FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تفسیر سورۂ فاتحہ

         ثناء اللہ پانی پتی

اردو ترجمہ: عبد الدائم جلالی

                (تفسیر مظہری)

بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ﴿1﴾

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا

( سورۃ الفاتحہ )

یہ سورۃ مکی و مدنی ہے

                وجہ تسمیہ

سورۃ الحمد شریف کا نام ’’ فاتحۃ الکتاب‘‘ اور ’’ امّ القرآن‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ سورۃ قرآن مجید کی اصل ہے قرآن اسی سے شروع ہوتا ہے اور اسی سورت کو سبع مثانی کہتے ہیں کیونکہ اس کی بالاتفاق سات آیتیں ہیں اور نماز میں مکر ر پڑھی جاتی ہیں، یا اس لیے مثانی کہا گیا ہے کہ ایک بار مکہ میں نازل ہوئی ہے اور ایک بار مدینہ میں، زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ مکی ہے اور سورۃ حجر سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ ابن جریر نے بحوالہ حضرت ابوہریرہ بیان کیا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا سورۃ فاتحہ یعنی الحمد امّ القرآن ہے۔ ’’ فاتحۃ الکتاب‘‘ ہے، سبع مثانی ہے انتہیٰ۔ سورۃ الحمد کا نام سورۃ الکنز بھی ہے۔ اسحق بن راہویہ نے حضرت علیؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کہ یہ سورت اس خزانہ سے نازل ہوئی ہے جو عرش کے نیچے ہے اس سورت کا نام سورۃ شفاء بھی ہے چنانچہ ہم اس کے فضائل میں عنقریب ذکر کریں گے کہ یہ ہر بیماری کے لیے شفا ہے۔

بسم اللہ ( شروع کرتا ہوں میں ساتھ نام اللہ ) میں لفظ اسم کا الف کثرت استعمال کے باعث ساقط ہو گیا ہے اور اس کے بدلے ب لمبی لکھی جاتی ہے۔ امام بغوی نے عمر بن عبد العزیز کا قول نقل کیا ہے کہ لوگو ب کو دراز لکھو اور اس کو اچھی طرح ظاہر کرو اور م کو گول لکھا کرو اس میں کتاب اللہ کی تعظیم ہے۔ اسم۔ سمو سے مشتق ہے نہ کہ وسم سے کیونکہ سُمّیٌ اور سُمَیَّۃ اس کی دلیل ہیں۔ [عربی زبان کا عام ضابطہ ہے کہ کسی لفظ کے مادہ کے اصلی حروف تصغیر میں ظاہر کر دیئے جاتے ہیں اس قاعدہ کے موافق اگر اسم کی اصل سموٌ نہ قرار دی جائے بلکہ وسم قرار دی جائے تو تصغیر میں وُسَیمٌ اور وُسَیمَۃٌ ہونا چاہئے مگر ایسا نہیں ہے بلکہ اسم کے تصغیر سُمَیٌّ اور سُمَیَّۃٌ آتی ہے معلوم ہوا کہ اسم کی اصل سموٌ تھی اور سموٌ کی سمیٌّ اور سُمَیَّۃ قاعدہ کے مطابق ہے۔ ]اور حرف ب مصاحبت یا استعانت یا تبرک کے لیے ہے اور استعانت اللہ کے ذکر سے ہوا کرتی ہے اور یہ ب اس فعل سے متعلق ہے جو الرَّحیم کے بعد مقدر ہے جیسے بِسمِ اللّٰہِ مَجریھَا وَ مُرسٰھَا میں اور یہ بات محقق ہے کہ ابتداء بسم اللہ ہی سے ہونی چاہئے۔ عبد القادر الرہاوی نے اربعین میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو بڑا کام بسم اللہ سے شروع نہ ہو وہ نا تمام رہے گا۔ ( بسم اللہ کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کے نام سے پڑھنا شروع کرتا ہوں ) لفظ اللہ بعض قول کے مطابق اسم جامد ہے اور حق یہ ہے کہ الٰہ بمعنی معبود سے مشتق ہے ہمزہ حذف کر کے الف لام اس کے عوض لا یا گیا ہے اور چونکہ یہ عوض بطور لزوم ہے اس لیے یا اللہ کہنا جائز ہو گیا۔ کیونکہ اشتقاق کے معنی ہی یہ ہیں کہ دو لفظ معنی اور ترکیب میں مشترک ہوں۔ پھر یہ لفظ اس ذات واجب الوجود کا عَلَم ہو گیا ہے جو مستجمع کمالات اور رذائل سے پاک ہے اور اس لیے یہ لفظ خود موصوف ہوا کرتا ہے۔ کسی اور لفظ کی صفت واقع نہیں ہوتا اور ( اظہار) توحید کے وقت لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہا جاتا ہے اور کبھی اس کا اطلاق اصل معنی پر ہوتا ہے فرمایا : وَ ھُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الاَرضِ۔ (آسمانوں اور زمینوں میں صرف وہی معبود ہے )

الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ( بخشش کرنے والے مہربان کے ) یہ دونوں لفظ رَحمَۃ سے مشتق ہیں اور رحمت رقت قلب (دِل کی نرمی) کو کہتے ہیں جس کا مقتضیٰ فضل و احسان ہے مگر یہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء صفات میں مبادی و الفاظ کا لحاظ نہیں ہے بلکہ غایت و معانی کا لحاظ رکھا گیا ہے ( رحمت کا انجام احسان ہے۔ انجام کو غایات کہتے ہیں اور آغاز کو مبادی) اور یہ ظاہر ہے کہ مبادی انفعالات ہوا کرتے ہیں ( اور انفعالات سے اللہ تعالیٰ منزہ ہے ) بعض کا قول ہے کہ یہ دونوں ہم معنی لفظ مبالغہ کے صیغے ہیں اور حق یہ ہے کہ رحمن میں زیادتی لفظ کے باعث رحیم کی نسبت مبالغہ زیادہ تر ہے۔ اسی لیے لفظ رحیم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوا (رسول اللہﷺ : کی نسبت بالمؤمنین رؤف رحیم موجود ہے اور رحمن صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے )۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ دونوں اسم مہربانی پر دال ہیں اور ایک دوسرے کی نسبت زیادتی اور مبالغہ پایا جاتا ہے پھر یہ زیادتی کبھی مقدار ( کمی بیشی) کے لحاظ سے ہوتی ہے ( یعنی رحمت سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ ہوتے ہیں ) اس اعتبار سے اللہ کو رَحمٰنُ الدنیا وَ رَحِیمُ الاٰخِرَۃ کہتے ہیں کیونکہ رحمت آخرت میں صرف پرہیزگاروں کا حصہ [یعنی آخرت میں رحمت سے فائدہ اٹھانے والے صرف مومن ہوں گے اور دنیا میں سب ہی لوگ تمتع اندوز ہیں۔ مومن بھی اور کافر بھی۔ ]ہے اور کبھی یہ زیادتی محض کیفیت کے لحاظ سے ہوتی ہے اس لحاظ سے اللہ کو رحمن الدنیا والاخرۃ و رحیم الدنیا کہتے ہیں کیونکہ آخرت کی تمام نعمتیں بیش قیمت ہیں اور دنیا کی بعض نعمتیں حقیر ہیں اور بعض جلیل القدر چونکہ لفظ رحمن اعلام کی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے لفظ رحیم پر مقدم رکھا گیا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ رحمت کو تقدم زمانی حاصل ہے اور عموم رحمت دنیا میں مقدم ہے۔

قراء مدینہ و بصرہ اور ابو حنیفہ وغیرہ فقہاء کوفہ کا یہ مذہب ہے کہ بسم اللہ نہ سورۃ فاتحہ کا جز ہے نہ اور کسی سورت کا بلکہ تبرکاً ( یادو سورتوں کو جدا کرنے کے لیے ) ہر سورت کا آغاز اس سے ہوا ہے پھر بعض کا قول ہے کہ بسم اللہ قرآن ہی میں داخل نہیں مگر حق یہ ہے کہ بسم اللہ ضرور داخل قرآن ہے ( دو سورتوں میں ) فاصلہ کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے حاکم نے شیخین کی شرطوں پر اس روایت کی تصحیح کی ہے کہ عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ رسول خداﷺ دو سورتوں کا فاصلہ معلوم نہ فرماتے تھے یہاں تک کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نازل ہوئی۔ ابو داؤد نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کر کے لکھا ہے کہ اس کا مرسل ہونا اصح ہے۔ امام محمد بن حسن سے بسم اللہ کی بابت سوال ہوا تو فرمایا جو کچھ دونوں گتوں میں ہے سب قرآن مجید ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بسم اللہ اگر داخل قرآن نہ ہوتی تو لکھنے والے باوجود قرآن میں مبالغہ تجرید [بعض مؤلفین کا قاعدہ تھا کہ جو لفظ قرآن مجید کا جز نہ ہوتا اس کو قرآنی عبارت کے ساتھ اس طرح نہیں لکھتے تھے کہ سطحی نظر والے کو وہ قرآن کی آیت کا جزء معلوم ہونے لگے اس لیے ’’ ولا الضالین‘‘ کے بعد ’’ اٰمین‘‘ نہیں لکھی جاتی تھی اگرچہ سورۃ فاتحہ ختم کرنے کے بعد اٰمین کہنا مسنون ہے اور تمام علماء سلف قرآن فاتحہ کے بعد آمین ضرور کہتے تھے لیکن قرآن میں لکھتے نہ تھے تاکہ جزء قرآن ہونے کا دھوکہ نہ ہو۔ ]کے اسے ہر سورت سے پہلے نہ لکھتے جیسا کہ لفظ اٰمین کو نہیں لکھا اور بسم اللہ کے جز فاتحہ نہ ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اکرمﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق اور جناب عمر فاروقؓ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں۔ ان میں سے کسی نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا۔ اور دوسری دلیل ابوہریرہ کی یہ حدیث ہے۔ قَسَّمتُ الصَّلٰوۃَ بَینِی وَ بَینَ عَبدِی نِصفَینِ ( میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندہ کے مابین آدھوں آدھ تقسیم کر دیا ہے ) اس حدیث کو ہم فضائل میں عنقریب بیان کریں گے۔ تیسری دلیل وہ حدیث ہے جو احمد نے عبد اللہ بن مغفل سے روایت کی ہے کہ مجھ کو میرے باپ نے نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ الحمد اللہ رب العالمین بلند آواز سے پڑھتے سنا اور بعد فراغ کہا بیٹے ! اسلام میں بدعت اور نئی بات پیدا کرنے سے احتراز کر، میں نے رسول اللہﷺ اور ابو بکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں یہ تو قرأت کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع نہ کرتے تھے اور میں نے نہیں دیکھا کہ ان سے زیادہ کوئی بدعت کا دشمن ہو۔ ترمذی نے اس روایت میں یہ لفظ کہے ہیں کہ میں نے رسول خداﷺ اور ابو بکر اور عمر اور عثمان کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور کسی کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے نہیں سنا قراء مکہ اور کوفہ اور اکثر فقہاء حجاز اس طرف گئے ہیں کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کے سوا اور کسی سورت کا جز نہیں ہے بلکہ دیگر سورتوں میں فصل کے لیے لکھ دی گئی ہے کیونکہ حاکم نے سند صحیح کے ساتھ وَلَقَد اٰتَینَاکَ سَبعًا مِنَ المَثَانِی وَ القُرانَ العَظِیمَ کی تفسیر میں سعید بن جبیر کی یہ روایت بیان کی ہے کہ سبع مثانی ام القرآن سورۃ فاتحہ ہے اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اس کی ساتویں آیت ہے عبد اللہ بن عباسؓ نے اس کو اسی طرح پڑھا جس طرح میں نے پڑھا اور پھر یہ فرمایا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ساتویں آیت ہے۔ دوسری دلیل ترمذی کی حدیث ہے جو ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول خداﷺ اپنی نماز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع کیا کرتے تھے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں پہلی حدیث میں ابن عباس کا یہ قول کہ بسم اللہ ساتویں آیت ہے فقط ابن عباس کا گمان ہے مرفوع حدیث نہیں اور ترمذی کی حدیث باعتبار اسناد قوی نہیں۔ ایک گروہ کا یہ قول ہے کہ بسم اللہ سورۃ توبہ کے سوا سورۃ فاتحہ اور دیگر تمام قرآنی سورتوں کا جزء ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی اسی طرف گئے ہیں کیونکہ بسم اللہ قرآن میں ہر جگہ اسی خط سے لکھی گئی ہے جس خط سے تمام قرآن لکھا گیا ہے۔

میں (مفسر) کہتا ہوں کہ یہ تو اس بات کی دلیل ہے کہ بسم اللہ داخل قرآن ہے نہ کہ اس بات کی کہ وہ ہر سورت کا جزء ہے اور یہ کیونکر ہو سکتا ہے حالانکہ صحیح حدیث ہے کہ جناب رسول اکرمﷺ نے سورۃ ملک کی بابت فرمایا ہے سورۃ من القرآن ثلٰثون [الایۃ] (سورۂ ملک تیس آیتوں کی ہے ) اس کو ہم اپنے موقع پر ان شاء اللہ تعالیٰ مفصل بیان کریں گے۔ یہاں اس قدر کہنا کافی ہے کہ سورۃ ملک کی آیتیں گننے والوں نے اتفاق کیا ہے کہ اس سورت میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو الگ کر کے تیس آیتیں ہیں۔

اَلحَمدُ لِلہِ رَبِّ العٰلَمِینَ﴿2﴾

سب خوبیاں اللّٰہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا

اَلحَمدُ ( سب تعریف) کسی اختیاری خوبی پر زبان سے تعریف کرنے کو حمد کہتے ہیں۔ خواہ ( اس میں ) نعمت کی خصوصیت ہو یا نہ ہو۔ اس لیے حمد با عتبار متعلق شکر کی نسبت عام ہے کیونکہ شکر نعمت کے ساتھ مخصوص ہے اور باعتبار مورد کے خاص ہے (ادائیگی کے اعتبار سے شکر سے خاص ہے، ۱۲) کیونکہ شکر زبان و دل اور دیگر تمام اعضاء سے صادر ہو سکتا ہے ( اور حمد صرف زبان سے خصوصیت رکھتی ہے ) اسی لیے رسول خداﷺ نے فرمایا ہے : (الحمد رأس الشکر بما شکر اللہ عبد لا یحمدہ، ۱۲) کہ حمد شکر کی اصل ہے جس شخص نے خدا کی حمد نہ کی اس نے ذرا بھی شکر نہ کیا۔ اس حدیث کو عبدالرزاق نے بروایت قتادہ اور انہوں نے بروایت عبد اللہ بن عمر بیان کیا ہے اور مدح حمد کی نسبت عام ہے کیونکہ مدح صرف خوبی پر ہوا کرتی ہے (اس کا اختیاری یا غیر اختیاری ہونا ضروری نہیں ) الحمد میں لام تعریف یا تو جنس کے لیے ہے اور حمد کے اس مضمون کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جسے ہر شخص جانتا ہے یا استغراقی ہے کیونکہ ہر طرح کی حمد اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے وہ افعال عباد کا خالق ہے خود فرماتا ہے : و ما بکم من نعمۃ فمن اللہ ( لوگو! تم کو جو کچھ نعمت ملی ہے خدا ہی کی طرف سے ہے ) اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ زندہ و قادر، ارادہ کا مالک اور عالم ہے اس لیے ہر طرح کی حمد کا مستحق ہے۔

لِلّٰہِ ( اللہ کو ہے ) اس میں لام اختصاص کا ہے جیسا کہ الدار لزید میں ( یعنی ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے مخصوص ہے ) اور جملہ خبریہ اسمیہ استحقاق حمد کے استمرار پر دلالت کر رہا ہے اور اس جملہ سے ثناء کرنا مقصود ہے اور بندوں کو حمد کی تعلیم دی گئی ہے۔ تقدیر جملہ یہ ہے قولُوا اَلحَمدُ لِلّٰہِ (لوگو! الحمد اللہ کہا کرو) اس تقدیر کی ضرورت اس لیے ہے کہ آیت اِیَّاکَ نَعبُدُ سے مناسبت پیدا ہو جائے۔ ( کیونکہ نَعبُدُ کے قائل بندے ہے۔ )

رَبِّ العٰلَمِینَ ( جو صاحب سارے جہان کا ہے ) رب کے معنیٰ مالک کے ہیں۔ جیسا کہ رب الدار ( گھر کا مالک) اور لفظ رب تربیت ( مصدر) کے معنی میں بھی ہو سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ درجہ کمال تک پہنچا دینے کو تربیت کہتے ہیں اس وقت مصدر کا اطلاق بطور مبالغہ ہو گا جیساکہ خالدٌ صَومٌ اور زَیدٌ عَدلٌ میں رب کا اطلاق بلا قید اضافت وغیرہ غیر اللہ پر نہیں ہو سکتا۔ اس آیت میں اشارہ ہے کہ عالم یعنی قرآن اور حدیث میں لفظ عالم بصیغہ مفرد استعمال نہیں کیا گیا]ابتداء کی طرح بقا میں بھی رب کا محتاج ہے اور عالَمِینَ عالَم کی جمع ہے اور استعمال میں اس کے لفظ سے اس کا واحد نہیں پایا جاتا۔ عالم اس چیز کو کہتے ہیں جس سے صانع معلوم ہو جاس کہ خاتم ( وہ چیز ہے جس سے مہر کی جائے ) اور عالم تمام ممکنات ہیں کیونکہ تمام ممکنات پر عالم صادق آتا ہے۔ فرعون نے جب کہا و ما رب العالمین (رب العالمین کیا چیز ہے ) حضرت موسیٰ نے جواب دیا : رب السمٰوٰت والارض و ما بینھما ( یعنی رب العالمین وہ ہے جو آسمان و زمین اور ان کے مابین کا مالک ہے ) چونکہ عالم کے تحت میں اجناس مختلف موجود ہیں اس لیے عالمین بصیغہ جمع لایا گیا ہے اور جمع ذوی العقول باعتبار تغلیب ہے۔ وہب کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ ہزار عالم پیدا کئے ہیں ان میں سے ساری دنیا ایک عالم ہے تمام مکانات اور جنگلوں کو ایسا سمجھنا چاہئے گویا کسی صحرا میں ایک طشت رکھا ہوا ہے کعب احبار کہتے ہیں عالموں کی تعداد اور خدا کے لشکروں کی گنتی اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ بعض کا قول ہے کہ اہل علم یعنی فرشتوں اور انسان اور جنات کا نام عالم ہے۔ دیگر اشیاء تبعًا ان کے ماتحت ہیں۔

الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ﴿3﴾

      بہت مہربان رحمت والا

اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ( بہت مہربان، نہایت رحم والا) قراء اس میں بحالت وقف بلکہ ہر حرف مکسور میں روم کو جائز رکھتے ہیں۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ فاتحہ کا جز نہیں ہے ورنہ لفظ الرحمن الرحیم کی تکرار لازم آتی ہے اور بعض کا قول ہے کہ یہ الفاظ رب العٰلمین کی تعلیل کے لیے مکرر ہوئے ہیں۔

مٰلِکِ یَومِ الدِّینِ﴿4﴾

روزِ جزاء کا مالک

مٰلِکِ یَومِ الدِّینِ ( مالک انصاف کے دن کا ) عاصم و کسائی اور یعقوب کی قرأت میں مالک آیا ہے اور دیگر قاریوں نے مَلِکِ پڑھا ہے۔ ابو عمرو الرَّحِیم مَلِکِ یَومِ الدِّین پڑھتے ہیں یعنی میم کو میم میں ادغام کرتے ہیں۔ اسی طرح ان دو متحرک حرفوں میں ادغام ہوتا ہے جو ایک جنس یا ایک مخرج کے ہوں یا دونوں قریب المخرج ہوں اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب ایک جنس کے دو حرف دو کلموں میں واقع ہوں تو ایسے سترہ حرفوں میں باہم ادغام جائز ہے ( لیکن چند مواقع ادغام سے مستثنیٰ ہیں ) وہ سترہ حروف ہیں با۔ تا۔ ثا۔ حائے حطی۔ رائے غیر منقوطہ۔ سین مہملہ، عین مہملہ اور عین کے بعد والے دس حروف ( غین سے لے کر یائے  تحتانی تک) ان حرفوں میں سے ایک جنس کے دو حرف جب دو کلموں میں پاس پاس جمع ہو جائیں تو ادغام جائز ہے (ترتیب اور مثالیں الذھََب بِسَمعھِِم ( دیکھو لذھب کی ب اور بسمعھم کی ب دو کلموں میں واقع ہیں مگر پاس پاس ہونے کے سبب ان میں ادغام جائز ہے ) علی ہذا القیاس غَیرَ ذَات الشَّوکَۃِ تَکُونُ لَکُم ( الشوکۃ اور تکون کی ت) ثالث ثلٰثَۃٍ ( ثا) لا اَبرَحُ حَتّیٰ ( حائے حطی) وَاستَغفَر رَّبَّہٗ ( رائے غیر منقوطہ) وَ تَرَی النَّاسُ سُّکَاریٰ ( سین مہملہ) وَ طَبِع عَلیٰ قُلُوبھِِِم ( عین مہمل ) وَ مَن یَّبتَغِ غَیرَ الاِسلَامِ ( غنق معجمہ) تَعرِف فِی وُجُوھھِِم (فا) اَدرَکَہُ الغَرَق قَالَ (قاف) اِنَّکَ کُنتَ بِنَا (کاف) جَعَل لَّکُم ( لام) یَعلَمُ مَّا اَحسَن نَّدِیًّا ( میم و نون) اِلَّا ھُوَ وَّ المَلٰءِکَۃُ ( واوٗ) اِنَّہٗ ھُوَ ( ہائے ہوز) یہاں ہائے ہوز کا صلہ ہونا مانع ادغام نہیں ہے۔ نُودِی یَّا مُوسیٰ ( یائے تحتانی) ان تمام حرفوں میں باہم ادغام جائز رکھا گیا ہے مگر اس قسم کے ادغام میں یہ شرط ہے کہ پہلا حرف تائے متکلم یا تائے مخاطب نہ ہو ورنہ ادغام جائز نہیں چنانچہ کُنتُ تُرَابًا اور اَنتَ تُکرِہُ میںت کا ادغام نا درست ہے اور اسی طرح یہ بھی شرط ہے کہ پہلا حرف تنوین یا تشدید نہ رکھتا ہو اس لیے واسِعٌ عَلِیمٌ کا عین اور ثُمَّ مِیقَاتُ کا میم مدغم نہ ہو سکے گا جو موقع ادغام سے مستثنیٰ ہیں ان میں ایک لا یَحزُنکَ کُفرُہٗ ہے چونکہ کاف سے پہلے اتفاقاً نون کا اخفا ہے اس لیے ابو عمرو نے ادغام نہیں کیا۔ دوسرا وہ موقع ہے جہاں پہلے کلمہ کا پچھلا حرف محذوف ہو اور اس حذف کے باعث دو ہم جنس حرف ایک جا جمع ہو گئے ہوں مثلاً یَبتَغِ غَیرَ الاِسلَام ( یبتغ در اصل یَبتَغِی تھا) اور اِن یَّکُ کَاذِبًا ( کہ اصل میں یَکُن تھا) اور یخل لَکُم (در اصل یَخلُونھََا) ان کلمات میں ابو عمرو نے ادغام و اظہار دونوں باتوں کو جائز رکھا ہے۔ تیسرا موقع بعض کے نزدیک اٰل لوط ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اس میں ادغام جائز ہے۔ چوتھا موقع لفظ ھُوَ کا واؤ ہے جس کی ہائے ہوز ابو عمرو کی قرأت کے مطابق مضموم ہو اور اس کے بعد واو واقع ہو مثلاً ھُوَ وَ مَن یَّامُرُ بالعَدلِ یہ تیرہ جگہ ہے اور اس کے ادغام میں اختلاف ہے لیکن ادغام کی روایت قوی ہے۔ پانچواں موقع اسی ہو کا واؤ ہے جبکہ ابو عمرو کی قرأت کے مطابق ہائے ہوز ساکن ہو اور یہ تین جگہ ہے۔ فھَُوَ وَلِیّھُُم وَ ھُوَ وَاقِعٌ بھِِم اس میں بعض قراء بلا خلاف اظہار کے قائل ہیں اور بعض با خلاف مگر اظہار زیادہ قوی ہے یہ سب باتیں اس وقت ہیں کہ دو ہم جنس حرف دو کلموں میں ہوں لیکن اگر ایک کلمہ میں ہوں تو ابو عمر سے ادغام کی روایت صرف دو جگہ آئی ہے اوّل مَنَاسِکَکُم سورۃ بقرہ میں دوم سَلَکَکُم سورۃ مدثر میں مذکورہ بالا تمام قاعدے دو ہم جنس حرفوں کے ادغام کی بابت تھے۔ ہاں اگر دو قریب المخرج حرف ایک کلمہ میں جمع ہو جائیں تو قاف کاف میں مدغم ہو گا بشرطیکہ دونوں میں کا پہلا حرف ساکن اور دونوں کے بعد میم واقع ہو اسی لیے یَرزُقُکُم میں ادغام ہو سکتا ہے۔ مِیثَاقَکُم اور نَرزُقُکَ میں نہیں ہو سکتا طَلَّقَکُنَّ کے ادغام میں اختلاف ہے۔ اس کے سوا اور کہیں ادغام نہیں۔ البتہ اگر دو قریب المخرج حروف دو کلموں میں ہوں تو سولہ حرفوں میں ادغام جائز ہے بشرطیکہ وہ حروف تنوین والے اور تائے مخاطب یا مجزوم یا مشدد نہ ہوں چنانچہ

(۱) زُحزِحَ عَنِ النَّار میں حائے حطی عین میں مدغم ہو گی اور یہ بھی مروی ہے کہ یہ دونوں حرف جہاں کہیں مل جائیں تو حائے حطی عین میں مدغم ہو سکتی ہے مثلاً ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ۔ اَلمَسِیحُ عِیسیٰ۔ لَا جُنَاحَ عَلیھِمَا

(۲۔ ۳) قاف میں کاف مدغم ہوتا ہے اور کاف قاف میں بشرطیکہ دونوں کا ما قبل متحرک ہو مثلاً خَلَقَ کُلَّ شَیءٍ لَکَ قَصُورًا ہاں فوق کل ذی علمٍ اور تَرَکُوکَ قَاءِمًا میں اس لیے ادغام نہیں ہوا کہ دونوں کا ما قبل ساکن ہے

(۴) جیم تا میں مدغم ہوتا ہے چنانچہ ذی المعارج تَعرُجُ علی ہذا القیاس جیم کا ادغام شین میں درست ہے مثلاً اَخرَج شَطأَہٗ

(۵) شین معجمہ سین مہملہ میں مدغم ہوتا ہے۔ مثلاً ذِی العرش سَبِیلًا

(۶) ضاد منقوطہ کو شین میں مدغم کرتے ہیں مثلاً لِبَعضُ شَّانھِِم

(۷) سین مہملہ کا ادغام زائے منقوطہ میں درست ہے مثلاً اِذَا النُّفُوسُ زُّوِّجَت عَلیٰ ہذا القیاس شین منقوطہ میں مثلاً واشتَعَلَ الرَّاس شَیبًا

(۸) دال مہملہ جہاں کہیں آئے دس حرفوں میں مدغم ہو جاتی ہے (۱)ت میں مثلاً عَاکِفُونَ فِی المَسٰجِد تِلکَ (۲)س میں مثلاً عَدَد سِّینَ (۳)ذ میں مثلاً وَالقَلَاءِدط ذّٰلِکَ (۴)ش میں مثلاً شھَِد شَّاھِدٌ (۵)ض میں مثلاً مِن بَّعد ضَّرَّآءَ (۶)ث میں یُرِید ثَّوَاب الدُّنیَا (۷)ز میں مثلاً تُرِیدُ زِینَۃَ الحیٰوۃِ الدُّنیَا (۸)ص میں مثلاً نَفقِد صُّوَاعَ المَلِکِ (۹)ظ میں مثلاً مِن بَعد ظُّلمٍ (۱۰)ج میں مثلاً دَاوٗدُ جَّالُوتَ البتہ دارُ الخُلدِ جَزَآءً میں اختلاف ہے۔

تمام قرآن مجید میں دال طائے مہملہ کے ساتھ کہیں جمع نہیں ہوئی۔ دال مفتوحہ اگر ساکن کے بعد واقع ہو توت کے سوا اور کسی حرف میں مدغم نہیں ہوتی مثلاً لداوٗدَ سُلَیمَانَ۔ بَعدَ ذٰلِکَ زَنِیمٍ۔ اٰلَ دَاوٗدَ شُکرًا۔ اٰتَینَا دَاوٗدَ زَبُورًا۔ بَعدَ ضَرَّآءَ مَسَّتہُ۔ بَعدَ ظُلمِہٖ۔ بَعدَ ثُبُوتھَِا (ان مثالوں میں کہیں دال کا ادغام نہیں ہوا) لیکن کادَ تَزِیغُ اور بعد توکیدھا میں ادغام جائز ہے اور اس کی تیسری مثال نہیں پائی جاتی۔ تو ان ہی دس حرفوں میں مدغم ہوتی ہے لیکن جہاں دوت جمع ہو جائیں اس کے متعلق ادغام کے قاعدے بیان ہو چکے ہیں علیٰ ہذا القیاست جہاں کہیں آئے گی ط میں مدغم ہو جائے گی۔ت ہمیشہ ساکن ہو کر دال سے ملا کرتی ہے مثلاً قَد اُجِیبَت دَّعوَتُکُمَا ایسی صورت میں ادغام واجب ہے۔ جواز ادغام کی مثالیں یہ ہیں۔ اَلمَلٰءِکَۃُ طیّبین۔ بِالسَّاعَۃِ سَعِیرًا۔ وَالذَّارِیٰتِ ذَروًا۔ بِاَربَعَۃِ شھَُدَآءَ۔ وَالعٰدِیٰتِ ضَبحًا۔ت کےض میں ادغام ہونے کی دوسری مثال (قرآن مجید میں ) نہیں ہے۔ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُولُ۔ اِلَی الجَنَّۃِ زُمَرًا۔ وَالمَلٰءِکَۃُ صَفًّا۔ وَالمَلٰءِکَۃُ ظٰلِمِی ( یہ لفظ صرف سورۃ نساء اور سورۃ نمل میں ہے۔ تیسری مثال قرآن مجید میں نہیں ہے ) عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ۔ حرف ساکن کی تائے مفتوحہ جہاں کہیں واقع ہو گی اس کا نام تائے خطاب ہے اور اس میں ادغام درست نہیں مگر ہاں چند موقع مستثنیٰ ہیں مثلاً الف کے بعد واقع ہو جیسا کہ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفِی النّھََارِ اِن میں بلا خلاف ادغام جائز ہے البتہ حُمِّلُوا التَّورٰۃَ ثُمَّ لَم یَحمِلُوھَا میں اختلاف ہے۔ اسی طرح بعض موقعوں میں تائے مکسورہ کی بابت اختلاف ہے۔ مثلاً اٰتِ ذی القُربیٰ۔ وَلتَأتِ طَاءِفَۃٌ میں کسی نے ادغام جائز رکھا ہے کسی نے نا جائز۔ جءتِ شَیءًا کی ت اگرچہ تائے خطاب مکسور ہے مگر اس کے ادغام میں بھی اختلاف ہوا ہے ہاں تائے مفتوحہ کے ادغام میں اختلاف نہیں ہے۔ مثلاً لَقَد جِءتَ شَیءًا نُّکرًا۔ ثَ ہر جگہ پانچ حرفوں میں مدغم ہوتی ہے۔ مثلاً (۱) حَیثُ تُومَرُونَ (۲) وَوَرِث سُّلَیمٰنُ (۳) وَالحَرثُ ذٰلِکَ۔ذ میں مدغم ہونے کی صرف یہی ایک مثال ہے (۴) حَیث شِّءتُم (۵) حَدِیثُ ضَیفِ (ض میں مدغم ہونے کی اور کوئی مثال نہیں )ذ سین اور صاد میں ادغام کر دی جاتی ہے۔ مثلاً فاتَّخَذ سَبِیلَہٗ سورۃ کہف میں دو جگہ ہے اور ما اتَّخَذ صَاحِبَۃً لامر میںر لام میں ادغام کر دی جاتی ہے۔ لیکن جب کسی حرف ساکن کے بعد یہ دونوں مفتوح واقع ہوں گے تو ادغام نہ ہو گا۔ (ادغام کی مثال) کمثلُ رِیحِ   ھُنَّ اَطھَر لَّکُم ( عدم ادغام کی مثال) فَعَصَوا رَسُولَ رَبِّھِم   اِنَّ الاَبرَارَ لَفِی نَعِمٍمی مگر قَالَ کا لام اگرچہ مفتوح بعد ساکن ہی کیوں نہ ہو جب اس کے بعدر ہو گی مدغم ہو جائے گا۔ مثلاً قاَلَ رَّبِّ   قَالَ رَجُلَانِ۔ قَالَ رَبُّکُم۔ نونر اورل دونوں میں مدغم ہوتا ہے بشرطیکہ اس کا ماقبل متحرک ہو۔ مثلاً اِذ تَاذَّنَ رَّبُّکَ۔ خَزَاءِنُ رَحمَۃِ رَبِّکَ لَن نُؤمِن لَکَ   تَبَیَّن لّھَُم ہاں سکون ما قبل کی حالت میں ادغام جائز نہیں۔ مثلاً یُخَافُونَ رَبّھَُم۔ بِاِذنِ رَبِّھِم اَنّیٰ یَکُونُ لَہُ المُلکُ مگر نَحنُ کا نون جہاں آئے گا باوجود سکون ما قبل مدغم ہو سکے گا مثلاً نَحنُ لَہٗ وَ مَا نَحنُ لَکَ اور یہ دس جگہ آتا ہے میم جس کے ما قبل حرف متحرک اور ما بعد ب واقع ہو ساکن خفی کر دیا جاتا ہے اور یُعَذِب مَّن یَّشَآء میں ب ہر جگہ میم میں مدغم ہو جاتی ہے اور یہ سورۃ بقرہ کے سوا پانچ جگہ ہے۔ سورۃ بقرہ میں ابو عمرو کی قرأۃ کے لحاظ سے یُعَذِّبُ کی ب ساکن اور اس میں ادغام صغیر ہے۔ ابو عمر و جس جگہ ادغام کبیر کو جائز نہیں رکھتے وہاں تین صورتیں اور ہیں : (۱) اِشمام، (۲) رَوم، (۳) اظہار۔ اشمام صرف حرف مضموم میں ہوتا ہے اور روم مفتوح کو چھوڑ کر مضموم اور مکسور میں۔ اشمام دونوں ہونٹوں کے ملانے کو کہتے ہیں گویا کسی معشوق کا بوسہ لے لیا۔ اس میں ضمہ کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور روم اخفاء اور بعض حرکت کے تلفظ کا نام ہے۔ ابو عمرو کے نزدیک اشمام اور روم تمام حروف میں جائز ہے لیکن ب میم کے ساتھ جمع ہو یا میم ب کے ساتھ تو ان صورتوں میں نہ اشمام جائز ہے نہ روم مثلاً نُصِیبُ بِرَحمَتِہٖ۔ یُعَذِّب مَّن یَشَآءُ   یَعلَمُ مَّا اَعلَمُ   بِمَا کَانُوا اور جب دونوں حرفوں کے ما قبل حرف علت ساکن ہو تو ادغام نہ ہو سکے گا۔ ۱؂ مثلاً خُذِ العَفوَ وَ أمُر   بَعدَ ظُلمٍ   فِی المھَدِ صَبِیًّا   دَار الخُلدِ جَزَاءً ان میں اگر ادغام کیا جائے تو اجتماع ساکنین لازم آتا ہے ایسے موقع پر بعض حرکت کا تلفظ یعنی اخفاء اور روم ہی بمنزلہ ادغام ہے اس کو ادغام سے تعبیر کرنا مجاز ہے۔ اگر دونوں حرفوں کے ما قبل حرف علت ساکن ہو تو ادغام کرنا درست ہے مثلاً فِیہِ ھُدًی   و قال لّھم   یَقُولُ رَبُّنَا   و قَومُ مُوسیٰ   وَ کَیف فَّعَلَ وا اللہ اعلم۔ بعض کا قول ہے کہ مَلِک اور مالِک کے ایک معنی ہیں جیسا کہ فَرھِِینَ   فَارھِِینَ   حَذِرِینَ اور حاذِرِینَ لیکن حق یہ ہے کہ مالک بمعنی رَب مِلکٌ بکسر المیم سے مشتق ہے۔ یہ عرب کا محاورہ ہے مالِکُ الدَّار اور رَبُّ الدَّار ۲؂ اور مَلِک بمعنی سلطان مُلک بضم المیم سے لیا گیا ہے۔ دونوں لفظ خدا کی صفتیں ہیں اور دونوں قرأتیں متواتر ہیں اس لیے صرف قرأت ملک کو مختار کہنا جائز نہیں اور بعض کا قول ہے کہ مَلِک اور مالِک وہ ہے جو نیست سے ہست کر دینے پر قادر ہو اس لیے ان لفظوں کا اطلاق ( مجاز سے قطع نظر) اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر درست نہیں۔

یَومِ الدِّینِ قیامت کا دن ہے۔ دین جزاء اور بدلے کو کہتے ہیں اور کَمَا تَدِینُ تُدَان دین ہی سے مشتق ہے (یعنی تو جیسے فعل کرے گا ویسا ہی بدلہ ملے گا ) یہ ایک مشہور مثل اور مرفوع حدیث ہے اس کو ابن عدی نے کامل میں ضعیف سند سے روایت کیا ہے اور بیہقی کے نزدیک ایک حدیث مرسل اس کی شاہد ہے۔ احمد مالک بن دینار سے نقل کرتے ہیں کہ یہ توریت میں ہے اور دیلمی نے فضالہ بن عبید سے مرفوعًا روایت کیا ہے کہ یہ انجیل کا مضمون ہے مجاہد کہتے ہیں کہ یَومِ الدِّینِ بمعنی یوم الحساب ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں آیا ہے ذٰلِکَ الدِّینُ القََیِّمُ یعنی یہ سیدھا حساب ہے اور بعض کا قول ہے کہ دین بمعنی قہر ہے۔ عرب کہتے ہیں دَیَّنتُہٗ فَدَانَ ( میں نے اس کو اطاعت پر مجبور کر دیا اور وہ مطیع ہو گیا) یا لفظ دین سے اسلام اور طاعت مراد ہے کیونکہ وہ ایسا دن ہے جس میں اسلام اور اطاعت کے سوا کوئی چیز نفع نہ دے گی۔ یہاں اس دن کو مخصوص طور پر اس لے ذکر کیا گیا ہے کہ لفظ مَلِک کا اطلاق اس دن کے علاوہ اور ایام میں بطور مجاز غیر اللہ پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ بریں اس میں بندوں کو ڈرانا اور ان کو اِیَّاکَ نَعبُدُ کی طرف بلانا مقصود ہے۔ صفت کو ظرف یعنی مالِک کو یوم کی طرف اس لیے مضاف کیا گیا ہے کہ یہاں ظرف مفعول بہ کے قائم مقام ہے چنانچہ سارِقُ اللَّیلَۃِ میں بھی اسی قسم کی اضافت ہے مالِک ہے تو اسم فاعل کا صیغہ ( اور اسم فاعل حال اور مستقبل دونوں زمانوں میں مشترک ہوا کرتا ہے ) مگر یہاں اس کے معنی ماضی کے ہیں جیسا کہ نادیٰ اَصحٰبُ الجَنَّۃِ میں کیونکہ جس چیز کا وقوع یقینی اور قطعی ہوا کرتا ہے وہ بمنزلہ واقع کے ہوا کرتی ہے اور جب یہ ہے تو اس کا معرفہ کی صفت واقع ہونا صحیح ہے۔

صفات مذکورہ یعنی رَبِّ العٰلَمِینَ اور الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ اور مالِک یَومِ الدِّینِ اس لیے ذکر کی گئی ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ صرف ایک خدا ہی مستحق حمد اور سزا وار تعریف ہے اور جو ان صفات کے ساتھ متصف نہ ہو وہ قابل حمد نہیں چہ جائیکہ معبود قرار دیا جائے۔ نیز آئندہ جملے اِیَّاکَ نَعبُدُ الخ کی تمہید قائم کرنا بھی مقصود ہے اور الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ جیسا کہ اختیار کلی پر دلالت کرتا ہے ویسا ہی ایجاب بالذات کی نفی بھی کرتا ہے۔ [ارسطو اور اس کے متبعین اس کے قائل ہیں کہ واجب تعالیٰ تمام ممکنات کی علت العلل ہے یعنی اس کائنات کا واجب سے صدور بلا ارادہ اور بے اختیار ہوا ہے جس طرح سورج سے شعاعوں کا خروج بے ارادہ ہے اور نہ صرف حدوث کائنات میں ارادۂ واجب کو دخل نہیں بلکہ صدور عالم واجب تعالیٰ سے بالذات لازم ہے یعنی یہ کائنات اصلاً اگرچہ ممکن ہے حادث ہے مگر قدیم بالغیر ہے اس باطل نظر یہ کہ بیخ کنی لفظ الرحمن الرحیم سے ہو جاتی ہے۔ رحمت یعنی مہربانی اور احسان غیر واجب الفضل کو کہتے ہیں۔ رحمت کرنے والا اپنے ارادہ اور اختیار سے غیر لازم مہربانی کرتا ہے ضروری حق ادا کرنے کو رحمت اور احسان نہیں کہا جاتا بلکہ اداء فرض کہا جاتا ہے پس اللہ کے رحمن و رحیم ہونے کا تقاضا ہے کہ اس کائنات کا صدور اس کے ذمہ واجب اور لازم نہ تھا نہ وجود و بقاء و وجود کا کوئی حق اس پر لازم تھا بلکہ اس نے اپنی مہربانی سے اس جہان کو بنایا اسباب بقاء پیدا کئے اور رفتہ رفتہ ترقی دے کر نوازا۔ ] پھر جب اللہ تعالیٰ اپنی ذات مقدس کی نسبت اس بات کا اظہار فرما چکا کہ ہر طرح کی تعریف کا سزا وار میں ہی ہوں اور ساتھ ہی ان بڑے اور عظیم الشان اوصاف سے اپنی ذات مبارک کو موصوف کر چکا جو تمام مخلوقات کی ذوات سے ممتاز اور جدا ہے اور اس طرح ایک معین ذات بندوں کے دماغوں میں مستحضر ہو گئی تو غیب کے درجہ سے مرتبہ خطاب کی جانب عدول کر کے فرمایا۔ (۲) [اگر کسی چیز کے احوال و صفات ناقابل اشتراک اور مخصوص ہوں اور وہ صفات ذکر کر دی جائیں تو اس چیز کی ذہن میں ایسی تعیین ہو جاتی ہے کہ گویا وہ نظر کے سامنے آ گئی شدت تخیل غیر محسوس کو محسوس کر کے دکھا دیتی ہے علم غائبانہ شہود سے بدل جاتا ہے۔ حضور ذہنی وجود خارجی کے قائم مقام ہو جاتا ہے۔ علم حصولی معاینہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پس جب ذات الوہیت کا نام ذکر کر دیا اور مخصوص صفات کو بھی بیان کر دیا تو ذات غائب شدت استحضار کی وجہ سے عارف کی نظر کے سامنے آ گئی اس لیے اسے غائبانہ طرز کلام سے انتقال کر کے تخاطب کا اسلوب اختیار کیا جس ذات کا وہ غائبانہ ذکر کر رہا تھا وہ اس کے سامنے حاضر ہو گئی اور اس نے حاضر ذہنی سے اس طرح بات کرنی شروع کر دی جیسے حاضر مرئی خارجی سے کی جاتی ہے۔ ]

اِیَّاکَ نَعبُدُ وَاِیَّاکَ نَستَعِینُ﴿5﴾

ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں

اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ ( یعنی اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ) قراء نے نَستَعِینُ کے نون کو اور نہ صرف نستعین ہی کے نون کو بلکہ ہر مضموم حرف کو بحالت وقف روم اور اشمام دونوں طرح سے پڑھا ہے (آیۃ کے خلاصہ) معنی یہ ہیں کہ اے خدا جو صفات مذکورہ کے ساتھ متصف ہے ہم خاص کر تیری ہی بندگی کرتے اور تجھی سے توفیق اطاعت کے خواستگار ہیں اور نہ صرف عبادت میں ہی تجھ سے امداد کے طالب ہیں بلکہ اپنے سارے چھوٹے بڑے کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں چونکہ سلسلۂ کلام میں ایک طرز سے دوسرے طرز کی طرف انتقال کرنا غیبت سے خطاب، خطاب سے غیبت، تکلم سے خطاب و غیبت اور غیبت و خطاب سے تکلم کی جانب التفات کرنا عرب کی عام عادت ہے اور اس سے ان کی غرض صرف سننے والے کے دل میں رغبت و شوق کا پیدا کرنا منظور ہوتا ہے اس لیے یہاں بھی اس کی رعایت کی گئی اور غیبت کے اسلوب سے خطاب کی طرف انتقال کیا گیا۔ عِبَادت اصل میں انتہاء درجہ کے خضوع اور اظہار فروتنی کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل زبان اپنے محاورات میں بولا کرتے ہیں طَرِیقٌ مُعَبَّدٌ یعنی پامال راستہ اور نَعبُدُ و نَستَعِینُ دونوں فعلوں میں ضمیر جمع متکلم ہے اس سے قاری اور اس کے ساتھ والے مراد ہیں اور اس میں التزام جماعت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اِیَّاکَ ( جو بلحاظ ترکیب نحوی مفعول واقع ہوا ہے اگرچہ اس کا درجہ فعل اور فاعل سے پیچھے ہے مگر یہاں ) تعظیم اور اظہار اہمیت اور حصر کے فائدہ کی غرض سے مقدم کیا گیا ہے حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : نَعبُدُ کے معنی ہیں نَعبُدُکَ وَ لَا نَعبُدُ غَیرَکَ (یعنی خداوندا ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تیری عبادت میں غیر کو شریک نہیں کرتے ) اس اثر کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بطریق ضحاک ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے۔ بعض مفسروں کا بیان ہے کہ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ میں واؤ (عاطفہ نہیں بلکہ) حالیہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ اے خدا ہم تجھی سے طلب امداد کرتے ہوئے تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔

اھِدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ﴿6﴾

ہم کو سیدھا راستہ چلا

اھِدِنَا یہ اس اعانت اور مدد کا بیان ہے جو اِیَّاکَ نَستَعِینُ میں طلب کی گئی تھی (مطلب یہ ہے کہ خداوندا ہمیں سیدھی راہ دکھا) یا چونکہ سیدھے رستہ کی ہدایت تمام باتوں میں اہم اور مقصود اعظم تھی اس لیے اس کو علیحدہ ذکر کر دیا گیا۔ ھِدَایَت کے اصلی معنی لطف و مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنے اور رستہ بتانے کے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا استعمال ہمیشہ خیرو نیکی میں ہوا کرتا ہے یہ لفظ اور اس کے مشتقات اصل میں تو لام اور الی ہی کے ساتھ متعدی ہوا کرتے ہیں مگر کبھی کبھی بغیر کسی واسطہ کے خود ہی متعدی ہو جاتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اھِدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ دعا ہے نبی کریمﷺ : کی اور نیز تمام مسلمانوں کی اور اگرچہ وہ پہلے ہی سے آسمانی ہدایت پر تھے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ نے استقامت و ثابت قدمی اور مزید ہدایت طلب کرنے کے لیے یہ دعا تیمی فرمائی کیونکہ اہلسنّت کے مذہب کے مطابق خدا تعالیٰ کے الطاف و ہدایات کی کوئی انتہاء اور حد نہیں ہے۔ ابن کثیر نے قنبل ۱؂ کی روایت کے مطابق لفظ الصِّرَاط خواہ معرف باللام اور مضاف ہو یا نکرہ نہ صرف سورۃ فاتحہ بلکہ تمام قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی آیا ہے۔ السِّرَاط سین کے ساتھ پڑھا ہے اور سِرَاط کے لغوی معنی نگل لینے کے ہیں۔ اہل زبان بولا کرتے ہیں : سَرَطَ الطَّعَامَ اَی اِبتَلَعَہٗ (یعنی جب کوئی کھانے کالقمہ نگل جاتا ہے تو سَرَطَ الطَّعَام بولا جاتا ہے ) اسی طرح جس راہ میں کثرت سے مسافرچلتے ہیں اس کی نسبت کہا جاتا ہے الطَّرِیقُ یَسرُطُ السَّابِلَۃَ اور باقی قراء نے صاد سے پڑھا ہے اور یہ قریش کا لغت ہے۔ خلف نے صاد اور زاء کے درمیان اس لفظ کو قرآن میں ہر جگہ پڑھا ہے اور خلاد نے صرف اس جگہ المُستَقِیمَ کے معنی مستوی اور سیدھے کے کئے ہیں مگر مراد طریق حق ہے اور بعض کہتے ہیں ملت اسلام۔ ان دونوں قولوں کی نسبت ابن جریر نے ابن عباسؓ کی طرف کی ہے۔ ابو العالیہ اور امام حسن نے اھِدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ کی تفسیر میں کہا ہے کہ رسول اللہ : کا اور ان کے دو اصحاب ابو بکر و عمرؓ کا راستہ۔ رسول اللہ نے فرمایا میرے بعد میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو خوب مضبوط پکڑو اور فرمایا میرے بعد دو شخصوں ابو بکر و عمر کی اقتدا کرو۔

صِرَاطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیہِم ۥۙ غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ﴿7﴾

راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا

صَرَاطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیھِم: یہ الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ سے بدل ہے اور بدل بھی بدل کل جس کا فائدہ تاکید ہے اور اس بات پر استدلال ہے کہ ان لوگوں کا راستہ وہ ہے جس کے مستقیم ہونے کی شہادت دے دی گئی ہے ( مطلب یہ ہے کہ خداوندا ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے اپنا فضل کیا) اور ان سے وہ با خدا اور نیک دل لوگ مراد ہیں جنہیں خدا نے ایمان اور طاعت پر ثابت قدم رکھا یعنی انبیاء علیہم السلام اور صدیقین اور شہداء اور صالحین۔ لفظ علیہم اور الیہم اور لدیھم کو جہاں کہیں بھی قرآن میں آیا ہے حمزہ نے فصل اور وقف دونوں حالتوں میں ضمہ ہا سے پڑھا ہے لیکن حمزہ کے علاوہ اور تمام قاریوں نے ہ مکسور پڑھا ہے۔ ابن کثیر نے ہر میم جمع کو حالت وصل میں ضمہ اور اشباع سے پڑھا ہے جبکہ اس کے بعد ساکن نہ ہو۔ قالون (رومی زبان کا لفظ جس کے معنی عمدہ (جید) کے ہیں ) ہر حالت میں خواہ اس کو بعد کا حرف ساکن ہو یا نہ ہو اشباع اور عدم اشباع دونوں طرح سے پڑھنا جائز رکھتے ہیں لیکن ورش صرف الف قطع کے اتصال کے وقت اشباع سے پڑھنا جائز بتاتے ہیں اور جب میم جمع کے بعد الف وصل ہو اورہ سے پیشتر کسرہ یای ساکن ہو جیسے بھِِمُ الاَسبَاب   وَ عَلَیھِمُ القِتَالُ تو حمزہ اور کسائیہ اور م دونوں کو مضموم پڑھتے ہیں اور ابو عمر و مکسور اور اسی طرح یعقوب بھی ابو عمرو کے ساتھ متفق ہیں جبکہ اس سے پیشتر کا حرف مکسور ہو۔ ان قراء کے علاوہ باقی لوگ م کو مضموم پڑھتے ہیں اس واسطے کہ وہی اصل ہے اور ہ کو کسرہ سے اس واسطے کہ اس سے پیشتری ساکنہ یا کسرہ ہے لیکن یہ اختلاف وصل کی حالت میں تھا۔ رہی وقف کی حالت تو اس صورت میں سب لوگ ما قبل کے مکسورہ ہونے کی وجہ سے کسرہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ البتہ حمزہ کا اختلاف اس صورت میں بھی باقی رہتا ہے۔

غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیھِم وَ لَا الضَّآلِّین : یہ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیھِم سے بدل ہے یعنی جن پر خدا نے اپنا فضل کیا۔ ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو غضب خداوندی اور گمراہی سے سالم و محفوظ ہیں یا صفت کا شفہ یا صفت احترازیہ ہے۔ بشرطیکہ موصول نکرہ کے قائم مقام فرض کیا جائے اور اس سے کوئی معین اور مقر ر گروہ مراد نہ لیا جائے جیسا کہ اس مصرعہ میں ہے مصرعہ وَلَقَد اَمُرُّ عَلَی الئیم یَسُبُّنِی (یعنی جب میں کسی دنیّ الطبع اور نالائق شخص کی طرف سے گزرتا ہوں جو مجھے گالیاں دیتا ہے ) یا یوں کہئے کہ لفظ غیر چونکہ ایسی چیز کی طرف مضاف ہوا ہے جس کی ایک ہی ضد موجود ہے اسلئے بہر حال معرفہ ہے اور اس اضافت کے سبب سے اس میں ایک قسم کی تعیین ہو گئی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے عَلَیکُم بالحَرکَۃِ غَیر السُّکُونِ۔ لفظ عَلَیھِم فاعل کے قائم مقام واقع ہونے کی وجہ سے رفع کے محل میں ہے ( یعنی ترکیب میں المغضوب کا مفعول ما لم یسم فاعلہ واقع ہوا ہے ) اور لا اس نفی کی تاکید مزید کر رہا ہے جو غیر کے معنی سے مستفاد ہوتی ہے گویا تقدیر عبارت یوں ہے لا المَغضُوبِ عَلَیھِم (یعنی نہ ان کا رستہ جن پر خدا کا غضب نازل ہوا) انتقام کے ارادہ سے نفس کے برانگیختہ اور پر جوش ہونے کو غضب کہتے ہیں لیکن جب اس کی نسبت خدا کی طرف ہوتی ہے تو اس سے نتیجہ غضب ( اور) اس کا منتہیٰ مراد ہوا کرتا ہے یعنی عتاب اور ضَلَالَۃ۔ ھِدَایَۃ کی ضد ہے ( یعنی اس راہ سے عدول کرنے کو ضلالت کہتے ہیں جو خدا تک پہچانے والی ہے ) اور اس کے بہت سے مراتب و مدارج ہیں۔ عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ جن پر خدا کا غضب نازل ہوا ان سے یہود اور گمراہوں سے نصاریٰ مراد ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کی تحسین کی اور ان کے علاوہ اوروں نے عدی ابن حاتم سے روایت کیا ہے ابن مردویہ نے ابوذر کی روایت سے اسی کے قریب ایک اور حدیث نقل کی ہے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس و ابن مسعود، ربیع بن انس اور زید بن اسلم کی طرف اسی تفسیر کی نسبت کی ہے۔ ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ باوجود تحقیقات کے مجھے اب تک معلوم نہیں ہوا کہ اس تفسیر میں مفسروں کا اختلاف ہو۔

میں (صاحب تفسیر) کہتا ہوں اَلمَغضُوب عَلَیھِم وَ لَا الضَّآلِّینَ ایسے دو عام لفظ ہیں جن کے تحت میں تمام کفار اور خدا کے نافرمانوں اور بدعتی سب لوگ داخل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس شخص کے حق میں جو کسی ممنوع القتل کو عمداً قتل کر دے۔ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیہِ فرمایا اور کفار و بدعتیوں کے بارے میں ارشاد ہوا فَمَا ذَا بَعدَ الحَقِّ اِلَّا الضَّلَال اور اَلَّذِینَ ضَلَّ سَعیھُُم فِی الحِیٰوۃِ الدُّنیَا سورۃ فاتحہ کے ختم پر قدرے فصل کے ساتھ اٰمِین کہنا مسنون ہے اور یہ لفظ بدون تشدید مد و قصر دونوں طرح سے منقول ہوا ہے۔ امام بغوی کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : اٰمین کے معنی اِسمَع وَا ستَجِب کے ہیں یعنی خدا وندا ہماری دعاء سن اور قبول فرما یا۔ا مام ثعلبی نے بحوالہ حضرت ابن عباسؓ بیان کیا کہ میں نے جناب نبی کریمﷺ سے اٰمین کے معنی دریافت کئے فرمایا اس کے معنی ہیں اِفعَل۔ ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں اور امام بیہقی نے دلائل میں حضرت ابو میسرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے جناب نبی کریم :ﷺ کو سورۃ فاتحہ پڑھائی اور وَلَا الضَّآلِّینَ پر پہنچ کر فرمایا اٰمین کہئے۔ ابو داوٗد نے اپنی سنن میں حضرت ابو زہیر کی روایت سے جو ایک جلیل القدر صحابی ہیں بیان کیا کہ اٰمین ایسی ہے جیسی خط پر مہر۔ حضرت ابو زہیر فرماتے ہیں کہ ہم ایک رات آنحضرتﷺ کے ساتھ باہر نکلے اور چلتے چلتے ہمارا گذر ایک ایسے شخص پر ہوا جو جناب الٰہی میں دعا کر رہا تھا اور نہایت الحاح و زاری سے کر رہا تھا۔ نبیﷺ نے اس کی یہ الحاح و زاری دیکھ کر فرمایا اس کی دعا قبول ہوئی اگر اس نے دعا پر مہر بھی لگائی۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ دعا پر کسی چیز کی مہر لگائی جاتی ہے۔ فرمایا لفظ آمین کی۔ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا (لوگو) جب امام وَلَا الضَّآلِّینَ تک پہنچ جائے تو اٰمین کہا کرو کیونکہ اس وقت فرشتے بھی اٰمین کہتے ہیں اور جس شخص کی آمین فرشتوں کی اٰمین کے موافق پڑ جائے گی اس کے تمام گزشتہ گناہوں پر قلم عفو کھینچ دیا جائے گا۔ ۱؂ دار قطنی میں یہ حدیث موجود ہے کہ نبی اکرمﷺ جب وَلَا الضَّالِین پڑھ چکتے تو اٰمین کہتے اس حدیث کی تصحیح میں ابن حبان نے نہایت پر زور اور بیش بہا الفاظ لکھے ہیں۔

فصل : دَر بیان فضائل سورۃ فاتحہ

حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے فرمایا مجھے اس ذات پاک کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہسورہ فاتحہ جیسی کوئی سورت نہ تو توریت و انجیل اور زبور میں نازل ہوئی اور نہ قرآن مجید میں۔ یہ وہی سبع مثانی ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کر کے حسن صحیح بتایا ہے اور حاکم کہتے ہیں کہ شرط مسلم پر صحیح ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ہم صحابیوں کی ایک جماعت جناب نبی اکرمﷺ کے حضور میں حاضر تھی اور جبرئیل (علیہ السلام) آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ دفعتاً اوپر سے دروازہ کھلنے کی سی آواز آئی جبرئیل ( علیہ السلام) نے آسمان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور فرمایا یہ دروازہ جو اس وقت کھلا ہے اس سے پیشتر کبھی نہیں کھلا۔ راوی کا بیان ہے کہ اتنے میں ایک فرشتہ آسمان سے اترا اور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ آپ کو ایسے دو نوروں کا ثمر دہ ہو جو آپ سے پیشتر کسی نبی کو نہیں دئے گئے۔ ایک ’’ فاتحۃ الکتاب‘‘۔ دوسرے سورۃ بقرہ کا خاتمہ ان دونوں میں سے اگر آپ ایک حرف بھی پڑھیں گے تو وہ نور آپ کو دے دیا جائے گا۔ ( مسلم)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا خدا فرماتا ہے کہ میں نے اپنے اور بندہ کے درمیان نماز کو آدھوں آدھ تقسیم کیا ہے اس کا نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندہ کے واسطے اور میرے بندہ کو وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواستگاری کرے گا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ جب بندہ اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ کہتا ہے تو خدا فرماتا ہے حَمِدَنِی عَبدِی (میرے بندہ نے میری تعریف کی) اور جب وہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم کہتا ہے تو خدا فرماتا ہے۔ اَثنیٰ عَلَیَّ عَبدِی (میرے بندہ نے میری خوب حمد و ثنا کی) جب بندہ مالِکِ یَومِ الدِّین کہتا ہے تو خدا فرماتا ہے مَجَّدَنِی عَبدِی ( میرے بندہ نے میری بزرگی اور عظمت کا اظہار کیا) بندہ اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ کہتا ہے تو خدا فرماتا ہے ھٰذَا بَینِی وَبَینَ عَبدِی وَ لِعَبدِی مَا سَأَلَ (یعنی یہ مضمون میرے اور میرے بندہ کے درمیان تقسیم ہے اور میرے بندے کے لیے میرے پاس وہ چیز موجود ہے جس کی وہ درخواست کرے ) جب بندہ اھِدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیھِم غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیھِم وَ لَآ الضَّالِّینَکہتا ہے تو فرماتا ہے فھَٰؤُلَاءِ لِعَبدِی وَ لِعَبدِی مَا سَاَلَ ( یعنی میرے بندہ کی یہ تمام درخواستیں مقبول ہیں اور اس کے علاوہ جو بھی درخواست کرے گا منظور کروں گا۔ (مسلم)

عبد الملک بن عمیر سے مرسلاً روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا ’’ فاتحۃ الکتاب‘‘ ہر مرض کے لیے شفا ہے اسے دارمی نے اپنی مسند اور بیہقی نے شعب الایمان میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے حضرت عبداللہ بن جابرؓ سے روایت ہے کہ حضرت نبیﷺ نے فرمایا جابرؓ میں تجھے بہترین سورت کی جو قرآن میں نازل ہوئی ہے خبر دوں ؟ جابر کہتے ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ ! فرمائیے ارشاد ہوا کہ وہ ’’ فاتحۃ الکتاب‘‘ ہے اور میرا خیال ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا : کہ وہ ہر مرض کے لیے شفا ہے۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ ’’ فاتحۃ الکتاب‘‘ بجز موت کے ہر مرض کی دوا ہے۔ اسے خلعی نے اپنے فوائد میں نقل کیا ہے۔ سعید بن المعلی سے روایت ہے کہ قرآن میں سب سے بڑی سورت ( باعتبار ثواب یا بلحاظ قدرو وقعت) اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ ہے۔ اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ بیہقی اور حاکم نے حدیث انس بیان کرتے ہوئے کہا کہ اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلمِینَ افضل قرآن ہے۔ بخاری اپنی سند سے حدیث ابن عباس نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ’’ فاتحۃ الکتاب‘‘ قرآن کے دو ثلث کے برابر ہے۔ ابو سلیمان کہتے ہیں کہ ایک دفعہ چند صحابہ کرام کسی غزوہ میں شریک تھے وہاں ان کا گزر ایک مرگی والے پر ہوا جو بالکل بے ہوش پڑا تھا۔ کسی نے سورۃ فاتحہ کو پڑھ کر اس کے کان میں پھونک دیا۔ حضرت کو خبر ہوئی تو فرمایا وہ ام القرآن ہے اور ہر مرض کی دوا ۱؂ہے۔ اسے ثعلبی نے بروایت معاویہ بن صالح بحوالہ ابو سلیمان بیان کیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے فرمایا : ’’ فاتحۃ الکتاب‘‘ زہر تک کی دوا ہے۔ اسے سعید بن منصور نے (اپنے سنن ) اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ ہم لوگ سفر میں تھے چلتے چلتے ایک موضع میں اترے۔ وہاں ایک لونڈی آ کر کہنے لگی کہ اس قبیلہ کے سردار کو سانپ ڈس گیا ہے کیا تم میں کوئی منتر پڑھنے والا بھی ہے ؟ یہ سن کر ہم میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا اور لونڈی کے ہمراہ جا کر سورۃ فاتحہ پڑھ کر سانپ کے ڈسے ہوئے پر پھونک دی، وہ فوراً اچھا ہو گیا۔ جب ہم سفر سے واپس آئے تو حضرتﷺ سے یہ ماجرا عرض کیا آپ نے اس شخص سے دریافت کیا تجھے کیونکر معلوم ہوا کہ وہ منتر ہے ؟ اسے امام بخاری نے روایت کیا اور ابو الشیخ اور ابن حبان نے ثواب میں ابو سعید خدری اور ابوہریرہ سے روایت کیا ہے۔ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ جناب نبی کریمﷺ نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر مجھ پر دم کیا اور آفات و بلا سے محفوظ رہنے کے لیے یہ سورۃ پڑھ کر میرے منہ میں لعاب دہن مبارک ڈال دیا۔ اسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جب تو بچھو نے پر لیٹ کر سورۃ فاتحہ اور قل ھُو اللہ احد پڑھے گا تو موت کے سوا ہر چیز سے محفوظ و بے خوف رہے گا۔ اسے براء نے روایت کیا ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.gegasoft.com/quran-reader

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید