FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تاریخی ناول۔ ۔ ۔ فن اور اصول

علی احمد فاطمی

ابتدائیہ

انسان کو ہمیشہ تاریخ سے دلچسپی رہی ہے۔ ماضی کے گذرے ہوئے لمحے اور اس کی یادیں نہ صرف اسے ایک رومان پر ور ما حول اور خوش گوار فضا میں لے جاتی ہیں ، بلکہ ایک صحت مند اور زندہ رہنے کی قوت بخشتی ہیں ۔ انسان کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہی ہے کہ گذری ہوئی دنیا تجربوں ، کارناموں اور خوشگوار یادوں کا ایک حسین مجموعہ ہوتی ہے۔ لہٰذا اس سے مواد، روشنی اور آگے بڑھنے کی قوت حاصل کیے بغیر ارتقا کی طرف مائل رہنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ تہذیب و سماج اور ذہن کی ارتقائی منزلیں کچھ اسی انداز سے طے ہوتی چلی آ رہی ہیں اور اسی وجہ سے آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں سائنس، نفسیات اور لٹریچر وغیرہ نے اپنی منفرد حیثیت بنا لی ہے، وہاں تاریخ کا بھی اپنا ایک اہم اور الگ مقام ہے۔ ماضی کے تجربوں اور کا ناموں کو تلاش کر نا اور پورے خلوص کے ساتھ انھیں عروج دینا آج کے علم و ادب کا مخصوص و محبوب مشغلہ ہو چکا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا براہ راست تعلق عوام، سما ج اور تہذیب سے ہوتا ہے۔ علم و ادب کا اس سے انسلاک اسی کے و ساطت سے ہوتا ہے۔ وقت تغیر پذیر ہے۔ ہر عہد میں تہذیب و تمدن کے معیار بدلتے رہے ہیں اور یہی تبدیلیاں انسانی ذہن کے کمال اور زوال کے اصولوں کا تعین کرتی ہیں ۔
تاریخ کے ذریعہ ہم اپنی پچھلی دنیا میں واپس جاتے ہیں ۔ پرانے اقدار، پرانی روایتوں ، رسم و رواج، رہن سہن کو زندہ کرتے ہیں ۔ اس طرح سے تاریخ مری ہو ئی چیزوں کو زندہ کرتی ہے اور تمام گذشتہ سرمایہ کو بر بادی سے بھی بچاتی ہے۔ اس کو نئی روح اور نئی زندگی بخشتی ہے۔ حقیقتاً ماضی کی دنیا اندھیری ہوتی ہے وہ ذروں کی طرح بکھری ہوئی ہوتی ہے۔ تاریخ اس اندھیری دنیا میں مشعل کا کام کرتی ہے اور پوری چمک دمک کے ساتھ گذری ہو ئی تصویر پیش کرتی ہے۔
تار یخ در اصل اپنے ماضی کی طرف دیکھتی ہوئی مڑتی ہو ئی ایک وسیع دنیا ہے۔ بعض گذرے ہوئے واقعات کے بارے میں سوچنا، یاد کر نا اور پھر یادوں کو محفوظ رکھنا ہی تاریخ ہے۔ تاریخ سے متعلق اس امر پر کسی کو بھی اختلاف نہ ہوگا کہ تاریخ ماضی کی جانب مڑ کر دیکھنے کا ایک عمل ہے۔ لیکن ہم ماضی کی طرف مڑ کر کیوں دیکھتے ہیں ؟ یہیں پر ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے جس کی وضاحت لا زمی ہے۔
ماضی کی جانب مڑ کر دیکھنے اور تاریخ کی کھوج اور تلاش کر نے کے عمل میں در اصل موجودہ زندگی کے اضطراب کا بڑا ہا تھ ہوتا ہے۔ بہترسے بہتر زندگی گذارنے کی خواہش بھی اسے ماضی کی دنیا میں لے جا نے پر مجبور کرتی ہے۔ یہاں پر ایک بات کی وضاحت اور ضروری ہے کہ صرف ماضی کی طرف پلٹنے کی بات کو بہت اچھے معنی نہیں پہنائے جا سکتے۔ نیطشے نے ایک جگہ لکھا ہے :
یہ بز رگوں کا کام ہے کہ وہ ماضی میں جھانکیں اور اس کا جوڑ توڑ کریں ۔ اور ماضی کی یادوں میں سکون پیدا کریں ۔ "The old age belongs the old man’s business of looking back and casting up his accounts of seeking consolation in the memories of past in historical culture.”
What is History?P.20
اس لیے ایک ہو ش مند، زندہ دل مورّخ کے لیے یہ تقاضا بے حد شدید ہو جاتا ہے کہ وہ ماضی کے انھیں کارناموں کی تلاش و تجزیہ کرے جس کی روشنی سے حال کو تقویت پہنچتی ہو۔ کیونکہ ہم اپنے وقت کے ہمت شکن حالات سے سماجی و معاشرتی نشیب و فراز سے اس قدر دل شکستہ ہو چکے ہوتے ہیں کہ ہمیں نئی روشنی اور نئے ما حول کی تلاش رہتی ہے، جو اکثر ہمیں ماضی کی دھند فضا سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ تاریخ کے عالمی شہرت یافتہ فلسفی آکٹن نے اسی خیال کوکا فی غور و خوض کے بعد ظاہر کیا تھا:
نہ صرف اپنے وقت میں بلکہ گذرے ہوئے وقتوں کے غلط اثرات سے اپنے اعمال وافعال سے جس فضا میں ہم سانس لیتے ہیں ، اس دباؤ اور بوجھل پن سے صرف تاریخ ہی ہمیں آزاد کر اسکتی ہیں ۔
"History must be our deliver not only from the under influence of other times but from the above influence of our own ,from the tyranny of environment and the pressure of the air we breathe.”
-Lectures on Modern History by Action p.33
اس خیال کو اور مضبوطی دے کر فرانسیسی مفکر کروچے نے یہاں تک لکھ دیا کہ:
ہرسچی تاریخ اپنے عہد کی تاریخ سے ہوتی ہے۔
"Every true history is contemporary history.”
– History its Theory and practice by B.Croce P. 12
در اصل تاریخ کو پیش کرتے وقت مورّخ کے لا شعور میں حال کی تمام صورتیں رقص کرتی رہتی ہیں اور وہ انھیں کی تشکیل و تنظیم کے لیے پیچھے کی طرف مڑتا ہے۔ اسی لیے اکثر یہ کہا گیا ہے کہ تاریخ خواہ کتنی ہی قدیم کیوں نہ ہو اور اس کے عنا صر کتنے ہی قدیم ترین دور سے تلا ش کیے گئے ہوں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ واقعات اور موجودہ ضرورتوں سے اس کا رشتہ اپنے آپ جڑتا رہتا ہے اور انھیں کی روشنی میں ماضی کے تمام واقعات پر کھے جاتے ہیں ۔ امریکہ کے مشہور مورّخ کا رل بیکر نے یہ بات کہی ہے :
تاریخی حقیقتیں کسی بھی مورخ کے قابو میں اس وقت تک نہیں رہتیں جب تک وہ اپنے طور پر ان کی تعمیر نہیں کر تا۔
”The facts of history do not exist for any historian till he creates them.”
-Atlantic Monthly P.520
انگریزی کے مشہور فلا سفر کا لنگ ووڈ (COLLING WOOD)نے اسی بات کو اعتدال کے ساتھ کہا ہے :
تاریخ کا تعلق اپنے آپ میں نہ تو ماضی سے ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے آپ میں ماضی کے با رے میں ۔ مورخین کے خیالات سے بلکہ ان کا تعلق ان دونوں کے باہمی ربط سے ہوتا ہے۔
"The philosophy of history in concerned neither with the past by itself, nor with the historians though about it by itself, but the tow things in their mutual relations.”
-The Idiea of History By Callingwood p.37
ماضی میں تو بے شمار واقعات رو نما ہوتے ہیں ۔ یہ تمام واقعات تاریخ نہیں بنتے۔ مورخ صرف انھیں واقعات کا مطالعہ کرتا ہے جو اپنے آپ میں انفرادیت اور مخصوص چمک رکھتے ہیں ۔ اور وہ ماضی ایک ایسا ماضی ہوتا ہے جو حال میں بھی زندہ رہتا ہے۔ مورخ ایسے زندہ ماضی کو پڑھتا ہے۔ غور کرتا ہے۔ پھر انھیں پیش کرتا ہے۔ تاریخ کی دنیا دراصل اس غور و فکر اور  مطالعہ کی دنیا ہے۔ تبھی ای۔ ایچ۔ کار نے یہ بات بڑے دعوے کے ساتھ کہہ دی ہے :
ہر تاریخ غور و فکر کی تاریخ ہوتی ہے اور تاریخ مورخ کے ذہن میں ان خیالات کی دوبا رہ تعمیر ہوتی ہے جس کا وہ مطالعہ کر رہا ہوتا ہے۔
"All history is the history of thought and history is the re-enactment in the historians mind of the thought whose history he is studying.”
-What is History?p.16
اس لیے یہ خیال صحیح ہے کہ تاریخ محض صداقت پر چلنے والی شے کا نام نہیں ہے، بلکہ مورخ کے مطالعہ انتخاب عمل اور ردِ عمل سے اپنی اصل صورت اختیار کرتی ہے۔ اور پھر لا شعوری طور پر تاریخی صداقت کے سانچے میں ڈھلتی جاتی ہے۔ یہ خیال رہے کہ یہ باتیں اس وجہ سے کہی جا رہی ہیں کیونکہ ماضی کے آئینے میں سیکڑوں عکس ابھرتے ہیں اور مٹتے ہیں لیکن جس کی بنیادیں حقیقت پر نہیں ہوتیں ۔ اس لیے تاریخ اکثر مورخ کے ذہن میں شکل بدل کر آتی ہے اور وہ انھیں اپنی بساط کے مطابق رنگ دیتا ہے۔ اس سے اس بات پر بھی غور کیا جاتا ہے کہ تاریخ کے ساتھ مورخ کا مطالعہ بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ کار نے یہ بات بھی لکھی ہے:
ہمارا پہلا تعلق حقیقتوں سے نہیں بلکہ اس مورخ سے ہے جو ان حقیقتوں کو لکھتا ہے۔
"Our first concern should be not with facts which contains but with the historians who wrote it.”
-What is History?p.16-17
مورخ جس طرح کی محنت و کاوش سے صداقتوں کو تلاش کرے گا، ویسی ہی صداقتیں اس کے ہاتھ آئیں گی، کیونکہ تاریخ کا اولین مقصد ہے ماضی کے خوشگوار واقعات کی تلاش و تجزیہ۔
ان با توں سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہر دور میں تاریخی مواد جمع کرنے، لکھنے اور اسے پیش کر نے کے الگ الگ معیار رہے ہیں ۔ عربوں میں جب تاریخ لکھی جاتی تھی تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا تھا کہ اس کو لکھنے والا کوئی مشہور شخص ہے یا گم نا م، ہم وطنوں میں سچا جا نا جاتا ہے یا جھوٹا۔ دین دار ہے یا اوباش۔ جس سے روایت کرتا ہے اس کا زمانہ بھی پا یا ہے یا نہیں ۔ اس کے عقائد و نقاطِ نظر کیا تھے، اس کا حافظہ کیسا تھا وغیرہ۔ اس کسوٹی پر پرکھنے کے بعد اگر وہ روایت بعید از عقل معلوم ہو ئی تو اس کو نہ ما نا نہ جا نا۔
موجودہ سماج و تہذیب سے رشتہ جوڑنے والے مورّخین اپنی تاریخ نویسی میں ان مورخین کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہوئے جو بہ با نگ دہل یہ کہتے ہیں کہ ہماری ذات تنہا ہے ہم اکیلے ہیں ، ہم سماج سے ہر گز وابستہ نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنی ہمت، جتنا حوصلہ سماج سے وابستگی کے بعد ہوتا ہے، اتنا اس احساس سے نہیں کہ ہم تنہا ہیں ۔ یہ بات غور طلب ہے کہ تاریخ کا مطالعہ ان لو گوں کے لیے زیادہ کار آمد ہوتا ہے جو اپنی ذات کو تہذیب و سماج سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں یہ ایک ایسی بڑی حقیقت ہے جس کو جھٹلا نا ممکن نہیں ۔ اس لیے یہ بات کہی جاتی ہے کہ تاریخ کے مطالعہ کے وقت مورّخ کا مطالعہ ضروری ہو جاتا ہے۔ مار کس نے کہا تھا :
تاریخ کچھ نہیں کرتی۔ اس کے پا س قارون کا خزانہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ کو ئی جنگ نہیں کرتی۔ در اصل انسان حسّاس اور زندہ انسان اپنے سر مایہ کی روح میں ڈوبنا چاہتا ہے اور پھر جنگ کرتا ہے۔
"History does nothing it possesses no immense wealth, fight no battles. It is rather man, red living man who does every thing, who possesses and fight.”
-Marx-Engles, Gesamatans Gable p.625
پس تقریباً طے ہوا کہ تاریخ کے ذریعہ ہم اپنی سماجی و تہذیبی زندگی کی راہیں ہموار کرتے ہیں ۔ اور اپنی تہذیبی زندگی کو خوب صورت شکل دینے کی خوب صورت کو شش کرتے ہیں ۔
تاریخ کے متعلق ان سر سری خیالات کے ذریعہ ممکن ہے کہ کو ئی مبہم سا خاکہ بن گیا ہو، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کی بحث اس قدر سنجیدہ ہے کہ اسے سمجھنے اور سمجھانے کے لیے صدہا صفحات کی ضرورت پیش آئے گی، اس لیے مناسب ہو گا کہ اسی مقام پر تاریخ سے متعلق بعض اہم دانشوروں کے تصورات پیش کر کے بات آگے بڑھا ئی جائے۔
تاریخ کے مشہور ترین فلا سفر ای۔ ایچ۔ کار نے اس سلسلے میں جو نتیجہ نکالا ہے اسے ملاحظہ کیجئے :
تاریخ کیا ہے ؟ اس سوال کا میرا پہلا جواب یہ ہو گا کہ تاریخ، مورخ اور اس کی صداقتوں کے عمل، ردِّ عمل کا ایک سلسلہ ہے اور حال و ماضی کے درمیان کبھی نہ ختم ہو نے والا ایک طویل مکالمہ۔
"It is a continuous process of interaction between the historian and his facts and unending dialogue the present and the past.”
What is History? p.24
فرائڈ نے ایک جگہ لکھا ہے :
تاریخ کسی بچے کے کھلونے والے لفظوں کی طرح ہوتی ہے، جس کی مدد سے ہم جو لفظ چاہیں لکھ سکتے ہیں ۔ "History is a childbox letters with which can spell any word we please.”
Short Studies on Great Subjects. p.21
ما ہر تاریخ کو لنگ ووڈ (COLLING WOOD)نے تاریخ کی نزاکتوں اور اس کے فلسفہ سے متعلق دی آئیڈیا آف ہسٹری میں بلیغ بحثیں اٹھائی ہیں اور ثابت کیا ہے کہ تاریخ کا رشتہ زندگی کے ہر شعبہ سے ہے، جا  بجا انھوں نے یہ سوال اٹھا یا ہے کہ تاریخ کیا ہے ؟ کیسے یہ ہم تک پہنچتی ہے ؟ اور اس میں کیا کیا ہو نا چاہئے ؟ یہ اور اس طرح کے سوالات پڑھنے والوں کے ذہن میں ضرور اٹھتے ہوں گے لیکن کچھ باتیں بہر حال ایسی ہیں جو با ہم مشترک ہوتی ہیں اور یہی مشترک چیزیں تاریخ کو مستحکم بناتی ہیں ۔ تاریخ کے با رے میں بنیا دی بات انھوں نے کہی :
تاریخ دراصل تلا ش و تجزیہ کی ایک قسم ہے۔
"History is kind of research or enquiry.”
-The Idea of History p.9
اپنی اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے خود ایک سوال اٹھا یا۔ کس قسم کی اشیا ء کو تار یخ تلاش کرتی ہے ؟ میر ا جواب ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانوں کے ذریعہ ماضی میں گذرے ہوئے تمام واقعات کی تلا ش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاریخ مثل سائنس کے ہے جو گذرے ہوئے واقعات و حادثات کے سوالات کا جواب دینے کی کو شش کرتی ہے۔ 4
اس ضمن میں ووڈ نے قابل قدر مواد فراہم کیا ہے، جن کی تفصیل یہاں ممکن نہیں ، لیکن آخر میں جو نتیجہ نکالا ہے اس کو پیش کر دینا ضروری ہے :
تاریخ سائنس ہے اس سے کچھ کم اور نہ کچھ زیادہ۔
"History is a science no less and no more.”
-The Idea of History p.249
یہ بات کہی توبر لے نام کے کسی دوسرے فلا سفر نے، لیکن ووڈ نے اس کی بھر پور تائید کی ہے اور اپنے خیالات کو مستحکم دلائل کے ساتھ اس سے ہم آہنگ کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی کہی ہے کہ تاریخ کو سائنس کہتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ سائنس کا مفہوم اور اس کا تصور کیا ہے۔ کیونکہ چلتے چلتے اس نے یہ بات بھی کہہ دی ہے کہ :
تاریخ سائنس تو ہے لیکن ایک مخصوص قسم کی سائنس۔
"History is science,but science of special kind.”
-The Idea of History p.251
تاریخ کا مشہور ترین مفسر ٹوائنبی اپنے خیالات کو سمیٹتے ہوئے ایک جگہ لکھتا ہے :
تاریخ۔ ۔ ۔ ۔ انسانی زندگی کی تمام صداقتوں کو سمیٹنے ہی سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ ماضی کے سما ج کی حقیقتیں بھی چھوڑتی ہے۔
"A Study of History by Arnold J.Toynbeep ”
آگے لکھتے ہیں :
تاریخ انسانی زندگی کی تمام صداقتوں سے نہیں بلکہ خود چند صداقتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسری طرف زندگی کے اصولوں کا تعین کرتی ہے۔
"A Study of History by Arnold J.Toynbeep p.”

تاریخ اور رومان

��������� یہ سچ ہے کہ آج کے اردو ادب میں رومان کا کچھ دوسراتصور ہے، لیکن تاریخ سے وابستہ رومان در اصل قدیم قصوں میں پائے جا نے والے افسوس، محبت، تجسس، حیرت انگیزی کے ملے جلے احساسات کو کہتے ہیں ۔ انگریزی میں رومان کا کیا تصور ہے ؟ اس کے بارے میں مسٹر کے۔ کے۔ شرمانے اپنی کتاب کی ابتدا ہی میں جو جملے لکھے ہیں ان کو من و عن پیش کر دینا زیادہ نا منا سب نہ ہو گا۔ 1
"Romanticism is the star that weeps, it is the wind that wails, it is the night that shudders, the bird that flies and flower that breaths perfume, it is the sudden gash, the ecstasy grown faint,  the cistern beneath palms, rosy hope with her thousand loves, the angel and the pearl, the white robe of willows, it is the infinite and the story. . . . . . ”
The Poetry of Romantic Revival
-by K.K. Sharma p.1
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کی تشریح اس اندازے سے بھی ہے :
i)Romantic is the opposite of common place.
ii)Romantic is the opposite of probable.
iii)Romantic is the opposed to literal.
iv)Romantic is also opposed to the formal as illustrated to the romancists of 1830 in France.
The poetry of Romantic Revival
-by K.K. Sharma p.7
اردو میں رومان کا کیا تصور ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر محمد حسن صاحب اس کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب اردو ادب میں رومانی تحریک میں لکھتے ہیں :
رومان کا لفظ رومانس سے نکلا ہے اور رومانس زبانوں میں اس قسم کی کہانیوں پر اس کا اطلاق ہوتا تھا جو انتہائی آراستہ اور پرُ شکوہ منظر عشق و محبت کی ایسی داستانیں سناتی تھیں جو عام طور پر دورِ وسطیٰ کے جنگ جو اور خطر پسند نو جوانوں کے مہمات سے متعلق ہوتی تھیں اور اس طرح اس لفظ سے تین خاص مفہوم وابستہ ہو گئے۔
(1) عشق و محبت سے متعلق تمام چیزوں کو رومانوی کہا جائے گا۔
(2) غیر معمولی آراستگی، شان و شکوہ، آرائش، فراوانی اور محاکاتی تفصیل پسندی کو رومانوی کہنے لگے اور ۔
(3) عہد وسطیٰ سے وابستہ، تمام چیزوں سے لگاؤ اور قدامت پسندی اور ماضی پر ستی کو رومانوی کا لقب دیا گیا۔
لیکن جیوں ہی یہ لفظ ادب میں داخل ہوا، اس کے معنی پھیلتے گئے۔ آگے لکھتے ہیں :
رومانویت نے ہر جذبہ کو اس کی انتہائی شکل میں پسند کیا۔ قوت و حیا کے مجسّمے تراشے۔ انھیں تابناک اور تابندگی کے پرچم عطا کیے۔ کبھی انسان کا مل کے خواب دیکھے تو مافوق البشر کی تصویر سے اپنے خانے سجائے۔ کبھی مشیت کے آگے مجبور انسان کی افسردگی۔ کبھی کلوپٹر ا کے حسن اور سینٹ اگنیس کے شام کے تقدس میں کھو گئے، تو کبھی اہرمن کی باغیانہ سرکشی اور ڈان ژوان کی آلودگی اور گناہ اور معصومیت کے نغمے گائے۔
روما نیت ادب کو تصورات کی دنیا میں لے جاتی ہے، جہاں ادیب اپنے آپ کو بھول جاتا ہے اور عقل و علم سے بالکل بیگانہ ہو کر اپنے آپ کو فطرت اور جذبات کے ہاتھوں سونپ دیتا ہے اور یہیں سے اس کے اندر سے فطرت پر یقین کا جذبہ ابھرتا ہے اور یہ جذبہ اسے ماضی کی دنیا میں لے جاتا ہے اور ماضی کی حسین یادوں کو گلے سے لگا کر باقی سب بھول جا نے کی کو شش کرتا ہے۔ محمد حسن لکھتے ہیں :
جس طرح انسان اپنے بچپن کو عزیز رکھتا ہے۔ اس کی حسین یادوں کو سینے سے لگاتا ہے اور نا خوشگوار باتیں بھول جاتا ہے۔ اسی طرح رومانی نگاروں نے ماضی کے اسا طیر کو بڑی عقیدت سے آ جا گر کیا۔ ماضی سے یہ وابستگی کئی صورتوں میں ظاہر ہوئی۔ کہیں قدیم ہیرو اور عہد رفتہ کے کر داروں اور داستانوں کی صورت میں ، کہیں دیومالا اور تلمیحوں کے احیا ء کی صورت میں ۔ کہیں قدیم تاریخ سے وابستگی کی صورت میں ۔
رومانی کر دار تصور کی دنیا میں گھومنے والے کردار کہے جا تے۔ اپنی موجودہ زندگی سے وہ کبھی مطمئن نہیں رہتے۔ اسی لیے ان کا ذہن تصور کی دنیا میں ان کرداروں کو تلاش کرتا رہتا ہے، جن کی آرزوئیں پوری ہوتی ہیں ۔ جنھوں نے شکست دی ہے اور جنھوں نے عظمت کا تاج پہنا ہے۔ اسی لیے رومانوی ادیب رومان کا رشتہ تاریخ سے جوڑ دیتے ہیں ۔ تاریخ جو قوت و عظمت کے گیت گاتی ہے۔ عشق و محبت کی پر شکوہ داستان سناتی ہے، ماضی کے عظیم کارناموں کو گلے لگاتی ہے، حیرت انگیز دنیا میں لے جاتی ہے، ان کو پڑھنے کے بعد ایک عجیب سی دل کشی و دلچسپی کا احساس ہوتا ہے۔ کہیں پر بہا دری، کہیں پر پیار، کہیں افسوس، کہیں حیرت کے ملے جلے احسا سات ابھرتے ہیں ۔ اور انھیں احسا سات کو ہی روما نیت کی شکل دی جا سکتی ہے۔ جب ہم ماضی کی طرف جاتے ہیں تو نہ جانے کیوں اس وقت کی تصویریں ہم کو چمکیلی لگنے لگتی ہیں ۔ اور اس کی چمک دمک میں ہم بُری طرح سے گھر جاتے ہیں ۔ پھر اس میں آج کا رومانی ادیب کل کی گذری ہوئی زندگی میں آج کے اجزاء تلاش کر نا شروع کر دیتا ہے۔ قدیم و جدید کی آمیزش سے ہم ایک الگ دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ جس طرح رومانوی ادیب کو تاریخ سے دلچسپی رکھنی لا زمی ہوتی ہے، اسی طرح کامیاب مورّخ اپنی تاریخ میں زندگی بخشنے کے لیے رومانویت کا روغن چڑھا دیتا ہے اور کسی حد تک یہ لا زمی بھی ہے اور اسی وجہ سے اکثر ہم اس زندگی سے زیادہ ماضی کی زندگی کو دل کش ور نگین تصور کر نے لگتے ہیں اور یہی احساس رومانی ادیب کے بھی ہوتے ہیں ۔
رومانیت در اصل ان کچلی، روندی اور تباہ شدہ چیزوں سے سانس لیتی ہے جو اب دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتی ہیں ۔ اسی وجہ سے تاریخ کا رشتہ روما نیت سے گہرا ہو جاتا ہے۔ پوری تاریخ کھنگالی جائے تو رومانی اثرات جا بجا نظر آئیں گے۔ یعنی کوئی بھی تاریخ ایسی نہیں ہے جس میں رومانی عنا صر نہ پائے جائیں ۔ بیٹر فیلڈ نے رومانیت کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا ہے :
2″Romanticism is not bottom asight for things that can never happen again. It is like soldier going over the hill to fight, but always looking back ingering the things that time destroys we love with a lovefed by romantic regret.
The Historical Novel p.10
آج جب ہم اپنی یادوں کو کھنگالتے ہیں تو تاریخ حاصل کرنے کے کئی ذرائع پاتے ہیں ۔ تاریخ فوٹو گرافی، سنگ تراشی، پینٹنگ کے ذریعہ اپنی کہانی سناتی ہے۔ سب سے موثر اور اہم ذریعہ داستان گوئی ہے، لیکن تاریخ ایسا فن ہے جس میں خیال و قیاس کی گنجا ئش نہیں اور داستان جس کے ذریعہ ہوتی ہو ئی ہمارے درمیان تک پہنچتی ہے، اس میں تخیل کی کار فرمائی جا بجا ہوتی ہے۔ جب بھی ہم داستان کا ذکر کریں گے تو تخیل سے ہمارا دامن الگ نہیں ہو سکتا۔ یہ سچ ہے کہ انسان کے تخیل نے ایک سے ایک کام انجام دیئے ہیں ، لیکن تاریخ کے معاملہ میں عام خیال یہ ہے کہ یہاں تخیل کا زیادہ گذر نہیں ۔ اگر کہیں ہے بھی تو مستقبل کا مورّخ اس کی تصحیح کرتا جائے گا۔ وہ پوری کوشش کرے گا کہ حقائق جلد از جلد سامنے آسکیں ۔ لہٰذا تاریخ محض وہ داستانیں نہیں جس میں تخیل اور حقائق دونوں کو ملا کر ماضی کے کارناموں کی ترتیب دی جاتی ہے۔ چنانچہ اگر یہ بات کہی جائے تو غلط نہ ہو گی کہ تاریخ محض خیال آرائی نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس میں ماضی کے کار نا مے اور قصّے بیان کیے جاتے ہیں اور قصّوں میں تخیل کے عنا صر جا بجا ملتے ہیں ۔ لیکن آنے والا مورّخ اپنی تحقیق سے ان داستانوں و قصّوں میں حقیقی عنا صر تلا ش کرتا ہے اور صحیح شکل پیش کرنے کی کو شش کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ تحقیق کا یہ سفر صحیح تاریخ مر تب کر دیتا ہے۔ لہٰذا میکا لے کا یہ کہنا بڑی حد تک درست ہے:
تاریخ کا بیان ایک فن ہے، اس سے انسانی تاثرات میں دلچسپی بیدار ہوتی ہے۔ تصور کے سامنے تصویریں آتی رہتی ہیں لیکن ضروری ہے کہ مختلف واقعات کو فنکارانہ طریقہ پر منتخب کیا جائے اور انھیں ترتیب سے پھیلا یا جائے اور اپنے دماغ سے کچھ ایجاد و اختراع نہ کیا جائے۔ لیکن تاریخ کا جانب دارانہ مطالعہ جن تقاضوں کا متمنی ہے، وہ ایک زمانے، ایک عہد کے مورّخین کے قابو سے باہر ہیں ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی دور کی تاریخ کو مکمل نہیں کہا جا سکتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سچی تاریخ ہم تک پہنچتی کیسے ہے ؟ عام طور پر اپنے عہد کی تصویر کشی کرنے کی ذمہ داری دو طبقوں پر عائد ہوتی ہے۔ ایک وہ جس کے ماضی کے کارنامے عظیم ہوں اور اس کا حال تباہ ہو گیا۔ ہو وہ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے ماضی کی عظمتوں کو دہرائے گا۔ دوسرا طبقہ فاتحین کا سمجھا جاتا ہے۔ یہ طبقہ اپنی فتح و نصرت کے کار ناموں کو اس وجہ سے بیان کرتا ہے کہ تاکہ اس کی قوم و نسل ان کارناموں سے آگاہ ہو کر عظمت و فتح مندی کا مقصد سمجھ سکے۔ کبھی کبھی حالات شکلیں بھی بدل دیتے ہیں ۔ ظالم حاکم مورّخ وقت سے غلط قسم کی تاریخ لکھوا لیتا ہے۔ غدر کے دوران لکھی گئیں متعدد تاریخیں اس بات کا ثبوت ہیں ، جن کو انگریزوں نے دولت کی لا لچ دے کر غلط قسم کے واقعات درج کر وا دئے۔ شاید اسی وجہ سے غدر سے متعلق جب ہم تاریخ پڑھتے ہیں تو جا بجا تضادات سے ٹکراتے ہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ اب رفتہ رفتہ مساوی حقیقتیں سامنے آ رہی ہیں ۔ لہٰذااس نقطۂ نظر سے فاتحین کی لکھی ہو ئی تاریخیں زیادہ معتبر سمجھی گئی ہیں ۔
اب ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ تاریخ کس انداز سے لکھی گئی ہے۔ انداز سے مراداسلوب سے ہے۔ کیونکہ تاریخ لکھتے وقت اسلوب کا ایک اہم رول ہوتا ہے۔ یہیں سے ادب اور رشتہ کا آغاز ہوتا ہے۔ تاریخ کو دلچسپ اور دل نواز بنانے کے لیے اچھا اسلوب ہو نا لازمی ہے لیکن ساتھ ہی ایک دقّت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایلن لبوئز جو ایک بہترین مورّ خ ہے۔ اپنی کتاب دی گیٹ وے ٹو ہسٹری(THE GATE WAY TO HISTORY) میں لکھتا ہے :
جس کتاب کا اسلوب تحریر ہر اعتبار سے بے داغ ہو گا، اس میں تاریخ کے بعض غیر مناسب قصے آسکتے ہیں ۔ لیکن وہ نسلاً بعد نسلاً پڑھی جاتی رہے گی۔ اگر کسی مورخ کو انتخاب پر مجبور کر دیا جائے گا، تو شہرت اسے اعلیٰ درجے کا اسلوب تحریر انتخاب کر لینے پر مائل کرے گی۔

ناول

ناول ترقی یافتہ دور کی پیداوار ہے۔ اس کی ابتدا اگر چہ کا فی عرصہ قبل ہو چکی تھی۔ لیکن وہ صورت جو آج ہما رے سامنے موجود ہے رفتہ رفتہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ نکھرتی رہی۔ قدیم شکل اور تبدیل ہوتی شکل کے با رے میں علی عباس حسینی کے یہ جملے ملاحظہ ہوں ۔ وہ ناول کے بارے میں پرانے نا قدوں کے خیالات پیش کر نے کے بعد لکھتے ہیں :
یہ اس زمانے کی تصویر ہے جب اس فن کے حدود واضح طور پر تعین نہ ہو چکے تھے۔ اور جب ناول کے مطلع پر رومان کا ابر تاریک سا یہ فگن تھا۔ جب سائنس اور فلسفہ کے آفتاب عالم تاب نے رومانی گھٹاؤں کے سیاہ پر دے چاک کر دیئے تو ناقدین و مبصرین کی آنکھیں زیادہ طور پر اس نگار آتشیں کے خدوخال سے آشنا ہو گئیں اور انھوں نے اس کی تعریف میں طرح طرح کی موشگافیوں سے کام لینا شروع کیا۔
ناول رفتہ رفتہ مقبولیت اور ہر دل عزیز ی کے زینے طے کرتا رہا اور جلد ہی تمام اصناف سخن میں ایک مقبول اور ہر دل عزیز صنف سخن بن گیا۔ اس کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کی کئی وجہیں ہیں ۔ اوّل اس کا آغاز اس وقت ہوا جب سماج کا کا فی حصہ بیدار ہو چلا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اگر ناول کی ابتدا ئی منازل کا جائزہ لیں تو اس میں دلچسپی و تفریح کے عنا صر زیادہ ملیں گے۔ لیکن ناول کی پوری تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جیسے جیسے وقت گذرتا گیا تفریح کے پہلو ختم تو نہیں ہوئے، لیکن اس میں ایسے کار آمد عناصر جذب ہوتے گئے جو انسان کی حقیقی زندگی سے جنم لیتے ہیں ۔ ناول کا کینویس بدلتا گیا اور پھیلتا گیا۔ قصہ اور کہانی کے وہ اجزاء جن کا تعلق رومان سے ہے کم ہوتے گئے اور ان کی جگہ حقیقتوں نے لے لی۔ رومان غائب تو نہیں ہوا لیکن اس کی شکل بدل گئی۔ پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں :
قصے میں ڈرامائی رنگ، واقعات، ہنگامہ، قتل و خون، شدید عشق اور شدید نفرت کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں ۔ اچھے اچھے ناولوں میں یہ سب چیزیں اب بھی ملتی ہیں ، مگر ناول کا رخ عمل سے کردار کی طرف ہنگامی، واقعات سے زیادہ تفسیر و تشریح کی طرف اور ظاہر سے باطن کی طرف ہو گیا ہے۔ رومانیت کی جگہ حقیقت نگاری نے لے لی ہے۔ واقعات کے بیان میں صحت، اصلیت اور وضاحت کا زیادہ لحاظ رکھا جاتا ہے۔ مصوری میں گہرائی اور تفصیل سے کام لیا جاتا ہے۔ زندگی کی مصوری کا فی نہیں سمجھی گئی۔ زندگی پر تنقید بلکہ رہنمائی کا فرض بھی محسوس ہو نے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سائنس کے نئے نئے انکشافات سے ناول کو خام مواد ملا، ناول کے فارم میں بڑی لچک اور گنجائش ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے خوب کام لیا ہے اور ناول کو کہیں پر پراگندہ اور کہیں پر ایک علمی تصنیف بنا دیا ہے۔ دوسروں نے فارم کی بڑی سختی سے پابندی کی ہے اور ان کے یہاں وہ تیزی اور صفائی ملتی ہے جو تلوار کی دھار میں ہوتی ہے۔ ناول بھی کیا ہوا، سے چلا تھا۔ مگر اس کی پوری تاریخ میں کیوں ؟ اور کیسے کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس نے ذہن کو خیرہ کرنے اور خوابوں کے عزیز بنانے، یا تلخیوں کو گوارا کر نے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ذہنی غذا فراہم کی ہے۔ خواب اور حقیقت کی کش مکش دکھا ئی ہے۔ اور ہر تلخی میں شیرینی اور شیرینی میں تلخی دریافت کی ہے۔
ناول در اصل سماج کے ایک مخصوص ما حول کی پیدا وار ہے۔ جہاں جہاں بھی یہ صنف وجود میں آئی اس وقت وہاں کی زندگی کو متبدل زاویہ سے دیکھا جا نے لگا تھا۔ یورپ میں بھی ناول اس وقت منظر عام پر آیا جب وہاں ذہنی بیداری کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہندستان کے بارے میں بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ 1857ء کے بعد یہاں کے ماحول کے وہ مخصوص حالات تھے جس نے یہاں کے ادیبوں کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ جب بھی کسی قوم نے زندگی کو سمجھنے اور اس کو صحیح طور پر برتنے کی کوشش کی، ادب میں بھی شعور کی چنگاری چمکی، ایسے موقع پر ناول ہی ایک صنف تھی جو اپنے آپ میں زندگی کے تمام رموز کو جذب کر نے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
جملہ انگریزی ادیبوں اور نقادوں نے ناول کی مختلف تعریفیں کی ہیں ۔ لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ بقول یوسف سرمست :
ناول کا فن زندگی کو پیش کرتا ہے۔ اس کی باز تخلیق کرتا ہے، لیکن خود زندگی بڑی ہی بے کراں اور بے کنار چیز ہے اس کا کوئی اور ہے نہ چھور۔ ناول کی تمام تر کوشش زندگی کو بھر پور طریقہ پر پیش کرنے پر مر کوز ہوتی ہے۔ اور چونکہ زندگی کی کوئی حد بندی نہیں کی جا سکتی۔ اس کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ناول کی بھی کو ئی جا مع اور مانع تعریف نہیں کی جا سکتی۔
لیکن پھر بھی مختلف ادیبوں و نقادوں نے اس کو الگ الگ طور پر سمجھ کر اس کی تعریفیں کی ہیں ۔ ساری تعریفوں کی راہیں الگ الگ ضرور ہیں لیکن سب کی منزل ایک ہے۔
پر و فیسر بیکر نے انسانی زندگی کی تعریف کرتے ہوئے کئی شرطیں لگائی ہیں :
(i) انسانی زندگی کی تر جمانی ہو۔
(ii) ایک سائینٹیفک فلسفیانہ یا کم سے کم ذہنی تنقید حیات ہو۔
(iii)وہ نثر میں ہو۔
(iv)حقیقی زندگی کی ہو بہو تصویر یا اس سے مشابہ ہو۔
(v)ایک خاص ذہنی رجحان کے زیر اثر اس میں ایک طرح کی یک رنگی و ربط موجود ہو
پرسی لیو باک ناول کو زندگی کی تصویر اور زندگی کی شبیہ سے تعبیر کرتا ہے۔
انتھونی ٹرولوپ کے نزدیک بھی ناول، گو ایک تصویر ہے لیکن اس میں عام زندگی کے مسرت و غم اس طرح سے دکھائے جاتے ہیں کہ وہ تصویر جان دار نظر آتی ہے۔
اسکا ٹ جیمس کا کہنا ہے کہ ناول نگار ان چیزوں کو پیش کرتا ہے جو زندگی میں جیسی ہیں زندگی کے مطابق ہیں ۔
ہینری جیمس نے ناول کی مختصر سی تعریف میں یہ بات کہہ دی کہ ۔ ناول کی وسیع ترین تعریف زندگی کا شخصی اور راست اثر ہے۔
والٹر ریلے کے نزدیک ناول وہ ہے جس کا موضوع روزانہ کی زندگی ہے اور جس کا ذریعہ حقیقت نگاری ہے۔ ان تعریفات سے ناول کی مقبولیت اور اہمیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔
تمام اصناف سخن اپنے اپنے وقت کے لحاظ سے گرجیں اور چمکیں ، لیکن ناول جیسی خصوصیات نہ رکھنے کی وجہ سے کچھ تو کمزور ہو گئیں اور کچھ وقت کے سیلاب میں بہہ گئیں ۔ ناول نئے دور کی پیداوار ہے، اگر چہ ابھی عمر زیادہ نہیں ہے لیکن جس رفتار سے رواں دواں ہے اس سے اس کے روشن مستقبل کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔
انسانی زندگی کی سچی تصویر پیش کر نے کی صلاحیت جتنی اس صنف میں ہے کسی میں نہیں نظر آتی
بقول علی عباس حسینی،  یہی ہما ری آپ کی، دلچسپیاں اور تفریحیں ، پریشانیاں اور مصیبتیں ، بزدلیاں اور جرأتیں ، کامیابیاں اور ہزیمتیں ، نازک مزاجیاں اور نخوتیں ، سر گرانیاں اور مروّتیں ، مہربانیاں اور کدورتیں ، ان ساری چیزوں کو ناول بڑے سلیقے سے اپنے اندر جذب کر کے ان کی جیتی جا گتی شکل فن کارانہ طور پر صفحہ کاغذ پر بکھیر دیتا ہے کہ پڑھنے والے کو اس میں اپنا عکس نظر آنے لگتا ہے۔ اس میں حالات سے ٹکر لینے کی قوت ہے۔ وقت کے اعتبار سے اپنے آپ کو تبدیل کر نے کی صلاحیت ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہر دور میں اپنے آپ کو بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ کرتا رہا، یہی اس کی وسعت ہے، یہی اس کی لچک اور یہی اس کی رعنائی۔ مشہور ناولسٹ ورجینا و لف نے اسی خیال کو کس قدر خوب صورت ڈھنگ سے پیش کیا ہے:
ناول کی ساری دنیا مسلسل تبدیل ہوتی نظر آتی ہے، لیکن ایک عنصر تمام ناولوں میں مستقل طور پر باقی رہا ہے۔ یعنی ناول انسانوں سے متعلق لکھے گئے ہیں ۔ وہ ہمارے اندر ایسے ہی احساسات ابھا رتے ہیں ۔ ناول فن کی وہ واحد ہیئت ہے جس کی واقعیّت ہم کو یقین کر نے پر مجبور کرتی ہے۔ یعنی وہ انسان کی حقیقی زندگی کا بھرپور اور صداقت شعارانہ ریکارڈ پیش کرتا ہے۔
ناول کی اسی مقبولیت اور زندگی کو اپنے آپ میں ڈھال لینے کے فن کی وجہ سے زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہ ہو گاجو ناول کی زد میں نہ آیا ہوا ور ہر اہم ناول نگار نے اس میں جولانیاں نہد کھائی ہوں ۔ آرنلڈبینیٹ کا دعویٰ بڑی حد تک حقیقت پر مبنی ہے :
برّی مناظر کی اسٹوری لے کر عمر انیات تک (بلکہ وہ بھی جن کا ذکر نہ آنا چاہئے) زندگی کی دلچسپیوں کا شاید ہی کو ئی ایسا پہلو ہو سکتا ہے جسے اب نثری قصّے کے پہلو میں نہ ڈھالا گیا ہو۔
وہ ناول کی انھیں خوبیوں کی تعریف کرتے ہوئے آگے لکھتا ہے :
ذرائع بیان اور فنون کی ترتیب میں ناول جس درجے کا بھی مستحق ٹھہرے لیکن فی الحال تو حیات کی تعبیر میں پر زور سے پر زور انداز میں پیش کر نے میں کو ئی حریف اور مدّ مقابل نہیں ہے۔
جب زندگی کا کو ئی بھی ایسا شعبہ نہیں بچا جس پر ناول کی نظر نہ اٹھی ہو، تو کیسے ممکن تھا کہ تاریخ جیسے اہم موضوع پر اس کی نظر نہ پڑتی۔ اس نے تاریخ کو بھی اپنے دامن میں سمیٹا اور اتنی خوب صورتی و فن کارانہ ڈھنگ سے کہ ماضی کے وہ کارنامے جو ایک گوشہ میں پڑے قدامت اور فرسودگی کا شکار ہو رہے تھے ناول کے ذریعہ ان میں روح آئی اور زندگی دو ڑ ی۔ ان کی عظمت و رفعت کا احساس جا گا۔ عظمت رفتہ کی قدر و منزلت شعور میں جذب ہو ئی ناول لکھے گئے اور خوب لکھے گئے اور اتنی ہی مقبولیت بھی حاصل کرتے رہے۔ ہرقسم اور ہر طرح کے موضوعات پر ناول لکھے گئے۔ علی عباس حسینی نے ناول کی صرف دو قسمیں بتا ئی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :
ان لا تعداد جاموں کو جب معروف لبا سوں کے نام دیتے ہیں تو ہمیں دو طرح کے ناول ملتے ہیں ۔ رومانی اور نفسیاتی۔ رومانی ناول سے مراد وہ ناول ہے، جس میں پلا ٹ پر قصے کا دارومدار ہوتا ہے، جس کی بڑی غرض زندگی کی تر جمانی نہیں ہوتی بلکہ تفنن و تفریح و اصلاح جس میں بقول ایڈون میور کے زندگی سے فرار کا عنصر زیادہ موجود ہوتا ہے۔ وہ زندگی کے مرقعے کی جگہ عجیب و غریب خواہشوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی ناول کو رومان کہتے ہیں اور اس میں ان تمام ناولوں کو شامل کر لیتے ہیں جنھیں عام طور پر اخلاقی، اسراری، رزمی، عاشقانہ اور سیاسی ناول کہتے ہیں ۔ اسی طرح اگر نفسیاتی ناول کی تقسیم کریں تو ہمیں موجودہ زمانے میں تین طرح کے نفسیاتی ناول ملیں گے۔ ایک تو وہ جو معاشرت کی تصویر ہیں ۔ دوسرے وہ جو سیرتی یا کر داری ہیں اور تیسرے وہ جو تحلیل نفسی سے متعلق ہیں اور جن کا موضوع انسانی تحت الشعور ہے۔
احسن فاروقی ناول کی قسموں پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ناول کو مختلف اقسام میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ اقسام باعتبار فارم یا ہیئت ہوتے ہیں ، مگر یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ایک قسم کا ناول دوسرے قسم کے ناول سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اکثر ایک قسم کے ناول میں مختلف قسم کی خصوصیات اسی طرح ہوتی ہیں کہ اس کو کسی خاص قسم کا ناول نہیں کہا جا سکتااور شاید ہی کو ئی ایسا ناول جس کو کسی ایک کی ہی قسم کا کہا جا سکے۔ پھر بھی کچھ خاص ناولوں کی ہیئت میں کچھ ایسے صفات ضرور ملتے ہیں کہ ان کو ایک ہی قسم کا کہا جائے اور اس طرح مختلف قسمیں ایسی قائم ہو گئی ہیں جن کے تحت ناولوں کو لا یا جا سکتا ہے۔ ایسی سات قسموں کا عام طور پر ذکر ہوتا ہے۔
اس کے بعد فاروقی صاحب انھیں قسموں کو جنھیں علی عباس حسینی دو حصوں میں تقسیم کر چکے ہیں ، مختلف شکلیں دے کر سات نام دے دیتے ہیں ۔ لیکن ان تمام قسموں میں سب سے زیادہ ترجیح تاریخی ناول کو دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ :
تاریخی ناول شاید ناول کی نمایاں ترین قسم ہے۔
تاریخ کو پڑھ لینا، تاریخی صداقتوں کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لینا ایک الگ عمل ہے۔ اس کے لیے تاریخ کی کتابیں ہوتی ہیں ۔ لیکن تاریخ کو پیش کرتے وقت اس وقت کا صحیح ما حول، رہن سہن، گفت و شنید کے آداب، محاور ے، پوشش کے طریقے، کھانے پینے کے انداز، لڑنے، جنگ کر نے یا زندگی کے کسی دوسرے اہم کارنامے کو پورے طور پر جذب کر نے اور ان کا مکمل نقشہ پیش کر نے کے لیے تاریخ کو لا شعوری طور پر ناول کا سہارا لینا پڑا۔ کیونکہ اس وقت کی سچی تصویر پیش کر نے کا اس سے زیادہ موثر ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے تاریخ نے ادب کی تمام اصناف سخن میں ناول کی خصوصیات کا احترام کرتے ہوئے نہایت گرم جوشی سے اسے گلے لگا یا۔ کیونکہ ناول کی مقبولیت اور مقصدیت کو دیکھتے ہوئے مورخین کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ تاریخ کو جتنی کامیابی تاریخی ناول کے ذریعہ مل سکے گی کسی اور صنف کے ذریعہ نہیں ۔ بیٹر فیلڈ لکھتے ہیں :
"History must hot merely be eked out by fiction. It must hot extended by invented episodes, it must be turned into novel, it must be put to fiction as a poem is put to music.”
The Historical Novel.p.21
ڈاکٹر گوند جی کا خیال ہے کہ فکشن اور تاریخ ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ دونوں کا ایک دوسرے سے ضم ہو جا نا فطری ہے۔ کہانی انسانی زندگی کا آئینہ ہوتی ہے اور تاریخ اس زمین پر انسانی زندگی کے ماضی کی کہانی ہوتی ہے۔ دونوں میں رشتہ لا زمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی کی نئی شکل جو اس دور میں ناول کے نام سے یاد کی جاتی ہے، ابتدا ہی سے اس میں تاریخ کا استعمال شروع ہو گیا۔ ناول کی تاریخ اس بات کا ثبوت ہے۔ کسی بھی ادیب پر ہم نظر ڈالیں تو صنف ناول کی مقبولیت انھیں ناولوں کے ذریعہ ہو ئی جو تاریخ کو موضوع بنا کر لکھے گئے تھے۔ انگریزی ادب میں اگر چہ ناول کی ابتدا اٹھارہویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے ہو چکی تھی، لیکن حقیقتاً ناول نے اپنی مستحکم شکل اس وقت بنائی جب والٹر اسکا ٹ کا پہلا معرکہ آرا ناول VAVERLEY1814 ء میں چھپ کر منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے اسکا ٹ کے کئی ناول چھپ کر سامنے آئے۔ اسکاٹ ہی انگریزی کا پہلا مقبول تاریخی ناول نگار ما نا جاتا ہے۔ انگریز جب ہندستان پر قابض ہو گئے اور ہند ستانی تہذیب و تمدن پر انگریزیت طاری ہو گئی تو انگریزی ادب کے اثر سے ہندستان کے مختلف ادب میں سب سے پہلے تاریخی ناول ہی لکھے گئے۔ اردو اور ہندی کے علاوہ مراٹھی، بنگالی ادب میں بھی تاریخی ناول پہلے لکھے گئے۔ بنکم چندچٹرجی کا درگیش نندنی، (1865ء) اور ، راج سنگھ(1881ء)، مراٹھی ہری نرائن آپٹے نے اوشا کال( 1895ء) اور چندر گپت وغیرہ کئی ناول لکھے۔ ہندی ادب کے ابتدائی ناول نگاروں میں کشوری لال گوسوامی کا پہلا مقام ہے۔ ان کا پہلا تاریخی ناول ہر دے ہارنی (1890ء)میں چھپا۔ 1  تب سے تاریخی ناولوں کے انبار لگ گئے۔ اردو میں صنف ناول کا با ضابطہ تعارف شرر کے ناولوں کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اگرچہ ان سے قبل نذیر احمد، رتن ناتھ سرشار ناول لکھ چکے تھے، لیکن ناول کو جتنی مقبولیت ملک العزیز ورجنا (1888ء)سے ملتی ہے اتنی اس سے قبل کے ناولوں کے ذریعہ نہیں ۔

تاریخی ناول

تاریخی ناول :ناول کی تمام قسموں میں سب سے زیادہ پیچیدہ باریک اور خشک قسم ہے۔ در اصل اس کی پیدائش تضاد سے ہوتی ہے۔ تاریخی ناول۔ ۔ ۔ یعنی وہ ناول جس میں تاریخ سموئی گئی ہو۔ سب جانتے ہیں کہ تاریخ عام طورپر حقائق پر مبنی ہوتی ہے اور ناول مطالعہ و مشاہدہ کی آمیزش کے بعد تخیل کی کو کھ سے جنم لیتا ہے۔ اب یہیں سے بعض لو گ اس بحث کو اور پیچیدہ بنا دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ سر فرانسس پال گریو دونوں کے ربط کے با رے میں لکھتے ہیں :
تاریخی ناول، ناول کے کٹر دشمن ہوتے ہیں ۔
اسٹیفینسن اسمتھ نے تاریخی ناولوں کو گھٹیا قسم کی تاریخ اور خراب قسم کا ناول قرار دیا ہے۔ اس طرح دوسرے لوگوں نے بھی تاریخی ناولوں کو اچھے ناول کا دشمن ما نا ہے۔ پر وفیسر بیٹر فیلڈ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ تاریخی ناول ایک اچھی کتاب ہو سکتا ہے۔ لیکن اچھا تاریخی ناول نہیں ہو سکتا ہے، جب تک کہ اس میں تاریخی ناول کی اچھا ئیاں نہ ہوں ۔ لیکن انھوں نے قدرے گنجائش چھوڑ دی۔ ان کا صرف یہ خیال ہے کہ تاریخی ناول کا فن اس قدر باریک ہے کہ اس کی اچھائیوں کو لے کر چلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ تاریخی ناول میں یہ آسان نہیں ہے کہ تاریخ اور فکشن کی چول ایک دوسرے میں پیو ست کر دی جائے اور پورے طور پر ایک چیز بنا دی جائے۔
جو لوگ تاریخی ناولوں سے متعلق ایسے نتائج نکالتے ہیں وہ اپنے بیان میں ٹھوس ثبوت نہیں پیش کر تے۔ عام طور پر ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ تاریخ محض گڑے مردے اُکھا ڑتی ہے اور ناول خیالوں کی ایک تصویر ہوتا ہے۔ تاریخ اور ناول دونوں کے ہی سلسلے میں یہ بات اب غلط ثابت ہو چکی ہے۔
ناول خواہ تاریخی ہو یا سماجی اس کا اصل مقصد زندگی کی عکاسی کر نا ہے۔ ڈاکٹر جگدیش گپت نے بڑی اچھی بات لکھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ناول خواہ وہ کسی قسم کا ہو اس کا اصل مقصد زندگی کے مختلف خیالات اور مختلف گوشوں کو پھیلا کر احساسات اور خیالات، دل و دماغ کے درمیان خوبصورت رشتہ پیدا کر نا ہے۔ اور محدود دائرے میں زندگی کے سچ کو ابھارتا ہے۔ ان تمام مقاصد کی تکمیل کے لیے ناول تخیل کا سہارا لیے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر قسم کے ناول میں تخیل کا رول کہیں تو بہت پیچیدہ اور کہیں بہت معمولی ہو جاتا ہے۔
اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تاریخی ناول وہی سب سے اچھا و کامیاب سمجھا جائے گا جو خوبصورتی کے ساتھ تاریخی ما حول کو پیش کرے۔ وہ جس دور کی منظر کشی کرے آنکھوں میں اتر آئے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ پورے تاریخی واقعات کو پوری سچا ئی کے ساتھ پیش کر ے۔ پھر وہ تاریخ ہو جائے گا۔ تاریخی ماحول پیش کر نے کے لیے اکثر و بیشتر تخیل سے ہی کام لینا پڑتا ہے۔ تاریخ صرف پلا ٹ اور دلچسپ واقعات دیتی ہے۔ اور  ناول اس میں دل کشی اور لچک پیدا کرتا ہے۔ جہاں تاریخ کے اور اق دھندلے پڑ جاتے ہیں ، ناول نگار اپنے تخیل کی روشنی سے اسے روشن اور تا بناک کر دیتا ہے۔ تاریخی ناول تاریخ اور ناول دونوں کی کمیوں کو اپنے اندر جذب کر کے آگے بڑھتا ہے، جہاں تاریخی حقائق کی روشنی ہوتی ہے۔ ناول نگار آسانی سے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جہاں اندھیر ا ہو افکشن اپنی شعاعوں سے اسے منور کر نے لگتا ہے۔ فوراً حقائق پھر سامنے آ جاتے ہیں ، لیکن اس کو فنکارانہ ڈھنگ سے پیش کر نا ناول نگار کا کام ہے۔ سچی اور سیدھی با توں کو براہ راست کہہ دینا تو تاریخ کا کام ہے۔ ناول نگار اسے اپنے ڈھنگ سے سوچتا ہے اور ناول کے سانچے میں ڈھالنے کے بعد حقیقت کو کہانی بناتا ہے۔
عام طور پر تاریخی ناول پر بات کرنے والے تاریخ پر زیادہ زور دیتے ہیں ، ناول پر کم۔ وہ بڑی تفصیل سے بتاتے ہیں کہ ناول میں تاریخ جذب کرتے وقت تاریخ کو توڑ نا مروڑنا نہیں چاہئے۔ سچی اور حقیقی با توں کور قم کر نا چاہئے۔ تاریخیت کو مجروح نہ کر نا چاہئے، لیکن ایسے لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں رہتی کہ تاریخی ناول نگار جس وقت تاریخی ناول لکھنے بیٹھتا ہے تو اسے تاریخ کی تمام شرطوں کے ساتھ ساتھ ناول کی بھی شرائط کا پورا پورا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اسے ہمہ وقت اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ اس کا ناول صرف تاریخ ہو کر نہ رہ جائے۔ تنقید کے بعض گوشے واقعات میں معمولی تبدیلی کو جائز قرار دیتے ہیں ، لیکن بعض مقامات پر سختی سے کام لیا جاتا ہے اور سچ کی حفاظت کے لیے جارحانہ اصول ترتیب دئے جاتے ہیں ۔ مشہور ناول نگار اور ناقدر ویندر نا تھ ٹیگور درمیان کا راستہ نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ناول نگار سچ کی پورے طور پر حفاظت کر رہا ہے یا نہیں ، یہ نہیں دیکھنا چاہئے۔ بلکہ صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ ا س میں تاریخی ماحول پیدا ہو سکا ہے یا نہیں ۔ اگر ایسا ہے تو وہ ایک تاریخی ناول نگار سمجھا جائے گا۔  ہندی کے دوسرے مشہور ادیب پنڈت ہزاری پر ساد دویدی لکھتے ہیں :
عام طور پر وہ ناول جس میں ماضی کے کر دار، ماحول اور واقعات کو تخیل سے سجا بنا کر پیش کیا جاتا ہے، تاریخی ناول کہتے ہیں ۔
ہندی کے ابتدائی تاریخی ناول نگار کشوری لال گوسوامی کے یہ جملے ملاحظہ ہوں :
پڑھنے والے ناول کے ساتھ ساتھ کچھ کچھ تاریخ کا بھی مزہ لیں جس میں لوگوں کی دلچسپی صرف ناول ہی تک نہیں بلکہ تاریخ کی طرف بھی جھکے۔
سر والٹر ریلے نے تو اس حد تک کہہ دیا کہ :
تاریخی ناول کے اہم کر دار اپنے آپ میں تاریخی نہیں ہو نا چاہئے۔
اس میں شک نہیں کہ تاریخی ناول نگار مواد تو تاریخ سے جمع کرتا ہے، لیکن جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا جا چکا ہے کہ اس کے سامنے مسائل حال اور مستقبل کے ہوتے ہیں ۔ وہ اس خوبصورتی سے ماضی کے واقعات کو سمیٹتا ہے کہ خود بخود حال اور مسقبل کی تصویر ذہن میں سجنے لگتی ہے۔ دراصل اس تصویر کے پس پردہ ناول کا فن کام کرتا ہے۔ وہ ماضی کے واقعات، کردار کو حال کے ساتھ فنکارانہ طور پر ایسا ضم کر دیتا ہے کہ حال کے مسائل ماضی کے اور ماضی کے مسائل حال کے لگنے لگتے ہیں ۔ لہٰذا ایسے نا زک مقام پر تاریخی صداقت کے سلسلے میں متشدد ہو نا بڑا مشکل ہے۔ اسے سچائی کا دامن بھی نہ چھوڑنا چاہئے۔ ساتھ ہی تخیل کے ذریعہ اس میں ماحول پیدا کرنا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر تاریخی ناول کے لیے حقائق پر تخیل کا رنگ نہیں چڑھے گا تو وہ ناول کسی صورت سے نہیں ہو سکتا، صرف تاریخ ہو کر رہ جائے گا۔ لیکن یہ شرط بھی اولین ہے کہ تخیل کا جز اسی حد تک لا زمی ہے جہاں تک تاریخ کا گلا نہ گھٹے۔ ہندی ادب میں اس سلسلے میں سوچنے والوں کے دو گروپ ہو گئے ہیں ۔
ایک گروپ یہ چاہتا ہے کہ تاریخ میں تبدیلی پیدا کر نے کے بعد ہی کو ئی عمدہ تاریخی ناول لکھا جا سکتا ہے۔ مشہور و معروف تاریخی ناول نگار چتر سین شاستری اورر اہل جی و غیرہ اسی انداز سے سوچتے ہیں ۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ تاریخی ناول میں تاریخ کو تلاش کرنا حماقت ہے۔ تاریخ بدلتی رہتی ہے۔ تاریخی ناول کوئی تاریخ نہیں ہے، وہ تو ایک کہانی کی شکل ہے۔ ہاں اس میں تاریخی مٹھا س ضرور ہو نا چاہئے۔
ورندا ون لال ورما دوسرے گروپ کے لوگوں میں اہم مقام رکھتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ تاریخی ناول میں تاریخ کو توڑنے مروڑنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ ان کے خیال کے مطابق جس تاریخ کو پیش کیا جا رہا ہو اس وقت کاسارا ماحول رہنا چاہئے۔ اس میں شکست و ریخت مناسب نہیں ۔
مشہور نا قد جارج لو کا چ نے لکھا ہے کہ ناول نگار کو اپنے مطابق تبدیلی نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی اس میں کا ٹ چھانٹ کر نا چاہئے۔ تاریخی واقعات خود اپنے آ پ میں افسانویت رکھتے ہیں ۔ ماہر ناول نگار بغیر تبدیلی کیے ہی سچ کو فنکارانہ ڈھنگ سے پیش کر سکتا ہے۔ اگر کہانی کو غلط ڈھنگ سے پیش کیا جائے تو خواہ کتنا ہی تخیل سے کام لیا جائے کامیابی مشکل ہو گی۔
سچ بات تو یہ ہے کہ تاریخی ناول میں تاریخ کا ہو نا بھی لا زمی ہے اور ناول کا فن بھی۔ ان دونوں میں پہلی چیز یہ یاد رکھنے کی ہے کہ تاریخی ناول ناول پہلے ہے تاریخ بعد میں ۔ ناول کا فن ہر شے پر غالب رہنا چاہئے۔ اس فن میں تاریخ کی جھلک ملتی ہے جسے شاستری جی نے تاریخی مٹھاس کا نام دیا ہے۔
تاریخ کا تعلق مورّخ اور تاریخی ناول نگار دونوں سے ہوتا ہے۔ دونوں ہی حقیقت کے متلا شی ہوتے ہیں ۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ جہاں مورخ تاریخی حقائق کو ماضی کے آئینے میں تلاش کرتا ہے۔ وہاں ناول نگار چونکہ اپنے ناول میں ایک دور کی، ایک عہد کی زندگی پیش کر نا چاہتا ہے، اس وجہ سے وہ جس دور میں بھی جھانکے گا اس کی مکمل زندگی تلاش کر کے تمام ا نسانی رشتوں کو دیکھنا چاہے گا۔ مورّخ اور  ناول نگار میں بنیادی فرق یہی ہے کہ ایک تاریخ لکھتا ہے تو دوسراتاریخی ناول۔ دونوں اگرچہ ماضی کی طرف پلٹتے ہیں لیکن مواد کی فراہمی کا انداز جدا گانہ ہوتا ہے۔ جب مورّخ ماضی کی دنیا میں ڈوبتا ہے تو تمام حادثات و واقعات کو تلا ش کرتا ہے۔ بڑی ہو شیاری سے تاریخ اور سنہ تلاش کرتا ہے۔ مورّخ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کون سا بادشاہ یا کوئی بڑی شخصیت کس دور میں پیدا ہو ئی ؟ اس کے ابتدائی ایّام کیسے گذرے ؟وہ تخت پر کیسے بیٹھا ؟ اس کا انداز حکومت کیسا تھا ؟ اس کے عہد کے خاص خاص حادثے کون کون سے تھے ؟ اور پھر وہ کب وفات پا گیا ؟ اس میں شک نہیں کہ ان تمام سوالات کے جوابات کی فراہمی بھی کارے دار د۔ یہ بھی اک آرٹ ہے اس میں لطف ہے، لیکن اس لطف کی شکل دوسری ہے۔ اس میں نہ ادبیت ہو گی نہ شعریت، نہ قصّہ پن ہوگا اور نہ زبان و بیان کی لچک ان تمام واقعات کی معلومات ہو جائے گی لیکن ان کا تعلق دل کی دھڑکنوں سے نہ ہو گا اور نہ ہی ہم جذباتی ہو سکیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ سنہ اور واقعات کے سلسلے میں دفتر کے دفتر قلم بند کر دیتا ہے، لیکن اثر انگیزی اور ماحول میں کیفیت پیدا کر نے کے لیے جن اشیا کی ضرورت ہوتی ہے اس سے وہ محروم رہتا ہے۔ اس کے بر خلاف ناول نگار ان تمام کوتاہیوں کو اپنے ناول میں پورا کرتا ہے، لیکن جب وہ تاریخ کے واقعات کو افسانوی سانچے میں ڈھالے گا تو خود بخود حقیقت کا دامن تنگ ہو جائے گا۔ جیسا کہ بیٹر فیلڈ کا خیال ہے کہ تاریخ کو ناول میں ڈھالنے کے لیے کہانی بنانی پڑتی ہے اور کہانی کو تاریخ کے سانچے میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ تو کہانی کو سانچے میں ڈھالنے کے لیے تاریخ میں ایک لوچ پیدا ہو جاتا ہے اور لا شعور ی طور پر تاریخ قدرے حقیقت سے الگ ہو نے لگتی ہے۔
تاریخی ناول نگار اس موڑ سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ تاریخی کتاب نہیں لکھ رہا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تاریخ کے سبق کو دہرا کر نصیحت کر نا بھی اس کا مقصد نہیں ہے۔ دراصل جب وہ ماضی میں ڈوبتا ہے تو اس کی روح تک میں ڈوب جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے موسیقار دھن میں ڈوب جاتا ہے۔ ماضی کے اندر ایک دنیا سجاتا ہے اور اسی سجی ہو ئی دنیا کو خوبصورت ڈھنگ سے پیش کر نے کے لیے ناول کا سہا را لیتا ہے۔ اب یہاں پر یہ سوچنے کی بات ہے کہ ناول اور تاریخ میں بنیادی فرق ناول نگار اور مورّخ کے انداز فکر کا ہے۔ تاریخی ناولوں کا مقصد کبھی یہ نہیں رہا کہ وہ صرف تاریخی واقعات کو پیش کر نا چاہتا ہے۔ بلکہ حال میں ماضی کی تصویر سجا نے کا مقصد صرف یہ ہے کہ حال کا انسان ماضی کی زندگی کو دیکھ لے اور پھر اپنی زندگی کو سجائے۔ اس طرح پس پردہ تاریخی ناول ماضی کی دنیا کو ہی آ جا گر نہیں کرتا بلکہ مستقبل کی طرف سوچنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ جناب شیو نرائن سر یواستو ا لکھتے ہیں :
وہ تاریخ کے تمام مواد کو سمیٹ کر اپنے تخیل کے پنکھ کے ذریعہ ماضی میں نہ صرف پہنچتا ہے بلکہ ماضی میں خوبصورتی و زندگی ڈال کر حال میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ اور تاریخ کی سنجید گی میں تخیل کا رنگ دے کر ناول کے لیے فضا ہموار کرتا ہے اور دوریوں کو ختم کر کے تاریخی کر دار ہمارے درمیان آ کھڑے ہوتے ہیں ، بولتے ہوئے حرکت کرتے ہوئے۔
جو لوگ اس انداز سے سوچتے ہیں کہ تاریخ میں کہیں تبدیلی نہیں آنی چاہیئے اور ساتھ ہی ناول کی دلکشی اور معیار کا مطالبہ بھی کرتے ہیں ۔ وہ اس فن کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ۔ ورند اون لال ورما اگرچہ ایک طرف یہ ضرور کہتے ہیں کہ تاریخ میں تبدیلی کر نے کا ناول نگار کو کوئی حق نہیں پہنچتا، لیکن جلد ہی وہ اس باریکی کو محسوس کر کے نرم پڑ جاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں واقعی تاریخ کچھ پتہ نہ دے رہی ہو اور کر داروں کا آگے بڑھنا نا ممکن سا ہو گیا ہو، وہاں پر آپ کو حال کے انسانی کر داروں کو اپنے تخیل کی طاقت سے ضم کر لینا چاہئے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ وقت بدل جاتا ہے لیکن انسانی مزاج جلدی نہیں بدلتا۔
عام طور پر معتدل و متوازن ذہن رکھنے والے تمام ادیب و نقاد اس بات کی پوری اجازت دیتے ہیں کہ ناول نگار چاہے تو ماحول اور مقصد کو بر قرار رکھنے کے لیے ضرورت پڑنے پر واقعات و کر دار میں تبدیلی کر سکتا ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ تاریخی ناول، ناول پہلے ہے تاریخ بعد میں ۔ ڈاکٹر گوندجی کا کہنا ہے کہ تاریخ تو محض ایک پردہ ہے، ایک بہانہ ہے، مقصد تو ناول لکھنا ہے۔ اس سلسلے میں شیفرڈ نے بھی بڑی اہم بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی تاریخی ناول نگار کو واقعات کے تسلسل میں تبدیلی نہیں کرنی چاہئے، جب تک کہ ضرورت اپنی انتہا پر نہ پہنچ جائے۔
یہ تبدیلی ایسے ہی مقامات پر ممکن ہے جہاں تاریخ دھند لی نظر آ رہی ہو، لیکن جہاں تاریخ کا ایک ایک واقعہ ایک ایک کر دار اپنی واقعیت کا خود اعلان کر رہا ہو وہاں تبدیلی ممکن نہیں ۔ تاریخی ناول بغیر تخیل کے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن تخیل کو ناول کا دشمن بن کر ناول میں نہیں آنا چاہئے۔ تاریخ کے وہ واقعات جو اپنے آپ میں حقیقت اور صداقت رکھتے ہیں تخیل ان میں تقلیب نہیں کر سکتا، بلکہ اس میں آرٹ پیدا کر کے زندگی تلا ش کرتا ہے۔ تاریخی سچ کو کسی بھی صورت میں مجروح نہیں کر سکتا۔ جہاں سچ دھند لا پڑتا ہے وہاں تخیل کا رول بڑھ جاتا ہے۔ بقول رام دھاری سنگھ دنکر:
تاریخ کا یہ دھند لا پن عقل کو کند اور تخیل کو تیز بنا دیتا ہے۔ دلچسپی کو بڑھاتا ہے۔ خوابوں کی گرہیں کھولتا ہے۔ واقعات کو ظاہر ی طور پر سبھی جان لیتے ہیں ، لیکن اس کی روح میں وہی داخل ہو پاتا ہے جس کا تخیل تیز ہو۔
چونکہ ناول میں ایک خاص قسم کا ما حول اور مزاج ہوتا ہے، اس کو بر قرار رکھنے کے لیے چاہے تاریخ صحیح ہو یا غلط، تخیل کا ہر جگہ کام رہتا ہے۔ ہندی کے ایک دوسرے ادیب ڈاکٹر لال صاحب سنگھ کا خیال ہے کہ ناول میں ہر جگہ تخیل ہی کام کرتا رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تاریخی سچ کو پیش کر نے کا دعویٰ بھی کرتا ہے تو در اصل تاریخی ناول، تاریخی مواد اور ناول کے آرٹ کا خوبصورت میل ہوتا ہے۔
ماضی کے کارناموں کو خوبصورت اور کارآمد بنانے کے لیے تاریخی ناول نگار تاریخی صداقتوں کو گلے لگا نے کے با وجود بعض اوقات اِدھر اُدھر بہک جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچے واقعات کی شکست و ریخت مناسب نہیں ہے۔ اس عمل سے تاریخ زخمی ہوتی ہے۔ لیکن اگر معمولی واقعات کے معمولی ہیر پھیر سے تخیل کی، آرٹ کی، ایک خوبصورت شکل سامنے آ رہی ہے اور ناول اپنے مقصدیت و افادیت کی حدوں کو چھونے لگتا ہے تو میرے خیال میں ایسی معمولی حقیقتوں سے وہ نمونۂ آرٹ بہت اچھا ہے، جہاں ماضی کے لیے خوشگوار جذبہ ہے اور مستقبل کے لیے روشن را ہیں ہیں ۔
اکثر یہ سوال بھی اٹھا یا گیا ہے کہ آخر ناول میں تاریخ کو سمیٹا ہی کیوں جائے ؟ تاریخ ایک الگ فن ہے اور ناول دوسرا۔ ان دونوں کی آمیز ش کیا معنی رکھتی ہے ؟ سما ج کے نشیب و فراز اور حال کے مسائل نے اکثر عظمت رفتہ کو دہرانے پر مجبور کیا ہے۔ حال اور مستقبل کو مستحکم کرنے کے لیے جا بجا ماضی کے کار ناموں کو زندہ کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ تاریخ زیادہ حقائق پر مبنی ہوتی ہے اور حقیقتیں عام طور پر تلخ، خشک اور غیر دلچسپ ہو ا کرتی ہیں ۔ اور ناول اپنے آپ میں نرمی، دل کشی اور چمک رکھتا ہے، جو حقیقتوں کی اس غیر دلچسپی اور خشکی کو بڑی حد تک دور کر دیتا ہے۔ تاریخ جیسے خشک اور روکھے موضوع ک وناول جیسے دلچسپ اور خوبصورت سانچے میں ڈھال کر پیش کیا جائے تو اس کی اہمیت اور  مقصدیت میں چار چاند لگ جاتے ہیں ۔ اردو میں تاریخی واقعات کو اکثر نا صحانہ اور عالمانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ نصیحت اگر خشک انداز میں کی جائے تو تلخ دوا کا کام کر نے لگتی ہے۔ ناول اس دوا کو شیریں شہد کی شکل دینے میں مدد کرتا ہے۔ مشہور شاعر اکبر الٰہ آبادی اپنی بات کو عوام تک پہنچا نے کے لیے مزاحیہ شاعری کا سہا را کیوں لیتے ہیں ؟ یہ بات اسی سلسلے میں سوچنے کی ہے۔ شاید انھیں وقت کی تلخی اور نصیحت کی کڑواہٹ کا احساس ہو گیا اس لیے وہ خاموشی سے طنز و مزاح کے راستے پر مڑ گئے اور خوب مقبول ہوئے۔ شبلی کی تاریخی حیثیت سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔ اردو ادب میں بحیثیت مورّخ ان کی قدر و منزلت مسلم ہے۔ المامون، الفاروق، سیرۃالنبی جیسی کتابیں غیر معمولی حیثیت رکھتی ہیں ۔ شرر نے تقریباً انھیں واقعات کو ناول کے پیرا یے میں پیش کیا۔ یہاں دونوں کا موازنہ مقصود نہیں لیکن شبلی کے مقابلے، شرر کا پیغام زیادہ مقبول ہوا اور زیادہ حلقے میں پھیلا، جب کہ دونوں کا مقصد تبلیغ اور عظمت رفتہ کو دہرا نا تھا۔ شرر نے بھی سوچ کراسی طرح کا موضوع منتخب کیا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس بات کو سرسید، حالی، شبلی اور نذیر احمد سبھی کہہ رہے ہیں ۔ لیکن سب کا پیغام کس حد تک اور کس انداز سے کن لوگوں کے درمیان پہنچ رہا ہے، اس بات کا احساس شرر کو ہو چلا تھا۔ اسی وجہ سے شرر نے پہلی بار تاریخ کو ملک العزیز ورجنا (1888ء) کی شکل میں پیش کیا، جو بیحد مقبول ہوا۔ اور وہ مقصد جو اس وقت کے تمام ادیبوں اور شاعروں پر غالب تھا شرر پہلے ادیب ہیں جن کے ذریعہ وہ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور اس اعتبار سے شرر اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ کامیاب ہوئے۔ اور سچ بات تو یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ تو تاریخی کتابوں سے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے روشنی تاریخی ناول کے ذریعہ ہی مل سکتی ہے۔ ماضی کے جملہ اتار چڑھا ؤ سے کیا کیا نتائج اخذ کیے جائیں یہ کارنامہ تو تاریخی ناول ہی انجام دیتے ہیں ۔
تاریخ اور ناول کی آمیز ش کی ایک اور وجہ ناول کی خصوصیت کے ساتھ چند تاریخ کی بھی ایسی خصوصیات ہیں ، جو ناول نگار کو اپنے کینویس میں سمو نے کے لیے آمادہ کرتی ہیں ۔
جب ہم ماضی کے کارنامے اور قصے سنتے ہیں ، تب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کے پس منظر میں ہم کیسی کیسی کہانیاں چھوڑ آئے ہیں اور ہما ری تاریخ کی یہ دنیا اپنے دامن میں کیسی عجیب و غریب یا دیں جذب کیے ہوئے ہے۔ کبھی کبھی تو یقین ہم سے سوال کرتا ہے کہ کیا ماضی میں ایسا ہو ا تھا، لیکن ماضی کی باتوں پر یقین ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم اس کی تفصیلات یعنی اس کا ماحول، رہن سہن، روایتیں ، غرض کہ سب کچھ اس بات کا دعویٰ کرتی ہیں کہ یہ ساری چیزیں سچ ہیں ۔ قدیم قصے ہمیں حیرت انگیز دنیا میں لے جاتے ہیں ، اور ایک عجیب سا دلچسپ و دلکش تاثر چھوڑتے ہیں ۔ کہیں پر بہا دری، کہیں پر پیار، کسی مقام پر افسوس، کسی مقام پر مسرت کے بلبلے پھوٹتے نظر آتے ہیں ۔ جب ہم ماضی کی طرف جاتے ہیں ، تو اس وقت کی رنگین و چمکیلی تصویریں ہم کو گھیر لیتی ہیں اور انسانی نفسیات کے مطابق ہم اس دنیا کو بہتر سمجھ کر آج کی زندگی کے عناصر تلاش کر نے لگتے ہیں ۔ ماضی میں اپنا حال تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ نتیجہ کے طور پر قدیم و جدید کی یہ آمیز ش ہمیں ایک الگ دنیا میں لے جاتی ہے اور پھر یہ دنیا ہی ہماری اپنی دنیا سے زیادہ دل کش اور خوب صورت لگنے لگتی ہے۔ ہندی کے مشہور ادیب پر وفیسر جگدیش گپت نے تاریخ کی طرف ناول نگاروں کی رغبت کی سات وجہیں بتائی ہیں :
(i)حال سے شکست کھا کر یا مطمئن نہ ہو نے پر تبدیلی کا احساس۔
(ii)ماضی کو حال سے زیادہ مضبوط سمجھنا۔
(iii)تاریخی واقعات اور کر داروں کے تئیں منصفانہ احساسات کا پیدا ہو نا۔
(iv)حال کو مضبوط کر نے کے لیے ماضی کی خوبصورت زندگی کی تلا ش۔
(v)تاریخی مٹھا س میں ڈوبنے کا جذبہ۔
(vi)قوم اور قوم کے اصولوں کا تعین اور بہادری کی پر ستش۔
(vii)نئی زندگی اور نئے مقاصد کو پیش کر نے کا جذبہ۔
پروفیسر جگدیش گپت کے ان سات نکات سے اختلاف نہیں کیآ جا سکتا، لیکن آگے بڑھ کر ستیہ پال چگھ نے اس کی تو سیع کی اور چند نکات کی طرف اشارہ کیا جو خاصے اہم ہیں :
(i)ماضی کی زندگی سے انسان کی لا شعوری دلچسپی۔
(ii)تاریخ کے ذریعہ تخیل کے مواد کو حقیقی بنانے کی کو شش۔
(iii) تاریخ کے مشہور کر داروں سے فائدہ حاصل کر نے کی کو شش۔
(iv)تاریخ کے بنے بنائے سانچے کو استعمال کر نے کا خیال۔
(v) تاریخ کو ناول میں ڈھال کر اسے مقبول بنا نا۔
(vi) تاریخی ناولوں میں پھیلی غلط قسم کی تاریخ کی تحقیق و تصحیح۔
(vii) تاریخ کے گم نام و گم شدہ واقعات کو آ جا گر کرنا۔
(viii) جغرافیائی عنا صر تاریخ کو متوجہ کرانے میں مدد گار ثابت ہیں ۔ اس سے پیدا ہو نے والا رومانی جذبہ۔
(ix) تاریخ کے ذریعہ ملک سے محبت اور لگاؤ پیدا کر نے کا جذبہ۔
(x) ماضی کے حالات سے حال کے مسائل کو حل کرنے کا خیال۔
ڈاکٹر ستیہ پال چگھ کے آٹھویں نکتہ پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات حقیقت نظر آتی ہے کہ تاریخی جذبہ پیدا کرنے میں کبھی کبھی جغرافیہ بھی سہارا بن جاتا ہے۔ بیٹر فیلڈ نے بھی لکھا ہے :
"Lastly it may be said that the inspiration of the historical novel is not merely history but also geography.”
پرانے قلعے، کھنڈر، ا عمارتیں وغیرہ دیکھنے کے بعد ناول نگار کی روح تڑپ اٹھتی ہے اور وہ مچل اٹھتا ہے کیونکہ وہ ان عمارتوں میں پوشیدہ ناول کے ڈھانچے کو صاف طور پر دیکھ لیتا ہے۔ انگریزی کے مشہور تاریخی ناول نگار والٹر اسکاٹ کے جملوں کو بیٹر فیلڈ لکھتے ہیں :
"In Sir Walter Scott this power of reading history into existed in real intensity…….to me(he said).The wandering over the field of Bannockburn was the source of more exquisite pleasure than gazing up on the celebrated landscape from the betterment of string castle. I do not by any means inter that I was dead to the feeling of picturesque scenery but show me an old castle in the field of battle and I was at home at once.” 1
ورنداون لال ورما لکھتے ہیں :
یہ ہی ندیاں ، نالے یا ندی، جھیلیں اور بندیل کھنڈ کے پہاڑ۔ ٹھنڈے کھیت ہی میرے جذبے کو ابھا رنے کی خاص وجہیں ہیں اس لیے مجھے تاریخی رومان پسند ہے۔
………….
ملک اور قوم کا جذبہ اکثر و بیشتر ناول نگار ی کی طرف لے جاتا ہے، بلکہ اگر کہا جائے کہ جذبہ ہی سب سے اہم ہے تو غلط نہ ہو گا۔ انگریزی، ہندی اور اردو کے تمام ناول نگار اس جذبہ کے تحت تاریخی ناول کی طرف مڑ ے۔ اردو میں عبدا لحلیم شرر کے ساتھ صرف یہی وجہ تھی۔ قوم کی گرتی ہو ئی حالت کو سنبھالنا ہی ان تاریخی ناول نگاروں کا اصل مقصد تھا اور یہی ان کی تاریخی ناول نگاری کا اصل باعث تھا۔
تاریخی ناول نگار اپنے ناول میں عام طور پر دو قسم کی تاریخ استعمال کرتے ہیں ۔ ایک تو وہ تاریخ ہوتی ہے، جو صرف مواد دیتی ہے اور اس مواد کو تاریخی ناول نگار اس انداز سے ڈھا لتا ہے، جیسے بدن میں اعضاء ڈھلے ہوتے ہیں ۔ دوسری قسم کی وہ تاریخ ہے، جو صرف مواد ہی نہیں بلکہ تاریخی ناول نگار کے لیے سانچہ بھی پیش کرتی ہے، جس کو مزید خوبصورت کر کے ناول نگار اپنے ناول کے لیے خاکہ تیار کرتا ہے۔ عام طور پر ناول نگار دوسری قسم کی تاریخ کی طرف زیادہ رجوع ہوتا ہے، کیونکہ ایسی تاریخ میں صرف دو کام رہ جاتے ہیں ۔ کہانی کو سانچے میں ڈھالنا اور اس پر تخیل کا رنگ چڑھا نا۔ تاریخی ناول کی ا س تخلیق میں  ناول نگار کہانی، کردار اور واقعات سب تاریخ سے لیتا ہے۔ صرف اس پر رنگ چڑھا نے کا کام ناول نگار کا ہوتا ہے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ اب چونکہ وہ اپنے سارے مواد تاریخ سے ہی لیتا ہے اس لیے اس کا مطالعہ عمیق ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں وہ مورّخ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ فن کار بھی ہے۔ کیونکہ ماضی کو پیش کر نے کا اس کے پاس ایک ایسا آرٹ ہے جو مورّخ کے پا س نہیں ہو تا۔ اسی لیے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ناول نگار تو مورّخ بن جاتا ہے لیکن مورّخ ناول نگار نہیں بن سکتا۔ اس مقام پر ناول نگار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ وہ مورّخ کا رول تو ادا کرتا ہی ہے ساتھ ہی وہ ایک فنکار بھی ہے اور ناول نگار بھی۔ اس کے پاس ماضی کو پیش کر نے کا ایک ایسا آرٹ ہے جو تاریخ کے مقابلے زیادہ دلچسپ موثر اور  دیر پا ہے۔ لہٰذا تاریخی ناول نگار کو ایک ساتھ دو ذمّہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں ۔ اول ناول نگار کی، دوئم مورّخ کی۔ قدم قدم پر اسے اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ناول رقم کرتے وقت تاریخ نہ غائب ہو نے پائے اور تاریخ کی شدت ناول کے فن پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ اس طرح سے تاریخی ناول نگار کی ذمّہ داری بیحد باریک اور نازک ہو جاتی ہے۔ ایک طرف تاریخ کی صداقتوں کا خیال دوسری جا نب فن ناول کی جملہ نزاکتوں کا لحاظ، جو ناول نگار ان دونوں ذمّہ داریوں میں سے ایک کو بھی نہیں نبھا پاتے وہ نہ تو اچھے مورّخ ہو پاتے ہیں اور نہ ہی اچھے ناول نگار۔ کیونکہ دونوں ذمّہ داریوں کو اچھی طرح سے نبھا نے والا ہی تاریخی ناول نگار کہلائے گا اور یہ کام اتناآسان نہیں ۔
اچھی تاریخ کا تلاش کر لینا اتنا مشکل نہیں ، جتنا کہ اچھے تاریخی ناول کے لیے اس تاریخ میں ناول کے بنیاد ی عنا صر تلاش کر لینا۔ تاریخ میں واقعات کی بھیڑ ہوتی ہے۔ ہر واقعہ ناول کا پلا ٹ نہیں بن سکتا۔ ناول نگار اس بھیڑ میں اپنے ناول کے اعتبار سے ایسے واقعات کو تلاش کرتا ہے جو اس کے تخیل اور ناول کے فنّی سانچے میں ڈھل سکے۔ شیفر ڈ نے ایک جگہ لکھا ہے :
"In every period of history, in every episode in a fragment of stone in an old weapon, in a name on a desolate grave in a scrap of verse, is the germ of an historical novel. The difficulties is or should be selection. The selection of character and incident is a difficulty and it is important to know what to reject and what to select.”
سچ بات تو یہ ہے کہ تاریخ کے لا متناہی سلسلۂ واقعات میں سے ناول نگار کیا منتخب کرے اور کیا نہ منتخب کرے۔ کس قسم کے کرداروں کو وہ چنے اور کن کو چھو ڑ دے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کے طے شدہ اصولوں کا تعین منا سب نہیں ۔ اس کا انحصار خود ناول نگار ہی پر ہوتا ہے۔ کیونکہ ناول کے کیا تقاضے ہیں اور اس کے ذہن میں ان تقاضوں کے لیے کیا رویہّ ہے، اس کو وہ خود ہی سمجھتا ہے۔ کیونکہ اس سے قبل کہ وہ ناول لکھے، اس کے ذہن میں اس کا ڈھانچہ پہلے ہی تیار ہو جاتا ہے۔ وہ اسی ڈھانچے کے اعتبار سے تاریخی واقعات کی تلاش کرتا ہے اور تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اپنے سفر پر چل پڑتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خود بخود سانچے میں ڈھلے ڈھلائے واقعات مل جاتے ہیں ۔ کبھی کبھی تھوڑی سی تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ اور کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ تاریخ کچھ اور ہے، اور ناول کا تقاضا کچھ، اور ایسے مقام پر ناول نگار کی فنکاری کا امتحان ہوتا ہے۔ اور اگر وہ اس موڑ پر سلیقے سے گذر جائے تو وہ ایک کامیاب تاریخی ناول نگار ہو سکتا ہے۔
تاریخی ناول سے متعلق یہ موضوع بھی اکثر بحث طلب ہو گیا ہے کہ تاریخی ناولوں کے لیے تاریخ کے شہرت یافتہ واقعات ہیں ۔ اس سلسلے میں مختلف نقادوں کے مختلف خیالات ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ شہرت یافتہ واقعات اپنی روشنی اور مواد کے اعتبار سے زیادہ مدد گار ثابت ہوتے ہیں ۔ بیٹر فیلڈ کا خیال ہے :
"The arena of great ‘historic’ event provides a more spacious theme for the novelist than more episode abstracted from universal history can do instead of wandering in the interesting by ways of the past and finding surprises of thrilling episodes in out of the way corners the novelist may boldly face the full course of important events and plunge into the fate and fortunes of the great, the historical novel then becomes and embodiment of the historic things in the sense of the reaching loud sounding issues and it has a wider canvas and empter scope.”
غیر شہرت یافتہ واقعات کے سلسلے میں اتنی آسانی ہوتی ہے کہ واقعات کے زیادہ تر پہلو چونکہ تاریک ہوتے ہیں ، اس وجہ سے ناول نگار کو مکمل آزادی ہوتی ہے کہ ناول جس رخ پر چاہے موڑ دے اور کہانی کو جس ڈھنگ سے چاہے پیش کر دے۔ موضوع جتنا مبہم ہوگا ناول نگار کو اتنی ہی آسانی ہوگی۔
تاریخی ناول کا یہ پہلو بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ تاریخی ناول نگار کا اپنا ایک مقصد ہو نا چاہئے۔ وہ جس دور کی تصویر کشی کر رہا ہو، اس کے تمام تاریخی واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، انسانی زندگی پر کس طرح سے اثر انداز ہو رہا ہے اور آج کے دور کے لیے کیا مواد فراہم کر رہا ہے، اس نقطہ نظر سے تاریخی ناول خواہ وہ کیسے ہی واقعات پر مبنی ہوں سب کی اہمیت ایک سی ہوتی ہے۔ اسی طرح عہد کے سلسلے میں بھی دو ایک باتیں اہمیت رکھتی ہیں ۔ اچھے تاریخی ناول کے لیے ماضی کے قدیم ترین واقعات زیادہ آسانیاں پیدا کرتے ہیں ، یا کم پرانے واقعات۔ جارج لو کاچ لکھتے ہیں :
"It is clear that more remote and historical period and the conditions of life of it actors the more the action must concern itself with bringing these conditions plastically before us, so that we should not regard the particular psychology and ethics which arise from than as an historical curiosity but should re-experience them as a phase of mankind’s developments which concern and move us.”
شیفرڈکابھی یہی خیال ہے:
"It is comparatively easy to write about the very remote past to invent names, perhaps which probably were land or sea but you do at your own risk-you may invent names, intent environment even make your clock strike in Roman halbs and years with impunity and with ease until you found out.
تاریخ جتنی قدیم ہو گی ناول نگار کے لیے اتنی ہی آسانی ہو گی۔ ناول نگار جدھر چاہے اپنے ناول کا رخ موڑ سکتا ہے، کیونکہ اسے پتہ ہے کہ جو تاریخ اندھیرے میں ہے اس کے لیے کو ئی کسی قسم کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ناول نگار کو زیادہ تر قدیم ماضی کے موضوعات کا ہی انتخاب کر نا چاہئے،تا کہ آسانی سے وہ ناول کی شکل پیش کر سکے اور فن ناول کے ساتھ انصاف کر سکے۔ قدیم موضوعات سے متعلق یہ تحریریں آسان لگتی ہیں ، لیکن بعض ادیبوں اور ناول نگاروں نے اس سے اختلاف بھی کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ جہاں معلومات ادھوری ہوں وہاں تخیل کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن ناول صرف تخیل کی کارفرمائیوں کی شکل نہیں ، بلکہ اس کے کچھ اور خوب صورت تقاضے ہوتے ہیں ۔ اور یہ تقاضے تاریخی ناول میں اور زیادہ باریک اور نازک ہو جاتے ہیں ۔ جب ناول قدیم تاریخ کی طرف مڑتا ہے تو اپنے آپ اس میں بے ربطی اور اُتھل پتھل کا احساس ہو نے لگتا ہے، جس کی وجہ سے جا بجا روکھے پن اور غیر فطری ماحول کے چھا جا نے کا خطرہ لا حق رہتا ہے۔ انسانی زندگی سے وابستہ جب بھی کو ئی ناول لکھا جائے تو یہ ضروری ہے کہ اس کی ساری نفسیات طرز زندگی، محبت، خوف، نفرت، غرض کہ ہر طرح کے احساسات کی تر جمانی کرے، ورنہ وہ ناول نہ ہو کر تاریخ یا اور کوئی شکل اختیار کرے گا۔ ہم جیسے جیسے ماضی کی گہرائیوں میں ڈوبتے جاتے ہیں اس طرح کے احساسات زائل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ کوئی معمولی پہلو نہیں ہے، بلکہ ناول نگار کے لیے سب سے اہم پہلو یہی ہے۔ ناول خواہ کسی موضوع سے تعلق رکھتا ہو۔ اگر وہ انسانی زندگی کی تر جمانی نہیں کر رہا ہے تو وہ کامیاب ناول کبھی نہیں ہو سکتا۔ تاریخی ناول ہم اسی لیے پڑھتے ہیں کہ ہمیں اپنے ماضی کی زندگی کے طور طریقے، رہن سہن وغیرہ کی معلومات ہوتی ہے۔ لیکن اگر ناول کا یہی پہلو کمزور ہے تو یقیناً ناول بھی کمزور ہو جائے گا۔ عہد کے بارے میں ہندی کے مشہور ادیب و ناقد ڈاکٹر ہزاری پر ساد دویدی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ ماضی کے تمام واقعات کا علم ہونا مشکل ہوتا ہے۔ عام طور پر قدیم ماضی کے بارے میں معلومات کم ہی ہوتی ہیں اور نزدیک کے ماضی کی کچھ زیادہ۔ تاریخی ناول نگار دور کے واقعات کو ربط کر دینے کے لیے تخیل کا سہا را زیادہ لیتا ہے، نزدیک کے واقعات میں کم۔ ناول نگار سچ سے زیادہ انکار نہیں کر سکتا۔ وہ ہر حالت میں خواہ کسی دور کا تذکرہ کر رہا ہو اس کی تصویر کشی میں انسانیت، نفسیات وغیر ڈھا لے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن یہ سب کر نا بہت مشکل کام ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس قسم کے مسائل تاریخی ناول نگار کے سامنے قدم قدم پر آتے ہیں ، لیکن یہ کو ئی ایسی دیواریں نہیں ہیں جہاں قلم آ کر رک جائے اور فکر جامد ہو کر رہ جائے۔ یہ ایک حد تک سوچنے سمجھنے پر ضرور مجبور کر دیتے ہیں لیکن ناول نگار اپنا مقصد لے کر چلے تو ان سب کی اہمیت کچھ زیادہ نہیں ہے۔ اپنے مقصد کے اعتبار سے وہ موضوع کا انتخاب کر ے، خواہ وہ کو ئی زمانہ ہو۔ اور تاریخی حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس وقت کے حالات کی سچی تصویر کشی کر ے۔ اس نقطہ نظر سے معمولی واقعات کی بھی اہمیت اتنی ہی ہو گی جتنی کہ شہرت یافتہ واقعات کی۔ بعض ناول ایسے بھی ہیں جو بے حد معمولی واقعات اور قدیم دور سے وابستگی رکھتے ہیں اور کامیاب ہیں ۔ اور بعض ایسے ہیں جو مشہور واقعات پر لکھے گئے، لیکن نا کا م۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ایسے کامیاب ناولوں کی تعداد زیادہ ہے جو ماضی قریب سے متعلق ہیں ۔
انگریزی کے مشہور تاریخی ناول نگار والٹر اسکاٹ کے تقریباً تمام ناول چار پانچ سو سال کی تاریخ کے اندر ہی لکھے گئے، جہاں وہ پیچھے کی طرف مڑتا ہے۔ قلم میں لغزش آتی ہے۔ ٹیلسمان (TALISMAN)اس کی زندہ مثال ہے، جو ویویر لے (VAVERLEY) اور آئی ونہو (IVANHOE) جیسی مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔ ہندی ادب میں بھی وہ ناول زیادہ کامیاب ہیں ، جن کا تعلق ماضی قریب سے ہے۔ ورنداون لال ورما  کے جھانسی کی رانی لچھمی بائی، مرگ نینی،  بے کسی کا مزار (پرتاب نرائن سریواستو ) شطرنج کے مہرے (امرت لال ناگر ) وغیرہ۔ اردو کے تاریخی ناول نگاروں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ عزیز احمد اور قاضی عبد الستار کے وہ ناول زیادہ کامیاب ہیں جو قریب کے ماضی پر لکھے گئے ہیں ۔ صلا ح الدین ایوبی کے مقابلے دارا شکوہ کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے۔ اردو میں تاریخی ناول نگار کی حیثیت سے عبد الحلیم شرر کا مقام سب سے اہم ہے، لیکن ان کے ساتھ معاملہ بر عکس ہے۔ ان کے وہ ناول زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جو ماضی بعید سے متعلق ہیں ۔ فردوس بریں ۔ ایام عرب۔ جویائے حق کی کامیابی کا انحصار ان کی ٹھوس تاریخی معلومات پر منحصر ہے۔
ماضی دور کا ہو یا قریب کا، واقعات شہرت یافتہ ہوں یا غیر شہرت یافتہ، در اصل یہ ساری چیزی اتنی اہمیت نہیں رکھتیں کہ ان واقعات کو پڑھنے اور غور کر نے کے بعد ناول نگار کے ذہن میں کھولتا ہوا مسالہ اسے لکھنے پر مجبور کر دیتا ہے، اور یہ مسالہ چھوٹے واقعات بھی پیدا کر سکتے ہیں اور بڑے واقعات بھی۔ ڈاکٹر گووند جی کا خیال :
حقیقتاً تاریخی واقعات اور کردار اپنے آپ میں اتنی اہمیت نہیں رکھتے۔ ان کی اہمیت تبھی ہوتی ہے جب وہ تاریخ میں کوئی نیا موڑ پیدا کرتے ہیں اور ا نسانی زندگی میں ایک خاص قسم کی لہر پیدا کرتے ہیں ۔ اس نقطہ نظر سے اوپر اوپر چھوٹے چھوٹے دکھا ئی دینے والے واقعات بھی اہم ہوتے ہیں اور بڑے سے بڑے واقعات بھی۔
تاریخی واقعات کی اپنی الگ اہمیت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ ضرور ہوتا ہے کہ جب ناول نگار واقعات و کر دار کی تلاش میں تاریخ کی طرف مڑتا ہے تو کچھ واقعات یا کردار اسے ایسے ملتے ہیں جو اپنے آپ میں ایسی دلچسپی اور لچک رکھتے ہیں کہ ناول نگار لا شعور ی طور پر انھیں اپنے ناول میں جذب کیے بغیر نہیں رہ پا تا۔ اس طرح سے بعض اس طرح کے واقعات ناول نگار کو مدعو کرتے ہیں ۔
تاریخ سے متعلق اکثر ایک اور بحث بھی اٹھی ہے کہ تاریخی ناول کے لیے ماضی کی ایک حد ہونی چاہئے۔ ویسے تو گذرتا ہو ا ہر لمحہ ماضی ہو کر تاریخ کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ دس پانچ سال پرانے واقعات کو اگر ناول میں سمو یا جائے تو کیا وہ تاریخی ناول ہو جائے گا ؟
تاریخی ناول میں انھیں پہلوؤں پر تحقیق کرتے ہوئے ہندی کے ایک ادیب ڈاکٹر ستیہ پال چگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :
ایسے ناول جس میں مصنف کے عہد سے الگ ہٹ کر ماضی کے واقعات کر دار یا حالات میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ عناصر پر منحصر تخیل کے سہا رے ماضی کے ماحول کو زندہ کیا گیا ہو، اسے تاریخی ناول کہتے ہیں ۔
اس سلسلے میں قدرے اختلافات ہے۔ ہندی کے ہی دوسرے ادیب ڈاکٹر دیوراج اُپاد ھیائے نے لکھا ہے :
ناول کی بنیاد بننے کے لیے کم از کم پچاس سال قبل کا زمانہ ہو نا چاہئے۔ یہ پچاس سال کا وقفہ ماضی کے واقعات پر سے آنکھوں میں چکا چوند پیدا کر نے والی روشنی کو ہٹا دے گا۔ کچھ حصے دھند لے ہو جائیں گے اور ناول نگار کو مجبور ہو کر تخیل کے سہا رے ان تصویروں میں رنگ بھر نا پڑے گا۔
ڈاکٹر بر ج بھوشن سنگھ نے سو سال کی میعاد قرار دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
تاریخ کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تاریخ پرانے واقعات اور ہنگاموں ، ان کی وجوہات اور اندرونی ربط و ضبط کی تشریح ہے۔ ظاہر ہے کہ تاریخ گذرے ہوئے پل کے مقابلے میں قدیم واقعات کی کہانی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ پرانا کتنا ہو۔ تو اس کے با رے میں قدیم اور ماہر مورخین کا خیال ہی ماننا چاہئے، جو سوسال سے زیادہ گذرے ہوئے ماضی کو تاریخ مانتے ہیں ۔
تاریخ کے اس موضوع پر بھی کسی طرح کے اصول نہیں بنائے گئے ہیں ۔ اگر چہ تاریخ کا یہ پہلو اب کا فی بحث طلب ہو گیا ہے، لیکن پھر بھی اس کے سلسلے میں اگر بعض لوگوں کو سوسال سے اختلاف ہے، تو موٹے طور پر پچاس سال مان لینے میں کوئی حر ج نہیں ہے۔ لیکن ناول کے اعتبار سے بنیادی شرط یہ ہے کہ کم از کم اتنا وقفہ ضرور ہو کہ واقعات کچھ ایسے جھلملا جائیں کہ تخیل کی شمولیت لا زمی ہو جائے، ورنہ ناول کی شکل بگڑ جائے گی۔ یہ پہلو بعض معاملات میں بڑی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ بعض ناول ایسے بھی لکھے گئے ہیں ، جو ناول نگار کے نہ چاہتے ہوئے بھی بعض حلقوں میں تاریخی ہی سمجھے گئے۔ جان میریٹ نے اپنی کتاب انگلش ہسڑی اینڈ انگلش فکشن میں اس طرح کا ایک سوال اٹھا یا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بعض ایسے ناول جو اپنے وقت میں تاریخی ناول کے طور پر نہیں لکھے گئے، وقت گذرنے پر تاریخی ناول کی شکل اختیار کر گئے۔
Are there not many novels which at the time when they were written could not be regarded as historical, but became historical by the mere lapse of time.
English History in English Fiction -by J. Marriott p.3
انھوں نے ایسے ناولوں میں فرنچ ناول نگار (THE SHE WOLVES OF MACHECOUL) کو لیا ہے۔ ہندی میں گووند داس کا اندومتی اور یش پال کا جھوٹا سچ   بھی اسی شمار میں آتا ہے۔ اردو میں بھی ایسے ناولوں کی تعداد خاصی ہے۔ لیکن دو مشہور و معروف ناول آگ کا دریا اور ا داس نسلیں  کے سلسلے میں اکثر یہ بحث چل پڑتی ہے کہ یہ دونوں ناول تاریخی ہیں یا نہیں ۔ حالانکہ دونوں کے مصنف ان ناولوں کو تاریخی ناول کا نام نہیں دیتے۔
تاریخی ناول سے متعلق یہ مسئلہ دن بدن الجھتا ہی جا رہا ہے۔ اگر اداس نسلیں اور آگ کا دریا تاریخی ناول ہیں ، تو کچھ دنوں کے بعد سبھی ناول تاریخی ناول کی صف میں  آ کھڑے ہوں گے۔ کیونکہ تقریباً سبھی ناولوں میں کم و بیش وہ عنا صر مل جاتے ہیں جو تاریخی ناول میں پائے جاتے ہیں ۔ پھر تاریخی ناول اور دوسرے ناول میں کچھ فر ق نہ رہ جائے گا۔ یہیں سے اس بحث کی اور شاخیں نکلتی ہیں ، جس پر آگے چل کر بات کی جائے گی۔ سچ بات تو یہ ہے کہ تاریخی ناول وہی ہے جو حال سے تعلق نہ رکھ کر ماضی کے ایک ایسے دور سے تعلق رکھتا ہو جس میں ایک ایسے ما حول، خیا لات رہن سہن کا تذکرہ ملتا ہو، جس کا تجربہ ناول نگار کو نہ رہا ہو۔ انگریزی مفکرین نے بھی اس سلسلے میں حد بند ی کر نے کی کو شش کی ہے۔ والٹر اسکا ٹ نے تاریخ کے لیے کم از کم پچاس سال کی قدامت کی شرط رکھی ہے۔
Sir Walter Scott who in Theory and Practice laid the foundation stone of modern historical novel set the mjdaewal at a half a century.
The American Historcial Novel p.50
شیفر ڈ نے اپنی کتاب میں لیزلی اسٹیفینسن کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تاریخ کے لیے کم از کم ساٹھ سال کی قدامت لا زمی ہے۔
�In attempt to fix a certain number of year was made by Leslte Stephin, he suggested, sixty years back.
The Art& Practice of Historical fiction p.16
ہندی کے ادیب ڈاکٹر گووند جی نے پچاس سال کے وقفہ کو بہت کم ما نا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس آدھی صدی میں نو جوان بو ڑھے ہو نے لگتے ہیں اور بوڑھے دنیا کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ پرانے رہن سہن، رسموں اور طریقوں میں تبدیلی آ جاتی ہے، نئے خیا لات اور نئی تہذیب جنم لیتی ہے، اس لیے موت اور تبدیلی آدھی صد ی کے ماضی کی تصویروں میں ایک جال سا پھیلا دیتے ہیں اور ایک دھند سی چھا جاتی ہے اور ناول نگار کو مجبور ہو کر تخیل کا سہا را لینا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر گووند جی کے خیال میں تضاد نظر آتا ہے۔ وہ بعد کے جملوں میں ان با توں کا تذکرہ اس انداز سے کرتے ہیں گویا یہ ساری باتیں تاریخی ناول کے خلاف ہیں ، جب کہ ایسا قطعی نہیں ہو تا۔ در اصل تاریخی ناول میں ایسے ہی قدیم موضوعات کو منتخب کر نا چاہئے جہاں صرف وقت ہی نہیں ، بلکہ وقت کے ساتھ قدریں بھی بدل جائیں ۔ روایتوں اور ماحول میں تبدیلی آ جائے۔ انھیں گذشتہ قدروں کا جب ناول نگار تذکرہ کرے گا تب جا کر وہ صحیح تاریخی ناول ہوگا۔ ان سب تبدیلیوں کے لیے اگر پچاس سال کا فی ہیں تو حد بندی نا منا سب نہیں ہے۔ پھر اس میعاد سے ان کا پنا اختلاف کیا معنی رکھتا ہے۔ بہر حال یہ مسئلہ آج بھی زیر بحث ہے کہ حقیقتاً تاریخ کا آغاز دو منٹ پہلے ہوتا ہے یا دو ہزار بر س کے بعد ؟
تاریخ اور تاریخی ناول سے متعلق ان چھوٹی چھوٹی بحثوں میں الجھ کر اکثر اس کے اصل مقصد اور خاص موضوع پر کم بات کی گئی ہے۔ در اصل تاریخی ناول سے متعلق سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں تاریخ کتنی ہونی چاہیئے اور ناولیت کتنی۔ حقائق کم ہیں اور رنگ وروغن زیادہ۔ ناول کامیاب ہے، لیکن تاریخ زخمی ہے۔ ناول نئے دور کا نیا فنّی سا نچا ہے، جس نے زندگی کے ہر موضوع کو اپنے آپ میں ڈھال لیا ہے۔ اور  سماج کی صحیح تصویر پیش کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں اس سے زیادہ مقبول کو ئی اور صنف نہیں ۔ اس کی شرائط تاریخ سے بھی زیادہ باریک ہیں ۔ اس کی مقصدیت، اس کی فنّی نزاکت ہی اسے شہرت بخشتی ہے۔ تاریخ عام طور پر ایک مخصوص طبقے میں پڑھی جاتی ہے، لیکن ناول ہر خاص و عام میں مقبول ہوتا ہے۔ اس لیے تاریخ کو سموتے وقت تاریخی ناول میں سب سے لا زم اور بنیادی چیز اس کا تاریخی ما حول ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ناول پڑھتے وقت یہ احساس ضروری ہے کہ اس کی بنیادیں تاریخ پر رکھی گئی ہیں ۔ اور قاری کو پتہ چلے کہ ناول اس کے دور سے ہٹ کر قدیم ماحول کی عکاسی کر رہا ہے۔ تاریخی ما حول پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف تاریخ کا گہرا مطالعہ ہو۔ مطالعہ تو ضروری ہے ہی، لیکن اس سے زیادہ اہمیت اس عہد کی روح کی گہرائی میں پہنچنے کی ہے۔ ماضی کو کھنگالتے وقت ظاہر ی رنگ و روغن کو نہیں دیکھنا چاہئے، بلکہ اس عہد کی زندگی کا پور ا نچوڑ حاصل کر لینا چاہئے،تا کہ ناول نگار اپنے ناول میں صرف حادثوں کو اکٹھا نہ کرے بلکہ اس عہد کی زندگی کی ایک لہر دوڑنی چاہئے۔ زندگی کی سچی جھلک ہونی چاہئے۔ اس کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ ما حول کو اس انداز سے پیش کرے کہ روح عصر اُبھر کر سامنے آ جائے۔ ایسے کامیاب تاریخی ناول نگار اپنے ناول میں جب کسی عہد کا ذکر نے لگتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک عہد خود اس کی زبان سے بول رہا ہے اور ایسا ما حول پیش کر رہا ہے جس میں تاریخ بھی ہے اور فن کار کی فنکاری بھی۔
ہر تاریخی دور کا اپنا الگ مزاج رہا ہے۔ الگ الگ کارنامے ہوتے ہیں ۔ ناول نگار ہر دور کے پیچھے پوشیدہ زندگی کی جڑ پکڑ لیتا ہے۔ وہ صرف اس دور کے کر داروں ۔ واقعات وغیرہ ہی کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کے ذریعہ اس کے عہد کی روح تلاش کر لیتا ہے۔ پھر تصویر کشی میں لگتا ہے اور نہایت فنکارانہ ڈھنگ سے اس دور میں اپنے ناول کو جذب کر نے کی کو شش کرتا ہے۔
ماحول سے متعلق تاریخی ناول کی ایک اور بڑی خوبی اور ضرورت یہ ہے کہ وہ جس دور کی تصویر کشی پیش کرے تنہا پلاٹ اور کردار ہی نہیں بلکہ اس وقت کے رہن سہن کے آداب، گفت و شنید کے سلیقے اور پوشش کا طرز محاورے اور دیگر رسومات وغیرہ کو اس انداز سے اپنے کینوس میں اتار لے کہ اس تاریخ کا زندہ ما حول ناول کے صفحات پر جملہ آب و تاب کے ساتھ ابھر آئے اور چند لمحوں کے لیے قاری اپنے وجود کو بھول کر اپنے آپ کو اسی دور میں محسو س کر نے لگے جس کا تذکرہ ناول میں ہو۔ یہ نہیں کہ منظر عرب کے ریگستان کا ہے اور زبان دلّی کے چاندنی چوک کی۔ کردار ایران کے ہیں اور ان کے محاور ے، گفت و شنید کے آداب وہ ہوں جو لکھنؤ کے اکبر ی دروازے کے ہیں ۔ یہ کو ئی معمولی فن نہیں اس کے لیے زبردست مطالعہ و مشاہدہ کی ضرورت ہے۔ در بدر بھٹکنے کی اور اپنے آپ کو اس دور میں پہنچا نے کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ مرحلہ حل بھی ہو جائے تو سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ اس عمیق مطالعہ کے بعد اس کے دل و دماغ اور قلم و کاغذ پر فن کاری کی اتنی زبردست مہر ہو کہ اس دور کی چمکتی ہو ئی تصویریں ہماری آنکھوں کو خیرہ کر دیں ۔ پس ثابت ہوا کہ تاریخی ناول میں سب سے زیادہ اہم رشتہ تاریخی ما حول ہے۔ تاریخی ما حول کے با رے میں ورنداون لال ورما لکھتے ہیں:
تاریخی ناول میں تاریخی ما حول کی عکاسی ادیب کے لیے بہت ضروری ہے۔
پدم لال پنّالال بخشی نے سب سے زیادہ اسی بات پر زور دیا ہے کہ :
تاریخی ناول میں ناول کی سب سے بڑی فنکاری تاریخی ماحول کو پیش کرنے میں ہے۔
ڈاکٹر گووند جی نے بھی لکھا ہے :
حقیقتاً تاریخی ما حول ہی وہ جز ہے جو کسی بھی ناول کو دیگر قسم کے ناولوں سے الگ کر کے تاریخی ناول کے عہد سے مزین کرتا ہے۔ صرف تاریخ کے تذکرے اور تاریخی کرداروں کے نام جوڑ دینے سے کو ئی ناول، ناول نہیں ہو سکتا۔ تاریخی ناول کی پہلی شرط ہے اس کاما حول، تاریخی عناصر کی آمد اور تاریخی پس منظر۔ اور اگر کسی تاریخی ماحول میں ان شرائط پر پورا اُتر نے کی ہمت نہیں ہے تو مشہور واقعات ہو نے کے با وجود وہ صحیح معنوں میں تاریخی ناول نہیں ہے چاہے وہ کچھ اور ہو۔
تاریخی ماحول کیسے پیدا ہو سکتا ہے ؟ اس کے با رے میں بھی وہ لکھتے ہیں :
تاریخی ما حول کو پیش کر نے کے لیے ناول نگار کو تاریخ کی تہذیب کا سنجیدہ مطالعہ ضروری ہے۔ اور اس عہد کی ریت، رواج، رہن سہن، گفت و شنید، کھیل کود، مذہب و فلسفہ، شعر و آرٹ کی تاریخی معلومات حاصل کر لینے کے بعد ناول نگاری میں داخل ہو نا چاہئے اور ان سب چیزوں کو پیش کرتے وقت اس عہد کے مزاج کا پورا خیال لا زمی ہے۔ اگر کوئی ناول نگار مغل بادشاہوں کو آج کی شکل و صورت میں پیش کرے یا آج کی آرائش دکھائے تو یہ ما حول کی غلطی کہی جائے گی۔ ہر دور میں انسانوں کی دلچسپیاں مختلف رہی ہیں ۔ عمارتیں ، دربار، لباس، زیور ا ت، خاندانی و سماجی قدریں ، طرز حکومت وغیرہ کی تصویر کشی سے تاریخی ماحول ممکن ہے۔  2
ناول میں زبان و بیان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، لیکن تاریخی ناول میں اس کی اہمیت غیر معمولی ہو جاتی ہے پر وفیسر بیٹر فیلڈ نے لکھا ہے کہ جس طرح نظم کے لیے اچھی دھن کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح تاریخ کو ناول کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اچھی زبان کی ضرورت پڑتی ہے۔ در اصل تاریخی ناول زبان کے ہیر پھیر کا ہی دوسرا نام ہے۔ الفاظ کی دروبست۔ اس کا صحیح استعمال، لب و لہجہ کی گھن گرج اور ظاہری و باطنی چمک دمک ناول کو کہیں سے کہیں لے جاتی ہے۔ چونکہ اس میں جنگ، تصادم، صلح، لڑائی، عشق و محبت کا ماحول زیادہ ہوتا ہے لہٰذا ان کو حقیقی انداز میں پیش کرنے کے لیے ناول نگار کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہو نا لا زمی ہے۔ جہاں تاریخی حقائق دھند لے نظر آتے ہیں وہاں ناول نگار کے فن کی روشنی تیز ہو جاتی ہے۔ ایسے موقع پر زبان اپنا جو ہر دکھاتی ہے۔ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ ناول میں جس دور کا تذکرہ کیا جائے اسی دور کی زبان ہونی چاہئے۔ تاریخی ناول کے لیے یہ ایک نا ممکن سی بات ہے۔ ہر عہد کی زبان پر قابو رکھنا ناول نگار کے لیے ممکن نہیں ۔ عرب کی تاریخ کے لیے عربی زبان اور انگلش تاریخ کے لیے انگریزی زبان کی واقفیت تو لا زمی ہے، لیکن زبان ہو بہو اسی عہد کی ہو، یہ ضروری امر نہیں ۔ اس کے با رے میں ڈاکٹر گووند جی کے خیا لات ملاحظہ ہوں :
یہ تو اسی طرح کی بات ہو ئی کہ کو ئی ناول نگار اپنے بچپن کے حالات کو پیش کرتے وقت ابتدائی کا وشوں ، تلاش اور بات چیت وغیرہ کو سمجھا نے کے لیے بچوں کی زبان استعمال کر ے۔
ڈاکٹر گووند جی سے اتفاق کرتے ہوئے اس بات کی فنکاری کی طرف غور کیا جا سکتا ہے کہ فن تو یہی ہے کہ بچپن کے خیا لا ت، نفسیات اور احسا سات کو آج کی زبان میں پیش کرے اور مزہ اسی بچپنے کا آئے۔ اس مقام پر زبان کا امتحان سخت ہو جاتا ہے، کیونکہ اس وقت کے ما حول اور تمام رسومات وغیرہ کا تذکرہ اس اندازسے ہو کہ با وجود اس کے کہ اس کی زبان جدید ہو، لطف قدامت اور تاریخیت کا محسوس ہو۔ عبد الحلیم شرر کا کامیاب تاریخی ناول ایام عرب ان کے تمام تاریخی ناولوں میں اس وجہ سے کامیاب ہے کہ وہ عرب کے ایام جہالت سے تعلق رکھتا ہے اور بیسویں صدی کی زبان ہوتے ہوئے بھی عرب کی پوری تصویر کشی کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرر نے اس وقت کی جہالت کی ایسی اچھی تصویر کشی کی ہے جو اس سے قبل ان کے کسی ناول میں نظر نہیں آتی۔ کبھی کبھی معاملہ الٹ جاتا ہے اور ما حول و زبان میں تضاد سا نظر آنے لگتا ہے۔ قدیم ہندو عہد پر ناول لکھے جائیں تو مناسب ہو گا کہ ناول نگار سنسکرت زبان سے واقف ہو اور جا بجا ضرورت کے تحت سنسکرت الفاظ کا استعمال کرے۔ ایسا نہ کر کے تاریخی ناول نگار کشوری لال گوسوامی یا دیو کی نندن کھتری کی وہ زبان استعمال کی جائے جس میں اردو اور فارسی کی کثرت ہوتی ہے تو ما حول بیحد مضحکہ خیز ہو جائے گا۔ یہ بالکل اس طرح ہو گا کہ مسلم عہد کے موضوع سے متعلق ثقیل سنسکرت کا استعمال ہو۔
تاریخی ناول جیسے پیچیدہ، ویران اور تاریک گوشے کو مختلف دھند لی اور تیز روشنی میں پر کھ لینے، اس کی تمام فنّی باریکیوں پر سر سری نظر ڈالنے کے بعد ضروری ہو جاتا ہے کہ تاریخی ناول سے متعلق دیگر ناقدین ادب کے خیالات پر غور کریں ، تاکہ ان کی روشنی میں ان کی دیگر تعریفات کے با رے میں غور کیا جا سکے۔ پال لیئی سسٹرنے تاریخی ناول کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ۔ ۔ ۔ :
تاریخی ناول ایک ایسا ناول ہے جس کی کہانی ایسے حقیقی واقعات اور کرداروں کے ذریعہ بنا ئی جاتی ہے جن پر تاریخیت کی مہر لگ چکی ہو۔
جان بچن نے تاریخی ناول کی تعریف اس طرح کی ہے :
تاریخی ناول ایک ایسا ناول ہے جس میں مصنف کے عہد سے الگ کسی عہد کی زندگی کو دوبارہ تعمیر کیا جائے اور ما حول کو پھر سے ڈھالنے کی کو شش ہو۔
اے۔ سی وارڈ نے تاریخی ناول کی جو تعریف کی ہے وہ بڑی حد تک جان بچن کی تعریف سے مشابہ ہے۔ ان کے خیال کے مطابق تاریخی ناول، قدیم ماضی کے عہد کا، تخیل کے ذریعہ دوبارہ زندگی پاتا ہے۔
جو نا تھن فیلڈ نے تاریخی ناول ان کو قرار دیا ہے، جس میں تاریخی حوالے، واقعات اور کرداروں کا میل ہے اور جنھیں ہم پہچان سکیں ۔
ارنیسٹ اے لیزلی نے لکھا ہے کہ تاریخی ناول ایک ایسا ناول ہے جس کے واقعات ماضی سے تعلق رکھتے ہوں۔
چند تعریفیں جو تاریخی ناول سے متعلق پیش کی گئی ہیں ، اپنے آپ میں کو ئی بڑا تضاد نہیں رکھتیں ۔ سب نے اس بات کو مانا ہے کہ تاریخی ناول میں ماضی کے واقعات ہو نے چاہئے اور اس کے ساتھ ہی تخیل کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ اب یہ اگر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ تاریخی ناول تخیل کے سانچے میں ڈھلے ماضی کے واقعات پر منحصر ہوتے ہیں ، یا اس کو اس طرح سے کہا جائے کہ ناول میں ماضی کے وہ واقعات جو تخیل کے ذریعہ سے سجائے گئے ہوں تاریخی ناول کہلاتے ہیں ۔ تخیل کی اہمیت پر اگر چہ گذشتہ اور اق میں بات کی جا چکی ہے، لیکن مختصر اً یہ عرض کر دیا جائے کہ تاریخی ناول اپنے مواد کے لیے جب کسی طرف بڑھتا ہے تو قدم قدم پر اسے کھانچے ملتے ہیں ۔ اپنے ناول کی کامیابی کے لیے وہ ان کھانچوں کو بھرے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ لہٰذا اس وقت جہاں اسے تاریخ کے صحت مند واقعات ملتے رہتے ہیں وہ آسانی سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جہاں تاریخ مجروح ہو ئی فوراً تخیل کی لیپ چڑھا دیتا ہے، لیکن اس انداز سے کہ اس کی صورت پر ذرا بھی اثر نہ پڑے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈاکٹر ہزاری پر ساد دویدی نے تاریخی ناول کی اس انداز سے تعریف کی ہے :
تاریخی ناول ایک ایسا ناول ہے جس میں ماضی کے کرداروں ، ما حول اور واقعات کے حقیقی عنا صر کو تخیل کے ذریعہ موجودہ زندگی کے لائق بنا نا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر لال صاحب سنگھ نے اپنی کتاب میں تاریخی ناول کی یوں تعریف کی ہے :
ناول میں تخیل اہم رول ادا کرتا ہے اور تاریخ میں سچا ئی کو پیش کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ تاریخی مواد اور ناول کے آرٹ کی خوب صورت آمیز ش کا نتیجہ ہوتا ہے۔ تاریخی ناول۔
اپنی اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ آگے لکھتے ہیں کہ تاریخی ناول کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ ناول تو لکھا گیا ہو لیکن تاریخیت کہیں سے غائب نہ ہو ئی ہو۔ تاریخ کو توڑا مروڑا نہ گیا ہو۔ اس حیثیت سے تاریخی ناول نگار کی ذمہ داری دوگنی ہو جاتی ہے۔ ایک طرف تو اسے تاریخ کی حفاظت کرنی پڑتی ہے ساتھ ہی فن ناول کی تمام نزاکتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اسے ماضی کی کو کھ سے حال کی روشنی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ناول کی دل کشی اور اس کی لچک اور چمک دمک میں کمی بھی نہ آنے پائے۔ اگر ذرا بھی چوک ہو ئی تو نقادوں کی تنقید و تنقیص کی بے رحم ننگی تلواریں اس کے جسدِ فن کو لہو لہان کر دیں گی۔ اسی خیال کو ڈاکٹر و دیا بھو شن بھار دواج نے بھی اپنی کتاب چتر سین کے ناولوں میں تاریخ کی تصویر کشی  میں لکھا ہے کہ تاریخی ناولوں میں ناول نگاروں کی ذمہ داری دوگنی ہو جاتی ہے ، ان کو تاریخ کے لیے حقیقت اور آرٹ کے لیے خلوص و خیال رکھنا سب سے لا زمی شے ہے۔
تاریخی ناول کی لچک اور اس کی دل کشی قائم رکھنے کے لیے بعض نقادوں نے تو اس حد تک کہہ دیا کہ تاریخ اس حد تک ہو کہ اس بات کا پتہ چلتا رہے کہ تاریخی ما حول ہے، ورنہ حقائق کی طرف زیادہ توجہ نہ دینی چاہئے۔ سر والٹر ریلے نے تو اس حد تک کہہ دیا کہ تاریخی ناولوں میں بڑے بڑے کردار تو تاریخی ہو نے ہی نہیں چاہئے۔
ڈاکٹر گوپی نا تھ تیواری کے یہ جملے ملاحظہ ہوں :
جب تاریخ اور تخیل کا نپا تلا میل ہو ا ہو، جب تاریخی مطالعہ اور لچک دار تخیل کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کر دیا گیا ہو تب ہمیں مناسب ناول دیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔
پروفیسر بیٹر فیلڈ کا خیال ہے کہ تاریخی ناول کوئی ایسا فن نہیں ہے جس کی تعریف محض دو جملوں میں کی جائے۔ شاید اسی وجہ سے بیٹر فیلڈ تاریخی ناول کی وضاحت میں ، تاریخ اور ناول کے رشتے سے متعلق تفصیلی بحث کرتے کرتے 113 صفحات کی کتاب لکھ گئے۔ تاریخی ناول سے متعلق یہ کتاب جو مواد فراہم کرتی ہے وہ یقیناً قابل قدر ہے، لیکن پوری کتاب میں کہیں بھی دو جملے ایسے نہیں ملتے جس میں تاریخی ناول کی جا مع تعریف سمٹ آئی ہو، لہٰذا یہاں پر اس کتاب کے مختلف مقامات کے چند جملے اشارۃً نقل کیے جا رہے ہیں ، تاکہ اولاً کہی ہو ئی باتیں واضح ہو جائیں ۔ یہ بات تو انھوں نے ابتدا میں لکھ دی کہ :
تاریخی ناولوں میں بہت زیادہ صداقتوں پر غور نہیں کر نا چاہئے، لیکن اتنی صداقتیں لا زمی ہیں کہ ہم ان میں الجھ کر نہ رہ جائیں ۔ ایسا لگے کہ ماضی کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ ۔ ۔ تاریخی ناول کے معاملات بڑے نا زک ہوتے ہیں ۔ غیر محتاط، جا نب داری، غیر تعمیری احسا سات ہم کو لا پر واہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ تاریخی ناول کی ایسی تصویریں یاد دلاتی ہیں کہ اس میں ایک ایسا ما حول ہوتا ہے کہ ہم اس میں کچھ نہیں پاتے، لیکن ہمیں بس اتنا سو چنا ہے کہ اس میں تاریخی احساسات کا اندازہ ہو نا چاہئے۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ لہٰذا ایک طرح سے تاریخی ناول تاریخ کی ایک شکل ہوتی ہے۔ ماضی کے کارناموں کو کس انداز سے سمجھا جائے یہ کار نامہ انجام دیتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ تاریخی ناول پورے طور پر لطیف ہوں ، کیوں کہ اس میں صحیح طور پر حقیقتوں کو سمونا مشکل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناول کے اصول و آداب کا بھی اعتراف کرنا اور سر جھکا نا پڑتا ہے۔ ناول ایک مقصدی شے ہوتی ہے،  با لقصد لکھا جاتا ہے اور خاص طور پر تاریخی ناول جو فکشن اور تاریخ کی ملی جلی شکل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض کتا بیں جو ناول سوچ کر نہیں لکھی جاتیں لیکن اتفاق سے ناول کا مزہ دینے لگتی ہیں ، یعنی وہ حادثے کے طور پر ناول ہو جاتی ہیں ۔ اردو اور ہندی میں ایسی کتابوں کی مثالیں ہیں ۔ ۔ ۔ یا کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ناول سماجی نقطۂ نظر سے سوچ کر لکھا گیا لیکن شہرت اسے رومانی شکل میں ملتی ہے، یا کوئی گھریلو ناول ہے لیکن وہ سما جی ناول تسلیم کیا گیا۔ تاریخی ناول اصل میں وہ ناول ہے جو تاریخی ناول کے با رے میں سوچ سمجھ کر لکھا گیا ہو۔ حادثے کے طور پر نہ ہو گیا ہو۔ مقصدی تاریخی ناول میں ماضی کی لہر دوڑنی چاہئے۔ اسی طرح کے ناول دل میں اُترتے ہیں اور اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔
تاریخی ناول میں چونکہ متعدد اشیا ء کی آمیز ش ہوتی ہے، اس لیے بیٹر فیلڈ نے اس کو ایک مِکسچر (MIXTURE)ما نا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ وہ فن ہے جو مختلف آرٹ سے مل کر پیدا ہوتا ہے۔ مختلف فن کی آمیزش سے نیا فن پیدا ہوتا ہے۔
تاریخ کا کوئی واقعہ ناول میں پیش کر نے کے لیے سب سے ضروری چیز ہے کہ ماضی کو جاننا چاہئے، تب ہم کسی تصویر کوا پنی آنکھوں میں اتار سکیں گے۔ اسکاٹ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوتا تھا، ایک تو اس کے ذہن کی تعمیر تاریخی ما حول میں ہو ئی، پھر وہ جس ماضی کے دور میں داخل ہوتا تھا تو اپنے آپ کو مکمل طور پر اس دور میں پہنچا دیتا تھا اور اس عہد کی روح تک نچوڑ لیتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کے ناول کامیاب ہوتے تھے۔ حالانکہ اس کے با رے میں اکثر نقادوں کا یہ خیال ہے کہ ناول کی کامیابی کے لیے اس نے بعض اوقات تاریخی حقیقتوں میں بھی تر میم کر دی ہے، لیکن قاری کو تاریخی ما حول کے جا دو میں اس قدر ڈبو لیتا تھا کہ اس کی تبدیلی یا خامی کی طرف کسی کا دھیان بھی نہ جاتا تھا۔ یہی اس کی کامیابی کا سب سے بڑا راز تھا۔ اس کا خیال تھا کہ تاریخی ناول میں صرف تاریخی ما حول دیکھنا چاہئے۔ تاریخ کا پو سٹ ما رٹم نہیں کر نا چاہئے۔ والٹر اسکاٹ خود اپنی ذات سے بڑا فنکار تو تھا ہی، لیکن جب وہ تاریخ کا مطالعہ کرتا تو اس کی گہرائی میں ا س قدر ڈوب جاتا کہ اس وقت کی تاریخ اپنے آپ ناول کا مواد اگل دیتی۔ بس اس کی فنکاری پھڑک اُٹھتی، حرکت ہوتی اور وہ ناول لکھنے بیٹھ جا تا۔ 1 اسی لیے بیٹر فیلڈ نے تاریخ سے متعلق یہ بات صحیح کہی ہے کہ تاریخ ناول کے لیے کچا مواد جمع کرتی ہے۔ اب ناول نگار کا کام یہ ہے کہ اسے ناول کے سانچے میں ڈھال لے۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ ناول نگار پوری محنت او خلوص کے ساتھ تاریخی مواد کو جمع کرے اور جب خاطر خواہ مواد ہو جائے تو ناول شروع کر ے۔ اسے احساس ہو گا کہ ناول تاریخ کے چکنے فر ش پر اپنے آپ پھسلتا چلا جائے گا۔ پھر ایک وقت وہ آئے گا جب ناول نگار مکمل طور پر اپنے آپ کو ماضی کی دنیا میں محسوس کر نے لگے گا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ جب بھی ناول نگار سچائی اور ایمان داری کے ساتھ ماضی کی دنیا میں پہنچ جائے گا، اپنے آپ اس کے ذہن میں ناول سما جائے گا۔
تاریخی ناول ایک طرح سے تاریخی واقعات کو جسم بخشتا ہے اسی لیے مورّخ اور ناول نگار دونوں میں ، ناول نگار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ دونوں ماضی کی باتوں کو منتخب کرتے ہیں ، لیکن دونوں کے سوچنے کے انداز میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ مورّخ صرف مواد جمع کرتا ہے، لیکن ناول نگار اپنی خوشگوار فکر کے ساتھ ایک الگ تخلیقی دنیا میں لے جا کر اس کو ناول میں تبدیل کر دیتا ہے۔ مورّخ صداقتوں کو لیتا ہے اور آج کی دنیا میں ڈھالتا ہے۔ لیکن ناول نگار کو انھیں صداقتوں میں سے کہانی بنانی پڑتی ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ناول نگار کا کام مشکل ہو جاتا ہے۔
تاریخی ناول سے متعلق یہ بے ربط اور پیچیدہ تعریفیں اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہیں کہ ناول کی تمام قسموں میں تاریخی ناول سب سے زیادہ مشکل اور نا زک صنف ہے، اس پر طبع آزما ئی کر نا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔
بنیاد ی طور پر تاریخی ناول کی کو ئی قسم نہیں ہو تی۔ تاریخی ناول کی ایک قسم ہے جس کا تعلق تاریخ اور تخیل سے ہوتا ہے۔ کہیں تاریخ زیادہ ہوتی ہے اور کہیں تخیل زیادہ ہوتا ہے۔ ادیبوں اور نقادوں نے تاریخی ناول کے اس پہلو کو لے کر اس کی بھی کئی قسمیں کردی ہیں ۔ تاریخی ناول اپنے ڈھا نچے کے اعتبار سے بنیادی فرق کم رکھتا ہے۔ لیکن ماحول، کردار اور واقعات میں فرق ہو جانے کی وجہ سے ہلکی پھلکی قسموں کا مالک ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناول نگار اپنے مقصد، اپنے خیال کے مطابق کہیں کہانی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور کہیں تاریخی کرداروں اور تاریخی ما حول کو۔ اس طرح سے تاریخی ناول کے تقسیم کی بنیاد اس کے زبان و بیان اور اس کے ما حول کے ڈھالنے کے انداز پر ہو گی، جو بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اس نقطۂ نظر سے تمام نقادوں نے متفقہ طور پر تاریخی ناول کے چار حصے کر دئے ہیں :
(1)خالص تاریخی ناول۔
(2)ملے جلے تاریخی ناول۔
(3)خیالی ناول۔ (جس میں تخیل کا عنصر زیادہ ہو )
(4)خالص خیالی ناول۔
تاریخی ناول کی پہلی قسم وہ ہے، جس میں تاریخی ما حول کی شدت پسندی ہو، یعنی تاریخی مادّہ زیادہ ہو، ناول کم۔ کردار بھی تاریخی ہوں اور زبان بھی تاریخی۔ ایسے ناولوں میں یہ ضرور ہے کہ ناول نگار سب سے پہلے قاری کے یقین کو جیت لیتا ہے، لیکن جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا ہے اس میں شک نہیں کہ حقیقت و صداقت کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا لیکن ساتھ ہی ناول کی دلچسپی و دل کشی زائل ہوتی جائے گی اور قاری روکھے پن کا شکار ہو جائے گا۔
دوسری قسموں میں ناول نگار حقیقت اور تخیل کی آمیزش سے تاریخی ناول کو جنم دیتا ہے۔ حقیقی عنا صر پر تخیل کا رنگ چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ اس قسم کے ناولوں میں پہلے قسم کے ناولوں کی سی شدت نہیں ہوتی اور ناول نگار کو کچھ اپنے طور پر بھی جو ہر دکھا نے کا موقع ملتا ہے۔ اس میں بھی آگے چل کر دوقسمیں ہو جاتی ہیں ۔ ایک وہ جس میں تاریخ زیادہ ہو اور تخیل کم۔ دوسرا وہ جس میں تخیل زیادہ ہو تاریخ کم۔
تاریخی ناول کی تیسری قسم وہ ہے جس میں ناول نگار تاریخ کا دامن تو نہ چھوڑ ے، لیکن تخیل کے ذریعہ ناول کے اہم کر داروں سے ان کی تاریخیت چھین کے آج کے دور میں لا کر کھڑا کر دے، یعنی وہ ناول جس میں تخیل ستر فی صد ہو اور تاریخ صرف تیس فی صد۔ اس قسم کے ناول نگاروں کی ذمہ داریاں کچھ زیادہ سخت ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ ناول میں دل کشی تو پیدا کر دیتا ہے لیکن تاریخی ما حول بنائے رکھنے میں اسے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔
چوتھے قسم کے تاریخی ناول میں تاریخ بر ائے نام ہوتی ہے۔ زیادہ تر انحصار تخیل پر ہی ہوتا ہے۔ اس قسم کے ناولوں میں ناول نگار تخیل کی زبردست قوت کے ذریعہ تاریخی کرداروں کو اپنے طور پر ڈھال کر فنکارانہ ڈھنگ سے پیش کرتا ہے۔ اس طرح کے ناول میں صرف تاریخی عہد ہوتا ہے اور ہلکا پھلکا تاریخی ما حول۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ کردار و واقعات خود ساختہ ہوتے ہیں ۔ ایسے ناول میں ناول نگار کو تقریباً ہر طرح کی آزادی مل جاتی ہے، لیکن کامیابی کی منزل تک مشکل ہی سے پہنچ پاتے ہیں ۔ اسی وجہ سے اس قسم کے ناولوں کی تعداد کم پا ئی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر قاری تاریخی یقین کھو بیٹھتا ہے۔
ملک و قوم سے متعلق لکھے گئے ناول کو ستیہ پال چگھ نے تین قسموں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک وہ ناول جو ملک کے غیر معمولی شہرت یافتہ واقعات سے تعلق رکھتے ہوں ، جیسے چندر گپت، اشوک، اکبر، نورجہاں وغیرہ پر لکھے گئے۔ دوسرے وہ ناول علاقائی حصوں سے تعلق رکھتے ہوں ۔ ملک کے کسی صوبے یا کسی خاص حصہ کی تاریخ سے تعلق رکھتے ہوں ۔ تیسری قسم کے ناولوں میں وہ ناول جس کا موضوع غیر ملکی ہوتا ہے۔ اردو میں ایسے تاریخی ناولوں ہی کی تعداد زیادہ ہے۔
تاریخی ناول کی یہ قسم بہت زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ ا س سلسلے میں اتنا عرض کر دیا جائے کہ کسی بھی فن کو اصول و شرائط کے خانوں میں شدت کے ساتھ تقسیم کر دینا اس کی روح کو منتشر کر دینا ہے۔ کبھی کبھی اس سے فن کا گلا گھٹنے لگتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تاریخی ناول پر عام طور پر خشکی اور غیردلچسپی کا الزام لگا یا جاتا ہے، لیکن اس طرح کے الزامات عام طور پر اس جانب سے لگائے جاتے ہیں جو تاریخ کا مقصد صرف گڑے مر دے اُکھاڑنے سے لیتے ہیں ۔ تاریخ صرف ماضی کے واقعات کو ہی نہیں دہراتی بلکہ آگے آنے والے وقتوں کے لیے مشعل کا کام کرتی ہے۔ سقراط نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سارے مطالعہ میں سب سے اچھا مطالعہ یہ ہے کہ انسان کیا تھا اور اسے کیا کر نا چاہئے۔
تاریخ زندگی کے ایسے ہی بڑے مقصد کی تکمیل میں بھر پور مدد کرتی ہے۔ وہ ماضی کے تمام کارناموں کو زندگی کے سامنے اُنڈیل دیتی ہے تاکہ آگے بڑھنے والاانسان ا س کی روشنی میں نئی راہیں ہموار کر سکے۔
اس نقطۂ نظر سے تاریخی ناول کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ تاریخ، اس میں شک نہیں کہ عظمت رفتہ کو دہراتی ہے لیکن اکثر اس کا انداز ناصحانہ ہوتا ہے۔ تاریخی ناول نصیحت کے اس کڑوے ماحول کو دور کر کے فضا کو خوش گوار بنا دیتا ہے۔ تاریخی ناول کے ذریعہ پیش کیے گئے ماضی کے حالات زندگی اور  فضا پیدا کرتے ہیں ۔ ورنداون لال ورما لکھتے ہیں :

اور آخر میں ادب اور تاریخ کے رشتے سے متعلق مقتدر ادیب رویندر نا تھ ٹیگور کے جملے ملاحظہ کیجئے :
جو شخص صرف تاریخ پڑھے گا اور ناول کو پڑھنے کا موقع نہیں پائے گا وہ بد قسمت ہے اور جو شخص صرف تاریخ ہی پڑھے گا اور شاعری کو پڑھنے کا موقع نہیں پائے گا یقیناً اس کی قسمت اور بھی خراب ہے۔
اور تاریخی ناول انھیں دونوں کے مطالعہ و مشاہدہ کے بعد ظہور میں آتا ہے۔ اوپر کے جملوں سے تاریخ اور تاریخی ناول کی اہمیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے لیکن اس کی شرطیں ، اس کے لوازمات، اس کے فنّی تقاضے، اس کے اصول و ضوابط اس قدر نازک اور سخت قسم کے ہوتے ہیں کہ معمو لی ناول نگار کی تو اس سمت نظر اٹھا نے کی بھی ہمت نہیں پڑتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ادب میں ناولوں کے انبار میں سب سے کم تعداد تاریخی ناولوں کی ہی پا ئی جاتی ہے۔
٭٭٭

اردو ادب میں تاریخی ناول کا تصور

یہ سچ ہے کہ ناول مغربی ادب کی دین ہے لیکن اردو ادب میں اس کی آمد ایسے موقع پر ہو ئی جب ہر اعتبار سے اس کے لیے حالات پورے طور پر ساز گار تھے۔ اگر چہ 1857ء کے سماجی انتشار، اقتصادی کھلبلی، اخلاقی شکست وریخت اور تخریبی اتھل پتھل نے تمام قدیم سر ما یہ کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ لیکن ساتھ ہی اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اس زبر دست تخریب کے پس پردہ بعض بڑے گراں بہا اور تعمیر ی پہلو گردش کر رہے تھے۔ غدر کی ان ہنگامہ خیز تبدیلیوں نے ادب پر براہ راست اثر ڈالا۔ دیو پری اور تمام ما فوق الفطرت عناصر دم توڑنے لگے اور ان کی جگہ حقیقی عنا صر نے لے لی۔ آگ کے شعلوں سے لپٹے ہوئے اس تاریخی حادثے نے سب کی آنکھیں روشن کر دیں ۔ سارا قدیم سر ما یہ جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ عزّت خاک میں مل چکی تھی۔ اخلاقی قدریں تباہ ہو چکی تھیں ۔ عہدے اور منصب چھن گئے۔ گھر سے بے گھر ہو گئے۔ یہی وہ تخریبی عنا صر تھے جنہوں نے تعمیری خیالات کا استقبال کیا۔ ناول کی آمد ہو ئی اور پورے جو ش و خروش کے ساتھ زندگی کے تمام اُتار چڑھا ؤ، پستی و بلندی، مسرت و غم سب کو ناول نے اتنی خوب صورتی کے ساتھ اپنے دامن میں جذب کر لیا کہ جلد ہی ناول کو زندگی کا آئینہ کہا جا نے لگا۔ پھر تو زندگی کا شا ید ہی کو ئی ایسا پہلو ہو جس کا عکس آئینے میں نظر نہ آیا ہو۔ پھر تاریخ جیسا اہم موضوع ناول کی زد میں آئے بغیر کیسے رہ سکتا تھا۔
آج کے ادب میں صنف ناول کی مقبولیت اور اس کی ہر دل عزیزی سے کسے انکار ہو سکتا ہے، لیکن یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ کہی جائے گی کہ سو سال سے زیادہ وقفہ گذر جا نے کے بعد آج بھی اس صنف پر اردو میں کو ئی ایسی جا مع کتاب نظر نہیں آتی جو ناول کے تمام پہلوؤں کو آ جا گر کر سکے اور اس کا تفصیلی جائزہ لے سکے۔ علی عباس حسینی، احسن فاروقی اور وقار عظیم کے قابل قدر کار ناموں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان میں سے کسی کی ایسی کو شش نہیں ہے جو ناول کے تشنہ کاموں کو مکمل طور پر سیراب کر سکے۔ بعد میں بعض ادیبوں نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی، جس میں سہیل بخاری، مجتبیٰ حسین، نور الحسن ہاشمی، لیکن ان سبھی حضرات نے اسی پرانے راگ کو الاپا ہے اور انھیں با توں کو دہرا یا ہے جو اس سے قبل لکھی جا چکی تھیں ۔ ڈاکٹر یوسف سر مست کا تحقیقی مقالہ بیسویں صدی میں اردو ناول  یقیناً تحقیق و تنقید کی ایک اچھی کوشش ہے۔ لیکن اس میں صنف ناول اور اس کے ابتدا ئی معماروں پر کم مواد ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے بیسویں صدی کے ناول نگاروں کو سمیٹا ہے۔
ایمان داری کی بات یہ ہے کہ اردو میں صنف ناول پر کو ئی مستحکم اور بھر پور کتاب نہیں ہے اور آج کا ادب کامیابی کی حدوں کو چھونے والی اس صنف سے متعلق اس خلا کو پورا نہ کر سکا تو تاریخی ناول جیسی مشکل اور نازک ترین قسم کے با رے میں کسی طرح کی امید لگا نا فضول ہے۔
اردو میں ناول جیسے عظیم سر ما یہ سے متعلق بس ایک کتاب ایسی ہے جو صنف ناول، اس کی ہیئت، تکنیک، قسمیں اور ماضی و مستقبل کی باتیں کرتی ہے، وہ ہے احسن فاروقی اور نو الحسن ہا شمی کی ملی جلی تخلیق ناول کیا ہے ؟ اس کتاب میں ناول سے متعلق تمام بنیادی پہلو ؤں کو با رہ ابواب میں سمیٹا گیا ہے، جو صرف 168 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ ناول کے عنا صر، ناول کی ہیئت، ناول کے اقسام، ناول کا فن، ناول کا ارتقاء، ناول کا ماضی و مستقبل جیسے پہلوؤں سے متعلق اس پھیلے ہوئے سمندر کے لیے تو ضخیم سے ضخیم کتابیں نا کا فی ہو سکتی تھیں ۔ پھر ایسی حالت میں 68 1 صفحات کس حد تک کار آمد ہو سکتے ہیں ۔ یہ کتاب ابتدائی طالب علموں کے لیے کارآمد توہوسکتی ہے، لیکن صنف ناول کا بھرپور احاطہ کرنے سے یہ بھی قاصر ہے۔ تاریخی ناول سے متعلق اس میں چار صفحات (ص95تا 98) ہیں ۔ وہ بھی کسی چونکا دینے والی بات سے عاری ہیں ۔
علی عباس حسینی نے اپنی کتاب  ناول کی تاریخ و تنقید میں اس پہلو پر سر سر ی نظر ڈالی ہے اور انگریزی حوالے دیتے ہوئے دلچسپ و حیرت انگیز فیصلے کیے ہیں ۔ شرر پر باتیں کرنے سے قبل دو صفحات میں وہ تاریخی ناول سے متعلق بھی لکھتے ہیں :
ناول (تاریخی ناول ) کی جگہ وہاں ہوتی ہے جہاں تاریخ کے صفحے سادے ہوں ۔ امتداد زمانہ کی وجہ سے جن واقعات کے نقوش مٹ گئے ہیں یا جو شخصیتیں دھند لی پڑ گئی ہیں انھیں ناول آ جا گر کر کے پیش کر سکتا ہے، لیکن جہاں تاریخ کا آفتاب عالم تاب خود ہی نصف النہار پر چمک رہا ہو وہاں ناول کی شمع جلانا آپ اپنا مضحکہ کرا نا ہے۔ سچ فرما یا ہے پروفیسر داؤ ڈن نے کہ تاریخی فضا کے بیان میں ہر طرح کی خلاف واقعہ چیزیں رکھ دینی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ الکزینڈر ڈوما اور اسکاٹ تک کے ناول تاریخی حیثیت سے حقائق پر مبنی نہیں ما نے جا تے۔ چہ جائیکہ میڈم اسکو و ردی۔ کا پری نیڈ اور رینا لڈس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد علی طیب اور عبد الحلیم شرر کی تصنیفات۔ ان سب کے یہاں ہیر و اور ہیروئن کے نام تو تاریخی ہوتے ہیں لیکن ان کے کردار و خیال مصنف کے عطا کر دہ۔
تاریخی ناول میں حقائق اور تخیلات کے با رے میں گذشتہ صفحات میں بحث اُٹھا ئی جا چکی ہے اور اس بات کو واضح کیا جا چکا ہے کہ تاریخی ناول میں حقیقت اور تخیل کا الگ الگ مقام ہے۔ اس کی روشنی میں اسکا ٹ ڈوما اور شرر وغیرہ کے ناول قطعی سطحی اور غیر معیار ی نہیں سمجھے جا سکتے۔ تاریخی ناول نگار زیادہ تر تاریخ کے ان موضوعات کو ہی منتخب کرتا ہے جہاں تاریخ کا آفتاب عالم تاب نصف النہار پر چمکتا رہتا ہے۔ کیونکہ ایسے موضوعات کا انتخاب کر کے ناول نگار سب سے پہلے موضوع کے اعتبار سے قاری کا اعتماد حاصل کر لیتا ہے، پھر اسے تاریخی ما حول میں لے جاتا ہے۔ حسینی صاحب کے یہ جملے کہ "جہاں تاریخ خود مواد اُگل رہی ہو وہاں ناول کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔”ایک عہد میں تو اہمیت رکھتے ہوں گے، لیکن اب ان جملوں کی زیادہ اہمیت نہیں رہی۔ تاریخ اور تاریخی ناول سے متعلق دوسرے ادب میں اب اتنے کام ہو چکے ہیں اور تاریخی ناول سے متعلق تقریباً تمام تاریک گوشے منور ہو چکے ہیں ، اب ایسے میں حسینی صاحب کے ان جملوں سے فر سود گی و قدامت کی بو سی آنے لگتی ہے، اپنے انھیں خیالات کی بنیاد پر انھوں نے شرر اور بعد کے تمام ناول نگاروں کے با رے میں جو فیصلے کیے ہیں ان کی اہمیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی جس عہد میں یہ کتاب لکھی گئی اس حساب سے حسینی صاحب کے اس کار نا مے سے کس کو انکار ہو سکتا ہے۔
اس موضوع سے متعلق اگلی اہم اور معتبر کتاب احسن فاروقی کی  اردو ناول کی تنقیدی تاریخ  ہے۔ فاروقی صاحب نے شرر سے متعلق 28 صفحات رقم کیے ہیں ۔ اگر چہ ان کا مطالعہ سنجیدہ اور گہرا ہے، لیکن ان کا تحریر ی عمل اس قدر جارحانہ اور بے با کا نہ ہے جو کہیں کہیں قاری کو الجھا دیتا ہے۔ فاروقی صاحب بھی شرر اور بعد کے تمام تاریخی ناول نگاروں سے متعلق خوبیوں اور خامیوں کا انبار تو لگا دیتے ہیں اور انگریزی تاریخی ناول نگاروں کے مقابلے میں اردو کے تاریخی ناول نگاروں کو کمزور وسطحی قرار دیتے ہیں ، لیکن کسی اسٹیج پر نہ تو اس کا جواز پیش کرتے اور نہ ہی تاریخی ناول نگاروں کے با رے میں دو ایک سطریں ہی لکھنے کی زحمت کرتے ہیں ۔ وہ شرر کو تاریخی ناول نگار مانتے ہی نہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ شرر کا تاریخی مطالعہ اتنا کمزور تھا کہ ان کا کوئی تاریخی ناول کامیاب ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ حقیقتاً صحافی تھے اور صحافت کے راستے سے ہو کر ناول کے میدان میں آئے۔ حادثے کے طور پر وہ تاریخی ناول نگار ہو گئے۔ ورنہ وہ تاریخی ناول کے الفب سے بھی واقف نہ تھے۔ فاروقی صاحب کے عمیق مطالعے کو سب نے ما نا ہے، لیکن اردو میں تاریخی ناول نگاروں کے با رے میں جو انھوں نے فیصلے صادر کیے ہیں وہ کہیں کہیں بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہیں ۔ وہ یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ اردو میں معیاری تاریخی ناول لکھے ہی نہیں گئے، لیکن اس کی وجہ، تاریخی ناول کے اصول و شرائط پر روشنی ڈالنے کی ذرا بھی زحمت گوارا نہیں کر تے۔
فکشن کے میدان میں وقار عظیم کا نام بہت اہم ہے، ان کی تحریروں کا زیادہ تر سر مایہ فکشن کی بنیا دوں پر کھڑا ہے۔ افسا نے سے متعلق ان کی کتا بیں اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔ داستانوں پر بھی کام ہے۔ ناولوں سے متعلق ان کی تحریریں صرف داستان سے ناول تک، میں نظر آتی ہیں ۔ یہ کتاب در اصل ان کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے، جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ وقار عظیم نے ناول نگاروں سے متعلق کوئی اہم فیصلے تو نہیں کیے لیکن تاریخی ناول اور ناول نگار سے متعلق بھی انھوں نے کو ئی اہم بات نہیں کی۔ درا صل ان کا تمام سر مایہ تحقیق و تنقید کا سنگم ہے۔ ایک ایسا سنگم جس سے تنقید کی کو ئی بھر پور امید لگانا منا سب نہیں ۔
شائستہ اختر نے ایک مضمون میں اردو کے ناول نگاروں کے با رے میں دلچسپ باتیں کی ہیں ، لیکن یہ بھی اس دریا میں بہتی نظر آتی ہیں جس میں اس سے قبل فاروقی صاحب اور حسینی صاحب غرق تھے۔ شرر کے با رے میں ان کا خیال ہے کہ وہ تو تاریخی ناول کے کسی فن سے واقف ہی نہ تھے۔ ان کو تاریخی ناول نگار ماننا بنیادی غلطی ہے۔ ان کے اس فیصلے کا اس وقت خیر مقدم کیا جا سکتا تھا، جب وہ تاریخی ناول کے فن اور شرر کے پورے سر ما یہ کو ہم پلہ رکھ کر تو لتیں ۔ ثبوت اور دلائل کے ساتھ باتیں کرتیں ۔ لیکن انھوں نے ایسا قطعی نہیں کیا۔
بعد کے ادیبوں میں سہیل بخاری، آدم شیخ، مجتبیٰ حسین، سلام سندیلوی وغیرہ نے اس صنف پر قلم اُٹھا یا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی کو ئی نئی بات نہیں کی اور نہ ہی ناول سے متعلق کو ئی بدلی ہو ئی شکل پیش کی۔ بعض لو گوں نے پرانی کتابوں کے جملے کے جملے اتار دئے۔ شرر کے متعلق تو کم از کم ایسا ہی ہو ا ہے۔ ادھر دس پندرہ برسوں میں ناول پر کچھ اہم کتابیں ضرور آئی ہیں لیکن ان کا تعلق تاریخی ناول سے نہیں کے برابر ہے۔ البتہ1982ء میں ڈاکٹر نزہت سمیع الزماں کا تحقیقی مقالہ اردو ادب میں تاریخی ناول کا  ارتقاء ضرور شائع ہوا لیکن اس میں ارتقاء پر باتیں زیادہ ہیں تاریخی ناول کے فن اور اصول پر بہت کم ہے۔
تاریخی ناول کے اس قحط زدہ ما حول میں یوسف سر مست کی ہی پہلی کو شش ہے جس نے شرر پر بات کر نے سے قبل تاریخی ناول کے فنی لوازمات پر نظر ڈالی ہے۔ اپنے موضوع سے الگ ہو نے کی وجہ سے اگر چہ نظر سر سری ہے، لیکن پھر بھی چند باتیں معقول اور کار آمد ہیں ۔ شرر کے موضوع اور فن پر بات کر نے سے قبل انھوں نے انگریزی حوالوں کے ذریعہ تاریخی ناولوں کی تعریف کی ہے۔ تاریخ اور ناول کو الگ الگ سمجھا نے کے بعد تاریخی ناول کی شرائط کو آ جا گر کیا ہے۔ ان حوالوں میں اردو کے کو ئی بھی حوالے نظر نہیں آتے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو میں سنجید گی سے اس پہلو پر کسی نے نہیں سو چا۔ یو سف سر مست نے تاریخی ناول کی تعریف کر نے کے بعد ان کی روشنی میں شرر کے تاریخی ناول کا جائزہ لیا ہے۔ بابک خرمی،� زوال بغداد، ایام عرب اور  فردوس بریں  کو کامیاب ناول ٹھہر ایا ہے۔ شرر کے با رے میں ان کا خیال ہے کہ شرر نے جب کبھی ماضی کے حالات جمع کرنے میں محنت کی اور اس کے بعد ناول لکھا تو ان کا ناول کامیاب ہوا۔ یوسف سر مست نے تاریخی ناول سے متعلق روایت سے مختلف الگ اور نئے ڈھنگ سے تعریف کی ہے۔ بالکل اسی انداز سے جو پچھلے صفحات میں پیش کی جا چکی ہے۔
ناول کیا ہے ؟  میں تاریخی ناولوں سے متعلق چار صفحات بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ در اصل اردو ادب میں یہ پہلے صفحات ہیں جو اعتدال اور انصاف کے ساتھ رقم کیے گئے ہیں ۔ مصنفین نے تاریخی ناول کو ناول کی سب سے زیادہ نما یاں قسم ما نا ہے۔  تاریخی ناول کی چند شرطیں اس طرح لکھی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔  اس قسم کے ناول کا کمال یہ ہے کہ کسی پرانے دور کا نقشہ اس حسن و خوبی سے کھینچا جائے کہ وہ دور بالکل جیتا جا گتا ہما رے سامنے آ جائے۔ اس امر میں کامیاب ہو نے کے لیے ناول نگار کو تاریخ کا بہت گہرا علم ہو نا ضروری ہے۔ دوسرے زمانہ کو پھر سے زندہ کر نے کے لیے ایک خاص قسم کی قوت تخیل بھی ہو نا چاہئے۔ تیسرے ناول نگار کا اپنے ما حول سے کسی نہ کسی طرح کا ذاتی تعلق ہو نا ضروری ہے۔
آگے لکھتے ہیں :
تا ریخی ناول کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس میں ہر بات تاریخی حیثیت سے صحیح ہو۔ ناول نگار ایسے واقعات بھی شامل کر سکتا ہے جو مستند نہ ہوں اور ان واقعات کو خاص اہمیت بھی دے سکتا ہے۔ مگر ایک چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ غیر مستند واقعہ ایک حد تک قرین قیاس ضرور ہو۔ اسی طرح تاریخی ناول میں متعدد کر دار بالکل فرضی ہو سکتے ہیں اور ان کا تعلق اہم واقعات سے دکھا یا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ بہترین تاریخی ناول میں تاریخ اور افسانے ملے جلے ہوتے ہیں ۔ افسانہ سامنے ہوتا ہے اور تاریخ پس منظر میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاریخی ناول کو بڑے سلیقے کے ساتھ تاریخی حقیقت اور اپنی تخیلی جدت کو دوش بدوش لے جا نا ہوتا ہے۔ تاریخی واقعات اور کر دار کو اسے اتُنا ہی صحیح دکھا نا ضروری ہے، جتنا محققین تاریخ بتاتے ہیں ، مگر اسے اپنے ناول کو تاریخ کم، ناول زیادہ بنا نا ہے اور اس لیے خاص تخیلی حصہ کو تاریخی معاملات سے ملانا ضروری ہے۔
ان جملوں میں اعتدال اور انصاف کے عنا صر نظر آتے ہیں ، لیکن ان اہم اور کار آمد با توں کو اتنے اختصار کے ساتھ کہا گیا ہے کہ تاریخی ناول سے متعلق ذہن میں پورا خاکہ نہیں بن پا تا۔
قدیم رسائل میں تاریخی ناول سے متعلق جو مضامین دستیاب ہوئے وہ وہی ہیں جو شرر پر لکھے گئے ہیں ۔ شرر کے ناولوں سے متعلق جو باتیں کہی گئی ہیں ، انھیں کے درمیان تاریخی ناول سے متعلق چند باتیں مل جاتی ہیں ۔ ایسے مضامین میں میری تحقیق کے مطابق چند مضامین اہم ہیں ۔ پہلا مضمون مہر محمد خاں شہاب مالیرکوٹلوی کا ہے، جس کی اشاعت ہما یوں  دسمبر 1943ء میں ہو ئی۔ اس مضمون کا تعلق اگر چہ شرر  سے ہے، لیکن انھوں نے شرر پر جس انداز سے باتیں کی ہیں اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ذہن میں تاریخی ناول کا خاکہ بنا نے کے بعد ہی وہ شرر کے ناولوں کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ جو عام مضمون نگار نہیں کرتے۔ ان کے یہ چند جملے ملاحظہ ہوں :
جیسا کہ عرض ہوا کہ آپ (شرر)کے اکثر ناول تاریخی ہیں اور تاریخی ناولوں کا ایک نقصان بھی ہے کہ وہ غریب کہ جس کا سر مایہ، اور زاویۂ معلومات فقط یہی ناول ہوں ، وہ افسانے کی ایک داستان تاریخی سچا ئیاں سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے، چنانچہ بعض خوش عقیدہ لوگ جویائے حق  (ناول )وغیرہ داستانوں کو سچے واقعات خیال کر نے کے حسن ظن کا شکار ہیں ۔ اگر چہ اس بحث کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آخر تاریخ کیا ہے۔ کیا یہی سچا ئیوں ، کچھ غلط فہمیوں اور بہت سی غلط روایات کے مجموعے کا نام تاریخ ہے۔ گہری نظر سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی اعتقادی اور سیا سی زندگی صحیح تاریخ کی بجائے زیادہ ترا فسانوں پر قائم ہے اور دنیا بھر کی قوموں میں  ٹھو س حقائق کے بجائے رومانی افسانے ہی زیادہ پوجے جا رہے ہیں ۔
اس طرح پورے مضمون میں انھوں نے شرر کے ناول کا جو تجزیہ کیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے ذہن میں تاریخ اور تاریخی ناول سے متعلق چند باتیں پہلے سے تھیں ۔
دوسر ا اہم مضمون مولانا الطاف علی بریلوی کا ہے جو انھوں نے اپنی کتاب حاصل مطالعہ  میں شرر کے تاریخی ناولوں کا ایک جائزہ  کے عنوان سے لکھا، لیکن اس سے قبل یہی مضمون العلم میں جنوری 1957ء میں شائع ہو چکا تھا۔ شرر کے تاریخی ناول سے متعلق لکھتے ہوئے وہ تاریخی ناول کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ :
صحیح تاریخ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی دور کے صرف سیاسی واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ وہ اس دور کے سماجی شعور کا بھر پور مجموعہ ہوتی ہے۔ چنانچہ آج ہم تاریخ سے کسی عہد کے سما جی رجحانات اور ہیئت اجتما عیہ کے وجدان و شعور کا بھی ٹھیک ٹھیک اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ تاریخ کا مقصد محض ماضی کے واقعات کو دہرانا نہیں بلکہ مستقبل کی فکر بھی پیدا کر نا ہے، یہیں سے وہ زندگی کی ساتھی ہو جاتی ہے۔ تاریخی ناول تاریخ کی اس خصوصیت کی تر جمانی کرتے ہیں ۔ ہر ناول ماضی پر ستی کے بجائے پرانی منزلوں ہی میں گم کر دیں افادی ناول نہیں کہے جا سکتے، یہ بہت ہی نا زک مقام ہے۔ تاریخ حقیقت پسندی کی تر غیب دیتی ہے۔ ناول حقیقت کو افسانے کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ کامیاب ناول نگار وہی ہے جو ان دونوں میں توازن قائم کر دے۔ حقیقت پر ستی تاریخ کے حق میں ضروری ہے، لیکن ناول کے لیے اس کے بر خلاف۔ زیادہ افسانویت ہی نفسِ افسانہ کے لیے بہتر ہے، لیکن بحیثیت مجموعی تاریخی ناول کے خلاف در اصل منا سب یہی ہے کہ در میانی راستہ اختیار کیا جائے۔ مولانا شرر کی یہی بڑی خصوصیت ہے کہ وہ تاریخ اور افسانے کے درمیان چلتے ہیں ۔ دونوں میں توازن قائم رکھتے ہیں اور دونوں سے بحیثیت مجموعی فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ انھوں نے جس انداز سے تاریخ کو پیش کیا ہے وہ غیر معمولی فنکارانہ انداز ہے۔
سید وزیر حسن دہلوی کا اردو کے پانچ ناول نگار کے نام سے الناظر جنوری 1926ء میں ایک مضمون شائع ہو ا۔ اس میں بھی تاریخی ناول سے متعلق چند باتیں ملتی ہیں ، لیکن زیادہ تر ناول نگاروں کے با رے میں ہے۔
شر رسے متعلق اگر چہ ہمیں آدم شیخ، فراق گو رکھ پو ری، ڈاکٹر قمر رئیس، عبد القادر سروری،  محی الدین قادری زور، جمیل احمد کندھائے پو ری اور مجنوں گورکھ پوری کی کتابوں میں بھی مواد ملتا ہے۔ لیکن ان میں سے مجنوں صاحب نے اپنی کتاب افسانہ ،عبدالقادر سروری صاحب نے دنیائے افسانہ، اور جمیل احمد صاحب کندھائے پوری نے افکار نو میں فکشن کے ڈھانچے پر بات کی ہے اور انھیں کتابوں کو فکشن کے کاموں میں اولیت دی جاتی ہے، لیکن تاریخی ناول پر ان میں سے کو ئی بھی بحث نہیں کر تا، جب کہ شرر پر سب بڑے اطمینان کے ساتھ تبصرہ کرتے ہیں ۔ کو ئی انھیں نا کام اور کو ئی کامیاب ناول نگار ٹھہراتا ہے۔ ہو سکتا ہے ان سب ادیبوں کے ذہن میں تاریخی ناول کے اصول رہے ہوں اور انھیں اصول کی روشنی میں ان سبھوں نے شرر کو پر کھا ہو، لیکن ان اصولوں کی سر سری سی جھلک بھی صفحۂ کاغذ پر نظر نہیں آتی۔ چندبرس قبل تاریخی ناول سے متعلق ایک بحث عبد العزیز اور اسلم محمود کے درمیان ہما ری زبان میں چلی تھی۔ ان لو گوں کی بحثیں اگر چہ ناول سے متعلق کم، ناول نگاروں سے متعلق زیادہ تھیں ۔ پھر بھی یہ بحث کار آمد ہو تی، لیکن دونوں کا علمی پہلو اس قدر کمزور تھا کہ ایک دو شما رے کے بعد یہ بحث آگے نہ بڑھ سکی پھر آخر تاریخی ناول کیا ہے ؟ تاریخی ناول نگار کے فرائض کیا کیا ہیں ؟ اس کے لوازمات اس کے تقاضے ؟ اس کی شرطیں ؟ ان تمام سوالات کا کم از کم اردو میں بھر پور جواب نہیں ملتا اور شاید اسی وجہ سے شرر کے ملک العزیز ورجنا (1888ء) سے لے کر عصمت چغتا ئی کے ناول ایک قطرۂ خون (1976ء) تک کا تاریخی ناول کا یہ تقریباً نوے سالہ خوشگوار سفر اپنے اندر تمام رنگینیاں سمیٹنے کے با وجود اپنی چند کمیوں کی وجہ سے بڑا سونا سونا سا لگتا ہے۔ اگر چہ یہ ویرانی تنہا اردو کی قسمت میں نہیں آئی بلکہ بعض مقامات پر ہندی اور انگریزی ادب میں بھی نظر آتی ہے۔ لیکن انگریزی ادب اپنے آپ میں اتنی وسعت رکھتا ہے کہ شاید ہی کو ئی ایسا موضوع ہو، جس پر اس ادب میں قلم نہ اٹھا ہو۔ لہٰذا تاریخ جیسے بنجر اور خشک زمین پر کار ٹوائن بی، لو کا چ، بیٹر فیلڈ، شیفرڈ جیسے ادیب گل افشانیاں کر جاتے ہیں ۔ ہندی ادب میں تاریخی ناولوں کے اصول کا تعین زیادہ تر ناول نگار خود ہی کر کے آگے بڑھتا ہے۔ رویندر نا تھ ٹھاکر، ہزاری پر ساد دویدی، ورند اون لال ورما، ڈاکٹر رانگئے راگھو وغیرہ صرف تاریخی ناول نگار ہی نہیں بلکہ تاریخی ناولوں پر بھر پور مضمون لکھتے ہیں ۔ اور انھیں مضامین کی بنیاد پر ستیہ پال چگھ، ڈاکٹر گووند جی، گوپی نا تھ تیواری، ودیا بھو شن، بھا رد واج جیسے ادیب تاریخی ناول کے فن کی خوب صورت عمارت کھڑی کر دیتے ہیں ۔ اردو ادب ابھی اس نقطۂ نظر سے خاصی تنگ دامانی کا شکار ہے، اور ایسے میں جب اردو کا ایک طالب علم صاف ستھر ا ذوق اور شستہ ذہن لے کر ادب کے میدان میں داخل ہوتا ہے، تو اس کی نظریں تاریخ کے اس دھند کی طرف اٹھتی ہیں تو اسے سوائے ما یو سیوں اور اندھیروں کے کچھ نظر نہیں آتا۔ اب اس کی یہ صلاحیت اور فنکاری ہے کہ اس کہرے سے لبریز دھند لے ما حول میں کو ئی نئی کرن جگمگا دے۔
اردو میں تاریخی ناول نگار کی حیثیت سے سب سے بڑی شخصیت شرر کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ شرر واحد ناول نگار ہیں جنھوں نے اپنے ناول کے کینویس میں تاریخ کا با ضابطہ استعمال کیا اور اپنے پہلے تاریخی ناول ملک العزیز ور جنا (1888ء) کے ذریعہ اردو میں تاریخی ناول کی بنیاد ڈالی اور اپنی جملہ ادبی زندگی کی و ساطت سے اردو فکشن کے سر ما یہ کو چند اچھے تاریخی ناول دئے۔ اردو میں تاریخی ناول کے تصور کو سمجھتے وقت شرر جیسے مقبول و معروف ناول نگار کے ذہن میں ناول اور تاریخی ناول کا کیا تصور تھا، اس بات کو بھی سمجھ لیا جائے تو قطعی غیر ضروری نہ ہو گا۔
شرر نے جس دور میں ناول لکھنا شروع کیا وہ دور نہ صرف تاریخی ناول کا بلکہ خود صرف ناول کا ابتدا ئی دور تھا۔ 1857ء کے بعد کے حالا ت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس عہد کے مختلف ادیبوں اور  شاعروں کی صحبت سے کروٹ لیتی ہوئی سما جی و تہذیبی فضا اور اس عہد کے مختلف رسائل کی شہرت نے لا شعوری طور پر شرر کے قدم صحافت کی طرف موڑ دئے اور اس سلسلے میں ان کی سب سے پہلی کو شش رسالہ التوحید کا وہ تر جمہ ہے جو انھوں نے جوا باً اور ضد میں کیا تھا۔ اس تر جمہ کی مقبولیت نے شرر کی ہمت کو اور بڑھا یا۔ یہیں سے شرر کو مضمون نگار ی کا شوق پیدا ہوا۔ منشی احمد علی کسمنڈوی کی صحبت نے اس شوق کو اور جلا دی۔ جلد ہی ان کا تعلق اودھ اخبار سے ہو گیا اور یہ اودھ اخبار کے سب اڈیٹر چن لیے گئے۔ اودھ اخبار کی وابستگی نے شرر کے پوشیدہ جو ہر کو نکھارا اور مضامین کا سلسلہ چل پڑا۔ بعض مضامین کی تعریف سر سید احمد خاں نے بھی کی۔
پھر حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی کہ کچھ دنوں کے لیے بیکار ہو گئے۔ اسی بیکا ری نے اور منشی نثار حسین (ایڈیٹر پیام یا ر ) کی دوستی نے ان کو ناول لکھنے پر مجبور کر دیا۔ 85۔ 1884ء۔ کے درمیان ان کا پہلا ناول دلچسپ منظر عام پر آیا۔ اس سے قبل شرر اردو ناول کے علاوہ دوسرے ادب کے ناول پڑھتے تھے۔ یا صنف ناول کے با رے میں با قاعدہ کو ئی تصور رکھتے تھے، اس کا کہیں اشارہ نہیں ملتا۔ لیکن دلچسپ  کی اشاعت کے با رے میں جب انھوں نے اظہار خیال کیا تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شرر تنہا اردو کے ناول ہی نہیں بلکہ انگریزی ناولوں کا بھی وقتاً فوقتاً مطالعہ کرتے رہتے تھے، کیونکہ نذیر احمد اور سرشار کے ناولوں کی کامیابی رفتہ رفتہ ان کے ذہن کو ہموار کر رہی تھی۔ شرر کی یہ تحریر ملاحظہ ہو جو انھوں نے ناول دلچسپ  کی اشاعت کے وقت لکھی:
میرا یہ ابتدا ئی ناول شاعرانہ سخن آفرینی کا پہلا نمونہ ہے۔ میری عربی و فارسی کی تعلیم نے فارسی انشا پردازی کے رنگ کو جدید انگریزی مذاق کے سانچے میں ڈھا لا تو IVANHOEکے مطالعہ نے عاشقانہ جذبات بھر دئے میں اس شک نہیں کہ اپنی طرز پر یہ اردو کی شاعرانہ و عاشقانہ انشا پردازی کا پہلا نمونہ ہو نے کی وجہ سے اس ناول کی عبارت میں خیال آفرینی کا جس قدر زیادہ زور ہے، اسی قدر جملے بڑے ہو گئے اور اس قدر پیچیدہ ہو گئے ہیں کہ تمام ناظرین بے حد لطف اٹھا نے کے بعد پوری طرح سمجھ نہ سکے ہوں گے۔ اس امر کو اب میں محسو س کرتا ہوں ، مگر ان دنوں جس طر ح زمانہ مدح سرائی کر تا، اسی قدر مجھے بھی اپنی اسی پیچیدہ رنگ میں ڈوبی ہو ئی عبا رت پر زیادہ ناز ہو تا۔ لیکن قا عدہ یہ ہے کہ مشق خود ہی عیوب دور کر دیتی ہے۔ چنانچہ دلچسپ کے پہلے حصہ کی عبارت میں جس قدر الجھا ؤ ہے دوسرے میں نہیں ۔ مگر یہ محض فطری اصلا ح تھی جس میں میرے اس ارادے کو بہت کم دخل تھا، اس لیے کہ میں نے اس وقت اپنے اس عیب کو محسو س بھی نہ کیا تھا۔
مندرجہ با لا تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ دلچسپ کی اشاعت کے بعد شرر صنف ناول کی مقبولیت سے اچھی طرح واقف ہو چکے تھے۔ اور ان کا ذہن ناول کی طرف مڑ چکا تھا۔ لیکن ان چیزوں سے قطع نظر اس وقت کا سما جی و سیاسی مقصد ان تمام ادیبوں پر حاوی تھا۔ (یہ مقصد کیا تھا یہ ایک الگ بحث ہے )اور وہ مقصد ناول کے ذریعہ پور ا ہوتا نظر آ رہا تھا۔ اردو ناول کے علاوہ بنگالی، مراٹھی، ہندی اور انگریزی ناول کی مقصدیت اور مقبولیت ان کے سامنے تھی۔ شرر کی انگریزی کمزور تھی، لیکن شب و روز ناول کی بڑھتی ہو ئی ہر  دل عزیز ی نے ان کو انگریزی کی طرف مائل کر دیا تھا، ناول کو پڑھنے اور اپنے طور پر ان کے با رے میں غور کرنے کے لیے ان ناولوں کا مطالعہ ضروری تھا، جس کی وجہ سے شرر نے با قاعدہ انگریزی سیکھی۔ اسی عہد میں بنکم چند چٹر جی کے بنگالی ناول درگیش نندنی کا انگریزی تر جمہ شرر کے ہا تھ لگا، جس کا انھوں نے زمیند ار کی بیٹی کے نام سے تر جمہ بھی کیا۔
مولوی بشیر الدین (ایڈیٹر البشیر اٹاوہ ) کی ملاقات نے دلگداز کی بنیاد ڈالی اور جنوری 1887ء میں پہلی بار دلگداز نکالا۔ اس درمیان دوسرا ناول دلکش لکھا۔ درگیش نندنی کی اشاعت (1886ء )اور  دلگداز کی اشاعت 1887 ء کے درمیان انھوں نے اسکا ٹ کا مشہور و معروف ناول طلسما ن(TALISMAN)کا مطالعہ کیا اور چند جذبات انگیز پہلوؤں سے مشتعل ہو کر جواباً جنوری (1888ء)میں با لا قساط ملک العزیز ورجنا  کی اشاعت کا اعلان کر دیا۔ شرر کا یہ پہلا تاریخی ناول تھا جو اپنی نوعیت، مزاج اور پلا ٹ کے اعتبار سے بالکل مختلف تھا اور اردو کا پہلا تاریخی ناول تھا، جو بے حد مقبول ہوا۔ پھر کیا تھا۔ ناول کی قطار لگ گئی اور تقریباً ہر سال ایک نیا ناول منظر عام پر آنے لگا۔
دلگداز اور اس میں با لا قساط ناولوں کی اشاعت کا سلسلہ چلتا رہا۔ دلگداز میں ہر طرح کے مضامین ہو تے۔ کبھی مشاہیر اسلام سے متعلق، تو کبھی اسلامی ممالک کے مشہور شہروں سے متعلق۔ اس کے علاوہ پھول، کا نٹے، افسردہ دلی، فیاضی، ہوا، شادی و غم، گرمی کی رات، ذوق و شوق جیسے موضوعات پر مضامین کی ایک بھیڑ ہو تی، جو ہر ماہ دلگداز میں امڈ آتی تھی۔ اس میں ادبی مضامین اگر چہ کم ہیں ، لیکن پھر بھی اردو زبان، دہلی اور لکھنؤ کی شاعر ی، نظم معرّا، نیچرل شاعری، ڈراما یا اس عہد کے ادیبوں و ناول نگاروں کی تخلیقات پر ریویو بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان تمام مضامین کی بھیڑ میں سلطان واجد علی شاہ، مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، بحث گلزار و نسیم، سکینہ بنت حسین جیسے غیر معمولی مضامین جو دلگداز میں طویل عرصہ تک قسط وار شائع ہوتے رہے، ان کی علمیت کی یاد گار ہیں ۔
ناول سے متعلق ان کے خیا لات انھیں مقامات پر ملتے ہیں ، جہاں وہ اپنے کسی نئے ناول کی اشاعت کا اعلان کرتے ہیں اور ناول کی مقبولیت اور اس کے پس منظر کی بات کرتے ہیں ۔ ہما رے جدید ناول، کے نام سے جو اشتہارات دیئے ہیں وہ اہم ہیں ۔
جس عہد میں شرر نے ناول لکھنے کی ابتد ا کی وہ اردو کا ابتدائی دور تھا۔ آج کے ادب نے ناول کا جو سانچا ڈھا لا ہے، اس سے وہ عہد بالکل نا بلد تھا۔ لیکن پھر بھی ایک نئی صنف تھی اور ایک نئی شکل جو عوام میں روشناس ہو رہی تھی۔ پہلی بار شرر نے ناول کے با رے میں لکھا:
ہندستان میں ناول نو یسی بالکل نئی چیز تھی اور ان نئی و دلچسپ چیزوں میں جنھیں مغربی تہذیب نے ہماری زبان سے لا کر انٹر وڈیوس کیا ہے، انگریزی معاشرت اور لٹریچر سے جتنی نئی چیزیں ہما رے ملک میں آئیں ، ان کو قبول کرتے وقت ابتدا میں اپنی عادت کے موافق ہندستانیوں نے ناک بھوں ضرور چڑھا ئی، مگر ناول ایک ایسی دلچسپ اور با مزہ چیز تھی کہ ابتدا ئی دور میں اسے سب نے ہنسی خوشی قبول کر لیا اور کیوں کر قبول نہ کرتے وہ چیز ہی ایسی تھی۔
دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں :
ناول چونکہ ایک دلچسپ مذاق اور سلجھے ہوئے مذاق میں لکھے جاتے ہیں اور ان کا لٹر یچر وہ ہوتا ہے جسے انگریز ی میں لا ئٹ لٹرییچر کہتے ہیں ، اس لیے انھیں ادنیٰ و اعلیٰ بہت قابلیت رکھنے والے بھی اور زیادہ لیا قت رکھنے والے بھی یکساں دلچسپی کے ساتھ پڑھتے اور مزہ لیتے ہیں ۔ اور یہی سبب ان کی اشاعت کے بڑھنے اور ان کی طرف لو گوں کے عام طور پر متوجہ ہو نے کا ہوتا ہے۔ قابل اور صاحب علم لو گ بھی جس آسانی سے تفریح اور بے کا ری کے اوقات میں بغیر اس کے کہ ان کے دما غوں پر کسی قسم کا بار پڑے ناول کا مطالعہ کر سکتے ہیں ۔ نہ کسی تاریخ کا اور نہ کسی اخلا قی کتاب کا اور ان کی کثرت اشاعت اور عام دل کشی ہی اس بات کا اصلی سبب ہے کہ ان کے ذریعہ سے ضمنی طور پر ہر قسم کی تعلیم دینے اور دیگر طریقوں پر تر جیح دی گئی ہے۔
شرر صنف ناول پر ضرور بات کرتے ہیں لیکن اس کے لوازمات کے متعلق کہیں بھی اشارہ نہیں کر تے۔ جو ا س بات کا ثبوت ہے کہ اردو ادب میں ناول کے اس ابتدائی دور میں جب کہ صرف ناول کا تعارف ہو رہا ہو، ایسے میں اس کی باریکیوں سے کو ئی بھی اتنی جلدی واقف نہیں ہو سکتا تھا۔ چاہے وہ نذیر احمد ہوں ، رتن نا تھ سرشار یا عبدالحلیم شرر ۔ پھر آج کا نقاد ناول کے سخت اصول و ضوابط مرتب کر نے کے بعد ان ابتدائی ناول نگاروں پر مختلف سمت سے سخت ناقدانہ حملے کیوں کرتا ہے ؟
وہ ایک ایسا دور تھا جب قاری کے ذہن کو داستانی فضا سے نکال کر ناول کی حقیقی دنیا میں لا یا جا رہا تھا۔ اس سے روشناس کرا یا جا رہا تھا۔ ان حالات میں اس وقت کے ادیبوں کو خاص دشواری اور الجھنوں کا سامنا بھی کر نا پڑ رہا تھا۔ مثلاً ناول میں عشق و محبت کے مضامین بھی ہوتے ہیں ۔ ہیرو اور ہیروئن کے معاشقے کا بھی تذکرہ ہوتا ہے۔ عام لو گوں نے اس میں دل کشی و تفریح کے عنا صر پا کر اس کا استقبال کیا، لیکن مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک طبقے نے اس کی کھل کر مخالفت کی اور صنف ناول کو نا جائز وغیرہ پاکیزہ شے قرار دینے لگے۔ عام سما جی ناولوں کا اس وقت زیادہ چلن نہ تھا۔ گھر یلو اصلا حی اور تاریخی ناول لکھے جا رہے تھے۔ شرر کا میدان تاریخ تھا اور وہ ہر ناول میں عشق و محبت کے چرچے بڑے زور و شور سے کرتے بلکہ اکثر ناول کچھ اسی طرح کی بنیاد پر ہی کھڑے ہو تے۔ نتیجتاً ایک حصہ میں ان کے ناول مقبول ہو نے لگے۔ لیکن دوسرا حصہ اس کی مخالفت کر نے لگا۔ ایسے موقع پر شرر نے محض جو ا باً صنف ناول پر مضمون لکھا، جس میں صرف انھیں لو گوں کو مخاطب کیا جو اسے غلط اور نا جائز قرار دیتے تھے۔ شرر لکھتے ہیں :
چندر وز جب دوسرے مذاق اور دیگر علوم وفنون کے مصنفوں نے دیکھا کہ ہما ری تصانیف کی قدر مٹتی جاتی ہے اور جو ہے کسی نہ کسی ناول کو ہا تھ میں لیے ہوئے ہے، تو انھیں ناولوں کی کثرت اشاعت اور اپنی کتابوں کی کساد با زاری پر حسد معلوم ہو ا۔ جب کو ئی زور نہ چلا تو خواہ مخواہ ناول نویسوں اور ناولوں کے شائقین کو کوسنا اور جس قسم کا لٹریری حربہ ان کے ہا تھ آگیا اسی سے ناولوں پر حملہ کر نے کو تیار ہو گئے، تاکہ ان کی اشاعت کم ہو اور ملک میں جو ان کا مذاق بڑھتا جاتا ہے وہ گھٹے۔ چنانچہ جن حضرات کے سروں پر فضیلت کی پگڑی بندھی ہے، انھوں نے فتوے دینے شروع کر دئے کہ ناول نہایت ہی مخرب اخلا ق چیز ہے اور جس طرح نا سمجھ یونا نیوں نے تعلیمات سقراط کی نسبت کہا تھا کہ وہ نو عمروں کے اخلا ق بگاڑتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اگر بد اخلا قی کا یہی معیار ہے تو ان بزرگوں کے نزدیک سب سے پہلے بد اخلاقی کی تعلیم قرآن مجید ہو گی، جس میں حضرت یو سف اور عزیز مصر کی بیوی کا قصہ دل کش انداز میں مذکور ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناولوں میں تعلیم اخلا ق کا وہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے جو قرآن مجید میں اختیار کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یو رپ میں جو علم کی اخلاقی مذہبی نیز پو لیٹکل اخلا ق کا ذریعہ ناول قرار دیئے گئے، تو یہ کو ئی بے عقلی کا کام نہیں کیا گیا اور نہ یو رپ ایسا بے عقل اور نا عاقبت اندیش ہے کہ کسی فا ش غلطی میں مبتلا ہو جائے۔ اصل یہ ہے کہ ناول سے زیادہ کو ئی موثر پیرایہ کسی مسئلہ یا کسی تہذیب کے ذہن نشین کر نے اور لو گوں کو اس کا پابند بنا دینے کا ہو سکتا ہی نہیں ۔ ناول کا اسلوب وہ شکر ہے جو کڑوی دوا کو خوشگوار بنا نے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔
آخر کی چند سطریں اہمیت رکھتی ہیں ۔ شرر بنیادی طور پر تاریخی ذہن لے کر آئے تھے۔ حالی کا مسدس اور شبلی کی تاریخی کتابیں مخصوص طبقہ میں محدود ہو کر رہ گئیں اور شرر اپنا پیغام ہر طبقہ میں پہنچانا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنے خیالات کی خوش گوار تر سیل کے لیے ناول جیسی صنف کا انتخاب کیا، کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ تاریخی واقعات خواہ وہ کیسے ہی خشک اور غیر دلچسپ ہوں ناول کے پیرائے میں ڈھال کر انہیں دلچسپ بنا یا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک طبیب تلخ دوا کو شیریں نسخہ بنا کر مریض کے حلق میں آسانی سے انڈیل دیتا ہے۔ شرر لکھتے ہیں :
جس طرح طبیب ایک نسخہ تجویز کرتے وقت مختلف اجزاء کو اس خوبی سے ترکیب دیتا ہے کہ ان سے ایک نیا، موثر اور نفع بخش مزاج پیدا ہو۔ بعینہ یہی کام آج کل ایک مورخ کا ہو نا چاہئے کہ واقعات کو وہ محض روایات کی حیثیت سے جمع کر کے صرف اس کو ٹھی کے دھان اس کوٹھی میں نہ کر دے، بلکہ ان کی نئی ترکیب سے نیا رنگ اور نیا مزاج پیدا کر دے اور اس کے تازہ منا فع و فوائد سے لو گوں کو فائدہ پہنچائے اور یہی سبب ہے کہ ناولوں کے ذریعہ ہم تاریخوں کا جو مذاق ملک میں پیدا کرتے ہیں وہ ان بزرگوں کی تاریخ پڑھ کر بالکل تشریف لے جاتا ہے۔
مندرجہ با لا تحریروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس عہد میں ناول اور خصوصاً تاریخی ناول کا تصور بالکل مختلف تھا اور جب اس عہد کا ناول نگار صنف ناول کے جملہ رموز و نکات سے واقف نہ ہو تو اس سے تاریخی ناول کے اصولوں کی واقفیت کی تو قع فضول ہے۔ تاریخی ناول کے اصول اور  فن پر گزشتہ اوراق میں جو باتیں اٹھا ئی گئی ہیں ان سے شرر کس حد تک واقف رہے ہوں گے، اس کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ اصولوں کی تعمیر رفتہ رفتہ ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ اپنی شکل بنا نے میں ، لیکن جس نے شکل کی ہی ابتدا کی ہو وہ پورے طور پر ان اصولوں سے کیسے واقف رہا ہو گا۔ اس سے بھی بڑھ کر اس کے عہد کے ادیبوں پر ا س وقت مقصد زیادہ غالب تھا، نسبتاً کسی شرط یا اصول کے۔ عبد الحلیم شرر کے سارے ناول بھی ایک مقصد کے تحت لکھے گئے۔ تاریخی ناول کے پس پردہ ایک نئی صنف کا اضافہ کر نا کم، مسلمانوں کو جوش دلا نا زیادہ تھا۔ مسلمانوں کو اکسانے کے لیے، ماضی کی عظمتوں کو دہرانے کے لیے، اپنی کھوئی تہذیب واپس لا نے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے تھے، لیکن شرر نے پھر بھی ان تمام جذبوں کو سلیقے سے پیش کر نے کی کوشش کی۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر وقت اور حالات نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ لیکن جہاں دیا، وہاں  زوال بغداد،  ایام عرب،  فردوس بریں،  جویائے حق جیسے خوب صورت تاریخی ناول سامنے آئے۔ جن سے جو ش تو پیدا ہوا ہی ساتھ ہی تاریخی ناول کا قافلہ چل پڑا۔
اس وقت سے لے کر اب تک اردو میں تاریخی ناولوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ ملک العزیز ورجنا (1888ء) کی مقبولیت قارئین کو کچھ ایسی بھا ئی کہ تاریخی ناولوں کا سلسلہ چل پڑا، لیکن میر کا رواں شرر ہی رہے۔ ان کے عہد میں اور ان کے مقابلے میں لکھنے والے محمد علی طبیب، منشی سجاد حسین وغیرہ نے بھی ان کی دیکھا دیکھی تاریخی ناول لکھے۔  جعفر عباسہ،  نیل کا سانپ، گورا وغیرہ جس کی مثالیں ہیں ۔ لیکن یہ تمام ناول شرر کے ناول کے مقابلے اس قدر کمزور تھے اور اپنے آپ میں بیشتر فنی خامیاں رکھتے تھے، اس لیے ساتھ نہ دے سکے۔ لہٰذا وقت کے ساتھ ختم ہو گئے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ تاریخی ناول کو متعارف کرانے میں ان ناولوں نے اچھا رول ادا کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ناول جیسی صنف میں عشق و محبت کے مناظر ہو نے کی وجہ سے مذہب کا وہ طبقہ جو ناراض رہتا تھا، اس نے بھی ان ناولوں میں روحانی چمک اور ایمانی جذبہ پا کر گلے لگا نا شروع کر دیا۔ تاریخی ناول بے پناہ مقبول ہوئے اور عام لوگ اسی قسم کے ناول کی اشاعت کا بے چینی سے انتظار کرتے رہتے۔ پھر کیا تھا، تاریخی ناول کی مقبولیت دیکھ کر لکھنے والوں کی ایک بھیڑ دوڑ پڑی۔ رئیس احمد جعفری، نسیم حجازی، صادق سر دھنوی، مائل ملیح آبا دی، ایم۔ اسلم، احسن فاروقی اور ایک طویل فہرست۔
لیکن کیا ان تمام لو گوں نے تاریخی ناول کے فنی تقاضوں کو گلے لگا یا ؟ اس راستے پر جو تلوار کی دھار سے بھی زیادہ تیز تھا، سلیقے سے چل پائے ؟ شاید نہیں ۔ اور آج اسی وجہ سے یہ سارے ناول نگار باوجود اس کے کہ ناولوں کے انبار لگا گئے ہیں ، کیا ادب میں بحیثیت تاریخی ناول نگار کو ئی اہم مقام پیدا کر سکے ؟کچھ فیصلہ تو وقت نے کر دیا ہے، کچھ اور آگے وقت کرے گا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ دو ایک لوگوں کو چھوڑ کر یہ سارے ناول ادبی نقطۂ نظر سے کم، تاجرانہ نقطۂ نظر سے زیادہ لکھے گئے اور اسی وجہ سے یہ تمام ناول تجا رت تو کر گئے لیکن اردو کے اچھے تاریخی ناولوں کی صف میں کھڑا ہو نا ان کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔
چھ سات سو صفحات میں محض تاریخی واقعات کو انڈیل دینا فن نہیں ہے۔ تاریخی ناول تو وہ ہے جس میں روح عصر ابھر کر سامنے آ جائے۔ عزیز احمد کے دونوں ناولٹ (جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ۔ خدنگ جستہ ) با وجود مختصر ہو نے کے ان ضخیم ناولوں کے مقابلے میں بہت کامیاب ہوئے اور سچ تو یہ ہے کہ اردو میں شرر کے بعد کو ئی ایسا ناول نگار نہیں ہے جو تاریخی ناول کے ان فنی نزاکتوں کو برت سکے، جن کا تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ سوائے عزیز احمد کے ناولٹ یا ان ناولوں کی بھیڑ میں بڑی تلا ش کے بعد دو ایک نام اور لیے جا سکتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام ناول نگار اپنے ما حول کی زد میں آئے بغیر نہ رہ سکے۔ لیکن شرر بنیادی طور پر فنکار تھے اور حقیقی معنوں میں تاریخی فنکار، اگر چہ وہ بھی شکار ہوئے لیکن ان کا ذہن تاریخی مواد سے پر تھا۔
تاریخی ناولوں کا ایک دور تھا، جو رفتہ رفتہ اس عہد کے ساتھ ختم ہو گیا۔ سما ج نے کر وٹ لی تو ناول کی دنیا بدل گئی۔ انگریزوں کی رخصت، ہند ستان کی تقسیم اور جدید دور کے اقتصاد ی و معاشی ہنگاموں نے ناول کے لیے ایسے زبردست موضوعات فراہم کیے کہ تاریخ کی طرف کسی کا دھیان بھی نہ جا سکا۔ ایسی پر پیچ فضا میں قاضی عبد الستار ہی ایسے ناول نگار ہیں جو حال کے اس طوفان میں تاریخ روشن کیے ہوئے ہیں ۔ صلا ح الدین ایوبی ، دارا شکوہ اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔
بیسویں صدی میں تاریخی ناولوں کی بہت کمی ہے۔ بڑی حد تک قاضی عبد الستار نے اور کسی حد تک عصمت چغتائی (ایک قطرۂ خون )اور ادھر یعقوب یاور نے دل من اور عزازیل اور سلیم شہزاد نے ویر گاتھا لکھ کر اس کمی کو پورا کر نے کی کو شش کی ہے۔ آج کا ماحول تاریخی ناول نگار پیدا کر نے کے حق میں ہے یا نہیں ، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ تنہا اردو میں ہی نہیں ، بلکہ ہر ادب کے تاریخی ناول ایک خاص ما حول اور مزاج کی پیدا وار رہے ہیں ۔
ماخذ:
http://urducouncil.nic.in/ebooks/AbdulAleemSharar.htm
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید