FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تابوت

(ناول)

 

حصہ دوم

 

                ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

حصہ اول پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

 

کیلگیری

 

کیلگیری میں نادرہ کا چہیتا گھوڑا پہنچ چکا تھا۔ یاسر اس انعامی مقابلے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا جس سے اس کو مقبولیت حاصل کرنی تھی۔ اخبار میں دیا جانے والا اشتہار تیار کر کے اس نے کیلگیری کے دو بڑے اخبارات کیلگیری پوسٹ اور کناڈا ایج کو ای میل سے روانہ کیا۔ اس کا نرخ دیکھ کر کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کر دی۔ اس اشتہار میں نادرہ کے گھوڑے کی نہایت خوبصورت تصویر نمایاں تھی اور کیلگیری میلہ میں شریک ہونے والے شہ سواروں کو چیلنج کیا گیا تھا اگر وہ اس گھوڑے کو قابو میں کر لیتے ہیں تو یہ ان کا ہے ورنہ انہیں اپنے گھوڑے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ مقابلے میں شریک کرنے کا اختیار یاسر نے اپنے پاس رکھا تھا اور اس کے لیے عمدہ گھوڑے کی شرط تھی یعنی اگر کوئی شہسوار مردار گھوڑا لے کر آئے تو وہ اس کی درخواست مسترد کرنے کا حق محفوظ تھا۔

اس تیاری کے دوران اس کا ذہن کسی اور جانب نکل گیا۔ اس نے اپنے بیگ میں سے نادرہ کا اور اپناپاسپورٹ نکالا اور اسے آس پاس رکھ کر سوچنے لگا۔ ایک کینیا کا پاسپورٹ تھا اور دوسرا ہندوستان کا۔ یاسر کے پاسپورٹ پر اسے غیر شادی شدہ بتلایا گیا تھا اور نادرہ کے پاسپورٹ پر ہنوز اس کے شوہر کام صغیر زیدی لکھا ہوا تھا جسے تبدیل کروانے کا موقع ان لوگوں کو اس سفر سے پہلے نہیں مل سکا تھا۔ اس نے سوچا اگر کوئی اس سے کوئی سوال کرے کہ یہ نادرہ تمہاری کون لگتی ہے؟ تو کیا جواب دے گا؟ اور اگر کوئی ثبوت مانگے تو پاسپورٹ اس کی تردید کر دیں گے۔ یاسر کے لبوں پر ایک شریر مسکراہٹ پھیل گئی۔

یاسر نے اس کے بعداس ہوٹل کو فون لگایا جس میں ان کے کمرے مختص تھے اور کہا کہ وہ اپنی بکنگ کینسل کرنا چاہتا ہے۔ یہ سن کر نادرہ کے کان کھڑے ہو گئے۔ بکنگ کلرک بولا جناب آپ یہ اطلاع بہت تاخیر سے دے رہے ہیں اس لئے آپ کی پیشگی ادائیگی میں سے ایک دن کا کرایہ کٹ جائے گا۔ یاسر بولا کوئی بات نہیں آپ ایک دن کا کرایہ میرے کریڈٹ کارڈ سے نکال لیں۔ وہ بولا جناب معاف کیجئے یہ کام آپ کو کرنا ہو گا آپ ہماری ویب سائٹ پر جا کر ایک دن کرایہ ادا کرنے کے بعد کل سے آگے کی بکنگ کینسل کر دیں حساب برابر ہو جائے گا۔ یاسر بولا ٹھیک ہے۔

نادرہ سامنے صوفے پر بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ اس کے لیے سمجھنا محال تھا کہ ان کا گھوڑا کیلگیری پہنچا ہوا ہے اور وہ ہوٹل کی بکنگ منسوخ کر کے واپس جا رہے ہیں۔ اس نے درمیان میں کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو یاسر بولا اب آپ تھوڑی دیر خاموش رہیں میں فی الحال مصروف ہوں۔ نادرہ ٹی وی کھول کر فلم دیکھنے لگی۔ یاسر نے اس کے بعد اسی شام سے دو مختلف ہو ٹلوں میں دو کمرے مختص کئے۔ ان میں سے ایک اس کے اپنے نام پر تھا اور دوسرا نادرہ کے نام پر۔ دونوں کی تفصیل ہو بہو پاسپورٹ کے مطابق تھی۔

نادرہ نے جب اپنا نام نادرہ صغیر زیدی سنا تو وہ چونک پڑی اور جب اس نے اپنا نام ناصر کے بجائے یاسرالجابری لکھوایا تو اس کو لگا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ان دونوں افراد کے درمیان بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے بعد اس نے پرانی بکنگ کینسل کرائی اور نادرہ کو اپنا منصوبہ سمجھا دیا۔ نادرہ بولی چھوڑو ہم لوگ مزہ لینے کے لیے آئے ہیں اس لئے اس جھنجھٹ میں پڑنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس نے کہا مجھے ڈر ہے کہ اس پردیس میں ہم لوگ کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں اور لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔

یاسرنے کہا دیکھو نادرہ زندگی کا اصلی مزہ مہم جوئی میں ورنہ کیڑے مکوڑوں کی مانند زندگی گزارنے سے کیا فائدہ؟ نادرہ ڈرتے ڈرتے راضی ہو گئی۔ ہوائی اڈے پر پہنچنے کے بعد دونوں نے الگ الگ اپنے بورڈنگ کارڈ لئے اور مختلف سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ بقول یاسر ان کے درمیان اب تین دنوں تک کوئی تعلق نہیں تھا اور انہیں صرف فون کے ذریعہ آپس میں رابطہ رکھنا تھا۔

کیلگیری ہوائی اڈے پر دونوں ہو ٹلوں کی گاڑیاں موجود تھیں جن میں بیٹھ کر وہ لوگ اپنے اپنے کمرے میں پہنچے۔ کیلگیری کے اندر چہار جانب جشن کا ماحول تھا۔ یہ ہفتہ کیلگیری کے لیے بہت مختلف ہوتا تھا۔ گو کہ تعطیلات نہیں تھی پھر بھی شام ہوتے ہی لوگ پکنک کے موڈ میں آ جاتے۔ قلب شہر میں جہاں ان کے ہوٹل تھے شام ہوتے ہی باہر فٹ پاتھ پر شامیانے لگ جاتے جن میں کاؤ بوائے بنے ہوئے لوگ آپس میں خوش گپیاں کر رہے ہوتے۔ اکل و شرب کا سلسلہ رہتا کام دہن کا بازار گرم ہوتا۔

اس کیف و طرب کے رومانی ماحول میں نادرہ کو تنہائی بہت کھل رہی تھی۔ ناصر کا نادرہ سے اس طرح جدا ہو جانا اس طبیعت پر گراں بار تھا لیکن وہ جانتی تھی کہ ناصر کو کسی ایسی بات پر راضی کرنا جو اس کی مرضی کے خلاف ہو تقریباً ناممکن ہے۔ نادرہ نے پہلے ہی دن ایک شاندار گھوڑا خرید لیا تھا۔ ذرائع ابلاغ میں یاسر کا چیلنج موضوعِ گفتگو بنا ہوا تھا۔ اخبارات میں اس پر خطوط بلکہ مضامین بھی لکھے جانے لگے تھے، ٹیلیویژن والے اس کا انٹرویو لینے پہنچ گئے تھے۔ میڈیا کی بدولت یاسر گویا کیلگیری میلے پر چھا گیا تھا۔

دو دن کے بعد سے لوگوں نے مسابقہ میں حصہ لینا شروع کیا اور اسی کے ساتھ یاسر کے اصطبل میں مفت کے گھوڑوں کا اضافہ شروع ہو گیا۔ یاسر اتنے گھوڑے جیت چکا تھا کہ اگر اب کوئی اس کا گھوڑا جیت کر بھی لے جاتا تو اسے کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی تھا لیکن اتنے سارے لوگوں کو ناکام ہوتے ہوئے دیکھ کر شرکاء کا حوصلہ پست ہونے لگا تھا اور مسابقین کا سلسلہ ٹوٹنے لگا تھا۔ تیسرے دن صرف دو شرکاء اپنے اپنے گھوڑوں کے ساتھ آئے تو ان کے ساتھ اخبار اور ٹی وی والے بھی آ گئے۔

ان دونوں میں سے پہلا ایک امریکی تھا جس کو اپنی مہارت پر بڑا اعتماد تھا۔ اس کے ساتھ گھوڑا تھا بھی لاجواب تھا لیکن چونکہ اسے یقین تھا کہ وہ شرط جیت جائے گا اس لئے اس کو گھوڑے کی مطلق فکر نہیں تھی۔ یاسر نے اس سے مصافحہ کیا اور اس کو اپنے گھوڑے پر شہسواری کی اجازت دی۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور اچھل کر گھوڑے پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن گھوڑے نے ایسی دولتی جھاڑی کے سیدھا نیچے آ رہا کسی طرح اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کپڑے جھاڑ کر نہایت احتیاط سے آگے بڑھا لیکن وہ حربہ بھی ناکام رہا۔ دوچار بار گرنے کے بعد وہ ضد میں آ گیا اور دیوانہ وار کوشش کرنے لگا لیکن کامیابی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا تھک ہار کر اس نے یاسر سے مصافحہ کیا اور گھوڑا چھوڑ کر چلا گیا۔

اس کے بعد نادرہ آگے بڑھی۔ ناظرین اس گھڑ سوار کا انجام دیکھ چکے تھے۔ ان کو نادرہ پر ترس آ رہا تھا۔ نادرہ نے اپنا گھوڑا ایک طرف باندھا اور یاسر سے اجازت طلب کی۔ یاسر بولا اب یہ وحشی آپ کا ہے۔

نادرہ نے پوچھا کیا آپ کے پاس کچھ گھاس ہے۔

یاسر بولا کیوں نہیں؟

نادرہ نے کہا کیا میں اسے کھلا سکتی ہوں اس لئے کہ لگتا ہے یہ محنت کر کے کافی تھک چکا ہے۔ یاسراپنے ساتھ گھاس کا ایک بڑا خوشہ لایا اور نادرہ کو تھما دیا۔ نادرہ گھاس کے ساتھ گھوڑے کے پاس آئی۔ گھوڑا گھاس کھانے لگا۔ ایک طویل عرصے کے بعد اپنی مالکن کو دیکھ کر وہ بہت خوش تھا۔ ٹی وی والے اور اخبار والے بھی ان مناظر کو دیکھ کر حیران تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی نادرہ پہلی خاتون تھی جو مقابلے میں شریک ہوئی تھی۔ دوسرے اس کا تعلق یوروپ یا امریکہ کے بجائے ہندوستان سے تھا نیز اس نے گھوڑے کو قابو کرنے کا کام اس کو گھاس کھلانے سے کیا تھا۔

جب گھوڑا کچھ دیر گھاس کھا چکا تو نادرہ نے پانی مانگا۔ یاسربیزاری سے بولا میڈم آپ کیوں اپنا اور ہمارا وقت ضائع کر رہی ہیں۔ میری رائے ہے کہ اگر آپ گھڑسواری جانتی ہیں تو اس کو چلائیں۔ یاسر کے اس تمسخر پر سارے لوگ ہنس پڑے۔

نادرہ نے سپاٹ لہجے میں کہا آپ کی شرائط میں وقت کی قید میری نظروں سے نہیں گزری۔

یاسر بولا تو کیا آپ دوچار گھنٹے ہمیں الجھائے رکھیں گی۔

نادرہ بولی ویسے بھی میرے علاوہ آج کوئی شریک مسابقہ نہیں ہے۔ اس لئے آپ کیا کریں گے، بھلائی اسی میں ہے کہ مجھے کچھ پانی مہیا کریں۔ نادرہ کے اعتماد سے اب لوگ متاثر ہونے لگے تھے۔ یاسر ایک بالٹی میں پانی لے آیا۔ نادرہ نے گھوڑے کو پانی پلانے کے بعد اس کے چہرے پر اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے کے بعد ایک ماہر شہسوار کی مانند اس پر سوار ہو گئی۔ گھوڑا ٹس سے مس نہ ہوا۔ نادرہ نے جیسے ہی لگام کو ڈھیلا کیا وہ ایک جانب چل پڑا۔ ایڑ لگاتے ہی وہ ہوا سے باتیں کرنے لگا۔

سارے لوگ حیرت سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ یاسر بھی حیرت و افسوس کی اداکاری کر رہا تھا۔ دس منٹ بعد نادرہ لوٹ کر آئی اور یاسر سے پوچھا اب کیا خیال ہے؟

یاسر نے کہا گھوڑا آپ کا ہے اور غلام بندۂ بے دام ہے۔

نادرہ بولی اگر اجازت ہو تو کل تک یہ دونوں گھوڑے یہیں بندھے رہیں۔ کل کسی وقت ٹرانسپورٹ والے انہیں ہندوستان لے جائیں گے۔ اس کے بعد کیا تھا یاسر کے بجائے نادرہ ذرائع ابلاغ کی ملکہ بن گئی تھی اس کا انٹرویو لیا جا رہا تھا اور اخبارات و ٹیلی ویژن پر وہ چھا گئی تھی۔ یاسر نے جیتے ہوئے سارے گھوڑے وہیں کیلگیری میں نیلام کر دئیے تھے اور خوب ڈالر چھاپ لئے تھے۔ یاسر نے اپنی ہوائی جہاز کی بکنگ بھی تبدیل کروا لی تھی۔

دوسرے دن وہ صبح کی فلائیٹ سے لندن روانہ ہوا۔ شام کو نکل کر نادرہ اس سے لندن میں آ ملی وہ دونوں ایک ساتھ لندن سے دبئی امارات کی فلائیٹ سے واپس آ گئے اور وہاں تین گھنٹہ رکنے کے بعد پونے کی فلائیٹ میں سوار ہو گئے۔ نادرہ کو اب یقین ہو گیا تھا ناصر غیر معمولی ذہانت کا حامل انسان ہے۔ وہ اس پر پوری طرح لٹو ہو چکی تھی لیکن اس نے یہ بھی طے کر لیا تھا کہ پونے پہنچنے کے بعد سب سے پہلے پاسپورٹ پر اصلاح کروائے گی ورنہ کیا بھروسہ یہ شخص کب کس کہانی کو حقیقت بنا دے اور کس حقیقت کو افسانے میں بدل دے۔ نادرہ کسی صورت اپنے ناصر کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔

پونے لوٹنے کے بعد نکاح نامہ کی بنیاد پر ناصر کو ہندوستان کی شہریت مل گئی اور اب وہ کینیا کے پاسپورٹ کی ضرورت سے بے نیاز ہو گیا۔ ناصر کی نہ صرف شہریت بدل چکی تھی بلکہ اس کی شخصیت میں بھی ایک بہت بڑا انقلاب آ گیا تھا۔ اب وہ کسی مجرم گروہ کا سرغنہ نہیں تھا بلکہ اس کا شمار شہر کی معزز شخصیات میں ہوتا تھا۔ نادرہ اور شنکر کے سبب اس کے تعلقات پونے کی نامور لوگوں سے ہو گئے تھے۔ ایک تو اس کی وجاہت و صحت اور دوسرے اس کا غالب ہو جانے والا مزاج۔ اس سونے پر سہاگہ لوگوں کے ساتھ خوش مزاجی کے ساتھ گھلنا ملنا اور گھوڑوں کے کاروبار کا دیگر پیشوں سے منفرد ہونا۔ ان تمام چیزوں کی بدولت اس نے بہت جلد شنکر کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

اس دوران ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ہندوستان کے سب بڑے مصور مقبول فدا حسین (ایم ایف حسین)نے جو ہندو احیاء پرستوں سے بد دل ہو کر دبئی میں جابسے تھے اپنے کسی رشتے دار کی شادی میں شرکت کے لیے ہندوستان آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک بہت بڑی خبر تھی۔ ملک کے روشن خیال دانشوروں اور فنکاروں نے حسین کے استقبال کی تیاری شروع کر دی۔

ذرائع ابلاغ میں اس کے چرچے ہونے لگے۔ کچھ لوگوں نے ہندو احیاء پرستوں پر تنقید بھی کی کہ ان کی شدت پسندی کے سبب ایک اتنے بڑے مصور کو ملک چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ ہندو احیاء پرستوں کی تنظیم پتی تپاون نے اس کے رد عمل میں اعلان کر دیا کہ وہ ایم ایف حسین جیسے پاپی انسان کو جس نے ان کے دیوی دیوتاؤں کی توہین کی ہے بھارت ماتا کی دھرتی پر قدم رکھنے نہیں دیں گے اور انہیں ہوائی اڈے سے واپس جانے پر مجبور کر دیں گے۔

اس ہنگامے کے باعث حسین کے رشتے دار پریشان ہو گئے۔ روشن خیال طبقے نے اس کو اپنے وقار کا مسئلہ بنایا تو ہندو احیاء پرستوں کی مخالفت آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ حکومت دونوں جانب سے پھنس گئی وہ حسین کو منع کر کے اپنی کمزوری کا اظہار بھی نہیں کرنا چاہتی تھی نیز مظاہرے کو کچل کر عوام کو ناراض بھی کرنے کے حق میں تھی۔ اس لئے درمیان کا ایک راستہ نکالا گیا۔ ایم ایف حسین کے رشتہ داروں نے ٹی وی والوں کو بتایا کہ اتوار کے دن شام شادی کی تقریب وہ ضرور شریک ہوں گے۔

دبئی سے تین فلائیٹ پونے آتی تھیں۔ ایک صبح آٹھ بجے۔ دوسرے ۱۱ بجے اور تیسری رات دس بجے۔ پتی تپاون والے بڑی تعداد میں صبح ۸ بجے ہوائی اڈے پر پہنچ گئے لیکن مسافروں میں حسین نہیں تھے۔ وہ لوگ دس بجے تک وہاں نعرے لگاتے بیٹھے رہے لیکن جب ۱. بجے کے جہاز سے بھی حسین نمودار ہوئے تو انہوں نے خوب جم کر اپنی خوشی کا جشن منایا اعلان کر دیا کہ ان کے ڈر سے حسین نہیں آئے۔

اسی دوران شہر کے مشہور چینل پر حسین کا انٹرویو نشر ہونے لگا انہوں نے بتایا کہ وہ رات ہی کو آ گئے تھے۔ اس لئے کہ فلائیٹ کا کیا اعتبار۔ کبھی ملتوی ہوتی ہے تو کبھی تاخیر ہو جاتی ہے بلکہ منسوخ بھی ہو سکتی ہے۔ اس خبر نے شہر میں آگ لگا دی۔ پتی تپاون کے بلوائیوں نے گاڑیوں اور دوکانوں کو آگ لگانا شروع کر دیا۔ پولس کو بھی دنگا روکنے کے بہانے ان پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع مل گیا

ایم ایف حسین کی حفاظت کے پیش نظر کسی ہوٹل میں یا رکوانے کے بجائے نادرہ فارم میں ٹھہرایا گیا تھا اسلئے نادرہ فارم کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہو گئی۔ حسین کی واپسی سے قبل فارم ہاؤس پر زبردست پارٹی ہوئی۔ اس میں حسین نے شرکاء کی موجودگی میں ایک گھوڑے کی پینٹنگ بنائی اور پھر کئی لاکھ روپئے میں اسے نیلام کر کے پونے کے نابینا افراد کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے نین جیوتی کو خیرات کر دی گئی۔ ان دونوں باتوں کو بھی ذرائع ابلاغ میں بڑی اہمیت ملی اس طرح گویا ایم ایف حسین کے قیام نے ناصر و نادرہ کی جوڑی اور ان کا فارم ہاؤس کی شہرت میں چار چاند لگا دئیے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 شنکر

 

وقت کا پہیہ بڑی تیزی سے گھوم رہا تھا نیروبی میں سرخ مثلث نامی مول کی تعمیر کا کام زور و شور کے ساتھ چل رہا تھا۔ یاسر نے نادرہ فارم نام ایک زبردست ویب سائٹ بنوا لی تھی۔ اس ویب سائٹ پر اس کے فارم میں موجود مختلف گھوڑوں کے اوصاف، تصاویر اور شجرۂ نصب موجود تھا۔ اس سائٹ پر مختلف زبانوں کی سہولت تھی۔ انگریزی کے علاوہ عربی، روسی اور یوروپ کی مختلف زبانوں کے انتخاب کی سہولت پائی جاتی تھی۔ اس طرح اب نادرہ فارم کی رسائی دنیا بھر کے گاہکوں تک ہو گئی تھی اور یاسر کے کاروبار کو اچھی خاصی وسعت حاصل ہو گئی تھی۔ شنکر نے پونے کے علاوہ ممبئی، دہلی، بنگلور، چنئی، کولکتہ اور دبئی میں بھی اپنی کمپنی کی شاخ قائم کر لی تھی۔ دبئی کے دفتر سے نہ صرف عرب بلکہ افریقی ممالک کے کاروبار کی نگرانی بھی کی جاتی تھی اس لئے کہ افریقہ کے گاہکوں کے لیے پونے یا ممبئی کی بہ نسبت دبئی قریب تر بھی تھا اور وہ اس سے مانوس بھی تھے۔

زمانہ بدل گیا تھا اب شنکر اور یاسر ملتے تھے تو آپس میں تجارت و کاروبار کی باتیں کیا کرتے تھے۔ گاہک اور منافع کو گفت و شنید میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ ان کے موضوعات بدل گئے تھے لیکن پاروتی اور نادرہ نہیں بدلی تھیں۔ وہ اب بھی اپنے پرانے گھسے پٹے موضوعات پر گھنٹوں نہ جانے کیا بولتی سنتی رہتی تھیں۔ اب کون سا موضوع دلچسپ یا کون سا گھسا پٹا ہے اس کے تعین کا حق تو ان لوگوں کو ہے جو گفتگو کر رہے ہوں کوئی تیسرا تواس بات کو طے نہیں کر سکتا۔ جس طرح نادرہ اور پاروتی کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنی گھریلو گفتگو میں یاسر اور شنکر کو شامل کریں اسی طرح ان دونوں خواتین کی دلچسپیوں پر بھی یاسر اور شنکر کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ ویسے ان کو ضرورت بھی نہیں تھی۔ سارے لوگ اپنے اپنے حال میں مست ایک دوسرے کے ساتھ زندگی کے خوشگوار لمحات بسر کر رہے تھے کہ اچانک ان ایک بھونچال آ گیا۔

شنکر اور یاسر کو بیک وقت رابرٹ کے دفتر سے سرخ مثلث مول کے افتتاح میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی۔ یاسر نے اس دعوت نامے کو غصے سے ڈیلیٹ کر دیا لیکن شنکر ایسا نہ کر سکا۔ اس نے دعوت نامے پر تفصیل سے غور کرنے کے لیے نادرہ فارم ہاؤس پر جانے کا فیصلہ کیا۔ پاروتی کے لیے یہ حیرت کا حسین جھٹکا تھا اس لئے کہ جب بھی وہ شنکر سے کہیں چلنے کے لیے کہتی تووہ مصروفیت کا بہانہ بنا کر اس کو ٹال دیتا لیکن اس بار خود شنکر کی جانب سے پیشکش کی گئی تھی اس لئے پاروتی نے اسے دونوں ہاتھوں سے قبول کیا اور فوراً تیاری میں لگ گئی۔ ایک طرف پاروتی خود تیار ہو رہی تھی دوسری جانب دایا کیلاش کو تیار کر رہی تھی اور شنکر سوچ رہا تھا کہ یاسر سے کس طرح بات کی جائے؟ اسے یقین تھا یاسر آسانی کے تیار نہیں ہو گا۔ شنکر یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ یاسر کو بتائے بغیر نیروبی چلا جائے۔

نادرہ فارم پہنچنے کے بعد پاروتی، کیلاش اور نادرہ تو ایک طرف آپس میں مشغول ہو گئے لیکن شنکر اور یاسر باغ کے اندر ایک کنارے پر گھاس میں دو زانو بیٹھ گئے۔ شنکر بولا کیوں یاسر کبھی کبھی ایسے بیٹھنا بھی اچھا لگتا ہے۔

یاسر بولا لیکن یار اس کا موقع ہی کب آتا ہے۔ آج کل تو ہم لوگ کرسی اور صوفے کے محتاج ہو گئے ہیں۔

شنکر نے کہا جی ہاں تمہیں یاد ہے اپنا بچپن؟ جب ہمیں شاذو نادر ہی کبھی کرسی پر بیٹھنے کا موقع ملتا تھا۔

یاسر بولا اور وہ ہمارے صدر مدرس کیا نام تھا ان کاسر تھامس۔

شنکر بولا مجھے یاد ہے ایک مرتبہ انہوں نے تم کو کرسی سے اٹھا دیا تھا۔

جی ہاں یاسر نے کہا میں اس تضحیک کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ اخلاق کی بڑی بڑی باتیں کرنا اور خود اپنے رویہ سے اس کے پرخچے اڑانے والوں سے اللہ بچائے۔

شنکر بولا یار تم بھی کون سے تلخ باتیں لے بیٹھے ۔ ان تمام کے باوجود میں سوچتا ہوں کہ وہ ہماری زندگی کا بہترین دور تھا اور جب بھی یاد آتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ وقت کا پہیہ گھوم کر وہیں پہنچ جائے اور ٹھہر جائے۔

یاسر بولا شنکر تمہاری بات درست ہے لیکن یہ چرخی صرف ایک سمت گھومتی ہے اور اپنا رخ نہیں بدلتی۔

شنکر نے کہا چرخی تو اپنا رخ نہیں بدلتی لیکن ہم تو اپنی سمت بدل سکتے ہیں۔

یاسر بولا شنکر یہ آج تم کو کیا ہو گیا ہے؟ تم تو نہایت ہی معروضی سوچ کے حامل معقول انسان ہوا کرتے جو پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتا تھا۔ آج تم یہ بہکی بہکی باتیں کیوں کر کرنے لگے ہو؟

شنکر نے کہا یار میں جب نیروبی سے چلا تھا تو یہ سوچ کر نکلا تھا اب مر جاؤں گا لیکن پھر لوٹ کر نہیں آؤں گا۔ مجھے افسوس ہے کہ میرے وہاں سے آنے کے چند ماہ بعد اپنی خالہ یعنی رابرٹ کی امی کے موت کی اطلاع مجھے ملی تھی لیکن اس سے بھی میرا پتھر دل نہیں پگھلا۔ میں نے رابرٹ سے صرف فون پر تعزیت کرنے کو کافی سمجھا لیکن وہ پرانی بات ہے۔

یاسر نے پوچھا لیکن اب کیا ہو گیا؟

شنکر مطلب کی بات پر آ گیا وہ بولا جب سے وہ رابرٹ کا دعوت نامہ آیا ہے میرے اندر کا بچپن جوان ہو گیا اور زور کر رہا ہے کہ شنکر ایک بار ہو آؤ۔ نہ جانے پھر اس کا موقع ملے یا نہیں؟

رابرٹ کا نام سنتے ہی یاسر کا موڈ خراب ہو گیا۔ وہ بولا شنکر اس کتے کا نام تم میرے سامنے دوبارہ نہیں لینا۔ وہ میری نظر سے اسی دن گر چکا تھا جب اس نے جولیٹ کو اپنی آرزو مندی کی بھینٹ چڑھانے کا فیصلہ کیا لیکن پھر جس تضحیک آمیز انداز میں دبئی کے اندر اس نے جولیٹ کا ذکر کیا تھا تمہیں یاد ہے۔ میں تو اسے انسان ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ جنگل کا بدترین وحشی بھی اس قدر سفاک نہیں ہو سکتا۔

شنکر نے کہا میں رابرٹ کی نہیں اپنے بیتے دنوں کی بات کر رہا تھا کیوں نہ ایک بار اسے دیکھ آئیں۔

یاسر بولا لیکن تم نے تو رابرٹ کے دعوت نامے کا ذکر کیا تھا۔

شنکر نے صفائی پیش کی جی ہاں وہ تو ایک بہانہ ہے اور دعوت نامہ بھی رابرٹ نے ذاتی طور پر نہیں بھیجا بلکہ وزارت داخلہ کے دفتر سے آیا ہے۔ ہم لوگ اس تقریب میں کسی فرد کے نہیں بلکہ سرکار کے مہمان ہوں گے۔

یاسر نے کہا دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ کیا یہ دعوت نامہ رابرٹ کے ایماء پر نہیں آیا؟ اگر رابرٹ وزیر داخلہ نہ ہوتا تو کیا تمہیں سرکاری دعوت نامہ موصول ہوتا؟

شنکر بولا جی نہیں میں اعتراف کرتا ہوں کہ سرکاری دعوت نامہ نہ ملتا لیکن رابرٹ ذاتی طور پر ہمیں ضرور بلاتا۔

یاسر نے کہا اچھا اور تم دوڑے دوڑے پہنچ جاتے؟

شنکر بولا نہیں !میں نہیں جاتا۔

کیوں؟ یاسرنے پوچھا۔

شنکر بولا اس لئے کہ مجھے اب بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں خدا نخواستہ وہ ’کاکاجوجو‘ کے قتل کا مقدمہ پھر سے کھل نہ جائے۔

یاسر نے کہا تو اب؟

شنکر نے جواب دیا اب تو ہم سرکاری مہمان ہوں گے اس لئے میرا خیال ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتا۔ یاسر میری مانو تو چلے چلیں۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ ایسا موقع ہمیں پھر نہیں ملے گا۔

شنکر کے دلائل نے یاسر کے قلب و ذہن میں ایک بھونچال پیدا کر دیا تھا لیکن وہ جلدی میں کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے دور بیٹھی ہوئی پاروتی اور نادرہ کی جانب اشارہ کر کے پوچھا ان کے بارے میں خیال ہے؟

شنکر بولا کیوں مروانے کا ارادہ ہے؟ ان پاگلوں کو کانوں کان اس کی خبر نہیں ہونی چاہئے۔ یہ تو سارا رنگ میں بھنگ کر دیں گی۔ یہ ہمیں ادھر اُدھر گھماتی پھریں گی اور اپنے بچپن میں لوٹنے نہیں دیں گی۔ اس لئے ہم لوگوں کو خالص تجارتی سفر کا بہانہ بنا کر نکلنا ہو گا۔

نادرہ نے دیکھا کہ وہ لوگ اشارہ کر رہے ہیں تو پاروتی سے بولی لگتا ہے ان لوگوں کو بھوک لگ رہی ہے۔ اس لئے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں۔ میں اندر جا کر کھانا لگواتی ہوں۔ پاروتی کیلاش کو اپنی گود میں لیتے ہوئے بولی چلو میں بھی چلتی ہوں۔ یاسر نے ان لوگوں کو اندر جاتے ہوئے دیکھ کر کہا لگتا ہے ہمارے اچھے دن آنے والے ہیں۔ اس کا اشارہ کھانے کی طرف تھا۔

شنکر نے جواب دیا جی ہاں یاسر اگر تم تیار ہو جاؤ تو یقیناً  عارضی طور پر چند اچھے دن ضرور لوٹ آئیں گے اور یہ نہ بھولو کہ اس بار تم ایک نئے نام اور نئے پاسپورٹ پر سفر کرو گے۔ تم کو تو کوئی بھی نہیں پہچان سکے گا۔ مسئلہ میرا ہے۔

یاسر بولا تمہارا مسئلہ بھی صرف نام کا ہے۔ اب تمہاری شہریت کینیائی نہیں بلکہ ہندی ہے اس لئے ڈر کی کیا بات ہے؟

شنکر بولا جی ہاں یہ بھی ٹھیک ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ نیروبی کی میری کسی دستاویز پر میرا نام شنکر جادھو لکھا ہوا نہیں ہے اس لئے کہ اس خاندانی نام کا استعمال میں نے یہاں آنے کے بعد شروع کیا ہے۔

یاسر بولا تب تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے؟

شنکر یاسرلے انداز سے پر امید ہو گیا اور بولا تو کیا میں ویزے کی کارروائی شروع کروں۔ اگر مناسب سمجھو تو اپنا پاسپورٹ مجھے دے دو۔

یاسر نے کہا ہاں بابا جاتے جاتے لے جانا ایسی بھی کیا جلدی ہے؟

…………………..

شنکر رات گئے گھر لوٹا تو جیب میں یاسر کا پاسپورٹ اور آنکھوں کے اندر اپنا بچپن تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ پاروتی خاصی تھک چکی تھی اس لئے گھر آتے ہی سو گئی لیکن شنکر کی آنکھوں سے نیند ندارد تھی وہ اپنے ماضی میں کھویا ہوا تھا۔ اسے وہ دن یاد آ رہا تھا جب اس نے اپنی ماں سے پوچھا تھا امی میں اپنے محلے کے دوسرے بچوں سے الگ کیوں ہوں؟

اس کی امی نے کہا تھا کون کہتا ہے کہ تو سب سے الگ ہے؟

ننھا شنکر بولا۔ کون؟ ہر کوئی کہتا ہے۔ اس آئینے کو دیکھو یہ بھی یہی کہتا اور آپ ہی نے تو کہا تھا آئینہ جھوٹ نہیں بولتا؟

شنکر کی ماں شنکو کو اپنے نٹ کھٹ بچے کی باتیں اچھی لگ رہی تھیں وہ بولی بیٹا ایسی بات نہیں سب انسان ایک جیسے ہوتے ہیں ان کے اندر کوئی تفریق و امتیاز نہیں ہوتا۔

شنکر نے جواب دیا۔ جی نہیں امی ایسی بات نہیں مجھ کو تو آپ سب سے الگ لگتی ہیں اور سب سے زیادہ اچھی بھی لگتی ہیں۔

شنکو کو اپنے معصوم بیٹے پر پیار آ گیا وہ بولی بیٹا یہاں ہماری بستی کے لوگ مختلف مقامات سے آئے ہیں اس لئے بظاہر ایک دوسرے سے الگ لگتے ہیں۔

شنکر بولا اچھا۔ تو ہم لوگ کہاں سے آئے ہیں؟

شنکو بولی میں تو کہیں سے نہیں آئی تمہاری طرح اسی شہر نیروبی میں پیدا ہوئی لیکن میرے والد ممباسہ کوہ مماسا کے دامن سے یہاں آئے تھے۔

یہ کوہ مماسا کہاں ہے؟ شنکر نے پھر سوال کر دیا۔ شنکر کے پاس ہر جواب کا سوال تھا۔ ادھر جواب ختم ہوتا ادھر سوال حاضر ہو جاتا۔

شنکو بولی یہ بہت دور شمال مشرق میں ایک طلسمی پہاڑیوں کا لامتناہی سلسلہ ہے۔

شنکر نے فوراً سوال کیا طلسمی! طلسمی کیوں؟ ؟

طلسمی اس لئے بیٹے کہ ان قطار اندر قطار سرخ پہاڑیوں کے درمیان لوگ راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ اس لئے لوگ وہاں جانے سے ڈرتے ہیں۔ کون جانے اگر راستہ بھٹک گئے تو کتنے دنوں تک یوں ہی کوہ نشینی کرنی پڑے اور پھر انسان لوٹ سکے یا نہیں اس کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔

وہ تو ٹھیک ہے ممی لیکن یہ تو بتاؤ کہ ہمارے نانا وہاں سے نکل کر یہاں کیوں آ گئے؟

شنکو ہنس کر بولی بیٹے جب میں تمہاری عمر کی تھی نا تو میں نے بھی ایک دن ان سے یہ سوال کر دیا تھا۔

اچھا تو انہوں نے کیا بتایا شنکر نے پوچھا۔

شنکو بولی وہ ایک طویل داستان ہے جب تم بڑے ہو جاؤ گے نا تو میں بتا دوں گی۔

شنکر بولا ممی آپ کو نہیں پتہ میں بڑا ہو چکا ہوں۔ میری استانی بھی یہی کہہ رہی تھیں اس لئے آپ مجھے بتاؤ اور ابھی بتاؤ اور پھر نانا جی نے بھی تو آپ کو بچپن میں بتا دیا تھا۔

شنکو بولی تو نہیں مانے گا بالکل اپنے نانا پر گیا ہے۔ تمہارے نانا ممباسہ نے مجھے بتایا کہ ان کا تعلق ماسائی نامی قبیلے سے تھا۔

شنکر نے کہا ان کا کیا مطلب؟ آپ کا اور میرا نہیں؟

شنکو بولی ہاں، ہاں ان کا ہی کیوں ہم سب کا۔ ہمارا عقیدہ تھا کہ دنیا بھر کے سارے مویشیوں کا اصلی مالک ہمارا دیوتا انیک ہے اور اسی نے دنیا بھر میں پائے جانے والے مویشیوں کو ہماری ملکیت میں دیا ہے۔

شنکر نے کہا یہ کیا بات ہوئی؟ مویشی تو ہمارے قبیلے سے کہیں زیادہ دوسرے لوگوں کے پاس ہیں؟

شنکو بولی وہ تو ہے لیکن یہ انکشاف ہمیں اپنے علاقے سے نکلنے کے بعد ہوا۔ ویسے دنیا بھر کے سارے مویشی ہمارے لئے ہیں۔ اب دوسرے لوگوں نے ان پر غاصبانہ قبضہ کر لیا تو کیا ہوا وہ ہیں تو ہمارے …..یہ ہماری سوچ تھی۔

شنکر نے حیرت سے کہا اچھا!جی ہاں اور چونکہ تمہارے نانا قبیلے میں سب سے زیادہ مویشیوں کے مالک تھے اس لئے وہ سردار تھے۔

کیا مویشیوں کی کثرت کے سبب وہ قبیلے کے سردار تھے؟ شنکر نے سوال کیا۔

شنکو بولی نہیں اس کے علاوہ وہ روحانی ٹوٹکوں کے بھی ماہر تھے۔

یہ روحانی ٹوٹکے کیا ہوتے ہیں؟ ننھے شنکر نے پوچھا۔

شنکو بولی وہ ایسا ہے بیٹا کہ ہمارے قبائلی دین میں خوشحالی اور عذاب کو مرنے والوں کی روحوں سے وابستہ سمجھا جاتا ہے اس لئے انہیں خوش کرنے کے لیے مختلف رسوم و رواج کا چلن ہے میرے والد اپنی جوانی سے ان کی ادائیگی میں پیشوائی کیا کرتے تھے پھر جب سردار کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان کو سربراہ بنا دیا۔

شنکر نے کہا ممی میں تو آپ سے اپنے خروج کی تفصیل پوچھ رہا تھا آپ کہیں اور ہی نکل گئیں۔

شنکو نے کہا ایک تو تم سوالات کر کے مجھے الجھاتے ہو اور اوپر سے الزام بھی میرے ہی سردھردیتے ہو؟ اب اگر تم بیچ میں بولے تو میں اپنی آنکھ بند کر کے سوجاوں گی۔

شنکر بولا نہیں ممی اب نہیں پوچھوں گا اور اگر سوالکروں بھی تو آپ اسے نظر انداز کر دینا۔

شنکو کو اپنے بیٹے پر پیار آ گیا وہ بولی نہیں بیٹے تم پوچھو۔ جو بھی تمہیں پوچھنا ہے ضرور پوچھو۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی ایک دن ایسا ہوا کہ میرے بابا اپنی بھیڑ  بکریوں کو پہاڑوں کے درمیان چرا رہے تھے کہ ایک جانب سے ہوا کا تیز جھونکا آیا۔ سارے مویشی اس جانب چل پڑے۔ وہ ایک غار تھا جس میں سے ہوا گویا ابل رہی تھی۔ میرے بابا بھی جانوروں کے تعاقب میں اندر داخل ہو گئے۔ ہوا اس قدر خوشگوار تھی وہ اندر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور اسی کے ساتھ ان کی آنکھ لگ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو گھپ اندھیرا تھا۔

انہوں نے اپنے مویشیوں کو پکارا۔ سیٹی بجائی لیکن ایک جانور نہیں آیا۔ وہ گھبرا گئے۔ ان کو لگا کہ کوئی بد روح ان کے سارے مویشیوں کو نگل گئی ہے۔ انہیں خوف محسوس ہونے لگا کہیں وہ روح انہیں بھی نہ نگل جائے۔ اس لئے وہ غار کے دہانے کی جانب دوڑے۔ باہر آنے کے بعد انہوں نے سکون کا سانس لیا۔ وہ کافی گھبرا گئے تھے۔ انہوں نے اس واقعہ کا ذکر مماسا میں کسی سے نہیں کیا۔ سرداری اپنے نائب کے حوالے کی اور اہلِ خانہ کے ساتھ نیروبی چلے آئے۔

شنکر بولا یہ تو بڑی دلچسپ داستان ہے لیکن پھر ہمارا دین کہاں گیا۔

شنکو نے کہا بیٹے اس کے بعد تمہارے نانا نے یہاں آ کر ایک عیسائی خاتون یعنی میری ماں فینسی سے نکاح کر لیا اورعیسائی بن گئے۔ یہ تو بہت اچھا ہوا شنکر بولا لیکن آخر وہ مویشی کہاں گئے؟ کیا واقعی کسی……

نہیں بیٹے ایسی بات نہیں۔ کئی سال بعد تمہارے نانا پھر اپنے علاقے میں گئے اور اسی غار کو تلاش کر کے اس میں داخل ہو گئے۔ ہوا اسی طرح چل رہی تھی مگر وہ اس روز درمیان میں نہ بیٹھے اور نہ لیٹے بلکہ بڑھتے چلے گئے۔ وہ اس کی تہہ تک پہنچ جانا چاہتے تھے لیکن پھر انہیں روشنی کی ایک کرن نظر آئی۔

شنکر نے چونک کر پوچھا کیا؟ وہ روح خوش ہو گئی؟ ؟

جی نہیں بیٹے ان پر انکشاف ہوا کہ وہ غار نہیں بلکہ ایک بہت لمبی سرنگ ہے۔ ہماری زندگی کی طرح جس کے آخری سرے پر روشنی ہے لیکن ان لوگوں کے لیے نہیں جو راستے ہی میں تھک کر سوجائیں اور اپنی منزل سے غافل ہو جائیں۔

شنکر بولا وہ تو ٹھیک ہے ممی لیکن ان مویشیوں کا کیا ہوا؟

ان کا کیا وہ دوسری جانب نکل گئیں اور نہ جانے کہاں بھٹک گئیں؟

شنکر بولا اچھا تو گمراہ کون ہوا؟ بھیڑیں یا ہمارے نانا؟ یہ مشکل سوال تھا۔

شنکو نے کچھ سوچ کر کہا تمہارے نانا کا خیال ہے کہ وہ گم کردہ راہ تھے لیکن ان بھیڑوں کی گمشدگی انہیں راہِ راست پر لے آئی۔ اس لئے کہ انہیں اس نئے عقیدے کے مل جانے کی بے حد خوشی تھی اور بھیڑوں کے گنوانے کا کوئی افسوس نہیں تھا۔

اچھا تو ممی کیا آپ کا خیال ان سے مختلف ہے؟

بالکل مختلف ہے شنکو بولی۔ یہ عقیدہ اور دین وغیرہ کیا ہوتا ہے۔ بھیڑیں تو بھیڑیں ہوتی ہیں۔ اگر آج وہ ہمارے پاس ہوتیں تو ہم لوگ لکھ پتی ہوتے اور مجھے اسکول میں ملازمت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

شنکر کو نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ اس کی ممی غلط بول رہی ہیں لیکن اس میں غلط کیا ہے؟ یہ اس کی سمجھ سے بالاتر تھا۔

شنکو کی دو چھوٹی بہنیں تھیں رنکو اور ٹنکو۔ فینسی اور ممباسہ نے ان کی تعلیم کا بہت خاص خیال کیا تھا اور اتفاق سے تینوں کو مشنری اسکول میں ملازمت مل گئی تھی۔ تینوں مختلف مضامین پڑھاتی تھیں اور ان کے افکار و اطوار بھی ایک دوسرے سے خاصے مختلف تھے۔ شنکو تو خالص مادہ پرست قسم کی خاتون تھی اور اس بات سے بہت خوش تھی کہ عیسائی مشنری کے اس اسکول کا تعلیمی معیار بہت اونچا تھا۔ یہاں سے کامیاب ہو کر نکلنے والے طلباء کا داخلہ اچھی یونیورسٹی میں با ٓسانی ہو جاتا تھا اور وہ ایک خوشحال زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے تھے۔

شنکو کے بر خلاف رنکو اور ٹنکو کو اس بات کا افسوس تھا کہ اس اسکول سے ملحق ایک چرچ بھی موجود تھا لیکن اس کا کوئی اثر نہ اساتذہ پر تھا اور نہ طلباء پر اس لئے کہ چرچ کی تعلیمات کو ذاتی زندگی تک محدود کر دیا گیا تھا اور عملاً وہاں بھی ان کا عمل دخل ختم ہو گیا تھا۔ اسکول میں ترویج پانے والا خالص مادہ پرستانہ ذہن روحانیت اور اخلاقی اقدار سے عاری تھا۔

اس مشنری اسکول میں اساتذہ کا تعلق مختلف مذاہب اور علاقوں سے تھا۔ شنکو کے کے نزدیک چونکہ دین و مذہب کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں تھی اس لئے اس نے حساب کے ایک ٹیچر یشونت جادھو کے ساتھ بیاہ رچا لیا تھا۔ یشونت کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ اس کے باپ دادا کو انگریز کینیا اور یو گنڈا کے درمیان تعمیر کی جانے والی ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے ہندوستان سے نیروبی لے گئے تھے۔ بیسویں صدی کے ابتداء میں ان تینوں ممالک پر برطانیہ کی حکومت تھی۔

یشونت کی پیدائش نیروبی ہی میں ہوئی۔ اس کے والد نے بعد میں پرچون کی دوکان کر لی تھی لیکن یشونت نے اس پر بیٹھنے کے بجائے تعلیم و تدریس کو اپنا پیشہ بنایا وہ حساب پڑھاتا تھا۔ چونکہ حساب کے مضمون کا ٹیوشن بہت زیادہ ہوتا تھا اس لئے یشونت کی آمدنی دوگنی تھی۔ شنکو اور یشونت کا ننھا بیٹا شنکر تھا جو دن بھر پٹر  پٹر باتیں کرتا رہتا تھا اور سوالات کے معاملے میں لاثانی تھا۔ پڑھائی لکھائی میں شنکر تیز تھا اس کی ماں شنکو اس جانب بہت توجہ دیا کرتی تھی۔

شنکو کے بعد ٹنکو نے بھی اپنی بڑی بہن سے ترغیب لے کر انگریزی کے استاذڈینس سے شادی کر لی تھی جو نہایت مذہبی قسم کا انگریز تھا۔ ٹنکو کا شوہر ڈینس راہب بننا چاہتا تھا لیکن روم میں دوران تعلیم اس کا اپنے ایک استاد سے جھگڑا ہو گیا۔ اس کے بعد وہ مذہبی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے یونیورسٹی چلا گیا انگریزی ادب کی تعلیم حاصل کی۔ انگلستان کی کساد بازاری اسے نیروبی لے آئی اور وہ ٹیچر بن گیا۔

اس اجنبی دیس میں فینسی نے اس کی سر پرستی کی۔ وہ فینسی کے اخلاق اور ٹنکو کی مذہبیت سے بہت متاثر ہوا اور اس کو اپنا شریک حیات بنا لیا۔ کئی بیٹیوں کے بعد ٹنکو کے گھر میں رابرٹ کا جنم ہوا اس لئے وہ اپنے ماں باپ کے علاوہ اپنی بہنوں کا بھی راج دلارا تھا۔ ٹنکو چاہتی تھی کہ جو کام ڈینس نہیں کر سکا وہ رابرٹ کرے اور ویٹیکن سے علم دین سیکھ کر آئے لیکن رابرٹ کا دل نہ چرچ میں لگتا تھا اور نہ اسے مذہب میں کوئی دلچسپی تھی۔ بچپن ہی سے وہ لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد کا دلدادہ تھا۔ ٹنکو اپنے بیٹے کے اخلاق و اطوار سے نالاں تھی لیکن اس کا کوئی حل اس کے پاس نہیں تھا۔

دونوں بیٹیوں کی شادی کے بعدفینسی کو منجھلی پنکو کی فکر ستا رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا بھی گھر بس جائے لیکن پنکو کو کوئی لڑکا جچتا ہی نہ تھا وہ بڑے آرام سے مختلف رشتوں کو مسترد کر دیتی تھی اور اپنے والدین کی خدمت میں مگن رہتی تھی۔ ڈینس کا ایک دوست عامر تھا جو فلسطین کا رہنے والا تھا اور اسکول میں بچوں کو جسمانی تعلیم دیا کرتا تھا۔ عامر نہایت صحتمند اور خوبرو تھا۔ اس کا ڈینس کے گھر آنا جانا تھا اور اسی دوران عامر کی ملاقات ٹنکو کی بہن پنکو سے ہو گئی۔ عامر نے سوچا اس پردیس میں پنکو جیسی بیوی میسر آ جائے تو بات بن جائے۔

پنکو چونکہ مزاجاً کم گو تھی اس لئے عامر اس سے دوستی نہ بڑھا سکا۔ اس نے ڈینس کی مدد سے بات چلائی اور ٹنکو کو تیار کیا لیکن فینسی کی مزاحمت تھی۔ اس موقع پر شنکو نے مداخلت کی اور ماں کو سمجھایا کہ دیکھو ممی یہ مذہب و ذہب کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ اس نے اپنی مثال دی کہ یشونت گو کہ عیسائی نہیں ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہم لوگ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔ فینسی کو یقین تھا کہ پنکو اپنی عادت کے مطابق رشتہ نامنظور کر دے گی اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے گا۔ نینسی نے یہ معاملہ پنکو پر چھوڑ دیا۔ شنکو اسے راضی کرنے میں کامیاب ہو گئی اور اس طرح پنکو کا عامر کے ساتھ نکاح ہو گیا۔

پنکو نے پہلے تو عامر پر تبلیغ کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہیں ملی وقت کے ساتھ وہ خود عامر کے اخلاق و اطوار سے متاثر ہوتی چلی گئی۔ عامر نہایت بہادر اور دلیر قسم کا انسان تھا۔ وہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر عدل و انصاف کی بات کرتا تھا۔ بلا تفریق و امتیاز ہر مظلوم کا ساتھ دیتا تھا اس لئے اسکول میں جب کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی وہ اپنی شکایت لے کر عامر کے پاس پہنچ جاتا اور عامر اس کی حمایت میں کمربستہ ہو جایا کرتا تھا۔ کبھی کبھار اس کے ساتھی اسے سمجھاتے کہ یہ رویہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اسکول انتظامیہ اس کو ملازمت سے نکالسکتا ہے لیکن اس کا توکل کچھ اس طرح کا تھا کہ وہ کہہ دیتا رزق کسی انسان کے نہیں بلکہ رازق کی مرضی سے تقسیم ہوتا ہے۔ جب تک میرا رزق یہاں لکھا ہے کوئی مجھے محروم نہیں کر سکتا اور جب اٹھ جائے گا تو کوئی بحال نہیں کر سکے گا۔

عامر کا دائرۂ کاراسکول تک محدود نہیں تھا بلکہ وقت ضرورت وہ مظلوم کی حمایت میں سرکاری دفاتر اور پولس تھانے تک پہنچ جایا کرتا تھا۔ پہلے تو پنکو کو عامر کی ان حرکات سے خوف محسوس ہوتا تھا لیکن بعد میں وہ اسے پسند کرنے لگی تھی اور کوئی اسے ڈراتا تو وہ اپنے شوہر کی وکالت کرتی اور اس کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاتی۔ ان کا بیٹا یاسرکھیل کود کا بہت شوقین تھا اور اپنے خالہ زاد بھائیوں کے ساتھ لڑکپن کے حسین دن گزار رہا تھا۔ شنکر سوچ رہا تھا اس ننھے یاسر اور آج کے یاسرکے درمیان کس قدر مطابقت تھی۔ زمان و مکان کی زبردست تبدیلیاں یاسر کو بدلنے میں ناکام ہو گئی تھیں۔ آج بھی وہ اسی طرح سے ضدی طبیعت کا مالک تھا۔ آج بھی اس کے مزاج میں وہی کھلنڈرا پن تھا۔ وہی ذوق، وہی شوق، وہی زندی دلی سب کچھ وہی۔ زمانہ بدل گیا تھا مگر یاسر………اس کے دوست یاسرکو نہیں بدل سکا تھا

شنکر اپنے بچپن کی یادوں میں کھویا ہوا تھا کہ نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح وہ خلاف توقع دیر تک سوتا رہا پاروتی کو بھی حیرت تھی لیکن اس نے خلل اندازی سے اپنے آپ کو باز رکھا۔ وہ خود چاہتی تھی کہ شنکر کچھ آرام کرے لیکن اس پر کام کا ایسا جنون سوار تھا کہ وہ چھٹی کے دن بھی صبح سے جٹ جاتا تھا۔ گزشتہ دن نادرہ فارم پر چلنے کی کی پیش کش نے پاروتی کو حیرت زدہ کیا اور اس دن شنکر کا دیر تک سونا اس کے لیے باعثِ تعجب تھا۔ وہ سوچ رہی تھی اچھا ہے اگر یہ مثبت تبدیلیاں شنکر کے اندر اگر بار آور ہوتی ہیں تو اس کا فائدہ نہ صرف اس کو بلکہ کیلاش کو بھی فائدہ ہو گا۔ کیلاش محسوس کرے گا کہ اس کی نہ صرف ایک ماں ہے بلکہ باپ بھی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

نیروبی

 

شنکر نے ناشتے کے بعد رابرٹ سے رابطہ کیا رابرٹ اس وقت سرخ مثلث مول سے متصل فرگوسن کالج کے میدان میں افتتاحی تقریب کی ابتدائی تیاریوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ جب شنکر نے اسے اپنی آمد کی خوشخبری دی تو رابرٹ کا پہلا سوال تھا تم اکیلے آ رہے ہو یا کہ یاسر بھی تمہارے ساتھ آ رہا ہے۔ شنکر نے جیسے ہی اسے بتلایا کہ یاسر راضی ہو گیا ہے تو رابرٹ کی باچھیں کھل گئیں۔ رابرٹ کی خواہش تو بہت تھی وہ تینوں ملتے اور کچھ وقت ساتھ گزارتے لیکن حالات نے جس طرح سے پلٹا کھایا تھا اور سرخ مثلث جس طرح سے بکھرا تھا اس کے چلتے اسے قطعی امید نہیں تھی کہ ایسا کبھی ممکن ہو گا۔

شنکر سے تووہ کسی حد تک پر امید تھا مگر یاسر کے غم و غصہ اور تند مزاجی سے وہ خوب واقف تھا۔ اسے یقین تھا کہ یاسر اب کبھی مڑ کر اس کا منہ دیکھنا گوارہ نہیں کرے گا۔ دبئی کی ملاقات نے اس کے سارے اندیشوں پر مہر ثبت کر دی تھی لیکن شنکر نے جب یہ مژدہ سنایا کہ یاسر بھی اس کے ساتھ آ رہا ہے تو خوشی سے پاگل ہو گیا۔ فرگوسن کالج کا ماحول اسے اپنے ماضی میں لے گیا۔ رابرٹ نے ڈرائیور کو حکم دیا کہ دفتر کے بجائے گھر چلے اور سکریٹری سے کہا دوپہر تک کی اپنی ساری مصروفیات منسوخ کر دے۔

ماضی کے نہاں خانے میں کھویا ہوا رابرٹ اپنے بچپن سے نکل کر جب اسکول میں آیاتواس کے ہم عمر عم زاد بھائی یاسراور شنکر بھی وہاں زیر تعلیم تھے۔ والدین کی سخت نگرانی کے اندر ان تینوں نے اپنی اسکول کی زندگی گزاری۔ حالانکہ والدین کی موجودگی کے سبب انہیں بہت ساری مراعات حاصل تھیں۔ اساتذہ اور طلباء سب ان کا خیال رکھتے تھے اس کے باوجود کبھی کبھار انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دوسرے طلباء کی طرح وہ آزادی کے ساتھ ہنس کھیل نہیں سکتے۔ ہر کسی نے ان سے بیجا توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اور ان پر پورا اترنے کی کوشش ان کے پر کتر دیتی ہے لیکن کالج میں داخلے کے بعد یہ پابندیاں اچانک غائب ہو گئیں۔ رابرٹ کو یاد تھا کہ سب سے پہلے اسی کو کالج جانے کا موقع ملا تھا اور وہ شنکر اور یاسر کو کالج کے واقعات خوب نمک مرچ لگا کر سنایا کرتا تھا۔ اس کے سبب ان دونوں کے اندر گھٹن کا احساس بڑھ گیا تھا اور وہ دونوں بھی جلد از جلد اسکول سے فارغ ہو کر جامعہ کی حسین و رنگین دنیا میں آنے کے لیے بیتاب تھے۔

ایک سال انتظار کے بعد جب شنکر اور یاسر نے بھی نیروبی کے سب سے مشہور فرگوسن کالج میں داخلہ لے لیا تو رابرٹ ان کاسرپرست تھا۔ وہ انہیں کالج کی ایک ایک چیز بتلاتا تھا۔ یہ کلاس روم ہے، یہ لائبریری ہے۔ شنکر نے جب وسیع و عریض لائبریری کو دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ وہ کبھی ایک کتاب نکالتا تو کبھی دوسری۔ رابرٹ کے ساتھ جولیٹ بھی تھی جو صومالیہ کے سرحدی علاقے سے پڑھائی کے لیے آئی تھی۔ اس نے کہا تھا شنکر کالج کے اندر اور بھی بہت ساری دلچسپ چیزیں ہیں۔ تم یہیں کھوئے رہو گے تو کچھ اور نہیں دیکھ سکو گے۔

رابرٹ نے جولیٹ کی تائید میں کہا تھا اور پھر یہاں تمہارے پاس وقت بھی بہت ہے۔ کل سے اکیلے آنا اور یہیں بیٹھے رہنا کیا سمجھے؟

یاسر نے رابرٹ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا جی ہاں مجھے دیگر دلچسپیوں میں دلچسپی ہے اس لئے ایسا کرتے ہیں اسے یہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں واپسی میں لے لیں گے۔ مجھے یقین ہے اس وقت بھی یہ مقناطیس کی مانند ان کتابوں سے چپکا ہوا یہیں کہیں مل جائے گا۔

شنکر کو یاسر کا طنز پسند نہیں آیا وہ بولا نہیں اس کی ضرورت نہیں میں یہاں کل آ جاؤں گا چلو چلتے ہیں۔ اس کے بعد وہ لوگ ورزش گاہ میں گئے جہاں طلباء مصروف عمل تھے۔ اب شنکر کو موقع مل گیا وہ بولا یہ کیا میں تو سمجھتا تھا کہ یہ تعلیم گاہ ہے یہاں لوگ پڑھنے لکھنے کے لیے آتے ہیں لیکن اب پتہ چلا یہاں پہلوانی ہو رہی ہے۔

جولیٹ بولی شنکر یہاں لوگ زندگی جینے کے لیے آتے ہیں اور صحتمند زندگی میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ورزش بھی ضروری ہے۔ شنکر کا یہ داؤں بھی جولیٹ نے الٹا کر دیا تھا۔ اسے اب اس بے وقوف لڑکی پر غصہ آنے لگا تھا۔ کالج کی ورزش گاہ سے متصل ایک اور عمارت تھی جس میں کھیل کود سہولتیں جمع تھیں۔ کوئی ٹیبل ٹینس کھیل رہا تھا۔ کہیں پر بلیئرڈ کا ٹیبل لگا ہوا تھا۔ کچھ لوگ کیرم سے اپنا دل بہلا رہے تھے اور کچھ شطرنج کی بازی بچھائے اس میں غلطاں تھے۔ اس جمخانہ میں رابرٹ کا بڑا زبردست استقبال ہوا۔ اس کے کئی دوست آ کر اس سے ملے اور ان سب سے جولیٹ نے شنکر اور یاسر کا تعارف کروایا۔ شنکر کی سمجھ میں آ گیا کہ رابرٹ کس شعبہ کا بادشاہ ہے۔

جمخانہ کے سامنے ایک وسیع میدان تھا جس کے ایک جانب شائقین کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ رابرٹ بولا جب سورج آگ بگولا ہوتا ہے تو ہم اندر سائے میں چلے جاتے ہیں اور جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے تو یہاں میدان میں آ جاتے ہیں۔

شنکر نے پوچھا اور کلاس میں کب جاتے ہیں۔

رابرٹ بولا جب کھیل کود سے طبیعت اکتا جاتی ہے تو کلاس میں بھی چلے جاتے ہیں۔

جولیٹ نے کہا لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔

یاسر حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا اس نے فیصلہ کر لیا وہ کلاس کے بعد اپنا وقت ورزش گاہ میں گزارے گا۔ اس دوران اس کی نظر میدان کے ایک کنارے پر چرتے پھرتے گھوڑوں پر پڑی۔ اس نے پوچھا رابرٹ یہ گھوڑے یہاں کون چھوڑ گیا؟

رابرٹ بولا چھوڑ گیا کیا مطلب؟ یہ تو کالج کے شہسواری کلب کے گھوڑے ہیں اور تمہیں نہیں پتہ ہمارا کالج ہر سال گھڑ سواری کے مقابلے میں اول آتا ہے؟

یاسر نے حیرت سے پوچھا لیکن شہسوار کہاں سے آتے ہیں؟

جولیٹ بولی کہاں سے؟ آسمان سے قطار اندر قطار اس میدان میں اترتے ہیں۔

یاسر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولا جولیٹ تم مجھ سے مذاق کر رہی ہو۔

جولیٹ بولی ارے بھئی یہ بھی کوئی سوال ہے۔ اسی کالج کے طلباء شہسواری کرتے ہیں۔ اس مقابلے میں انعام گھوڑے کو نہیں کالج کو یعنی شہسوارطالب علم کو ملتا ہے۔

یاسر نے رکتے رکتے پوچھا کیا…. میں بھی؟

جولیٹ بولی کیوں نہیں؟ ویسے تو کالج کا ہر طالبعلم اس کلب سے استفادے کا حقدار ہے لیکن اپنے اس حق کو استعمال لوگ کم ہی کرتے ہیں۔

شنکر نے میدان کے کنارے پر کھڑے کھڑے کہا چلو گھر چلتے ہیں مجھے بھوک لگ رہی ہے۔

جولیٹ پھر بول پڑی شنکر اگر تم کو کالج میں بھوک لگے تو گھر جانا ضروری نہیں ہے۔ ہمارے کالج کیمپس کی سب سے اچھی جگہ کینٹین جو ہے۔ شنکر کو طعام گاہ کی اس طرح تعریف کچھ عجیب سی لگی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے لیے لائبریری کے علاوہ سب کی سب غیر ضروری سہولیات تھیں جن کا تعلیم و تدریس سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ انہیں اس راہ کی رکاوٹیں سمجھتا تھا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جامعہ کے انتظامیہ نے خود ان کا اہتمام کر رکھا تھا۔ شنکر کو اس بات سے بھی پریشان تھا کہ رابرٹ، جولیٹ اور یاسر کو انہیں فروعات میں زیادہ دلچسپی تھی۔

جب وہ قافلہ کینٹین میں داخل ہوا تو اس کی رونق بامِ عروج پر تھی۔ ایک خاص قسم کا شور فضا میں گردش کر رہا تھا لیکن کسی کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔ ایک خالی میز کا انتخاب کرنے کے بعد رابرٹ بولا جولیٹ اب تمہاری باری ہے بولو اپنے نئے مہمانوں کو اس وقت کیا کھانا چاہئے؟

شنکر کے لیے رابرٹ کا سوال ایک معمہ بن گیا۔ اسے توقع تھی کہ رابرٹ انہیں بتائے گا کہ اس وقت کیا چیزیں مل سکتی ہیں اور ان میں سے وہ کیا کھانا پسند کرے گا؟ لیکن رابرٹ نے گیند کو سیدھے جولیٹ کی جانب اچھال دیا تھا۔ شنکر نے پوچھا مگر جولیٹ کو کیا پتہ کہ مجھے کیا …..

رابرٹ بولا جی ہاں شنکر جولیٹ کو یہ نہیں پتہ لیکن وہ جانتی ہے کہ اس وقت کون سی چیز گرم ملے گی اور مجھے یقین ہے کہ جب تم اس کی پسند کا ناشتہ کرو گے تو اس کے حسنِ انتخاب کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکو گے۔

یاسر بولا جولیٹ کی پسند کے بارے میں تو میں کھانے کے بعد بولوں گا لیکن تمہارے حسنِ انتخاب کی داد ابھی دیئے دیتا ہوں۔ جولیٹ کا چہرہ سرخ ہو گیا وہ سمجھ گئی کہ یاسر نہایت ذہین اور ظریف طبیعت کا حامل ہے اس کے برعکس شنکر نہایت خشک اور کند ذہن انسان ہے۔ جولیٹ کے دونوں اندازے غلط تھے۔

فرگوسن کالج کی آزاد فضا تیزی کے ساتھ یاسر اور شنکر کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی اس کے باوجود یاسر ورش گاہ اور شہسواری میں جس قدر وقت گزارتا اتنی دیر شنکر لائبریری کے اندر کتابوں کی دنیا میں غرق رہتا۔ رابرٹ کا حلقۂ احباب جمخانہ میں ہوتا تھا اس لئے وہ اپنی کلاس سے فارغ ہوتے ہی وہاں پہنچ جاتا۔ جولیٹ کی زندگی میں زبردست توازن پایا جاتا تھا وہ حسبِ ضرورت ہر جگہ پائی جاتی تھی لیکن کالج کی کینٹین ان چاروں کی آماجگاہ تھی۔ چاروں لوگ وقتِ مقررہ پر اپنی ساری مشغولیات کو ترک کر کے وہاں جمع ہو جاتے۔ آپس میں دل کھول کر گپ شپ کرتے، ہنستے بولتے اور اپنی مخصوص دلچسپیوں میں لوٹ جاتے۔ اس دوران یہ چاروں ایک جان چار قالب بن چکے تھے لیکن جولیٹ کے دھڑکن صرف اور صرف رابرٹ کی تسبیح کیا کرتی تھی۔ وقت کا پہیہ بڑی سبک روی سے گھوم رہا تھا۔

لائبریری میں جون پینٹو نام کے ایک صومالی نوجوان شنکر کا دوست بن گیا تھا۔ جون بیک وقت انگریزی اور عربی پر مہارت رکھتا تھا شنکر نے جب اس بارے میں استفسار کیا تو جون نے بتایا کہ وہ صومالیہ کے جس حصے کا رہنے والا ہے وہاں کے سارے لوگوں کی مادری زبان بلا تفریق مذہب و ملت عربی ہے اور اس کی تو ابتدائی تعلیم جس مدرسے میں ہوئی وہ مسجد میں واقع تھا۔ انگریزی زبان اس نے نیروبی میں آ کرہائی اسکول کے اندر سیکھی تھی۔ شنکر کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف تھا۔

جون ادب اور تاریخ کا رسیا تھا وہ انگریزی اور عربی دونوں زبانوں میں کہانی، ناول، ڈرامہ اور شاعری سب کچھ پڑھتا تھا۔ اس کا ارادہ آگے چل کر ادب میں ڈاکٹریٹ کرنے کا تھا۔ شنکر کو وراثت میں حساب کا مضمون ملا تھا اس کے علاوہ وہ بہی کھاتے اور تجارتی مضامین میں دلچسپی رکھتا تھا۔ ان دونوں کے ذوق میں واضح فرق تھا لیکن مزاج یکساں تھا۔ دونوں نہایت حلیم و بردبار طبیعت کے حامل تھے اس لئے ان میں خاصی چھنتی تھی۔ جون پینٹو اپنی نگارشات شنکر کو ضرور دکھلاتا تھا اور شنکر اس کی خوب حوصلہ افزائی کیا کرتا تھا۔

ایک مرتبہ جون نے شنکر کو ایک کہانی پڑھنے کے لیے دی جس کا نام محمود و ایاز تھا۔ شنکر کو وہ کہانی بہت پسند آئی۔ اس نے جون کو مشورہ دیا کہ اس کہانی پر منحصر ایک ڈرامہ بنا کر اسے سالانہ کالج ڈے کے موقع پر پیش کرنا چاہیے؟

جون بولا یار کہانی لکھنا نسبتاً  آسان کام ہے لیکن اس کو ڈرامے کی شکل میں ڈھالنا اور پھر اس کی ہدایت، اداکاری، موسیقی، ریہرسل وغیرہ یہ سب بے حد مشکل ہے۔ شنکر کی یہ رائے تھی کہ اگر یہ ڈرامہ کھیلا جاتا ہے تو وہ جون پینٹو کو ایک ڈرامہ نگار کے طور مستحکم کر دے گا اور ممکن ہے اسے فلموں میں بھی اپنے جوہر دکھلانے کا موقع مل جائے۔ جون کو شنکر کی ان باتوں پر ذرہ برابر اعتبار نہیں تھا۔ وہ خوابوں کی فضاؤں میں اڑنے کے بجائے حقیقت کی پتھریلی زمین پر رہنے بسنے کا قائل تھا۔

فرگوسن کالج کی سالانہ تقریبات کا شمار شہر کی اہم ثقافتی سرگرمیوں میں ہوتا تھا اور فنکارو دانشور اس کا انتظار کیا کرتے تھے۔ ایک دن شنکر کو جولیٹ نے بتایا کہ اس کو کالج ڈے کمیٹی کا سکریٹری نامزد کیا گیا ہے اور آئندہ ایک ماہ تک وہ اس کی تیاریوں میں مصروف رہے گی۔ یہ جان کر شنکر بے حد خوش ہوا۔ اس نے سب سے پہلے تو جولیٹ کو مبارکباد دی اور اس کے بعد جون پینٹو کی کہانی پکڑا تے ہوئے کہا کہ اس پر منحصر ایک بہت ہی دھانسوڈرامہ بن سکتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ کالج ڈے کے موقع پر اسے پیش کیا جائے۔

جولیٹ کو بھی کہانی پسند آئی۔ اس نے شنکر کی تجویز کو مجلس عاملہ کے سامنے رکھا لیکن چونکہ کہانی کا پس منظر عربی تھا دیگر ارکان نے تعصب کی بناء پر اسے مسترد کرنے کی کوشش کی مگر بہانہ یہ بنایا کہ اس طرح کے مشکل خیال کو رنگ منچ پر کھیلنا نہایت مشکل ہے۔ کوئی اس کی ہدایت کے لیے آگے نہیں آئے گا لیکن اس سے پہلے کہ یہ تجویزمستردہوتی جولیٹ نے اس کام کے لیے اپنا نام پیش کر دیا۔ جولیٹ کی مخالفت اب کسی کے بس کا روگ نہیں تھا اور اسی کے ساتھ کمیٹی نے ڈرامے کا فیصلہ کر لیا۔

شنکر نے یہ کام جون پینٹو بتلائے بغیر کیا تھا اس لئے کہ خود اسے بھی یقین نہیں تھا کہ یہ تجویز منظور ہو جائے گی لیکن جب اسے جولیٹ نے اس کی اطلاع دی تو وہ ہکّا بکّا رہ گیا۔ جولیٹ کا ہدایتکاری کے لیے آمادہ ہو جانا بھی شنکر کے لیے تعجب کی بات تھی۔ خیر اس نے اپنے دوست جون کو یہ خوشخبری سنائی اور اسے ڈرامے کا منظر نامہ لکھنے کے لیے کہا۔ جون تھوڑے بہت نا کرنے کے بعد تیار ہو گیا۔ جب منظر نامہ لکھا جا چکا تو شنکر نے جولیٹ، رابرٹ اوریاسر کے ساتھ جون کی ملاقات کروائی اور پانچ لوگوں کی اس ٹیم نے ڈرامے پر سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔

سب سے پہلا کام اداکاروں کا انتخاب تھا۔ رابرٹ چاہتا تھا کہ برسوں سے جو طلباء کالج کے اسٹیج پر معروف ہیں ان کو مختلف کرداروں کے لیے منتخب کیا جائے لیکن جولیٹ چاہتی تھی کہ اسے نئے اداکاروں کے ساتھ کھیلا جائے۔ اس موقع پر یاسر نے ایک عجیب و غریب مشورہ دے دیا۔ وہ بولا اگر نئے لوگوں کو ہی موقع دینا ہے تو کیوں نہ رابرٹ محمود اور شنکر ایاز کا کردار نبھائیں۔

شنکر نے یہ سن کر کہا جولیٹ تم ایسا کرو کہ یاسر کو یہاں سے نکل کر ورزش گاہ یا گھر جانے کے لیے کہو اس لئے کہ وہ اس معاملے میں عدم سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ پہلے تو وہ تمہیں ہدایتکار بننے سے روکتا رہا اور اب اوٹ پٹانگ قسم کے مشورے دے رہا ہے۔

یاسر بولا یہ معقول تجویز ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں ویسے میں بھی معذرت کر ہی رہا تھا لیکن آپ لوگوں کی دلجوئی کے لیے آ گیا۔ اب اگر آپ لوگ اجازت دیں تو مجھے خوشی ہو گی۔

جون پینٹو بولا جی نہیں میں یاسر کی تائید کرتا ہوں اس ڈرامہ میں محمود کا کردار رابرٹ سے بہتر کوئی اور ادا کر ہی نہیں سکتا۔ اس کی شخصیت، ڈیل ڈول اور انداز سب کچھ شاہانہ ہے۔ میرا تو خیال ہے اسے اداکاری کے لیے بہت زیادہ محنت بھی نہیں کرنی ہو گی۔

رابرٹ بولا میں شنکر کی تجویز میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ یاسر کے ساتھ جون پینٹو کو بھی لائبریری یا گھر بھیج دیا جائے اور اسی کے ساتھ ایک زوردار قہقہہ فضا بلند ہوا۔

جون بولا دیکھا آپ لوگوں نے ایسا قہقہہ تو کوئی بادشاہ ہی لگا سکتا ہے۔ آپ لوگ چاہیں تو میں چلتا ہوں لیکن برائے کرم میری تجویز کو چلتا نہ کریں۔

جولیٹ کا ذہن ایک خاص سمت میں چل پڑا تھا لیکن وہ کچھ دیر سوچنا چاہتی تھی۔ وہ بولی یاسر اور جون کو یہاں سے روانہ کرنے کے بجائے ہم سب یہاں سے چلتے ہیں۔

شنکر بولا کیا؟ میں تو یونہی …….۔

جولیٹ بولی لیکن میں سنجیدہ ہوں۔ ہم لوگ کینٹین میں چلتے ہیں۔ کچھ کھا پی کر دوبارہ اس مسئلہ پر غور کریں گے۔ سارے لوگوں نے یک زبان ہو کر جولیٹ کی تائید کی اور یہ قافلہ کینٹین کی جانب چل پڑا۔ راستے میں نہ جانے کیسے پھر سے ڈرامہ کا موضوع چھڑ گیا اور سارے لوگوں نے محمود کے لیے رابرٹ کے نام پر اتفاق کر لیا۔ کینٹین کے اندر اب چائے پیتے ہوئے ایاز پر گفتگو ہو رہی تھی۔ شنکر بہر حال اس کے لیے مناسب نہیں تھا۔

جولیٹ بولی میرا تو خیال ہے کہ یہ کردار شنکر کا نام پیش کرنے والے یاسر کو نبھانا چاہئے۔

یاسر نے چونک کر پوچھا وہ کیوں؟ مجھ غریب کو اس بکھیڑے میں نہ گھسیٹو۔

جولیٹ نے کہا یاسر تم نے ایک سوال کیا ہے تو اس کا جواب بھی سنو۔ اس ڈرامہ میں ایاز ایک بہترین شہسوار ہے اور فرگوسن کالج میں فی الحال تم سے اچھا گھڑ سوار کوئی اور نہیں ہے۔

یاسرنے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے جولیٹ پر ہلہ ّ بول دیا اور بولا میڈم گھڑ سواری اور اداکاری کا فرق اگر آپ نہیں جانتیں تو آپ کو ہدایتکاری کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جانا چاہئے۔

جولیٹ کو یاسر کا جارحانہ انداز پسند آیا یہ ڈرامے میں ایاز کے کردار سے ہم آہنگ تھا وہ بولی اگر ایسا ہے تو میں تمہارے حق میں سبکدوش ہو جاتی ہوں۔ تم ایسا کرو کہ گھڑ سواری اور اداکاری کے ساتھ ہدایتکاری بھی کرو۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یاسر پوری طرح سے جولیٹ کے داؤ میں پھنس چکا تھا۔ شنکر اور جون کی تائید نے اس کا مزید بیڑہ غرق کر دیا اور لاکھ انکار کے باوجود یاسر کو اس کام کے لیے رضامند ہونا پڑا۔

محمود اور ایاز کے علاوہ ڈرامہ کا ایک اہم کردار قاضیِ شہر کا تھا۔ رابرٹ نے جون سے بدلہ لینے کی خاطر کہا یہ جون اپنے عادات و اطوار کے سبب مجھے ابھی سے بزرگ لگتا ہے اس لئے کیوں نہ یہ خود اس کردار کے قالب میں ڈھل جائے۔

جون بولا یار دیکھو تم لوگ تو اسٹیج پر کچھ نہ کچھ کرتے رہے ہو لیکن میں نے ابھی تک کبھی اسٹیج پر قدم نہیں رکھا ہے اس لئے مجھے معاف رکھو۔ لکھنا اور چیز ہے اور بولنا اور شہ ہے۔

یاسر بولا دیکھو دوست سارے فتنہ کی جڑ تمہاری ذات ہے۔ نہ تم ڈرامہ لکھتے اور نہ ہم سب اس کے چکر پھنستے اس لئے ہمیں منجدھار میں ڈھکیل کر تم ساحل پر بیٹھے بیٹھے تماشہ نہیں دیکھ سکتے تمہیں یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔ مرتا کیا نہ کرتا جان پینٹو بھی راضی ہو گیا۔

ڈرامہ کے اندر اب صرف دو کردار باقی رہ گئے تھے ایک ایاز کا باپ اعجاز اور دوسرے ایاز کا دوست معاذ۔ ان دونوں کا نہایت کم اہم اور مختصر کردار تھا جن پر سب سے زیادہ بحث ہوئی اس کے باوجود کوئی فیصلہ نہ ہو سکا بالآخر کینٹین سے اٹھتے ہوئے یاسر بولا میری تو تجویز یہ ہے کہ معاذ کا کردار شنکر کو نبھانا چاہئے اور اعجاز کا کردار نبھانے کی خاطر ہمیں اساتذہ میں سے کسی کی خدمات حاصل کرنی چاہئے۔

شنکر نے پھر بہانے بازی شروع کی اس کی دلیل یہ تھی کہ اس کا چہرہ مہرہ کسی زاویے سے عربی نہیں لگتا اس لئے اس کو اسٹیج سے دور رکھا جائے اور پردے کے پیچھے کی کوئی بھی ذمہ داری دے دی جائے وہ انکار نہیں کرے گا۔

جولیٹ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا میں سوچتی ہوں کہ کیوں نہ ہمارے ڈرامے میں ایک اداکار ڈبل رول کرے۔

ڈبل رول ! یہ سن کر جون چونک پڑا۔ وہ بولا جولیٹ فلموں میں تو ممکن ہے لیکن ڈرامہ میں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

جولیٹ بولی کیوں نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی منظر نامہ کے اندر اعجاز اور معاذ ایک دوسرے کے سامنے نہیں آتے۔ ان دونوں کے اسٹیج پر آمد کے دوران جو وقفہ ہے اس میں اداکار کا نہ صرف لباس بلکہ میک اپ بھی بدل دیا جائے گا۔ اسے بوڑھے سے جوان بنا دیا جائے گا۔

یاسر بولا جی ہاں یہ تو ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ شخص دونوں کردار بحسن و خوبی ادا کر سکے۔

رابرٹ بولا جی ہاں اگر یہ ہو جاتا ہے تو یہ ڈرامہ ایک منفرد اور یادگار پیشکش بن جائے گا جسے لوگ اس ندرت کے سبب تا دیر یاد رکھیں گے۔

شنکر بولا وہ تو ہے لیکن ایسا اداکار ہم کہاں سے لائیں گے جو بیک وقت اس طرح کے مختلف کردار بخیر و خوبی نبھا سکے؟

اب جون کی باری تھی اس نے کہا میرا تو خیال ہے کہ یہ ذمہ داری شنکر کو سونپ دی جائے اور اس گفتگو کو یہیں بند کر کے ہم لوگ کل سے اپنے مکالمہ یاد کرنے میں لگ جائیں تاکہ آئندہ ہفتہ سے ریہرسل شروع ہو سکے ورنہ یہ ہو گا کہ کالج کی سالانہ تقریبات آن کھڑی ہوں گی اور ہم اسی بحث میں الجھے رہیں گے۔

جولیٹ بولی میں اپنے مصنف کی تائید کرتی ہوں اور آپ سب سے گزارش کرتی ہوں کہ اپنی اپنی نقل ساتھ لے کر جائیں اور کل کے بجائے آج رات ہی سے اپنا کام شروع کر دیں۔ ان فیصلوں کے بعد ایک مہینے کا وقفہ کہاں گیا پتہ ہی نہ چلا۔ وہ پانچوں دن رات ڈرامہ کی تیاری میں جٹے رہے اور پھر وہ دن بھی آن پہنچا جب اس خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

محمود و ایاز

 

جب پردہ اٹھتا ہے تو حاضرین دیکھتے ہیں اسٹیج کے عقب میں پردے پر ایک منحنی سا پر پیچ پہاڑی راستہ میدان کی وسیع و عریض چٹیل شاہراہ سے بغلگیر ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اور ایک کنارے سے اس پر عربی لباس میں دوشہسوار نمودار ہوئے۔ پسِ پردہ جولیٹ کی گرجدار آواز گونجی ۔ ناظرین کرام آپ سب جون پینٹو کا لکھا ڈرامہ محمود و ایاز دیکھ رہے ہیں۔ اب آپ کو یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ دو حضرات کون ہیں؟ ان کے لباس سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ ان میں محمود کون ہے اور ایاز کون؟ اسی کے ساتھ جولیٹ کی آواز ڈوب گئی اور وہ دونوں کردار خراماں خراماں اسٹیج کے مرکز میں آ گئے ……….

پہلے منظر کے خاتمہ پر تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد پگڈنڈی اور محل کا پردہ اٹھ گیا اور اس کے عقب میں دیوانِ خاص کا ماحول نمودار ہو گیا۔ ڈرامہ اپنے دوسرے نہایت دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا تھا۔ ناظرینِ محفل صدیوں پرانے زمانے میں پہنچ چکے تھے۔ دیوان میں موجود سارے لوگ احترام سے کھڑے ہو کر محمود کا استقبال کر رہے تھے اور ایک فقیر عالم وجد میں جھوم جھوم کر گا رہا تھا

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلادیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

تیسرا منظر یکسر مختلف تھا جہاں ایاز اصطبل میں اپنے باپ اعجازسے باتیں کر رہا تھا۔ اس فلیش بیک کے خاتمہ پر پھر ایک بار پردے کے پیچھے سے جولیٹ کی کمنٹری سنائی دینے لگی۔ لوگ اسٹیج پر لگے پردے پر فصلوں کی کٹائی کا خوش کن منظر دیکھ رہے تھے۔ ہر طرف جشن کا ماحول تھا اور ایسے میں ایاز کی ملاقات اس کے دوست معاذ سے ہو رہی تھی۔ اسی کے ساتھ ایاز کے گھر منظر اسٹیج پر نمودار ہو جاتا ہے۔ معاذ کے لوٹتے ہی درمیانی وقفہ(انٹرویل) کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ ڈرامہ اس قدر دلچسپ ہو گیا تھا کہ ناظرین پر یہ اعلان گراں گزر رہا تھا۔ وہ ڈرامہ کا کلائمکس دیکھنے کے لیے بیتاب تھے۔

وقفہ کے بعد جب پردہ اٹھا تو پھر سے جولیٹ کی آواز گونجی۔ ناظرین کرام۔ وقفہ کے بعد ہم آپ سب کا پھر ایک بار استقبال کرتے ہیں۔ یہ پورنیما کی رات ہے۔ اس وقت گویا ساری کائنات مقابلے کے میدان میں امڈ پڑی ہے مسابقہ حق و باطل کے سب سے بڑے معرکہ میں بدل چکا ہے اور اس میں کامیاب ہونے والا آج فاتح عالم قرار پائے گا۔ آپ شائقین کا جوش و خروش ملاحظہ فرمائیں اور شہسواروں کو اپنے سجے سجائے گھوڑوں کے ساتھ صف بستہ دیکھیں دیو ہیکل اسٹیج پر مختلف کردار اپنے گھوڑوں کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ یہ گویا کسی مسابقہ کا ماحول تھا جس میں شہسواروں کو اپنے فن کا جوہر دکھلانا تھا۔

ڈرامہ کا آخری منظر نہایت جذباتی انداز میں کھیلا گیا۔ جب محمود نے ایاز کو آزاد کرنے کے بعد اس کی جانب دیکھا ایاز کی آنکھوں میں عقیدت و محبت کے آنسو تھے وہ کہہ رہا تھا میں جان بخشی کے لیے اپنے آقا کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا اس لئے کہ میرے پاس اس کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔ اسی کے ساتھ سارا ہال تالیوں کی گڑ گڑاہٹ سے گونج اٹھا۔

ناظرین کے درمیان طرح طرح کی چہ مہ گوئیاں ہو رہی تھیں۔ کوئی کہہ رہا تھا آج کے مقابلے میں سبھی لوگ ہار گئے۔ کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ کوئی بولا نہیں ایسی بات نہیں آج کے مقابلے میں ایاز نے ایک ایسی کامیابی درج کروائی جو اس سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ کسی نے کہا نہیں آج کے مقابلے میں سبھی لوگ ہار گئے سوائے محمود کے وہ ایاز کی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا اور وہ بڑی کامیابی ہے۔ لوگ ڈرامہ کے حوالے سے مختلف باتیں کرنے لگے تھے۔

جب آخری بار پردہ گر کر اٹھا تو اولین منظر پھر سے نمودار ہو گیا لیکن اب کی بار ایاز کی پشت ناظرین کی جانب تھی۔ وہ آ نہیں رہا بلکہ جا رہا ہے۔ (پردے کے پیچھے سے جولیٹ کی آواز گونجی )ایاز اپنے شہر کو پیچھے چھوڑ کر کافی دور نکل آیا ہے۔ اس کی نظریں مستقبل کی را ہوں پر مرکوز ہیں اور قلب ماضی کے دریچوں میں جھانک رہا ہے۔ ماضی قریب کا ایک ایک منظر کسی فلم کی مانند اس کے سامنے آتا اور گذر جاتا ہے۔ خود اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ سب کیسے ہو گیا؟ کیوں ہو گیا اور دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا ہو گیا؟ گھوڑے کے ٹاپ کی آواز ہال میں گونجنے لگتی ہے۔

ناظرین کے قلب و ذہن میں گھوڑے دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ پردہ گرتا ہے اور جولیٹ کی آواز آخری بار گونجتی ہے : ناظرین کرام آپ کی توجہ کا شکریہ فی الحال کے لیے بس اتنا کافی ہے۔ اب کیا مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ یہ سلسلہ ابھی ناتمام ہے اورسفر جاری ہے؟ مجھے امید ہے کہ آپ لوگ یہ سوال نہیں کریں گے کہ یہ کب اور کہاں ختم ہو گا بلکہ صحیح بات تو یہ کہ میں یہ بھی نہیں جانتی کہ یہ آگے بھی بڑھے گا یا نہیں؟ اس لئے کہ میرا کوئی اختیار نہ اس پر ہے اور نہ مجھ پر ہے۔

شنکر اپنے چشم تصورسے فرگوسن کالج کے پرنسپل فادر مینڈس کے خطبۂ صدارت کو دیکھ رہا تھا جس میں انہوں نے ڈرامہ محمود ایاز کی دل کھول کر پذیرائی کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا اس ادارے کے ساتھ میرا پچاس سال پرانا تعلق ہے۔ پہلے دس سال میں نے یہاں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد ۴. سالوں سے یہاں پڑھا رہا ہوں۔ اس سال مجھے سبکدوش ہونا تھا لیکن ناگزیر وجوہات کی بناء پر اس میں توسیع کی گئی۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میری کارکردگی کے دوران یہ غیر معمولی ڈرامہ کھیلا کیا گیا اس لئے کہ ان پچاس سالوں میں ایسی تخلیق کبھی بھی پیش نہیں ہوئی اور ممکن اس سے قبل کالج کی ۶۰سالہ تاریخ میں بھی ایسا نہیں ہوا ہو گا۔

انہوں اس ڈرامے سے متعلق سارے لوگوں کو نام بنام مبارکباد دی اور آخر میں شنکر کو بہترین اداکاری کے انعام سے نوازہ۔ وہ بولے چونکہ اعجاز اور معاذ کے کردار نہایت مختصر اور غیر اہم تھے اس کے باوجود شنکر نے انہیں جس حسن و خوبی سے نبھایا ہے وہ بے مثال ہے اس لئے وہی پہلے انعام کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اپنے ماضی میں کھویا ہوا رابرٹ جون پینٹو کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس نے کس طرح سرخ مثلث کی تینوں راس اور ان کے درمیانی رشتے کو قبل از وقت بیان کر دیا تھا۔

سرخ مثلث کے اندر رابرٹ کی حیثیت واقعی محمود کی سی تھی اور اس کی گہری دوستی ایاز یعنی یاسر کے ساتھ ہی تھی۔ شنکر یعنی معاذ یا اعجاز کا کردار مختصر ہی تھا۔ رابرٹ اور یاسر ساتھ رہے بھی لیکن پھر ان کا ساتھ چھوٹ بھی گیا لیکن کہانی کا اختتام تو خود جون کی خود نوشت تھا۔ ایک ایسی آپ بیتی جو ابھی بیتی نہیں تھی۔

محمود و ایاز کی مقبولیت نے ان پانچوں کو نیروبی شہر کے مشہور و معروف لوگوں میں شامل کر دیا تھا۔ اس ڈرامے کے کئی شو شہر کے مختلف تھیٹرس میں بھی ہوئے لیکن اسی کے ساتھ اس پر تنقید و تنقیض کے سلسلے کا آغاز بھی ہو گیا۔ اس کی مخالفت نے دو متحارب گروہوں کو یکجا کر دیا تھا۔ عیسائی انتہا پسندوں کو اس بات کا خوف ہو گیا تھا کہ اس طرح کے ڈراموں کا سلسلہ اگر چل پڑا تو افریقی قبائلی عیسائیت کے بجائے اسلام کی جانب راغب ہو جائیں گے اور ان کے دعوتی مشن میں رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اس لئے ان لوگوں نے اسے عالمی دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بتا کر القاعدہ کے نظریات کا شاخسانہ قرار دے دیا۔

ملحد و اشتراکی طبقہ اس غرہ ّ میں گرفتار تھا کہ فن اور ثقافت پر ان کی اجارہ داری ہے۔ جو ان میں سے نہیں وہ کہیں کا نہیں رہے گا بغض وحسد کی آگ میں جلنے لگا۔ اس نے محمود و ایاز کو اسے رجعت پسندی کا نام دیا اور ملوکیت و غلامی کو خوشنما بنا کر رائج کرنے کا الزام لگا دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ میں ہونے والی اس مخالفت نے ڈرامہ کی مقبولیت میں اضافہ ہی کیا تھا۔

اس بیچ شہر کے میئر نے کرسمس کے موقع پر ثقافتی سرگرمیوں کے تحت محمود و ایاز نامی ڈرامہ کو بھی اعزازسے نوازنے کا اعلان کر دیا۔ اس خبر نے شہر میں آگ لگا دی۔ مخالفین کی کینہ پروری بامِ عروج پر پہنچ گئی۔ یہ خبر گردش کرنے لگی ٹاون ہال کی اس تقریب میں ہنگامہ ہو گا۔ جون پینٹو کو ان خبروں سے کوئی سروکار نہیں تھا لیکن رابرٹ ان سے بہت پریشان ہو گیا۔ وہ اپنے تعلیم کے آخری سال میں تھا اور باقی لوگ اس کے پیچھے تھے۔ رابرٹ کے صبر کا پیمانہ جب لبریز ہو گیا تو اس نے اپنے تئیں یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر اس بار کوئی دخل اندازی کرتا ہے تو وہ اسے سبق سکھائے گا۔

مئیر کی تقریب میں جولیٹ کو انعام لینے کے لیے جیسے ہی بلایا گیا شور غوغا شروع ہو گیا۔ جولیٹ نے ہنگامہ کے بیچ اسٹیج پر جا کر یہ اعلان کیا کہ اس انعام کی مستحق میں اکیلی نہیں ہوں بلکہ میرے چار ساتھی اور ہیں۔ میں میئر صاحب سے گزارش کرتی ہوں کہ انہیں بھی ڈائس پر آنے کی اجازت دی جائے۔ مئیر صاحب نے اشارے سے اجازت دے دی۔ ناظم کے ہاتھ میں وہ کاغذ کا پرزہ تھا جس پر ان چاروں کے نام تھے۔ جیسے جیسے ناموں کا اعلان ہوتا جا رہا تھا ان میں سے ہر ایک اٹھ کر اسٹیج کی جانب بڑھ جاتا تھا۔ سب سے آخر میں رابرٹ کے نام کا اعلان ہوا اور اس کے آگے جون پینٹو تھا۔

جون ابھی اسٹیج سے دور ہی تھا کہ چند بدمعاشوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ غصے سے بھرا رابرٹ اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھ سکا۔ وہ ان پر پل پڑا۔ وہ غنڈے اس آفت ناگہانی کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ جون کو چھوڑ کر رابرٹ پر ٹوٹ پڑے اور اسے اٹھا کر ہال کے باہر لے آئے۔ رابرٹ نے جب اپنے آپ کو کئی مسٹنڈوں کے درمیان گھرا ہوا پایا تو اس نے جیب سے پستول نکال کر فائر کر دیا۔

پولس نے رابرٹ کو پستول سمیت گرفتار کر لیا۔ فردِ جرم اس کے خلاف درج کی گئی اس لئے الٹا اسی پر مقدمہ درج ہو گیا۔ اس ہنگامہ آرائی کا نتیجہ ایک تو یہ ہوا کہ رابرٹ کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اسے کالج سے نکال دیا گیا اور جیل کے اندر وہ مجرم پیشہ لوگوں کی معیت میں پہنچ گیا۔ رابرٹ کو ویسے تو صرف ۶ ماہ کی سزا ہوئی لیکن یہ مدت اس کی تربیت کے لیے کافی و شافی تھی۔ بے قصور رابرٹ جب جیل سے رہا ہو کر باہر آیا تھا وہ اچھا خاصہ مجرم بن چکا تھا۔

رابرٹ کی دنیا بدل چکی تھی۔ لوگ اس سے دور دور رہنے لگے تھے۔ اپنے گھر والوں کی نظر سے بھی وہ گر چکا تھا۔ پریشان ہو کراس نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا لیکن ایک نیم تعلیم یافتہ نوجوان کے لیے جس کے ہاتھ میں کوئی سفارشی خط نہ ہو ملازمت حاصل کرنا ایک مشکل کام تھا۔ ایسے میں اسے اپنے جیل کا ساتھی گو مانگو یاد آیا جس نے ایک ماہ قبل رہا ہوتے ہوئے اس سے کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑے تو بلا تکلف مجھ سے مل لینا۔

رابرٹ جب گومانگو سے ملاقات کرنے کے لیے نیروبی کے مضافات میں واقع جھگیوں کے علاقہ میں پہنچا تو اسے پتہ چلا یہاں ایک نئی دنیا آباد ہے۔ یہ اس کے لیے ایک نیا انکشاف تھا۔ اس علاقے میں کسی کو نہ تو تعلیم کے منقطع ہو جانے کا قلق تھا اور نہ کوئی جیل آنے جانے کو برا سمجھتا تھا۔ ان لوگوں کے لئے کہ یہ معمولی باتیں تھیں۔ رابرٹ کو گومانگو اور اس کے دوستوں سے ملنے کے بعد پہلی بار ایسا لگا کہ وہ ایسا برا بھی نہیں ہے کہ جیسا لوگ اسے سمجھتے ہیں بلکہ وہ خود اپنے آپ کو سمجھتا ہے۔

گومانگو نے اسے کھلانے پلانے کے بعد پوچھا رابرٹ کب آئے باہر اور اب کیسی گزر رہی ہے؟ رابرٹ نے بتایا کہ ایک ہفتہ قبل وہ رہا ہو کر آیا ہے اور سب ٹھیک ہے۔ اس کے بعد گومانگو نام بنام زنداں کے ساتھیوں کی خیریت پوچھنے لگا۔ رابرٹ نے ان میں سے کچھ کا سلام بھی گومانگو کو پہنچایا۔ گومانگو نے بڑی گرمجوشی سے ان کے سلام کا جواب دیا۔

رابرٹ نے جب نکلنے کے لیے اجازت طلب کی تو گومانگو نے پوچھا کالج جانا شروع کر دیا ہے۔ رابرٹ بولا جی نہیں مجھے ان لوگوں نے نکال دیا ہے اور اب میں فرگوسن کالج کے احاطے میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ گومانگو بولا کوئی بات نہیں کوئی اور کالج میں داخلہ لے لینا۔ رابرٹ نے کہا اب تووہ آئندہ تعلیمی سال ہی میں ممکن ہے بشرطیکہ یہ لوگ میرے خارجہ سرٹیفکیٹ میں کالج سے نکالنے کی وجہ نہ لکھیں ورنہ کوئی بھی کالج مجھے داخلہ نہیں دے گا۔

گومانگو بولا یہ تو مسئلہ ہے۔ ان کالج والوں سے بہتر تو جیل کے حکام ہیں جو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اپنے قیدیوں کا داخلہ کرواتے ہیں انہیں کتابیں فراہم کرتے ہیں اور امتحان میں شرکت کی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں۔ تم نے سنا ہو گا جیل کے اندر کئی لوگوں نے تعلیم کو مکمل کیا اور گریجویٹ ہو کر نکلے۔ رابرٹ نے کہا میں تم سے صد فیصد اتفاق کرتا ہوں جیل کے اندر لوگوں میں انسانیت زیادہ ہے۔ وہاں نہ کوئی کسی کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور نہ کسی نفرت کرتا ہے۔ سب ایک دوسرے کے ہمدرد و غمخوار ہوتے ہیں۔

گومانگو نے پوچھا تو اب ارادہ کیا ہے؟ رابرٹ بولا سچ تو یہ ہے کہ تعلیم سے میرا دل اچاٹ ہو گیا ہے اور تعلیم یافتہ لوگوں سے مل کر مجھے الجھن ہونے لگی ہے۔ میں تو چاہتا ہو کہ مجھے کوئی ملازمت مل جائے تاکہ میں اپنا گھر بار چھوڑ دوں۔ رابرٹ کی بات سن کر گومانگو سوچ میں پڑ گیا۔ اس نے کہا تم ایسا کرو کہ پرسوں میرے پاس آنا۔ میرے ایک دوست لارسن کو کل پولس گرفتار کر کے لے گئی ہے۔ کل اس کو عدالت میں حاضر کیا جائے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس کی ضمانت ہو سکے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو تم اس کی جگہ چوکیدار بن جانا۔ اس نوکری میں گھر بھی مل جاتا ہے۔ اس طرح تمہارا روٹی، کپڑا اور مکان کے سارے مسائل ایک ساتھ حل ہو جائیں گے۔

رابرٹ نے پوچھا لیکن اگر اس کی ضمانت ہو جائے تو؟

گومانگو بولا تب بھی کوئی بات نہیں تمہارے لئے کوئی اور نوکری ڈھونڈ لیں گے۔ تم فکر نہ کرو اس دنیا میں شاید ہی کوئی بھوک سے مرتا ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان خالی پیٹ اٹھتا ضرور ہے لیکن بھوکا سوتا نہیں ہے۔ گومانگو کے الفاظ میں بلا اعتماد تھا۔ رابرٹ زندہ رہنے کا ایک نیا عزم لے کر اپنے گھر واپس آیا اور رات بھر دعا کرتا رہا لارسن کی ضمانت نہ ہو۔ صبح اس نے سوچا کہ وہ کس قدر خودغرض انسان ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 کرسپی

 

لارسن کو عدالت نے چوری کے الزام میں ایک سال کے لیے جیل بھجوا دیا رابرٹ کو ملازمت مل گئی۔ رابرٹ جب اپنے گھر سے جانے لگا تووہ جانتا تھا کہ اس کے باپ ڈینس کو اس کے گھر سے بھاگ جانے کا کوئی افسوس نہیں ہو گا لیکن ماں آخر ماں تھی۔ وہ اپنی ماں ٹنکو کے پاس آیا اور بولا ماں میں جا رہا ہوں۔ مجھے معاف کر دو۔ اب میں کبھی بھی آپ لوگوں کو رسوائی کا سبب نہیں بنوں گا۔ ٹنکو کی آنکھیں بھر آئیں اس کا کلیجہ کٹ گیا وہ بولی بیٹا تمہارے ڈیڈی بہت اصول پسند اور مذہبی انسان ہیں۔ ان کو تم سے بڑی توقعات وابستہ تھیں اس لئے وہ ناراض ہو گئے ہیں تم اس کا برا نہ ماننا۔

میں بھی چاہتی تھی کہ تم ویٹیکن میں جا کر تعلیم حاصل کرو لیکن شاید اب یہ ممکن نہیں ہو گا۔ اب میری تم سے یہی گزارش ہے کہ جہاں بھی رہو خوش رہو۔ نیک بنے رہو۔ چرچ سے جڑے رہو۔ یسوع مسیح کو مدر میری کو اور خدا کو یاد رکھو اور ہمیں نہ بھولنا۔ جاؤ گاڈ بلیس یو۔ رابرٹ آخری بار اپنی ماں سے لپٹ کر رویا اور ایک انجان ڈگر پر چل پڑا۔

گومانگو پھر ایک بار رابرٹ سے مل کر خوش ہوا اور ہدایت کی کہ لارسن کے متعلق وہ اس کے مالک کو صرف یہ بتائے کہ لارسن کو کسی ضروری کام سے اچانک اپنے آبائی وطن جانا پڑا اس لئے اس نے اپنی جگہ کام کرنے کے لیے مجھے بھیج دیا ہے۔ لارسن کی واپسی کے بعد وہ اس کام کو اس کے حوالے کر کے چلا جائے گا۔

رابرٹ نے پوچھا لیکن اگر وہ نہیں مانا تو؟

گومانگو ہنس کر بولا نہیں مانا تو نہیں مانا۔ تم لوٹ کر میرے پاس آ جانا ہم لوگ کوئی اور کام تلاش کریں گے۔ تمہیں تو یاد ہے میں نے کیا کہا تھا انسان…

جی ہاں رابرٹ بولا بھوکا …..

ٹھیک ہے آل دی بیسٹ۔

لارنس ایک بہت بڑے ٹاور میں چوکیداری کا کام کرتا تھا اور فاضل اوقات میں چوری چکاری بھی کرنے لگا تھا۔ اس بلڈنگ کی سو سائٹی کا سکریٹری کھوسلہ چوکیدار لارنس کے جانے سے پریشان تھا اس لئے کہ کل چار چوکیداروں میں سے ایک تو گزشتہ ماہ جا چکا تھا۔ تین لوگ مل جل کر چار آدمی کا کام کرتے تھے۔ اس سے پہلے کہ جانے والے چوکیدار کا متبادل ملتالارنس غائب ہو گیا تھا۔ اب دو لوگوں کے لیے چار آدمی کا کام ناممکن تھا۔

رابرٹ سے مل کر کھوسلہبہت خوش ہوا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ رابرٹ بھی فرگوسن کالج کا طالب علم رہ چکا ہے تووہ اور بھی خوش ہو گیا۔ کسی زمانے میں کھوسلہ خود بھی فرگوسن کے ہونہار طلباء میں سے ایک تھا۔ کھوسلہ نے لارنس سے خوش ہو کر اس کے ساتھ آنے والے ڈینی کو بھی ملازمت پر رکھ لیا اس طرح چار لوگوں کی خانہ پری ہو گئی۔

۴. منزلہ رایل مینشن کا شمار شہر کے اونچے ٹاورس میں ہوتا تھا اس میں شہر کے خوشحال لوگ رہتے تھے۔ کھوسلہ صرف نام کا ہندوستانی تھا۔ اس کے آباء و اجداد کینیا میں آن بسے تھے۔ وہ انگریزی کے علاوہ وہاں کی قبائلی زبان تک جانتا تھا لیکن ہندی، اردو یا پنجابی سے اس کا کوئی سروکار نہیں تھا۔ اس نے ایک نیگرو عورت سے شادی کر رکھی تھی مگر اس کو اپنی بیوی پر شک تھا۔ کھوسلہ نے رابرٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس کی بیوی پر اور اس سے ملنے جلنے والوں پر نگاہ رکھے اور اگر کوئی مشکوک بات دیکھے تو اس کے گوش گزار کرے۔

رابرٹ کے لیے یہ عجیب معمہ تھا۔ اس کا جی چاہا کہ کھوسلہ سے پوچھے اگر تجھے اپنی بیوی پر شک ہے تو اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتا؟ لیکن پھر اس نے سوچا کہ دوسروں کی ازدواجی زندگی میں دخل دینے کا اسے کیا حق ہے؟ گھوسلہ جانے اور اس کی بیوی جانے۔ چوکیداروں کے لیے عمارت کے تہہ خانے میں دو کمرے بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک ان کی آرام گاہ تھی اور دوسرے میں تمام کیمروں سے لگے مانیٹر نصب تھے اس لئے کھوسلہ کی بیوی پر نظر رکھنا رابرٹ کے لیے نہایت آسان تھا۔

رابرٹ اپنی ملازمت کو لے کر نہایت سنجیدہ ہو گیا تھا۔ وہ بڑی تندہی اور محنت سے اپنی ساری ذمہ داریاں ادا کرتا نیز کھوسلہ کے بہت سارے ذاتی کام مثلاً سودہ سلف لانا، اس کا سامان گاڑی سے گھر یا گھر سے گاڑی تک لے جانا وغیرہ بڑی خوشدلی کے ساتھ کرتا اس کے سبب اس نے بہت جلد کھوسلہ اور اس کی بیوی کرسپی کا اعتماد حاصل کر لیا تھا۔ رابرٹ ہفتے میں دو مرتبہ کھوسلہ کی گاڑی دھو دیا کرتا تھا جس کے لیے اس کو الگ سے انعام بھی ملتا تھا۔

وقت کے ساتھ رابرٹ کو یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ کرسپی کے ایک نوجوان نیگرو سے تعلقات ہیں اور وہ کبھی کبھار کھوسلہ کی غیر موجودگی میں اس سے ملنے بھی آتا ہے۔ رابرٹ نے سوچا کیوں نہ کھوسلہ کو اس کی خبر دینے سے قبل کرسپی سے بات کی جائے۔ ایک دن کرسپی بازار سے ہفتہ بھر کا سودہ لے کر واپس آئی۔ رابرٹ نے کرسپی کو ٹیکسی سے اترتے ہوئے دیکھا تو اس کی جانب لپکا۔

کرسپی سامان اتارنے لگی۔ رابرٹ نے اس کی مدد کی لیکن اسے حیرت ہوئی جب ادائیگی سے قبل ٹیکسی چل پڑی۔ رابرٹ نے ٹیکسی کو پھر دیکھا تو اس میں وہی نوجوان تھا۔ اب رابرٹ سامان سے لدا پھندا کھوسلہ کے فلیٹ کی جانب کرسپی کے ساتھ جا رہا تھا۔ گھر میں سامان رکھنے کے بعد کرسپی نے ایک تھیلے سے پیپسی کی ایک ٹھنڈی بوتل نکال کر رابرٹ کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا یہ تمہارے لئے ہے۔ آج گرمی بہت ہے۔

رابرٹ نے شکریہ کہہ کر بوتل کو لیتے ہوئے پوچھا میڈم اگر گستاخی معاف ہو تو ایک سوال پوچھوں۔ کرسپی بولی کیوں نہیں۔ تم ایسا کرو کہ یہاں صوفے پر بیٹھ کر پیپسی پیو اور جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو؟

رابرٹ نے موقع غنیمت جان کر سوال کر لیا کہ وہ نوجوان جو آپ کے ساتھ ٹیکسی میں آیا تھا …….کرسپی کے چہرے کا رنگ بدلتے ہوئے دیکھ کر رابرٹ نے بات بدلنے کی کوشش کی …….میرا مطلب ہے وہ اوپر نہیں آیا؟ نیچے ہی سے واپس چلا گیا …….۔

رابرٹ نے محسوس کر لیا تھا کہ تیر غلط نشانے پر جا لگا ہے اور اب اس کی نوکری خطرے میں ہے۔ کرسپی نے ہنس کر کہا رابرٹ تم اس بلڈنگ میں چوکیدار ہو یا جاسوس؟

رابرٹ اس غیر متوقع سوال کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس کو ایسا لگا جیسے وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ وہ بولا میڈم میں معافی چاہتا ہوں۔ مجھے ڈر تھا کہ آپ برا مان جائیں گی اسی لئے میں نے پہلے ہی …….۔

کرسپی بولی تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔

رابرٹ نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا میڈم بات در اصل یہ ہے کہ چوکیدار کا کام ہی آنے جانے والوں پر نگاہ رکھنا ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی اسے جاسوسی سمجھے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ ویسے میں پھر ایک بار…….

کرسپی بولی اس کی ضرورت نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تم اپنا کام بڑی خوش اسلوبی سے کرتے ہو اور اچھا کیا تم نے جو یہ سوال کر لیا۔

رابرٹ کے لیے اب چونکنے کا ایک اور موقع تھا۔ اس نے سوچا یہاں سے بھاگ لینے کا یہ اچھا موقع ہے۔ وہ بولا اچھا میڈم میں چلتا ہوں۔ مجھے اجازت دیجئے۔

کرسپی بولی اتنی جلدی؟ ابھی تو نہ تمہاری بوتل ختم ہوئی ہے اور نہ تمہیں اپنے سوال کا جواب ملا ہے اور تم ابھی سے چل دئیے؟

رابرٹ بولا جی ہاں میڈم یہ بھی درست ہے ویسے جواب دینا یا نہ دینا یہ تو آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔

کرسپی بولی وہ در اصل میرا دوست کنچیانگ ہے۔ میرے بچپن کا دوست۔

اچھا بہت خوب۔ جی ہاں میں نے ……….رابرٹ کو اپنی زبان کے پھسلنے کا احساس دیر سے ہوا لیکن وہ سنبھل گیا۔

کرسپی بولی تم نے اسے آتے جاتے دیکھا ہو گا۔ کرسپی نے ٹھنڈی آہ بھر کر اپنی بات جاری رکھی رابرٹ مجھے اس بات کا اھساس ہے کہ اس سے اب تعلقات منقطع کر لینا چاہئے۔ اس سے نہیں ملنا چاہئے لیکن میں کیا کروں؟ ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔

رابرٹ کے لیے یہ گتھی الجھتی جا رہی تھی۔ وہ بولا ٹھیک ہے میڈم یہ آپ دونوں کا اپنا معاملہ ہے مجھے اجازت دیجئے۔

کرسپی بولی دونوں کا ہوتا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا لیکن اب تو یہ ہم تینوں کا مسئلہ بن گیا ہے۔

رابرٹ نے چونک کر پوچھا تینوں کا؟ میں اس میں کہاں سے آ گیا؟

کرسپی ہنس کر بولی بے وقوف اس مثلث میں تیسرا تم نہیں بلکہ تمہارا صاحب کھوسلہ ہے۔

رابرٹ بولا جی ہاں یہ تو آپ دونوں کا ازدواجی مسئلہ اس میں کوئی اور کیا کر سکتا ہے

کرسپی بولی جی ہاں کوئی اور کچھ زیادہ تو نہیں کر سکتا لیکن مشورہ تو دے سکتا ہے۔ میں سوچتی رہی ہوں کہ اس بابت کسی ایسے انسان سے بات کروں جس کا ہم تینوں سے کوئی خاص تعلق نہ ہو اور جو بالکل غیر جانبداری کے ساتھ میری رہنمائی کر سکے۔ شاید تم ایک ایسے آدمی ہو جس کے سامنے یہ راز کھل چکا ہے اس لئے کیوں نہ تم سے ہی مشورہ کر لیا جائے۔

رابرٹ چونک کر بولا مجھ سے ……میں تو………

تم تو کیا؟ کرسپی نے پوچھا۔

رابرٹ بولا میں ایک معمولی چوکیدار اور نا تجربہ کار آدمی ہوں۔

کرسپی منہ بسور کر بولی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ویسے اگر تم نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں تم جا سکتے ہو۔

رابرٹ بولا جی نہیں ایسی بات نہیں آپ کہیے کیا پوچھنا چاہتی ہیں؟

کرسپی نے جواب دیا لیکن ایک وعدہ کرو یہ بات صرف تمہاری حد تک رہے گی۔ تم کسی اورسے اس کا ذکر نہیں کرو گے۔ کھوسلہ سے بھی نہیں۔

رابرٹ نے سرہلا کر تائید کی۔

کرسپی بولی در اصل بات یہ ہے کہ کنچیاگ میرا بچپن کا دوست ہے۔ ہم لوگوں نے ایک ساتھ اسکول کی تعلیم حاصل کی۔ کالج میں ہم لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ تعلیم ختم کرتے ہی بیاہ رچا لیں گے لیکن پھر یہ ہوا کہ ہمارے درمیان چند معمولی باتوں پر اختلاف ہو گیا اور ہم لوگوں نے جذبات میں آ کر ایک دوسرے سے قطع تعلق کر لیا۔ اس وقت میں بہت زیادہ مایوسی و نا امیدی کا شکار تھی لیکن اتفاق سے مجھے کھوسلہ کے ادارے میں ملازمت مل گئی۔ کھوسلہ نے میری دلجوئی کی اور میرے زخموں پر مرہم رکھا اور شادی کی پیشکش کر دی۔ میں نے کنچیانگ کو سبق سکھانے کی خاطر غصے کی حالت میں کھوسلہ سے نکاح کر لیا۔

ہم لوگوں کی ازدواجی زندگی دو تین سال اچھی گذری مگر پھر کنچیانگ سے میری ملاقات ہو گئی۔ اس عرصے میں ہم لوگوں کا لڑکپن گزر چکا تھا ہم لوگ بالغ نظر ہو چکے تھے۔ ہم دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ ماضی کی بھول چوک کا کفارہ ادا کریں لیکن کنچیانگ کی غربت اور کھوسلہ کی خوشحالی ہمارے راستے کی رکاوٹ بن گئی۔

رابرٹ نے کہا میں نہیں سمجھا؟

کرسپی بولی کھوسلہ سے شادی کے بعد میں نے ملازمت چھوڑ دی اور اس کے گھر کی مالکن بن گئی تھی۔ ان تین سالوں میں بڑی حد تک میں عیش و عشرت کی عادی ہو چکی تھی۔ کنچیانگ ایک نہایت ہی معمولی نوکری کر رہا ہے دوسرے کی ٹیکسی چلاتا ہے اور وہیں جھگی جھونپڑی میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا۔ میرے لئے دوبارہ لوٹ کر اس دنیا میں جانا بے حد مشکل ہے اس کے باوجود میں نے کنچیانگ کی خاطر کھوسلہ سے طلاق لینے کا فیصلہ کر لیا۔

رابرٹ نے پوچھا یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔

کرسپی بولی جی ہاں لیکن پھر کنچیانگ نے خود مجھے منع کر دیا۔

کنچیانگ نے منع کر دیا؟ رابرٹ نے حیرت سے سوال کیا۔

کرسپی بولی جی ہاں۔ اب وہ دولت کی ہوس کا شکار ہو گیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ کھوسلہ جلد ہی مر جائے گا۔ اس صورت میں اس کی تمام جائیداد کی مالک تم بن جاؤ گی کرسپی۔ اس کے بعد ہم دونوں ساری عمر عیش کریں گے بصورتِ دیگر اگر اس کو ان کے تعلقات کا علم ہو جائے اور وہ خود طلاق دینے کا فیصلہ کرے تو کرسپی اس سے ایک بڑی رقم عدالت کے توسط سے وصول کر سکے گی۔ ہر دو صورت میں کرسپی اور کنچیانگ فائدے میں رہیں گے اس لئے اسے کھوسلہ سے تعلق نہیں توڑنا چاہئے۔

رابرٹ کے لیے یہ معاملہ مزید الجھ گیا تھا اس نے پوچھا تو اب مسئلہ کیا ہے؟

کرسپی بولی مجھے یہ سب غلط لگتا ہے۔ میں اس تعلق کو ناجائز سمجھتی ہوں اور احساسِ جرم کا شکار رہتی ہوں۔

رابرٹ بولا تو پھر تم کنچیانگ سے قطع تعلق کر لو نہ رہے بانس نہ بجے بانسر ی۔ ماضی کو بھول جاؤ اور کھوسلہ کے ساتھ اپنا مستقبل سجاؤ۔

کرسپی نے ٹھنڈی آہ بھر کے کہا جی ہاں رابرٹ مجھے بھی یہی لگتا ہے۔ تمہاری بات درست ہے لیکن کاش کہ یہ اس قدر آسان ہوتا۔ میں نے بہت کوشش کی کنچیانگ سے صاف صاف کہہ دوں کہ وہ مجھے بھول جائے لیکن ایسا نہ کر سکی۔

کیوں ……..؟ رابرٹ نے پوچھا۔

اس لئے کہ میں خود اسے بھول نہیں سکتی۔ وہ میرے اعصاب پر سوار ہے۔ میں کیا کروں میری سمجھ میں نہیں آتا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں پاگل ہو جاؤں گی اور شاید کھوسلہ کو بھی مجھ پر شک ہونے لگا ہے۔

یہ خبر رابرٹ کے لیے نئی نہیں تھی پھر بھی اس نے سوال کیا کیوں؟

کرسپی بولی مجھے نہیں پتہ شاید میرے رویہ میں کو ئی ایسی تبدیلی واقع ہوئی ہو۔ میں نہیں جانتی۔

رابرٹ نے جھوٹ کہا جی نہیں مجھے ایسا نہیں لگتا۔

کرسپی بولی رابرٹ کاش کہ ایسا ہی ہو لیکن خیر…. میں تمہیں پریشان کرنے کے لیے معذرت چاہتی ہوں۔ در اصل میرے سینے پر ایک بوجھ تھا جو تم سے بات کرنے کے بعد ہلکا ہو گیا اور مجھے احساس ہوا کہ جو میں سوچتی ہوں وہی درست ہے اور کنچیانگ کی سوچ غلط ہے۔

رابرٹ نے تائید کی اور کہا جی ہاں میڈم۔ آپ نے مجھے اپنا ہمراز بنایا یہ میری عزت افزائی ہے۔ آپ مجھے اپنا چھوٹا بھائی سمجھیں اور اگر کسی بھی مرحلے میں میری مدد درکار ہو تو بلا تکلف یاد فرمائیں۔

کرسپی کو ایسا محسوس ہوا کہ گویا وہ اپنے کسی دیرینہ غمخوار سے بات کر رہی ہے۔ اس کی آنکھیں نم تھیں وہ بولی شکریہ رابرٹ تم میرے لئے دعا کرو۔ شاید کہ تمہاری دعائیں میرے مسائل کا حل بن جائیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

گومانگو

 

رابرٹ نے ایک دن دیکھا کہ کچھ لوگ بہت سارا سازو سامان لے کر اتر رہے ہیں۔ رابرٹ نے پوچھا کیا معاملہ ہے تو ان لوگوں نے بتلایا کہ انہیں اس عمارت میں کیمرے لگانے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔

رابرٹ نے کہا کیمرے تو پہلے ہی لگے ہوئے ہیں یہ نئے کیمرے کیا کریں گے؟

ان لوگوں نے بتایا ان دوچار کیمروں سے کیا ہوتا ہے وہ تو بس دل بہلانے کے لیے لگائے گئے تھے۔ اب ہر منزل پر یہ کیمرے لگیں گے اور صحیح معنیٰ میں نگرانی کریں گے۔

اس جواب نے رابرٹ کو چونکا دیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا گویا اس کی سوتن آ گئی ہے۔ بہت جلد ہی اس کی چھٹی ہو جائے گی۔ رابرٹ نے کہا اچھا تو ہم لوگ کیا کریں گے؟

آپ لوگ کیمروں کی نگرانی کریں گے۔ کیمروں کی نگرانی؟ ؟ ؟ رابرٹ نے پوچھا بات سمجھ میں نہیں آئی۔ کیمرہ لگانے والے افسر نے قہقہہ لگا کر کہا بھئی کیمرہ صرف دیکھ سکتا ہے اور ہمارا کمپیوٹر انہیں محفوظ کر سکتا ہے حسبِ ضرورت دکھلا بھی سکتا ہے لیکن آخر ان تصاویر کو دیکھ کر اس پر اقدام کون کرے گا؟ آپ لوگ کریں گے۔

رابرٹ نے پوچھا وہ مانیٹر تو ہمارے پاس لگا ہوا ہے یہ کمپیوٹر درمیان میں کہاں سے آ گیا؟

وہ افسر بولا کمپیوٹر کے بغیر تو کیمرے بیکار ہیں۔

رابرٹ نے کہا لیکن ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ ہمارے بغیر……..

جی ہاں وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ آپ لوگوں کے بغیر کمپیوٹر بیکار ہے۔

رابرٹ کی سمجھ میں یہ بھول بھلیوں کا کھیل نہیں آیا۔ اس نے ایک اور سوال کر دیا۔ اچھا تو یہ کیمرے کہاں لگیں گے؟

وہ افسر بولا میں ابھی بتا چکا ہوں ہر منزل پر دو کیمرے لگائے جائیں گے مگر بیسویں منزل پر چار عدد کیمرے لگیں گے۔

رابرٹ نے کہا وہ کیوں؟

وہ افسر بولا تم سوال بہت کرتے ہو۔ ہمیں اس سے کیا مطلب۔ کھوسلہ صاحب اس عمارت کی سوسائٹی کے سکریٹری ہیں۔ انہوں نے جو حکم دیا ہم اس پر عمل درآمد کرتے ہیں اگر وہ کہتے کہ بیسویں پر سرے سے کیمرہ ہی نہ لگے تو ہم ایک نہ لگاتے۔

رابرٹ کو خیال آیا بیسویں منزل پر خود کھوسلہ کا گھونسلہ ہے۔ اس نے کہا اگر آپ برا نہ مانیں تومیں ایک آخری سوال کرنا چاہتا ہوں۔

ٹھیک ہے پوچھو۔

وہ کمپیوٹر کہاں لگے گا؟ رابرٹ بولا

زیر زمین تمہارے کمرے کے بغل میں جو کوڑے کباڑے والا کمرہ ہے ناجس میں پرانا مانیٹر لگا ہے اسی کو صاف کر کے اس میں کمپیوٹر اور اس کے ساتھ نئے مانیٹرس نصب کئے جائیں گے۔

رابرٹ یہ سن کر چونک پڑا۔ اس نے سوال کیا لیکن وہ تو نہایت محفوظ جگہ ہے، کوئی خطرہ نہیں ہے وہاں اس کی ضرورت؟

افسر بولا اسی لئے تو وہاں کمپیوٹر لگایا جا رہا ہے تاکہ تم وہاں بیٹھے تمام منزلوں کی نگرانی کیا کرو۔ ان کیمروں سے نہ صرف تصاویر نشر ہوتی ہیں بلکہ وہ کمپیوٹر کی یادداشت میں محفوظ بھی ہو جاتی ہیں۔

محفوظ !!!وہ کس لئے؟ رابرٹ نے پوچھا

اس لئے کہ بعد میں اسے دوبارہ دیکھا جا سکے بلکہ عدالت میں بھی ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکے۔

رابرٹ کو یہ سب سن کر ڈر سا لگ رہا تھا لیکن جب سارا نظام لگا دیا گیا اور کام کرنے لگا تو اسے پتہ چلا یہ تو بہت بڑی سہولت کا سامان ہو گیا ہے۔ وہ ایک کمرے میں بیٹھے بیٹھے اس عمارت کی ہر منزل کو دیکھ سکتا ہے بلکہ وہ لفٹ کے اندر لگے کیمرے سے بھی دلچسپ نظارے دیکھا کرتا تھا۔ اس کا ایک پسندیدہ مشغلہ کیمرے کی ان تصاویر کو دیکھنا یا پرانی تصاویر کو دیکھنا بن گیا تھا۔ بیسویں منزل پر لگے چار کیمروں کی اہمیت بھی اچھی طرح سمجھ چکا تھا لیکن کرسپی کے ساتھ قائم ہونے والے بہن کے رشتے نے اس کی زبان پر لگام رکھی تھی۔

ان کیمروں کی مدد سے رابرٹ اور اس کے ساتھیوں نے کئی چوروں کو بھی رنگے ہاتھوں پکڑنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ جب سے اخبارات اور ٹیلی ویژن پر یہ خبر نشر ہونے لگی تھی کہ رایل ٹاور کے چوروں کو کیمرے کی مدد سے پکڑا گیا تو چور بھی ہوشیار و محتاط ہو گئے تھے۔ ایک دن رابرٹ نے دیکھا کہ دسویں منزل پر ایک خاتون اپنا دروازہ کھولنے کی جد و جہد کر رہی ہے لیکن اس سے دروازہ کھل نہیں رہا۔ رابرٹ نے سوچا ممکن ہے وہ غلط چابی آزما رہی ہو لیکن اس کو بتانے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ وہ خاتون پریشان ہو رہی تھی اور رابرٹ اس کی پریشانی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔

رابرٹ نے دیکھا کہ اس نے دوبارہ اپنے بٹوے میں ہاتھ ڈالا اور اسے نیچے رکھ کر چابیوں کا ایک اور گچھا نکال کر اس سے قسمت آزمائی کرنے لگی اور اس بار اسے کامیابی نصیب ہو گئی۔ جیسے ہی دروازہ کھلا وہ فوراً اپنے ساتھ لائے ہوئے جھولے کو اٹھا کر اندر داخل ہو گئی لیکن بٹوہ ہنوز دروازے کے باہر ہی تھا۔ اس لمحہ رابرٹ کی نیت خراب ہو گئی۔ اس نے سوچا اگر وہ اس بٹوے کو غائب کر لے تو کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔

رابرٹ اپنے کمرے سے نکل لفٹ میں چلا آیا اوپر جاتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس کی تصویر کیمرے میں آ جائے تو وہ کیا کرے گا؟ اس کو ایک ترکیب سوجھی۔ وہ پانچویں منزل پر اتر کر باہر آیا اور زینے کے پاس پڑے ہوئے لمبے سے ڈنڈے کو ساتھ لے لیا۔ دسویں منزل پر وہ بیٹھ کر باہر نکلا تاکہ کیمرے کی آنکھ اسے دیکھ نہ سکے۔ کیمرے کی نظر سے دور جانے بعد اس نے ڈنڈے کی مدد بٹوے کو ایک جانب سرکایا اور اٹھا کر زینے سے نیچے اترنے لگا۔

پانچویں منزل ہر پہنچنے کے بعد اس نے ڈنڈے کو اپنی جگہ رکھ دیا۔ رابرٹ کی یہ پہلی چوری تھی۔ وہ خاصہ گھبرایا ہوا تھا۔ نیچے کمرے میں آنے کے بعد اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ دوا خانے جا رہا ہے مگر باہر آ کر ٹیکسی میں بیٹھا اور گومانگو کی جانب چل پڑا۔ راستے میں اس نے بٹوہ کھول کر دیکھا تو اس میں اچھی خاصی رقم اور زیورات بھی تھے۔ رابرٹ کو پہلی ہی بار میں بہت بڑی کامیابی ملی تھی۔

گومانگو نے جب رابرٹ کو دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ وہ بولا بھئی رابرٹ زہے نصیب بڑے دنوں بعد یاد کیا میں تو سمجھا تھا کہ تم مجھے بھول ہی گئے ہو۔

رابرٹ بولا گومانگو میں تمہیں زندگی بھر نہیں بھول سکتا اس لئے کہ تم نے ایک ایسے موڑ پر مجھے سہارا دیا جب میں بالکل تنہا ہو گیا تھا۔

گومانگو نے مسکرا کر رابرٹ کی جانب دیکھا اور سوال کیا اور کہو کوئی خاص بات؟

رابرٹ نے بغیر کچھ کہے بٹوہ گومانگو کی جانب بڑھا دیا۔

گومانگو نے جیسے ہی اسے دیکھا اس کا چہرہ کھِل اٹھا۔ وہ بولا بہت خوب میرے شیر دیر آید درست آید۔ دیکھو آج سے پہلے تک تم سے صرف شناسائی کا رشتہ تھا لیکن اب تم ہمارے خاندان کے ایک فرد ہو گئے ہو۔ اب ہم لوگ تم پر اعتماد کر سکتے ہیں۔

رابرٹ نے پوچھا اب کیوں؟

گومانگو بولا اس لئے کہ تم نے ہم پر اعتماد کیا ہے۔

رابرٹ بولا سردار یہ آپ کا ہے۔

گومانگو نے کہا نہیں رابرٹ ہمارا یہ اصول ہے کہ جو بھی کوئی لاتا ہے نصف نصف تقسیم ہو جاتا ہے۔

نصف؟ ؟ ؟ رابرٹ نے سوال کیا۔

جی ہاں رابرٹ یہ جو نصف رقم تم یہاں جمع کرتے ہو اس سے ہمارے اس اڈے کی اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب بھی ہمارا کوئی ممبر گرفتار ہو جاتا ہے تو اس کو چھڑانے میں بھی رقم خرچ ہوتی ہے بلکہ اس کے گھر والوں کو اس میں خرچ بھی دیا جاتا ہے یوں سمجھ لو کہ ہم اپنے خاندان کے لوگوں کی اسی طرح دیکھ بھال کرتے ہیں جیسے کہ دیگر خونی رشتے دار کرتے ہیں بلکہ ان سے زیادہ۔

رابرٹ کو اس موقع پر پولس اور پکڑے جانے کا ذکر اچھا نہیں لگا۔ وہ بولا گومانگو میں نے خوب احتیاط برتا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ گرفتاری کا کوئی امکان ہے۔

گومانگو بولا بھائی تم پڑھے لکھے نوجوان ہو مجھے تم سے ایسی ہی توقع ہے۔ اس نئے سفر پر میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ کہہ کر گومانگو نے پاس پڑے مٹھائی کے ڈبے سے ایک لڈو نما مٹھائی رابرٹ کی جانب بڑھائی اور خوب حوصلہ افزائی کر کے رخصت کیا۔ رابرٹ واپس آتے ہوئے بہت خوش تھا۔ اس کے سارے اندیشے اور خوف کی کیفیت رفع ہو چکی تھی۔

رابرٹ جب واپس آیا تو پولس آ چکی تھی اور چھان بین کا کام شروع ہو چکا تھا۔ رایل مینشن چونکہ شہر کی اہم عمارت تھی اور اس میں بارسوخ لوگ رہتے اس لئے پولس والے اس بابت کافی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ پولس والوں میں سے ایک کام چوری کے دورانیہ کی ویڈیو دیکھنا تھا۔ پولس افسر نے دیکھا کہ چور خاصہ ہوشیار ہے۔ اس نے اپنے آپ کو کیمرے کی نظر پوری طرح پوشیدہ رکھا ہے لیکن جو ڈنڈا بٹوے کو سرکانے کے لیے استعمال ہوا تھا وہ اس کی آنکھوں میں کھب گیا۔ اس افسر ایک سپاہی کو وہ تصاویر پھر سے دکھلائیں اور حکم دیا کہ اسے تلاش کیا جائے۔ اسی کے ساتھ یہ ہدایت بھی کہ اس پر جو انگلیوں کے نشان ہوں گے انہیں ضائع نہ ہونے دیا جائے۔

یہ الفاظ رابرٹ پر بجلی بن کر گرے۔ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اس نے یکبارگی سوچا کہ فرار کا راستہ اختیار کر لے لیکن یہ بھی شکوک شبہات کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس نے سوچا کہ ممکن ہے اس کی انگلیوں کے نشان ہی نہ لئے جائیں اس لئے وہ دل کڑا کر کے بیٹھا رہا۔ رابرٹ کے سارے اندازے غلط نکلے۔ پولس نے نہ صرف پانچویں منزل سے ڈنڈا برآمد کیا بلکہ تمام چوکیداروں کی انگلیوں کے نشان بھی لے لئے اور رابرٹ اپنی پہلی ہی چوری میں رنگے ہاتھ گرفتار ہو گیا۔

رابرٹ دوسری بار جیل جا رہا تھا لیکن اس کی کیفیت میں بہت بڑا فرق تھا۔ اس بار اس کے دل میں ذرہ برابر خوف نہیں تھا۔ اسے یقین تھا کہ گومانگو اس کا پورا خیال رکھے گا اور اسے جلد از جلد چھڑانے کی کوشش کرے گا۔ پولس والے ویسے ہی گومانگو کے کاروبار میں شریک کار تھے۔ جب ان کو پتہ چلا کہ رابرٹ اس کا آدمی ہے تو اس کے ساتھ نہ صرف پولس بلکہ جیل کے افسران کا رویہ بھی بدلا ہوا تھا۔ جیل کے اندر پہلے ہی سے گومانگو کے کئی آدمی مختلف قسم کی سزا کاٹ رہے تھے۔ ان سب نے رابرٹ کا استقبال کیا اور اس کی تمام سہولتوں کا اہتمام کر دیا گیا۔

رابرٹ کا شمار اب جیل کے وی آئی پی قیدیوں میں ہوتا تھا۔ دو چار پیشی کے بعد اس کا مقدمہ کمزور کر دیا گیا اور ۶ ماہ کے بعد رابرٹ با عزت بری ہو گیا لیکن جب وہ باہر آیا تو پولس کا خوف اس کے دل سے ہوا ہو چکا تھا۔ کئی بدعنوان پولس والوں سے اس نے مراسم استوار کر لئے تھے۔ ان لوگوں نے اس کو اپنے ہر تعاون کا یقین دلایا تھا۔ رابرٹ کے حوصلے بلند تھے ۔ پہلی بار اس کے دل میں اپنے کالج کے دشمنوں سے بدلہ لینے کا خیال آیا تھا اور اس ارادے نے رابرٹ کے لیے زیر زمین دنیا کے دروازے کھول دئیے تھے۔ رابرٹ نے ایک نئی دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنے عزمِ مصمم کر لیا تھا۔

رابرٹ کو پتہ تھا کہ اب رایل مینشن کے دروازے اس پر ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے ہیں۔ اپنے گزارے کی خاطر وہ اخبار میں دیکھ کر چوکیداری کی خالی جگہوں پر درخواست دینے لگا۔ قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ وہ جس بلڈنگ میں اپنا تیسرا انٹرویو دینے کے لیے پہنچا تو وہاں کھوسلہ کو بیٹھا ہوا پایا۔ یہ کھوسلہ کے دفتر کی عمارت تھی۔ کھوسلہ کو دیکھتے ہی اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔

رابرٹ کو کھوسلہ سے نظر نہیں ملا پا رہا تھا لیکن کھوسلہ نے اس سے کچھ پوچھے بغیر کہا اوہو رابرٹ تم سے کیا پوچھنا تم ایسا کرو باہر استقبالیہ میں انتظار کرو میں تمہارا خط بنوا کر بھیجتا ہوں۔ رابرٹ کو ایسا لگا کہ وہ اس کا تمسخر اڑا رہا لیکن جب وہ استقبالیہ کے پاس سے ہو کر باہر آنے لگا تو وہاں بیٹھی ہوئی خاتون نے اس سے سوال کیا۔ رابرٹ آپ ہی ہیں؟

رابرٹ نے سر ہلا کر تائید کی۔ وہ بولی آپ کیا پینا پسند کریں گے؟

میں؟ ؟ ؟ کچھ نہیں مجھے جانا ہے۔ میں ذرا جلدی میں ہوں آپ کا شکریہ۔

استقبالیہ پر بیٹھی خاتون بولی آپ کا خط تیار ہونے میں پانچ دس منٹ لگے گا آپ چائے پئیں تب تک وہ آ جائے گا ویسے میری جانب سے پیشگی مبارکباد۔

رابرٹ کو ایک کے بعد ایک حیرت کے جھٹکے لگ رہے تھے۔ وہ بولا ٹھیک ہے اور ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ پانچ منٹ بعد چائے آ گئی اور دس منٹ بعد ملازمت کا مژدہ۔ رابرٹ کو ایسا لگا گویا وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ رابرٹ کی ڈیوٹی کے اوقات بدلتے رہتے تھے کبھی وہ کھوسلہ کو دفتر آتے ہوئے سلام کرتا تھا تو کبھی دفتر سے جاتے ہوئے۔ ایک دن شام کو اس نے دیکھا کہ کھوسلہ کی گاڑی باہر آ رہی ہے۔ وہ سیدھا کھڑا ہو گیا۔ اس کے ساتھ ایک اور چوکیدار ڈیوٹی پر تھا۔ کھوسلہ نے دوسرے چوکیدار سے کہا میں اسے ایک کام سے اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔ وہ چوکیدار مسکرا کر بولا جی سرکار۔

کھوسلہ رابرٹ کو اپنے ساتھ شہر سے دور ایک ویران شراب خانے میں لے گیا۔ اس بار کے ما حول میں عجیب قسم کی نحوست پھیلی ہوئی تھی۔ رابرٹ نے پوچھا جناب آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟

کھوسلہ بولا کیا مجھے یہ بتانا پڑے گا کہ لوگ شراب خانے میں کیوں جاتے ہیں؟

رابرٹ بولا وہ تو مجھے پتہ ہے لیکن میں ………

کھوسلہ نے پوچھا تم تو بڑے بڑے کام کرتے ہو! شراب نہیں پیتے۔

رابرٹ بولا ویسے کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ دوچار پیگ لے لیتا ہوں لیکن باقاعدہ…….

کھوسلہ بولا بے قائدہ سہی۔

رابرٹ بولا وہ در اصل بات یہ ہے شراب پینے کے بعد میں اپنے قابو سے باہر ہو جاتا ہوں اس لئے بہتر ہے کہ …….

کھوسلہ بولا بئیر پی لو۔ وہ شراب کی چھوٹی بہن ہے اس میں مزہ تو شراب کا ہوتا لیکن نشہ نہیں ہوتا۔

رابرٹ نے کہا ٹھیک ہے۔

کھوسلہ بولا لیکن اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو میں وہسکی لے سکتا ہوں؟

رابرٹ بولا آپ کیسی باتیں کرتے ہیں جناب۔ میں کون ہوتا ہوں اعتراض کرنے والا؟ آپ کے مجھ پر بے شمار احسانات ہیں۔

کھوسلہ نے اس بیچ ایک بئیر کی بوتل اور وہسکی کا آرڈر دے دیا اور بولا رابرٹ مجھے خوشی ہے کہ تمہیں میرے احسانات یاد ہیں لیکن اس کے جواب میں تم نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟

رابرٹ بے حد شرمندہ ہو گیا۔ وہ بولا جی ہاں جناب مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا وہ چوری! نہ جانے شیطان مجھ پر کس طرح غالب ہو گیا تھا لیکن میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں پھر اس طرح کی غلطی کبھی نہیں دوہراؤں گا۔

کھوسلہ نے پوچھا تم کس غلطی بات کر رہے ہو رابرٹ؟

وہی چوری؟ اور کون سی غلطی۔

کھوسلہ نے قہقہہ لگا کر کہا اوہو اس معمولی سی چوری کو بھول جاؤ۔ وہ چوری میری گھر میں تھوڑے ہی تھی اور پھر تمہیں اس کی سزا بھی مل گئی اب وہ داغ تمہارے دامن سے پوری طرح دھُل گیا ہے لیکن میں نے تمہیں ایک اور کام دیا تھا ۔

ایک اور کام؟ میں نہیں سمجھا۔

کھوسلہ بولا میں نے تمہیں کرسپی پر نگرانی کرنے کا کام سونپا تھا۔ تمہاری گرفتاری کے بات میں نے بیسویں منزل کی ویڈیو ریکارڈنگ دیکھی تو پتہ چلا اس بدمعاش کنچیانگ کا میرے گھر پر آنا جانا لگا رہا تم نے ہدایت کے باوجود مجھے اس کی خبر نہیں دی بلکہ میں نے تمہیں بھی کئی بار اپنے گھر میں آتے جاتے دیکھا؟ وہ کیا معاملہ تھا۔

رابرٹ بولا جی ہاں جناب میں اس بابت بے حد شرمندہ ہوں۔ میں نے در اصل آپ کی بیوی کرسپی کو اپنی بہن مان لیا تھا اور اس نے مجھے اپنا بھائی۔ میں اس کا خیرخواہ بن گیا تھا میں اسے سمجھاتا تھا کہ وہ کنچیانگ سے اپنے تعلقات منقطع کر لے۔ میں اس کی ازدواجی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں اسے اصلاح کا موقع دینا چاہتا تھا مجھے یقین تھا کہ وہ اس گناہ کے دلدل سے جلد ہی نکل آئے گی اسی لئے میں نے آپ کو کنچیانگ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ آپ اس بابت کرسپی سے پوچھ سکتے ہیں۔ اگر وہ انکار کرے تو آپ میرا سر قلم کر دیں۔

کھوسلہ بولا اس کی ضرورت نہیں۔ میں نے کرسپی سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بھی وہی باتیں کہیں جو تم کہہ رہے ہو۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم دونوں کے درمیان بھائی بہن کا مقدس رشتہ ہے لیکن رابرٹ تمہاری بہن میرا مطلب ہے منہ بولی بہن کرسپی نے میرے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیا ہے اور میں اسے سزا دینا چاہتا ہوں۔

رابرٹ یہ سن کر تذبذب کا شکار ہو گیا اس لئے کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کرسپی کا بال بیکا ہو۔ وہ بولا دیکھئے جناب کرسپی پہلے آپ کی بیوی ہے پھر میری بہن ہے۔ آپ اس کے ساتھ جو بھی معاملہ کریں یہ آپ دنوں کے آپس کا معاملہ ہے۔ پھر بھی میری آپ سے گزارش یہ ہے کہ آپ اسے معاف کر دیں وہ آج نہیں تو کل ضرورسدھر جائے گی۔

کھوسلہ نے کہا رابرٹ میں بھی ایک عرصے تک وہی سوچتا رہا جو تم سوچ رہے ہو لیکن اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے۔ اب میں نے اسے سزا دینے کا مصممّ ارادہ کر لیا ہے۔ اب تمہیں فیصلہ کرنا ہے کہ تم اس بابت میرا تعاون کرو گے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کوئی بات نہیں میں کسی اور کی مدد سے اس کام کو کروں گا لیکن اب یہ ہو کر رہے گا کیا سمجھے۔ کھوسلہ کی آواز میں بلا کا اعتماد تھا۔

رابرٹ بولا لیکن جناب میں کیا کر سکتا ہوں؟

کھوسلہ بولا دیکھو یہ کام تمہارے لئے جس قدر سہل ہے کسی اور کے لیے نہیں۔ تمہیں کرسپی کا اعتماد حاصل ہے۔ اب تم رایل مینشن میں ملازم بھی نہیں ہو۔ بس ایک منصوبے کے تحت اس کے پاس جا کر اس کا قتل کر دو۔

رابرٹ نے جب قتل کی بات سنی تو وہ تھر تھر کانپنے لگا۔ رابرٹ بولا جناب میں نے ایک معمولی سی چوری کی اور پکڑا گیا اب آپ مجھ سے قتل کروا رہے ہیں۔ یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔

کھوسلہ بولا دیکھو رابرٹ تم اس لئے نہیں پکڑے گئے کہ تم نے معمولی سی چوری کی تھی بلکہ اس لئے پکڑے گئے کہ تمہارے منصوبے میں ایک بہت بڑا نقص تھا۔ تم اگر وہ ڈنڈا دوبارہ پانچویں منزل پر رکھنے کی غلطی نہیں کرتے تو پولس کے فرشتوں کو بھی اس کی خبر نہیں ہوتی۔ میرے پاس ایک ایسا منصوبہ ہے کہ جس سے سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ رابرٹ کا گلا سوکھ رہا تھا اس نے بئیر کی ایک اور بوتل منگوائی اور کھوسلہ نے وہسکی کا ایک اور پیگ منگوایا۔

کھوسلہ رابرٹ کو اپنا منصوبہ بتلانے لگا۔ وہ بولا دیکھو رابرٹ کل تم اس ملازمت سے استعفیٰ دے دینا اس طرح تم سے میرا رابطہ ختم ہو جائے گا۔ میری کمپنی کی ایک شاخ صومالیہ کی راجدھانی موگا ڈیشو میں ہے۔ میں اگلے ہفتے اپنے گھر کی ایک چابی اور موگا دیشو کا ٹکٹ تمہیں دے کر اچانک وہاں چلا جاؤں گا۔ میرے جانے کے دو دن بعد تم کرسپی کو موت کے گھاٹ اتار کر وہاں آ جانا۔ میں تمہیں اپنے دفتر میں ملازم رکھ کر واپس آ جاؤں گا۔ کسی کو نہ تم پر شک ہو گا نہ مجھ پر۔

رابرٹ بولا بہت خوب۔

کھوسلہ نے اپنا سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد تم جب تک چا ہو ادھر میرے دفتر میں کام کرو اور جب چا ہو کوئی اور ملازمت تلاش کر کے اس سے جڑ جاؤ لیکن یاد رکھو اس کام کے میں تمہیں ایک لاکھ کینیائی روپئے مزید دوں گا۔ اب تمہاری مرضی اگر تم اس کام کو نہیں کرتے تو یہی رقم میں کسی اور کو دے کر اس سے یہ کام کروا لوں گا۔ کل اگر مجھے تمہارا استعفیٰ مل گیا تو میں سمجھوں گا کہ تمہیں میری پیشکش منظور ہے اور اگر نہیں تو اس گفتگو کو اپنے ذہن کے نہاں خانے سے ہمیشہ کے لیے نکال دینا ۔

٭٭٭

 

 

 

 

کھوسلہ

 

درمیانِ شب بڑی آہستگی کے ساتھ رابرٹ نے کھوسلہ کے فلیٹ کا دروازہ کھولا لیکن اس کے باوجود کرسپی کی آنکھ کھل گئی۔ چہار جانب گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ کرسپی بولی کون؟ کنچیانگ ! کنچیانگ تم کہاں مر گئے تھے؟ میں کل شام سے تمہیں فون کر رہی ہوں۔ وہ کھوسلہ بھی اچانک بنا بتائے بیرونِ ملک چلا گیا اور تم نے اپنا فون بند کر دیا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ تمہیں کیسے پتہ چل گیا کہ وہ باہر گیا ہوا ہے۔ آؤ میرے پاس آؤ۔ کرسپی کے جاگنے سے رابرٹ کا سارا منصوبہ خاک مل گیا تھا۔ وہ تو نیند کے اندر اسے موت کے گھاٹ اتار کر نکل جانا چاہتا تھا لیکن اب اس جاگتی ہوئی کرسپی کا کیا جائے اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی متبادل اقدام کرتا کرسپی نے بجلی کا بٹن دبا دیا اور کمرہ جگ مگ کرنے لگا۔

کرسپی نے جب رابرٹ کو دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ وہ بولی رابرٹ تم؟ ؟ ؟ اتنی رات گئے چوروں کی طرح اپنی بہن کے گھر میں؟ لگتا ہے تم پیشہ ور چور بن گئے ہو لیکن پھر بھی تمہیں چوری کرنے کے لیے اپنی بہن کا گھر ملا۔ یہ کہہ کر کرسپی رونے لگی۔ وہ روئے جا رہی تھی اور بولے جا رہی تھی رابرٹ میرے بھائی رابرٹ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔ میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ تم اس طرح اپنی بہن کے گھر میں چوروں کی مانند ………..کرسپی دہاڑیں مار مار کر رونے لگی۔

رابرٹ کا دماغ شل ہو گیا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کرسپی کا کیا کرے؟ لیکن اس کو قتل کرنے کا خیال رابرٹ کے ذہن سے محو ہو گیا تھا وہ اپنی اس بہن کو ہرگز ہر گز قتل نہیں کر سکتا تھا۔ کرسپی بار بار اس سے یہ سوال کر رہی تھی کہ اس نے یہ چوری کا منصوبہ کیوں بنایا۔ اگر اس کو ئی چیز چاہئے تھی تو وہ اس سے مانگ لیتا۔ برضا و رغبت وہ اسے دے دیتی لیکن چوری!!! کرسپی روئے جا رہی تھی اور پوچھے جا رہی تھی کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ ؟ ؟

رابرٹ بولا دیکھو بہن میں کھوسلہ کو سبق سکھلانا چاہتا تھا۔ میں چوری کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کو قتل کرنے کے لیے آیا تھا۔ یہ دیکھو میرے پاس پستول ہے لیکن مجھے تمہاری بات سے ابھی پتہ چلا کہ وہ گھر میں نہیں ہے۔ رابرٹ نے بڑی چالاکی سے بات بدل دی تھی۔

کرسپی نے جب یہ سنا تو اس کا غصہ ہوا ہو گیا۔ وہ خوش ہو کر بولی تم واقعی کھوسلہ کو قتل کرنے کے لیے آئے تھے؟ کیا تم اسے قتل کر سکتے ہو؟ میں نے کئی بار کنچیانگ سے کہا کہ وہ کھوسلہ کو قتل کر دے لیکن وہ بزدل ہے۔ نامرد ہے۔ ڈرتا ہے لیکن میرا بھائی رابرٹ وہ شیر ہے شیر۔ مجھے نہیں پتہ تھا رابرٹ کہ تم اس قدر بہادر ہو۔

بازی پلٹ چکی تھی۔ رابرٹ کا تیر نشانے پر لگ گیا تھا۔ کرسپی کا رونا دھونا بند ہو گیا تھا۔ وہ اٹھ کر باورچی خانے میں گئی اور دو گلاس میں سنترے کا رس لے کر آئی۔ اس نے میز پر اسے رکھتے ہوئے کہا بھائی رابرٹ مجھے پتہ ہے کہ تمہیں یہ رس بہت پسند ہے۔

رابرٹ بولا لیکن تم تو اسے بالکل پسند نہیں کرتیں؟

جی ہاں لیکن آج تمہاری پسند ہی میری پسند ہے۔ آج میں بھی یہی ترش سنترے کا رس پیوں گی۔ رابرٹ نے جیسے ہی پہلا گھونٹ بھرا کرسپی نے سوال کیا رابرٹ لیکن کیا تم مجھے یہ بتلاؤ گے کہ تم نے کھوسلہ کو قتل کر دینے کا انتہائی فیصلہ کیوں کر لیا؟

اب رابرٹ کو جھوٹ کی ایک نئی ڈگر مل گئی تھی۔ وہ بولا بہن بات در اصل یہ ہے کہ اسی کھوسلہ نے مجھے چوری کرنے پر مجبور کیا اور اسی کے سبب میں جیل میں سڑتا رہا۔ میں اس سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔

کرسپی کے لیے یہ نیا انکشاف تھا۔ اس نے پوچھا لیکن بھیا کھوسلہ بھلا تم کو چوری کے لیے کیونکر مجبور کر سکتا ہے؟

کھوسلہ نے مجھے تین ماہ تک تنخواہ نہیں دی اور ہر روز نت نئے بہانے بناتا رہا۔ میرے گھر والے فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے بالآخر مجھے چوری کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔

کرسپی بولی لیکن تم نے مجھ سے اس کا ذکر نہیں کیا میں زورزبردستی کر کے اس سے تنخواہ دلواتی۔

جی نہیں بہن وہ کنچیانگ کی طرح مجھ پر بھی شک کرتا تھا میں نے سوچا کہ اگر تم اس سے میری تنخواہ کی بات کرو گی تو معاملہ اور بھی بگڑ جائے گا۔

کرسپی نے جب یہ سنا تو اس کا خون کھول اٹھا وہ بولی اس بدمعاش کی یہ مجال کہ اس نے ہمارے مقدس رشتے پر شک کیا جب کہ میں اس کو بتا چکی تھی۔ کاش کے وہ آج یہاں موجود ہوتا اور تم اس کو قتل کر دیتے۔ خس کم جہاں پاک اب تو اسے دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر تم اسے بخش دو گے تو میں اس سورکے بچے کو قتل کر دوں گی۔

رابرٹ بولا نہیں بہن اس کی ضرورت نہیں وہ آج نہیں تو کل میرے ہی ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اترے گا۔

کرسپی نے کہا اور وہ تمہیں جیل میں سڑانے کا کیا قصہ ہے کہیں اس نے تمہیں جھوٹے کیس میں تو نہیں پھنسا دیا؟

رابرٹ بولا نہیں ایسا نہیں ہے لیکن مجھے ایک وکیل نے یہ کہا تھا کہ وہ پولس کو کچھ دے دلا کر مجھے رہا کروا سکتا ہے۔ میں نے اس وکیل کو کھوسلہ کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وہ میری تین ماہ کی بقایا تنخواہ اس سے لے کر مجھے چھڑا لے لیکن بدمعاش کھوسلہ نے اسے بھی ٹال دیا اور میں جیل کی چکی پیستا رہا۔

کرسپی بولی رابرٹ مجھے افسوس ہے اگر تم اس وکیل کو مجھ سے ملنے کے لیے کہتے تو میں کھوسلہ کو بتائے بغیر اپنی جیب سے رقم نکال کر اسے دے دیتی اور تمہیں چھڑا لیتی لیکن تم نے مجھے اپنا سمجھا ہی کب ہے؟

رابرٹ بولا نہیں بہن جب انسان جیل میں ہوتا ہے نا تو اس کا دماغ نہیں چلتا بلکہ دماغ چل جاتا ہے۔ یہی میرے ساتھ بھی ہوا میں معافی چاہتا ہوں۔

کرسپی بولی کوئی بات نہیں میرے بھائی۔ اس میں میری بھی غلطی ہے۔ مجھے تم سے رابطہ کرنا چاہئے تھا۔ میں اپنی کوتاہی تسلیم کرتی ہوں اور تم سے معافی چاہتی ہوں۔ کرسپی کے ایک لفظ سے اس کا اخلاص ٹپک رہا تھا۔ رابرٹ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کرسپی کے دل میں اس کے تئیں عقیدت و شفقت کا کیسادریا موجزن ہے۔

رابرٹ ایک من گھڑت کہانی بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا کرسپی سر پکڑ بیٹھی ہوئی تھی۔ رابرٹ بولا اچھا بہن اب میں چلتا ہوں لیکن یقین رکھو کہ اب کھوسلہ چند دنوں کا مہمان ہے اور ہاں اب میری تم سے یہ گزارش ہے کہ تم صبح پو پھٹنے سے قبل یہاں سے ایک آدھ ہفتے کے لیے کہیں اور چلی جاؤ۔ اس بیچ احتیاط کے طور پر تم کھوسلہ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرنا اور اگر وہ فون کرے تو اس کا جواب بھی نہیں دینا۔ میں نہیں چاہتا کہ میری بہن کسی مصیبت میں پھنس جائے۔

کرسپی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی مگر وہ خاموش رہی۔

رابرٹ بولا اگر اجازت ہو تو میں چلنے سے قبل حمام استعمال کروں۔

کرسپی بولی جی ہاں کیوں نہیں۔ رابرٹ جب حمام سے نکلنے لگا تو اس نے دیکھا کہ کرسپی کی ایک میکسی دروازے سے لٹکی ہوئی ہے۔ رابرٹ نے اسے لپیٹ لیا اور چابی کے سوراخ سے جھانک کر دیکھا تو کرسپی اندر کے کمرے میں کسی کام سے گئی ہوئی تھی۔ وہ فوراً باہر آیا اور پاس پڑی ایک پلاسٹک کی تھیلی میں اسے رکھ لیا۔ اب وہ تھیلی اس کے اوور کوٹ کے اندرونی حصے میں تھی۔

دروازے کے پاس کھڑے ہو کر رابرٹ بولا اچھا بہن میں چلتا ہوں۔

کرسپی کی آواز آئی رکو میں ابھی آئی۔ رابرٹ ٹھہر گیا کرسپی جب باہر آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ وہ بولی رابرٹ اسے اپنی بڑی بہن کا نذرانہ سمجھ کر اپنے پاس رکھو اور اگر کبھی ضرورت پڑے تو مجھے نہ بھولنا۔

رابرٹ نے بات بڑھانے کے بجائے لفافے کو لے کر جیب میں ٹھونس دیا اور شکریہ ادا کر کے باہر نکل آیا۔ دوسرے دن رابرٹ نے ڈراموں میں استعمال ہونے والا سرخ رنگ خریدا اور کرسپی کے لباس پر اس کے دھبے لگا کر اسے سوکھا دیا۔ شام کے جہاز سے رابرٹ موگا دیسو کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔

کھوسلہ اچانک رابرٹ کی نظر سے پوری طرح گر گیا۔ اسے افسوس تھا کہ وہ کیونکر اس بدمعاش انسان کا آلۂ کار بن گیا۔ اسے خوشی تھی کہ کرسپی اس کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گئی تھی۔ رابرٹ اب ایک نئے منصوبے پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ غور کر رہا تھا۔ رابرٹ جب موگاڈیشو ہوائی اڈے پر اترا تو ہوٹل کی گاڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ شیراٹن ہوٹل میں آ گیا۔ کسی پانچ ستارہ ہوٹل میں قیام کرنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ کھوسلہ گو کہ ہالی ڈے ان میں رکا ہوا تھا لیکن اس سے ملنے کی خاطر شیراٹن میں آ گیا تھا۔ رابرٹ نے کھوسلہ کو بتایا کہ بڑی صفائی سے اس نے کرسپی کا کام تمام کر دیا ہے اور اس کی لاش کو ایک ایسی جگہ چھپا دیا ہے جہاں پولس کے فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے۔ کھوسلہ کو اس نے کرسپی کا خون آلودلباس دکھلا کر خوش کر دیا۔

کھوسلہ نے اپنے ہوٹل آتے ہوئے پہلے تو کرسپی کو فون لگایا جب کوئی جواب نہیں ملا تو رایل ٹاور کے چوکیدار کو فون کر کے خیر خبر معلوم کرنے کی کوشش کی۔ ان لوگوں نے بتلایا کہ گزشتہ رات کے بعد کرسپی آتے جاتے نظر نہیں آئی۔ کھوسلہ کا گمان یقین میں بدل گیا تھا۔ اس کو اپنے وکیل کی بات یاد آ رہی تھی کہ اگر اس نے کرسپی کو طلاق دے دی تو عدالت سے کم از کم دس لاکھ کینیائی روپیوں کا دعویٰ کر سکتی ہے اور کھوسلہ کی حیثیت کو دیکھتے ہوئے عدالت کرسپی کے حق میں فیصلہ دے سکتی ہے۔ اگر اسے عدالت کے توسط سے ایک لاکھ بھی ادا کرنے پڑتے تب بھی اس کی دولت پر کرسپی کا کنچیانگ کے ساتھ عیش کرنا اس کے لیے وبالِ جان بن جاتا۔ کھوسلہ کو خوشی تھی کہ وہ دس فیصد میں چھوٹ گیا تھا اوپر سے بے وفا، دغا باز کرسپی کو قرار واقعی سزا دینے کی مسرت اضافی تھی۔

دوسرے دن ہالی ڈے ان میں کھوسلہ نے رابرٹ کے ساتھ رات کا کھانا کھایا۔ کھوسلہ نے رابرٹ کو ملازمت کا خط دیتے ہوئے اپنا بزنس کارڈ بھی دیا اور کہا میرا خیال ہے تمہیں کوئی دقت نہیں ہو گی پھر بھی اگر کوئی ضرورت پڑے تو اس پر میرے سارے نمبر ہیں۔ اسی کے ساتھ کھوسلہ نے ایک لاکھ روپیہ نقد کی ادائے گی بھی رابرٹ کو کر دی۔ رابرٹ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پوچھا وہ کس وقت سونے کا ارادہ رکھتا ہے۔

کھوسلہ نے بتایا کہ وہ دس بجے کے بعد کبھی بھی نہیں جاگتا اس لئے اس روز بھی دس سے پہلے ہی سو جائے گا۔

رابرٹ نے اسے اپنا کمرہ نمبر بتا کر کہا اگر کوئی ضرورت ہو بلا تکلف رابطہ کرے۔

جواب میں کھوسلہ نے بھی اپنا کمرہ نمبر بتلا دیا۔ گھڑی کے کانٹے نو بجا رہے تھے۔ رابرٹ اجازت لے کر ہوٹل سے باہر آ گیا۔

رابرٹ دو گھنٹے موگا دیشو کی سڑکوں کی خاک چھانتا رہا۔ شیراٹن میں دو دن قیام کرنے کے بعد وہ فائیو اسٹار ہوٹل کا نظام جان گیا تھا جہاں ہر کمرے کی مقناطیسی کارڈ نما چابی مہمانوں کو وقت ضرورت دے دی جاتی تھی۔ اس نے اپنے ہوٹل میں جب چابی کے کھو جانے کا بہانہ بنایا تو اسے بلا توقف دوسرا کارڈ بنا کر دے دیا گیا تھا۔ یہ نظام رابرٹ کو بڑا پسند آیا۔ اس نے ساڑھے گیارہ بجے رات ہالی ڈے ان کے استقبالیہ کی جانب کھوسلہ کا بزنس کارڈ بڑھاتے ہوئے کہا وہ کمرہ نمبر ۱۲۰۱ میں رکا ہوا ہے اور اس سے کمرے کی چابی اس سے کھو گئی ہے۔

استقبالیہ پر موجود خاتون نے کمپیوٹر پر کھوسلہ کا نام پڑھا سامنے پڑے ہوئے کارڈ پر کھوسلہ لکھا ہوا دیکھا اور فوراً ایک نیا مقناطیسی کارڈ بنا کر رابرٹ کو تھما دیا۔ ان مقناطیسی کارڈز کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ بالکل بے آواز دروازہ کھولتے تھے۔ رابرٹ جب کمرے کے اندر داخل ہوا تو کھوسلہ گہری نیند میں سورہا تھا۔ رابرٹ نے جیب سے وہی سائیلنسر لگی پستول نکالی جو کھوسلہ نے اسے کرپسی کو مارنے کے لیے مہیا کی تھی اور اس کی کنپٹی کے قریب لے جا کر دو فائر کئے۔ کھوسلہ چند لمحات میں ایک ٹھنڈی لاش بن چکا تھا۔ رابرٹ نے بڑی صفائی کے ساتھ کمرہ بند کیا اور چپ چاپ نکل گیا۔

دوسری صبح سڑک کے راستے سے رابرٹ نیروبی کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ گیارہ گھنٹوں کا سفر تھا۔ راستے میں اس نے ریڈیو پر خبر سنی کہ ایک کینیائی تاجر کی لاش موگا دیشو کے ہو ٹل ہالی ڈے ان کے اندر پراسرارحالت میں پائی گئی۔ رابرٹ نے اپنی گاڑی کے ڈرائیور سے پوچھا یہ کس کی حرکت ہو سکتی ہے۔ ڈرائیور کینیا کا شہری تھا وہ بولا جناب آپ تو جانتے ہی ہیں صومالیہ سمندری قزاقوں اور اسلامی دہشت گردوں کا اڈہ ہے۔ انہیں میں سے کسی نے اس بیچارے تاجر کو ہلاک کر دیا ہو گا کل تک اس کی تصدیق ہو جائے گی۔ رابرٹ نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔

نیروبی پہنچنے کے بعد رابرٹ نے کرسپی سے رابطہ کیا اور اسے گھر لوٹ آنے کی ہدایت کی۔ رابرٹ نے اسے یہ خوشخبری بھی دی کہ ایک دو دن میں پوسٹ مارٹم کے بعد کھوسلہ کی لاش نیروبی آ جائے گی۔ سب کچھ حسب منصوبہ ہوا۔ کھوسلہ کی ساری جائیداد کرسپی کے حصے میں آ گئی اور اس کے بعد کرسپی نے کنچیانگ سے شادی کے لیے اصرار کرنا شروع کر دیا۔

کنچیانگ پہلے تو ٹال مٹول کرتا رہا لیکن پھر مجبور ہو کر اس نے کرسپی کو بتایا کہ وہ نکاح کرنے سے قاصر ہے اس لئے کہ اس دوران وہ کسی اور سے شادی کر چکا ہے اور ملکی قانون کے لحاظ سے عیسائی ہونے کے سبب وہ اپنی پہلی بیوی کی اجازت کے بغیردوسری شادی نہیں کر سکتا۔ اس نے جب اپنی بیوی کو ٹٹولنے کی کوشش کی تو اس نے اجازت تو درکنار اپنے بچوں سمیت الگ ہونے کی دھمکی دے دی ۔ کنچیانگ نے بتایا کہ اپنے معصوم بچوں کو وہ پدرانہ محبت سے محروم نہیں کر سکتا۔

کرسپی کے لیے یہ انکشاف جان کاہ ثابت ہوا۔ وہ اپنے شوہر کو قتل کروا چکی تھی اور اب زندگی بھر کنچیانگ کی داشتہ کی حیثیت سے زندگی گزارنا اس کے لیے سوہانِ جان تھا ایسے میں اس نے ایک وکیل کو بلوا کر اپنی وصیت لکھوائی۔ اپنی ساری مسروقہ اور و غیر مسروقہ جائیداد کو رابرٹ کے نام لکھ کر خودکشی کر لی۔ کرسپی نے رابرٹ کو اس وقت اپنے پاس بلایا جب بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس نے رابرٹ کی گود میں اپنی آخری سانسیں لیں اور یہ ہدایت کی اس کی تدفین تک موت کی اطلاع کنچیانگ کو نہ دی جائے۔ وہ نہیں چاہتی کہ اس کی لاش پر کنچیانگ کا سایہ بھی پڑے۔ واقعات اس قدر تیزی کے ساتھ رونما ہوئے تھے جو رابرٹ کے وہم و گمان سے پرے تھے۔

رابرٹ دیکھتے دیکھتے کھوسلہ کی ساری تجارت اور املاک کا مالک بن گیا تھا لیکن اس کے اندر ایک خوف پیدا ہو گیا کہ جب بھی کھوسلہ کی موت کا راز کھلے گا وہ پھانسی پر چڑھ جائے گا۔ رابرٹ نے ایک ایک کر کے ساری جائیداد فروخت کر دی اور گومانگو کی مدد سے ایک نیا مگر بہت بڑا گینگ سرخ مثلث تیار کر لیا۔ گومانگو نے جب اس سے نام سرخ مثلث کے بارے میں پوچھا تو وہ اس کی بات ٹال گیا۔ در اصل سرخ مثلث وہ خفیہ نام تھا جو رابرٹ، شنکر اوریاسر نے اپنے لئے اسکول کے زمانے میں تجویز کیا تھا۔ کالج کے زمانے میں ان لوگوں نے اس کی آبیاری کی تھی۔ رابرٹ کو یقین تھا ایک دن شنکر اور یاسر بھی آ کر اس میں شامل ہو جائیں گے اور اس دن اس گروہ کی تاسیسِ جدید ہو گی۔

سرخ مثلث کا اڈہ شہر کے مرکزی حصے کی ایک بے نامی عمارت کے اندر تھا۔ شنکر اور یاسر جب اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش کرتے کرتے تھک گئے تو مایوس ہو کر سرخ مثلث میں شامل ہو گئے۔ جون اور جولیٹ کو بھی رابرٹ نے اپنے گروہ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ جولیٹ نے رابرٹ کی محبت میں اس پیشکش کو قبول کر لیا مگر جون پینٹو اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کی غرض سے ٹورنٹو روانہ ہو گیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

سرخ مثلث

 

نیروبی حالانکہ شنکر اور یاسر کا اپنا شہر تھا جس میں ان لوگوں نے اپنی عمر کا بہترین حصہ گذارا تھا اس کے باوجود اس سفر کے دوران وہ دونوں ایک عجیب و غریب ہیجان میں مبتلا تھے۔ شنکر نے یاسر سے کہا یار ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ یاسر نے بلادلچسپی سر ہلا کر تائید کی شنکر کو اس کی سرد مہری بری لگی۔ وہ بولا کیوں ! تمہیں ایسا نہیں لگتا؟ ؟ ؟

یاسر بولا اگر میں سچ بولوں تو تمہیں برا لگے گا اس لئے کوئی اور بات کرو۔

شنکر کو یاسر کا یہ انداز اور خراب لگا۔ اس نے کہا یار تم کو کیا ہو گیا ہے؟ تم اس اہم موضوع پر گفتگو کیوں نہیں کرنا چاہتے؟

یاسر بولا یار شنکر کیا یہ ضروری ہے جس بات کو تم اہم سمجھتے ہو وہ ساری دنیا کے لیے اہم ہو؟

شنکر نے چڑ کر کہا مجھے ساری دنیا سے کوئی غرض نہیں ہے۔ کس کو کیا اچھا لگتا ہے اور کیا برا یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ میں تو صرف اپنے دوست یاسر سے پوچھ رہا تھا کہ …….۔

شنکر تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں اس دنیا میں نہیں کسی اور جہان میں رہتا ہوں؟

شنکر زچ ہو کر بولا کون کہتا ہے کہ تم اس دنیا میں رہتے ہو؟

اچھا تو میں کہاں رہتا ہوں؟ یاسر نے ہنس کر پوچھا۔

تم ! شنکر نے کہا تم میرے دل میں رہتے ہو یاسر میرے دل میں۔ میں اپنے ہم نفس یاسر سے یہ سوال کر رہا ہوں۔

یاسر نے سوچا ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا اس لئے وہ بولا دیکھو یار گزشتہ دو دنوں میں ہم کہاں کہاں نہیں گئے۔ گھروں سے لے کر قبرستانوں تک، محلوں سے بازاروں تک اور اسکول سے کالج تک مجھے تو سب کچھ ویسا ہی لگا۔ سچ تو یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔

شنکر بولا کچھ بھی نہیں؟ کیسی باتیں کرتے ہو یاسر مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے؟

یاسر نے پہلی مرتبہ سنجیدگی کے ساتھ شنکر کے سوالات پر غور کیا اور بولا شاید اس لئے کہ تم بدل گئے ہو شنکر۔ تم بدل گئے ہو تمہاری نظر بدل گئی ہے۔

شنکر بولا جی ہاں اب میری سمجھ میں آیا کہ یہ تبدیلیاں جنہیں میں محسوس کر رہا ہوں تمہاری نظر سے اوجھل کیوں ہیں؟

یاسر نے ہنس کر کہا اچھا اگر تم یہ بھی جان گئے ہو تو مجھے بھی بتا دو اپنے اچھے دوست یاسر کو۔

شنکر نے کہا کیوں نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وقت بدل گیا لیکن تم نہیں بدلے۔

یاسربولاممکن ہے تمہارا مشاہدہ درست ہو۔ جب میں یہاں سے گیا تھا تو میری زندگی میں ایک بہت خلاء تھا جس کو نادرہ نے پر کر دیا۔ میرا نہ کوئی ذاتی کاروبار تھا اور نہ کوٹھی بنگلہ اور جائیداد لیکن اب وہ تمام چیزیں مجھے حاصل ہو گئیں۔ میں زیر زمین دنیا میں حشرات الارض کی مانند رینگتا پھرتا تھا لیکن اب شہر کے اہم ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہوں۔ پہلے میں کینیا کا شہری تھا اب ہندوستان کا پاسپورٹ میری جیب میں ہے۔ بظاہر بہت کچھ بدل گیا ہے لیکن اس کے باوجود مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نہیں بدلا اس لئے میرے لئے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔

یاسر کے مفصل جواب نے شنکر کو لاجواب کر دیا وہ بولا لیکن یاسراگر ایسی بات ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا تو مجھے بتاؤ کہ ہمارے سرخ مثلث کا مرکز کہاں چلا گیا؟ اور یہ سرخ مثلث نامی میگا مول جس کا آج شام افتتاح ہے کہاں سے آ گیا؟ کیا میرے اس سوال کا کوئی جواب تمہارے پاس ہے۔

شنکر کے سوال نے یاسر کے زخموں کو تازہ کر دیا۔ وہ سر پکڑ بیٹھ گیا۔

شنکر نے اصرار کیا اور کہا بولو ! بولو میرے دوست !!! تم چپ کیوں ہو؟ مجھے تمہارا جواب چاہئے۔

یاسر دیر تک خاموش رہا اور پھر بولا شنکر تمہیں یاد ہے اس بابت میں نے کیا کہا تھا؟ کیا تم چاہتے ہو کہ افتتاح سے قبل ہی میں اس مول کو بم لگا کر اڑا دوں؟

شنکر نے چونک کر کہا یہ تم کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو یاسر؟

یاسر بولا شنکر یہ میری شدید خواہش ہے۔ یہ میرا خواب ہے مگر میں نہیں جانتا کہ یہ شرمندۂ تعبیر ہو گا یا نہیں؟

شنکر نے کہایاسرتم نہیں بدلے اور شاید تم نہیں بدلو گے۔

شام میں سرخ مثلث مول کا زبردست افتتاح صدر مملکت جسٹن مومباسا کے دست مبارک سے ہوا لیکن ان اس تقریب ان کی حیثیت ایک قاضی کی سی تھی جس کا کام صرف نکاح پڑھانا تھا۔ اس شام رابرٹ دولہا بنا ہوا تھا اور سرخ مثلث مول کسی نئی نویلی دلہن کی مانند سجا اور سنورا ہوا تھا۔ ساری نگاہیں ان دونوں کی جانب تھیں۔ ان کے علاوہ کسی کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

شنکر اپنے دوست رابرٹ کی اس عظیم کامیابی پر پھولا نہیں سما رہا تھا جبکہ یاسر اپنی محبوبہ کی قبر پر ماتم کناں تھا۔ یاسر کی زندگی میں نادرہ کی حیثیت ایک بیوی کی ضرور تھی لیکن سرخ مثلث ہنوز اس کے قلب میں محبوب کی صورت براجمان تھا۔ افتتاح کے بعد سارے جاننے والوں نے رابرٹ سے ملاقات کی شنکر تو اس کے بغلگیر ہو گیا۔ رابرٹ نے یاسر سے متعلق سوال کیا تو شنکر نے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ بنا دیا لیکن رابرٹ سمجھ گیا وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یاسر کا مزاج نادرہ سے زیادہ رابرٹ جانتا تھا۔

رات میں جب شنکر لوٹا تو یاسر ٹیلی ویژن پر فٹ بال کا ورلڈ کپ میچ دیکھ رہا تھا۔ شنکر نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کر دیا اور بولا یاسر یہ میچ تو تم پونے میں بھی دیکھ سکتے تھے اس کے لیے تمہارا یہاں آنا ضروری نہیں تھا۔

یاسر بولا تمہاری بات درست ہے لیکن تم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ میرا نیروبی آنا بھی مجھے اس کھیل سے محروم نہ کر سکا۔

شنکر نے جواب دیا لیکن آج اس کھیل سے زیادہ اہم وہ تقریب تھی جس میں شریک ہونے کے لیے ہم لوگوں نے یہ سفر کیا ہے۔

یاسر بولا میرے دوست میں تو تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اچھا تو تم یہاں کیوں آئے ہو؟ شنکر نے چہک کر پوچھا۔

یاسر بولا تم نے ہی تو کہا تھا کہ شاید یہ ہمارے لئے اپنے شہر میں جانے کا آخری موقع ہو۔ میں اس تقریب کے لیے نہیں یہاں بلکہ اپنے بچپن اور جوانی کی تلاش میں یہاں آیا ہوں۔ ویسے تقریب میں بھی شریک تھا بس یہ ہے کہ خاتمے سے قبل چلا آیا۔

شنکر بولا لیکن تم نے یہ نہیں سوچا کہ تمہاری اس حرکت کا رابرٹ پر کیا اثر ہو گا۔

یاسر نے زوردار قہقہہ لگا کر کہا کاش کہ رابرٹ نے یہ سوچا ہوتا تو آج کی اس تقریب کا انعقاد ہی نہ ہوتا۔

شنکر نے کہا یاسر منطق میں تم سے میں تو کیا رابرٹ بھی نہیں جیت سکتا لیکن میرے ذہن میں اس میگا مول کے حوالے سے ایک ایسی ترکیب آئی ہے کہ جس پر تم دونوں اتفاق کرو گے۔

یاسر ہنس کر بولا شنکر اگر تم کو اس میں سرمایہ کاری کرنی ہے تو ضرور کرو لیکن مجھ پر اس کے لیے دباؤ نہ ڈالو میں ایسا نہیں کر سکتا۔

شنکر بولا تم سے یہ کس نے کہہ دیا کہ میں اس میں اپنا روپیہ لگانے جا رہا ہوں؟

یاسر بولا اس کے علاوہ کوئی اور ایسا اقدام نہیں ہو سکتا جو رابرٹ کو خوش کر سکے اور اس کام پر میں راضی نہیں ہو سکتا اس لئے تم آگ اور پانی کو ملانے کی کوشش نہ کرنا۔ اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہو گا کہ آگ ٹھنڈی ہو جائے گی اور پانی بھاپ بن کر اڑ جائے گا۔ کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔

شنکر بولا جی نہیں یاسر میرے پاس جو تجویز ہے اس سے آگ پر پانی نہیں بلکہ تیل پڑے گا اور آگ بجھنے کے بجائے دو آتشہ ہو جائے گی۔ اس کی روشنی اور گرمی دونوں سے ہم لوگ فائدہ اٹھائیں گے یوں سمجھ لو کہ آم کے آم گٹھلیوں کے دام والی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔

یاسر نے کہا اگر واقعی ایسا ہے تو مجھے اس میں دلچسپی ہے۔

شنکر بولا میں یہی سننا چاہتا تھا لیکن اس کے لیے کل تک صبر کرو۔ کل ہم لوگ رابرٹ کے ساتھ کھانا کھائیں گے اور اس کے بعد اس تجویز پر گفتگو ہو گی۔

یاسر بولا ان شاء اللہ۔ اب رات بہت ہو چکی ہے اس لئے ایسا کرو کہ اپنے کمرے میں جا کر سوجاو۔

شنکر نے کہا اچھا بابا لگتا ہے تمہاری پسندیدہ ٹیم میچ ہار گئی میں چلتا ہوں شب بخیر۔

یاسر نے جواب دیا جی ہاں اور تم جیت گئے خدا حافظ۔

دوسرے دن شہر کے مضافات میں واقع ایک نہایت پر شکوہ ریسٹورنٹ گومانگو میں شنکر کی جانب سے رابرٹ اور یاسر کی دعوت تھی۔ وہاں پہنچنے کے بعد یاسر نے کہا شنکر تمہیں پورے شہر میں کوئی اور جگہ اپنی ملاقات کے لیے نہیں ملی؟

شنکر نے پوچھا کیوں یہاں کیا تکلیف ہے؟

یاسر بولا تم نے تو کہا تھا اس دعوت میں صرف ہم تین لوگ ہوں گے لیکن یہاں تو وہ بوڑھا کھوسٹ گومانگو بھی چلا آئے گا اور ہم اس کو کیسے منع کر سکیں گے۔

شنکر ہنس کر بولا جی نہیں یاسر ایسا نہیں ہو گا۔

یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو اگر یہ اس کا ہوٹل ہے تو وہ کبھی بھی آ سکتا ہے اور ہم لوگ اس کو اپنے ساتھ شامل ہونے سے کیوں کر روک سکتے ہیں؟ وہ رابرٹ کا بہت بڑا کرم فرما جو ہے

شنکر پھر سے بولا جب کہہ دیا کہ نہیں آئے گا تو نہیں آئے گا بلا وجہ بحث سے کیا فائدہ؟

اور اگر آ جائے تو؟ یاسر نے پوچھا۔

شنکر بولا تو میں وہاں چلا جاؤں گا جہاں سے وہ آئے گا۔

یاسر نے کہا شنکر تمہاری یہ لچھے دار باتیں میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔

شنکر بولا گومانگو مر چکا ہے اور فی الحال وہ قبر کے اندر ہے اب تم ہی بتاؤ کہ وہ……

ہاں ہاں بابا سمجھ گیا لیکن پھر یہ ہوٹل؟

سرخ مثلث کے بکھر جانے کے بعد گومانگو نے اپنے بڑھاپے کو چین سے گزارنے کے لیے یہ ہو ٹل بنایا لیکن ہوٹل کے افتتاح سے قبل وہ قبر کے اندرسکون کی نیندسو گیا اب اس کی بیوی بچے اس پر عیش کر رہے ہیں۔

یاسر بولا بیچارہ گومانگو !!!

عقب سے آواز آئی بیچارہ گومانگو نہیں۔ بیچارے تو ہم ہیں۔ یہ رابرٹ کی وہی شاہانہ گرجدار آواز تھی۔

یاسر اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور بولا جی ہاں ہم سب بیچارے ہیں خیر ایک دن تاخیر سے مبارکباد قبول کرو۔

شنکر نے سوچا یہ اچھا ہوا کہ گفتگو کے لیے ماحول سازگار ہو گیا۔ رابرٹ نے سب سے پہلے شراب کا مینو اٹھایا تو شنکر بولا آج کا میزبان میں ہوں اس لئے کم از کم ترتیب تو میں طے کر ہی سکتا ہوں۔

رابرٹ بولا گستاخی معاف۔

شنکر نے کہا اس قدر تکلف کی ضرورت نہیں۔ آج ہم لوگ ایک نہایت سنجیدہ مہم پر گفتگو کرنے جا رہے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ پینے پلانے کے شغل کو مؤخر کر دیا جائے۔

یاسر بولا ویسے اگر تم منسوخ بھی کرود تو یہ تمہارا حق ہے۔

شنکر نے کہا نہیں ہم جامِ صحت پر اپنی اس میٹنگ کا اختتام کریں گے۔

رابرٹ بولا آج ہمارے سرخ مثلث کا تیسرا جنم دن ہے۔ جنم دن سے مراد یومِ ولادت۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ آج تیسری مرتبہ پیدا ہو گا۔ اور شنکر تم نے اس مبارک تقریب کے لیے جس مقام کا انتخاب کیا میں اس کے لیے تمہیں سلام کرتا ہوں۔ کاش کے میرا دوست اور مربی ّ گومانگو آج زندہ ہوتا۔ وہ ہم تینوں کو ایک ساتھ دیکھ کر کس قدر خوش ہوتا۔

شنکر بولا رابرٹ مجھے لگتا ہے کہ تم ابھی جس طرح گومانگو کی تعزیت کر رہے ہو اسی طرح کچھ دیر بعد سرخ مثلث کو بھی خراجِ عقیدت پیش کرو گے۔

یاسر بولا میں تمہاری بات نہیں سمجھا شنکر۔

رابرٹ نے کہا میں بھی یاسر کی تائید کرتا ہوں۔

شنکر بولا دوستو آج سرخ مثلث کا یومِ ولادت نہیں بلکہ یومِ وفات ہے۔ آج ہم تینوں مل کر اس خواب کی تدفین کریں گے جس کو ہم نے برسوں تک آنکھوں میں سجایا تھا۔

رابرٹ بولا شنکر جو بھی کہنا ہے صاف صاف بولو۔

شنکرسب کی پسند جانتا تھا وہ کھانے کا آرڈر ایک خاص ترتیب کے ساتھ دے چکا تھا ویٹرس میز پر مختلف قسم کے پھلوں کا رس سجا رہے تھے۔ ان کے جانے کے بعدیاسر بولا شنکر تم جس خواب کی بات کر رہے ہو وہ تو کب کا بکھر چکا۔ اس کے تار پود الگ ہو گئے اب اس پر گفتگو کرنے سے کیا حاصل۔

شنکر نے کہا اس سے قبل جو سرخ مثلث تھا وہ زیرِ زمین تھا لیکن اب وہ ایک بین الاقوامی شہرت کا مالک مول ہے جسے کل دنیا بھر کے لوگوں نے اپنے ٹیلی ویژن کے پردے پر دیکھا ہے۔ میرے پاس اس کے حوالے سے ایک خفیہ منصوبہ ہے۔

رابرٹ یہ سن کر چونک پڑا یاسر بھی چوکنا ہو گیا چہار جانب گہرا سناٹا چھا گیا۔ رابرٹ نے کہا بولو شنکر تم چپ کیوں ہو؟

شنکر بولا میں آپ لوگوں سے ایک یقین دہانی چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اس پر محض ایک تجویز کے طور پر غور کریں۔ اس پر جذبات میں نہ آئیں اور اگر یہ مناسب نہ ہو تو مسترد کر کے اسے بھول جائیں۔ اس تجویز یا مباحثے کا ہمارے باہمی تعلقات پر کوئی اثر نہ ہو۔ اس پر اگر ہم تینوں کا اتفاق رائے نہ ہو تو اسے ابھی اسی وقت مسترد سمجھ لیا جائے۔ رابرٹ اور یاسرنے محسوس کر لیا کہ شنکر واقعی کوئی نہایت نازک اور سنجیدہ تجویز پیش کرنے جا رہا ہے جس کے لیے یہ تمام احتیاط ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔

رابرٹ بولا ٹھیک ہے مجھے تمہاری شرائط منظور ہیں

یاسر نے تائید کی مجھے بھی۔

شنکر بولا بہت خوب ! میرا خیال ہے ہم لوگوں کو ساتھ مل کر منصوبہ بند طریقہ پراس مول کو لوٹ لینا چاہئے۔

شنکر کے الفاظ رابرٹ پر بجلی بن کر گرے وہ بولا شنکر میں تو سمجھ رہا تھا کہ تم سنجیدہ ہو لیکن اتنا بڑا مذاق؟ مجھے حیرت ہے۔

یاسر نے بھی زوردار قہقہہ لگایا اور بولا یار شنکر مجھے تم سے یہ توقع نہیں تھی۔ دل لگی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

شنکر بولا یہ مذاق نہیں ہے۔ کل جب میں مول کے اندر مختلف دوکانوں سے گزر رہا تھا تو اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ اس مول میں ایک بھی دوکان رابرٹ کی نہیں ہے۔ یہ سب اس نے مختلف لوگوں کو کرایہ پر دے رکھی ہیں۔ اس کے اندر بھرا ہوا قیمتی مال کسی اور کا ہے۔ ہم لوگ اس قیمتی مال و اسباب کو لوٹ کر آپس میں بانٹ لیں گے۔ مول کا بال بیکا نہ ہو گا بلکہ اس لوٹ پاٹ کے بعد مول کی شہرت میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہو گا۔ گاہک وقت کے ساتھ اس حملے کو بھول جائیں گے۔ یہی دوکاندار یا نئے کرایہ دار لوٹ آئیں گے۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہو جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ مول کا نام بدل جائے گا۔ سرخ مثلث کے بجائے سبز مربع ہو جائے گا لیکن اس سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ہمارے تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔

رابرٹ نے پوچھا شنکر مجھے تو یہ شیخ چلی کا خواب لگتا ہے۔ پہلے تو حملہ کرنے کے لیے لوگ کہاں سے آئیں گے اس لئے کہ ہمارا گینگ بکھر چکا ہے۔ دوسرے پولس کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا؟ تیسرے وہ مال کہاں پر بکے گا؟ یہ سب اس قدر آسان نہیں ہے۔ اب میں ایک اہم وزیر ہوں مجھے تو لگتا ہے اگر ایسا کچھ ہو جائے تو سب سے پہلے مجھے اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

شنکر بولا تمہارے اولین تبصرے کے علاوہ سارے باقی تمام سوالات قابلِ توجہ ہیں اور ان پر غور ہونا چاہئے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا گینگ بکھر چکا ہے لیکن یہ حملہ ایک دہشت گرد تنظیم کی جانب سے کیا جائے گا۔ پولس سے مقابلہ کرنے کی تربیت اسے دی جائے گی۔ مال دبئی میں بکے گا۔ کیا مزید کوئی وضاحت درکار ہے؟

یاسر نے پوچھا جی ہاں مگر وہ دہشت گرد تنظیم کہاں سے آئے گی؟ اور وہ ہمارے لئے کیوں کام کرے گی؟

شنکر بولا کوئی بھی تنظیم آسمان سے نہیں آتی اسے زمین پر منظم کیا جاتا ہے۔ ہم خود ایسا ایک گروہ تیار کریں گے اس لئے وہ لا محالہ ہمارے اشارے پر کام کرے گا۔ میں ایک جہاز خریدوں گا جس سے دہشت گردوں کو اسلحہ سمیت پہنچایا جائے گا اور اسی پر سارا مسروقہ مال لدوا کر دبئی روانہ کر دیا جائے گا جہاں فری زون کے اندر میرے گودام میں اسے اتار لیا جائے گا۔ شنکر ان سوالات کا جواب دینے کے لیے ایک لمحہ بھی نہیں سوچا تھا گویا کہ یہ سارے بنے بنائے جواب ہیں جن کی بلا توقف ادائیگی ہو رہی ہے۔

یاسر نے کہا تمہارا نقشہ تو خوب ہے لیکن اس میں رنگ کیوں کر بھرا جا سکتا ہے۔

شنکر شکریہ ادا کر کے بولا اس کام کو کرنے کے لیے تقسیم کار بہت ہی ضروری ہے۔ پہلا کام حملہ آوروں کو تیار کرنا ہے میرا خیال ہے اس کام کو یاسر سے بہتر کوئی اور نہیں کر سکتا اس لئے کہ جن صومالی طلباء کو ہم اس کام کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ان کو اپنے جھانسے میں لینا صرف اسی کے لیے ممکن ہے۔

یاسر ہکا بکا شنکر کا منہ تک رہا تھا رابرٹ بولا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پولس والوں کو قابو میں رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے ورنہ سارا کھیل بگڑ جائے گا۔

شنکر نے کہا جی ہاں اس کھیل میں سب اہم کردار پولس اہلکاروں کا ہے اور یہ کام رابرٹ کو کرنا چاہئے کہ وہ اپنے بھروسہ مند افسران کو اس علاقے میں متعین کرائے اور ان کے مفادات کی یقین دہانی کروا کر ان کو بغیر بتائے اپنے منصوبے میں شامل کر لے۔ میرا خیال ہے اگر اس کی تیاری قبل از وقت شروع ہو جائے تو یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔

رابرٹ بولا یار یہ خوب ہے کہ تم نے ہم دونوں کو منجدھار میں پھنسا دیا اور خود ساحل پر تماش بین بن گئے۔

شنکر بولا دیکھو اس حملے کے دوران ہم تینوں تماش بین ہوں گے لیکن اس سے پہلے اور بعد میں ہمارا اپنا رول ہو گا جو ہم ادا کریں گے۔

یاسر بولا لیکن تم نے اپنا کام تو بتایا ہی نہیں۔

شنکر نے کہا بتایا تو تھا لیکن آپ لوگوں نے اس کی جانب توجہ نہیں دی۔ میرا بنیادی کام حمل و نقل اور خرید و فروخت ہو گا۔ میں اسلحہ خریدوں گا اور چوری کا مال بیچوں گا۔ میں حملہ آوروں کو اپنے جہاز میں بھجواؤں گا اور اسی جہاز سے مال لے جا کر اپنے گودام میں خالی بھی کروں گا۔ اس کے بعد اسے چینیوں کو بیچ کر ان سے رقم وصول کرنا اور آپس میں تقسیم کرنا یہ بھی میں سمجھتا ہوں کہ ایک اہم کام ہے۔

رابرٹ بولا کیسی باتیں کرتے ہو شنکر یہی تو سب سے اہم کام ہے۔

یاسر نے کہا جی ہاں اس کے بغیر تو سب کچھ بیکار ہے۔

شنکر نے کہا تو کیا اس بات پر جامِ صحت لنڈھایا جائے؟

رابرٹ خوش ہو کر بولا جی ہاں لیکن کیا تمہیں نہیں لگتا کہ اس نقشۂ کار پر ابھی بہت کام ہونا ہے۔

جی ہاں میرا خیال ہے کہ ہم سب کو اکیلے اکیلے سنجیدگی کے ساتھ اپنے کام کی تفصیلی منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور پھر اس کی نوک پلک درست کرنے کے لیے ایک ساتھ مل کر بیٹھنا چاہئے۔

جی ہاں یاسر بولا ہم ایسا کرتے ہیں چار ماہ بعد دبئی میں ملتے ہیں اور اپنے منصوبے کو آخری شکل دینے کے بعد اس پر عمل درآمد شروع کرتے ہیں۔

شنکر بولا ایسا لگتا ہے سرخ مثلث کا سنہری دور پھر سے لوٹ آیا ہے۔

دونوں نے تائید کی اور اپنی گاڑیوں کی جانب چل پڑے۔ احتیاط کے پیشِ نظر یاسر اور شنکر جدا جدا گاڑیوں میں آئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

تھامسن

 

یاسر کو شنکر کی تجویز نے سنجیدہ کر دیا تھا لیکن اس کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اپنے کام کی ابتداء کیسے کرے؟ یاسر جانتا تھا کہ پونے یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ کالجوں میں بہت سارے افریقی طلباء زیر تعلیم ہیں جن میں سے ایک اچھی تعداد صومالیہ کے باشندوں کی بھی ہے لیکن ان تک رسائی کیوں کر ہو؟ یہ واقعی ایک مشکل کام تھا۔ اس ادھیڑ بن میں اسے نادرہ کی سہیلی مسز دیشمکھ اوراس کا خاوند یاد آیا جو کسی زمانے میں یونیورسٹی کے اندر یوروپین اسٹڈیز کا پروفیسرتھا۔ یاسرنے سوچا کیوں نہ اس سے ملاقات کر کے جامعہ پونے کے مختلف شعبہ جات سے متعلق کچھ معلومات حاصل کی جائے ممکن ہے کوئی ایسا سرا ہاتھ آ جائے جس سے بات آگے بڑھ سکے۔

نادرہ جب اس نے پروفیسر اور بیگم دیشمکھ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو وہ بہت خوش ہوئی۔ نادرہ کے لیے یہ حیرت انگیز تبدیلی تھی ورنہ تو یہ ہوتا کہ جس دن کوئی مہمان آنے والا ہوتا یاسر باہر کسی کام سے نکل جاتا تھا۔ نادرہ اس کی آدم بیزاری سے پریشان رہتی تھی لیکن اس اقدام کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اس کے ناصر میں کچھ مثبت تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں۔ ویسے اسے یاد آ رہا تھا کہ یاسر اور پروفیسر دیشمکھ نے پچھلی مرتبہ بھی بڑی دیر تک بات چیت کی تھی۔ پروفیسر دیشمکھ سے طول طویل گفتگو کے نتیجے میں یاسر کے ہاتھ پروفیسر جیکب تھامسن کا نام آیا تھا جو پونے کالج میں عمرانیات پڑھاتے تھے۔ دیشمکھ صاحب کے مطابق وہ افریقہ کے رہنے والے تھے اور یوروپی، ایشیائی اور افریقی تہذیب پر تحقیق کا کام انہیں کی نگرانی میں ہوتا تھا۔ یاسر کے لیے یہ اچھی خبر تھی۔

یاسر نے پونے کالج کے کیمپس میں قدم رکھا تو اسے اپنی مادرِ علمی فرگوسن کالج یاد آ گیا۔ وہی ماحول، اسی طرح کی عمارتیں، وہی ہریالی اور کشادگی۔ ہنستے مسکراتے طلباء کے جھنڈ اور سنجیدہ و متین اساتذہ کے چہرے ایسا لگتا تھا کہ یہ سب کچھ انقلابِ زمانہ اور علاقہ و براعظم کے فرق سے بے نیاز تھا۔ وہاں پہنچنے کے بعد یاسر کی ملاقات پروفیسر جیکب تھامسن سے ہوئی۔ پروفیسر تھامسن مرنجان مرنج شخصیت کے حامل تھے۔ جب یاسر ان کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ ایک مقامی طالبہ کے ساتھ فراٹے سے مراٹھی زبان میں گفتگو فرما رہے تھے۔ پروفیسر صاحب اپنی بحث میں اس قدر غرق تھے کہ انہیں ایک اجنبی کے کمرے میں آنے کا احساس تک نہیں ہوا۔ اس کا فائدہ اٹھا کر یاسر باہر آ گیا۔

یاسر نے کمرے کی دیوار پر لگی تختی کو پھر ایک بار دیکھا اس پر واضح انداز میں لکھا ہوا تھا جیکب تھامسن ویسے حلیہ سے بھی اندر بیٹھا ہوا شخص افریقی نژاد نظر آ رہا تھا لیکن اس کی زبان اور لہجہ نے یاسر کو پریشان کر دیا تھا سچ تو یہ ہے نادرہ بھی اس قدر صاف مراٹھی بولنے قادر نہیں تھی۔ یا سر نے وہاں سے گزرتے ہوئے ایک اردلی سے پوچھا پروفیسر تھامسن؟ اس نے استفہامیہ انداز میں تختی کی جانب دیکھا اور مسکرا کر بغیر کچھ کہے آگے بڑھ گیا۔

یاسر کو ایسا محسوس ہوا گویا کہہ رہا ہو چہرے سے تو پڑھے لکھے لگتے ہو! اس بیچ یاسر کو اپنی دوسری غلطی کا احساس ہوا۔ اسے اس طرح بغیر اجازت پروفیسر کے کمرے میں داخل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ وہ باہر رک کر طالبہ کے آنے کا انتظار کرنے لگا لیکن اس دوران دو اور طالب علم منہ اٹھائے کمرے میں داخل ہو گئے۔ یاسر کو اپنی تیسری غلطی کا احساس ہوا۔ وہ سمجھ گیا یہ کھلا دربار ہے۔ یہاں لوگ بلا اجازت آتے جاتے ہیں۔

یاسر جب دوبارہ کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا پروفیسر اور طالبہ ہنوز محوِ گفتگو ہیں۔ نووارد طلباء کنارے پڑی کرسیوں پر بیٹھے کچھ کھسر پسر کر رہے ہیں۔ یاسر بھی ان سے ہٹ کر ایک کرسی پر گم سم بیٹھ گیا۔ طالبہ کے نکل جانے کے بعد پروفیسر صاحب نے مہمانوں کی جانب دیکھ کر خود سلام کیا۔ وہ دونوں طلباء کھڑے ہو گئے اور ان کے ساتھ یاسر بھی اپنی کرسی سے اٹھ گیا۔ پروفیسر نے پوچھا آپ سب ساتھ میں ہیں۔

ایک طالب علم بولا جی نہیں۔

یاسر بولا ویسے فی الحال تو ساتھ ہی میں ہیں لیکن آئے جدا جدا تھے۔

تھامسن مسکرائے اور پو چھا اچھا بہت خوب تو پہلے کون آیا تھا اور بعد میں کون آیا؟

اس سے قبل کے طالب علم جواب دیتا یاسر بول پڑا۔ جناب آپ کے کمرے کے باہر تو پہلے میں آیا تھا لیکن اندر یہ پہلے آئے۔

تھامسن کو یاسر کے جوابات میں لطف آ رہا تھا۔ انہوں نے اب طلباء کو مخاطب کر کے پوچھا کیا تم لوگوں نے اندر آتے ہوئے انہیں دروازے کے پاس کھڑا دیکھا تھا۔

ان میں سے ایک نے حامی بھرتے ہوئے کہا جی ہاں۔

تھامسن نے پوچھا تو اب تمہارا کیا خیال میں پہلے ان سے بات کروں یا تم سے؟

دوسرا بولا آپ ان سے بات کریں ہم کچھ دیر بعد آ جائیں گے۔ غالباً وہ طلباء سمجھ گئے تھے کہ یاسر بھی پروفیسر کی مانند باتونی آدمی ہے ان لوگوں کی بات لمبی چلے گی۔

پروفیسر تھامسن نے کہا بہت خوب میں تمہارا انتظار کروں گا۔ طلباء کے تئیں پروفیسر تھامسن کی اعلیٰ ظرفی نے یاسر کا دل جیت لیا تھا۔

خیریت و عافیت کے بعد یاسرنے پوچھا مقامی زبان پر آپ کے عبور نے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔

تھامسن بولے اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ اس شہر میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے یوروپ کی شکل نہیں دیکھی مگر یوروپی لہجے میں انگریزی بولتے ہیں میں تو تیس سال سے اس شہر کے اندر رہ رہا ہوں۔

یاسر نے پو چھا تیس سال؟

تھامسن مسکرائے اور بولے اگر ٹھیک ٹھیک شمار کیا جائے تو اکتیس سال۔ میں بیس سال کی عمر میں یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد دس سال بعد میں نے یہاں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بیس سال سے یہاں تعلیم و تدریس کا کام کر رہا ہوں اب بولو کتنے سال ہوئے؟

یاسر بولا میرا خیال ہے ایک کم ہے۔

اوہو تو بیچ میں ایک سال میں نے شادی کرنے پر بھی تو ضائع کئے۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد سب سے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ تمہاری بھابی ریکھا سے شادی کر لی اور اسے لے کر افریقہ گیا۔ وہاں نہ مجھے ملازمت ملی نہ اسے۔ اس بیچ اس کو پونے کالج میں لکچرر شپ مل گئی میں اس کے ساتھ گھر داماد بن کر جو آیا تو پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اب کہئے حساب ٹھیک ہو یا نہیں؟

یاسر بولا جی ہاں آپ کی شادی خانہ آبادی نے سارا حساب ٹھیک کر دیا۔

پروفیسرصاحب نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگا کر کہا بھئی شادی تو اچھے اچھوں کا حساب کتاب کر دیتی ہے آپ بتائیں کیسے آنا ہوا؟

یاسر نے کہا میں اپنا مدعا تو بتاؤں گا لیکن اس سے پہلے میرا ایک اور سوال ہے؟

تھامسن نے سر جھکا کر کہا ارشاد۔

یاسر بولا در اصل یو نیورسٹی کا میڈیم تو انگریزی اس لئے لازماً وہ طالبہ انگریزی زبان سے واقف ہو گی اس کے باوجود آپ اس سے مراٹھی میں کیوں گفتگو کر رہے تھے؟

تھامسن بولا آپ تو اس بیچاری کے پیچھے ہی پڑ گئے خیر اس کی کئی وجوہات سب سے پہلا سبب تو یہ ہے کہ اپنی زبان پھر زبان ہو تی انسان اس میں اپنے آپ کو جس قدر پرسکون محسوس کرتا ہے کسی اجنبی زبان میں نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ ہمارے یہاں کچھ طلباء دیہات سے آتے ہیں۔ ویسے تو وہ نہایت ذہین و متین ہوتے ہیں لیکن انگریزی زبان میں بول چال کی عادت نہ ہونے کے سبب کھل کر اظہار خیال نہیں کر پاتے لیکن اگر کوئی ان سے ان کی اپنی زبان میں بات چیت کرے تو وہ اپنا مدعا بڑی اچھی طرح بیان کر دیتے ہیں جیسا کہ آپ ابھی کرنے والے ہیں۔

یاسر سمجھ گیا کہ پروفیسر صاحب اس کے غیر ضروری سوالات سے اوب گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کام کی بات کی جائے۔ یاسر بولا در اصل ہم دونوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ہم دونوں گھر داماد ہیں۔

تھامسن نے بیزاری کے ساتھ کہا تو کیا آپ مجھے اس کی اطلاع دینے کے لیے آئے ہیں؟

جی نہیں یاسر بولا مجھے تو یہاں آنے قبل اس کا علم بھی نہیں تھا بلکہ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم دونوں کا تعلق افریقہ سے ہے بلکہ اب کہنا چاہئے کہ تھا۔ اس انکشاف نے پروفیسر تھامسن کو خوش کر دیا اوہو اگر ایسا ہے تو اس بات پر آپ کو چائے پلائی جائے۔ یہ کہہ کر انہوں نے گھنٹی بجا دی اور پو چھا بھئی افریقہ تو دنیا کا سب سے بڑا براعظم ہے اور اس میں کئی ممالک ہیں تو بتائیے کہ آپ کا تعلق کس ملک سے میرا مطلب ہے تھا؟

اس بیچ ایک اردلی دو کپ چائے لے آیا۔ یاسر نے پو چھا یہ ڈائرکٹ؟

تھامسن بولے جی ہاں بلا وجہ تکلف سے کیا فائدہ یہ گھنٹی سننے کے بعد کھڑکی سے جھانک کر دیکھتا ہے اور جتنے لوگ ہوتے ہیں اتنی چائے لے آتا ہے۔

یاسر نے پو چھا لیکن کچھ لوگ …..؟

جی ہاں اگر کوئی مجھے منع کر دے تو میں دوبارہ گھنٹی بجا دیتا ہوں جس مطلب ہے چائے منسوخ۔

یاسر نے کہا لیکن کچھ لوگ شکر …….؟

تھامسن بولے اس معاملے میں ہمارے ببلو کی نظر بہت تیز ہے وہ مہمان کا چہرہ دیکھ کر اندازہ لگا لیتا ہے کہ یہ ذیابطیس کا مریض تو نہیں اور شاذونادر ہی ایسا ہوتا کہ اس کا اندازہ غلط نکل جائے۔ یاسر نے سوچا بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ تھامسن نے سوال کیا اگر آپ کو اضافی شکر کی ضرورت ہو تو میرے پاس موجود ہے۔

چائے کی چسکی لیتے ہوئے یاسر اپنے مقصد پر آ گیا وہ بولا در اصل گزشتہ دنوں میری ملاقات پروفیسر دیشمکھ سے ہوئی اور وہ جامعہ کے مختلف شعبوں کی بابت بتانے لگے۔ انہوں نے جب یہ انکشاف کیا کہ یہاں افریقی تہذیب و ثقافت پر تحقیق کا کام ہوتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے ارادہ کیا کہ اس بابت کچھ معلومات حاصل کروں گا۔

پروفیسر تھامسن نے کہا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کا تعلق……؟

یاسر درمیان میں بول پڑا جی جناب میں نیروبی میں پیدا ہوا۔ وہاں پر فرگوسن کالج میں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد یہاں آیا تو وہی ہوا جو آپ کے ساتھ ہو گیا۔

پروفیسر تھامسن بولے لیکن آپ چہرے مہرے سے تو کینیائی نہیں لگتے۔

یاسر بولا در اصل میرے والد فلسطینی اور والدہ کینیائی تھیں۔ میرا ظاہر والد پر اور باطن ماں پر گیا ہے۔

تھامسن نے کہا علم عمرانیات کے مطابق اگر کسی کی شخصیت دو افراد کے مزاج کا امتزاج ہو تو اس میں نکھار آ جاتا ہے۔

یاسر نے شکریہ ادا کیا اور پوچھا آپ کے شعبے میں کن موضوعات پر تحقیق کا کام ہوتا ہے۔

پروفیسر تھامسن بولے ویسے تو کئی موضوعات ہیں کیا آپ کسی خاص موضوع پر ڈاکٹریٹ وغیرہ کرنا چاہتے ہیں؟

یاسر قہقہہ لگا کر بولا پروفیسر صاحب آپ خوش نصیب ہیں جو اس عمر میں بھی پڑھنے لکھنے کا کام کر رہے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں اس مرحلے سے گزر چکا اور اب یہ دریا لوٹ کر پیچھے نہیں جا سکتا۔

یاسر پروفیسر تھامسن کے لیے پر اسرار بنتا جا رہا تھا ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ شخص چاہتا کیا ہے؟ جب بھی وہ کوئی سرا پکڑنے کی کوشش کرتا ہے یہ بات کو کہیں اور گھما دیتا ہے۔ تھامسن نے زچ ہو کر گھڑی کی جانب دیکھا اور کہا کہ اچھا تو میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔ در اصل مجھے اب کچھ دیر میں کلاس لینے کے لیے جانا ہو گا۔

یاسر بولا میں آپ کا وقت ضائع کرنے کے لیے معذرت چاہتا ہوں لیکن پھر بھی ایک سوال یہ ہے کہ یہاں پونے فیسٹویل کے موقع پر ہر سال انگریزی میں شکسپیر کا کوئی نہ کوئی ڈرامہ کھیلا جاتا ہے۔ فرانس کا بیلے ڈانس ہوتا ہے۔ برازیل کا کارنیوال نکالا جاتا ہے لیکن ہمارے افریقہ کی کوئی ثقافتی نمائندگی نہیں ہوتی۔ میں نے فیسٹیول کے منتظمین سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ کام یونیورسٹی والے رضا کار تنظیموں کی مدد سے کرتے ہیں۔ اس لئے سوچا کیوں نہ جامعہ سے اس کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کی جائے اور اس طرح آپ سے ملنے کی سعادت نصیب ہو گئی۔

یاسر نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا میں چاہتا ہوں کہ ایک دن آپ میرے گھر یعنی میری بیوی کے گھر اپنی ریکھا کے ساتھ تشریف لائیں مجھے یقین ہے کہ وہ دونوں بھی ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔ اب آپ کلاس میں جائیں اور مجھے اجازت دیں۔

پروفیسر تھامسن کی ساری قیاس آرائی غلط ثابت ہوئی۔ انہیں یاسر کے ارادوں کو جان کر بہت خوشی ہوئی۔ ان کا جی چاہا کہ یاسر کو روک کر اس بابت کچھ اور بات چیت کی جائے اگر اس کے لیے ضروری ہو تو آج کی کلاس منسوخ کر دی جائے لیکن یاسر کھڑا ہو چکا تھا۔ تھامسن بھی اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ وہ بے حد خوش تھے کہ گھر بیٹھے انہیں ایک ہمنوا مل گیا تھا جو ان کے اپنے دل کی بات ان سے کہہ رہا تھا۔ انہوں نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی دعوت سر آنکھوں پر مگر اس کے لیے پتہ کا معلوم ہو نا ضروری ہے۔

ناصر بولا جی ہاں یہ میرا کارڈ ہے۔ میرا دفتر میرے گھر ہی میں ہے۔ آپ اپنی آمد کی اطلاع اگر دوچار گھنٹے قبل بھی دیں گے تب بھی کوئی حرج نہیں، میں آپ کا انتظار کروں گا۔ پروفیسر نے کارڈ پر نادرہ فارم اور گھوڑے کی تصویر دیکھی تو سمجھ گئے کہ وہ کس ہستی سے بات کر رہے تھے۔ در اصل ایم ایف حسین کی آمد نے نادرہ فارم کو بے حد مقبول کر دیا تھا۔ پروفیسر تھامسن نے شکریہ ادا کیا اور ایک کاغذ پر اپنا فون نمبر لکھ یاسر کو دیتے ہوئے کہا یہ میرا نمبر ہے حسبِ ضرورت بلا تکلف یاد فرمائیں۔ مجھے آپ سے بات کر کے خوشی ہو گی۔

دو ہفتوں کے بعد اتوار کے دن صبح گیارہ بجے نادرہ اور یاسر پروفیسرتھامسن اور ریکھا تھامسن کا انتظار کر رہے تھے۔ نادرہ نے کہا آج کل میں آپ کے اندر کچھ مثبت تبدیلیاں دیکھ رہی ہوں۔

یاسر بولا تبدیلیاں؟ میں سمجھا نہیں؟

نادرہ بولی وہ بات یہ ہے کہ پہلے آپ کو صرف گھوڑوں میں دلچسپی ہوا کرتی تھی اب انسانوں سے بھی آپ ملنے جلنے لگے ہیں۔

یاسر بولا یہ آپ کی بندہ پروری ہے بلکہ حسنِ نظر ہے ورنہ شنکر سے تو میری دوستی ہمیشہ سے رہی ہے۔

نادرہ بولی شنکر کی حیثیت استثنائی ہے ویسے وہ بھی میری سہیلی کا وفادار گھوڑا ہی ہے۔

یاسر نے اسے چھیڑنے کے لیے کہا میں نے تو سنا ہے وفادار جانور گھوڑا نہیں کتا ہوتا ہے۔

نادرہ بولی جی نہیں چونکہ کتاچاپلوس ہوتا ہے اپنے مالک تلوے بھی چاٹتا ہے اس لئے اس لئے اس کی وفاداری کے چرچے بہت ہوتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہر جاندار اپنے آقا کا وفادار ہوتا ہے سوائے …….

یاسر نے پوچھا سوائے؟ ؟ ؟

نادرہ بولی سوائے ہم انسانوں کے۔

یاسر اس جواب پر سنجیدہ ہو گیا اس نے پھر سوال کیا لیکن کیوں؟

اس لئے انسان اپنے بارے مختلف قسم کی غلط فہمیوں کا شکار رہتا ہے۔ کبھی تو وہ اپنے آپ کودوسرے انسانوں کا آقا سمجھ بیٹھتا ہے اور کبھی اپنے جیسے غلاموں کو اپنا آقا مان لیتا ہے۔

یاسر کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی۔ اس نے دیکھا سامنے سے پروفیسر ایک خوش پوش خاتون کے ساتھ چلے آ رہے ہیں وہ سمجھ گیا یہ ریکھا ہے۔ وہ بولا نادرہ یہ لو تمہاری ریکھا آ گئی اب تم اس کو اپنے فارم ہاؤس کی روپ ریکھا دکھلاؤ۔

اور آپ؟ ؟ ؟

میں پروفیسر صاحب کو مرزا صاحب کے دار المطالعہ میں لے جاتا ہوں مجھے یقین ہے کہ عمرانیات کے اس پروفیسر کو گھوڑوں اور پیڑوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔

تھامسن نے یاسر کا آخری جملہ سنا اور کہا بھابی انہیں تو ماہر نفسیات ہونا چاہئے تھا یہ کہاں گھوڑوں کے چکر میں پڑ گئے؟

نادرہ نے جواب دیا اس میں کیا شک ہے کہ یہ ماہر نفسیات ہیں لیکن گھوڑوں کے ! اب بیچارے گھوڑے یہ نہیں جانتے کہ انہیں کس ماہر کی خدمات درکار ہیں تو ان کا کیا قصور۔

ریکھا نے جب نادرہ کا ترکی بہ ترکی جواب سنا تو خوش ہو گئی اور بولی گھوڑے نہیں جانتے لیکن آپ تو جانتی ہیں یہی کافی ہے۔

لیکن مجھے بھی …….نادرہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔

پروفیسر تھامسن نے دیکھا کہ بات بگڑنے جا رہی تو فوراً ریکھا کی جانب اشارہ کر کے بولے بھئی آپ مانتی تو ہیں لیکن یہ تو مان کر نہیں دیتیں گزشتہ بیس سالوں سے میں انہیں منا رہا ہوں۔

ریکھا نے کہا نادرہ یہ مرد حضرات منانے اور منوانے کے درمیان کا نازک فرق نہیں جانتے۔ یہ لوگ منانے کے بہانے اپنی بات منوانے لگتے ہیں اور بھلا ہم ان کی کیوں مانیں؟

یاسر کو ان باتوں میں بہت مزہ آ رہا تھا وہ خاموش تماشائی بنا کھڑا تھا۔ تھامسن بولا ناصر صاحب آپ تو ہمارے درمیان جھگڑا لگا کر ایک طرف ہو گئے سنا ہے اگلے وقتوں میں ایک نارد منی ہوا کرتا تھا۔

نادرہ کو ایک غیر ملکی کی زبان سے نارد منی کے ذکر نے حیرت میں ڈال دیا۔ اس نے ریکھا سے کہا آپ نے تو انہیں ہندو صحیفوں کا گیانی بنا دیا ہے۔

ریکھا بولی میں نے؟ ارے بھئی میں کیا جانوں یہ کس نارد منی کی بات کر رہے ہیں مجھے کسی نارائن یا نارد منی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے میں تو ان کے مطالعہ کے شوق سے پریشان ہوں۔ جس کے بھی پیچھے پڑ جاتے ہیں تو اس کی تہہ میں پہنچ جاتے ہیں۔

تھامسن بولا جی ہاں مجھے اپنی اس عادت پر ناز ہے اس نے مجھے ہمیشہ ہی فائدہ پہنچایا ہے سوائے ایک استثناء کے؟

اب یاسر کو دلچسپی پیدا ہوئی وہ بولا کیا میں اس استثنائی صورتحال کے بارے میں جان سکتا ہوں؟

تھامسن نے کہا ویسے تو میں تمہیں بتا چکا ہوں لیکن پھر دوہرا دوں وہ اکیس سال پرانی والی غلطی جب میں ان کے پیچھے پڑ گیا تھا اور ابھی تک ان کے پیچھے پیچھے سر جھکائے چل رہا ہوں۔

ریکھا بولی ان کی باتیں نہ میری سمجھ میں آتی ہیں اور نہ تمہاری سمجھ میں آئیں گی اس لئے نادرہ چلو ہم چلتے ہیں۔

یاسر نے کہا ریکھا بھی تعلیم و تدریس کا کام کرتی ہے اور آپ بھی پھر یہ اس پیشے کا مذاق کیوں اڑاتی ہے؟

پروفیسر تھامسن اس سوال کو سن کر سنجیدہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا دیکھو ناصر بات در اصل یہ ہے کہ وہ اس کے تقدس سے ناواقف ہے۔ اس لئے اس کی قدردانی نہیں کرتی۔

یاسر نے پوچھا کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اس قدر طویل عرصہ کسی کام میں لگا رہے اور اس کے باوجود حقیقت اس پر آشکار نہ ہو؟

تھامسن نے کہا بالکل ہو سکتا ہے اس لئے کہ حقائق کی معرفت کے لیے غور و فکر شرط اول ہے۔ اگر کوئی بغیر سوچے سمجھے اندھے بہروں کی طرح کسی کام میں تمام عمر مصروف رہے تب بھی اس کی آنکھوں پر پڑا پردہ اٹھ نہیں سکتا۔

پروفیسر کی باتوں میں یاسرگہرا ترتا جا رہا تھا اس نے پھر سوال کیا کہ آخر انسان سوچتا کیوں نہیں؟

تھامسن بولے مختلف لوگوں کو روکنے والی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں یوں سمجھ لو کہ وہ اسے ضروری نہیں سمجھتا۔

یاسر اس جواب سے مطمئن نہ ہو سکا وہ بولا کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ ریکھا نے سوچنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جبکہ وہ تعلیم یافتہ بھی ہے اور اسے آپ کی صحبت کا شرف بھی اسے حاصل ہے۔ آپ دونوں کے اندر یہ فرق کیوں ہے؟

تھامسن بولے در اصل پڑھانا لکھانا ریکھا کی مجبوریِ محض اور میرا حسنِ انتخاب ہے۔

یاسر نے سوال کیا میں نہیں سمجھا؟

تھامسن بولے یوں سمجھ لو کہ ریکھا اپنے والدین کے دباؤ میں اور سہیلیوں کی دیکھا دیکھی تعلیم حاصل کرتی رہی۔ بہترین یادداشت اس کو وراثت میں مل تھی اس میں اس کا کوئی دخل نہیں تھا لیکن اس کے سبب وہ امتحانات امتیازی کامیابی سے ہمکنار ہوتی رہی۔ تعلیم کا خاتمہ ہماری ازدواجی زندگی کا آغاز تھا اور میں بے روزگار تھا اس لئے گھر کا خرچ چلانے کے لیے اسے مجبوراً لکچرر بننا پڑا۔

یاسر نے ایک اور سوال کر دیا لیکن بعد میں جب آپ برسرِ روزگار ہو گئے تو وہ مجبوری دور ہو چکی تھی؟

تھامسن بولے جی ہاں لیکن اس کا خیال مجھے تین چار سال گزر جانے کے بعد آیا اس لئے کہ شادی کے بعد ابتدائی ایام میں ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ تھیں اور ہوش و حواس بھی کم تھا۔

یاسر نے پوچھا تو پھر کیا آپ نے ریکھا سے اس بابت کوئی بات کی؟

تھامسن بولا جی ہاں میں نے اس سے کہا کہ وہ اب چاہے تو ملازمت چھوڑ دے اس لئے کہ ہمیں اس کی چنداں ضرورت نہیں۔

بہت خوب یاسر نے کہا تب تو ریکھا کو چاہئے تھا کہ پہلی فرصت میں وہ اپنا دامن جھٹک لیتی؟

تھامسن بولے جی ہاں مجھے اس سے یہی توقع تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

کیوں؟ یاسر نے پوچھا اس نے کیا جواب دیا۔

تھامسن بولے اس کا جواب تھا کہ اب میں اس کی عادی ہو چکی ہوں۔ مجھے اس کی لت لگ گئی ہے کہ سبق تیار کروں۔ کالج جاؤں اور طلباء کو پڑھاؤں وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر میں یہ سب نہ کروں تو کیا کروں گی؟ اس کے بغیر میں جی نہیں سکتی۔

یاسر نے ٹھنڈی آہ بھر کے کہا تو گویا عادتاً  اس نے یہ بکھیڑے پال رکھے ہیں۔

تھامسن نے ایک سرد آہ بھر کر کہا جی ہاں یہی سمجھ لو لیکن اس کی جو قیمت میں نے ادا کی ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ کوئی اور نہیں جان سکتا۔

یاسر بولا اگر ایسا ہے تو آپ……

میں اس کی دلآزاری نہیں کر سکتا میں اس سے محبت کرتا ہوں۔

یاسر بولا اب بھی؟

جی ہاں ناصر اب بھی اور شاید ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ یہ آزارِ دل کبھی ختم نہیں ہو گا اور میں نہیں چاہتا کہ یہ کبھی ختم ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

شباب الہند

 

ماحول نہایت غمگین سا ہو گیا تھا پروفیسر تھامسن دنیا و مافیہا سے بے خبر خلاء میں دیکھ رہے تھے۔ یاسر بولا چلئے پروفیسر صاحب باہر باغ میں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔

پروفیسر صاحب تصور خیال سے لوٹ آئے اور کہا جی ہاں یہ اچھا ہے۔ گرم چائے کی چسکی لینے کے بعد تھامسن بولے ہماری ملاقات کا مقصد تو کچھ اور تھا اور ہم لوگ کہیں اور نکل گئے۔

یاسر نے کہا جی نہیں ہمارا بنیادی مقصد ایک دوسرے کو جاننا تھا سو حاصل ہو گیا اب فروعی مقصد پر بھی بات ہو جائے گی۔

تھامسن نے کہا ناصر صاحب در اصل ہمارے سماجکو فی الحال سرمایہ داری اور صارفیت نے اپنے خونی پنجہ میں بری طرح جکڑ لیا ہے۔ پونے فیسٹیویل والوں نے ثقافتی پروگرام کے حوالے سے جو رضاکارانہ تنظیموں کی بات کہی تھی وہ سراسر دھوکہ ہے۔ اس کی آڑ میں وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ان سرگرمیوں کے اخراجات کا بوجھ انتظامیہ نہیں اٹھائے گا اور آپ کو تجارتی اداروں کے تعاون سے یہ کام کرنا ہو گا۔

یاسر نے حیرت سے کہا لیکن تجارتی ادارے …..؟

تھامسن بولے جی ہاں وہ اپنی تجارت کے فروغ میں اگر وہاں اشتہار بازی کو مفید سمجھیں گے تو آپ کو روپیہ دیں گے ورنہ خدا حافظ۔ اب ایسا ہے کہ یوروپ کے نام پر آسانی سے روپیہ جمع ہو جاتا ہے افریقہ کے لیے نہیں نیز مجھے اس فن میں نہ دلچسپی ہے اور نہ مہارت اس لئے یہ کام نہیں ہو پاتا۔

یاسر کے لیے یہ نیا انکشاف تھا اس نے پوچھا عام طور پر کون لوگ اس طرح کی تقریبات میں اپنے اشتہار دیتے ہیں۔

تھامسن بولے ٹراویل بزنس کے لوگ اس میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں مثلاً ہوائی کمپنی، ٹکٹ اور ویزہ بنانے والے اس کے علاوہ مغرب کی وہ نجی یونیورسٹی جسے یہاں سے امیر کبیر طلباء کے داخلے کی توقع ہو یا کبھی کبھار کچھ حکومتیں بھی اپنے سفارتخانے کے ذریعہ تعاون کرتی ہیں۔ اگر اس موقع سے کسی روزمرہ کے استعمال کی نئی برانڈ بازار میں آ رہی ہو یا شہر میں کوئی نیا مول وغیرہ کھل رہا ہو۔ کئی چیزیں ہوتی ہیں۔

یاسر نے کہا کیا نادرہ فارم کی جانب سے ہم لوگ افریقہ کے تہذیبی پروگرام کو اسپانسر کر سکتے ہیں؟

پروفیسر تھامسن اس غیر متوقع پیشکش پر چونک پڑے انہوں نے کہا لیکن اس میں آپ کا میرا مطلب ہے فارم کا کیا فائدہ ہے؟

یاسر اس سوال کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کو ایسا لگا جیسے اس کی چوری پہلے ہی مرحلے میں پکڑی گئی ہے۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا ایسا ہے نا پروفیسر صاحب کہ جب انسان کو دولت مل جاتی ہے تو اس کی قدر و قیمت اس کے نزدیک ختم ہو جاتی ہے اس لئے وہ شہرت کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے اپنی دولت لٹانے لگتا ہے۔ ایم ایف حسین کی آمد سے ہمارے فارم کو جو شہرت ملی اس سے نادرہ کے سماجی مرتبے میں قابل قدر اضافہ ہوا بلکہ کئی نئے تاجر حضرات سے بھی ہمارا رابطہ ہوا انہوں نے ہمیں گھوڑے فروخت کرنے کی پیشکش کی۔ اس کے سبب ہمارے امیر کبیر گاہکوں کی فہرست بھی مضبوط تر ہوئی۔ مجھے یقین ہے کہ اس ثقافتی میلے کی سرپرستی ہمارے لئے افریقہ کے بازار کا دروازہ کھولے گی۔

تھامسن نے کہا میں نے تو یوں ہی یہ سوال کر دیا تھا مجھے تو آم سے مطلب رکھنا چاہئے پیڑ گننے سے کیا فائدہ لیکن مجھے خوشی ہے کہ آپ نے یہ فیصلہ محض جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں کیا بلکہ اس کے پس پشت ایک ٹھوس تجارتی سوچ بھی کارفرما ہے۔ پروفیسر تھامسن یاسر کے جھوٹ پر یقین کرنے لگے تھے وہ اس سے بے حد خوش تھا۔

نادرہ اور ریکھا بھی لوٹ کر آ چکے تھے کھانا لگ رہا تھا۔ پروفیسر تھامسن دوبارہ اپنے موضوع پر آتے ہوئے بولے اس طرح کی ثقافتی سرگرمیوں میں عام طور پر تاجر حضرات کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی اس لئے کہ اس اہمیت سمجھانے کے لیے کافی محنت کرنی پڑتی ہے لیکن آپ نے از خود آگے بڑھ کر میرا کام آسان کر دیا۔ نادرہ اور ریکھا چونکہ اس کے پس منظرسے واقف نہیں تھیں اس لئے ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ تھامسن نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اس کی وجہ بتانا مناسب سمجھیں گے۔

یاسر بولا کیوں نہیں۔ اس کی دو عدد وجوہات ہیں ایک تو کالج میں تعلیم کے دوران ایک ڈرامے میں حصہ لینے کا موقع مجھے بھی ملا تھا اور اس کامیابی کو میں اپنا سب سے بڑا سرمایۂ حیات سمجھتا ہوں اس کے علاوہ ……..وہ رک کر نادرہ کی جانب دیکھنے لگا۔

تھامسن بولے کیوں اس ڈرامہ میں کوئی ایسی ویسی بات ہو گئی تھی جسے نادرہ بیگم کے سامنے بولنے میں آپ کو تکلف ہے؟

جی نہیں یاسر بولا در اصل نادرہ نے ایک کہانی لکھی ہے اس کو بھی افریقہ کے پس منظر میں ڈھال کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ڈرامہ سارے پروگراموں پر چھا جائے گا۔ میں نے جب شادی کے بعد ان سے وہ کہانی سنی تھی تب سے وہ میرے قلب و ذہن پر نقش ہے اور اگر وہ اپنے کسی انجام کو نہیں پہنچتی تو مجھے اس کا بہت افسوس ہو گا۔

ریکھا نے معنیٰ خیز نگاہوں سے نادرہ کی جانب دیکھا تو وہ شرما گئی اور بولی ان کی باتوں پر آپ لوگ کان نہ دھریں یہ تو کچھ بھی کہتے ہیں۔

یاسر بولا پروفیسر صاحب میں تو اپنی دلچسپی کی وجوہات بتا رہا تھا میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ان ڈراموں کو پیش کریں۔ پروگرام کیا ہو گا یہ آپ کا اختیار ہے ہمارا تو صرف اشتہار ہے ویسے میرا ایک دوست شنکر بھی ہے جس کا کاروبار افریقی ممالک تک پھیلا ہوا ہے اس لئے مجھے یقین ہے کہ وہ بھی اس میں ہاتھ بٹائے گا۔ ہم کچھ اور اسپانسر کی بھی کوشش کریں گے آپ وسائل کی فکر نہ کریں لیکن پروگرام زبردست ہونا چاہئے۔

تھامسن بولے یاسر صاحب آپ کو اس بابت بے فکر رہنا چاہئے افریقہ کے نہایت باصلاحیت طلباء سے میرا رابطہ ہے مجھے یقین ہے کہ جب وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے اسٹیج پر آئیں گے تو سب کو پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ کوئلو پاولو کے ناول الکیمسٹ کو ڈرامہ کی شکل میں پیش کرنے کا سپنا میں نہ جانے کب سے دیکھا کرتا تھا لیکن اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کا وقت آ گیا۔

الکیمسٹ کا نام سن کر نادرہ خوش ہو گئی اور بولی پروفیسر صاحب میں آپ کے حسنِ انتخاب کی داد دیتی ہوں اب وقت آ گیا ہے کہ لوگ شکسپیر کے سحر سے نکلیں اور الکیمسٹ تو شمالی افریقہ کی کہانی ہے۔ اس کی پیشکش اس فیسٹیویل کو چار چاند لگا دے گی۔

ریکھا نے حیرت سے پوچھا یہ الکیمسٹ کون ہے؟

تھامسن نے یاسر کی جانب دیکھ کر کہا دیکھا آپ نے؟ میں نہیں کہہ رہا تھا……..؟

ریکھا چڑ کر بولی اچھا تو آپ میرے بارے میں ان سے ……

تھامسن نے درمیان میں ٹوک دیا اور بولا اچھی اچھی باتیں کر رہا تھا۔ کافی تاخیر ہو چکی ہے چلو گھر چلتے ہیں۔

ریکھا بولی ٹھیک ہے گھر پہنچ کر میں خبر لیتی ہوں کہ آپ ……..۔

تھامسن بولے جی ہاں چلو اور یہ قافلہ صدر دروازے کی جانب چل پڑا۔

………………………

یاسر نے شنکر کو جب پروفیسر تھامسن سے ملاقات کی تفصیل بتلائی تو وہ خوش ہو گیا۔ اس نے کہا یاسر میرے دوست تم نے ایک بڑا معرکہ اس صفائی سے سر کر لیا کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔

یاسر نے کہا ابھی سے کہاں سانپ اور لاٹھی؟

شنکر بولا میرا مطلب ہے تم نے جن خطوط پر کام کا آغاز کیا ہے اس سے جلد ہی سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ ویسے تم اسپانسرس کی فکر نہ کرو میں اپنے کئی ایجنٹوں کو اس کے لیے اشتہار دینے پر تیار کر لوں گا سرمایہ کی کمی نہیں ہو گی لیکن وہ طلبہ جن کو ہم اپنے کام کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارے نرغے میں کیونکر آئیں گے؟

یاسر بولا اس کے لیے میرے پاس ایک اور منصوبہ ہے۔

شنکر نے پوچھا وہ کیا؟

وہ …..اپنا دوست جون تمہیں یاد ہے۔

جی ہاں اپنے ڈرامہ کا قاضی ! اور ڈرامہ نویس اسے میں کیسے بھول سکتا ہوں؟ کیا تم اس کو بھی اپنی اس قزاقی میں شامل کرنا چاہتے ہو؟ مجھے نہیں لگتا ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دینے پر راضی ہو جائے گا۔

یاسر بولا مجھے اس کا علم ہے اور اب تو اس کا ہمارے ساتھ آنا پہلے سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ ہم اسے بھی اس طرح استعمال کریں گے کہ خود اس کو پتہ نہ چلے اور ہمارا کام ہو جائے۔

شنکر بولا میں نہیں سمجھا؟

یاسر نے کہا پروفیسر تھامسن کی مثال تمہارے سامنے ہے اس بیچارے کو کیا پتہ کہ وہ کس کے لیے کیا کر رہا ہے۔

شنکر بولا جی ہاں لیکن وہ تو یہاں موجود ہے جبکہ جون …….۔

یاسر نے کہا مجھے پتہ ہے وہ آج کل کینیڈا میں لکچرر ہے اور اسلام قبول کر چکا ہے۔ میں اسے یہاں آنے کی دعوت دوں گا۔ اس کی افریقہ و صومالیہ کے حالات پر تقاریر کا اہتمام کروا کر اپنے لئے مقید نوجوانوں کا انتخاب کر لوں گا۔ وہ نا دانستہ طور پر ہمارا کام کر کے واپس چلا جائے گا۔ ایک مرتبہ نوجوان رابطے میں  آ جائیں تو اس کے بعد ہم ان کی مدد سے اپنا کام کریں گے۔

شنکر نے کہا یار ماننا پڑے گا اگر رابرٹ کو پتہ چلے تو وہ تمہیں حکومتِ کینیا کا پرنسپل سکریٹری بنوا دے۔

یاسر بولا وہ بیوقوف مجھے کیا بناس کے گا یہ تو میں نہیں جانتا لیکن میں اس کا کیا حشر کروں گا یہ تم دیکھنا۔

شنکر نے کہا یار پرانی دشمنی چھوڑو اب وہ ہمارے گروہ کا ایک اہم رکن ہے۔

یاسر نے جواب دیا ہوا کرے ! اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

شنکر سوچنے لگا اچھے بھلے یاسر پر رابرٹ کا نام آتے ہی نہ جانے کون سا جنون سوار ہو جاتا ہے؟

یاسر نے پہلے تو سلطان پینٹو سے رابطہ قائم کر کے میلے کی تاریخوں میں اسے پونے آنے کی دعوت دی ۔ یاسرچونکہ اپنا وعدہ نبھا رہا تھا اس لئے سلطان بخوشی تیار ہو گیا۔ اس کے بعد یاسر نے تھامسن سے بتایا کہ اتفاق سے ان تاریخوں میں کینیڈا سے پروفیسر سلطان پینٹو ہندوستان آنے والے ہیں جن کا تعلق تو صومالیہ سے ہے لیکن وہ فرگوسن کالج میں میرے ساتھ زیر تعلیم تھے۔ وہ ٹورنٹو یونیورسٹی میں تاریخ پڑھاتے ہیں اگر آپ مناسب سمجھیں تو انہیں بھی اپنے پروگرام میں شامل کیا جائے۔

تھامسن یہ سن کر خوش ہو گئے اور بولے یہ تو سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔ آپ مجھے اس کا پتہ دے دیں میں آج ہی یونیورسٹی کی جانب سے انہیں دعوت بھجواتا ہوں اور ان کی رہائش وغیرہ کا بندو بست کرواتا ہوں۔ یہاں کے لوگ شمالی امریکہ سے ویسے ہی مرعوب ہیں اور اگر ان کا اپنا آدمی مغرب سے ہو کر آئے تو اس کے درجات بلند ہو جاتے ہیں۔

یاسر بولا چونکہ وہ میرے ذاتی دوست ہیں اس لئے میرے ساتھ ہی قیام کریں گے۔ ان کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں۔ ان کے ذمہ پروگرام آپ ترتیب فرما دیں یہ کافی ہے۔

پروفیسر تھامسن نے کہا ہم انہیں مہمانِ خصوصی بنائیں گے اور افریقہ کی تاریخ و تہذیب پر ان کا ایک اہم خطاب ٹاؤن ہال میں بھی رکھیں گے۔

یاسر نے کہا تب تو مزہ آ جائے گا مجھے یقین ہے کہ سلطان پینٹو اپنے اس پونے کے دورے کو یاد رکھے گا۔

تھامسن نے کہا اور ہم بھی ان کے ساتھ گذارے ہوئے حسین لمحات کو یاد رکھیں گے۔

پونے فیسٹیویل میں افریقی ثقافتی پروگرام کو غیر معمولی کامیابی ملی۔ اس لئے کہ اس میں ندرت تھی۔ ہر کوئی اس کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ پروفیسر تھامسن کی انتھک محنت اور الکیمسٹ نامی ڈرامے کی مقبولیت نے اس پروگرام میں چار چاند لگا دئیے تھے لیکن ان سب پر پروفیسرسلطان پینٹو کا خطاب چھا گیا۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے کی جانے والی ان کی تقریر اس قدر مشہور  ہوئی کہ دوسرے دن ٹاؤن ہال میں افریقہ کی تاریخ و تہذیب پر ہونے والے لکچر کے لیے ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ وقت سے پہلے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

سلطان پینٹو جب یاسر اور پروفیسر تھامسن کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے تو حاضرین نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ سارا ہال تالیوں کی گڑ گڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ دوران تقریر مکمل خاموشی چھائی رہی لوگ نہایت انہماک سے سلطان کی تقریر سنتے رہے اور اس کے بعد سوالات اور جوابات کا طویل سلسلہ چل پڑا۔ پروفیسر تھامسن نے یاسر کو بھی دو لفظ کہنے کے لیے بلایا تو ناصر نے سلطان کا شکریہ ادا کیا اور اعلان کر دیا کہ صومالیہ کے چند طلباء نے اپنی جانب سے سلطان پینٹو کے اعزاز میں ایک دعوت نادرہ فارم کے اندر کل شام منعقد کی ہے۔ اس خصوصی پروگرام میں صومالیہ کے سارے طلباء ضرور تشریف لائیں۔ پروفیسر تھامسن نے پروفیسر سلطان کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے ساتھ ناصر کا بھی شکریہ ادا کیا۔

دوسرے دن شام نادرہ فارم پر سلطان پینٹو کی صومالیہ کی سیاسی صورتحال پر تقریر تھی۔ لوگ باگ آ رہے تھے اس بیچ نے سلطان نے یاسر سے پوچھا یار یہ یاسر اور ناصر کا کیا چکر ہے؟

یاسر بولا اگر تم جون سے سلطان بن سکتے ہو تو میں یاسر سے ناصر کیوں نہیں بن سکتا۔ اس سے پہلے کہ سلطان مزید تفصیل طلب کرتا سامنے سے شنکر آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے دور سے آواز لگائی اوئے میرے قاضی تو تو اسٹیج سے اتر کر اصلی زندگی میں بھی قاضی بن گیا ہے۔ کمال ہو گیا واقعی کمال ہو گیا۔ آج سارے اخبارات میں تیری تصویر شائع ہوئی ہے۔ تیری تقریر کا چرچا ہر زبان پر ہے۔ اس پروگرام کے بعد چند صحافی تجھ سے انٹرویو لینا چاہتے ہیں اور آج شام ایک ٹیلی ویژن چینل پر بھی تیری ملاقات نشر ہونے والی ہے۔ ہم لوگ تو یہاں یونہی جھک مار رہے ہیں تو آیا اور چھا گیا۔ شنکر بے تکان بولے جا رہا تھا۔

سلطان نے پوچھا یہ تیرے ساتھ کون لوگ ہیں۔

شنکر نے بتایا یہ ویڈیو گرافرس ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس یادگار شام کو فلمبند کر لیا جائے۔ اس نشست میں شریک ہونے والے ہر شریک کا رجسٹریشن کیا جا رہا تھا، طلباء اپنا نام، وطن(گاؤں )، تعلیمی شعبہ، فون نمبر اور ای میل پتہ لکھ رہے تھے۔

پروگرام کی ابتداء میں شنکر نے نہایت دلپذیر انداز میں سلطان پینٹو کا تعارف کرایا اور فرگوسن کالج میں ایک ساتھ گزارے ہوئے لمحات کی یاد تازہ کی۔ اس کے بعد سلطان پینٹو نے صومالیہ کی سیاسی صورتحال پر خون کے آنسو رلانے والی تقریر کی اور ہمسایوں سے لے کر دنیا بھر کی قوتوں کی سازشوں کا پردہ فاش کر دیا۔ عالمی طاقتوں کے مقاصد و عزائم کے ساتھ ساتھ اس نے ذرائع ابلاغ کی جانب پھیلائے جانے والے ایک ایک جھوٹ کی قلعی کھول دی۔ اس کے بعد سوالات و جوابات کا سلسلہ شروع ہو ا۔

شنکر اور یاسر کے لیے یہ پروگرام کا سب سے اہم حصہ تھا اس لئے اس دوران انہیں اپنے لئے کام کے نوجوانوں کا انتخاب کرنا تھا۔ طارق، محمود اور جنگانگ کا شمار یونیورسٹی کے ان با شعور اور ہونہار طلباء میں ہوتا تھا جن کو کسی نہ کسی حد تک اپنے ملک کو درپیش مسائل کا احساس تھا۔ انہیں پتہ تھا کہ ان کا وطن عالمی طاقتوں کے سیاسی جوڑ توڑ کی بساط بنا ہوا ہے۔ وہ اپنے ملک کو بین الاقوامی قزاقوں کے چنگل سے نکالنا چاہتے لیکن انہیں اس کی کوئی عملی صورت نظر نہیں آتی تھی۔

ان لوگوں نے سلطان کے سامنے سوالات کی بوچھار کر دی اور اپنا ایک ایک شک رفع کرنے لگے۔ اس گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ اپنے مادر وطن کو آزادی کی نعمت سے بہرہ ور کرنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ سلطان نے کہا اس بابت میں کوئی عملی رہنمائی کرنا قبل از وقت سمجھتا ہوں لیکن آپ لوگوں کو چند اصولی باتوں کی تلقین کرتا ہوں۔ اس نے کہا فی الحال سب سے بڑی ضرورت یہ ہے آپ سب آپس کے اندر ربط میں رہیں۔ وہاں کے حالات کو حقیقی پس منظر میں سمجھیں اور دیگر لوگوں کو سمجھائیں۔ اس کام کے لیے ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کریں۔

سلطان نے جاتے جاتے انہیں ای میل سے رابطے میں رہنے کا مشورہ دیا۔ آخر میں شکریہ ادا کرنے کی ذمہ داری فطری طور پر یاسر کی تھی۔ اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے افریقی طلباء برادری نامی تنظیم کے صدر جنگانگ کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا اور آئندہ بھی اپنے تمام تر تعاون کا یقین دلایا۔ اس پروگرام میں پروفیسر تھامسن اور ریکھا موجود نہیں تھے۔

سلطان کو واپسی سے قبل شنکر نے اپنی کوٹھی کیلاش پربت پر شاندار دعوت دی اور شہر کی مقتدر ہستیوں کو وہاں بلایا۔ اس تقریب میں کینیا، صومالیہ اور جنوبی افریقہ کے سفیر بھی شریک ہوئے۔ اس مشق کے ذریعہ افریقی برادری کے اندر یاسر اور شنکر نے اپنی اچھی خاصی ساکھ قائم کر لی۔ اس طرح گویا سلطان کی آمد کا بھرپور فائدہ ان لوگوں نے اٹھا لیا۔

سلطان تو دورے سے خالی ہاتھ لوٹ گیا لیکن یاسر اور شنکر کے لیے آگے کی راہ ہموار کر گیا۔ یاسر نے ان طلباء میں سے پانچ کا انتخاب کر کے ان کے ذہن میں کینیا کے خلاف نفرت کا زہر بھرنا شروع کر دیا۔ ویسے یہ کام مشکل اس لئے نہیں تھا کہ صومالیہ کے تئیں کینیائی حکومت کا رویہ نہایت معاندانہ تھا۔ جب وہ لوگ مسلح جد و جہد کے لیے پوری طرح تیار ہو گئے تو پونے کے مضافات کھڑک واسلہ شوٹنگ کلب میں ایک سابق فوجی کی خدمات حاصل کر کے انہیں اے کے ۴۷ اور دیگر اسلحہ کے استعمال کی تربیت دی گئی۔

یاسر نے اس کام کے لیے شباب الہند نامی ایک فرضی تنظیم قائم کر دی تھی۔ وہ اس تنظیم کے خفیہ سربراہ ابو شغارہ کی حیثیت ان لوگوں سے ٹیلی فون اور ای میل وغیرہ کے ذریعہ رابطے میں رہتا تھا۔ ترسیل کے لیے ان لوگوں نے کوڈ وردس کی ایک مصنوعی زبان ایجاد کر لی تھی جس سے کسی کو ان کے ارادوں اور سرگرمیوں کا پتہ نہ چل پاتا تھا۔ ابوشغارہ نے شباب الہند کے اس دستے کو ایک اہم مہم کے لیے تیار رہنے کا مژدہ سنا دیا تھا جس کے احکامات بہت جلد الشباب کے صومالیائی مرکز سے ملنے والے تھے۔

اس درمیان یونیورسٹی کی سالانہ تعطیلات کا اعلان ہو گیا۔ دیگر طلباء کے ساتھ طارق، محمود، جنگیانگ، عبداللہ اور جنداللہ نے بھی صومالیہ جانے کا منصوبہ بنایا۔ یاسر چاہتا تو نہیں تھا کہ وہ واپس جائیں لیکن روکنے کا کوئی معقول جواز نہیں تھا اس لئے ابوشغارہ کے طور پر اس نے پانچوں کو واپس جانے کی اجازت تو دی لیکن سخت راز داری کی تاکید بھی کی۔ اس نے کہا کہ اگر ان کی ملاقات الشباب کے ارکان سے بھی ہو جائے تب بھی وہ اپنا راز فاش نہیں کریں گے اس لئے کہ شباب الہند کے بارے میں الشباب کے منتظمِ اعلیٰ کے علاوہ کسی کو علم نہیں ہے اور ان کی ہدایت ہے کہ اس معاملے میں مکمل راز داری برتی جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

طارق

 

طلباء تو چھٹیوں کے دوران عیش کر رہے تھے مگر یاسر اور شنکر بے حد مصروف تھے۔ شنکر نے رابرٹ کو کام کی پیش رفت سے آگاہ کرنے لگا تھا لیکن رابرٹ کو اس منصوبے پر بہت زیادہ اطمینان نہیں ہو رہا تھا۔ اسے شبہ تھا کہ کالج کے طلباء اس مشکل مہم کو بخیر و خوبی انجام دے سکیں گے جس کی توقع شنکر اور یاسر ان سے کر رہے ہیں اس کے باوجود وہ ان دونوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ رابرٹ نے انہیں بتایا کہ وہ بھی نیروبی کے اندر اس کام کے لیے راہ ہموار کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وہ پولس افسران کا مخصوص وفادار دستہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو گیا ہے جو حملے کے دن وہاں تعینات کیا جائے گا اور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں تعاون کرے گا۔ لوٹ کا مال جہاز تک پہنچانے کا کام اسی کے ذمہ ہو گا اور اس کی چوری کے مال میں ان لوگوں کی حصہ داری بھی ہو گی۔

اس بیچ شنکر نے افریقہ کے مشرقی ساحل پر چلنے والا ایک مال بردار جہاز اپنے دبئی دفتر کے توسط سے خرید لیا اور رابرٹ کی جانب سے ہری جھنڈی کا انتظار کرنے لگا۔ رابرٹ نے انہیں جب ساری تیاریوں کی اطلاع دے دی تو یاسر اور شنکر وقتی طور پر دبئی منتقل ہو گئے اس لئے کہ اب اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے دبئی کو مرکز بنایا گیا تھا۔ یہاں موجود شنکر کے مکان کو جدید ذرائع ابلاغ کے آلات سے لیس کر کے مہم کے کنٹرول روم میں تبدیل کر دیا گیا۔ شنکر ویسے ہر روز چند گھنٹوں کے لیے اپنے دفتر میں بھی جاتا تھا تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔

اس مہم کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ نیروبی ساحل سمندر سے کافی دوری پر واقع تھا عام طور سے نیروبی کے لیے ۳.. میل کی دوری پر واقع ممباسہ کی بندرگاہ کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن چونکہ وہ بہت ہی مصروف بندرگاہ تھی اس لئے صومالیہ کی سرحد سے قریب لامو نام کی ایک ویران سے بندرگاہ کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا۔ قزاقوں کے خوف سے کم ہی لوگ اس کا رخ کرتے تھے۔ صومالیہ میں الشباب کا مرکز کسامایو وہاں قریب ہی واقع تھا۔ شنکر نے اسلحہ کی فراہمی کے لیے مشرقی یوروپ کا سفر کیا اور وہاں سے اپنے جہاز پر لدوا کر اسے ممبئی کی جانب روانہ کر دیا گیا۔

تعطیلات کا وقفہ ختم ہو گیا اور شباب الہند کے نوجوان پونے واپس آ گئے۔ ان کی ایک خفیہ میٹنگ ابو شغارہ نے شنکر کے ایک بے نامی فلیٹ میں طلب کی۔ اس مکان کو شنکر نے بظاہر اپنے ایک رشتہ دار کے نام کرائے پر اٹھا دیا تھاجس کے شہر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ نہ کرایہ دیتا تھا اور نہ اس کی چابی اس کے پاس تھی۔ وہ بیچارہ تو ایک چارہ تھا کہ اگر پولس چھاپہ مارے تو اسے شکار کے طور پر بلی کا بکرا بنا دیا جائے۔

جب سارے لوگ جمع ہو گئے تو انہیں کمپیوٹر کھولنے کے احکامات دئیے گئے جس کا مانیٹر ٹی وی کی طرح لمبا چوڑا تھا۔ جنگانگ نے جیسے ہی اسکائپ کا رابطہ قائم کیا نقاب پوش ابوشغارہ بڑے سے پردے پر نمودار ہو گیا۔ اس سے نے انہیں بتایا کہ وہ لوگ جلد ہی ایک ایسی مقدس مہم پر روانہ ہونے والے ہیں جس سے دشمنوں کی چولیں ہل جائیں گی اور ان کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ وہ پھر دوبارہ ان کے ملک کی جانب نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے گا۔ یہ مہم ایک پڑوسی ملک کے صدر مقام پر انجام پائے گی اور اس کی تفصیل سے انہیں بہت جلد آگاہ کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد الشباب کے ایک مجاہد کی پر جوش تقریر انہیں سنائی گئی۔ میدانِ جہاد میں کامیابی کی چند تصاویر انہیں دکھلائی گئیں اور صبر و تحمل کی تلقین کی گئی۔ ٹی وی کا پردہ بجھ گیا اور پانچوں لوگ احتیاط کے پیشِ نظر تنہا تنہا روانہ ہو گئے۔ اب ان سب کو کوچ کے احکامات کا بے صبری سے انتظار تھا۔

تین دن کے بعد پانچوں کو کوڈ ورڈس میں پیغام موصول ہوا جس میں انہیں پونے اور ممبئی کے درمیان علی باغ کے مقام پر پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا۔ علی باغ کے ساحل پر موجود ہوٹل پرنس میں ان سب کے لیے کمرے مختص کر دئیے گئے تھے اور شنکر کا ایک دست راست سابق فوجی بالاجی راؤ شندے ان کا منتظر تھا۔ بالا جی سے اسلحہ کی تربیت کے دوران وہ لوگ متعارف ہو چکے تھے۔ بالا جی نے انہیں بتایا کہ ساحل سے دور بین الاقوامی سمندر میں الشباب کی جانب سے ایک جہاز دوچار دن میں پہنچنے والا ہے۔ جس کے ذریعہ سے انہیں لامو نامی بندرگاہ پر لے جایا جائے گا۔ لامو میں ان کی ملاقات الشباب کے کمانڈر یوسف سے ہو گی جس کی رہنمائی میں وہ لوگ نیروبی جائیں گے اور وہاں حال میں تعمیر شدہ بین الاقوامی شہرت یافتہ سرخ مثلث نامی مول پر حملہ بول دیں گے۔

اس مول میں چونکہ غیر ملکی زائرین کی آمدورفت بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے لازماً وہ ہلاک ہوں گے جس یہ ایک عالمی خبر بن جائے گی۔ کینیا کو اس حملے کے ذریعہ یہ پیغام دیا جائے گا کہ اگر وہ صومالیہ کے اندر بیجا مداخلت سے باز نہیں آئے گا تو اس کی معیشت کو اسی طرح تباہ برباد کر دیا جائے گا۔ ایک مختصرسی تمہید کے بعد مول کے نقشہ جات کی مدد سے حملے کا منصوبہ بالا جی راؤ نے انہیں سمجھا دیا اور یہ بھی کہہ دیا چونکہ یوسف ان کے ساتھ ساری مہم کے دوران موجود رہے گا اس لئے وہ رہنمائی کرتا رہے گا۔ اسی کی قیادت میں وہ لامو سے نیروبی جائیں گے اور واپس لوٹ کر آئیں گے۔

بالا جی جانتا کہ اس کے جملے کا آخری حصہ سراسرجھوٹ ہے ان میں کوئی واپس نہیں آئے گا اس لئے کہ ان کا قتل ہو جانا منصوبے کا وہ حصہ تھا جس کو صیغۂ راز میں رکھنے کی اسے ہدایت کی گئی تھی۔ اس نشست کے بعد ٹیم کے افراد کو آپس میں ملاقات کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن وقتِ ضرورت وہ فرداً فرداً بالا جی سے مل کر اپنے شکوک و شبہات کا ازالہ کر سکتے تھے۔ دو دن بعد شیوا نام کی ایک تیز رفتار کشتی میں سوار ہو کر وہ پانچوں شنکر کے جہاز میں پہنچ گئے جو دور پانیوں میں لنگر انداز تھا اور ان کا طول طویل سفر شروع ہو گیا۔ اس سفر کے دوران جنگانگ کے علاوہ باقی سارے مسلم نوجوان نماز و تلاوت میں مصروف رہے۔

دو ہفتوں کے بعد ان کا جہاز لامو پہنچ گیا لیکن وہاں کوئی یوسف موجود نہیں تھا۔ تین دنوں تک جہاز بندرگاہ پر لنگر انداز رہا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ کپتان نے بتایا کہ وہ کسامایو جا رہے ہیں۔ کسامایو؟ سارے لوگوں نے چونک کر پوچھا۔ کپتان نے بتایا ہمیں اس بندر گاہ پر اس سے زیادہ رکنے کی اجازت نہیں ہے اور اس سے قریب ترین وہی بندرگاہ ہے اس لئے وہاں جانا ہماری مجبوری ہے۔ ان لوگوں کو توقع تھی کہ ممکن ہے کسا مایو میں ان کی ملاقات کمانڈر یوسف سے ہو جائے اور وہاں سے وہ لوگ نیروبی کی جانب روانہ ہو جائیں لیکن کسامایو پر بھی دو دن کے انتظار بسیار کے بعد کپتان نے انہیں بتایا کہ اسے واپس لامو جانے کا حکم ملا ہے اور وہ لوگ اگر چاہیں تو کسامایو سے اپنے وطن جا سکتے ہیں۔

اس گروہ کے دیگر ارکان کا تعلق تو صومالیہ کے مختلف شہروں سے تھا لیکن طارق کسامایو کا رہنے والا تھا۔ طارق نے کہا دوستو شاید ہمارے منصوبے میں کوئی تبدیلی ہو گئی ہے اس لئے آپ سب میرے گھر چلو۔ وہاں دوچار دن رک کر اپنا اپنا لائحۂ عمل طے کر لینا۔ سارے لوگوں کے پاس اس تجویز پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ وہ لوگ پھر گہرے پانیوں میں لے جائے گئے اور وہاں سے تیز رفتار کشتیوں کے ذریعہ انہیں ویران ساحل پر اتار دیا گیا۔ کپتان نے انہیں کشتی میں سوار کرتے ہوئے اچھی خاصی مقدار میں مقامی کرنسی بھی دے دی تھی تاکہ وہ اپنا آگے کا سفربخیرو عافیت جاری رکھ سکیں۔

کسا مایو طارق کا اپنا شہر تھا اس لئے وہ اس کی گلی گلی سے واقف تھا لیکن جب وہ بے موقع بنا بتائے اپنے گھر پہنچ گیا تو ہر کوئی حیرت زدہ تھا لیکن کسی نے اس کا خاص نوٹس نہیں لیا۔ جولیٹ چونکہ کچھ عرصہ ایک زیر زمین تنظیم میں کام کر چکی تھی اس لئے طارق کے اس طرح وارد ہو جانے سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئی اور چھپ چھپ کر اس کے دوستوں کی بات چیت سننے لگی۔

ایک ایک کر کے طارق کے سارے دوست دو دن کے عرصے میں رفو چکر ہو گئے لیکن اس دوران جولیٹ کے لیے کئی مشتبہ سرے چھوڑ گئے جن میں سب سے نازک سرخ مثلث مول کا ذکر تھا۔ جولیٹ کی چھٹی حس اس سے کہہ رہی تھی کہ طارق گھر والوں سے کوئی اہم بات چھپا رہا ہے اور وہ اسے جاننا چاہتی تھی۔ ایک دن تنہائی میں جولیٹ نے طارق سے سیدھا سوال کر لیا یہ سرخ مثلث کیا ہے؟

جولیٹ کی زبان سے سرخ مثلث کا نام سن کر طارق گھبرا گیا۔ اسے لگا کہیں جولیٹ الشباب کی جاسوس تو نہیں جسے اس کے گھر میں تعینات کر دیا گیا ہو؟ یا حکومت کی ایجنٹ تو نہیں؟ اسے یاد آیا جولیٹ کینیا کی رہنے والی ہے اور نیروبی میں رہ چکی ہے کوئی بعید نہیں کہ وہ کینیائی پولس کی جاسوس ہو؟ اس طرح کے بے شمار اندیشوں نے طارق کی زبان گنگ کر دی اور بات کو ٹالنے کی کوشش کرنے لگا لیکن جولیٹ نے کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ وہ بہت جلد اس پر حاوی ہو گئی اور اس نے طارق کو سارے راز اگلنے پر مجبور کر دیا۔

طارق جب اپنی ساری تفصیل اسے بتا چکا تو جولیٹ بولی طارق تم خود اندھیرے میں ہو اس لئے میں تمہاری مدد سے روشنی میں نہیں پہنچ سکتی لیکن اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ تم کسی خطرناک سازش کا شکار ہو گئے ہو اور اس سے تمہاری جان کو خطرہ ہو سکتا ہے اس لئے میری رائے ہے کہ تم فوراً کسی محفوظ مقام پر روپوش ہو جاؤ اور جب تک میں نہ بتاؤں تم وہاں سے باہر نہیں آنا۔ طارق دوسرے دن اپنے گھر والوں سے یہ کہہ کر کے وہ کالج جا رہا ہے ممباسہ کے اندر اپنے بچپن کے ایک دوست کے گھر میں جا کر چھپ گیا۔

جولیٹ کو یقین تھا کہ طارق نے جو کہا وہ تو نہیں ہوا لیکن کچھ نہ کچھ ہونے والا ضرور ہے۔ وہ فرحت سے اپنے گاوں جانے کا بہانہ کر نیروبی چلی آئی۔ سرخ مثلث مول بالکل ان کے اڈے کی جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا اور ایک مختصر سے عرصے میں سارے علاقے کا نقشہ بدل چکا تھا۔ جولیٹ نے سرخ مثلث کے قریب ایک بلند بانگ ہوٹل میں ایسا کمرہ لیا جس کی کھڑکی مول کی جانب کھلتی تھی۔

وہ مول میں خریداری کے لیے بھی گئی اور اپنے ساتھ بہترین قسم کی کیمرہ و دور بین لے آئی۔ اب سونے اور کھانے کے علاوہ جولیٹ کا واحد مشغلہ سرخ مثلث مول کی جانب نظر گاڑے رہنا تھا۔ تین دن کے بعد اچانک جولیٹ نے مول کی جانب سے گولیوں کے چلنے کی آوازیں سنیں۔ وہ اپنی کھڑکی میں آ گئی اور وہاں رکھا اپنا کیمرہ چلا دیا جس کی آنکھ ان مناظر کی منتظر تھی اور دوربین لگا کر وہاں برپا ہونے والے ہنگامہ کو غور سے دیکھنے لگی۔

اپنی تمام تر تیاری و کوشش کے باوجود جولیٹ کو سوائے افراتفری، آگ، شور اور خون کے کچھ نظر نہیں آیا۔ مول سے باہر پہلے تو زخمی لوگ نکلتے ہوئے نظر آئے پھر حفاظتی دستوں نے اسے چہار جانب سے گھیر لیا اور وہ اندر داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ اندر اور باہر فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا اور جب یہ رکا تو ایمبولنس کی گاڑیاں سر گرمِ عمل ہو گئیں۔ یکے بعد دیگرے اندر سے زخمیوں اور لاشوں کو برآمد کرنے کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ جولیٹ کا کیمرہ وہی سب فلم بند کر رہا تھا جو ٹیلی ویژن پر نظر آ رہا تھا۔ جولیٹ کا جی تو بہت چاہا کہ وہ مول کے اندر جا کر دیکھے لیکن اس کی ہمت نے جواب دے دیا تھا اور شاید یہی مناسب بھی تھا اس لئے کہ اس جنگ کی صورت میں محاذ پر بلاوجہ کود پڑنا سوائے ہلاکت کے کوئی اور نتیجہ برآمد نہ کر سکتا تھا۔

جولیٹ جب کھڑے کھڑے تھک گئی تو اپنے بسترپر لیٹ کر ٹیلی ویژن پر وہ مناظر دیکھنے لگی جن کو وہ براہ راست دیکھ سکتی تھی لیکن یہ سب باہر کی دنیا تھی اندر کیا ہو رہا تھا اس بابت صرف قیاس ہی قیاس تھا حقیقت تک رسائی نہ ٹی وی والوں کے لیے ممکن تھی اور نہ جولیٹ کے لیے۔ اپنے بستر پر دراز جولیٹ کو اس بات کی خوشی تھی کہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر طارق ان حملہ آوروں میں شامل نہیں تھا جنہیں حفاظتی دستوں نے مار گرایا تھا اور جن کی لاشیں ٹیلی ویژن پر دکھلائی جا رہی تھیں۔ ان کی شناخت بھی کر لی گئی تھی۔ اتفاق سے وہ سب کے سب طارق کی مانند صومالیائی مسلمان تھے۔

یہ حملہ جولیٹ کی توقع کے عین مطابق ہوا تھا وہ اس کی شاہد بھی تھی لیکن اس کے باوجود کوئی ایسا سراغ اس کے ہاتھ نہیں لگا تھا جس کی مدد سے وہ حملہ آوروں کی براہ راست شناخت کر پاتی یا ان کے مقاصد کو جان سکتی تھی۔ زر خرید ذرائع ابلاغ میں جو کچھ نشر ہوتا تھا اس پر عوام کی طرح جولیٹ کا بھی اعتماد کم ہی تھا۔ ٹیلی ویژن پر الشباب کی جانب سے جو ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان ہو رہا تھا اس کی بھی کسی غیر جانبدار ذریعہ سے تصدیق و تردید ناممکن تھی۔ جولیٹ کی پریشانی یہ بھی تھی کہ اگر طارق اور اس کے ساتھیوں کو حملہ کرنا تھا توا نہیں روکا کیوں گیا؟ اور اگر وہ نہیں آئے تو یہ حملہ کس نے کیا؟ یہ کون لوگ ہیں؟

سرخ مثلث مول پر حملے کی گرد بیٹھتی جا رہی تھی۔ سرخ مثلث مول ویران ہو چکا تھا سارا ماحول سنسان ہو گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ نے اپنا رخ اب سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں کی جانب کر دیا تھا جو اس حملہ کی اپنے اپنے انداز میں مذمت کر رہے تھے اور ساری دنیا کو اسلامی دہشت گردی سے خوفزدہ کر رہے تھے۔ ان میں وزیر داخلہ رابرٹ پیش پیش تھا۔ وہ دہشت گردی کی بیخ کنی کے عزم کا اظہار کر رہا تھا اور ساری دنیا سے تعاون کی اپیل کر رہا تھا۔

جولیٹ کو یہ ناٹک بے حد مصنوعی معلوم ہو رہا تھا اس لئے کہ وہ ایک عرصے سے کسامویو میں ایک مسلمان خاندان میں مقیم تھی جسے الشباب کا گڑھ بتایا جا رہا تھا اور جس سے ساری دنیا کے امن و امان کو لاحق خطرات سے متنبہ کیا جا رہا تھا۔ جولیٹ کو رابرٹ کے عذاب سے فرحت کی پناہ نے تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ ٹیلی ویژن پر جا کر اعلان کر دے کہ یہ جو کچھ کہا جا رہا ہے یہ جھوٹ کا پلندہ ہے حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

رات کے اندھیرے نے جب ساری کائنات کو اپنی آغوش میں لے لیا تو جولیٹ کی کانوں نے ہلکے ہلکے شور کی آہٹ سنی۔ وہ واپس آ کر کھڑکی میں کھڑی ہو گئی اس نے دیکھا کہ مول کا ملبہ صاف کیا جا رہا ہے۔ جولیٹ سوچنے لگی ملبہ صاف کرنے کا یہ کون سا وقت ہے؟ اس کام کو تو دن میں ہونا چاہئے۔ رات میں تو ویسے ہی خطرات زیادہ ہیں۔ مبادا کوئی بم موجود ہو اور اچانک پھٹ پڑے یا کوئی چھپا ہوا حملہ آور گولیاں برسانے لگے۔

جولیٹ کی سمجھ میں رات کی تاریکی میں کی جانے والی اس کارروائی کی کوئی افادیت نہیں آ رہی تھی۔ اس جلد بازی نے جولیٹ کے ذہن میں شکوک و شبہات کو پیدا کر دیا اور اس نے اپنا کیمرہ چلا دیا۔ گاڑیوں کی آمد و رفت جاری تھی کیمرہ اپنا کام کر رہا تھا لیکن اس کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔

اس کارروائی کا ایک چونکا دینے والا پہلو یہ تھا کہ سب کچھ اس قدر پرسکون انداز میں ہو رہا تھا گویا یہ معمول کا کام ہو۔ اسے دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ اس مول پر چند گھنٹے قبل ایک خونی حملہ ہوا ہے جس میں کئی لوگ ہلاک ہوئے۔ سیکڑوں افراد دہشت گردوں کی گولی کا شکار ہو کر زخمی ہوئے ہیں۔ رات گئے تک بڑے اطمینان سے کام ہوتا رہا جولیٹ کھڑکی میں کھڑے ہو کر اس کا مشاہدہ کرتی رہی مگر اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا۔ پو پھٹنے سے قبل جب سب کچھ تھم گیا تو جولیٹ بھی تھک کر اپنے بستر پر آ گئی۔ اس ٹانگیں جواب دے رہی تھیں اور آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ جولیٹ اپنے بستر دراز ہو گئی اور فوراً سو گئی۔ وہ بیچاری اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

رنگ میں بھنگ

 

جہاز کے کپتان نے جب شنکر کو اطلاع دی کہ یوسف نام کا کوئی شخص ان نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے نہیں آیا تو یاسر کو دال میں کالا نظر آنے لگا۔ وہ سمجھ گیا کہ رابرٹ کی نیت خراب ہو گئی ہے اور اس نے کوئی نئی چال چلی ہے اس لئے یوسف سے لے کر آگے کے سارے مراحل کی باگ ڈور اب رابرٹ کے ہاتھوں میں تھی۔ یاسر اندر ہی اندر کھول رہا تھا اور اپنے آپ کوکوس رہا تھا کہ وہ کیوں شنکر کی باتوں میں آ کر اس گورکھ دھندے میں پھنس گیا۔

یاسر کو اس بات کا شدید افسوس تھا کہ اس نے رابرٹ کو اپنی دبئی کی ملاقات کے بعد زندہ واپس جانے ہی کیوں دیا۔ اگر اسی دن وہ رابرٹ کا کام تمام کر دیتا تو آج اسے یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے اس نے اور شنکر نے کس قدر محنت کی تھی اور کتنا خطرہ مول لیا تھا جس سے رابرٹ کھلواڑ کر رہا تھا۔ یاسر کے برعکس شنکر ہنوز پر امید تھا اس کے خیال میں کہ ضرور کوئی مشکل پیش آ گئی ہو گی جس کے سبب رابرٹ کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔

شنکر نے رابرٹ سے اس کے خفیہ فون پر رابطہ کیا۔ رابرٹ اس فون کا منتظر تھا۔ اس نے شنکر کو بتایا کہ یوسف کا نہ آنا کوئی حادثہ نہیں بلکہ منصوبہ بند فیصلہ ہے۔

یاسر ضبط نہ کر سکا اور بیچ میں بول پڑا کیوں؟ کیا ہم اس کی وجہ جان سکتے ہیں اور اس فیصلے سے ہمیں تاریکی میں کیوں رکھا گیا۔

رابرٹ بولا یاسر اس قدر جذباتی ہونا ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔ طریقۂ کار کسی بھی مرحلے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔

یاسر نے کہا ہم لوگ یہاں پر تمہاری پند و نصائح سننے کے لیے نہیں بیٹھے ہیں۔ مجھے مشورے نہیں اپنے سوالات کا جواب چاہئے۔ میں نے دو سوالات کئے ہیں اور میں دونوں کا واضح جواب چاہتا ہوں۔

شنکر نے پریشان ہو کر درمیان میں مداخلت کرنے کوشش کی تو رابرٹ بولا شنکر تم خاموش رہو مجھے جواب دینے دو۔ بات در اصل یہ ہے کہ ہم لوگوں نے مقامی طور پر حفظ ماتقدم کے طور پر کچھ تیاری کی تھی اور نیروبی کے چھوٹا موگاڈیسو نامی علاقہ میں کچھ جرائم پیشہ عناصر پر مشتمل ایک بی ٹیم تیار کر رکھی تھی تاکہ اگر خدا نخواستہ تمہارے آدمی راستے میں پکڑے جائیں یا کسی اور وجہ سے وقتِ مقررہ پر نہ پہنچ سکیں تو اس متبادل منصوبے پر عمل درآمد کیا جائے۔ اس سے تم لوگوں کو اس لئے پوشیدہ رکھا گیا تھا کہ اس کے استعمال کا امکان مفقود تھا اور یہ تمہاری تیاری کو متاثر کر سکتا تھا۔

رابرٹ نے اپنا بیان جاری رکھا لیکن جب کل ہم لوگ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بیٹھے تو ہمیں یہ محسوس ہوا کہ تمہارے ان کبوتروں کی بہ نسبت جو نہ نیروبی کے جغرافیہ سے واقف ہیں اور نہ جنہوں نے کبھی اس مول میں قدم رکھا ہے یہ بی ٹیم مناسب تر معلوم ہوتی ہے۔ اس کو ایک فوقیت یہ بھی حاصل ہے کہ انہیں مجرمانہ کارروائیوں کا تجربہ ہے جبکہ تمہارے جوان نا تجربہ کار ہیں۔

رابرٹ کی ہر دلیل نہایت ٹھوس اور معقول تھی اس کے باوجود یاسر نے پوچھا لیکن وہ شکوک و شبہات والی بات؟ رابرٹ بولا جی ہاں ہم نے اس پر پھر سے غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جب ان کی موت کو تمام رازوں پر پردہ ڈالنا ہی ہے تو اس بابت بہت زیادہ فکرمند ہونا بے سود ہے۔

شنکر نے کہا لیکن اب ان نوجوانوں کا کیا کیا جائے جو جہاز پر منتظر ہیں۔

رابرٹ بولا ان کے بارے میں ہمارے درمیان اختلاف ہے اس لئے فیصلہ تم لوگوں پر چھوڑا جاتا ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ انہیں مار کر سمندر میں پھینک دیا جائے اور دوسری انہیں چھوڑ دیا جائے۔

یاسر نے پوچھا مار کر؟

رابرٹ بولا ویسے بھی انہیں مرنا تو ہے ہی اب موت مول میں آئے یا جہاز پر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

شنکر نے کہا کیا ان کی رہائی سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے؟

رابرٹ نے کہا ہم لوگوں کی گفتگو میں ایک بات یہ سامنے آئی کہ یہ بے ضرر قسم کے نوجوان ہیں اور خود اپنی حفاظت کا خوف ان کی زبان پر قفل بنا رہے گا اس لئے ان سے کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں ہے۔

شنکر نے پھر سوال کیا تو اب ان کا کیا جائے؟ رابرٹ بولا ایک صورت یہ ہے کہ لامو سے قریب ترین بندرگاہ کسامویو پر انہیں رہا کر دو اور اپنا جہاز پھر سے لامو لے آؤ۔ آگے کے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ مال حسب منصوبہ وہاں پہنچا دیا جائے گا اور پھر وہی سب ہو گا جو ہم نے سوچ رکھا ہے۔ رابرٹ کے خاموش ہوتے ہی چہار جانب خاموشی چھا گئی۔ رابرٹ نے کہا ٹھیک ہے بات ختم کام شروع۔ یہ اس کا پرانا مکالمہ تھا جو وہ وقتاً  فوقتاً  استعمال کیا کرتا تھا۔

……………

رابرٹ بے حد خوش تھا اس لئے کہ سارا کچھ اس کے منصوبے کے مطابق ہوا تھا۔ لوٹ کا مال جہاز پر لد چکا تھا۔ اس نے ذرائع ابلاغ کو کچھ اس طرح سے اپنے حق میں استوار کیا تھا وہ لوگ حملے کی ذمہ داری صدر جسٹن مومباسا پر ڈال کر انہیں نہایت کمزور رہنما ثابت کر رہے تھے جبکہ دہشت گردوں کو مار گرانے کا سہرہ رابرٹ کے سر باندھ رہے تھے۔ صدر مملکت کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس سیاسی خلفشار سے کیسے نمٹا جائے؟ ان کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اگر اسی طرح کا دباؤ بنتا رہا تو جلد انہیں استعفیٰ دے کر ہٹنے کے لیے مجبور کر دیا جائے گا نیز دوبارہ قسمت آزمائی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہو گا۔

جسٹن مومباسا اس صورتحال کے لیے رابرٹ کی سازشوں کو ذمہ دار سمجھتے تھے لیکن اس کے خلاف ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اس بیچ ان کے سکریٹری نے انہیں بتایا کہ جولیٹ نام کی ایک لڑکی آپ سے ملاقات کر کے کوئی اہم راز صرف اور صرف آپ کے گوش گذار کرنا چاہتی ہے۔ مومباسا نے پوچھا یہ اس کا ذاتی دکھڑا ہے یا کوئی قومی مسئلہ ہے؟ ان کے سکریٹری نے بتایا کہ اس لڑکی کے مطابق یہ نہایت سنگین قومی مسئلہ ہے۔ صدر مملکت اسے ۱. منٹ کا وقت عنایت فرما دیا۔

جولیٹ نے انہیں بتایا کہ اس نے حملے والے دن سرخ مثلث کے مناظر اپنے ہوٹل کے کمرے سے براہِ راست دیکھے ہیں لیکن وہ کوئی ایسی بات نہیں جانتی جسے ساری دنیا نہ جانتی ہو لیکن اس رات کو اندھیرے کے اندر اس نے جو کچھ دیکھا اس پر کسی نے روشنی نہیں ڈالی اور اسے یقین ہے کہ جو لوگ رات کی اس خفیہ کارروائی میں ملوث ہیں وہی در اصل اس حملے کے ذمہ دار ہیں۔

صدر جسٹن کے لیے یہ انکشاف حیرت انگیز تھا لیکن جولیٹ ان لوگوں کے بارے میں کوئی سراغ بتانے سے قاصر تھی۔ جسٹن نے کہا جولیٹ تمہاری منطق درست ہے لیکن رات گئی بات گئی اب اس پر کون اس پر یقین کرے گا اور اس کی بنیاد پر کیا کارروائی کی جا سکتی ہے؟ کیا تمہیں نہیں لگتا اس تفصیل سے تم اپنا اور دوسروں کا وقت خراب کر رہی ہو؟

جولیٹ بولی جی نہیں جناب مجھے ایسا نہیں لگتا۔ مجھے پتہ ہے کہ مول کے اندر تحفظ کے پیش نظر بے شمار کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ ضرور برباد ہوئے ہوں گے لیکن زیادہ تر اپنا کام کر رہے ہوں گے۔ کچھ ٹی وی والوں نے اس حملے کے دوران ان کی مدد سے کی جانے والی فلمبندی نشر بھی کی ہے۔ میں تو کہتی ہوں کہ کمپیوٹر کا سینہ چاک کر کے اس رات کی فلموں کو دیکھا جائے مجھے یقین ہے کہ وہ حملہ آوروں کے آقاؤں کے متعلق بہت سارے راز افشاء کر دیں گی ۔ ان کے ارادے اور ان کی شناخت میں بھی بہت اہم کردار داد کریں گی۔

جولیٹ کے جملے کا ایک ایک لفظ صدر جسٹن کو سحرزدہ کر رہا تھا۔ انہیں حیرت تھی کہ اس جانب کسی نے توجہ نہیں کی تھی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولے تمہارا کیا نام ہے بیٹی؟ در اصل تم میری بیٹی جیسی ہو۔

جولیٹ نے کہا جولیٹ یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی ہے۔

بیٹی مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمہیں دل شکستہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تم قوم کی ذہین ترین اور جری خاتون ہو۔ اس سیاسی ماحول میں تم نے اچھا کیا کہ اس راز میں صرف مجھ کو شریک کیا۔ میں اس کی قدر کرتا ہوں اور ابھی اپنے خاص وفادار افسران کی مدد سے کمپیوٹر کو قبضے میں لے کر ان پر کام شروع کرواتا ہوں۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ اس کارروائی کا نتیجہ کیا نکلے لیکن میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ اس پنڈورا کے بکس میں سے جو کچھ برآمد ہو گا وہ ساری دنیا کو حیرت زدہ کر دے گا۔

صدر محترم کی اس عزت افزائی نے جولیٹ کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا تھا وہ بولی جناب عالی یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے۔

جسٹن نے کہا اس مرحلے میں راز داری کی اہمیت سے تو تم واقف ہی ہو اس لئے کہ اگر یہ خبر عام ہو جائے تو مجرم ہوشیار ہو جائے گا اور ہماری دسترس سے باہر نکل جائے گا۔

جولیٹ بولی جی ہاں سر یہ بات اب میں کسی اور سے نہیں کہوں گی ۔

جسٹن نے کہا شکریہ اور جولیٹ ان کی کوٹھی کے دروازے کی جانب بڑھی۔ سائے کی مانند ایک جاسوس اس کے پیچھے لگ گیا تھا۔

…………………..

رابرٹ کو شنکر نے فون پر اطلاع دی کہ جہاز لامو سے چلنے کے لیے تیار ہے۔ اب کیا حکم ہے؟

رابرٹ بولا اسے براہ راست دبئی کی جانب لے جانے کے بجائے شمال کی طرف جدہ لے جاؤ جو زیادہ فاصلہ پر نہیں ہے۔ اس کے بعد وہاں سے راستے میں دیگر بندرگاہوں سے بھی کچھ مال اتارتے چڑھاتے  لاؤ تاکہ ہمارا مال اس میں چھپ جائے اور کسی کو شک نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد وہ جہاں سے مال برداری کرے گا آگے اس کے سفر کا تعارف اسی بندرگاہ کے حوالے سے کرایا جائے۔ پانچ چھے مرتبہ کے بعد لامو کا نام اس کے سفر کی فہرست سے خارج سا ہو جائے گا۔ یہ نہایت معقول تجویز تھی شنکر نے اس کی تائید اور فون بند کر دیا۔

یاسر بولا شنکر میں نے رابرٹ سے زیادہ بزدل آدمی نہیں دیکھا۔ سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی…….۔

شنکر نے کہا یاسر احتیاط اور بزدلی میں بہت بڑا فرق ہے اور اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جب تک اس کی قیمت ہمارے بنک کے کھاتے میں نہیں جمع ہو جاتی ہم یہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ سب کچھ…..۔

یاسر نے بات کاٹ دی وہ بزدل ہے اور تم بنیا ہو بنیا۔

شنکر نے کپتان کو ضروری ہدایات دینے کے بعد یاسر سے کہا یار میں بہت تھک گیا ہوں کچھ دور سو جاتا ہوں۔

یاسر بولا ٹھیک ہے مجھے نیند نہیں آ رہی ہے اس لئے میں فٹ بال کا میچ دیکھتا ہوں۔ فٹ بال کا میچ ختم ہوا تو اس نے خبروں کا چینل لگا دیا۔ ٹی وی پر بریکنگ نیوز نیروبی کے سرخ مثلث نامی مول پر حملے کے متعلق تھی۔ اس میں بتایا جا رہا تھا کہ حکومت کو مول میں لگے کیمروں کی مدد سے حملہ آوروں کے متعلق کچھ اہم اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور اس سے پولس کا عملہ شک کے گھیرے میں آ گیا ہے۔ کئی پولس افسران نے اپنے ملوث ہونے کا اعتراف بھی کر لیا ہے اور فوج وزیر داخلہ رابرٹ کو تلاش کر رہی ہے جو فرار ہے۔

اس خبر نے یاسر کو پریشان کر دیا۔ اس نے رابرٹ کو فون ملایا تو وہ حسبِ توقع بند تھا۔ یاسر نہیں چاہتا تھا کہ شنکر کو جگائے لیکن وہ اپنے آپ پر ضبط نہ کر سکا اور وہ شنکر بیدار کر کے ٹیلی ویژن کے سامنے لے آیا تاکہ وہ اپنی آنکھوں اور کانوں سے وہ سب دیکھ اور سن لے جو وہ اس سے کہنا چاہتا تھا۔ اس اندوہناک خبر سے شنکر کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ وہ رابرٹ کو فون لگانے کی کوشش کرنے لگا۔

یاسر بولا یہ خطرناک ہے کینیائی سرکار اس کو آنے والے فون نمبرس کی بھی تفتیش کر رہی ہو گی۔ خود اس کو اپنی اس غلطی کا احساس فون کرنے بعد ہوا لیکن رابرٹ کا فون بند تھا اور اب وہ رابرٹ کی مانند ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔

شنکر کواس نازک موقع پر یاسر کا طنز پسند نہیں آیا۔ وہ بولا ہمارے دوست رابرٹ کی جان خطرے میں ہے۔ اس موقع پر ہمیں رابرٹ کے لیے خیر کے کلمات اپنی زبان سے نکالنے چاہئیں اور اس کی سلامتی کی دعا کرنی چاہیے۔

یاسر بولا دیکھو یار شنکر وہ دوست ہو گا تمہارا۔ میں نے نیروبی سے نکلتے ہوئے اس کا نام اپنے دوستوں کی فہرست سے خارج کر دیا تھا کیا سمجھے۔

شنکر بولا اگر ایسا ہے تب بھی ایک شناسا کی حیثیت سے تمہیں اس کے لیے دعا گو ہونا چاہئے۔

یاسر ہنس کر بولا جی ہاں تم دعا کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہو لیکن مجھے نہیں لگتا کہ تمہاری دعا بھی اس کے کسی کام آ سکے گی اس لئے کہ ایسے لوگوں کی نہ اپنی دعا قبول ہوتی ہے اور نہ ان کے حق میں کی جانے والی کسی اور کی دعا کو شرفِ قبولیت حاصل ہوتا ہے۔

شنکر کو یاسر پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ خزانے سے بھرا اس کا جہاز لمحہ بہ لمحہ سمندر کی تہہ میں اترتا جا رہا ہے۔ شنکر کے خواب و خیال میں بھی یہ نہیں تھا کہ اس موقع پر ناکامی کے بادل اس طرح چھا جائیں گے اور سب بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا ۔ شنکر نے دانت پیش کر ٹیلی ویژن بند کر دیا۔

یاسر بولا میرے دوست شنکر شتر مرغ کی مانند اپنا سر ریت میں چھپا لینے سے حالات بدل نہیں جاتے بلکہ شکاری کے لیے آسانی فراہم ہو جاتی ہے۔ یہ نہ بھولو کہ ہم لوگ اس مہم میں رابرٹ کے شریک کار تھے۔ اگر اس بے وقوف نے اپنے ساتھیوں کو ہماری شناخت بتا دی ہو گی تو ہم بھی کسی ناگہانی مصیبت میں پھنس سکتے ہیں۔

یاسر کا اندیشہ معقول تھا لیکن شنکر نے کہا یاسر میں رابرٹ کی رگ رگ سے واقف ہوں۔ وہ اس قدر احتیاط پسند انسان ہے کہ اس کا ایک ہاتھ جو کام کرتا ہے دوسرے ہاتھ کو اس کا پتہ نہیں ہوتا ایسے میں رابرٹ سے یہ توقع کرنا کہ اس نے ہمارے بارے میں اپنی مقامی ٹیم کو بتایا ہو یہ ناممکن ہے۔

یاسر بولا تم یہ بات اس قدر وثوق کے ساتھ کیونکر کہہ سکتے ہو؟

شنکر نے کہا کیا تمہیں اس باب میں کوئی شک ہے کہ اس کام میں اس کے سب سے قریبی ساتھی ہم ہیں؟

یاسر بولا جی نہیں اس میں کو شک شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

شنکر نے کہا اچھا یہ بتاؤ کہ رابرٹ جن لوگوں کی مدد سے نیروبی میں اپنا کام کر رہا تھا کیا ہم لوگ ان کے بارے میں کوئی معلومات رکھتے ہیں۔

یاسر بولا جی نہیں۔

شنکر نے کہا اسی لئے میں کہتا ہوں وہ رابرٹ ہے رابرٹ اور وہ ایسی غلطی کبھی نہیں کر سکتا وہ اپنے سارے انڈے ایک گھونسلے میں رکھنے والوں میں سے نہیں ہے۔

یاسر بولا بس بھی کرو اپنے دوست رابرٹ کی تعریف و توصیف۔ اگر وہ اسی قدر ذہین و فطین ہوتا تو اس طرح کی مصیبت میں گرفتار نہیں ہوتا۔ کیا یہ حیرت انگیز خبر نہیں ہے کہ ایک ملک کا وزیر داخلہ اپنے گھر سے فرار ہو گیا ہے اور اس کے تحت کام کرنے والی پولس اس کو ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ ایسی حالت تو کسی احمق ترین انسان کی بھی نہیں ہوتی۔

شنکر نے کہا یاسر اتنی دور بیٹھ کر حالات کو جانے بغیر اس طرح کی فقرہ بازی کرنا بہت آسان ہے۔ اب ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم اس کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟

یاسر بولا جو اپنی مدد آپ نہیں کر سکتا اس کی مدد کوئی نہیں کر سکتا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ہمیں رابرٹ کے بجائے اپنی فکر کرنی چاہئے۔

شنکر بولا یہ خود غرضی ہے۔

یاسر نے جواب دیا جی نہیں یہ حقیقت پسندی ہے۔

اس بیچ اچانک شنکر کا فون بول پڑا۔ شنکر نے لپک کر اسے اٹھایا اور نمبر دیکھ کر پھینک دیا۔

یاسر نے پوچھا کیا ہوا کرنٹ مارتا ہے کیا؟

شنکر بولا نہیں یہ اجنبی نمبر ہے۔ جیسا کہ تم کہہ رہے تھے ہمیں احتیاط برتنا چاہئے۔

یاسر نے ہنس کر کہا ابھی تو تم بڑی دلیری کی باتیں کر رہے تھے ہمیں رابرٹ کی مدد کرنی چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ ہو سکتا ہے کہ تمہارے دوست رابرٹ کا ہی فون ہو؟

شنکر بولا جی نہیں یہ اجنبی نمبر ہے اور کینیا سے نہیں آ رہا ہے۔

اس بیچ دوبارہ فون بجا۔ اس بار یاسر نے اسے ہاتھ بڑھا کر اٹھایا اور نمبر دیکھا تو وہ ایتھوپیا کا تھا۔ یاسر نے سوچا خیر دیکھیں تو صحیح ممکن ہے کوئی غلط نمبر پر کوشش کر رہا ہو۔ یاسر نے جیسے ہی ہیلو کہا سامنے سے رابرٹ کی گرجدار آواز گونجی۔ وہ کہہ رہا تھا کون شنکر نہیں ……یاسر؟ اچھا سنو تھوڑی سی گڑ بڑ ہو گئی۔ میں جلد ہی دبئی پہنچ رہا ہوں وہاں تفصیل سے بات ہو گی۔ ہمارے بنیادی منصوبے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا لیکن فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ اب باتیں بند کام شروع! فون بند ہو گیا۔ یاسر سوچ رہا تھا:

اس موقع پر بھی وہ اپنا تکیہ کلام نہیں بھولا تھا…………..!!!

رابرٹ کی زندہ دلی صحیح سلامت تھی………………!!!

کیا یہ کوئی معمولی سی گڑ بڑ تھی………………….؟

کیا واقعی اس سے آئندہ کے منصوبے پر کوئی اثر نہیں ہو گا …….؟

یہ رابرٹ انسان ہے یا فولاد ہے …………………؟

انسان تو مرسکتا ہے لیکن فولاد………………….؟ ؟ ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

تابوت

 

رابرٹ نے فون رکھ جشن منانے کا فیصلہ کیا اور اپنے خاص خدمتگار کے ذریعہ اپنی پسندیدہ شراب منگوائی لیکن بوتل سے قبل اس کے ایک جاسوس نے آ کر خبر دی کہ سرکار ہماری حویلی کی گھیرا بندی مکمل ہو چکی ہے۔ رابرٹ بولا پولس تو میرے قبضے میں ہے اور میرے حکم کے بغیر وہ کسی وزیر کے گھر کا محاصرہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔ اس کے آدمی نے تائید کی اور بولا جناب یہ فوجی دستے ہیں جن کی سربراہی صدر مملکت کرتے ہیں اور جو وزیر دفاع کو جوابدہ ہیں۔ فوج کا نام سنتے ہی رابرٹ کے ہوش اڑ گئے۔ اس لئے کہ صدر جسٹن نے اس کا توڑ کرنے کے لیے اس کے سب بڑے مخالف رنگا موگامبو کو وزارتِ دفاع سے نواز رکھا تھا اور موگامبو اس کے خلاف کچھ بھی کر سکتا تھا۔

رابرٹ نے ٹیلی ویژن پر سرکاری چینل لگایا تو اس پر لوٹ مار میں شامل افسران کی گرفتاری کی خبر نشر ہو رہی تھی اور موگامبو دعویٰ کر رہا تھا کہ ان کے ذریعہ سے اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔ رابرٹ سمجھ گیا کوئی بہت بڑی گڑ بڑ ہو گئی۔ رابرٹ نے اپنے احتیاط پسند مزاج کے پیش نظر اس صورتحال کے لیے بھی ایک منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس نے اپنے کسی آدمی کو کوڈ ورڈس میں کچھ احکامات دئیے اور اپنی خوابگاہ میں داخل ہو گیا۔

یہ کمرہ زیر زمین سرنگ کے ایک سرے پر تھا جو تین میل کے ایک ویران پلاٹ میں نکلتی تھی۔ اس مکان میں منتقل ہونے سے قبل رابرٹ نے یہ سرنگ ایک غیر ملکی کمپنی سے بنوائی تھی جس میں سارے غیر ملکیوں نے کام کیا تھا۔ اس سرنگ کا علم رابرٹ کے علاوہ کسی کینیائی باشندے کو نہیں تھا۔ اس وقت کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کس کا مکان تعمیر ہو رہا ہے۔

رابرٹ نے اپنی خواب گاہ کو اندر سے قفل لگایا اورسرنگ کے اندر اتر گیا۔ جب وہ دوسرے سرے پر نکلا تو ایک سنسان پلاٹ میں جھاڑیوں کے درمیان ایک ایمبولنس اس کی منتظر تھی۔ رابرٹ باہر آیا اور اس میں رکھے تابوت کے اندر لیٹ گیا۔ گاڑی میں موجود لوگوں نے اس کے کان اور ناک میں اسی طرح روئی ٹھونس دی جس طرح کسی لاش کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس کو بالکل لاش کے حلیے میں بدل دیا۔ اس طرح کی صورتحال کے لیے رابرٹ نے اپنا ایک جعلی پاسپورٹ ایتھوپیا کے شہری کی حیثیت سے بنوا رکھا تھا۔ اب یہ ایمبولنس اسے ادیس آبابا کی جانب لے جا رہی تھی جہاں اسے زندہ ہو کر کسی اور ملک کی جانب نکل جانا تھا۔

نیروبی سے ادیس آبابا کا فاصلہ خاصہ طویل تھا۔ تابوت کے اندر رابرٹ کے پاس ایک فون تھا جس سے وہ باہر والوں کو اپنی ضروریات سے آگاہ کیا کرتا تھا۔ رابرٹ نے جب پیشاب کی حاجت محسوس کی تو فون کر کے بتایا کسی ویران مقام پر گاڑی روکو میں فارغ ہونا چاہتا ہوں۔ اس وقت گاڑی ایک گھنے جنگل کے اندر سنسان سڑک پر چل رہی تھی۔ ڈرائیور نے سامنے ایک بہت بڑا آم کا پیڑ دیکھا اور اس کے نیچے گاڑی روک دی۔

اس پیڑ کے اوپر بہت سارے قبائلی لوگ پھل توڑنے میں جٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے لمبی چوڑی چمکدار گاڑی کو رکتے ہوئے دیکھا تو اپنا کام روک کر اسے دیکھنے لگے۔ انہوں نے دیکھا ایک آدمی گاڑی کی پشت پر آیا اور اس نے دروازہ کھولا تو اندر ایک بڑا سا تابوت رکھا ہوا تھا۔ اس منظر نے قبائلی لوگوں کے تجسس میں اچھا خاصہ اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ تابوت کا ڈھکن کھلا اور اس میں سے ایک لاش نکل کر از خود باہر آ گئی۔

اب کیا تھا وہ پیڑ کے اوپر سے ایک کے بعد ایک کودنے لگے اور بد روح……..بری آتما……….بیڈ اومن ……..اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہوئے اپنے گاوں کی جانب بھاگنے لگے۔ رابرٹ کے ساتھیوں کو ایسا لگا کہ گویا کسی دشمن نے گھات لگا کر ان پر حملہ کر دیا ہے۔ ان لوگوں نے گھبرا کر اپنے ہتھیار نکال لئے کسی کے ہاتھ میں پستول تھا تو کوئی بندوق تھامے ہوئے تھا لیکن اس سے پہلے کہ کوئی فائر کرتا رابرٹ بولا ارے بے وقوف یہ کیا کرنے جا رہا ہے۔ وہ تو خود ہی بھاگ رہے ہیں اور تو مار کر انہیں روک رہا ہے؟ چند لمحات کے اندر یہ کھیل ختم ہو چکا تھا۔ رابرٹ سب کچھ سمجھ گیا تھا پھر بھی اس نے اپنے ایک آدمی سے پوچھا کیوں؟ کیا ہوا؟

وہ بولا صاحب ہم نے چاروں طرف دیکھ کر اپنی گاڑی روکی لیکن ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ احمق قوم پیڑ کے اوپر بیٹھی ہوئی ہے۔

رابرٹ نے ہنس کر کہا احمق وہ نہیں تم ہو۔ وہ تو پیڑ پر اپنا کام کر رہے تھے۔ آئندہ جب کہیں رکنا تو آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھنے کے ساتھ ساتھ اوپر نیچے بھی دیکھ لیا کرنا کیا سمجھے۔

اس آدمی نے سر جھکا کر کہا جی ہاں سرکار غلطی ہو گئی۔

رابرٹ بولا کوئی بات نہیں اب بات بند اور کام شروع۔ چلو یہاں سے۔

ایک اور آدمی بولا لیکن صاحب جس کام کے لیے رکے تھے وہ کام تو آپ نے کیا ہی نہیں۔

رابرٹ نے کہا وہ کام اب یہاں نہیں ہو گا یہاں رکنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس سے قبل کہ یہ لوگ کسی کاہن کو پکڑ کر میری بد روح میرے جسم سے نکالنے کے لیے یہاں لائیں یہاں سے بھاگ چلو ورنہ پھر تمہیں ہوائی اڈے کے بجائے واقعی قبرستان جانا پڑے گا۔ رابرٹ کی بذلہ سنجی سے ہر کوئی حیران تھا۔ وہ فوراً جا کر اپنے تابوت میں دوبارہ لیٹ گیا اور گاڑی چل پڑی۔

رابرٹ اب سنجیدگی سے اپنے ہی کہے ہوئے ایک جملے پر غور کر رہا تھا جو اس نے خود اپنے بارے میں کہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کاہن ……وہ پہلی بار اپنی روح کے اندر جھانک کر دیکھ رہا تھا اور اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا :

کیا واقعی اس کے اندر کوئی بد روح نہیں ہے؟

کیا اس کی روح اب بھی ویسی ہی پاک صاف ہے جیسی کہ اس وقت تھی جبکہ وہ اس دنیا میں آیا تھا؟

اور کیا اس کی روح ایسی ہی ناپاک اور پلید اس وقت بھی ہو گی جب اس کو کسی تابوت میں لٹا کر قبرستان لے جایا جائے گا؟

یہ ایسے سوالات تھے جن پر وہ پہلی بار غور کر رہا تھا۔ اس سے قبل وہ اپنے ماضی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ اس شخص کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا جس نے اس کو تابوت میں روپوش ہونے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔ وہ اس کا پتہ اس لئے لگانا چاہتا تھا تاکہ اس کو قرار واقعی سزا دے سکے۔ اس کو موت گھاٹ اتار سکے ۔

اب وہ تمام لوگ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کر کے گھوم رہے تھے جن کو اس نے بے دریغ قتل کر دیا تھا۔ اس کی منہ بولی بہن کرسپی کا بے وفا شوہر کھوسلہ۔ ویسے کرسپی بھی وفادار کب تھی؟ لیکن ایسی سفاک بھی نہیں تھی کہ اپنے خاوند کا قتل کروا دیتی۔

وہ خوش پوش کھوسلہ جسنے کس قدر آسانی سے اپنی بیوی کے قتل کرنے کے لیے اس کی خدمات حاصل کی تھیں۔

کاش کے وہ اس پیشکش کو قبول نہ کرتا جو اسے جرم کی دنیا میں لے گئی تھی۔

کاش کے وہ کھوسلہ کا قتل نہ کرتا؟

کاش کہ کرسپی اپنی جائیداد اس کے حوالے نہ کرتی۔

رابرٹ دیر تک دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بعد جب پلٹا تو اسے لگا ان سب سے بڑا مجرم وہ خود ہے۔ وہ بلا وجہ دوسروں کو اپنے گنا ہوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔

رابرٹ کو اپنے تابوت کے اندر پہلی مرتبہ وہ تنہائی نصیب ہوئی تھی جس سے وہ ساری عمر محروم رہا تھا۔ اس تنہائی نے اسے ماضی کے بجائے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔

اب وہ کسی کو سزا دینا نہیں چاہتا تھا۔

وہ کسی کو مارنا نہیں چاہتا تھا۔

وہ اپنے آپ کو زندہ کرنا چاہتا تھا۔

وہ اپنے آپ کو سزا دینا چاہتا تھا

تاکہ اس کا دامن گنا ہوں کی آلودگی سے پاک ہو جائے۔

تاکہ اس کی روح پاک صاف ہو جائے۔

اب وہ ان لوگوں کو اپنے چشم تصور سے دیکھ رہا تھا جن کو اس کے اشارے پر جان سے مار دیا گیا تھا اور وہ لوگ اس کے سامنے ہنس رہے تھے مسکرا رہے تھے جن کو مارنا تو چاہتا تھا لیکن مار نہیں سکا تھا۔

ان خوش نصیب لوگوں میں سب سے اوپر جولیٹ تھی۔ لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ جس جولیٹ کو وہ زندہ دفن کرنا چاہتا تھا اسی نے اسے زندہ تابوت میں بند کر دیا تھا۔

رابرٹ کی دنیا بدل چکی تھی۔ اب اس کی آنکھوں میں اس کی ماں ٹنکو اور باپ ڈینس کا چہرہ گھوم گیا تھا وہ سوچ رہا تھا کس قدر نیک والدین اس کو نصیب ہوئے تھے۔ اسکول کے سارے اساتذہ ان کے نیکو کاری کی قسمیں کھاتے تھے۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ڈینس کے نطفہ سے اور ٹنکو کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد اس قدر بدمعاش ہو سکتی تھی۔ شاید ان لوگوں نے بھی ایسا نہ سوچا ہو۔

رابرٹ کے ذہن میں اس موقع پر ایک سوال کوند گیا اگر اس کے والدین کو پتہ چل جاتا کہ آگے چل کر وہ ایسا نکلنے والا ہے تو وہ کیا کرتے؟

ایک جواب اس کے کانوں میں بار بار گونج رہا تھا۔

وہ اس کا گلا دبا دیتے۔

وہ اس کا قتل کر دیتے۔

رابرٹ نے سوچا اچھا ہی ہوتا اگر وہ اس کو قتل کر دیتے۔

اس لئے کہ ان کا ایک قتل نہ جانے کتنے بے گنا ہوں کے قتل ہونے سے بچا لیتا۔

لیکن اس کے والدین؟ وہ نیک نفوس جنہوں نے کبھی اپنے دشمن کو بھی قتل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا وہ اپنی اولاد کو کیونکر قتل کر سکتے تھے؟

رابرٹ عجیب و غریب سوالات کے تانے بانے بن رہا تھا۔

وہ ان کو جس قدر سلجھاتا تھا اسی قدر ان میں الجھ کر رہ جاتا تھا۔

رابرٹ کو اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک مرتبہ اسکول کے زمانے میں ’میرا مستقبل کا خواب‘ کے عنوان سے تقریری مقابلہ تھا۔ مختلف اساتذہ نے طلباء کو تقاریر لکھ کر کے دی تھیں۔ اس کے لیے تقریر اس کی امی ٹنکو نے لکھی تھی۔ جس کا پہلا جملہ تھا میں فادرٹیریسا بننا چاہتا ہوں۔ جیسے ہی اس کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے تھے ہال میں ایک زبردست قہقہہ بلند ہوا تھا۔ سارے لوگ ہنس رہے تھے اور توقع کر رہے تھے کہ وہ کوئی مزاحیہ تقریر کرے گا۔ اس کے بعد اس نے نہایت سنجیدگی اور متانت سے سوال کیا تھا کہ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ میں فادر ٹیریسا کیوں بننا چاہتا ہوں؟

اس سوال پر حاضرین کو سانپ سونگھ گیا۔ سارے لوگ بغلیں جھانکنے لگے تھے۔ اس نے آگے کہا تھا بھئی اس میں اس قدر پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ چونکہ میں مدر ٹیریسا نہیں بن سکتا اس لئے فادر ٹیریسا بننا چاہتا ہوں۔ میں وہ سارے کام کرنا چاہتا ہوں جو مدر ٹیریسا کرتی ہیں۔

رابرٹ نے سوچا کہاں مدر ٹیریسا اور کہاں وہ؟ پھر اس کے بعد رابرٹ نے اپنے تابوت میں لیٹے لیٹے تہیہ کیا کہ اگر حیات رہا تو وہ ضرور فادر ٹیریسا بنے گا۔ اس نے ماضی میں تو ایسا کوئی کام نہیں کیا جو مدر ٹیریسا کرتی تھیں لیکن مستقبل میں وہ ان تمام کاموں کو کرنے کی کوشش کرے گا جو مدر ٹیریسا کیا کرتی تھیں۔ وہ بھی کوئی فلاح و بہبود کا ادارہ قائم کرے گا۔ غریب و نادار لوگوں کی مدد کرے گا۔ چرچ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دے گا۔ جرائم کی دنیا سے کنارہ کش ہو جائے گا اور ایک نیک اور شریف انسان کی طرح زندگی گزارے گا۔ اپنی ماں ٹنکو اور والد ڈینس کے خوابوں کی تعبیر بن جائے گا۔

ہوائی اڈے کے قریب رابرٹ جب اپنے تابوت سے باہر آیا تووہ بدل چکا تھا۔ اس کے پاس ایتھوپیا کے باشندے مسٹر ٹیریسا کے نام کا پاسپورٹ تھا اور وہ دبئی جانے والے جہاز کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اپنی گاڑی ان لوگوں کو ہبہ کر دی تھی جو اسے نیروبی سے ادیس آبا با تک صحیح سلامت لے کر آئے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا اور اس کے مال و اسباب سے اس کا دل اٹھ چکا تھا۔

رابرٹ کے خلاف کینیا کی حکومت نے انٹر پول کے ذریعہ سے ریڈ کارنر نوٹس جاری کروا دیا تھا اور ساری دنیا میں اس کی تلاش کا کام زور و شور سے جاری تھا۔ اس کے اوپر نہ صرف سرخ مثلث مول پر حملے کا بلکہ اسے لوٹنے کا بھی الزام تھا۔ رابرٹ کے خلاف پختہ ثبوت مہیا کر دئیے گئے تھے اور انہیں ذرائع ابلاغ میں اچھالا جا رہا تھا۔ حادثے میں جان بحق ہونے والوں کے لواحقین کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ رابرٹ کے مخالفین اسے ہوا دے رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا اس جرم میں ملوث لوگوں کو جلد از جلد قرار واقعی سزا دی جائے۔

اس قضیہ کو تیزی کے ساتھ نمٹانے کی غرض سے ایک خصوصی عدالت کا قیام عمل میں آ گیا تھا بے قصور لوگوں کے قتل میں رابرٹ مطلوب تھا اور مقدمہ ہار جانے کی صورت میں اسے پھانسی چڑھایا جا سکتا تھا۔ جسٹن مومباسا اور موگامبو کسی نہ کسی طرح رابرٹ کو سولی چڑھا کر اس کا کانٹا نکال دینا چاہتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ ایسا نادر موقع دوبارہ ہاتھ نہیں آئے گا۔

ان ہنگاموں سے دور دبئی کے ساحل پر پر شکوہ پام جمیرہ کے اپنے فلیٹ میں بیٹھا رابرٹ ایک اجنبی شناخت کے ساتھ تماشائے اہلِ کرم دیکھ رہا تھا۔ یاسر اور رابرٹ کے تعلقات ہنوز کشیدہ تھے۔ یاسر کا خیال تھا کہ یہ سیاسی شعبدہ بازی بہت جلد سرد پڑ جائے گی۔ اس کے خلاف سارے مقدمات وقت کے ساتھ بھلا دئیے جائیں شواہد کو کمزور کر دیا جائے گا۔ ۔ رابرٹ اپنے مخالفین سے کسی طرح کی مصالحت کر کے دوبارہ نیروبی لوٹ جائے گا اور اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل میں لگ جائے گا۔

رابرٹ کی خیر و صلاح کی باتیں اسے پاگلوں کی بڑ لگتی تھی اسے یقین تھا کہ جیسے ہی رابرٹ اس دباؤ سے نکلے گا اپنے کمینے پن کی جانب لوٹ جائے گا۔ اس لئے وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ اسے لوٹ کے مال میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس کا مقصد تو واپس جانے سے قبل رابرٹ کو اپنے عبرتناک انجام تک پہنچا دینا تھا۔

شنکر ایک نئی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔ اسے اس بات پرمسرت تھی کہ ایک طویل عرصے کے بعد تین پرانے دوست یکجا ہوئے تھے۔ شنکر نے تینوں کے نام پر ایک دوسرے سے متصل الگ الگ فلیٹس ایک ماہ کے لیے کرائے پرلے رکھے تھے اس لئے کہ ان تینوں کے پاس مختلف ملکوں کے پاسپورٹ تھے۔ شنکر نے اس سفر میں اپنا ہندوستانی پاسپورٹ استعمال کیا تھا جبکہ احتیاط کے پیش نظر یاسر کو کینیائی پاسپورٹ استعمال کرنے کی تلقین کی تھی۔ رابرٹ کو مجبوراً ایتھوپیا کا جعلی پاسپورٹ استعمال کرنا پڑا تھا لیکن اس خارجی فرق سے بے نیاز وہ تینوں ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی تھے۔ شنکر کا خیال تھا کہ اس عرصے میں ساری مہم نمٹ جائے گی اور وہ سب بخیر و عافیت اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹ جائیں گے ورنہ اگر ضرورت پیش آئے تو قیام کے توسیع کی گنجائش بھی تھی۔

شنکر کا جہاز خراماں خراماں دبئی کی بندر گاہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اب اسے اس بات کی فکر ستا رہی تھی کہ اس مال کو کہاں اتارے اور کیسے ٹھکانے لگائے؟ جب اس نے دبئی میں اپنے بھروسہ مند لوگوں سے اشارے کنائے میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہاں غیر قانونی مال کو باہر لا کر ٹھکانے لگانے کی گنجائش کس قدر ہے تو اسے نہایت مایوس کن جواب ملا۔ اسے پتہ چلا یہ کام یہاں نہیں ہو سکتا۔ کچھ دے دلا کر بھی اس کام کرنے میں خطرات بہت زیادہ ہیں۔ شنکر نے اپنے منصوبے میں تبدیلی کی اور گجرات کی کانڈالا بندرگاہ کی جانب کوچ کرنے کا حکم کپتان کو دے دیا۔

اب وہ ہندوستان میں اپنے سیاسی تعلقات کو استعمال کر کے اس کام کو انجام دینا چاہتا تھا۔ اس نے مال کو اتروانے اور اسے بری راستے سے پونے میں موجود اپنے ایک خفیہ گودام میں پہنچانے کے انتظامات بھی کر دئیے تھے۔ شنکر نے یاسرا ور رابرٹ کو بتا دیا تھا کہ کل ہم لوگ پھر ایک بار برج العرب ہوٹل میں شاندار پارٹی کریں گے اور رات ہی میں وہ ہندوستان لوٹ جائے گا تاکہ جہاز سے مال اتروانے کی نگرانی کر سکے۔ ویسے اگر وہ لوگ چاہیں تو وہاں رک سکتے ہیں۔ رابرٹ کو تو خیر رکنا ہی تھا۔

یاسر کو اس اچانک تبدیلی نے چونکا دیا۔ شنکر کے نکل جانے کے بعد اس کے رکنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یاسر نے سوچا کیوں نہ اسی شام رابرٹ کا کام تمام کر کے دوسرے دن شنکر کے کے ساتھ نکل جائے۔ وہ اس کام میں مزید تاخیر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس شام شنکر اپنے سفر کی تیاریوں میں مصروف تھا کہ اس کے کانوں سے گولی چلنے کی آواز ٹکرائی۔ یہ سائیلنسر لگی پستول کی ہلکی سی آواز تھی جو رابرٹ کے کمرے کی جانب سے آئی تھی۔ شنکر کے پاس تینوں کمروں کی چابی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور رابرٹ کے کمرے میں آیا تو اس کی لاش ٹھنڈی ہو چکی تھی فرش پر خون پھیلا ہوا تھا۔

شنکر فوراً یاسر کے کمرے میں داخل ہوا جو ہنوز اپنی پستول سے کھیل رہا تھا۔ اس کے چہرے پر کامیابی کی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ شنکر نے پوچھا یاسر تم نے یہ کیا کر دیا؟ اپنے دوست ……….۔

یاسر بولا اپنے نہیں تمہارے دوست۔ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ رابرٹ سے میری دوستی کا جنازہ نیروبی سے نکلتے وقت اٹھ چکا تھا اور اس پر خود رابرٹ نے ہماری برج العرب کی گزشتہ ملاقات میں فاتحہ پڑھ دی تھی۔ میں نے اسی وقت ارادہ کر لیا تھا کہ اس کو اپنے کئے کی سزا ضرور دوں گا۔ مجھے تمہاری لوٹ مار میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن میں اسی مقصد کے تحت اس مہم میں شامل ہوا تھا اور مجھے خوشی ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہوں۔ اب اس لا وارث لاش پر آنسو بہانے والا اس دنیا میں تمہارے سوا کوئی نہیں ہے لیکن تم بھی اس کا کچھ نہیں کر سکتے۔ اب تو اسے دبئی کی پولس ہی ٹھکانے لگائے گی۔

شنکر بغیر کچھ کہے اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنے کمرے میں آ گیا۔ اس کی آنکھوں کے آگے رابرٹ کی لاش گھوم رہی تھی اور کانوں میں یاسر کے الفاظ گونج رہے تھے۔ اب اس کی لا وارث لاش……….. کو دبئی کی پولس…………۔ شنکر اپنی کھڑکی میں کھڑا بحر عرب کے ساحل پر اٹھتی اور بکھرتی موجوں کا کھیل دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا اور اس کا غم رفع ہو گیا۔

لوٹ کے مال کا ایک حصہ دار کم ہو چکا تھا۔ اب اسے صرف دو لوگوں میں اسے تقسیم ہونا تھا۔ اس کے بعد حرص و ہوس کی ایسی اونچی لہر اٹھی جس نے شنکر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ اپنے فون کے پاس گیا اور دبئی پولس کو اطلاع دی کہ اس نے ابھی ابھی اپنے پڑوس کے کمرہ نمبر ۳.۳ کے اندر سے گولی چلنے کی آواز سنی اور جب باہر نکلا تو کسی کو اس میں سے نکل کر ۳.۲ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔

چند منٹوں کے اندر دبئی پولس نے رابرٹ کی لاش کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور وہ یاسر کے کمرے میں داخل ہو گئی تھی۔ یاسر نے پولس کو خوفزدہ کر کے فرار ہونے کی خاطر ہوا میں فائر کر دیا اس کے جواب میں پولس نے اس پر گولی چلا دی اور وہ بھی ایک سرد لاش میں تبدیل ہو گیا۔ شنکر نے دوبارہ گولی چلنے کی آواز سنی تو مطمئن ہو گیا۔ اس کے بعد پولس اس کے کمرے میں آئی۔ اس کا تفصیلی بیان لیا گیا اور اس کو رابرٹ کے قتل اور یاسرکی موت کا گواہ بنا دیا گیا۔

شنکر کو اس کا کوئی خوف تھا نہ افسوس اس لئے کہ یہ سب اس کی توقع اور منصوبے کے مطابق ہو رہا تھا۔ اب وہ جہاز میں موجود مال و اسباب کا تنہا مالک تھا۔ اس کے خزانے میں کوئی اس کا شریک نہیں تھا۔ شنکر نے برج العرب کو فون کر کے پارٹی منسوخ کر دی اور کمرے کی بتی بجھا کر اطمینان سے سو گیا۔

دوسری صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ بے حد خوش تھا۔ اس نے فون پر قریب کے ایک ہوٹل سے ناشتہ منگوایا اور ٹی وی کھول کر بیٹھ گیا۔ بی بی سی پر ہندوستانی ساحل پر ایک ہتھیار بردار جہاز کے پکڑے جانے کی بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔ شنکر نے فوراً ہندوستانی خبروں کے چینلس کی جانب کوچ کیا تو وہ ٹی وی پر اپنے جہاز کی تصویر دیکھ کر حیران رہ گیا۔

کوسٹ گارڈ کے جس افسر سے اس نے سانٹھ گانٹھ کر رکھی تھی وہی ٹیلی ویژن کے ترجمان کو بتلا رہا تھا کہ ان لوگوں نے ایک جہاز کو مشتبہ حالت میں کانڈلا کی بندر گاہ کے قریب پکڑا ہے۔ اس کے اندر سے اسلحہ کا بہت بڑا ذخیرہ برآمد ہوا ہے۔ جہاز چونکہ جدہ سے آ رہا تھا اس لئے پولس کا خیال ہے کہ یہ ہتھیار انڈین مجاہدین کے لیے مہیا کئے جا رہے تھے۔ شنکر کو حیرت تھی کہ اس پورے بیان میں سرخ مثلث سے لوٹے گئے قیمتی مال و اسباب کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ شنکر فوراً سمجھ گیا کہ اس کے ساتھ ڈبل کراس ہو گیا ہے۔

اب وہ اپنی آگے کی حکمت عملی پر غور ہی کر رہا تھا کہ ایک چینل نے اطلاع دی۔ جہاز کے مالک کا پتہ چل گیا۔ وہ فی الحال ملک سے فرار ہے اور دبئی میں چھپا ہوا ہے۔ پولس کو یقین ہے کہ اس کے دہشت گردوں سے گہرے تعلقات ہیں۔ وزارت خارجہ دبئی پولس کے ساتھ رابطہ بنائے ہوئے ہے اور امید کی جاتی ہے کہ بہت جلد اسے گرفتار کر کے ہندوستان لے آیا جائے گا۔ ذرائع ابلاغ اسے کوسٹ گارڈ اور پولس کی بہت بڑی کامیابی بتا رہا تھا۔ سیاستداں اس کا کریڈٹ لینے میں مصروف تھے اور ملک کو لاحق دہشت گردی کے خطرات پر طول طویل تقریریں کر رہے تھے۔

دانشور حضرات اس کے تانے بانے لشکر سے لے کر طالبان تک سے جوڑ رہے تھے اور شنکر اپنا سر پیٹ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ دہشت گردی کے مرگھٹ پر اس کو بلی کا بکرا بنانے کی ساری تیاری مکمل ہو گئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ مرنے سے قبل وہ پاروتی اور کیلاش کو کیا منہ دکھائے گا؟ کیا زندگی بھر کیلاش ایک دہشت گرد کی اولاد کا کلنک اپنے ماتھے پر سجائے زندگی گزارے گا؟ اس کے بعد بحر عرب کی لہروں پر ایک لاش تیر رہی تھی۔ شنکر کی لاش ………..۔

تین دن بعد تین تابوت دبئی کے مکتوم ہوائی اڈے پر تین مختلف سمتوں میں سفر کی منتظر تھے۔ ایک کو ادیس آبابا جانا تھا، دوسرے کو نیروبی اور تیسرے کو پونے۔ لیکن اس بے سمت سفر کی کوئی اہمیت نہیں تھی اس لئے ان تینوں کی ارواح ایک خاص سمت میں روانہ ہو چکی تھیں اور اپنے قرار واقعی انجام کی منتظر تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

عبرت و نصیحت

 

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

تین چیزیں نجات دینے والی اور تین ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں

نجات دینے والی چیزیں یہ ہیں :

چھپے اور کھلے اللہ کا ڈر رکھنا

خوشی کی حالت ہویا ناراضی کی ہر حال میں حق بات کہنا

ناداری و خوشحالی ہر حالت میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا

ہلاکت میں ڈالنے والی چیزیں یہ ہیں :

وہ خواہش نفس جس کا کوئی تابعدار بن کر رہ جائے

حرص و بخل جس کا کوئی مطیع و فرمانبردار بن کر رہے

آدمی کی خود پسندی، یہ ان سب میں زیادہ سخت ہے

(الحدیث)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں ے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

حصہ اول پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں