ان سے کہو کہ ’’ میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں۔ خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو، تمہارے صاحب میں آخر ایسی کونسی بات ہے جو جنون کی ہو؟(۶۶)۔ وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے (۶۷)‘‘۔ ان سے کہو، ’’ اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک رہے (۶۸)۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے ‘‘(۶۹)۔ ان سے کہو ’’ حق میرا رب (مجھ پر) حق کا اِلقا کرتا ہے (۷۰) اور وہ تمام پوشیدہ حقیقتوں کا جاننے والا ہے ‘‘۔ کہو ’’ حق آ گیا ہے اور اب باطل کے کیے کچھ نہیں ہو سکتا‘‘۔ کہو ’’ اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہے، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس وحی کی بنا پر ہوں جو میرا تب میرے اوپر نازل کرتا ہے، وہ سب کچھ سنتا ہے اور قریب ہی ہے (۷۱)۔

کاش تم دیکھو انہیں اس وقت جب  یہ لوگ گھبرائے پھر رہے ہوں گے اور کہیں بچ کر نہ جا سکیں گے، بلکہ قریب ہی سے پکڑ لیے جائیں گے (۷۲)۔ اس وقت یہ کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لے آئے (۷۳)۔ حالانکہ اب دور نکلی ہوئی چیز کہاں ہاتھ آ سکتی ہے (۷۴)۔ اس سے پہلے یہ کفر کر چکے تھے اور بلا تحقیق دور دور  کی کوڑیاں لایا کرتے تھے (۷۵)۔ اس وقت جس چیز کی یہ تمنا کر رہے ہوں گے اس سے محروم کر دیے جائیں گے جس طرح ان کے پیش رو ہم مشرب محروم ہو چکے ہوں گے۔ یہ بڑے گمراہ کن شک میں پڑے ہوئے تھے (۷۶)۔ ع

 

تفسیر

 

۶۶۔ یعنی اغراض اور خواہشات سے پاک ہو کر خالصتہً  لِللہ غور کرو۔ ہر شخص الگ الگ بھی نیک بیتی کے ساتھ سوچے اور دو دو چار چار آدمی سر جوڑ کر بھی بے لاگ طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ بحث کر کے تحقیق کریں کہ آخر وہ کیا بات ہے جس کی بنا پر آج تم اس شخص کو مجنون ٹھیرا رہے ہو جسے کل تک تم اپنے درمیان نہایت دانا آدمی سمجھتے تھے۔ آخر نبوت سے تھوڑی ہی مدت پہلے کا تو واقعہ تھا کہ تعمیر کعبہ کے بعد حجر اسود نصب کرنے کے مسئلے پر جب قبائل قریش باہم لڑ پڑے تھے تو تم ہی لوگوں نے بالاتفاق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم تسلیم کیا تھا اور انہوں نے ایسے طریقے سے اس جھگڑے کو چکایا تھا جس پر تم سب مطمئن ہو گئے تھے۔ جس شخص کی عقل و دانش کا یہ تجربہ تمہاری ساری قوم کو ہو چکا ہے، اب کیا بات ایسی ہو گئی کہ تم اسے مجنون کہنے لگے؟ہٹ دھرمی کی تو بات ہی دوسری ہے، مگر کیا واقعی تم اپنے دلوں میں بھی وہی کچھ سمجھتے ہو جو اپنی زبانوں سے کہتے ہو؟

۶۷۔ یعنی کیا یہی وہ قصور ہے جس کی بنا پر تم اسے جنون کا مریض ٹھیراتے ہو؟ کیا تمہارے نزدیک عقلمند وہ ہے جو تمہیں تباہی کے راستے پر جاتے دیکھ کر کہے کہ شاباش، بہت اچھے جا رہے ہو، اور مجنون وہ ہے جو تمہیں برا وقت آنے سے پہلے خبردار کرے اور فساد کی جگہ صَلاح کی راہ بتائے۔

۶۸۔ اصل الفاظ ہیں مَا سَاَلْتُکُمْ مِنْ اَجْر فَھُوَلکُمْ۔ اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو اوپر ہم نے ترجمہ میں بیان کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہاری بھلائی کے سوا میں اور کچھ نہیں چاہتا، میرا جو بس یہی ہے کہ تم درست ہو جاؤ۔ اس مضمون کو دوسری جگہ قرآن مجید میں یوں ادا کیا گیا ہے :

قُلْ مَآاَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْر اِلَّا مَنْ سَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلیٰ رَبِّہ سَبِیْلاً۔ (الفرقان ۵۷)

اے نبی، ان سے کہو میں اس کام پر تم سے کوئی اجر اس کے سوا نہیں مانگتا کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔

۶۹۔  یعنی الزام لگانے والے جو کچھ چاہیں الزام لگاتے رہیں، مگر اللہ سب کچھ جانتا ہے، وہ گواہ ہے کہ میں ایک بے غرض انسان ہوں، یہ کام اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں کر رہا ہوں۔

۷۰۔ اصل الفاظ ہیں یَقْذِفُ بَا لْحَقِّ۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وحی کے ذریعہ سے وہ عِلم حق میرے اوپر القا کرتا ہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ حق کو غالب کر رہا ہے، باطل کے سر پر حق کی ضرب لگا رہا ہے۔

۷۱۔ اس زمانے کے بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس کی رو سے بنی صلی اللہ علیہ و سلم گمراہ ہو سکتے تھے، بلکہ ہو جایا کرتے تھے، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے خود حضورؐ ہی کی زبان سے یہ کہلوا دیا کہ اگر میں گمراہ ہوتا ہوں تو اپنی گمراہی کا خود ذمہ دار ہوتا ہوں اور راہ راست پر میں بس اس وقت ہوتا ہوں جب میرا رب مجھ پر وحی (یعنی آیات قرآنی ) نازل کرتا ہے۔ اس غلط تاویل سے یہ ظالم گویا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضورؐ کی زندگی معاذ اللہ ہدایت و ضلالت کا مجموعہ تھی اور اللہ تعالیٰ نے کفار کے سامنے حضورؐ سے یہ اعتراف اس لیے کروا رہا تھا کہ کہیں کوئی شخص آپؐ کو بالکل ہی راہ راست پر سمجھ کر آپ کی مکمل پیروی نہ اختیار کر بیٹھے حالانکہ جو شخص بھی سلسلہ کلام پر غور کرے گا وہ جان لے گا کہ یہاں ’’ اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں‘‘ کے الفاظ اس معنی میں نہیں کہے گئے ہیں کہ معاذ اللہ حضورؐ فی الواقع گمراہ ہو جاتے تھے، بلکہ پوری بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ ’’ اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں، جیسا کہ تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو، اور میرا یہ نبوت کا دعویٰ اور میری یہ دعوت توحید اسی گمراہی کا نتیجہ ہے جیسا کہ تم گمان کر رہے ہو، تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہی پڑے گا، اس کی ذمہ داری میں تم نہ پکڑے جاؤ گے۔ لیکن اگر میں ہدایت پر ہوں، جیسا کہ در حقیقت ہوں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر میرے رب کی طرف سے وحی آتی ہے جس کے ذریعہ سے مجھے راہ راست کا علم حاصل ہو گیا ہے۔ میرا رب قریب ہی موجود ہے اور سب کچھ سن رہا ہے، اسے معلوم ہے کہ میں گمراہ ہوں یا اس کی طرف سے ہدایت یافتہ۔ ‘‘

۷۲۔ یعنی قیامت کے روز ہر مجرم اس طرح پکڑا جائے گا کہ گویا پکڑنے والا قریب ہی کہیں چھپا کھڑا تھا، ذرا اس نے بھاگنے کی کوشش کی اور فوراً ہی دھر لیا گیا۔

۷۳۔ مراد یہ ہے کہ اس تعلیم پر ایمان لے آئے جو رسول نے دنیا میں پیش کی تھے۔

۷۴۔ یعنی ایمان لانے کی جگہ تو دنیا تھی اور وہاں سے اب یہ بہت دور نکل آئے ہیں۔ عالم آخرت میں پہنچ جانے کے بعد اب توبہ و ایمان کا موقع کہاں مل سکتا ہے۔

۷۵۔  یعنی رسُولؐ اور تعلیمات رسولؐ اور اہل ایمان پر طرح طرح کے الزامات لگاتے، آوازے کستے اور فقرے چُست کرتے تھے۔ کبھی کہتے یہ شخص ساحر ہے۔ کبھی کہتے مجنون ہے۔ کبھی توحید کا مذاق اڑاتے اور کبھی آخرت کے تخیل پر  باتیں چھانٹتے۔ کبھی یہ افسانہ تراشتے کہ رسولؐ کو کوئی اور سکھاتا پڑھاتا ہے اور کبھی ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے کہ یہ محض اپنی نادانی کی وجہ سے رسولؐ کے پیچھے لگ گئے ہیں۔

۷۶۔ درحقیقت شرک اور دہریت اور انکار آخرت کے عقائد کوئی شخص بھی یقین کی بنا پر اختیار نہیں کرتا اور نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ یقین صرف علم سے حاصل ہوتا ہے، اور کسی شخص کو بھی یہ علم حاصل نہیں ہے کہ خدا نہیں ہے،  یا بہت سے خدا ہیں یا خدائی کے اختیارات میں بہت سے ہستیوں کو دخل حاصل ہے، یا آخرت نہیں ہونی چاہیے۔ پس جس نے بھی دنیا میں یہ عقائد اختیار کیے ہیں اس نے محض قیاس و گمان پر ایک عمارت کھڑی کر لی ہے جس کی اصل بنیاد شک کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اور یہ شک انہیں سخت گمراہی کی طرف لے گیا ہے۔ انہیں خدا کے وجود میں شک ہوا۔ انہیں توحید کی صداقت میں شک ہوا۔ انہیں آخرت کے آنے میں شک ہوا۔ حتّیٰ کہ اس شک کو انہوں نے یقین کی طرح دلوں میں بٹھا کر انبیاء کی کوئی بات نہ مانی اور اپنی زندگی کی پوری مہلت عمل ایک غلط راستے میں کھپا دی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۳۵) سورۃ فاطر

 

 

نام

 

پہلی ہی آیت کا لفظ ’’فاطر‘‘ اس سورہ کا عنوان قرار دیا گیا ہے جس کے  معنی صرف یہ ہیں کہ یہ وہ سورۃ ہے جس میں فاطر کا لفظ آیا ہے۔ دوسرا نام ’’ المَلَائکہ‘‘ بھی ہے اور یہ لفظ بھی پہلی آیت میں وارد ہوا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

اندازِ کلام کی اندرونی شہادت سے مترشح ہوتا ہے کہ اس سورت کے نزول کا زمانہ غالباً مکہ معظمہ کا دور متوسط ہے، اور اس کا بھی وہ حصہ جس میں مخالفت اچھی خاصی شدّت اختیار کر چکی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی بُری سے بری چالیں چلی جا رہی تھیں۔

 

موضوع و مضمون

 

کلام کا مدعا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید کے مقابلہ میں جو رویہ اس وقت اہل مکہ اور ان کے سرداروں نے اختیار کر رکھا تھا اس پر ناصحانہ انداز میں ان کو تنبیہ و ملامت بھی کی جائے اور معلمانہ انداز میں فہمائش بھی۔ مضمون کا  خلاصہ یہ ہے کہ نادانو، یہ نبی جس راہ کی طرف تم کو بلا رہا ہے اس میں تمہارا اپنا بھلا ہے۔ اس پر تمہارا غصہ، اور تمہاری مکاریاں اور چال بازیاں، اور اس کو ناکام کرنے کے لیے تمہاری تدبیریں دراصل اس کے خلاف نہیں بلکہ تمہارے اپنے خلاف پڑ رہی ہیں۔ اس کی بات نہ مانو گی تو اپنا ہی کچھ بگاڑو گے، اس کا کچھ نہ بگاڑو گے۔ وہ جو کچھ تم سے کہ رہا ہے اس پر غور تو کرو، آخر اس میں غلط کیا بات ہے۔ وہ شرک کی تردید کرتا ہے۔ تم خود آنکھیں کھول کر دیکھو، کیا شرک کے لیے دنیا میں کوئی معقول بنیاد موجود ہے؟ وہ توحید کی دعوت دیتا ہے۔ تم خود عقل سے کام لے کر غور کرو، کیا للہ فاطر السمٰوات و الارض کے سوا کہیں کوئی ایسی ہستی پائی جاتی ہے جو خدائی صفات اور اختیارات رکھتی ہو؟ وہ تم سے کہتا ہے کہ تم اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہو بلکہ تمہیں اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور اس دنیوی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جس میں ہر ایک کو اپنے کیے کا نتیجہ دیکھنا ہو گا۔ تم خود سوچو کہ اس پر تمہارے شبہات اور اچنبھے کس قد ر بے اصل ہیں۔ کیا تمہاری آنکھیں رات دن اعادہ خلق کا مشاہدہ نہیں کر رہی ہیں؟پھر تمہارا ہی اعادہ اس خدا کے لیے کیوں ناممکن ہو جس نے تم کو ایک ذرا سے نطفے سے پیدا کر دیا۔ کیا تمہاری عقل یہ گواہی نہیں دیتی کہ بھلے اور بُرے کو یکساں نہ ہونا چاہیے؟ پھر تم ہی بتاؤ کہ معقول بات کیا ہے؟ یہ کہ بھلے اور برے کا انجام یکساں ہو، یعنی مٹی میں ملنا اور فنا ہو جانا؟ یا یہ کہ بھلے کو بھلا اور برے کو برا بدلہ ملے؟ اب اگر ان سراسر معقول اور مبنی بر حقیقت باتوں کو تم نہیں مانتے اور جھوٹے خداؤں کی بندگی نہیں چھوڑتے اور اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھتے ہوئے شتر بے مہا رہی کی طرح دنیا میں جینا چاہتے ہو تو اس میں نبی کا کیا نقصان ہے۔ شامت تو تمہاری اپنی ہی آئے گی۔ نبی پر صرف سمجھانے کی ذمہ داری تھی، اور وہ اس نے ادا کر دی۔

سلسلہ کلام میں بار بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ جب نصیحت کا حق پوری طرح ادا کر رہے ہیں تو گمراہی پر اصرار کرنے والوں کے راہ راست قبول نہ کرنے کی کوئی ذمہ داری آپ کے اوپر عائد نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ آپ کو یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے ان کے رویے پر نہ آپ غمگین ہوں اور نہ انہیں راہ راست پر لانے کی فکر میں اپنی جان گھلائیں۔ اس کے بجائے  آپ اپنی توجہات ان لوگوں پر صرف کریں جو بات سننے کے لیے تیار ہیں۔

ایمان قبول کرنے والوں کو بھی اسی سلسلے میں بڑی بشارتیں دی گئی ہیں تا کہ ان کے دل مضبوط ہوں اور وہ اللہ کے وعدوں پر اعتماد کر کے راہ حق میں ثابت قدم رہیں۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کر نے والا (۱) ہے۔ (ایسے فرشتے ) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو (۲) ہیں۔ وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا(۳)ہے۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے  لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا (۴) نہیں۔ وہ زبردست اور حکیم (۵) ہے۔

لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد (۶) رکھو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رز ق دیتا ہو؟ کوئی معبود اس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے (۷)ہو؟ اب اگر (اے نبی)یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے (۸) ہیں (تو یہ کوئی نئی بات نہیں)، تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، اور سارے معاملات آخر کار اللہ ہی کی طرف رجوع ہونے والے (۹) ہیں۔

لوگو، اللہ کا وعدہ یقیناً بر حق (۱۰) ہے، لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ (۱۱) ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے (۱۲) پائے۔ در حقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیروؤں کو اپنی راہ پر بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں۔ جو لوگ کفر (۱۳) کریں گے ان کے لیے سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر(۱۴) ہے۔ ع

 

تفسیر

 

(۱)۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء علیہم السلام کے درمیان پیغام رسانی کی خدمت انجام دیتے ہیں، اور یہ بھی کہ تمام کائنات میں اللہ جل شانہ کے احکام لے جانا اور ان کو نافذ کرنا انہی فرشتوں کا کام ہے۔ ذکر کا مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ فرشتے  جن کو مشرکین دیوی اور دیوتا بنائے بیٹھے ہیں، ان کی حیثیت اللہ وحدہٗ لا شریک کے فرماں بردار خادموں سے زائد کچھ نہیں ہے۔ جس طرح کسی بادشاہ کے خدام اس کے احکام کی تعمیل کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اسے طرح یہ فرشتے کائنات کے فرمانروائے حقیقی کی خدمت بجا لانے کے لیے اُڑے پھرتے ہیں۔ ان خادموں کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ سارے اختیارات اصل فرمانروا کے ہاتھ میں ہیں۔

(۲)۔ ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان فرشتوں کے بازوؤں اور پروں کی کیفیت کیا ہے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے دوسرے الفاظ کے بجائے وہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو انسانی زبان میں پرندوں کے بازوؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ تصور ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ہماری زبان کا یہی لفظ اصل کیفیت سے قریب تر ہے۔ دو دو اور تین تین اور چار چار بازوؤں کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی ہیں اور جس سے جیسی خدمت یعنی مطلوب ہے اس کو ویسی ہی زبردست سرعتِ رفتار اور قوت کار سے آراستہ فرمایا گیا ہے۔

(۳)۔ ان الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرشتوں کی بازوؤں کی انتہائی تعداد چار ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بعض فرشتوں کو اس سے بھی زیادہ بازو عطا فرمائے ہیں۔ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو ایک مرتبہ اس شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے (بخاری۔ مسلم۔ ترمذی)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جبریل کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا ہے، ان کے چھ سو بازو تھے اُفق پر چھائے  ہوئے تھا، (ترمذی)۔

(۴)۔ اس کا مقصود بھی مشرکین کی اس غلط فہمی کو رفع کرنا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے کوئی انہیں روز گار دلانے والا اور کوئی ان کو اولاد عطا فرمانے والا اور کوئی ان کے بیماروں کو تندرستی بخشنے والا ہے۔ شرک کے یہ تمام تصورات بالکل نے بنیاد ہیں اور خالص حقیقت صرف یہ ہے کہ جس قسم کی رحمت بھی بندوں کو پہنچتی ہے محض اللہ عز و جل کے فضل سے پہنچتی ہے۔ کوئی دوسرا نہ اس کے عطا کرنے پر قادر ہے اور نہ روک دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید اور احادیث میں بکثرت مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان در در کی بھیک مانگنے اور ہر آستانے پر ہاتھ پھیلانے سے بچے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا ایک اللہ کے سوا کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں ہے۔

(۵)۔ زبردست ہے، یعنی سب پر غالب اور کامل اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ حکیم بھی ہے۔ جو فیصلہ بھی وہ کرتا ہے سراسر حکمت کی بنا پر  کرتا ہے۔ کسی کو  دیتا ہے تو اس لیے دیتا ہے کہ حکمت  اسی کی مقتضی ہے۔ اور کسی کو نہیں دیتا تو اس لیے نہیں دیتا کہ اسے دینا حکمت کے خلاف ہے۔

(۶)۔ یعنی احسان فراموش نہ بنو۔ نمک حرامی نہ اختیار کرو۔ اس حقیقت کو نہ بھول جاؤ کہ تمہیں جو کچھ بھی حاصل ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ فقرہ اس بات پر متنبہ کر رہا ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے سوا کسی کی بندگی و پرستش کرتا ہے، یا کسی نعمت کو اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کی عطا بخشش سمجھتا ہے، یا کوی نعمت کے ملنے پر اللہ کے سوا کسی اور کا شکر بجا لاتا ہے، یا کوئی نعمت مانگنے کے لیے اللہ کے سوا کسی اور سے دعا کرتا ہے، وہ بہت  بڑا احسان فراموش ہے۔

(۷)۔ پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے کلام کا موقع و محل خود بھر رہا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے یہ نقشہ چشم تصور کے سامنے لایئے کہ تقریر مشرکین کے سامنے ہو رہی ہے۔ مقرر حاضرین سے پوچھتا ہے کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی جس نے تم کو پیدا کیا ہو اور جو زمین و آسمان سے تمہاری رزق رسانی کا سامان کر رہا ہو؟ یہ سوال اٹھا کر مقرر چند لمحے جواب کا انتظار کرتا ہے۔ مگر دیکھتا ہے کہ سارا مجمع خاموش ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق و رازق ہے۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حاضرین  کو بھی اس امر کا اقرار ہے کہ خالق و رازق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ تب مقرر کہتا ہے کہ معبود بھی پھر اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ آخر تمہیں یہ دھوکا کہاں سے لگ گیا کہ خالق و رازق تو ہو صرف اللہ، مگر معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔

(۸)۔ یعنی تمہاری اس بات کو نہیں مانتے کہ اللہ کے سوا عبادت کا مستحق کوئی نہیں ہے، اور تم پر یہ الزام رکھتے ہیں کہ تم نبوت کا ایک جھوٹا دعویٰ لے کر کھڑے ہو گئے  ہو۔

(۹)۔ یعنی فیصلہ لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے کہ جسے وہ جھوٹا کہہ دیں وہ حقیقت میں جھوٹا ہو جائے فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ آخر کار بتا دے گا کہ جھوٹا کون تھا اور جو حقیقت میں جھوٹے ہیں انہیں ان کا انجام بھی دکھا دے گا۔

(۱۰)۔ وعدے سے مراد آخرت کا وعدہ ہے جس کی طرف اوپر کے اس فقرے میں اشارہ کیا گیا تھا کہ تمام معاملات آخر کار اللہ کے حضور پیش ہونے والے ہیں۔

(۱۱)۔ یعنی اس دھوکے میں کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے، اس کے بعد کوئی آخرت نہیں ہے جس میں اعمال کا حساب ہونے والا ہو۔ یا اس دھوکے میں کہ اگر کوئی آخرت ہے بھی تو جو اس دنیا میں مزے کر رہا ہے وہ وہاں بھی مزے کرے گا۔

(۱۲)۔ ’’ بڑے دھوکے باز‘‘ سے مراد یہاں شیطان ہے، جیسا کہ آگے کا فقرہ بتا رہا ہے۔ اور ’’ اللہ کے بارے میں‘‘ دھوکا دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو تو یہ باور کرائے کہ خدا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کو اس غلط فہمی میں ڈالے  کہ خدا ایک دفعہ دنیا کو حرکت دے کر الگ جا بیٹھا ہے، اب اسے اپنی بنائی ہوئی اس کائنات سے عملاً کوئی سروکار نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کو یہ چکر دے کہ خدا کائنات کا انتظام تو بے شک کر رہا ہے، مگر اس نے انسانوں کی رہنمائی کرنے کا کوئی ذمہ نہیں لیا ہے، اس لیے یہ وحی و رسالت محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ اور کچھ لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلائے کہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے، تم خواہ کتنے ہی گناہ کرو، وہ بخش دے گا، اور اس کے کچھ پیارے ایسے ہیں کہ ان کا دامن تھام لو تو بیڑا پار ہے۔

(۱۳)۔ یعنی خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر دیں گے۔

(۱۴)۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور جو نیک عمل انہوں نے کیے ہوں گے ان کا محض  برابر سرا بر ہی اجر دے کر ہی نہ رہ جائے گا بلکہ انہیں بڑا اجر عطا فر مائے گا۔

 

ترجمہ

 

(بھلا (۱۵) کچھ ٹھکانا ہے اس شخص کی گمراہی کا) جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھ رہا(۱۶) ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔ پس (اے نبیؐ) خواہ مخواہ تمہاری جان ان لوگوں کی خاطر غم و افسوس میں نہ (۱۷) گھلے۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا (۱۸) ہے۔ وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر ہم اسے ایک اُجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اسے زمین کو جِلا اُٹھاتے ہیں جو مری پڑی تھی۔ مرے ہوئے انسانوں کا جی اُٹھنا بھی اسی طرح(۱۹) ہو گا۔

جو کوئی عزت چاہتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی(۲۰) ہے۔ اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا (۲۱) ہے۔ رہے وہ لوگ جو بیہودہ چال بازیاں کرتے (۲۲) ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے۔

اللہ (۲۳) نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ (۲۴)سے، پھر تمہارے جوڑے بنا دیے (یعنی مرد اور عورت)۔ کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے  مگر یہ سب کچھ اللہ  کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا (۲۵)ہے۔ اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام (۲۶) ہے۔ اور پانی کے دونوں ذخیرے یکساں نہیں(۲۷) ہیں۔ ایک میٹھا اور پیاس بجھانے والا ہے، پینے میں خوشگوار، اس دوسرا سخت کھاری کہ حلق چھل دے۔ مگر دونوں سے تم تر و تازہ گوشت حاصل کرتے (۲۸)ہو، پہننے کے لیے زینت کا سامان نکالتے (۲۹)ہو، اور اسی پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی چلی جا رہی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو۔ وہ دن کے اندر رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتا (۳۰) ہے۔ چاند اور سورج کو اس نے مسخر کر رکھا(۳۱)ہے۔ یہ سب کچھ ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے۔ وہی اللہ (جس کے یہ سارے کام ہیں)تمہارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ اسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو  وہ ایک پر کاہ (۳۲) کے مالک بھی نہیں ہیں۔ انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں  تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے (۳۳) سکتے۔ اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں(۳۴) گے۔ حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی دے (۳۵) سکتا۔ ع

 

تفسیر

 

(۱۵)۔ اوپر کے دو پیراگراف عوام الناس کو خطاب کر کے ارشاد ہوئے تھے۔ اب اس پیر گراف میں ان علمبرداران ضلالت کا ذکر ہو رہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔

(۱۶)۔ یعنی ایک بگڑا ہوا آدمی تو وہ ہوتا ہے جو برا کام تو کرتا ہے مگر یہ جانتا اور مانتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے برا کر رہا ہے۔ ایسا شخص سمجھانے سے  بھی درست ہو سکتا ہے اور کبھی خود اس کا اپنا ضمیر بھی ملامت کر کے اسے راہ راست پر لا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی صرف عادتیں ہی بگڑی ہیں۔ ذہن نہیں بگڑا۔ لیکن ایک دوسرا شخص ایسا ہوتا ہے جس کا ذہن بگڑ چکا ہوتا ہے، جس میں برے اور بھلے کی تمیز باقی نہیں رہتی، جس کے لیے گناہ کی زندگی ایک مرغوب اور تابناک زندگی ہوتی ہے، جو نیکی سے گھن کھاتا ہے اور بدی کو عین تہذیب و ثقافت سمجھتا ہے، جو صلاح و تقویٰ کو دقیانوسیت اور فسق و فجور کو ترقی پسندی خیال کرتا ہے، جس کی نگاہ میں ہدایت گمراہی اور گمراہی سراسر ہدایت بن جاتی ہے۔ ایسے شخص پر کوئی نصیحت کار گر نہیں ہوتی۔ وہ نہ خود اپنی حماقتوں پر متنبہ ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی بات سن کر دیتا ہے۔ ایسے آدمی کے پیچھے پڑنا لا حاصل ہے۔ اسے ہدایت دینے کی فکر میں اپنی جان گھلانے کے بجائے داعی حق کو ان لوگوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جن کے ضمیر میں ابھی زندگی باقی ہو اور جنہوں نے اپنے دل کے دروازے حق کی آواز کے لیے بند نہ کر لیے ہوں۔

(۱۷)۔ پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان یہ ارشاد کہ ’’ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے ‘‘ صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ جو لوگ اس حد تک اپنے ذہن کو بگاڑ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور انہی راہوں میں بھٹکنے کے لیے انہیں چھوڑ دیتا ہے جن میں بھٹکتے رہنے پر وہ خود مصر ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت سمجھا کر اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تلقین فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے معاملہ میں صبر کر لو اور جس طرح اللہ کو ان کی پروا نہیں رہی ہے تم بھی ان کے حال پر غم کھانا چھوڑ دو۔

اس مقام پر دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں۔ ایک یہ کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ عامۃ الناس نہیں تھے بلکہ مکہ معظمہ کے وہ سردار تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر جھوٹ، ہر فریب اور ہر مکر سے کام لے رہے تھے۔ یہ لوگ در حقیقت حضورؐ  کے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے۔ خوب جانتے تھے کہ آپ کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اور آپ کے مقابلے میں وہ خود کن جہالتوں اور  اخلاقی خرابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھ  لینے کے بعد ٹھنڈے دل سے ان کا فیصلہ یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم  کی بات کو نہیں چلنے دینا ہے۔ اور اس غرض کے لیے انہیں کوئی اوچھے سے اوچھا ہتھیار  اور کوئی ذلیل سے ذلیل ہتھکنڈا استعمال کرنے میں باک نہ تھا۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر اور آپس میں مشورے کر کر کے آئے دن ایک نیا جھوٹ تصنیف کریں اور اسے کسی شخص کے خلاف پھیلائیں وہ دنیا بھر  کو دھوکا دے سکتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو تو وہ جھوٹا جانتے ہیں اور خود ان سے تو یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہوتی کہ جس شخص پر انہوں نے ایک الزام لگایا ہے وہ اس سے بری ہے۔ پھر اگر وہ شخص جس کے خلاف یہ جھوٹے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہوں، ان کے جواب میں کبھی صداقت و راستبازی سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرے تو ان ظالموں سے یہ بات بھی کبھی چھپی نہیں رہ سکتی کہ ان کا مد مقابل ایک سچا اور کھرا انسان ہے۔ اس پر بھی جن لوگوں کو اپنے کرتوتوں پر ذرا شرم نہ آئے اور وہ سچائی کا مقابلہ مسلسل جھوٹ سے کرتے ہی چلے جائیں ان کی یہ روش خود ہی اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ اللہ کی پھٹکار ان پر پڑ چکی ہے اور  ان میں برے بھلے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی ہے۔

دوسری بات جسے اس موقع پر سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے پیش نظر محض اپنے رسول پاک کو ان کی حقیقت سمجھانا ہوتا وہ خفیہ طور پر صرف آپ ہی کو سمجھا سکتا تھا۔ اس غرض کے لیے وحی جلی میں علی الاعلان اس کے ذکر کی حاجت نہ تھی۔ قرآن مجید میں اسے بیان کرنے اور  دنیا بھر کو سنا دینے کا مقصود در اصل عوام الناس کو متنبہ کرنا تھا کہ جب لیڈروں اور پیشواؤں کے پیچھے تم آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہو وہ کیسے بگڑے ہوئے ذہن کے لوگ ہیں اور ان کی بیہودہ حرکات کس طرح منہ سے پکار پکار کر بتا رہی ہیں کہ ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے۔

(۱۸)۔ اس فقرے میں آپ سے یہ دھمکی پوشیدہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ انہیں ان کرتوتوں کی سزا دے گا۔ کسی حاکم کا کسی مجرم کے متعلق یہ کہنا کہ میں اس کی حرکتوں سے خوب واقف ہوں، صرف یہی معنی نہیں دیتا کہ حاکم کو اس کی حرکتوں کا علم ہے بلکہ اس میں یہ تنبیہ لازماً مضمر ہوتی ہے کہ میں اس کی خبر لے کر رہوں گا۔

(۱۹)۔ یعنی یہ نادان لوگ آخرت کو بعید از امکان سمجھتے ہیں اور اسی لیے اپنی جگہ اس خیال میں مگن ہیں کہ دنیا میں یہ خواہ کچھ کرتے رہیں بہر حال وہ وقت کبھی آنا نہیں ہے جب انہیں جواب دہی کے لیے خدا کے حضور حاضر  ہونا پڑے گا۔ لیکن یہ محض ایک خیال خام ہے جس میں یہ مبتلا ہیں۔ قیامت کے روز تمام اگلے پچھلے مرے ہوئے انسان اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر بالکل اسی طرح یکا یک  جی اٹھیں گے جس طرح ایک بارش ہوتے ہی سونی پڑی ہوئی زمین یکا یک لہلہا اٹھتی ہے اور مدتوں کی مری ہوئی جڑیں سر سبز و شاداب ہو کر زمین کی تہوں میں سے سر نکالنا شروع کر دیتی ہیں۔

(۲۰)۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں جو کچھ بھی کر رہے تھے اپنی عزت اور اپنے وقار کی خاطر کر رہے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات چل گئی تو ہماری بڑائی ختم ہو جائے  گی، ہمارا اثر و رسوخ مٹ جائے گا اور ہماری جو عزت سارے عرب میں بنی ہوئی ہے وہ خاک  میں مل جائے گی۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے  کہ خدا سے کفر و بغاوت کر کے جو عزت تم نے بنا رکھی ہے، یہ تو ایک جھوٹی عزت ہے جس کے  لیے خاک ہی میں ملنا مقدر ہے حقیقی عزت اور پائدار  عزت جو دنیا سے لے کر عقبیٰ تک کبھی ذلت آشنا نہیں ہو سکتی، صرف خدا کی بندگی میں ہی میسر آ سکتی ہے۔ اس کے ہو جاؤ گے تو وہ تمہیں مل جائے گی۔ اور اس سے منہ موڑ و گے تو ذلیل و خوار ہو کر رہو گے۔

(۲۱)۔ یہ ہے عزت حاصل کرنے کا اصل ذریعہ۔ اللہ کے ہاں جھوٹے اور خبیث اور مفسدانہ اقوال کو کبھی عروج نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ہاں تو صرف وہ قول عروج پاتا ہے  جو سچا ہو، پاکیزہ ہو، حقیقت پر مبنی ہو، اور جس میں نیک نیتی کے ساتھ ایک صالح عقیدے اور ایک صحیح طرز فکر کی ترجمانی کی گئی ہو۔ پھر جو چیز ایک پاکیزہ کلمے کو عروج کی طرف لے جاتی ہے وہ قول کے مطابق عمل ہے۔ جہاں قول بڑا پاکیزہ ہو مگر عمل اس کے خلاف ہو وہاں قول کی پاکیزگی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ محض زبان کے پھاگ اُڑانے سے کوئی کلمہ بلند نہیں ہوتا۔ اسے عروج پر پہنچانے کے لیے عمل صالح کا زور درکار ہوتا ہے۔

اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن  مجید قول صالح اور عمل صالح کو لازم و ملزوم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ کوئی عمل محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی پشت پر عقیدہ صالحہ نہ ہو۔ اور کوئی عقیدہ صالحہ ایسی حالت میں معتبر نہیں ہو سکتا جب تک کہ آدمی کا عمل اس کی تائید و تصدیق نہ کر رہا ہو۔ ایک شخص اگر زبان سے کہتا ہے کہ میں صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کو معبود مانتا ہوں، مگر عملاً وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے قول کی تکذیب کر دیتا ہے۔ ایک شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں شراب کو حرام مانتا ہوں، مگر عملاً وہ شراب پیتا ہے تو اس کا محض قول نہ خلق کی نگاہ میں مقبول ہو سکتا ہے نہ خدا کے ہاں اسے کوئی قبولیت نصیب ہو سکتی ہے۔

(۲۲) یعنی باطل اور خبیث کلمے لے کر اٹھتے ہیں، ان کو چالاکیوں سے، فریب کاریوں سے  اور نظر فریب استدلالوں سے فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کے مقابلے میں کلمہ حق کو نیچا دکھانے  کے لیے کوئی بری سے بُری تدبیر استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔

(۲۳)۔ یہاں سے پھر روئے سخن عوام الناس کی طرف پھرتا ہے۔

(۲۴)۔ یعنی انسان کی آفرینش پہلے براہ راست مٹی سے کی گئی، پھر اس کی نسل نطفے سے چلائی گئی۔

(۲۵)۔ یعنی جو شخص بھی  دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق پہلے ہی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اسے دنیا میں کتنی عمر پانی ہے۔ کسی کی عمر دراز ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے ہوتی ہے، اور چھوٹی ہوتی ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے فیصلے کی بنا پر  ہوتی  ہے۔ بعض نادان لوگ  اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ پہلے نو زائیدہ  بچوں کی موتیں بکثرت واقع ہوتی تھیں اور اب علم طب کی ترقی نے ان اموات کو روک دیا ہے۔ اور پہلے لوگ کم عمر پاتے تھے، اب وسائل علاج بڑھ جانے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عمریں طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ دلیل قرآن مجید کے اس بیان کی تردید میں صرف اس وقت پیش کی جا سکتی تھی جبکہ کسی ذریعہ سے ہم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے تو فلاں شخص کی عمر مثلاً دو سال لکھی تھی اور ہمارے طبی وسائل نے اس میں ایک دن کا اضافہ کر دیا۔ اس طرح کا کوئی علم اگر کسی کے  پاس نہیں ہے تو وہ کسی معقول بنیاد پر قرآن کے اس ارشاد کا معارضہ نہیں کر سکتا۔ محض یہ بات کہ اعداد و شمار کی رو سے اب بچوں کی شرح اموات گھٹ گئی ہے، یا پہلے کے مقابلہ میں اب لوگ زیادہ عمر پا رہے ہیں، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ انسان اب اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو بدلنے پر قادر ہو گیا ہے۔ آخر اس میں کیا  عقلی استبعاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے انسانوں کی عمریں مختلف طور پر فرمائی ہوں، اور یہ بھی اللہ عزوجل ہی کا فیصلہ  ہو کہ فلاں زمانے میں انسان کو فلاں امراض کے علاج کی قدرت عطا کی جائے گی اور فلاں دور میں انسان کو بقائے حیات کے فلاں ذرائع بخشے جائیں گے۔

(۲۶)۔ یعنی  اتنی بے شمار مخلوق کے بارے میں اتنا تفصیلی علم اور فرد فرد کے بارے میں اتنے مفصل احکام اس فیصلے کرنا اللہ کے لیے کوئی دشوار کام نہیں ہے۔

(۲۷)۔ یعنی ایک وہ ذخیرہ جو سمندروں میں ہے۔ دوسرا وہ ذخیرہ جو دریاؤں، چشموں اور جھیلوں میں ہے۔

(۲۸)۔ یعنی آبی جانوروں کا گوشت۔

(۲۹)۔ یعنی موتی، مونگے، اور بعض دریاؤں سے ہیرے اور سونا۔

(۳۰)۔ یعنی دن کی روشنی آہستہ آہستہ گھٹنی شروع ہوتی ہے اور رات کی تاریکی بڑھتے بڑھتے آخر کار پوری طرح چھا جاتی ہے۔ اسے طرح رات کے آخر میں پہلے اُفق پر ہلکی سے روشنی نمودار ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ روز روشن نکل آتا ہے۔

(۳۱)۔ ایک ضابطہ کا پابند بنا رکھا ہے۔

(۳۲)۔ اصل میں لفظ قِطْمِیْر  استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد وہ پتلی سی جھلّی ہے جو کھجور کی گٹھلی پر ہوتے ہے۔ لیکن اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ مشرکین کے معبود کسی حقیر سے حقیر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم نے لفظی ترجمہ چھوڑ کر مرادی ترجمہ کیا ہے۔

(۳۳)۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمہاری دعا کے جواب  میں پکار کر کہہ نہیں سکتے کہ تمہاری دعا قبول کی گئی یا نہیں کی گئی۔  بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہاری درخواستوں پر کوئی کاروائی نہیں کر سکتے۔ ایک شخص اگر اپنی درخواست کسی ایسے شخص کے پاس بھیج دیتا ہے جو حاکم نہیں ہے تو اس کی درخواست رائگاں جاتی ہے، کیونکہ وہ جس کے پاس بھیجی گئی ہے اس کے ہاتھ میں سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے، نہ رد کرنے کا اختیار اور نہ قبول کرنے کا اختیار۔ البتہ اگر وہی درخواست اس ہستی کے پاس بھیجی جائے جو واقعی حاکم ہو،  تو اس پر لازماً کوئی نہ کوئی کارروائی ہو گی، قطع نظر اس سے کہ وہ قبول کرنے کی شکل میں ہو  یا رد کرنے کی شکل میں۔

(۳۴)۔ یعنی وہ صاف کہہ دیں گے کہ ہم نے ان سے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہم خدا کے شریک ہیں، تم ہماری عبادت کیا کرو۔ بلکہ ہمیں یہ خبر بھی نہ تھی کہ یہ ہم کو اللہ رب العالمین  کا شریک ٹھیرا رہے ہیں اور ہم سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ان کی کوئی دعائیں نہیں پہنچی اور ان کی کسی نذر و نیاز کی ہم تک رسائی نہیں ہوئی۔

(۳۵)۔ خبردار  سے مراد اللہ تعالیٰ خود ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دوسرا کوئی شخص تو زیادہ سے زیادہ عقلی استدلال سے شرک کی تردید اور مشرکین کے معبودوں کی بے اختیاری بیان کرے گا۔ مگر ہم حقیقت حال سے براہ راست با خبر ہیں۔ ہم علم کی بنا پر تمہیں بتا رہے ہیں کہ لوگوں نے جن جن کو بھی ہماری خدائی میں با اختیار ٹھیرا رکھا  ہے وہ سب بے اختیار ہیں۔ ان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے جس سے وہ کسی کا کوئی کام بنا سکیں یا بگاڑ سکیں۔ اور ہم براہ راست یہ جانتے ہیں کہ قیامت کے روز مشرکین کے یہ معبود خود ان کے شرک کی تردید کریں گے۔

 

ترجمہ

 

لوگو، تم ہی اللہ کے محتاج(۳۶) ہو اور اللہ تو غنی و حمید (۳۷) ہے۔ وہ چاہے تو تمہیں ہٹا کر کوئی نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے، ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی دشوار (۳۸)نہیں۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے (۳۹) گا۔ اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیاں نہ(۴۰) ہو۔ (اے نبی ) تم صرف انہی لوگوں کو متنبہ کر سکتے ہو جو بے دکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے (۴۱) ہیں۔ جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنی ہی بھلائی کے لیے کرتا ہے اور پلٹنا سب کو اللہ ہی کی طرف ہے۔ اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہے۔ نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں۔ نہ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہے۔ اور نہ زندے اور مردے مساوی(۴۲)ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے، مگر (اے نبی )تم ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون(۴۳) ہیں۔ تم تو بس ایک خبردار کرنے والے (۴۴) ہو۔ ہم نے تم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا(۴۵) ہو۔ اب اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رسول کھلے دلائل(۴۶) اور صحیفے اور روشن ہدایات دینے والی کتاب(۴۷) لے کر آئے تھے۔ پھر جن لوگوں نے نہ مانا ان کو میں نے پکڑ لیا اور دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔ ع

 

تفسیر

 

(۳۶) یعنی اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ خدا تمہارا محتاج ہے، تم اسے خدا نہ مانو گے تو اس کی خدائی نہ چلے گی، اور تم اس کی بندگی و عبادت نہ کرو گے تو اس کا کوئی نقصان ہو جائے گا۔ نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ تم اس کے محتاج ہو۔ تمہاری زندگی ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتی اگر وہ تمہیں زندہ نہ رکھے اور وہ اسباب تمہارے لیے فراہم نہ کرے جن کی بدولت تم دنیا میں زندہ رہتے ہو اور کام کر سکتے ہو۔ لہٰذا  تمہیں اس کی اطاعت و عبادت اختیار کرنے کی جو تاکید کی جاتی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ خدا کو اس کی احتیاج ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اسی پر تمہاری اپنی دنیا اور آخرت کی فلاح کا انحصار ہے۔ ایسا نہ کرو گے تو اپنا ہی سب کچھ بگاڑ لو گے، خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے۔

(۳۷)۔ ’’غنی ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے، ہر ایک سے مستغنی اور بے نیاز ہے، کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے۔ اور ’’حمید ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ سے آپ محمود ہے، کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے مگر حمد(شکر اور تعریف ) کا استحقاق اسی کو پہنچتا ہے۔ ان دونوں صفات کو ایک ساتھ اس لیے لایا گیا ہے کہ محض غنی تو وہ بھی ہو سکتا ہے جو اپنی دولت مندی  سے کسی کو نفع نہ پہنچائے۔ اس صورت میں وہ غنی تو ہو گا مگر حمید نہ اسے صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ وہ کسی سے خود تو کوئی فائدہ نہ اٹھائے مگر اپنی دولت کے خزانوں سے دوسروں کو ہر طرح کی نعمتیں عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ان دونوں صفات میں کامل ہے اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ محض غنی نہیں ہے بلکہ ایسا غنی ہے جسے ہر تعریف اور شکر کا استحقاق پہنچتا ہے کیوں کہ وہ تمہاری اور تمام موجودات عالم کی حاجتیں پوری کر رہا ہے۔

(۳۸)۔ یعنی تم کچھ اپنے بل بوتے پر اس کی زمین میں نہیں دندنا رہے ہو۔ اس کا ایک اشارہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ تمہیں یہاں سے چلتا کرے اور کسی اور قوم کو تمہاری جگہ اٹھا کھڑا کرے۔ لہٰذا اپنی اوقات پہچانو اور وہ روش اختیار نہ کرو جس سے آخر کار قوموں کی شامت آیا کرتی ہے۔ خدا کی طرف سے جب کسی کی شامت آتی ہے تو ساری کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے اور اس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے روک سکے۔

(۳۹)۔ ’’ بوجھ‘‘ سے مراد اعمال کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے  ہاں ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے، اور ہر ایک پر صرف اس کے  اپنے ہی عمل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری کا بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی دوسرے پر ڈال دیا جائے۔ اور نہ یہی ممکن کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی ذمہ داری کا بار خود اپنے اوپر لے لے اور اسے بچانے کے لیے اپنے آپ کو اس کے  جرم میں پکڑ وا دے۔ یہ بات یہاں اس بنا پر فرمائی جا رہی ہے کہ مکہ معظمہ میں جو لوگ اسلام قبول کر رہے تھا ان سے ان کے مشرک رشتہ دار اور برادری کے لوگ کہتے تھے کہ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور دین آبائی پر قائم رہو، عذاب ثواب ہماری گردن پر۔

(۴۰)۔ اوپر کے فقرے میں اللہ کے قانون عدل کا بیان ہے کہ وہ ایک کے گیاہ میں دوسرے کو نہ پکڑے گا، بلکہ ہر ایک کو اس کے اپنے ہی گناہ کا ذمہ دار ٹھیرائے گا۔ اور اس فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ آج یہ بات کہہ رہے ہیں کہ تم ہماری ذمہ داری پر کفر و معصیت ارتکاب کرو، قیامت کے روز ہم تمہارا بار گناہ اپنے اوپر لے لیں گے، وہ دراصل محض ایک جھوٹا بھروسا دلا رہے ہیں۔ جب قیامت آئے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے وہ کس انجام سے دوچار ہونے والے ہیں تو ہر ایک کو اپنی پڑ جائے گی۔ بھائی بھائی سے اور باپ بیٹے سے منہ موڑ لے گا اور کوئی کسی کا ذرہ برابر بوجھ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار نہ ہو گا۔

(۴۱)۔ بالفاظ دیگر  ہٹ دھرم اور ہیکڑ لوگوں پر تمہاری تنبیہات کار گر نہیں ہو سکتیں۔ تمہارے سمجھانے  سے تو وہی لوگ راہ راست پر آ سکتے ہیں جن کے دل میں خدا کا خوف ہے اور جو اپنے ما لک حقیقی کے آگے جھکنے کے لیے تیار ہیں۔

(۴۲)۔ ان تمثیلات میں مومن اور کافر کے حال اور مستقبل کا فرق بتایا گیا ہے۔ ایک وہ شخص ہے جو حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور کچھ نہیں دیکھتا کہ کائنات کا سارا نظام اور خود اس کا اپنا وجود صداقت کی طرف اشارے کر رہا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ صاف دیکھ رہا ہے کہ اس کے باہر اور اندر کی ہر چیز خدا کی توحید اور اس کے حضور انسان کی جوابدہی پر گواہی دے رہی ہے۔ ایک وہ شخص ہے جو جاہلانہ اوہام اور مفروضات  و قیاسات کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے اور پیغمبر کی روشن کی ہوئی شمع کے قریب بھی پھٹکنے کے لیے تیا ر نہیں۔ دوسرا  وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور پیغمبر کی پھیلائی ہوئی روشنی سامنے آتے ہی اس پر یہ بات بالکل عیاں ہو گئی  ہے کہ مشرکین اور کفار اور دہریے جن راہوں پر چل رہے ہیں وہ سب تباہی کی طرف جاتی ہیں اور فلاح کی راہ صرف وہ ہے جو خدا کے رسول نے دکھائی ہے۔ اب آخر یہ کیونکر ممکن ہے کہ دنیا میں ان دونوں کا رویہ یکساں ہو اور دونوں ایک ساتھ ایک ہی راہ پر چل سکیں؟ اور آخر یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ دونوں کا انجام یکساں ہو اور دونوں ہی مر کر فنا ہو جائیں، نہ ایک کو بد راہی کی سزا ملے، نہ دوسرا راست روی کا کوئی انعام پائے؟ ’’ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی نہیں ہے ‘‘ کا اشارہ اسی انجام کی طرف ہے کہ ایک اللہ کے سایہ رحمت میں جگہ پانے والا ہے اور دوسرا جہنم کی تپش میں جھلسنے والا ہے۔ تم کس خیال خام میں مبتلا ہو کہ آخر کار دونوں ایک ہی انجام سے دوچار ہوں گے۔ آخر میں مومن کو زندہ سے اور ہٹ دھرم کافروں کو مردہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یعنی مومن وہ ہے جس کے اندر احساس و ادراک اور فہم و شعور موجود ہے اور اس کا ضمیر اسے بھلے اور برے کی تمیز سے ہر وقت آگاہ کر رہا ہے۔ اور اس کے بر عکس جو شخص کفر کے تعصب میں پوری طرح غرق ہو چکا ہے اس کا حل اس اندھے سے بھی بدتر ہے جو تاریکی میں بھٹک رہا ہو، اس کی حالت تو اس مردے کی سی ہے جس میں کوئی حِس باقی نہ رہی ہو۔

(۴۳)۔ یعنی اللہ کی مشیت کی تو بات ہی دوسری ہے، وہ چاہے تو پتھروں کو سماعت بخش دے، لیکن رسولؐ کے جس کا یہ کام نہیں ہے کہ جن لوگوں کے سینے ضمیر کے مدفن بن چکے ہوں ان کے دلوں میں اپنی بات اتار سکے اور جو بات سننا ہی نہ چاہتے ہوں ان کے بہرے کانوں کو صدائے حق سنا سکے۔ وہ تو انہی لوگوں کو سنا سکتا ہے جو معقول بات پر کان دھرنے کے  لیے تیار ہوں۔

(۴۴)۔ یعنی تمہارا کام لوگوں کو خبردار کر دینے سے زائد کچھ نہیں ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی ہوش میں نہیں آتا اور اپنی گمرا ہیوں ہی میں بھٹکتا رہتا ہے تو اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ اندھوں کو دکھانے  اور بہروں کو سنانے  کی خدمت تمہارے سپرد نہیں کی گئی ہے۔

(۴۵)۔ یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے کہ دنیا میں کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس ی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی مبعوث نہ فرمائے ہوں۔ سورہ رعد میں فرمایا وَلِکُلِّ قَوْم ھَاد (آیت۷)۔ سورہ حجر میں فرمایا  وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ اَبْلِکَ فَیْ شِیَعِ الْاَ وَّ لِیْنَ (آیت ۱۰)۔ سورہ نحل میں فرمایا وَلَقَدْ بَعَثْنَا فَیْ کُلِّ اُمَّۃ رَّ سُوْلاً (آیت ۳۶)۔ سورہ شعراء میں فرمایا   وَمَا اَھْلکْنَا مِنْ قَرْیَۃ اِلَّا لَھَا مُنْذِرُوْنَ (آیت ۲۰۸)۔ مگر اس سلسلے میں دو باتیں سمجھ لینی چاہییں تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ اول یہ کہ ایک نبی کی تبلیغ جہاں جہاں تک پہنچ سکتی ہو وہاں کے لیے وہی نبی کافی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ہر بستی اور ہر ہر قوم میں الگ الگ ہی انبیا ء بھیجے جائیں۔ دوم یہ کہ ایک نبی کی دعوت و ہدایت کے آثار اور اس کی رہنمائی کے نقوش قدم جب تک محفوظ نہیں اس وقت تک کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لازم نہیں کہ ہر نسل اور ہر پشت کے لیے الگ نبی بھیجا جائے۔

(۴۶)۔ یعنی ایسے دلائل جو اس بات کی صاف شہادت دیتے تھے کہ وہ اللہ کے رسولؐ ہیں۔

(۴۷) صحیفوں اور کتاب میں غالباً یہ فرق ہے کہ صحیفے زیادہ تر نصائح اور اخلاقی ہدایات پر مشتمل ہوتے تھے،  اور کتاب ایک پوری شریعت لے کر آتی تھی۔

 

ترجمہ

 

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف (۴۸)ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں  میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے (۴۹) ہیں۔ نے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا(۵۰)ہے۔

جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع جس میں ہر گز خسارہ نہ ہو گا۔ (اس تجارت میں انہوں نے اپنا سب کچھ اس لیے کھپایا ہے ) تاکہ اللہ ان کے اجر پورے کے پورے ان کو دے اور مزید اپنے فضل سے ان کو عطا (۵۱)فرمائے۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور قدردان (۵۲) ہے۔ (اے نبیؐ) جو کتاب ہم نے تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی ہے وہی حق ہے، تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے آئی(۵۳) تھیں۔ بے شک اللہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور ہو چیز پر نگاہ رکھنے والا(۵۴) ہے۔ پھر ہم نے اس کتاب کا وارث  بنا دیا ان  لوگوں کو جنہیں ہم نے (اس وراثت کے لیے ) اپنے بندوں میں  سے چن(۵۵) لیا۔ اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل (۵۶) ہے۔ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں (۵۷) گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا، وہاں ان کا لباس ریشم ہو گا، اور وہ کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر(۵۸) دیا، یقیناً ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا(۵۹)ہے، جس نے اپنے  فضل سے ابدی قیام کی جگہ ٹھیرا (۶۰) دیا، اب یہاں نہ ہمیں کوئی مشقت پیش آتی لے اور نہ تکان لاحق ہوتی (۶۱)ہے۔

اور جب لوگوں نے کفر کیا (۶۲) ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ نہ ان کا قصہ پاک کر دیا  جائے گا کہ مر جائیں  اور نہ ان کے لیے جہنم کے عذاب میں کوئی کمی کی جائے گی۔ اس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہر اس شخص کو جو کفر کرنے والا ہو۔ وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے  کہ ’’ اے ہمارے رب، ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے۔ ‘‘ (انہیں جواب دیا جائے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا(۶۳) تھا؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا۔ اب مزا چکھو۔ ظالموں کا یہاں کوئی مدد گار نہیں ہے ‘‘۔ ع

 

تفسیر

 

(۴۸)۔ اس سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ خدا کی پیدا کردہ کائنات میں کہیں بھی یک رنگی و یکسانی نہیں ہے۔ ہر طرف تنُّوع ہی تنُّوع ہے ایک ہے زمین اور ایک ہی پانی سے طرح طرح کے درخت نکل رہے ہیں اور ایک درخت کے دو پھل تک اپنے رنگ، جسامت اور مزے میں یکساں نہیں ہیں۔ ایک ہی پہاڑ کو دیکھو تو اس میں کئی کئی رنگ تمہیں نظر آئیں گے اور اس کے مختلف حصوں کی مادی ترکیب میں بڑا فرق پایا  جائے گا۔ انسانوں اور جانوروں میں ایک ماں باپ کے دو  بچے تک یکساں نہ ملیں گے۔ اس کائنات میں اگر کوئی مزاجوں اور طبیعتوں اور ذہنیتوں کی یکسانی ڈھونڈے اور وہ اختلافات دیکھ کر  گھبرا اٹھے جن کی طرف اوپر (آیت نمبر ۱۹ تا ۲۲ میں )اشارہ کیا گیا ہے تو یہ اس کے اپنے فہم کی کوتاہی ہے۔ یہی تنوع اور اختلاف تو پتہ دے رہا ہے کہ اس کائنات کو کسی زبردست حکیم نے بے شمار حکمتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کا بنانے والا کوئی بے نظیر خلاّق اور بے مثل صنّاع ہے جو ہر چیز کا کوئی ایک ہی نمونہ لے کر نہیں بیٹھ گیا ہے، بلکہ اس کے پاس ہر شے کے لیے نئے سے نئے ڈیزائن اور بے حد و حساب ڈیزائن ہیں۔ پھر خاص طور پر انسانی طبائع اور اذہان کے اختلاف پر کوئی شخص غور کرے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ در حقیقت  حکمت تخلیق کا شاہ کار ہے۔ اگر تمام انسان پیدائشی طور پر اپنی افتاد طبع اور اپنی خواہشات، جذبات، میلانات اور طرز فکر کے لحاظ سے یکساں بنا دیے جاتے اور کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہ رکھی جاتی تو دنیا میں انسان کی قوم کی ایک نئی مخلوق پیدا کرنا ہی میرے سے لا حاصل ہو جاتا۔ خالق نے جب اس زمین پر ایک ذمہ دار مخلوق اور اختیارات کی حامل مخلوق وجود میں لانے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے کی نوعیت کا لازمی تقاضا یہی تھا کہ اس کی ساخت میں ہر قسم کے اختلافات کی گنجائش رکھی  جاتی۔ یہ چیز اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے کہ انسان کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک عظیم الشان حکیمانہ منصوبے کا نتیجہ ہے اور ظاہر ہے کہ حکیمانہ منصوبہ جہاں بھی پایا  جائے گا وہاں لازماً اس کے پیچھے ایک حکیم ہستی کار فرما ہو گی۔ حکیم کے بغیر حکمت کا وجود صرف ایک احمق ہی فرض کر سکتا ہے۔

(۴۹)۔ یعنی جو شخص اللہ کی صفات سے جتنا زیادہ نا واقف ہو گا اور اس کے برعکس جس شخص کو اللہ کی قدرت، اس کی علم، اس کی حکمت، اس کی قہاری و جبّاری، اور اس کی دوسری صفات کی جتنی معرفت حاصل ہو گی اتنا ہی وہ اس کی نافرمانی سے خوف کھائے گا۔ پس درحقیقت کس آیت میں علم سے مراد فلسفہ و سائنس اور تاریخ و ریاضی وغیرہ درسی علوم نہیں ہیں بکہ صفات الہٰی کا علم ہے قطع نظر اس سے کہ آدمی خواندہ ہو یا نا خواندہ۔ و شخص خدا سے بے خوف ہے وہ علّامہ دہر بھی ہو تو اس علم کے لحاظ وے جاہل محض ہے۔ اور جو شخص خدا کی صفات کو جانتا ہے اور اس کی خشیت اپنے دل میں رکھتا ہے وہ اَن پڑھ بھی ہو تو ذی علم ہے۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اس آیت میں لفظ ’’ علماء‘‘ سے وہ اصطلاحی علماء بھی مراد نہیں ہیں جو قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کا علم رکھنے کی بنا پر علمائے دین کہے جاتے ہیں۔ وہ اس آیت کے مصداق صرف اسی صورت میں ہوں گے جبکہ ان  کے اندر خدا ترسی موجود ہو۔ یہی بات حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمائی ہے کہ  لیس العلم عن کثرۃ الحدیث و لٰکن العلم عن کثرۃ الخشیۃ۔ ‘‘ علم کثرت حدیث کی بنا پر نہیں ہے بلکہ خوف خدا کی کثرت کے لحاظ سے ہے ‘‘ اور یہی بات حضرت حسن بصریؒ نے فرمائی ہے کہ العلم من خشی الحمٰن بالغیب و رغب فیما رغب اللہ فیہ و زھد فیما سخط اللہ فیہ۔ ’’ علم وہ ہے جو اللہ سے بے دیکھے ڈرے، جو کچھ اللہ کو پسند ہے اس کی طرف وہ راغب ہو”” اور جس چیز سے اللہ ناراض ہے اس سے وہ کوئی دلچسپی نہ رکھے۔ ‘‘

(۵۰)۔ یعنی وہ زبردست تو ایسا ہے کہ نافر مانوں کو  جب چاہے پکڑ لے، اسی میں یارا نہیں کہ اس کی پکڑ سے بچ نکلے، مگر یہ اس کی شان عفو و در گزر ہے جس کی بنا پر ظالموں کو مہلت ملے جا رہی ہے۔

(۵۱)۔ اہل ایمان کے اس عمل کو تجارت سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ آدمی تجارت میں اپنا سرمایہ اور محنت و قابلیت اس امید پر صرف کرتا ہے کہ نہ صرف اصل واپس ملے گا، اور نہ صرف وقت اور محنت کی اجت ملے گی، بلکہ کچھ مزید منافعہ بھی حاصل ہو گا۔ اسی طرح ایک مومن بھی خدا کی فرمانبرداری میں، اس کی بندگی و عبادت میں، اور اس کے دین کی خاطر جدوجہد میں، اپنا مال، اپنے اوقات، اپنی محنتیں اور قابلیتیں اس امید پر کھپا دیتا ہے کہ نہ صرف ان سب کا پورا پورا اجر ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے مزید بہت کچھ عنایت فرمائے گا۔ مگر دونوں تجارتوں میں فرق اور بہت بڑا فرق اس بنا پر ہے کہ دنیوی تجارت میں محض نفع ہی کی امید نہیں ہوتے، گھاٹے اور دیوالے تک کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ بخلاف اس کے جو تجارت ایک مخلص بندہ اپنے خدا کے ساتھ کرتا ہے اس میں کسی خسارے کا اندیشہ نہیں۔

(۵۲)۔ یعنی مخلص اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس تنگ دل آقا کا سا نہیں ہے جو بات بات پر گرفت کرتا ہو اور ایک ذرا سی خطا پر اپنے ملازم کی ساری خدمتوں اور وفا داریوں پر پانی پھیر دیتا ہو۔ وہ فیاض اور کریم آقا ہے۔ جو بندہ اس کا وفادار ہو اس کی خطاؤں پر چشم پوشی سے کام لیتا ہے اور جو کچھ بھی خدمت اس سے بن آئی ہو اس کی قدر فرماتا ہے۔

(۵۳)۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی نرالی بات نہیں پیش کر رہی ہے جو پچھلے انبیاء کی لائی ہوئی تعلیمات کے خلاف ہو، بلکہ اسی ازلی و ابدی حق کو پیش کر رہی ہے جو ہمیشہ سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔

(۵۴)۔ اللہ کی ان صفات کو یہاں بیان کرنے کا مقصود اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ بندوں کے لیے خیر کس چیز میں ہے، اور ان کی ہدایت و رہنمائی ہے لیے کیا اصول موزوں ہیں، اور کون سے ضابطے ٹھیک ٹھیک ان کی مصلحت کے مطابق ہیں، ان امور کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا، کیونکہ بندوں کی فطرت اور اس کے تقاضوں سے وہی باخبر ہے، اور ان کے حقیقی مصالح پر وہی نگاہ رکھتا ہے۔ بندے خود اپنے آپ کو اتنا نہیں جانتے جتنا ان کا خالق ان کو جانتا ہے۔ اس لیے حق وہی ہے اور وہی ہو سکتا ہے جو اس نے وحی کے ذریعہ سے بتا دیا ہے۔

(۵۵) مراد ہیں مسلمان جو پوری نوعِ انسانی میں سے چھانٹ کر نکالے گئی ہیں تاکہ وہ کتاب اللہ کے وارث ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اسے لے کر اٹھیں۔ اگر چہ کتاب پیش تو کی گئی ہے سارے انسانوں کے سامنے۔ مگر جنہوں نے آگے پڑھ کر اس ے قبول کر لیا وہی اس شرف کے لیے منتخب کر لیے گئے کہ قرآن جیسی کتاب عظیم کے وارث اور  محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم جیسے رسول عظیم کی تعلیم و ہدایت کے امین بنیں۔

(۵۶)۔ یعنی یہ مسلمان سب دے سب ایک ہی طرح کے نہیں ہیں، بلکہ یہ تین طبقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں:

۱)۔ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو سچے دل سے اللہ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ایمانداری کے ساتھ اللہ کا رسول تو مانتے ہیں، مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کا حق ادا نہیں کرتے۔ مومن ہیں مگر گناہ گار ہیں۔ مجرم ہیں مگر باغی نہیں ہیں۔ ضعیف الایمان ہیں مگر منافق اور دل و دماغ سے کافر نہیں ہیں۔ اسی لیے ان کو ظالمُ لِنفسہ ہونے کے باوجود وارثین کتاب میں داخل اور خدا کے چُنے ہوئے بندوں میں شامل کیا گیا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ باغیوں اور منافقوں اور قلب و ذہن کے کافروں پر ان اوصاف کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ تینوں درجات میں سے اس درجہ کے اہل ایمان کا ذکر سب سے پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے امت میں کثرت انہی کی ہے۔

۲)۔ بیچ کی راس۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وراثت کا حق کم و بیش ادا تو کرتے ہیں مگر پوری طرح نہیں کرتے۔ فرماں بردار بھی ہیں اور خطا کار بھی۔ اپنے نفس کو بالکل بے لگام تو انہوں نے نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے خدا کا مطیع بنانے کی اپنی حد تک کوشش کرتے ہیں، لیکن کبھی یہ اس کی باگیں ڈھیلی بھی چھوڑ دیتے ہیں اور گناہوں میں مبتال ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ان کی زندگی اچھے اور برے، دونوں طرح کے اعمال کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ یہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور تیسرے گروہ سے زیادہ ہیں اس لیے ان کو دوسرے نمبر  پر رکھا گیا ہے۔

۳)۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے۔ یہ وارثین کتاب میں صفِ اول کے لوگ ہیں۔ یہی دراصل اس وراثت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ یہ اتباع کتاب و سنت میں بھی پیش پیش ہیں، خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں بھی پیش پیش، دین حق کی خاطر قربانیاں کرنے میں بھی پیش پیش، اور بھلائی کے ہر کام میں پیش پیش۔ یہ دانستہ معصیت کرنے والے نہیں ہیں، اور نا دانستہ کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر متنبہ ہوتے ہی ان کی پیشانیاں شرم سے عرق آلود ہو جاتی ہیں۔ ان کی تعداد امت میں پہلے دونوں گروہوں سے کم ہے اس لیے ان کا آخر میں ذکر کیا گیا ہے اگر چہ وراثت کا حق ادا کرنے کے معاملہ میں ان کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔

’’یہی بہت بڑا فضل ہے ‘‘۔ اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے سے مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نیکیوں میں سبقت کرنا ہی بڑا فضل ہے اور جو لوگ ایسے ہیں وہ امت مسلمہ میں سب سے افضل ہیں۔ اور اس فقرے کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ کتاب اللہ کا وارث ہونا اور اس وراثت کے لیے چن لیا جانا بڑا فضل ہے، اور خدا کے تمام بندوں میں وہ بندے سب سے افضل ہیں جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لا کر اس انتخاب میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

(۵۷)۔ مفسرین میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اس فقرے کا تعلق قریب ترین دونوں فقروں سے ہے، یعنی نیکیوں پر سبقت کرنے والے ہی بڑی فضیلت رکھتے ہیں اور وہی ان جنتوں میں داخل ہوں گے۔ رہے پلے دو گروہ، تو ان کے بارے میں سکوت فرمایا گیا ہے تاکہ وہ اپنے انجام کے معاملہ میں فکر مند ہوں اور اپنی موجودہ حالت سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ اس رائے کو علامہ زمخشری نے بڑے زور کے ساتھ بیان کیا ہے اور امام رازی نے اس کی تائید کی ہے۔

لیکن مفسرین کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے یہ تینوں گروہ بالآخر جنت میں داخل ہوں گے، خواہ محاسبہ کے بغیر یا محاسبہ کے بعد، خواہ ہر مواخذہ  سے محفوظ رہ کر یا کوئی سزا پانے کے بعد۔ اسی تفسیر کی تائید قرآن کا سیاق کرتا ہے، کیونکہ آگے چل کر وارثین کتاب کے بالمقابل دوسرے گروہ متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے اس کتاب کو مان لیا ہے ان کے لیے جنت ہے اور جنہوں نے اس پر ایمان لانے سے انکار کیا ہے ان کے لیے جہنم۔ پھر اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوالدارواء نے روایت کیا ہے اور امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، طَبَرانی، بیہقی اور بعض دوسرے محدثین نے اسے نقل کیا ہے اس میں حضورؐ فرماتے ہیں:

فامّا الذین سبقو ا فاولٰئِک الذین ید خلو ن الجنۃ بغیر حساب، وامّا الذین اقتصد وا فاولٰئِک الذین ظلمو اا نفسہم فا ولٰئِک یُحبَسوْن طول المحشر ثم ھم الذین تتلقّا ھم اللہ برحمتہ فھم الذین یقولون الحمد لِلہ الذی اذھب عنا الحزن۔

جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے  گئے ہیں وہ جنت میں کسی حساب کے بغیر داخل ہوں گے۔ اور جو بیچ کی راس رہے ہیں ان سے محاسبہ ہو گا مگر ہلکا محاسبہ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو وہ محشر کے پورے طویل عرصہ میں روک رکھے جائیں گے، پھر  انہی کو اللہ اپنی رحمت میں لے لے گا اور یہی لوگ ہیں جو کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا۔

اس حدیث میں حضورؐ نے اس آیت کی پوری تفسیر خود بیان فرما دی ہے اور اہل ایمان کے تینوں طبقوں کا انجام الگ الگ بتا دیا ہے۔ بیچ کی راس والوں سے ’’ ہلکا محاسبہ ‘‘ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کفار کو تو ان کے کفر کے علاوہ ان کے ہر ہر جرم اور گناہ کی جداگانہ سزا بھی دی جائے گی، مگر اس کے برعکس اہل ایمان میں جو لوگ اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال لے کر پہنچیں گے ان کی نیکیوں اور ان کے گناہوں کا مجموعی محاسبہ ہو گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ ہر نیکی کی الگ جزا اور ہر قصور کی الگ سزا دی جائے۔ اور یہ جو فر مایا کہ اہل ایمان میں سے جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہو گا وہ محشر کے پورے عرصے میں روک رکھے جائیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ  وہ جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے بلکہ ان کو ’’ تا برخاستِ عدالت ‘‘ کی سزا دی جائے گی، یعنی روز حشر کی پوری طویل مدت (جو نہ معلوم کتنی صدیوں طویل ہو گی) ان پر اپنی ساری سختیوں کے ساتھ گزر جائے گی، یہاں تک کہ آخر کار اللہ ان پر رحم فرمائے گا اور خاتمہ عدالت کے وقت حکم دے گا کہ اچھا، انہیں بھی جنت میں داخل کر دو۔ اسی مضمون کے متعدد اقوال محدثین نے بہت سے صحابہ، مثلاً حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عائشہ، حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت بَراء ابن عارب سے نقل کیے ہیں، اور ظاہر ہے کہ صحابہ ایسے معاملات میں کوئی بات اس وقت تک نہیں کہہ سکتے تھے جب تک انہوں نے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کو نہ سنا ہو۔

مگر  اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے ’’ اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ‘‘ ان کے لیے صرف ’’ تا برخاست عدالت‘‘ ہی کی سزا ہے اور ان میں سے کوئی جہنم میں جائے گا ہی نہیں۔ قرآن اور حدیث میں متعدد ایسے جرائم کا ذکر ہے جن کے مرتکب ایمان کو بھی جہنم میں جانے وے نہیں بچا سکتا۔ مثلاً جو مومن کو عمداً قتل کر دے اس کے لیے جہنم کی سزا کا اللہ تعالیٰ نے خود اعلان فرما دیا ہے۔ اسی طرح قانون وراثت کی خداوندی خدود کو توڑنے والوں کے لیے بھی قرآن مجید میں جہنم کی وعید فرمائی گئی ہے۔ سُود کی حرمت کا حکم آ جانے کے بعد پھر سود خواری کرنے والوں کے لیے بھی صاف صاف اعلان فرمایا گیا ہے کہ ہو اصحاب النار ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اور کبائر کے مرتکبین کے لیے بھی احادیث میں تصریح ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے۔

(۵۸)۔ ہر قسم کا غم۔ دنیا میں جن فکروں اور پریشانیوں میں مبتلا تھے ان سے بھی نجات ملی، عُقبیٰ میں اپنے انجام کی جو فکر لا حق تھی وہ بھی ختم ہوئی، اور اب آگے چَین ہی چَین ہے، کسی رنج و الم کا کوئی سوال ہی باقی نہ رہا۔

(۵۹)۔ یعنی ہمارے قصُور اس نے معاف فرما دیے اور عمل کی جو تھوڑی سی پونجی ہم لائے تھے اس کی ایسی قدر فرمائی کہ اپنی جنت اس کے بدلے میں ہمیں عطا فرما دی۔

(۶۰)۔ یعنی دنیا ہماری سفر حیات کی ایک منزل تھی جس سے ہم گزر آئے ہیں، اور میدان حشر بھی اس سفر کا ایک مرحلہ تھا جس ہم گزر لیے ہیں، اب ہم اس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں سے نکل کر پھر کہیں جانا نہیں ہے۔

(۶۱)۔ بالفاظ دیگر ہماری تمام محنتوں اور تکلیفوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب یہاں ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا پڑتا جس کے انجام دینے میں ہم کو مشقت پیش آتی ہو اور جس سے فارغ ہو کر ہم تھک جاتے ہوں۔

(۶۲)۔ یعنی اس کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم  پر نازل فرمائی ہے۔

(۶۳)۔ اس سے مراد ہر وہ عمر ہے جس میں آدمی اس قابل ہو سکتا ہو کہ اگر وہ نیک و بد اور حق و باطل میں امتیاز کرنا چاہے تو کر سکے اور  گمراہی چھوڑ کر ہدایت کی طرف رجوع کرنا چاہے تو کر سکے۔ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اگر کوئی شخص مر چکا ہو تو اس آیت کی رُو سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا۔ البتہ جو اس عمر کو پہنچ چکا ہو وہ اپنے عمل کے لیے لازماً جواب دہ قرار پائے گا، اور پھر اس عمر کے شروع ہو جانے کے بعد جتنی مدت بھی وہ زندہ رہے اور سنبھل کر راہ راست پر آنے کے لیے جتنے مواقع بھی اسے ملتے چلے جائیں اتنی ہی اس کی ذمہ داری شدید تر ہوتی چلے جائی گی، یہاں تک کہ جو شخص بڑھاپے کو پہنچ کر بھی سیدھا نہ ہو اس کے لیے کسی عذر کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت سہل بن سَعد ساعِدی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل فرمائی ہے کہ جو شخص کم عمر پائے اس کے لیے تو عذر کا موقع ہے، مگر ۶۰ سال اور اس سے اوپر عمر پانے والے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے (بخاری، احمد، نَسائی، ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ )۔

(۶۴)۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اس نے پچھلی نسلوں اور قوموں کے گزر جانے کے بعد اس تم کو ان کی جگہ اپنی زمین میں بسایا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس نے تمہیں زمین میں تصرف کے جو اختیارات دیے ہیں سہ اس حیثیت سے نہیں ہیں کہ تم ان چیزوں کے مالک ہو، بلکہ اس حیثیت سے ہیں کہ تم اصل مالک کے خلیفہ ہو۔

 

ترجمہ

 

بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے، وہ تو سینوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا(۶۴) ہے۔ اب جو کوئی کفر کرتا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر (۶۵) ہے، اور کافروں کو ان کا کفر اس کے سوا کوئی ترقی نہیں دیتا کہ ان کے رب کا غضب ان پر زیادہ سے زیادہ بھڑکتا چلا جاتا ہے۔ کافروں کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا کوئی ترقی نہیں۔

(اے نبیؐ) ان سے کہو، ’’ کبھی تم نے دیکھا بھی ہے اپنے ان شریکوں(۶۶) کو جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو؟ مجھے  بتاؤ، انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں میں ان کی کیا شرکت ہے ‘‘؟ (اگر یہ نہیں بتا سکتے تو ان سے پوچھو) کیا ہم نے انہیں تحریر لکھ کر دی ہے جس کی بنا پر یہ (اپنے اس شرک کے لیے ) کوئی صاف سند رکھتے (۶۷) ہوں؟ نہیں، بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے کو محض فریب کے جھانسے دیے جا رہے (۶۸) ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے، اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دوسرا انہیں تھامنے والا نہیں(۶۹) ہے۔ بے شک اللہ بڑا حلیم اور درگزر فرمانے والا(۷۰) ہے۔

یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آ گیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو(۷۱) ہوتے۔ مگر جب خبردار کرنے والا ان کے پاس آ گیا تو اس کی آمد نے ان کے اندر حق سے فرار کے سوا کسی  چیز میں اضافہ نہ کیا۔ یہ زمین میں اور زیادہ استکبار کرنے لگے اور بری برُی چالیں چلنے لگے، حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا (۷۲) جائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہر گز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔ کیا یہ لوگ زمین میں کبھی چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان سے بہت زیادہ طاقت ور تھے؟ اللہ کو کوئی چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اگر کہیں وہ لوگوں کو ان کے کیے  کرتوتوں پر پکڑتا تو زمین پر کسی متنفس کو جیتا نہ چھوڑ تا۔ مگر وہ انہیں ایک مقرر وقت تک کے لیے مہلت دے رہا ہے۔ پھر جب ان کا وقت آن پورا ہو گا تو اللہ اپنے بندوں کو دیکھ لے گا۔ ع

 

تفسیر

 

(۶۵)۔ اگر پہلے فقرے کا یہ مطلب لیا جائے کہ تم کو پچھلی قوموں کا جانشین بنایا ہے تو اس فقرے کے معنی یہ ہوں گے کہ جس نے گزشتہ قوموں کے انجام سے کوئی نہ لیا اور وہی کفر کا رویہ اختیار کیا جس کی بدولت وہ قومیں تباہ ہو چکی ہیں، وہ اپنی اس حماقت کا نتیجہ بد دیکھ کر رہے گا۔ اور اگر اس فقرے کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے خلیفہ کی حیثیت سے زمین میں اختیارات عطا کیے ہیں تو اس فقرے کے معنی یہ ہوں گے کہ جو اپنی حیثیت خلافت کو بھول کر خود مختار بن بیٹھا  یا جس نے اصل مالک کو چھوڑ کر کسی اور کی بندگی اختیار کر لی وہ اپنی اس باغیانہ روش کا برا انجام دیکھ لے گا۔

(۶۶)۔ ’’  اپنے شریک ‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا گیا ہے  کہ در حقیقت وہ خدا کے شریک تو ہیں نہیں، مشرکین نے ان کو اپنی طور پر اس کا شریک بنا رکھا ہے۔

(۶۷)۔ یعنی کیا ہمارا لکھا ہوا کوئی پروانہ ان کے پاس ایسا ہے جس میں ہم نے یہ تحریر کیا ہو کہ فلاں فلاں اشخاص کو ہم نے بیماروں کو تندرست کرنے، یا بے روزگاروں کو روزگار  دلوانے، یا حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کے اختیارات دیے ہیں، یا فلاں فلاں ہستیوں کو ہم نے اپنی زمین کے فلاں حصوں کا مختارِ کار بنا دیا ہے اور ان علاقوں کے لوگوں کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا اب ان کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا ہمارے بندوں کو اب انہی سے دعائیں مانگنی چاہییں اور انہی کے  حضور نذریں اور نیازیں  چڑھانی  چاہییں اور جو نعمتیں بھی ملیں ان پرا نہی’’ چھوٹے خداؤں ‘‘ کا شکر بجا لانا چاہیے۔ ایسی کوئی سند اگر تمہارے پاس  ہے تو لاؤ اسے پیش کرو۔ اور اگر نہیں ہے تو خود ہی سوچو کہ یہ مشرکانہ عقائد اور اعمال آخر تم نے کس بنیاد پر ایجاد کر لیے ہیں۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ زمین اور آسمان میں کہیں تمہارے ان بناوٹی معبودوں کے شریک خدا ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہے؟ تم اس کے جواب میں کسی علامت کی نشان دہی نہیں کر سکتے۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ خدا نے اپنی کسی کتاب میں ہی فرمایا ہے، یا تمہارے پاس یا ان بناوٹی معبودوں کے پاس خدا کا دیا ہوا کوئی پروانہ  ایسا موجود ہے جو اس امر کی شہادت دیتا ہو کہ خدا نے خود انہیں وہ اختیارات عطا فرمائے ہیں جو تم ان کی طرف منسوب کر رہے ہو؟ تم وہ بھی پیش نہیں کر سکتی۔ اب آخر وہ چیز کیا ہے جس کی بنا پر تم اپنے یہ عقیدے بنائے بیٹھے ہو؟ کیا تم خدائی کے مالک ہو کہ خدا کے اختیارات جس جس کو چاہو بانٹ دو؟

(۶۸)۔ یعنی یہ پیشوا اور پیر، یہ پنڈت اور پروہت، یہ کاہن اور واعظ، یہ مجاور اور ان کے ایجنٹ محض اپنی دوکان چمکانے کے لیے عوام کو اُلّو بنا رہے ہیں اور طرح طرح کے قصے گھڑ گھڑ کر لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلا رہے ہیں کہ خدا کو چھوڑ کر فلاں فلاں ہستیوں کے دامن تھام لو گے تو دنیا میں تمہارے سارے کام بن  جائیں گے اور آخرت میں تم چاہے کتنے ہی گناہ سمیٹ کر لے جاؤ، وہ اللہ سے تمہیں بخشوا لیں گے۔

(۶۹)۔ یعنی یہ اتھاہ کائنات اللہ تعالیٰ کے  قائم رکھنے سے قائم ہے۔ کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی اس کو سنبھالے ہوئے نہیں ہے۔ کائنات کو سنبھالنا تو در کنار، یہ بے بس بند ے تو اپنے وجود کے سنبھالنے پر بھی قادر نہیں۔ ہر ایک اپنی پیدائش اور اپنے بقاء کے لیے ہر آن اللہ جلّ شانہ کا محتاج ہے۔ ان میں سے کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ خدائی کی صفات اور اختیارات میں اس کا کوئی حصہ ہے خالص حماقت اور فریب خوردگی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔

(۷۰)۔ یعنی یہ سراسر اللہ کا حِلم اور اس کی چشم پوشی ہے کہ اتنی بڑی گستاخیاں اس کی جناب میں کی جا رہی ہیں اور پھر بھی وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کر رہا ہے۔

(۷۱)۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے عرب کے لوگ عموماً اور قریش کے لوگ خصوصاً یہود و نصاریٰ کی بگڑی ہوئی اخلاقی حالت کو دیکھ کر کہا کرتے تھے۔ ان کے اس قول کا ذکر اس سے پہلے سورہ انعام (آیت ۱۵۶۔ ۱۵۷) میں بھی گزر چکا ہے اور آگے سورہ صافّات (۱۶۷ تا ۱۶۹) میں بھی آ رہا ہے۔

(۷۲)۔ یعنی اللہ کا یہ قانون ان پر بھی جاری ہو جائے کہ جو قوم اپنے نبی کو جھٹلاتی ہے وہ تباہ کر کے رکھ دی جاتی ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduquran.net

http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp

http://ur.wikipedia.org

تشکر: سبط الحسین

جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید

مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین،  عبد الحمید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید