FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ترجمہ قرآن

 

حصہ دوم، اسراء (بنی اسرائیل) تا الناس

 

                ترجمہ: محمد حسین نجفی

 

 

 

 

۱۷۔ سورۃ اسراء(بنی اسرائیل)

 

 

۱.      پاک ہے وہ (خدا) جو اپنے بندہ (خاص) کو رات کے ایک حصہ میں مسجد الحرام سے اس مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم انہیں اپنی (قدرت کی) کچھ نشانیاں دکھائیں بے شک وہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔

۲.     اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعۂ ہدایت بنایا کہ (دیکھو) میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا۔

۳.     اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں ) سوار کر لیا تھا بے شک وہ (نوح) ایک شکر گزار بندہ تھا۔

۴.     اور ہم نے اس کتاب (توراۃ) میں بنی اسرائیل کو آگاہ کر دیا تھا کہ تم ضرور زمین میں دو مرتبہ فساد برپا کرو گے اور بڑی سرکشی کرو گے۔

۵.     چنانچہ جب ان دونوں میں سے پہلے وعدہ کا وقت آ گیا تو ہم نے (تمہاری سرکوبی کیلئے ) اپنے کچھ ایسے سخت جنگجو بندے بھیج دیئے جو تمہاری آبادیوں کے اندر گھس گئے اور (خدا) کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔

۶.     اور پھر ہم نے گردشِ زمانہ کو تمہارے حق میں دشمن کے خلاف کر دیا (تمہیں ان پر غلبہ دے دیا) اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں کثیر التعداد بنا دیا۔

۷.     (دیکھو) اگر تم اچھے کام کرو گے تو اپنے لئے ہی کرو گے اور اگر برے کام کرو گے تو وہ بھی اپنے لئے کرو گے پس جب دوسرا وعدہ آ گیا (تو ہم نے اور بندوں کو مسلط کر دیا) تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح (جبراً) داخل ہو جائیں جس طرح پہلی بار (حملہ آور) داخل ہوئے تھے اور تاکہ جس جس چیز پر وہ قابو پائیں اسے تباہ و برباد کر دیں۔

۸.     ہو سکتا ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم فرمائے اور اگر تم پھر (فساد و سرکشی کی طرف) لوٹے تو پھر ہم بھی اسی طرح لوٹیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا دیا ہے۔

۹.     یقیناً یہ قرآن اس راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے اور خوشخبری دیتا ہے ان اہلِ ایمان کو جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔

۱۰.    اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۱۱.     اور انسان برائی کی دعا اسی طرح کرتا ہے جس طرح اچھائی کی دعا کرتا ہے (دراصل) انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔

۱۲.    اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا ہے سو ہم نے رات کی نشانی کو دھندلا بنایا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل و کرم (رزق) تلاش کرو اور تاکہ برسوں کی گنتی اور (ہر طرح کا) حساب معلوم کر سکو اور ہم نے ہر (ضروری) چیز کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔

۱۳.    اور ہم نے ہر انسان کا (نامہ) عمل اس کی گردن میں ڈال دیا ہے اور قیامت کے دن ہم ایک کتاب (نوشتہ) نکالیں گے جسے وہ اپنے سامنے کھلا ہوا پائے گا۔

۱۴.    (ہم حکم دیں گے کہ) اپنا نامۂ عمل پڑھ آج تو خود ہی اپنے حساب کے لئے کافی ہے۔

۱۵.    جو راہِ راست اختیار کرتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے ہی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہم اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتے جب تک (اتمامِ حجت کی خاطر) کوئی رسول بھیج نہیں دیتے۔

۱۶.    اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو ہم وہاں کے خوشحال لوگوں کو (انبیاء کے ذریعہ سے اپنی اطاعت کا) حکم دیتے ہیں اور وہ (اطاعت کی بجائے ) نافرمانی کرنے لگتے ہیں تب اس پر (عذاب کی) بات ثابت ہو جاتی ہے اور ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔

۱۷.    اور ہم نے نوح کے بعد کتنی ہی قوموں کو (ان کے گناہوں کی پاداش میں ) ہلاک کیا اور آپ کا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر ہونے اور دیکھنے کی حیثیت سے کافی ہے۔

۱۸.    جو کوئی دنیا کا خواہشمند ہو تو ہم جسے جتنا دینا چاہتے ہیں اسی (دنیا) میں جلدی دے دیتے ہیں پھر اس کے لئے دوزخ قرار دیتے ہیں جس میں وہ ملامت زدہ اور راندہ ہوا داخل ہو گا (اور اسے تاپے گا)۔

۱۹.    اور جو کوئی آخرت کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کے لئے ایسی کوشش بھی کرے جیسی کہ کرنی چاہیئے درآنحالیکہ وہ مؤمن بھی ہو تو یہ وہ ہیں جن کی کوشش مشکور ہو گی۔

۲۰.    ہم ہر ایک کی امداد کرتے ہیں اِن کی بھی اور اُن کی بھی آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سے اور آپ کے پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے۔

۲۱.    (دیکھو) ہم نے (یہاں ) کس طرح بعض لوگوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے بہت بڑی ہے اور فضیلت کے لحاظ سے بھی بہت بڑی ہے۔

۲۲.    اللہ کے ساتھ کوئی الٰہ (معبود) نہ ٹھہراؤ۔ ورنہ ملامت زدہ ہو کر اور بے یار و مددگار ہو کر بیٹھے رہو گے۔

۲۳.   اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو۔ اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔

۲۴.   اور ان کے سامنے مہر و مہربانی کے ساتھ انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور کہو اے پروردگار تو ان دونوں پر اسی طرح رحم و کرم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپنے میں مجھے پالا( اور میری پرورش کی)۔

۲۵.   تمہارا پروردگار بہتر جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اگر تم صالح اور نیک کردار ہوئے تو وہ توبہ و انابہ کرنے والوں کے لئے بڑا ہی بخشنے والا ہے۔

۲۶.    اور (دیکھو) قریبی رشتہ دار کو اس کا حق دے دو اور مسکین و مسافر کو بھی اور (خبردار) فضول خرچی نہ کرو۔

۲۷.   بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔

۲۸.   اور اگر تمہیں ان لوگوں سے پہلوتہی کرنی پڑے اس انتظار میں کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رحمت (کشائش) آئے جس کے تم امیدوار ہو تو ان سے نرم انداز میں بات کرو۔

۲۹.    اور (دیکھو) نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ لو اور نہ ہی اسے بالکل کھول دو کہ (ایسا کرنے سے ) ملامت زدہ (اور) تہی دست ہو کر بیٹھ جاؤ گے۔

۳۰.   تمہارا پروردگار جس کسی کی چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں کے حال سے بڑا باخبر ہے اور بڑا نگاہ رکھنے والا ہے۔

۳۱.    اور فقر و فاقہ کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم ہی انہیں اور تمہیں روزی دیتے ہیں بے شک انہیں قتل کرنا بڑا جرم ہے۔

۳۲.   اور زناکاری کے قریب بھی نہ جاؤ یقیناً وہ بہت بڑی بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔

۳۳.   اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو قتل نہ کرو۔ مگر حق کے ساتھ اور جو شخص ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قصاص کا) اختیار دے دیا ہے پس چاہیئے کہ وہ قتل میں حد سے آگے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد کی جائے گی۔

۳۴.   اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ سوائے احسن طریقہ کے یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کے سن و سال (جوانی) تک پہنچ جائے اور (اپنے عہد) کو پورا کرو بے شک عہد کے بارے میں تم سے بازپرس کی جائے گی۔

۳۵.   اور جب ناپو تولو تو ناپ پوری پوری رکھا کرو اور جب تولو تو صحیح ترازو سے تولو یہی بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہت اچھا ہے۔

۳۶.   اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ پڑو یقیناً کان، آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں (تم سے ) بازپرس کی جائے گی۔

۳۷.   اور زمین میں اکڑتے ہوئے نہ چلو کیونکہ تم (اس طرح چلنے سے ) نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہو۔

۳۸.   ان سب باتوں میں سے ہر بری بات اللہ کو سخت ناپسند ہے۔

۳۹.    یہ سب باتیں حکمت و دانائی کی ان باتوں میں سے ہیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر وحی کی گئی ہیں اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ (خدا) قرار نہ دو ورنہ اس حال میں جہنم میں ڈالے جاؤ گے کہ تم ملامت زدہ اور راندۂ بارگاہ ہو گے۔

۴۰.   کیا تمہارے پروردگار نے تمہیں تو بیٹوں کے لئے منتخب کر لیا اور خود اپنے لئے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا؟ اس میں شک نہیں ہے کہ تم بڑی سخت بات کہتے ہو۔

۴۱.    اور بے شک ہم نے (مطالبِ حقہ کو) اس قرآن میں مختلف انداز میں بار بار بیان کیا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر (اس تکرار) نے ان کی نفرت میں اضافہ کیا ہے۔

۴۲.   (اے پیغمبرﷺ!) آپ کہہ دیجیے کہ اگر اس (خدا) کے ساتھ اور خدا بھی ہوتے جیساکہ یہ (کافر) کہتے ہیں تو وہ ضرور مالکِ عرش تک پہنچنے کا کوئی راستہ تلاش کرتے (اور مقابلہ تک نوبت پہنچ جاتی)۔

۴۳.   وہ پاک ہے اور کہیں برتر و بالا ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں۔

۴۴.   ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی بھی ان میں موجود ہیں اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو بے شک وہ بڑا بردبار، بڑا بخشنے والا ہے۔

۴۵.   (اے پیغمبرﷺ!) جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک پوشیدہ پردہ ڈال دیتے ہیں۔

۴۶.   اور (ان کے پیہم انکار کی وجہ سے گویا) ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں تاکہ وہ اسے نہ سمجھیں اور کانوں میں گرانی (پیدا کر دیتے ہیں ) اور جب آپ قرآن میں اپنے واحد و یکتا پروردگار کا ذکر کرتے ہیں تو وہ لوگ نفرت کرتے ہوئے پچھلے پاؤں پلٹ جاتے ہیں۔

۴۷.   ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ غور سے کیا سنتے ہیں ؟ جب یہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں اور (ہم خوب جانتے ہیں ) جب یہ ظالم سرگوشیاں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم تو ایک سحر زدہ آدمی کی پیروی کر رہے ہو۔

۴۸.   دیکھیے یہ کیسی کیسی مثالیں آپ کے لئے بناتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایسے گمراہ ہو گئے ہیں کہ راستہ پا ہی نہیں سکتے۔

۴۹.    اور وہ کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر) ہڈیاں اور چُورا ہو جائیں گے تو کیا از سرِ نو پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے ؟

۵۰.   کہہ دیجیے ! کہ تم پتھر ہو جاؤ یا لوہا۔

۵۱.    یا کوئی اور ایسی چیز (جس کا دوبارہ پیدا ہونا) تمہارے خیال میں بڑا (مشکل) ہو (بہرحال تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا) وہ (یہ سن کر) ضرور کہیں گے کہ کون ہمیں دوبارہ (زندہ کر کے ) لائے گا؟ کہہ دیجیے ! وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا پس وہ اپنے سر جھکا کر کہیں گے کہ کب ایسا ہو گا؟ کہہ دیجئے ! کہ شاید بالکل قریب ہو۔

۵۲.   وہی دن کہ جب (خدا) تمہیں بلائے گا تو تم اس کی حمد کے ساتھ لبیک کہو گے اور خیال کرو گے تم بہت تھوڑی مدت (عالمِ برزخ میں ) رہے ہو۔

۵۳.   (اے رسول) میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ (لوگوں سے ) ایسی بات کریں جو بہترین ہو۔ بے شک شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ یقیناً شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔

۵۴.   تمہارا پروردگار تمہیں خوب جانتا ہے وہ اگر چاہے تو تم پر رحم کرے اور اگر چاہے تو تمہیں سزا دے۔ (اے رسولﷺ) ہم نے آپ کو ان پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا۔

۵۵.   آپ کا پروردگار خوب جانتا ہے ان کو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور ہم نے بعض بندوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔

۵۶.   (اے رسولﷺ) ان لوگوں سے کہہ دو کہ جنہیں تم اللہ کے سوا (کارساز) سمجھتے ہو۔ ذرا انہیں پکار کر دیکھو۔ وہ نہ تو تم سے تکلیف دور کر سکتے ہیں اور نہ ہی (اسے ) بدل سکتے ہیں۔

۵۷.   جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے پروردگار کی بارگاہ میں وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون زیادہ قرب رکھنے والا ہے ؟ اور وہ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کے قابل ہے۔

۵۸.   کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کر دیں یا سخت عذاب میں مبتلا کر دیں یہ بات کتاب (نوشتۂ تقدیر) میں لکھی ہوئی ہے۔

۵۹.    اور (منکرین کی مطلوبہ) نشانیاں بھیجنے سے ہمیں کسی چیز نے نہیں روکا۔ مگر اس بات نے کہ پہلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں۔ اور ہم نے قومِ ثمود کو ایک (خاص) اونٹنی دی جو کہ روشن نشانی تھی۔ تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں صرف ڈرانے کیلئے بھیجتے ہیں۔

۶۰.    (اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے پروردگار نے لوگوں کو گھیرے میں لے لیا ہے اور جو منظر ہم نے آپ کو دکھایا تھا۔ اس کو اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم نے لوگوں کیلئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ ڈرانا ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کر رہا ہے۔

۶۱.    (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا آدمؑ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ اس نے کہا کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے ؟

۶۲.    نیز اس نے کہا بھلا مجھے بتا تو سہی یہ شخص جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے (آخر کیوں افضل ہے ) اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے تو میں چند افراد کے سوا اس کی پوری اولاد کی بیخ کنی کر ڈالوں گا۔

۶۳.   ارشاد ہوا چل نکل جا! ان میں سے جو کوئی بھی تیری پیروی کرے گا تو بے شک جہنم تم سب کی پوری پوری سزا ہے۔

۶۴.   اور ان میں سے جس پر تیرا قابو چلتا ہے اپنی پکار سے اسے ورغلا اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں سے چڑھائی کر اور ان کے مالوں اور اولاد میں شریک ہو جا۔ اور ان سے وعدے کر۔ اور شیطان تو دھوکے اور فریب کے سوا ان سے کوئی وعدہ کرتا ہی نہیں ہے۔

۶۵.   بے شک جو میرے خاص بندے ہیں ان پر تیرا کوئی قابو نہیں ہے اور کارسازی کیلئے آپ کا پروردگار کافی ہے۔

۶۶.    تمہارا پروردگار وہ ہے جو سمندر میں تمہارے لئے کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل (مال) تلاش کرو یقیناً وہ تم پر بڑا مہربان ہے۔

۶۷.   اور جب تمہیں سمندر میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔ تو اس کے سوا جس جس کو تم پکارتے ہو وہ سب غائب ہو جاتے ہیں اور جب وہ تمہیں (خیریت سے ) خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم روگردانی کرنے لگتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔

۶۸.   کیا تم اس بات سے بے فکر ہو گئے ہو کہ وہ تمہیں خشکی کے کسی گوشے میں زمین کے اندر دھنسا دے یا تم پر کوئی پتھر برسانے والی آندھی بھیج دے۔ پھر تم کسی کو بھی اپنا کارساز نہیں پاؤ گے۔

۶۹.    کیا تم اس بات سے بے فکر ہو گئے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ اسی (سمندر) میں پہنچائے اور پھر تم پر طوفانی ہوا چلا کر تمہیں ناشکرے پن کی پاداش میں غرق کر دے۔ پھر تم اس کی ہم سے بازپرس کرنے والا کوئی نہیں پاؤ گے۔

۷۰.   بے شک ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت و بزرگی دی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا (سواریاں دیں ) پاک و پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور انہیں اپنی مخلوقات پر (جو بہت ہیں ) فضیلت دی۔

۷۱.    اس دن (کو یاد کرو) جب ہم (ہر دور کے ) تمام انسانوں کو ان کے امام (پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے پس جس کسی کو اس کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو یہ لوگ اپنا صحیفۂ اعمال (خوش خوش) پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

۷۲.   اور جو کوئی اس دنیا میں اندھا بنا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہو گا اور بڑا راہ گم کردہ ہو گا۔

۷۳.   (اے رسولﷺ) یہ (کافر) اس بات میں کوشاں تھے (اور اس کا ارادہ کر لیا تھا کہ) آپ کو اس (کتاب) سے پھیر دیں جو ہم نے آپ کی طرف بذریعۂ وحی بھیجی ہے تاکہ آپ اس کے خلاف کوئی بات گڑھ گھڑ کر ہماری طرف منسوب کریں اور اس صورت میں وہ ضرور آپ کو اپنا گہرا دوست بنا لیتے۔

۷۴.   اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ کچھ نہ کچھ ضرور ان کی طرف جھک جاتے۔

۷۵.   اور اگر آپ ایسا کرتے تو ہم آپ کو دنیا میں عذاب کا مزہ چکھاتے اور مرنے پر بھی دوہرے عذاب کا مزہ چکھاتے۔ پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی یار و مددگار نہ پاتے۔

۷۶.   اور یہ لوگ اس بات میں بھی کوشاں تھے کہ اس سر زمین سے آپ کے قدم اکھیڑ دیں اور اس طرح آپ کو یہاں سے نکال دیں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ خود بھی آپ کے بعد زیادہ دیر نہیں ٹھہریں گے۔

۷۷.   یہی ہمارا دستور رہا ہے ان رسولوں کے بارے میں جنہیں ہم نے پہلے بھیجا ہے اور آپ ہمارے اس دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

۷۸.   (اے پیغمبرﷺ) زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو۔ اور نمازِ صبح بھی۔ کیونکہ صبح کی نماز حضوری کا وقت ہے (اس وقت شب و روز کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں )۔

۷۹.   اور رات کے کچھ حصہ (پچھلے پہر) میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں (نمازِ تہجد پڑھیں ) یہ آپ کے لئے اضافہ ہے۔ عنقریب آپ کا پروردگار آپ کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا۔

۸۰.   اور کہیے اے میرے پروردگار! مجھے (ہر جگہ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور نکال بھی سچائی کے ساتھ اور میرے لئے اپنی جانب سے ایسی قوت قرار دے جو مددگار ہو۔

۸۱.    اور کہیئے ! کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔ یقیناً باطل تو تھا ہی مٹنے والا۔

۸۲.   اور ہم تنزیلِ قرآن کے سلسلہ میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو اہلِ ایمان کے لئے شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کے لئے خسارہ کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔

۸۳.   اور جب ہم انسان کو کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے۔

۸۴.   کہہ دیجیے ! ہر شخص اپنے طریقہ پر عمل پیرا ہے۔ اب یہ تو تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ ٹھیک راہ پر کون ہے؟

۸۵.   (اے رسولﷺ!) لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔

۸۶.   اور اگر ہم چاہیں تو وہ سب کچھ سلب کر لیں جو ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے۔ اور پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی وکیل (حمایتی) بھی نہ پائیں (جو اسے واپس دلا سکے )۔

۸۷.   مگر یہ آپ کے پروردگار کی خاص رحمت ہے (کہ وہ ایسا نہیں کرتا) بے شک آپ پر اس کا بہت بڑا فضل ہے۔

۸۸.   کہہ دیجئے کہ اگر سارے انسان اور جن اکٹھے ہو جائیں (اور چاہیں ) اس جیسا قرآن لے آئیں تو جب بھی اس جیسا نہیں لا سکیں گے۔ اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔

۸۹.    اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں (بار بار) ادل بدل کر بیان کی ہیں لوگوں کے لئے (تاکہ وہ سمجھیں ) مگر اکثر لوگ انکار کئے بغیر نہ رہے۔

۹۰.    اور انہوں نے کہا ہم اس وقت تک آپ کی بات نہیں مانیں گے جب تک آپ یہ کام کر کے نہ دکھا دیں (مثلاً) ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری کریں۔

۹۱.    یا آپ کے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اور آپ اس کے درمیان بہت سی نہریں جاری کریں۔

۹۲.    یا جیساکہ آپ کا خیال ہے آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں یا پھر خدا اور فرشتوں کو کھلم کھلا ہمارے سامنے لے آئیں۔

۹۳.    یا آپ کا خالص سونے کا ایک گھر ہو۔ یا پھر آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے (آسمان پر) چڑھنے کو بھی اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک ایک (لکھی لکھائی) کتاب اتار کے نہ لے آئیں جسے ہم خود پڑھیں۔ کہہ دیجئے پاک ہے میرا پروردگار میں پیغام پہنچانے والا انسان کے سوا کیا ہوں ؟

۹۴.    جب کبھی لوگوں کے پاس ہدایت پہنچی تو ان کو ایمان لانے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ کہنے لگے کیا اللہ نے کسی بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟

۹۵.    کہہ دیجئے ! کہ اگر زمین میں (انسان کی بجائے ) فرشتے ہوتے جو اطمینان و آرام سے چلتے پھرتے تو ہم ضرور ان پر آسمان سے کسی فرشتہ کو رسولﷺ بنا کر بھیجتے۔

۹۶.    (اے رسولﷺ!) کہہ دیئے ! کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کیلئے اللہ ہی کافی ہے۔ بے شک وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے۔ (اور) خوب دیکھتا ہے۔

۹۷.   اور جس کو اللہ ہدایت دے دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے (وہ اپنی توفیق سلب کر کے ) گمراہی میں چھوڑ دے تو تم اللہ کے سوا اس کا کوئی حامی و مددگار نہیں پاؤ گے اور قیامت کے دن ہم ایسے لوگوں کو منہ کے بل اس حال میں اٹھائیں گے کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب بھی وہ بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔

۹۸.    یہ ان کی سزا ہے کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا۔ اور کہا کہ جب ہم (گل سڑ کر) ہڈیاں اور چورہ ہو جائیں گے تو کیا ہم ازسرِنو پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے ؟

۹۹.    کیا انہوں نے (اس بات پر) غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ اس پر بھی ضرور قادر ہے کہ ان جیسوں کو (دوبارہ) پیدا کر دے اور اس نے ان کے (حشر کے ) لئے ایک میعاد مقرر کر رکھی ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے مگر اس امر میں ظالم انکار کئے بغیر نہ رہے۔

۱۰۰.   کہہ دیجئے ! کہ اگر تم میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مالک بھی ہوتے تو تم ان کے خرچ ہو جانے کے خوف سے (ہاتھ) روک لیتے اور انسان بڑا بخیل ہے۔

۱۰۱.   اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں۔ آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیں جب کہ وہ (موسیٰ) ان کے پاس آئے تھے ! تو فرعون نے اس سے کہا۔ اے موسیٰ! میں تو تمہیں سحر زدہ (یا ساحر) خیال کرتا ہوں۔

۱۰۲.   موسیٰ نے کہا (اے فرعون) تو (دل میں تو) یقیناً جانتا ہے کہ یہ نشانیاں آسمانوں اور زمین کے پروردگار نے بصیرت کا سامان بنا کر نازل کی ہیں۔ اور اے فرعون! میں سمجھتا ہوں کہ تو ایک ہلاکت زدہ آدمی ہے۔

۱۰۳.  اس (فرعون) نے ارادہ کیا کہ وہ (موسیٰ اور بنی اسرائیل) کو اس سر زمین سے نکال باہر کرے لیکن ہم نے اسے اور اس کے سب ساتھیوں کو غرق کر دیا۔

۱۰۴.  اور اس (واقعہ) کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم اس سر زمین میں سکونت اختیار کرو۔ پس جب آخرت کا وعدہ آ جائے گا تو ہم تم (سب) کو (اپنے حضور) سمیٹ لائیں گے۔

۱۰۵.  اور ہم نے اس (قرآن) کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور وہ حق کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ اور ہم نے آپ کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

۱۰۶.   اور ہم نے قرآن کو متفرق طور پر (جدا جدا کر کے ) نازل کیا ہے تاکہ آپ اسے لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اسے (موقع بموقع) بتدریج نازل کیا ہے۔

۱۰۷.  کہہ دیجیے ! کہ تم (لوگ) اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ۔ لیکن جن کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے جب اسے ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔

۱۰۸.  اور کہتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا پروردگار! بے شک ہمارے پروردگار کا وعدہ تو پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔

۱۰۹.   اور وہ روتے ہوئے منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔ اور یہ (قرآن) ان کے خشوع و خضوع میں اضافہ کر دیتا ہے۔

۱۱۰.   کہہ دیجیے ! کہ اسے اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی اسے پکارو۔ اس کے سارے نام اچھے ہیں اور نہ ہی اپنی نماز زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ ہی بالکل آہستہ سے بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو۔

۱۱۱.    اور کہہ دیجئے ! سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی کسی کو شریک بنایا ہے اور نہ ہی درماندگی اور عاجزی کی وجہ سے اس کا کوئی مددگار ہے اور اس کی کبریائی اور بڑائی کا بیان کرو جس طرح بڑائی بیان کرنی چاہیئے۔

٭٭

 

 

 

۱۸۔ سورۃ الکھف

 

 

۱.  ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندہ (خاص) پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں رکھی۔

۲. بالکل سیدھی اور ہموار تاکہ وہ (مکذبین کو) اللہ کی طرف سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے اور ان اہل ایمان کو خوشخبری دے جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لئے بہترین اجر ہے۔

۳. جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

۴. اور تاکہ وہ ان لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے۔

۵. اس بارے میں نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادوں کو کوئی علم تھا۔ یہ بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ یہ لوگ بالکل جھوٹ بولتے ہیں۔

۶. (اے پیغمبرﷺ!) شاید آپ ان کے پیچھے اس رنج و افسوس میں اپنی جان دے دیں گے کہ وہ اس کلام پر ایمان نہیں لائے۔

۷. بے شک جو کچھ زمین پر ہے ہم نے اسے زمین کی زینت بنایا ہے۔ تاکہ ہم ان لوگوں کو آزمائیں کہ عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔

۸. اور جو کچھ زمین پر ہے ہم اسے (ایک دن) چٹیل میدان بنانے والے ہیں۔

۹.  کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ کہف و رقیم (غار اور کتبے ) والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی عجیب نشانی تھے ؟

۱۰. جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی اور کہا اے ہمارے پروردگار! اپنی بارگاہ سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے اس کام میں ہدایت کا سامان مہیا فرما۔

۱۱. تو ہم نے غار میں کئی برسوں تک ان کے کانوں پر (نیند کا) پردہ ڈال دیا۔

۱۲. پھر ہم نے انہیں اٹھایا۔ تاکہ ہم دیکھیں کہ ان دو گروہوں میں سے کون اپنے ٹھہرنے کی مدت کا زیادہ ٹھیک شمار کر سکتا ہے۔

۱۳.        (اے رسولﷺ) ہم آپ کو ان کا اصل قصہ سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کر دیا۔

۱۴.        اور ہم نے ان کے دل اس وقت اور مضبوط کر دیئے جب وہ کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے۔ ہم اس کے سوا اور کسی کو معبود ہرگز نہیں پکاریں گے۔ ورنہ ہم بالکل ناحق بات کے مرتکب ہوں گے۔

۱۵.        یہ ہماری قوم ہے جنہوں نے خدا کو چھوڑ کر اور خدا اپنا لئے ہیں، یہ لوگ ان کی خدائی پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ؟ پس اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔

۱۶. اور (پھر آپس میں کہنے لگے ) اب جب کہ تم نے ان لوگوں سے اور ان کے ان معبودوں سے جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں علیٰحدگی اختیار کر لی ہے تو غار میں چل کر پناہ لو۔ تمہارا پروردگار تم پر اپنی رحمت (کا سایہ) تم پر پھیلائے گا۔ اور تمہارے اس کام کے لئے سروسامان مہیا کر دے گا۔

۱۷.       اور (وہ غار اس طرح واقع ہوئی ہے کہ) تم دیکھو گے کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں طرف مڑ جاتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان سے بائیں طرف کترا کر نکل جاتا ہے۔ اور وہ ایک کشادہ جگہ پر (سوئے ہوئے ) ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک (نشانی) ہے جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہی میں چھوڑ دے تو تم اس کے لئے کوئی یار و مددگار اور راہنما نہیں پاؤ گے۔

۱۸.        اور تم انہیں دیکھو تو خیال کرو کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ بدلواتے رہتے ہیں اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو تم الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو۔ اور تمہارے دل میں دہشت سما جائے۔

۱۹. اور (جس طرح انہیں اپنی قدرت سے سلایا تھا) اسی طرح ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ آپس میں سوال و جواب کریں۔ چنانچہ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ تم کتنی دیر ٹھہرے ہو گے ؟ دوسروں نے کہا ہم ایک دن ٹھہرے ہوں گے یا دن کا کچھ حصہ (پھر) بولے تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنا ٹھہرے ؟ اچھا اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر میں بھیجو۔ وہ (جا کر) دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ پاک و پاکیزہ ہے۔ تو وہ اس میں سے کچھ کھانا تمہارے لئے لائے۔ اور اسے چاہیے کہ ہوش و تدبر سے کام لے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔

۲۰.       یقیناً اگر ان لوگوں کو تمہاری اطلاع ہو گئی تو وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے یا پھر (زبردستی) تمہیں اپنے دین کی طرف واپس لے جائیں گے اور اس طرح تم کبھی بھی فلاح نہیں پا سکو گے۔

۲۱. اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان پر مطلع کیا تاکہ وہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچھا ہے اور یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ (بستی والے ) لوگ ان (اصحابِ کہف) کے معاملہ میں آپس میں جھگڑ رہے تھے (کہ کیا کیا جائے ؟) تو (کچھ) لوگوں نے کہا کہ ان پر (یعنی غار پر) ایک (یادگاری) عمارت بنا دو۔ ان کا پروردگار ہی ان کو بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جو لوگ ان کے معاملات پر غالب آئے تھے وہ بولے کہ ہم ان پر ایک مسجد (عبادت گاہ) بنائیں گے۔

۲۲.       عنقریب کچھ لوگ کہہ دیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ اور کچھ کہہ دیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ (اے رسولﷺ) کہہ دیجیئے کہ میرا پروردگار ہی ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے۔ اور بہت کم لوگوں کو ان کا علم ہے۔ سو ان کے بارے میں سوائے سرسری گفتگو کے لوگوں سے زیادہ بحث نہ کریں اور نہ ہی ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ پوچھیں۔

۲۳.       اور آپ کسی چیز کے بارے میں یہ نہ کہیں کہ میں کل اسے ضرور کروں گا۔

۲۴.       مگر یہ کہ خدا چاہے (یعنی اس کے ساتھ انشاء اللہ کہا کرو) اور جب بھی بھول جائیں تو اپنے پروردگار کو یاد کریں۔ اور آپ کہہ دیجئے ! کہ امید ہے کہ میرا پروردگار ایسی بات کی مجھے راہنمائی کرے جو رشد و ہدایت میں اس سے بھی زیادہ قریب ہو۔

۲۵.       اور وہ لوگ غار میں رہے نو برس اوپر تین سو سال۔

۲۶.       کہہ دیجئے ! کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنا رہے ؟ تمام آسمانوں اور زمین کا (علمِ) غیب اسی کے لئے ہے وہ کتنا بڑا دیکھنے والا اور کتنا بڑا سننے والا ہے۔ اللہ کے سوا ان لوگوں کا کوئی سرپرست نہیں ہے اور نہ وہ کسی کو اپنے حکم میں شریک کرتا ہے۔

۲۷.       (اے رسول) آپ کے پروردگار کی طرف کتاب (قرآن) کے ذریعہ سے جو وحی کی گئی ہے۔ اسے پڑھ سنائیں۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے۔ اور آپ اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں پائیں گے۔

۲۸.       (اے رسولﷺ!) جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا کے طلبگار ہیں آپ ان کی معیت پر صبر کریں۔ اور دنیا کی زینت کے طلبگار ہوتے ہوئے ان کی طرف سے آپ کی آنکھیں نہ پھر جائیں۔ اور جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل چھوڑ رکھا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے اس کی اطاعت نہ کریں۔

۲۹.        اور آپ کہہ دیجئے کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔ بے شک ہم نے ظالموں کیلئے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناطیں انہیں گھیر لیں گی اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا۔ جو چہروں کو بھون ڈالے گا کیا بری چیز ہے پینے کی۔ اور کیا بری آرام گاہ ہے۔

۳۰.       بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ یقیناً ہم نیکوکار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔

۳۱.        یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ہمیشگی کے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی انہیں ان میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ سبز ریشم کے باریک اور دبیز کپڑے پہنیں گے اور وہ ان میں مسندوں پر گاؤ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ کیا ہی اچھا ہے ان کا ثواب اور کیا ہی اچھی ہے ان کی آرام گاہ۔

۳۲.       (اے رسولﷺ!) ان لوگوں کے سامنے ان دو شخصوں کی مثال پیش کریں کہ ہم نے ان میں سے ایک کو انگور کے دو باغ دے رکھے تھے اور انہیں کھجور کے درختوں سے گھیر رکھا تھا۔ اور ان کے درمیان کھیتی اگا دی تھی۔

۳۳.       یہ دونوں باغ خوب پھل دیتے تھے اور اس میں کچھ بھی کمی نہیں کی اور ہم نے ان کے درمیان (آبپاشی کیلئے ) ایک نہر بھی جاری کر دی تھی۔

۳۴.       اور اس کے پاس اور بھی تمول کا سامان تھا۔ (ایک دن گھمنڈ میں آ کر) اس نے اپنے (غریب) ساتھی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ میں مال کے اعتبار سے تجھ سے زیادہ (مالدار) ہوں اور نفری کے لحاظ سے بھی تجھ سے زیادہ طاقتور ہوں۔

۳۵.       اور وہ (ایک دن) اپنے باغ میں داخل ہوا جبکہ وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا تھا (اور) کہنے لگا کہ میں خیال نہیں کرتا کہ یہ (باغ) کبھی تباہ ہو جائے گا۔

۳۶.       اور میں خیال نہیں کرتا کہ کبھی قیامت برپا ہو گی اور اگر (بالفرض) میں کبھی اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا گیا تو اس (باغ) سے بہتر ٹھکانہ پاؤں گا۔

۳۷.       اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو اس ہستی کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے پہلے مٹی سے اور پھر نطفہ سے پیدا کیا پھر تجھے اچھا خاصا مرد بنایا۔

۳۸.       لیکن میں ! تو میرا پروردگار تو وہی اللہ ہے اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔

۳۹.       اور تو جب اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہ کہا؟ ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ (جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور خدا کی قوت کے بغیر کوئی قوت نہیں ہے )۔ اور اگر تو مجھے مال و اولاد میں (اپنے سے ) کمتر دیکھتا ہے۔

۴۰.       تو قریب ہے کہ میرا پروردگار مجھے تیرے باغ سے بہتر (باغ) عطا فرمائے اور تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں بھیج دے جس سے وہ چٹیل چکنا میدان بن کر رہ جائے۔

۴۱.        یا اس کا پانی اس طرح نیچے اتر جائے کہ تو کسی طرح بھی اسے حاصل نہ کر سکے۔

۴۲.       اس کے پھلوں کو گھیرے میں لے لیا گیا (ان پر آفت آ گئی) تو اس نے باغ پر جو کچھ خرچ کیا تھا اس پر کفِ افسوس ملتا تھا اور وہ (باغ) اپنے چھپروں پر گرا پڑا تھا۔ اور وہ کہتا تھا کہ اے کاش کہ میں نے کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہ بنایا ہوتا۔

۴۳.       اب اس کے پاس کوئی ایسا گروہ بھی نہیں تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتا اور نہ ہی وہ غالب اور بدلہ لینے کے قابل تھا۔

۴۴.       (ثابت ہوا) کہ ہر قسم کا اختیار خدائے برحق کیلئے ہے۔ وہی بہتر ثواب دینے والا اور وہی بہترین انجام والا ہے۔

۴۵.       اور آپ ان لوگوں کے سامنے زندگانیِ دنیا کی (ایک اور) مثال پیش کریں کہ وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا تو اس سے زمین کی نباتات مل گئی (اور خوب پھلی پھولی) پھر وہ ریزہ ریزہ ہو گئی جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

۴۶.       مال اور اولادِ زندگانی دنیا کی (ہنگامی) زیب و زینت ہیں اور (دراصل) باقی رہنے والی نیکیاں تمہارے پروردگار کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے بھی اور امید کے اعتبار سے بھی کہیں بہتر ہیں۔

۴۷.       اور وہ دن (یاد کرو) جب ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو دیکھو گے کہ وہ کھلا ہوا میدان ہے اور ہم اس طرح سب لوگوں کو جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔

۴۸.       اور وہ تمہارے پروردگار کے حضور صفیں باندھے پیش کئے جائیں گے (تب ان سے کہا جائے گا) آخر تم اسی طرح ہمارے پاس آ گئے ہو جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا۔ ہاں البتہ تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہارے لئے (دوبارہ پیدا کرنے کا) کوئی وعدہ گاہ مقرر نہیں کیا ہے۔

۴۹.       اور نامۂ اعمال (سامنے ) رکھ دیا جائے گا اور تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اس کے مندرجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہتے ہوں گے۔ ہائے ہماری کم بختی! یہ کیسا نامۂ عمل ہے ؟ جس نے (ہمارا) کوئی چھوٹا بڑا (گناہ) نہیں چھوڑا مگر سب کو درج کر لیا ہے۔ اور جو کچھ ان لوگوں نے کیا تھا وہ سب اپنے اپنے سامنے پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

۵۰.       اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ۔ تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ جنات میں سے تھا۔ اس نے اپنے پروردگار کے حکم کی سرتابی کی۔ کیا تم (اے منکرینِ حق) مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی اولاد کو اپنا سرپرست و کارساز بناتے ہو؟ حالانکہ وہ تمہارا دشمن ہے۔ ظالموں کیلئے کیا ہی برا بدل ہے۔

۵۱.        اور میں نے انہیں آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت حاضر نہیں کیا اور نہ ہی ان کی اپنی خلقت کے وقت اور میں ایسا نہیں ہوں کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو بناؤں۔

۵۲.       اور وہ دن (یاد رکھو) جب وہ (اللہ مشرکین سے ) فرمائے گا کہ بلاؤ میرے ان شریکوں کو جن کو تم میرا شریک خیال کرتے تھے۔ چنانچہ وہ انہیں پکاریں گے لیکن وہ انہیں کوئی جواب نہیں دیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک آڑ مقرر کر دیں گے کہ وہ ایک دوسرے کی بات نہیں سن سکتے۔

۵۳.       اور جب مجرم لوگ (دوزخ کی) آگ دیکھیں گے تو وہ خیال کریں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور وہ اس سے بچنے کی کوئی راہ نہیں پائیں گے۔

۵۴.       اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں (کی ہدایت) کے لئے ہر قسم کی مثالیں الٹ پلٹ کر بیان کر دی ہیں۔ (مگر) انسان ہر چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے۔

۵۵.       اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ گئی ہے تو ان کو ایمان لانے اور مغفرت طلب کرنے سے منع نہیں کیا۔ مگر اس چیز نے کہ اگلی قوموں کا معاملہ انہیں بھی پیش آئے یا عذاب ان کے سامنے آئے۔

۵۶.       اور ہم رسولوں کو نہیں بھیجتے۔ مگر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ اور جو کافر ہیں وہ باطل کے (ہتھیار سے ) جھگڑتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے حق کو باطل کر دیں اور انہوں نے میری آیتوں کو اور جس چیز (عذاب) سے انہیں ڈرایا گیا تھا اس کو مذاق بنا رکھا ہے۔

۵۷.       اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اس کے پروردگار کی نشانیوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے مگر وہ ان سے روگردانی کرے اور اپنے ان (گناہوں ) کو بھول جائے۔ جو وہ اپنے ہاتھوں پہلے بھیج چکا ہے ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ اس کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے۔ کہ اس کو سنیں (یہ حق سے اعراض کرنے کی سزا ہے ) اور اگر انہیں ہدایت کی طرف بلائیں تو وہ اس حالت میں کبھی راہِ راست پر نہیں آئیں گے۔

۵۸.       اور آپ کا پروردگار بڑا بخشنے والا، رحمت والا ہے اگر وہ لوگوں سے ان کے کئے (گناہوں ) کا مواخذہ کرتا تو جلدی ہی میں ان پر عذاب نازل کر دیتا مگر ان کے لئے ایک میعاد ٹھہرا دی گئی ہے اس سے ادھر (پہلے ) کوئی جائے پناہ نہیں پائیں گے۔

۵۹.       اور یہ بستیاں ہیں جب (ان کے باشندوں نے ) ظلم و زیادتی کی تو ہم نے انہیں ہلاک کر ڈالا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے ایک میعاد مقرر کر دی تھی۔

۶۰.       اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰؑ نے اپنے جوان سے کہا کہ میں برابر سفر جاری رکھوں گا یہاں تک کہ اس جگہ پہنچوں جہاں دو دریا اکٹھے ہوتے ہیں یا پھر (یونہی چلتے چلتے ) سالہا سال گزار دوں گا۔

۶۱. تو جب وہ دونوں ان دونوں دریاؤں کے اکٹھا ہونے کی جگہ پر پہنچے تو وہ دونوں اپنی مچھلی کو بھول گئے اور اس نے دریا میں داخل ہونے کے لئے سرنگ کی طرح اپنا راستہ بنا لیا۔

۶۲.       جب وہ دونوں وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ تو موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا ہمارا صبح کا کھانا (ناشتہ) لاؤ۔ یقیناً ہمیں اس سفر میں بڑی مشقت اٹھانا پڑی ہے۔ (ہم بہت تھک گئے ہیں )۔

۶۳.       اس (جوان) نے کہا کیا آپ نے دیکھا تھا؟ کہ جب ہم اس چٹان کے پاس (سستانے کیلئے ) ٹھہرے ہوئے تھے تو میں مچھلی کو بھول گیا۔ اور شیطان نے مجھے ایسا غافل کیا کہ میں (آپ سے ) اس کا ذکر کرنا بھی بھول گیا اور اس نے عجیب طریقہ سے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔

۶۴.       موسیٰ نے کہا یہی تو وہ (مقام) تھا جس کی ہمیں تلاش تھی (اور جسے ہم چاہتے تھے ) چنانچہ وہ دونوں اپنے پاؤں کا نشان دیکھتے ہوئے واپس ہوئے۔

۶۵.       سو انہوں نے وہاں ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندہ کو پایا۔ جسے ہم نے اپنی خاص رحمت سے نوازا تھا۔ اور اسے اپنی طرف سے (خاص) علم عطا کیا تھا۔

۶۶.       موسیٰ نے اس سے کہا! کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں بشرطیکہ رشد و ہدایت کا وہ خصوصی علم جو آپ کو سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیں۔

۶۷.       اس نے (جواب میں ) کہا کہ آپ میرے ساتھ (رہ کر) صبر نہیں کر سکتے۔

۶۸.       اور بھلا اس بات پر آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جو تمہارے علمی دائرہ سے باہر ہے ؟

۶۹.        موسیٰ نے کہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔

۷۰.       اس نے کہا کہ اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کسی چیز کے بارے میں مجھ سے سوال نہ کریں۔ جب تک میں خود آپ سے اس کا ذکر نہ کروں۔

۷۱.       اس کے بعد دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہو گئے تو خضرؑ نے اس میں سوراخ کر دیا۔ موسیٰ نے کہا۔ آپ نے اس لئے کشتی میں سوراخ کیا ہے کہ سب کشتی والوں کو غرق کر دیں ؟ آپ نے بڑی عجیب حرکت کی ہے۔

۷۲.       خضر نے کہا۔ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ صبر نہیں کر سکیں گے ؟

۷۳.       موسیٰ نے کہا جو بھول ہو گئی اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کریں اور اس معاملہ میں مجھ سے زیادہ سختی نہ کریں۔

۷۴.       چنانچہ پھر دونوں چل پڑے یہاں تک کہ ایک لڑکے سے ملے تو اس بندہ نے اسے قتل کر دیا۔ موسیٰ نے کہا آپ نے ایک پاکیزہ نفس (بے گناہ) کو قصاص کے بغیر قتل کر دیا۔ یہ تو آپ نے سخت برا کام کیا۔

۷۵.       خضرؑ نے کہا کیا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔

۷۶.       موسیٰؑ نے کہا (اچھا) اگر اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے متعلق پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں۔ بے شک آپ میری طرف سے عذر کی حد تک پہنچ گئے ہیں (اب آپ معذور ہیں )۔

۷۷.       اس کے بعد وہ دونوں آگے چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا۔ مگر انہوں نے ان کی مہمانداری کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر ان دونوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرا چاہتی تھی۔ تو خضرؑ نے اسے (بنا کر) سیدھا کھڑا کر دیا۔ (اس پر) موسیٰؑ نے کہا اگر آپ چاہتے تو اس کام کی (ان لوگوں سے ) کچھ اجرت ہی لے لیتے۔

۷۸.       خضرؑ نے کہا بس (ساتھ ختم ہوا) اب میری اور تمہاری جدائی ہے اب میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہ کر سکے۔

۷۹.       جہاں تک کشتی کا معاملہ ہے تو وہ چند مسکینوں کی تھی جو دریا پر کام کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنا دوں کیونکہ ادھر ایک (ظالم) بادشاہ تھا جو ہر (بے عیب) کشتی پر زبردستی قبضہ کر لیتا تھا۔

۸۰.       اور جہاں تک اس بچے کا معاملہ ہے تو اس کے ماں باپ مؤمن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ (بڑا ہو کر) ان کو بھی سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔

۸۱.        تو ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کے عوض انہیں ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر ہو اور مہر و محبت میں اس سے بڑھ کر ہو۔

۸۲.       باقی رہا دیوار کا معاملہ تو وہ اس شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان بچوں کا خزانہ (دفن) تھا۔ اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔ تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ بچے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں اور یہ سب کچھ پروردگار کی رحمت کی بناء پر ہوا ہے۔ اور میں نے جو کچھ کیا ہے اپنی مرضی سے نہیں کیا (بلکہ خدا کے حکم سے کیا) یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے۔

۸۳.       (اے رسولﷺ) لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں عنقریب ان کا کچھ حال تمہیں سناتا ہوں۔

۸۴.       ہم نے اسے زمین میں اقتدار عطا کیا تھا اور اسے ہر طرح کا ساز و سامان مہیا کر دیا تھا۔

۸۵.       پھر اس نے (ایک مہم کیلئے ) ساز و سامان کیا۔

۸۶.       یہاں تک کہ وہ (چلتے چلتے ) غروبِ آفتاب کے مقام پر پہنچ گیا تو اسے ایک سیاہ چشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا۔ (محسوس کیا) اور اس کے پاس ایک قوم کو (آباد) پایا۔ ہم نے کہا اے ذوالقرنین! (تمہیں اختیار ہے ) خواہ انہیں سزا دو یا ان کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ اختیار کرو۔

۸۷.       ذوالقرنین نے کہا کہ (ہم بے انصافی نہیں کریں گے ) جو ظلم و سرکشی کرے گا ہم اسے ضرور سزا دیں گے اور پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف پلٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت سزا دے گا۔

۸۸.       اور جو کوئی ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اس کیلئے اچھی جزا ہے۔

۸۹.       اور ہم بھی اس کے ساتھ معاملہ میں نرم بات کریں گے۔

۹۰.        پھر اس نے (دوسری مہم کیلئے ) ساز و سامان کیا۔

۹۱. یہاں تک کہ (چلتے چلتے ) وہ طلوعِ آفتاب کی جگہ پہنچا۔ تو اسے ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتا ہوا پایا کہ جس کیلئے ہم نے سورج کے سامنے کوئی پردہ نہیں رکھا ہے۔

۹۲.        ایسا ہی تھا اور جو کچھ ذوالقرنین کے پاس تھا اس کی ہم کو پوری خبر ہے۔

۹۳.       پھر (ایک اور مہم کی) تیاری کی۔ یہاں تک کہ (جب چلتے چلتے ) وہ (دو پہاڑوں کی) دیواروں کے درمیان میں پہنچا تو ان کے ادھر ایک ایسی قوم کو پایا۔ جو (ان کی) کوئی بات نہیں سمجھتی تھی۔

۹۴.       انہوں نے (اشاروں سے ) کہا اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج اس سر زمین میں فساد کرنے والے ہیں تو کیا (یہ ممکن ہے کہ) ہم آپ کیلئے خرچ کا کچھ انتظام کر دیں تاکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی دیوار تعمیر کر دیں۔

۹۵.       ذوالقرنین نے کہا جو طاقت میرے پروردگار نے مجھے دے رکھی ہے وہ (تمہارے سامان سے ) بہتر ہے۔ تم بس اپنی (بدنی) قوت سے میری مدد کرو۔ تو میں تمہارے اور ان کے درمیان بند باندھ دوں گا۔

۹۶.        میرے پاس لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ (چنانچہ وہ لائے ) یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے (درمیانی خلا کو پُر کر کے ) دونوں کے سروں کے درمیان کو برابر کر دیا۔ تو کہا آگ پھونکو۔ یہاں تک کہ جب اس (آہنی دیوار) کو بالکل آگ بنا دیا تو کہا اب پگھلا ہوا تانبا لاؤ تاکہ اس پر انڈیل دوں۔

۹۷.       (چنانچہ یہ دیوار اتنی مضبوط بن گئی کہ) یاجوج و ماجوج نہ اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اس میں سرنگ لگا سکتے تھے۔

۹۸.       ذوالقرنین نے کہا یہ میرے پروردگار کی رحمت ہے تو جب میرے پروردگار کے وعدے کے وقت آ جائے گا تو وہ اسے ڈھا کر زمین کے برابر کر دے گا۔ اور میرے پروردگار کا وعدہ برحق ہے۔

۹۹. اور ہم اس (قیامت کے ) دن ہم اس طرح ان کو چھوڑ دیں گے کہ دریا کی لہروں کی طرح گڈمڈ ہو جائیں گے۔ اور صور پھونکا جائے گا۔ اور پھر ہم سب کو پوری طرح جمع کر دیں گے۔

۱۰۰.      اور اس دن ہم دوزخ کو کافروں کے سامنے پیش کر دیں گے۔

۱۰۱.       جن کی آنکھوں پر میری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا (کہ میری آیات نہیں دیکھتے تھے ) اور وہ سن نہیں سکتے تھے۔

۱۰۲.      کیا کافروں کا یہ خیال ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز اور سرپرست بنا لیں گے ۱ (اور ہم باز پرس نہیں کریں گے ) بے شک ہم نے دوزخ کو کافروں کی مہمانی کیلئے تیار کر رکھا ہے۔

۱۰۳.      (اے پیغمبرﷺ) آپ کہہ دیجئے (اے لوگو) کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ گھاٹے میں کون ہیں۔

۱۰۴.      جن کی دنیا کی زندگی کی تمام سعی و کوشش اکارت ہو گئی حالانکہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں۔

۱۰۵.      یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں کا اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا انکار کیا پس ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے۔ اس لئے ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔

۱۰۶.      یہ ان کی سزا ہے جہنم۔ ان کے کفر کرنے اور میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑانے کی پاداش میں۔

۱۰۷.      بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے تو ان کی مہمانی کیلئے فردوس کے باغ ہیں۔

۱۰۸.      جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے وہاں سے منتقل ہونا پسند نہیں کریں گے۔

۱۰۹.       کہہ دیجئے ! کہ اگر میرے پروردگار کے کلمات لکھنے کیلئے سمندر سیاہی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے گا قبل اس کے کہ میرے پروردگار کے کلمات ختم ہوں اگرچہ ہم اس کی مدد کیلئے ویسا ہی ایک سمندر لے آئیں۔

۱۱۰.       (اے رسولﷺ) کہہ دیجئے ! کہ میں (بھی) تمہاری طرح ایک بشر (انسان) ہوں البتہ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے پس جو کوئی اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا امیدوار ہے۔ اسے چاہیے کہ نیک عمل کرتا رہے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔

٭٭

 

 

 

۱۹۔ سورۃ مریم

 

 

 

۱.      کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد۔

۲.     (اے رسول ﷺ) آپ کے پروردگار نے اپنے (خاص) بندے زکریاؑ پر جو (خاص) رحمت کی تھی یہ اس کا تذکرہ ہے۔

۳.     جب انہوں نے اپنے پروردگار کو چپکے چپکے پکارا۔

۴.     کہا اے میرے پروردگار! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور سر میں بڑھاپے کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ (بال سفید ہو گئے ہیں ) اور میرے پروردگار میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا ہوں۔

۵.     اور میں اپنے بعد بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں۔ اور میری بیوی بانجھ ہے سو تو ہی مجھے (خاص) اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔

۶.     جو میرا بھی وارث بنے اور آل یعقوب کا بھی اور اے میرے پروردگار! تو اسے پسندیدہ بنا۔

۷.     (ارشاد ہوا) اے زکریا! ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ جس کا نام یحییٰ ہو گا جس کا اس سے پہلے ہم نے کوئی ہمنام نہیں بنایا۔

۸.     زکریا نے (از راہ تعجب) کہا اے میرے پروردگار! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا؟ جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچا ہوا ہوں۔

۹.     ارشاد ہوا: ایسا ہی ہو گا۔ تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ وہ مجھ پر آسان ہے اور میں نے ہی اس سے پہلے تمہیں پیدا کیا جبکہ تم کچھ بھی نہ تھے۔

۱۰.    زکریاؑ نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! میرے لئے کوئی علامت قرار دے۔ ارشاد ہوا تمہارے لئے علامت یہ ہے کہ تم تندرست ہوتے ہوئے بھی برابر تین رات (دن) تک لوگوں سے بات نہیں کر سکو گے۔

۱۱.     پس وہ عبادت گاہ سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح و شام (خدا کی) تسبیح و تقدیس کرو۔

۱۲.    (جب حکم خدا کے مطابق وہ لڑکا پیدا ہوا اور بڑھا تو ہم نے کہا) اے یحییٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں علم و حکمت سے نوازا۔

۱۳.    اور وہ اپنے والدین سے نیکی کرنے والا تھا وہ سرکش اور نافرمان نہ تھا۔

۱۴.    اور ہم نے خاص اپنے پاس سے (اسے ) رحمدلی اور پاکیزگی عطا کی اور وہ پرہیزگار تھا۔

۱۵.    سلام ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وفات پائے گا اور جس دن وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔

۱۶.    (اے رسولﷺ) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب کہ وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ایک مشرقی مکان میں گئیں۔

۱۷.    پھر اس نے ان لوگوں کی طرف سے پردہ کر لیا پس ہم نے اس کی طرف اپنی جانب سے روح (یعنی فرشتہ) کو بھیجا تو وہ اس کے سامنے ایک تندرست انسان کی صورت میں نمودار ہوا۔

۱۸.    مریم نے (گھبرا کر) کہا کہ اگر تو پرہیزگار آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔

۱۹.    اس (فرشتہ) نے کہا میں تو تمہارے پروردگار کا فرستادہ ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔

۲۰.    مریم نے کہا میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کسی بشر نے مجھے چھوا تک نہیں ہے اور نہ ہی میں بدکردار ہوں۔

۲۱.    فرشتہ نے کہا یونہی ہے (مگر) تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے وہ کام میرے لئے آسان ہے۔ اور یہ اس لئے بھی ہے کہ ہم اسے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) ایک نشانی قرار دیں اور اپنی طرف سے رحمت اور یہ ایک طے شدہ بات ہے۔

۲۲.    پس وہ اس (لڑکے ) کے ساتھ حاملہ ہو گئی پھر وہ اس حمل کو لئے ہوئے دور جگہ چلی گئی۔

۲۳.   اس کے بعد دردِ زہ اسے کھجور کے درخت کے تنا کے پاس لے گیا (اور) کہا کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور بالکل نسیاً منسیاً (بھول بسری) ہو گئی ہوتی۔

۲۴.   اور ایک منادی نے اس کے نیچے سے آواز دی کہ (اے مریم) رنجیدہ نہ ہو۔ تیرے پروردگار نے تیرے نیچے ایک چھوٹی سی نہر جاری کر دی ہے۔

۲۵.   اور کھجور کے تنا کو پکڑ کر اپنی طرف ہلا۔ وہ تم پر تر و تازہ اور پکی ہوئی کھجوریں گرائے گی۔

۲۶.    پس تو (خرمے ) کھا اور (نہر کا پانی) پی اور (بیٹے کو دیکھ کر) اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ پھر اگر کسی آدمی کو دیکھے اور (وہ تم سے کچھ پوچھے ) تو (اشارہ سے ) کہہ دینا کہ میں نے خدائے رحمن کے لئے (چپ کے ) روزہ کی منت مانی ہے تو میں آج کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔

۲۷.   اس کے بعد وہ بچہ کو (گود میں ) اٹھائے اپنی قوم کے پاس لائی۔ انہوں نے کہا اے مریم تو نے بڑا برا کام کیا ہے۔

۲۸.   اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکار تھی۔

۲۹.    مریم نے (نومولود) بچہ کی طرف اشارہ کیا (کہ اس سے پوچھو کہ کہاں سے آیا؟) وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم اس سے کس طرح بات کریں گے جو ابھی گہوارہ میں (کمسن) بچہ ہے ؟

۳۰.   (مگر) وہ بچہ بولا: میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔

۳۱.    اور اس نے مجھے نماز (پڑھنے ) اور زکوٰۃ (دینے ) کا حکم دیا ہے جب تک کہ میں زندہ ہوں۔

۳۲.   اور اس نے مجھے اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔

۳۳.   سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا، جس دن میں مروں گا اور جس دن زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔

۳۴.   یہ ہے عیسیٰ بن مریم (اور یہ ہے ) اس کے بارے میں وہ سچی بات جس میں لوگ شک کرتے ہیں۔

۳۵.   یہ بات اللہ کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ پاک ہے اس کی ذات جب وہ کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا تو وہ (کام) ہو جاتا ہے۔

۳۶.   (عیسیٰ نے کہا) بے شک میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے پس تم اس کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔

۳۷.   پھر مختلف گروہ آپ کے بارے میں اختلاف کرنے لگے تو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ہلاکت ہے جب وہ ایک بہت بڑے سخت دن کا سامنا کریں گے۔

۳۸.   جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے تو اس دن ان کے کان کیسے سننے والے اور آنکھیں کیسی دیکھنے والی ہوں گی۔ مگر آج یہ ظالم کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔

۳۹.    اور (اے رسولﷺ) انہیں حسرت و ندامت کے دن سے ڈرائیں جبکہ ہر بات کا (آخری) فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔

۴۰.   (آخرکار) ہم ہی زمین کے اور جو کچھ اس کے اوپر ہے اس کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔

۴۱.    اور قرآن میں ابراہیمؑ کا ذکر کیجئے۔ بے شک وہ بڑے راست باز تھے۔

۴۲.   جب انہوں نے اپنے (منہ بولے ) باپ (حقیقی چچا) آذر سے کہا کہ اے باپ! آپ ان چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔

۴۳.   اے باپ! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ آپ میری پیروی کیجئے میں آپ کو سیدھا راستہ دکھا دوں گا۔

۴۴.   اے باپ! شیطان کی پرستش نہ کیجئے (کیونکہ) بے شک خدائے رحمن کا وہ نافرمان ہے۔

۴۵.   اے باپ! مجھے اندیشہ ہے کہ آپ پر خدائے رحمن کا عذاب نازل نہ ہو جائے اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔

۴۶.   آزر نے کہا: اے ابراہیم کیا تم میرے خداؤں سے روگردانی کرتے ہو؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا۔ اور تم ایک مدت تک مجھ سے دور ہو جاؤ۔

۴۷.   ابراہیم نے کہا: (اچھا خدا حافظ) آپ پر میرا سلام! میں عنقریب اپنے پروردگار سے آپ کے لئے مغفرت طلب کروں گا۔ بے شک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔

۴۸.   اور میں آپ لوگوں سے اور ان سے جنہیں آپ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کنارہ کرتا ہوں۔ میں تو اپنے پروردگار کو ہی پکاروں گا۔ مجھے امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کی دعا و پکار کی برکت سے نامراد نہیں رہوں گا۔

۴۹.    پس جب وہ ان لوگوں کے اور ان کے خداؤں سے کنارہ کش ہو گئے تو ہم نے ان کو اسحاق و یعقوب جیسی اولاد عنایت فرمائی اور ہم نے سب کو نبی بنایا۔

۵۰.   اور ہم نے ان ہستیوں کو اپنی (خاص) رحمت سے حصہ عطا کیا اور ان کے لئے سچائی کی زبان کو بلند قرار دیا۔ (یعنی آئندہ نسلوں میں ان کے ذکر جمیل کی آواز بلند کی)۔

۵۱.    اور (اے رسول) کتاب (قرآن) میں موسیٰ کا ذکر کیجئے ! بے شک وہ اللہ کے برگزیدہ بندے اور نبی مرسل تھے۔

۵۲.   اور ہم نے کوہِ طور کی دائیں جانب سے آواز دی اور راز و نیاز کی باتیں کرنے کیلئے انہیں اپنا مقرب بنایا۔

۵۳.   اور ہم نے انہیں اپنی خاص رحمت سے آواز دی اور راز و نیاز کی باتیں کرنے کے لئے اپنا مقرب بنایا اور (بطور وزیر) ان کو ان کا بھائی ہارون عطا کیا جو نبی تھا۔

۵۴.   اور (اے پیغمبرﷺ) آپ کتاب (قرآن) میں اسماعیلؑ کا ذکر کیجئے جو وعدہ کے سچے اور نبی مرسل تھے۔

۵۵.   اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔

۵۶.   اور (اے رسولﷺ) کتاب (قرآن) میں ادریس کا ذکر کیجئے بے شک وہ بڑے سچے نبی تھے۔

۵۷.   اور ہم نے انہیں بڑے ہی اونچے مقام تک بلند کیا تھا۔

۵۸.   یہ وہ نبی ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا۔ آدمؑ کی نسل سے اور ان کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا اور ابراہیم و اسرائیل (یعقوب) کی نسل سے اور (یہ سب) ان لوگوں میں سے تھے جنہیں ہم نے راہ رست دکھائی اور منتخب کیا جب ان کے سامنے خدائے رحمن کی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے تھے۔

۵۹.    پھر ان کے بعد کچھ وہ نا خلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور خواہشات کی پیروی کی پس وہ عنقریب گمراہی (کے انجام) سے دوچار ہوں گے۔

۶۰.    ہاں البتہ جو توبہ کر لیں، ایمان لائیں اور نیک عمل بجا لائیں تو یہ لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

۶۱.    وہ ہمیشہ رہنے والی جنتیں جن کا خدائے رحمن نے غائبانہ وعدہ کر رکھا ہے۔ بے شک اس کا وعدہ (سامنے ) آنے والا ہے۔

۶۲.    وہ وہاں سلامتی کی صداؤں کے سوا کوئی بے ہودہ بات نہیں سنیں گے اور ان کا مقررہ رزق انہیں صبح و شام ملتا رہے گا۔

۶۳.   یہ ہے وہ بہشت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اس کو بنائیں گے جو پرہیزگار ہو گا۔

۶۴.   (اے رسولﷺ) ہم (فرشتے ) آپ کے پروردگار کے حکم کے بغیر (زمین پر) نازل نہیں ہوتے جو کچھ ہمارے آگے ہے یا جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کچھ اسی کا ہے اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے۔

۶۵.   وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کا پروردگار ہے پس اسی کی عبادت کرو اور اس کی عبادت پر ثابت قدم رہو کیا تم اس کا کوئی ہمنام و ہمسر جانتے ہو؟

۶۶.    اور (غافل) انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤں گا تو کیا پھر زندہ کر کے نکالا جاؤں گا؟

۶۷.   کیا انسان کو یاد نہیں رہا کہ ہم ہی نے اس کو اس سے پہلے پیدا کیا جبکہ وہ کچھ بھی نہیں تھا۔

۶۸.   تو قسم ہے تمہارے پروردگار کی کہ ہم ان کو اور شیطانوں کو اکٹھا کریں گے پھر ان سب کو جہنم کے اردگرد گھٹنوں کے بل حاضر کریں گے۔

۶۹.    پھر ہم ہر گروہ میں سے اس شخص کو جدا کریں گے جو خدائے رحمن کے مقابلہ میں زیادہ سرکش تھا۔

۷۰.   پھر ہم ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کون اس (جہنم) میں داخل ہونے کا زیادہ سزاوار ہے ؟

۷۱.    اور تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو (جو وہاں سے نہ گزرے ) یہ حتمی طے شدہ فیصلہ ہے جس کا پورا کرنا تمہارے پروردگار کے ذمہ ہے۔

۷۲.   پھر جو پرہیزگار ہوں گے ہم انہیں نجات دے دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا چھوڑ دیں گے۔

۷۳.   جب ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ (دیکھو ہم) دونوں گروہوں میں سے رہائش گاہ کس کی اچھی ہے اور محفل کس کی زیادہ شاندار ہے ؟

۷۴.   حالانکہ ہم ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ساز و سامان اور ظاہری شان و شوکت میں ان سے بڑھی ہوئی تھیں۔

۷۵.   آپ کہہ دیجئے ! کہ جو کوئی گمراہی میں مبتلا ہو تو خدائے رحمن اسے برابر ڈھیل دیتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب یہ لوگ اسے دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ وعید ہوا ہے خواہ وہ (یہاں کا) عذاب ہو یا قیامت کی گھڑی! تب انہیں معلوم ہو گا کہ مکان کے لحاظ سے زیادہ برا کون ہے اور لاؤ لشکر کے اعتبار سے زیادہ کمزور کون ہے ؟

۷۶.   اور اللہ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں اور اضافہ کرتا ہے اور جو باقی رہنے والی نیکیاں ہیں وہ تمہارے پروردگار کے نزدیک ثواب اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔

۷۷.   کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مال ضرور دیا جائے گا اور اولاد بھی۔

۷۸.   کیا وہ غیب پر مطلع ہو گیا ہے ؟ یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی عہد و پیمان حاصل کر لیا ہے ؟

۷۹.   ہرگز ایسا نہیں ہے جو کچھ یہ کہتا ہے ہم اسے لکھ لیں گے۔ اور اس کے عذاب میں برابر اضافہ کرتے جائیں گے۔

۸۰.   وہ جو کہتا ہے (کہ اس کے پاس مال و اولاد ہے ) اس کے وارث ہم ہی ہوں گے۔ اور یہ تو اکیلا ہماری بارگاہ میں حاضر ہو گا۔

۸۱.    اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر بہت سے خدا بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کیلئے عزت و قوت کا باعث ہوں۔

۸۲.   ہرگز ایسا نہیں ہے وہ عنقریب ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور ان کے مخالف ہوں گے۔

۸۳.   اے (رسولﷺ) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے جو انہیں برابر اکساتے رہتے ہیں۔

۸۴.   آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کیجئے ہم تو اچھی طرح ان کے دن گن رہے ہیں۔

۸۵.   جس دن ہم پرہیزگاروں کو اپنے حضور مہمانوں کی طرح لائیں گے۔

۸۶.   اور مجرموں کو پیاسے جانوروں کی طرح جہنم کی طرف ہانک کر لے جائیں گے۔

۸۷.   انہیں شفاعت کا کوئی اختیار نہ ہو گا سوائے اس کے جس نے اللہ سے عہد لے لیا ہو گا۔

۸۸.   اور وہ (نصاریٰ) کہتے ہیں کہ خدا نے اپنا ایک بیٹا بنا رکھا ہے۔

۸۹.    تم نے یہ ایسی سخت بُری بات کہی ہے۔

۹۰.    کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں۔

۹۱.    کیونکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ خدائے رحمن کا بیٹا ہے۔

۹۲.    اور یہ بات رحمن کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔

۹۳.    آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ خدائے رحمن کی بارگاہ میں بندہ بن کر حاضر ہونے والے ہیں۔

۹۴.    اس (اللہ) نے ان سب کا احاطہ کر رکھا ہے اور انہیں اچھی طرح شمار کر رکھا ہے۔

۹۵.    اور قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک تنہا تنہا اس کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔

۹۶.    بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے۔ ان کیلئے عنقریب خدائے رحمن (لوگوں کے دلوں میں ) محبت قرار دے گا۔

۹۷.   اے (رسولﷺ) ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں آسان کر دیا ہے تاکہ آپ پرہیزگاروں کو خوشخبری سنائیں اور جھگڑالو قوم کو ڈرائیں۔

۹۸.    اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قومیں ہلاک کی ہیں کیا آپ ان میں سے کسی کو بھی محسوس کرتے ہیں یا ان کی کوئی بھنک بھی سنتے ہیں۔

٭٭

 

 

 

۲۰۔ سورۃ طٰہ

 

 

۱.      طا۔ ھا۔

۲.     ہم نے اس لئے آپ پر قرآن نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔

۳.     بلکہ (اس لئے نازل کیا ہے کہ) جو (خدا سے ) ڈرنے والا ہے اس کی یاددہانی ہو۔

۴.     (یہ) اس ہستی کی طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔

۵.     وہ خدائے رحمن ہے جس کا عرش پر اقتدار قائم ہے۔

۶.     جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے سب اسی کا ہے۔

۷.     اگر تم پکار کر بات کرو (تو تمہاری مرضی) وہ تو راز کو بلکہ اس سے بھی زیادہ مخفی بات کو جانتا ہے۔

۸.     وہ الٰہ ہے اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ سب اچھے اچھے نام اسی کے لئے ہیں۔

۹.     کیا آپﷺ تک موسیٰ کا واقعہ پہنچا ہے ؟

۱۰.    جب انہوں نے آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم (یہیں ) ٹھہرو۔ میں نے آگ دیکھی ہے شاید تمہارے لئے ایک آدھ انگارا لے آؤں یا آگ کے پاس راستہ کا کوئی پتّہ پاؤں ؟

۱۱.     تو جب اس کے پاس گئے تو انہیں آواز دی گئی کہ اے موسیٰ!

۱۲.    میں ہی تمہارا پروردگار ہوں ! پس اپنی جوتیاں اتار دو (کیونکہ) تم طویٰ نامی ایک مقدس وادی میں ہو۔

۱۳.    اور میں نے تمہیں (پیغمبری کیلئے ) منتخب کیا ہے۔ پس (تمہیں ) جو کچھ وحی کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔

۱۴.    بے شک میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے پس میری عبادت کرو اور میری یاد کیلئے نماز قائم کرو۔

۱۵.    یقیناً قیامت آنے والی ہے میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو اس کی سعی و کوشش کا معاوضہ مل جائے۔

۱۶.    پس (خیال رکھنا) کہیں وہ شخص جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہش نفس کا پیرو ہے تمہیں اس کی فکر سے روک نہ دے ورنہ تم تباہ ہو جاؤ گے۔

۱۷.    اور اے موسیٰ! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے ؟

۱۸.    کہا وہ میرا عصا ہے میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کیلئے (درختوں سے ) پتے جھاڑتا ہوں اور میرے لئے اس میں اور بھی کئی فائدے ہیں۔

۱۹.    ارشاد ہوا اے موسیٰ! اسے پھینک دو۔

۲۰.    چنانچہ موسیٰ نے اسے پھینک دیا تو وہ ایک دم دوڑتا ہوا سانپ بن گیا۔

۲۱.    ارشاد ہوا اسے پکڑ لو۔ اور ڈرو نہیں ہم ابھی اسے اس کی پہلی حالت کی طرف پلٹا دیں گے۔

۲۲.    اور اپنے ہاتھ کو سمیٹ کر اپنے بازو کے نیچے (بغل میں ) کر لو وہ کسی برائی و بیماری کے بغیر چمکتا ہوا نکلے گا یہ دوسری نشانی ہو گی۔

۲۳.   تاکہ ہم آپ کو اپنی بڑی نشانیوں سے کچھ دکھائیں۔

۲۴.   جاؤ فرعون کے پاس کہ وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے۔

۲۵.   موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ کشادہ فرما۔ (حوصلہ فراخ کر)۔

۲۶.    اور میرے کام کو میرے لئے آسان کر۔

۲۷.   اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔

۲۸.   تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔

۲۹.    اور میرے خاندان میں سے میرے بھائی۔

۳۰.   ہارون کو میرا وزیر بنا۔

۳۱.    اس کے ذریعے سے میری کمر کو مضبوط بنا۔

۳۲.   اسے میرے کام (رسالت) میں میرا شریک بنا۔

۳۳.   تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں۔

۳۴.   اور کثرت سے تیرا ذکر کریں۔

۳۵.   بے شک تو ہمارے حال کو خوب دیکھ رہا ہے۔

۳۶.   خدا نے فرمایا اے موسیٰ! تمہاری درخواست منظور کر لی گئی ہے۔

۳۷.   اور ہم ایک مرتبہ اور بھی تم پر احسان کر چکے ہیں۔

۳۸.   جب ہم نے تمہاری ماں کی طرف وحی بھیجی جو بھیجنا تھی (جو اب بذریعہ وحی تمہیں بتائی جا رہی ہے )۔

۳۹.    کہ اس (موسیٰ) کو صندوق میں رکھ اور پھر صندوق کو دریا میں ڈال دے پھر دریا اسے کنارہ پر پھینک دے گا (اور) اسے وہ شخص (فرعون) اٹھائے گا جو میرا بھی دشمن ہے اور اس (موسیٰ) کا بھی دشمن ہے میں نے تم پر اپنی محبت کا اثر ڈال دیا۔ (جو دیکھتا وہ پیار کرتا) اور اس لئے کہ تم میری خاص نگرانی میں پرورش پائے۔

۴۰.   اور وہ وقت یاد کرو جب تمہاری بہن چل رہی تھی اور (فرعون کے اہل خانہ سے ) کہہ رہی تھی کہ کیا میں تم لوگوں کو ایسی (دایہ) بتاؤں جو اس کی پرورش کرے ؟ اور اس طرح ہم نے تمہیں تمہاری ماں کی طرف لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور رنجیدہ نہ ہو اور تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا تو ہم نے تمہیں اس غم سے نجات دی اور ہم نے تمہاری ہر طرح آزمائش کی۔ پھر تم کئی برس تک مدین کے لوگوں میں رہے اور پھر اے موسیٰ! تم اپنے معین وقت پر (یہاں ) آ گئے۔

۴۱.    اور میں نے تمہیں اپنی ذات کیلئے منتخب کر لیا۔

۴۲.   (سو اب) تم اور تمہارا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ (فرعون کے پاس) جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔

۴۳.   تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔

۴۴.   اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔

۴۵.   ان دونوں نے کہا اے ہمارے پروردگار! ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا سرکشی کرے ؟

۴۶.   ارشاد ہوا تم ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں۔ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔

۴۷.   تم (بے دھڑک) اس کے پاس جاؤ۔ اور کہو کہ ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں۔ سو تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ روانہ کر اور ان کو تکلیف نہ پہنچا۔ ہم تیرے پاس تیرے پروردگار کی طرف سے معجزہ لے کر آئے ہیں اور سلامتی ہے اس کے لئے جو ہدایت کی پیروی کرے۔

۴۸.   بے شک ہماری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ عذاب اس کیلئے ہے جو (آیات اللہ کو) جھٹلائے اور (اس کے احکام سے ) روگردانی کرے۔

۴۹.    (چنانچہ وہ گئے ) اور فرعون نے کہا اے موسیٰ! تمہارا پروردگار کون ہے ؟

۵۰.   موسیٰ نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو خلقت بخشی پھر راہنمائی فرمائی۔

۵۱.    فرعون نے کہا پھر ان نسلوں کا کیا ہو گا جو پہلے گزر چکی ہیں ؟

۵۲.   موسیٰ نے کہا ان کا علم میرے پروردگار کے پاس ایک کتاب میں ہے میرا پروردگار نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔

۵۳.   وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا ہے اور اس میں تمہارے لئے راستے بنائے اور آسمان سے پانی برسایا۔ تو ہم نے اس سے مختلف اقسام کے نباتات کے جوڑے پیدا کئے۔

۵۴.   خود بھی کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو بھی چراؤ۔ بے شک اس (نظام قدرت) میں صاحبانِ عقل کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔

۵۵.   اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تمہیں نکالیں گے۔

۵۶.   اور ہم نے اس (فرعون) کو اپنی سب نشانیاں دکھائیں مگر اس پر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار کیا۔

۵۷.   اور کہا اے موسیٰ! کیا تم اس لئے ہمارے پاس آئے ہو کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری سرزمین سے نکال دو؟

۵۸.   سو ہم بھی تمہارے مقابلہ میں ویسا ہی جادو لائیں گے لہٰذا تم (مقابلہ کیلئے ) ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدہ گاہ مقرر کرو۔ جس کی نہ ہم خلاف ورزی کریں گے اور نہ تم۔ اور وہ وعدہ گاہ ہو بھی ہموار اور کھلے میدان میں۔

۵۹.    موسیٰ نے کہا تمہارے لئے وعدہ کا دن جشن والا دن ہے اور یہ کہ دن چڑھے لوگ جمع کر لئے جائیں۔

۶۰.    اس کے بعد فرعون واپس چلا گیا اور اپنے سب مکر و فریب (داؤ) جمع کئے اور پھر (مقابلہ کیلئے ) آ گیا۔

۶۱.    موسیٰ نے (فرعونیوں سے ) کہا افسوس ہے تم پر۔ اللہ پر جھوٹا بہتان نہ باندھو۔ ورنہ وہ کسی عذاب سے تمہارا قلع قمع کر دے گا۔ اور جو کوئی بہتان باندھتا ہے وہ ناکام و نامراد ہوتا ہے۔

۶۲.    پھر وہ اپنے معاملہ میں باہم جھگڑنے لگے اور پوشیدہ سرگوشیاں کرنے لگے۔

۶۳.   (آخرکار) انہوں نے کہا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال دیں اور تمہارے اعلیٰ و مثالی طریقہ کار کو مٹا دیں۔

۶۴.   لہٰذا تم اپنی سب تدبیریں (داؤ پیچ) جمع کرو۔ اور پرا باندھ کر (مقابلہ میں ) آ جاؤ۔ یقیناً فلاح وہی پائے گا جو غالب آئے گا۔

۶۵.   ان لوگوں (جادوگروں ) نے کہا اے موسیٰ تم پہلے پھینکو گے یا پہلے ہم پھینکیں ؟

۶۶.    موسیٰ علیہ السلام نے کہا: نہیں۔ بلکہ تم ہی (پہلے ) پھینکو! پس اچانک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں۔

۶۷.   (یہ منظر دیکھ کر) موسیٰ نے اپنے دل میں کچھ خوف محسوس کیا۔

۶۸.   ہم نے کہا (اے موسیٰ) ڈرو نہیں بے شک تم ہی غالب رہو گے۔

۶۹.    اور جو تمہارے دائیں ہاتھ میں (عصا) ہے اسے پھینک دو۔ یہ ان کی سب بناوٹی چیزوں کو نگل جائے گا۔ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے وہ جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر کہیں بھی آئے (جائے ) کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

۷۰.   چنانچہ (ایسا ہی ہوا کہ) سب جادوگر (بے ساختہ) سجدے میں گرا دیئے گئے (اور)کہنے لگے کہ ہم ہارون اور موسیٰ کے پروردگار پر ایمان لائے ہیں۔

۷۱.    فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں یہی تمہارا وہ بڑا (جادوگر) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے اب میں ضرور تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کٹواتا ہوں اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دیتا ہوں پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم (دونوں ) میں اور موسیٰ میں سے کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے ؟

۷۲.   جادوگروں نے کہا ہمارے پاس جو کھلی نشانیاں آ چکی ہیں ہم ان پر اور اس ذات پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ کبھی تجھے ترجیح نہیں دیں گے بے شک تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے وہ تو (زیادہ سے زیادہ) اسی دنیاوی زندگی (کے ختم کرنے ) کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

۷۳.   ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لا چکے ہیں تاکہ وہ ہماری خطاؤں کو اور اس جادوگری کو جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا معاف کر دے۔ ہمارے لئے اللہ ہی بہتر ہے اور وہی زیادہ دیرپا ہے۔

۷۴.   بے شک جو کوئی مجرم بن کر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہو گا اس کیلئے وہ جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جیئے گا۔

۷۵.   اور جو کوئی مؤمن بن کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔ جب کہ اس نے نیک عمل بھی کئے ہوں گے ان کے لئے بڑے بلند درجے ہیں۔

۷۶.   (اور) ہمیشہ رہنے والے باغات جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس کی جزاء ہے جو پاکباز رہا۔

۷۷.   اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں (بنی اسرائیل) کو لے کر نکل جاؤ پھر (عصا مار کر) ان کیلئے سمندر سے خشک راستہ بناؤ۔ نہ تمہیں پیچھے سے ان کے پکڑے جانے کا خطرہ ہو اور نہ ہی (غرق وغیرہ کا) کوئی اندیشہ۔

۷۸.   پھر فرعون نے اپنی فوجوں کے ساتھ ان کا پیچھا کیا تو انہیں سمندر نے ڈھانپ لیا جیساکہ ڈھانپنے کا حق تھا۔

۷۹.   اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا کوئی راہنمائی نہیں کی۔

۸۰.   اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی اور تم سے کوہ طور کی دائیں جانب توریت دینے کا قول و قرار کیا۔ اور تم پر من و سلویٰ نازل کیا۔

۸۱.    تم سے کہا گیا کہ جو پاکیزہ روزی تمہیں دی گئی ہے اس سے کھاؤ اور اس کے بارے میں سرکشی نہ کرو (حد سے نہ گزرو) ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہو گا اور جس پر میرا غضب نازل ہو جائے وہ ہلاک ہی ہو گیا۔

۸۲.   اور جو کوئی توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے اور پھر راہِ راست پر قائم رہے تو میں اس کو بہت ہی بخشنے والا ہوں۔

۸۳.   اے موسیٰ! اپنی قوم سے پہلے کیا چیز تمہیں جلدی لے آئی؟

۸۴.   موسیٰ نے کہا: وہ لوگ میرے نقش قدم پر آرہے ہیں۔ اور اے میرے پروردگار! میں اس لئے جلدی تیری بارگاہ میں حاضر ہو گیا ہوں کہ تو خوش ہو جائے۔

۸۵.   ارشاد ہوا۔ ہم نے تمہارے بعد تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا ہے۔

۸۶.   پس موسیٰ غصہ میں افسوس کرتے ہوئے اپنی قوم کی طرف لوٹے (اور) کہا اے میری قوم! کیا تمہارے پروردگار نے تم سے بڑا اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ تو کیا تم پر (وعدہ سے ) زیادہ مدت گزر گئی؟ یا تم نے چاہا کہ تمہارے رب کا غضب تم پر نازل ہو؟ اس لئے تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟

۸۷.   قوم نے کہا کہ ہم نے اپنے اختیار سے تو آپ سے وعدہ خلافی نہیں کی (البتہ بات یوں ہوئی) کہ ہمیں اس جماعت کے زیورات جمع کر کے لانے پر آمادہ کیا گیا اور یہ سامری ایک (سنہرا) بچھڑا نکال کر لایا۔ جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی۔

۸۸.   تو لوگوں سے کہا یہی تمہارا خدا ہے اور موسیٰ کا بھی جسے وہ بھول گئے ہیں۔

۸۹.    کیا وہ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ وہ (گؤ سالہ) ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور نہ ہی وہ ان کو نقصان یا نفع پہنچانے کا کوئی اختیار رکھتا ہے۔

۹۰.    اور ہارون نے اس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا کہ اے میری قوم! تم اس (گو سالہ) کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے ہو۔ اور یقیناً تمہارا پروردگار خدائے رحمن ہے سو تم میری پیروی کرو۔ اور میرے حکم کی تعمیل کرو۔

۹۱.    مگر قوم نے کہا کہ ہم تو برابر اس کی عبادت پر جمے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف آ جائیں۔

۹۲.    موسیٰ نے کہا اے ہارون! جب تم نے دیکھا کہ یہ لوگ گمراہ ہو گئے ہیں۔

۹۳.    تو تمہیں کس چیز نے میری پیروی کرنے سے روکا؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے ؟

۹۴.    ہارون نے کہا: اے میرے ماں جائے ! میری ڈاڑھی اور میرا سر نہ پکڑئیے ! مجھے تو یہ ڈر تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا۔ اور میری بات کا خیال نہیں کیا (یا میرے حکم کا انتظار نہ کیا؟)۔

۹۵.    (بعد ازاں ) کہا اے سامری! تیرا کیا معاملہ ہے ؟

۹۶.    اس نے کہا کہ میں نے ایک ایسی چیز دیکھی جو اور لوگوں نے نہیں دیکھی تو میں نے (خدا کے ) فرستادہ کے نقش قدم سے ایک مٹھی (خاک) اٹھا لی۔ اور اسے (اس گو سالہ میں ) ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے یہ بات سجھائی (اور میرے لئے آراستہ کر دی)۔

۹۷.   موسیٰ نے کہا جا چلا جا! تیرے لئے اس زندگی میں یہ (سزا) ہے کہ تو کہتا رہے گا کہ مجھے کوئی نہ چھوئے (کہ میں اچھوت ہوں ) اور تیرے لئے (آخرت میں عذاب) کا ایک وعدہ ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں ہے۔ اور اب دیکھ اپنے اس معبود کو جس کی پرستش پر تو جما بیٹھا رہا۔ ہم (پہلے ) اسے جلائیں گے اور پھر اس کی راکھ کو اڑا کر سمندر میں بہائیں گے۔

۹۸.    اے لوگو! تمہارا الٰہ تو بس اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ اور وہ ہر چیز کا علمی احاطہ کئے ہوئے ہے۔

۹۹.    (اے رسول) ہم اسی طرح گزرے ہوئے واقعات کی کچھ خبریں آپ سے بیان کرتے ہیں اور ہم نے اپنی طرف سے آپ کو ایک نصیحت نامہ (قرآن) عطا کیا ہے۔

۱۰۰.   جو کوئی اس سے روگردانی کرے گا تو وہ قیامت کے دن (اپنے اس جرم کا) بوجھ خود اٹھائے گا۔

۱۰۱.   ایسے لوگ ہمیشہ اسی حالت میں گرفتار رہیں گے اور قیامت کے دن یہ بوجھ بڑا برا بوجھ ہو گا۔

۱۰۲.   جس دن صور پھونکا جائے گا تو ہم مجرموں کو اس طرح محشور کریں گے کہ ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی۔

۱۰۳.  وہ آپس میں چپکے چپکے کہیں گے کہ تم (دنیا و برزخ میں ) کوئی دس دن ہی رہے ہو گے۔

۱۰۴.  ہم خوب جانتے ہیں جو وہ کہہ رہے ہوں گے جبکہ ان کا سب سے زیادہ صائب الرائے یہ کہتا ہو گا کہ تم تو بس ایک دن رہے ہو۔

۱۰۵.  (اے رسولﷺ) لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ (قیامت کے دن کہاں جائیں گے )؟ تو آپ کہہ دیجئے ! کہ میرا پروردگار ان کو (ریزہ ریزہ کر کے ) اڑا دے گا۔

۱۰۶.   پھر ان کی جگہ زمین کو اس طرح چٹیل میدان بنا دے گا۔

۱۰۷.  کہ تم اس میں نہ کوئی ناہمواری دیکھو گے اور نہ بلندی۔

۱۰۸.  اس روز لوگ ایک پکارنے والے (اسرافیل) کے پیچھے اس طرح سیدھے آئیں گے جس میں کوئی کجی نہ ہو گی اور خدا کے سامنے اور سب آوازیں دب جائیں گی پس تم قدموں کی آہٹ کے سوا کچھ نہیں سنو گے۔

۱۰۹.   اس دن کوئی شفاعت فائدہ نہیں دے گی سوائے اس کے جس کو خدا اجازت دے گا اور اس کے بولنے کو پسند کرے گا۔

۱۱۰.   جو کچھ لوگوں کے آگے ہے (آنے والے حالات) اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے (گزرے ہوئے واقعات) وہ سب کچھ جانتا ہے مگر لوگ اپنے علم سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔

۱۱۱.    سب کے چہرے حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے اور جو شخص ظلم کا بوجھ اٹھائے گا وہ ناکام و نامراد ہو جائے گا۔

۱۱۲.   اور جو کوئی نیک کام کرے درآنحالیکہ وہ مؤمن بھی ہو تو اسے نہ ظلم و زیادتی کا اندیشہ ہو گا اور نہ کمی و حق تلفی کا۔

۱۱۳.   اور اس طرح ہم نے اس (کتاب) کو عربی زبان میں قرآن بنا کر نازل کیا ہے اس میں وعید و تہدید بیان کی ہے تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں یا وہ ان میں نصیحت پذیری پیدا کر دے۔

۱۱۴.   بلند و برتر ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے اور (اے پیغمبرﷺ) جب تک قرآن کی وحی آپ پر پوری نہ ہو جائے اس (کے پڑھنے ) میں جلدی نہ کیا کیجئے۔ اور دعا کیجئے کہ (اے پروردگار) میرے علم میں اور اضافہ فرما۔

۱۱۵.   اور ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم و ثبات نہ پایا۔

۱۱۶.   اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ۔ (چنانچہ) ابلیس کے سوا سب سجدے میں گر گئے۔

۱۱۷.   سو ہم نے کہا اے آدمؑ ! یہ آپ کا اور آپ کی زوجہ کا دشمن ہے یہ کہیں آپ دونوں کو جنت سے نکلوا نہ دے ؟ ورنہ مشقت میں پڑ جائیں گے۔

۱۱۸.   بیشک تم اس میں نہ کبھی بھوکے رہو گے اور نہ ننگے۔

۱۱۹.   اور نہ یہاں پیاسے رہو گے اور نہ دھوپ کھاؤ گے۔

۱۲۰.   پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا (اور) کہا اے آدم! کیا میں تمہیں بتاؤں ہمیشگی والا درخت اور نہ زائل ہونے والی سلطنت؟

۱۲۱.   پس ان دونوں نے اس (درخت) میں سے کچھ کھایا۔ تو ان پر ان کے قابل ستر مقامات ظاہر ہو گئے اور وہ اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار (کے امر ارشادی) کی خلاف ورزی کی اور (اپنے مقصد میں ) ناکام ہوئے۔

۱۲۲.   اس کے بعد ان کے پروردگار نے انہیں برگزیدہ کیا (چنانچہ) ان کی توبہ قبول کی اور ہدایت بخشی۔

۱۲۳.  فرمایا (اب) تم زمین پر اتر جاؤ ایک دوسرے کے دشمن ہو کر پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ بدبخت ہو گا۔

۱۲۴.  اور جو کوئی میری یاد سے روگردانی کرے گا تو اس کے لئے تنگ زندگی ہو گی۔ اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا محشور کریں گے۔

۱۲۵.  وہ کہے گا اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اندھا کیوں محشور کیا ہے حالانکہ میں آنکھوں والا تھا؟

۱۲۶.   ارشاد ہو گا اسی طرح ہماری آیات تیرے پاس آئی تھیں اور تو نے انہیں بھلا دیا تھا اسی طرح آج تجھے بھی بھلا دیا جائے گا اور نظر انداز کر دیا جائے گا۔

۱۲۷.  اور جو کوئی حد سے تجاوز کرے اور اپنے پروردگار کی بات پر ایمان نہ لائے تو ہم اسے اسی طرح (دنیا میں ) سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو اور بھی بڑا سخت اور پائیدار ہے۔

۱۲۸.  کیا (اس بات سے بھی) انہیں ہدایت نہ ملی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلیں (ان گناہوں کی پاداش میں ) ہلاک کر دیں جن کے مکانوں میں (آج) یہ چلتے پھرتے ہیں بے شک اس میں صاحبان عقل کیلئے خدا کی قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں۔

۱۲۹.   اور (اے رسولﷺ) اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور ایک (مہلت کی) مدت معین نہ ہو چکی ہوتی تو (عذاب) لازمی طور پر آ چکا ہوتا۔

۱۳۰.  سو آپ ان کی باتوں پر صبر کیجئے اور طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اور رات کے اوقات میں بھی اور دن کے اول و آخر میں بھی اپنے پروردگار کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح کیجئے تاکہ آپ راضی ہو جائیں۔

۱۳۱.   اور جو کچھ ہم نے مختلف لوگوں کو آزمائش کیلئے دنیا کی زیب و زینت اور آرائش دے رکھی ہے اس کی طرف نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں اور آپ کے پروردگار کا دیا ہوا رزق بہتر ہے اور زیادہ پائیدار ہے۔

۱۳۲.  اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر قائم و برقرار رہیں ہم آپ سے روزی طلب نہیں کرتے۔ ہم تو خود آپ کو روزی دیتے ہیں اور انجام بخیر تو پرہیزگاری کا ہی ہے۔

۱۳۳.  اور یہ لوگ (اہل مکہ) کہتے ہیں کہ یہ (رسول) ہمارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نہیں لاتے۔ کیا ان کے پاس اگلی کتابوں کا کھلا ہوا ثبوت نہیں آیا؟

۱۳۴.  اور اگر ہم اس (رسول) سے پہلے انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ کہتے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا؟ کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں کی پیروی کرتے۔

۱۳۵.  آپ کہہ دیجئے ! کہ ہر ایک اپنے (انجام کا) انتظار کر رہا ہے سو تم بھی انتظار کرو۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سیدھی راہ والے کون ہیں ؟ اور ہدایت یافتہ کون ہیں۔

٭٭

 

 

 

۲۱۔ سورۃ الانبیاء

 

 

۱.      لوگوں کے حساب کتاب (کا وقت) قریب آ گیا ہے اور وہ غفلت میں پڑے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

۲.     ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نئی یاددہانی ان کے پاس آتی ہے۔ تو وہ اسے کھیل کود میں لگے ہوئے سنتے ہیں۔

۳.     ان کے دل بالکل غافل ہیں اور یہ ظالم چپکے چپکے سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص (رسول) اس کے سوا کیا ہے ؟ تمہاری ہی طرح کا ایک بشر ہے کیا تم آنکھیں دیکھتے ہوئے (اور سوجھ بوجھ رکھتے ہوئے ) جادو (کی بات) سنتے جاؤ گے ؟

۴.     (پیغمبر اسلامﷺ) نے کہا کہ میرا پروردگار آسمان اور زمین کی ہر بات کو جانتا ہے (کیونکہ) وہ بڑا سننے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔

۵.     بلکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) خواب ہائے پریشان ہیں (نہیں ) بلکہ یہ اس نے خود گھڑ لیا ہے۔ بلکہ وہ تو ایک شاعر ہے (اور اگر ایسا نہیں ہے ) تو پھر ہمارے پاس کوئی معجزہ لائے جس طرح پہلے رسول (معجزات کے ساتھ) بھیجے گئے تھے۔

۶.     ان سے پہلے کوئی بستی بھی جسے ہم نے ہلاک کیا وہ تو ایمان لائی نہیں تو کیا یہ ایمان لائیں گے ؟

۷.     (اے رسول) اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں کو ہی رسول بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف وحی کیا کرتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔

۸.     اور ہم نے ان رسولوں کو کبھی ایسے جسم کا نہیں بنایا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں۔ اور نہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے تھے۔

۹.     پھر ہم نے ان سے جو وعدہ کیا تھا اسے سچا کر دکھایا اور انہیں اور ان کے ساتھ جن کو چاہا بچا لیا اور زیادتی کرنے والوں کو تباہ و برباد کر دیا۔

۱۰.    بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ (نہیں سمجھتے ؟)۔

۱۱.     اور کتنی ہی بستیاں ہیں جو ہم نے برباد کر دیں۔ کیونکہ وہ ظالم تھیں (ان کے باشندے ظالم تھے ) اور ان کی جگہ اور قوم کو پیدا کر دیا۔

۱۲.    جب انہوں نے ہمارا عذاب محسوس کیا تو ایک دم وہاں سے بھاگنے لگے۔

۱۳.    (ان سے کہا گیا) بھاگو نہیں (بلکہ) اپنی آسائش کی طرف لوٹو جو تمہیں دی گئی تھی۔ اور اپنے گھروں کی طرف لوٹو۔ تاکہ تم سے پوچھ گچھ کی جائے۔

۱۴.    ان لوگوں نے کہا ہائے ہماری بدبختی بے شک ہم ظالم تھے۔

۱۵.    وہ برابر یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے انہیں کٹی ہوئی کھیتی کی طرح (اور) بجھی ہوئی آگ کی طرح کر دیا۔

۱۶.    اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کو کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا۔

۱۷.    اگر ہم کوئی دل بستگی کا سامان چاہتے تو اپنے پاس سے ہی کر لیتے مگر ہم ایسا کرنے والے نہیں ہیں۔

۱۸.    بلکہ ہم باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا بھیجا نکال دیتی ہے (سر کچل دیتی ہے ) پھر یکایک باطل مٹ جاتا ہے۔ افسوس ہے تم پر ان باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔

۱۹.    جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین ہے سب اسی کیلئے ہے اور جو اس کی بارگاہ میں ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر و سرکشی نہیں کرتے اور نہ ہی تھکتے ہیں۔

۲۰.    وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے ہیں کبھی ملول ہو کر وقفہ نہیں کرتے۔

۲۱.    کیا انہوں نے زمینی (مخلوق) سے ایسے معبود بنائے ہیں جو مردوں کو زندہ کر دیتے ہیں۔

۲۲.    اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا کوئی اور خدا ہوتا تو دونوں کا نظام برباد ہو جاتا پس پاک ہے اللہ جو عرش کا مالک ہے ان باتوں سے جو لوگ بناتے ہیں۔

۲۳.   وہ جو کچھ کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے بازپرس نہیں کی جا سکتی اور وہ ہر ایک کا حساب لینے والا ہے۔

۲۴.   کیا ان لوگوں نے اللہ کے علاوہ اور خدا بنائے ہیں ؟ کہئے کہ اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ (قرآن) میرے ساتھ والوں کی (کتاب) ہے اور مجھ سے پہلے والوں کی (کتابیں بھی) ہیں (ان سے کوئی بات میرے دعویٰ کے خلاف نکال کر لاؤ) بلکہ اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے (اس لئے ) اس سے روگردانی کرتے ہیں۔

۲۵.   اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول نہیں بھیجا جس کی طرف یہ وحی نہ کی ہو کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ پس تم میری ہی عبادت کرو۔

۲۶.    اور وہ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن نے اولاد بنا رکھی ہے وہ (اس سے ) پاک ہے بلکہ وہ فرشتے تو اس کے بندے ہیں۔

۲۷.   جو بات کرنے میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اور اسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔

۲۸.   اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ کسی کی شفاعت نہیں کرتے سوائے اس کے جس سے خدا راضی ہو۔ اور وہ اس کے خوف و خشیہ سے لرزتے رہتے ہیں۔

۲۹.    اور جو (بالفرض) ان میں سے یہ کہہ دے کہ اللہ کے علاوہ میں خدا ہوں۔ تو ہم اسے جہنم کی سزا دیں گے ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔

۳۰.   کیا کافر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ آسمان اور زمین پہلے آپس میں ملے ہوئے تھے پھر ہم نے دونوں کو جدا کیا۔ اور ہم نے (پہلے ) ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے ؟

۳۱.    اور ہم نے زمین میں پہاڑ قرار دیئے تاکہ وہ لوگوں کو لے کر ڈھلک نہ جائے اور ہم نے ان (پہاڑوں ) میں کشادہ راستے بنائے تاکہ وہ راہ پائیں (اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں )۔

۳۲.   اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا مگر یہ لوگ پھر بھی اس کی نشانیوں سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

۳۳.   اور وہ وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب (اپنے اپنے ) دائرہ (مدار) میں تیر رہے ہیں۔

۳۴.   اور ہم نے آپ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشگی نہیں دی۔ تو اگر آپ انتقال کر جائیں تو کیا یہ لوگ ہمیشہ (یہاں ) رہیں گے ؟

۳۵.   ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور ہم تمہیں برائی اور اچھائی کے ساتھ آزماتے ہیں (آخرکار) تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

۳۶.   اور (اے رسولﷺ) جب کافر آپ کو دیکھتے ہیں تو بس وہ آپ کا مذاق اڑاتے ہیں (اور کہتے ہیں ) کیا یہی وہ شخص ہے جو (برائی سے ) تمہارے خداؤں کا ذکر کرتا ہے ؟ حالانکہ وہ خود خدائے رحمن کے ذکر کے منکر ہیں۔

۳۷.   انسان جلد بازی سے پیدا ہوا ہے میں عنقریب تمہیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھلاؤں گا۔ پس تم مجھ سے جلدی کا مطالبہ نہ کرو۔

۳۸.   اور وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو یہ (قیامت کا) وعدہ کب پورا ہو گا؟

۳۹.    کاش ان کافروں کو اس کا کچھ علم ہوتا۔ جب یہ لوگ آگ کو نہیں روک سکیں گے نہ اپنے چہروں سے اور نہ اپنی پشتوں سے اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔

۴۰.   بلکہ وہ (گھڑی) اچانک ان پر آ جائے گی۔ اور انہیں مبہوت کر دے گی پھر نہ تو وہ اسے ہٹا سکیں گے اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔

۴۱.    بے شک ان پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا جو آپ سے پہلے تھے تو اسی (عذاب) نے ان مذاق اڑانے والوں کو گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔

۴۲.   (اے رسولﷺ) کہہ دیجئے ! کون ہے جو رات میں یا دن میں خدائے رحمن (کے عذاب) سے تمہاری حفاظت کر سکتا ہے ؟ بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے ذکر سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

۴۳.   کیا ہمارے علاوہ ان کے ایسے خدا ہیں جو ان کی حفاظت کر سکیں ؟ وہ (خود ساختہ) خدا تو خود اپنی مدد نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہماری طرف سے ان کو پناہ دی جائے گی (اور نہ تائید کی جائے گی)۔

۴۴.   بلکہ ہم نے انہیں اور ان کے آباء و اجداد کو (زندگی کا) سر و سامان دیا یہاں تک کہ ان کی لمبی لمبی عمریں گزر گئیں (عرصہ دراز گزر گیا) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے اطراف سے برابر گھٹاتے چلے آرہے ہیں تو کیا وہ غالب آ سکتے ہیں ؟

۴۵.   آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تمہیں صرف وحی کی بناء پر (عذاب سے ) ڈراتا ہوں مگر جو بہرے ہوتے ہیں وہ دعا و پکار نہیں سنتے جب انہیں ڈرایا جائے۔

۴۶.   اور جب انہیں تمہارے پروردگار کے عذاب کا ایک جھونکا بھی چھو جائے تو وہ کہہ اٹھیں گے کہ ہائے افسوس بے شک ہم ظالم تھے۔

۴۷.   ہم قیامت کے دن صحیح تولنے والے میزان (ترازو) قائم کر دیں گے۔ پس کسی شخص پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر کوئی (عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گا تو ہم اسے (وزن میں ) لے آئیں گے اور حساب لینے والے ہم ہی کافی ہیں۔

۴۸.   بے شک ہم نے موسیٰ و ہارون کو فرقان، روشنی اور پرہیزگاروں کیلئے نصیحت نامہ عطا کیا۔

۴۹.    جو بے دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں نیز جو قیامت سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں۔

۵۰.   اور یہ (قرآن) بابرکت نصیحت نامہ ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے۔ کیا تم اس کا انکار کرتے ہو؟

۵۱.    اور یقیناً ہم نے اس (عہد موسوی) سے پہلے ابراہیمؑ کو (ان کے مقام کے مطابق) سوجھ بوجھ عطا فرمائی تھی اور ہم ان کو خوب جانتے تھے۔

۵۲.   جب آپ نے (منہ بولے ) باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیں کیسی ہیں جن (کی عبادت) پر تم جمے بیٹھے ہو۔

۵۳.   انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔

۵۴.   آپ نے کہا تم بھی اور تمہارے باپ دادا بھی کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔

۵۵.   انہوں نے کہا کیا تم ہمارے پاس کوئی حق بات (سچا پیغام) لے کر آئے ہو یا صرف دل لگی کر رہے ہو؟

۵۶.   آپ نے کہا (دل لگی نہیں ) بلکہ تمہارا پروردگار وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ایک گواہ ہوں۔

۵۷.   اور بخدا میں تمہارے بتوں کے ساتھ (کوئی نہ کوئی) چال ضرور چلوں گا جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے۔

۵۸.   چنانچہ آپ نے ان کے ایک بڑے بت کے سوا باقی سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔

۵۹.    انہوں نے کہا ہمارے خداؤں کے ساتھ کس نے یہ سلوک کیا ہے ؟ بے شک وہ ظالموں میں سے ہے۔

۶۰.    (بعض) لوگ کہنے لگے کہ ہم نے ایک نوجوان کو سنا ہے جو ان کا ذکر (برائی سے ) کیا کرتا ہے جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔

۶۱.    انہوں نے کہا تو پھر اسے (پکڑ کر) سب لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ وہ گواہی دیں۔

۶۲.    (چنانچہ آپ لائے گئے ) ان لوگوں نے کہا اے ابراہیمؑ ! کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے ؟

۶۳.   ابراہیمؑ نے کہا: بلکہ ان کے بڑے بت نے یہ سب کاروائی کی ہے ان بتوں سے ہی پوچھ لو اگر وہ بول سکتے ہیں ؟

۶۴.   وہ لوگ (ابراہیم کا یہ جواب سن کر) اپنے دلوں میں سوچنے لگے اور آپس میں کہنے لگے واقعی تم خود ہی ظالم ہو۔

۶۵.   پھر انہوں نے (خجالت سے ) سر جھکا کر کہا کہ تم جانتے ہو کہ یہ (بت) بات نہیں کرتے۔

۶۶.    آپ نے کہا تو پھر تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

۶۷.   تف ہے تم پر اور ان (بتوں ) پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہو۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟

۶۸.   ان لوگوں نے کہا اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اسے آگ میں جلا دو۔ اور اپنے خداؤں کی مدد کرو۔

۶۹.    (چنانچہ انہوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا تو) ہم نے کہا اے آگ! ٹھنڈی ہو کر اور ابراہیم کے لئے سلامتی کا باعث بن جا۔

۷۰.   ان لوگوں نے ابراہیم کے ساتھ چالبازی کرنا چاہی تھی مگر ہم نے انہیں ناکام کر دیا۔

۷۱.    اور ہم نے انہیں اور لوط کو نجات دی اور اس سر زمین (شام) کی طرف لے گئے جسے ہم نے دنیا جہان والوں کیلئے بابرکت بنایا ہے۔

۷۲.   اور ہم نے اسحاق (جیسا بیٹا) اور مزید یعقوب (جیسا پوتا) عطا فرمایا اور سب کو صالح بنایا۔

۷۳.   اور ہم نے انہیں ایسا امام (پیشوا) بنایا جو ہمارے حکم سے (لوگوں کو) ہدایت کرتے تھے اور ہم نے انہیں نیک کاموں کے کرنے، نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی وحی کی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔

۷۴.   اور ہم نے لوطؑ کو حکمت اور علم عطا کیا۔ اور انہیں اس بستی سے نجات دی جس کے باشندے گندے کام کیا کرتے تھے واقعی وہ قوم بڑی بری اور نافرمان تھی۔

۷۵.   اور ہم نے اس (لوطؑ) کو اپنی رحمت میں داخل کیا۔ بے شک وہ بڑے نیکوکاروں میں سے تھے۔

۷۶.   اور نوحؑ (کا ذکر کیجئے ) جب انہوں نے (ان سب سے ) پہلے پکارا اور ہم نے ان کی دعا و پکار قبول کی اور انہیں اور ان کے اہل کو سخت غم و کرب سے نجات دی۔

۷۷.   اور ان لوگوں کے مقابلہ میں جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے ان کی مدد کی بے شک وہ بڑے برے لوگ تھے۔ پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔

۷۸.   اور داؤدؑ اور سلیمانؑ (کا تذکرہ کیجئے ) جب وہ کھیت کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جب ایک گروہ کی بکریاں رات کے وقت اس میں گھس گئی تھیں اور ہم ان کے فیصلہ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔

۷۹.   اور ہم نے اس کا فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا تھا اور ہم نے ہر ایک کو حکمت اور علم عطا کیا تھا اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا تھا جو ان کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے اور (یہ کام) کرنے والے ہم ہی تھے۔

۸۰.   اور ہم نے انہیں تمہارے فائدہ کیلئے زرہ بنانے کی صنعت سکھائی تھی تاکہ وہ تمہیں تمہاری لڑائی میں ایک دوسرے کی زد سے بچائے۔ کیا تم اس (احسان) کے شکرگزار ہو؟

۸۱.    اور ہم نے تیز و تند ہوا کو سلیمان کیلئے مسخر کر دیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت قرار دی ہے اور ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے۔

۸۲.   اور ہم نے کچھ شیطانوں (جنات) کو ان کا تابع بنا دیا تھا جو ان کے لئے غوطہ زنی کرتے تھے۔ اور اس کے علاوہ اور کام بھی کرتے تھے اور ہم ہی ان کے نگہبان تھے۔

۸۳.   اور ایوب (کا ذکر کیجئے ) جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا مجھے (بیماری کی) تکلیف پہنچ رہی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے (میرے حال پر رحم فرما)۔

۸۴.   ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو جو تکلیف تھی وہ دور کر دی اور اپنی خاص رحمت سے ہم نے ان کو ان کے اہل و عیال عطا کئے اور ان کے برابر اور بھی اور اس لئے کہ یہ عبادت گزاروں کیلئے یادگار ہے۔

۸۵.   اور اسماعیلؑ ، ادریسؑ اور ذوالکفل (کا تذکرہ کیجئے ) یہ سب (راہ حق میں ) صبر کرنے والوں میں سے تھے۔

۸۶.   اور ہم نے ان سب کو اپنی (خاص) رحمت میں داخل کر لیا تھا۔ یقیناً وہ نیکوکار بندوں میں سے تھے۔

۸۷.   اور ذوالنون (مچھلی والے ) کا (ذکر کیجئے ) جب وہ خشمناک ہو کر چلے گئے اور وہ سمجھے کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے اندھیروں میں سے پکارا۔ تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ پاک ہے تیری ذات بے شک میں زیاں کاروں میں سے ہوں۔

۸۸.   ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں غم سے نجات دی اور ہم اسی طرح ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔

۸۹.    اور زکریاؑ کا (ذکر کیجئے ) جب انہوں نے پکارا اے میرے پروردگار! مجھے (وارث کے بغیر) اکیلا نہ چھوڑ۔ جبکہ تو خود بہترین وارث ہے۔

۹۰.    ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں یحییٰ (جیسا بیٹا) عطا کیا اور ان کی بیوی کو ان کیلئے تندرست کر دیا۔ یہ لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہم کو شوق و خوف (اور امید و بیم) کے ساتھ پکارتے تھے اور وہ ہمارے لئے (عجز و نیاز سے ) جھکے ہوئے تھے۔

۹۱.    اور اس خاتون (کا ذکر کیجئے ) جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی (خاص) روح پھونک دی۔ اور انہیں اور ان کے بیٹے (عیسیٰ) کو دنیا جہان والوں کیلئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیا۔

۹۲.    (اے ایمان والو) یہ تمہاری (ملت) ہے جو درحقیقت ملت واحدہ ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں۔ بس تم میری ہی عبادت کرو۔

۹۳.    لیکن لوگوں نے اپنے (دینی) معاملہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا (انجام کار) سب ہماری ہی طرف لوٹ کر آنے والے ہیں۔

۹۴.    پس جو کوئی نیک کام کرے درآنحالیکہ وہ مؤمن ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہ ہو گی اور ہم اسے لکھ رہے ہیں۔

۹۵.    اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا اس کیلئے حرام ہے۔ یعنی وہ (دنیا میں ) دوبارہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔

۹۶.    یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دیئے جائیں گے تو وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے نکل پڑیں گے۔

۹۷.   اور (جب) اللہ کا سچا وعدہ (قیامت کا) قریب آ جائے گا تو ایک دم کافروں کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی (اور کہیں گے ) ہائے افسوس! ہم اس سے غفلت میں رہے بلکہ ہم ظالم تھے۔

۹۸.    بے شک تم اور وہ چیزیں جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے جہنم کا ایندھن ہیں اس میں تم سب کو داخل ہونا ہے۔

۹۹.    اگر یہ چیزیں برحق خدا ہوتیں تو جہنم میں نہ جاتیں اب تم سب کو اس میں ہمیشہ رہنا ہے۔

۱۰۰.   ان کی اس میں چیخ و پکار ہو گی اور وہ اس میں کچھ نہیں سنیں گے۔

۱۰۱.   ہاں البتہ وہ لوگ جن کیلئے ہماری طرف سے پہلے بھلائی مقدر ہو چکی ہو گی وہ اس سے دور رہیں گے۔

۱۰۲.   وہ اس کی آہٹ بھی نہیں سنیں گے اور وہ اپنی من پسند نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔

۱۰۳.  ان کو بڑی گھبراہٹ بھی غمزدہ نہیں کر سکے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے (اور بتائیں گے کہ) یہ ہے آپ کا وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

۱۰۴.  جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح طومار میں خطوط لپیٹے جاتے ہیں جس طرح ہم نے پہلے تخلیق کی ابتداء کی تھی اسی طرح ہم اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے یقیناً ہم اسے (پورا) کر کے رہیں گے۔

۱۰۵.  اور ہم نے ذکر (توراۃ یا پند و نصیحت) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔

۱۰۶.   بے شک اس میں عبادت گزار لوگوں کیلئے بڑا انعام ہے۔

۱۰۷.  (اے رسول) ہم نے آپ کو تمام عالمین کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

۱۰۸.  آپ کہہ دیجئے ! کہ میری طرف جو کچھ وحی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا الٰہ بس ایک الہ ہے۔ تو کیا تم اس کے آگے سر جھکاتے ہو؟

۱۰۹.   پس اگر وہ اس سے روگردانی کریں تو آپ کہہ دیجئے ! کہ میں نے برابر آپ کو خبردار کر دیا ہے اب مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا دور؟

۱۱۰.   بے شک وہ (اللہ) بلند آواز سے کہی گئی بات کو بھی جانتا ہے اور اسے بھی جسے تم چھپاتے ہو۔

۱۱۱.    اور میں کیا جانوں ؟ کہ یہ تاخیر) تمہارے لئے آزمائش ہے یا ایک خاص وقت تک زندگی کا لطف اٹھانے کی مہلت ہے۔

۱۱۲.   (آخرکار رسولﷺ نے ) کہا اے میرے پروردگار! تو حق کے ساتھ فیصلہ کر دے۔ (اے لوگو) ہمارا پروردگار وہی خدائے رحمن ہے جس سے ان باتوں کے خلاف مدد مانگی جاتی ہے جو تم بنا رہے ہو۔

٭٭

 

 

 

۲۲۔ سورۃ الحج

 

 

۱.      اے لوگو! اپنے پروردگار (کی ناراضی) سے ڈرو۔ بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی شے ہے۔

۲.     جس دن تم اسے دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی (ماں ) اس (بچہ) سے غافل ہو جائے گی جسے وہ دودھ پلاتی ہے اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی۔ اور تم لوگوں کو نشہ میں مدہوش دیکھو گے۔ حالانکہ وہ نشہ میں مدہوش نہیں ہوں گے۔ مگر اللہ کا عذاب بڑا سخت ہو گا۔

۳.     اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو اللہ کے بارے میں علم کے بغیر کج بحثی کرتے ہیں اور سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔

۴.     جس (مردود) کے بارے میں لکھا جا چکا ہے کہ جو کوئی اس کو دوست بنائے گا وہ ضرور اسے گمراہ کرے گا۔ اور اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا راستہ دکھائے گا۔

۵.     اے لوگو! اگر تمہیں (دوبارہ) اٹھائے جانے میں شک ہے تو (اس میں تو کوئی شک نہیں کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفہ سے، پھر جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو متشکل (مکمل تخلیق والا) بھی ہوتا ہے اور غیر متشکل (نامکمل تخلیق والا) بھی۔ اور یہ اس لئے ہے کہ ہم تم پر (اپنی قدرت کی کار فرمائی) واضح کریں اور ہم جس (نطفے ) کو چاہتے ہیں ایک مقررہ مدت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تمہیں بچے کی صورت میں باہر نکالتے ہیں پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں ) تاکہ اپنی پوری قوت کی منزل (جوانی) تک پہنچو۔ پھر تم میں سے بعض کو تو (بڑھاپے سے پہلے ) اٹھا لیا جاتا ہے اور بعض کو پست ترین عمر کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے تاکہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک پڑی ہے تو جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ لہلہانے اور ابھرنے لگتی ہے اور ہر قسم کی خوشنما نباتات اگاتی ہے۔

۶.     یہ (سب کچھ) اس لئے ہے کہ اللہ ہی کی ذات حق ہے۔ اور بے شک وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۷.     اور قیامت ضرور آنے والی ہے۔ جس میں کوئی شک نہیں ہے اور یقیناً اللہ انہیں زندہ کرے گا جو قبروں میں ہیں۔

۸.     اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم کے، بغیر کسی راہنمائی کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے کج بحثی کرتے ہیں۔

۹.     (غرور سے ) اپنے شانے کو موڑے ہوئے (اور گردن اکڑائے ہوئے ) تاکہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے گمراہ کریں ان کیلئے دنیا میں رسوائی ہے اور قیامت کے دن ہم انہیں جلانے والی آگ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

۱۰.    تب اسے بتایا جائے گا کہ یہ سب کچھ سزا ہے اس کی جو تیرے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور خدا ہرگز اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

۱۱.     اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو کنارہ پر رہ کر خدا کی عبادت کرتا ہے۔ سو اگر اسے کوئی فائدہ پہنچ جائے تو وہ اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پیش آ جائے (یا کوئی مصیبت پہنچ جائے ) تو فوراً (اسلام سے ) منہ موڑ لیتا ہے۔ اس نے دنیا و آخرت کا گھاٹا اٹھایا اور یہ کھلا ہوا خسارہ ہے۔

۱۲.    وہ اللہ کو چھوڑ کر اس کو پکارتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچاتا ہے اور نہ نفع۔ یہی تو انتہائی گمراہی ہے۔

۱۳.    وہ ایسے کو پکارتا ہے جس کا ضرر اس کے فائدہ سے زیادہ قریب ہے۔ کیا ہی برا ہے آقا اور کیا ہی برا ہے ساتھی۔

۱۴.    بے شک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے ان بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ بیشک اللہ وہ کرتا ہے جو کچھ وہ چاہتا ہے۔

۱۵.    جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ خدا دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعہ آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے۔ پھر دیکھے کہ آیا اس کی یہ تدبیر اس چیز کو دور کر سکتی ہے جو اسے غصہ میں لا رہی تھی۔

۱۶.    اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو نازل کیا ہے روشن دلیلوں کی صورت میں اور بے شک اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

۱۷.    بے شک جو اہلِ ایمان ہیں، جو یہودی ہیں، جو صابی ہیں، جو عیسائی ہیں، جو مجوسی ہیں اور جو مشرک ہیں یقیناً قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

۱۸.    کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہر چیز اللہ کو سجدہ کر رہی ہے خواہ وہ آسمانوں میں ہے یا زمین میں۔ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور بہت سارے انسان بھی اور بہت سے انسان وہ ہیں جن پر عذاب مقرر ہو چکا ہے اور جس کو اللہ ذلیل کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں ہے بیشک اللہ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔

۱۹.    یہ دو فریق ہیں جو اپنے پروردگار کے بارے میں باہم جھگڑ رہے ہیں تو ان میں سے جو لوگ کافر ہیں ان کیلئے آگ کے کپڑے کاٹے جا چکے ہیں ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔

۲۰.    (اور) جس سے ان کے پیٹ کے اندر کی چیزیں اور کھالیں گل جائیں گی۔

۲۱.    اور ان کے لئے لوہے کے گرز ہوں گے۔

۲۲.    جب بھی چاہیں گے کہ اس (جہنم) سے نکل کر رنج و غم سے چھٹکارا پائیں تو پھر اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے اور (ان سے کہا جائے گا کہ) جلانے والی آگ کا مزہ چکھو۔

۲۳.   جو لوگ ایمان لائے اور اس کے ساتھ نیک عمل بھی کئے بے شک اللہ ان کو ان بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہاں ان کو سونے کے کنگن اور موتی (کے ہار) پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔

۲۴.   (یہ اس لئے ہے کہ) انہیں پاکیزہ گفتگو کی طرف ہدایت دی گئی اور انہیں لائق ستائش (خدا) کی راہ کی طرف راہنمائی کی گئی۔

۲۵.   جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور (لوگوں ) کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں اور اس مسجد سے جسے ہم نے (بلا امتیاز) سب لوگوں کیلئے (عبادت گاہ) بنایا ہے جس میں وہاں کے رہنے والے اور باہر سے آنے والے برابر ہیں اور جو بھی اس میں ظلم و زیادتی کے ساتھ غلط روی کا ارادہ کرے تو ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

۲۶.    اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیمؑ کیلئے خانہ کعبہ کی جگہ معین کر دی۔ (اور حکم دیا کہ) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے پاک رکھنا۔

۲۷.   اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۔ کہ لوگ (آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ) آپ کے پاس آئیں گے۔ پیادہ پا اور ہر لاغر سواری پر کہ وہ سواریاں دور دراز سے آئی ہوں گی۔

۲۸.   تاکہ وہ اپنے فائدوں کیلئے حاضر ہوں اور مقررہ (دنوں میں خدا کا نام لیں ) ان چوپایوں پر (ذبح کے وقت) جو اللہ نے انہیں عنایت فرمائے۔ پس خود بھی ان سے کھاؤ اور حاجت مند فقیر کو بھی کھلاؤ۔

۲۹.    پھر لوگوں کو چاہیئے کہ اپنی میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور قدیم گھر (خانہ کعبہ) کا طواف کریں۔

۳۰.   یہ ہے حج اور اس کے مناسک کی بات! جو اللہ کی محترم چیزوں کی تعظیم کرتا ہے۔ تو یہ اس کے پروردگار کے ہاں بہتر ہے اور تمہارے لئے چوپائے حلال ہیں۔ بجز ان کے جو تم سے بیان کئے جاتے رہتے ہیں۔ پس تم بتوں کی گندگی سے پرہیز کرو۔ اور راگ گانے کی مجلس سے اجتناب کرو۔

۳۱.    صرف اللہ ہی کیلئے ہو کر رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گرا تو اسے کسی پرندہ نے اچک لیا یا ہوا نے اسے کسی دور دراز جگہ پر پھینک دیا۔

۳۲.   یہ ہے حقیقت حال! اور جو کوئی شعائر اللہ کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔

۳۳.   تمہارے ان جانوروں میں ایک مقررہ مدت تک فائدے ہیں۔ پھر ان کے ذبح کرنے کا مقام اسی قدیم گھر کی طرف ہے۔

۳۴.   اور ہم نے ہر قوم کیلئے قربانی کا ایک طور طریقہ مقرر کیا ہے۔ تاکہ وہ ان چوپایوں پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیں، جو اس نے انہیں عطا کئے ہیں (الغرض) تمہارا اللہ ایک ہی ہے لہٰذا تم اس کی بارگاہ میں سر جھکاؤ اور ان عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔

۳۵.   کہ جب (ان کے سامنے ) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دھل جاتے ہیں۔ اور جو ان مصائب و آلام پر صبر کرنے والے ہیں جو انہیں پہنچتے ہیں اور جو پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں۔ اور ہم نے انہیں جو کچھ عطا کیا ہے اس میں سے (راہ خدا میں ) خرچ کرتے رہتے ہیں۔

۳۶.   اور ہم نے قربانی کے اونٹوں کو تمہارے لئے شعائر اللہ سے قرار دیا ہے۔ ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے پس تم ان کو صف بستہ کھڑا کر کے خدا کا نام لو۔ اور جب وہ کروٹ کے بل گر پڑیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور بے سوال اور سوالی کو بھی کھلاؤ اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکرگزار (بندے ) بن جاؤ۔

۳۷.   نہ ان کا گوشت اللہ تک پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون ہاں البتہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اسی طرح ہم نے انہیں تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ تم اس کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی و بڑائی بیان کرو۔ اور (اے رسول) احسان کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔

۳۸.   بے شک اللہ اہلِ ایمان کی طرف سے دفاع کرتا ہے۔ یقیناً اللہ کسی خیانت کار کفرانِ نعمت کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔

۳۹.    ان مظلوموں کو (دفاعی جہاد کی) اجازت دی جاتی ہے جن سے جنگ کی جا رہی ہے اس بناء پر کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے۔ اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔

۴۰.   یہ وہ (مظلوم) ہیں جو ناحق اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے صرف اتنی بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو نصرانیوں کی خانقاہیں اور گرجے اور (یہود کے ) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں بکثرت ذکر خدا ہوتا ہے۔ سب گرا دی جاتیں جو کوئی اللہ (کے دین) کی مدد کرے گا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بیشک وہ طاقت والا (اور) غالب آنے والا ہے۔

۴۱.    یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ (اختیار) میں ہے۔

۴۲.   (اے رسولﷺ) اگر لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ) ان سے پہلے (کئی قومیں اپنے نبیوں کو جھٹلا چکی ہیں جیسے ) قوم نوح نے، عاد و ثمود نے۔

۴۳.   اور قوم ابراہیمؑ نے اور قوم لوط نے (جھٹلایا)۔

۴۴.   اور اہل مدین نے بھی۔ اور موسیٰ کو بھی جھٹلایا گیا۔ سو پہلے میں نے کافروں کو (کچھ) مہلت دی اور پھر انہیں پکڑ لیا۔ تو (دیکھو) میرا عذاب کیسا تھا؟

۴۵.   غرض کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تباہ و برباد کر دیا کیونکہ وہ ظالم تھیں (چنانچہ) وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں اور کتنے کنویں ہیں جو بیکار پڑے ہیں اور کتنے مضبوط محل ہیں (جو کھنڈر بن گئے ہیں )۔

۴۶.   کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں تاکہ( یہ منظر دیکھ کر) ان کے دل ایسے ہو جاتے کہ جن سے وہ (حق کو) سمجھ سکتے اور کان ایسے ہو جاتے جن سے (آواز حق) سن سکتے۔ مگر (حقیقت یہ ہے کہ) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

۴۷.   (اے رسولﷺ) یہ لوگ آپ سے عذاب کے مطالبہ میں جلدی کر رہے ہیں اور اللہ کبھی اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور آپ کے پروردگار کے نزدیک ایک دن تم لوگوں کے شمار کئے ہوئے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔

۴۸.   اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جن کو میں نے مہلت دی۔ حالانکہ وہ ظالم تھیں۔ پھر میں نے انہیں پکڑ لیا اور (آخرکار) میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔

۴۹.    (اے رسولﷺ) آپ کہہ دیجئے ! اے لوگو! میں تو صرف تمہیں ایک کھلا ہوا (عذاب خدا سے ) ڈرانے والا ہوں۔

۵۰.   سنو جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کیلئے (گناہوں کی) بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی۔

۵۱.    اور جو لوگ ہماری آیتوں کے بارے میں (ہمیں ) عاجز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہی لوگ (دوزخی) ہیں۔

۵۲.   اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب اس نے (اصلاح احوال کی) آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی۔ پس شیطان جو خلل اندازی کرتا ہے خدا اسے مٹا دیتا ہے اور اپنی نشانیوں کو زیادہ مضبوط کر دیتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔

۵۳.   (یہ سب اس لئے ہے ) تاکہ اللہ شیطانوں کی خلل اندازی کو ان لوگوں کیلئے آزمائش کا ذریعہ بنائے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں بے شک ظالم لوگ بڑی گہری مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں۔

۵۴.   اور اس میں (یہ مصلحت بھی ہے ) کہ وہ لوگ جنہیں علم عطا کیا گیا ہے۔ جان لیں کہ یہ (وحی) آپ کے پروردگار کی طرف سے حق ہے تاکہ وہ اس پر ایمان لائیں اور ان کے دلوں میں اس کیلئے عجز و نیاز پیدا ہو جائے۔ بے شک اللہ ایمان لانے والوں کو سیدھے راستہ تک پہنچانے والا ہے۔

۵۵.   اور جو کافر ہیں وہ تو ہمیشہ اس کی طرف سے شک میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ اچانک قیامت ان پر آ جائے۔ یا پھر منحوس دن کا عذاب ان پر آ جائے۔

۵۶.   اس دن بادشاہی صرف اللہ ہی کی ہو گی (لہٰذا) وہی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ پس جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ نعمتوں والے بہشتوں میں ہوں گے۔

۵۷.   اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کیلئے رسوا کن عذاب ہے۔

۵۸.   اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر قتل کر دیئے گئے۔ یا اپنی موت مر گئے (دونوں صورتوں میں ) اللہ ضرور انہیں اچھی روزی عطا فرمائے گا (کیونکہ) وہ بہترین روزی عطا کرنے والا ہے۔

۵۹.    (اور) وہ ضرور انہیں ایسی جگہ داخل کرے گا جسے وہ پسند کریں گے۔ بے شک وہ بڑا جاننے والا، بڑا بردبار ہے۔

۶۰.    یہ بات تو ہو چکی۔ اور جو شخص ویسی ہی سزا دے جیسی اسے سزا ملی ہے پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، بڑا بخشنے والا ہے۔

۶۱.    یہ اس لئے ہے کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔

۶۲.    اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ ہی حق ہے۔ اور اس کے علاوہ جسے وہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے۔ اور بے شک اللہ ہی بلند (مرتبہ والا) بزرگ ہے۔

۶۳.   کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا آسمان سے پانی برساتا ہے تو (خشک) زمین سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے۔ بے شک اللہ بڑا لطف و کرم کرنے والا (اور) بڑا خبر رکھنے والا ہے۔

۶۴.   جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور بے شک اللہ سب سے بے نیاز (اور) ہر تعریف کا حقدار ہے۔

۶۵.   کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو کچھ زمین میں ہے۔ اللہ نے وہ سب کچھ تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور کشتی کو بھی جو سمندر میں اس کے حکم سے چلتی ہے۔ اور وہی آسمان کو روکے ہوئے ہے کہ اس کے حکم کے بغیر زمین پر نہ گر پڑے۔ بے شک اللہ لوگوں پر بڑا شفقت والا، بڑا رحمت والا ہے۔

۶۶.    وہ وہی ہے جس نے تمہیں زندگی عطا کی ہے پھر وہی تمہیں موت دے گا۔ اور پھر (دوبارہ) زندہ کرے گا۔ بے شک انسان بڑا ناشکرا ہے۔

۶۷.   (اے رسولﷺ) ہم نے ہر قوم کیلئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کے مطابق وہ عبادت کر رہی ہے۔ اس لئے انہیں آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے اور آپ اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہیے ! یقیناً آپ ہدایت کے سیدھے راستہ پر ہیں۔

۶۸.   اور اگر وہ لوگ (خواہ مخواہ) آپ سے بحث کریں تو آپ کہہ دیجئے ! کہ اللہ بہتر جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔

۶۹.    قیامت کے دن اللہ تمہارے درمیان ان باتوں کے بارے میں فیصلہ کر دے گا جن میں تم باہم اختلاف کرتے ہو۔

۷۰.   کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں ہے۔ بے شک یہ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اور یہ بات اللہ پر آسان ہے۔

۷۱.    اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جن کیلئے نہ تو اللہ نے کوئی دلیل (سند) نازل کی ہے اور نہ ہی انہیں ان کے بارے میں کوئی علم ہے اور (ان) ظالموں کیلئے کوئی مددگار نہیں ہے۔

۷۲.   اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو تم کافروں کے چہروں پر ناگواری کے آثار واضح محسوس کرتے ہو۔ قریب ہے وہ ان پر حملہ کر دیں جو ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بڑھ کر ناگوار چیز کیا ہے ؟ وہ دوزخ کی آگ ہے۔ جس کا اللہ نے کافروں سے وعدہ کر رکھا ہے۔ اور وہ بڑا برا ٹھکانہ ہے۔

۷۳.   اے لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ اللہ کو چھوڑ کر تم جن معبودوں کو پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ اگرچہ وہ سب کے سب اس کام کے لئے اکٹھے ہو جائیں۔ اور اگر ایک مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اسے اس (مکھی) سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب و مطلوب دونوں ہی کمزور و ناتواں ہیں۔

۷۴.   ان لوگوں نے اللہ کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح قدر کرنی چاہیے۔ بے شک اللہ بڑا طاقتور ہے (اور) سب پر غالب ہے۔

۷۵.   اللہ پیغام پہنچانے والے فرشتوں میں سے منتخب کر لیتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ بیشک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔

۷۶.   وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور سب معاملات کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔

۷۷.   اے ایمان والو! رکوع و سجود کرو۔ اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ اور نیک کام کرو۔ تاکہ تم فلاح پاؤ۔

۷۸.   اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ جیساکہ جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تمہیں منتخب کیا ہے۔ اور دین کے معاملہ میں اس نے تمہارے لئے کوئی تنگی روا نہیں رکھی۔ اپنے باپ (مورث اعلیٰ) ابراہیمؑ کی ملت کی پیروی کرو۔ اسی (اللہ) نے اس سے پہلے بھی تمہارا نام مسلمان رکھا اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہوں۔ اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ پس تم نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ۔ وہی تمہارا مولا ہے سو کیسا اچھا مولا ہے اور کیسا اچھا مددگار ہے۔

٭٭

 

 

 

۲۳۔ سورۃ مُومنون

 

۱.  یقیناً وہ اہلِ ایمان فلاح پا گئے۔

۲. جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں۔

۳. اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑتے ہیں۔

۴. اور جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔

۵. اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

۶. سوائے اپنی بیویوں کے اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت ہیں کہ اس صورت میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔

۷. اور جو اس (دو طرح) کے علاوہ کوئی خواہش کرے تو ایسے ہی لوگ (حد سے ) تجاوز کرنے والے ہیں۔

۸. اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا لحاظ رکھتے ہیں۔

۹.  اور جو اپنی نمازوں کی پوری حفاظت کرتے ہیں۔

۱۰. یہی لوگ وارث ہیں۔

۱۱. جو فردوس (بریں ) کے وارث ہوں گے (اور) وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

۱۲. یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔

۱۳.        پھر ہم نے اسے نطفہ کی صورت میں ایک محفوظ مقام (رحم) میں رکھا۔

۱۴.        پھر ہم نے نطفہ کو منجمد خون بنایا اور پھر ہم نے اس منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا پھر اس لوتھڑے سے ہڈیاں پیدا کیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے (اس میں روح ڈال کر) ایک دوسری مخلوق بنا دیا۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ اللہ جو بہترین خالق ہے۔

۱۵.        پھر تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو۔

۱۶. پھر اس کے بعد تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔

۱۷.       اور یقیناً ہم نے تمہارے اوپر سات راستے (آسمان) پیدا کئے ہیں اور ہم (اپنی) مخلوق سے غافل نہیں تھے۔

۱۸.        اور ہم نے ایک خاص اندازہ کے ساتھ آسمان سے پانی برسایا اور اسے زمین میں ٹھہرایا اور یقیناً ہم اسے لے جانے پر بھی قادر ہیں۔

۱۹. پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات اگائے ان باغوں میں تمہارے لئے بہت سے پھل ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو۔

۲۰.       اور (ہم نے ) ایک درخت ایسا بھی (پیدا کیا) جو طور سینا سے نکلتا ہے (زیتون کا درخت) جو کھانے والوں کیلئے تیل اور سالن لے کر اگتا ہے۔

۲۱. اور تمہارے لئے چوپایوں میں بڑا سامانِ عبرت ہے ہم تمہیں اس سے (دودھ) پلاتے ہیں جو ان کے پیٹوں میں ہے اور تمہارے لئے ان میں اور بہت سے فائدے ہیں اور انہی کے (گوشت) سے تم کھاتے بھی ہو۔

۲۲.       اور ان پر اور کشتیوں پر تمہیں سوار کیا جاتا ہے۔

۲۳.       اور بے شک ہم نے نوحؑ کو ان کی قوم کی طرف ہدایت کیلئے بھیجا۔ تو آپ نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے۔ کیا تم (اس کی حکم عدولی سے ) نہیں ڈرتے ؟

۲۴.       تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا کہ یہ (نوحؑ) نہیں ہے مگر تم ہی جیسا ایک بشر (آدمی) ہے جو تم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر خدا (یہی) چاہتا تو وہ فرشتوں کو بھیجتا۔ ہم نے تو یہ بات اپنے پہلے باپ داداؤں سے نہیں سنی۔

۲۵.       بس یہ ایک آدمی ہے۔ جسے کچھ جنون ہو گیا ہے۔ پس تم اس کے بارے میں کچھ مدت تک انتظار کرو۔

۲۶.       آپ نے کہا اے میرے پروردگار! تو میری مدد کر کیونکہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔

۲۷.       سو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تم ہماری نگرانی اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ۔ پس جب ہمارا عذاب آ جائے۔ اور تنور سے پانی ابلنے لگے تو ہر قسم کے نر اور مادہ (جانوروں ) میں سے جوڑا جوڑا (اس میں ) داخل کر لو۔ اور اپنے گھر والوں کو بھی سوا ان کے جن کے خلاف پہلے سے فیصلہ ہو چکا ہے۔ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا کیونکہ یہ اب یقیناً غرق ہونے والے ہیں۔

۲۸.       اور جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی پر سوار ہو جائیں تو کہنا۔ الحمد ﷲ۔ سب تعریف اس اللہ کیلئے ہے۔ جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی ہے۔

۲۹.        اور کہنا اے میرے پروردگار! مجھے بابرکت، اتار تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔

۳۰.       بے شک اس (واقعہ) میں بڑی نشانیاں ہیں اور ہم (لوگوں کی) آزمائش کیا کرتے ہیں۔

۳۱.        پھر ہم نے ان کے بعد ایک اور نسل پیدا کی۔

۳۲.       پھر ہم نے انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا (جس نے ان سے کہا) اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ کیا تم (اس کی حکم عدولی) سے ڈرتے نہیں ہو؟

۳۳.       اور اس کی قوم کے وہ سردار جو کافر تھے اور آخرت کی حاضری کو جھٹلاتے تھے اور جنہیں ہم نے دنیوی زندگی میں آسودگی دے رکھی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ یہ نہیں ہے مگر تمہارے ہی جیسا ایک بشر (آدمی) ہے یہ وہی (خوراک) کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی (مشروب) پیتا ہے۔ جو تم پیتے ہو۔

۳۴.       اور اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو تم گھاٹے میں رہو گے۔

۳۵.       کیا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جاؤ گے تو پھر تم (قبروں سے ) نکالے جاؤ گے ؟

۳۶.       (حاشا و کلا) بہت بعید ہے بہت بعید ہے وہ بات جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

۳۷.       کوئی اور زندگی نہیں سوائے اس دنیوی زندگی کے جس میں ہمیں مرنا بھی ہے اور جینا بھی۔ اور ہمیں (دوبارہ) نہیں اٹھایا جائے گا۔

۳۸.       وہ نہیں ہے مگر ایک ایسا شخص جس نے خدا پر جھوٹا بہتان باندھا ہے اور ہم تو (اس کو) ماننے والے نہیں ہیں۔

۳۹.       اس (رسول) نے کہا اے میرے پروردگار! تو میری مدد کر! کیونکہ ان لوگوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔

۴۰.       ارشاد ہوا کہ عنقریب یہ لوگ (اپنے کئے پر) پشیمان ہوں گے۔

۴۱.        چنانچہ بجا طور پر انہیں ایک سخت آواز نے آ پکڑا اور ہم نے انہیں خس و خاشاک بنا دیا سو ہلاکت ہے ظالم قوم کیلئے۔

۴۲.       پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کیں۔

۴۳.       کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے۔ اور نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔

۴۴.       پھر ہم نے لگاتار اپنے رسول بھیجے جب بھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم بھی ایک کے بعد دوسرے کو ہلاک کرتے رہے۔ اور ہم نے انہیں قصہ پارینہ (اور افسانہ) بنا دیا۔ پس تباہی ہو اس قوم کیلئے جو ایمان نہیں لاتے۔

۴۵.       پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور کھلی ہوئی دلیل کے ساتھ۔

۴۶.       فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ لوگ بڑے سرکش لوگ تھے۔

۴۷.       چنانچہ وہ کہنے لگے کہ ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لائیں حالانکہ ان کی قوم ہماری خدمت گزار ہے۔

۴۸.       پس ان لوگوں نے ان دونوں کو جھٹلایا (نتیجہ یہ نکلا کہ) وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو گئے۔

۴۹.       اور ہم نے موسیٰ کو کتاب (توراۃ) عطا کی تاکہ وہ لوگ ہدایت پائیں۔

۵۰.       اور ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو (اپنی قدرت کی) نشانی بنایا اور ان دونوں کو ایک بلند مقام پر پناہ دی جو ٹھہرنے کے قابل بھی تھا اور جہاں چشمے جاری تھے۔

۵۱.        اے (میرے ) پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ بیشک تم جو کچھ کرتے ہو میں اسے خوب جانتا ہوں۔

۵۲.       اور یہ تمہاری امت (جماعت) ایک امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں سو تم مجھ ہی سے ڈرو۔

۵۳.       مگر ان لوگوں نے اپنے (دینی) معاملہ کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا پس ہر گروہ کے پاس جو (دین) ہے وہ اس پر خوش ہے۔

۵۴.       پس (اے رسولﷺ) آپ ان کو ایک خاص وقت تک اپنی غفلت و مدہوشی میں پڑا رہنے دیجئے۔

۵۵.       کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد (کی فراوانی) سے ان کی امداد کر رہے ہیں۔

۵۶.       تو ہم ان کے ساتھ بھلائیاں کرنے میں جلدی کر رہے ہیں ؟ (ایسا نہیں ) بلکہ انہیں (اصل حقیقت کا) شعور نہیں ہے۔

۵۷.       بے شک جو لوگ اپنے پروردگار کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔

۵۸.       اور جو اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔

۵۹.       اور جو اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔

۶۰.       اور وہ جو دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں (پھر بھی) ان کے دل اس خیال سے ترساں رہتے یں کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

۶۱. یہی لوگ بھلائیاں کرنے میں جلدی کیا کرتے ہیں اور بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں۔

۶۲.       ہم کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس وہ کتاب (نامۂ اعمال) ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

۶۳.       بلکہ ان کے دل اس (دینی) معاملہ میں غفلت و سرشاری میں پڑے ہیں اور اس کے علاوہ بھی ان کے کچھ (برے ) عمل ہیں جو یہ کرتے رہتے ہیں۔

۶۴.       یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو عذاب کی گرفت میں لیتے ہیں تو وہ چیخنے چلانے لگتے ہیں۔

۶۵.       آج کے دن چیخو چلاؤ نہیں (آج) ہماری طرف سے تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔

۶۶.       (وہ وقت یاد کرو جب) میری آیتیں تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو تم (سنتے ہی) الٹے پاؤں پلٹ جایا کرتے تھے۔

۶۷.       تکبر کرتے ہوئے داستان سرائی کرتے ہوئے (اور) بے ہودہ بکتے ہوئے۔

۶۸.       کیا ان لوگوں نے اس کلام میں کبھی غور نہیں کیا یا ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جو ان کے پہلے والے باپ داداؤں کے پاس نہیں آئی تھی؟

۶۹.        یا کیا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانا نہیں ہے ؟ اس لئے منکر ہو گئے۔

۷۰.       یا وہ کہتے ہیں کہ یہ مجنون ہے ؟ بلکہ وہ تو ان کے پاس حق لے کر آیا ہے اور اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔

۷۱.       اور اگر حق لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرتا تو آسمان و زمین اور جو ان کے اندر ہے سب درہم برہم ہو جاتے۔ بلکہ ہم تو ان کے پاس نصیحت لے کر آئے مگر وہ اپنی نصیحت سے ہی روگردانی کرتے ہیں۔

۷۲.       کیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہیں ؟ تمہارے لئے تو تمہارے پروردگار کا معاوضہ بہت بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔

۷۳.       اور بے شک آپ ان لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہیں۔

۷۴.       اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔

۷۵.       اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جس تکلیف میں مبتلا ہیں وہ بھی دور کر دیں تو بھی یہ لوگ اپنی سرکشی میں اندھا دھند بڑھتے جائیں گے۔

۷۶.       اور ہم نے انہیں سزا میں گرفتار بھی کیا مگر وہ پھر بھی اپنے پروردگار کے سامنے نہ جھکے اور نہ تضرع و زاری کی۔

۷۷.       یہاں تک کہ جب ہم ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے تو وہ ایک دم نا امید ہو جائیں گے۔

۷۸.       اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے جان، آنکھیں اور دل بنائے (لیکن) تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔

۷۹.       وہ وہی ہے جس نے تمہیں روئے زمین پر (پیدا کر کے ) پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تم اکٹھے کئے جاؤ گے۔

۸۰.       وہ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور رات اور دن کی آمد و رفت اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟

۸۱.        ان لوگوں نے وہی بات کہی ہے جو ان کے پہلے (کافر) کہتے رہے ہیں۔

۸۲.       کہتے ہیں کہ جب ہم مر جائیں گے اور خاک اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔

۸۳.       ہم سے بھی اور اس سے پہلے ہمارے باپ داداؤں سے بھی یہ وعدہ ہوتا آیا ہے۔ یہ کچھ بھی نہیں صرف پہلے عہدوں کے افسانے ہیں۔

۸۴.       آپ کہہ دیجیے اگر تم جانتے ہو تو (بتاؤ) کہ زمین اور جو اس میں رہتے ہیں کس کیلئے ہیں ؟

۸۵.       وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کیلئے ہیں۔ تو کہئے کہ تم غور کیوں نہیں کرتے ؟

۸۶.       آپ کہئے کہ سات آسمانوں اور اس بڑے تخت سلطنت کا پروردگار کون ہے ؟

۸۷.       وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ہے ! کہئے کیا تم پھر بھی پرہیزگار نہیں بنتے (اس سے نہیں ڈرتے ؟)۔

۸۸.       آپ کہئے کہ اگر جانتے ہو تو بتاؤ کہ ہر چیز کی بادشاہی کس کے قبضہ میں ہے۔ جو سب کو پناہ دیتا ہے۔ مگر اس کے مقابلہ میں پناہ نہیں دی جا سکتی۔

۸۹.       وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کے ! تو کہئے ! کہ پھر تم پر کہاں سے جادو کیا جا رہا ہے ؟

۹۰.        بلکہ ہم ان کے سامنے حق لے آئے ہیں۔ اور یقیناً وہ جھوٹے ہیں۔

۹۱. اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی الہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتا اور پھر ایک خدا دوسرے خدا پر چڑھ دوڑتا۔ پاک ہے خدا اس سے جو لوگ بیان کرتے ہیں۔

۹۲.        وہ غیب و شہادت یعنی پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے۔ اور وہ اس شرک سے بلند و بالا ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔

۹۳.       (اے رسولﷺ) آپ کہئے کہ اے میرے پروردگار اگر تو مجھے وہ عذاب دکھا دے جس کی ان لوگوں کو دھمکی دی جا رہی ہے۔

۹۴.       تو اے میرے پروردگار! مجھے ظالم لوگوں میں شامل نہ کرنا۔

۹۵.       اور ہم اس عذاب کے آپ کو دکھانے پر قادر ہیں جس کی ان کو دھمکی دی جا رہی ہے۔

۹۶.        (اے رسولﷺ) آپ برائی کو احسن طریقہ سے دفع کریں۔ ہم خوب جانتے ہیں جو وہ (آپ کی نسبت) بیان کرتے ہیں۔

۹۷.       اور آپ کہئے ! اے میرے پروردگار! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔

۹۸.       اور اے میرے پروردگار! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ (شیطان) میرے پاس آئیں۔

۹۹. (کافروں کی یہی حالت رہتی ہے ) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آ کھڑی ہوتی ہے تو (تب) کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار! مجھے (ایک بار) اسی دنیا میں واپس بھیج دے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔

۱۰۰.      تاکہ میں نیک عمل کر سکوں (ارشاد ہو گا) ہرگز نہیں ! یہ محض ایک (فضول) بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے (مرنے کے ) بعد برزخ کا زمانہ ہے ان کے (دوبارہ) اٹھائے جانے تک۔

۱۰۱.       پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ تو ان کے درمیان رشتے ناطے رہیں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔

۱۰۲.      (ہاں البتہ) جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی کامیاب ہوں گے۔

۱۰۳.      اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا (اور) وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

۱۰۴.      آگ ان کے چہروں کو جھلسا رہی ہو گی اور ان کی شکلیں اس میں بگڑ گئی ہوں گی۔

۱۰۵.      (ان سے کہا جائے گا) کیا تمہارے سامنے ہماری آیتیں نہیں پڑھی جاتی تھیں اور تم انہیں جھٹلاتے تھے ؟

۱۰۶.      (وہ اس وقت) کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہم پر ہماری بدبختی غالب آ گئی تھی۔ اور واقعی ہم گمراہ لوگ تھے۔

۱۰۷.      اے ہمارے پروردگار! (ایک بار) ہمیں اس سے نکال دے۔ پھر اگر ہم ایسا کریں گے تو بے شک ہم سراسر ظالم ہوں گے۔

۱۰۸.      ارشاد ہو گا اور مجھ سے کوئی بات نہ کرو۔

۱۰۹.       (تمہیں یاد ہے ) کہ بے شک میرے بندوں میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو کہتا تھا: اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لائے ہیں ! پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔

۱۱۰.       تو تم ان کا مذاق اڑاتے تھے یہاں تک کہ (گویا) انہوں نے تمہیں میری یاد بھی بھلا دی اور تم ان پر ہنستے تھے۔

۱۱۱.       (دیکھو) آج میں نے انہیں ان کے صبر کی جزا دی ہے۔ وہی کامران ہیں۔

۱۱۲.       ارشاد ہو گا تم کتنے برس تک زمین میں رہے ہو؟

۱۱۳.       وہ کہیں گے : ایک دن یا ایک دن کا بھی کچھ عرصہ۔ سو تو گننے والوں سے پوچھ لے۔

۱۱۴.       ارشاد ہو گا: تم نہیں رہے۔ مگر تھوڑا عرصہ کاش تم نے یہ بات سمجھی ہوتی۔

۱۱۵.       کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ ہم نے تمہیں بلا مقصد پیدا کیا ہے اور تم نے کبھی ہماری طرف پلٹ کر نہیں آنا ہے ؟

۱۱۶.       اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے (ایسی بات سے ) بلند و برتر ہے اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ وہ عزت و عظمت والے عرش کا مالک ہے۔

۱۱۷.      اور جو کوئی اللہ کے سوا کسی دوسرے (خود ساختہ) الہ (خدا) کو پکارتا ہے تو اس کے پاس اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے تو اس کا حساب و کتاب پروردگار کے پاس ہے۔ اور جو کافر ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔

۱۱۸.       اور (اے رسولﷺ) آپ کہئے ! اے میرے پروردگار! تو بخش دے اور رحم فرما۔ اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔

٭٭

 

 

۲۴۔ سورۃ نور

 

 

۱.      یہ ایک سورہ ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور ہم نے (ہی) اس (کے احکام) کو فرض کیا ہے۔ اور ہم نے ہی اس میں کھلی ہوئی آیتیں نازل کی ہیں۔ تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

۲.     زناکار عورت اور زناکار مرد ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے لگاؤ۔ اور اللہ کے دین کے معاملہ میں تمہیں ان پر ترس نہ آئے۔ اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور ان دونوں کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کی ایک جماعت کو موجود رہنا چاہیے۔

۳.     زناکار مرد نکاح نہیں کرتا مگر زناکار عورت یا مشرک عورت کے ساتھ اور زناکار عورت نکاح نہیں کرتی مگر زناکار مرد یا مشرک مرد کے ساتھ اور یہ (زنا) اہلِ ایمان پر حرام قرار دے دیا گیا ہے۔

۴.     اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور پھر چار گواہ پیش نہ کریں تو انہیں اسّی (۰۸) کوڑے لگاؤ اور کبھی ان کی کوئی گواہی قبول نہ کرو اور یہ لوگ فاسق ہیں۔

۵.     سوائے ان کے جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں۔ تو بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۶.     اور جو (خاوند) اپنی بیویوں پر تہمت (زنا) لگائیں اور (ثبوت کیلئے ) ان کے پاس خود ان کے سوا کوئی گواہ نہ ہو تو ان میں سے کسی کی گواہی اس طرح معتبر ہو گی کہ وہ چار مرتبہ خدا کی قسم کھائے کہ وہ (اپنے دعویٰ میں ) سچا ہے۔

۷.     اور پانچویں مرتبہ یوں کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے دعویٰ میں ) جھوٹا ہے۔

۸.     اور اس عورت سے یہ صورت شرعی حد کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ (خاوند) جھوٹا ہے۔

۹.     اور پانچویں بار یوں قسم کھائے کہ اس پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ (مرد) سچا ہے۔

۱۰.    اگر اللہ کا فضل و کرم اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ (بات نہ ہوتی) کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، بڑا حکمت والا ہے (تو اس الزام تراشی کا انجام بڑا دردناک ہوتا)۔

۱۱.     بے شک جو لوگ جھوٹا بہتان گھڑ کر لائے ہیں وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہے۔ تم اسے اپنے حق میں برا نہ سمجھو۔ بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اس (گروہ) میں سے ہر آدمی کیلئے اتنا حصہ ہے جتنا اس نے گناہ کمایا ہے۔ اور جو ان میں سے اس (گناہ) کے بڑے حصہ کا ذمہ دار ہے اس کیلئے عذاب بھی بہت بڑا ہے۔

۱۲.    ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے یہ (بہتان) سنا تھا تو مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں اپنوں کے حق میں نیک گمان کرتے اور کہتے کہ یہ تو ایک کھلا ہوا بہتان ہے۔

۱۳.    وہ اس پر چار گواہ کیوں نہیں لائے ؟ سو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو یہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہی ہیں۔

۱۴.    اور اگر تم پر دنیا و آخرت میں خدا کا فضل و کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس بات میں تم پڑ گئے تھے (اور اس کا چرچا کیا تھا) تمہیں سخت عذاب پہنچتا۔

۱۵.    جب تم لوگ اس (بہتان) کو ایک دوسرے کی زبان سے نقل کر رہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا خود تمہیں علم نہیں تھا۔ اور تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے۔ حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی۔

۱۶.    اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ (افواہ) سنی تھی تو کہہ دیتے کہ ہمارے لئے زیبا نہیں ہے کہ یہ بات منہ سے نکالیں۔ سبحان اللہ! یہ تو بڑا بہتان ہے۔

۱۷.    اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ تم مؤمن ہو تو آئندہ کبھی اس قسم کی بات نہ کرنا۔

۱۸.    اور اللہ تمہارے لئے (اپنی) آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے۔ اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔

۱۹.    اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بے حیائی و برائی کی اشاعت ہو (اور اس کا چرچا ہو) ان کیلئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

۲۰.    اور اگر تم پر اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ بڑا شفقت والا، بڑا رحم کرنے والا ہے (تو تم دیکھ لیتے کہ اس بہتان تراشی کا کیا انجام ہوتا)۔

۲۱.    اے ایمان والو! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اور جو کوئی شیطان کے نقش قدم پر چلتا ہے تو وہ اسے بے حیائی اور ہر طرح کی برائی کا حکم دیتا ہے اور اگر تم پر خدا کا فضل و کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک و صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اسے پاک و صاف کر دیتا ہے اور اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔

۲۲.    اور جو لوگ تم میں سے مال و دولت اور وسعت والے ہیں وہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابتداروں، مسکینوں اور راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے۔ چاہئے کہ یہ لوگ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے ؟ اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۲۳.   جو لوگ پاکدامن، بے خبر اور ایماندار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کیلئے بہت بڑا عذاب ہے۔

۲۴.   جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ ان کے اعمال کے متعلق جو وہ کیا کرتے تھے۔

۲۵.   اس دن اللہ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا جس کے وہ حقدار ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے جو نمایاں ہے (اور حق کا ظاہر کرنے والا ہے )۔

۲۶.    ناپاک باتیں، ناپاک لوگوں کے لئے (زیبا) ہیں اور ناپاک آدمی ناپاک باتوں کیلئے موزوں (مناسب) ہیں اور اچھی اور ستھری باتیں اچھے آدمیوں کیلئے (مناسب) ہیں۔ اور اچھے اور ستھرے آدمی اچھی اور ستھتری باتوں کے (لائق) ہیں اور یہ ان باتوں سے بری الذمہ ہیں جو لوگ (ان کے بارے میں ) کہتے ہیں ان کیلئے مغفرت ہے اور با عزت روزی۔

۲۷.   اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو۔ جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔ اور گھر والوں پر سلام نہ کرو۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ تاکہ نصیحت حاصل کرو۔

۲۸.   پھر اگر ان (گھروں ) میں کسی (آدمی) کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جاؤ یہ (طریقہ کار) تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

۲۹.    (ہاں البتہ) ایسے گھروں میں داخل ہونے میں تمہارے لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے جن میں کوئی رہائش نہیں رکھتا۔ جبکہ ان میں تمہارا کچھ سامان ہو اور اللہ اسے بھی خوب جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور اسے بھی جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو۔

۳۰.   (اے رسولﷺ) آپ مؤمن مردوں سے کہہ دیجئے ! کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ (طریقہ) ان کیلئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ بے شک لوگ جو کچھ کیا کرتے ہیں اللہ اس سے خوب واقف ہے۔

۳۱.    اور (اے رسولﷺ) آپ مؤمن عورتوں سے کہہ دیجئے ! کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاطت کریں اور اپنی زینت و آرائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو اور چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زیبائش و آرائش ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہروں کے، یا اپنے باپ داداؤں کے، یا اپنے شوہروں کے باپ داداؤں کے، یا اپنے بیٹوں کے یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے (ہم مذہب) عورتوں کے یا اپنے غلاموں یا لونڈیوں کے یا اپنے نوکروں چاکروں کے جو جنسی خواہش نہ رکھتے ہوں۔ یا ان بچوں کے جو ابھی عورتوں کی پردہ والی باتوں سے واقف نہیں ہیں اور وہ اپنے پاؤں (زمین پر) اس طرح نہ ماریں کہ جس سے ان کی وہ زیبائش و آرائش معلوم ہو جائے جسے وہ چھپائے ہوئے ہیں۔ اے اہل ایمان! تم سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ تاکہ تم فلاح پاؤ۔

۳۲.   اور تم میں جو (مرد و زن) بے نکاح ہیں ان کا نکاح کرو۔ نیز اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے بھی جو (نکاح کے ) قابل ہوں۔ ان کا بھی نکاح کرو۔ اگر وہ غریب و نادار ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل و کرم سے مالدار بنا دے گا۔ اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔

۳۳.   اور جو لوگ نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ عفت اور ضبط نفس سے کام لیں۔ یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے اور تمہارے مملوکہ غلاموں اور کنیزوں میں سے جو مکاتب بننے کے خواہشمند ہوں۔ تو اگر تمہیں ان میں کوئی بھلائی معلوم ہو تو ان سے مکاتبہ کر لو۔ اور تم اللہ کے مال میں سے انہیں عطا کرو اور اپنی جوان کنیزوں کو محض دنیوی رنگ کا کچھ سامان حاصل کرنے کیلئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اگر کوئی انہیں مجبور کرے تو بیشک ان کو مجبور کرنے کے بعد بھی اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۳۴.   بے شک ہم نے تم لوگوں کی طرف واضح آیتیں نازل کی ہیں اور تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کی مثالیں بھی اور پرہیزگاروں کیلئے پند و نصیحت بھی۔

۳۵.   اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال یہ ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو (اور) چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو۔ اور (وہ) قندیل گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے (اور وہ چراغ) زیتون کے بابرکت درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے۔ جو نہ شرقی ہے نہ غربی قریب ہے کہ اس کا تیل خود بخود بھڑک اٹھے اگرچہ آگ نے اسے چھوا بھی نہ ہو۔ یہ نور بالائے نور ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ اور اللہ لوگوں کیلئے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔

۳۶.   (یہ ہدایت پانے والے ) ایسے گھروں میں ہیں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں خدا کا نام لیا جائے ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔

۳۷.   جنہیں کوئی تجارت اور (خرید) فروخت اللہ کی یاد سے نماز پڑھنے سے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی (کیونکہ) وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور نگاہیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔

۳۸.   تاکہ اللہ ان کو ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے مزید نوازے اور اللہ جسے چاہتا ہے اسے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔

۳۹.    اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے اعمال سراب کی مانند ہیں جو ایک چٹیل میدان میں ہو۔ جسے آدمی پانی خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس جاتا ہے تو اسے کچھ نہیں پاتا بلکہ وہاں اللہ کو موجود پاتا ہے۔ جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا۔ اور اللہ بہت جلدی حساب لینے والا ہے۔

۴۰.   یا پھر ان کی مثال ایسی ہے جیسے گہرے سمندر میں اندھیرا۔ کہ اسے ایک موج ڈھانپ لے پھر اس (موج) کے اوپر ایک اور موج ہو۔ اور پھر اس کے اوپر بادل ہو۔ الغرض اندھیروں پر اندھیرا کہ اگر کوئی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے دیکھ نہ پائے اور جسے اللہ نور (ہدایت) نہ دے تو اس کے لئے کوئی نور نہیں ہے۔

۴۱.    کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی ہر ایک اپنی اپنی (مخصوص) نماز و تسبیح کو جانتا ہے۔

۴۲.   اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کیلئے ہے اور اللہ ہی کی طرف (سب کی) بازگشت ہے۔

۴۳.   کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے۔ پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم ملاتا ہے۔ پھر اسے تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے بارش نکلواتا ہے اور وہ (اللہ) آسمان سے پہاڑوں کی شکل کے بادلوں سے برف یعنی اولے برساتا ہے پھر ان کو جس پر چاہتا ہے گرا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ہٹا دیتا ہے قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں (کی بینائی) کو لے جائے۔

۴۴.   اللہ رات دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ بے شک اس میں آنکھوں والوں کیلئے (سامان) عبرت ہے۔

۴۵.   اور اللہ ہی نے زمین پر چلنے والے ہر جاندار کو (ایک خاص) پانی سے پیدا کیا ہے تو ان میں سے کوئی پیٹ کے بل چلتا ہے۔ اور کوئی دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور کوئی چار ٹانگوں پر۔ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ بے شک اللہ ہر شئے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

۴۶.   یقیناً ہم نے حقیقت واضح کرنے والی آیتیں نازل کر دی ہیں اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کر دیتا ہے۔

۴۷.   اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے ہیں۔ اور ہم نے اطاعت بھی کی۔ مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ منہ پھر لیتا ہے اور ایسے لوگ (ہرگز) مؤمن نہیں ہیں۔

۴۸.   اور جب انہیں خدا اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کر دیں تو ایک دم ان میں سے ایک گروہ رو گرداں ہو جاتا ہے۔

۴۹.    اور اگر حق ان کے موافق ہو (اس میں ان کا فائدہ) تو پھر سر تسلیم خم کئے اس (رسول) کی طرف آ جاتے ہیں۔

۵۰.   ان کے دلوں میں (نفاق وغیرہ) کی کوئی بیماری ہے یا (اسلام کے متعلق) شک میں مبتلا ہیں یا پھر ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے ساتھ زیادتی کریں گے ؟ (نہیں ) بلکہ یہ لوگ خود ظلم و زیادتی کرنے والے ہیں۔

۵۱.    اہلِ ایمان کو جب خدا اور رسول کی طرف بلایا جائے کہ وہ (رسول) ان کے درمیان فیصلہ کریں تو ان کا قول یہ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

۵۲.   اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری اختیار کرے (اس کی نافرمانی سے بچے ) تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔

۵۳.   اور یہ (منافق) اپنے مقدور بھر اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں گے تو وہ (اپنے گھروں سے بھی) نکل کھڑے ہوں گے آپ کہیئے کہ تم قسمیں نہ کھاؤ۔ پس معروف و معلوم فرمانبرداری مطلوب ہے۔ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔

۵۴.   آپ کہہ دیجئے ! کہ تم اللہ کی اطاعت کرو۔ اور رسول کی اطاعت کرو اور اگر تم روگردانی کرو گے تو اس (رسول) کے ذمہ وہی ہے جو بار اس پر ڈالا گیا ہے اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو بار تم پر ڈالا گیا ہے۔ اور تم اگر اس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پاؤ گے۔ ورنہ رسول کے ذمہ واضح طور پر پیغام پہنچانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

۵۵.   جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح جانشین بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنایا تھا۔ اور جس دین کو اللہ نے پسند کیا ہے وہ انہیں ضرور اس پر قدرت دے گا۔ اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ پس وہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک نہ بنائیں۔ اور جو اس کے بعد کفر اختیار کرے وہی لوگ فاسق ہیں۔

۵۶.   اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ اور رسولﷺ کی اطاعت کرو۔ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

۵۷.   جو لوگ کافر ہیں ان کے بارے میں خیال نہ کرو کہ وہ زمین میں (خدا کو) عاجز کر دیں گے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔

۵۸.   اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے غلام اور وہ بچے جو ابھی حدِ بلوغ کو نہیں پہنچے (گھروں میں داخل ہوتے وقت) تین بار تم سے اجازت طلب کریں۔ نمازِ صبح سے پہلے، اور جس وقت تم دوپہر کو اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور نماز عشاء کے بعد۔ یہ تین وقت (آرام کرنے کیلئے ) تمہارے لئے پردے کے وقت ہیں ان اوقات کے علاوہ تم پر اور ان پر کوئی حرج نہیں ہے تم لوگ ایک دوسرے کے پاس بار بار چکر لگاتے رہتے ہو۔ اسی طرح اللہ آیتوں کو کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔

۵۹.    اور جب تمہارے لڑکے حدِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں بھی اسی طرح اجازت لینی چاہیے جس طرح ان سے پہلے لوگ (اپنے بڑوں سے ) اجازت لیتے رہے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے۔ اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔

۶۰.    اور وہ عورتیں جو (بڑھاپے کی وجہ سے ) خانہ نشین ہو گئی ہوں جنہیں نکاح کی کوئی آرزو نہ ہو ان کیلئے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اپنے (پردہ کے ) کپڑے اتار کر رکھ دیں بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والیاں نہ ہوں۔ اور اگر اس سے بھی باز رہیں (اور پاکدامنی سے کام لیں ) تو یہ اور بہتر ہے۔ اور اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔

۶۱.    اور اندھے کیلئے کوئی مضائقہ نہیں ہے اور نہ ہی لنگڑے کیلئے کوئی مضائقہ ہے اور نہ بیمار کیلئے اور نہ خود تمہارے لئے کوئی حرج ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ۔ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے تمہارے لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اکٹھے ہو کر کھاؤ۔ یا الگ الگ (ہاں البتہ) جب گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے لوگوں کو سلام کر لیا کرو۔ یہ اللہ کی طرف سے پاکیزہ اور بابرکت ہدیہ ہے اللہ اسی طرح آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔

۶۲.    مؤمن تو صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان رکھتے ہیں اور جب کسی اجتماعی معاملہ میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہیں لیتے کہیں نہیں جاتے۔ بے شک جو لوگ آپ سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس جب وہ آپ سے اپنے کسی کام کیلئے اجازت مانگیں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کیلئے اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۶۳.   اے ایمان والو! اپنے درمیان رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح نہ بناؤ۔ اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ لے کر کھسک جاتے ہیں۔ جو لوگ حکمِ خدا سے انحراف کرتے ہیں ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں یا انہیں کوئی دردناک عذاب نہ پہنچ جائے۔

۶۴.   خبردار! جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ اللہ ہی کا ہے تم جس حال میں ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے اور اس دن کو بھی جب لوگ اس کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے تو وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کرتے رہے تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔

٭٭

 

 

 

۲۵۔ سورۃ فرقان

 

 

۱.      بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے (خاص) بندہ پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ تمام جہانوں کیلئے ڈرانے والا بن جائے۔

۲.     جس کیلئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اس نے کسی کو اولاد نہیں بنایا۔ اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز کا ایک اندازہ (پیمانہ) مقرر کیا ہے۔

۳.     اور ان (مشرکوں ) نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے خدا بنائے ہیں جو کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں اور وہ خود اپنے لئے نقصان یا نفع کے مالک و مختار نہیں ہیں۔ جو نہ مار سکتے ہیں نہ جلا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی مرے ہوئے کو دوبارہ اٹھا سکتے ہیں۔

۴.     اور جو لوگ کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) محض ایک جھوٹ ہے جسے اس شخص نے گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے (یہ بات کہہ کر) خود یہ لوگ بڑے ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔

۵.     اور کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھوائی ہیں اور وہ صبح و شام اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں (یا اس سے لکھوائی جاتی ہیں )۔

۶.     آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ اس (قرآن) کو اس (خدا) نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں کو جانتا ہے۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۷.     اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا جو اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا؟

۸.     یا اس پر کوئی خزانہ اتارا جاتا یا اس کے لئے کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ کھاتا؟ اور ظالموں نے تو (یہاں تک) کہہ دیا کہ تم ایک ایسے شخص کی پیروی کر رہے ہو جس پر جادو کیا گیا ہے۔

۹.     دیکھئے ! یہ لوگ آپ کے متعلق کیسی کیسی (کٹ حجتیاں ) باتیں بیان کرتے ہیں سو وہ گمراہ ہو گئے ہیں سو اب وہ راہ نہیں پا سکتے۔

۱۰.    بڑا بابرکت ہے وہ خدا جو اگر چاہے تو آپ کو اس (کفار کی بیان کردہ چیزوں ) سے بہتر دے دے۔ یعنی ایسے باغات کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں۔ اور آپ کیلئے (عالیشان) محل بنوا دے۔

۱۱.     بلکہ یہ لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں اور جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں ہم نے ان کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

۱۲.    اور وہ (آگ) جب انہیں دور سے دیکھے گی تو وہ اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا سنیں گے۔

۱۳.    اور جب انہیں زنجیروں میں جکڑ کر آتش (دوزخ) کی کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے گا تو وہاں (اپنی) ہلاکت کو پکاریں گے۔

۱۴.    (ان سے کہا جائے گا کہ) آج ایک ہلاکت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی ہلاکتوں کو پکارو۔

۱۵.    آپ ان سے کہیے کہ آیا یہ (آتش دوزخ) اچھی ہے یا وہ دائمی جنت جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ ان (کے اعمال) کا صلہ ہے اور (آخری) ٹھکانا۔

۱۶.    اس میں ان کیلئے وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ایک وعدہ جو آپ کے رب کے ذمہ ہے جس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔

۱۷.    اور جس دن اللہ ان لوگوں کو اور ان کے ان معبودوں کو جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پوجتے رہے ہیں۔ اکٹھا کرے گا تو اللہ ان (معبودوں ) سے پوچھے گا کہ آیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا؟ یا وہ خود ہی (سیدھے ) راستہ سے بھٹک گئے تھے ؟

۱۸.    وہ کہیں گے کہ پاک ہے تیری ذات ہمیں یہ حق نہیں تھا کہ ہم تجھے چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مولا بنائیں لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو خوب آسودگی اور آسائش عطا کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے (تیری) یاد بھلا دی۔ اور اس طرح تباہ و برباد ہو گئے۔

۱۹.    (اے کافرو) اس طرح وہ (تمہارے معبود) تمہاری ان باتوں کو جھٹلا دیں گے جو تم کرتے ہو۔ پھر نہ تو تم (عذاب کو) ٹال سکو گے اور نہ ہی اپنی کوئی مدد کر سکو گے۔ اور تم میں سے جو ظلم کرے گا ہم اسے بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

۲۰.    (اے رسول) ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ہیں وہ جو سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے اور ہم نے تم کو ایک دوسرے کیلئے ذریعہ آزمائش بنایا ہے کیا تم صبر کرو گے ؟ اور آپ کا پروردگار بڑا دیکھنے والا ہے۔

۲۱.    اور جو لوگ ہمارے پاس آنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے ؟ یا ہم اپنے پروردگار کو ہی دیکھ لیتے ! انہوں نے اپنے دلوں میں اپنے کو بہت بڑا سمجھا اور سرکشی میں حد سے گزر گئے ہیں۔

۲۲.    یہ لوگ جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے تو اس دن مجرموں کیلئے کوئی بشارت نہیں ہو گی اور وہ کہیں گے پناہ ہے پناہ (یا حرام ہے حرام)۔

۲۳.   اور ہم ان کے ان کاموں کی طرف متوجہ ہوں گے جو انہوں نے کئے ہوں گے۔ اور انہیں پراگندہ غبار بنا دیں گے۔

۲۴.   اس دن بہشت والوں کا ٹھکانہ بہترین ہو گا اور دوپہر کی آرام گاہ بھی عمدہ ہو گی۔

۲۵.   اور جس دن بادل کے ساتھ آسمان شق ہو جائے گا اور فرشتے جوق در جوق اتارے جائیں گے۔

۲۶.    اس دن حقیقی بادشاہی (خدائے ) رحمن کی ہو گی اور وہ دن کافروں کیلئے بڑا سخت ہو گا۔

۲۷.   اور اس دن ظالم (حسرت سے ) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا (اور) کہے گا: کاش! میں نے رسولﷺ کے ساتھ (سیدھا) راستہ اختیار کیا ہوتا۔

۲۸.   ہائے میری بدبختی! کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔

۲۹.    اس نے نصیحت (یا قرآن) کے میرے پاس آ جانے کے بعد مجھے اس کے قبول کرنے سے بہکا دیا اور شیطان تو ہے ہی (مشکل وقت میں ) بے یار و مددگار چھوڑ دینے والا (دغا باز)۔

۳۰.   اور رسولﷺ کہیں گے اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا۔

۳۱.    اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے مجرموں میں سے بعض کو دشمن بنایا اور آپ کا پروردگار راہنمائی اور مدد کیلئے کافی ہے۔

۳۲.   اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص پر پورا قرآن یکبارگی کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ ہاں اس طرح اس لئے کیا کہ ہم تمہارے دل کو ثبات و تقویت دیں اور (اسی لئے ) اسے عمدہ ترتیب کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر نازل کیا ہے۔

۳۳.   اور یہ لوگ جب بھی کوئی (نیا) اعتراض اٹھاتے ہیں تو ہم اس کا صحیح جواب اور عمدہ تشریح آپ کے سامنے لاتے ہیں۔

۳۴.   وہ لوگ جو اپنے مونہوں کے بل جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے وہ ٹھکانے کے لحاظ سے بدتر اور راستہ کے اعتبار سے گمراہ تر ہیں۔

۳۵.   بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر مقرر کیا۔

۳۶.   پھر ہم نے ان سے کہا کہ تم دونوں جاؤ اس قوم کی طرف جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے (جب انہوں نے نہ مانا) تو ہم نے ان کو بالکل ہلاک و برباد کر دیا۔

۳۷.   اور نوحؑ کی قوم کو بھی ہم نے غرق کر دیا جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ اور انہیں لوگوں کیلئے نشانِ عبرت بنا دیا اور ہم نے ظالموں کیلئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۳۸.   اور (اسی طرح) ہم نے قومِ عاد و ثمود اور اصحاب الرس کو اور ان کے درمیان، بہت سی نسلوں (اور) قوموں کو بھی ہلاک کیا۔

۳۹.    اور ہم نے ہر ایک کیلئے (پہلے برباد ہونے والوں ) کی مثالیں بیان کیں اور (آخرکار) ہم نے سب کو نیست و نابود کر دیا۔

۴۰.   اور (یہ لوگ) اس بستی سے گزرے ہیں ! جس پر (پتھروں کی) بڑی بارش برسائی گئی تھی کیا (وہاں سے گزرتے ہوئے ) اسے دیکھتے نہیں رہتے بلکہ (دراصل بات یہ ہے کہ) یہ حشر و نشر کی امید ہی نہیں رکھتے۔

۴۱.    اور وہ جب بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں (اور کہتے ہیں ) کیا یہ وہ ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے ؟

۴۲.   وہ تو قریب تھا کہ یہ شخص ہمارے معبودوں سے ہمیں بہکا دے۔ اگر ہم ان (کی پرستش) پر ثابت قدم نہ رہتے تو عنقریب جب وہ عذاب (الٰہی) کو دیکھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ راہِ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا ہے ؟

۴۳.   (اے رسولﷺ) کیا آپ نے وہ شخص دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش (نفس) کو اپنا خدا بنا رکھا ہے ؟ کیا آپ اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں ؟

۴۴.   کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں ؟ یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں۔

۴۵.   کیا تم نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی) طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیونکر پھیلایا ہے ؟ اور اگر وہ چاہتا تو اسے (ایک جگہ) ٹھہرا ہوا بنا دیتا۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل راہ بنایا۔

۴۶.   پھر ہم اس (سایہ) کو تھوڑا تھوڑا کر کے اپنی طرف سمیٹتے جاتے ہیں۔

۴۷.   اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ پوش اور نیند کو (باعث) راحت اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔

۴۸.   اور وہ وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے۔ اور ہم آسمان سے پاک اور پاک کرنے والا پانی برساتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ کسی مردہ شہر (غیر آباد) کو زندہ کریں اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو پلائیں۔

۴۹.    اور ہم اس (پانی) کو طرح طرح سے لوگوں کے درمیان تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر اکثر لوگوں نے ناشکری کے سوا ہر بات سے انکار کر دیا ہے۔

۵۰.   اور اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک ڈرانے والا بھیجتے۔

۵۱.    (اے نبیﷺ) آپ کافروں کی پیروی نہ کریں اور اس (قرآن) کے ذریعہ سے ان سے بڑا جہاد کریں۔

۵۲.   اور وہ وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو آپس میں ملا دیا ہے یہ شیریں و خوشگوار ہے اور یہ سخت کھاری و تلخ ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک حد فاصل اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے۔

۵۳.   اور وہ وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا اور تمہارا پروردگار بڑی قدرت والا ہے۔

۵۴.   اور وہ (مشرک) اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو ان کو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور کافر تو (ہمیشہ) اپنے پروردگار کے مقابلے میں (مخالفوں کی) پشت پناہی کرتا ہے۔

۵۵.   اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔

۵۶.   اور آپ کہہ دیجئے ! کہ میں اس (کار رسالت) پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ جو چاہے اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے۔

۵۷.   (اے رسولﷺ) آپ اس زندہ (خدا) پر بھروسہ کیجئے جس کے لئے موت نہیں ہے۔ اور اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے کیلئے خود کافی ہے۔

۵۸.   وہ خدا جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ (۶) دن میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر اقتدار قائم کیا۔ وہی (خدائے ) رحمن ہے اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھو۔

۵۹.    اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو۔ تو وہ کہتے ہیں کہ یہ رحمن کیا چیز ہے ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے بارے میں تم ہمیں حکم دو؟ اور یہ چیز ان کی نفرت میں اور اضافہ کر دیتی ہے۔

۶۰.    بڑا بابرکت ہے وہ (خدا) جس نے آسمان میں (بارہ) برج بنائے اور ان میں ایک چراغ (سورج) اور ایک چمکتا ہوا چاند بنایا۔

۶۱.    اور وہ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ہے اس شخص کیلئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے یا شکر ادا کرنا چاہے۔

۶۲.    اور (خدائے ) رحمن کے (خاص) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستہ آہستہ (فروتنی کے ساتھ) چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں تم پر سلام۔

۶۳.   اور جو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ اور قیام کرتے ہوئے رات گزارتے ہیں۔

۶۴.   اور جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے جہنم کا عذاب دور رکھ۔

۶۵.   بے شک اس کا عذاب پوری ہلاکت ہے۔

۶۶.    وہ (جہنم) بہت برا ٹھکانا ہے اور بہت بری جگہ ہے۔

۶۷.   اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی (بلکہ) ان کا خرچ کرنا ان (دونوں ) کے درمیان (حد اعتدال پر) ہوتا ہے۔

۶۸.   اور وہ اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو نہیں پکارتے اور جس جان (کے مارنے ) کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو وہ گناہ کی سزا پائے گا۔

۶۹.    قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا کر دیا جائے گا۔ اور وہ اس میں ذلیل و خوار ہو کر ہمیشہ رہے گا۔

۷۰.   سوائے اس کے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے کہ اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۷۱.    اور جو کوئی توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو وہ اللہ کی طرف اس طرح رجوع کرتا ہے جو رجوع کرنے کا حق ہے۔

۷۲.   اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے (یا جو زُور یعنی غنا کی جگہ پر حاضر نہیں ہوتے ) اور جو جب کسی بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو شریفانہ انداز میں گزر جاتے ہیں۔

۷۳.   اور جب انہیں ان کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے ہو کر ان پر گر نہیں پڑتے (بلکہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں )۔

۷۴.   اور وہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیش رو بنا۔

۷۵.   یہ وہ ہیں جنہیں ان کے صبر و ثبات کے صلہ میں بہشت میں بالا خانہ عطا کیا جائے گا۔ اور وہاں ان کا تحیہ و سلام سے استقبال کیا جائے گا۔

۷۶.   وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے کیا اچھا ہے وہ ٹھکانہ اور وہ مقام۔

۷۷.   آپ کہہ دیجئے ! اگر تمہاری دعا و پکار نہ ہو تو میرا پروردگار تمہاری کوئی پروا نہ کرے سو اب جبکہ تم نے (رسول کو) جھٹلا دیا ہے تو یہ (تکذیب) عنقریب (تمہارے لئے ) وبال جان بن کر رہے گی۔

٭٭

 

 

 

۲۶۔ سورۃ شعراء

 

 

۱.      طا، سین، میم۔

۲.     یہ ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔

۳.     شاید آپ (اس غم میں ) جان دے دیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

۴.     اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتاریں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں۔

۵.     اور جب بھی ان کے پاس خدائے رحمن کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔

۶.     بے شک یہ جھٹلا چکے ہیں تو عنقریب ان کے سامنے اس چیز کی خبریں آئیں گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔

۷.     کیا انہوں نے زمین کی طرف (غور سے ) نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنی کثرت سے عمدہ نباتات اگائی ہیں۔

۸.     بے شک اس کے اندر ایک بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

۹.     اور بے شک آپ کا پروردگار بڑا غالب، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۰.    (اے رسولﷺ) وہ وقت یاد کرو جب آپ کے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا کہ ظالم قوم کے پاس جاؤ۔

۱۱.     یعنی فرعون کی قوم کے پاس۔ کیا وہ نہیں ڈرتے ؟

۱۲.    موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔

۱۳.    اور میرا سینہ تنگ ہوتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی سو ہارون کے پاس (وحی) بھیج (کہ وہ میرا ساتھ دے )۔

۱۴.    اور ان لوگوں کا میرے ذمہ ایک جرم بھی ہے اس لئے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔

۱۵.    ارشاد ہوا ہرگز نہیں ! تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ہم تمہارے ساتھ (سب کچھ) سن رہے ہیں۔

۱۶.    پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ۔ اور اس سے کہو کہ ہم تمام جہانوں کے پروردگار کے رسول ہیں۔

۱۷.    کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔

۱۸.    فرعون نے کہا (اے موسیٰ) کیا تمہارے بچپن میں ہم نے تمہاری پرورش نہیں کی ہے ؟ اور تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہم میں گزارے ہیں۔

۱۹.    اور تو نے اپنی وہ حرکت بھی کی تھی جو کی تھی اور تو ناشکروں میں سے ہے۔

۲۰.    موسیٰ نے کہا: ہاں میں نے وہ کام اس وقت کیا تھا جب میں راستہ سے بھٹکا ہوا تھا۔

۲۱.    تو جب میں تم سے ڈرا تو بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے بعد میرے پروردگار نے مجھے علم و حکمت عطا کیا اور مجھے رسولوں میں سے قرار دے دیا۔

۲۲.    اور یہی (پرورش وغیرہ کا) وہ احسان ہے جو تو مجھے جتا رہا ہے جب کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔

۲۳.   فرعون نے کہا اور یہ رب العالمین کیا چیز ہے۔

۲۴.   موسیٰ نے کہا وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے۔ اگر تم یقین کرنے والے ہو۔

۲۵.   فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا کیا تم سنتے نہیں ہو؟

۲۶.    موسیٰ نے کہا وہ تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے اگلے آباء و اجداد کا بھی پروردگار۔

۲۷.   فرعون نے کہا تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو بالکل دیوانہ ہے۔

۲۸.   موسیٰ نے کہا کہ وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے اگر تم عقل سے کام لو۔

۲۹.    فرعون نے کہا کہ اگر تو نے میرے سوا کوئی معبود بنایا تو میں تمہیں قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔

۳۰.   موسیٰ نے کہا: اگرچہ میں تیرے پاس کوئی واضح نشانی بھی لے کر آؤں ؟

۳۱.    فرعون نے کہا: اچھا تو لے آ۔ اگر تو سچا ہے۔

۳۲.   اس پر موسیٰ نے اپنا عصا پھینک دیا تو ایک دم وہ کھلا ہوا اژدھا بن گیا۔

۳۳.   اس نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ ایک دم دیکھنے والوں کیلئے چمک رہا تھا۔

۳۴.   فرعون نے اپنے اردگرد کے عمائدین سے کہا کہ یہ تو بڑا ماہر جادوگر ہے۔

۳۵.   یہ اپنے جادو (کے زور) سے تمہیں اپنے ملک سے باہر نکالنا چاہتا ہے۔ اب تم کیا رائے دیتے ہو؟

۳۶.   انہوں نے کہا اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجئے اور تمام شہروں میں جمع کرنے والے آدمی (ہرکارے ) بھیجئے۔

۳۷.   جو ہر بڑے جادوگر کو تمہارے پاس لے آئیں۔

۳۸.   چنانچہ تمام جادوگر ایک خاص مقررہ وقت پر جمع کر لئے گئے۔

۳۹.    اور عام لوگوں سے کہا گیا۔ کیا تم لوگ بھی (مقابلہ دیکھنے کیلئے ) جمع ہو گے ؟

۴۰.   تاکہ اگر جادوگر غالب آ جائیں تو ہم سب ان کی پیروی کریں۔

۴۱.    تو جب جادوگر (میدان میں ) آ گئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آ گئے تو ہمیں کچھ صلہ تو ملے گا۔

۴۲.   فرعون نے کہا: ہاں ضرور! اور تم اس وقت مقرب بارگاہ ہو جاؤ گے۔

۴۳.   موسیٰ نے ان سے کہا کہ تم پھینکو جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے۔

۴۴.   چنانچہ انہوں نے اپنی رسیاں اور اپنی لاٹھیاں پھینک دیں اور کہا کہ فرعون کے جلال و اقبال کی قَسم ہم ہی غالب آئیں گے۔

۴۵.   پھر موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا تو وہ ایک دم ان کے بنائے ہوئے جھوٹ کو نگلنے لگا۔

۴۶.   (یہ معجزہ دیکھ کر) سب جادوگر سجدہ میں گر پڑے۔

۴۷.   اور کہنے لگے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لائے۔

۴۸.   جو موسیٰ و ہارون کا رب ہے فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں یقیناً یہ تمہارا بڑا (جادوگر) ہے۔

۴۹.    جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے ابھی تمہیں (اس کا انجام) معلوم ہو جائے گا کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں کو مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا۔ اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا۔

۵۰.   انہوں نے کہا کوئی جرم نہیں ہم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں لوٹ جائیں گے۔

۵۱.    ہمیں امید ہے کہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف کرے گا کیونکہ ہم سب سے پہلے ایمان لا رہے ہیں۔

۵۲.   اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ کیونکہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔

۵۳.   پس فرعون نے تمام شہروں میں (لشکر) جمع کرنے والے (ہرکارے ) بھیجے۔

۵۴.   (اور کہلا بھیجا کہ) یہ لوگ ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔

۵۵.   اور انہوں نے ہمیں بہت غصہ دلایا ہے۔

۵۶.   اور بے شک ہم پورے محتاط اور چوکنا ہیں۔

۵۷.   پھر ہم نے انہیں (مصر کے ) باغوں اور چشموں

۵۸.   اور خزانوں اور شاندار عمدہ مکانوں سے نکال باہر کیا۔

۵۹.    ایسا ہی ہوا اور ہم نے ان چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا۔

۶۰.    چنانچہ صبح تڑکے وہ لوگ (فرعونی) ان کے تعاقب میں نکلے۔

۶۱.    پس جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں (آمنے سامنے ہوئیں ) تو موسیٰ کے ساتھیوں نے (گھبرا کر) کہا کہ بس ہم تو پکڑے گئے۔

۶۲.    موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں ! یقیناً میرا پروردگار میرے ساتھ ہے جو ضرور میری راہنمائی کرے گا۔

۶۳.   سو ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنا عصا دریا پر مارو۔ چنانچہ وہ دریا پھٹ گیا اور (پانی کا) ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح ہو گیا۔

۶۴.   اور ہم وہاں دوسرے فریق کو بھی نزدیک لائے۔

۶۵.   اور ہم نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔

۶۶.    اور پھر ہم نے دوسرے فریق کو غرق کر دیا۔

۶۷.   بے شک اس واقعہ میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

۶۸.   اور بے شک آپ کا پروردگار بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۶۹.    اور آپ ان لوگوں کے سامنے ابراہیمؑ کا قصہ بیان کیجئے۔

۷۰.   جب انہوں نے اپنے باپ (یعنی چچا) اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کس چیز کی پرستش کرتے ہو؟

۷۱.    انہوں نے کہا کہ ہم تو بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور اس پر قائم ہیں۔

۷۲.   ابراہیم نے کہا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری آواز سنتے ہیں۔

۷۳.   یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں ؟

۷۴.   انہوں نے کہا بلکہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایسے ہی کرتے پایا ہے۔

۷۵.   ابراہیم نے کہا کیا تم نے ان چیزوں کی (اصل حقیقت) دیکھی ہے کہ جن کی تم

۷۶.   اور تمہارے باپ دادا پرستش کرتے رہے ہیں ؟ (کہ وہ کیا ہے ؟)

۷۷.   بہرکیف یہ سب میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے۔

۷۸.   جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ پھر وہی میری راہنمائی کرتا ہے۔

۷۹.   اور وہ جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا بھی۔

۸۰.   اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے۔

۸۱.    اور جو مجھے موت دے گا اور پھر مجھے (دوبارہ) زندہ کرے گا۔

۸۲.   اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ جزا و سزا کے دن میری خطا معاف کر دے گا۔

۸۳.   اے میرے پروردگار! مجھے (علم و حکمت) عطا فرما۔ اور مجھے نیکوکاروں میں شامل فرما۔

۸۴.   اور آئندہ آنے والوں میں میرا ذکرِ خیر جاری رکھ۔

۸۵.   اور مجھے جنتِ نعیم کے وارثوں میں شامل فرما۔

۸۶.   اور میرے باپ (یعنی چچا) کی مغفرت فرما۔ بے شک وہ گمراہوں میں سے تھا۔

۸۷.   اور جس دن لوگ (قبروں سے ) اٹھائے جائیں گے اس دن مجھے رسوا نہ کر۔

۸۸.   جس دن نہ مال فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔

۸۹.    اور سوائے اس کے جو اللہ کی بارگاہ میں قلبِ سلیم کے ساتھ حاضر ہو گا۔

۹۰.    اور جنت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گی۔

۹۱.    اور دوزخ گمراہوں کے سامنے ظاہر کر دی جائے گی۔

۹۲.    اور ان سے کہا جائے گا کہ تمہارے وہ معبود کہاں ہیں جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے ؟

۹۳.    کیا وہ (آج) تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں یا وہ اپنا ہی بچاؤ کر سکتے ہیں ؟

۹۴.    پھر وہ معبود اور (یہ) گمراہ لوگ۔

۹۵.    اور ابلیس اور اس کے سارے لشکر اس (دوزخ) میں اندھے منہ ڈال دیئے جائیں گے۔

۹۶.    اور وہ دوزخ میں باہم جھگڑتے ہوئے کہیں گے۔

۹۷.   خدا کی قَسم ہم کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔

۹۸.    جب تمہیں رب العالمین کے برابر قرار دیتے تھے۔

۹۹.    اور ہم کو تو بس (بڑے ) مجرموں نے گمراہ کیا تھا۔

۱۰۰.   نہ اب ہمارا کوئی سفارشی ہے۔

۱۰۱.   اور نہ کوئی مخلص دوست۔

۱۰۲.   کاش! ہم دوبارہ (دنیا میں ) بھیجے جاتے تو ضرور ہم اہلِ ایمان سے ہو جاتے۔

۱۰۳.  بے شک اس میں بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

۱۰۴.  اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۰۵.  نوحؑ کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔

۱۰۶.   جب کہ ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟۔

۱۰۷.  بے شک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔

۱۰۸.  سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۱۰۹.   اور میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔

۱۱۰.   پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۱۱۱.    انہوں نے کہا ہم کس طرح تجھے مان لیں (اور اطاعت کریں ) جبکہ رذیل لوگ تمہاری پیروی کر رہے ہیں۔

۱۱۲.   آپ نے کہا مجھے اس کی کیا خبر (اور کیا غرض؟) جو وہ کرتے رہے ہیں ؟

۱۱۳.   ان کا حساب کتاب کرنا تو میرے پروردگار ہی کا کام ہے کاش تم شعور سے کام لیتے۔

۱۱۴.   اور میں اہلِ ایمان کو دھتکارنے والا نہیں ہوں۔

۱۱۵.   میں تو صرف ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔

۱۱۶.   ان لوگوں نے کہا اے نوح! اگر تم باز نہ آئے تو تم ضرور سنگسار کر دیئے جاؤ گے۔

۱۱۷.   آپ نے کہا اے میرے پروردگار! میری قوم نے تو مجھے جھٹلایا دیا ہے۔

۱۱۸.   پس اب تو ہی میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما اور مجھے اور میرے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات دے۔

۱۱۹.   پس ہم نے انہیں اور جو اس بھری ہوئی کشتی میں ان کے ساتھ تھے سب کو نجات دی۔

۱۲۰.   پھر اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔

۱۲۱.   بے شک اس میں ایک بڑی نشانی ہے (مگر) ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لانے والے ہیں۔

۱۲۲.   اور آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۲۳.  (اسی طرح قوم) عاد نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔

۱۲۴.  جبکہ ان کے بھائی ہود نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟

۱۲۵.  بے شک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔

۱۲۶.   سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۱۲۷.  اور میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔

۱۲۸.  کیا تم ہر بلندی پر بے فائدہ ایک یادگار تعمیر کرتے ہو؟

۱۲۹.   اور تم بڑے بڑے محل تعمیر کرتے ہو شاید کہ تم ہمیشہ زندہ رہو گے۔

۱۳۰.  اور جب تم کسی پر حملہ کرتے ہو تو جبار و سرکش بن کر حملہ کرتے ہو؟

۱۳۱.   پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۱۳۲.  اور اس ذات سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمہاری مدد کی ہے جنہیں تم جانتے ہو۔

۱۳۳.  (یعنی) اس نے مویشیوں اور اولاد سے تمہاری مدد فرمائی۔

۱۳۴.  اور باغات اور چشموں سے۔

۱۳۵.  میں تمہارے متعلق ایک بہت بڑے (سخت) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

۱۳۶.  ان لوگوں نے کہا کہ تم نصیحت کرو یا نہ کرو۔ ہمارے لئے برابر ہے۔

۱۳۷.  یہ (ڈراوا) تو بس اگلے لوگوں کی عادت ہے۔

۱۳۸.  اور ہم کبھی عذاب میں مبتلا ہونے والے نہیں ہیں۔

۱۳۹.   پس انہوں نے اس (ہود) کو جھٹلایا اور ہم نے انہیں ہلاک کر دیا بے شک اس میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لائے نہیں تھے۔

۱۴۰.  اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۴۱.   قومِ ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔

۱۴۲.  جبکہ ان کے بھائی صالح نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟

۱۴۳.  میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔

۱۴۴.  سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۱۴۵.  اور میں تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔

۱۴۶.  کیا تمہیں ان چیزوں میں جو یہاں ہیں امن و اطمینان سے چھوڑ دیا جائے گا۔

۱۴۷.  (یعنی) باغوں اور چشموں میں۔

۱۴۸.  اور ان کھجوروں میں جن کے خوشے نرم اور خوب بھرے ہوئے ہیں۔

۱۴۹.   اور تم پہاڑوں کو تراش تراش کر اتراتے ہوئے (یا مہارت سے ) مکانات بناتے ہو۔

۱۵۰.  پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۱۵۱.   اور ان حد سے تجاوز کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو۔

۱۵۲.  جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔

۱۵۳.  ان لوگوں نے کہا: (اے صالح) تم ان لوگوں میں سے ہو جن پر سخت (یا بار بار) جادو کر دیا گیا ہے۔

۱۵۴.  (اور) تم تو بس ہمارے جیسے ایک بندہ ہو۔ اگر تم سچے ہو تو کوئی معجزہ لاؤ۔

۱۵۵.  صالح نے کہا یہ ایک اونٹنی ہے ایک دن اس کے پانی پینے کا ہو گا اور ایک مقررہ دن کا پانی تمہارے پینے کیلئے ہو گا۔

۱۵۶.  اور خبردار اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ تمہیں ایک بڑے دن کا عذاب آ پکڑے گا۔

۱۵۷.  پس انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں پھر پشیمان ہوئے۔

۱۵۸.  پھر ان کو عذاب نے آ پکڑا بے شک اس (واقعہ) میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔

۱۵۹.   اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۶۰.   قومِ لوط نے رسولوں کو جھٹلایا۔

۱۶۱.   جبکہ ان کے بھائی لوط نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو۔

۱۶۲.   میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔

۱۶۳.  پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۱۶۴.  اور میں تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا میری اجرت تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے۔

۱۶۵.  کیا تم دنیا جہان والوں میں سے (بد فعلی کیلئے ) مَردوں کے پاس ہی جاتے ہو۔

۱۶۶.   اور تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے جو بیویاں پیدا کی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو۔ بلکہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔

۱۶۷.  ان لوگوں نے کہا: اے لوطؑ ! (اگر تم ان باتوں سے ) باز نہ آئے تو تمہیں ضرور باہر نکال دیا جائے گا۔

۱۶۸.  آپ نے کہا میں تمہارے (اس) کردار سے سخت نفرت کرنے والوں میں سے ہوں۔

۱۶۹.   اے میرے پروردگار! مجھے اور میرے گھر والوں کو اس عمل (کے وبال) سے جو یہ کرتے ہیں نجات عطا فرما۔

۱۷۰.  چنانچہ ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو نجات عطا کی ہے۔

۱۷۱.   سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔

۱۷۲.  پھر ہم نے دوسرے سب لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا۔

۱۷۳.  اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش برسائی۔ سو کیا بڑی بارش تھی جو ڈرائے ہوؤں پر برسی۔

۱۷۴.  بے شک اس میں ایک بڑی نشانی ہے۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔

۱۷۵.  اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۷۶.  ایکہ والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔

۱۷۷.  جبکہ ان کے بھائی شعیبؑ نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟

۱۷۸.  بے شک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔

۱۷۹.  سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۱۸۰.  میں تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے۔

۱۸۱.   (دیکھو) پورا ناپا کرو (پیمانہ بھرا کرو) اور نقصان پہنچانے والوں میں سے نہ ہو۔

۱۸۲.  اور صحیح ترازو سے تولا کرو (ڈنڈی سیدھی رکھا کرو)۔

۱۸۳.  اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔

۱۸۴.  اور اس (اللہ) سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی مخلوق کو پیدا کیا ہے۔

۱۸۵.  ان لوگوں نے کہا کہ تم تو بس سخت سحر زدہ آدمی ہو۔

۱۸۶.  اور تم ہمارے ہی جیسے ایک انسان ہو اور ہمیں تو جھوٹے بھی معلوم ہوتے ہو۔

۱۸۷.  اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو۔

۱۸۸.  آپ نے کہا میرا پروردگار بہتر جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

۱۸۹.   پس ان لوگوں نے ان (شعیبؑ ) کو جھٹلایا تو سائبان والے دن کے عذاب نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ بے شک وہ ایک بڑے سخت دن کا عذاب تھا۔

۱۹۰.   بے شک اس میں ایک بڑی نشانی ہے۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔

۱۹۱.   اور بے شک آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۹۲.   اور بے شک یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔

۱۹۳.   جسے روح الامین (جبرائیل) نے آپ کے دل پر اتارا ہے۔

۱۹۴.   تاکہ آپ (عذابِ الٰہی سے ) ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں۔

۱۹۵.   یہ کھلی ہوئی عربی زبان میں ہے۔

۱۹۶.   اور یہ پہلے لوگوں کی کتابوں میں (بھی) ہے۔

۱۹۷.  کیا یہ نشانی اس (اہل مکہ) کیلئے کافی نہیں ہے کہ اس (قرآن) کو بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں۔

۱۹۸.   اور اگر ہم اسے کسی عجمی (غیر عرب) پر نازل کرتے۔

۱۹۹.   پھر وہ اسے پڑھ کر ان کو سناتا تب بھی وہ اس پر ایمان نہ لاتے۔

۲۰۰.  اسی طرح ہم نے اس (انکار) کو مجرموں کے دلوں میں داخل کر دیا ہے۔

۲۰۱.   یہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک دردناک عذاب کو نہیں دیکھ لیں گے۔

۲۰۲.  چنانچہ وہ (عذاب) اس طرح اچانک ان پر آ جائے گا کہ انہیں احساس بھی نہ ہو گا۔

۲۰۳.  تب وہ کہیں گے کیا ہمیں مہلت مل سکتی ہے ؟

۲۰۴.  کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کیلئے جلدی کر رہے ہیں۔

۲۰۵.  کیا تم دیکھتے ہو کہ اگر ہم انہیں کئی سال تک فائدہ اٹھانے کا موقع دیں۔

۲۰۶.  پھر ان پر وہ عذاب آ جائے جس سے انہیں ڈرایا جاتا تھا۔

۲۰۷.  تو وہ سب ساز و سامان جس سے وہ فائدہ اٹھاتے رہے تھے انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔

۲۰۸.  اور ہم نے کبھی کسی بستی کو اس وقت تک ہلاک نہیں کیا جب تک اس کے پاس عذاب الٰہی سے ڈرانے والے نہ آ چکے ہوں۔

۲۰۹.  نصیحت اور یاد دہانی کیلئے ! اور ہم کبھی ظالم نہیں تھے۔

۲۱۰.   اور اس (قرآن) کو شیطانوں نے نہیں اتارا۔

۲۱۱.   اور نہ ہی یہ ان کیلئے مناسب ہے اور نہ ہی وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں۔

۲۱۲.   وہ تو اس (وحی) کے سننے سے بھی معزول کئے جا چکے ہیں۔

۲۱۳.  پس آپ اللہ کے ساتھ کسی اور الہ کو نہ پکاریں ورنہ آپ بھی سزا پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔

۲۱۴.  اور (اے رسول) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو (عذاب سے ) ڈراؤ۔

۲۱۵.  اور جو اہلِ ایمان آپ کی پیروی کریں ان کیلئے اپنا بازو جھکاؤ (ان کے ساتھ تواضع و فروتنی سے پیش آؤ)۔

۲۱۶.   اور اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ میں اس سے بیزار ہوں جو کچھ تم کرتے ہو۔

۲۱۷.  اور اس (پروردگار) پر بھروسہ کیجئے جو غالب ہے اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۲۱۸.  جو آپ کو اس وقت دیکھتا ہے جب آپ کھڑے ہوتے ہیں۔

۲۱۹.   اور جب آپ سجدہ کرنے والوں میں نشست و برخاست کرتے ہیں تب بھی دیکھتا ہے۔

۲۲۰.  بے شک وہ بڑا سننے والا، بڑا علم والا ہے۔

۲۲۱.   کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں۔

۲۲۲.  وہ ہر جھوٹ گھڑنے والے گنہگار پر اترتے ہیں۔

۲۲۳.  جو ان (شیاطین) کی طرف کان لگائے رہتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔

۲۲۴.  اور جو شعراء ہیں ان کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔

۲۲۵.  کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرا کرتے ہیں۔

۲۲۶.  اور وہ کہتے ہیں ایسی باتیں جو کرتے نہیں ہیں۔

۲۲۷.  سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا اور بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا انہوں نے بدلہ لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس جگہ لوٹ کر جا رہے ہیں ؟

٭٭

 

 

۲۷۔ سورۃ نمل

 

۱.      طا۔ سین۔ یہ قرآن واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔

۲.     جو ان ایمان والوں کیلئے (سراسر) ہدایت و بشارت ہیں۔

۳.     جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

۴.     جو لوگ ایمان نہیں رکھتے۔ ہم نے ان کے اعمال (ان کی نظر میں ) خوشنما بنا دیئے ہیں پس وہ سرگردان پھر رہے ہیں۔

۵.     یہ وہ لوگ ہیں جن کیلئے (دنیا میں ) بڑا عذاب ہے اور وہ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

۶.     (اے رسولﷺ) بے شک آپ کو یہ قرآن ایک بڑے حکمت والے، بڑے علم والے کی طرف سے عطا کیا جا رہا ہے۔

۷.     (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے تو میں ابھی وہاں سے کوئی خبر لاتا ہوں یا آگ کا کوئی انگارہ لاتا ہوں تاکہ تم تاپو۔

۸.     پھر جب وہ اس کے پاس آئے تو (انہیں ) ندا دی گئی کہ مبارک ہے وہ جس کا جلوہ آگ میں ہے۔ اور جس کا جلوہ اس کے اردگرد ہے اور پاک ہے اللہ جو پروردگارِ عالمین ہے۔

۹.     اے موسیٰ! بلاشبہ یہ میں اللہ ہوں، بڑا غلبہ والا، بڑا حکمت والا۔

۱۰.    اور تم اپنا عصا پھینکو۔ پھر جب انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ حرکت کر رہا ہے جیسے کہ وہ ایک سانپ ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر مڑے اور پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھا (ہم نے آواز دی) اے موسیٰ خوف نہ کرو۔ میں وہ ہوں کہ میرے حضور پیغمبر خوف نہیں کرتے۔

۱۱.     سوائے اس کے جو کوئی زیادتی کرے پھر وہ برائی کو اچھائی سے بدل دے تو بے شک میں بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہوں۔

۱۲.    اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو تو وہ کسی بیماری کے بغیر چمکتا ہوا نکلے گا (یہ دو معجزے ہیں ) ان نو معجزات میں سے جنہیں لے کر آپ نے فرعون اور اس کی قوم کے پاس جانا ہے۔ وہ بڑے ہی نافرمان لوگ ہیں۔

۱۳.    سو جب ان کے پاس ہمارے واضح معجزات پہنچے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔

۱۴.    اور ان لوگوں نے ظلم و تکبر کی راہ سے ان (معجزات) کا انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کے نفوس (دلوں ) کو ان کا یقین تھا۔ اب دیکھو کہ فساد کرنے والوں کا انجام کیا ہوا؟

۱۵.    اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو (خاص) علم عطا فرمایا۔ اور ان دونوں نے کہا کہ ہر قِسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مؤمن بندوں پر فضیلت عطا کی ہے۔

۱۶.    اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے اور کہا اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کی چیزیں عطا کی گئی ہیں۔ بے شک یہ (اللہ کا) کھلا ہوا فضل و کرم ہے۔

۱۷.    اور سلیمان کے لئے جنوں، انسانوں اور پرندوں میں سے لشکر جمع کئے گئے۔ پس ان کی ترتیب وار صف بندی کی جاتی تھی۔

۱۸.    یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں کچل ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔

۱۹.    وہ (سلیمان) اس کی بات پر مسکرا کر ہنس پڑے۔ اور کہا اے میرے پروردگار! مجھے ہمیشہ توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکریہ ادا کر سکوں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا ہے اور ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل کر۔

۲۰.    اور سلیمانؑ نے (ایک دن) پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کیا بات ہے کہ میں ہُدہُد کو نہیں دیکھ رہا ہوں کیا وہ کہیں غائب ہے ؟

۲۱.    (اگر ایسا ہی ہے ) تو میں اسے سخت سزا دوں گا۔ یا اسے ذبح کر دوں گا۔ یا پھر وہ کوئی واضح دلیل (عذر) میرے سامنے پیش کرے۔

۲۲.    پس کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہد ہد نے آ کر کہا کہ میں نے وہ بات معلوم کی ہے جو آپ کو معلوم نہیں ہے۔ اور میں (ملک) سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں۔

۲۳.   میں نے ایک عورت کو پایا ہے جو ان لوگوں پر حکومت کرتی ہے اور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کا ایک بڑا تخت (سلطنت) ہے۔

۲۴.   میں نے اسے اور اس کی قوم کو پایا ہے کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے عملوں کو ان کی نظر میں خوشنما بنا دیا ہے۔ پس اس نے انہیں اصل (سیدھے ) راستہ سے ہٹا دیا ہے۔ سو وہ ہدایت نہیں پاتے۔

۲۵.   وہ کیوں اس خدا کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں پوشیدہ چیزوں کو باہر لاتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو۔

۲۶.    اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے جو عرش عظیم کا مالک ہے۔

۲۷.   سلیمان نے کہا ہم ابھی دیکھتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔

۲۸.   میرا یہ خط لے جا اور اسے ان کے پاس ڈال دے پھر ان سے ہٹ جا۔ پھر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ؟

۲۹.    اس (ملکہ) نے کہا اے (دربار کے ) سردارو! مجھے ایک معزز خط پہنچایا گیا ہے۔

۳۰.   وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

۳۱.    تم میرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور فرمانبردار ہو کر میرے پاس آ جاؤ۔

۳۲.   چنانچہ ملکہ نے کہا: اے سردارانِ قوم! تم مجھے میرے اس معاملہ میں رائے دو (کیونکہ) میں کبھی کسی معاملہ کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم لوگ میرے پاس موجود نہ ہو۔

۳۳.   انہوں نے کہا ہم طاقتور اور سخت لڑنے والے ہیں لیکن اختیار آپ کو ہی ہے۔ آپ دیکھ لیں (غور کریں ) کہ کیا حکم دیتی ہیں ؟

۳۴.   ملکہ نے کہا بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور اس کے معزز باشندوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور ایسا ہی (یہ لوگ) کریں گے۔

۳۵.   (لہٰذا جنگ مناسب نہیں البتہ) میں ان کے پاس ایک ہدیہ بھیجتی ہوں۔ اور پھر دیکھتی ہوں کہ میرے فرستادے (قاصد) کیا جواب لاتے ہیں ؟

۳۶.   سو جب وہ فرستادہ (یا ملکہ کا سفیر) سلیمان کے پاس پہنچا تو آپ نے کہا کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ تو اللہ نے مجھے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے البتہ تم ہی اپنے ہدیہ پر خوش ہو سکتے ہو۔

۳۷.   (اے سفیر) تو ان لوگوں کے پاس واپس لوٹ جا (اور ان کو بتا کہ) ہم ان کے پاس ایسے لشکر لے کر آرہے ہیں جن کے مقابلہ کی ان میں تاب نہ ہو گی اور ہم ان کو وہاں سے اس طرح ذلیل کر کے نکالیں گے کہ وہ خوار ہو چکے ہوں گے۔

۳۸.   آپ نے کہا اے عمائدین سلطنت! تم میں سے کون ہے ؟ جو اس (ملکہ سبا) کا تخت میرے پاس لائے قبل اس کے کہ وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آئیں ؟

۳۹.    جنات میں سے ایک شریر و چالاک جن نے کہا کہ میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا اس سے پہلے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں۔ بے شک میں اس کی طاقت رکھتا ہوں (اور میں ) امانت دار بھی ہوں۔

۴۰.   اور اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھ جھپکے پھر جب سلیمان نے اسے اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنے فائدہ کیلئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو وہ (اپنا نقصان کرتا ہے ) میرا پروردگار بے نیاز اور کریم ہے۔

۴۱.    آپ نے کہا اس (ملکہ) کے تخت کی صورت بدل دو تاکہ ہم دیکھیں کہ آیا وہ صحیح بات تک راہ پاتی ہے یا وہ ان لوگوں میں سے ہے جو صحیح بات تک راہ نہیں پاتے۔

۴۲.   الغرض جب ملکہ آئی تو اس سے کہا گیا کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے ؟ اس نے کہا یہ تو گویا وہی ہے اور ہمیں تو پہلے ہی سے حقیقت معلوم ہو گئی تھی۔ اور ہم تو مسلمان (مطیع و فرمانبردار) ہو چکے ہیں۔

۴۳.   اور سلیمان نے اس (ملکہ) کو غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا جو وہ کیا کرتی تھی کیونکہ وہ کافر قوم میں سے تھی۔

۴۴.   اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو۔ تو جب اس نے اس کو دیکھا تو (بلوریں فرش کو گہرا) پانی خیال کیا اور (گزرنے کیلئے اس طرح پائینچے اٹھائے کہ) اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں۔ آپ نے کہا یہ (پانی نہیں ہے بلکہ) شیشوں سے مرصع محل ہے (اور بلوریں فرش ہے ) ملکہ نے کہا اے میرے پروردگار! میں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔

۴۵.   اور بے شک ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو رسول بنا کر (اس پیغام کے ساتھ) بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ تو وہ دو فریق (مؤمن و کافر) ہو گئے جو آپس میں جھگڑنے لگے۔

۴۶.   آپ نے کہا اے میری قوم! تم بھلائی سے پہلے برائی کیلئے کیوں جلدی کرتے ہو؟ تم اللہ سے کیوں بخشش طلب نہیں کرتے ؟ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

۴۷.   انہوں نے کہا کہ ہم تو تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو برا شگون سمجھتے ہیں آپؑ نے کہا تمہاری بد شگونی تو اللہ کے پاس ہے بلکہ تم وہ لوگ ہو جو آزمائے جا رہے ہو۔

۴۸.   اور (اس) شہر میں نو گروہ تھے جو زمین میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔

۴۹.    انہوں نے کہا کہ آپس میں خدا کی قسم کھا کر عہد کرو کہ ہم رات کے وقت صالح اور اس کے گھر والوں کو ہلاک کر دیں گے اور پھر ان کے وارث سے کہیں گے کہ ہم ان کے گھر والوں کی ہلاکت کے موقع پر موجود ہی نہیں تھے اور ہم بالکل سچے ہیں۔

۵۰.   اور (اس طرح) انہوں نے ایک چال چلی اور ہم نے بھی ایک چال چلی جس کی انہیں خبر نہ تھی۔

۵۱.    تو دیکھو ان کی چال کا انجام کیا ہوا؟ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو تباہ و برباد کر دیا۔

۵۲.   سو یہ ان کے گھر ہیں جو ان کے ظلم کی وجہ سے ویران پڑے ہیں۔ بے شک اس (واقعہ) میں ایک بڑی نشانی ہے ان لوگوں کیلئے جو علم رکھتے ہیں۔

۵۳.   اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کئے ہوئے تھے۔

۵۴.   اور ہم نے لوط کو بھی (رسول بنا کر بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بے حیائی کا کام کرتے ہو حالانکہ تم دیکھ رہے ہو (جانتے بوجھتے ہو)۔

۵۵.   کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو؟ بلکہ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو۔

۵۶.   ان کی قوم کا جواب اس کے سوا کوئی نہ تھا کہ لوط کے گھرانے کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔

۵۷.   پس ہم نے آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو نجات دی سوائے آپ کی بیوی کے کہ جس کے بارے میں ہم نے فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہو گی۔

۵۸.   اور ہم نے ان پر ایک خاص (پتھروں کی) بارش برسائی سو کیسی بری بارش تھی ان لوگوں کیلئے جن کو ڈرایا جا چکا تھا۔

۵۹.    آپ کہئے ! ہر قِسم کی تعریف اللہ کیلئے ہے اور اس کے ان بندوں پر سلام ہو جنہیں اس نے منتخب کیا ہے (ان سے پوچھو) کیا اللہ بہتر ہے یا وہ (معبود) جنہیں وہ (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہیں ؟

۶۰.    (ان مشرکین سے پوچھو) بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا؟ اور تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا؟ پھر ہم نے اس (پانی) سے خوش منظر (با رونق) باغات اگائے۔ ان درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہیں تھا۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ بلکہ یہ (راہِ حق سے ) انحراف کرنے والے لوگ ہیں۔

۶۱.    بھلا وہ کون ہے جس نے زمین کو قرارگاہ بنایا؟ اور اس کے درمیان نہریں (ندیاں ) جاری کیں اور اس کیلئے بھاری پہاڑ بنائے اور دو دریاؤں کے درمیان پردہ حائل کر دیا۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے ؟ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

۶۲.    کون ہے جو مضطر و بے قرار کی دعا و پکار کو قبول کرتا ہے۔ جب وہ اسے پکارتا ہے ؟ اور اس کی تکلیف و مصیبت کو دور کر دیتا ہے ؟ اور تمہیں زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے ؟ نہیں – بلکہ یہ لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

۶۳.   جو خشکی اور تری کی تاریکیوں میں تمہاری راہنمائی کرتا ہے۔ اور اپنی (باران) رحمت سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے ؟ اللہ برتر و بالا ہے ان چیزوں سے جنہیں وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔

۶۴.   وہ کون ہے جو خلقت کی ابتداء کرتا ہے اور پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی دیتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے ؟ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔

۶۵.   آپ کہہ دیجئے ! کہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ اور نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کب (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے ؟

۶۶.    بلکہ آخرت کی منزل میں رفتہ رفتہ انہیں پورا علم ہو گا۔ بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں بلکہ یہ اس کی طرف سے بالکل اندھے ہیں۔

۶۷.   اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو جائیں گے تب ہم (دوبارہ قبروں سے ) نکالے جائیں گے۔

۶۸.   اس کا وعدہ ہم سے بھی کیا گیا اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی کیا گیا یہ تو محض اگلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔

۶۹.    آپ کہئے کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا؟

۷۰.   اور (اے رسولﷺ) آپ ان (کے حال) پر غمزدہ نہ ہوں۔ اور جو چالیں یہ چل رہے ہیں اس سے دل تنگ نہ ہوں۔

۷۱.    اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ وعید کب پورا ہو گا؟ اگر تم سچے ہو؟

۷۲.   آپ کہئے ! بہت ممکن ہے کہ جس (عذاب) کیلئے تم جلدی کر رہے ہو اس کا کچھ حصہ تمہارے پیچھے آ لگا ہو(قریب آ گیا ہو)۔

۷۳.   اور بے شک آپ کا پروردگار لوگوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

۷۴.   اور یقیناً آپ کا پروردگار خوب جانتا ہے اسے جو ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔

۷۵.   اور آسمانوں و زمین میں کوئی ایسی پوشیدہ چیز نہیں ہے۔ جو ایک واضح کتاب میں موجود نہ ہو۔

۷۶.   بے شک یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جن میں وہ اختلاف کیا کرتے ہیں۔

۷۷.   اور بلاشبہ وہ (قرآن) مؤمنین کیلئے سراپا ہدایت اور رحمت ہے۔

۷۸.   اور بے شک آپ کا پروردگار اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ وہ بڑا غالب اور بڑا جاننے والا ہے۔

۷۹.   سو آپ اللہ پر بھروسہ کریں۔ بے شک آپ واضح حق پر ہیں۔

۸۰.   آپ مُردوں کو (آواز) نہیں سنا سکتے۔ اور نہ بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہیں جو پیٹھ پھیر کر چل دیں۔

۸۱.    اور نہ ہی آپ (دل کے ) اندھوں کو ان کی گمراہی سے (ہٹا کر) راستہ دکھا سکتے ہیں۔ آپ تو صرف انہی لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ بس یہی لوگ ماننے والے ہیں۔

۸۲.   اور جب ان لوگوں پر وعدہ پورا ہونے کو ہو گا تو ہم زمین سے چلنے پھرنے والا نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا۔ (اس بناء پر) کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔

۸۳.   اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایسا گروہ محشور (جمع) کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتا تھا۔ پھر اس کو روک کر جماعت بندی کی جائے گی۔

۸۴.   یہاں تک کہ جب وہ (سب) آ جائیں گے تو اللہ ان سے فرمائے گا کیا تم نے میری آیتوں کو اس حالت میں جھٹلایا تھا کہ تم نے ان کا علمی احاطہ بھی نہ کیا تھا؟ یا وہ کیا تھا جو تم کیا کرتے تھے ؟

۸۵.   اور ان لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ان پر (وعدۂ عذاب کی) بات پوری ہو جائے گی تو اب وہ نہیں بولیں گے۔

۸۶.   کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات (تاریک) اس لئے بنائی کہ وہ اس میں آرام کریں اور دن کو روشن اس لئے بنایا (تاکہ اس میں کام کریں ) بے شک اس میں ایمان لانے والوں کیلئے (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں۔

۸۷.   اور جس دن صور پھونکا جائے گا۔ تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب گھبرا جائیں گے سوائے ان کے جن کو خدا (بچانا) چاہے گا اور سب ذلت و عاجزی کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔

۸۸.   (اس وقت) تم پہاڑوں کو دیکھو گے تو خیال کرو گے کہ وہ ساکن و برقرار ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی مانند رواں دواں ہوں گے۔ یہ خدا کی کاریگری ہے جس نے ہر شئے کو محکم و پائیدار بنایا ہے۔ بیشک وہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

۸۹.    جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر ملے گا اور اس دن کی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔

۹۰.    اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو ان کو اوندھے منہ آتش (دوزخ) میں پھینک دیا جائے گا۔ کیا تمہیں تمہارے عمل کے علاوہ کوئی بدلہ مل سکتا ہے ؟ (جیسا کرو گے ویسا بھرو گے )۔

۹۱.    (اے رسولﷺ۔ کہو) مجھے تو بس یہی حکم ملا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے رہوں۔

۹۲.    اور یہ کہ قرآن پڑھ کر سناؤں سو اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے لئے ہدایت اختیار کرے گا۔ اور جو کوئی گمراہی اختیار کرے گا تو آپ کہہ دیجئے ! کہ میں تو صرف ڈرانے والوں میں سے ہوں۔

۹۳.    اور آپ کہہ دیجئے ! کہ سب تعریف اللہ کیلئے ہے وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا اور تم انہیں پہچان لو گے اور تمہارا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

٭٭

 

 

 

۲۸۔ سورۃ قصص

 

۱.      طا۔ سین۔ میم۔

۲.     یہ کتابِ مبین کی آیتیں ہیں۔

۳.     ہم اہلِ ایمان کے فائدہ کیلئے موسیٰ و فرعون کی کچھ خبریں سچائی کے ساتھ آپ کے سامنے پڑھ کر سناتے ہیں۔

۴.     بے شک فرعون زمین (مصر) میں سرکش ہو گیا تھا اور اس کے باشندوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا اور اس نے ان میں سے ایک گروہ کو کمزور بنا رکھا تھا (چنانچہ) ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیتا تھا اور ان کی عورتوں (لڑکیوں ) کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ بے شک وہ (زمین میں ) فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔

۵.     اور ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جنہیں زمین میں کمزور کر دیا گیا تھا اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں (زمین کا) وارث قرار دیں۔

۶.     اور انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں اور فرعون، ہامان اور ان کی فوجوں کو ان (کمزوروں ) کی جانب سے وہ کچھ دکھلائیں جس سے وہ ڈرتے تھے۔

۷.     اور ہم نے مادر موسیٰ کو وحی کی کہ اس (بچہ) کو دودھ پلا۔ اور جب اس کے متعلق خطرہ محسوس ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور (کسی قسم کا) خوف اور غم نہ کر، بلاشبہ ہم اسے تیری طرف واپس لوٹا دیں گے اور اسے رسولوں میں سے بنائیں گے۔

۸.     چنانچہ فرعون کے گھر والوں نے اسے (دریا سے ) اٹھا لیا تاکہ وہ ان کیلئے دشمن اور رنج و غم (کا باعث) بنے۔ بیشک فرعون، ہامان اور دونوں کے لشکر والے خطاکار (اور غلط کار) تھے۔

۹.     اور فرعون کی بیوی نے (اس سے ) کہا کہ یہ (بچہ) تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اسے قتل نہ کرو۔ ممکن ہے کہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنا لین اور انہیں (انجام کی) کچھ خبر نہ تھی۔

۱۰.    اور مادرِ موسیٰ کا دل بے چین ہو گیا اور قریب تھا کہ وہ اس (بچہ) کا حال ظاہر کر دے۔ اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے تاکہ وہ (ہمارے وعدہ پر) ایمان لانے والوں میں سے ہو۔

۱۱.     اور ہم نے اس (بچہ) کی بہن سے کہا کہ تو اس کے پیچھے پیچھے جا۔ چنانچہ وہ دور سے اسے دیکھتی رہی جبکہ ان لوگوں کو خبر بھی نہ ہوئی۔

۱۲.    اور ہم نے اس (بچہ) پر دائیوں کو پہلے سے حرام کر دیا تھا تو اس (بچہ کی بہن) نے کہا کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسے گھرانے کا پتہ بتاؤں جو تمہارے لئے اس کی پرورش کرے ؟ اور وہ اس کے خیرخواہ بھی ہوں ؟

۱۳.    اس طرح ہم نے وہ (بچہ) اس کی ماں کی طرف لوٹا دیا۔ تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی اور غمناک نہ ہو اور یہ بھی جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ (یہ بات) نہیں جانتے۔

۱۴.    اور جب وہ (بچہ) اپنے پورے شباب کو پہنچ گیا اور (قد و قامت) پورا درست ہو گیا تو ہم نے اس کو (خاص) حکمت و علم عطا کیا اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو صلہ دیتے ہیں۔

۱۵.    وہ (جوان) ایسے وقت شہر میں داخل ہوا جب کہ اس شہر کے باشندے بے خبر تھے۔ تو اس نے وہاں دو آدمیوں کو آپس میں لڑتے ہوئے پایا۔ یہ ایک ان کے گروہ میں سے تھا۔ اور یہ دوسرا ان کے دشمنوں میں سے تھا پس جو اس کے گروہ میں سے تھا اس نے (موسیٰ) کو اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا مدد کیلئے پکارا تو موسیٰ نے اسے ایک مکا مارا۔ بس اس کا کام تمام کر دیا اور کہا یہ (ان کی لڑائی) شیطان کی کاروائی تھی۔ بے شک وہ کھلا ہوا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔

۱۶.    کہا اے میرے پروردگار میں نے اپنے اوپر ظلم کیا تو مجھے بخش دے تو خدا نے اسے بخش دیا۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۷.    (پھر) کہا اے میرے پروردگار تو نے مجھے اپنی نعمت سے نوازا ہے۔ میں کبھی مجرموں کا پشت پناہ نہیں بنوں گا۔

۱۸.    پھر موسیٰ نے شہر میں اس حال میں صبح کی کہ وہ خوف زدہ اور منتظر تھا (کہ کیا ہوتا ہے ؟) کہ اچانک دیکھا کہ وہی شخص جس نے کل اس سے مدد طلب کی تھی (آج پھر چیخ کر( اس کو مدد کیلئے پکار رہا ہے موسیٰ نے اس سے کہا کہ تو کھلا ہوا بد راہ ہے۔

۱۹.    پھر جب موسیٰ نے اس شخص پر سخت ہاتھ ڈالنا چاہا جو ان دونوں کا دشمن تھا تو اس نے کہا اے موسیٰ تو (آج) مجھے اسی طرح قتل کرنا چاہتا ہے جس طرح کل ایک شخص کو قتل کیا؟ تو بس یہی چاہتا ہے کہ زمین میں سرکش بن جائے اور یہ نہیں چاہتا کہ اصلاح کرنے والوں میں سے ہو۔

۲۰.    اور شہر کے آخری حصہ سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا (اور) کہا اے موسیٰ! قوم کے بڑے لوگ تمہارے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ تجھے قتل کر دیں۔ (لہٰذا) یہاں سے نکل جا یقیناً میں تیرے خیر خواہوں میں سے ہوں۔

۲۱.    چنانچہ موسیٰ وہاں سے خوفزدہ ہو کر نتیجہ کا انتظار کرتا ہوا نکلا (اور) کہا اے میرے پروردگار! مجھے ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما۔

۲۲.    اور جب موسیٰ نے (مصر سے نکل کر) مدین کا رخ کیا تو کہا امید ہے کہ میرا پروردگار سیدھے راستہ کی طرف میری راہنمائی کرے گا۔

۲۳.   اور جب وہ مدین کے پانی (کنویں ) پر پہنچا تو وہاں لوگوں کا ایک مجمع پایا جو (اپنے مویشیوں کو) پانی پلا رہا ہے اور ان لوگوں سے الگ دو عورتوں کو پایا کہ وہ (اپنے ریوڑ کو) روکے ہوئے کھڑی ہیں۔ موسیٰ نے کہا تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ ان دونوں نے کہا ہم اس وقت تک (اپنے جانوروں کو) پانی نہیں پلاتیں جب تک (یہ) چرواہے اپنے مویشیوں کو (پانی پلا کر) نہ لے جائیں اور ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں۔

۲۴.   (یہ سن کر) موسیٰ نے (ان کے ریوڑ کو) پانی پلا دیا اور پھر وہاں سے ہٹ کر سایہ میں آ گیا اور کہا اے میرے پروردگار! تو جو خیر (نعمت) بھی مجھ پر اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔

۲۵.   پس ان دو عورتوں مین سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی (اور) کہا میرے والد تمہیں بلاتے ہیں تاکہ تمہیں اس کا معاوضہ دیں جو تم نے ہماری خاطر پانی پلایا تو جب موسیٰ اس کے پاس پہنچا اور اسے سارا اپنا قصہ سنایا تو اس (بزرگ) نے (تسلی دیتے ہوئے ) کہا خوف نہ کر اب تم ظالم لوگوں سے نجات پا گئے ہو۔

۲۶.    تو ان دو میں سے ایک لڑکی نے کہا اے ابا! اس کو اجرت پر رکھ لیجئے کیونکہ اچھا مزدور جسے آپ اجرت پر رکھیں وہی ہے جو طاقت ور بھی ہو اور امانت دار بھی۔

۲۷.   اس (شعیب) نے (موسیٰ سے ) کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کا عقد نکاح تمہارے ساتھ اس شرط پر کر دوں کہ تم آٹھ سال تک میری خدمت کرو اور اگر دس سال پورے کرو تو یہ تمہاری طرف سے (احسان) ہے اور میں تم پر کوئی سختی نہیں کرنا چاہتا۔ ان شاء اللہ تم مجھے نیکوکار لوگوں میں سے پاؤ گے۔

۲۸.   موسیٰ نے کہا (اچھا) یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہو گئی۔ ان دونوں میں سے میں جو مدت بھی پوری کر دوں (اس کے بعد) مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو گی اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے۔

۲۹.    پھر جب موسیٰ نے (مقررہ) مدت پوری کر دی اور اپنے اہل و (عیال) کو ساتھ لے کر مصر روانہ ہوئے تو طور کی جانب سے آگ محسوس کی تو گھر والوں سے کہا کہ تم ٹھہرو میں نے آگ محسوس کی ہے شاید میں تمہارے پاس (وہاں سے ) کوئی خبر لاؤں یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں تاکہ تم تاپو۔

۳۰.   تو جب آپ وہاں گئے تو اس وادی کے داہنے کنارے سے اس مبارک مقام پر درخت سے انہیں ندا دی گئی اے موسیٰ! میں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار۔

۳۱.    اور یہ کہ تم اپنا عصا پھینک دو تو جب اسے دیکھا کہ اس طرح حرکت کر رہا ہے جیسے وہ سانپ ہے تو وہ منہ موڑ کر الٹے مڑے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا (آواز آئی) اے موسیٰ! آگے آؤ۔ اور ڈرو نہیں تم (ہر طرح) امن میں ہو۔

۳۲.   (اور) اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ بغیر کسی تکلیف (اور بیماری) کے سفید چمکتا ہوا نکلے گا اور رفع خوف کیلئے اپنا بازو اپنی طرف سمیٹ لو یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے دو نشانیاں ہیں فرعون اور اس کے سرداروں کے سامنے پیش کرنے کیلئے۔ بیشک وہ (بڑے ) نافرمان لوگ ہیں۔

۳۳.   موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کیا تھا ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔

۳۴.   اور میرا بھائی ہارون جو مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہے تو اسے میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج تاکہ وہ میری تصدیق کرے کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔

۳۵.   ارشاد ہوا: ہم تمہارے بازو کو تمہارے بھائی کے ذریعہ سے مضبوط کریں گے اور ہم تم دونوں کو غلبہ عطا کریں گے کہ وہ تم تک پہنچ بھی نہیں سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کی برکت سے تم اور تمہارے پیروکار ہی غالب آئیں گے۔

۳۶.   تو جب موسیٰ ان لوگوں کے پاس کھلی ہوئی نشانیوں کے ساتھ آئے تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہے مگر گھڑا ہوا جادو اور یہ باتیں تو ہم نے اپنے باپ داداؤں کے زمانہ میں بھی نہیں سنیں۔

۳۷.   اور موسیٰ نے کہا میرا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ اس کی طرف سے کون ہدایت لے کر آیا ہے اور کس کیلئے دار آخرت کا انجام بخیر ہے ؟ بیشک ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پاتے۔

۳۸.   اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں تو اپنے سوا تمہارے لئے کوئی خدا نہیں جانتا تو اے ہامان! تو میرے لئے مٹی کو آگ میں پکا (مٹی کو کچی اینٹوں کو پکوا) پھر میرے لئے ایک بلند عمارت بنوا۔ تاکہ میں (اس پر چڑھ کر) موسیٰ کے خدا کا کوئی سراغ لگا سکوں اور میں تو اسے (اس دعویٰ میں ) جھوٹا ہی خیال کرتا ہوں۔

۳۹.    اور فرعون اور اس کی فوجوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور انہوں نے خیال کیا کہ وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گے۔

۴۰.   سو ہم نے اسے اور اس کی فوجوں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا تو دیکھو ظالموں کا کیسا انجام ہوا؟

۴۱.    اور ہم نے انہیں ایسا پیشوا قرار دیا ہے جو (لوگوں کو) آتش (دوزخ) کی طرف بلاتے ہیں اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہ کی جائے گی۔

۴۲.   اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی ہے اور قیامت کے دن قبیح المنظر لوگوں میں سے ہوں گے۔

۴۳.   اور پہلی امتوں کو ہلاک کرنے کے بعد بالیقین ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی جو لوگوں کیلئے بصیرتوں کا مجموعہ اور سراپا ہدایت و رحمت تھی تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

۴۴.   اور (اے رسولﷺ) آپ (کوہِ طور کی) مغربی جانب موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ سے (نبوت و رسالت) کا معاملہ طے کیا تھا اور نہ ہی آپ وہاں حاضرین میں سے تھے۔

۴۵.   لیکن ہم نے (اس اثناء میں ) کئی نسلیں پیدا کیں اور ان پر زمانہ دراز گزر گیا ہے (اور ہمارے عہد و پیمان کو بھلا دیا) اور نہ ہی آپ مدین والوں میں مقیم تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے لیکن ہم (آپ کو) رسول بنا کر بھیجنے والے تھے (اس لئے ان کے حالات سے آپ کو آگاہ کیا)۔

۴۶.   اور نہ آپ کوہ طور کے دامن میں موجود تھے جب ہم نے (موسیٰ کو) ندا دی تھی لیکن یہ (آپ کا مبعوث برسالت ہونا) آپ کے پروردگار کی رحمت ہے تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

۴۷.   (اور شاید ہم رسول نہ بھیجتے ) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اگر ان کے کرتوتوں کی پاداش میں انہیں کوئی مصیبت پہنچے تو وہ یہ نہ کہنے لگ جائیں کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ہم ایمان لانے والوں میں سے ہوتے۔

۴۸.   جب ہماری طرف سے ان کے پاس حق آ گیا (آخری برحق رسول آ گیا) تو کہنے لگے اس (رسول) کو وہ کچھ کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا تھا کیا انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا تھا؟ وہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کہتے تھے کہ ہم ہر ایک کے منکر ہیں۔

۴۹.    آپ کہیے ! کہ تم سچے ہو تو اللہ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لاؤ جو ان دونوں (توراۃ، قرآن) سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو تو میں اسی کی پیروی کروں گا۔

۵۰.   اور اگر وہ آپ کی یہ بات قبول نہ کریں تو پھر سمجھ لیں کہ وہ صرف اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش نفس کی پیروی کرے ؟ بے شک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔

۵۱.    اور ہم نے ان کیلئے کلام (ہدایت نظام) کا تسلسل جاری رکھا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

۵۲.   جن کو ہم نے اس (نزولِ قرآن) سے پہلے کتاب عطا کی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔

۵۳.   اور جب یہ (قرآن) ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے بے شک یہ ہمارے پروردگار کی طرف سے حق ہے اور ہم تو اس سے پہلے ہی مسلم (اسے ماننے والے ) ہیں۔

۵۴.   یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر و ثبات کی وجہ سے دوہرا اجر عطا کیا جائے گا اور وہ برائی کا دفعیہ بھلائی سے کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دے رکھا ہے وہ اس میں سے (راہِ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں۔

۵۵.   اور وہ جب کوئی فضول بات سنتے ہیں تو اس سے روگردانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ! تم کو سلام! ہم جاہلوں کو پسند نہیں کرتے۔

۵۶.   (اے رسولﷺ) آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بہتر جانتا ہے۔

۵۷.   اور وہ (کفارِ مکہ) کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہمیں اپنی سر زمین سے اچک لیا جائے گا (یہاں سے نکال دیا جائے گا) کیا ہم نے ان کو ایسے امن والے محترم مقام میں جگہ نہیں دی؟ جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

۵۸.   اور ہم نے کتنی ہی ایسی بستیاں ہلاک کر دیں جو اپنی معیشت (خوشحالی) پر اترا گئی تھیں (دیکھو) یہ ان کے مکانات ہیں جو (اجڑے ) پڑے ہیں جو ان کے بعد کم ہی آباد ہوئے ہیں آخرکار ہم ہی وارث ہیں۔

۵۹.    اور آپ کا پروردگار بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں ہے جب تک ان کے مرکزی مقام میں کوئی رسول نہ بھیج دے جو ہماری آیتوں کی تلاوت کرے اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں جب تک ان کے باشندے ظالم نہ ہوں۔

۶۰.    اور تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے یہ محض زندگانی دنیا کا سرمایہ ہے اور اسی کی زیب و زینت اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اور زیادہ پائیدار بھی تم عقل سے کیوں کام نہیں لیتے۔

۶۱.    کیا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہے اور وہ اسے پانے والا بھی ہے۔ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف دنیوی زندگانی کا (چند روزہ) سامان دیا ہے۔ اور پھر قیامت کے دن (سزا کیلئے پکڑ کر) حاضر کیا جائے گا۔

۶۲.    اور (وہ دن یاد رکھو) جس دن اللہ انہیں پکارے گا اور فرمائے گا (آج) کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کو تم (میرا شریک) گمان کرتے تھے۔

۶۳.   جن پر خدا کا حکم (عذاب) نافذ ہو چکا ہو گا۔ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! یہ ہیں وہ لوگ جنہیں ہم نے گمراہ کیا تھا ہم نے انہیں اسی طرح گمراہ کیا تھا جیسے ہم خود گمراہ تھے (اب) ہم تیری بارگاہ میں (ان سے ) برأت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ ہماری پرستش نہیں کیا کرتے تھے۔

۶۴.   پھر (ان سے ) کہا جائے گا کہ اپنے (مزعومہ) شریکوں کو بلاؤ چنانچہ وہ انہیں پکاریں گے مگر وہ انہیں کوئی جواب نہیں دیں گے۔ اور عذاب کو دیکھیں گے (اس پر وہ تمنا کریں گے کہ) کاش وہ ہدایت یافتہ ہوتے۔

۶۵.   اور (وہ دن یاد کرو) جس دن اللہ انہیں پکارے گا اور کہے گا کہ تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا؟

۶۶.    اس دن ان پر خبریں تاریک ہو جائیں گی (کوئی جواب نہ بن پڑے گا) اور نہ ہی یہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کر سکیں گے۔

۶۷.   البتہ جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو امید ہے کہ وہ فلاح پانے والوں میں سے ہو گا۔

۶۸.   اور (اے رسول) آپ کا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے ) منتخب کرتا ہے لوگوں کو کوئی اختیار نہیں ہے اللہ پاک ہے اور جو وہ شرک کرتے ہیں وہ اس سے بلند و برتر ہے۔

۶۹.    اور آپ کا پروردگار جانتا ہے وہ جو کچھ ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں اور وہ بھی جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔

۷۰.   وہی (ایک) اللہ ہے اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے اسی کیلئے ہر قسم کی تعریف ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اسی کی حکومت (فرمانروائی) ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

۷۱.    آپ کہئے آیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر رات مقرر (مسلط) کر دے تو اللہ کے سوا کون الہ ہے جو تمہارے پاس روشنی لائے ؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟

۷۲.   اور کہئے ! آیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ اگر قیامت تک تم پر دن مقرر (مسلط) کر دے تو اللہ کے سوا کون الٰہ ہے جو تمہارے پاس رات لائے جس میں تم آرام کرو کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟

۷۳.   اور اس نے اپنی (خاص) رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن بنائے تاکہ (رات میں ) آرام کرو۔ اور (دن میں ) اس کا فضل (روزی) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔

۷۴.   اور (یاد کرو) وہ دن جس میں اللہ ان (مشرکین) کو پکارے گا اور کہے گا کہاں ہیں میرے شریک جن کے متعلق تم گمان فاسد کیا کرتے تھے۔

۷۵.   اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکال کر لائیں گے پھر ان سے کہیں گے کہ اپنی دلیل و برہان لاؤ تب انہیں معلوم ہو گا کہ حق اللہ ہی کیلئے ہے اور وہ جو افتراء پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب ان سے غائب ہو جائیں گی۔

۷۶.   بے شک قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا پھر وہ ان کے خلاف سرکش ہو گیا۔ اور ہم نے اسے اتنے خزانے عطا کئے تھے کہ اس کی چابیاں ایک طاقتور جماعت کو بھی گرانبار کر دیتی تھیں (اس سے مشکل سے اٹھتی تھیں ) جبکہ اس کی قوم نے اس سے کہا کہ (اپنی منزلت پر) مت اترا بے شک اللہ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

۷۷.   اور اللہ نے تجھے جو کچھ (مال و زر) دیا ہے۔ اس سے آخرت کے گھر کی جستجو کر اور دنیا سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ اور جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اسی طرح (اس کے بندوں کے ساتھ) احسان کر۔ اور زمین میں فساد برپا کرنے کی خواہش نہ کر یقیناً اللہ فساد برپا کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

۷۸.   قارون نے کہا کہ مجھے جو کچھ (مال و منال) ملا ہے وہ اس (خاص) علم کی بدولت ملا ہے جو میرے پاس ہے کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی نسلوں کو ہلاک کر دیا ہے جو قوت میں اس سے سخت تر اور جمعیت میں زیادہ تھیں اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کرنا پڑتا۔

۷۹.   وہ (ایک دن) اپنی قوم کے سامنے اپنی زیب و زینت کے ساتھ نکلا تو جو لوگ دنیاوی زندگی کے طلبگار تھے وہ کہنے لگے کہ کاش ہمیں بھی وہ (ساز و سامان) ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ بیشک وہ بڑا نصیب والا ہے۔

۸۰.   اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا انہوں نے کہا وائے ہو تم پر! جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے اس کیلئے اللہ کا صلہ و ثواب اس سے بہتر ہے اور یہ (حکمت و منزلت) صرف صبر و ثبات کرنے والوں کو مرحمت کی جاتی ہے۔

۸۱.    پھر ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا سو نہ اس کے حامیوں کی کوئی جماعت تھی جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتی اور نہ ہی وہ اپنی مدد آپ کر سکا۔

۸۲.   اور وہ لوگ جو کل اس کے جاہ و مرتبہ کی تمنا کر رہے تھے اب کہنے لگے افسوس (اب پتہ چلا) کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ اگر اللہ ہم پر (تنگدست بنا کر) احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا اور کافر کبھی فلاح نہیں پاتے۔

۸۳.   یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کیلئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں تکبر و سرکشی اور فساد برپا کرنے کا ارادہ بھی نہیں کرتے اور (نیک) انجام تو پرہیزگاروں کے ہی لئے ہے۔

۸۴.   جو کوئی بھلائی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر صلہ ملے گا اور جو کوئی برائی لے کر آئے گا تو ایسے لوگوں کو جو برائیاں کرتے ہیں تو انہیں بدلہ بھی اتنا ہی ملے گا جتنا وہ (برائی) کرتے تھے۔

۸۵.   (اے رسولﷺ) جس (خدا) نے آپ پر قرآن (کا پہنچانا) فرض کیا ہے وہ آپ کو واپسی کی منزل (مکہ) تک پھر پہنچا کر رہے گا۔ آپ کہئے ! میرا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کھلی ہوئی گمراہی میں کون ہے ؟

۸۶.   اور آپ کو اس بات کی امید نہیں تھی کہ آپ پر (یہ) کتاب نازل کی جائے گی۔ یہ تو بس آپ کے پروردگار کی رحمت ہے۔ لہٰذا آپ بھی کافروں کے پشت پناہ نہ بنئے گا۔

۸۷.   اور (خیال رکھنا) کہ یہ لوگ آپ کو اللہ کی آیتوں (کی تبلیغ) سے کہیں روک نہ دیں بعد اس کے کہ وہ آپ پر نازل ہو چکی ہیں اور آپ اپنے پروردگار کی طرف (لوگوں کو) بلائیں اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہونا۔

۸۸.   اور اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہ پکاریں اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ہر شے ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کے وجہ (ذات) کے اسی کی حکومت (اور فرمانروائی) ہے اور اسی کی طرف تم (سب) لوٹائے جاؤ گے۔

٭٭

 

 

 

۲۹۔ سورۃ عنکبوت

 

۱.      الف۔ لام۔ میم۔

۲.     کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے (زبانی) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی؟

۳.     حالانکہ ہم نے ان (سب) کی آزمائش کی تھی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں سو اللہ ضرور معلوم کرے گا ان کو جو (دعوائے ایمان میں ) سچے ہیں اور ان کو بھی معلوم کرے گا جو جھوٹے ہیں۔

۴.     جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا انہوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ ہم سے آگے نکل جائیں گے ؟ وہ کتنا برا حکم لگاتے ہیں۔

۵.     جو کوئی اللہ کے حضور حاضری کی امید رکھتا ہے تو بیشک اللہ کا مقررہ وقت ضرور آنے والا ہے اور وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔

۶.     اور جو کوئی جہاد کرتا ہے تو وہ اپنے ہی لئے جہاد کرتا ہے۔ بے شک اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔

۷.     اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے تو ہم ان کی برائیاں دور کر دیں گے (ان کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیں گے ) اور ہم انہیں ان کے اعمال کی بہترین جزا دیں گے۔

۸.     اور ہم نے انسان کو وصیت کی ہے یعنی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور (یہ بھی کہ) اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک بنا جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے تو میں تمہیں بتاؤں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

۹.     اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی بجا لائے ہم ضرور انہیں صالحین میں داخل کریں گے۔

۱۰.    اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو (زبان سے ) کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے پھر اللہ کی راہ میں جب اسے اذیت پہنچائی جاتی ہے تو وہ ان لوگوں کی آزمائش کو اللہ کے عذاب کے مانند قرار دے دیتا ہے اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے کوئی مدد پہنچ جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم (بھی) تو تمہارے ساتھ تھے کیا جو کچھ دنیا جہاں والوں کے دلوں میں ہے کیا اللہ اس کا سب سے بہتر جاننے والا نہیں ہے۔

۱۱.     اور اللہ ضرور معلوم کرے گا کہ مؤمن کون ہیں اور منافق کون؟

۱۲.    اور کافر لوگ اہلِ ایمان سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے راستہ پر چلو تمہارے گناہوں (کا بوجھ) ہم اٹھائیں گے۔ حالانکہ یہ ان کے گناہوں کو کچھ بھی اٹھانے والے نہیں وہ بالکل جھوٹے ہیں۔

۱۳.    (ہاں البتہ) یہ لوگ اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ کچھ اور بوجھ بھی۔ اور قیامت کے دن ضرور ان سے بازپرس کی جائے گی ان افترا پردازیوں کے بارے میں جو وہ کرتے تھے۔

۱۴.    اور یقیناً ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ اس میں پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے پھر (آخرکار) اس قوم کو طوفان نے آ پکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔

۱۵.    پس ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو نجات دی اور اس (کشتی) کو تمام جہانوں کیلئے (اپنی ایک) نشانی بنا دیا۔

۱۶.    اور (ہم نے ) ابراہیم کو (بھیجا) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس (کی نافرمانی) سے ڈرو اگر تم کچھ سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔

۱۷.    تم اللہ کو چھوڑ کر محض بتوں کی پرستش کرتے ہو اور تم ایک جھوٹ گھڑتے ہو۔ بے شک یہ جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری روزی کے مالک و مختار نہیں ہیں۔ پس تم اللہ سے روزی طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر ادا کرو۔ اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

۱۸.    اور اگر تم (مجھے ) جھٹلاتے ہو (تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ) تم سے پہلے بھی کئی امتیں (اپنے پیغمبروں کو) جھٹلا چکی ہیں اور رسول کی ذمہ داری صرف واضح تبلیغ کرنا ہے۔ و بس۔

۱۹.    کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کس طرح پہلی بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر کس طرح اسے دوبارہ پلٹاتا ہے ؟ بے شک یہ بات اللہ کیلئے آسان ہے۔

۲۰.    آپ کہئے ! کہ زمین میں چلو پھرو پھر (غور سے ) دیکھو کہ اللہ نے کس طرح مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا؟ پھر (اسی طرح) اللہ پچھلی بار بھی پیدا کرے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

۲۱.    وہ جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے۔

۲۲.    اور تم (اللہ کو) نہ زمین میں عاجز کر سکتے ہو اور نہ آسمان میں اور نہ ہی اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست و کارساز ہے اور نہ ہی کوئی مددگار۔

۲۳.   اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہو گئے ہیں اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔

۲۴.   اور ان (ابراہیم) کی قوم کا جواب اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا کہ انہیں قتل کر دو یا آگ میں جلا دو تو اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا۔ بے شک اس میں ایمان لانے والوں کیلئے (بڑی) نشانیاں ہیں۔

۲۵.   اور ابراہیم نے (اپنی قوم سے ) کہا کہ تم نے اللہ کو چھوڑ کر زندگانی دنیا میں باہمی محبت کا ذریعہ سمجھ کر ان بتوں کو اختیار کر رکھا ہے پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہو گا۔ اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہو گا۔

۲۶.    اور لوط نے ان (ابراہیم) کی بات مانی اور اطاعت کی اور انہوں نے کہا میں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں۔ بیشک وہ غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۲۷.   اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کئے۔ اور نبوت اور کتاب ان کی نسل میں قرار دے دی۔ اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ دیا اور آخرت میں یقیناً وہ صالحین میں سے ہوں گے۔

۲۸.   اور (ہم نے ) لوط کو (بھیجا) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بے حیائی کا وہ کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔

۲۹.    کیا تم (عورتوں کو چھوڑ کر) مردوں کے پاس جاتے ہو؟ اور راہزنی کرتے ہو اور اپنے مجمع میں برے کام کرتے ہو۔ تو ان کی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ انہوں نے کہا (اے لوط) اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ۔

۳۰.   لوط نے کہا اے میرے پروردگار! ان مفسد لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔

۳۱.    اور جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے ) ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے۔ تو انہوں نے (اثنائے گفتگو میں یہ بھی) کہا کہ ہم اس (لوط کی) بستی والوں کو ہلاک کرنے والے ہیں (کیونکہ) اس بستی کے لوگ (بڑے ) ظالم ہیں۔

۳۲.   ابراہیم نے کہا اس بستی میں تو لوط بھی ہیں ؟ فرشتوں نے کہا ہم بہتر جانتے ہیں کہ اس میں کون کون ہیں ؟ ہم انہیں اور ان کے گھر والوں کو بچا لیں گے۔ سوائے ان کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔

۳۳.   اور جب (وہ) ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے ) لوط کے پاس آئے تو وہ ان کی آمد سے رنجیدہ اور دل تنگ ہوئے اور فرشتوں نے (ان کی حالت دیکھ کر) کہا کہ نہ ڈرو اور نہ رنج کرو ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بچا لیں گے سوائے آپ کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔

۳۴.   ہم اس بستی والوں پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں۔

۳۵.   اور ہم نے اس بستی کے کچھ نشان باقی چھوڑ دیئے (ان لوگوں کی عبرت کیلئے ) جو عقل سے کام لیتے ہیں۔

۳۶.   اور ہم نے مدین (والوں ) کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ تو انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اور روز آخرت کی امید رکھو۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔

۳۷.   پس ان لوگوں نے آپ کو جھٹلایا تو (انجام کار) ایک (سخت) زلزلے نے انہیں آ پکڑا اور وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل (مردہ ہو کر) گر گئے۔

۳۸.   اور ہم نے عاد و ثمود کو بھی ہلاک کر دیا۔ اور (یہ بات) ان کے (تباہ شدہ) مکانات سے واضح ہو چکی ہے اور شیطان نے ان کے (برے ) کاموں کو خوشنما کر کے پیش کیا اور انہیں (سیدھے ) راستہ سے روک دیا۔ حالانکہ وہ سمجھ دار تھے۔

۳۹.    اور ہم نے قارون، فرعون اور ہامان کو (بھی ہلاک کیا) اور البتہ موسیٰ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے۔ مگر انہوں نے زمین میں تکبر و غرور کیا حالانکہ وہ (ہم سے ) آگے نکل جانے والے نہیں تھے۔

۴۰.   پس ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی پاداش میں پکڑا۔ سو ان میں سے بعض پر (پتھراؤ کرنے والی) تیز آندھی بھیجی اور بعض کو ہولناک چنگھاڑ نے آ دبایا اور بعض کو ہم نے زمین میں دھنسایا اور بعض کو (دریا میں ) غرق کر دیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔

۴۱.    جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور سرپرست اور کارساز بنا لئے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جس نے (جالے کا) ایک گھر بنایا اور یقیناً تمام گھروں سے زیادہ کمزور مکڑی کا گھر ہے۔ کاش لوگ (یہ حقیقت) جانتے۔

۴۲.   اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ جس شئے کو پکارتے ہیں۔ بے شک اللہ اسے جانتا ہے۔ وہ غالب ہے، بڑا حکمت والا ہے۔

۴۳.   اور یہ مثالیں ہم پیش تو سب لوگوں کے سامنے کرتے ہیں مگر انہیں سمجھتے صرف اہل علم ہیں۔

۴۴.   اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ بے شک اس میں اہلِ ایمان کیلئے (اس کی قدرت کی) ایک نشانی موجود ہے۔

۴۵.   (اے رسولﷺ) آپ اس (کتاب) کی تلاوت کریں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کریں۔ بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے .

۴۶.   اور (اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب سے بحث و مباحثہ نہ کرو مگر بہترین انداز سے سوائے ان کے جو ان میں سے ظالم ہیں اور (ان سے ) کہو کہ ہم تو اس (کتاب) پر بھی ایمان لائے ہیں جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور اس (کتاب پر بھی) جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا الٰہ (اللہ) ایک ہے اور ہم سب اسی کے فرمانبردار ہیں۔

۴۷.   اور (اے رسولﷺ) ہم نے اسی طرح آپ پر کتاب نازل کی ہے (جس طرح پہلے رسولوں پر کتابیں نازل کی تھیں ) تو جن کو ہم نے (پہلے ) کتاب دی تھی وہ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں اور ان (اہلِ مکہ و عرب) میں سے بھی بعض اس پر ایمان لا رہے ہیں اور ہماری آیتوں کا کافروں کے سوا اور کوئی انکار نہیں کرتا۔

۴۸.   اور (اے رسولﷺ) آپ اس (نزولِ قرآن) سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے دائیں ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے اگر ایسا ہوتا تو یہ اہلِ باطل ضرور (آپ کی نبوت میں ) شک کرتے۔

۴۹.    بلکہ وہ (قرآن) کھلی ہوئی آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینہ میں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے اور ہماری آیتوں کا ظالموں کے سوا اور کوئی انکار نہیں کرتا۔

۵۰.   اور وہ کہتے ہیں کہ اس شخص (پیغمبرِ اسلامﷺ) پر ان کے پروردگار کی طرف سے معجزات کیوں نہیں اتارے گئے ؟ آپ کہہ دیجئے ! کہ معجزات تو بس اللہ کے پاس ہیں میں تو صرف (عذابِ الٰہی) سے واضح طور پر ڈرانے والا ہوں۔

۵۱.    کیا ان کیلئے یہ (معجزہ) کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر (یہ) کتاب نازل کی ہے۔ جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے ؟ بے شک اس میں ایمان والوں کیلئے رحمت اور نصیحت موجود ہے۔

۵۲.   (اے رسولﷺ) آپ کہہ دیجئے ! کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کیلئے اللہ کافی ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور جو لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرتے ہیں وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔

۵۳.   اور یہ لوگ آپ سے جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ اگر (اس کیلئے ) ایک وقتِ مقرر نہ ہوتا تو ان پر (کبھی کا) عذاب آ چکا ہوتا۔ اور وہ اس طرح ان پر اچانک آ پڑے گا کہ انہیں خبر بھی نہ ہو گی۔

۵۴.   وہ آپ سے جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔

۵۵.   جس دن عذاب ان کو اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے ڈھانک لے گا اور خدا کہے گا کہ (اب) مزہ چکھو اس کا جو کچھ تم (دنیا میں ) کرتے رہے ہو (تب ان کو پتہ چلے گا)۔

۵۶.   اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین (بہت) وسیع ہے۔ پس تم میری ہی عبادت کرو۔

۵۷.   ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے پھر تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے۔

۵۸.   اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ہم ان کو جنت کے بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی (اور) وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے کیا اچھا اجر ہے (نیک) عمل کرنے والوں کا۔

۵۹.    جنہوں نے صبر کیا اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔

۶۰.    اور کتنے زمین پر چلنے والے (جانور) ایسے ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے اللہ ہی انہیں رزق دیتا ہے اور تمہیں بھی۔ اور وہ بڑا سننے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔

۶۱.    اور اگر آپ ان (مشرکوں ) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ تو پھر وہ کدھر جا رہے ہیں ؟

۶۲.    اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔

۶۳.   اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے نازل کیا؟ اور زمین کو مردہ ہونے (بنجر ہونے ) کے بعد کس نے زندہ (آباد) کیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے ! آپ کہیے ! الحمد ﷲ۔ لیکن اکثر لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔

۶۴.   اور یہ دنیاوی زندگی تو محض کھیل تماشہ ہے اور حقیقی زندگی تو آخرت والی ہے۔ کاش لوگوں کو اس (حقیقت) کا علم ہوتا۔

۶۵.   پس جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین (و اعتقاد) کو اللہ کیلئے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں پھر جب انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو ایک دم وہ شرک کرنے لگتے ہیں۔

۶۶.    تاکہ جو نعمت ہم نے انہیں عطا کی ہے وہ اس کا کفران کریں اور تاکہ وہ لطف اٹھا لیں سو انہیں (اس کا انجام) عنقریب معلوم ہو جائے گا۔

۶۷.   کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم نے (ان کے شہر کو) امن والا حرم بنا دیا ہے۔ حالانکہ ان کے گرد و پیش کے لوگوں کو اچک لیا جاتا ہے (پھر بھی) یہ لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا کفران (ناشکری) کرتے ہیں۔

۶۸.   اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے یا حق کو جھٹلائے جبکہ وہ اس کے پاس آ چکا ہے ! کیا کافروں کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے ؟

۶۹.    اور جو لوگ ہماری خاطر جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے راستے دکھا دیتے ہیں اور بے شک اللہ محسنین کے ساتھ ہے۔

٭٭

 

 

 

۳۰۔ سورۃ روم

 

 

۱.      الف، لام، میم۔

۲.     رومی مغلوب ہو گئے۔

۳.     قریب ترین زمین میں (اہلِ فارس سے ) اور یہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آ جائیں گے۔

۴.     چند سالوں میں اختیار اللہ کو ہی حاصل ہے پہلے بھی اور بعد بھی۔ اور اس دن اہلِ ایمان خوش ہوں گے۔

۵.     اللہ کی نصرت سے، اللہ جسے چاہتا ہے نصرت عطا فرماتا ہے اور وہ غالب ہے (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۶.     یہ اللہ کا وعدہ ہے اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

۷.     یہ لوگ صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے بالکل غافل ہیں۔

۸.     کیا انہوں نے اپنے آپ میں کبھی غور و فکر نہیں کیا؟ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو (حق اور حکمت کے ) ساتھ ایک مقررہ مدت تک کیلئے پیدا کیا ہے اور یقیناً بہت سے لوگ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حضوری کے منکر ہیں۔

۹.     آیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا؟ وہ قوت میں ان سے زیادہ مضبوط تھے اور انہوں نے ان سے زیادہ زمین کو جَوتا بویا اور آباد کیا تھا۔ اور ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے تو اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کیا کرتے تھے۔

۱۰.    پھر ان لوگوں کا انجام جنہوں نے (مسلسل) برائیاں کیں برا ہی ہوا کیونکہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا تھا اور ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

۱۱.     اللہ ہی تخلیق کی ابتداء کرتا ہے وہی پھر اس کا اعادہ کرے گا۔ پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

۱۲.    اور جس دن قیامت قائم ہو گی (اس دن) مجرم مایوس اور بے آس ہو جائیں گے۔

۱۳.    اور ان کے بنائے شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا اور وہ بھی اپنے شریکوں سے انکار کر جائیں گے۔

۱۴.    اور جس دن قیامت قائم ہو گی اس دن (مؤمن و کافر) الگ الگ ہو جائیں گے۔

۱۵.    پس وہ لوگ جو ایمان لائے تھے اور نیک عمل کئے تھے وہ باغ (بہشت) میں خوش و خرم اور محترم ہوں گے۔

۱۶.    اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں اور آخرت کی حضوری کو جھٹلایا وہ (ہر وقت) عذاب میں حاضر رکھے جائیں گے۔

۱۷.    پس تم جب شام کرو اور جب صبح کرو تو اللہ کی تسبیح کرو (اس کی پاکیزگی بیان کرو)۔

۱۸.    اور آسمانوں میں اور زمین میں اور سہ پہر کو اور جب تم ظہر کرتے ہو ساری حمد و ثنا اسی خدا کے لئے ہے۔

۱۹.    وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے۔ اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ (سرسبز) کر دیتا ہے۔ اسی طرح تم (مرنے کے بعد) نکالے جاؤ گے۔

۲۰.    اور اس کی (قدرت) کی نشانیوں سے (ایک) یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر تم ایک دم آدمی بن کر پھیلتے جا رہے ہو۔

۲۱.    اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت (نرم دلی و ہمدردی) پیدا کر دی۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں۔

۲۲.    اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا مختلف ہونا بھی ہے۔ بے شک اس میں اہلِ علم کے لئے بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔

۲۳.   اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن میں سونا ہے اور (دن میں ) اس کے فضل (روزی) کا تلاش کرنا بھی بے شک اس میں (غور سے ) سننے والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔

۲۴.   اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ تمہیں ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی موت (خشکی) کے بعد زندہ (شاداب) کر دیتا ہے۔ بے شک اس میں عقل سے کام لینے والے لوگوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔

۲۵.   اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں پھر جب وہ تمہیں زمین سے ایک ہی بار پکارے گا تو تم یکبارگی نکل پڑو گے۔

۲۶.    جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے اسی کا ہے (اور) سب اسی کے تابعِ فرمان ہیں۔

۲۷.   اور وہ وہی ہے جو تخلیق کی ابتداء کرتا ہے پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ اور یہ اس کیلئے زیادہ آسان ہے اور آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے اعلیٰ ہے۔ وہ غالب ہے اور بڑا حکمت والا ہے۔

۲۸.   وہ (اللہ) تمہارے لئے تمہاری اپنی ذات (اور تمہارے حالات) سے ایک مثل بیان کرتا ہے کہ تمہارے غلاموں میں سے کوئی تمہارا اس طرح شریک ہے ان چیزوں میں جو ہم نے تمہیں عطا کر رکھی ہیں کہ تم اور وہ برابر کے حصہ دار بن جاؤ کہ تم ان سے اس طرح ڈرنے لگو۔ جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے (برابر والے ) سے ڈرتے ہو؟ ہم عقل سے کام لینے والوں کیلئے اسی طرح آیتیں کھول کر بیان کرتے ہیں۔

۲۹.    بلکہ ظالم لوگ سمجھے بوجھے بھی اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ جسے اللہ (اس کی نافرمانی کی وجہ سے ) گمراہی میں چھوڑ دے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے ؟ اور ان کا کوئی ناصر و مددگار نہیں ہے۔

۳۰.   پس (اے رسولﷺ) آپ باطل سے کنارہ کش ہو کر اپنا رخ دین (حق) کی طرف رکھیں یعنی اس (دینِ) فطرت کی پیروی کریں جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی سیدھا دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

۳۱.    (تم اپنا رخ اسلام کی طرف رکھو) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور (ان) مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔

۳۲.   جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود گروہ گروہ ہو گئے۔ (پھر) ہر گروہ اس پر خوش ہے جو کچھ اس کے پاس ہے۔

۳۳.   اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں اپنی طرف سے رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تو یکایک ان میں سے ایک گروہ پروردگار کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔

۳۴.   تاکہ اس (نعمت) کی ناشکری کریں جو ہم نے انہیں عطا کی ہے۔ اچھا کچھ دن مزہ حاصل کر لو۔ عنقریب تمہیں اس کا انجام معلوم ہو جائے گا۔

۳۵.   کیا ہم نے ان پر کوئی سند (دلیل) نازل کی ہے جو انہیں شرک کرنے کو کہہ رہی ہے جو وہ کر رہے ہیں۔

۳۶.   اور جب ہم لوگوں کو (اپنی) زحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہو جاتے ہیں اور جب ان پر ان کے اعمال کی پاداش میں جو وہ پہلے اپنے ہاتھوں کر چکے ہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو ایک دم مایوس ہو جاتے ہیں۔

۳۷.   کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک اس میں ایمان والوں کیلئے (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔

۳۸.   پس (اے رسولﷺ) آپ (اپنے ) قرابتدار مسکین اور مسافر کو ان کا حق دے دیں۔ یہ ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو رضائے خدا کے طلبگار ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

۳۹.    اور جو چیز (روپیہ) تم اس لئے سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں شامل ہو کر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو زکوٰۃ تم خوشنودیِ خدا کیلئے دیتے ہو ایسے ہی لوگ اپنا مال (کئی گنا) بڑھانے والے ہیں۔

۴۰.   وہ اللہ ہی ہے جس نے (پہلے ) تمہیں پیدا کیا۔ پھر تمہیں رزق دیا۔ پھر وہ تمہیں موت دے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کوئی کام کر سکے ؟ اللہ پاک ہے اور بلند و بالا ہے ان کے شرک سے جو وہ کرتے ہیں۔

۴۱.    لوگوں کے ہاتھوں کی کارستانیوں کی وجہ سے خشکی و تری (ساری دنیا) میں فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض (برے ) اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ لوگ باز آ جائیں۔

۴۲.   (اے رسولﷺ) آپ کہہ دیجئے ! کہ زمین میں چلو پھرو۔ پھر دیکھو کہ پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا انجام کیسا ہوا؟ ان میں سے اکثر مشرک تھے۔

۴۳.   پس (اے رسولﷺ) آپ اپنا رخ دینِ مستقیم کی طرف رکھیں قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے کہ جس کیلئے اللہ کی طرف سے ٹلنا نہ ہو گا۔ اس دن لوگ الگ الگ ہو جائیں گے۔

۴۴.   جس نے کفر کیا۔ پس اس کے کفر کا وبال اسی پر ہو گا اور جنہوں نے نیک عمل کئے وہ اپنے ہی لئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔

۴۵.   تاکہ اللہ اپنے فضل و کرم سے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو جزاء (خیر) دے۔ بے شک وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔

۴۶.   اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہواؤں کو (بارش کی) بشارت دینے کیلئے بھیجتا ہے اور تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت کا مزہ چکھائے اور تاکہ اس کے حکم سے (تمہاری) کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل (رزق) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔

۴۷.   بے شک ہم نے آپ سے پہلے (بہت سے ) پیغمبر ان کی قوموں کی طرف بھیجے جو ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں (معجزات) لے کر آئے۔ پھر ہم نے مجرموں سے بدلہ لیا اور ہم پر اہلِ ایمان کی مدد کرنا لازم ہے۔

۴۸.   اللہ ہی وہ ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے۔ تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں۔ پھر اللہ جس طرح چاہتا ہے اسے آسمان پر پھیلا دیتا ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے بارش نکلنے لگتی ہے۔ پھر وہ اپنے بندوں سے جسے چاہتا ہے پہنچاتا ہے۔ تو بس وہ خوش ہو جاتے ہیں۔

۴۹.    اگرچہ وہ اس کے برسنے سے پہلے بالکل مایوس ہو رہے تھے۔

۵۰.   پس اللہ کی رحمت کے آثار کو دیکھو کہ وہ زمین کو اس کے مردہ (بنجر) ہو جانے کے بعد کس طرح زندہ (سرسبز و شاداب) کرتا ہے۔ بے شک وہی مُردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔

۵۱.    اور اگر ہم ایسی ہوا بھیج دیں جس سے وہ اپنی (سرسبز) کھیتی کو زرد ہوتے دیکھ لیں تو وہ اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں۔

۵۲.   (اے رسولﷺ) آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ ہی بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیرے چلے جا رہے ہیں۔

۵۳.   اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر ہدایت دے سکتے ہیں آپ تو بس انہی لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں پھر وہی لوگ تو ماننے والے ہیں۔

۵۴.   اللہ ہی وہ ہے جس نے کمزوری کی حالت سے تمہاری پیدائش کا آغاز کیا۔ پھر کمزوری کے بعد (تمہیں جوانی کی) قوت بخشی اور پھر اس نے قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا پیدا کر دیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ بڑا جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے۔

۵۵.   اور جس دن قیامت قائم ہو گی تو مجرم لوگ قَسمیں کھائیں گے کہ وہ (دنیا) میں گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔ یہ لوگ (دنیا میں بھی) اسی طرح الٹے چلا کرتے تھے۔

۵۶.   اور جن لوگوں کو علم و ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ تم اللہ کے نوشتہ کے مطابق حشر کے دن تک ٹھہرے رہے ہو۔ چنانچہ یہ وہی حشر کا دن ہے لیکن تمہیں (اس کا) علم و یقین نہیں تھا۔

۵۷.   سو اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہیں دے گی اور نہ ہی ان سے (توبہ کر کے ) خدا کو راضی کرنے کیلئے کہا جائے گا۔

۵۸.   بے شک ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے (سمجھانے ) کیلئے ہر قسم کی مثال پیش کی ہے اور اگر آپ ان کے پاس کوئی نشانی (معجزہ) لے بھی آئیں تو بھی کافر لوگ یہی کہیں گے کہ تم باطل پر ہو۔

۵۹.    اسی طرح اللہ ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو جانتے نہیں۔

۶۰.    (اے رسولﷺ) آپ صبر و ثبات سے کام لیں۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ آپ کو (جوش دلا کر) بے برداشت نہ کر دیں۔

٭٭

 

 

 

۳۱۔ سورۃ لقمان

 

۱.      الف، لام، میم۔

۲.     یہ کتابِ حکیم کی آیتیں ہیں۔

۳.     جو (سراپا) ہدایت اور رحمت ان نیکوکار لوگوں کیلئے ہے۔

۴.     جو پورے اہتمام سے نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ (میری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

۵.     یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر (قائم) ہیں اور یہی وہ ہیں جو (آخرت میں ) فلاح پانے والے ہیں۔

۶.     اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کر دینے والا بے ہودہ کلام خریدتا ہے تاکہ بغیر سوچے سمجھے لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکائے اور اس (راہ یا آیتوں ) کا مذاق اڑائے۔ ایسے لوگوں کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔

۷.     اور جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ تکبر سے اس طرح منہ موڑ لیتا ہے کہ گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے کانوں میں گرانی (بہرہ پن) ہے تو اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔

۸.     بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کیلئے نعمت (اور آرام) والی جنتیں ہیں۔

۹.     جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا سچا (اور پکا) وعدہ ہے۔ وہ بڑا غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۱۰.    اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر پیدا کیا ہے جو تمہیں نظر آئیں اور اس نے زمین میں بھاری پہاڑ گاڑ دیئے تاکہ وہ تمہیں لے کر (ایک طرف) ڈھلک نہ جائے اور اس میں ہر قسم کے چلنے پھرنے والے (جانور) پھیلا دیئے اور ہم نے آسمانوں (بلندی) سے پانی برسایا اور اس سے زمین میں ہر قسم کی عمدہ چیزیں اگائیں۔

۱۱.     یہ تو ہے اللہ کی تخلیق! (اور اس کی پیدا کی ہوئی چیزیں )۔ اب تم مجھے دکھاؤ کہ جو اس کے علاوہ (تمہارے شرکاء) ہیں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے ؟ بلکہ ظالم لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔

۱۲.    اور ہم نے لقمان کو حکمت (و دانائی) عطا کی (اور کہا) کہ خدا کا شکر ادا کرو اور جو شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کیلئے شکر ادا کرتا ہے اور جو کفرانِ نعمت (ناشکری) کرتا ہے (وہ اپنا نقصان کرتا ہے کیونکہ) بے شک اللہ بے نیاز ہے (اور) لائقِ حمد و ثنا ہے۔

۱۳.    اور (وہ وقت یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے بیٹے ! (خبردار کسی کو) اللہ کا شریک نہ بنانا۔ بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔

۱۴.    اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا (کیونکہ) اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہہ کر اسے (پیٹ میں ) اٹھائے رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹا (وہ تاکیدی حکم یہ تھا کہ) میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کر (آخرکار) میری ہی طرف (تمہاری) بازگشت ہے۔

۱۵.    اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کر اور اس شخص کے راستہ کی پیروی کر جو (ہر معاملہ میں ) میری طرف رجوع کرے پھر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے۔ تو (اس وقت) میں تمہیں بتاؤں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

۱۶.    اے بیٹا! اگر کوئی (نیک یا بد) عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو اور کسی پتھر کے نیچے ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں تو اللہ اسے لے ہی آئے گا بے شک اللہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔

۱۷.    اے بیٹا! نماز قائم کر اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو مصیبت پیش آئے اس پر صبر کر۔ بے شک یہ (صبر) عزم و ہمت کے کاموں میں سے ہے۔

۱۸.    اور (تکبر سے ) اپنا رخسار لوگوں سے نہ پھیر اور زمین پر ناز و انداز سے نہ چل۔ بے شک خدا تکبر کرنے والے (اور) بہت فخر کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔

۱۹.    اور اپنی رفتار (چال) میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز دھیمی رکھ۔ بے شک سب آوازوں میں سے زیادہ ناگوار آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔

۲۰.    کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ تعالیٰ نے سب کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور اپنی سب ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو علم، ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر خدا کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں۔

۲۱.    اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ (نہیں ) بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا (یہ جب بھی انہی کی پیروی کریں گے ) اگرچہ شیطان ان (بڑوں ) کو بھڑکتی آگ کے عذاب کی طرف بلا رہا ہو؟

۲۲.    اور جو کوئی اپنا رخ اللہ کی طرف جھکا دے (اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے ) درآنحالیکہ وہ نیکوکار بھی ہو تو اس نے مضبوط راستہ (سہارا) پکڑ لیا ان (سب) نے ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

۲۳.   اور جو کوئی کفر اختیار کرے تو (اے رسولﷺ) اس کا کفر آپ کو غمگین نہ کرے۔ پس (اس وقت) ہم انہیں بتائیں گے کہ جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ بے شک اللہ سینوں کے اندر کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔

۲۴.   ہم انہیں چند روزہ عیش کا موقع دیں گے اور پھر انہیں سخت عذاب کی طرف کشاں کشاں لے جائیں گے۔

۲۵.   (اے رسولﷺ) اگر آپ ان (مشرکین) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو وہ (جواب میں ) ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ! آپ کہئے ! الحمد ﷲ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

۲۶.    جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے۔ بے شک اللہ بے نیاز ہے اور لائقِ حمد و ثنا ہے۔

۲۷.   اور جتنے درخت زمین میں ہیں اگر وہ سب قَلمیں بن جائیں اور سمندر (سیاہی بن جائیں ) اور اس کے علاوہ سات سمندر اسے سہارا دیں (سیاہی مہیا کریں ) تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے بے شک اللہ بڑا غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۲۸.   تم سب کا پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا (اللہ کیلئے ) ایک شخص کے پیدا کرنے اور دوبارہ اٹھانے کی مانند ہے بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔

۲۹.    کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک اپنے مقررہ وقت تک (اپنے مدار میں ) چل رہا ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

۳۰.   یہ سب اس لئے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جن چیزوں کو (مشرک) پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور بے شک اللہ بلند (شان والا) ہے اور بزرگ ہے۔

۳۱.    کیا تم نے نہیں دیکھا کہ محض اللہ کے فضل سے سمندر میں کشتی چلتی ہے۔ تاکہ وہ تمہیں اپنی قدرت کی کچھ نشانیاں دکھائے۔ بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر بہت صبر و شکر کرنے والے کیلئے۔

۳۲.   اور جب انہیں ایک موج سائبانوں کی طرح ڈھانپ لیتی ہے تو یہ اپنے دین کو اللہ کیلئے خالص کر کے اسے پکارتے ہیں پھر جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو پھر ان میں سے کچھ تو اعتدال پر رہتے ہیں (اور اکثر انکار کر دیتے ہیں ) اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر وہی شخص جو بڑا غدار (بے وفا) اور بڑا ناشکرا ہے۔

۳۳.   اے لوگو! اپنے پروردگار (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ اور اس دن کا خوف کرو۔ جب نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو فائدہ پہنچا سکے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکے گا۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو تمہیں دنیا کی (عارضی) زندگی دھوکہ نہ دے اور نہ ہی کوئی دھوکہ باز (شیطان وغیرہ) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دے۔

۳۴.   بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے ؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ بڑا جاننے والا (اور) بڑا باخبر ہے۔

٭٭

 

۳۲۔ سورۃ سجدہ

 

۱.      الف، لام، میم۔

۲.     بلا شک و شبہ یہ کتاب (قرآن) کی تنزیل تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔

۳.     کیا وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس (رسولﷺ) نے اسے خود گھڑ لیا ہے ؟ (نہیں ) بلکہ یہ آپ کے پروردگار کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ شاید کہ وہ ہدایت پا جائیں۔

۴.     اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا اس کے سوا نہ تمہارا کوئی سرپرست ہے اور نہ کوئی سفارشی کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟

۵.     وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر معاملہ کی تدبیر کرتا ہے اور پھر ہر معاملہ اس کی بارگاہ میں اس دن پیش ہو گا جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہو گی۔

۶.     یہ ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا جو بڑا غالب ہے (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۷.     جس نے جو چیز بنائی بہترین بنائی اور انسان (آدمؑ ) کی خلقت کی ابتداء گیلی مٹی سے کی۔

۸.     پھر اس کی نسل کو ایک حقیر پانی (نطفہ) کے نچوڑ سے قرار دیا۔

۹.     پھر اس کو درست کیا (اس کی نوک پلک سنواری) اور پھر اس میں اپنی (خاص) روح پھونک دی اور تمہارے لئے کان، آنکھیں اور دل (دماغ) بنائے مگر تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے رہو۔

۱۰.    اور وہ (کفار) کہتے ہیں کہ جب ہم زمین میں گم (ناپید) ہو جائیں گے تو کیا ہم از سرِ نو پیدا کئے جائیں گے بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) یہ لوگ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری کے منکر ہیں۔

۱۱.     آپ کہہ دیجئے ! کہ موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے وہ تمہیں پورا پورا اپنے قبضے میں لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

۱۲.    اور کاش! تم دیکھتے جب مجرم اپنے سر جھکائے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں (کھڑے ) ہوں گے اور (عرض کریں گے ) اے ہمارے پروردگار! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو (ایک بار دنیا میں ) ہمیں واپس بھیج دے۔ (اب) ہم نیک کام کریں گے اب ہمیں یقین آ گیا ہے۔

۱۳.    اور اگر ہم (مشیتِ قاہرہ سے ) چاہتے تو ہر متنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے لیکن میری طرف سے یہ بات طے ہو چکی ہے کہ میں جہنم کو سب (نافرمان) جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔

۱۴.    سو اس دن کی حاضری کو بھلا دینے کا (آج) مزا چکھو۔ (اب) ہم نے بھی تمہیں نظر انداز کر دیا ہے اور اپنے برے اعمال کی پاداش میں دائمی عذاب کا مزہ چکھو۔

۱۵.    ہماری آیتوں پر بس وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جن کو جب بھی ان (آیتوں ) کے ساتھ نصیحت کی جائے تو وہ سجدے میں گر جاتے ہیں اور اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔

۱۶.    (رات کے وقت) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ بیم و امید سے اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔

۱۷.    پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے (اچھے ) اعمال کے صلہ میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا نعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔

۱۸.    تو کیا جو مؤمن ہے وہ فاسق کی مانند ہو سکتا ہے ؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے۔

۱۹.    پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل (بھی) کئے تو ان کے (اچھے ) اعمال کے صلہ میں مہمانی کے طور پر ان کے (آرام) کے لئے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں۔

۲۰.    اور جنہوں نے نافرمانی کی ان کا ٹھکانا آتش دوزخ ہے وہ جب بھی اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اسی آگ کے عذاب کا مزہ چکھو جسے تم جھٹلاتے تھے۔

۲۱.    اور ہم انہیں (قیامت والے ) بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزہ چکھائیں گے تاکہ یہ باز آ جائیں۔

۲۲.    اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جسے اس کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے (اور) پھر وہ ان سے روگردانی کرے۔ بے شک ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔

۲۳.   اور بیشک ہم نے موسیٰؑ کو کتاب (توراۃ) عطا کی تھی۔ تو آپ کو ایسی کتاب کے ملنے پر شک میں نہیں پڑنا چاہیے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعۂ ہدایت بنایا تھا۔

۲۴.   اور ہم نے ان میں سے بعض کو ایسا امام و پیشوا قرار دیا تھا جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے جب کہ انہوں نے صبر کیا تھا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔

۲۵.   بے شک آپ کا پروردگار قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ ان باتوں میں جن میں وہ باہم اختلاف کیا کرتے تھے۔

۲۶.    کیا اس بات سے بھی اللہ نے انہیں ہدایت نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے جن کے مکانات میں یہ (آج) چل پھر رہے ہیں۔ بے شک اس میں (عبرت کیلئے ) بڑی نشانیاں ہیں کیا یہ لوگ سنتے نہیں ہیں۔

۲۷.   کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم بنجر زمین کی طرف پانی کو بہا لے جاتے ہیں پھر اس سے ایسی کھیتی اگاتے ہیں جس میں ان کے چوپائے بھی کھاتے ہیں اور خود بھی تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں۔

۲۸.   اور وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو (بتاؤ) یہ فتح (فیصلہ) کب ہو گا؟

۲۹.    آپ کہئے کہ فتح (فیصلہ) والے دن کافروں کو ان کا ایمان لانا کوئی فائدہ نہ دے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔

۳۰.   سو آپ ان سے بے اعتنائی کریں اور انتظار کریں۔ وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔

٭٭

 

۳۳۔ سورۃ احزاب

 

۱.      اے نبی! اللہ سے ڈرتے رہیں اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کریں۔ بے شک اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔

۲.     اور جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ کو وحی کی جاتی ہے اس کی پیروی کریں بے شک تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔

۳.     اور آپ اپنے پروردگار پر توکل کریں بے شک اللہ تعالیٰ کارسازی کیلئے کافی ہے۔

۴.     اور اللہ نے کسی مرد کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے اور نہ ہی تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں بنایا ہے جن سے تم ظہار کرتے ہو اور نہ ہی اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (حقیقی) بیٹا بنایا ہے اور وہی (سیدھے ) راستے کی ہدایت کرتا ہے۔

۵.     ان (منہ بولے بیٹوں ) کو ان کے (حقیقی) باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ یہ بات اللہ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم نہ ہو تو پھر وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں اور تم سے جو بھول چوک ہو جائے اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ ہاں البتہ (گناہ اس پر ہے ) جو تم دل سے ارادہ کر کے کرو۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے۔

۶.     نبی مؤمنین پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق (تصرف) رکھتے ہیں۔ اور آپ کی بیویاں ان (مؤمنین) کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ کی رو سے رشتہ دار بہ نسبت عام مؤمنین و مہاجرین کے (وراثت میں ) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو۔ یہ حکم کتاب (الٰہی) میں لکھا ہوا ہے۔

۷.     اور وہ وقت یاد کرو۔ جب ہم نے نبیوں سے عہد و پیمان لیا تھا اور آپ سے بھی اور نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے بھی اور ہم نے ان سب سے سخت عہد لیا تھا۔

۸.     تاکہ وہ (پروردگار) ان سچے لوگوں سے ان کی سچائی کے متعلق سوال کرے اور اس نے کافروں کیلئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۹.     اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے جب (کفار کے ) لشکر تم پر چڑھ آئے اور ہم نے (تمہاری مدد کیلئے ) ان پر ہوا (آندھی) بھیجی اور (فرشتوں کے ) ایسے لشکر بھیجے جن کو تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے۔ اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔

۱۰.    جب وہ تم پر اوپر اور نیچے سے چڑھ آئے اور (شدتِ خوف سے ) آنکھیں پتھرا گئیں اور دل (کلیجے ) منہ کو آ گئے اور تم اللہ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔

۱۱.     اس وقت ایمان والوں کو خوب آزمایا گیا اور انہیں سخت زلزلہ میں ڈال دیا (سخت جھنجھوڑا گیا)۔

۱۲.    اور جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری تھی کہنے لگے کہ خدا اور رسول نے ہم سے (فتح کا) جو وعدہ کیا تھا وہ دھوکہ کے سوا کچھ نہ تھا۔

۱۳.    اور وہ وقت یاد کرو جب ان میں سے ایک گروہ کہنے لگا کہ اے یثرب والو! اب (یہاں ) تمہارے ٹھہرنے کا موقع نہیں ہے سو واپس چلو اور ان میں سے ایک گروہ یہ کہہ کر پیغمبرِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اجازت مانگ رہا تھا کہ ہمارے گھر خالی (غیر محفوظ) ہیں حالانکہ وہ خالی (غیر محفوظ) نہیں تھے وہ تو صرف (محاذ سے ) بھاگنا چاہتے تھے۔

۱۴.    اور اگر ان پر اسی (مدینہ) کے اطراف سے (دشمن) گھس آتے اور پھر انہیں اس فتنہ (میں شرکت) کی دعوت دی جاتی تو یہ اس میں پڑ جاتے اور اس میں زیادہ توقف نہ کرتے۔

۱۵.    حالانکہ انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ (مقابلہ میں ) پیٹھ نہیں پھیریں گے اور اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے متعلق بازپرس کی جائے گی۔

۱۶.    آپ کہہ دیجئے ! کہ اگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گا اگر ایسا کیا بھی تو پھر بھی (زندگانی دنیا سے ) تمہیں لطف اندوز ہونے کا بہت تھوڑا موقع دیا جائے گا۔

۱۷.    آپ کہئے ! کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یا اگر وہ تم پر مہربانی کرنا چاہے (تو اسے کون روک سکتا ہے ؟) اور وہ لوگ اللہ کے سوا اپنا نہ کوئی سرپرست پائیں گے اور نہ کوئی مددگار۔

۱۸.    اللہ تم میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو (جہاد سے ) روکتے ہیں اور انہیں بھی جو اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ (محاذِ جنگ چھوڑ کر) ہماری طرف آ جاؤ اور یہ لوگ میدانِ جنگ میں بہت کم آتے ہیں۔

۱۹.    وہ تمہارے معاملہ میں سخت بخیل ہیں اور جب خوف (کا وقت) آ جائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح گھوم رہی ہیں جس پر موت کی غشی طاری ہو پھر جب خوف جاتا رہے تو یہ لوگ (اپنی) تیز زبانوں سے طعنہ دیتے ہیں یہ مال (غنیمت) کے بڑے حریص ہیں (دراصل) یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں چنانچہ اللہ نے ان کے اعمال اکارت کر دیئے ہیں اور ایسا کرنا اللہ کیلئے بالکل آسان ہے۔

۲۰.    (دشمن چلا گیا مگر) یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ابھی لشکر گئے نہیں ہیں اور اگر وہ لشکر (دوبارہ) آ جائیں تو یہ پسند کریں گے کہ کاش ہم صحرا میں بدوؤں کے ساتھ جا کر رہیں اور وہاں سے تمہاری خبریں پوچھتے رہیں اور اگر تم میں ہوتے تو جب بھی (دشمن سے ) جنگ نہ کرتے مگر بہت کم۔

۲۱.    بے شک تمہارے لئے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کیلئے ) بہترین نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کیلئے جو اللہ (کی بارگاہ میں حاضری) اور قیامت (کے آنے ) کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔

۲۲.    اور (سچے ) اہلِ ایمان کا حال یہ تھا کہ جب انہوں نے لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ ہے وہ (لشکر) جس کا خدا اور رسول نے وعدہ کیا تھا اور خدا اور رسول نے سچ فرمایا تھا اور اس (بات) نے ان کے ایمان اور (جذبۂ) تسلیم میں مزید اضافہ کر دیا۔

۲۳.   اور اہلِ ایمان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے وہ عہد و پیمان سچا کر دکھایا جو اللہ سے کیا تھا۔ سو ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنا وقت پورا کر چکے ہیں اور کچھ اس (وقت) کا انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے (اپنی روش میں ) ذرا بھی تبدیلی نہیں کی۔

۲۴.   تاکہ خدا سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۲۵.   اور اللہ نے کافروں کو غم و غصہ کی حالت میں (بے نیل مرام) لوٹایا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکے اور اللہ نے مؤمنوں کو جنگ (کی زحمت) سے بچا لیا اور اللہ بڑا طاقتور (اور) غالب ہے۔

۲۶.    خدا نے ان اہلِ کتاب کو جنہوں نے ان (کفار) کی مدد کی تھی ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ چنانچہ تم ان میں سے بعض کو قتل کرنے لگے اور بعض کو قید کر لیا۔

۲۷.   اور (خدا نے ) تمہیں ان (کافروں ) کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے اموال کا اور ان کی اس زمین کا جس پر تم نے قدم بھی نہیں رکھا تھا وارث بنا دیا اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

۲۸.   اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہا گر تم دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و زینت چاہتی ہو تو آؤ کہ تمہیں کچھ مال و متاع دے کر اچھے طریقے سے رخصت کروں۔

۲۹.    اور اگر تم خدا اور اس کے رسول اور دارِ آخرت کی طلبگار ہو تو بے شک اللہ نے تم میں سے جو نیکوکار ہیں ان کیلئے اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔

۳۰.   اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی بے حیائی اور برائی کرے گی تو اسے دوہری سزا دی جائے گی اور یہ بات اللہ کیلئے بالکل آسان ہے۔

۳۱.    اور تم میں سے جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل کرتی رہے گی تو ہم اس کو اس کا اجر و دہرا دیں گے اور ہم نے اس کیلئے (جنت میں ) عمدہ روزی تیار کر رکھی ہے۔

۳۲.   اے نبی کی بیویو! تم اور (عام) عورتوں کی طرح نہیں ہوا اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو۔ پس تم ایسے نرم لہجہ میں بات نہ کرو کہ جس کے دل میں کوئی بیماری ہے وہ طمع کرنے لگے اور قاعدے کے مطابق (با وقار طریقہ سے ) بات کیا کرو۔

۳۳.   اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور سابقہ زمانۂ جاہلیت کی طرح اپنی آرائش کی نمائش نہ کرتی پھرو (باہر نہ نکلا کرو) اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرو۔ اے اہل بیت! اللہ تو بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کے رجس (آلودگی) کو دور رکھے اور تمہیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جس طرح پاک رکھنے کا حق ہے۔

۳۴.   اور اللہ کی جو آیتیں اور حکمت کی جو باتیں تمہارے گھروں میں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو بے شک اللہ بڑا باریک بین (اور) بڑا باخبر ہے۔

۳۵.   بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں اللہ نے ان کیلئے مغفرت اور بڑا اجر و ثواب مہیا کر رکھا ہے۔

۳۶.   کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو انہیں اپنے (اس) معاملے میں کوئی اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے گا۔

۳۷.   (اے رسول! وہ وقت یاد کرو) جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے (اسے نہ چھوڑ) اور اللہ سے ڈر۔ اور آپ (اس وقت) وہ بات اپنے دل میں چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں (کی طعن و تشنیع) سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں (بہرحال) جب زید نے اس عورت (زینب) سے اپنی حاجت پوری کر لی (اسے طلاق دے دی) تو ہم نے اس خاتون کی شادی آپ سے کر دی تاکہ اہلِ ایمان پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے (نکاح کرنے ) کے معاملے میں کوئی تنگی نہ رہ جائے جب وہ ان سے (اپنی) حاجت پوری کر چکے ہوں (اور انہیں طلاق دے کر فارغ کر چکے ہوں ) اور اللہ کا حکم تو بہرحال ہو کر رہتا ہے۔

۳۸.   اس کام کے کرنے میں نبیﷺ پر کوئی مضائقہ نہیں ہے جو خدا نے ان کیلئے مقرر کیا ہے جو لوگ (انبیاءؑ) اس سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے بارے میں بھی خدا کا یہی معمول رہا ہے اور اللہ کا حکم حقیقی اندازے کے مطابق مقرر کیا ہوا ہوتا ہے۔

۳۹.    وہ (پیغمبرﷺ) ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے پیغامات (اس کے بندوں تک) پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور وہ اللہ کے سوا اور کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبہ کیلئے اللہ ہی کافی ہے۔

۴۰.   محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ ہاں البتہ وہ اللہ کے رسولﷺ اور خاتم النبیینﷺ (سلسلۂ انبیاء کے ختم کرنے والے اور مہرِ اختتام) ہیں اور خدا ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

۴۱.    اے ایمان والو! اللہ کو بکثرت یاد کیا کرو۔

۴۲.   اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔

۴۳.   وہ (اللہ) وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی (دعائے مغفرت) کرتے ہیں تاکہ تمہیں (دوزخ اور جحیم کی) تاریکیوں سے نور (جنت و نعیم) کی طرف نکال لائے اور وہ اہلِ ایمان پر بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۴۴.   جس دن وہ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو ان کو سلام سے دعا دی جائے گی (کہ تم سلامت رہو) اور اس نے ان کیلئے با عزت اجر (بہشت) تیار کر رکھا ہے۔

۴۵.   اے نبیﷺ! ہم نے آپ کو (لوگوں کا) گواہ بنا کر اور (نیکوکاروں کو) خوشخبری دینے والا اور (بدکاروں کو) ڈرانے والا

۴۶.   اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور (رشد و ہدایت کا) روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔

۴۷.   اور ایمان والوں کو خوشخبری دیجئے کہ اللہ کی طرف سے ان کیلئے بڑا فضل و کرم ہے۔

۴۸.   اور (خبردار) کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کیجئے گا اور ان کی اذیت رسانی کو چھوڑ دیجئے (اس کی پرواہ نہ کریں ) اور اللہ پر بھروسہ کیجئے اور کارسازی کیلئے اللہ کافی ہے۔

۴۹.    اے ایمان والو! جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے (مباشرت کرنے ) سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت نہیں ہے جسے تم شمار کرو (اور جس کے دنوں کو گنو) لہٰذا انہیں کچھ مال دے کر اور خوبصورتی سے رخصت کر دو۔

۵۰.   اے نبیﷺ! ہم نے آپ کیلئے آپ کی وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جن کے مہر آپ نے ادا کر دیئے ہیں اور وہ مملوکہ کنیزیں جو اللہ نے بطورِ غنیمت آپ کو عطا کی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے (یہ سب بھی حلال ہیں ) اور اس مؤمن عورت کو بھی (حلال کیا ہے ) اگر وہ اپنا نفس نبیﷺ کو ہبہ کر دے بشرطیکہ نبیﷺ بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں یہ (اجازت) صرف آپ کیلئے ہے دوسرے مؤمنوں کیلئے نہیں ہے ہم جانتے ہیں جو (احکام) ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور مملوکہ کنیزوں کے بارے میں مقرر کئے ہیں تاکہ آپ پر کسی قسم کی تنگی نہ ہو اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۵۱.    (آپ کو اختیار ہے کہ) اپنی ازواج میں سے جس کو چاہیں دور کر دیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جن کو آپ نے علیٰحدہ کر دیا تھا اگر ان میں سے کسی کو (دوبارہ) طلب کرنا چاہیں تو اس میں بھی آپ کیلئے کوئی مضائقہ نہیں ہے یہ (اختیار جو آپ کو دیا گیا ہے ) اس سے قریب تر ہے کہ ان (ازواج) کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور آپ انہیں جو کچھ عطا فرمائیں وہ سب کی سب اس پر خوش ہو جائیں اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اسے جانتا ہے اور (بے شک) اللہ بڑا جاننے والا (اور) بڑا بردبار ہے۔

۵۲.   اب اس کے بعد اور عورتیں آپ کیلئے حلال نہیں ہیں اور نہ ہی اس کی اجازت ہے کہ ان کے بدلے اور بیویاں لے آئیں اگرچہ ان کا حسن و جمال آپ کو کتنا ہی پسند ہو۔ سوائے ان (کنیزوں ) کے جو آپ کی ملکیت میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا نگران ہے۔

۵۳.   اے ایمان والو! نبیﷺ کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو۔ مگر جب تمہیں کھانے کیلئے (اندر آنے کی) اجازت دی جائے (اور) نہ ہی اس کے پکنے کا انتظار (نبیﷺ کے گھر میں بیٹھ کر کیا) کرو۔ لیکن جب تمہیں بلایا جائے تو (عین وقت پر) اندر داخل ہو جاؤ پھر جب کھانا کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور دل بہلانے کیلئے باتوں میں نہ لگے رہو کیونکہ تمہاری باتیں نبیﷺ کو اذیت پہنچاتی ہیں مگر وہ تم سے شرم کرتے ہیں (اور کچھ نہیں کہتے ) اور اللہ حق بات (کہنے سے ) نہیں شرماتا اور جب تم ان (ازواجِ نبیﷺ) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ (طریقۂ کار) تمہارے دلوں کیلئے اور ان کے دلوں کیلئے پاکیزگی کا زیادہ باعث ہے اور تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ تم رسولِﷺ خدا کو اذیت پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد کبھی بھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو بیشک یہ بات اللہ کے نزدیک بہت بڑی (برائی گناہ کی) بات ہے۔

۵۴.   تم اگر کسی چیز کو ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ۔ بہرحال اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔

۵۵.   ان (ازواج النبیﷺ) کیلئے اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی، ان کے بھتیجے، بھانجے اور ان کی اپنی (مسلمان) عورتیں اور ان کی مملوکہ کنیزیں (ان کے ) سامنے آئیں اور اللہ سے ڈرتی رہو۔ بے شک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

۵۶.   بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو جس طرح بھیجنے کا حق ہے۔

۵۷.   بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اذیت پہنچاتے ہیں اللہ ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کیلئے رسوا کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

۵۸.   اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو اذیت پہنچاتے ہیں بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی (جرم) کیا ہو۔ بے شک وہ ایک بڑے بہتان اور کھلے ہوئے گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔

۵۹.    اے نبیﷺ! آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور (عام) اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ (باہر نکلتے وقت) اپنے اوپر چادر (بطور گھونگھٹ) لٹکا لیا کریں یہ طریقہ قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

۶۰.    اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں افواہیں پھیلانے والے (اپنی حرکتوں سے ) باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف حرکت میں لے آئیں گے پھر وہ (مدینہ) میں آپ کے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر بہت کم۔

۶۱.    وہ بھی لعنت کے مارے ہوئے وہ جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے۔

۶۲.    جو (ایسے لوگ) ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان میں بھی اللہ کا یہی دستور رہا ہے اور آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

۶۳.   لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کب آئے گی؟) آپ کہہ دیجئے ! کہ اس کا علم تو بس اللہ ہی کے پاس ہے (اے سائل!) تمہیں کیا خبر شاید قیامت قریب ہی ہو؟

۶۴.   بے شک اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

۶۵.   جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے وہ (وہاں ) کوئی حامی و مددگار نہیں پائیں گے۔

۶۶.    جس دن ان کے چہرے (دوزخ کی) آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے تو وہ کہیں کہ کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور (کاش) ہم نے رسولﷺ کی اطاعت کی ہوتی۔

۶۷.   اور وہی کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی سرداروں کی اطاعت کی۔

۶۸.   سو انہوں نے (سیدھے ) راستہ سے ہمیں بھٹکا دیا اے ہمارے پروردگار! انہیں دوہرا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت کر۔

۶۹.    اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیت پہنچائی تھی تو اللہ نے انہیں ان کی ان باتوں (تہمتوں ) سے بَری کر دیا اور وہ اللہ کے نزدیک بڑے معزز تھے۔

۷۰.   اے ایمان والو! اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو اور درستی و راستی کی بات کہا کرو۔

۷۱.    اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح کرے گا۔

۷۲.   بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگر ان سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے (بلا تامل) اٹھا لیا بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔

۷۳.   تاکہ خدا منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور منافق عورتوں کو سزا دے اور (تاکہ) مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی توبہ قبول کرے (ان پر نظرِ توجہ فرمائے ) اور بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٭٭

 

۳۴۔ سورۃ سبا

 

۱.      ہر قِسم کی تعریف اس خدا کیلئے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت میں بھی ہر قسم کی تعریف اسی کیلئے ہے اور وہ بڑا حکمت والا، بڑا باخبر ہے۔

۲.     وہ جانتا ہے جو کچھ زمین کے اندر داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے وہ بڑا رحم کرنے والا، بڑا بخشنے والا ہے۔

۳.     اور کافر کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی آپ کہہ دیجئے ! کہ وہ ضرور آئے گی مجھے قَسم ہے اپنے پروردگار کی جو عالم الغیب ہے جس سے آسمانوں اور زمین کی ذرہ برابر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی مگر وہ کتابِ مبین میں (درج) ہے۔

۴.     (اور قیامت اس لئے آئے گی) تاکہ خدا ان لوگوں کو جزا دے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے یہی وہ (خوش قسمت) لوگ ہیں جن کیلئے بخشش اور با عزت رزق ہے۔

۵.     اور جو لوگ ہماری آیتوں کے بارے میں (انہیں جھٹلا کر ہمیں ) ہرانے کی کوشش کرتے ہیں یہی وہ (بدبخت) لوگ ہیں جن کیلئے سخت قسم کا دردناک عذاب ہے۔

۶.     اور جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں وہ کچھ (قرآن) آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور وہ غالب اور لائقِ ستائش (خدا) کے راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔

۷.     اور کافر (ایک دوسرے سے ) کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہیں ایسا آدمی بتائیں جو تمہیں خبر دیتا ہے کہ جب تم (مرنے کے بعد) بالکل ریزہ ریزہ کر دیئے جاؤ گے تو تم ازسرِنو پیدا کئے جاؤ گے۔

۸.     کیا یہ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتا ہے یا اسے جنون ہے (پیغمبرِ اسلامﷺ تو نہیں ) بلکہ وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ عذاب اور دور دراز کی گمراہی (سخت گمراہی) میں مبتلا ہیں۔

۹.     کیا انہوں نے اسے نہیں دیکھا جو ان کے آگے پیچھے ہے (ان کو محیط ہے ) یعنی آسمان و زمین! اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے کچھ ٹکڑے گرا دیں۔ بے شک اس میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والے بندہ کیلئے ایک نشانی ہے۔

۱۰.    اور بلاشبہ ہم نے داؤدؑ کو اپنے ہاں سے (بڑی) فضیلت عطا کی تھی (اور پہاڑوں سے کہا) اے پہاڑو ان کے ساتھ تسبیح کرو اور پرندوں کو بھی (یہی حکم دیا) اور ہم نے ان کیلئے لوہا نرم کر دیا۔

۱۱.     اور ان سے کہا کہ کشادہ زرہیں بناؤ اور کڑیوں کے جوڑنے میں مناسب اندازہ رکھو اور (اے آلِ داؤدؑ) تم سب نیک عمل کرو (کیونکہ) تم لوگ جو کچھ کرتے ہو میں خوب دیکھ رہا ہوں۔

۱۲.    اور ہم نے سلیمانؑ کیلئے ہوا کو مسخر کر دیا جس کا صبح کا سفر ایک مہینہ کی راہ تک تھا اور شام کا ایک مہینہ کی راہ تک اور ہم نے ان کیلئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کیا اور جنات میں سے کچھ ایسے تھے جو ان (سلیمانؑ) کے پروردگار کے حکم سے ان کے سامنے کام کرتے تھے اور ان (جنوں ) میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا تھا ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے تھے۔

۱۳.    وہ ان کیلئے وہ کچھ کرتے تھے جو وہ چاہتے تھے (جیسے ) محرابیں (مقدس اونچی عمارتیں ) اور مجسمے اور بڑے بڑے پیالے جیسے حوض اور گڑی ہوئی دیگیں۔ اے داؤدؑ کے خاندان والو! (میرا) شکر ادا کرو اور میرے بندوں میں شکر گزار بہت ہی کم ہیں۔

۱۴.    اور جب ہم نے سلیمانؑ پر موت کا فیصلہ نافذ کیا (اور وہ فوت ہو گئے ) تو ان کی موت کا پتہ ان (جنات) کو نہیں دیا مگر اس دیمک نے جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی تو جب (عصا کھوکھلا ہو گیا اور) آپ زمین پر گرے تو جنات پر اصلی حالت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو (اتنے عرصے تک) اس رسوا کن عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔

۱۵.    قبیلہ سباء والوں کیلئے ان کی آبادی میں (قدرتِ خدا کی) ایک نشانی موجود تھی (یعنی) دو باغ تھے دائیں اور بائیں (اور ان سے کہہ دیا گیا) کہ اپنے پروردگار کے رزق سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو شہر ہے پاک و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشنے والا۔

۱۶.    پس انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب چھوڑ دیا اور ان کے ان دو باغوں کو ایسے دو باغوں سے بدل دیا جن کے پھل بدمزہ تھے اور جھاؤ کے کچھ درخت اور کچھ تھوڑی سی بیریاں۔

۱۷.    یہ ہم نے انہیں ان کے نا شکرا پن کی پاداش میں سزا دی اور کیا ہم ایسی سزا ناشکرے انسان کے سوا کسی اور کو دیتے ہیں ؟

۱۸.    اور ہم نے ان کے اور ان کی بستیوں کے درمیان جن کو ہم نے برکت دی تھی (سرِ راہ) کئی اور نمایاں بستیاں بسا دیں اور ہم نے ان میں سفر کی منزلیں ایک اندازے پر مقرر کر دیں کہ (جب چاہو) راتوں میں، دنوں میں امن و عافیت سے چلو پھرو۔

۱۹.    (مگر) انہوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہمارے سفروں (ان کی مسافتوں ) کو دور دراز کر دے اور (یہ کہہ کر) انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا سو ہم نے انہیں (برباد) کر کے افسانہ بنا دیا اور بالکل ٹکڑے ٹکڑے کر دیا بے شک اس میں نشانیاں ہیں ہر بہت صبر کرنے (اور) بہت شکر کرنے والے کیلئے۔

۲۰.    بیشک شیطان نے ان لوگوں کے بارے میں اپنا خیال سچا کر دکھایا چنانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی۔ سوائے اہلِ ایمان کے ایک گروہ کے۔

۲۱.    اور شیطان کو ان پر ایسا اقتدار نہیں تھا کہ جس سے وہ بے اختیار ہو جائیں لیکن یہ سب کچھ اس لئے کہ ہم معلوم کریں کہ کون آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور کون اس سے متعلق شک میں ہے اور آپ کا پروردگار ہر چیز پر نگران و نگہبان ہے۔

۲۲.    اے رسولﷺ! (ان مشرکین سے ) کہیے ! تم ان کو پکارو جنہیں تم اللہ کے سوا (معبود) سمجھتے ہو( پھر دیکھو) وہ ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں، نہ آسمانوں اور زمین میں اور نہ ہی ان کی ان دونوں (کی ملکیت) میں کوئی شرکت ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی اس (اللہ) کا مددگار ہے۔

۲۳.   اور نہ اس (اللہ) کے ہاں کوئی سفارش (کسی کو کوئی) فائدہ دے گی مگر اس کے حق میں جس کیلئے وہ اجازت دے گا (اور جس کو دے گا) یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جائے گی تو وہ پوچھیں گے کہ تمہارے پروردگار نے کیا کہا ہے ؟ تو وہ کہیں گے کہ اس نے حق کہا ہے اور وہ بلند و بالا اور بزرگ و برتر ہے۔

۲۴.   آپ کہیے ! کہ آسمانوں اور زمین سے تمہیں کون روزی دیتا ہے ؟ (پھر) فرمائیے ! کہ اللہ! اور بے شک ہم یا تم ہدایت پر ہیں یا کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں ؟۔

۲۵.   آپ کہہ دیجئے ! کہ تم سے ہمارے جرائم کی بابت بازپرس نہیں ہو گی اور نہ ہم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال ہو گا۔

۲۶.    آپ کہیے (ایک دن) ہمارا پروردگار ہم سب کو جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا (حاکم اور) بڑا جاننے والا ہے۔

۲۷.   آپ کہیے ! (ذرا) مجھے تو دکھاؤ وہ جنہیں تم نے شریک بنا کر اس (اللہ) کے ساتھ ملا رکھا ہے ؟ ہرگز نہیں ! بلکہ وہ اللہ ہی ہے جو بڑا غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۲۸.   اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کیلئے بشیر و نذیر بنا کر مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

۲۹.    اور وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو (بتاؤ) یہ وعدہ وعید کب پورا ہو گا؟

۳۰.   آپ کہیے ! تمہارے لئے وعدہ کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو۔

۳۱.    اور کافر کہتے ہیں کہ ہم نہ اس قرآن پر ایمان لائیں گے اور نہ اس سے پہلے نازل شدہ کتابوں پر (یا نہ اس پر جو اس کے آگے ہے یعنی قیامت اور اس کے عذاب پر)۔ (اے پیغمبرﷺ) کاش تم دیکھتے جب ظالم لوگ اپنے پروردگار کے حضور (سوال و جواب کیلئے ) کھڑے کئے جائیں گے (اور) ایک دوسرے کی بات رد کر رہا ہو گا چنانچہ وہ لوگ جو دنیا میں کمزور سمجھے جاتے تھے وہ ان سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آئے ہوتے۔

۳۲.   بڑے لوگ کمزور لوگوں سے (جواب میں ) کہیں گے کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا جبکہ وہ تمہارے پاس آئی تھی۔ بلکہ تم خود ہی مجرم ہو۔

۳۳.   اور کمزور لوگ (جواب میں ) بڑا بننے والوں سے کہیں گے کہ (اس طرح نہیں ) بلکہ یہ (تمہارے ) شب و روز کے مکر و فریب نے ہمیں قبولِ حق سے باز رکھا جبکہ تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے ہمسر (شریک) ٹھہرائیں اور یہ لوگ جب عذابِ الٰہی کو دیکھیں گے تو ندامت و پشیمانی کو دل میں چھپائیں گے (دلوں میں پچھتائیں گے ) اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈالیں گے یہ لوگ (دنیا میں ) جیسے عمل کرتے تھے (آج) ان کا ہی ان کو بدلہ دیا جائے گا۔

۳۴.   اور ہم نے جب بھی کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا (نبیؑ) بھیجا تو وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی کہا کہ جس (دین) کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔

۳۵.   اور ہمیشہ یہ بھی کہا ہم مال و اولاد میں تم سے بڑھے ہوئے ہیں اور ہم کو کبھی عذاب نہیں دیا جائے گا۔

۳۶.   کہہ دیجئے ! کہ میرا پروردگار (اپنے بندوں میں سے ) جس کیلئے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کیلئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) جانتے نہیں ہیں۔

۳۷.   اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کوئی ایسی چیز نہیں ہیں ) جو تمہیں ہمارا مقرب بارگاہ بنائیں مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے (اسے ہمارا قرب حاصل ہو گا) ایسے لوگوں کیلئے ان کے عمل کی دوگنی جزا ہے اور وہ بہشت کے اونچے اونچے درجوں میں امن و اطمینان سے رہیں گے۔

۳۸.   اور جو لوگ ہماری آیتوں کے بارے میں (ہمیں نیچا دکھانے کیلئے ) کوشش کرتے ہیں وہ عذاب میں حاضر کئے جائیں گے۔

۳۹.    آپﷺ کہہ دیجئے ! میرا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے اور جو کچھ تم (راہِ خدا میں ) خرچ کرتے ہو تو وہ اس کی جگہ عطا کرتا ہے اور وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔

۴۰.   اور جس دن وہ لوگوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے کہے گا (پوچھے گا) کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے ؟

۴۱.    وہ کہیں گے پاک ہے تیری ذات! تو ہمارا آقا ہے نہ کہ وہ (ہمارا تعلق تجھ سے ہے نہ کہ ان سے ) بلکہ یہ تو جنات کی عبادت کیا کرتے تھے ان کی اکثریت انہی پر ایمان و اعتقاد رکھتی تھی۔

۴۲.   (ارشادِ قدرت ہو گا) آج تم میں سے کوئی نہ کسی دوسرے کو نفع پہنچا سکے گا اور نہ نقصان اور ہم ظالموں سے کہیں گے کہ اب عذاب جہنم کا مزہ چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

۴۳.   اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روکے اور کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) نہیں ہے مگر گھڑا ہوا جھوٹ اور جب بھی کافروں کے پاس حق آیا تو انہوں نے یہی کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔

۴۴.   حالانکہ ہم نے نہ انہیں کوئی کتابیں دیں جنہیں وہ پڑھتے ہیں اور نہ ہی آپ سے پہلے ان کی طرف کوئی ڈرانے والا (نبی) بھیجا ہے۔

۴۵.   اور وہ ان سے پہلے گزرے ہوئے (نبیوں کو) جھٹلا چکے ہیں اور جو کچھ (ساز و سامان اور قوت و طاقت) ان کو عطا کیا تھا یہ (کفارِ مکہ) تو اس کے عشرِ عشیر کو بھی نہیں پہنچے۔ لیکن جب انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو میری سزا کیسی (سخت) تھی؟

۴۶.   (اے نبیﷺ) آپ کہہ دیجئے ! میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم دو، دو اور ایک ایک ہو کر خدا کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور پھر غور و فکر کرو (ضرور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ) تمہارے ساتھی (رسولِﷺ خدا) میں کسی قسم کا کوئی جنون (اور دیوانگی) نہیں ہے وہ تو صرف ایک سخت عذاب کے آنے سے پہلے تمہیں ڈرانے والا ہے۔

۴۷.   کہہ دیجئے ! میں نے (تبلیغِ رسالتﷺ کے سلسلہ میں ) تم سے جو اجر مانگا ہے وہ تمہارے ہی (فائدہ کے ) لئے ہے میری اجرت تو بس اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

۴۸.   کہہ دیجئے ! کہ میرا پروردگار جو کہ بڑا غیب دان ہے حق کو (باطل پر) ڈالتا (مارتا) ہے۔

۴۹.    آپﷺ کہہ دیجئے ! حق آ گیا ہے اور باطل نہ کچھ ایجاد کر سکتا ہے اور نہ دوبارہ پلٹا سکتا ہے (بالکل مٹ گیا ہے )۔

۵۰.   کہہ دیجئے ! اگر (تمہارے خیال کے مطابق) میں گمراہ ہو گیا ہوں تو اس کا وِزر و وبال میری جان پر ہے اور اگر میں ہدایت یافتہ ہوں تو یہ اس وحی کا ثمرہ ہے جو میرا پروردگار میری طرف بھیجتا ہے بے شک وہ بڑا سننے والا بالکل قریب ہے۔

۵۱.    اور کاش تم دیکھو کہ جب یہ لوگ گھبرائے ہوئے (پریشان حال) ہوں گے لیکن بچ نکلنے کا کوئی موقع نہ ہو گا اور وہ قریبی جگہ سے پکڑ لئے جائیں گے۔

۵۲.   اور (اب) وہ کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لے آئے۔ مگر اتنی دور دراز جگہ سے اب اس (ایمان) پر دسترس کہاں ؟

۵۳.   حالانکہ اس سے پہلے تو وہ اس (ایمان) کا انکار کرتے رہے اور (بلا تحقیق) بہت دور سے اَٹکَل کے تُکے چلاتے رہے۔

۵۴.   سو اب ان کے اور ان چیزوں کے درمیان جن کے یہ خواہش مند ہیں رکاوٹ کھڑی کر دی جائے گی۔ جیساکہ اس سے پہلے ان کے ہم مشربوں کے ساتھ کیا جا چکا ہے یقیناً وہ بڑے شبہ اور شک میں مبتلا تھے۔

٭٭

 

۳۵۔ سورۃ فاطر

 

۱.      سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے (اور) فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ہے جن کے دو دو، تین تین اور چار چار پر اور بازو ہیں۔ وہ (اپنی مخلوق کی) خلقت میں جب چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

۲.     اور اللہ لوگوں کیلئے (اپنی) رحمت (کا جو دروازہ) کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جسے وہ بند کر دے اسے اس (اللہ) کے بعد کوئی کھولنے والا نہیں ہے وہ زبردست (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۳.     اے لوگو! اللہ کے وہ احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کئے ہیں کیا اللہ کے سوا کوئی اور ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو؟

۴.     (اے رسولﷺ!) اور اگر یہ لوگ آپﷺ کو جھٹلاتے ہیں تو آپﷺ سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر جھٹلائے گئے اور تمام معاملات کی بازگشت خدا ہی کی طرف ہے۔

۵.     اے لوگو! اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے (خیال رکھنا) زندگانیِ دنیا کہیں تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ ہی بڑا دھوکہ باز (شیطان) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دے۔

۶.     بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے۔ لہٰذا تم بھی اسے (اپنا) دشمن ہی سمجھو، وہ اپنے گروہ کو اس لئے بلاتا ہے کہ وہ دوزخیوں میں سے ہو جائیں۔

۷.     جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کیلئے سخت عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کیلئے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔

۸.     بھلا وہ شخص جس کا برا عمل (اس کی نگاہ میں ) خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگے (کیا وہ ایک مؤمنِ صالح کی مانند ہو سکتا ہے ؟ یا کیا اس کی اصلاح کی کوئی امید ہو سکتی ہے ؟) بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ پس ان (بدبختوں ) کے بارے میں افسوس کرتے کرتے آپ کی جان نہ چلی جائے۔ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں یقیناً اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

۹.     اور اللہ ہی وہ (قادر) ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو حرکت میں لاتی (اٹھاتی) ہیں پھر ہم اسے ایک مردہ (اجاڑ) شہر کی طرف لے جاتے ہیں پھر ہم اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مردہ (اجاڑ) ہونے کے بعد زندہ (سرسبز) کر دیتے ہیں اسی طرح (قیامت کے دن لوگوں کا) جی اٹھنا ہو گا۔

۱۰.    جو کوئی عزت کا طلبگار ہے (تو وہ سمجھ لے ) کہ ساری عزت اللہ ہی کیلئے ہے (لہٰذا وہ خدا سے طلب کرے ) اچھے اور پاکیزہ کلام اس کی طرف بلند ہوتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کرتا ہے (یا اللہ نیک عمل کو بلند کرتا ہے ) اور جو لوگ (آپ کے خلاف) برائیوں کے منصوبے بناتے ہیں (بری تدبیریں کرتے ہیں ) ان کیلئے سخت عذاب ہے (اور ان کا مکر و فریب آخرکار) نیست و نابود ہو جائے گا۔

۱۱.     اور اللہ ہی نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑا جوڑا (نر و مادہ) بنا دیا اور کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور بچہ نہیں جنتی مگر اس (اللہ) کے علم سے اور نہ کسی شخص کی عمر میں زیادتی ہوتی ہے اور نہ کمی ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ ایک کتاب (لوحِ محفوظ) میں موجود ہے اور یقیناً یہ بات اللہ کیلئے آسان ہے۔

۱۲.    اور پانی کے دونوں (ذخیرے ) برابر نہیں ہیں یہ ایک میٹھا پیاس بجھانے والا ہے (اور) پینے میں خوشگوار اور دوسرا سخت کھاری اور کڑوا ہے اور تم ہر ایک سے تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیور برآمد کر کے پہنتے ہو اور تم اس کی کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ وہ پانی کو چیرتی پھاڑتی چلی جاتی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرو اور تاکہ شکر گزار بنو۔

۱۳.    وہ رات کو دن کے اندر داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے (ان میں سے ) ہر ایک (اپنی) مقررہ میعاد تک رواں دواں ہے یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار! اسی کی حکومت ہے اور اسے چھوڑ کر جنہیں تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔

۱۴.    اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سن نہیں سکتے۔ اور اگر (بالفرض) سنیں بھی تو وہ تمہاری التجا کو قبول نہیں کر سکتے اور قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا انکار کریں گے (اس سے بیزاری کا اعلان کریں گے ) اور خدائے خبیر کی طرح تمہیں اور کوئی خبر نہیں دے سکتا۔

۱۵.    اے لوگو! تم (سب) اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بے نیاز ہے جو قابلِ تعریف ہے۔

۱۶.    وہ اگر چاہے تو تم سب کو (عدم آباد کی طرف) لے جائے اور (تمہاری جگہ) کوئی نئی مخلوق لے آئے۔

۱۷.    اور ایسا کرنا اللہ کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

۱۸.    اور کوئی بوجھ اٹھانے والا (گنہگار) کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کوئی بھاری بوجھ والا اس کے اٹھانے کیلئے (کسی کو) بلائے گا تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو؟ (اے رسولﷺ!) آپ صرف انہی لوگوں کو ڈرا سکتے ہیں جو بے دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور جو (باقاعدہ) نماز پڑھتے ہیں اور جو (گناہوں سے ) پاکیزگی اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدہ کیلئے پاکباز رہتا ہے (آخرکار) اللہ ہی کی طرف (سب کی) بازگشت ہے۔

۱۹.    اور اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہیں۔

۲۰.    اور نہ اندھیرا (کفر) اور اجالا (ایمان) برابر ہیں۔

۲۱.    اور نہ ہی (ٹھنڈا) سایہ (بہشت) اور تیز دھوپ (جہنم) برابر ہیں۔

۲۲.    اور نہ ہی زندے (مؤمنین) اور مردے (کافرین) برابر ہیں۔ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنوارتا ہے (اے رسول) جو (کفار مردوں کی طرح) قبروں میں دفن ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے۔

۲۳.   آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں۔

۲۴.   بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشیر و نذیر (بشارت دینے والا اور ڈرانے والا) بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت ایسی نہیں (گزری) جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو۔

۲۵.   اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں (تو یہ کوئی نئی بات نہیں ) ان سے پہلے والے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں ان کے رسولؑ ان کے پاس کھلے ہوئے نشان (معجزے ) اور (آسمانی) صحیفے اور روشن (واضح ہدایت دینے والی) کتابیں لے کر آئے تھے۔

۲۶.    پھر میں نے کافروں کو پکڑ لیا (دیکھو) میری سزا کیسی سخت تھی؟

۲۷.   کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے مختلف رنگوں کے پھل نکالے اور (اسی طرح) پہاڑوں میں بھی مختلف رنگوں کی گھاٹیاں ہیں کوئی سفید اور کوئی سرخ اور بعض حصے گہرے سیاہ۔

۲۸.   اور انسانوں، چلنے پھرنے والے جانوروں اور چوپایوں میں بھی اسی طرح مختلف رنگ پائے جاتے ہیں اور اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اس سے ڈرتے ہیں بے شک اللہ غالب ہے (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔

۲۹.    بے شک جو لوگ (کماحقہٗ) کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور باقاعدہ نماز پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس سے پوشیدہ اور اعلانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں وہ ایک ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں تباہی (خسارہ) نہیں۔

۳۰.   تاکہ وہ (اللہ) انہیں پورا پورا اجر عطا فرمائے اور اپنے فضل و کرم سے اور زیادہ دے۔ بیشک وہ بڑا بخشنے والا، بڑا قدر دان ہے۔

۳۱.    اور جو کتاب ہم نے بذریعۂ وحی آپﷺ کی طرف بھیجی ہے وہ برحق ہے اور اپنے سے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے بیشک اللہ اپنے بندوں (کے حالات) سے باخبر (اور) بڑا دیکھنے والا نگران ہے۔

۳۲.   پھر ہم نے اس کا وارث ان کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کر لیا ہے پس ان بندوں سے بعض تو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض معتدل ہیں اور بعض اللہ کے اذن (اور اس کی توفیق) سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں یہی تو بہت بڑا فضل ہے۔

۳۳.   (ان کا صلہ) سدا بہار بہشت ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے وہاں ان کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہو گا۔

۳۴.   اور وہ (بطور شکرانۂ نعمت کہیں گے سب تعریف اللہ) کیلئے ہے (اور اس کا شکر ہے ) جس نے ہم سے رنج و غم دور کر دیا ہے بیشک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا، بڑا قدر دان ہے۔

۳۵.   جس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے ایسی دائمی قیامت کی جگہ پر اتارا ہے جہاں نہ کوئی زحمت ہوتی ہے اور نہ ہی تھکن محسوس ہوتی ہے۔

۳۶.   اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کیلئے دوزخ کی آگ ہے (وہاں ) نہ ان کی موت کا فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ہی ان کیلئے عذابِ جہنم میں کوئی کمی کی جائے گی ہم اسی طرح ہر ناشکرے کو سزا دیتے ہیں۔

۳۷.   اور وہ (دوزخی) اس میں چیخیں چلائیں گے اے ہمارے پروردگار! ہمیں یہاں سے نکال (اور دارِ دنیا میں بھیج) تاکہ ہم نیک عمل کریں ایسے نہیں جیسے پہلے کرتے تھے (ارشادِ قدرت ہو گا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں نصیحت قبول کرنے والا نصیحت قبول کر سکتا تھا؟ اور (علاوہ بریں ) تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا اب (اپنے کئے کا) مزہ چکھو (آج) ظالموں کا کوئی یار و مددگار نہیں ہے۔

۳۸.   بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے۔ یقیناً وہ دلوں کے رازوں سے خوب واقف ہے۔

۳۹.    وہ وہی ہے جس نے تمہیں (گزشتہ لوگوں کا) جانشین بنایا سو جو کوئی کفر کرے گا۔ تو اس کے کفر (کا وبال) اسی پر پڑے گا اور کافروں کا کفران کے پروردگار کے ہاں سوائے قہر و غضبِ الٰہی کے اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا اور کافروں کا کفر صرف ان کے خسارے اور گھاٹے میں اضافہ کرتا ہے۔

۴۰.   آپﷺ کہہ دیجئے ! (اے مشرکو) کیا تم نے کبھی اپنے (خودساختہ) شریکوں کو دیکھا بھی ہے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو مجھے دکھاؤ انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے ؟ یا ان کی آسمانوں میں شرکت ہے یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اس کی بناء پر (اپنے شرک کے جواز کی) کوئی سند رکھتے ہوں ؟ (کچھ بھی نہیں ) بلکہ (یہ) ظالم لوگ ایک دوسرے سے محض پُر فریب وعدے کرتے ہیں۔

۴۱.    بے شک اللہ (اپنی قدرتِ کاملہ) سے آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائیں اور اگر وہ (بالفرض) ہٹ جائیں تو اس کے سوا انہیں کون تھام سکتا ہے ؟ بے شک وہ (اللہ) بڑا بردبار (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔

۴۲.   اور یہ لوگ (کفارِ مکہ) بڑی سخت قَسمیں کھا کر کہتے تھے کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) آیا تو وہ ہر ایک قوم سے بڑھ کر ہدایت قبول کرنے والے ہوں گے لیکن جب ان کے پاس ڈرانے والا آ گیا تو اس (کی آمد) نے ان کی نفرت۔

۴۳.   زمین میں سرکشی کرنے اور بری سازشیں کرنے میں اضافہ ہی کیا حالانکہ بری سازشیں تو اس کو گھیرتی ہیں جو بری سازش کرتا ہے سو کیا اب یہ لوگ پہلے والے لوگوں کے ساتھ خدا کے طریقۂ کار کا انتظار کر رہے ہیں (کہ ان کے ساتھ بھی وہی ہو) تم خدا کے دستور (طریقۂ کار) میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے (کہ مقررہ قاعدے سے پھر جائے )۔

۴۴.   کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ وہ دیکھتے کہ ان سے پہلے والے لوگوں کا انجام کیا ہوا تھا حالانکہ وہ قوت و طاقت میں ان سے بڑھے ہوئے تھے آسمانوں اور زمین میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اللہ کو عاجز (بے بس) کر سکے۔ وہ بڑا جاننے والا، بڑا قدرت رکھنے والا ہے۔

۴۵.   اور اگر خدا لوگوں کا ان کے (برے ) اعمال کی پاداش میں جلدی مواخذہ کرتا (پکڑتا) تو روئے زمین پر کوئی جاندار نہ چھوڑتا لیکن ان کو ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے تو جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی تو اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھنے والا (نگران) ہے۔

٭٭

 

۳۶۔ سورۃ یسٰں

 

۱.      یاسینﷺ۔

۲.     قرآنِ حکیم کی قسم۔

۳.     یقیناً آپﷺ (خدا کے ) رسولوں میں سے ہیں۔

۴.     (اور) سیدھے راستے پر ہی ہیں۔

۵.     (یہ قرآنِ) عزیز (غالب اور) بڑے مہربان کا نازل کیا ہوا ہے۔

۶.     تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس کے باپ دادا کو (براہِ راست کسی پیغمبر سے ) ڈرایا نہیں گیا اس لئے وہ غافل ہیں۔

۷.     ان میں سے اکثر پر (ان کے تعصب و عناد کی وجہ سے ) یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

۸.     ہم نے (ان کے پیہم کفر و عناد کی وجہ سے گویا) ان کی گردنوں میں (گمراہی اور شیطان کی غلامی کے ) طوق ڈال دیئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک آ گئے ہیں اس لئے وہ سر اوپر اٹھائے ہوئے ہیں (لہٰذا وہ سر جھکا نہیں سکتے )۔

۹.     اور ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کر دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے کھڑی کر دی ہے (اس طرح) ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے پس وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے۔

۱۰.    ان کیلئے (دونوں باتیں ) برابر ہیں خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

۱۱.     آپ تو صرف اس شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمن سے ڈرے پس ایسے شخص کو مغفرت (بخشش) اور عمدہ اجر کی خوشخبری دے دیں۔

۱۲.    بے شک ہم ہی مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ان کے وہ اعمال لکھ لیتے ہیں جو وہ آگے بھیج چکے ہیں اور ان کے وہ آثار بھی ثبت کرتے ہیں جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں جمع کر دیا ہے۔

۱۳.    اور (ان کو سمجھانے کیلئے ) بطورِ مثال ایک خاص بستی کا قصہ سنائیں جب ان کے پاس (ہمارے ) پیغام رساں آئے۔

۱۴.    (پہلے ) ہم نے ان کی طرف دو (رسول) بھیجے تو انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں تیسرے (رسول) کے ساتھ تقویت دی۔ چنانچہ تینوں نے کہا کہ ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں۔

۱۵.    ان لوگوں نے کہا تم بس ہمارے ہی جیسے انسان ہو اور خدائے رحمٰن نے (تم پر) کوئی چیز نازل نہیں کی ہے تم بالکل جھوٹ بول رہے ہو۔

۱۶.    رسولوںؑ نے کہا کہ ہمارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔

۱۷.    اور ہماری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ہم (خدا کا پیغام) صاف صاف پہنچا دیں۔

۱۸.    تو بستی والوں نے کہا کہ ہم تو تمہیں اپنے لئے فالِ بد سمجھتے ہیں (کہ تمہارے آنے سے قحط پڑ گیا ہے ) اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں دردناک سزا ملے گی۔

۱۹.    رسولوں نے کہا کہ تمہاری فالِ بد تو تمہارے ساتھ ہے ! کیا اگر تمہیں نصیحت کی جائے (تو یہ بات بد شگونی ہے )؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے بڑھ جانے والے لوگ ہو۔

۲۰.    اور ایک شخص شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا ہوا آیا اور کہا اے میری قوم! رسولوںؑ کی پیروی کرو۔

۲۱.    ان لوگوں کی پیروی کرو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور خود ہدایت یافتہ بھی ہیں۔

۲۲.    مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں اس ہستی کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے حالانکہ تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

۲۳.   کیا میں اسے چھوڑ کر ایسے خداؤں کو اختیار کروں کہ اگر خدائے رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی سفارش مجھے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے اور نہ ہی وہ مجھے چھڑا سکیں۔

۲۴.   (اگر میں ایسا کروں ) تو میں اس وقت کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوں گا۔

۲۵.   میں تو تمہارے پروردگار پر ایمان لے آیا ہوں تم میری بات (کان لگا کر) سنو (اور ایمان لے آؤ)۔

۲۶.    (انجامِ کار ان لوگوں نے اس مؤمن کو سنگسار کر دیا اور اس سے ) کہا گیا کہ بہشت میں داخل ہو جا۔ وہ کہنے لگا کاش میری قوم کو معلوم ہو جاتا۔

۲۷.   کہ میرے پروردگار نے کس وجہ سے مجھے بخش دیا ہے اور مجھے معزز لوگوں میں سے قرار دیا ہے۔

۲۸.   اور ہم نے اس (کی شہادت) کے بعد نہ تو اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر اتارا اور نہ ہی ہم کو (اتنی سی بات کیلئے لشکر) اتارنے کی ضرورت تھی۔

۲۹.    وہ (سزا) تو صرف ایک مہیب آواز (چنگھاڑ) تھی جس سے وہ ایک دم بجھ کر رہ گئے۔

۳۰.   افسوس ہے (ایسے ) بندوں پر کہ جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے تو یہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

۳۱.    کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں (اور) وہ کبھی ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔

۳۲.   (ہاں البتہ) وہ سب (ایک بار) ہماری بارگاہ میں حاضر کئے جائیں گے۔

۳۳.   اور (ہماری نشانیوں میں سے ) ان کیلئے ایک نشانی وہ مردہ زمین ہے جسے ہم نے زندہ کر دیا اور اس سے دانہ (غلہ) نکالا جس سے وہ کھاتے ہیں۔

۳۴.   اور ہم نے اس (زمین) میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کئے اور اس سے چشمے جاری کر دیئے۔

۳۵.   تاکہ وہ اس کے پھلوں سے کھائیں حالانکہ یہ ان کے ہاتھوں کی کارگزاری نہیں ہے کیا یہ لوگ (اس پر بھی) شکر ادا نہیں کرتے ؟

۳۶.   پاک ہے وہ ذات جس نے سب اقسام کے جوڑے جوڑے پیدا کئے ہیں خواہ (نباتات) ہو جسے زمین اگاتی ہے یا خود ان کے نفوس ہوں (بنی نوع انسان) یا وہ چیزیں ہوں جن کو یہ نہیں جانتے۔

۳۷.   اور ان کیلئے ایک نشانی رات بھی ہے جس سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو ایک دم وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔

۳۸.   اور (ایک نشانی) سورج ہے جو اپنے مقررہ ٹھکانے (مدار) کی طرف چل رہا ہے (گردش کر رہا ہے ) یہ اندازہ اس (خدا) کا مقرر کیا ہوا ہے جو غالب ہے (اور) بڑا علم والا۔

۳۹.    اور (ایک نشانی) چاند بھی ہے جس کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ (آخر میں ) کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔

۴۰.   نہ سورج کے بس میں ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات کیلئے ممکن ہے کہ وہ دن پر سبقت لے جائے اور سب (اپنے ) ایک ایک فلک (دائرہ) میں تیر رہے ہیں۔

۴۱.    اور ان کیلئے (قدرتِ خدا کی) ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی (نوحؑ) میں سوار کیا۔

۴۲.   اور ان کیلئے (خشکی اور تری) میں کشتی کی مانند اور سواریاں پیدا کی ہیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔

۴۳.   اور اگر ہم چاہیں تو انہیں غرق کر دیں پھر نہ کوئی ان کا فریاد رس ہو اور نہ ہی وہ چھڑائے جا سکیں۔

۴۴.   مگر یہ کہ ہماری رحمت (شاملِ حال) ہو جائے اور ایک (خاص) وقت تک بہرہ مند کرنا منظور ہو۔

۴۵.   اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ڈرو اس (انجام و عذاب) سے جو تمہارے آگے ہے اور اس سے ڈرو جو تمہارے پیچھے ہے کہ تم پر رحم کیا جائے (تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے )۔

۴۶.   اور ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی بھی ان کے پاس نہیں آتی مگر یہ کہ وہ اس سے روگردانی کرتے ہیں۔

۴۷.   اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے تمہیں جو کچھ عطا کیا ہے اس سے (کچھ) راہِ خدا میں بھی خرچ کرو تو کافر اہلِ ایمان سے کہتے ہیں کیا ہم اسے کھلائیں جسے اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہو۔

۴۸.   اور وہ (کافر) کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ کہ یہ (قیامت کا) وعدہ وعید کب پورا ہو گا؟

۴۹.    وہ صرف ایک مہیب آواز (چنگھاڑ) یعنی نَفَخ صُور کا انتظار کر رہے ہیں جو انہیں اپنی گرفت میں لے لے گی جبکہ یہ لوگ (اپنے معاملات میں ) باہم لڑ جھگڑ رہے ہوں گے۔

۵۰.   (اس وقت) وہ نہ کوئی وصیت کر سکیں گے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی طرف واپس جا سکیں گے۔

۵۱.    اور جب (دوبارہ) صور پھونکا جائے گا تو وہ ایک دم اپنی قبروں سے (نکل کر) اپنے پروردگار کی طرف تیز تیز چلنے لگیں گے۔

۵۲.   (اس وقت گھبرا کر) کہیں گے ہائے افسوس! کس نے ہمیں ہماری خوابگاہ سے اٹھایا؟ (جواب دیا جائے گا) یہ وہی (قیامت) ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ (وعید) کیا تھا اور پیغمبروںؑ نے بھی سچ کہا تھا۔

۵۳.   بس وہ ایک مہیب آواز (چنگھاڑ) ہو گی پھر سب کے سب ہمارے حضور حاضر کر دیئے جائیں گے۔

۵۴.   پس آج کے دن کسی پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور تمہیں بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر انہی اعمال کا جو تم کیا کرتے تھے۔

۵۵.   بے شک آج بہشتی لوگ اپنے مشغلہ میں خوش ہوں گے۔

۵۶.   وہ اور ان کی بیویاں (گھنے ) سایوں میں مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔

۵۷.   وہاں ان کے (کھانے پینے ) کیلئے (ہر قسم کے ) پھل ہوں گے اور وہ سب کچھ ہو گا جو وہ طلب کریں گے۔

۵۸.   (انہیں ) مہربان (پروردگار) کی طرف سے سلام کہا جائے گا۔

۵۹.    (ارشادِ قدرت ہو گا) اے مجرمو! الگ ہو جاؤ۔

۶۰.    اے اولادِ آدم! کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ شیطان کی پرستش نہ کرنا؟ کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔

۶۱.    ہاں البتہ میری عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔

۶۲.    (اس کے باوجود) اس نے تم میں سے ایک کثیر گروہ کو گمراہ کر دیا کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے تھے ؟

۶۳.   یہ ہے وہ جہنم جس سے تمہیں ڈرایا جاتا تھا۔

۶۴.   آج اپنے کفر کی پاداش میں اس میں داخل ہو جاؤ (اور اس کی آگ تاپو)۔

۶۵.   آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ہم سے ان کے ہاتھ کلام کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے اس کے بارے میں جو کچھ وہ کیا کرتے تھے ؟

۶۶.    اور اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھوں کو مٹا دیتے پھر وہ راستہ کی طرف دوڑتے تو ان کو کہاں نظر آتا؟

۶۷.   اور اگر ہم چاہتے تو انہیں ان کی جگہ پر مسخ کر کے رکھ دیتے کہ نہ آگے بڑھ سکتے اور نہ پیچھے پلٹ سکتے۔

۶۸.   اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اسے خلقت (ساخت) میں الٹ دیتے ہیں کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے ؟

۶۹.    اور ہم نے انہیں شعر و شاعری نہیں سکھائی اور نہ ہی یہ ان کے شایانِ شان ہے یہ تو بس ایک نصیحت اور واضح قرآن ہے۔

۷۰.   تاکہ آپﷺ (اس کی ذریعہ سے ) انہیں ڈرائیں جو زندہ (دل) ہیں اور تاکہ کافروں پر حجت تمام ہو جائے۔

۷۱.    کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے (غور نہیں کرتے ) کہ ہم نے ان کیلئے اپنے دست ہائے قدرت سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے مویشی پیدا کئے (چنانچہ اب) یہ ان کے مالک ہیں۔

۷۲.   اور ہم نے ان (مویشیوں ) کو ان کا مطیع کر دیا ہے پس ان میں سے بعض پر وہ سوار ہوتے ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں۔

۷۳.   اور ان کیلئے ان میں اور بھی طرح طرح کے فائدے اور پینے کی چیزیں (دودھ وغیرہ) بھی ہیں تو کیا یہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے ؟

۷۴.   اور کیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور خدا بنا لئے ہیں کہ شاید ان کی مدد کی جائے گی۔

۷۵.   حالانکہ وہ ان کی (کچھ بھی) مدد نہیں کر سکتے (بلکہ) وہ (کفار) ان (بتوں ) کی حفاظت اور ان کے (دفاع) کیلئے حاضر باش لشکر ہیں۔

۷۶.   (اے پیغمبرﷺ) ان لوگوں کی باتیں آپ کو رنجیدہ نہ کریں بے شک ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔

۷۷.   کیا انسان یہ نہیں دیکھتا (اس پر غور نہیں کرتا) کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ہے سو وہ یکایک (ہمارا) کھلا ہوا مخالف بن گیا۔

۷۸.   وہ ہمارے لئے مثالیں پیش کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے وہ کہتا ہے کہ ان ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جبکہ وہ بالکل بوسیدہ ہو چکی ہوں ؟

۷۹.   آپﷺ کہہ دیجئے ! انہیں وہی (خدا دوبارہ) زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا وہ ہر مخلوق کو خوب جانتا ہے۔

۸۰.   (خدا) جس نے تمہارے لئے سرسبز درخت سے آگ پیدا کی ہے اس سے (اور) آگ سلگاتے ہو۔

۸۱.    کیا وہ (قادرِ مطلق) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان (لوگوں ) جیسے (دوبارہ) پیدا کرے ؟ ہاں وہ بڑا پیدا کرنے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔

۸۲.   اس کا معاملہ تو بس یوں ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔

۸۳.   پس پاک ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز کی حکومت ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

٭٭

 

۳۷۔ سورۃ صٰفّٰت

 

۱.      باقاعدہ طور پر صف باندھنے والی ہستیوں کی قسم۔

۲.     (برائی سے ) جھڑکنے (اور) ڈانٹنے والی ہستیوں کی قسم۔

۳.     پھر ذکر (قرآن) کی تلاوت کرنے والی ہستیوں کی قسم۔

۴.     تمہارا الٰہ (خدا) ایک ہی ہے۔

۵.     جو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے (سب کا) پروردگار ہے۔

۶.     بے شک ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں کی آرائش سے آراستہ کیا ہے۔

۷.     اور ہر سرکش و شیطان کی (در اندازی سے اسے ) محفوظ کر دیا ہے۔

۸.     (اب) ملاءِ اعلیٰ (عالمِ بالا) کی باتوں کو کان لگا کر نہیں سن سکتے اور وہ ہر طرف سے مارے جاتے ہیں۔

۹.     (ان کو) دھتکارنے (اور بھگانے ) کیلئے اور ان کیلئے دائمی عذاب ہے۔

۱۰.    مگر یہ کہ کوئی شیطان (فرشتوں کی) کوئی اڑتی ہوئی خبر اچک لے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔

۱۱.     پس آپﷺ ان سے پوچھئے کہ آیا ان کی خلقت زیادہ سخت ہے یا ان کی جن کو ہم نے پیدا کیا؟ بے شک ہم نے انہیں ایک لیس دار مٹی سے پیدا کیا ہے۔

۱۲.    تم تو (ان کے انکار پر) تعجب کرتے ہو مگر وہ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

۱۳.    اور جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ قبول نہیں کرتے۔

۱۴.    اور جب کوئی نشانی (معجزہ) دیکھتے ہیں تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

۱۵.    اور کہتے ہیں کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔

۱۶.    بھلا جب ہم مر جائیں گے اور (مر کر) مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم (زندہ کر کے ) اٹھائے جائیں گے۔

۱۷.    یا کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی (اٹھائے جائیں گے ؟)

۱۸.    آپ کہیے کہ ہاں اور تم (اس وقت) ذلیل و خوار ہو گے۔

۱۹.    بس وہ قیامت تو صرف ایک جھڑک ہو گی (اس کے بعد) ایک دم (زندہ ہو کر ادھر اُدھر) دیکھ رہے ہوں گے۔

۲۰.    اور کہیں گے ہائے ہماری بدبختی! یہ تو جزا (و سزا) کا دن ہے۔

۲۱.    (ہاں ) یہ وہی فیصلہ کا دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

۲۲.    (فرشتوں کو حکم ہو گا کہ) جن لوگوں نے ظلم کیا اور ان کے ہم مشربوں کو اور اللہ کو چھوڑ کر جن کی یہ پرستش کرتے تھے ان سب کو جمع کرو۔

۲۳.   اور پھر سب کو دوزخ کا راستہ دکھاؤ۔

۲۴.   اور انہیں ٹھہراؤ (ابھی) ان سے کچھ پوچھنا ہے۔

۲۵.   تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ؟

۲۶.    بلکہ وہ تو آج سرِ تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔

۲۷.   اور (اس کے بعد) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے (اور) باہم سوال و جواب کریں گے۔

۲۸.   (کمزور گروہ دوسرے بڑے گروہ سے ) کہے گا کہ تم ہی ہمارے پاس دائیں جانب سے (بڑی شد و مد سے ) آیا کرتے تھے (اور ہمیں کفر پر آمادہ کرتے تھے )۔

۲۹.    وہ کہیں گے بلکہ تم خود ہی ایمان نہیں لائے تھے۔

۳۰.   اور ہمارا تم پر کوئی زور نہیں تھا بلکہ تم خود ہی سرکش لوگ تھے۔

۳۱.    سو ہم پر ہمارے پروردگار کی بات پوری ہو گئی ہے اب ہم (سب عذابِ خداوندی کا مزہ) چکھنے والے ہیں۔

۳۲.   پس ہم نے تمہیں گمراہ کیا (کیونکہ) ہم خود بھی گمراہ تھے۔

۳۳.   سو وہ سب اس دن عذاب میں باہم شریک ہوں گے۔

۳۴.   بے شک ہم مجرموں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔

۳۵.   وہ ایسے (شریر) لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے تو یہ تکبر کیا کرتے تھے۔

۳۶.   اور کہتے تھے کہ آیا ایک دیوانے شاعر کی خاطر ہم اپنے خداؤں کو چھوڑ دیں۔

۳۷.   حالانکہ وہ (دینِ) حق لے کر آیا تھا اور (سارے ) رسولوں ﷺ کی تصدیق کی تھی۔

۳۸.   (اے مجرمو!) تم ضرور دردناک عذاب کا مزہ چکھنے والے ہو۔

۳۹.    اور تمہیں اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

۴۰.   ہاں البتہ اللہ کے برگزیدہ بندے (اس سے مستثنیٰ ہوں گے )۔

۴۱.    یہ وہ (خوش نصیب) ہیں جن کیلئے معلوم و معین رزق ہے۔

۴۲.   یعنی طرح طرح کے میوے اور وہ عزت و اکرام کے ساتھ ہوں گے۔

۴۳.   باغہائے بہشت میں۔

۴۴.   (مرصع) پلنگوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

۴۵.   (شرابِ طہور کے ) جام چشموں سے پُر کر کے ان کے درمیان گردش کر رہے ہوں گے۔

۴۶.   (یعنی بالکل) سفید براق شراب جو پینے والوں کیلئے بڑی لذیذ ہو گی۔

۴۷.   نہ اس میں دردِ سر و بدحواسی ہو گی اور نہ ہی مدہوشی کی وجہ سے وہ بہکی ہوئی باتیں کریں گے۔

۴۸.   اور ان کے پاس نگاہیں نیچے رکھنے والی (با حیا) اور غزال چشم (بیویاں ) ہوں گی۔

۴۹.    (وہ رنگ و روپ اور نزاکت میں ) گویا چھپے ہوئے انڈے ہیں۔

۵۰.   پھر وہ (بہشتی لوگ) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے اور سوال و جواب کریں گے۔

۵۱.    ان میں سے ایک کہے گا کہ (دنیا میں ) میرا ایک رفیق تھا۔

۵۲.   جو (مجھ سے ) کہتا تھا کہ آیا تم بھی (قیامت کی) تصدیق کرتے ہو؟

۵۳.   کب جب مر جائیں گے اور (سڑ گل کر) مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو (اس وقت زندہ کر کے ) ہمیں جزا و سزا دی جائے گی؟

۵۴.   پھر وہ (اپنے جنتی ساتھیوں سے ) کہے گا کیا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو؟ (کہ اب وہ رفیق کہاں اور کس حال میں ہے ؟)

۵۵.   پھر جب وہ جھانک کر دیکھے گا تو اسے جہنم کے وسط میں پائے گا۔

۵۶.   اس وقت (اس سے خطاب کر کے ) کہے گا کہ خدا کی قسم تو تو مجھے ہلاک کرنا ہی چاہتا تھا۔

۵۷.   اور اگر میرے پروردگار کا فضل و کرم نہ ہوتا تو آج میں بھی اس گروہ میں شامل ہوتا جو پکڑ کر لایا گیا ہے۔

۵۸.   (جنتی لوگ) کہیں گے کیا اب تو ہم نہیں مریں گے ؟

۵۹.    سوائے پہلی موت کے اور نہ ہی ہمیں کوئی عذاب ہو گا۔

۶۰.    بے شک یہ بڑی کامیابی ہے۔

۶۱.    ایسی ہی کامیابی کیلئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔

۶۲.    کیا یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟

۶۳.   جسے ہم نے ظالموں کیلئے آزمائش بنایا۔

۶۴.   وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی گہرائی سے نکلتا ہے۔

۶۵.   اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔

۶۶.    جہنمی لوگ اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے۔

۶۷.   (پھر زقوم کھانے کے بعد) انہیں (پینے کیلئے ) کھولتا ہوا پانی ملا کر دیا جائے گا۔

۶۸.   پھر ان کی بازگشت جہنم ہی کی طرف ہو گی۔

۶۹.    ان لوگوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا۔

۷۰.   اور یہ (بے سوچے سمجھے ) انہی کے نقش قدم پر دوڑتے رہے۔

۷۱.    اور بے شک ان سے پہلے بھی اگلوں میں اکثر لوگ گمراہ ہو چکے تھے۔

۷۲.   اور ہم نے ان میں ڈرانے والے (رسول) بھیجے تھے۔

۷۳.   تو دیکھو کہ ڈرائے ہوؤں کا انجام کیا ہوا؟

۷۴.   ہاں البتہ اللہ کے برگزیدہ بندے اس سے مستثنیٰ ہیں۔

۷۵.   اور یقیناً نوحؑ نے ہم کو پکارا تو ہم کیا اچھا جواب دینے والے تھے۔

۷۶.   اور ہم نے انہیں اور ان کے اہل کو سخت تکلیف سے نجات دی۔

۷۷.   اور ہم نے انہی کی نسل کو باقی رہنے والا بنایا۔

۷۸.   اور ہم نے بعد میں آنے والے لوگوں میں ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا۔

۷۹.   تمام جہانوں میں نوحؑ پر سلام ہو۔

۸۰.   بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔

۸۱.    بے شک وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے۔

۸۲.   پھر دوسرے لوگوں کو ہم نے غرق کر دیا۔

۸۳.   اور انہی (نوحؑ) کے پیروکاروں میں سے ابراہیمؑ بھی تھے۔

۸۴.   جبکہ وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں قلبِ سلیم کے ساتھ حاضر ہوئے۔

۸۵.   جبکہ انہوں نے اپنے باپ (یعنی چچا) اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟

۸۶.   کیا تم اللہ کو چھوڑ کر جھوٹے گھڑے ہوئے خداؤں کو چاہتے ہو۔

۸۷.   آخر تمام جہانوں کے پروردگار کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟

۸۸.   پھر آپ نے ستاروں پر ایک نگاہ ڈالی۔

۸۹.    اور کہا کہ میں بیمار ہونے والا ہوں۔

۹۰.    اس پر وہ لوگ پیٹھ پھیر کر ان کے پاس سے چلے گئے۔

۹۱.    پس چپکے سے ان کے دیوتاؤں کی طرف گئے اور (ان سے ) کہا کہ تم کھاتے کیوں نہیں ؟

۹۲.    تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم بولتے بھی نہیں ہو۔

۹۳.    پھر ان پر پَل پڑے اور اپنے دائیں ہاتھ سے خوب ضربیں لگائیں۔

۹۴.    پھر وہ لوگ دوڑتے ہوئے ان (ابراہیمؑ) کے پاس آئے۔

۹۵.    آپؑ نے کہا کیا تم ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنہیں خود تراشتے ہو؟

۹۶.    حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے اور ان چیزوں کو بھی جو تم بناتے ہو۔

۹۷.   ان لوگوں نے کہا کہ ان کیلئے ایک آتش کدہ بناؤ اور اسے دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دو۔

۹۸.    سو انہوں نے آپؑ کے خلاف چال چلنا چاہی مگر ہم نے انہی کو نیچا دکھا دیا۔

۹۹.    آپؑ نے فرمایا کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جاتا ہوں وہ میری راہنمائی فرمائے گا۔

۱۰۰.   (اور عرض کیا) اے میرے پروردگار مجھے ایک بیٹا عطا فرما جو صالحین میں سے ہو۔

۱۰۱.   (اس دعا کے بعد) ہم نے ان کو ایک حلیم و بردبار بیٹے کی بشارت دی۔

۱۰۲.   پس جب وہ لڑکا آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو آپؑ نے فرمایا (اے بیٹا) میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں تم غور کر کے بتاؤ کہ تمہاری رائے کیا ہے ؟ عرض کیا بابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے وہ بجا لائیے اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

۱۰۳.  پس جب دونوں (باپ بیٹے ) نے سرِ تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔

۱۰۴.  تو ہم نے ندا دی اے ابراہیمؑ!

۱۰۵.  تم نے (اپنے ) خواب کو سچ کر دکھایا بے شک ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔

۱۰۶.   بے شک یہ ایک کھلی ہوئی آزمائش تھی۔

۱۰۷.  اور ہم نے ایک عظیم قربانی کے عوض اس کو چھڑا لیا۔

۱۰۸.  اور ہم نے اس کا ذکر خیر آنے والوں میں چھوڑا۔

۱۰۹.   سلام ہو ابراہیمؑ پر۔

۱۱۰.   ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزا دیتے ہیں۔

۱۱۱.    یقیناً وہ ہمارے ایمانداروں میں سے تھے۔

۱۱۲.   اور ہم نے انہیں اسحاقؑ کی بشارت دی جو نیک بندوں میں سے نبی ہوں گے۔

۱۱۳.   اور ہم نے انہیں اور اسحاقؑ کو برکت عطا کی اور ان دونوں کی اولاد میں سے نیکوکار بھی ہوں گے اور اپنے نفس پر کھلا ظلم کرنے والے بھی۔

۱۱۴.   بے شک ہم نے موسیٰؑ و ہارونؑ پر (بھی) احسان کیا۔

۱۱۵.   اور ہم نے ان دونوں کو اور ان کی قوم کو عظیم کرب و بلا سے نجات دی۔

۱۱۶.   اور ہم نے ان کی مدد کی (جس کی وجہ سے ) وہی غالب رہے۔

۱۱۷.   اور ہم نے ان دونوں کو واضح کتاب (توراۃ) عطا کی۔

۱۱۸.   اور ہم نے (ہی) ان دونوں کو راہِ راست دکھائی۔

۱۱۹.   اور ہم نے آئندہ آنے والوں میں ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا۔

۱۲۰.   موسیٰؑ و ہارونؑ پر سلام ہو۔

۱۲۱.   اسی طرح ہم نیکوکاروں کو جزا دیتے ہیں۔

۱۲۲.   بیشک یہ دونوں ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔

۱۲۳.  اور بے شک الیاسؑ (بھی) پیغمبروں میں سے تھے۔

۱۲۴.  (وہ وقت یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم (اللہ سے ) ڈرتے نہیں ہو؟

۱۲۵.  کیا تم بعل (نامی بت) کو پکارتے ہو (اور اس کی پرستش کرتے ہو) اور بہترین خالق اللہ کو چھوڑتے ہو۔

۱۲۶.   جو تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے پہلے والے آباء و اجداد کا بھی پروردگار ہے۔

۱۲۷.  سو ان لوگوں نے انہیں جھٹلایا۔ لہٰذا وہ (سزا کیلئے ) ضرور (پکڑ کر) حاضر کئے جائیں گے۔

۱۲۸.  ہاں البتہ جو اللہ کے مخلص اور برگزیدہ بندے ہیں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔

۱۲۹.   اور ہم نے آئندہ آنے والوں میں ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا۔

۱۳۰.  سلام ہو الیاسؑ‌ؑؑ پر۔

۱۳۱.   ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزا دیتے ہیں۔

۱۳۲.  بیشک وہ مؤمن بندوں میں سے تھے۔

۱۳۳.  اور یقیناً لوطؑ (بھی) پیغمبروں میں سے تھے۔

۱۳۴.  جب کہ ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو نجات دی۔

۱۳۵.  سوائے ایک بڑھیا (بیوی) کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔

۱۳۶.  پھر دوسروں کو ہم نے تہس نہس کر دیا۔

۱۳۷.  اور تم لوگ صبح بھی ان (کی ویران شدہ بستیوں ) پر سے گزرتے ہو۔

۱۳۸.  اور شام کو بھی کیا پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے ؟

۱۳۹.   اور یقیناً یونسؑ (بھی) پیغمبروں میں سے تھے۔

۱۴۰.  جبکہ وہ (سوار ہونے کیلئے ) بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ کر گئے۔

۱۴۱.   پھر وہ قرعہ اندازی میں شریک ہوئے تو وہ پھینک دیئے گئے۔

۱۴۲.  تو انہیں مچھلی نے نگل لیا درآنحالیکہ کہ وہ (اپنے آپ کو) ملامت کر رہے تھے۔

۱۴۳.  پس اگر وہ تسبیح (خدا) کرنے والوں میں سے نہ ہوتے۔

۱۴۴.  تو (دوبارہ) اٹھائے جانے والے دن (قیامت) تک اسی (مچھلی) کے پیٹ میں رہتے۔

۱۴۵.  سو ہم نے انہیں (مچھلی کے پیٹ سے نکال کر) ایک کھلے میدان میں ڈال دیا۔ اس حال میں کہ وہ بیمار تھے۔

۱۴۶.  اور ہم نے ان پر (سایہ کرنے کیلئے ) کدو کا ایک درخت لگا دیا۔

۱۴۷.  اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ لوگوں کی طرف بھیجا۔

۱۴۸.  پس وہ ایمان لائے تو ہم نے انہیں ایک مدت تک (زندگی سے ) لطف اندوز ہونے دیا۔

۱۴۹.   ان سے ذرا پوچھئے ! کہ تمہارے پروردگار کیلئے بیٹیاں ہیں اور خود ان کیلئے بیٹے ؟

۱۵۰.  کیا ہم نے فرشتوں کو عورت پیدا کیا اور وہ دیکھ رہے تھے ؟

۱۵۱.   آگاہ ہو جاؤ کہ یہ دروغ بافی کرتے ہیں۔

۱۵۲.  جب کہتے ہیں کہ اللہ کے اولاد ہے اور بلاشبہ وہ جھوٹے ہیں۔

۱۵۳.  کیا اللہ نے بیٹوں کے مقابلہ میں بیٹیوں کو ترجیح دی۔

۱۵۴.  تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیا فیصلہ کرتے ہو؟

۱۵۵.  کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ؟

۱۵۶.  کیا تمہارے پاس کوئی واضح دلیل ہے ؟

۱۵۷.  اگر تم سچے ہو تو پھر اپنی وہ دستاویز پیش کرو۔

۱۵۸.  کیا ان لوگوں نے اس (خدا) اور جنوں کے درمیان کوئی رشتہ ناطہ قرار دیا ہے ؟ حالانکہ خود جنات جانتے ہیں کہ وہ (جزا و سزا کیلئے ) پکڑ کر حاضر کئے جائیں گے۔

۱۵۹.   پاک ہے اللہ (ان غلطیوں سے ) جو وہ بیان کرتے ہیں۔

۱۶۰.   ہاں البتہ اللہ کے مخلص اور برگزیدہ بندے اس سے مستثنیٰ ہیں۔

۱۶۱.   سو تم اور جن کی تم پرستش کرتے ہو۔

۱۶۲.   تم (سب مل کر بھی) اللہ سے کسی کو پھیر نہیں سکتے۔

۱۶۳.  سوائے اس کے جو دوزخ کی بھڑکتی آگ کو تاپنے والا ہے۔

۱۶۴.  اور (فرشتوں ) میں سے کوئی ایسا نہیں مگر یہ کہ اس کا ایک خاص مقام ہے۔

۱۶۵.  اور بے شک ہم صف بستہ حاضر ہیں۔

۱۶۶.   اور بے شک ہم تسبیح و تقدیس کرنے والے ہیں۔

۱۶۷.  اور (کفار بعثتِ نبویﷺ سے پہلے ) کہا کرتے تھے۔

۱۶۸.  تو اگر ہمارے پاس پہلے والے لوگوں کی طرح کوئی نصیحت (والی کتاب) ہوتی۔

۱۶۹.   تو یقیناً ہم اللہ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہوتے۔

۱۷۰.  اور جب وہ (کتاب آئی) تو اس کا انکار کر دیا سو عنقریب (اس کا انجام) معلوم کر لیں گے۔

۱۷۱.   اور ہمارا وعدہ پہلے ہو چکا ہے اپنے ان بندوں کے ساتھ جو رسول ہیں۔

۱۷۲.  کہ یقیناً ان کی نصرت اور مدد کی جائے گی۔

۱۷۳.  اور ہمارا لشکر بہرحال غالب آنے والا ہے۔

۱۷۴.  سو ایک مدت تک ان سے بے اعتنائی کیجئے۔

۱۷۵.  اور انہیں دیکھتے رہئے اور عنقریب وہ خود بھی (اپنا انجام) دیکھ لیں گے۔

۱۷۶.  کیا وہ ہمارے عذاب کیلئے جلدی کرتے ہیں ؟

۱۷۷.  تو جب وہ ان کے ہاں نازل ہو جائے گا تو وہ بڑی بری صبح ہو گی ڈرائے ہوؤں کیلئے۔

۱۷۸.  اور ایک مدت تک ان سے بے توجہی کیجئے۔

۱۷۹.  اور دیکھئے وہ بھی دیکھ رہے ہیں۔

۱۸۰.  پاک ہے آپ کا پروردگار جو کہ عزت کا مالک ہے ان (غلط) باتوں سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔

۱۸۱.   اور سلام ہو رسولوںؑ پر۔

۱۸۲.  اور ہر طرح کی تعریف ہے اس اللہ کیلئے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔

٭٭

۳۸۔ سورۃ ص

 

۱.      ص! قَسم ہے نصیحت والے قرآن کی۔

۲.     آپﷺ کی (نبوت برحق ہے ) بلکہ وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ تکبر اور مخالفت میں مبتلا ہیں۔

۳.     ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کر دیں۔ پس (عذاب کے وقت) وہ پکارنے لگیں مگر وہ وقت خلاصی کا نہ تھا۔

۴.     اور وہ اس بات پر تعجب کر رہے ہیں کہ ان کے پاس ایک ڈرانے والا (پیغمبرﷺ) انہی میں سے آیا ہے اور کافر کہتے ہیں کہ یہ (شخص) جادوگر (اور) بڑا جھوٹا ہے۔

۵.     کیا اس نے بہت سے خداؤں کو ایک خدا بنا دیا؟ بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے۔

۶.     اور ان کے بڑے لوگ (سردار) یہ کہتے ہوئے (آپﷺ کے پاس سے ) اٹھ کھڑے ہوئے (اور قوم سے کہا) چلو اور اپنے معبودوں (کی عبادت) پر صبر و ثبات سے قائم رہو (ڈٹے رہو) یقیناً اس بات میں (اس شخص کی) کوئی غرض ہے۔

۷.     ہم نے تو یہ بات (کسی) پچھلے مذہب (عیسائیت) میں (بھی) نہیں سنی یہ تو محض ایک من گھڑت بات ہے۔

۸.     کیا ہم میں سے صرف اسی شخص پر الذکر (قرآن) اتارا گیا ہے ؟ دراصل یہ لوگ میرے ذکر (کتاب) کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں بلکہ انہوں نے ابھی میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔

۹.     کیا تمہارے غالب اور فیاض پروردگار کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں ؟

۱۰.    یا کیا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کی حکومت ان کیلئے ہے (اگر ایسا ہے ) تو پھر انہیں چاہیے کہ سیڑھیاں لگا کر چڑھ جائیں۔

۱۱.     یہ (کفار کے ) لشکروں میں سے ایک لشکر ہے جسے وہاں (بمقامِ بدر) شکست ہو گی۔

۱۲.    اور ان سے پہلے قومِ نوح و عاد اور میخوں والا فرعون۔

۱۳.    اور ثمود اور قومِ لوطؑ اور ایکہ والے (اپنے نبیوں کو) جھٹلا چکے ہیں یہ لوگ بڑے بڑے گروہ تھے۔

۱۴.    ان سب نے رسولوںؑ کو جھٹلایا تو ہمارے عذاب کے مستوجب ہوئے۔

۱۵.    اور یہ لوگ بس ایک چنگھاڑ (دوسری نَفَخ) کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد کچھ دیر نہ ہو گی۔

۱۶.    اور وہ (از راہِ مذاق) کہتے ہیں کہ ہمارے پروردگار کے (عذاب میں سے ) ہمارا حصہ ہمیں حساب کے دن (قیامت) سے پہلے دے دے۔

۱۷.    (اے میرے رسولﷺ) جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کیجئے ! اور ہمارے بندے داؤدؑ کو یاد کیجئے جو قوت والے تھے بے شک وہ ہر معاملہ میں (اللہ کی طرف) بڑے رجوع کرنے والے تھے۔

۱۸.    ہم نے پہاڑوں کو ان کے ساتھ مسخر کر دیا تھا جو شام اور صبح کے وقت ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔

۱۹.    اور پرندوں کو بھی (جو تسبیح کے وقت) جمع ہو جاتے تھے (اور) سب (پہاڑ و پرند) ان کے فرمانبردار تھے (اور ان کی آواز پر آواز ملاتے تھے )۔

۲۰.    اور ہم نے ان کی حکومت کو مضبوط کر دیا تھا اور ان کو حکمت و دانائی اور فیصلہ کُن بات کرنے کی صلاحیت عطا کی تھی۔

۲۱.    (اے رسولﷺ) کیا آپ تک مقدمہ والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر (ان کے ) محرابِ عبادت میں داخل ہو گئے۔

۲۲.    جب وہ اس طرح (اچانک اندر) جنابِ داؤدؑ کے پاس پہنچ گئے تو وہ ان سے گھبرا گئے انہوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں ہم دو فریقِ مقدمہ ہیں ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے اور بے انصافی نہ کیجئے اور راہِ راست کی طرف ہماری راہنمائی کیجئے۔

۲۳.   (وجہِ نزاع یہ ہے کہ) یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے اس پر بھی وہ کہتا ہے کہ یہ ایک دنبی بھی میرے حوالے کر دے اور گفتگو میں مجھے دباتا ہے۔

۲۴.   داؤدؑ نے کہا اس شخص نے اتنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملانے کا مطالبہ کر کے تجھ پر ظلم کیا ہے اور اکثر شرکاء اسی طرح ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں سوائے ان کے جو ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت کم ہیں اور (یہ بات کہتے ہوئے ) داؤدؑ نے خیال کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا ہے تو انہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کی اور اس کے حضور جھک گئے اور توبہ و انابہ کرنے لگے۔

۲۵.   اور ہم نے انہیں معاف کر دیا اور بے شک ان کیلئے ہمارے ہاں (خاص) تقرب اور اچھا انجام ہے۔

۲۶.    اے داؤدؑ! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے پس حق و انصاف کے ساتھ لوگوں میں فیصلہ کیا کرو اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی اور جو اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کیلئے سخت عذاب ہے اس لئے انہوں نے یوم الحساب (قیامت) کو بھلا دیا ہے۔

۲۷.   اور ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بے فائدہ پیدا نہیں کیا یہ ان لوگوں کا گمان ہے جو کافر ہیں پس کافروں کیلئے دوزخ کی بربادی ہے۔

۲۸.   کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان لوگوں کی مانند بنا دیں گے جو زمین میں فساد کرتے ہیں ؟ یا کیا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے ؟

۲۹.    یہ وہ بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ عقل و فہم نصیحت حاصل کریں۔

۳۰.   اور ہم نے داؤدؑ کو سلیمانؑ (جیسا بیٹا) عطا کیا وہ بہت اچھا بندہ (اور اللہ کی طرف) بڑا رجوع کرنے والا تھا۔

۳۱.    (اور وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے ) جب شام (سہ پہر) کے وقت میں عمدہ گھوڑے (معائنہ کیلئے ) ان پر پیش کئے گئے۔

۳۲.   تو انہوں نے کہا کہ میں مال (گھوڑوں ) کی محبت میں اپنے پروردگار کی یاد سے غافل ہو گیا یہاں تک کہ وہ (آفتاب) پردہ میں چھپ گیا۔

۳۳.   (حکم دیا) ان (گھوڑوں ) کو میرے پاس واپس لاؤ اور وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے (قطع کرنا شروع کیا)۔

۳۴.   اور ہم نے سلیمانؑ کو (اس طرح) آزمائش میں ڈالا کہ ان کے تخت پر ایک (بے جان) جسم ڈال دیا پھر انہوں نے (ہماری طرف) رجوع کیا۔

۳۵.   (اور) کہا اے میرے پروردگار مجھے معاف کر اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر جو میرے بعد کسی کیلئے زیبا نہ ہو۔ بیشک تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔

۳۶.   اور ہم نے ان کیلئے ہوا کو مسخر کر دیا تھا جو ان کے حکم سے جہاں وہ چاہتے تھے آرام سے چلتی تھی۔

۳۷.   اور شیاطین بھی (مسخر کر دیئے ) جو کچھ معمار تھے اور اور کچھ غوطہ خور۔

۳۸.   اور ان کے علاوہ (کچھ ایسے سرکش بھی تھے ) جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

۳۹.    یہ ہماری عطا ہے (آپؑ کو اختیار ہے ) جسے چاہے عطا کر اور جس سے چاہے روک رکھ۔

۴۰.   اور بے شک ان (سلیمانؑ) کیلئے ہمارے ہاں (خاص) قرب حاصل ہے اور بہتر انجام ہے۔

۴۱.    اور ہمارے بندۂ (خاص) ایوبؑ کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سختی اور اذیت پہنچائی ہے۔

۴۲.   (ہم نے حکم دیا کہ) اپنا پاؤں (زمین پر) مارو۔ یہ ٹھنڈا پانی ہے نہانے کیلئے اور پینے کیلئے۔

۴۳.   اور ہم نے اپنی خاص رحمت اور صاحبانِ عقل و فکر کیلئے بطورِ نصیحت انہیں نہ صرف ان کے اہل و عیال واپس دیئے (بلکہ) اتنے ہی اور بڑھا دیئے۔

۴۴.   اور (ہم نے کہا) اپنے ہاتھ میں (شاخوں کا) ایک مُٹھا لو اور اس سے مارو اور قَسم نہ توڑو۔ بے شک ہم نے انہیں صبر کرنے والا پایا بڑا اچھا بندہ (اور ہماری طرف) بڑا رجوع کرنے والا۔

۴۵.   اور ہمارے (خاص) بندوں ابراہیمؑ، اسحاقؑ اور یعقوبؑ کو یاد کرو جو قوت و بصیرت والے تھے۔

۴۶.   اور ہم نے ان کو ایک خاص صفت کے ساتھ مخصوص کیا تھا اور وہ آخرت کی یاد تھی۔

۴۷.   اور وہ یقیناً ہمارے نزدیک برگزیدہ (اور) نیکوکار لوگوں میں سے تھے۔

۴۸.   اور اسماعیلؑ، الیسعؑ اور ذوالکفلؑ کو یاد کرو یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔

۴۹.    یہ ایک نصیحت ہے اور بے شک پرہیزگاروں کیلئے اچھا ٹھکانہ ہے۔

۵۰.   (یعنی) ہمیشہ رہنے والے (سدابہار) باغات جن کے سب دروازے ان کیلئے کھلے ہوں گے۔

۵۱.    وہ ان میں تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اور وہ وہاں بہت سے میوے اور مشروبات طلب کرتے ہوں گے۔

۵۲.   اور ان کے پاس نیچی نگاہوں والی ہم عمر بیویاں ہوں گی۔

۵۳.   یہ وہ (نعمت) ہے جن کا حساب کے دن تمہیں عطا کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔

۵۴.   یہ ہمارا (خاص) رزق ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے۔

۵۵.   یہ بات تو ہو چکی (کہ پرہیزگاروں کا انجام یہ ہے ) اور سرکش کا انجام بہت برا ہے۔

۵۶.   (یعنی) دوزخ جس میں داخل ہوں گے پس وہ بہت ہی برا بچھونا ہے۔

۵۷.   یہ (حاضر ہے ) کھولتا ہوا پانی اور پیپ پس چاہیے کہ وہ اسے چکھیں۔

۵۸.   اور اس کے علاوہ اسی قسم کی دوسری چیزیں بھی ہوں گی۔

۵۹.    یہ ایک اور فوج ہے جو تمہارے ساتھ (جہنم میں ) داخل ہو رہی ہے ان کیلئے کوئی خوش آمدید نہیں ہے یہ بھی جہنم میں داخل ہونے والے ہیں۔

۶۰.    وہ (ان کے جواب میں کہیں گے ) تمہارے لئے خوش آمدید نہ ہو تم ہی یہ (دن) ہمارے سامنے لائے ہو! تو (جہنم) کیا برا ٹھکانا ہے۔

۶۱.    پھر وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! جو (کمبخت) روزِ بد ہمارے آگے لایا ہے اسے دوزخ میں عذاب دے۔

۶۲.    وہ کہیں گے کہ کیا بات ہے ہم یہاں ان لوگوں کو نہیں دیکھ رہے جن کو ہم (دنیا میں ) برے لوگوں میں شمار کرتے تھے ؟

۶۳.   کیا ہم نے بلاوجہ ان کا مذاق اڑایا تھا یا نگاہیں ان کی طرف سے چوک رہی ہیں ؟

۶۴.   یہ بات بالکل سچی ہے کہ دوزخ والے آپس میں جھگڑیں گے۔

۶۵.   آپ کہہ دیجئے ! کہ میں تو صرف (عذابِ خدا سے ) ایک ڈرانے والا ہوں اور اللہ کے سوا جو یکتا اور غالب ہے اور کوئی خدا نہیں ہے۔

۶۶.    وہی آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کا پروردگار ہے (اور وہ) بڑا زبردست (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔

۶۷.   کہیے وہ (قرآن یا قیامت) بہت بڑی خبر ہے۔

۶۸.   جس سے تم منہ پھیرتے ہو۔

۶۹.    مجھے تو ملاءِ اعلیٰ (عالمِ بالا) کی کوئی خبر نہ تھی جبکہ وہ (فرشتے ) آپس میں بحث کر رہے تھے۔

۷۰.   میری طرف اس لئے وحی کی جاتی ہے کہ میں ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔

۷۱.    (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے ) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں گیلی مٹی سے ایک بشر (انسان) پیدا کرنے والا ہوں۔

۷۲.   جب میں اسے تیار کر لوں اور اس میں اپنی خاص روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا۔

۷۳.   تو (حسب الحکم) سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔

۷۴.   سوائے ابلیس کے کہ اس نے تکبر کیا اور کافروں میں سے ہو گیا۔

۷۵.   ارشاد ہوا اے ابلیس! تجھے کس چیز نے روکا کہ اس کے سامنے سجدہ کرے جسے میں نے اپنی طاقت و قدرت سے پیدا کیا ہے ؟ کیا تو نے تکبر کیا ہے یا تو سرکشوں میں سے ہو گیا ہے ؟

۷۶.   اس نے کہا میں اس (آدمؑ) سے بہتر ہوں (کیونکہ) تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے۔

۷۷.   ارشاد ہوا تو یہاں (جنت) سے نکل جا کیونکہ تو راندۂ درگاہ ہے۔

۷۸.   اور یقیناً قیامت تک تجھ پر میری لعنت ہے۔

۷۹.   اس نے کہا اے پروردگار! مجھے اس دن تک مہلت دے جب لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔

۸۰.   ارشاد ہوا (جا) تجھے مہلت دی گئی ہے۔

۸۱.    مگر اس دن تک جس کا وقت (تجھے ) معلوم ہے۔

۸۲.   ابلیس نے کہا تیری عزت کی قسم! میں سب لوگوں کو گمراہ کروں گا۔

۸۳.   سوائے تیرے منتخب اور برگزیدہ بندوں کے۔

۸۴.   ارشاد ہوا کہ پھر حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں۔

۸۵.   کہ میں بھی دوزخ بھر دوں گا تجھ سے اور ان لوگوں سے جو تیری پیروی کریں گے۔

۸۶.   آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ اس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا اور نہ ہی میں بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں۔

۸۷.   یہ (قرآن) نہیں ہے مگر سب جہانوں کیلئے نصیحت۔

۸۸.   اور تمہیں کچھ مدت کے بعد اس کی خبر معلوم ہو جائے گی۔

٭٭

 

 

۳۹۔ سورۃ زُمر

 

۱.      یہ کتاب (قرآن) اس خدا کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو (سب پر) غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۲.     (اے رسولﷺ) بے شک ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب آپ کی طرف نازل کی ہے تو بس آپ اسی کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے۔

۳.     خبردار! خالص دین صرف اللہ کیلئے ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا ولی و سرپرست بنائے ہیں اور (تاویل یہ کرتے ہیں کہ) ہم ان کی صرف اسی لئے عبادت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں گے۔ بے شک اللہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا ان باتوں میں جن کے بارے میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ بے شک اللہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا (اور) بڑا ناشکرا ہو۔

۴.     اگر اللہ چاہتا کہ (کسی کو) اپنا بیٹا بنائے تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا منتخب کر لیتا وہ اس سے پاک ہے وہی اللہ ہے جو یکتا (اور سب پر) غالب ہے۔

۵.     اس نے آسمانوں اور زمین کو حق (حکمت) کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو (اس طرح) مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک مقررہ مدت تک رواں دواں ہے آگاہ ہو جاؤ کہ وہ (سب پر) غالب ہے (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔

۶.     اس نے تم (سب) کو ایک نفس سے پیدا کیا پھر اسی (کی جنس) سے اس کا جوڑا (شریک حیات) پیدا کیا اور پھر تمہارے لئے (تعداد میں ) چوپایوں کے آٹھ جوڑے پیدا کئے وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں (تدریجاً) پیدا کرتا ہے۔ ایک خلقت کے بعد دوسری خلقت تین تاریک پردوں میں یہ اللہ تمہارا پروردگار ہے اسی کی حکومت ہے اس کے سوا کوئی الٰہ (خدا) نہیں ہے تم کدھر پھیرے جاتے ہو؟

۷.     اگر تم کفر (انکار و ناشکری کرو) تو بے شک وہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کیلئے (نا شکرا پن) پسند نہیں کرتا اور اللہ کا تم شکر ادا کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور پھر تم سب کی بازگشت تمہارے پروردگار کی طرف ہے وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو بے شک وہ سینوں کے رازوں کو جاننے والا ہے۔

۸.     اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ دل سے رجوع کر کے اپنے پروردگار کو پکارتا ہے اور پھر جب وہ اپنی طرف سے اسے کوئی نعمت عطا کرتا ہے تو وہ اس (تکلیف) کو بھول جاتا ہے جس کیلئے وہ پہلے اسے پکار رہا تھا اور اللہ کیلئے ہمسر (شریک) ٹھہرانے لگتا ہے تاکہ اس کے راستہ سے (لوگوں کو) گمراہ کرے۔ آپﷺ کہہ دیجئے ! تھوڑے دن اپنے کفر (ناشکرے پن) سے فائدہ اٹھا لے (انجامِ کار) یقیناً تو دوزخ والوں سے ہے۔

۹.     بھلا جو شخص رات کی گھڑیوں میں کبھی سجدہ کر کے اور کبھی قیام کر کے خدا کی عبادت کرتا ہے اور (اس کے باوجود) آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے ؟ (تو کیا وہ شخص جو ایسا نہیں ہے یکساں ہو سکتے ہیں ؟) کہیے کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں ؟ بے شک نصیحت تو صرف صاحبانِ عقل ہی حاصل کرتے ہیں۔

۱۰.    کہہ دیجئے ! اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو! اپنے پروردگار (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ (اور یاد رکھو) جو لوگ اس دنیا میں نیک عمل کرتے ہیں ان کیلئے (آخرت میں ) نیک صلہ ہے اور اللہ کی زمین وسیع (کشادہ) ہے بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔

۱۱.     کہہ دیجئے ! کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کو اس کیلئے خالص کر کے (مکمل اخلاص کے ساتھ) اس کی عبادت کروں۔

۱۲.    اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب مسلمانوں سے پہلے مسلمان ہوں۔

۱۳.    کہئے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو ایک بڑے دن (قیامت) کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

۱۴.    آپﷺ کہئے کہ میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں اسی کیلئے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے۔

۱۵.    تم اس کے سوا جن کی چاہو عبادت (کرو) نیز کہہ دیجئے کہ اصلی خسارے والے تو وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے دن خسارے میں میں ڈالا آگاہ ہو جاؤ کہ یہی کھلا ہوا خسارہ ہے۔

۱۶.    ان (بدبختوں ) کیلئے ان کے اوپر بھی آگ کے سائبان ہوں گے اور ان کے نیچے سے بھی یہی وہ (عذاب) ہے جس سے خدا اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اے میرے بندو! مجھ سے ڈرو۔

۱۷.    اور جن (خوش بخت) لوگوں نے طاغوت (معبودانِ باطل) کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا ان کیلئے خوشخبری ہے (اے نبیﷺ) میرے ان بندوں کو خوشخبری دے دو۔

۱۸.    جو (ہر کہنے والے کی) بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین بات کی پیروی کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ ہدایت دیتا ہے اور یہی صاحبانِ عقل ہیں۔

۱۹.    بھلا جس پر عذاب کا حکم ثابت ہو چکا تو کیا آپ اسے چھڑا سکتے ہیں جو (دوزخ کی) آگ میں ہیں۔

۲۰.    البتہ جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے ان کیلئے ایسے بالا خانے ہیں کہ جن کے اوپر اور بالا خانے بنے ہوئے ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ کبھی (اپنے ) وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

۲۱.    کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور پھر زیرِ زمین اس کے چشمے جاری کر دیتا ہے پھر اس سے مختلف قسم کی رنگ برنگی کھیتیاں برآمد کرتا ہے پھر وہ (پک کر) خشک ہونے لگتی ہیں تم انہیں زرد دیکھتے ہو پھر انہیں ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔ بے شک اس میں صاحبانِ عقل کیلئے نصیحت ہے۔

۲۲.    کیا وہ شخص جس کے سینہ کو اللہ نے (قبولِ) اسلام کیلئے کھول دیا ہے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نور (ہدایت) پر ہے (قسی القلب لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے ) بربادی ہے ان کیلئے جن کے دل ذکرِ خدا سے سخت ہو گئے ہیں یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔

۲۳.   اللہ ہی نے بہترین کلام نازل کیا ہے یعنی ایسی کتاب جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں (اور) بار بار دہرائی جاتی ہیں اس (کے پڑھنے ) سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں پھر ان کے جسم اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم (مائل) ہو جاتے ہیں یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ذریعہ سے وہ جس کی چاہتا ہے راہنمائی کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اس کیلئے کوئی راہنما نہیں۔

۲۴.   بھلا وہ (احمق) شخص جو قیامت کے دن اپنے چہرہ سے اپنے آپ کو سخت عذاب سے بچاتا ہے ؟ (اس عذاب سے محفوظ شخص کی مانند ہو سکتا ہے ؟) اور ظالموں سے کہا جائے گا کہ (آج) مزہ چکھو اس کمائی کا جو تم کیا کرتے تھے۔

۲۵.   جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے (حق کو) جھٹلایا آخر ان پر وہاں سے عذاب آیا جدھر سے ان کو خیال نہ تھا۔

۲۶.    تو خدا نے ان کو اس دنیاوی زندگی میں ذلت و رسوائی کا مزہ چکھایا اور آخرت کا عذاب اس سے بھی بڑا ہے کاش وہ لوگ جانتے۔

۲۷.   اور بے شک ہم نے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں پیش کی ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

۲۸.   یہ ایسا قرآن جو عربی زبان میں ہے جس میں کوئی کَجی نہیں ہے تاکہ وہ (ڈریں ) پرہیزگاری اختیار کریں۔ اللہ نے ایک مثال بیان کی ہے کہ ایک غلام ہے جس کے کئی بد اخلاق مالک ہیں اور ایک دوسرا شخص ہے جو پورا ایک مالک کا ہے (ان دونوں ) کا حال یکساں ہے ؟ الحمد ﷲ! مگر اکثر لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔

۲۹.    (اے پیغمبرﷺ) بے شک آپ نے بھی مرنا ہے اور وہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔

۳۰.   پھر تم سب قیامت کے دن اپنے پروردگار کی بارگاہ میں جھگڑو گے (اور وہ حق و باطل کا فیصلہ کرے گا)۔

۳۱.    پس اس شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہو گا جو خدا پر جھوٹ باندھے اور جب سچائی اس کے پاس آئے تو وہ اسے جھٹلائے۔ کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانہ نہیں ہے ؟

۳۲.   اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی تو یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔

۳۳.   ان کیلئے پروردگار کے پاس وہ سب کچھ ہے جو وہ چاہیں گے یہ نیکوکاروں کی جزا ہے۔

۳۴.   تاکہ اللہ ان کے بدترین اعمال کو معاف کرے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا عطا فرمائے۔

۳۵.   کیا اللہ اپنے بندہ کیلئے کافی نہیں ہے ؟ اور یہ لوگ آپ کو اللہ کے سوا دوسروں سے ڈراتے ہیں اور جس کو خدا گمراہی میں چھوڑ دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔

۳۶.   اور جسے خدا ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہے۔

۳۷.   کیا اللہ زبردست (اور) انتقام لینے والا نہیں ہے ؟

۳۸.   اور اگر آپﷺ اُن سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو وہ یقیناً کہیں گے کہ اللہ نے آپﷺ کہیے ! تمہارا کیا خیال ہے ؟ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ مجھے کچھ نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کی جانب سے نقصان کو دور کر دیں گے ؟ یا اگر اللہ مجھ پر کچھ رحمت کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں ؟ بس آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ میرے لئے اللہ کافی ہے۔ بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔

۳۹.    آپﷺ کہہ دیجئے ! اے میری قوم! تم اپنی جگہ (اپنے طریقہ پر) کام کئے جاؤ۔ میں اپنا کام کرتا ہوں عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

۴۰.   کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کس پر دائمی عذاب اترتا ہے ؟

۴۱.    (اے رسولﷺ) بیشک ہم نے یہ کتاب سب انسانوں (کی ہدایت) کیلئے حق کے ساتھ آپﷺ پر اتاری ہے جو ہدایت حاصل کرے گا تو وہ اپنے لئے کرے گا اور جو گمراہی اختیار کرے گا تو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر پڑے گا آپﷺ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

۴۲.   اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور جن کی موت (ابھی) نہیں آئی (تو ان کی روحیں ) نیند کے وقت قبض کرتا ہے پھر جن (روحوں کی) موت کا فیصلہ کرتا ہے انہیں روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ مدت تک چھوڑ دیتا ہے۔ بیشک اس میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے (قدرتِ خدا کی) نشانیاں ہیں۔

۴۳.   کیا ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو شفیع (سفارشی) بنا رکھا ہے آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ اگرچہ وہ (سفارشی) نہ کسی چیز کے مالک ہوں اور نہ ہی عقل و شعور رکھتے ہوں ؟

۴۴.   آپﷺ کہہ دیجئے کہ شفاعت پوری کی پوری اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے (اور) اسی کیلئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

۴۵.   اور جب خدا کی توحید (اس کی وحدت و یکتائی) کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل کڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے دوسرے (مزعومہ شرکاء) کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ یکایک خوش ہو جاتے ہیں۔

۴۶.   آپﷺ کہہ دیجئے ! اے اللہ! اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے (اور) اے غائب و حاضر کے جاننے والے ! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا ان چیزوں کے بارے میں جن میں وہ باہم اختلاف کیا کرتے تھے۔

۴۷.   اور جن لوگوں نے (کفر و شرک کر کے ) ظلم کیا اگر ان کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اتنی اور بھی تو وہ یہ سب کچھ قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کیلئے فدیہ دے دیں اور (اس دن) اللہ کی طرف سے وہ کچھ ظاہر ہو گا جس کا انہیں گمان بھی نہیں تھا۔

۴۸.   اور وہاں ان پر ان کی کمائی کی برائیاں ظاہر ہو جائیں گی اور انہیں وہ (عذاب) گھیر لے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔

۴۹.    اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے اور پھر جب ہم اسے اپنی جانب سے کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو مجھے اپنے علم و ہنر کی بنا پر دی گئی ہے بلکہ وہ ایک آزمائش ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

۵۰.   ایسی بات ان لوگوں نے بھی کہی تھی جو ان سے پہلے تھے تو (ہماری گرفت کے وقت) ان کی کوئی کمائی ان کے کام نہ آئی۔

۵۱.    تو انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اس کے برے نتائج ان تک پہنچے اور جو ان لوگوں میں سے ظالم ہیں ان تک بھی۔ ان کی برائی کے برے نتائج پہنچیں گے اور وہ (اللہ کو) عاجز نہیں کر سکتے۔

۵۲.   کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے بے شک اس میں ایمان والوں کیلئے (قدرت کی) بڑی نشانیاں ہیں۔

۵۳.   آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (گناہ پر گناہ کر کے ) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔ بے شک اللہ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۵۴.   اور اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار بن جاؤ قبل اس کے کہ تم پر عذاب آ جائے پھر تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔

۵۵.   اور اس بہترین کلام و پیغام کی پیروی کرو جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف اتارا گیا ہے پیشتر اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آ جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

۵۶.   مبادا کوئی شخص یہ کہے ہائے افسوس! میری اس کوتاہی پر جو میں نے خدا کی جناب میں کی اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں شامل رہا۔

۵۷.   یا کوئی یہ کہے کہ اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں بھی متقیوں میں سے ہوتا۔

۵۸.   یا کوئی عذاب دیکھ کر یہ کہے کاش مجھے ایک بار (دنیا میں دوبارہ جانے کا) موقع ملتا تو میں بھی نیکوکاروں میں سے ہو جاتا۔

۵۹.    ہاں (کیوں نہیں ) تیرے پاس میری آیتیں آئی تھیں مگر تو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو کافروں میں سے تھا۔

۶۰.    اور قیامت کے دن تم دیکھو گے کہ جن لوگوں نے خدا پر جھوٹ باندھا تھا ان کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے ؟

۶۱.    اور اللہ متقیوں کو ان کی کامیابی کی وجہ سے اس طرح نجات دے گا کہ انہیں نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

۶۲.    اور وہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔

۶۳.   اور آسمانوں اور زمین (کے خزانوں ) کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں اور جو لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔

۶۴.   آپﷺ کہہ دیجئے ! اے جاہلو! کیا تم (پھر بھی) مجھ سے غیر اللہ کی عبادت کرنے کی فرمائش کرتے ہو؟

۶۵.   بیشک آپﷺ کی طرف بھی وحی کی جا چکی ہے اور ان (انبیاءؑ) کی طرف بھی جو آپ سے پہلے تھے کہ اگر (بفرضِ محال) آپ نے بھی شرک کیا تو آپ کے عمل ضائع ہو جائیں گے اور آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

۶۶.    (اے نبیﷺ) بلکہ آپ بس اللہ ہی کی عبادت کیجئے اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جائیے۔

۶۷.   اور ان لوگوں نے اللہ کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح کہ اس کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ حالانکہ قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور سب آسمان بھی اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے وہ پاک ہے اور برتر ہے اس شرک سے جو وہ کرتے ہیں۔

۶۸.   اور (پہلی بار) صور پھونکا جائے گا تو جو آسمانوں میں ہیں وہ بھی اور جو زمین میں وہ بھی سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے سوائے ان کے جن کو اللہ چاہے گا (وہ بے ہوش نہیں ہوں گے ) پھر دوبارہ پھونکا جائے گا تو وہ ایک دم کھڑے ہو کر (اِدھر اُدھر) دیکھنے لگیں گے۔

۶۹.    اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اٹھے گی اور نامۂ اعمال رکھ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

۷۰.   اور ہر شخص نے جو کچھ عمل کیا ہو گا اسے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور لوگ جو کچھ کرتے ہیں ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

۷۱.    اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ (اس خدائی فیصلہ کے بعد) جہنم کی طرف گروہ در گروہ ہانکے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس کے داروغے ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہی میں سے کچھ رسولؑ نہیں آئے تھے جو تمہیں تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ کر سناتے تھے اور تمہیں اس دن کے پیش آنے سے ڈراتے تھے وہ (جواب میں ) کہیں گے کہ ہاں (آئے تو تھے ) لیکن (ہم نے نہ مانا کیونکہ) کافروں پر عذاب کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

۷۲.   (پھر ان سے ) کہا جائے گا کہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ رہنے کیلئے کتنا برا ٹھکانا ہے متکبروں کا۔

۷۳.   اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے تھے وہ گروہ در گروہ بہشت کی طرف لے جائے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھولے جا چکے ہوں گے اور اس کے نگہبان ان سے کہیں گے سلامٌ علیکم (سلام ہو تم پر) تم پاک ہو! اب تم اس میں داخل ہو جاؤ ہمیشہ رہنے کیلئے۔

۷۴.   اور وہ کہیں گے کہ سب تعریف (اور شکر) ہے اس خدا کا جس نے ہم سے کیا ہوا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور ہمیں (اس) زمین کا وارث بنایا کہ اب ہم جنت میں جہاں چاہیں گے وہاں رہیں گے۔ کتنا اچھا صلہ ہے (نیک) عمل کرنے والوں کا۔

۷۵.   اور آپ فرشتوں کو دیکھیں گے کہ وہ عرش (الٰہی) کے اردگرد اپنے پروردگار کی تسبیح (تقدیس) کر رہے ہوں گے اور ان (لوگوں ) کے درمیان حق (و انصاف) کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا ہر قِسم کی تعریف اس اللہ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

٭٭

 

۴۰۔ سورۃ مؤمن

 

۱.      حا۔ میم۔

۲.     اس کتاب (قرآن) کا نزول اس اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست (اور) بڑا جاننے والا ہے۔

۳.     جو گناہ معاف کرنے والا (اور) توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا (اور) عطا و بخشش والا ہے اس کے سوا کوئی الٰہ (خدا) نہیں ہے سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے۔

۴.     اللہ کی آیتوں کے بارے میں صرف کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں۔ لہٰذا ان لوگوں کا (مختلف) شہروں میں (آزادی) کے ساتھ گھومنا پھرنا کہیں آپ کو دھوکہ میں نہ ڈال دے (کہ انہیں عذاب نہیں ہو گا)۔

۵.     ان سے پہلے نوحؑ کی قوم نے (نوحؑ کو) جھٹلایا اور ان کے بعد اور بہت سے گروہوں نے (اپنے رسولوںؑ کو) جھٹلایا اور ہر امت نے ارادہ کیا کہ اپنے رسولؑ کو گرفتار کرے (اور پھر شہید کر دے ) اور ناحق طریقہ پر جھگڑا کیا تاکہ اس کے ذریعہ سے حق کو شکست دے۔ سو (انجامِ کار) میں نے ان کو پکڑ لیا تو میرا عذاب کیسا (سخت) تھا۔

۶.     اور اسی طرح آپﷺ کے پروردگار کا یہ فیصلہ کافروں پر ثابت ہو چکا کہ وہ سب دوزخی ہیں۔

۷.     جو (فرشتے ) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد میں وہ سب اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کیلئے مغفرت طلب کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تو اپنی رحمت اور اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ پس تو ان لوگوں کو بخش دے جو توبہ کرتے ہیں اور تیرے راستہ کی پیروی کرتے ہیں اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

۸.     اے ہمارے پروردگار! اور ان کو ان ہمیشہ رہنے والے بہشتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے آباء و اجداد، بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح اور لائق ہوں ان کو بھی (بخش دے اور وہیں ان کے ہمراہ داخل کر) بے شک تو غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۹.     اور ان کو برائیوں سے بچا اور جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا لیا بس تو نے اس پر رحمت فرمائی اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

۱۰.    بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا (قیامت کے دن) ان کو پکار کر کہا جائے گا کہ جتنا (آج) تم اپنے آپ سے بیزار ہو۔ اللہ اس سے زیادہ اس وقت تم سے بیزار (ناراض) ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر اختیار کرتے تھے۔

۱۱.     وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دو بار موت دی اور دو بار زندہ کیا بس اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا اب (یہاں سے ) نکلنے کی کوئی صورت ہے ؟

۱۲.    (جواب ملے گا کہ) یہ اس لئے ہے کہ جب (تمہیں ) خدائے واحد و یکتا کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کر دیتے تھے اور اگر کسی کو اس کا شریک بنایا جاتا تھا تو تم جان لیتے تھے اب فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے جو عالیشان ہے (اور) بزرگ ہے۔

۱۳.    وہ (اللہ) وہی ہے جو تمہیں اپنی (قدرت کی ) نشانیاں دکھاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے رزق نازل کرتا ہے اور ان (نشانیوں ) سے نصیحت صرف وہی حاصل کرتا ہے جو (اس کی طرف) رجوع کرتا ہے۔

۱۴.    پس اللہ ہی کو پکارو اس کے لئے دین کو (شرک و ریا سے ) خالص کرتے ہوئے چاہے کافر ناپسند کریں۔

۱۵.    بلند درجوں والا (اور) عرش کا مالک ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح (وحی) کو نازل کرتا ہے تاکہ وہ بارگاہِ الٰہی میں حضوری والے دن سے ڈرائے۔

۱۶.    وہ دن جب لوگ ظاہر ہوں گے ان کی کوئی بات اللہ پر پوشیدہ نہ ہو گی (آواز آئے گی) آج کس کی حکومت ہے ؟ (جواب ملے گا) صرف اللہ کی جو واحد و یکتا ہے اور ہر چیز پر غالب ہے۔

۱۷.    آج ہر شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جائے گا آج کچھ بھی ظلم نہ ہو گا بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔

۱۸.    اور لوگوں کو اس دن (قیامت) سے ڈرائیے جو قریب آنے والا ہے جس دن دل (کھینچ کر) گلوں تک آ جائیں گے (اور) وہ غم و غصہ سے بھرے ہوئے ہوں گے۔ ظالموں کیلئے کوئی (مخلص) دوست نہ ہو گا اور نہ کوئی ایسا سفارشی جس کی بات مانی جائے۔

۱۹.    وہ آنکھوں کی مجرمانہ جنبش کو جانتا ہے اور ان باتوں کو بھی جن کو سینے چھپاتے ہیں۔

۲۰.    اور اللہ حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور جنہیں وہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ بیشک اللہ بڑا سننے والا (اور) بڑا دیکھنے والا ہے۔

۲۱.    کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ دیکھیں کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جو ان سے پہلے تھے ؟ قوت کے لحاظ سے اور زمین میں چھوڑے ہوئے آثار کے اعتبار سے ان سے زیادہ طاقتور تھے تو اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کو پکڑا تو ان کو اللہ (کی گرفت) سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔

۲۲.    (ان کا یہ انجام) اس لئے ہوا کہ ان کے رسولؑ ان کے پاس کھلی نشانیاں (معجزے ) لے کر آتے تھے تو وہ کفر کرتے تھے۔ آخرکار اللہ نے انہیں پکڑ لیا بیشک وہ بڑا طاقتور (اور) سخت سزا دینے والا ہے۔

۲۳.   بیشک ہم نے موسیٰؑ کو فرعون، ہامان اور قارون کی طرف اپنی نشانیوں (معجزوں ) اور کھلی ہوئی دلیلوں کے ساتھ بھیجا۔

۲۴.   تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک جادوگر (اور) بڑا جھوٹا ہے۔

۲۵.   سو جب وہ ہماری طرف سے حق لے کر ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کر دو اور ان کی عورتوں (لڑکیوں ) کو زندہ چھوڑ دو۔ اور کافروں کی( ہر) تدبیر گمراہی میں (رائیگاں ) ہے۔

۲۶.    اور فرعون نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو۔ میں موسیٰؑ کو قتل کر دوں اور وہ (اپنی مدد کیلئے ) اپنے پروردگار کو پکارے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کہیں تمہارا دین (شرک) نہ بدل دے۔ یا زمین میں فساد برپا نہ کر دے۔

۲۷.   اور موسیٰؑ نے کہا کہ میں اپنے اور تمہارے پروردگار سے پناہ مانگتا ہوں جو مجھے ہر اس متکبر (کے شر) سے بچائے جو روزِ حساب (قیامت) پر ایمان نہیں رکھتا۔

۲۸.   اور فرعون کے خاندان میں سے ایک مردِ مؤمن نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپائے رکھتا تھا۔ کیا تم ایک شخص کو صرف اس بات پر قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے ؟ حالانکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس بیّنات (معجزات) لے کر آیا ہے اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) کی وہ تمہیں دھمکی دیتا ہے تو اس کا کچھ حصہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گا۔ بیشک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا اور بڑا جھوٹا ہو۔

۲۹.    اے میری قوم! (بے شک) آج تمہاری حکومت ہے (اور) اس سر زمین میں تمہیں غلبہ بھی حاصل ہے لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آ گیا تو کون ہماری مدد کرے گا؟ (اور اس سے ہمیں کون بچائے گا؟) (مؤمن کی یہ بات سن کر) فرعون نے کہا میں تمہیں وہی رائے دیتا ہوں۔ جو میں (درست) سمجھتا ہوں اور میں تمہاری راہنمائی صرف اسی راستہ کی طرف کرتا ہوں جو سیدھا ہے۔

۳۰.   اور جو شخص ایمان لایا تھا وہ کہنے لگا۔ اے میری قوم! مجھے تمہاری نسبت ڈر ہے کہ تم پر (تباہ شدہ) گروہوں جیسا دن نہ آ جائے۔

۳۱.    جیسا حال قومِ نوحؑ اور عاد و ثمود اور ان کے بعد والوں کا ہوا تھا اور اللہ تو (اپنے بندوں پر ظلم کا ارادہ (بھی) نہیں کرتا۔

۳۲.   اے میری قوم! میں تمہارے بارے میں چیخ و پکار والے دن سے ڈرتا ہوں۔

۳۳.   جس دن تم پیٹھ پھیر کر (دوزخ کی طرف) بھاگو گے تمہیں اللہ کے (عذاب) سے کوئی بچانے والا نہ ہو گا اور جس کو اللہ گمراہی میں چھوڑ دے اسے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہوتا۔

۳۴.   اور (اے میری قوم) اس سے پہلے تمہارے پاس یوسفؑ کھلی ہوئی دلیلیں (معجزات) لے کر آئے مگر تم برابر شک ہی میں پڑے رہے یہاں تک کہ جب وہ وفات پا گئے تو تم نے کہا (اب) اللہ ان کے بعد ہرگز کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح اللہ اس شخص کو گمراہی میں چھوڑتا ہے جو حد سے بڑھنے والا (اور) شک کرنے والا ہوتا ہے۔

۳۵.   جو لوگ آیاتِ الٰہی میں جھگڑے کرتے ہیں بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو۔ یہ روش اللہ اور اہلِ ایمان کے نزدیک سخت مبغوض (اور ناپسندیدہ) ہے اللہ اسی طرح ہر منکر و سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔

۳۶.   اور فرعون نے کہا اے ہامان! میرے لئے ایک اونچا محل بنا (بنوا) تاکہ میں (اس پر چڑھ کر) راستوں تک پہنچ جاؤں۔

۳۷.   یعنی آسمانوں کے راستوں تک (اور پھر وہاں سے ) موسیٰؑ کے خدا کو جھانک کر دیکھوں اور میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں اور اسی طرح فرعون کیلئے اس کا بد عمل خوشنما بنا دیا گیا اور وہ (سیدھے ) راستہ سے روک دیا گیا اور فرعون کی ہر تدبیر (چالبازی) غارت ہی گئی (اور اس کی تباہی پر منتج ہوئی)۔

۳۸.   اور جو شخص ایمان لا چکا تھا اس نے کہا اے میری قوم! میری پیروی کرو۔ میں تمہیں سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔

۳۹.    اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگی محض (چند روزہ) فائدہ ہے اور مستقل قیام گاہ تو آخرت ہی ہے۔

۴۰.   کوئی برائی کرتا ہے تو اسے بدلہ بھی اس کے برابر ملے گا اور جو کوئی نیک کام کرتا ہے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو یہ بہشت میں داخل ہوں گے جہاں انہیں بے حساب رزق دیا جائے گا۔

۴۱.    اور اے میری قوم! (یہ کیا ہے ؟) میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آتشِ دوزخ کی طرف بلاتے ہو۔

۴۲.   تم مجھے دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ کا انکار کروں اور ایسی چیز کو اس کا شریک بناؤں جس کا مجھے علم نہیں ہے اور میں تمہیں اس خدا کی طرف بلاتا ہوں جو (ہر چیز پر) غالب ہے (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔

۴۳.   یقیناً تم مجھے ایسی چیز کی دعوت دیتے ہو جو نہ دنیا میں کارآمد ہے اور نہ آخرت میں اور ہم سب کی بازگشت خدا ہی کی طرف سے اور جو حد سے بڑھنے والے ہیں وہی جہنمی ہیں۔

۴۴.   تم عنقریب یاد کرو گے جو میں (آج) کہہ رہا ہوں اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں بے شک وہ (اپنے ) بندوں کا خوب نگران ہے۔

۴۵.   پس اللہ نے اس (مردِ مؤمن) کو ان لوگوں کی تدبیروں اور چالوں کی برائیوں سے بچا لیا اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا۔

۴۶.   (اور اب تو) دوزخ کی آگ ہے جس پر انہیں صبح و شام پیش کیا جا رہا ہے اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہو گا) فرعون والوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔

۴۷.   اور وہ وقت یاد کرو جب یہ لوگ جہنم میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ بڑا بننے والوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے کیا تم آگ کا کچھ حصہ ہم سے ہٹا سکتے ہو؟

۴۸.   وہ بڑا بننے والے کہیں گے ہم سب اسی میں پڑے ہیں اور اللہ نے اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا ہے۔

۴۹.    اور جو لوگ دوزخ میں ہوں گے وہ جہنم کے داروغوں سے کہیں گے کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ ہمارے عذاب میں ایک دن کی ہی تخفیف کر دے۔

۵۰.   وہ (جواب میں کہیں گے ) کیا تمہارے پاس کھلی ہوئی دلیلیں لے کر تمہارے رسولؑ نہیں آتے رہے تھے ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں اس پر داروغے کہیں گے کہ تم خود ہی دعا مانگو اور کافروں کی دعا و پکار بالکل گم شدہ ہے (اکارت جانے والی ہے )۔

۵۱.    بے شک ہم اپنے رسولوںؑ کی اور ایمان والوں کی اس دنیاوی زندگی میں بھی مدد کرتے رہتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جب گواہ (گواہی دینے کیلئے ) کھڑے ہوں گے۔

۵۲.   جس دن ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہ دے گی اور ان کیلئے لعنت ہو گی ان کیلئے (دوزخ کا) بہت برا گھر ہو گا۔

۵۳.   اور بالیقین ہم نے موسیٰؑ کو ہدایت عطا فرمائی اور بنی اسرائیل کو ایسی کتاب (توراۃ) کا وارث بنایا۔

۵۴.   جو صاحبانِ عقل کیلئے سراپا ہدایت اور نصیحت تھی۔

۵۵.   آپ صبر (و ثبات) سے کام لیجئے ! اللہ کا وعدہ برحق ہے اور (تہمت) گناہ پر استغفار کرتے رہیے اور صبح و شام اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجئے۔

۵۶.   یقیناً جو لوگ اللہ کی آیتوں کے بارے میں (آپﷺ سے ) جھگڑتے ہیں بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو ان کے سینوں میں تکبر (بڑائی) کے سوا اور کچھ نہیں ہے جس تک وہ کبھی پہنچنے والے نہیں ہیں آپﷺ اللہ کی پناہ مانگئے ! بے شک وہ بڑا سننے (اور) بڑا دیکھنے والا ہے۔

۵۷.   بے شک آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

۵۸.   اور اندھا اور آنکھ والا برابر نہیں ہو سکتے اور اسی طرح ایماندار اور نیکوکار اور بدکار بھی یکساں نہیں ہو سکتے مگر تم لوگ بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔

۵۹.    یقیناً قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔

۶۰.    اور تمہارا پروردگار کہتا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری (اس) عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

۶۱.    وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام (اور سکون حاصل) کرو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ تم اس میں کام کرو) بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔

۶۲.    یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اس کے سوا کوئی الٰہ (خدا) نہیں ہے تم کدھر بہکائے جا رہے ہو؟

۶۳.   اسی طرح وہ لوگ (بھی) بہکائے جاتے رہے ہیں جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے۔

۶۴.   وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے قرارگاہ اور آسمان کو عمارت (چھت) بنایا اور تمہاری صورت گری کی اور تمہاری صورتوں کو حسین (و جمیل) بنایا اور تمہیں کھانے کیلئے پاکیزہ غذائیں عطا کیں یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے پس بڑا ہی بابرکت الٰہ ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔

۶۵.   وہی (حقیقی) زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ (خدا) نہیں ہے سو اسی کو پکارو دین کو اس کیلئے خالص کرتے ہوئے۔ ہر قسم کی تعریف اللہ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

۶۶.    آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ مجھے منع کر دیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو جبکہ میرے پروردگار کی طرف سے میرے پاس کھلی ہوئی دلیلیں آ چکی ہیں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں رب العالمین کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دوں (اس کا فرمانبردار بندہ بنوں )۔

۶۷.   اللہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر تمہیں (شکمِ مادر سے ) بچہ بنا کر نکالا۔ پھر (تمہاری پرورش کی) تاکہ تم اپنی پوری طاقت (جوانی) کو پہنچو (پھر زندہ رکھتا ہے ) تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ اور تم میں سے کوئی پہلے اٹھا لیا جاتا ہے (یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ تم مقررہ وقت تک پہنچ جاؤ اور عقل سے کام لو (خدا کی قدرت و حکمت کو سمجھو)۔

۶۸.   وہ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔

۶۹.    کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں کے بارے میں جھگڑتے رہتے ہیں وہ کدھر پھرائے جا رہے ہیں ؟

۷۰.   جن لوگوں نے اس کتاب (قرآنِ مجید) کو جھٹلایا اور اس (پیغام) کو بھی جس کے ساتھ ہم نے اپنے پیغمبروں کو بھیجا تو انہیں بہت جلد (اس کا انجام) معلوم ہو جائے گا۔

۷۱.    جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور (پاؤں میں ) زنجیریں ان کو گھسیٹتے ہوئے لایا جائے گا

۷۲.   کھولتے ہوئے پانی میں۔ پھر آتشِ دوزخ میں جھونک دیئے جائیں گے۔

۷۳.   پھر ان سے کہا جائے گا (آج) وہ کہاں ہیں جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر شریک مانتے تھے ؟

۷۴.   وہ کہیں گے وہ تو ہم سے غائب ہو گئے بلکہ ہم تو اس سے پہلے (خدا کے سوا) کسی چیز کو پکارتے ہی نہ تھے خدا اسی طرح کافروں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے۔

۷۵.   یہ اس لئے ہے کہ تم زمین میں ناحق خوش ہوا کرتے تھے اور (اپنے مال و اقتدار پر) اِترایا کرتے تھے۔

۷۶.   (اب تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ پڑے رہنے کیلئے۔ پس کیا برا ٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کا۔

۷۷.   آپﷺ صبر کیجئے یقیناً اللہ کا وعدہ برحق ہے پھر جس (عذاب) کی ہم انہیں دھمکی دیتے رہے ہیں خواہ اس کا کچھ حصہ آپ کو (آنکھوں سے ) دکھا دیں یا اس سے پہلے آپ کو دنیا سے اٹھا لیں۔ بہرحال ان سب کی بازگشت تو ہماری طرف ہی ہے (وہ اس سے بچ نہیں سکتے )۔

۷۸.   ہم نے آپﷺ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے جن میں سے بعض کے حالات آپ سے بیان کر دیئے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ جن کے حالات آپ سے بیان نہیں کئے اور کسی رسول کیلئے یہ ممکن نہ تھا کہ اللہ کے اذن (حکم) کے بغیر کوئی معجزہ پیش کرے اور جب اللہ کا حکم آ جائے گا تو حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اس وقت باطل والے خسارے میں رہیں گے۔

۷۹.   اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے بنائے ہیں تاکہ تم ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کا (گوشت) کھاؤ۔

۸۰.   اور تمہارے لئے ان میں اور بھی فائدے ہیں اور تاکہ تم ان پر سوار ہو کر اپنے دلوں کی حاجت تک پہنچ سکو اور تم ان پر اور کشتیوں پر سوار کئے جاتے ہو۔

۸۱.    اور وہ (اللہ) تمہیں اپنی (قدرت و حکمت کی) نشانیاں دکھاتا ہے سو تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے ؟

۸۲.   کیا وہ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ ان لوگوں کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے گزرے ہیں جو تعداد میں ان سے زیادہ تھے اور طاقت میں اور زمین میں اپنی چھوڑی ہوئی نشانیوں کے اعتبار سے ان سے بڑھے ہوئے تھے لیکن ان کی سب کمائی کچھ ان کے کام نہ آئی۔

۸۳.   جب ان کے رسول ان کے پاس بیّنات (معجزات) لے کر آئے تو وہ اپنے اس علم پر نازاں و فرحاں رہے جو ان کے پاس تھا اور (انجامِ کار) اسی (عذاب) نے انہیں گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔

۸۴.   پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے واحد و یکتا پر ایمان لاتے ہیں اور ان سب چیزوں کا انکار کرتے ہیں جنہیں ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے۔

۸۵.   پس ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔ یہی اللہ کا طریقہ ہے جو (ہمیشہ سے ) اس کے بندوں میں جاری ہے اور اس وقت کافر لوگ خسارے میں رہ گئے۔

٭٭

 

۴۱۔ سورۃ حٰمٓ السجدۃ

 

۱.      حا۔ میم۔

۲.     یہ (قرآن) رحمٰن و رحیم خدا کی طرف سے نازل کردہ ہے۔

۳.     یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں تفصیل سے بیان کر دی گئی ہیں ان لوگوں کیلئے جو علم رکھتے ہیں عربی زبان کے قرآن کی صورت میں۔

۴.     یہ (قرآن) خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا ہے مگر اکثر لوگوں نے اس سے روگردانی کی ہے۔ پس وہ سنتے ہی نہیں ہیں۔

۵.     اور وہ کہتے ہیں کہ آپﷺ جس چیز کی طرف ہمیں دعوت دیتے ہیں اس سے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے اور ہمارے تمہارے درمیان پردہ حائل ہے آپ اپنا کام کیجئے ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔

۶.     آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ میں بھی تمہاری ہی طرح بشر ہوں (مگر فرق یہ ہے ) کہ مجھے وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا الٰہ (خدا) بس ایک ہی الٰہ (خدا) ہے تو تم سیدھے اسی کی طرف رخ رکھو اور اس سے مغفرت طلب کرو اور بربادی ہے ان مشرکوں کیلئے۔

۷.     جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور وہ قیامت کے منکر ہیں۔

۸.     جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کیلئے وہ اجر ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے۔

۹.     آپﷺ کہہ دیجئے ! کیا تم اس ذات کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو پیدا کیا اور دوسروں کو اس کا ہمسر قرار دیتے ہو؟ وہی تو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔

۱۰.    اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں تمام طلب گاروں کی ضرورت کے برابر چار دن کی مدت میں صحیح انداز سے سامانِ معیشت مہیا کر دیا۔

۱۱.     پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھوئیں کی شکل میں تھا اور اس سے اور زمین سے کہا کہ تم خوشی سے آؤ یا نا خوشی سے تو دونوں نے کہا ہم خوشی خوشی آتے ہیں۔

۱۲.    پس اس (اللہ) نے انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اس کے معاملہ کی وحی کر دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (ستاروں ) سے زینت بخشی اور اسے محفوظ کر دیا یہ اس (خدا) کی منصوبہ بندی ہے جو (ہر چیز پر) غالب ہے اور بڑا جاننے والا ہے۔

۱۳.    پس اگر یہ لوگ روگردانی کریں تو آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ میں نے تو تمہیں اس (آسمانی) کڑک سے ڈرا دیا ہے جو عاد والی کڑک کی مانند ہے۔

۱۴.    جبکہ ان کے پاس (اللہ کے ) رسولؑ ان کے آگے اور ان کے پیچھے سے آئے (اس پیغام کے ساتھ) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ مگر انہوں نے (جواب میں ) کہا کہ اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو (ہماری طرف) فرشتے نازل کرتا۔ لہٰذا جس (پیغام) کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔

۱۵.    سو قومِ عاد نے زمین میں ناحق سرکشی کی اور کہا کہ ہم سے بڑھ کر کون طاقتور ہے ؟ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ (اور نہ یہ سوچا) کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے کہ وہ ان سے بڑھ کر طاقتور ہے وہ (ہمیشہ) ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔

۱۶.    سو ہم نے ان پر خاص منحوس دنوں میں تیز و تند (طوفانی) ہوا بھیجی تاکہ ہم انہیں زندگانیِ دنیا میں ذلت آمیز عذاب کا مزہ چکھائیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ رسوا کن ہو گا اور ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔

۱۷.    رہے ثمود! ہم نے ان کی راہنمائی کی مگر انہوں نے ہدایت پر اندھے پن (گمراہی) کو ترجیح دی۔ پس ان کو ذلت کے عذاب کی کڑک نے پکڑ لیا ان کے کرتوتوں کی پاداش میں جو وہ کیا کرتے تھے۔

۱۸.    اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لاتے تھے اور (ہماری نافرمانی سے ) ڈرتے تھے۔

۱۹.    اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف جمع کئے جائیں گے اور پھر ترتیب وار کھڑے کئے جائیں گے (یا پھر روکے جائیں گے )۔

۲۰.    یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچ جائیں تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے برخلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گی۔

۲۱.    اور وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ تو وہ کہیں گی کہ ہمیں اسی اللہ نے گویائی عطا کی ہے جس نے ہر چیز کو گویائی دی اور اسی نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور پھر اسی کی طرف تمہاری بازگشت ہو گی۔

۲۲.    اور تم (گناہ کرتے وقت) اپنے آپ کو اس بات سے چھپا ہی نہیں سکتے تھے کہ تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں تمہاری خلاف گواہی دیں لیکن تم نے یہ گمان کیا کہ اللہ تمہارے بہت سے اعمال کو نہیں جانتا جو تم کرتے ہو۔

۲۳.   تمہارے اسی گمان نے جو تم نے اپنے پروردگار کی نسبت کیا تھا تمہیں تباہ کر دیا اور تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گئے۔

۲۴.   پس اب اگر وہ صبر کریں بھی تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور اگر وہ (خدا کو) راضی کرنا چاہیں تو وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہوں گے جن پر (اللہ) راضی ہوا۔

۲۵.   اور ہم نے ان کے لئے کچھ ساتھی مقرر کر دیئے ہیں جنہوں نے ان کے اگلے اور پچھلے (کرتوتوں کو) خوشنما بنا دیا اور ان پر وہی بات ثابت ہو گئی (عذابِ الٰہی) جو جِنوں اور انسانوں کے ان گروہوں پر ثابت ہے جو ان سے پہلے گزر چکے تھے بے شک وہ سب نقصان اٹھانے والوں میں سے تھے۔

۲۶.    اور کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو نہ سنو اور اس کی (تلاوت کے دوران) شور و غل مچا دیا کرو شاید اس طرح تم غالب آ جاؤ۔

۲۷.   ہم ان کافروں کو ضرور سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے اور وہ بدترین عمل کرتے ہیں ہم انہیں ضرور ان کی بدترین سزا دیں گے۔

۲۸.   یہ دشمنانِ خدا کی سزا ہے یعنی دوزخ۔ ان کیلئے اسی میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کا گھر ہے یہ ان کے اس جرم کی سزا ہے کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے۔

۲۹.    اور کافر لوگ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دونوں قسم یعنی جنوں اور انسانوں میں سے وہ (شیطان) دکھا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تاکہ ہم انہیں اپنے پاؤں کے نیچے روندیں تاکہ وہ پست ترین اشخاص سے ہو جائیں (ذلیل و خوار ہوں )۔

۳۰.   بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اس پر قائم اور ثابت قدم رہے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (ان سے کہتے ہیں کہ) تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کی بشارت پر خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔

۳۱.    ہم زندگانیِ دنیا میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی اور وہاں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہے جو تمہارے دل چاہیں گے اور اس میں ہر چیز موجود ہے جو تم طلب کرو گے۔

۳۲.   (یہ سب کچھ) غفور و رحیم پروردگار کی طرف سے مہمانی کے طور پر ہے۔

۳۳.   اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہو گی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل بجا لائے اور کہے کہ میں مسلمانوں (خدا کے فرمانبردار بندوں ) میں سے ہوں۔

۳۴.   اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہیں آپﷺ (بدی کا) احسن طریقہ سے دفعیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ میں اور جس میں دشمنی تھی وہ گویا آپ کا جگری دوست بن گیا۔

۳۵.   اور یہ صفت انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ طریقۂ کار انہی کو سکھایا جاتا ہے جو بڑے نصیب والے ہوتے ہیں۔

۳۶.   اور (اے مخاطب) اگر تمہیں شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ محسوس ہو تو اس سے اللہ کی پناہ مانگ۔ بے شک وہ بڑا سننے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔

۳۷.   اور اللہ کی نشانیوں میں رات، دن، سورج اور چاند بھی ہیں تم نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو (بلکہ) اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو (اور اسی کو مستحقِ عبادت سمجھتے ہو)۔

۳۸.   اور اگر یہ لوگ تکبر کریں (اور قبولِ حق سے انکار کریں ) تو جو فرشتے آپ کے پروردگار کے پاس ہیں وہ رات دن اس کی تسبیح (و تقدیس) کرتے ہیں اور وہ تھکتے نہیں ہیں۔

۳۹.    اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین جمود اور افسردگی کی حالت میں پڑی ہے اور جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو جنبش میں آتی ہے (ابھرتی ہے ) اور اس میں بالیدگی آ جاتی ہے (پھول جاتی ہے ) بیشک جس نے اسے زندہ کیا ہے وہی مُردوں کو زندہ کرنے والا ہے بلاشبہ وہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے۔

۴۰.   بے شک وہ لوگ جو ہماری آیتوں میں کجروی کرتے ہیں (اور انہیں الٹے معنی پہناتے ہیں ) وہ ہم پر پوشیدہ نہیں ہیں بھلا وہ شخص جو دوزخ میں ڈالا جائے وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن و اطمینان کے ساتھ آئے ؟ تم جو چاہو کرو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔

۴۱.    جن لوگوں نے ذکر (قرآن) کا انکار کیا جب وہ ان کے پاس آیا حالانکہ وہ ایک زبردست (معزز) کتاب ہے۔

۴۲.   باطل کا اس کے پاس گزر نہیں ہے وہ نہ اس کے آگے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے یہ اس ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے جو بڑی حکمت والی ہے (اور) قابلِ ستائش ہے۔

۴۳.   (اے رسولﷺ) آپ سے وہی کچھ کہا جا رہا ہے جو آپ سے پہلے گزرے ہوئے رسولوںؑ سے کہا گیا ہے بیشک آپ کا پروردگار بڑا بخشش والا بھی ہے اور بڑے دردناک عذاب والا بھی۔

۴۴.   اگر ہم اس (قرآن) کو عجمی زبان میں بنا کر نازل کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں صاف صاف (کھول کر) کیوں بیان نہیں کی گئیں ؟ آپﷺ کہہ دیجئے کہ یہ ایمان لانے والوں کیلئے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں گرانی (بہرہ پن) ہے اور وہ ان کے حق میں نابینائی ہے اور یہ لوگ (بہرہ پن کی وجہ سے گویا) بہت دور راستہ کی جگہ سے پکارے جا رہے ہیں۔

۴۵.   اور ہم ہی نے موسیٰؑ کو کتاب (توراۃ) عطا کی تھی تو اس میں اختلاف کیا گیا ہے اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے طے نہ ہو چکی ہوتی تو ان (اختلاف کرنے والوں ) میں فیصلہ کر دیا جاتا اور بیشک وہ ایک تردد انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

۴۶.   جو کوئی نیک کام کرتا ہے وہ اپنے ہی لئے کرتا ہے اور جو شخص برائی کرتا ہے تو اس کا وبال بھی اسی پر ہے اور آپﷺ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

۴۷.   ساعت (قیامت) کا علم اسی (اللہ) کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور کوئی پھل اپنے غلافوں سے نہیں نکلتا اور نہ کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ بچہ جنتی ہے مگر اسی (اللہ) کے علم کے ساتھ اور جس دن وہ (اللہ) ان (مشرکین) کو پکارے گا (اور پوچھے گا کہ)میرے شریک کہاں ہیں ؟ وہ کہیں گے کہ ہم تجھے بتا چکے ہیں (عرض کر چکے ہیں ) کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے (اور نہ کوئی ہے )۔

۴۸.   اور جن کو وہ پہلے پکارا کرتے تھے وہ سب (اس دن) گم ہو جائیں گے اور وہ سمجھ جائیں گے کہ اب ان کے لئے چھٹکارا نہیں ہے۔

۴۹.    انسان بھلائی کی دعا کرتے ہوئے نہیں تھکتا اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو ایکدم بالکل مایوس و نا امید ہو جاتا ہے۔

۵۰.   اور اگر ہم اسے اس تکلیف کے بعد جو اسے پہنچتی تھی اپنی رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے یہ تو میرے ہی لئے ہے (میں اس کامستحق ہوں ) نیز کہتا ہے کہ میں خیال نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہو گی اور اگر میں اپنے پروردگار کی طرف کبھی لوٹایا بھی گیا تو یقیناً میرے لئے اس کے ہاں بھی بہتری ہو گی ہم کافروں کو ضرور ان کے ان اعمال سے آگاہ کریں گے جو وہ کرتے رہے اور انہیں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

۵۱.    اور جب ہم انسان کو کوئی کچھ نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ (تکبر سے )منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرنے لگتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پھر لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

۵۲.   آپﷺ کہہ دیجئے ! اے کافرو! تم(غور کر کے )مجھے بتاؤ کہ اگر یہ (قرآن) اللہ کی طرف سے ہے پھر تم نے اس کا انکار کیا تو اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو مخالفت میں بہت دور نکل جائے ؟

۵۳.   ہم انہیں نشانیاں دکھائیں گے آفاق و کائنات میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (اللہ) بالکل حق ہے۔ کیا تمہارے پروردگار کے لئے یہ امر کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر شاہد ہے۔

۵۴.   یاد رکھو۔ یہ لوگ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری و حضوری کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں آگاہ ہو جاؤ کہ وہ (اللہ) ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

٭٭

 

۴۲۔ سورۃ شوریٰ

 

۱.      حا۔ میم۔

۲.     عین۔ سین۔ قاف۔

۳.     (اے رسولﷺ) اسی طرح اللہ غالب اور بڑا حکمت والا ہے آپﷺ کی طرف اور آپﷺ سے پہلے گزرے ہوئے رسولوںؑ کی طرف وحی کرتا رہا ہے۔

۴.     جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے وہ اسی (اللہ) کا ہے وہ بلند و برتر اور عظیم الشان ہے۔

۵.     قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے شگافتہ ہو جائیں اور فرشتے اپنے پروردگار کی حمد و تعریف کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اہلِ زمین کیلئے مغفرت طلب کرتے ہیں۔آگاہ رہو کہ اللہ یقیناً بڑا بخشنے والا (اور) بڑا مہربان ہے۔

۶.     اور جن لوگوں نے اس کے سوا سرپرست (اور کارساز) بنا رکھے ہیں اللہ ان سب پر نگہبان ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

۷.     اور اسی طرح ہم نے وحی کے ذریعہ یہ قرآن عربی زبان میں آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ اہلِ مکہ اور اس کے گِرد و پیش رہنے والوں کو ڈرائیں اور جمع ہو نے کے دن (قیامت) سے ڈرائیں جس (کے آنے ) میں کوئی شک نہیں ہے (اس دن) ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ دوزخ میں۔

۸.     اور اگر اللہ (زبردستی) چاہتا تو سب کو ایک امت بنا دیتا۔ لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور جو ظالم ہیں ان کا کوئی سرپرست اور مددگار نہیں ہے۔

۹.     کیا ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور سرپرست (کارساز) بنا لئے ہیں (حالانکہ) حقیقی سرپرست (اور کارساز) تو اللہ ہی ہے اور وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

۱۰.    اور جس چیز کے بارے میں تمہارے درمیان اختلاف پیدا ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے حوالے ہے۔ یہی اللہ میرا پروردگار ہے جس پر میں توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

۱۱.     آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اسی نے تمہاری جنس سے تمہارے لئے جوڑے پیدا کئے اور چوپایوں میں سے بھی جوڑے بنائے ہیں اس کے ذریعہ سے تمہیں پھیلاتا ہے (کائنات کی) کوئی چیز اس کی مثل (مانند) نہیں ہے وہ بڑا سننے والا اور بڑا دیکھنے والا ہے۔

۱۲.    آسمانوں اور زمین (کے خزانوں ) کی کنجیاں اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور (جس کا چاہتا ہے ) تنگ کرتا ہے۔ بے شک وہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔

۱۳.    اس نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوحؑ کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے بذریعۂ وحی آپﷺ کی طرف بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو حکم دیا تھا یعنی اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ مشرکین پر وہ بات بہت شاق ہے جس کی طرف آپﷺ انہیں دعوت دیتے ہیں اللہ جسے چاہتا ہے اپنی بارگاہ کیلئے منتخب کر لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ اسے اپنی طرف (پہنچنے کا) راستہ دکھاتا ہے۔

۱۴.    اور وہ لوگ تفرقہ میں نہیں پڑے مگر بعد اس کے کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا یہ (تفرقہ) محض باہمی ضدا ضدی (اور باہمی حسد) سے ہے اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے یہ بات طے نہ ہو چکی ہوتی کہ ان لوگوں کو ایک مقررہ مدت تک مہلت دی جائے تو ان کے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور جو لوگ ان کے بعد کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کے بارے میں اضطراب انگیز شک میں گرفتار ہیں۔

۱۵.    پس آپﷺ اس (دین) کی طرف دعوت دیتے رہیں اور ثابت قدم رہیں جس طرح آپﷺ کو حکم دیا گیا ہے اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور کہیں کہ میں ہر اس کتاب پر ایمان رکھتا ہوں جو اللہ نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف کروں۔ اللہ ہی ہمارا پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں۔ ہمارے، تمہارے درمیان کوئی بحث درکار نہیں ہے اللہ ہم سب کو (ایک دن) جمع کرے گا اور اسی کی طرف بازگشت ہے۔

۱۶.    اور جو لوگ اللہ کے (دین) کے بارے میں (بلا وجہ) جھگڑا کرتے ہیں بعد اس کے کہ اسے قبول بھی کیا جا چکا ہے ان کی حجت بازی ان کے پروردگار کے نزدیک باطل ہے اور ان پر(خدا کا) غضب ہے ان کیلئے سخت عذاب ہے۔

۱۷.    اللہ وہ ہے جس نے کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور میزان کو بھی اور تمہیں کیا خبر شاید قیامت قریب ہی ہو۔

۱۸.    جو لوگ اس پر ایمان نہیں رکھتے تو اس کے لئے جلدی کرتے ہیں اور جو ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ برحق ہے آگاہ رہو جو قیامت کے بارے میں شک کرتے ہیں (تکرار کرتے ہیں ) وہ بڑی کھلی گمراہی میں ہیں۔

۱۹.    اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے جسے چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے وہ بڑا طاقتور (اور) زبردست ہے۔

۲۰.    جو شخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کر دیتے ہیں اور جو (صرف) دنیا کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس میں سے اسے کچھ دے دیتے ہیں مگر اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔

۲۱.    کیا ان کے کچھ ایسے شریک (خدا) ہیں جنہوں نے ان کیلئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلہ کے متعلق طے شدہ بات نہ ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ کر دیا گیا ہوتا اور جو لوگ ظالم ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۲۲.    تم ظالموں کو دیکھو گے کہ وہ اپنے کئے ہوئے کاموں (کے انجام) سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ (وبال) ان پر پڑ کر رہے گا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل بھی کئے وہ بہشتوں کے باغوں میں ہوں گے وہ جو کچھ چاہیں گے اپنے پروردگار کے ہاں سے پائیں گے یہی بڑا فضل ہے۔

۲۳.   یہ وہ بات ہے جس کی خوشخبری خدا اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بھی کئے آپﷺ کہیے کہ میں تم سے اس(تبلیغ و رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اپنے قرابتداروں کی محبت کے اور جو کوئی نیک کام کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کر دیں گے یقیناً اللہ بڑا بخشنے والا(اور) بڑا قدردان ہے۔

۲۴.   کیا وہ کہتے ہیں کہ اس(رسولﷺ) نے خدا پر جھوٹا بہتان باندھا ہے اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مہر لگا دے اور اللہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنی باتوں سے حق ثابت کرتا ہے بے شک وہ سینوں کی چھپی ہوئی باتوں (رازوں ) کو خوب جانتا ہے۔ وہ وہی ہے جو اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے۔

۲۵.   اور اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں کو معاف کرتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

۲۶.    اور وہ ان لوگوں کی دعائیں قبول کرتا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے اور انہیں اپنے فضل و کرم سے اور زیادہ عطا کرتا ہے اور کافروں کیلئے سخت عذاب ہے۔

۲۷.   اور اگر خدا اپنے تمام بندوں کی روزی کشادہ کر دیتا تو وہ زمین میں بغاوت پھیلا دیتے اور وہ بندوں کے حالات کو جاننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے۔

۲۸.   وہ وہی ہے جو بارش برساتا ہے قابلِ ستائش ہے۔

۲۹.    اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور جو چلنے پھر نے والے جاندار ان کے درمیان پھیلائے ہیں ان کا پیدا کرنا بھی ہے اور وہ ان کو جمع کرنے پر جب چاہے گا قادر ہے۔

۳۰.   اور تمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے (کاموں ) کی وجہ سے پہنچتی ہے اور وہ بہت سے (کاموں سے ) درگزر کرتا ہے۔

۳۱.    اور تم زمین میں خدا کو عاجز و بے بس نہیں کر سکتے اور نہ ہی اللہ کے سوا تمہارا کوئی کارساز ہے اور نہ کوئی مددگار۔

۳۲.   اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے وہ بڑے بڑے پہاڑ جیسے (بحری) جہاز ہیں جو سمندر میں چلتے ہیں۔

۳۳.   اگر وہ چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے تو وہ (جہاز) اس کی سطح پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں بے شک اس میں ہر بڑے صبر کرنے (اور) بڑے شکر کرنے والے کیلئے نشانیاں ہیں۔

۳۴.   یا اگر وہ چاہے تو ان (جہازوں ) کو تباہ کر دے ان لوگوں کے (برے ) اعمال کی وجہ سے اور اگر چاہے تو (ان کے ) بہت سے (لوگوں یا گناہوں سے ) درگزر فرمائے۔

۳۵.   اور تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہو جائے جو ہماری آیتوں کے بارے میں جھگڑتے ہیں کہ ان کیلئے کوئی جائے فرار نہیں ہے۔

۳۶.   جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ صرف دنیوی زندگی کا (چند روزہ) ساز و سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر بھی ہے اور زیادہ پائیدار بھی ان لوگوں کیلئے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔

۳۷.   اور وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔

۳۸.   اور جو اپنے پروردگار کے حکم کو مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے (تمام) کام باہمی مشورہ سے طے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس سے خرچ کرتے ہیں۔

۳۹.    اور جب ان پر تعدی و زیادتی کی جاتی ہے تو وہ (واجبی) بدلہ لیتے ہیں۔

۴۰.   اور برائی کا بدلہ تو ویسے ہی برائی ہے اور جو معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر خدا کے ذمہ ہے بیشک وہ (اللہ) ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

۴۱.    اور جو شخص بھی ظلم کے بعد بدلہ لے اس کے اوپر کوئی الزام نہیں ہے۔

۴۲.   اور (ملامت) تو صرف ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں ایسے ہی لوگوں کیلئے دردناک عذاب ہے۔

۴۳.   البتہ جو شخص صبر کرے اور درگزر کرے تو یہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے۔

۴۴.   اور جس کو اللہ گمراہی میں چھوڑ دے تو اس کے بعد اس کا کوئی سرپرست و کارساز نہیں ہے اور تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ عذاب دیکھیں گے تو (گھبرا کر) کہیں گے کہایا (دنیا میں ) واپسی کا کوئی راستہ ہے ؟

۴۵.   اور تم انہیں دیکھو گے کہ جب وہ دوزخ کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو ذلت سے جھکے ہوئے ہوں گے (اور) کنکھیوں (چھپی نگاہ) سے دیکھتے ہوں گے اور اہلِ ایمان کہیں گے کہ حقیقی خسارہ اٹھا نے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو خسارہ میں ڈالا۔ آگاہ ہو کہ ظالم لوگ دائمی عذاب میں رہیں گے۔

۴۶.   اور اللہ کے سوا ان کے کوئی حامی و مددگار نہیں ہوں گے جو اللہ کے مقابلہ میں ان کی مدد کریں اور جسے اللہ گمراہی میں چھوڑ دے تو اس کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے۔

۴۷.   (اے لوگو) اپنے پروردگار کی دعوت پر لبیک کہواس سے پہلے کہ وہ دن آئے جو اللہ کی طرف سے ٹلنے والا نہیں ہے اس دن نہ تمہارے لئے کوئی جائے پناہ ہو گی اور نہ انکار کی کوئی گنجائش ہو گی (اور نہ ہی تمہاری طرف سے کوئی روک ٹوک کرنے والا ہو گا)۔

۴۸.   اور اگر وہ رُوگردانی کریں تو ہم نے آپ کو ان کا نگہبان مقرر کر کے نہیں بھیجا آپ کی ذمہ داری صرف پہنچا دینا ہے اور ہم جب انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اگر انہیں ان کے اعمال کی پاداش میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو انسان بڑا ناشکرا بن جاتا ہے۔

۴۹.    آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے عنایت کرتا ہے۔

۵۰.   اورجسے چاہتا ہے لڑکے لڑکیاں جمع کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے۔ بے شک وہ بڑا جاننے والا (اور) بڑا قدرت رکھنے والا ہے۔

۵۱.    اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ سے یا پردہ کے پیچھے سے یا وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجے اور اس کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے۔ بیشک وہ بزرگ و برتر (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۵۲.   اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی صورت میں اپنی ایک (خاص) روح بھیجی آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے ؟ لیکن ہم نے اسے ایک نور بنایا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور یقیناً آپ سیدھے راستہ کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔

۵۳.   اس اللہ کے راستہ کی طرف جس کا وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے خبردار! سب (تمام) معاملات کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔

٭٭

 

۴۳۔ سورۃ زخرف

 

۱.      حا۔ میم۔

۲.     قَسم ہے اس واضح کتاب کی۔

۳.     کہ ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم سمجھو۔

۴.     بے شک وہ (قرآن) اصل کتاب (لوحِ محفوظ) میں جو ہمارے پاس ہے بلند مرتبہ (اور) حکمت والا ہے۔

۵.     کیا ہم محض اس لئے نصیحت سے منہ پھیر لیں کہ تم حد سے تجاوز کرنے والے لوگ ہو۔

۶.     اور ہم نے پہلے لوگوں میں کتنے ہی نبی بھیجے ہیں۔

۷.     اور ان کے پاس کوئی نبی ہیں آیا مگر یہ کہ وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔

۸.     پھر ہم نے ان لوگوں کو ہلاک کر دیا جو ان (موجودہ منکرین) سے زیادہ طاقتور تھے اور پہلے لوگوں کی مثال (حالت) گزر چکی ہے۔

۹.     اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ انہیں اس ہستی نے پیدا کیا ہے جو غالب ہے اور ہمہ دان۔

۱۰.    وہی جس نے زمین کو تمہارے لئے گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے بنا دئیے تاکہ تم (منزل تک) راہ پاؤ۔

۱۱.     اور جس نے ایک خاص مقدار میں آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس سے مردہ (خشک) زمین کو زندہ کر دیا اسی طرح تم (قبروں سے ) نکالے جاؤ گے۔

۱۲.    اور جس نے تمام اِقسام کی چیزیں پیدا کیں اور تمہارے لئے کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔

۱۳.    تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھو اور پھر اپنے پروردگار کی نعمت کو یاد کرو اور کہو پاک ہے وہ ذات جس نے ان چیزوں کو ہمارے لئے مسخر کر دیا اور ہم ایسے نہ تھے کہ ان کو اپنے قابو میں کرتے۔

۱۴.    اور بے شک ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

۱۵.    اور ان لوگوں نے خدا کے بندوں میں سے اس کا جزو قرار دیا ہے بیشک انسان کھلا ہوا ناشکرا ہے۔

۱۶.    کیا خدا نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لئے بیٹیاں منتخب کی ہیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ مخصوص کر دیا؟

۱۷.    اور جب ان میں سے کسی کو اس (بیٹی) کی بشارت دی جاتی ہے جسے وہ خدا کی صفت قرار دیتا ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور اس کا دل غم سے بھر جاتا ہے۔

۱۸.    کیا (خدا کیلئے وہ ہے ) جو زیوروں میں پرورش پائے اور بحث و تکرار میں اپنا مدعا واضح نہ کر سکے؟

۱۹.    اور انہوں نے فرشتوں کو جو خدائے رحمٰن کے خاص بندے ہیں عورتیں قرار دے رکھا ہے کیا وہ ان کی پیدائش (اور جسمانی ساخت) کے وقت موجود تھے ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے بازپرس کی جائے گی۔

۲۰.    اور وہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم ان (بتوں ) کی عبادت نہ کرتے انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ وہ محض اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں۔

۲۱.    کیا ہم نے انہیں اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے جسے وہ مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں۔

۲۲.    بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر دیکھا ہے اور ہم انہی کے نقشِ قدم پر راہ یاب ہیں۔

۲۳.   اور اسی طرح ہم نے آپﷺ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرا نے والا (پیغمبرؑ) نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں آسودہ حال لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا اور ہم تو انہی کے نقوشِ پاکی پیروی کر رہے ہیں۔

۲۴.   اس (نذیر) نے کہا گرچہ میں تمہارے پاس اس سے زیادہ ہدایت بخش طریقہ لے کرایا ہوں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ؟ ان لوگوں نے کہا کہ تم جس(دین) کے ساتھ بھیجے گئے ہو ہم اس کے منکر ہیں۔

۲۵.   سو ہم نے ان سے انتقام لیا تو دیکھو کہ جھٹلا نے والوں کا کیا انجام ہوا؟

۲۶.    اور وہ وقت یاد کرو جب ابراہیمؑ نے اپنے باپ (تایا) اور اپنی قوم سے کہا میں ان سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔

۲۷.   مگر وہ جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی میری راہنمائی کرے گا (میں صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں )۔

۲۸.   اور وہ (ابراہیمؑ) اسی (عقیدۂ توحید) کو اپنی اولاد میں باقی رہنے والا کلمہ قرار دے گئے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔

۲۹.    اور (باوجود ان کی خلاف ورزی کرنے کے ) میں ان کو اور ان کے باپ دادا کو دنیا کے ساز و سامان سے بہرہ مند کرتا رہا یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور کھول کر بیان کرنے والا رسول آ گیا۔

۳۰.   اور جب ان کے پاس حق آ گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کے منکر ہیں۔

۳۱.    اور وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن دو (مشہور) بستیوں (مکہ و طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا؟

۳۲.   کیا یہ لوگ آپ کے پروردگار کی رحمت تقسیم کرتے ہیں ؟ (حالانکہ) دنیاوی زندگی میں ان کے درمیان ان کی روزی ہم نے تقسیم کر دی ہے اور ہم نے بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں اور آپ کے پروردگار کی رحمت اس مال و دولت سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔

۳۳.   اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے تو ہم خدائے رحمٰن کا انکار کرنے والوں کے مکانوں کی چھتیں اور سیڑھیاں جن پر وہ چڑھتے ہیں۔

۳۴.   اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت جن پر وہ تکیہ لگاتے ہیں سب چا ندی اور سونے کے بنوا دیتے۔

۳۵.   اور یہ سب کچھ دنیاوی زندگی کا ساز و سامان ہے اور تمہارے پروردگار کے ہاں آخرت تو متقیوں کے لئے ہے۔

۳۶.   اور جو شخص خدا کی یاد سے اندھا بنتا ہے تو ہم اس کیلئے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں جو اس کا ساتھی ہوتا ہے۔

۳۷.   اور وہ (شیاطین) ان (اندھوں ) کو راہ (راست) سے روکتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔

۳۸.   یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو (اپنے شیطان سے ) کہے گا اے کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کی دوری ہوتی تو بہت برا ساتھی ہے۔

۳۹.    (ان سے کہا جائے گا کہ) جب تم (دنیا میں ) ظلم کر چکے تو (آج) یہ بات تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی تم سب عذاب میں ایک دوسرے کے شریک ہو۔

۴۰.   کیا آپﷺ بہروں کو سنائیں گے یا اندھوں کو راہ دکھائیں گے اور ان کو جو کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں ؟

۴۱.    پس اگر ہم آپ کو (دنیا سے ) اٹھائیں تو پھر بھی ہم ان لوگوں سے بدلہ لینے والے ہیں۔

۴۲.   یا ہم ان کو (آپ کے عینِ حیات) وہ (عذاب) دکھا دیں گے جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے سو ہم ان پر پوری طرح قادر ہیں۔

۴۳.   پس آپﷺ مضبوطی سے اسے تھامے رہیں جس کی آپﷺ کی طرف وحی کی گئی ہے۔ یقیناً آپ سیدھے راستہ پر ہیں۔

۴۴.   اور بے شک وہ (قرآن) آپﷺ کیلئے اور آپﷺ کی قوم کیلئے بڑا شرف اور اعزاز ہے اور عنقریب تم لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

۴۵.   آپﷺ پیغمبروں سے پوچھیں جنہیں ہم نے آپﷺ سے پہلے بھیجا تھا کہایا ہم نے خدائے رحمٰن کے علاوہ بھی کوئی ایسے خدا مقرر کئے تھے جن کی عبادت کی جائے۔

۴۶.   اور بے شک ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیاں (معجزے ) دے کر فرعون اور اس کے عمائدِ سلطنت کے پاس بھیجا۔ پس آپؑ نے (ان سے ) کہا کہ میں عالمین کے پروردگار کا رسولؑ ہوں۔

۴۷.   پس جب وہ ہماری نشانیوں کے ساتھ ان کے پاس آئے تو وہ لوگ ان (نشانیوں ) پر ہنسنے لگے (مذاق اڑا نے لگے )۔

۴۸.   اور ہم انہیں کوئی نشانی نہیں دکھاتے تھے مگر وہ پہلی سے بڑی ہوتی تھی اور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تاکہ وہ (اپنی روش سے ) باز آئیں۔

۴۹.    اور انہوں نے کہا کہ اے جادوگر! اپنے پروردگار سے ہمارے لئے دعا کرو۔ہم ضرور ہدایت پا جائیں گے۔

۵۰.   تو جب ہم نے ان سے عذاب دور کر دیا تو ایکدم وہ عہد توڑ دیتے تھے۔

۵۱.    اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کرائی اے میری قوم! کیا مصر کی سلطنت میری نہیں ہے ؟ اور یہ نہریں جو میرے نیچے بہہ رہی ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟

۵۲.   (مجھے بتاؤ) کیا میں اس سے بہتر نہیں ہوں جو ذلیل و حقیر ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا۔

۵۳.   (اگر یہ برحق نبی ہے ) تو اس پر سو نے کے کنگن کیوں نہیں اتارے گئے ؟ یا اس کے ہمراہ فرشتے پر باندھ کر آتے۔

۵۴.   اس طرح اس (فرعون) نے اپنی قوم کو احمق بنایا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی۔ بے شک یہ نافرمان قِسم کے لوگ تھے۔

۵۵.   پس انہوں نے ہمیں ناراض کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان سب کو غرق کر دیا۔

۵۶.   اور انہیں گیا گزرا اور بعد والوں کیلئے نمونۂ عبرت بنا دیا۔

۵۷.   اور جب ابنِ مریمؑ (عیسے ٰؑ) کی مثال دی گئی تو ایک دم آپﷺ کی قوم والے چیخنے چلا نے لگے۔

۵۸.   اور کہنے لگے کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یاوہ(عیسیٰؑ)؟ وہ یہ بات محض آپﷺ سے کج بحثی کیلئے کرتے ہیں بلکہ یہ لوگ تو ہیں ہی بڑے جھگڑالو۔

۵۹.    وہ (عیسیٰؑ ) تو بس ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور اسے بنی اسرائیل کیلئے ایک مثال (نمونہ) بنا دیا۔

۶۰.    اگر ہم چاہیں تو تمہارے بدلے زمین میں فرشتے بسا دیں جو تمہارے جانشین ہوں۔

۶۱.    وہ(عیسیٰؑ) تو صرف قیامت کی ایک نشانی ہے تم لوگ اس میں شک نہ کرو اور میری پیروی کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔

۶۲.    (دیکھو خیال رکھنا کہیں ) شیطان تمہیں اس سے روک نہ دے۔ بے شک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔

۶۳.   اور جب عیسیٰؑ کھلی نشانیاں (معجزے )لے کر آئے تو کہا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں تاکہ تم پر بعض وہ باتیں واضح کر دوں جن میں تم اختلاف کرتے ہو سو تم اللہ سے (آپؑ کی نافرمانی سے ) ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۶۴.   بے شک اللہ ہی میرا پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ تو تم اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔

۶۵.   پس مختلف گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا پس تباہی ظالموں کیلئے ایک بڑے دردناک دن (قیامت) کے عذاب سے۔

۶۶.    کیا یہ لوگ بس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اچانک ان پر آ جائے کہ انہیں خبر بھی نہ ہو۔

۶۷.   اس دن سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

۶۸.   (خدا ان سے فرمائے گا) اے میرے بندو! آج نہ تم پر کوئی خوف ہے اور نہ ہی تم غمگین ہو گے۔

۶۹.    (یہ وہ لوگ ہیں ) جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور مطیع و فرمانبردار بن کر رہے۔

۷۰.   (حکم ہو گا) تم اور تمہاری بیویاں جنت میں داخل ہو جاؤ تم خوش کئے جاؤ گے۔

۷۱.    ان پر سو نے کے تھال اور جام گردش میں ہوں گے اور وہاں ہر وہ چیز موجود ہو گی جو دل چاہیں گے اور آنکھوں کو لذت ملے گی اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔

۷۲.   یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو اپنے ان اعمال کے صلہ میں جو تم کرتے تھے۔

۷۳.   تمہارے لئے اس میں بہت سے میوے ہیں جن سے تم کھاؤ گے۔

۷۴.   بے شک مجرم لوگ دوزخ کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔

۷۵.   وہ عذاب کبھی ان سے ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں مایوس ہو کر پڑے رہیں گے۔

۷۶.   اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے تھے۔

۷۷.   اور وہ پکاریں گے کہ اے مالک! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کر دے (تو بہتر) وہ کہے گا کہ تم یوں ہی پڑے رہو گے۔

۷۸.   بے شک ہم تمہارے پاس (دین) حق لے کر آئے مگر تم میں سے اکثر حق کو ناپسند کرتے رہے۔

۷۹.   کیا انہوں نے کوئی قطعی فیصلہ کر لیا ہے تو ہم بھی کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں۔

۸۰.   کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کے رازوں اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سنتے ؟ ہاں (ہم سنتے ہیں ) اور ہمارے فرشتے ان کے پاس لکھتے بھی جاتے ہیں۔

۸۱.    آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ اگر خدائے رحمٰن کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلا عبادت گزار میں ہوتا۔

۸۲.   پاک ہے آسمانوں اور زمین کا پروردگار جو عرش کا مالک ہے اس سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔

۸۳.   آپ ان کو چھوڑیں کہ وہ بحث کریں اور تفریح کریں (کھیلیں ) یہاں تک کہ ان کو اس دن سے سابقہ پڑے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

۸۴.   اور وہ وہی ہے جو آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی وہی خدا ہے اور وہ بڑا حکمت والا، بڑا جاننے والا ہے۔

۸۵.   بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں آسمانوں اور زمین اور ہر اس چیز کی بادشاہی ہے جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اسی کے پاس قیامت کا عِلم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

۸۶.   اور جن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ سفارش کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ سوائے ان کے جو حق کی گواہی دیں اور وہ جانتے بھی ہوں۔

۸۷.   اور اگر آپﷺ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا؟ تو وہ کہیں گے کہ اللہ نے تو وہ کہاں بھٹکتے پھرتے ہیں۔

۸۸.   اور اسی (اللہ) کو رسولﷺ کے اس قول کا عِلم ہے کہ اے میرے پروردگار! یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

۸۹.    (اے رسولﷺ) درگزر کرو۔اور کہو سلام ہو (خدا حافظ) عنقریب انہیں (اپنا انجام) معلوم ہو جائے گا۔

٭٭

 

۴۴۔سورۃ دخان

 

۱.      حا۔ میم۔

۲.     قَسم ہے اس کتابِ مبین کی۔

۳.     ہم نے اس (کتاب) کو ایک بابرکت رات (شبِ قدر) میں نازل کیا ہے بے شک ہم (عذاب سے ) ڈرانے والے رہے ہیں۔

۴.     اس(رات) میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

۵.     ہمارے (خاص) حکم سے بے شک ہم ہی (ہر کتاب اور رسولؑ کے ) بھیجنے والے ہیں۔

۶.     خاص تمہارے پروردگار کی رحمت سے یقیناً وہ بڑا سننے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔

۷.     جو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو۔

۸.     اس کے سوا کوئی الٰہ (خدا) نہیں ہے وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے اگلے باپ داداؤں کا بھی پروردگار ہے۔

۹.     مگر وہ لوگ تو شک میں پڑے ہوئے کھیل رہے ہیں۔

۱۰.    آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان ایک کھلے ہوئے دھوئیں کے ساتھ آئے گا۔

۱۱.     جو لوگوں پر چھا جائے گا یہ ایک دردناک عذاب ہو گا۔

۱۲.    (اس وقت کفار بھی کہیں گے ) اے ہمارے پروردگار! ہم سے یہ عذاب دور فرما۔ ہم ایمان لاتے ہیں۔

۱۳.    اب ان کو کہاں سے نصیحت حاصل ہو گی؟ جبکہ ان کے پاس کھول کر بیان کرنے والا رسولؑ آ چکا۔

۱۴.    پھر انہوں نے اس سے منہ موڑا اور کہا کہ یہ تو سکھایا ہوا ایک دیوانہ ہے۔

۱۵.    بے شک (اگر) ہم کچھ وقت کیلئے یہ عذاب ہٹا بھی دیں تو تم لوگ لوٹ کر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے تھے۔

۱۶.    جس دن ہم سخت پکڑ پکڑیں گے اس دن ہم پورا بدلہ لیں گے۔

۱۷.    ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو آزمایا تھا اور ان کے پاس ایک معزز رسولؑایا تھا۔

۱۸.    (اور ان سے کہا تھا کہ) اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو میں ایک امانت دار رسولؑ ہوں۔

۱۹.    اور یہ کہ تم اللہ کے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو میں تمہارے پاس واضح دلیل (سند) پیش کرتا ہوں۔

۲۰.    اور میں نے اپنے اور تمہارے پروردگار سے پناہ مانگ لی ہے کہ تم مجھے سنگسار کرو۔

۲۱.    اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو پھر مجھ سے الگ ہی رہو۔

۲۲.    پس اس (رسول) نے اپنے پروردگار سے دعا مانگی کہ یہ بڑے مجرم لوگ ہیں۔

۲۳.   (ارشاد ہوا) تم میرے بندوں کو ہمراہ لے کر راتوں رات نکل جاؤ کیونکہ تمہارا تعاقب کیا جائے گا۔

۲۴.   اور تم سمندر کو اس کے حال (سکون) پہ چھوڑ دو۔ بیشک وہ (دشمن) ایسا لشکر ہے جو غرق ہو نے والا ہے۔

۲۵.   وہ کتنے باغ اور چشمے چھوڑ گئے۔

۲۶.    اور کھیتیاں اور عمدہ مقامات۔

۲۷.   اور آرام و راحت کا ساز و سامان جس میں وہ خوش و خرم رہتے تھے۔

۲۸.   اور ہم نے ان چیزوں کا وارث ایک قوم کو بنا دیا۔

۲۹.    پس ان کی بربادی پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ہی ان کو مہلت دی گئی۔

۳۰.   اور ہم نے بنی اسرائیل کو رسوا کن عذاب سے نجات دی۔

۳۱.    جو فرعون کی طرف سے تھا بے شک وہ سرکش اور حد سے نکل جا نے والوں میں سے تھا۔

۳۲.   اور ہم نے جان بوجھ کر ان کو تمام جہانوں والوں پر ترجیح دی۔

۳۳.   اور ہم نے ان کو ایسی نشانیاں عطا کیں جن میں کھلی ہوئی آزمائش تھی۔

۳۴.   بیشک یہ لوگ کہتے ہیں۔

۳۵.   کہ بس ہماری یہی پہلی موت ہی ہے اس کے بعد ہم (دوبارہ) نہیں اٹھائے جائیں گے۔

۳۶.   اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ داداؤں کو لاؤ۔

۳۷.   (قوت کے لحاظ سے ) یہ بہتر ہیں یا قومِ تبع اور ان سے پہلے ہم نے ان کو ہلاک کر دیا کہ وہ مجرم تھے۔

۳۸.   ہم نے آسمانوں کو، زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔

۳۹.    ہم نے ان کو پیدا نہیں کیا مگر حق (و حکمت) کے ساتھ مگر ان کے اکثر لوگ (یہ حقیقت) نہیں جانتے۔

۴۰.   بے شک فیصلہ کا دن (قیامت) ان سب کا طے شدہ وقت ہے۔

۴۱.    جس دن کوئی دوست کسی دوست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔

۴۲.   مگر وہ جس پر اللہ رحم کرے بے شک وہ بڑا غالب (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۴۳.   بیشک زقوم کا درخت۔

۴۴.   گنہگار کی غذا ہو گا۔

۴۵.   پگھلے ہوئے تانبے کی طرح پیٹوں میں جوش کھائے گا۔

۴۶.   جس طرح گرم کھولتا ہوا پانی ہے۔

۴۷.   اس کو پکڑو۔اور اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم کے وسط تکلے جاؤ۔

۴۸.   اور پھر اس کے سر پر کھولتے ہوئے پانی کا عذاب انڈیل دو۔

۴۹.    مزا چکھ تُو تو بڑا معزز اور مکرم ہے۔

۵۰.   یہ وہی ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے۔

۵۱.    بے شک جو پرہیزگار لوگ ہیں وہ امن و سکون کی جگہ پر ہوں گے۔

۵۲.   یعنی باغوں میں اور چشموں میں۔

۵۳.   وہ سندس و اسبترق (باریک اور دبیز ریشم) کے کپڑے پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

۵۴.   یہ بات اسی طرح ہے اور ہم ان کی گوری رنگت اور بڑی آنکھوں والی عورتوں (حوروں ) سے شادی کریں گے۔

۵۵.   وہ اس میں بڑے امن و سکون کے ساتھ ہر قِسم کے میوے طلب کریں گے۔

۵۶.   وہ وہاں پہلے والی موت کے سوا موت کا مزہ نہیں چکھیں گے اور اللہ نے انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیا ہے۔

۵۷.   یہ سب کچھ آپ کے پروردگار کے فضل و کرم سے ہو گا اور یہ بڑی کامیابی ہے۔

۵۸.   پس ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان پر بالکل آسان بنا دیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

۵۹.    (اچھا) آپ انتظار کیجئے ! یقیناً وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔

٭٭

 

۴۵۔ سورۃ جاثیہ

 

۱.      حا۔ میم۔

۲.     یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۳.     بے شک آسمانوں اور زمین میں اہلِ ایمان کے لئے (خدا کی توحید و قدرت کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔

۴.     اور خود تمہاری پیدائش میں اور ان حیوانات میں جن کو وہ (زمین میں ) پھیلا رہا ہے یقین رکھنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔

۵.     اور رات اور دن کی آمد و رفت میں اس (ذریعہ) رزق (بارش) میں جو اللہ نے آسمانوں سے نازل کیا اور اس سے زمین کو زندہ کر دیا اس کی موت کے بعد اور ہواؤں کی گردش میں بھی نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔

۶.     یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم حق کے ساتھ آپ کو پڑھ کر سنا رہے ہیں تو آخر اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد وہ کونسی بات ہے جس پر وہ ایمان لائیں گے ؟

۷.     ہلاکت ہے ہر اس بڑے جھوٹے (اور) بڑے گنہگار کے لئے۔

۸.     جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے جب اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر وہ تکبر کے ساتھ اس طرح اَڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں۔ بس تم اسے دردناک عذاب کی خبر دے دو۔

۹.     اور جب اس کو ہماری آیات میں سے کسی کا علم ہوتا ہے تو وہ ان کو مذاق بنا لیتا ہے ایسے لوگوں کیلئے رسوا کُن عذاب ہے۔

۱۰.    ان کے آگے جہنم ہے اور انہوں نے جو کچھ کیا کمایا ہے وہ انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا اور نہ ہی وہ ان کے کام آئیں گے جن کو انہوں نے اللہ کے سوا کارساز بنا رکھا ہے اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے۔

۱۱.     یہ ہدایت ہے (اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں کا انکار کیا ان کیلئے ) سخت قِسم کا دردناک عذاب ہے۔

۱۲.    اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کومسخر کر دیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل (رزق) تلاش کرو۔ اور تاکہ تم شکر کرو۔

۱۳.    اوراس نے آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے (خدا کی قدرت و حکمت کی) نشانیاں ہیں۔

۱۴.    (اے رسولﷺ) ایمان والوں سے کہیے ! کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے (خاص) دنوں کی امید نہیں رکھتے تاکہ اللہ ایک قوم کو اس کے ان سارے اعمال کا بدلہ دے جو وہ کیا کرتے تھے۔

۱۵.    جو کوئی نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے فائدہ کیلئے کرتا ہے اور جو کوئی برائی کرتا ہے اس کا وبال بھی اسی پر پڑتا ہے پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

۱۶.    اور یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب، حُکم اور نبوت عطا فرمائی اور ان کو پاکیزہ رزق عطا فرمایا اور ان کو دنیا جہان والوں پر فضیلت عطا کی۔

۱۷.    اور ہم نے انہیں دین کے معاملہ میں کھلے دلائل عطا کئے پس انہوں نے اس میں اختلاف نہیں کیا مگر علم آ جانے کے بعد محض باہمی ضد اور ظلم کی وجہ سے۔ بے شک قیامت کے دن آپﷺ کا پروردگار ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جن چیزوں میں وہ باہم اختلاف کرتے تھے۔

۱۸.    (اے رسولﷺ) پھر ہم نے آپﷺ کو ایک واضح شریعت پر قائم کیا ہے پس آپﷺ اس کی پیروی کیجئے ! اور ان لوگوں کی خواہش کی پیروی نہ کیجئے جو علم نہیں رکھتے۔

۱۹.    وہ اللہ کے مقابلہ میں آپﷺ کو ہرگز کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ یقیناً ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہوتے ہیں اور اللہ تو پرہیزگاروں کا ساتھی (اور پُشت پناہ) ہے۔

۲۰.    یہ(قرآن) لوگوں کے لئے بصیرتوں کا سرمایہ اور یقین رکھنے والوں کیلئے ہدایت و رحمت کا باعث ہے۔

۲۱.    کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کی مانند قرار دیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ؟ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے گا؟ بہت برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کر رہے ہیں۔

۲۲.    اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جائے اور ان پر (ہرگز) ظلم نہیں کیا جائے گا۔

۲۳.   کیا آپﷺ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے اور اللہ نے باوجود علم کے اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پر دہ ڈال دیا ہے اللہ کے بعد کون ایسے شخص کو ہدایت کر سکتا ہے ؟ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔

۲۴.   اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو بس یہی دنیوی زندگی ہے۔ یہیں ہم مرتے ہیں اور یہیں جیتے ہیں اور ہمیں صرف گردشِ زمانہ ہلاک کرتی ہے حالانکہ انہیں اس (حقیقت) کا کوئی علم نہیں ہے وہ محض گمان کی بناء پر ایسا کہتے ہیں۔

۲۵.   اور جب ان کے سامنے ہماری کھلی ہوئی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کے پاس کوئی حجت اور دلیل نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو (زندہ کر کے ) لاؤ۔

۲۶.    آپﷺ کہہ دیجئے ! اللہ ہی تمہیں زندہ رکھتا ہے وہی تمہیں موت دیتا ہے پھر وہی تمہیں قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) جانتے نہیں ہیں۔

۲۷.   آسمانوں اور زمین میں اللہ ہی کی بادشاہی ہے اور جس دن قیامت قائم ہو گی اس دن باطل پرست لوگ خسارہ اٹھائیں گے۔

۲۸.   اور آپ دیکھیں گے کہ اس وقت ہر گروہ گھٹنوں کے بل گرا ہوا اپنے (فیصلے کا منتظر) ہو گا اور ہر گروہ کو اس کی کتاب (صحیفۂ عمل) کی طرف بلایا جائے گا (اور ان سے کہا جائے گا کہ) آج تمہیں اس کا بدلہ دیا جائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

۲۹.    یہ ہماری کتاب (دفترِ عمل) ہے جو تمہارے بارے میں حق و سچ کے ساتھ بولتی ہے ہم لکھتے (لکھواتے ) رہتے تھے جو کچھ تم کرتے تھے۔

۳۰.   جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کا پروردگار انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور یہی واضح کامیابی ہے۔

۳۱.    اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا (ان سے کہا جائے گا) میری آیتیں تمہیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں ؟ مگر تم نے تکبر کیا اور تم مجرم لوگ تھے۔

۳۲.   اور جب (تم سے ) کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں ہے تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا ہے ؟ بس ایک گمان ہے جو ہم کرتے ہیں اور ہمیں اس کا یقین نہیں ہے۔

۳۳.   (اس وقت) ان کے اعمال کی برائیاں واضح ہو جائیں گی اور وہ چیز ان کو گھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔

۳۴.   اور (ان سے کہا) جائے گا کہ آج ہم تمہیں اس طرح نظر انداز کریں گے جس طرح تم نے اس دن کی ملاقات (حاضری) کو بھُلا دیا تھا۔ تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے۔

۳۵.   یہ اس لئے کہ تم نے اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑایا تھا اور دنیاوی زندگی نے تمہیں دھوکہ میں مبتلا کیا۔ پس وہ آج نہ تو اس (دوزخ) سے نکالے جائیں گے اور نہ ان کو معذرت (خدا کو راضی) کرنے کا موقع دیا جائے گا۔

۳۶.   ہر قِسم کی تعریف اللہ کیلئے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بلکہ سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔

۳۷.   اسی کیلئے کِبریائی ہے اور وہ بڑا غالب (اور) بڑی حکمت والا ہے۔

٭٭

 

۴۶۔ سورۃ احقاف

 

۱.      حا۔ میم۔

۲.     (یہ) کتابِ عزیز و حکیم (غالب اور بڑے حکمت والے خدا) کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔

۳.     ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو پیدا نہیں کیا مگر حق و حکمت کے ساتھ اور ایک مقررہ مدت تک اور جو کافر لوگ ہیں وہ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں وہ اس سے رُوگردانی کرتے ہیں۔

۴.     آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں سے کیا پیدا کیا ہے ؟ یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کی کچھ شرکت ہے ؟ میرے پاس پہلے کی کوئی کتاب لاؤ! یا کوئی عِلمی روایت(اور علمی ثبوت) لاؤ اگر تم سچے ہو۔

۵.     اور اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اس کو جواب نہیں دے سکتے بلکہ وہ ان کی دعا و پکار سے غافل ہیں۔

۶.     اور جب سب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ (معبود) ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔

۷.     اور جب ان کو ہماری واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو (یہ) کافر لوگ حق کے بارے میں کہتے ہیں جبکہ ان کے پاس آ گیا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔

۸.     کیا وہ کہتے ہیں کہ اس (رسولﷺ) نے اسے خود گھڑ لیا ہے ؟ آپﷺ کہیے کہ اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہے تو تم لوگ اللہ کے مقابلہ میں میرے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے (ذرا بھی مجھے نہیں بچا سکتے ) (قرآن کے متعلق) تم جن باتوں میں مشغول ہو وہ (اللہ) ان کو خوب جانتا ہے اور وہی میرے اور تمہارے درمیان بطور گواہ کافی ہے اور بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۹.     آپ کہہ دیجئے کہ رسولوںؑ میں سے میں کوئی انوکھا نہیں ہوں اور میں (از خود) نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا اور میں تو صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جس کی مجھے وحی کی جاتی ہے اور میں نہیں ہوں مگر کھلا ہوا ڈرانے والا۔

۱۰.    آپ کہیے کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ اگر وہ (قرآن) اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کیا درآنحالیکہ تم بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اس جیسی (کتاب پر) گواہی دے چکا اور ایمان بھی لا چکا مگر تم نے تکبر کیا؟ بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

۱۱.     اور کافر لوگ ایمان لانے والوں کی نسبت کہتے ہیں کہ اگر وہ (قرآن و اسلام) کوئی اچھی چیز ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم پر سبقت نہلے جاتے اب چونکہ انہوں نے اس (قرآن) سے ہدایت نہیں پائی تو وہ ضرور کہیں گے کہ یہ تو پرانا جھوٹ ہے۔

۱۲.    حالانکہ اس سے پہلے موسیٰؑ کی کتاب (توراۃ) بھی راہنما و رحمت تھی اور یہ کتاب (قرآن) تو اس کی تصدیق کرنے والی ہے (اور) عربی زبان میں ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور نیکوکاروں کے لئے خوشخبری ہے۔

۱۳.    بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اس (اقرار) پر ثابت و برقرار رہے تو انہیں کوئی خوف نہیں ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

۱۴.    یہی لوگ بہشتی ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ صِلہ ہے ان کے ان اعمال کا جو وہ (دنیا میں ) کیا کرتے تھے۔

۱۵.    اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ماں نے زحمت کے ساتھ اسے پیٹ میں رکھا اور زحمت کے ساتھ اسے جنم دیا اور اس کا حمل اور دودھ چھڑانا تیس مہینوں میں ہوا۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا (جوان ہوا) اور پورے چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا اے میرے پروردگار! تو مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور یہ کہ میں ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرتا ہے اور میرے لئے میری اولاد میں بھی صالحیت پیدا فرما میں تیری بارگاہ میں توبہ (رجوع) کرتا ہوں اور میں مسلمانوں (فرمانبرداروں ) میں سے ہوں۔

۱۶.    یہی وہ لوگ ہیں جن کے بہترین اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے درگزر کرتے ہیں یہ بہشتیوں میں ہوں گے اس سچے وعدہ کی بناء پر جو برابر ان سے کیا جاتا رہا ہے۔

۱۷.    اور جس نے اپنے والدین سے کہا تُف ہے تم پر کیا تم دونوں مجھ سے وعدہ کرتے ہو کہ میں (دوبارہ قبر سے ) نکالا جاؤں گا۔ حالانکہ مجھ سے پہلے کئی نسلیں گزر چکی ہیں (اور کوئی ایک بھی زندہ نہ ہوا) اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے ہیں (اور کہتے ہیں ) وائے ہو تجھ پر ایمان لے آ۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچاہے (مگر) وہ کہتا ہے کہ یہ سب اگلے لوگوں کی (پرانی) کہانیاں ہیں۔

۱۸.    یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کے قول (عذاب) کا فیصلہ نافذ ہو چکا ہے۔ ان گروہوں کے ساتھ جو جنوں اور انسانوں میں سے پہلے گزر چکے ہیں۔یقیناً وہ لوگ گھاٹے میں تھے۔

۱۹.    اور ہر ایک کیلئے ان کے اعمال کے مطابق درجے ہوں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

۲۰.    اور جس دن کافروں کو دوزخ کے سامنے لایا جائے گا (تو ان سے کہا جائے گا کہ) تم اپنے حصے کی نعمتیں دنیاوی زندگی میں لے چکے اور ان سے فائدہ اٹھا چکے آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا بوجہ اس کے کہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے تھے اور نافرمانیاں کرتے تھے۔

۲۱.    (اے رسولﷺ) قومِ عاد کے بھائی (جنابِ ہودؑ) کا ذکر کیجئے جبکہ انہوں نے اپنی قوم کو مقامِ احقاف (ریت کے ٹیلوں والی بستی) میں ڈرایا تھا جبکہ بہت سے ڈرانے والے ان سے پہلے بھی گزر چکے اور ان کے بعد بھی (جنابِ ہودؑ نے کہا کہ) اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو (ورنہ) مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے (ہولناک) دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔

۲۲.    ان قوم والوں نے کہا کہ کیا تم اس لئے ہمارے پاس آئے ہو کہ ہمیں اپنے معبودوں سے منحرف کر دو۔ لاؤ ہمارے پاس وہ (عذاب) جس کی دھمکی تم ہمیں دیتے ہو اگر تم سچے ہو۔

۲۳.   جنابِ ہودؑ نے کہا اس (نزولِ عذاب) کا علم تو بس اللہ کے پاس ہے میں تو صرف تم تک وہ (پیغام) پہنچا رہا ہوں جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں۔ لیکن میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم بالکل جاہل قوم ہو۔

۲۴.   پس جب انہوں نے (عذاب) کو ایک بادل کی صورت میں اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ بادل تو ہم پر برسنے والا ہے بلکہ یہ وہ (عذاب) ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے (یہ تند و تیز) ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔

۲۵.   وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر چیز کو تباہ و برباد کر دے گی۔ چنانچہ وہ ایسے ہو گئے کہ ان کے مکانوں کے سوا وہاں کچھ نظر نہیں آتا تھا ہم مجرم قوم کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔

۲۶.    ہم نے ان لوگوں کو ان کاموں کی قدرت دی تھی جو تمہیں بھی نہیں دی اور ہم نے ان کو کان، آنکھیں اور دل دیئے تھے مگر ان کے کانوں اور آنکھوں اور دلوں نے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا کیونکہ وہ آیاتِ الہیہ کا انکار کیا کرتے تھے اور ان کو اس چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔

۲۷.   اور ہم نے تمہارے اردگرد کی کئی بستیوں کو ہلاک و برباد کر دیا اور ہم نے اپنی (قدرت کی) نشانیاں پھیر پھیر کر(مختلف انداز سے ) پیش کیں تاکہ وہ باز آ جائیں۔

۲۸.   تو انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی جن کو انہوں نے خدا کے تقرب کیلئے معبود بنا رکھا تھا بلکہ وہ تو ان سے غائب ہو گئے، یہ تھا ان کا جھوٹ اور ان کا بہتان جو وہ باندھتے تھے۔

۲۹.    اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے جنات کے کچھ افراد کو آپﷺ کی طرف متوجہ کیا تاکہ وہ غور سے قرآن سنیں۔ پس وہ اس جگہ پہنچے (جہاں قرآن پڑھا جا رہا تھا) تو (آپس میں کہنے لگے ) خاموش ہو کر سنو پس جب (قرآن) پڑھا جا چکا تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر لوٹے۔

۳۰.   انہوں نے کہا اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسٰیؑ ٰ کے بعد نازل کی گئی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے (اور جو) حق اور سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔

۳۱.    اے ہماری قوم! اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لے آؤ۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے گا۔

۳۲.   اور جو کوئی اللہ کی طرف بلانے والے کی آواز پر لبیک نہیں کہے گا تو وہ زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کرسکتا (اس کے قابو سے باہر نہیں نکل سکتا) اور نہ اللہ کے سوا اس کے لئے کوئی مددگار و سازگار ہے ایسے لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔

۳۳.   کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں ہے وہ اس پر قادر ہے کہ مُردوں کو زندہ کرے۔ ہاں بے شک وہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھتا ہے۔

۳۴.   اور جس دن کافر دوزخ کے سامنے پیش کئے جائیں گے (ان سے کہا جائے گا) کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں ہمیں قَسم ہے اپنے پروردگار کی! ارشاد ہو گا اپنے کفر و انکار کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو۔

۳۵.   (اے رسولﷺ) آپﷺ اسی طرح صبر کریں جس طرح اولوالعزم رسولوںؑ نے صبر کیا ہے اور ان کیلئے جلدی نہ کریں جس دن وہ دیکھیں گے (وہ عذاب) جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو وہ محسوس کریں گے کہ وہ (دنیا میں ) دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ بس یہ پیغام پہنچا دینا ہے۔ انجامِ کار ہلاک و برباد وہی ہوں گے جو فاسق و فاجر ہیں۔

٭٭

۴۷۔ سورۃ محمد

 

۱.      جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسرے لوگوں کو بھی) اللہ کے راستے سے روکا اس (اللہ) نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا۔

۲.     اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بھی کئے اور اس (قرآن) پر بھی ایمان لائے جو (حضرت) محمد ﷺ پر نازل کیا گیا ہے جو کہ ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو اللہ نے ان کی برائیوں کا کفارہ ادا کر دیا (برائیاں دور کر دیں ) اور ان کی حالت کو درست کر دیا۔

۳.     یہ اس لئے ہوا کہ جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے باطل کی پیروی کی اور جو ایمان لائے انہوں نے اپنے پروردگار کی طرف سے حق کی پیروی کی اسی طرح خدا لوگوں کے حالات و اوصاف بیان کرتا ہے۔

۴.     پس جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہو جائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ۔ یہاں تک کہ جب خوب خون ریزی کر چکو (خوب قتل کر لو) تو پھر ان کو مضبوط باندھ لو اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے )یا تو احسان کرو (رہا کر دو)یا فدیہ لے لو یہاں تک کہ جنگ میں اپنے ہتھیار ڈال دے (یہ حکم) اسی طرح ہے اور اگر خدا چاہتا تو خود ہی ان سے انتقام لے لیتا لیکن وہ تم لوگوں کے بعض کو بعض سے آزمانا چاہتا ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے تو اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔

۵.     اور (منزلِ مقصود کی طرف) ان کی راہنمائی کرے گا اور ان کی حالت کو درست کرے گا۔

۶.     اور ان کو بہشت میں داخل کرے گا جس کا وہ ان سے تعارف کرا چکا ہے۔

۷.     اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا (اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا)۔

۸.     اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا تو ان کیلئے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا۔

۹.     یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے اسے ناپسند کیا جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ پس اس (اللہ) نے ان کے سب اعمال اکارت کر دئیے۔

۱۰.    کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ دیکھتے کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جو ان سے پہلے تھے اللہ نے ان کو ہلاک کر دیا اور ان کافروں کیلئے بھی ایسے ہی انجام ہیں۔

۱۱.     یہ اس لئے ہے کہ اللہ اہلِ ایمان کا سرپرست ہے اور جو کافر ہیں ان کا کوئی سرپرست اور کارساز نہیں ہے۔

۱۲.    بے شک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ (دنیا میں ) بہرہ مند ہو رہے ہیں (عیش کر رہے ہیں ) اور اس طرح کھا رہے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں اور (ان کا آخری) ٹھکانہ دوزخ ہے۔

۱۳.    اور کتنی ہی ایسی بستیاں تھیں جو تمہاری اس بستی سے زیادہ طاقتور تھیں جس نے تمہیں نکالا ہے کہ ہم نے انہیں ہلاک کر دیا پس ان کا کوئی مددگار نہ تھا۔

۱۴.    کیا وہ جو اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل پر ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کی بد عملی اس کی نگاہ میں خوشنما بنا دی گئی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں ؟

۱۵.    وہ جنت جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی صفت یہ ہے کہ اس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جس میں تغیر نہیں ہوتا اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہیں بدلتا اور ایسے شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لئے لذیذ ہے اور ایسے شہد کی نہریں ہیں جو صاف شفاف ہے اور ان کیلئے وہاں ہر قسم کے پھل ہیں اور ان کے پروردگار کی طرف سے بخشش ہے کیا ایسے (پرہیزگار) لوگ ان لوگوں جیسے ہو سکتے ہیں جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور ان کو ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔

۱۶.    اور ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو (بظاہر) تمہاری طرف کان لگا کر (بات سنتے ہیں ) یہاں تک کہ جب آپ کے پاس سے باہر جاتے ہیں تو ان (خاص) لوگوں سے پوچھتے ہیں جن کو علم عطا کیا گیا ہے کہ انہوں (رسولﷺ) نے ابھی کیا کہا تھا؟ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔

۱۷.    اور جن لوگوں نے ہدایت طلب کی ہے اللہ ان کی ہدایت میں اور اضافہ کرتا ہے اور ان کو (ان کے حصے کی) پرہیزگاری عطا کرتا ہے۔

۱۸.    سو یہ لوگ تو بس اب قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ اچانک ان پر آ جائے تو اس کے آثار و علا مات تو آ ہی چکے ہیں اور جب وہ آ جائے گی تو پھر ان کو نصیحت حاصل کرنے کا موقع کہاں رہے گا؟

۱۹.    (اے رسولﷺ) خوب جان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور خدا سے اپنے ذنب اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی مغفرت طلب کریں۔ اللہ تمہاری گردش (چلنے پھر نے ) کی جگہ کو اور تمہارے ٹھکانے کو جانتا ہے۔

۲۰.    اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہتے ہیں کہ (جہاد کے بارے میں ) کوئی سورہ کیوں نازل نہیں کی جاتی؟ پس جب ایک محکم سورہ نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتل و قتال کا ذکر ہوتا ہے تو آپﷺ ان لوگوں کو دیکھئے گا کہ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے وہ آپﷺ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہو۔

۲۱.    ان کے لئے بہتر تو یہ تھا کہ اطاعت کرتے اور اچھی بات کہتے اور جب (جہاد کا) قطعی فیصلہ ہو جاتا تو اگر یہ اللہ سے (اپنے عہد میں ) سچے ثابت ہوتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا۔

۲۲.    پھر تم سے یہی توقع ہے کہ اگر تم حاکم بن جاؤ (تمہیں اقتدار مل جائے ) تو تم زمین میں فساد برپا کرو۔اور اپنی قرابتوں کو قطع کرو۔

۲۳.   یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور انہیں بہرا بنا دیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔

۲۴.   کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔

۲۵.   جو لوگ پیٹھ پھیر کر (کفر کی طرف) پیچھے پلٹ گئے بعد اس کے کہ ان پر ہدایت واضح ہو گئی تھی۔ شیطان نے انہیں فریب دیا اور انہیں دور دور کی سجھائی۔

۲۶.    یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے ان لوگوں سے کہا جو اللہ کی نازل کردہ (کتاب) کو ناپسند کرتے ہیں کہ ہم بعض معاملات میں تمہاری بات مان لیں گے اللہ ان کی راز داری کو جانتا ہے۔

۲۷.   اس وقت ان کا کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے ہوں گے۔

۲۸.   یہ سب اس وجہ سے ہو گا کہ انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جو اللہ کی ناراضی کا باعث تھی اور اس کی خوشنودی کو ناپسند کیا پس اللہ نے ان کے اعمال کو اکارت کر دیا۔

۲۹.    کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ کبھی ان کے (سینوں کے ) کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا۔

۳۰.   اگر ہم چاہیں تو وہ لوگ آپ کو دکھا دیں اور آپ انہیں علامتوں سے پہچان لیں اور (خاص کر) آپ انہیں ان کے اندازِ گفتگو سے تو ضرور پہچان لیں گے اور اللہ تم سب کے اعمال کو جانتا ہے۔

۳۱.    اور ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم (و ممیز) کریں اور تمہارے حالات کی جانچ کر لیں۔

۳۲.   بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسرے لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکا اور پیغمبر کی مخالفت کی بعد اس کے کہ ان پر ہدایت واضح ہو چکی تھی وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے (ہاں البتہ) اللہ ان کے اعمال کو اکارت کر دے گا۔

۳۳.   اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولﷺ کی اور (ان کی مخالفت کر کے ) اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔

۳۴.   بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روکا اور پھر وہ کفر ہی کی حالت میں مر گئے اللہ ان کو کبھی نہیں بخشے گا۔

۳۵.   پس تم کمزور نہ پڑو (اور ہمت نہ ہارو) اور (دشمن کو) صلح کی دعوت نہ دو حالانکہ تم ہی غالب رہو گے اور اللہ تمہارے اعمال (کے ثواب) میں ہرگز کمی نہیں کرے گا۔

۳۶.   یہ دنیا کی زندگی تو بس کھیل اور تماشا ہے اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو وہ (خدا) تمہیں تمہارے اجر عطا کرے گا اور تم سے تمہارے مال نہیں مانگے گا۔

۳۷.   اور اگر وہ تم سے وہ (مال) مانگے اور پھر اصرار بھی کرے تو تم بخل کرو گے اور وہ تمہارے دلی کینوں (اور دلی ناگواریوں ) کو ظاہر کر دے گا۔

۳۸.   ہاں تم ہی ایسے لوگ ہو کہ تمہیں دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں سے کچھ لوگ بُخل کرنے لگتے ہیں اور جو بُخل کرتا ہے وہ (دراصل) اپنے ہی نفس سے بُخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے البتہ تم (اس کے ) محتاج ہو اور اگر تم رُوگردانی کرو گے تو وہ تمہاری جگہ دوسری قوم کولے آئے گا پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے۔

٭٭

 

۴۸۔ سورۃ فتح

 

۱.      (اے رسولﷺ) بے شک ہم نے آپﷺ کو ایک فتحِ مبین (نمایاں فتح) عطا کی ہے۔

۲.     تاکہ اللہ ان (لوگوں کی نظر میں ) آپﷺ کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور آپ پر اپنی نعمت تام و تمام کرے اور آپﷺ کو منزلِ مقصود تک پہنچائے۔

۳.     اور تاکہ اللہ آپ کی زبردست مدد کرے۔

۴.     وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اہلِ ایمان کے دلوں میں سکون و اطمینان اتارا تاکہ وہ اپنے (پہلے ) ایمان کے ساتھ ایمان میں اور بڑھ جائیں اور آسمانوں اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔

۵.     (یہ اس لئے ہے ) تاکہ وہ مؤمن مَردوں اور مؤمن عورتوں کو ایسے بہشتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ ان کی برائیاں ان سے دور کر دے (ان کا کفارہ کر دے ) اور یہ اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے۔

۶.     اور تاکہ وہ (اللہ) منافق مَردوں اور منافق عورتوں، مشرک مَردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے بارے میں برے گمان کرتے ہیں برائی کی گردش انہی پر ہے اللہ ان پر غضبناک ہے اور ان پر لعنت کی ہے اور ان کیلئے جہنم تیار کر رکھی ہے اور وہ بہت برا انجام ہے۔

۷.     اور آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر اللہ ہی کے ہیں اور خدا (سب پر) غالب اور بڑا حکمت والا ہے۔

۸.     (اے رسولﷺ) بے شک ہم نے آپﷺ کو گواہ بنا کر اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

۹.     تاکہ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاؤ اور رسولﷺ کی مدد کرو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس (اللہ) کی تسبیح کرو۔

۱۰.    (اے رسولﷺ) جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ (دراصل) اللہ کی بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے پس جو (اس عہد کو) توڑے گا تو اس کے توڑنے کا وبال اسی کی ذات پر ہو گا اور جو اس عہد کو پورا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے تو اللہ اسے بڑا اجر عطا کرے گا۔

۱۱.     صحرائی عربوں میں سے جو (سفرِ حدیبیہ میں ) پیچھے چھوڑ دئیے گئے تھے وہ عنقریب کہیں گے کہ ہمارے مال اور اہل و عیال نے ہمیں مشغول رکھا (اس لئے آپﷺ کے ہمراہ نہ جا سکے ) تو آپﷺ ہمارے لئے (خدا سے ) بخشش کی دعا کیجئے ! وہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے آپﷺ کہیے ! کون ہے جو اللہ کے مقابلے میں تمہارے لئے کچھ اختیار رکھتا ہے؟ اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یا نفع پہنچانا چاہے بلکہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔

۱۲.    (اصل بات یہ ہے کہ) تم نے خیال کیا تھا کہ رسولﷺ اور اہلِ ایمان اب کبھی بھی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے بہت برے گمان کئے (اسی طرح) تم برباد ہو نے والی جماعت بن گئے۔

۱۳.    اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان نہ لائے تو ہم نے ان کافروں کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ (دوزخ) تیار کر رکھی ہے۔

۱۴.    اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کیلئے ہے جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۵.    جب تم (جنگِ خیبر میں ) غنیمتیں حاصل کرنے کیلئے چلو گے تو جو پیچھے چھوڑ دئیے گئے وہ ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اجازت دو کہ ہم آپ کے پیچھے آئیں وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی بات کو بدل دیں۔ آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ تم اب کبھی ہمارے پیچھے نہیں آ سکتے ! اللہ پہلے ہی ایسی بات کہہ چکا ہے اس پر وہ ضرور کہیں گے کہ بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو بلکہ یہ (کم عقل) بہت ہی کم بات سمجھتے ہیں۔

۱۶.    آپﷺ ان پیچھے والے صحرائی عربوں سے کہیے ! عنقریب تمہیں ایک سخت جنگجو قوم کے خلاف جہاد کیلئے بلایا جائے گا تم ان سے لڑو گے یا وہ اسلام لائیں گے پس اگر تم نے اطاعت کی تو اللہ تمہیں بہت اچھا اجر عطا کرے گا۔ اور اگر تم نے اسی طرح منہ موڑا جس طرح پہلے منہ موڑا تھا تو وہ تمہیں (دردناک) عذاب دے گا۔

۱۷.    اندھے پر کوئی مضائقہ نہیں ہے اور نہ ہی لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی گناہ اور جو خدا اور رسولﷺ کی اطاعت کرے گا۔ تو اللہ اسے ان بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہیں اور جو رُوگردانی کرے گا تو اسے دردناک عذاب دے گا۔

۱۸.    بے شک اللہ مؤمنین سے راضی ہوا جب کہ وہ درخت کے نیچے آپﷺ سے بیعت کر رہے تھے تو اس نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا۔ پس اس نے ان پر سکون و اطمینان نازل کیا اور انہیں انعام میں ایک قریبی فتح عنایت فرمائی۔

۱۹.    اور بہت سی غنیمتیں بھی جن کو وہ (عنقریب) حاصل کریں گے اللہ (ہر چیز) پر غالب ہے، بڑا حکمت والا ہے۔

۲۰.    اللہ نے تم سے (اور بھی) بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جن کو تم حاصل کرو گے پس یہ (فتحِ خیبر) تو اس نے فوری طور پر تمہیں دے دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دئیے تاکہ یہ مؤمنین کیلئے (ہماری قدرت و نصرت) کی ایک نشانی ہو جائے اور وہ تمہیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرے (اس پر چلائے )۔

۲۱.    اور غنیمتیں بھی ہیں جن پر تم ابھی قادر نہیں ہوئے اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے (اس کے قبضہ میں ہیں ) اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

۲۲.    اور اگر (یہ) کافر لوگ تم سے جنگ کرتے تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور پھر وہ (اپنے لئے ) کوئی حامی و مددگار نہ پاتے۔

۲۳.   یہی اللہ کا دستور ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے اور تم اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔

۲۴.   اور وہ (اللہ) وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں روک دئیے تھے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے بعد اس کے کہ تمہیں ان پر غلبہ عطا کر دیا تھا اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔

۲۵.   یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد الحرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی روکے رکھا کہ وہ اپنی قربانی کی جگہ نہ پہنچ سکے اور اگر (مکہ میں ) ایسے مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم نہیں جانتے (اور یہ خوف نہ ہوتا کہ) تم انہیں لاعلمی میں روند ڈالو گے اور پھر ان کی وجہ سے تم پر الزام آتا (تو جنگ نہ روکی جاتی) مگر روکی اس لئے گئی تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے اگر وہ (اہلِ ایمان) الگ ہو جاتے تو ہم ان (اہلِ مکہ) میں سے کافروں کو دردناک سزا دیتے۔

۲۶.    (وہ وقت یاد کرو) جب کافروں نے اپنے دلوں میں عصبیت پیدا کی اور عصبیت بھی جاہلیت والی اللہ نے اپنا سکون و اطمینان اپنے رسولﷺ اور اہلِ ایمان پر نازل فرمایا اور انہیں پرہیزگاری کی بات کا پابند رکھا کہ وہی اس کے زیادہ حقدار تھے اور اس کے اہل بھی اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔

۲۷.   اس بات کو جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے تو اس نے اس (تعبیرِ خواب) سے پہلے تمہیں ایک قریبی فتح عطا کر دی۔

۲۸.   وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے اور (اس بات کی) گواہی کیلئے اللہ کافی ہے۔

۲۹.    محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں تم انہیں دیکھو گے کہ وہ (کبھی) رکوع (اور کبھی) سجود کر رہے ہیں (اور) اللہ کے فضل و کرم اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں ان کی علامت ان کے چہروں پر سجدہ کے نشان سے نمایاں ہے ان کی توراۃ میں اور انجیل میں توصیف یوں ہے جیسے ایک کھیتی جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اس کو تقویت دی اور وہ مضبوط و موٹی ہوئی پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی وہ کسانوں کو خوش کرتی ہے تاکہ ان کے ذریعہ سے کفار کے دل جلائے اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، مغفرت اور بڑے اجرو ثواب کا وعدہ کر رکھا ہے۔

٭٭

 

۴۹۔ سورۃ الحجٰرات

 

۱.      اے ایمان والو! تم (کسی کام میں ) خدا اور رسولﷺ سے آگے نہ بڑھو (سبقت نہ کرو) اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔

۲.     اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیﷺ کی آواز پر بلند نہ کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اونچی آواز میں کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

۳.     جو لوگ رسولِ خداﷺ کے پاس (بات کرتے ہوئے ) اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کیلئے آزمایا ہے ان کے لئے مغفرت اور اجرِ عظیم ہے۔

۴.     اے رسولﷺ) جو لوگ آپ کو حجروں میں باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر عقل سے کام نہیں لیتے۔

۵.     اور اگر وہ اتنا صبر کرتے کہ آپ خود ان کے پاس باہر نکل کر آ جائیں تو یہ ان کیلئے بہتر ہوتا اور اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۶.     اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں نقصان پہنچا دو اور پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ۔

۷.     اور خوب جان لو کہ تمہارے درمیان رسولِ خداﷺ موجود ہیں اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کریں تو تم زحمت و مشقت میں پڑ جاؤ گے لیکن اللہ نے ایمان کو تمہارا محبوب بنایا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مرغوب بنایا (آراستہ کیا) اور کفر، فسق اور نافرمانی کو تمہارے نزدیک مبغوض بنایا (اور تم کو ان سے متنفر کیا) یہی لوگ راہِ راست پر ہیں۔

۸.     اللہ کے فضل و کرم اور اس کے انعام و احسان سے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔

۹.     اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر تعدی و زیادتی کرے تو تم سب ظلم و زیادتی کرنے والے سے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ حکمِ الٰہی کی طرف لوٹ آئے پس اگر وہ لوٹ آئے تو پھر تم ان دونوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

۱۰.    بے شک اہلِ اسلام و ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں تو تم اپنے دو بھائیوں میں صلح کراؤ اور اللہ (کی عصیاں کاری) سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

۱۱.     اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب کے ساتھ پکارو۔ ایمان لانے کے بعد فاسق کہلانا کتنا برا نام ہے اور جو توبہ نہیں کریں گے (باز نہیں آئیں گے ) وہی لوگ ظالم ہیں۔

۱۲.    اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے پرہیز کرو (بچو) کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور تجسس نہ کرو اور کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ اس سے تمہیں کراہت آتی ہے اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

۱۳.    اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد (آدمؑ) اور ایک عورت (حواؑ) سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہیں مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے یقیناً اللہ بڑا جاننے والا ہے، بڑا باخبر ہے۔

۱۴.    اعراب (صحرائی عرب) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں ان سے کہئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل ہوا ہی نہیں ہے اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو گے تو وہ (اللہ) تمہارے اعمال سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۵.    مؤمن تو پس وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر کبھی شک نہیں کیا اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد (بھی) کیا یہی لوگ سچے ہیں۔

۱۶.    آپﷺ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو اپنے دین سے آگاہ کرتے ہو؟ حالانکہ اللہ وہ کچھ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اللہ ہر شے کو جانتا ہے۔

۱۷.    (اے رسولﷺ) یہ لوگ اسلام لا کر آپﷺ پر احسان جتاتے ہیں کہئے تم اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتاؤ بلکہ تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان لانے کی ہدایت (توفیق) دی اگر تم (اپنے دعوائے ایمان میں ) سچے ہو۔

۱۸.    بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کے سب غیب جانتا ہے اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ وہ سب کچھ خوب دیکھ رہا ہے۔

٭٭

 

۵۰۔ سورۃ ق

 

۱.      ق۔

۲.     قَسم ہے با عظمت قرآن کی (پیغمبرِ اسلام ﷺ میرے سچے رسول ہیں ) لیکن ان لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ انہی میں سے ایک ڈرانے والا (رسول) ان کے پاسایا ہے تو کافر کہتے ہیں کہ یہ ایک عجیب چیز ہے۔

۳.     کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے (تو دوبارہ زندہ ہوں گے ) یہ تو بڑی بعید (از عقل) بات ہے۔

۴.     ہم خوب جانتے ہیں (ان اجزاء کو) جو زمین (کھا کر) ان میں سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس تو ایک ایسی کتاب ہے جس میں (سب کچھ) محفوظ ہے۔

۵.     بلکہ (دراصل بات تو یہ ہے کہ) انہوں نے (دینِ) حق کو جھٹلایا جبکہ وہ ان کے پاس آیا پس وہ ایک الجھی ہوئی بات میں مبتلا ہیں۔

۶.     کیا انہوں نے آسمان کی طرف نہیں دیکھا جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا ہے ؟ اور آراستہ کیا ہے جس میں کوئی رخنہ نہیں ہے۔

۷.     اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ گاڑ دئیے اور اس میں ہر قِسم کی خوشنما چیزیں اگائیں۔

۸.     ہر اس بندے کی بصیرت اور یاددہانی کے لئے جو اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔

۹.     اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا اور اس سے باغات اور کاٹے جانے والی کھیتی کا غلہ اگایا۔

۱۰.    اور کھجور کے بلند و بالا درخت جن میں تہہ بہ تہہ خوشے لگتے ہیں۔

۱۱.     بندوں کی روزی کے لئے اور ہم اس مردہ زمین کو زندہ کرتے ہیں اسی طرح (مردوں کا) زمین سے نکلنا ہو گا۔

۱۲.    ان سے پہلے نوحؑ کی قوم، اصحابِ رس اور ثمود نے جھٹلایا۔

۱۳.    نیز عاد، فرعون، لوطؑ کے بھائی۔

۱۴.    اور ایکہ والے اور تبع کی قوم ان سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا آخر میری وعید کے مستحق ہوئے۔

۱۵.    کیا ہم پہلی بار کی پیدائش سے تھک گئے ہیں ؟ (ایسا نہیں ہے ) بلکہ یہ لوگ ازسرِنو پیدائش کے بارے میں شبہ میں مبتلا ہیں۔

۱۶.    بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم وہ وسوسے جانتے ہیں جو اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم اس کی شہ رگ (حیات) سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔

۱۷.    جبکہ دو اخذ کرنے والے (کراماً کاتبین) ایک دائیں جانب بیٹھا ہے اور دوسرا بائیں جانب (اور ہر چیز کو لکھ رہے ہیں )۔

۱۸.    وہ کوئی لفظ بھی نہیں بولتا مگر یہ کہ اس کے پاس نگران تیار موجود ہوتا ہے۔

۱۹.    اور موت کی بے ہوشی حق کے ساتھ آ پہنچی۔ یہی وہ چیز ہے جس سے تو گریز کرتا رہتا تھا۔

۲۰.    اور صور پھونکا جائے گا یہی وعید کا دن ہو گا۔

۲۱.    اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ہانکنے والا اور ایک گواہ ہو گا۔

۲۲.    اے غافل) تو اس دن سے غفلت میں رہا تو (آج) ہم نے تیری آنکھوں سے تیرا پردہ ہٹا دیا سو آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے۔

۲۳.   اور اس کا (زندگی بھر کا) ساتھی کہے گا کہ جو میرے پاس تھا وہ حاضر ہے۔

۲۴.   تم دونوں جہنم میں جھونک دو ہر بڑے کافر کو جو(حق سے ) عناد رکھتا تھا۔

۲۵.   جو نیکی و خیرات سے بڑا روکنے والا، حد سے بڑھنے والا اور شک کرنے والا اور دوسروں کو شک میں ڈالنے والا تھا۔

۲۶.    جس نے اللہ کے ساتھ اوروں کو بھی خدا بنا رکھا تھا۔ پس اس کو سخت عذاب میں جھونک دو۔

۲۷.   اس کا ساتھی (شیطان) کہے گا اے ہمارے پروردگار! میں نے تو اسے سرکش نہیں بنایا تھا مگر وہ خود ہی سخت گمراہی میں تھا۔

۲۸.   ارشاد ہو گا میرے سامنے جھگڑا نہ کرو اور میں نے تو تمہیں پہلے عذاب سے ڈرایا تھا۔

۲۹.    میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی اور نہ ہی میں بندوں پر ظلم کرنے والا ہوں۔

۳۰.   وہ دن یاد کرو جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کیا تو بھر گئی ہے ؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟

۳۱.    اور جنت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گی اور دور نہیں ہو گی۔

۳۲.   یہ (جنت) وہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا (تم میں سے ) ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا (اور حدودِ الٰہی) کی بڑی حفاظت کرنے والا ہے۔

۳۳.   جو بِن دیکھے خدائے رحمٰن سے ڈرتا ہے اور ایسے دل کے سا تھ آیا ہے جو (خدا کی طرف) رجوع کرنے والا ہے۔

۳۴.   تم اس(جنت) میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ یہ (حیاتِ) ابدی کا دن ہے۔

۳۵.   وہاں ان کیلئے وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس تو (ان کے لئے ) اور بھی زیادہ ہے۔

۳۶.   اور ہم (کفارِ مکہ) سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو قوت و طاقت میں ان سے زیادہ طاقتور تھیں وہ (مختلف) شہروں میں گھومتے پھرتے تھے تو ان کو کوئی جائے پناہ ملی؟

۳۷.   اس میں بڑی عبرت و نصیحت ہے اس کے لئے جس کے پاس دل ہویا حضورِ قلب سے کان لگائے۔

۳۸.   بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو چھ دن میں پیدا کیا ہے اور ہم کو تھکان نے چھوا تک نہیں۔

۳۹.    وہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کیجئے اور سورج کے طلوع و غروب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے۔

۴۰.   اور رات کے کچھ حصے میں اس کی تسبیح کیجئے اور (نمازوں کا) سجدہ کرنے کے بعد بھی۔

۴۱.    اور غور سے سنو اس دن کا حال جب ایک منادی بہت قریب سے ندا دے گا۔

۴۲.   جس دن سب لوگ ایک زوردار آواز کو بالیقین سنیں گے وہی دن (قبروں سے ) نکلنے کا ہو گا۔

۴۳.   یقیناً ہم ہی جِلاتے ہیں ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف سب کی بازگشت ہے۔

۴۴.   اس دن زمین ان پر پھٹ جائے گی اور وہ تیز تیز برآمد ہوں گے یہ حشر (جمع کرنا) ہمارے لئے بالکل آسان ہے۔

۴۵.   جو کچھ لوگ کہتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں اور آپﷺ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں پس آپﷺ قرآن کے ذریعہ سے اسے نصیحت کریں جو میری تہدید سے ڈرے۔

٭٭

۵۱۔ سورۃ الذٰریٰت

 

 

۱.      قَسم ہے ان (ہواؤں ) کی جو گرد و غبار اڑاتی ہیں۔

۲.     پھر ان (بادلوں ) کی جو پانی کا بوجھ اٹھانے والے ہیں۔

۳.     پھر ان (کشتیوں ) کی جو دھیمی رفتار سے چلنے والی ہیں۔

۴.     پھر ان (فرشتوں کی) جو معاملہ کے تقسیم کرنے والے ہیں۔

۵.     بے شک تم سے جو وعدہ کیا گیا ہے وہ سچا ہے۔

۶.     اور بے شک جزا وسزا ضرور واقع ہو نے والی ہے۔

۷.     اور قَسم ہے راستوں والے آسمان کی۔

۸.     تم مختلف (بے جوڑ) باتوں میں پڑے ہوئے ہو۔

۹.     اس (دین) سے پھرتا وہی ہے جو (حق سے ) پھرا ہوا ہے۔

۱۰.    غارت ہوں اٹکل پچو باتیں بنانے والے۔

۱۱.     جو غفلت کے عالم میں مدہوش ہیں (بھولے پڑے ہیں )۔

۱۲.    وہ پوچھتے ہیں کہ جزا و سزا کا دن کب آئے گا؟

۱۳.    جس دن یہ لوگ آگ میں تپائے جائیں گے۔

۱۴.    اور) ان سے کہا جائے گا کہ اپنے فتنہ کا مزا چکھو یہی وہ عذاب ہے جس کی تم جلدی کیا کرتے تھے۔

۱۵.    بے شک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور باغوں میں ہوں گے۔

۱۶.    اور ان کا پروردگار جو کچھ انہیں عطا کرے گا وہ لے رہے ہوں گے بے شک وہ اس (دن) سے پہلے ہی (دنیا میں ) نیکوکار تھے۔

۱۷.    یہ لوگ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔

۱۸.    اور صبح سحر کے وقت مغفرت طلب کیا کرتے تھے۔

۱۹.    اور ان کے مالوں میں سے سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے محتاج سب کا حصہ تھا۔

۲۰.    اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے (ہماری قدرت کی) نشانیاں ہیں۔

۲۱.    اور خود تمہارے وجود کے اندر بھی۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟

۲۲.    اور آسمان میں تمہاری روزی بھی ہے اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ وعید کیا جاتا ہے۔

۲۳.   پس قَسم ہے آسمان و زمین کے پروردگار کی کہ یہ بات حق ہے جیسے کہ تم بو لتے ہو۔

۲۴.   (اے حبیبﷺ!) کیا آپ تک ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی ہے ؟

۲۵.   کہ جب وہ آپؑ کے پاس آئے تو سلام کیا آپؑ نے بھی (جواب میں ) سلام کیا۔ (پھر دل میں کہا) کچھ اجنبی لوگ ہیں۔

۲۶.    پس چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور (تھوڑی دیر میں ) ایک موٹا تازہ (بھنا ہوا) بچھڑا لے آئے۔

۲۷.   جسے مہمانوں کے سامنے پیش کیا (مگر جب انہوں نے ہاتھ نہ بڑھائے تو) کہا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟

۲۸.   (مگر جب انہوں نے پھر بھی کچھ نہ کھایا) تو آپؑ نے ان لوگوں سے اپنے اندر کچھ خوف محسوس کیا ان (مہمانوں نے ) کہا ڈرئیے نہیں ! اور پھر انہیں ایک صاحبِ علم بیٹے کی ولادت کی خوشخبری دی۔

۲۹.    پس آپؑ کی بیوی (سارہ) چیختی ہوئی آئی اور اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہا بوڑھی، بانجھ؟ (بچہ کس طرح ہو گا؟)

۳۰.   انہوں نے کہا! تمہارے پروردگار نے ایسا ہی کہا ہے بے شک وہ بڑا علیم و حکیم ہے۔

۳۱.    آپ (ابراہیمؑ) نے کہا اے فرستادو آخر تمہاری مہم کیا ہے ؟

۳۲.   انہوں نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم (قومِ لوطؑ) کی طرف بھیجے گئے ہیں۔

۳۳.   تاکہ ہم ان پر ایسے سنگ گل (سخت مٹی کے پتھر) برسائیں۔

۳۴.   جو آپؑ کے پروردگار کی طرف سے نشان زدہ ہیں حد سے بڑھنے والوں کیلئے۔

۳۵.   سو وہاں جتنے اہلِ ایمان تھے ہم نے ان کو نکال لیا۔

۳۶.   اور ہم نے ایک گھر کے سوا اور مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔

۳۷.   اور ہم نے اس (واقعہ) میں ایک نشانی چھوڑ دی ہے ان لوگوں کے لئے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔

۳۸.   اور جنابِ موسیٰؑ کے قصہ میں بھی (ایک نشانی ہے ) جبکہ ہم نے ان کو فرعون کے پاس ایک واضح سند کے ساتھ بھیجا۔

۳۹.    تو اس نے اپنی طاقت کے بِرتے پر رُوگردانی کی اور کہا کہ (یہ شخص) جادوگر ہے یا دیوانہ؟

۴۰.   انجامِ کار ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا درآنحالیکہ وہ قابلِ ملامت تھا۔

۴۱.    اور قبیلۂ عاد (کی داستان) میں بھی (نشانی موجود ہے ) جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے برکت ہوا بھیجی۔

۴۲.   جو جس چیز سے بھی گزرتی تھی اسے ریزہ ریزہ کر دیتی تھی۔

۴۳.   اور قبیلۂ ثمود کی سرگزشت میں بھی (ایک نشانی ہے ) جبکہ ان سے کہا گیا کہ تم ایک خاص وقت تک (دنیا کی نعمتوں ) سے فائدہ اٹھا لو۔

۴۴.   تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی تو ان کو ایک کڑک نے پکڑ لیا درآنحالیکہ وہ دیکھ رہے تھے۔

۴۵.   (اس کے بعد) وہ نہ تو کھڑے ہی ہو سکے اور نہ ہی اپنی کوئی مدافعت کر سکے۔

۴۶.   اور قومِ نوحؑ کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہوا) ہم نے اسے ہلاک کر دیا کیونکہ وہ بڑے نافرمان لوگ تھے۔

۴۷.   اور ہم نے آسمان کو (اپنی) قدرت سے بنایا اور بیشک ہم زیادہ وسعت دینے والے ہیں۔

۴۸.   اور ہم نے زمین کا فرش بچھایا تو ہم کتنے اچھے فرش بچھانے والے ہیں۔

۴۹.    اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے (ہر چیز کو دو دو قِسم کا بنایا) تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

۵۰.   بس تم اللہ کی طرف دوڑو۔ میں تمہیں اس سے کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔

۵۱.    اور اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا نہ بناؤ۔ بے شک میں تمہیں اس (کے قہر) سے کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔

۵۲.   اسی طرح وہ لوگ جو ان سے پہلے گزرے ہیں (ان کے پاس) کوئی ایسا رسول نہیں آیا جسے انہوں نے جادوگر یا دیوانہ نہ کہا ہو۔

۵۳.   اور کیا یہ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آرہے ہیں ؟ (نہیں ) بلکہ یہ لوگ سرکش ہیں۔

۵۴.   سو آپﷺ ان سے منہ پھیر لیجئے آپ پر کوئی الزام نہیں ہے۔

۵۵.   اور انہیں سمجھاتے رہیے کہ یہ یاددہانی ایمان والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

۵۶.   اور میں نے جِنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔

۵۷.   میں ان سے روزی نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔

۵۸.   بے شک اللہ بڑا روزی دینے والا ہے، قوت والا (اور) بڑا مضبوط ہے۔

۵۹.    جو لوگ ظالم ہیں ان کیلئے (عذاب کا) وہی حصہ ہے جیسا ان جیسوں کا تھا۔ پس وہ جلدی نہ کریں۔

۶۰.    انجامِ کار تباہی ہے کافروں کے لئے اس دن سے جس کا ان سے وعدہ وعید کیا جا رہا ہے۔

٭٭

 

۵۲۔ سورۃ الطور

 

۱.      قَسم ہے طور کی۔

۲.     اور ایک کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔

۳.     کھلے ورق میں۔

۴.     اور قَسم ہے اس گھر کی جو آباد ہے۔

۵.     اور اس چھت کی جو بلند ہے۔

۶.     اور اس سمندر کی جو موجزن ہے۔

۷.     بے شک تمہارے پروردگار کا عذاب واقع ہونے والا ہے۔

۸.     جس کو ٹالنے والا کوئی نہیں ہے۔

۹.     جس دن آسمان تھرتھرانے لگے گا۔

۱۰.    اور پہاڑ چلنے لگیں گے۔

۱۱.     پس تباہی ہو گی اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔

۱۲.    جو بے ہودہ اور فضول باتوں میں کھیل رہے ہیں۔

۱۳.    جس دن ان کو دھکیل دھکیل کر آتشِ دوزخ کی طرف لایا جائے گا۔

۱۴.    یہی ہے وہ آگ جسے تم جھٹلاتے تھے۔

۱۵.    کیا یہ(آگ) جادو ہے ؟ یا تمہیں نظر نہیں آتا؟

۱۶.    پس اس میں داخل ہو جاؤ! اب تم صبر کرو یا نہ کرو دونوں تمہارے حق میں برابر ہیں تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا تم کیا کرتے تھے۔

۱۷.    بے شک پرہیزگار لوگ باغہائے بہشت اور نعمتوں میں ہوں گے۔

۱۸.    وہ خوش و خرم ہوں گے ان نعمتوں سے جو ان کا پروردگار انہیں عطا فر مائے گا اور ان کا پروردگار انہیں دوزخ کے عذاب سے بچائے گا۔

۱۹.    (ارشاد ہو گا) کھاؤ اور پیو ، مبارک ہو! ان اعمال کے صلہ میں جو تم کرتے تھے۔

۲۰.    وہ بچھے ہوئے پلنگوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے اور ہم ان کی حور العین (یعنی گوری رنگت کی کشادہ چشم عورتوں ) سے شادی کر دیں گے۔

۲۱.    اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی اتباع (پیروی) کی تو ہم ان کی اولاد کو (جنت میں ) ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے اعمال میں کچھ بھی کمی نہیں کریں گے ہر شخص اپنے عمل کے بدلے میں گروی ہے۔

۲۲.    اور ہم انہیں پسند کے میوے اور گوشت دیتے رہیں گے۔

۲۳.   اور وہ وہاں ایسے جامِ شراب پر چھینا جھپٹی بھی کریں گے جس میں نہ کوئی لغو بات ہو گی اور نہ گنہگار ٹھہرانے کی۔

۲۴.   اور ان کے غلام (خدمت کیلئے ) چکر لگا رہے ہوں گے (جو حُسن و جمال میں ) گویا چھپے ہوئے موتی ہوں گے۔

۲۵.   وہ (جنتی) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم سوال و جواب کریں گے۔

۲۶.    وہ کہیں گے کہ ہم اس سے پہلے اپنے گھر بار میں (اپنے انجام سے ) ڈرتے رہتے تھے۔

۲۷.   پس اللہ نے ہم پر (اپنا) فضل و کرم فرمایا اور ہمیں گرم لو کے عذاب سے بچا لیا۔

۲۸.   بے شک ہم اس سے پہلے (دنیا میں ) بھی اسی سے دعا مانگا کرتے تھے یقیناً وہ بڑا احسان کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۲۹.    آپﷺ یاددہانی کرتے رہیے ! کہ آپ اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون۔

۳۰.   کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاعر ہیں (اور) ہم ان کے بارے میں گردشِ زمانہ کا انتظار کر رہے ہیں ؟

۳۱.    آپ کہئے ! کہ تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔

۳۲.   کیا ان کی عقلیں ان کو ان (فضول) باتوں کا حُکم دیتی ہیں یا یہ سرکش لوگ ہیں ؟

۳۳.   یا وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں (رسولﷺ) نے خود قرآن گھڑ لیا ہے بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) وہ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے۔

۳۴.   اگر وہ سچے ہیں تو پھر ایسا کلام لے آئیں۔

۳۵.   آیا وہ بغیر کسی (خالق) کے پیدا کئے گئے ہیں یا وہ خود (اپنے ) پیدا کرنے والے ہیں ؟

۳۶.   یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ؟ بلکہ وہ یقین ہی نہیں رکھتے۔

۳۷.   یا ان کے پاس آپﷺ کے پروردگار کے خزانے ہیں یا یہ ان پر حاکم (مجاز) ہیں ؟

۳۸.   یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے (جس پر چڑھ کر) وہ (آسمانی خفیہ باتیں ) سن لیتے ہیں ؟ (اگر ایسا ہے ) تو پھر ان کا سننے والا کوئی کھلی ہوئی دلیل پیش کرے۔

۳۹.    کیا اللہ کے لئے بیٹیاں ہیں اور تمہارے لئے بیٹے ؟

۴۰.   کیا آپ ان سے کوئی اجرت مانگتے ہیں کہ وہ تاوان کے بوجھ سے دبے جا رہے رہیں ؟

۴۱.    یا ان کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ (اس کی بناء پر) لکھتے جاتے ہیں ؟

۴۲.   یا وہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں ؟ تو جو لوگ کافر ہیں وہ خود اپنی چال کا شکار ہیں۔

۴۳.   یا اللہ کے سوا ان کا کوئی اور خدا ہے ؟ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو وہ کرتے ہیں۔

۴۴.   اور اگر وہ آسمان سے کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں تو کہتے ہیں کہ یہ تہہ در تہہ بادل ہے۔

۴۵.   پس انہیں (اپنے حال پر) چھوڑ دیجئے یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن تک پہنچ جائیں جس میں وہ غش کھا کر گر جائیں گے۔

۴۶.   جس دن ان کی کوئی چال ان کے کسی کام نہ آئے گی اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔

۴۷.   بے شک جو لوگ ظالم ہیں ان کیلئے اس سے پہلے (دنیا میں ) بھی ایک عذاب ہے لیکن ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں۔

۴۸.   آپﷺ اپنے پروردگار کے فیصلے کیلئے صبر کیجئے ! آپﷺ ہماری نظروں (نگہبانی) میں ہیں آپﷺ اپنے پروردگار کی تسبیح کیجئے اس کی حمد کے ساتھ۔

۴۹.    جس وقت آپﷺ اٹھتے ہیں اور رات کے کچھ حصہ میں بھی اس کی تسبیح کریں اور ستاروں کے پیچھے ہٹتے وقت بھی۔

٭٭

 

۵۳۔سورۃ النجم

 

۱.      قَسم ہے ستارے کی جبکہ وہ ڈوبنے لگے۔

۲.     کہ تمہارا یہ ساتھی (پیغمبرِ اسلامﷺ) نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔

۳.     اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔

۴.     وہ تو بس وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔

۵.     ان کو ایک زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔

۶.     جو بڑا صاحبِ قدرت (یا بڑا دانا و حکیم) ہے پھر (وہ اپنی اصلی شکل میں ) کھڑا ہوا۔

۷.     جبکہ وہ آسمان کے بلند ترین کنارہ پر تھا۔

۸.     پھر وہ قریب ہوا اور زیادہ قریب ہوا۔

۹.     یہاں تک دو کمان کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔

۱۰.    پس اس (اللہ) نے اپنے بندہ (خاص) کی طرف وحی کی جو وحی کی۔

۱۱.     (رسولﷺ کے ) دل نے جھوٹ نہیں کہا (جھٹلایا نہیں ) جو کچھ (مصطفٰیﷺ کی) آنکھ نے دیکھا۔

۱۲.    کیا تم لوگ آپﷺ سے اس بات پر جھگڑتے ہو جو کچھ انہوں نے دیکھا۔

۱۳.    اور آپﷺ نے ایک بار اور بھی۔

۱۴.    اترتے ہوئے سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا۔

۱۵.    جہاں جنت الماوی (آرام سے رہنے کا بہشت) ہے۔

۱۶.    جب کہ سدرہ پر چھا رہا تھا (وہ نور) جو چھا رہا تھا۔

۱۷.    نہ آنکھ چندھیائی اور نہ حدسے بڑھی۔

۱۸.    یقیناً آپﷺ نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔

۱۹.    کیا تم نے کبھی لات و عزیٰ۔

۲۰.    اور تیسرے منات کو کبھی دیکھا ہے (ان کی اصلیت میں غور کیا ہے ؟)

۲۱.    کیا تمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس(اللہ) کے لئے لڑکیاں ؟

۲۲.    یہ تقسیم تو بڑی ظالمانہ ہے۔

۲۳.   یہ نہیں ہیں مگر صرف چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں جس پر اللہ نے کوئی دلیل (سند) نہیں نازل کی یہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشاتِ نفس کی حالانکہ ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے ہدایت و رہنمائی آ چکی۔

۲۴.   کیا انسان کو وہ چیز مل سکتی ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے ؟

۲۵.   پس اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے آخرت بھی اور دنیا بھی (یعنی انجام بھی اور آغاز بھی)۔

۲۶.    اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتی مگر بعد اس کے کہ اللہ جس کے لئے چاہے اجازت دے اور پسند کرے۔

۲۷.   بے شک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

۲۸.   حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں ہے وہ مخصوص ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور ظنِ حق کے مقابلہ میں ذرا بھی کام نہیں دے سکتا۔

۲۹.    (اے رسولﷺ) آپ اس سے رُوگردانی کیجئے ! جو ہمارے ذکر سے رُوگردانی کرتا ہے اور جو زندگانیِ دنیا کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا۔

۳۰.   ان لوگوں کا مبلغ علم یہی ہے (ان کے علم کی رسائی کی حد یہی ہے ) آپﷺ کا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا کون ہے ؟ اور وہی بہتر جانتا ہے کہ راہِ راست پر کون ہے ؟

۳۱.    اور جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ اللہ ہی کا ہے تاکہ وہ برا کام کرنے والوں کو ان کے (برے ) کاموں کا بدلہ دے اور نیک کرنے والوں کو اچھی جزا عطا کرے۔

۳۲.   جو کہ بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں مگر یہ کہ کچھ ہلکے گناہ سر زد ہو جائیں۔ بے شک آپ کا پروردگار وسیع مغفرت والا ہے وہ تمہیں (اس وقت سے ) خوب جانتا ہے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں جنین کی صورت میں تھے پس تم اپنے آپ کی پاکی کے دعوے نہ کرو۔ وہ (اللہ) بہتر جانتا ہے کہ واقعی پرہیزگار کون ہے ؟

۳۳.   (اے رسولﷺ) کیا آپﷺ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے رُوگردانی کی۔

۳۴.   اس نے تھوڑا سا (مال) دیا اور پھر ہاتھ روک لیا۔

۳۵.   کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے پس وہ دیکھ رہا ہے ؟

۳۶.   کیا اسے اس بات کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰؑ کے صحیفوں میں ہے۔

۳۷.   اور اس ابراہیمؑ کے صحیفوں میں جس نے وفاداری کا حق ادا کر دیا۔

۳۸.   کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

۳۹.    اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔

۴۰.   اور اس کی سعی و کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔

۴۱.    اور پھر اسے پوری جزا دی جائے گی۔

۴۲.   اور یہ کہ سب کی انتہا آپﷺ کے پروردگار کی طرف ہے۔

۴۳.   بے شک وہی ہنساتا ہے اور رلاتا ہے۔

۴۴.   اور وہی مارتا ہے اور جِلاتا ہے۔

۴۵.   اور یہ کہ اسی نے نر اور مادہ کے جوڑے پیدا کئے۔

۴۶.   (وہ بھی) ایک نطفہ سے (جو رحم میں ) ٹپکایا جاتا ہے۔

۴۷.   اور بیشک دوبارہ پیدا کرنا اسی (اللہ) کے ذمہ ہے۔

۴۸.   اور یہ کہ وہی سرمایہ دار بناتا ہے اور وہی فقیر و نادار بناتا ہے۔

۴۹.    اور یہ کہ وہ شعریٰ نامی ستارے کا پروردگار ہے۔

۵۰.   اور یہ کہ اسی نے عادِ اول (قومِ ہود) کو ہلاک کیا۔

۵۱.    اور ثمود کو بھی اس طرح ہلاک کیا کہ کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔

۵۲.   اور ان سب سے پہلے قومِ نوحؑ کو بھی (برباد کیا) بے شک وہ بڑے ظالم اور بڑے سرکش تھے۔

۵۳.   (لوطؑ ) کی الٹی ہوئی ان (بستیوں ) کو بھی دے مارا۔

۵۴.   پس ان (بستیوں ) کو ڈھانک لیا اس (آفت) نے جس نے ڈھانک لیا۔

۵۵.   پس تو اے مخاطب اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں میں شک کرے گا۔

۵۶.   یہ (رسولﷺ) بھی ڈرانے والا ہے پہلے ڈرانے والے (رسولوںؑ ) سے۔

۵۷.   قریب آنے والی (قیامت) قریب آ گئی ہے۔

۵۸.   اللہ کے سوا اس کا کوئی ہٹانے والا نہیں ہے۔

۵۹.    کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو؟

۶۰.    اور ہنستے ہو اور روتے نہیں۔

۶۱.    اور تم غفلت میں مدہوش ہو۔

۶۲.    پس اللہ کے لئے سجدہ کرو اور(اسی کی) عبادت کرو۔

٭٭

 

۵۴۔ سورۃ القمر

 

۱.      (قیامت کی) گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔

۲.     اور اگر وہ کوئی نشانی (معجزہ) دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو مستقل جادو ہے (جو پہلے سے چلا آ رہا ہے )۔

۳.     اور انہوں نے (رسولﷺ کو) جھٹلایا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی اور ہر کام کا وقت مقرر ہے اور ثابت ہے۔

۴.     اور ان کے پاس ایسی (سابقہ قوموں کی) ایسی خبریں آ چکی ہیں جن میں (سرکشی کرنے والوں کیلئے ) کافی سامانِ عبرت ہے۔

۵.     یعنی نہایت اعلیٰ حکمت اور دانشمندی مگر تنبیہات (ان کو) کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔

۶.     (اے رسولﷺ) ان لوگوں سے رخ پھیر لیجئے جس دن ایک پکارنے والا ایک سخت ناگوار چیز کی طرف بلائے گا۔

۷.     (شدتِ خوف سے ) آنکھیں جھکائے ہوئے قبروں سے یوں نکل پڑیں گے کہ گویا بکھری ہوئی ہڈیاں ہیں۔

۸.     (دہشت سے ) گردنیں بڑھائے پکارنے والے کی طرف دوڑتے جا رہے ہوں گے (اس دن) کافر کہیں گے کہ یہ بڑا دشوار دن ہے۔

۹.     ان سے پہلے قومِ نوحؑ نے جھٹلایا سو انہوں نے ہمارے بندۂ خاص کو جھٹلایا اور ان پر جھوٹا ہو نے کا الزام لگایا اور اسے جھڑکا بھی گیا۔

۱۰.    آخر کار اس (نوحؑ) نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ میں مغلوب ہوں۔ لہٰذا تو (ان سے ) بدلہ لے۔

۱۱.     پس ہم نے موسلادھار بارش کے ساتھ آسمان کے دروازے کھول دئیے۔

۱۲.    اور ہم نے زمین سے چشمے جاری کر دئیے پس (دونوں ) پانی آپس میں مل گئے ایک کام کیلئے جو مقدر ہو چکا تھا۔

۱۳.    اور ہم نے اس (نوحؑ) کو تختوں اور میخوں والی (کشتی) پر سوار کیا۔

۱۴.    جو ہماری آنکھوں کے سا منے (ہماری نگرانی میں ) چلتی تھی اور (یہ سب کچھ) اس شخص (نوحؑ) کا بدلہ لینے کیلئے کیا گیا جس کی ناقدری کی گئی تھی۔

۱۵.    اور ہم نے اس کو نشانی کے طور پر باقی رکھا تو کوئی ہے نصیحت قبول کرنے والا؟

۱۶.    پس(دیکھو) کیسا تھا میرا عذاب اور میرا ڈراوا؟

۱۷.    بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کیلئے آسان بنا دیا ہے سو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔

۱۸.    قومِ عاد نے بھی (اپنے نبیؑ کو) جھٹلایا تو دیکھو کیسا تھا میرا عذاب اور میرے ڈراوے ؟

۱۹.    ہم نے ان پر تیز و تند آندھی بھیجی دائمی نحوست والے دن میں۔

۲۰.    وہ (آندھی) اس طرح آدمیوں کو اکھاڑ پھینکتی تھی کہ گویا وہ جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہیں۔

۲۱.    پس (دیکھو) کیسا تھا میرا عذاب اور میرے ڈراوے ؟

۲۲.    بلاشبہ ہم نے نصیحت حاصل کرنے کیلئے قرآن کو آسان بنا دیا تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟

۲۳.   قومِ ثمود نے ڈرانے والوں (پیغمبروں ) کو جھٹلایا۔

۲۴.   پس انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے شخص کی پیروی کریں جو ہم ہی میں سے ہے ؟ اس صورت میں تو ہم گمراہی اور دیوانگی میں پڑ جائیں گے۔

۲۵.   کیا ہم سب میں سے صرف اسی پر وحی نازل کی گئی ہے ؟ بلکہ وہ بڑا جھوٹا (اور) شیخی باز ہے۔

۲۶.    انہیں بہت جلد کل کلاں معلوم ہو جائے گا کہ کون بڑا جھوٹا (اور) شیخی باز ہے۔

۲۷.   ہم ایک (خاص) اونٹنی ان کی آزمائش کے لئے بھیج رہے ہیں پس تم (اے صالحؑ انجامِ کار) انتظار کرو اور صبر کرو۔

۲۸.   اور انہیں آگاہ کر دو کہ پانی ان کے درمیان تقسیم ہو گیا ہے اور ہر ایک اپنی باری پر حاضر ہو گا۔

۲۹.    پس ان لوگوں (یہودیوں ) نے اپنے ساتھی (قدار) کو پکارا پس اس نے (اونٹنی کو) پکڑ کر اس کی کونچیں کاٹ دیں۔

۳۰.   تو کیسا تھا میرا عذاب اور میرے ڈراوے ؟

۳۱.    ہم نے ان پر ایک ہی چنگھاڑ بھیجی تو وہ باڑھ لگانے والے کی روندی ہوئی باڑہ کی طرح ہو کر رہ گئے۔

۳۲.   اور ہم نے نصیحت حاصل کرنے کیلئے قرآن کو آسان بنا دیاتو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟

۳۳.   قومِ لوطؑ نے ڈرانے والوں کو جھٹلایا۔

۳۴.   ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا بھیجی صرف آلِ لوطؑ اس سے محفوظ رہے ہم نے سحر کے وقت ان کو نجات دی۔

۳۵.   خاص اپنے فضل و کرم سے ہم اسی طرح شکر کرنے والے کو جزا دیتے ہیں۔

۳۶.   بلاشبہ انہوں (لوطؑ) نے انہیں سخت گرفت سے ڈرایا تھا مگر وہ ڈرانے کے بارے میں شک میں مبتلا رہے (اور جھگڑتے رہے )۔

۳۷.   اور ان لوگوں نے ان کے مہمانوں کے بارے میں برے ارادہ سے ان پر ڈول ڈالے تو ہم نے ان کی آنکھیں موند دیں تو میرے عذاب اور ڈراوے کا مزہ چکھو۔

۳۸.   اور (پھر) صبح سویرے ان پر دائمی عذاب آ پہنچا۔

۳۹.    پس میرے عذاب اور ڈراوے کا مزہ چکھو۔

۴۰.   بے شک ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کیلئے آسان بنا دیا ہے کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟

۴۱.    اور فرعون والوں کے پاس بھی ڈرانے والے آئے۔

۴۲.   تو انہوں نے ہماری ساری نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں اس طرح پکڑا جس طرح کوئی زبردست اقتدار والا (طاقتور) پکڑتا ہے۔

۴۳.   کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (آسمانی) کتابوں میں معافی کا پروانہ لکھا ہوا ہے ؟

۴۴.   یا وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک ایسی جماعت ہیں جو غالب رہیں گے۔

۴۵.   عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔

۴۶.   بلکہ ان کے وعدہ کا اصل وقت تو قیامت ہے اور قیامت بڑی سخت (ہولناک) اور بڑی تلخ ہے۔

۴۷.   بے شک مجرم لوگ گمراہی اور دیوانگی میں مبتلا ہیں۔

۴۸.   جس دن یہ لوگ منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے (کہا جائے گا) اب آگ کا مزہ چکھو۔

۴۹.    بے شک ہم نے ہر چیز کو خاص اندازہ سے پیدا کیا ہے۔

۵۰.   اور ہمارا حکم نہیں ہوتا مگر ایک جو آنکھ جھپکنے میں واقع ہو جاتا ہے۔

۵۱.    بے شک ہم تمہارے ہم مشرب لوگوں کو ہلاک کر چکے ہیں تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟

۵۲.   اور جو کچھ ان لوگوں نے کیا تھا وہ سب نامۂ اعمال میں درج ہے۔

۵۳.   اور ہر چھوٹی اور بڑی بات (اس میں ) درج ہے۔

۵۴.   بے شک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور نہروں میں ہوں گے۔

۵۵.   صداقت و سچائی کے محل میں بڑی عظیم قدرت والے بادشاہ (خدا) کے حضور میں (مقرب ہوں گے )۔

٭٭

 

۵۵۔ سورۃ الرَّحمٰن

 

۱.      خدائے رحمٰن۔

۲.     نے قرآن کی تعلیم دی۔

۳.     اسی نے انسان کو پیدا کیا۔

۴.     اسی نے اسے بولنا (ما فی الضمیر بیان کرنا) سکھایا۔

۵.     سورج اور چاند ایک (خاص) حساب کے پابند ہیں۔

۶.     اور سبزیاں، بیلیں اور درخت (اسی کو) سجدہ کرتے ہیں۔

۷.     اس نے آسمان کو بلند کیا اور میزان (عدل) رکھ دی۔

۸.     تاکہ تم میزان (تولنے ) میں زیادتی نہ کرو۔

۹.     اور انصاف کے ساتھ ٹھیک طریقہ پر تولو اور وزن (تولنے ) میں کمی نہ کرو۔

۱۰.    اور اس نے زمین کو تمام مخلوق کیلئے بنایا۔

۱۱.     اس میں (ہر طرح کے ) میوے ہیں اور کھجور کے غلافوں والے درخت ہیں۔

۱۲.    اور بھوسہ والا اناج بھی اور خوشبودار پھول بھی۔

۱۳.    سو (اے جن و انس) تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۱۴.    اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔

۱۵.    اور جنات کو پیدا کیا آگ کے شعلہ سے۔

۱۶.    سو (اے جن و انس) تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۱۷.    وہی دونوں مشرقوں کا پروردگار ہے اور وہی دونوں مغربوں کا مالک و پروردگار ہے۔

۱۸.    سو (اے جن و انس) تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۱۹.    اسی نے دو دریا جاری کئے جو آپس میں مل رہے ہیں۔

۲۰.    ان دونوں کے درمیان ایک فاصلہ ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔

۲۱.    سو(اے جن و انس) تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۲۲.    ان دونوں دریاؤں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔

۲۳.   سو (اے جن و انس) تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۲۴.   اور اسی کے لئے وہ (جہاز) ہیں جو سمندروں میں پہاڑوں کی طرح اٹھے ہوئے ہیں۔

۲۵.   سو (اے جن و انس) تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۲۶.    جو بھی روئے زمین پر ہیں وہ سب فنا ہونے والے ہیں۔

۲۷.   اور آپﷺ کے پروردگار کی ذات باقی رہے گی جو عظمت و اکرام والی ہے۔

۲۸.   تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۲۹.    آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اسی سے (اپنی حاجتیں ) مانگتے ہیں وہ ہر روز (بلکہ ہر آن) ایک نئی شان میں ہے۔

۳۰.   پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۳۱.    اے جن وانس ہم عنقریب (تمہاری خبر لینے کیلئے ) تمہاری طرف متوجہ ہو نے والے ہیں۔

۳۲.   تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۳۳.   اے گروہِ جن و انس! اگر تم سے ہو سکے تو تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل جاؤ (لیکن) تم طاقت اور زور کے بغیر نہیں نکل سکتے۔

۳۴.   تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۳۵.   تم دونوں پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم اپنا بچاؤ نہ کر سکو گے۔

۳۶.   تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۳۷.   (اس وقت کیا حالت ہو گی) جب آسمان پھٹ جائے گا اور (رنگے ہوئے ) سرخ چمڑے کی طرح لال ہو جائے گا۔

۳۸.   تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۳۹.    پس اس دن کسی انسان یا جن سے اس کے گناہ کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا۔

۴۰.   تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۴۱.    مجرم اپنے چہروں (اپنی علامتوں ) سے پہچان لئے جائیں گے اور پھر پیشانیوں اور پاؤں سے پکڑے جائیں گے (اور جہنم میں پھینک دئیے جائیں گے )۔

۴۲.   سو تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۴۳.   یہی وہ دوزخ ہے جسے مجرم لوگ جھٹلایا کرتے تھے۔

۴۴.   وہ (مجرم) اس (دوزخ) اور اس کے انتہائی کھولتے ہوئے پانی کے درمیان گردش کرتے رہیں گے۔

۴۵.   پس اے جن و انس! سو تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۴۶.   اور جو شخص اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو باغ ہیں۔

۴۷.   پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟۔

۴۸.   دونوں باغ بہت سی شاخوں والے۔

۴۹.    پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں جھٹلاؤ گے ؟

۵۰.   ان دونوں باغوں میں دو چشمے جاری ہوں گے۔

۵۱.    پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۵۲.   ان دونوں باغوں میں ہر پھل کی دو قِسمیں ہوں گی۔

۵۳.   پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۵۴.   وہ ایسے بچھونوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے۔

۵۵.   پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۵۶.   اور دونوں باغوں کے تیار پھل (ان کے ) بہت ہی نزدیک ہوں گے۔

۵۷.   پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۵۸.   ان جنتوں میں نیچی نگاہ والی (حوریں ) ہوں گی جن کو ان (جنتیوں ) سے پہلے نہ کسی انسان نے چھوا ہو گا اور نہ کسی جن نے۔

۵۹.    پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۶۰.    وہ(حوریں ) ایسی ہوں گی جیسے یاقوت اور مرجان۔

۶۱.    پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۶۲.    نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہے ؟

۶۳.   پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۶۴.   ان دونوں باغوں کے علاوہ دو باغ اور بھی ہیں۔

۶۵.   پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۶۶.    دونوں گہرے سبز سیاہی مائل۔

۶۷.   پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۶۸.   ان دو باغوں میں دو چشمے ہوں گے جوش مارتے ہوئے۔

۶۹.    پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۷۰.   ان میں پھل، کھجور اور انار ہوں گے۔

۷۱.    پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۷۲.   ان میں اچھی سیرت و صورت والی (حوریں ) ہوں گی۔

۷۳.   پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۷۴.   ان (جنتیوں سے پہلے کسی انسان یا جن نے انہیں چھوا بھی نہیں ہو گا۔

۷۵.   پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۷۶.   وہ (جنتی لوگ) سبز رنگ کے بچھونوں اور خوبصورت گدوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔

۷۷.   پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۷۸.   بابرکت ہے تمہارے پروردگار کا نام جو بڑی عظمت اور کرا مت والا ہے۔

٭٭

۵۶۔ سورۃ الواقعۃ

 

 

۱.      جب واقعہ ہو نے والی (قیامت) واقع ہو جائے گی۔

۲.     جس کے واقع ہو نے میں کوئی جھوٹ نہیں ہے۔

۳.     وہ (کسی کو) پست کرنے والی اور (کسی کو) بلند کرنے والی ہو گی۔

۴.     جب زمین بالکل ہلا ڈالی جائے گی۔

۵.     اور پہاڑ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔

۶.     (اور) پراگندہ غبار کی طرح ہو جائیں گے۔

۷.     اور تم لوگ تین قسم کے ہو جاؤ گے۔

۸.     پس (ایک قِسم) دائیں ہاتھ والوں کی ہو گی وہ دائیں ہاتھ والے کیا اچھے ہیں ؟

۹.     اور(دوسری قِسم) بائیں ہاتھ والوں کی ہو گی اور بائیں ہاتھ والے کیا برے ہیں ؟

۱۰.    اور (تیسری قِسم) سبقت کرنے والوں کی ہو گی وہ تو سبقت کرنے والے ہی ہیں۔

۱۱.     وہی لوگ خاص مقرب (بارگاہ) ہیں۔

۱۲.    (یہ لوگ) عیش و آرام کے باغوں میں ہوں گے۔

۱۳.    ان کی بڑی جماعت اگلوں میں سے ہو گی۔

۱۴.    اور بہت تھوڑے پچھلوں میں سے ہوں گے۔

۱۵.    مرصع تختوں پر تکیہ لگائے۔

۱۶.    آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

۱۷.    ان کے پاس ایسے غلمان (نوخیز لڑکے ) ہوں گے جو ہمیشہ غلمان ہی رہیں گے۔

۱۸.    (شرابِ طہور سے بھرے ہوئے ) آبخورے، آفتابے اور پاک و صاف شراب کے پیالے (یعنی جام، صراحی سبو و ساغر) لئے گردش کر رہے ہوں گے۔

۱۹.    جس سے نہ دردِ سر ہو گا اور نہ عقل میں فتور آئے گا۔

۲۰.    اور وہ (غلمان) طرح طرح کے پھل پیش کریں گے وہ جسے چاہیں چن لیں۔

۲۱.    اور پرندوں پرندوں کے گوشت بھی جس کی وہ خواہش کریں گے۔

۲۲.    (اور ان کیلئے ) گوری رنگت والی غزال چشم حوریں بھی ہوں گی۔

۲۳.   جو چھپا کر رکھے ہوئے موتیوں کی طرح (حسین) ہوں گی۔

۲۴.   یہ سب کچھ ان کے ان اعمال کی جزا ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔

۲۵.   وہ اس میں کوئی فضول اور گناہ والی بات نہیں سنیں گے۔

۲۶.    مگر صرف سلام و دعا کی آواز آئے گی۔

۲۷.   اور وہ دائیں ہاتھ والے اور وہ دائیں والے کیا اچھے ہیں۔

۲۸.   وہ ایسی بیری کے درختوں میں ہوں گے جن میں کانٹے نہیں ہوں گے۔

۲۹.    اور تہہ بہ تہہ کیلوں میں۔

۳۰.   اور (دور تک) پھیلے ہوئے سایوں میں۔

۳۱.    اور بہتے ہوئے پانی میں۔

۳۲.   اور بہت سے پھلوں میں۔

۳۳.   جو نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ کوئی روک ٹوک ہو گی۔

۳۴.   اور اونچے بچھونوں پر ہوں گے۔

۳۵.   ہم نے (حوروں ) کو خاص نئے سرے سے پیدا کیا ہے۔

۳۶.   پھر ان کو کنواریاں بنایا ہے۔

۳۷.   (اور) پیار کرنے والیاں اور ہم عمر ہیں۔

۳۸.   یہ سب نعمتیں دائیں ہاتھ والوں کے لئے ہیں۔

۳۹.    ایک بڑی جماعت اگلوں میں سے۔

۴۰.   اور ایک بڑی جماعت پچھلوں میں سے ہے۔

۴۱.    اور بائیں ہاتھ والے اور کیا برے ہیں بائیں ہاتھ والے۔

۴۲.   وہ لو کی لپٹ (سخت تپش) اور کھولتے ہوئے پانی۔

۴۳.   اور سیاہ دھوئیں کے سایہ میں ہوں گے۔

۴۴.   جو نہ ٹھنڈا ہو گا اور نہ نفع بخش۔

۴۵.   (کیونکہ) وہ اس سے پہلے (دنیا میں ) خوشحال (اور عیش و عشرت میں ) تھے۔

۴۶.   اور وہ بڑے گناہ پر اصرار کرتے تھے۔

۴۷.   اور کہتے تھے کہ جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟

۴۸.   اور کیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی (اٹھائے جائیں گے ؟)

۴۹.    آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ بے شک اگلے اور پچھلے۔

۵۰.   سب ایک دن کے مقرر وقت پر اکٹھے کئے جائیں گے۔

۵۱.    پھر تم اے گمراہو اور جھٹلانے والو۔

۵۲.   تم (تلخ ترین درخت) زقوم سے کھاؤ گے۔

۵۳.   اور اسی سے (اپنے ) پیٹ بھرو گے۔

۵۴.   اور اوپر سے کھولتا ہوا پانی پیو گے۔

۵۵.   جس طرح سخت پیاسے اونٹ (بے تحاشا) پانی پیتے ہیں۔

۵۶.   جزا و سزا کے دن یہ ان کی مہمانی ہو گی۔

۵۷.   ہم نے ہی تمہیں پیدا کیا ہے پھر تم (قیامت کی) تصدیق کیوں نہیں کرتے ؟

۵۸.   کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ جو نطفہ تم ٹپکاتے ہو۔

۵۹.    کیا تم اسے (آدمی بنا کر) پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔

۶۰.    ہم نے ہی تمہارے درمیان موت (کا نظام) مقرر کیا ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں۔

۶۱.    کہ ہم تمہاری جگہ تم جیسے اور لوگ پیدا کر دیں اور تم کو ایسی صورت میں (یا ایسے عالَم میں ) پیدا کر دیں جس کو تم نہیں جانتے۔

۶۲.    اور تم (اپنی) پہلی پیدائش کو تو جانتے ہی ہو پھر نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے ؟

۶۳.   کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ تم جو کچھ (بیج) بوتے ہو۔

۶۴.   کیا تم اس کو اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔

۶۵.   اگر ہم چاہیں تو اس (پیداوار) کو (خشک کر کے ) چُورا چُورا کر دیں تو تم باتیں بناتے رہ جاؤ۔

۶۶.    کہ ہم پر تاوان پڑ گیا۔

۶۷.   بلکہ ہم بالکل محروم ہو گئے۔

۶۸.   کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ وہ پانی جو تم پیتے ہو۔

۶۹.    کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے یا ہم (اس کے ) اتارنے والے ہیں ؟

۷۰.   اگر ہم چاہتے تو اسے سخت بھاری بنا دیتے پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے ؟

۷۱.    کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ وہ آگ جو تم سلگاتے ہو۔

۷۲.   آیا تم نے اس کا درخت پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔

۷۳.   ہم نے ہی اسے یاددہانی کا ذریعہ اور مسافروں کیلئے فائدہ کی چیز بنایا ہے۔

۷۴.   پس تم اپنے عظیم پروردگار کے نام کی تسبیح کرو۔

۷۵.   پس میں ستاروں کے (ڈوبنے کے ) مقامات کی قَسم کھاتا ہوں۔

۷۶.   اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قَسم ہے۔

۷۷.   بے شک یہ قرآن بڑی عزت والا ہے۔

۷۸.   نگاہوں سے پوشیدہ ایک کتاب کے اندر ہے۔

۷۹.   اسے پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا۔

۸۰.   یہ تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے نازل کردہ ہے۔

۸۱.    کیا تم اس کتاب سے بے اعتنائی کرتے ہو؟

۸۲.   اور تم نے اپنے حصہ کی روزی یہی قرار دی ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو۔

۸۳.   (اگر تم کسی کے محکوم نہیں ) تو جب (مرنے والے کی) روح حلق تک پہنچ جاتی ہے۔

۸۴.   اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو۔

۸۵.   اور اس وقت ہم تم سے زیادہ مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں مگر تم دیکھتے نہیں۔

۸۶.   پس اگر تمہیں کوئی جزا و سزا ملنے والی نہیں ہے۔

۸۷.   تو پھر اس (روح) کو کیوں واپس لوٹا نہیں لیتے اگر تم (اس انکار میں ) سچے ہو۔

۸۸.   پس اگر وہ (مرنے والا) مقربین میں سے ہے۔

۸۹.    تو اس کے لئے راحت، خوشبودار عذاب اور نعمت بھری جنت ہے۔

۹۰.    اور اگر وہ اصحاب الیمین میں سے ہے (تواس سے کہا جاتا ہے )۔

۹۱.    تمہارے لئے سلامتی ہو تو اصحاب الیمین میں سے ہے۔

۹۲.    اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہے۔

۹۳.    تو پھر اس کی مہمانی کھولتے ہوئے پانی سے ہو گی۔

۹۴.    اور دوزخ کی تپش (اور) اس میں داخلہ ہے۔

۹۵.    (جو کچھ بیان ہوا) بے شک یہ حق الیقین (قطعی حق) ہے۔

۹۶.    پس اپنے عظیم پروردگار کے نام کی تسبیح کرو۔

٭٭

۵۷۔ سورۃ الحدید

 

۱.      ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے وہ (ہر چیز پر) غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۲.     آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کے لئے ہے وہی حیات دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

۳.     وہی اول ہے اور وہی آخر، وہی ظاہر ہے اور وہی باطن اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

۴.     وہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر غالب ہوا (اپنا اقتدار قائم کیا) وہ اسے بھی جانتا ہے جو زمین کے اندر داخل ہوتا ہے اور اسے بھی جو اس سے باہر نکلتا ہے اور اسے بھی جانتا ہے جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس کی طرف چڑھتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں بھی ہو اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔

۵.     آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کیلئے ہے اور تمام معاملات کی باز گشت اللہ ہی کی طرف ہے۔

۶.     وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور وہ دلوں کے بھیدوں کو خوب جانتا ہے۔

۷.     اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاؤ اور اس (مال) میں سے (اس کی راہ میں ) خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں (دوسروں ) کا جانشین بنایا ہے پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور (مال) خرچ کیا ان کیلئے بڑا اجر ہے۔

۸.     تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ (اس کا) رسول تمہیں بلا رہا ہے کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ اور وہ (اللہ) تم سے عہد و پیمان لے چکا ہے اگر تم مؤمن ہو۔

۹.     وہ وہی ہے جو اپنے بندۂ خاص پر واضح آیات نازل کرتا ہے تاکہ تمہیں (کفر و شرک) کی تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی کی طرف لے آئے اور بے شک اللہ تم پر بڑا مہربان ہے۔

۱۰.    اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم (اپنے مال) اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی میراث (ترکہ) اللہ ہی کیلئے ہے تم میں سے جنہوں نے فتح (مکہ) سے پہلے مال خرچ کیا اور جنگ کی وہ اور وہ جنہوں نے فتحِ مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جنگ کی برابر نہیں ہو سکتے (بلکہ پہلے والوں کا) درجہ بہت بڑا ہے اگرچہ اللہ نے دونوں سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے بڑا باخبر ہے۔

۱۱.     کون ہے جو اللہ کو قرضۂ حسنہ دے تاکہ وہ اسے اس کے لئے (کئی گنا) بڑھائے اور اس کے لئے بہترین اجر ہے۔

۱۲.    جس دن تم دیکھو گے کہ مؤمن مَردوں اور مؤمن عورتوں کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا آج تمہیں مبارک ہو ان باغہائے بہشت کی جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ہمیشہ ان میں رہو گے یہی وہ کامیابی ہے۔

۱۳.    جس دن منافق مَرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے کہ ذرا ہمارا انتظار کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کر لیں (ان سے کہا جائے گا کہ) تم پیچھے کی (دنیا میں ) لوٹ جاؤ پھر وہیں روشنی تلاش کرو پس ان کے اور اہلِ ایمان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس کا ایک دروازہ ہو گا اس کے اندر کی طرف رحمت ہو گی اور اس کے باہر کے طرف عذاب ہو گا۔

۱۴.    وہ (منافق) اہلِ ایمان کو پکاریں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ وہ کہیں گے ہاں تھے مگر تم نے اپنے آپ کو فتنہ (گمراہی) میں ڈالا اور (ہمارے بارے میں گردشوں کا) انتظار کیا (کہ نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے ) اور شک و شبہ میں مبتلا رہے اور جھوٹی امیدوں نے تمہیں دھوکہ دیا یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آ گیا اور دھوکہ باز (شیطان) نے تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ میں رکھا۔

۱۵.    پس آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان سے جنہوں نے کفر کیا تم سب کا ٹھکانہ آتشِ دوزخ ہے وہی تمہارے لئے اولیٰ اور (سزوار) ہے وہ بہت بری جائے بازگشت ہے۔

۱۶.    کیا اہلِ ایمان کیلئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا کی یاد اور (خدا کے ) نازل کردہ حق کیلئے نرم ہوں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پس ان پر طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوئے اور (آج) ان میں سے اکثر فاسق (نافرمان) ہیں۔

۱۷.    خوب جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کرتا ہے اس کی موت کے بعد اور ہم نے اپنی آیات تمہارے لئے واضح طور پر بیان کر دی ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو۔

۱۸.    بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضۂ حسنہ دیا ان کیلئے اس میں (کئی گنا) اضافہ کر دیا جائے گا اور ان کیلئے بہترین اجر ہے۔

۱۹.    اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوںؑ پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کیلئے ان کا اجر اور ان کا ثواب ہے اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخ والے ہیں۔

۲۰.    اور خوب جان لو کہ دنیا کی زندگی کھیل تماشہ، ظاہری زیب و زینت، باہمی فخر و مباہات اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس (کے عارضی ہو نے ) کی مثال ایسی ہے جیسے بارش کہ اس کی نباتات (پیداوار) کافروں (کسانوں ) کو حیرت میں ڈال دیتی ہے پھر وہ خشک ہو کر پکنے لگتی ہے تو تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی ہے پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اور (کفار کیلئے ) آخرت میں سخت عذاب ہے اور (مؤمنین کیلئے ) اللہ کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیاوی زندگی دھوکے کے ساز و سامان کے سوا کچھ نہیں ہے۔

۲۱.    ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی چوڑائی کے برابر ہے جو ان لوگوں کیلئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوںؑ پر ایمان لائیں اور یہ اللہ کا فضل و کرم ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑا ہی فضل والا ہے۔

۲۲.    کوئی بھی مصیبت زمین میں آتی ہے اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب (لوحِ محفوظ) میں لکھی ہوئی ہوتی ہے قبل اس کے کہ ہم ان (جانوں ) کو پیدا کر دیں بیشک یہ بات اللہ کیلئے آسان ہے۔

۲۳.   (یہ سب اس لئے ہے ) تاکہ جو چیز تم سے کھو جائے اس پر افسوس نہ کرو اور جو کچھ وہ (اللہ) تمہیں دے اس پر اِتراؤ نہیں کیونکہ اللہ ہر اِترانے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

۲۴.   جو خود بُخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بُخل کا حکم دیتے ہیں اور جو (احکامِ الٰہی سے ) رُوگردانی کرے تو بے شک اللہ بے نیاز ہے (اور) سِتُودہ صفات ہے۔

۲۵.   یقیناً ہم نے اپنے رسولوںؑ کو کھلی ہوئی دلیلوں (معجزوں ) کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا نازل کیا (پیدا کیا) جس میں بڑی قوت ہے (اور شدید ہیبت ہے ) اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں تاکہ اللہ دیکھے کہ کون دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوںؑ کی کون مدد کرتا ہے ؟ بے شک اللہ بڑا طاقتور (اور) زبردست ہے۔

۲۶.    اور بے شک ہم نے نوحؑ اور ابراہیمؑ کو رسول بنا کر بھیجا اور ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب قرار دی (جاری کر دی) پس ان میں سے بعض تو ہدایت یافتہ ہیں اور ان میں اکثر فاسق (بدکا ر) ہیں۔

۲۷.   پھر ہم نے انہی کے نقشِ قدم پر اپنے اور رسولؑ بھیجے اور انہی کے پیچھے عیسیٰؑ بن مریمؑ کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا کی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور رحمت رکھ دی اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کی ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ ہاں البتہ انہوں نے اسے خدا کی خوشنودی کی خاطر اسے اختیار کیا تھا پھر انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی تو جو لوگ ان میں ایمان لائے ہم نے ان کو ان کا اجر عطا کیا اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق (نافرمان) ہیں۔

۲۸.   اے ایمان والو! اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو اور اس کے رسولؑ پر (کماحقہٗ) ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصے عطا فر مائے گا اور تمہیں وہ نور عطا کرے گا کہ جس کی روشنی میں تم چلو گے اور (تمہارے قصور) تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۲۹.    تاکہ اہلِ کتاب یہ نہ جانیں کہ یہ لوگ (مسلمان) اللہ کے فضل میں سے کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں رکھتے اور یہ کہ فضل اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔

٭٭

۵۸۔ سورۃ المجادلۃ

 

۱.      بے شک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو اپنے شوہر کے بارے میں آپﷺ سے بحث و تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے شکوہ و شکایت کر رہی ہے اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔

۲.     تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ہیں (کیونکہ) ان کی مائیں تو بس وہی ہیں جنہوں نے انہیں جَنا ہے البتہ یہ لوگ ایک بہت بری بات اور جھوٹ کہتے ہیں اور بلاشبہ اللہ بڑا درگزر کرنے والا، بڑا بخشنے والا ہے۔

۳.     اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں اور پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو قبل اس کے کہ باہمی ازدواجی تعلق قائم کریں (شوہر کو) ایک غلام آزاد کرنا ہو گا۔ یہ بات ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

۴.     اور جو شخص (غلام) نہ پائے تو جنسی تعلق قائم کرنے سے پہلے دو ماہ پے در پے (لگاتار) روزے رکھنا ہوں گے اور جو اس پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے یہ اس لئے کہ تم اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاؤ (تمہارا ایمان راسخ ہو) یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور کافروں کیلئے دردناک عذاب ہے۔

۵.     بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کرتے ہیں وہ اسی طرح ذلیل و خوار ہوں گے جس طرح وہ (مخالف) لوگ ذلیل و خوار ہوئے جو ان سے پہلے تھے اور ہم نے کھلی ہوئی آیتیں نازل کر دی ہیں اور کافروں کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔

۶.     جس دن اللہ ان سب کو زندہ کر کے اٹھائے گا تو انہیں بتائے گا جو کچھ انہوں نے کیا تھا اللہ نے تو (ان کے اعمال کو) محفوظ رکھا مگر وہ بھول گئے اور اللہ ہر چیز پر شاہد ہے۔

۷.     کیا تم نے نہیں دیکھا (غور نہیں کیا) کہ اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے کہیں بھی تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی ہوتی ہے مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ مگر یہ کہ وہ جہاں بھی ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے پھر وہ قیامت کے دن انہیں بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے ؟ یقیناً اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔

۸.     کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنہیں (اسلام کے خلاف) سرگوشیاں کرنے سے منع کیا گیا تھا وہ پھر وہی کام کرتے ہیں جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور وہ گناہ، ظلم و زیادتی اور رسولﷺ کی نافرمانی کی سرگوشیاں (خفیہ میٹنگیں ) کرتے ہیں اور جب آپﷺ کے پاس آتے ہیں تو آپﷺ کو کس طرح سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے آپﷺ کو سلام نہیں کیا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ (اگر یہ برحق نبیﷺ ہیں تو) اللہ ہماری ان باتوں پر ہم پر عذاب کیوں نازل نہیں کرتا؟ ان کے لئے جہنم کافی ہے جس میں وہ پڑیں گے (اور اس کی تپش اٹھائیں گے ) سو وہ کیا برا ٹھکانہ ہے ؟

۹.     اے ایمان والو! تم جب کوئی سرگوشی (خفیہ بات) کرو تو گناہ، ظلم و زیادتی اور رسولﷺ کی نافرمانی کے بارے میں سرگوشی نہ کرو بلکہ نیکی کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی سرگوشی کرو اور اللہ (کی نافرمانی سے ) ڈرو جس کے پاس جمع کئے جاؤ گے۔

۱۰.    (کافروں کی یہ) سرگوشی شیطان کی طرف سے ہے تاکہ وہ اہلِ ایمان کو رنج و غم پہنچائے حالانکہ وہ اللہ کے اذن کے بغیر انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ایمان والوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔

۱۱.     اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (آنے والوں کیلئے ) مجلسوں میں جگہ کشادہ کرو تو کشادہ کر دیا کرو اللہ تمہیں کشادگی دے گا اور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو اللہ ان لوگوں کے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے در جے بلند کرتا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے بڑا باخبر ہے۔

۱۲.    اے ایمان والو! جب تم پیغمبر سے تنہائی میں کوئی بات کرنا چاہو تو اپنی اس رازدارانہ بات سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اور پاکیزہ تر ہے اور اگر اس کے لئے کچھ نہ پاؤ تو بلاشبہ اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

۱۳.    کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ (رسولﷺ سے ) تنہائی میں بات کرنے سے پہلے صدقہ دو! اب جبکہ تم نے ایسانہیں کیا اور اللہ نے تمہاری توبہ قبول کر لی تو بس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ و اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔

۱۴.    کیا تم نے ایسے لوگوں کو نہیں دیکھا جو ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ نے غضب نازل کیا ہے وہ نہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے ہیں اور وہ جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹی بات پر قَسمیں کھاتے ہیں۔

۱۵.    اللہ نے ان کیلئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے بے شک یہ لوگ بہت برے کام کرتے ہیں۔

۱۶.    انہوں نے اپنی قَسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے پس وہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں تو ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔

۱۷.    ان کے مال اور ان کی اولاد انہیں ذرا بھی اللہ (کے عذاب) سے نہیں بچا سکیں گے یہ لوگ دوزخ والے ہیں وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔

۱۸.    جس دن اللہ ان سب کو (دوبارہ) اٹھائے گا تو وہ اس کے سامنے بھی اسی طرح قَسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے کھاتے ہیں اور خیال کریں گے کہ وہ کسی چیز (بنیاد) پر ہیں خبردار! یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں۔

۱۹.    شیطان نے ان پر غلبہ پا لیا ہے اور اس نے انہیں خدا کی یاد بھُلا دی ہے یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں آگاہ ہو کہ شیطانی گروہ ہی گھاٹا اٹھانے والا ہے۔

۲۰.    جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل ترین لوگوں میں سے ہیں۔

۲۱.    اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسولﷺ ہی غالب آ کر رہیں گے بے شک اللہ طاقتور (اور) زبردست ہے۔

۲۲.    تم کوئی ایسی قوم نہیں پاؤ گے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو (اور پھر) وہ دوستی رکھے ان لوگوں سے جو خدا و رسولﷺ کے مخالف ہیں اگرچہ وہ (مخالف) ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی ہی ہوں یا ان کے قبیلے والے یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی ایک خاص روح سے ان کی تائید کی ہے اور انہیں ایسے باغہائے بہشت میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں یہ لوگ اللہ کا گروہ ہیں آگاہ رہو کہ اللہ کا گروہ ہی فلاح پانے والا (اور کامیاب ہونے والا) ہے۔

٭٭

۵۹۔ سورۃ الحشر

 

۱.      اللہ ہی کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور وہ زبردست، بڑا حکمت والا ہے۔

۲.     وہ وہی ہے جس نے اہلِ کتاب کے کافروں (بنی نضیر) کو پہلی بار اکٹھا کر کے ان کے گھروں سے نکال دیا۔ تمہیں گمان بھی نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ بھی خیال کرتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ (کی گرفت) سے بچا لیں گے تو اللہ (کا قہر) ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو خیال بھی نہیں تھا اور اس نے ان کے دلوں میں (رسولﷺ کا) رعب ڈال دیا تو وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے گھروں کو خراب و برباد کر رہے تھے اور اہلِ ایمان کے ہاتھوں سے بھی عبرت حاصل کرو اے دیدۂ بینا رکھنے والو۔

۳.     اور اگر اللہ نے ان کے حق میں جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی تووہ دنیا ہی میں ان کو عذاب دیتا اور آخرت میں تو ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے ہی۔

۴.     یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کی اور جو اللہ کی مخالفت کرتا ہے تو یقیناً اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

۵.     تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا یہ سب اللہ کی اجازت سے تھا اور تاکہ وہ فاسقوں کو رسوا کرے۔

۶.     اور اللہ نے ان لوگوں (بنی نضیر) سے جو مال بطور فئے اپنے رسولﷺ کو دلوایا تو تم لوگوں نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ پس اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے لیکن اللہ اپنے رسولوںؑ کو جس پر چاہتا تسلط دے دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھتا ہے۔

۷.     تو اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے جو مال بطور فئے اپنے رسولﷺ کو دلوایا ہے وہ بس اللہ کا ہے اور پیغمبرﷺ کا اور(رسولﷺ کے ) قرابتداروں (ان کے ) یتیموں اور (ان کے ) مسکینوں اور مسافروں کا ہے تاکہ وہ مالِ فئے تمہارے دولتمندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور جو کچھ رسولﷺ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

۸.     (نیز وہ مال) ان غریب مہاجروں کیلئے ہے جن کو اپنے گھروں اور مالوں سے نکال دیا گیا یہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مدد کرتے ہیں اور یہی سچے لوگ ہیں۔

۹.     (اور یہ مال) ان کیلئے بھی ہے جو ان (مہاجرین) سے پہلے ان دیار (دار الہجرت مدینہ) میں ٹھکانا بنائے ہوئے ہیں اور ایمان لائے ہوئے ہیں اور جو ہجرت کر کے ان کے پاس آتا ہے وہ اس سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دیا جائے وہ اس کی اپنے دلوں میں کوئی ناخوشی محسوس نہیں کرتے اور وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود ضرورت مند ہوں (فاقہ میں ہوں ) اور جسے اپنے نفس کے حرص سے بچا لیا گیا وہی فلاح پانے والے ہیں۔

۱۰.    اور جو ان کے بعد آئے (ان کا بھی اس مال میں حصہ ہے ) جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جنہوں نے ایمان لانے میں ہم پر سبقت کی اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لئے کینہ پیدا نہ کر۔ اے ہمارے پروردگار یقیناً تو بڑا شفقت کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۱.     کیا تم نے منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کافر اہلِ کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم (اپنے گھروں سے ) نکالے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ (شہر سے ) نکل جائیں گے اور ہم تمہارے معاملہ میں کبھی کسی کی اطاعت نہیں کریں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں۔

۱۲.    اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد نہیں کریں گے اور اگر ان کی مدد کی بھی تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے پھر ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔

۱۳.    یقیناً تم لوگوں کا ڈر ان کے دلوں میں اللہ سے زیادہ ہے یہ اس لئے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔

۱۴.    یہ سب مل کر کبھی تم سے (کھلے میدان میں ) جنگ نہیں کریں گے مگر قلعہ بند بسیتوں میں (بیٹھ کر) یا دیواروں کے پیچھے سے (چھپ کر) وہ آپس میں بڑے قوی ہیں اور تم خیال کرتے ہو کہ وہ متحد ہیں حالانکہ ان کے دل متفرق ہیں یہ اس لئے ہے کہ یہ بے عقل لوگ ہیں۔

۱۵.    یہ ان لوگوں کی طرح ہیں جو ان سے کچھ ہی پہلے اپنے کرتوتوں کا مزہ چکھ چکے ہیں اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔

۱۶.    اور یہ شیطان کی مانند ہیں جو (پہلے ) انسان سے کہتا ہے کہ کفر اختیار کر اور جب وہ کافر ہو جاتا ہے تو وہ (شیطان) کہتا ہے کہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو رب العالمین ہے۔

۱۷.    تو ان دونوں (شیطان اور اس کے مرید) کا انجام یہ ہوا کہ دونوں دوزخ میں ہیں (اور) ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔

۱۸.    اے ایمان والو! اللہ (کی مخالفت سے ) ڈرو اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل (قیامت) کیلئے آگے کیا بھیجا ہے اللہ سے ڈرو بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔

۱۹.    اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے ان کو اپنا آپ بھلا دیا یہی لوگ فاسق (نافرمان) ہیں۔

۲۰.    دوزخ والے اور جنت والے برابر نہیں ہیں جنت والے کامیاب ہو نے والے ہیں۔

۲۱.    اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ خدا کے خوف سے جھک جاتا اور پاش پاش ہو جاتا اور یہ مثالیں ہم اس لئے لوگوں کیلئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔

۲۲.    وہی وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ہر غائب اور حاضر کا جاننے والا ہے (اور) وہی رحمٰن و رحیم ہے۔

۲۳.   وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے وہ (حقیقی) بادشاہ، (ہر عیب سے ) مقدس (پاک)، سراپا سلامتی، امن و امان دینے والا، نگہبانی کرنے والا، غالب آنے والا زور آور (یا سرکشوں کو زیر کرنے والا) اور کبریائی و بڑائی والا ہے (اور) اللہ اس شرک سے پاک ہے جو لوگ کرتے ہیں۔

۲۴.   وہی اللہ (ہر چیز کا) ٹھیک اندازے کے مطابق پیدا کرنے والا (وجود میں لانے والا) اور صورت گری کرنے والا ہے اسی کیلئے سارے اچھے نام ہیں (اور) اسی کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور وہ غالب آنے والا (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

٭٭

۶۰۔ سورۃ الممتحنۃ

 

۱.      اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمن کو اپنا ایسا (جگری) دوست نہ بناؤ کہ ان سے محبت کا اظہار کرنے لگو حالانکہ وہ اس (دینِ) حق کے منکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے اور وہ رسولِ خداﷺ کو اور خود تم کو محض اس بنا پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لائے ہو (یہ سب کچھ کرو) اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کیلئے (اپنے گھروں سے ) نکلے ہو؟ تم چھپ کر ان کو دوستی کا پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم میں سے ایسا کرے وہ راہِ راست سے بھٹک گیا۔

۲.     اگر یہ لوگ تم پر قابو پا جائیں تو وہ تمہارے دشمن ہی ہوں گے اور برائی کے ساتھ (تمہیں آزار پہنچانے کیلئے ) تمہاری طرف اپنے ہاتھ بڑھائیں گے اور اپنی زبانیں بھی اور وہ چاہیں گے کہ کاش تم کافر ہو جاؤ۔

۳.     تمہارے رشتہ دار اور تمہاری اولاد قیامت کے دن تمہارے کام نہ آئیں گے اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔

۴.     یقیناً تم لوگوں کیلئے (جنابِ) ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں میں ایک عمدہ نمونہ ہے جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے بیزار ہیں اور ان سے بھی جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو ہم تمہارے (اور تمہارے دین کے ) منکر ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کیلئے عداوت اور بغض پیدا ہو گیا یہاں تک کہ تم اللہ واحد (لا شریک لہٗ) پر ایمان لاؤ۔ ہاں البتہ ابراہیمؑ نے اپنے (منہ بولے ) باپ (اور اصل چچا) سے صرف یہ کہا تھا کہ میں تمہارے لئے مغفرت طلب کروں گا مگر میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کسی نفع کا مالک و مختار نہیں ہوں اے ہمارے پروردگار! ہم نے تجھ پر بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کیا ہے اور تیری ہی طرف لَوٹنا ہے۔

۵.     اے ہمارے پروردگار! ہمیں کافروں کیلئے فتنہ نہ بنا اور ہمیں بخش دے اے ہمارے پروردگار! یقیناً تو غالب (اور) بڑی حکمت والا ہے۔

۶.     بے شک تمہارے لئے ان لوگوں کے اندر عمدہ نمونہ موجود ہے جو اللہ اور روزِ آخرت کا امیدوار ہے (اعتقاد رکھتا ہے ) اور جو رُوگردانی کرے تو اللہ بے نیاز ہے اور حمد کا سزاوار ہے۔

۷.     بہت ممکن ہے کہ اللہ تمہارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جن سے (آج) تمہاری دشمنی ہے کبھی محبت پیدا کر دے اور اللہ بڑی قدرت والا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۸.     اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

۹.     اللہ تو صرف تمہیں ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے گا وہی ظالم ہیں۔

۱۰.    اے ایمان والو! جب مؤمن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو ان کا امتحان لے لیا کرو اللہ ان کے ایمان کی (اصلیت) کو بہتر جانتا ہے پس اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مؤمن ہیں تو پھر انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ (مؤمن عورتیں ) ان (کافروں ) کیلئے حلال ہیں اور نہ وہ (کافر) ان عورتوں کیلئے حلال ہیں اور ان (کافر شوہروں ) نے (حق مہر وغیرہ کے سلسلہ میں ) جو کچھ خرچ کیا ہے وہ انہیں ادا کر دو اور تمہارے لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم ان سے نکاح کرو جبکہ تم ان کے مہر ان کو ادا کر دو اور تم (بھی) کافر عورتوں کو (اپنے نکاح میں ) روکے نہ رکھو اور تم نے (ان پر جو مہر) خرچ کیا ہے وہ (ان سے ) واپس مانگ لو اور کافر بھی (مسلمان بیویوں سے مہر واپس) مانگ لیں جو انہوں نے خرچ کیا ہے یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔

۱۱.     اور اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی (کفر یا ارتداد کی وجہ سے ) کافروں کے پاس چلی جائے پھر تم ظفر یاب ہو جاؤ (تو مالِ غنیمت میں سے ) ان لوگوں کو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں اتنا مال دو جتنا انہوں نے خرچ کیا ہو اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔

۱۲.    اے نبیﷺ! جب مؤمن عورتیں بیعت کرنے کیلئے آپ کے پاس آئیں تو ان سے ان شرائط پر لو کہ وہ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر (اپنے شوہروں پر) نہیں باندھیں گی (کسی غیر کے بچے کو شوہر کا بچہ قرار نہیں دیں گی)، اور نہ ہی کسی نیکی کے کام میں آپﷺ کی نافرمانی کریں گی ان سے بیعت لے لیجئے اور اللہ سے ان کیلئے دعائے مغفرت کیجئے۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۳.    اے ایمان والو! ان لوگوں سے دوستی نہ کرو جن پر اللہ نے اپنا غضب نازل کیا ہے وہ آخرت سے اس طرح نا امید ہیں جس طرح کافر لوگ قبروں میں گڑے ہوئے مردوں (کے دوبارہ زندہ ہونے ) سے نا امید ہیں۔

٭٭

۶۱۔ سورۃ الصّٰفّ

 

۱.      ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور وہ (سب پر) غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۲.     اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟

۳.     اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم کہو ایسی بات جو کرو نہیں۔

۴.     بے شک خدا ان (مجاہدوں ) کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں یوں صف بستہ ہو کر (پَرا جما کر) جنگ کرتے ہیں کہ گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

۵.     اور وہ وقت یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ میری قوم! تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو؟ حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا(بھیجا ہوا) رسول ہوں۔ پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو (اور بھی) ٹیڑھا کر دیا اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا (انہیں منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا)

۶.     اور وہ وقت یاد کرو جب عیسیٰؑ بن مریمؑ نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں میں اس تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے آئی ہے (اور جو موجود ہے ) اور خوشخبری دینے والا ہوں ایک رسولﷺ کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمدﷺ ہو گا پھر جب وہ کھلی نشانیاں (معجزے ) لے کر ان کے پاس آئے تو ان لوگوں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہو جادو ہے۔

۷.     اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے حالانکہ اسے اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہے اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (انہیں منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا)

۸.     یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (پھونکوں ) سے بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو کامل کر کے رہے گا اگرچہ کافر لوگ ناپسند ہی کریں۔

۹.     وہ وہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین ناپسند کریں۔

۱۰.    اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایک تجارت بتاؤں جو (اگر کرو تو) تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے۔

۱۱.     (اور وہ یہ ہے کہ) تم اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرو یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

۱۲.    (اگر ایسا کرو گے تو) اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ان باغہائے بہشت میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور ان پاکیزہ مکانوں میں داخل کرے گا جو ہمیشہ رہنے والے باغات میں ہوں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

۱۳.    اور ایک اور چیز بھی ہے جسے تم پسند کرتے ہو (وہ اس کے علاوہ ہے ) یعنی اللہ کی مدد اور قریبی فتح و کامیابی اور ایمان والوں کو بشارت دے دیجئے۔

۱۴.    اے ایمان والو! اللہ کے (دین کے ) انصار و مددگار بنو جیسا کہ عیسٰیؑ بن مریمؑ نے حواریوں سے کہا تھا کہ اللہ کی طرف بلانے میں کون میرا مددگار ہے ؟ حواریوں نے (جواب میں ) کہا ہم اللہ کے (دین کے ) مددگار ہیں تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر اختیار کیا تو جو ایمان لائے تھے ہم نے ان کے دشمن کے مقابلہ میں ان کی تائید کی پس وہ غالب ہو گئے۔

٭٭

 

۶۲۔ سورۃ الجمعۃ

 

۱.      وہ سب چیزیں جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اس اللہ کی تسبیح کرتی ہیں جو بادشاہ ہے (اور نقائص سے ) پاک ہے زبردست ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۲.     وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اُمّی قوم میں انہیں میں سے ایک رسولﷺ بھیجا جو ان کو اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔

۳.     اور (آپﷺ کو) ان لوگوں میں سے دوسروں کی طرف بھی بھیجا جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں اور وہ زبردست (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

۴.     یہ اللہ کا فضل و کرم ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔

۵.     اور جن لوگوں (یہود) کو توراۃ کا حامل بنایا گیا مگر انہوں نے اس کو نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس نے بڑی بڑی کتابیں اٹھائی ہوئی ہوں اور کیا بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا (انہیں منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا)۔

۶.     آپﷺ کہیے ! اے یہودیو! اگر تمہارا خیال ہے کہ سب لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی اللہ کے دوست ہو تو پھر موت کی تمنا کرو اگر تم (اپنے دعویٰ میں ) سچے ہو۔

۷.     اور وہ ہرگز اس کی تمنا نہیں کریں گے اپنے ان (برے ) اعمال کی وجہ سے جو وہ آگے بھیج چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے۔

۸.     آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ بہرحال تم سے مل کر رہے گی پھر تم اس (خدا) کی بارگاہ میں لوٹائے جاؤ گے جو غائب اور حاضر کا جاننے والا ہے پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔

۹.     اے ایمان والو! جب تمہیں جمعہ کے دن والی نماز کے لئے پکارا جائے (اس کی اذان دی جائے ) تو اللہ کے ذکر (نمازِ جمعہ) کی طرف تیز چل کر جاؤ اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔

۱۰.    پھر جب نماز تمام ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

۱۱.     اور (کئی لوگوں کی حالت یہ ہے کہ) جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپﷺ کو کھڑا ہوا چھوڑ دیتے ہیں آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ جو کچھ (اجر و ثواب) اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشہ اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

٭٭

۶۳۔ سورۃ المنٰفقون

 

۱.      (اے رسولﷺ) جب منافق لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ اللہ کے رسولﷺ ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اس کے رسولﷺ ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق بالکل جھوٹے ہیں۔

۲.     انہوں نے اپنی قَسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے پس اس طرح وہ خود اللہ کی راہ سے رکتے ہیں اور دوسروں کو روکتے ہیں بیشک بہت برا ہے وہ کام جو یہ کر رہے ہیں۔

۳.     یہ اس لئے ہے کہ یہ پہلے (بظاہر) ایمان لائے پھر کفر کیا تو ان کے دلوں پر (گویا) مہر لگا دی گئی ہے لہذا وہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔

۴.     اور جب آپﷺ انہیں دیکھیں گے تو ان کے جسم (اور ان کے قد و قا مت) آپﷺ کو اچھے لگیں گے اور اگر وہ بات کریں گے تو آپﷺ ان کی بات (توجہ) سے سنیں گے (مگر وہ عقل و ایمان سے خالی ہیں ) گویا (کھوکھلی) لکڑیاں ہیں جو (دیوار وغیرہ سے ) ٹیک لگا دی گئی ہیں وہ ہر چیخ کی آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں یہی (اصلی) دشمن ہیں ان سے بچ کے رہو اللہ ان کو غارت کرے یہ کہاں الٹے پھرائے جا رہے ہیں۔

۵.     اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ اللہ کا پیغمبر تمہارے لئے مغفرت طلب کرے تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ تکبر کرتے ہوئے (آنے سے ) رک جاتے ہیں۔

۶.     ان کیلئے برابر ہے کہ آپ ان کیلئے مغفرت طلب کریں یا طلب نہ کریں اللہ ہرگز ان کو نہیں بخشے گا بے شک اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا (اور انہیں منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا)۔

۷.     یہی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسولِ خداﷺ کے پاس ہیں ان پر (اپنا مال) خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہو جائیں حالانکہ آسمان اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں مگر منافق لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔

۸.     وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم لَوٹ کر مدینہ گئے تو عزت والے لوگ وہاں سے ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے حالانکہ ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسولﷺ اور مؤمنین کیلئے ہے لیکن منافق لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔

۹.     اے ایمان والو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں خدا کی یاد سے غافل نہ کر دے اور جو ایسا کرے گا وہی لوگ گھاٹا اٹھانے والے ہیں۔

۱۰.    اور جو کچھ ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اس سے (میری راہ میں ) خرچ کرو قبل اس سے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور پھر وہ کہے کہ میرے پروردگار! تو نے مجھے کیوں نہ تھوڑی سی مدت تک مہلت دی کہ میں صدقہ دیتا اور نیکوکار بندوں میں سے ہو جاتا۔

۱۱.     اور جب کسی شخص کی مدت پوری ہو جائے تو خدا مزید مہلت نہیں دیتا اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

٭٭

۶۴۔ سورۃ التغابن

 

۱.      وہ سب چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اس اللہ کی تسبیح کرتی ہیں جو (حقیقی) بادشاہ ہے اور اسی کیلئے (ہر) تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

۲.     وہ وہی ہے جس نے تم (سب) کو پیدا کیا پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مؤمن اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔

۳.     اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے اوراس نے تمہاری صورت گری کی تو تمہاری بہت اچھی صورتیں بنائیں اور اسی کی طرف (سب نے ) لوٹ کر جانا ہے۔

۴.     وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور اللہ تو سینوں کے بھیدوں کا بھی خوب جاننے والا ہے۔

۵.     کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا اور اپنے کئے (کفر) کا وبال چکھا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۶.     یہ اس لئے ہوا کہ ان کے رسولﷺ کھلی ہوئی دلیلیں لے کر ان کے پاس آتے رہے تو انہوں نے کہا کیا بشر ہماری رہبری کریں گے ؟ پس(اس طرح) انہوں نے کفر اختیار کیا اور رُوگردانی کی اور اللہ نے (بھی ان کی) کوئی پروا نہ کی (کیونکہ) اللہ بے نیاز (اور) سزاوارِ حمد و ثنا ہے۔

۷.     کافر لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ (مر نے کے بعد) دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے آپﷺ کہئے ! ہاں میرے پروردگار کی قَسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر تمہیں بتایا جائے گا جو کچھ تم نے کیا ہو گا اور یہ کام اللہ کیلئے بالکل آسان ہے۔

۸.     تو تم اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاؤ اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔

۹.     (اس دن کو یاد کرو) جس دن اللہ تمہیں اجتماع والے دن جمع کرے گا یہی دن باہمی گھاٹا اٹھانے کا دن ہو گا اور جو اللہ پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اللہ اس سے اس کی برائیاں (گناہ) دور کرے گا اور اسے ان باغہائے بہشت میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں رواں دواں ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

۱۰.    اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا یہی لوگ دوزخی ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

۱۱.     کوئی مصیبت (کسی پر) نہیں آتی مگر اللہ کے اذن و اجازت سے اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو صحیح راستہ دکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔

۱۲.    اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولﷺ کی پھر اگر تم رُوگردانی کرو گے تو ہمارے رسولﷺ پر کھول کر پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

۱۳.    اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے بس ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

۱۴.    اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور تمہاری بعض اولادیں تمہاری دشمن ہیں بس تم ان سے ڈرتے رہو (ہوشیار رہو) اور اگر معاف کرو، درگزر کرو اور بخش دو تو اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۱۵.    تمہارے مال، تمہاری اولاد ایک بڑی آزمائش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔

۱۶.    اور جہاں تک ہو سکے اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو اور سنو اور اطاعت کرو اور (مال) خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچایا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

۱۷.    اگر خدا کو قرضہ حسنہ دو تو اللہ اسے تمہارے لئے کئی گنا بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اللہ بڑا قدردان (اور) بڑا بردبار ہے۔

۱۸.    وہ غائب اور حاضر کا جاننے والا، زبردست(اور) بڑا حکمت والا ہے۔

٭٭

۶۵۔ سورۃ الطلاق

 

۱.      اے نبیﷺ! جب تم لوگ (اپنی) عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں عدت کے حساب سے طلاق دو اور پھر عدت کا شمار کرو اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے۔ انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ خود نکلیں مگر یہ کہ وہ کسی کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب کریں اور یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا تو وہ خود اپنے اوپر ظلم کرے گا تم نہیں جانتے شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔

۲.     تو جب وہ اپنی (مقررہ) عدت کی مدت کو پہنچ جائیں تو ان کو یا تو قاعدہ (اور شائستہ طریقہ) سے (اپنے نکاح میں ) روک لو یا پھر قاعدہ (اور اچھے طریقہ) سے جدا کر دو اور اپنے میں سے دو عادل آدمیوں کو گواہ بناؤ اور خدا کیلئے صحیح گواہی دو ان باتوں سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور جو کوئی خدا سے ڈرتا ہے اللہ اس کیلئے (مشکل سے نجات کا) راستہ پیدا کر دیتا ہے۔

۳.     اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے سان گمان بھی نہیں ہوتا ہے اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرتا ہے وہ (اللہ) اس کے لئے کافی ہے بے شک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے اور اللہ نے ہر چیز کیلئے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔

۴.     اور تمہاری (مطلقہ) عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر ان کے بارے میں تمہیں کوئی شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور یہی حکم ان عورتوں کا ہے جنہیں (باوجود حیض کے سن و سال میں ہو نے کے کسی وجہ سے ) حیض نہ آتا ہو اور حاملہ عورتوں کی میعاد وضعِ حمل ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس کے معاملہ میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔

۵.     یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے اور جو اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دیتا ہے اور اس کے اجر کو بڑا کرتا (بڑھاتا) ہے۔

۶.     ان (مطلقہ عورتوں ) کو (زمانۂ عدت میں ) وہاں رکھو جہاں اپنی حیثیت کے مطابق تم خود رہتے ہو اور انہیں ضرر و زیاں نہ پہنچاؤ تاکہ ان پر تنگی کرو۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو پھر ان پر خرچ کرو یہاں تک ان کا وضعِ حمل ہو جائے پھر اگر تمہارے لئے (بچہ) کو دودھ پلائیں تو تم انہیں ان کی اجرت دو اور منا سب طریقہ پر باہم طے کر لو اور اگر تمہیں باہم کوئی دشواری پیش آئے (اور باہمی اتفاق نہ ہو سکے ) تو پھر کوئی اور عورت اسے دودھ پلائے گی۔

۷.     وسعت والے کو چاہیے کہ اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس کی روزی تنگ ہو تو جتنا اللہ نے اسے دیا ہے اس میں سے خرچ کرے اللہ نے جتنا کسی کو دیا ہے اس سے زیادہ اسے تکلیف نہیں دیتا عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی اور کشادگی پیدا کرے گا۔

۸.     اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوںؑ کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور انہیں انوکھی (سخت) سزا دی۔

۹.     پس انہوں نے اپنے کئے (کرتوت) کا وبال چکھا اور ان کے کام کا انجام گھاٹا تھا۔

۱۰.    اللہ نے (آخرت میں ) ان کیلئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تو اللہ (کی مخالفت) سے ڈرو۔ اے عقلمندو جو ایمان لائے ہو خدا نے تمہاری طرف ذکر نازل کیا ہے۔

۱۱.     یعنی ایک ایسا رسولﷺ جو اللہ کی واضح آیتیں تمہیں پڑھ کر سناتا ہے تاکہ ان لوگوں کو جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں (کفر و شرک) کی تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کے ) نور کی طرف لائے اور جو کوئی اللہ پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو اللہ اسے ایسے باغہائے بہشت میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ بے شک اللہ نے ایسے (مؤمن) کو بہت اچھی روزی دی ہے۔

۱۲.    اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور انہی کی طرح زمین بھی ان کے درمیان حکم (خدا) نازل ہوتا رہتا ہے تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ اللہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھتا ہے اور یہ کہ اللہ نے ہر چیز کا (علمی) احاطہ کر رکھا ہے۔

٭٭

۶۶۔ سورۃ التحریم

 

۱.      اے نبیﷺ! جو چیز اللہ نے آپ کیلئے حلال قرار دی ہے آپ اسے اپنی بیویوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے (اپنے اوپر) کیوں حرام ٹھہراتے ہیں اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۲.     بے شک اللہ نے تمہاری قَسموں (کی گرہ کے ) کھولنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے اللہ تمہارا مولیٰ (سرپرست و کارساز ہے ) اور وہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔

۳.     (وہ وقت یاد رکھنے کے لائق ہے ) جب نبیﷺ نے اپنی بعض بیویوں سے راز کی ایک بات کہی اور جب اس نے وہ بات (کسی اور کو) بتا دی اور اللہ نے آپﷺ کو اس (خیانت کاری) سے آگاہ کر دیا تو آپﷺ نے اس (بیوی) کو کچھ بات جتا دی اور کچھ سے اعراض کیا (چشم پوشی کی) تو جب آپﷺ نے اس (بیوی) کو یہ بات بتائی تو اس نے (از راہِ تعجب) کہا کہ آپﷺ کو اس کی کس نے خبر دی؟ فرمایا مجھے بڑے جاننے والے (اور) بڑے باخبر (خدا) نے خبر دی ہے۔

۴.     اگر تم دونوں (اللہ کی بارگاہ میں ) توبہ کر لو (تو بہتر ہے ) کیونکہ تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہو چکے ہیں اور اگر تم ان (پیغمبرﷺ) کے خلاف ایکا کرو گی (تو تم پیغمبر کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گی) کیونکہ یقیناً اللہ ان کا حامی ہے اور جبرائیلؑ اور نیکوکار مؤمنین اور اس کے بعد سب فرشتے ان کے پشت پناہ (اور مددگار) ہیں۔

۵.     اگر پیغمبرﷺ تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد اللہ ان کو تمہارے بدلے تم سے اچھی بیویاں دے دے گا جو (پکی و سچی) مسلمان ہوں گی اور با ایمان، اطاعت گزار اور فرمانبردار، توبہ کرنے والیاں عبادت گزار، روزہ دار اور شوہر دیدہ اور ابکار (کنواریاں )۔

۶.     اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آتشِ دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو تُند خو اور درشت مزا ج ہیں انہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔

۷.     اے کافر لوگو! آج تم عذر و معذرت نہ کرو تمہیں اسی کا بدلہ دیا جا رہا ہے جو تم کیا کرتے تھے۔

۸.     اے ایمان والو! اللہ کی بارگاہ میں (سچے دل سے ) خالص توبہ کرو۔ امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں ایسے بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جس دن خدا (اپنے ) نبیﷺ کو اور ان لوگوں کو جو آپﷺ کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا (اس دن) ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں جانب تیز تیز چل رہا ہو گا (اور) وہ کہہ رہے ہوں گۓ اے ہمارے پروردگار! ہمارے لئے ہمارا نور مکمل کر اور ہماری مغفرت فرما بے شک تو ہر چیز پر بڑی قدرت رکھتا ہے۔

۹.     اے نبیﷺ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بری جائے بازگشت ہے۔

۱۰.    اور اللہ کافروں کیلئے نوحؑ اور لوطؑ کی بیویوں کی مثال بیان کرتا ہے جو دونوں ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں پس انہوں نے ان کے ساتھ خیانت (غداری) کی تو وہ دونوں نیک بندے اللہ کے مقابلہ میں انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے اور ان دونوں (بیویوں ) سے کہا گیا کہ تم بھی دوزخ میں داخل ہو جاؤ اور داخل ہو نے والوں کے ساتھ۔

۱۱.     اور اللہ اہلِ ایمان کے لئے فرعون کی بیوی (آسیہؑ) کی مثال پیش کرتا ہے جبکہ اس نے کہا اے میرے پروردگار! میرے لئے جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے (کافرانہ) عمل سے نجات دے اور مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔

۱۲.    اور (دوسری) مریمؑ بنت عمران کی مثال بیان کرتا ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی ایک (خاص) روح پھونک دی اور اس نے اپنے پروردگار کی باتوں (پیاموں ) اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی۔

٭٭

۶۷۔ سورۃ الملک

 

۱.      بابرکت ہے وہ (خدا) جس کے ہاتھ (قبضۂ قدرت) میں (کائنات کی) بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

۲.     جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھا کون ہے ؟ وہ بڑا زبردست (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔

۳.     جس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے تم خدائے رحمٰن کی تخلیق میں کوئی خلل (اور بے نظمی) نہیں پاؤ گے پھر نگاہ اٹھا کر دیکھو تمہیں کوئی رخنہ نظر آتا ہے ؟

۴.     پھر دوبارہ نگاہ دوڑاؤ۔ تمہاری نگاہ تھک کر (ناکام) تمہاری طرف لوٹ آئے گی۔

۵.     بے شک ہم نے قریبی آسمان کو (تاروں ) کے چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور انہیں شیطانوں کو سنگسار کرنے (مار بھگانے ) کا ذریعہ بنایا ہے اور ہم نے ان (شیطانوں ) کیلئے دہکتی ہوئی آگ کا عذاب بھی تیار کر رکھا ہے۔

۶.     اور جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا کفر (انکار) کیا ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

۷.     جب وہ اس میں جھونکے جائیں گے تو وہ اس کی زوردار (اور مہیب) آواز سنیں گے اور وہ جوش مار رہی ہو گی۔

۸.     (گویا) وہ غیظ و غصہ سے پھٹی جاتی ہو گی جب اس میں کوئی گروہ جھونکا جائے گا تو اس کے داروغے ان سے پو چھیں گے کہ تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا (ہادی) نہیں آیا تھا؟

۹.     وہ کہیں گے ہاں بے شک ہمارے پاس ڈرانے والا آیا تھا مگر ہم نے (اسے ) جھٹلایا اور کہا کہ اللہ نے کوئی بھی چیز نازل نہیں کی تم بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔

۱۰.    اور کہیں گے کاش ہم (اس وقت) سنتے یا سمجھتے تو (آج) دوزخ والوں میں سے نہ ہو تے۔

۱۱.     پس وہ (اس وقت) اپنے گناہ کا اعتراف کر لیں گے پس لعنت ہو ان دوزخ والوں پر۔

۱۲.    بے شک جو لوگ اپنے پروردگار سے اَن دیکھے ڈرتے ہیں ان کیلئے مغفرت ہے اور بڑا اجر و ثواب ہے۔

۱۳.    اور تم اپنی بات آہستہ کرو یا بلند آواز سے کرو وہ (خدا) تو سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔

۱۴.    کیا جس نے پیدا کیا ہے وہ نہیں جانتا حالانکہ وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔

۱۵.    وہ (اللہ) وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے رام کر دیا تاکہ تم اس کے کاندھوں (راستوں ) پر چلو اور اس (اللہ) کے (دئیے ہوئے ) رزق سے کھاؤ پھر اسی کی طرف(قبروں سے ) اٹھ کر جانا ہے۔

۱۶.    کیا تم اس (اللہ) سے بے خوف ہو گئے جس (کی حکومت) آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے پھر وہ ایک دم تھر تھرانے لگے۔

۱۷.    کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ آسمان والا تم پر پتھر بر سانے والی ہوا بھیج دے پھر تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہوتا ہے ؟

۱۸.    اور جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی (حق کو) جھٹلایا تھا تو میری سخت گیری کیسی تھی؟

۱۹.    کیا یہ لوگ اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھتے جو پروں کو پھیلائے ہوئے (اڑتے ہیں ) اور وہ (کبھی ان کو) سمیٹ بھی لیتے ہیں انہیں (خدائے ) رحمٰن کے سوا اور کوئی (فضا میں ) تھامے ہوئے نہیں ہے بے شک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

۲۰.    آخر وہ کون ہے جو خدائے رحمٰن کے مقابلہ میں تمہارا لشکر بن کر تمہاری مدد کرے ؟ کافر لوگ بالکل دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔

۲۱.    (بتاؤ) وہ کون ہے جو تمہیں روزی دے اگر وہ (اللہ) اپنی روزی روک لے ؟ بلکہ یہ لوگ سرکشی اور (حق سے ) نفرت پر اڑے ہوئے ہیں۔

۲۲.    بھلا جو شخص منہ کے بل گرتا ہوا چل رہا ہو وہ زیادہ ہدایت یافتہ (اور منزلِ مقصود پر زیادہ پہنچنے والا) ہے یا وہ جو سیدھا راہِ راست پر چل رہا ہے ؟

۲۳.   آپﷺ کہہ دیجئے ! وہی تو (خدا) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لئے کان، آنکھیں اور دل (و دماغ) بنائے۔ (مگر) تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔

۲۴.   آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ وہ (اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور (قیامت کے دن) تم اسی کے پاس اکٹھے کئے جاؤ گے۔

۲۵.   اور وہ (کافر لوگ) کہتے ہیں کہ (بتاؤ) یہ وعدہ وعید کب پورا ہو گا؟ اگر تم سچے ہو۔

۲۶.    آپﷺ کہہ دیجئے کہ (اس کا) علم تو بس اللہ کے پاس ہے اور میں تو صرف ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔

۲۷.   پس وہ جب اس (قیامت) کو قریب آتے دیکھیں گے تو کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے اور (ان سے ) کہا جائے گا کہ یہی وہ ہے جس کا تم مطالبہ کیا کرتے تھے۔

۲۸.   آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ کیا تم نے غور کیا ہے اگر (تمہاری خواہش کے مطابق) خدا مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا (ہماری خواہش کے مطابق) ہم پر رحم فرمائے (بہرحال) کافروں کو دردناک عذاب سے کون پناہ دے گا؟

۲۹.    آپﷺ کہہ دیجئے ! وہ خدائے رحمان ہے جس پر ہم ایمان لائے ہیں اور اسی پر توکل (بھروسہ) کرتے ہیں عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کھلی ہوئی گمراہی میں کون ہے ؟

۳۰.   آپﷺ کہیے ! کیا تم نے غور کیا ہے کہ اگر تمہارا پانی زمین کی تہہ میں اتر جائے تو پھر تمہارے لئے (شیریں پانی کا) چشمہ کون لائے گا؟

٭٭

۶۸۔ سورۃ قلم

 

۱.      نون! قَسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ لوگ لکھتے ہیں۔

۲.     کہ آپﷺ اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے دیوانے نہیں ہیں۔

۳.     اور بے شک آپﷺ کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے۔

۴.     اور بے شک آپﷺ خلقِ عظیم کے مالک ہیں۔

۵.     عنقریب آپ بھی دیکھیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔

۶.     کہ تم میں سے کون جُنون میں مبتلا ہے۔

۷.     بے شک آپﷺ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ اس کی راہ سے بھٹکا ہوا کون ہے ؟ اور وہی انہیں خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں۔

۸.     تو آپﷺ جھٹلانے والوں کا کہنا نہ مانیں۔

۹.     وہ (کفار) تو چاہتے ہیں کہ آپﷺ (اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں ) ڈھیلے پڑ جائیں تو وہ بھی (مخالفت میں ) ڈھیلے ہو جائیں۔

۱۰.    اور آپﷺ ہرگز ہر اس شخص کا کہنا نہ مانیں جو بہت (جھوٹی) قَسمیں کھانے والا ہے (اور) ذلیل ہے۔

۱۱.     جو بڑی نکتہ چینی کرنے والا (اور) چلتا پھرتا چغل خور ہے۔

۱۲.    کارِ خیر سے بڑا منع کرنے والا، حد سے بڑھنے والا (اور) بڑا گنہگار ہے۔

۱۳.    سخت مزاج ہے اور ان (سب بری صفتوں ) کے علاوہ وہ بد اصل بھی ہے۔

۱۴.    یہ سب کچھ اس بناء پر ہے کہ وہ مالدار اور اولاد والا ہے۔

۱۵.    جب اس کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔

۱۶.    ہم عنقریب اس کی سونڈ (نا ک) پر داغ لگائیں گے۔

۱۷.    ہم نے ان (کفارِ مکہ) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا جب انہوں نے قَسم کھائی تھی کہ وہ صبح سویرے ضرور اس کا پھل توڑ لیں گے۔

۱۸.    اور انہوں نے کوئی استثناء نہیں کیا تھا (انشاء اللہ نہیں کہا تھا)۔

۱۹.    پھر (راتوں رات) جب کہ وہ لوگ ابھی سوئے ہوئے تھے آپﷺ کے پروردگار کی طرف سے ایک آفت چکر لگا گئی۔

۲۰.    تو وہ (باغ) کٹی ہوئی فصل کی طرح ہو گیا۔

۲۱.    پس انہوں نے صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو آواز دی۔

۲۲.    کہ اگر تم نے پھل توڑنا ہے تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف چلو۔

۲۳.   تو وہ اس حال میں چل پڑے کہ چپکے چپکے ایک دوسرے سے کہتے جاتے تھے۔

۲۴.   کہ خبردار! آج تمہارے پاس اس باغ میں کوئی مسکین نہ آنے پائے۔

۲۵.   اور وہ اس (مسکین کو کچھ نہ دینے ) پر قادر سمجھ کر نکلے۔

۲۶.    اور جب باغ کو (برباد) دیکھا تو کہا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔

۲۷.   بلکہ ہم محروم ہو گئے ہیں۔

۲۸.   جو ان میں سے بہتر آدمی تھا اس نے کہا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ (خدا کی) تسبیح کیوں نہیں کرتے ؟

۲۹.    (تب) انہوں نے کہا کہ پاک ہے ہمارا پروردگار بے شک ہم ظالم تھے۔

۳۰.   پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم لعنت ملامت کرنے لگے۔

۳۱.    (اور) کہنے لگے وائے ہو ہم پر! بے شک ہم سرکش ہو گئے تھے۔

۳۲.   امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہمیں اس (باغ) کے بدلے اس سے بہتر باغ عطا کر دے ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

۳۳.   اسی طرح عذاب آتا ہے اور آخرت کا عذاب تو (اس سے بھی) بہت بڑا ہے کاش کہ یہ لوگ جانتے۔

۳۴.   بے شک پرہیزگاروں کیلئے ان کے پروردگار کے ہاں نعمت و آسائش کے باغات ہیں۔

۳۵.   کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی مانند کر دیں گے ؟

۳۶.   تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟

۳۷.   کیا تمہارے پاس کوئی (آسمانی) کتاب ہے جس میں تم (یہ) پڑھتے ہو؟

۳۸.   کہ تمہارے لئے اس میں وہ کچھ ہے جو تم پسند کرتے ہو؟

۳۹.    یا کیا تم نے ہم سے کچھ قَسمیں لی ہیں کہ قیامت میں تمہارے لئے وہی کچھ ہے جس کا تم حکم لگاؤ گے (فیصلہ کرو گے ؟)

۴۰.   ان سے پوچھئے کہ ان میں سے کون ان (بے بنیاد باتوں ) کا ضامن ہے ؟

۴۱.    یا ان کے کچھ آدمی (ہمارے ) شریک ہیں ؟ تو اگر وہ سچے ہیں تو پھر اپنے وہ شریک پیش کریں۔

۴۲.   (وہ دن یاد کرنے کے لائق ہے ) جب پنڈلی کھولی جائے گی (یعنی سخت وقت ہو گا) اور ان (کافروں ) کو سجدہ کیلئے بلایا جائے گا تو (اس وقت) وہ سجدہ نہیں کر سکیں گے۔

۴۳.   ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی (اور) ان پر ذلت چھائی ہو گی حالانکہ انہیں اس وقت (بھی دنیا میں ) سجدہ کی دعوت دی جاتی تھی جب وہ صحیح و سالم تھے۔

۴۴.   پس (اے رسولﷺ) آپﷺ مجھے اور اس کو چھوڑ دیں جو اس کتاب کو جھٹلاتا ہے ہم انہیں اس طرح بتدریج تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہو گی۔

۴۵.   اور میں انہیں مہلت دے رہا ہوں۔ بے شک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔

۴۶.   کیا آپﷺ ان سے کوئی اجرت طلب کرتے ہیں کہ وہ اس تاوان کے بوجھ تلے دبے جاتے ہیں ؟

۴۷.   یا کیا ان کے پاس غیب ہے سو جسے وہ لکھ رہے ہیں ؟

۴۸.   پس آپﷺ اپنے پروردگار کے فیصلے تک صبر کریں اور مچھلی والے (جنابِ یونسؑ) کی طرح نہ ہوں جب انہوں نے اس حال میں (اپنے پروردگار کو) پکارا کہ وہ غم و غصہ سے بھرے ہوۓ تھے (یا مغموم تھے )۔

۴۹.    اگر ان کے پروردگار کا فضل و کرم ان کے شاملِ حال نہ ہوتا تو انہیں اس حال میں چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا کہ وہ مذموم ہوتے۔

۵۰.   مگر ان کے پروردگار نے انہیں منتخب کر لیا اور انہیں (اپنے ) نیکوکار بندوں سے بنا دیا۔

۵۱.    اور جب کافر ذکر (قرآن) سنتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی (تیز و تند) نظروں سے آپﷺ کو (راہِ راست) سے پھسلا دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ ضرور دیوانہ ہے۔

۵۲.   حالانکہ وہ (قرآن) تو تمام جہانوں کیلئے نصیحت ہے۔

٭٭

 

۶۹۔ سورۃ الحاقۃ

 

۱.      برحق واقع ہو نے والی۔

۲.     کیا ہے وہ برحق واقع ہو نے والی۔

۳.     اور (اے مخاطب) تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ برحق واقع ہو نے والی۔

۴.     قبیلۂ ثمود اور عاد نے کھڑکھڑانے والی (قیامت) کو جھٹلایا۔

۵.     پس ثمود تو ایک حد سے بڑھے ہوئے حادثہ سے ہلاک کئے گئے۔

۶.     اور بنی عاد ایک حد سے زیادہ تیز و تند (اور سرد) آندھی سے ہلاک کئے گئے۔

۷.     اللہ نے اسے مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک ان پر مسلط رکھا تم (اگر وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ اس طرح گرے پڑے ہیں کہ گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔

۸.     تو تمہیں ان کا کوئی باقی بچ جانے والا نظر آتا ہے ؟

۹.     اور فرعون اور اس سے پہلے والوں اور الٹی ہوئی بسیتوں (والوں ) نے (یہی) خطا کی۔

۱۰.    (یعنی) اپنے پروردگار کے رسولؑ کی نافرمانی کی تو اس (اللہ) نے ان کو حد سے بڑھی ہوئی گرفت میں لے لیا۔

۱۱.     اور پانی جب حد سے بڑھ گیا تو ہم نے تم کو (یعنی تمہارے آباء و اجداد کو) کشتی میں سوار کیا۔

۱۲.    تاکہ ہم اس (واقعہ) کو تمہارے لئے یادگار بنا دیں اور یاد رکھنے والے کان اسے محفوظ رکھیں۔

۱۳.    سو جب ایک بار صور پھونکا جائے گا۔

۱۴.    اور زمین اور پہاڑوں کو ایک ہی دفعہ پاش پاش کر دیا جائے گا۔

۱۵.    تو اس دن واقع ہو نے والی (قیامت) واقع ہو جائے گی۔

۱۶.    اور آسمان پھٹ جائے گا اور وہ اس دن بالکل کمزور ہو جائے گا۔

۱۷.    اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور آپﷺ کے پروردگار کے عرش کو اس دن آٹھ (فرشتے ) اٹھائے ہوں گے۔

۱۸.    اس دن تم (اپنے پروردگار کی بارگاہ میں ) پیش کئے جاؤ گے اور تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہ رہے گی۔

۱۹.    پس جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا آؤ پڑھو میرا نامۂ اعمال۔

۲۰.    میں سمجھتا تھا کہ میں اپنے حساب کتاب سے دو چار ہو نے والا ہوں۔

۲۱.    وہ ایک پسندیدہ زندگی میں ہو گا۔

۲۲.    (یعنی) اس عالیشان بہشت میں ہو گا۔

۲۳.   جس کے تیار پھلوں کے خوشے جھکے ہوئے ہوں گے۔

۲۴.   (ان سے کہا جائے گا) کھاؤ اور پیو مزے اور خوشگواری کے ساتھ ان اعمال کے صلے میں جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کئے ہیں۔

۲۵.   اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا کہ کاش میرا نامۂ اعمال مجھے نہ دیا جاتا۔

۲۶.    اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کتاب کیا ہے ؟

۲۷.   اے کاش وہی موت (جو مجھے آئی تھی) فیصلہ کُن ہوتی۔

۲۸.   (ہائے ) میرے مال نے مجھے کوئی فائدہ نہ دیا۔

۲۹.    میرا اقتدار ختم ہو گیا۔

۳۰.   (پھر حکم ہو گا) اسے پکڑو اور اسے طوق پہناؤ۔

۳۱.    پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔

۳۲.   پھر اسے ایک ایسی زنجیر میں جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے جکڑ دو۔

۳۳.   (کیونکہ) یہ بزر گ و برتر خدا پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔

۳۴.   اور غریب کو کھانا کھلانے پر آمادہ نہیں کرتا تھا۔

۳۵.   پس آج یہاں اس کا کوئی ہمدرد نہیں ہے۔

۳۶.   اور نہ ہی اس کے لئے پیپ کے سوا کوئی کھانا ہے۔

۳۷.   جسے خطا کاروں کے سوا اور کوئی نہیں کھاتا۔

۳۸.   پس نہیں ! میں قَسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو۔

۳۹.    اور ان کی جن کو تم نہیں دیکھتے۔

۴۰.   بے شک یہ (قرآن) ایک معزز رسولﷺ کا کلام ہے۔

۴۱.    یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے (مگر) تم لوگ بہت کم ایمان لاتے ہو۔

۴۲.   اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے (مگر) تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔

۴۳.   یہ تو تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ ہے۔

۴۴.   اگر وہ (نبیﷺ) اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کرتا۔

۴۵.   تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے۔

۴۶.   اور پھر ہم اس کی رگِ حیات کاٹ دیتے۔

۴۷.   پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔

۴۸.   بے شک یہ(قرآن) پرہیزگاروں کیلئے ایک نصیحت ہے۔

۴۹.    اور ہم خوب جانتے ہیں کہ تم میں سے کچھ لوگ (اس کے ) جھٹلانے والے ہیں۔

۵۰.   اور یہ کافروں کیلئے باعثِ حسرت ہے۔

۵۱.    اور بے شک وہ یقینی حق ہے۔

۵۲.   پس آپﷺ اپنے عظمت والے پروردگار کے نام کی تسبیح کریں۔

٭٭

 

۷۰۔ سورۃ معارج

 

۱.      ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا۔

۲.     جو کافروں پر واقع ہونے والا ہے (اور) اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے۔

۳.     جو اس خدا کی طرف سے ہے جو بلندی کے زینوں والا ہے۔

۴.     فرشتے اور روح اس کی بارگاہ میں ایک ایسے دن میں چڑھ کر جاتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔

۵.     (اے نبیﷺ) پس آپﷺ بہترین صبر کیجئے۔

۶.     یہ لوگ تو اس (روز) کو بہت دور سمجھتے ہیں۔

۷.     مگر ہم اسے بالکل قریب دیکھ رہے ہیں۔

۸.     جس دن آسمان پگھلی ہوئی دھات کی طرح ہو جائے گا۔

۹.     اور پہاڑ دھنکی ہوئی رُوئی کی مانند ہو جائیں گے۔

۱۰.    اور کوئی دوست کسی دو ست کو نہ پو چھے گا۔

۱۱.     حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کیلئے اپنے بیٹوں،

۱۲.    اپنی بیوی اور اپنے بھائی،

۱۳.    اور اپنے قریبی کنبہ جو اسے پناہ دینے والا ہے۔

۱۴.    اور رُوئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور پھر یہ (فدیہ) اسے نجات دلا دے۔

۱۵.    ہرگز نہیں وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کا شعلہ ہے۔

۱۶.    جو کھال کو ادھیڑ کر رکھ دے گا۔

۱۷.    اور ہر اس شخص کو (اپنی طرف) بلائے گا جو پیٹھ پھرائے گا اور رُوگردانی کرے گا۔

۱۸.    اور جس نے (مال) جمع کیا اور پھر اسے سنبھال کر رکھا۔

۱۹.    بے شک انسان بے صبرا پیدا ہوا ہے۔

۲۰.    جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بہت گھبرا جاتا ہے۔

۲۱.    اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بہت بُخل کرتا ہے۔

۲۲.    مگر وہ نمازی (اس عیب سے محفوظ ہیں )۔

۲۳.   جو اپنی نمازوں پر مُداومَت کرتے ہیں۔

۲۴.   اور جن کے مالوں میں مقررہ حق ہے۔

۲۵.   سائل اور محروم کا۔

۲۶.    اور جو جزا و سزا کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔

۲۷.   اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔

۲۸.   کیونکہ ان کے پروردگار کا عذاب وہ چیز ہے جس سے کسی کو مطمئن نہیں ہونا چاہئے۔

۲۹.    اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

۳۰.   سوائے اپنی بیویوں کے یا اپنی مملوکہ کنیزوں کے کہ اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔

۳۱.    اور جو اس سے آگے بڑھے وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔

۳۲.   اور جو اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کا لحاظ رکھتے ہیں۔

۳۳.   اور جو اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں۔

۳۴.   اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

۳۵.   یہی وہ لوگ ہیں جو عزت کے ساتھ باغہائے بہشت میں رہیں گے۔

۳۶.   (اے نبیﷺ) ان کافروں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ٹکٹکی باندھے آپﷺ کی طرف دوڑے چلے آرہے ہیں۔

۳۷.   دائیں اور بائیں طرف سے گروہ در گروہ۔

۳۸.   کیا ان میں سے ہر ایک یہ طمع و لالچ رکھتا ہے کہ اسے آرام و آسائش والے بہشت میں داخل کر دیا جائے۔

۳۹.    ہرگز نہیں ! ہم نے انہیں اس چیز (مادہ) سے پیدا کیا ہے جسے وہ خود جانتے ہیں۔

۴۰.   پس نہیں ! میں قَسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے پروردگار کی ہم پوری قدرت رکھتے ہیں۔

۴۱.    اس بات پر کہ ہم ان لوگوں کے بدلے ان سے بہتر لے آئیں اور ہم (ایسا کرنے سے ) عاجز نہیں ہیں۔

۴۲.   تو آپﷺ انہیں چھوڑئیے کہ وہ بے ہودہ باتوں اور کھیل کود میں مشغول رہیں یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن سے دوچار ہوں جس کا ان سے وعدہ وعید کیا جا رہا ہے۔

۴۳.   جس دن وہ قبروں سے اس طرح جلدی جلدی نکلیں گے گویا (اپنے بتوں کے ) استھانوں کی طرف دوڑ رہے ہیں۔

۴۴.   ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی (اور) ان پر ذلت و رسوائی چھائی ہو گی۔ یہی وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ وعید کیا جاتا تھا۔

٭٭

 

۷۱۔ سورۃ نوح

 

۱.      بے شک ہم نے نوحؑ کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈراؤ۔ اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب آ جائے۔

۲.     انہوں نے کہا کہ اے میری قوم! میں تمہیں ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔

۳.     کہ تم (صرف) اللہ کی عبادت کرو اور اس (کی مخالفت) سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۴.     وہ (خدا) تمہارے (پہلے ) گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دے گا (باقی رکھے گا) بے شک جب اللہ کا مقررہ وقت آ جاتا ہے تو پھر اسے مؤخر نہیں کیا جا سکتا کاش کہ تم (اس حقیقت کو) سمجھتے۔

۵.     آپؑ (نوحؑ) نے کہا اے مرے پروردگار میں نے اپنی قوم کو رات دن دعوت دی۔

۶.     مگر میری دعوت نے ان کے فرار (گریز) میں اور بھی اضافہ کیا۔

۷.     اور میں نے جب بھی انہیں دعوت دی کہ (وہ اس لائق ہوں کہ) تو انہیں بخش دے تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑے اپنے اوپر لپیٹ لئے اور (اپنی روش پر) اڑے رہے اور بڑا تکبر کرتے رہے۔

۸.     پھر بھی میں نے ان کو بآوازِ بلند دعوت دی۔

۹.     پھر میں نے انہیں (ہر طرح دعوت دی) کھلم کھلا بھی اور چپکے چپکے بھی۔

۱۰.    میں نے (ان سے ) کہا کہ اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو وہ یقیناً بڑا بخشنے والا ہے۔

۱۱.     وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش برسائے گا۔

۱۲.    اور مال و اولاد سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے لئے باغات پیدا کرے گا اور تمہارے لئے نہریں قرار دے گا۔

۱۳.    تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت کی پرو انہیں کرتے ؟

۱۴.    حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے خلق کیا ہے۔

۱۵.    کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہہ بر تہہ بنائے ؟

۱۶.    اور ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا۔

۱۷.    اور تمہیں خاص طرح زمین سے اگایا ہے۔

۱۸.    پھر تمہیں اس میں لوٹائے گا اور پھر اسی سے (دوبارہ) نکالے گا۔

۱۹.    اور اللہ نے ہی تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا ہے۔

۲۰.    تاکہ تم اس کے کشادہ راستوں میں چلو پھرو۔

۲۱.    نوحؑ نے (بارگاہِ خداوندی میں ) عرض کیا اے میرے پروردگار ان لوگوں نے میری نافرمانی کی ہے اور ان (بڑے ) لوگوں کی پیروی کی ہے جن کے مال و اولاد نے ان کے خسارے میں اضافہ کیا ہے (اور کوئی فائدہ نہیں پہنچایا)۔

۲۲.    اور انہوں نے (میرے خلاف) بڑا مکر و فریب کیا ہے۔

۲۳.   اور انہوں نے (عام لوگوں سے ) کہا کہ (نوحؑ کے کہنے پر) اپنے خداؤں کو ہرگز نہ چھوڑو۔ اور نہ ہی وَد اور سُواع کو چھوڑو اور نہ ہی یغوث و یعوق اور نسر کو چھوڑو۔

۲۴.   اور انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے (یا اللہ) تو بھی ان کی گمراہی کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہ کر۔

۲۵.   وہ اپنی خطاؤں کی وجہ سے غرق کر دئیے گئے پھر آگ میں ڈال دئیے گئے پھر انہوں نے اللہ (کے عذاب) سے بچانے والے کوئی مددگار نہ پائے۔

۲۶.    اور نوحؑ نے کہا اے میرے پروردگار! تو ان کافروں میں سے کوئی بھی رُوئے زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔

۲۷.   اگر تو انہیں چھوڑے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور بدکار اور سخت کافر کے سوا کسی اور کو جنم نہیں دیں گے۔

۲۸.   اے میرے پروردگار! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور ہر اس شخص کو بخش دے جو مؤمن ہو کر میرے گھر میں داخل ہو اور سب مؤمنین و مؤمنات کی مغفرت فرما اور کافروں کی ہلاکت کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہ کر۔

٭٭

 

۷۲۔ سورۃ الجنّ

 

۱.      (اے نبی ﷺ) آپﷺ کہئے ! کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنات کے ایک گروہ نے (قرآن کو) توجہ کے ساتھ سنا پھر (جا کر اپنی قوم سے ) کہا کہ ہم نے بڑا عجیب قرآن سنا ہے۔

۲.     جو بھلائی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اس لئے ہم تو اس پر ایمان لے آئے اور اب ہم کسی کو بھی اپنے پروردگار کا شریک نہیں بنائیں گے۔

۳.     اور یہ کہ ہمارے پروردگار کی شان بہت بلند ہے اس نے (اپنے لئے ) نہ کوئی بیوی بنائی ہے اور نہ اولاد۔

۴.     اور یہ کہ ہمارے بے وقوف لوگ خدا کے بارے میں خلافِ حق (ناروا) باتیں کرتے رہتے ہیں۔

۵.     اور یہ کہ ہمارا خیال تھا کہ انسان اور جن خدا کے بارے میں ہرگز جھوٹی بات نہیں کہیں گے۔

۶.     اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے کچھ لوگوں کی پناہ لیا کرتے تھے۔

۷.     اور یہ کہ انہوں (انسانوں ) نے بھی تمہاری طرح یہ خیال کیا کہ اللہ کسی کو (دوبارہ زندہ کر کے ) نہیں اٹھائے گا (یا کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجے گا)۔

۸.     اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے پایا کہ وہ سخت پہریداروں اور شہابوں سے بھر دیا گیا ہے۔

۹.     اور یہ کہ ہم (پہلے کچھ) سن گن لینے کیلئے آسمان کے بعض خاص مقامات پر بیٹھا کرتے تھے مگر اب جو (جن) سننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایک شہاب کو اپنی گھات میں پاتا ہے۔

۱۰.    اور یہ کہ ہم نہیں سمجھتے کہ آیا زمین والوں کیلئے کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے پروردگار نے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

۱۱.     اور یہ کہ ہم میں سے کچھ نیک ہیں اور کچھ اور طرح اور ہم مختلف الرّائے لوگ تھے۔

۱۲.    اور یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور نہ ہی بھاگ کر اسے بے بس کر سکتے ہیں۔

۱۳.    اور یہ کہ ہم نے جب ہدایت کی بات سنی تو اس پر ایمان لے آئے پس جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے گا تو اسے نہ کسی کمی (نقصان) کا خوف ہو گا اور نہ زیادتی کا۔

۱۴.    اور یہ کہ ہم میں سے بعض مسلم (فرمانبردار) ہیں اور کچھ راہِ راست سے منحرف (نافرمان) ہیں پس جنہوں نے اسلام (فرمانبرداری) کی راہ اختیار کی تو انہوں نے بھلائی کا راستہ ڈھونڈھ لیا۔

۱۵.    اور جو راہِ راست سے منحرف ہوں گے وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔

۱۶.    اور یہ کہ اگر یہ لوگ راہِ راست پر ثابت قدم رہتے تو ہم انہیں خوب سیراب کرتے۔

۱۷.    تاکہ اس نعمت سے ان کی آزمائش کریں اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے منہ موڑے گا خدا اسے ایسے سخت عذاب میں داخل کرے گا جو بڑھتا ہی جائے گا۔

۱۸.    اور یہ کہ سجدہ کے مقامات خاص اللہ کیلئے ہیں لہذا اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔

۱۹.    اور یہ کہ جب بھی اللہ کا خاص بندہ (رسول ﷺ) اس کو پکارنے کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) لوگ اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔

۲۰.    آپﷺ کہئے ! کہ میں تو صرف اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہیں دیتا۔

۲۱.    کہیے ! میں تمہارے لئے نہ کسی نقصان اور برائی کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا۔

۲۲.    آپ کہیے ! کہ مجھے اللہ سے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور میں اس کے سوا اور کوئی جائے پناہ نہیں پاتا۔

۲۳.   (ہاں البتہ) میرا کام صرف یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے تبلیغ کروں اور اس کے پیغامات (لوگوں تک) پہنچاؤں اور جو خدا اور اس کے رسولؑ کی نافرمانی کرے گا تو اس کے لئے دوزخ کی آگ ہے جس میں (ایسے لوگ) ہمیشہ رہیں گے۔

۲۴.   (یہ لوگ اپنی کجروی سے باز نہیں آئیں گے ) یہاں تک کہ جب وہ وہ چیز (عذاب) دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ وعید کیا جا رہا ہے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ مددگار اور تعداد کی حیثیت سے کون زیادہ کمزور ہے۔

۲۵.   آپﷺ کہہ دیجیے ! کہ میں نہیں جانتا کہ جس چیز (عذاب) کا تم لوگوں سے وعدہ وعید کیا جا رہا ہے کہ آیا وہ قریب ہے یا میرا پروردگار اس کیلئے کوئی طویل مدت مقرر کرتا ہے۔

۲۶.    وہ (اللہ) عالِمُ الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔

۲۷.   سوائے اپنے اس رسول کے جسے وہ اس بات کے لئے منتخب کرتا ہے تو وہ اس کے آگے پیچھے محافظ (فرشتے ) لگا دیتا ہے۔

۲۸.   تاکہ وہ معلوم کرے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغامات کو پہنچا دیا ہے اور وہ ان کے حالات کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس نے ہر چیز کو گن رکھا ہے۔

٭٭

۷۳۔ سورۃ مزمل

 

۱.      اے کمبلی اوڑھنے والے (رسولﷺ)۔

۲.     رات کو(نماز میں ) کھڑے رہا کیجئے مگر (پوری رات نہیں بلکہ) تھوڑی رات۔

۳.     یعنی آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کر دیجئے۔

۴.     یا اس سے کچھ بڑھا دیجئے ! اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (اور واضح کر کے ) پڑھا کیجئے !۔

۵.     بے شک ہم آپﷺ پر ایک بھاری کلام ڈالنے والے ہیں۔

۶.     بے شک رات کا اٹھنا سخت روندتا ہے (اور سخت کوفت کا باعث ہے ) مگر ذکر (خدا اور قرآن خوانی) کیلئے زیادہ موزوں اور ٹھیک ہے۔

۷.     بلاشبہ دن میں آپﷺ کیلئے بڑی مشغولیت ہے۔

۸.     اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کیجئے اور (سب سے کٹ کر) اسی کی طرف متوجہ ہو جائیے۔

۹.     وہ مشرق و مغرب کا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ پس اسی کو اپنا کارساز بنائیے۔

۱۰.    اور ان (کفار) کی باتوں پر صبر کیجئے ! اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ ان سے الگ ہو جائیے۔

۱۱.     اور مجھے اور ان جھٹلانے والے اہلِ دولت کو چھوڑ دیجئے اور انہیں تھوڑی سی مہلت دیجئے !

۱۲.    ہمارے پاس ان کیلئے بیٹریاں اور دوزخ کی آگ ہے۔

۱۳.    اور گلے میں پھنس جانے والی غذا اور دردناک عذاب ہے۔

۱۴.    یہ اس دن ہو گا جب زمین اور پہاڑ ہلنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے بکھر نے والے تودے بن جائیں گے۔

۱۵.    ہم نے تمہاری طرف ایک رسولﷺ بھیجا ہے تم پر گواہ بنا کر جس طرح ہم نے فر عون کی طرف ایک رسولؑ بھیجا تھا۔

۱۶.    پھر جب فرعون نے رسولؑ کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے بڑا سخت پکڑا۔

۱۷.    اگر تم نے کفر اختیار کیا تو اس دن کے عذاب سے کیونکر بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گا۔

۱۸.    جس کی سختی سے آسمان پھٹ جائے گا (اور یہ) اللہ کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔

۱۹.    بے شک یہ ایک بڑی نصیحت ہے پس جو چاہے وہ اپنے پروردگار کی طرف راستہ اختیار کرے۔

۲۰.    (اے رسول ﷺ) یقیناً آپﷺ کا پروردگار جانتا ہے کہ آپﷺ کبھی رات کی دو تہائی کے قریب، کبھی نصف شب اور کبھی ایک تہائی (نماز کیلئے ) قیام کرتے ہیں اور ایک گروہ آپ کے ساتھیوں میں سے بھی اور اللہ ہی رات اور دن کا اندازہ ٹھہراتا ہے (انہیں چھوٹا بڑا کرتا ہے ) وہ جانتا ہے کہ تم لوگ (اس) وقت پر پوری طرح حاوی نہیں ہو سکتے (شمار نہیں کر سکتے ) تو اس نے تمہارے حال پر توجہ (مہربانی) فرمائی تو اب جتنا قرآن تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو اتنا ہی پڑھ لیا کرو وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم میں کچھ بیمار ہوں گے اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اللہ کے فضل (روزی) کی تلاش میں زمین میں سفر کریں گے اور دوسرے لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے پس اتنا قرآن پڑھو جتنا میسر ہو اور نماز قائم کرو (پابندی سے پڑھو) اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کو قرضۂ حسنہ دو اور تم لوگ جو کچھ بھلائی (نیک عمل) اپنے لئے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے وہی تمہارے لئے بہتر ہے اس کا ثواب بہت بڑا ہے اور اللہ سے مغفرت طلب کرو بے شک اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔

٭٭

 

 

۷۴۔ سورۃ المدثر

 

۱.      اے چادر اوڑھنے والے (رسولﷺ)۔

۲.     اٹھئے اور (لوگوں کو عذابِ الٰہی) سے ڈرائیے۔

۳.     اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے۔

۴.     اور اپنے کپڑے پاک رکھئے۔

۵.     اور (بتوں کی) نجاست سے دور رہیے۔

۶.     اور (کسی پر) احسان نہ کیجئے زیادہ حاصل کرنے کیلئے۔

۷.     اور اپنے پروردگار کیلئے صبر کیجئے۔

۸.     اور جب صور پھونکا جائے گا۔

۹.     تو وہ دن بڑا سخت دن ہو گا۔

۱۰.    اور کافروں پر آسان نہ ہو گا۔

۱۱.     مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دیجئے جسے میں نے تنہا پیدا کیا۔

۱۲.    اور اسے پھیلا ہوا (فراواں ) مال و زر دیا۔

۱۳.    اور پاس حاضر رہنے والے بیٹے دے۔

۱۴.    اور اس کیلئے (سرداری کا) ہر قِسم کا سامان مہیا کیا۔

۱۵.    پھر بھی وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے زیادہ دوں۔

۱۶.    ہرگز نہیں وہ تو ہماری آیتوں کا سخت مخالف ہے۔

۱۷.    میں عنقریب (دوزخ کی) ایک سخت چڑھائی پر اسے چڑھا دوں گا۔

۱۸.    اس نے سوچا اور ایک بات تجویز کی۔

۱۹.    سو وہ غارت ہو اس نے کیسی بات تجویز کی؟

۲۰.    پھر وہ غارت ہو اس نے کیسی بات تجویز کی؟

۲۱.    پھر اس نے دیکھا۔

۲۲.    پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بنایا۔

۲۳.   پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا۔

۲۴.   پھر کہا کہ یہ تو محض جادو ہے جو پہلوں سے نقل ہوتا ہوا آ رہا ہے۔

۲۵.   یہ نہیں ہے مگر آدمی کا کلام۔

۲۶.    میں عنقریب اسے دوزخ میں جھونکوں گا۔

۲۷.   اور تم کیا سمجھو کہ دوزخ کیا ہے ؟

۲۸.   وہ نہ (کوئی چیز) باقی رکھتی ہے اور نہ چھوڑتی ہے۔

۲۹.    وہ کھال کو جھلس دینے والی ہے۔

۳۰.   اس پر اُنیس فرشتے (داروغے ) مقرر ہیں۔

۳۱.    اور ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے بنائے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد کو کافروں کیلئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ اہلِ کتاب یقین کریں اور اہلِ ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے اور اہلِ کتاب اور اہلِ ایمان شک و شبہ نہ کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور کافر لوگ کہیں گے کہ اس بیان سے اللہ کی کیا مراد ہے ؟ اسی طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور یہ (دوزخ کا) بیان نہیں ہے مگر انسانوں کے لئے نصیحت۔

۳۲.   ہرگز نہیں ! قَسم ہے چاند کی۔

۳۳.   اور رات کی جب وہ جانے لگے۔

۳۴.   اور صبح کی جب وہ روشن ہو جائے۔

۳۵.   وہ (دوزخ) بڑی چیزوں میں سے ایک بڑی چیز ہے۔

۳۶.   (جو) انسانوں کیلئے ڈراوا ہے۔

۳۷.   یعنی تم میں سے (ہر اس) شخص کیلئے جو آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے ہٹنا چاہے۔

۳۸.   ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے۔

۳۹.    سوائے دائیں ہاتھ والے (جنتیوں ) کے۔

۴۰.   جو بہشت کے باغوں میں ہوں گے۔

۴۱.    (اور) مجرموں سے سوال و جواب کرتے ہوں گے۔

۴۲.   کہ تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟

۴۳.   وہ کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔

۴۴.   اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔

۴۵.   اور بے ہودہ باتیں کرنے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی بے ہودہ کام کرتے تھے۔

۴۶.   اور ہم جزا و سزا کے دن کو جھٹلاتے تھے۔

۴۷.   یہاں تک کہ یقینی چیز (موت) ہمارے سامنے آ گئی۔

۴۸.   تو ایسے لوگوں کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔

۴۹.    سو انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ نصیحت سے رُوگردانی کرتے ہیں ؟

۵۰.   گویا وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں۔

۵۱.    جو شیر سے (ڈر کر) بھاگے جا رہے ہیں۔

۵۲.   بلکہ ان میں سے ہر ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلی ہوئی کتابیں دے دی جائیں۔

۵۳.   ایسا نہیں ہے بلکہ وہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔

۵۴.   ہرگز نہیں یہ تو ایک نصیحت ہے۔

۵۵.   جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔

۵۶.   اور وہ اس سے نصیحت حاصل نہیں کریں گے مگر یہ کہ اللہ چاہے وہی اس کا حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور وہی اس قابل ہے کہ مغفرت فرمائے۔

٭٭

 

۷۵۔ سورۃ القیامۃ

 

۱.      نہیں ! میں قَسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔

۲.     اور نہیں ! میں قَسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی۔

۳.     کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی (بوسیدہ) ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے ؟

۴.     ہاں ضرور جمع کریں گے ہم اس کی انگلیوں کے پور پور درست کرنے پر قادر ہیں۔

۵.     بلکہ انسان چاہتا ہے کہ اپنے آگے (آئندہ زندگی میں ) بھی بد عملی کرتا رہے۔

۶.     (اس لئے ) پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا؟

۷.     پس جب نگاہ خیرہ ہو جائے گی۔

۸.     اور چاند کو گہن لگ جائے گا۔

۹.     اور سورج اور چاند اکٹھے کر دئیے جائیں گے۔

۱۰.    اس دن انسان کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ؟

۱۱.     ہرگز نہیں ! کہیں کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔

۱۲.    اس دن صرف آپﷺ کے پروردگار کی طرف ٹھکانہ ہو گا۔

۱۳.    اس دن انسان کو بتایا جائے گا کہ اس نے کیا (عمل) آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا؟

۱۴.    بلکہ خود انسان اپنے حال کو خوب جانتا ہے۔

۱۵.    اگرچہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔

۱۶.    (اے رسول ﷺ) آپﷺ اپنی زبان کو اس (قرآن) کے ساتھ حرکت نہ دیجئے تاکہ اسے جلدی جلدی (حفظ) کر لیں۔

۱۷.    بیشک اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔

۱۸.    پس جب ہم اسے پڑھیں تو آپﷺ بھی اسی کے مطابق پڑھیں۔

۱۹.    پھر اس کا واضح کرنا بھی ہمارے ذمہ ہے۔

۲۰.    ہرگز نہیں بلکہ تم جلدی ملنے والی (دنیا) سے محبت کرتے ہو۔

۲۱.    اور آخرت (دیر سے آنے والی) کو چھوڑتے ہو۔

۲۲.    اس دن کچھ چہرے تر و تازہ ہوں گے۔

۲۳.   اپنے پروردگار کی نعمت (و رحمت) کو دیکھ رہے ہوں گے۔

۲۴.   اور کئی چہرے اس دن بے رونق ہوں گے۔

۲۵.   وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والا سلوک کیا جائے گا۔

۲۶.    ہرگز نہیں جب جان (کھینچ کر) حلق تک پہنچ جائے گی۔

۲۷.   اور کہا جائے گا کہ اب کون ہے جھاڑ پھونک کرنے والا؟

۲۸.   اور وہ سمجھ لے گا کہ اب (دنیا سے ) جدائی کا وقت ہے۔

۲۹.    اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔

۳۰.   اس دن تمہارے پروردگار کی طرف کھینچ کر جانا ہو گا۔

۳۱.    (اتنا کچھ سمجھانے کے باوجود اس مخصوص آدمی نے ) نہ تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی۔

۳۲.   بلکہ اس نے جھٹلایا اور منہ پھیر لیا۔

۳۳.   پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چلا گیا۔

۳۴.   یہ (روش) تیرے ہی لئے سزاوار ہے اور تیرے ہی لائق ہے۔

۳۵.   پھر یہ تیرے ہی لائق ہے اور تیرے ہی لئے سزوار ہے۔

۳۶.   کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اسے یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟

۳۷.   کیا وہ شروع میں منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو (رحم میں ) ٹپکایا جاتا ہے ؟

۳۸.   پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اس (خدا) نے اسے پیدا کیا اور پھر (اس کے ) اعضاء درست کئے۔

۳۹.    پھر اس سے دو قِسمیں بنائیں مرد و عورت۔

۴۰.   کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ مُردوں کو پھر زندہ کر دے۔

٭٭

 

۷۶۔ سورۃ الدھر

 

۱.      بے شک انسان پر زمانہ میں ایک ایسا وقت گزر چکا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔

۲.     بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ ہم اسے آزمائیں پس اس لئے ہم نے اسے سننے والا (اور) دیکھنے والا بنایا۔

۳.     بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے اب چاہے شکر گزار بنے اور چاہے ناشکرا بنے۔

۴.     بے شک ہم نے کافروں کیلئے زنجیریں، طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

۵.     بلاشبہ نیکوکار (جنت میں شرابِ طہور کے ) ایسے جام پئیں گے جن میں (آبِ کافور) کی آمیزش ہو گی۔

۶.     یعنی وہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے (خاص) بندے پئیں گے اور جدھر جائیں گے ادھر بہا کر لے جائیں گے۔

۷.     یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نذریں (منتیں ) پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی عام ہو گی۔

۸.     اور وہ اس (اللہ) کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔

۹.     (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کیلئے کھلاتے ہیں نہ تم سے کوئی جزا چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔

۱۰.    ہم تو اپنے پروردگار کی طرف سے ایک ایسے دن (کے عذاب) سے ڈرتے ہیں جو بڑا ترش اور سخت ہو گا۔

۱۱.     پس اللہ ان کو اس دن کے شر سے بچائے گا اور انہیں (چہروں کی) تر و تازگی اور (دلوں کا) سُرور عطا فرمائے گا۔

۱۲.    اور ان کے صبر کے صلہ میں انہیں بہشت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا۔

۱۳.    وہ وہاں اونچی مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے وہ وہاں نہ سورج (کی گرمی) دیکھیں گے اور نہ سردی کی ٹھٹھر۔

۱۴.    ان (باغہائے بہشت) کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور ان کے میوے ان کی دسترس میں ہوں گے (کہ ہر وقت بلا تکلف کھا سکیں گے )۔

۱۵.    اور ان کے سامنے چاندی کے برتن اور شیشہ کے چمکدار گلاس گردش میں ہوں گے۔

۱۶.    اور شیشے بھی (کانچ کے نہیں بلکہ) چاندی کی قِسم سے ہوں گے جنہیں (منتظمین نے ) پورے اندازے کے مطابق بنایا اور بھرا ہو گا۔

۱۷.    اور انہیں ایسی شرابِ طہور کے جام پلائے جائیں گے جن میں زنجبیل (سونٹھ کے پانی) کی آمیزش ہو گی۔

۱۸.    یہ اس (جنت) میں ایک چشمہ ہے جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔

۱۹.    اور ان کی خدمت کیلئے ایسے لڑکے گردش کر رہے ہوں گے جو ہمیشہ ایک حالت میں رہیں گے جب تم انہیں دیکھو گے تو سمجھو گے کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔

۲۰.    تم وہاں جدھر بھی دیکھو گے وہیں عظیم نعمت اور عظیم بادشاہی دیکھو گے۔

۲۱.    ان کے اوپر باریک ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور دبیز ریشم کے کپڑے بھی اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا پروردگار انہیں پاک و پاکیزہ شراب پلائے گا۔

۲۲.    یہ تمہاری جزا ہے اور تمہاری کوشش شکر گزاری کے قابل ہے۔

۲۳.   ہم ہی نے آپ پر تھوڑا تھوڑا کر کے قرآن نازل کیا ہے۔

۲۴.   اور اپنے پروردگار کے حکم کی خاطر صبر کیجئے اور ان میں سے کسی گنہگار یا نا شکر گزار (منکر) کی بات نہ مانئے۔

۲۵.   اور صبح و شام اپنے پروردگار کا نام یاد کیجئے۔

۲۶.    اور رات کے ایک حصے میں اس کو سجدہ کیجئے اور رات کے طویل حصہ میں اس کی تسبیح کیجئے۔

۲۷.   بے شک یہ لوگ دنیائے عاجل سے محبت رکھتے ہیں اور (آگے آنے والے ) ایک بھاری دن (قیامت) کو اپنے پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔

۲۸.   بے شک ہم نے ان کو پیدا کیا ہے اور ہم نے ہی ان کے جوڑ بند مضبوط کئے ہیں اور ہم ہی جب چاہیں گے تو ان کی جگہ انہی جیسے لوگ بدل دیں گے۔

۲۹.    بے شک یہ ایک بڑی نصیحت ہے تو جو چاہے اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے۔

۳۰.   اور تم نہیں چاہتے ہو مگر وہی جو خدا چاہتا ہے بے شک اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔

۳۱.    وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور اس نے ظالموں کیلئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

٭٭

 

۷۷۔ سورۃ المرسلٰت

 

۱.      قَسم ہے ان کی جو مسلسل چھوڑ دی جاتی ہیں۔

۲.     پھر (آندھی کی طرح) تیز و تند چلتی ہیں۔

۳.     جو (بادلوں کو) پھیلانے والی ہیں۔

۴.     پھر (انہیں ) متفرق کر دیتی ہیں۔

۵.     پھر (دلوں میں ) یاد (الٰہی) ڈالتی ہیں۔

۶.     (حجت تمام کر کے ) عذر قطع کرنے کیلئے یا ڈراوے کیلئے۔

۷.     بے شک جس چیز کا تم سے وعدہ وعید کیا جا رہا ہے وہ ضرور واقع ہو نے والی ہے۔

۸.     پس جب ستارے گرائے جائیں گے۔

۹.     اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا۔

۱۰.    اور جب پہاڑ (ریزہ ریزہ کر کے ) اڑا دیئے جائیں گے۔

۱۱.     اور جب رسولؑ وقتِ معیّن پر حاضر کئے جائیں گے۔

۱۲.    (آخر) کس دن کیلئے یہ تاخیر کی گئی؟

۱۳.    فیصلے کے دن کے لئے۔

۱۴.    تجھے کیا معلوم کہ فیصلے کا دن کیا ہے ؟

۱۵.    تباہی ہے اس دن کے جھٹلانے والوں کیلئے۔

۱۶.    کیا ہم نے پہلے والوں کو ہلاک نہیں کیا۔

۱۷.    پھر ان کے پیچھے بھیجے گئے لوگوں کو۔

۱۸.    ہم مجرموں کے ساتھ ایسا ہی (سلوک) کرتے ہیں۔

۱۹.    تباہی ہے اس دن کے جھٹلانے والوں کیلئے۔

۲۰.    کیا ہم نے تمہیں ایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟

۲۱.    پھر ہم نے اس کو ایک محفوظ مقام (رحمِ مادر) میں رکھا۔

۲۲.    ایک مقررہ مدت تک۔

۲۳.   (اس سے ثابت ہوا کہ) ہم قادر ہیں پس ہم کیسے اچھے قادر ہیں۔

۲۴.   (ہم کیسا اچھا اندازہ کرنے والے ہیں ) تباہی ہے اس دن کے جھٹلانے والوں کیلئے۔

۲۵.   کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا۔

۲۶.    زندوں کو بھی اور مُردوں کو بھی۔

۲۷.   اور ہم نے اس میں بلند و بالا پہاڑ بنائے اور تمہیں خوشگوار (اور میٹھے ) پانی سے سیراب کیا۔

۲۸.   تباہی ہے اس دن کے جھٹلانے والوں کیلئے۔

۲۹.    (حکم ہو گا) جاؤ اس (دوزخ) کی طرف جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

۳۰.   جاؤ اس سایہ کی طرف جس کی تین شاخیں ہیں۔

۳۱.    جو نہ سایہدار ہے اور نہ آگ کے شعلوں سے بچاتا ہے۔

۳۲.   وہ (دوزخ) اونچے مَحلوں کی مانند انگارے پھینکتی ہے۔

۳۳.   گویا کہ وہ زرد رنگ کے اونٹ ہیں۔

۳۴.   تباہی ہے اس دن کے جھٹلانے والوں کیلئے۔

۳۵.   یہ وہ دن ہو گا جس میں وہ بول نہیں سکیں گے۔

۳۶.   اور نہ ہی انہیں اجازت دی جائے گی کہ معذرت کر سکیں۔

۳۷.   تباہی ہے اس دن کے جھٹلانے والوں کیلئے۔

۳۸.   یہ فیصلے کا دن ہے جس میں ہم نے تمہیں اور پہلے والوں کو جمع کر دیا ہے۔

۳۹.    اگر تمہارے پاس (دوزخ سے بچنے کے لئے ) کوئی تدبیر ہے تو میرے مقابلہ میں چلاؤ۔

۴۰.   تباہی ہے اس دن کے جھٹلانے والوں کیلئے۔

۴۱.    بے شک پرہیزگار لوگ (اس دن) (رحمتِ خدا کے ) سایوں میں اور چشموں میں ہوں گے۔

۴۲.   اور ان پھلوں میں ہوں گے جنہیں وہ چاہیں گے۔

۴۳.   (ان سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ اور پیو اپنے ان اعمال کے صلے میں جو تم (دنیا میں ) کرتے رہے ہو۔

۴۴.   بے شک ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔

۴۵.   تباہی ہے اس دن کے جھٹلانے والوں کیلئے۔

۴۶.   (اے جھٹلانے والو) تم تھوڑے دن (دنیا میں ) کھا لو اور فائدہ اٹھا لو (بہرحال) تم لوگ مجرم ہو۔

۴۷.   تباہی ہے اس دن کے جھٹلانے والوں کیلئے۔

۴۸.   اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ کہ رکوع کرو تو وہ رکوع نہیں کرتے۔

۴۹.    تباہی ہے اس دن کے جھٹلانے والوں کے لئے۔

۵۰.   (آخر) وہ لوگ اس (قرآن) کے بعد کس کلام پر ایمان لائیں گے ؟

٭٭

 

۷۸۔ سورۃ نباء

 

۱.      یہ لوگ کس چیز کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال و جواب کر رہے ہیں ؟

۲.     کیا اس بڑی خبر کے بارے میں۔

۳.     جس کے متعلق وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں۔

۴.     ہرگز نہیں ! عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

۵.     پھر ہرگز نہیں ! عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

۶.     کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا؟

۷.     اور پہاڑوں کو میخیں۔

۸.     اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا۔

۹.     اور تمہاری نیند کو راحت و آرام کا ذریعہ۔

۱۰.    اور رات کو پردہ پوش۔

۱۱.     اور دن کو تحصیلِ معاش کا وقت بنایا۔

۱۲.    اور ہم نے تم پر سات مضبوط (آسمان) بنائے۔

۱۳.    اور ہم ہی نے (دن میں ) ایک نہایت روشن چراغ (سورج) بنایا۔

۱۴.    اور ہم نے پانی سے لبریز بادلوں سے موسلادھار پانی برسایا۔

۱۵.    تاکہ ہم اس کے ذریعہ سے غلہ اور سبزی اگائیں۔

۱۶.    اور گھنے باغات۔

۱۷.    بے شک فیصلے کے دن (قیامت) کا ایک معیّن وقت ہے۔

۱۸.    جس دن صور پھونکا جائے گا تو تم لوگ فوج در فوج آؤ گے۔

۱۹.    اور آسمان کھول دیا جائے گا اور وہ دروازے ہی دروازے ہو جائے گا۔

۲۰.    اور پہاڑ چلائے جائیں گے اور وہ بالکل سراب ہو جائیں گے۔

۲۱.    بے شک جہنم گھات میں ہے۔

۲۲.    جو سرکشوں کا ٹھکانہ ہے۔

۲۳.   وہ اس میں مدتہائے دراز تک پڑے رہیں گے۔

۲۴.   وہ اس میں نہ ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ کوئی پینے کی چیز۔

۲۵.   سوائے گرم پانی اور پیپ کے۔

۲۶.    یہ (ان کے اعمال) کے مطابق بدلہ ہے۔

۲۷.   یہ لوگ (روزِ) حساب (قیامت) کی توقع ہی نہیں رکھتے تھے۔

۲۸.   اور یہ ہماری آیتوں کو بے دریغ جھٹلاتے تھے۔

۲۹.    اور ہم نے ہر چیز کو ایک نوشتہ میں شمار کر رکھا ہے۔

۳۰.   چکھو اس کا مزہ ہم تمہارے عذاب میں اضافہ ہی کریں گے۔

۳۱.    بے شک پرہیزگاروں کیلئے کامیابی و کامرانی ہے۔

۳۲.   یعنی باغ اور انگور ہیں۔

۳۳.   اور اٹھتی جوانیوں والی ہم عمر لڑکیاں (حوریں )۔

۳۴.   اور چھلکتے ہوئے (شرابِ طہور کے ) جام۔

۳۵.   وہ لوگ وہاں نہ کوئی بے ہودہ بات سنیں گے اور نہ کوئی جھوٹ۔

۳۶.   یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے بطور عطیہ صلہ ہے جو کافی و وافی ہے۔

۳۷.   یعنی وہ ربِ رحمان کی طرف سے جو آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا پروردگار (اور مالک) ہے (جس کی ہیبت سے ) لوگوں کو اس سے بات کرنے کا یارا نہیں ہے۔

۳۸.   جس دن روح اور فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے کوئی بات نہیں کرے گا مگر جسے خدائے رحمان اجازت دے گا اور وہ ٹھیک بات کہے گا۔

۳۹.    یہ دن برحق ہے پس جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف اپنا ٹھکانہ بنائے۔

۴۰.   بے شک ہم نے تمہیں عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرا دیا ہے جس دن آدمی وہ (کمائی) دیکھے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجی ہو گی اور کافر کہے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا۔

٭٭

 

۷۹۔ سورۃ نٰزِعٰت

 

۱.      قَسم ہے ان (فرشتوں ) کی جو (جسم میں ڈوب کر) سختی سے (جان) کھینچتے ہیں۔

۲.     اور قَسم ہے آہستگی اور آسانی سے (جان) نکالنے والوں کی۔

۳.     اور قَسم ہے (فضاؤں کے اندر) تیر نے پھرنے والوں کی۔

۴.     پھر قَسم ہے (تعمیلِ حکم میں ) ایک دوسرے پر سبقت لے جانے والوں کی۔

۵.     پھر قَسم ہے ہر امر کا بندوبست کرنے والوں کی (کہ قیامت برحق ہے )۔

۶.     جس دن تھرتھرانے والی (زمین وغیرہ) تھرتھرائے گی۔

۷.     اس کے پیچھے ایک اور آنے والی (مصیبت) آئے گی۔

۸.     کچھ دل اس دن کانپ رہے ہوں گے۔

۹.     ان کی آنکھیں (شدتِ خوف سے ) جھکی ہوئی ہوں گی۔

۱۰.    وہ (کافر لوگ) کہتے ہیں کیا ہم پہلی حالت میں (الٹے پاؤں ) واپس لائے جائیں گے ؟

۱۱.     کیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں ہو جائیں گے ؟

۱۲.    کہتے ہیں یہ (واپسی) تو بڑے گھاٹے کی ہو گی۔

۱۳.    حالانکہ اس (واپسی) کیلئے ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی۔

۱۴.    پھر وہ کھلے ہوئے میدان (قیامت) میں موجود ہوں گے۔

۱۵.    (اے رسولﷺ) کیا آپﷺ کو موسیٰؑ کے قصہ کی خبر پہنچی ہے ؟

۱۶.    جب ان کے پروردگار نے طویٰ کی مقدس وادی میں انہیں پکارا تھا۔

۱۷.    کہ جاؤ فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔

۱۸.    پس اس سے کہو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے ؟

۱۹.    اور (کیا تو چاہتا ہے کہ) میں تیرے پروردگار کی طرف تیری راہنمائی کروں تو تُو (اس سے ) ڈرے ؟

۲۰.    پس موسیٰؑ نے (وہاں جا کر) اسے ایک بہت بڑی نشانی دکھائی۔

۲۱.    تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔

۲۲.    پھر وہ پلٹا (اور مخالفانہ سرگرمیوں میں ) کوشاں ہو گیا۔

۲۳.   یعنی (لوگوں کو) جمع کیا اور پکار کر کہا۔

۲۴.   کہ میں تمہارا سب سے بڑا پروردگار ہوں۔

۲۵.   پس اللہ نے اسے آخرت اور دنیا کے (دوہرے ) عذاب میں پکڑا۔

۲۶.    بے شک اس (قصہ) میں بڑی عبرت ہے ہر اس شخص کیلئے جو (خدا سے ) ڈرے۔

۲۷.   کیا تم لوگوں کا (دوبارہ) پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے ؟ یا آسمان کا؟ اللہ نے اس کو بنایا۔

۲۸.   اور اس کی چھت کو بلند کیا پھر اس کو درست کیا۔

۲۹.    اور اس کی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو ظاہر کیا۔

۳۰.   اس کے بعد زمین کو بچھایا۔

۳۱.    اور اس سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔

۳۲.   اور پہاڑوں کو اس میں گاڑا۔

۳۳.   تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے لئے سامانِ زندگی کے طور پر۔

۳۴.   پس جب بڑی آفت (قیامت) آئے گی۔

۳۵.   جس دن انسان یاد کرے گا جو کچھ اس نے کیا ہو گا۔

۳۶.   اور (ہر) دیکھنے والے کیلئے دوزخ ظاہر کر دی جائے گی۔

۳۷.   پس جس شخص نے سرکشی کی ہو گی۔

۳۸.   اور (آخرت پر) دنیوی زندگی کو ترجیح دی ہو گی۔

۳۹.    تو اس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا۔

۴۰.   اور جو شخص اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری سے ڈرتا رہا ہو گا اور (اپنے ) نفس کو (اس کی) خواہش سے روکا ہو گا۔

۴۱.    تو اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔

۴۲.   یہ لوگ آپﷺ سے سوال کرتے ہیں کہ قیامت کب کھڑی (برپا) ہو گی۔

۴۳.   آپﷺ کا اس کے وقت بتانے سے کیا تعلق؟

۴۴.   اس کی انتہا تو بس آپﷺ کے پروردگار پر ہے۔

۴۵.   آپﷺ تو بس ڈرانے والے ہیں اس شخص کو جو اس سے ڈرے۔

۴۶.   جس دن یہ لوگ اس (قیامت) کو دیکھیں گے تو (انہیں ایسا محسوس ہو گا کہ) وہ (دنیا میں ) نہیں ٹھہرے تھے۔ مگر ایک شام یا اس کی ایک صبح۔

٭٭

 

۸۰۔ سورۃ عَبَس

 

۱.      (ایک شخص نے ) تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا۔

۲.     کہ اس (پیغمبرِ اسلام ﷺ) کے پاس ایک نابینا آیا۔

۳.     اور تمہیں کیا معلوم شاید وہ پاکیزہ ہو جاتا۔

۴.     یا نصیحت حاصل کرتا اور نصیحت اسے فائدہ پہنچاتی۔

۵.     جو شخص مالدار ہے (یا بے پروائی کرتا ہے )۔

۶.     تو تم اس کی طرف تو توجہ کرتے ہو۔

۷.     حالانکہ تم پر کوئی الزام نہیں اگر وہ پاکیزہ نہیں ہوتا۔

۸.     اور جو تمہارے پاس دوڑتا ہوا (شوق سے ) آتا ہے۔

۹.     اور (خدا سے ) ڈرتا ہے۔

۱۰.    تو تم اس سے بے رُخی برتتے ہو۔

۱۱.     ہرگز نہیں ! یہ (قرآن) تو ایک نصیحت ہے۔

۱۲.    جو چاہے اسے قبول کرے۔

۱۳.    یہ (قرآن) ان صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں۔

۱۴.    بلند مر تبہ (اور) پاک و پاکیزہ ہیں۔

۱۵.    جو ایسے کاتبوں کے ہاتھوں سے (لکھے ہوئے ) ہیں۔

۱۶.    جو معزز اور نیکوکار ہیں۔

۱۷.    غارت ہو (منکر) انسان یہ کتنا بڑا ناشکرا ہے ؟

۱۸.    اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا کیا ہے ؟

۱۹.    نطفہ سے اسے پیدا کیا ہے اور پھر اس کے اعضاء و جوا رح کا اندازہ مقرر کیا ہے۔

۲۰.    پھر (زندگی کا) راستہ اس کے لئے آسان کر دیا۔

۲۱.    پھر اس کو موت دی پھر اسے قبر میں پہنچایا۔

۲۲.    پھر جب چاہے گا اسے دوبارہ زندہ کر دے گا۔

۲۳.   ہرگز نہیں (بایں ہمہ) اس نے اسے پورا نہ کیا جس کا (خدا نے ) اسے حکم دیا تھا۔

۲۴.   انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی غذا کی طرف دیکھے۔

۲۵.   ہم نے اچھی طرح خوب پانی برسایا۔

۲۶.    پھر ہم نے زمین کو اچھی طرح شگافتہ کیا۔

۲۷.   پھر ہم نے اس میں غلے۔

۲۸.   اور انگور اور ترکاریاں اگائیں۔

۲۹.    اور زیتون اور کھجوریں۔

۳۰.   اور گھنے باغ۔

۳۱.    اور میوے اور چارا۔

۳۲.   جو تمہارے اور تمہارے مویشیوں کیلئے سامانِ زندگی کے طور پر ہے۔

۳۳.   پس جب کانوں کو پھاڑ دینے والی آواز آ جائے گی۔

۳۴.   تو اس دن آدمی اپنے بھائی سے۔

۳۵.   اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے۔

۳۶.   اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے بھاگے گا۔

۳۷.   اس دن ان میں ہر شخص کا یہ عالم ہو گا جو اسے سب سے بے پروا کر دے گا۔

۳۸.   کچھ چہرے اس دن روشن ہوں گے۔

۳۹.    خنداں و شاداں (اور خوش و خرم) ہوں گے۔

۴۰.   ور کچھ چہرے ایسے ہوں گے جن پر گرد و غبار پڑی ہوئی ہو گی۔

۴۱.    اور ان پر سیاہی چھائی ہو گی۔

۴۲.   اور یہی لوگ کافر و فاجر ہوں گے۔

٭٭

 

۸۱۔ سورۃ تکویر

 

۱.      جب سورج (کی بساط) لپیٹ دی جائے گی۔

۲.     اور ستارے (بکھر کر) بے نور ہو جائیں گے۔

۳.     اور جب پہاڑ چلا دئیے جائیں گے۔

۴.     اور جب حاملہ اونٹنیاں آوارہ پھریں گی۔

۵.     اور جب وحشی جانور اکٹھے کر دئیے جائیں گے۔

۶.     اور جب سمندر بھڑکا دئیے جائیں گے۔

۷.     اور جب جانیں (جِسموں سے ) ملا دی جائیں گی۔

۸.     اور جب زندہ درگور کی ہوئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا۔

۹.     کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی؟

۱۰.    اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے۔

۱۱.     اور جب آسمان کھول دیا جائے گا۔

۱۲.    اور جب دوزخ بھڑکا دی جائے گی۔

۱۳.    اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی۔

۱۴.    تب ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نے کیا لا کر پیش کیا ہے۔

۱۵.    تو نہیں ! میں قَسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے۔

۱۶.    سیدھے چلنے اور چھپ جانے والے ستاروں کی۔

۱۷.    اور قَسم کھاتا ہوں رات کی جب وہ جانے لگے۔

۱۸.    اور صبح کی جب وہ سانس لے کر آنے لگے۔

۱۹.    بے شک یہ (قرآن) ایک معزز پیغامبرﷺ کا قول ہے۔

۲۰.    جو قوت والا ہے اور مالکِ عرش کے نزدیک بلند مرتبہ ہے۔

۲۱.    (وہاں ) اس کا حکم مانا جاتا ہے اور پھر وہ امانتدار (بھی) ہے۔

۲۲.    اور تمہارا ساتھی (پیغمبرِ اسلام ﷺ) دیوانہ نہیں ہے۔

۲۳.   اور اس (پیغمبرﷺ) نے اس (پیغامبر) کو روشن افق (کنارے ) پر دیکھا ہے۔

۲۴.   اور وہ غیب کی باتوں کے معاملہ میں بخیل نہیں ہے۔

۲۵.   اور وہ (قرآن) کسی مردود شیطان کا قول نہیں ہے۔

۲۶.    تم کدھر جا رہے ہو؟

۲۷.   وہ نہیں ہے مگر تمام دنیا جہان کے لئے نصیحت۔

۲۸.   یعنی اس کیلئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے۔

۲۹.    اور تم نہیں چاہتے مگر وہی جو عالمین کا پروردگار چاہتا ہے۔

٭٭

 

۸۲۔ سورۃ انفطار

 

۱.      اور جب آسمان پھٹ جائے گا۔

۲.     اور جب ستارے بکھر جائیں گے۔

۳.     اور جب سمندر بہہ پڑیں گے۔

۴.     اور جب قبریں تہ و بالا کر دی جائیں گی۔

۵.     تب ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا ہے اور پیچھے کیا چھوڑا ہے ؟

۶.     اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے (رحیم و) کریم پروردگار سے دھو کے میں ڈال رکھا ہے ؟

۷.     جس نے تجھے پیدا کیا پھر (تیرے اعضاء کو) درست بنایا (اور) پھر تجھے متناسب بنایا۔

۸.     جس شکل میں چاہا تجھے ترتیب دے دیا۔

۹.     ہرگز نہیں ! بلکہ (اصل حقیقت یہ ہے کہ) تم جزا و سزا (کے دن) کو جھٹلاتے ہو۔

۱۰.    حالانکہ تم پر نگران (ملائکہ) مقرر ہیں۔

۱۱.     معزز لکھنے والے۔

۱۲.    وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔

۱۳.    بے شک نیکوکار لوگ عیش و آرام میں ہوں گے۔

۱۴.    اور بدکار لوگ دوزخ میں ہوں گے۔

۱۵.    وہ جزا (سزا) والے دن اس میں داخل ہوں گے۔

۱۶.    اور وہ اس سے اوجھل نہیں ہوں گے۔

۱۷.    تمہیں کیا معلوم کہ وہ جزا و سزا کا دن کیا ہے ؟

۱۸.    (پھر سنو) تمہیں کیا معلوم کہ جزا (و سزا) والا دن کیا ہے ؟

۱۹.    جس دن کوئی کسی دوسرے کے کام نہ آ سکے گا اور اس دن معاملہ (اختیار) اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہو گا۔

٭٭

 

۸۳۔ سورۃ مُطفِّفیِن

 

۱.      بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے (ڈنڈی مارنے ) والوں کے لئے۔

۲.     جب وہ (اپنے لئے ) لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیتے ہیں۔

۳.     اور جب لوگوں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں۔

۴.     کیا یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ وہ (دوبارہ زندہ کر کے ) اٹھائے جائیں گے۔

۵.     ایک بڑے (سخت) دن کیلئے۔

۶.     جس دن تمام لوگ ربُ العالمین کی بارگاہ میں پیشی کیلئے کھڑے ہوں گے۔

۷.     ہرگز نہیں ! بے شک بدکاروں کا نامۂ اعمال سِجِّین (قید خانہ کے دفتر) میں ہے۔

۸.     تمہیں کیا معلوم کہ سِجِّین کیا ہے ؟

۹.     یہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے (جس میں بدکاروں کے عمل درج ہیں )۔

۱۰.    بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔

۱۱.     جو جزا و سزا کے دن (قیامت) کو جھٹلاتے ہیں۔

۱۲.    اور اس دن کو نہیں جھٹلاتا مگر وہ شخص جو حد سے گزر نے والا (اور) گنہگار ہے۔

۱۳.    کہ جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو پہلے زمانے والوں کے افسانے ہیں۔

۱۴.    ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زَنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کرتے ہیں۔

۱۵.    ہرگز (ایسا نہیں کہ جزا وسزا نہ ہو) یہ لوگ اس دن اپنے پروردگار (کی رحمت سے ) (محجوب اور محروم) رہیں گے۔

۱۶.    پھر یہ لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔

۱۷.    پھر (ان سے ) کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھٹلاتے تھے۔

۱۸.    ہرگز (ایسا) نہیں (کہ جزا و سزا نہ ہو) یقیناً نیکو کاروں کا نامۂ اعمال علیین (بلند مرتبہ لوگوں کے دفتر) میں ہے۔

۱۹.    اور تمہیں کیا معلوم کہ علیین (بلند مرتبہ لوگوں کا دفتر) کیا ہے ؟

۲۰.    وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے (جس میں نیکو کاروں کے عمل درج ہیں )۔

۲۱.    جس کا مشاہدہ مقرب فرشتے کرتے ہیں۔

۲۲.    بے شک نیکوکار لوگ عیش و آرام میں ہوں گے۔

۲۳.   اونچی مسندوں پر بیٹھ کر دیکھ رہے ہوں گے (نظارے کر رہے ہوں گے )۔

۲۴.   تم ان کے چہروں پر راحت و آرام کی شادابی محسوس کرو گے۔

۲۵.   انہیں سر بمہر عمدہ شراب (طہور) پلائی جائے گی۔

۲۶.    جس پر مشک کی مہر ہو گی۔ اس چیز میں سبقت لے جانے والوں کو سبقت (اور رغبت) کرنی چاہیے۔

۲۷.   ور اس (شراب میں ) تسنیم کی آمیزش ہو گی۔

۲۸.   یہ وہ چشمہ ہے جس سے مقرب لوگ پئیں گے۔

۲۹.    بے شک جو مجرم لوگ تھے وہ (دارِ دنیا میں ) اہلِ ایمان پر ہنستے تھے۔

۳۰.   جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو آنکھیں مارا کرتے تھے۔

۳۱.    اور جب اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے تھے تو دل لگیاں کرتے ہوئے لوٹتے تھے۔

۳۲.   اور جب ان (اہلِ ایمان) کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔

۳۳.   حالانکہ وہ ان کے نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔

۳۴.   پس آج اہلِ ایمان کافروں (اور منکروں ) پر ہنستے ہوں گے۔

۳۵.   اونچی مسندوں پر بیٹھے ہوئے (ان کی حالت) دیکھ رہے ہوں گے۔

۳۶.   کیا کافروں کو ان کے کئے ہوئے (کرتوتوں ) کا پورا بدلہ مل گیا ہے۔

٭٭

 

۸۴۔ سورۃ اِنشِقاق

 

۱.      اور جب آسمان پھٹ جائے گا۔

۲.     اور وہ اپنے پروردگار کا حکم سن لے گا (اور اس کی تعمیل کرے گا) اور اس پر لازم بھی یہی ہے۔

۳.     اور جب زمین پھیلا دی جائے گی۔

۴.     اور جو کچھ اس کے اندر ہے وہ اسے باہر پھینک دے گی اور خالی ہو جائے گی۔

۵.     اور اپنے پروردگار کا حکم سنے گی اور (اس کی تعمیل کرے گی) اور اس پر لازم بھی یہی ہے۔

۶.     اے انسان! تو کشاں کشاں اپنے پروردگار کی طرف (کھنچا چلا) جا رہا ہے اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو نے والا ہے۔

۷.     پس جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

۸.     تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔

۹.     اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش و خرم لوٹے گا۔

۱۰.    اور جس کا نامۂ اعمال اس کے پس پشت دیا جائے گا۔

۱۱.     تو وہ موت (اور تباہی) کو پکارے گا۔

۱۲.    اور (دوزخ کی) بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا۔

۱۳.    یہ شخص (دنیا میں ) اپنے لوگوں میں خوش خوش رہتا تھا۔

۱۴.    اس کا خیال تھا کہ وہ کبھی (اپنے خدا کے پاس) لوٹ کر نہیں جائے گا۔

۱۵.    کیوں نہیں ! بے شک اس کا پروردگار اسے خوب دیکھ رہا تھا۔

۱۶.    پس نہیں ! میں قَسم کھاتا ہوں شفق کی۔

۱۷.    اور رات کی اور ان چیزوں کی (قَسم کھاتا ہوں ) جن کو وہ (رات) سمیٹ لیتی ہے۔

۱۸.    اور چاند کی (قَسم کھاتا ہوں ) جب وہ پورا ہو جائے۔

۱۹.    تمہیں یونہی (تدریجاً) زینہ بہ زینہ چڑھنا ہے (اور ایک ایک منزل طے کرنی ہے )۔

۲۰.    تو انہیں کیا ہو گیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے ؟

۲۱.    اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو یہ سجدہ نہیں کرتے ؟

۲۲.    بلکہ کافر لوگ تو الٹا (اسے ) جھٹلاتے ہیں۔

۲۳.   اور اللہ بہتر جانتا ہے جو کچھ وہ (اپنے دلوں میں ) جمع کر رہے ہیں۔

۲۴.   آپﷺ انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے۔

۲۵.   ہاں البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کیلئے کبھی ختم نہ ہو نے والا اجر و ثواب ہے۔

٭٭

 

۸۵۔ سورۃ بروج

 

۱.      قَسم ہے بُرجوں (قلعوں ) والے آسمان کی۔

۲.     اور وعدہ کئے گئے دن (قیامت) کی۔

۳.     اور گواہ کی قَسم اور اس چیز کی جس کی گواہی دی جائے گی۔

۴.     غارت ہوئے خندق والے۔

۵.     جس میں بھڑکتے ہوئے ایندھن والی آگ تھی۔

۶.     جب کہ وہ اس (خندق) کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے۔

۷.     اور وہ جو کچھ اہلِ ایمان کے ساتھ کر رہے تھے اس کو دیکھ رہے تھے۔

۸.     اور انہوں نے اہلِ ایمان کی کسی چیز کو ناپسند نہیں کیا (اور ان میں کوئی عیب نظر نہیں آیا) سوائے اس کے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے جو غالب ہے (اور) سزاوارِ ستائش ہے۔

۹.     وہ جس کی آسمانوں اور زمین میں بادشاہی ہے اور ہر چیز پر گواہ ہے۔

۱۰.    جن لوگوں نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں پر ظلم و ستم کیا اور پھر توبہ بھی نہ کی تو ان کیلئے جہنم کا عذاب ہے اور آگ سے جلنے کی سزا ہے۔

۱۱.     بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کیلئے (جنت کے ) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں یہ بڑی کامیابی ہے۔

۱۲.    بے شک تمہارے پروردگار کی گرفت بڑی سخت ہے۔

۱۳.    وہی پہلی بار پیدا کرنے والا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔

۱۴.    وہ بڑا بخشنے والا (اور) بڑا محبت کرنے والا ہے۔

۱۵.    وہ عرش کا مالک (اور) بڑی شان والا ہے۔

۱۶.    وہ جو چاہتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔

۱۷.    کیا تمہیں لشکروں کی خبر پہنچی ہے ؟

۱۸.    یعنی فرعون اور ثمود (کے لشکروں ) کی۔

۱۹.    بلکہ یہ کافر (و منکر) تو جھٹلانے میں لگے ہیں۔

۲۰.    حالانکہ اللہ ان کو آگے پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے۔

۲۱.    بلکہ وہ بڑی شان والا قرآن ہے۔

۲۲.    جو لوحِ محفوظ میں ثبت ہے۔

٭٭

 

۸۶۔ سورۃ الطارق

 

۱.      قَسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہو نے والے کی۔

۲.     اور تمہیں کیا معلوم کہ رات کو نمودار ہو نے والا کیا ہے ؟

۳.     وہ چمکتا ہوا تارا ہے۔

۴.     کوئی متنفس ایسا نہیں ہے جس پر کوئی نگہبان نہ ہو۔

۵.     سو انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟

۶.     اچھل کر نکلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔

۷.     جو ریڑھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔

۸.     بے شک وہ (خدا) اس کے لوٹا سکنے (دوبارہ پیدا کرنے ) پر قادر ہے۔

۹.     جس دن سب پوشیدہ راز کھل جائیں گے۔

۱۰.    پس اس وقت نہ خود انسان کے پاس کوئی طاقت ہو گی اور نہ کوئی مددگار ہو گا۔

۱۱.     قَسم ہے بارش والے آسمان کی۔

۱۲.    اور (نباتات کے ذریعہ سے ) پھٹ جانے والی زمین کی۔

۱۳.    کہ وہ (قرآن) قولِ فیصل ہے۔

۱۴.    کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے۔

۱۵.    بے شک وہ (کافر لوگ) کچھ چالیں چل رہے ہیں۔

۱۶.    اور میں بھی (ان کے خلاف) ایک چال چل رہا ہوں۔

۱۷.    تو (اے رسولﷺ) ان (کافروں ) کو مہلت دے دیجئے ان کو تھوڑی سی مہلت دے دیجئے۔

٭٭

 

۸۷۔ سورۃ اعلیٰ

 

۱.      (اے نبیﷺ) اپنے بلند و برتر پروردگار کے نام کی تسبیح کیجئے۔

۲.     جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا پھر درست کیا (تناسب قائم کیا)۔

۳.     جس نے تقدیر مقرر کی (ہر چیز کا اندازہ مقرر کیا) اور (سیدھی) راہ دکھائی۔

۴.     اس نے (جانوروں کیلئے ) زمین سے چارہ نکالا۔

۵.     پھر اسے (خشک کر کے ) سیاہی مائل کوڑا بنا دیا۔

۶.     ہم آپﷺ کو (ایسا) پڑھائیں گے کہ پھر آپﷺ نہیں بھولیں گے۔

۷.     مگر جو اللہ چاہے (بھلا دے ) بے شک وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور اس کو بھی جو چھپا ہوا ہے۔

۸.     اور ہم آپﷺ کو آسان (شریعت) کی سہولت دیں گے۔

۹.     پس آپﷺ نصیحت کیجئے اگر نصیحت کچھ فائدہ پہنچائے۔

۱۰.    وہ شخص نصیحت قبول کرے گا جو (خدا و آخرت سے ) ڈرتا ہو گا۔

۱۱.     اور جو بدبخت ہے وہ اس سے گریز کرے گا۔

۱۲.    جو بڑی آگ میں داخل ہو گا۔

۱۳.    پھر وہ اس میں نہ مرے گا نہ جئے گا۔

۱۴.    وہ شخص فائز المرام ہوا جس نے اپنے آپ کو (بد اعتقادی و بد عملی سے ) پاک کیا۔

۱۵.    اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا اور نماز پڑھی۔

۱۶.    مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو (آخرت پر) ترجیح دیتے ہو۔

۱۷.    حالانکہ آخرت بہتر ہے اور پائیدار ہے۔

۱۸.    یقیناً یہ بات پہلے صحیفوں میں بھی ہے۔

۱۹.    یعنی ابراہیمؑ اور موسیٰؑ کے صحیفوں میں۔

٭٭

 

۸۸۔ سورۃ غاشیہ

 

۱.      کیا تمہیں (کائنات پر) چھا جانے والی (مصیبت یعنی قیامت) کی خبر پہنچی ہے ؟

۲.     اس دن کچھ چہرے ذلیل (اترے ہوئے ) ہوں گے۔

۳.     سخت محنت کرنے والے (نڈھال اور) تھکے ماندے ہوں گے۔

۴.     وہ دہکتی ہوئی آگ میں پڑیں گے (اور جھلسیں گے )۔

۵.     انہیں کھولتے ہوئے چشمہ کا پانی پلایا جائے گا۔

۶.     (وہاں ) ان کیلئے کوئی کھانا نہ ہو گا سوائے خاردار جھاڑ کے۔

۷.     جو نہ (انہیں ) موٹا کرے گا اور نہ بھوک دور کرے گا۔

۸.     (اور) کچھ چہرے اس دن تر و تازہ (اور با رونق) ہوں گے۔

۹.     اپنی کاوش و کوشش پر خوش اور مطمئن ہوں گے۔

۱۰.    (اور) عالیشان جنت میں ہوں گے۔

۱۱.     جہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہیں سنیں گے۔

۱۲.    اس میں چشمہ رواں دواں ہو گا۔

۱۳.    اس میں اونچے اونچے تخت (بچھے ہوئے ) ہوں گے۔

۱۴.    اور جام و ساغر رکھے ہوں گے۔

۱۵.    اور گاؤ تکیے قطار در قطار لگے ہوئے ہوں گے۔

۱۶.    اور طرح طرح کے نفیس فرش و فروش بچھے ہوئے ہوں گے۔

۱۷.    کیا یہ لوگ اونٹ کو (غور سے ) نہیں دیکھتے کہ وہ کیونکر پیدا کیا گیا ہے ؟

۱۸.    اور آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے بلند کیا گیا ہے۔

۱۹.    اور پہاڑوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیونکر کھڑے کئے گئے ہیں ؟

۲۰.    اور زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی ہے۔

۲۱.    پس(اے رسولﷺ) آپﷺ نصیحت کیجئے (اور سمجھائیے ) کہ آپﷺ نصیحت کرنے (اور سمجھانے ) والے ہیں۔

۲۲.    آپﷺ ان پر داروغہ نہیں ہیں۔

۲۳.   ہاں البتہ جو شخص رُوگردانی کرے گا اور کفر کرے گا۔

۲۴.   تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا۔

۲۵.   یقیناً ان کی بازگشت ہماری طرف ہے۔

۲۶.    پھر بیشک ان کا حساب کتاب ہمارے ذمہ ہے۔

٭٭

 

۸۹۔ سورۃ فجر

 

۱.      قَسم ہے صبح کی۔

۲.     اور دس (مقدس) راتوں کی۔

۳.     اور جُفت اور طاق کی۔

۴.     اور رات کی جبکہ (جانے کیلئے ) چلنے لگے۔

۵.     کیا اس میں صاحبِ عقل کیلئے کوئی قسم ہے ؟ (یعنی یقیناً ہے )۔

۶.     کیا آپﷺ نے نہیں دیکھا کہ آپﷺ کے پروردگار نے قومِ عاد کے ساتھ کیا کیا؟

۷.     یعنی اونچے ستونوں والے ارم کے ساتھ۔

۸.     جن کا مثل (دنیا کے ) شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا۔

۹.     اور قومِ ثمود کے ساتھ (کیا کیا؟) جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں (اور عمارتیں بنائی تھیں )۔

۱۰.    اور فرعون میخوں والے کے ساتھ (کیا کیا؟)۔

۱۱.     ان لوگوں نے شہروں میں سرکشی کی تھی۔

۱۲.    اور ان میں بہت فساد پھیلایا تھا۔

۱۳.    تو آپ کے پروردگار نے ان پر عذاب کا کَوڑا برسایا۔

۱۴.    بے شک آپﷺ کا پروردگار (ایسے لوگوں کی) تاک میں ہے۔

۱۵.    لیکن انسان (کا حال یہ ہے کہ) جب اس کا پروردگار اسے آزماتا ہے اور اسے عزت و نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے میری عزت افزائی کی۔

۱۶.    اور جب وہ (خدا) اسے اس طرح آزماتا ہے کہ اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کر دیا۔

۱۷.    ہرگز نہیں ! بلکہ تم لوگ یتیم کی عزت نہیں کرتے۔

۱۸.    اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو آمادہ نہیں کرتے۔

۱۹.    اور وراثت کا سارا مال (حلال و حرام) سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔

۲۰.    اور تم مال و منال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو۔

۲۱.    ہرگز نہیں ! وہ وقت یاد کرو جب زمین کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔

۲۲.    اور تمہارا پروردگار (یعنی اس کا حکم) آ جائے گا اور فرشتے قطار اندر قطار آئیں گے۔

۲۳.   اور اس دن جہنم (سامنے ) لائی جائے گی اور اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر اب سمجھ آنے کا کیا فائدہ؟

۲۴.   وہ کہے گا کہ کاش! میں نے اپنی (اس) زندگی کیلئے کچھ آگے بھیجا ہوتا۔

۲۵.   پس اس دن نہ تو خدا کی طرح کوئی عذاب دے گا۔

۲۶.    اور نہ اس کے باندھنے کی طرح کوئی باندھ سکے گا۔

۲۷.   (ارشاد ہو گا) اے نفسِ مطمئن۔

۲۸.   تو اس حالت میں اپنے پروردگار کی طرف چل کہ تواس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے۔

۲۹.    پس تُو میرے (خاص) بندوں میں داخل ہو جا۔

۳۰.   اور میری جنت میں داخل ہو جا۔

٭٭

 

۹۰۔ سورۃ بلد

 

۱.      نہیں ! میں قَسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔

۲.     درآنحالیکہ آپﷺ اس شہر میں قیام پذیر ہیں۔

۳.     اور قَسم کھاتا ہوں باپ (آدمؑ) کی اوراس کی اولاد کی۔

۴.     یقیناً ہم نے انسان کو محنت و مشقت کیلئے پیدا کیا ہے۔

۵.     کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا۔

۶.     وہ کہتا ہے کہ میں نے بہت سا مال اڑا دیا۔

۷.     کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا۔

۸.     کیا ہم نے اس کیلئے دو آنکھیں نہیں بنائیں ؟

۹.     اور ایک زبان اور دو ہونٹ؟

۱۰.    اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے ہیں۔

۱۱.     مگر وہ (نیکی کی) دشوار گزار گھاٹی سے نہیں گزرا۔

۱۲.    اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ دشوار گزار گھاٹی کیا ہے ؟

۱۳.    وہ کسی گردن کو (غلامی یا قرض سے ) چھڑانا۔

۱۴.    یا بھوک کے دن۔

۱۵.    کسی یتیم رشتہ دار کو۔

۱۶.    یاخاکسار مسکین کو کھانا کھلانا۔

۱۷.    پھر وہ ان لوگوں میں سے بھی ہوتا جو ایمان لائے اور ایک دوسرے کو صبر کرنے اور رحم کرنے کی وصیت کی۔

۱۸.    یہی لوگ داہنے (ہاتھ) والے ہیں۔

۱۹.    اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا وہ بائیں (ہاتھ والے ہیں )۔

۲۰.    ان پر چَو طرفہ بند کی ہوئی آگ محیط ہو گی۔

٭٭

 

۹۱۔ سورۃ شمس

 

۱.      قَسم ہے سورج اور اس کی ضیاء و شعاع کی۔

۲.     اور چاند کی جب وہ اس (سورج) کے پیچھے آئے۔

۳.     دن کی جب وہ اس (سورج) کو خوب روشن کر دے۔

۴.     اور رات کی جب کہ وہ اسے ڈھانپ لے۔

۵.     اور آسمان کی اور اس (ذات) کی جس نے اسے بنایا۔

۶.     اور زمین کی اور جس نے اسے بچھایا۔

۷.     اور انسانی نفس کی اور اس کی جس نے اسے درست بنایا۔

۸.     پھر اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری کا الہام (القاء) کیا۔

۹.     بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کا تزکیہ کیا۔

۱۰.    اور وہ شخص نامراد ہوا جس نے (گناہ سے آلودہ کر کے ) اسے دبا دیا۔

۱۱.     قومِ ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے (اپنے پیغمبرﷺ کو) جھٹلایا۔

۱۲.    جب ان کا سب سے زیادہ بدبخت (آدمی) اٹھ کھڑا ہوا۔

۱۳.    تو اللہ کے رسولؑ (صالحؑ) نے ان لوگوں سے کہا کہ اللہ کی اونٹنی اور اس کے پانی پینے سے خبر دار رہنا (اس کا خیال رکھنا)۔

۱۴.    پس ان لوگوں نے ان (رسولؑ) کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو ان کے پروردگار نے ان کے گناہ (عظیم) کی پاداش میں ان پر ہلاکت نازل کی اور اسی (بستی) کو زمین کے برابر کر دیا۔

۱۵.    اور اللہ کو اس واقعہ کے انجام کا کوئی خوف نہیں ہے۔

٭٭

 

۹۲۔ سورۃ لیل

 

۱.      قَسم ہے رات کی جب کہ وہ (دن کو) ڈھانپ لے۔

۲.     اور قَسم ہے دن کی جب کہ وہ روشن ہو جائے۔

۳.     اور اس ذات کی قَسم جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا۔

۴.     یقیناً تمہاری کوششیں مختلف قِسم کی ہیں۔

۵.     تو جس نے (راہِ خدا میں ) مال دیا اور پرہیزگاری اختیار کی۔

۶.     اور اچھی بات (اسلام) کی تصدیق کی۔

۷.     تو ہم اسے آسان راستہ کیلئے سہو لت دیں گے۔

۸.     اور جس نے بُخل کیا اور (خدا سے ) بے پرواہی کی۔

۹.     اور اچھی بات کو جھٹلایا۔

۱۰.    تو ہم اسے سخت راستے کی سہولت دیں گے۔

۱۱.     اور اس کا مال اسے کوئی فائدہ نہ دے گا جب وہ (ہلاکت کے ) گڑھے میں گرے گا۔

۱۲.    بے شک راہ دکھانا ہمارے ذمہ ہے۔

۱۳.    اور بے شک آخرت اور دنیا ہمارے ہی قبضہ میں ہیں۔

۱۴.    سو میں نے تمہیں بھڑکتی ہوئی آگ سے ڈرایا ہے۔

۱۵.    اس میں وہ داخل ہو گا(اور جلے گا) جو بڑا بدبخت ہو گا۔

۱۶.    جس نے جھٹلایا اور رُوگردانی کی۔

۱۷.    اور جو بڑا پرہیزگار ہو گا وہ اس سے دور رکھا جائے گا۔

۱۸.    جو پاکیزگی حاصل کرنے کیلئے اپنا مال دیتا ہے۔

۱۹.    اور اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ دیا جائے۔

۲۰.    بلکہ وہ تو صرف اپنے بالا و برتر پروردگار کی خوشنودی چاہتا ہے۔

۲۱.    اور عنقریب وہ اس سے ضرور خوش ہو جائے گا۔

٭٭

 

۹۳۔ سورۃ ضحیٰ

 

۱.      قَسم ہے روزِ روشن کی۔

۲.     اور رات کی جب کہ وہ آرام و سکون کے ساتھ چھا جائے۔

۳.     (اے رسولﷺ) نہ آپ کے پروردگار نے آپ کو چھوڑا ہے اور نہ وہ ناراض ہوا ہے۔

۴.     یقیناً آپ کے لئے انجام (اور بعد کا دور) آغاز (پہلے دور) سے بہتر ہے۔

۵.     اور عنقریب آپﷺ کا پروردگار آپﷺ کو اتنا عطا کرے گا کہ آپﷺ خوش ہو جائیں گے۔

۶.     کیا خدا نے آپﷺ کو یتیم نہیں پایا؟ تو پناہ کی جگہ دی؟

۷.     اور آپﷺ کو گمنام پایا تو (لوگوں کو آپﷺ کی طرف) راہنمائی کی۔

۸.     اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو نادار پایا سو مالدار بنا دیا۔

۹.     پس یتیم پر سختی نہ کیجئے۔

۱۰.    اور سائل کو نہ جھڑکئے۔

۱۱.     اور اپنے پروردگار کی نعمت کا اظہار کیجئے۔

٭٭

 

۹۴۔ سورۃ الم نشرح

 

۱.      (اے رسولﷺ) کیا ہم نے آپﷺ کے سینے کو کشادہ نہیں کر دیا؟

۲.     اور وہ بَوجھ آپ سے اتار دیا۔

۳.     جو آپﷺ کی کمر کو توڑ رہا تھا۔

۴.     اور آپﷺ کے ذکر (آوازہ) کو بلند کیا۔

۵.     یقیناً ہر دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔

۶.     بے شک ہر تنگی کے ساتھ فراخی ہے۔

۷.     جب (کارِ رسا لت سے ) فارغ ہوں تو (عبادت و ریاضت کرنے میں ) محنت کیجئے۔

۸.     اور اپنے پروردگار کی طرف رغبت کیجئے۔

٭٭

 

۹۵۔ سورۃ التین

 

۱.      قَسم ہے انجیر اور زیتون کی۔

۲.     اور طُورِ سینا کی۔

۳.     اور پُر امن شہر (مکہ) کی۔

۴.     ہم نے انسان کو بہترین ساخت و انداز کے ساتھ پیدا کیا ہے۔

۵.     پھر اسے (اس کی کج رفتاری کی وجہ سے ) پست ترین حالت کی طرف لوٹا دیا۔

۶.     سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے سو ان کیلئے ختم نہ ہو نے والا اجر ہے۔

۷.     تواس کے بعد آپﷺ کو جزا و سزا کے معاملہ میں کون جھٹلا سکتا ہے ؟

۸.     کیا اللہ سبحانہٗ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

٭٭

 

۹۶۔ سورۃ علق

 

۱.      (اے رسولﷺ) اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیے جس نے (سب کائنات کو) پیدا کیا۔

۲.     (بالخصوص) انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا۔

۳.     پڑھئیے ! اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے۔

۴.     جس نے قَلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔

۵.     اور انسان کو وہ کچھ پڑھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

۶.     ہرگز نہیں ! انسان (اس وقت) سرکشی کرنے لگتا ہے۔

۷.     جب وہ سمجھتا ہے کہ وہ (غنی) بے نیاز ہے۔

۸.     بے شک آپﷺ کے پروردگار کی طرف ہی (سب کی) بازگشت ہے۔

۹.     کیا آپﷺ نے اس شخص کو دیکھا ہے جو منع کرتا ہے۔

۱۰.    ایک بندہ (خاص) کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔

۱۱.     بھلا دیکھئے تو! اگر وہ (بندۂ خاص) ہدایت پر ہے ؟

۱۲.    یا وہ پرہیزگاری کا حکم دیتا ہے ؟

۱۳.    کیا آپ نے غور کیا ہے کہ اگر یہ شخص (حق کو) جھٹلاتا ہے اور (اس سے ) رُوگردانی کرتا ہے تو انجام کیا ہو گا؟

۱۴.    کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ (سب کچھ) دیکھ رہا ہے ؟

۱۵.    ہرگز نہیں اگر وہ (اس سے ) باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں گے۔

۱۶.    وہ پیشانی جو جھوٹی ہے اور گنہگار؟

۱۷.    پس وہ بلائے اپنے ہم نشینوں کو۔

۱۸.    ہم بھی دوزخ کے ہرکاروں (فرشتوں ) کو بلائیں گے۔

۱۹.    ہرگز نہیں ! اس کی بات نہ مانیے اورسجدہ کیجئے اور (اپنے پروردگار کا) قرب حاصل کیجئے۔

٭٭

 

۹۷۔ سورۃ قدر

 

۱.      بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا۔

۲.     اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟

۳.     شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

۴.     اس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کی اجازت سے (سال بھر کی) ہر بات کا حکم لے کر اترتے ہیں۔

۵.     وہ (رات) سراسر سلامتی ہے طلوعِ صبح تک۔

٭٭

 

۹۸۔ سورۃ بیّنۃ

 

۱.      اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے وہ (اپنے کفر سے ) باز آنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس ایک واضح دلیل نہ آ جائے۔

۲.     یعنی اللہ کا ایک رسولؑ جو انہیں پاک و پاکیزہ صحیفے پڑھ کر سنائے۔

۳.     جن میں بالکل درست باتیں لکھی ہوئی ہوں۔

۴.     اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی (اور وہ اہلِ کتاب تھے ) وہ تو واضح دلیل کے آ جانے کے بعد ہی تفرقہ میں پڑے۔

۵.     حالانکہ انہیں تو بس یہی حکم دیا گیا تھا کہ دین کو اسی کیلئے خالص کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کریں بالکل یکسُو ہو کر اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی نہایت (صحیح اور) درست دین ہے۔

۶.     بے شک جو اہلِ کتاب اور مشرکین کفر میں مبتلا ہیں وہ جہنم کی آگ میں پڑیں گے (اور) ہمیشہ اس میں رہیں گے یہی لوگ بد ترینِ خلائق ہیں۔

۷.     اور بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے وہی بہترینِ خلائق ہیں۔

۸.     ان کی جزا ان کے پروردگار کے ہاں ہمیشگی کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں (یہ سب کچھ) اس کے لئے ہے جو اپنے پروردگار (کی حکم عدولی) سے ڈرتا ہے۔

٭٭

 

۹۹۔ سورۃ زلزال

 

۱.      جب زمین پوری شدت سے ہلا ڈالی جائے گی۔

۲.     اور زمین اپنے بوجھوں کو باہر نکال دے گی۔

۳.     اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے ؟

۴.     اس دن وہ اپنی تمام خبریں بیان کرے گی۔

۵.     کیونکہ تمہارے پروردگار کا اسے یہی حکم ہو گا۔

۶.     اس دن لوگ متفرق طور پر (اپنی قبروں سے ) نکلیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال (کے نتائج) دکھائے جائیں۔

۷.     تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس (کی جزا) دیکھ لے گا۔

۸.     اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ بھی اس (کی سزا) کو دیکھ لے گا۔

٭٭

 

۱۰۰۔ سورۃ عادیات

 

۱.      قَسم ہے ان گھوڑوں کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں۔

۲.     پھر اپنی ٹاپوں کی ٹھوکر سے (پتھر سے ) چنگاریاں نکالتے ہیں۔

۳.     پھر صبح کے وقت (اچانک) چھاپہ مارتے ہیں۔

۴.     تو اس طرح گَرد و غبار اڑاتے ہیں۔

۵.     پھر اسی حالت میں (دشمن کی) جماعت (لشکر) میں گھس جاتے ہیں۔

۶.     بے شک انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔

۷.     اور وہ خود اس پر گواہ ہے۔

۸.     اور وہ مال و دولت کی محبت میں بڑا سخت (گرفتار) ہے۔

۹.     کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا جب قبروں سے نکال لیا جائے گا جو کچھ ان میں (دفن) ہے۔

۱۰.    اور جو کچھ سینوں میں (چھپا ہوا) ہے وہ ظاہر کر دیا جائے گا۔

۱۱.     اس دن ان کا پروردگار ان کے حالات سے بڑا باخبر ہو گا۔

٭٭

 

۱۰۱۔ سورۃ قارعہ

 

۱.      کھڑکھڑانے والی (بڑا حادثہ)۔

۲.     کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی۔

۳.     اور آپ کو کیا معلوم کہ وہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے۔

۴.     جس دن سب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔

۵.     اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی مانند ہوں گے۔

۶.     تو جس کی (نیکیوں کے ) پلڑے بھاری ہوں گے۔

۷.     تو وہ دل پسند عیش و آرام میں ہو گا۔

۸.     اور جس کے (نیکیوں کے پلڑے ) ہلکے ہوں گے۔

۹.     ان کا ٹھکانہ گہرا گڑھا (ھاویہ) ہو گا۔

۱۰.    اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ (ھاویہ) کیا ہے۔

۱۱.     وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔

٭٭

 

۱۰۲۔ سورۃ تکاثر

 

۱.      تمہیں کثرت (مال و اولاد) کی مسابقت نے غفلت میں رکھا۔

۲.     یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔

۳.     ہرگز نہیں ! عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

۴.     پھر ہرگز نہیں ! عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

۵.     ہرگز نہیں ! اگر تم یقینی طور پر (اس روش کے انجام کو) جانتے (تو ہرگز ایسا نہ کرتے )۔

۶.     تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے۔

۷.     پھر تم لوگ (آخرت میں ) ضرور یقین کی آنکھ سے اسے (یقینی دیکھنا) دیکھو گے۔

۸.     پھر اس دن تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور بازپُرس کی جائے گی۔

٭٭

 

۱۰۳۔ سورۃ العصر

 

۱.      قَسم ہے زمانے کی۔

۲.     یقیناً (ہر) انسان گھاٹے میں ہے۔

۳.     سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور صبر کی نصیحت کی۔

٭٭

 

۱۰۴۔ سورۃ ہمزہ

 

۱.      تباہی ہے ہر اس شخص کیلئے جو (رُوبرُو) طعن و تشنیع کرنے والا (اور پسِ پشت) عیب جوئی کرنے والا ہے۔

۲.     جو مال جمع کرتا ہے اور اسے گن گن کر رکھتا ہے۔

۳.     کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

۴.     ہرگز نہیں وہ تو چکنا چور کر دینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔

۵.     اور تمہیں کیا معلوم ہے کہ وہ چکنا چور کر دینے والی جگہ کیا ہے ؟

۶.     وہ اللہ کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔

۷.     جو دلوں تک جا پہنچے گی۔

۸.     جو چَو طرفہ طور پر ان پر بند کر دی جائے گی۔

۹.     وہ لمبے لمبے ستونوں (جیسے شعلوں ) میں (گھِرے ہوئے ہوں گے )۔

٭٭

 

۱۰۵۔ سورۃ فیل

 

۱.      کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا (سلوک) کیا؟

۲.     کیا اس نے ان کی تدبیر و ترکیب کو بے کار نہیں کر دیا؟

۳.     ان پر (ہر سمت سے ) ابابیل نامی پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے۔

۴.     جو ان پر سنگِ گل (پکی ہوئی مٹی کے پتھر) مارتے تھے۔

۵.     آخرکار اللہ نے انہیں (مویشیوں کے ) کھائے ہوئے بھو سے کی طرح کر دیا۔

٭٭

 

۱۰۶۔ سورۃ قریش

 

۱.      چونکہ (اللہ نے ) قریش کو مانوس کر دیا۔

۲.     یعنی جاڑے اور گرمی کے تجارتی سفر سے مانوس کر دیا ہے۔

۳.     تو ان کو چاہیے کہ اس گھر (خانۂ کعبہ) کے پروردگار کی عبادت کریں۔

۴.     جس نے ان کو بھوک میں کھانے کو دیا اور خوف میں امن عطا کیا۔

٭٭

 

۱۰۷۔ سورۃ ماعون

 

۱.      کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جو جزا و سزا (کے دن) کو جھٹلاتا ہے۔

۲.     پس یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

۳.     اور کسی مسکین کو کھانا کھلانے پر (لوگوں ) کو آمادہ نہیں کرتا۔

۴.     تباہی ہے ان نمازیوں کیلئے۔

۵.     جو اپنی نماز (کی ادائیگی) میں غفلت برتتے ہیں۔

۶.     جو ریاکاری کرتے ہیں۔

۷.     اور معمولی روزمرہ ضرورت کی چیزیں بھی (لوگوں کو) نہیں دیتے۔

٭٭

 

۱۰۸۔ سورۃ کوثر

 

۱.      (اے رسولﷺ) ہم نے آپﷺ کو کوثر عطا کی ہے۔

۲.     پس آپﷺ اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی کریں۔

۳.     بے شک آپﷺ کا دشمن ہی نسل بُریدہ ہو گا۔

٭٭

 

۱۰۹۔ سورۃ کافرون

 

۱.      (اے رسولﷺ) آپﷺ کہہ دیجئے اے کافرو۔

۲.     میں ان (بتوں ) کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو۔

۳.     اور نہ تم اس (اللہ) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔

۴.     اور نہ میں ان (بتوں ) کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔

۵.     اور نہ تم (اللہ) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔

۶.     تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔

٭٭

 

۱۱۰۔ سورۃ النصر

 

۱.      جب اللہ کی مدد اور اس کی فتح و فیروزی آ جائے۔

۲.     اور آپ دیکھ لیں کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔

۳.     تو (اس وقت) اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کریں اور اس سے مغفرت طلب کیجئے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔

٭٭

 

۱۱۱۔ سورۃ لہب

 

۱.      ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک و برباد ہوا۔

۲.     اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کچھ کام نہ آیا۔

۳.     وہ عنقریب شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا۔

۴.     اور (اس کے ساتھ) اس کی بیوی بھی جو ایندھن اٹھانے والی ہے۔

۵.     اور اس کی گردن میں مُونج کی بٹی ہوئی رسی ہے۔

٭٭

 

۱۱۲۔ سورۃ اخلاص

 

۱.      (اے رسولﷺ) آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ وہ (اللہ) ایک ہے۔

۲.     اللہ (ساری کائنات سے ) بے نیاز ہے۔

۳.     نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔

۴.     اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔

٭٭

 

۱۱۳۔ سورۃ فلق

 

۱.      (اے رسولﷺ) آپﷺ کہہ دیجئے کہ میں پناہ لیتا ہوں صبح کے پروردگار کی۔

۲.     ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔

۳.     اور رات کی تاریکی کے شر سے جبکہ وہ چھا جائے۔

۴.     اور ان کے شر سے جو گِرہوں میں پھونکے مارتی ہیں۔

۵.     اورحاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔

٭٭

 

۱۱۴۔ سورۃ ناس

 

۱.      (اے رسولﷺ) آپﷺ کہہ دیجئے ! کہ میں پناہ لیتا ہوں سب لوگوں کے پروردگار کی۔

۲.     سب انسانوں کے بادشاہ کی۔

۳.     سب لوگوں کے الٰہ (خدا) کی۔

۴.     بار بار وسوسہ ڈالنے بار بار پسپا ہونے والے کے شر سے۔

۵.     جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔

۶.     خواہ وہ جِنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے۔

٭٭٭

تشکر: غلام رسول فیضی جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں۔

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید