FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

تصوف اور احسان ۔۔ دو مضامین

 

               احمد کامل شطاری اور   محمد عبدالحمید

 

 

۱۔ تصوف اور احسان

 

 

 

زبدۃ الاصفیاء حضرت شیخین

               احمد کامل شطاری

رحمۃ اللہ علیہ

 

 

الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا بنی بعدہ وعلی الہ وجمیع اصحابہ

خلافۃ علی منھاج النبوۃ کا بابرکت دور ختم ہونے کے بعد ملوکیت (بادشاہت) کا دور شروع ہوا اور بہ تدریج للہیت میں کمی اور دنیاداری میں اضافہ ہوتا رہا یہ سلسلہ جاری تھا کہ مغربیت کا مادی سیلاب اٹھا اور جو کچھ دینداری تھی اس کو بھی بہا لے گیا۔علوم دینیہ سے عام طور پر توجہ ہٹ گئی جسکے نتیجہ میں علم گھٹ گیا اور جہل بڑھ گیا۔ اور بسا حقائق، موافق و مخالف جماعتوں کے غلو کی وجہ سے بمصداق ’’مسلمانان درگور، مسلمانی در کتاب ‘‘ سلفِ صالحین کے مکتوبات و ملفوظات میں رہ گئے!از انجملہ تصوف و صوفی کے الفاظ ہیں کہ موافق گروہ نے اس کی کچھ ایسی تعبیر کی کہ مخالفین نے سرے سے اس کا انکار کر دیا۔حتی کہ بعضوں نے تصوف کے ڈانڈے فلسفہ سے ملا دئے اور بعضوں نے تو اس کو ہندو مذہب سے ماخوذ قرار دیا۔ خصوص مسئلہ ’’وحدۃ الوجود‘‘ کی وجہ سے جو ایک دقیق اور وجدانی مسئلہ ہے تصوف اور صوفی کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔ اس مسئلہ کی آئندہ وضاحت کی جائے گی۔

تصوف اور احسان : تصوف کے ماخذ و مشتقات مختلف بتائے گئے ہیں مگر صحیح یہ ہے کہ ’’صوف‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنٰی اون و پشمین ہے۔شریعت میں لباس کی نسبت عام اجازت ہے۔ البس ماشئت، کہ جو چاہو پہنو، اس حکم عام کے ساتھ عدم اسراف و مخیلہ کی قید ہے۔ اسراف کے معنی حد سے تجاوز ہے یعنی حرام یا حد حرام تک نہ پہنچائے۔ اور مخیلہ کا مطلب تکبر و بڑائی کا خیال نہ رہے یعنی لباس کے استعمال میں فخر و کبر کا خیال نہ رہے اور حرمت کی حد تک نہ پہنچے۔ اللہ کے نیک بندے ظاہر و باطن ہر ایک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو پیش نظر رکھتے ہیں ، قرآن مجید میں ’’وما انا من المتکلفین‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے میں کسی امر میں بھی تکلف گوارا نہیں کرتا۔ لباس میں بھی حضور نے پر تکلف زرق برق کو پسند نہیں فرمایا، سادہ اور موٹے ڈھاٹے لباس کو اختیار فرمایا اور اس کی ترغیب بھی دلائی اور اس کی منفعت بھی ظاہر فرمائی، چنانچہ ارشاد ہے: علیکم بلباس الصوف تجدوا حلاوۃ الایمان فی قلوبکم۔ تو اون کالباس اختیار کرو تو اپنے دلوں میں ایمان کی حلاوت و شیرینی پاؤ گے۔ اللہ جل شانۂ نے نزول وحی کے بعد اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرمایا: یا ایھا المزمل، و یا ایھا المدثر۔ اے کملی اوڑھے ہوئے نبی اٹھئے اور اللہ کے احکام اس کے بندوں کو سنائیے۔ اور اپنے رب کی عظمت و کبریائی ان کے دل نشین کیجئے، کپڑوں کو پاک و صاف رکھئے، گندگی سے (پہلے کی طرح) دور ر ہئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بھی اون کا لباس پسند ہے۔ اسی بنا پر صحابہ کرام زرق برق اور شوخ لباس کے بجائے موٹے ڈھاٹے سادہ لباس ہی کو استعمال فرماتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بعد ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے بزرگانِ دین نے بھی صوف کے لباس کو اپنے لئے خاص کر لیا جس کی وجہ سے ان کو صوفی سے یاد کیا گیا۔ لیکن اس کی حقیقی وجہ وہ ہے جو حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی ہے:

من عاش فی ظاہر الرسول فھو سنی، ومن عاش فی باطن الرسول فھو صوفی

جو ظاہر رسول پر چلے وہ سنی ہے۔ اور جو باطن رسول کے مطابق زندگی بسر کرے وہ صوفی ہے۔ (رواہ ابونعیم فی الحلیۃ)

 

               ظاہر رسول

 

ظاہر رسول سے مراد رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ شرائع و احکام ہیں اور یہ علم نافع ہے جس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے اخذ کیا۔تابعین اور ائمہ سلف نے ان کو سیکھا اور ان پر عمل کیا۔ علم کتاب، سنت، تفسیر، اخبار، فقہ انہی کے توابع ہیں ۔

 

               باطن رسول

 

باطنِ رسول سے مراد وہ اسرار ہیں جو علم شرائع اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرنے اور اس کے اصل ماخذ پر واقف ہونے کا نتیجہ ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ظاہر و باطن کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:

حفظت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعائین فاما احدھما فبثثتہ واما الاخر فلو بثثتہ قطع ھذا اللعرم یعنی مجری الطعام

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم کے دو ظرف محفوظ رکھے ہیں ان میں سے ایک کو میں نے لوگوں میں پھیلا دیا ہے، دوسرے کو بھی، اگر عام طور پر پھیلا دوں تو میرا حلق کاٹ دیا جائے۔(بخاری)

خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ نے فصل الخطاب میں اس حدیث کے یہ معنٰی لکھا ہے:

قالوا المراد بالاول علم الاحکام والاخلاق وبالثانی علم الاسرار

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول میں پہلے ظرف سے مراد علم احکام و اخلاق ہے اور دوسرے سے مراد علم اسرار ہے

علم احکام و اخلاق پر عمل پیرا ہونے سے علم اسرار حاصل ہوتا ہے چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرما دی ہے کہ علم سیکھو اور اس پر عمل کرو تو ایک ایسا علم تم کو حاصل ہوگا جس کو تم نے سیکھا نہیں ہے۔

حاصلِ کلام یہ کہ، عبادات، معاملات وغیرہ کا صرف علم حاصل کر لینا کافی نہیں حصولِ علم کا مقصد عمل ہے، اور اس سے معرفت حاصل ہوتی ہے۔ بعض محققین کا قول ’’ حق رانشناسی تو بایں کنزو قدوری‘‘ اسی حقیقت کی جانب اشارہ ہے اس سے فقہ یا کتبِ فقہ کی اہمیت کو گھٹانا نہیں ہے، بلکہ عمل کی جانب توجہ دلانا ہے جس سے معرفت کو حصول ہوتا ہے اور یوں بھی امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے فقہ کی تعریف ’’معرفۃ النفس مالھا وما علیھا‘‘ کی ہے۔

غرض کہ یہ علم ہر شخص کے مجاہدہ و ریاضت، استعداد و صلاحیت کے اعتبار سے عنایت ہوتا ہے جس کا قرآن مجید میں یہ ضابطہ بیان کیا گیا ہے:

ولا یحیطون بشیء من علمہ الا بما شاء

اللہ تعالیٰ جس قدر چاہتا ہے اسی قدر علم انہیں حاصل ہوتا ہے۔

اور جو علم خدائے تعالیٰ کی طرف سے کسی کو دیا جاتا ہے وہ ہر وقت و ہر آن حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ اسی حالت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

مشاھدۃ الابرار بین التجلی والاستتار

ابرار کا مشاہدہ تجلی اور استتار کے بین بین ہوتا ہے۔

تصوف اور صوفی کا حقیقی مفہوم یہی ہے مزید وضاحت کے لئے رسالہ کشف المحجوب کی عبارت ذیل ملاحظہ ہو۔

تصوف راسہ درجہ است یکے متصوف بود کہ برائے جاہ و مال خود را مانند صوفیان حقیقی کند۔و برائے خوردن و آشامیدن سر گردان شدہ گردد کہ المتصوف عند الصوفیۃ کالذباب و عند غیرہم کالذئاب کہ ہمہ عمر چوں گردد بطلب مردار باشد۔دوم متصوف است کے بے مجہادہ ایں درجہ طلبد و خود را مانند صوفیا نماید۔

تصوف کے تین درجے ہیں ایک متصوف جو جاہ و مال کے لئے خود کو حقیقی صوفیوں کی طرح بناتا ہے اور کھانے پینے کے لئے سر گرداں رہتا ہے، صوفیہ کے نزدیک ایسا متصوف بناوٹی صوفی مکھی کی طرح ہے اور غیر صوفیہ کے پاس بھیڑئے کے مانند ہے کہ تمام عمر بھیڑئے کی طرح مردار کی تلاش میں رہتا ہے۔ دوسرا درجہ متصوِف کا ہے جو مجاہدہ کے بغیر حقیقی تصوف کے مرتبہ کا خواہاں ہوتا ہے اور خود کو صوفیا کی طرح ظاہر کرتا ہے۔

ان دو قسم کے صوفیا اور ان کے اعمال و اقوال کی وجہ سے عام طور پر تصوف کا انکار اور صوفیا کی تحقیر کی جاتی ہے۔ ان کی علامت یہ ہے کہ تصوف کے اصطلاحات کا لوگوں میں پرچار کرتے ہیں ۔ اور پر زور بیان سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں ۔ ان کے پاس عمل کی کوئی اہمیت نہیں نہ خود عمل کرتے ہیں اور نہ اپنے وابستگان کو عمل کی ترغیب دلاتے ہیں ۔ ان کے نزدیک صرف وحدۃ الوجود اور دیگر اصطلاحات تصوف کی توضیح و تشریح سب کچھ ہے۔

سوم صوفی حقیقی بودکہ از خود فانی و بحق باقی گردد واز قبضۂ طبائع رستہ و بحقائق تصوف پیوستہ باشد صوفی حقیقی کہ بقرب حق تعالیٰ در صف اول باشد و باوصاف امیر المومنین ابوبکر صدیق موصوف گردد لان الصفا صفۃ الصدیق آنکہ بطبیعت مصفا باشد و آنکہ مستغرق محبت باشد آنرا صوفی گویند۔

تیسرا درجہ حقیقی صوفی کا ہے جو اپنی خودی کو مٹا کر حق کے ساتھ باقی رہتا ہے۔ اور طبیعتوں کے قبضہ سے نکل کر حقائق تصوف کے ساتھ تصوف کے ساتھ مل جاتا ہے۔ حقیقی صوفی قرب حق کی وجہ سے صف اول میں ہوتا ہے اور امیر المومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوصاف سے متصف ہو جاتا ہے کیونکہ صفائی حضرت صدیق کی صفت ہے، صدیق وہ ہے جو طبیعت کے اعتبار سے پاک صاف ہو اور جو محبت الٰہی میں ڈوب جائے اس کو صوفی کہتے ہیں ۔

صوفی کا باطن، باطنِ رسول کا تابع ہوتا ہے : سابق میں بیان کیا گیا ہے کہ ظاہر رسول پر کاربند سنی ہے، اور باطنِ رسول کے مطابق زندگی گزارنے والا صوفی ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ظاہر رسول پر عمل پیرا ہوئے بغیر باطنِ رسول تک رسائی نہیں ہوسکتی تو معلوم ہوا کہ صوفی دونوں کا جامع ہوتا ہے۔ اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن حق تعالیٰ کے صفاتِ کمالیہ کا آئینہ ہے، کوئی وقت ایسا نہیں گزرتا تھا جو یاد الٰہی سے خالی ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے : کان خلقہ القرآن (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن کے موافق تھے) سے اسی جانب اشارہ فرمایا ہے چنانچہ صاحب عوارف المعارف لکھتے ہیں :

ولا یبعد ان قول عائشۃ کان خلقہ القران فیہ رمز غامض و ایماء خفی الی الاخلاق الربانیۃ فاحتشمت الحضرۃ الالھیۃ ان تقول کان متخلقا باخلاق اللہ تعالیٰ فعبرت عن المعنی بقولھا خلقہ القرآن استحیاء من سبحان الجلال وستر الحال بلطف المقال وھذا من وفور عقلھا و کمال ادبھا۔

یہ امر بعید نہیں کہ بلاشبہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس قول میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن کے موافق تھے۔ ایک باریک رمز اور خفی اشارہ خدائی اخلاق کی طرف ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا حضرت کو اخلاقِ الٰہی کا حقیقی مظہر کہنے سے ڈرتے ہوئے اصل حقیقت کو چھپانے کے لئے نہایت خوبی سے اصل مطلب کی اپنے اس قول سے تعبیر کی ہے کہ حضرت اخلاق قرآن کے مطابق تھے۔ اور یہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے کمالِ عقل و ادب کی دلیل ہے۔

اسی لئے ’’فاذکرونی اذکرکم‘‘تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا۔ اور ’’اذکروا اللہ ذکراً کثیرا‘‘کثرتِ ذکر کا حکم ہوا ہے۔ چونکہ صوفی کا باطن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باطن کا تابع ہوتا ہے اس لئے صوفیاء کے باطنی حالات علی قدر مراتب وہی ہوں گے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے، ہمیشہ یادِ الٰہی میں مشغول رہنا ان کا امتیاز نشان ہے۔ قرآن مجید میں ان کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے: رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ۔ چند ایسے مردانِ خدا ہیں جن کو تجارت اور معاملہ ذکر الٰہی سے غافل نہیں کرتا۔ ہر حال میں وہ ذکر الٰہی میں مشتغل اور احکامِ الٰہی کے پابند ہوتے ہیں چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے احوال میں مذکور ہے کہ آپ کا پیشہ تجارت تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے شریک تجارت سے فرمایا کہ دیکھو فلاں کپڑے کی تھا ن میں عیب ہے۔ بوقت فروخت خریدار کو آگاہ کر دینا۔ شریکِ تجارت کو بوقت فروخت حضرت امام کی یہ ہدایت یاد نہ رہی اور بلا ذکر عیب تھان کو فروخت کر دیا، امام صاحب کو جب معلوم ہوا تو آپ قیمت فروخت لے کر خریدار کا پتہ معلوم کر کے اس کے مقام سکونت پر پہنچے اور خریدار سے فرمایا کہ فلاں تھان جو تم نے خریدا ہے اس میں یہ عیب ہے اس لحاظ سے اس کی قیمت اس قدر ہوگی اور تم نے جو قیمت دی ہے وہ بہت زائد ہے۔ اب اگر تھان تم کو پسند ہے تو یہ زائد قیمت واپس لے لو ورنہ پوری قیمت واپس کی جاتی ہے تھان واپس کر دو۔ خریدار کو امام صاحب کی اس دیانت اور حکم الٰہی کی اس پابندی پر تعجب ہوا۔ مردان خدا کے حالات پر عام طور سے اسی طرح اظہار تعجب کیا جاتا رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

تصوف اور احسان2

 

جامع معقول و منقول حضرت مولانا

               مفتی محمد عبدالحمید

رحمۃ اللہ علیہ

سابق شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ و رکن تاسیس مسلم پرسنل لاء بورڈ

 

حلاوۃ الایمان: لباس صوف کے استعمال سے حلاوتِ ایمان کا حصول ارشادِ نبوی ہے۔ حلاوۃ (شیرینی) مطلب یہ ہے کہ طاعات میں لذت پائے، دینی مشقتوں کو برداشت کرے، اطاعتِ الٰہی اور ترکِ مخالفت سے بندہ اللہ و رسول سے محبت رکھے، اور فانی دنیا پر دینی مشقتوں کو ترجیح دے، اور یہ کیفیت یعنی حلاوتِ ایمان، محسوس بھی ہے اور معنوی بھی، چنانچہ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو کفر کی جانب لوٹنے پر جبر کرتے ہوئے اقسام کی سزائیں اور اذیتیں دی گئیں تو آپ نے احد احد یعنی اللہ ایک ہے ایک ہے کہا۔ اس طرح آپ نے عذاب کی تلخی کے ساتھ ایمان کی شیرینی کو ملا دیا۔ آپ کے انتقال کے وقت اہلِ خانہ نے وارباہ۔ ہائے بیقراری کہا۔

اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا واطرباہ فرمایا یعنی واہ مسرت و شادمانی کہ کل میرے احباب (حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنھم) سے ملاقات ہوگی۔ اس طرح موت کی تلخی کے ساتھ ملاقات احبا کی شیرینی کو ملا دیا۔ یہی ایمان کی حلاوت ہے کہ امراض، غفلت و خواہشات سے محفوظ قلب ایمان کے مزے سے لذت اندوز ہوتا ہے جس طرح کہ نفس شہد وغیرہ کی شیرینی سے لذت پاتا ہے۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی وضاحت فرمائی؛ ثلاث من کن فیہ وجد حلاوۃ الایمان۔من کان اللہ ورسولہ احب الیہ بما سواھما ومن احب عبد الایحبہ الا اللہ ومن یکرہ ان یعود فی الکفر بعد اذ انقذہ اللہ کما یکرہ ان یلقی فی النار۔

تین چیزیں جس شخص میں ہوں وہ ایمان کی حلاوت کو پا لیا جس کے پاس اللہ و رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں اور جو کسی بندہ کو محض اللہ کے لئے محبوب رکھے (ذاتی کوئی منفعت نہ ہو) اور جو کفر سے بچا لئے جانے کے بعد دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند سمجھتا ہے۔ (بخاری شریف)

لباسِ صوف کے اختیار سے یہ حلاوت جو نعمت عظمیٰ ہے حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ اس لباس کا اختیار خود اس امر کی دلیل ہے کہ صوفی۔ فانی دنیا سے رو گردان اور حق تعالیٰ کی جانب یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہے اور یہ اس کے حب الٰہی کی کھلی نشانی ہے۔ چنانچہ متأخرین صوفیا نے موٹی چادر اور موٹے ازار کو سیاہ یا گیرو سے رنگ کر استعمال فرمایا کہ لباس کو بار بار دھونے اور بدلنے کی نوبت کم آئے۔ اس ظاہری سادہ لباس کے ساتھ کا باطن بھی متقدمین کی طرح پاک صاف رہا کرتا تھا اور یہی صوفی کی امتیازی شان اور خصوصی نشانی ہے۔ شیخ ابو علی رودباری کا قول ہے:الصوفی من لبس الصوف علی الصفا۔ واذاق الھوی طعم الجفا ولزم طریق المصطفیٰ وکانت الدنیا منہ علی القفا۔

صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی و پاکیزگی کے ساتھ لباس صوف اختیار کرے، اور خواہشاتِ نفس کو سختی اور تکلیف کا مزہ چکھائے اور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو لازم کر لے اور دنیا کو پسِ پشت ڈال دے۔

درستگی و پاکیزگی قلب کے بغیر صوف یا اس کا متبادل موٹا لباس استعمال کیا جائے تو صوفیا کے نزدیک ایسا لباس چوپایوں کا ہے۔ صاحب کشف المحجوب فرماتے ہیں :الصفا من اللہ انعام و اکرام والصوف لباس الانعام۔

صفائی قلب و تزکیہ نفس اللہ کا انعام و اکرام ہے اور صوف انعام (چوپایوں ) کا لباس ہے۔

موجودہ دور : موجودہ دور میں بموجب پیشن گوئی ’’لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرا لشبر‘‘ تم ضرور اپنے پیش رو (یہود و نصاریٰ) کے قدم بہ قدم چلو گے۔

’’فخلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلاۃ واتبعوا الشھوات‘‘ان صالحین کے بعد برے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کے پیچھے جاتے رہے۔ اسلاف نے زرق برق لباس کو چھوڑ کر خواہشِ نفس کے خلاف جو صوف کالباس اختیار فرمایا تھا اخلاف نے اس کو اور اس کے متبادل لباس کو محض خواہشِ نفس کے مطابق اختیار کرو، اور اصل عمل کو ترک کر دیا، اخلاف کی اس روش کو دیکھ کر بعض بزرگوں نے متنبہ کیا کہ ’’در عمل کوش، ہر کہ خواہی پوش‘‘ یعنی اصل عمل ہے، لباس نہیں ۔ صرف درویش صورت بنانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر سادہ لوح ظاہری نسبت کو دیکھ کر ان کی جانب راغب ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ درویش صفت کے بغیر درویش صورت سے متنفر ہیں ۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کی تصویر کھینچی ہے:

دلقت بچہ کار آید و تسبیح و مرقع حاجت بکلاہ برکی داشتنت نیست

خود راز عملھائے نکوہیدہ بری دار درویش صفت باش و کلاہ تتری دار

مگر ان نصائح کے باوجود، بمضمون ’’لا یبقی من الاسلام الا اسمہ ولا یبقی من القرآن الا اسمہ‘‘ اس وقت اسلام کا نام اور قرآن کا رسم رہ گیا ہے (انا للہ وانا الیہ راجعون) البتہ ہر زمانے میں تا قیام ساعت ایک جماعت حق پر قائم و دائم رہے گی۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے سچ فرمایا کہ ’’لن یصلح اخر ھذہ الامۃ الا ما صلح بہ الاول‘‘ یعنی پچھلی امت کی اصلاح و درستگی بھی اسی طریقے سے ہوگی جس طریقے سے اگلی امت کی اصلاح ہوئی ہے۔ الحاصل صوفیا ظاہر و باطن ہر دو کے جامع ہوتے ہیں اور اپنے مجاہدہ و ریاضت کی وجہ سے ’’مقامِ احسان‘‘ پر فائز ہوتے ہیں جو مقام مشاہدہ و مراقبہ ہے جس کی وضاحت حدیث جبرئیل میں ہے۔

 

               حدیث جبرئیل

 

مسلم شریف میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ ایک بار ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا جس کا لباس نہایت سفید، صاف ستھرا اور بال نہایت سیاہ تھے، سفر کا اس پر کوئی اثر نہ تھا اور ہم میں سے کوئی شخص اس کو پہچانتا بھی نہیں تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زانو سے زانو ملا کر بیٹھ گیا اور دونوں زانو پر ہاتھ رکھ کر کہا: ائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خبر دیجئے کہ اسلام کیا چیز ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دوکہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ۔ نماز پڑھو، زکواۃ دو، رمضان کے روزے رکھو، اور قدرت ہو تو حج کرو‘‘ کہا آپ سچ کہتے ہیں ۔ ہم کو تعجب ہوا کہ سوال بھی کرتا ہے (جو لا علمی کی دلیل ہے) اور خود ہی تصدیق بھی کرتا ہے (جو علم ہونے کی دلیل ہے) پھر کہا یہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خدائے تعالیٰ کی ذات، ملائکہ، اس کی کتابوں ، پیغمبروں پر ایمان لانا اور خیر و شر کو اللہ ہی کی طرف سے سمجھنا ایمان ہے‘‘ کہا آپ سچ کہتے ہیں ۔ پھر کہا یہ بتائیے کہ احسان کیا چیز ہے؟ فرمایا ’’اللہ جل شانہ کی اس طرح عبادت کرنا کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم نہیں دیکھتے تو وہ تو دیکھ رہا ہے‘‘ کہا آپ سچ کہتے ہیں ۔ پھر اس نے قیامت کے حالات دریافت کئے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو حضرت نے پوچھا ائے عمر (رضی اللہ عنہ) تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے؟ میں نے کہا اللہ و رسول دانا تر ہیں ۔ فرمایا وہ جبرئیل تھے تم کو دین کی تعلیم دینے کے لئے آئے تھے‘‘۔

حدیث مذکور میں احسان کو ’’انتہائی مرتبہ‘‘ بیان کیا گیا ہے جس کا حصول اسلام و ایمان پر موقف ہے۔ اسلام و ایمان کے بغیر احسان کا مرتبہ حاصل ہی نہیں ہوسکتا۔

اسلام : اسلام، ظاہر احکام کے بجا لانے کا نام ہے، زبان سے توحید و رسالت کا اقرار، اعضا سے نماز، زکواۃ، روزہ اور حج کی ادائی ہے۔ ان احکامِ ظاہری کے بجا لانے میں جس کا دل تنگ ہو تو اس کو ہدایت کا راستہ ہی نہیں ملتا چنانچہ ارشاد ہے:فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام۔ ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد فی السماء۔

جس کی ہدایت کا اللہ ارادہ کرتا ہے تو اس کے سینہ کو کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے سینہ کو تنگ کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔

اس نص قطعی سے ثابت ہے کہ جس پر عبادت ظاہر آسان نہ ہو تو یہ سمجھا جائے گا کہ خدائے تعالیٰ اس کو گمراہی میں چھوڑ دینا چاہتا ہے اور جس کو اللہ گمراہی میں چھوڑ دے تو ممکن نہیں کہ اس کو ہدایت اور تقرب الٰہی حاصل ہوسکے،لہٰذا کوئی تصوف کا نام لے کر اور صوفی کہلا کر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ احکام ظاہری کے بجا لانے کی ضرورت نہیں اس کے بغیر ہی وہ انتہائی درجہ پر فائز ہے۔ تصوف تو ان ہر سہ مراتب پر کامل عمل پیرائی کا نام ہے، پس جو عبادت مفروضہ سے محروم ہے وہ درجہ احسان کے قریب بھی نہیں آسکتا کیونکہ احسان میں عبادت کی ادائی یکسوئی خضوع و خشوع کے ساتھ ہے۔ حدیثِ جبرئیل سے دین میں ابتدائی درجہ اسلام ہے جس کے بغیر کوئی شخص مسلم ہی نہیں کہلا سکتا۔ احسان تو اس کا انتہائی مرتبہ ہے ابتدائی درجہ کا وجود دوسرے دونوں درجوں میں ضروریات سے ہے، کیونکہ ایمان کے درجہ میں ذات الٰہی، پیغمبروں اور کتابوں پر ایمان لانا ہے۔ اور ان پر اسی طرح ایمان لانا ضروری ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ ان کے بغیر خود کوئی شخص کسی بات پر ایمان لائے تو اس کا اعتبار نہیں ۔ یعنی دین کے جملہ مدارج میں خدا و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری ضروریات سے ہے ان میں سے کسی کا بھی انکار ایمان کے منافی ہے۔

 

               احسان

 

احسان کیا چیز ہے کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حالتوں کی جانب اشارہ فرمایا: مشاہدہ حق، و مراقبہ حق۔ پہلی حالت بلند تر ہے کہ اس میں عابد پر مشاہدہ کا غلبہ ہوتا ہے حتی کہ وہ گویا اپنی آنکھ سے حق کو دیکھتا ہے، کانک تراہ کی دوسری حالت میں اس امر کا استحضار ہے کہ حق اس پر مطلع ہے اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے،فانہ یراکان دونوں حالتوں کا ثمرہ اللہ کی معرفت اور اس سے خشیت ہے، چنانچہ عمارہ بن قعقاع نے اپنی روایت میں ، ان تخشی اللہ کانک تراہ،سے تعبیر کی ہے۔ مقصودِ کلام، عبادات میں اخلاص پیدا کرنے کی ترغیب ہے اور اس پر اکسانا ہے کہ کمال خشوع و خضوع کے ساتھ عبد اپنے رب کا مراقبہ کرے۔ اہلِ حقائق نے صالحین کی صحبت اختیار کرنے پر زور دیا ہے تاکہ ان کے احترام اور ان سے حیا کرتے ہوئے کسی نقص سے ملتبس نہ ہوں تو پھر ایسی ذات کی جناب میں حاضری جو بندے کے ظاہر و باطن، سرّ و علانیہ پر مطلع ہے، کسی اور جانب توجہ کیونکر ہوسکے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا خلاصۂ مطلب یہ ہوا کہ ادائے عبادت کے وقت ان تمام مذکورہ آداب و خشوع، خضوع، یکسوئی کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے اس لئے کہ وہ بہر حالت ہمیشہ تجھ کو دیکھ رہا ہے،اور تیرے ہر عمل سے باخبر ہے۔ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: اوتیت جوامع الکلم مجھے جامع کلمات دئے گئے ہیں ، یعنی ہر کلمے میں معانی کا سمندر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ان لم تکن تراہ فانہ یراک بھی منجملہ جوامع کلمات کے ہے۔ اس میں مقام شہادۃ و مقام مراقبہ دونوں موجود ہیں ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ بندے کے لئے اس کی عبادت میں تین مقام ہیں ۔

 

مقام اوّل : یہ ہے جملہ ارکان و شرائط کی ادائی کے ساتھ اس طریقہ پر عبادت ادا کرے کہ وظیفۂ تکلیف ساقط ہو جائے۔

 

مقام دوّم : حسبِ صراحت مذکور ادائے عبادت کے ساتھ بحرِ مکاشفہ میں اس طرح مستغرق ہو جائے کہ گویا وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام عالی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: جعلت قرۃ عینی فی الصلاۃ۔ میرے آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ کیونکہ طاعت سے لذت اور عبادت سے راحت ملتی ہے اور انوار کشف کے احاطہ و غلبہ کی وجہ سے غیر کی جانب توجہ و التفات کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور یہ گوشہ ہائے قلبِ محبوب سے لبریز ہونے کا ثمرہ ہے، اور اس کا نتیجہ احوال معلوم سے فراموشی اور سوم سے بے خودی ہے۔

 

مقام ثالث : ارشاد نبوی : ان لم تکن تراہ، مقام مکاشفہ سے مقام مراقبہ کی جانب نزول ہے یعنی اگر تو اہلِ رویت معنویہ کی طرح عبادت نہیں کرسکتا تو اس طرح عبادت کر کہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔ یہ ہر سہ مقامات، احسان کے مقامات ہیں مگر پہلا مقام صحت عبادت کی شرط ہے۔ بقیہ دو مقام خواص کے ہیں جن تک بہت سے لوگوں کی رسائی دشوار ہے۔ صوفیا علی حسب مراتب، کسی نہ کسی مرتبہ پر فائر رہتے ہیں ، دوسروں کو بھی اسی کی تاکید کرتے ہیں تمہیدات عین القضاۃ میں ہے:

نماز اعظم العبادات است زنہار تا بعادت نگزاری وسر اعظم در نماز، خضوع درتن خشوع در قلب بر محائے والذین ھم فی صلاتھم خاشعون نماز بے خشوع و خضوع چوں قالب بے روح است و رستگاری مومنان در نماز یا خشوع است۔ قال اللہ تعالیٰ قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خاشعون۔

نماز بزرگ ترین عبادت ہے۔ہر گز نماز کو بطور عادت ادا نہ کرو نماز کا سر اعظم جسم میں خشوع (ڈھیلا پن) اور قلب میں خشوع (عاجزی و شکستگی) ہے۔ مضمون :والذین ھم فی صلاتھم خاشعون خشوع و خضوع کے بغیر نماز، بے جان ڈھانچہ ہے، مسلمانوں کی نجات نماز میں خشوع سے ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وہ مومن نجات پا گئے جو اپنی نمازوں میں فروتن رہتے ہیں ۔

سلطان ابراہیم ادہم کا قول ہے:ہر کہ دل خود را در نماز حاضر نیابد یقین داندکہ در ہدایت براوبستہ اند (رسالہ کشف المحجوب)

جو شخص نماز میں اپنے دل کو حاضر نہ پائے اس کو یقین رکھنا چاہئے کہ راہ ہدایت اس پر بند کر دیا گیا ہے۔

وہ لوگ جو ادعائے تصوف کے ساتھ نماز و روزہ کو غیر اہم سمجھتے ہیں اور اپنے مریدین و معتقدین کو بھی یہ باور کراتے ہیں کہ یہ اعمال علمائے ظاہر کے لئے ہیں ۔ غور کریں کہ وہ گمراہی کی کس وادی میں اتر گئے ہیں اور شیطان ان پر کس طرح مسلط ہو گیا ہے اعاذنا اللہ منہ۔

 

               وحدۃ الوجود

 

: جن لوگوں کے پاس عبادات خصوص نماز کی کوئی اہمیت نہیں ۔ ان کا زیادہ تر مشغلہ وحدۃ الوجود پر بحث و گفتگو ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ عوام میں گفتگو کئے جانے کا ہے ہی نہیں ۔ عرفا و صلحائے امت نے عوام کے سامنے اس مسئلہ پر گفتگو سے سخت ممانعت کی ہے کہ یہ ان کے فہم و ادراک سے بالا تر ہے۔ اس پر ایک سر سری اور واضح عام فہم عبارت میں روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ قرآنِ حکیم میں ہے: ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا۔ انسان پر زمانہ کا ایک ایسا وقت بھی تھا کہ وہ اس میں شئی مذکور نہ تھا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : کان اللہ ولم یکن معہ شی۔اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے ساتھ کوئی شئے نہ تھی۔ یعنی تمام کائنات معدوم تھی، جب حق تعالیٰ کا ارادہ اپنی معرفت کا ہوا تو اشیاء پر اپنے وجود کا پرتو ڈالا جس کی وجہ سے اشیاء محسوس ہوئیں ۔ وجود، حق تعالیٰ کی صفت ہے، اسی طرح علم بھی اس کی ایک صفت ہے اور اسی صفت علم میں جملہ اشیاء موجود ہونے سے پہلے ثابت تھے۔ اسی لئے ان اشیاء کو ’’اعیان ثابتہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔ ان پر وجود کی تجلی ہوئی تو وہ وجود میں آئے اور موجودات کہلائے ان تمام موجودات کا وجود ایک ہے، البتہ ہر موجود میں دو چیزیں پائی جائیں گی ایک وجود جو شیٔ کا نہیں موجد کا ہے دوسری اس کی عین ثابت، لہٰذا کثرت اعیان ثابتہ میں ہے وجود میں نہیں ۔ تو اب معلوم ہوا کہ تمام موجودات کا وجود ایک ہی ہے اور اسی کا نام وحدۃ الوجود ہے۔ اس کو مختلف عبارتوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔

               مراتب توحید

 

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے کیمیائے سعادت میں تحریر فرمایا ہے کہ:اعلم ان التوحید علی اربع مراتب الاولی ان یقول لا الہ الا اللہ باللسان وقلبہ غافل عندہ او منکر لہ۔ کتوحید المنافق۔ الثانیۃ ان یصدق بمعنی اللفظ قلبہ کما یصدق بہ عموم المسلمین۔ وھو اعتقادہ۔ والثالثۃ ان یشاھد ذلک بطریق الکشف بواسطۃ نور الحق وھو مقام المقربین و ھو ان یری اشیاء کثیرۃ لکن یراھا صادرۃ من الوحدۃ۔ والرابع۔ ان لا یری فی الوجود الاوحدہ وھو مشاھدۃ الصدیقین۔

توحید کے چار درجے ہیں ۔ پہلے درجے میں صرف زبان سے لا الہ الا اللہ کہتے ہیں جیسے منافق کی توحید، کہ دل توحید کا منکر ہے۔ دوسرا درجہ توحید کا وہ ہے جس میں زبان سے اقرار کے سوا دل سے بھی تصدیق کرے، عام مسلمانوں کا یہی اعتقاد ہے اور شرع میں اس کا اعتبار ہے۔ تیسرا درجہ توحید کا یہ ہے کہ اعتقاد کے علاوہ مکاشفہ سے بھی توحید کا مقام واسطۂ نور حق مشاہدہ کرے۔ یہ مقربین کا مقام ہے اس مقام پر ظاہر میں بہت اشیاء نظر آتے ہیں لیکن وہ وحدت سے صادر دیکھتا ہے۔ چوتھا درجہ توحید کا یہ ہے کہ بجز ایک ذات کے جس کا وجود حقیقی ہے کچھ اور نہ دیکھے۔ یہ صدیقین کا مشاہدہ ہے کیونکہ جس کی بصر بصیرت حق میں ہو اس کی نظر عکسی اور ظلی وجود پر نہیں پڑتی۔

خلاصۂ کلام یہ کہ وجود حقیقی ایک ہے اس کے سوا جو کچھ ہے وہ عدم ہے (کل شئی ھالک الاوجھہ) مگر اس حقیقت تک رسائی کے لئے دو امر ضروری ہیں ۔ ایک تصفیۂ قلب کہ دل کو ماسویٰ اللہ سے تعلق نہ رہے اور طالب عاشق ذکرِ الٰہی میں ایسا مصروف ہو کہ خود کو بھول جائے اور دوام حضور حاصل ہو۔ دوسرا، تزکیہ نفس یعنی اخلاق رذیلہ اور عاداتِ قبیحہ سے نفس پاک ہو جائے اور یہ ہر دوام تصفیۂ و تزکیہ ریاضت شاقہ اور مجاہدہ کاملہ پر موقوف ہیں جن سے مشاہدہ حاصل ہوتا ہے، اور اس میں لازم شرع شریف کی کمال اتباع ہے۔ اللہ جل شانہ نے جن و انس کی تخلیق کا اصل مقصد معرفت الہ قرار دیا ہے۔

مقصد تخلیق جن و انس : وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ میں نے جن و انس کو عبادت ہی کے لئے پیدا کیا ہے او ریہ عبادت حسبِ تعلیم جبرئیل علیہ السلام احسان کے ساتھ ادا ہونا چاہئے، اسی لئے خیر امت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے لیعبدون کی تفسیر ’لیعرفون‘ سے کی ہے یعنی عبادت اس طرح سے ادا کی جائے کہ معرفتِ رب حاصل ہو۔ عارفین حق نہ صرف عبادات مفروضہ کو نہایت اہتمام سے ادا کرتے ہیں بلکہ مستحبات،‘خصوصاً نمازِ تہجد کی پابندی فرماتے ہیں اور نوافل سے اتنا قرب حاصل ہوتا ہے کہ بموجب حدیثِ قرب ، اللہ بندہ کا دست و پا اور چشم و گوش ہو جاتا ہے۔ واللہ یھدی من یشآء الی صراط مستقیم۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.ziaislamic.com/interface/ArticleUrduDet.php?ids=451

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید