FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

بین الاقوامی سطح پر ماہیا نگاری

اور چند اہم ماہیا نگاروں کا تعارف اور انتخاب کلام

 

 

                صبیحہ خورشید

 

 

 

 

 

اردو میں ماہیا نگاری کی ابتداء ہمت ر ائے کے نوک قلم سے ہو ئی ا س کے بعد وقفے وقفے سے قتیل شفائی، قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی نے ماہیے کہہ کر ماہیے کے ابتدائی نقوش پیش کیے اور اس صنف کی اردو میں شناخت کا معیار قائم کیا۔ لیکن اردو میں ماہیا نگاری کی باقاعدہ ابتدا، اسی(۸۰) کی دہائی سے شروع ہوئی۔ اور ہندوستان وپاکستان کے شاعروں نے اس میں گہری دلچسپی لینی شروع کی۔ جس سے انڈ و پاک میں ماہیا نگاری کو فروغ حاصل ہوا۔ نئے نئے اور عمدہ ماہیا نگاروں نے جنم لیا۔ جس سے نئے نئے شہر اور بستیاں ماہیا کی نغمگی سے گونجنے لگیں۔ انڈ و پاک میں ماہیا نگاری کی ایسی ہوا چلی کہ مغرب میں مقیم شاعر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انھوں نے  اس صنف سخن کو بھی اپنے جذبات کے اظہار کا وسیلہ بنانا شروع کیا۔ اور ماہیا کہنا شروع کر دیا۔ یوں ماہیا انڈ و پاک سے نکل کر سارے عالم میں سفر کرنے لگا اور عالمی سطح پر اس صنف سخن کی بڑے پیمانے پر پذیرائی ہونے لگی۔ نتیجتاً انڈو پاک سے باہر کے ممالک سے بھی کئی ماہیا نگاروں کے مجموعے شائع ہوئے :محبت کے پھول (حیدر قریشی۔ جرمنی)،  یادوں کی بارش  (ناصر نظامی۔ ہالینڈ)، یادوں کے سفینے (امین خیال۔ جاپان)، پیپل کی چھاؤں میں (ڈاکٹر رضیہ اسماعیل۔ انگلینڈ )، چن ماہی (عاصی کاشمیری  انگلینڈ)وغیرہ وغیرہ۔ ماہیا مجموعوں کے ساتھ ساتھ بعض ماہیا نگاروں نے اپنے شعری مجموعے میں تھوڑے بہت ماہیے بھی شامل کر لیے۔ جیسے ثریا شہاب، حیدر قریشی، افضل عباس، جنھوں نے اپنے شعری مجموعوں میں نظموں، غزلوں کے ساتھ ماہیے بھی شامل کیے ہیں۔ تاہم بعض ماہیا نگار ایسے ہیں جنھوں نے ماہیا نگاری کو پارٹ ٹائم کے طور پر اپنایا دوسری اصناف کے ساتھ ساتھ تھوڑے بہت  ماہیے کہہ کر اس صنف میں دلچسپی لی اور یوں ماہیا نگاری کی فہرست میں اپنے نام درج کروا لیے۔ یہاں ہم ہندوستان اور پاکستان سے باہر قیام پذیر عالمی سطح پر ماہیا کہنے والے ماہیا نگاروں کا مختصر تعارف  اور ان کے چند ماہیے بطور نمونہ درج کر رہے ہیں ۔

 

 

 

 

   حیدر قریشی

 

حیدر قریشی  ماہیے کی تحریک کے بانی ہیں۔ ماہیا کی تحقیق و تنقید پر مشتمل ان کی تین کتابیں چھپ چکی ہیں، مزید دو کتابوں کے مضامین رسائل میں چھپ چکے ہیں اور عنقریب ماہیا کی تحقیق و تنقید پر ان کی پانچ کتابیں ایک ہی جلد میں چھپنے والی ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعوں ’’عمرِ گریزاں ‘‘ اور ’’درد سمندر‘‘ میں غزلوں اور نظموں کے ساتھ ماہیے بھی شامل ہیں۔ ’’محبت کے پھول‘‘ میں صرف ماہیے شامل ہیں۔ ان کے ماہیے دوسرے ماہیا نگاروں کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں۔

 

حیدر قریشی کے ماہیے

 

نہیں ہم نہیں روئے تھے

چاند کی  کرنوں میں

کچھ موتی پروئے   تھے

 

چمیلی   کی  کلیاں  تھی

اپنی   جوانی    تھی

اور  شہر  کی  گلیاں  تھی

 

تو کس کا سوالی تھا

دامنِ دل جس کا

خود اپنا ہی خالی تھا

 

سب ہی مجھے پیارے ہیں

پوتے، نواسے، سب

دل  کے  سیپارے  ہیں

 

گھبرا کے یا پھر ڈر کے

مڑ کے اگر  دیکھ

ہو  جاؤ  گے  پتھر کے

 

چاہت  کی  گواہی  تھے

ہم بھی کبھی یارو

ایک  ہیر کے  ماہی   تھے

 

یوں روشن جان ہوئی

دل میں کہیں جیسے

مغرب کی اذان ہوئی

 

اس درد خزانے کے

چل دو نفل ہی پڑھ

رب کے شکرانے کے

 

امین خیال

 

امین خیال پاکستان سے جاپان تک قیام پذیر ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے چونکہ جاپان میں ہی رہ رہے ہیں، اس لیے ان کا وہیں سے شمار کیا جا رہا ہے۔ بنیادی طور پر پنجابی کے ممتاز شاعر ہیں۔ اردو میں ماہیا کی بحث چلی تو حیدر قریشی کے درست موقف کو تقویت دینے کے لیے انہوں نے اس  بحث میں حصہ بھی لیا اور خود بھی کثرت سے اردو میں ماہیے کہے۔ ان کے ماہیوں کا مجموعہ ’’یادوں کے سفینے ‘‘ چھپ چکا ہے اور نیا مجموعہ بھی اشاعت کے آخری مراحل میں ہے۔ ان کے ماہیوں میں پنجابی الفاظ کی آمیزش اردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں نئے اضافوں کے امکانات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

 

امین خیال کے ماہیے :

 

پانی کی روانی ہے

جو چاہو کر لو

زوروں پہ جوانی ہے

 

دریاؤں میں پانی ہے

دکھ کی جہاں بھر میں

بس ایک کہانی ہے

 

تتلی کے رنگ ماہیا

موسم مستی کا

چل میرے سنگ ماہیا

 

کوئی شجر ہرا ہو گا

فیض وہ پائے گا

جو دل کا کھرا ہو گا

 

دو پھول  گلابوں کے

ٹال دے یا مولا

اب دن یہ عذابوں کے

 

ثریا شہاب

 

ثریا شہاب  بنیادی طور پر براڈ کاسٹر تھیں۔ ریڈیو ایران زاہدان، پاکستان ٹیلی ویژن، بی بی سی لندن اور ریڈیو دوئچے ویلے جرمنی تک ان کی براڈ کاسٹنگ خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ ان کے دو ناول، ایک افسانوی مجموعہ اور ایک شعری مجموعہ’’ خود سے ایک سوال‘‘ چھپ چکے ہیں۔ یہ ساری کتابیں ان کے جرمنی میں طویل قیام کے دوران شائع ہوئیں۔ ان کے شعری مجموعہ میں ان کی غزلوں، نظموں کے ساتھ ماہیے بھی شامل ہیں۔ کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے بعد پاکستان واپس چلی گئیں۔

 

ثریا  شہاب کے ماہیے :۔

 

اک پیار  کی  ندی  تھی

جس کے کنا رے پر

آشاؤ ں  کی  بستی  تھی

 

پھر بدلیں نہ تقدیریں

پڑ گئیں  ہاتھوں میں

حالات کی زنجیریں

 

جب  چاند  نکل  آیا

دھان کے کھیتوں میں

سونا  سا  پگھل  آیا

 

اک قوسِ  قزح سی تھی

با  لی  عمر  یا  تھی

اور  پینگ تھی جھولے کی

 

خوابوں کا زمانہ تھا

تتلی پکڑنا تو

بس ایک بہانہ تھا

 

ماہ پارہ صفدر

 

ماہ پارہ صفدر لندن میں مقیم ہیں۔ بی بی سی لندن سے وابستہ ہیں۔ کسی زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن کی مقبول نیوز ریڈر ہوا کرتی تھیں۔ تب آپ ماہ پارہ زیدی ہوا کرتی تھیں۔ پارٹ ٹائم شاعری کرتی ہیں۔ غزلیں اور ماہیے لکھتی ہیں۔ ایک معروف و ممتاز نشریاتی ادارے سے وابستگی کے باوجود نام و  نمود کی خواہش سے ہی بے نیاز ہیں۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے۔ وگرنہ ان کی نسبت کا حوالہ دے کر ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے۔

 

ماہ پارہ صفدر کے ماہیے :۔

 

دَم اُس کا  بھرتی  ہوں

پہلے ماہیے کو

نام اللہ کے کرتی ہوں

 

رکھ لینا بھرم میرا

ماہیے کہنے ہیں

یارب ہو کرم تیرا

 

سینے سے لگاتے ہیں

تنہا لمحوں میں

پاپا  یاد آتے ہیں

 

تمہیدِ  جنوں آنسو

سچی  بات کہوں

دیتے ہیں سکوں آنسو

 

دل  کو سمجھاؤں گی

فکر نہیں کرنا

میں لَوٹ کے آؤں گی

 

نوید امین اعظم

 

نوید امین اعظم، امین خیال کے صاحبزادے ہیں جو جاپان میں مقیم ہیں۔ جاپان میں رہ کر اردو صحافت کا سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’’لٹریچر انٹرنیشنل‘‘ کا اجراء اسی ارادے سے کیا ہے۔ انہوں نے اپنے والد کی تقلید میں چند ماہیے کہے ہیں۔

 

نوید امین اعظم کے ماہیے :۔

 

ہر  فرق مٹا دینا

راہِ محبت میں

تم  قدم جما لینا

 

غم  دل  میں  رکھتا  ہوں

ملتا   ہوں   تم  سے

کچھ کہہ  نہ   سکتا  ہوں

 

ہوں کام بھلائی کے

روک لو سب رستے

ہر  ایک  برائی کے

 

کچھ  ہم  اور  تم  کر لیں

دنیا   میں  یونہی

کیوں  خود کو  گم کر لیں

 

کوئی یار  بنا   لینا

رنج و الم مل کے

آپس  میں  بٹا لینا

 

رضیہ اسماعیل

 

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل برمنگھم انگلینڈ میں اردو کی معروف شاعرہ اور ادیبہ ہیں۔ نظم و نثر دونوں پر یکساں قدرت رکھتی ہیں۔ ان کے متعدد نثری و شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ماہیوں کا ایک مجموعہ ’’پیپل کی چھاؤں میں ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ ان کی توجہ کے نتیجہ میں اردو ماہیا کا بی بی سی ایشیا پر بھی کافی چرچا رہا۔ ماہیے کے لیے ان کی سنجیدہ اور بامعنی کاوشیں انگلینڈ میں سب سے زیادہ اہم قرار دی جا سکتی ہیں۔

 

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کے ماہیے

 

میں  لہر  چناب  کی  ہوں

غیر ت  بھا  ئیو

بیٹی     پنجاب  کی  ہوں

 

کاٹیں  جو  بوئیں  گے

وقت   گنوایا   تو

تا  عمر  ہی  روئیں  گے

 

میں قوم کا لیڈر ہوں

شیر نظر آؤں

اندر سے گیدڑ ہوں

 

ہیریں  ہیں نہ رانجھے  ہیں

ہم  نے  ہوٹل  میں

برتن  بھی   مانجھے   ہیں

 

کونجوں کی ڈاریں ہیں

بینیفٹ آفس میں

بڑی لمبی قطاریں ہیں

 

بخش لائلپوری

 

بخش لائلپوری انگلینڈ میں مقیم روایتی نوعیت کے ترقی پسند شاعر تھے۔ چار پانچ شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔ ان کے ماہیوں کا مجموعہ’’سوچ سمندر‘‘شائع ہوا تھا، جس کا پیش لفظ بطور خاص حیدر قریشی سے لکھوایا گیا۔ ان کے ماہیوں میں ترقی پسندوں والا بلند آہنگ اور سیاسی نظریات کی تبلیغ کا تاثر گہرا ہے۔

 

بخش لائلپوری کے ماہیے :۔

 

آنکھوں کے نگینے  سے

ایک اشارہ کر

لگ جائیں گے سینے سے

 

ہے  ان  کی  حقیقت  کیا  ؟

شہر  کا   ملا  کیا  ؟

یہ   پیر   طریقت    کیا  ؟

 

اس قوم پہ لعنت ہے

جس کی سیاست میں

چوری ہے خیانت ہے

 

سولی  پہ اذاں  دیں  گے

اندھوں کو آنکھیں

گونگوں کو زباں دیں گے

 

اس   بات   کا   رونا  ہے

ہاتھوں   میں   انساں  کے

ا  نسا  ن    کھلو  نا   ہے

 

ساحر شیوی

 

ساحر شیوی انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ وہیں سے دو ادبی رسائل پرواز اور سفیرِ اردو جاری کر رکھے ہیں۔ ان کے متعدد شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔ ماہیوں کا پہلا مجموعہ ’’وادیِ کوکن‘‘ شائع ہوا تو اس میں بہت سارے بے وزن اور بے ربط قسم کے ماہیے چھپے ہوئے تھے۔ اس پر تب  حیرانی ہوئی کہ اس مجموعہ پر بہت سے ایسے لوگوں نے توصیفی مضامین لکھ دئیے جو ماہیے کی ابجد سے بھی واقف نہ تھے اور مزید حیرانی یہ ہوئی کہ جو ماہیاشناس تھے انہوں نے بھی نہ جانے کس مصلحت کے تحت اس مجموعہ پر مضامین لکھے۔ اور وہ مضامین کتابی صورت میں بھی شائع کر دئیے گئے۔ بہر حال ذیل میں ان کے مجموعہ میں سے با وزن ماہیے منتخب کیے گئے ہیں۔

 

ساحر شیوی کے ماہیے :۔

 

جس کے لیے  جیتا  ہوں

اس کی  محبت میں

میں  تلخیاں  پیتا  ہوں

 

رخ موڑ  تو  سکتے  ہو

جھوٹ کے شیشے کا

دل  توڑ   تو  سکتے  ہو

 

اردو کی عنایت ہے

شہرِ سخن میں اب

میری بھی عزت ہے

 

پھولوں  کو مہک دی ہے

کوئی  تو  ہستی ہے

کلیوں  کو چٹک  دی ہے

 

خوابوں میں وہ آتے ہیں

سندر روپ سے وہ

نس  نس میں سماتے ہیں

 

فرزانہ خان نیناں

 

فرزانہ خان نیناں انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ ایک عرصہ سے شاعری کر رہی ہیں۔ انہوں نے تھوڑے بہت ماہیے بھی کہہ رکھے ہیں۔

 

فرزانہ خاں نیناں کے ماہیے :

 

پتلا ہے یہ مٹی کا

فرق نہیں رکھنا

گوری اور چِٹی کا

 

پتوں کی ڈھیری ہے

لڑکی کوئی پاگل

رہ  تکتی تیری ہے

 

یادوں کی کلیاں ہیں

تتلی کے پر جیسی

بچپن کی گلیاں ہیں

 

افشاں چھڑکائی ہے

رب نے زمینوں پر

رحمت برسائی ہے

 

ہر  قول  ترا  جھوٹا

بہہ گیا لہروں میں

پگلی  کا  گھڑا  ٹوٹا

 

عاصی کاشمیری

 

عاصی کاشمیری ایک عرصہ سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ماہیا نگاری میں گہری دلچسپی لی اور ماہیا کے دو مجموعے ’’موسم سبھی اک جیسے ‘‘اور’’ چن ماہی‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔

 

عاصی کاشمیری کے ماہیے :

 

جینے  کی سزا  نکلا

رزق  کا غم گوری

ہر  غم سے سوا نکلا

 

گوری تیری انگڑائی

مجھ کو  بنا دے گی

ا ک  پاگل  سودائی

 

دلہن  کی  سہیلی  کی

گر گئے جوڑے سے

کچھ پھول چنبیلی کے

 

رکھ  لاج خدائی کی

وصل میں ڈھل جائے

یہ  رات  جدائی  کی

 

وہ  شہر  چمن  جیسا
ملتا  نہیں عاصیؔ

ماحول، وطن  جیسا

 

ناصر نظامی

 

ناصر نظامی ایک عرصہ سے ایمسٹر ڈیم ہالینڈ میں مقیم ہیں۔ غزلیں اور نغمات لکھتے رہتے ہیں۔ ان کے گیت ٹی وی چینلز پر بھی گائے گئے ہیں۔ ماہیے میں ان کی دلچسپی کے نتیجہ میں یادوں کی بارش جیسا  528 صفحات پر مشتمل ضخیم مجموعہ منظر عام پر آیا۔ اسے اب تک ماہیا کے تمام مجموعوں میں سب سے ضخیم مجموعہ کہا جا سکتا ہے۔

 

ناصر نظامی کے ماہیے :۔

 

ہے جس کی نظر جتنی

اس کو نظر آئے

بس اس کی جھلک اتنی

 

جب تو مجھے تکتا ہے

دل کو بجلی کا

جھٹکا  سا  لگتا  ہے

 

جنت  کے  درختوں کا

یاد کرو قصہ

گزرے ہوئے وقتوں کا

 

ململ کا سوٹ لیا

پہلی نظر میں ہی

تم نے مجھے لوٹ لیا

 

لی  درد  نے انگڑائی

دل کے گلے لگ کے

روتی  رہی   تنہا ئی

 

احسان سہگل

 

احسان سہگل ہالینڈ کے شہر ہیگ میں آباد ہیں۔ ایک خاص نوع کی غزل کہتے ہیں جس میں پیچیدہ عروضی معامالات زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے ماہیے میں دلچسپی لی تو تھوڑے بہت ماہیے بھی کہہ ڈالے۔

 

احسان سہگل کے ماہیے :

 

یاد  آج  کرے  کوئی

رات اندھیری ہے

پھر  آہ  بھرے  کوئی

 

اس دیس میں روتے ہیں

ہم بے سرو سامان

امید   پہ  سوتے   ہیں

 

یہ  پیار  کا  جادو  ہے

مان لے  میری بات

اس دل میں تو ہی  تو ہے

 

خاموش  ہے  محفل  ہی

شیشے کے گھر میں وہ

ہے   توڑ  گیا  دل   ہی

 

سلطانہ  مہر

 

سلطانہ  مہر پہلے امریکہ میں مقیم تھیں، اب انگلینڈ میں منتقل ہو گئی ہیں۔ پاکستان کے معروف اخبارات کے ساتھ منسلک رہی ہیں۔ ان کے ناول شعری و افسانوی مجموعوں کے ساتھ مرتب کردہ کتابیں (تذکرے )شائع ہو چکے ہیں۔ شاعری میں غزل، نظم کے ساتھ ماہیے بھی کہہ لیتی ہیں۔

 

سلطانہ مہر کے ماہیے :

 

سو آنسو  رلائیں  گے

بارودی   دانے

پھل  ویسا  ہی  لائیں گے

 

اک  بھول کبھی  کی  تھی

ہم  نے  پتھر  سے

چاہت  کی  طلب کی تھی

 

وہ  چاند  بھی  گہنایا

کون مرے من کے

آنگن  میں  اتر  آیا

 

اپنوں  سے چھپانا  مت

حوصلہ  ٹوٹے  تو

غیروں  کو  بتانا  مت

 

جیون  کی  ضما  نت  بھی

کھیل  ہے  ایٹم  کا

ویرانی   کی  دعوت   بھی

 

ریحانہ قمر

 

ریحانہ قمر ایک عرصہ سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان کے متعدد شعری مجموعے چھپ چکے ہیں لیکن ان کے ساتھ یہ افسوسناک تفصیلات بھی چھپ چکی ہیں کہ وہ خود شعر نہیں کہتیں بلکہ ان کے لیے پاکستان کے شاعر عباس تابش زنانہ شاعری کرتے ہیں اور وہی ان کی کتابیں شائع کرتے ہیں۔ ان کے نام سے دوسری شاعری کی طرح ماہیے بھی منظر عام پر آئے ہیں۔ اگر یہ ماہیے خود کہتی ہیں تو بلاشبہ بہت اچھے ماہیے کہتی ہیں لیکن اگر ماہیے بھی عباس تابش کے لکھے ہوئے ہیں تو انہیں عباس تابش کے ماہیے بھی کہا جا سکتا ہے۔

 

ریحانہ قمر کے ماہیے :

 

بارش  سی  برستی  ہے

لوٹ کے جانے کو

اک کونج  ترستی  ہے

 

اب  دکھ نہ چھپا ؤ ں گی

جو  کچھ  تو  نے  کہا

چڑ یوں  کو  بتاؤں گی

 

کوئی خواب نہ ٹوٹے گا

شک نہ کبھی کرنا

یہ ساتھ نہ چھوٹے  گا

 

مت  مجھ  کو  ستا  یا  کر

دل  میں  اگر  کچھ  ہو

تو  کھل  کے  بتا  یا  کر

 

کیا  ظلم  کماتی  ہوں

بھید  چھپانے  کو

میں  ہونٹ  چباتی  ہوں

 

مبشر سعید

 

مبشر سعید چند برسوں سے فرانس میں مقیم ہیں۔ وہاں   entomologyمیں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ نوجوان لکھنے والے ہیں۔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، تاہم اب ماہیے بھی باقاعدگی سے کہہ رہے ہیں۔

 

مبشر سعید کے ماہیے :

 

تہذیب  کی  بھٹی  سے

عشق  چھلکتا   ہے

پنجاب  کی  مٹی   سے

 

آشا  کی  حویلی  ہے

پھول  نما  لڑکی

خوشبو  کی سہیلی  ہے

 

برسات تھی  کل چھائی

یاد کے چہرے پر

اک  شکل  ابھر  آئی

 

اک  پیاس بھی پیاسی تھی

رات  سمندر میں

ہر  اور   اداسی   تھی

 

یہ  سانس  تو  فرضی   ہے

تُم بن میری جاں

جینا  خود    غرضی   ہے

 

سہیل اقبال

 

سہیل اقبال کچھ عرصہ سے کینڈا میں مقیم ہیں۔ شاعری کا شوق ہے۔ اسی شوق میں چند ماہیے بھی کہے ہیں۔

 

سہیل اقبال کے ماہیے :

 

جب تنہا  سو تا ہوں

خوابوں کا میلہ

ہمرہ لیے ہوتا ہوں

 

یہ میل تھا قسمت میں

آگ اور پانی کا

یہ کھیل تھا قسمت میں

 

جیون  کو  ستاتے ہیں

پیار بھی کرتے ہیں

اور لڑتے بھی جاتے ہیں

 

پھر سے آغاز  کریں

آ ؤ خوشیوں کو

اپنا  ہم راز  کریں

 

گلشن میں جو تو آئے

خوشبو  پھولوں کی

پہلے سے بھی بڑھ جائے

 

جمشیدمسرور

 

جمشیدمسرور ناروے میں مقیم شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ ترجمہ نگاری اور صحافت سے بھی دلچسپی ہے۔ ان کے ماہیے بھی چھپ چکے ہیں۔

 

جمشید مسرور کے ماہیے :

 

دریا کے اشاروں پر

عمر بِتا دی ہے

ہم نے تو کناروں پر

 

رنگوں کا جنازہ ہے

سوکھے گالوں پر

مٹی ہے کہ غازہ ہے

 

آرام  نہیں  کرتے

فکر میں رہتے ہیں

ہم کام  نہیں  کرتے

 

جب جنگ نہیں ہوتی

دھرتی لوگوں پر

یوں تنگ نہیں ہوتی

 

کیوں وار نہیں کرتے

اپنے ہونے کا

اقرار نہیں کرتے

 

افضل عباس

 

افضل عباس ناروے میں مقیم ہیں، ان کے متعدد شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔ غزل اور نظم کے ساتھ ماہیے بھی کہتے ہیں۔

 

افضل عباس کے ماہیے :

 

کڑوے کوئی سچ ماہیا

عاشق ذات کے ہیں

ہم لوگوں سے بچ ماہیا

 

جوگی کا لگا پھیرا

ہاتھ میں ٹوٹ گیا

دل کانچ ہوا میرا

 

شہر  اوسلوؔ  ظالم  ہے

کوئی نہیں ملتا

خوش اک اک بالم ہے

 

مِٹ پیٹ کی بھوک گئی

کیوں نہ سُنی اُس نے

مِیلوں تک کُوک گئی

 

جوگی کا جوگ کہاں

برف میں پاؤ گے

سانول سے لوگ کہاں

 

گلشن کھنہ

 

گلشن کھنہ انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ ایک عرصہ سے مختلف اصناف سخن میں لکھ رہے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ جلد اپنی شناخت قائم کر لیں گے۔ انہوں نے ماہیے بھی کہے ہیں۔ لیکن ان کے ماہیے کبھی تو بڑے با وزن اور کسے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی ان میں جھول محسوس ہوتا ہے۔ بہر حال ان کے اچھے ماہیے بھی مطلوبہ تعداد میں مل گئے ہیں۔

 

گلشن کھنہ کے ماہیے :

 

ریشم کی ڈوری ہوں

تو میرا چن ماہی

میں تیری چکوری ہوں

 

اک جھلک دکھا جا تو

کاجل بن کر ہی

آنکھوں میں سما جا تو

 

سپنوں میں ہی آیا کرو

سُونی بگیا میں

نئے پھول  کھلایا کرو

 

پریت اپنی پرانی ہے

مکھڑا دکھا سجنا

یہ شام سہانی ہے

 

دو پتر اناروں کے

غنچے روتے ہیں

ویران بہاروں کے

 

جیم فے غوری

 

جیم فے غوری اٹلی میں مقیم شاعر ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے ایک سہ ماہی رسالہ’’تلاش ‘‘ کے نام سے نکالتے ہیں جس میں ادبی، سماجی اور انسانی حقوق کے حوالے سے تحریریں شامل ہوتی ہیں۔ ان کے شعری مجموعہ ’’ہاتھ پر دیا رکھنا‘‘ میں  چند ماہیے یکساں مصرعوں کے شامل تھے لیکن حیدر قریشی کے مضامین کے مطالعہ کے بعد انہوں نے شعری مجموعہ کے ماہیوں پر بھی نظر ثانی کر کے انہیں ماہیے کی لوک لَے میں ڈھال لیا بلکہ اس کے بعد مسلسل ماہیا نگاری کی طرف توجہ دینے لگے ہیں۔

 

جیم فے غوری کے ماہیے :

 

یادوں میں صدا دینا

ڈولتی کشتی کو

اب  پار  لگا  دینا

 

ہر زخم کو بھر دے گا

ماہی جب لَوٹا

مجھے زندہ کر دے گا

 

پھولوں کو کھلنا ہے

روکے گی دنیا

پر  ہم کو ملنا ہے

 

باغوں میں بہار آئی

آ جا پردیسی

میں سب کچھ ہار آئی

 

ہم لوگ ہیں دیوانے

اپنی دنیا کو

تم جانو،  خدا جانے

 

ہم لوٹ کے آئیں گے

سوکھی شاخوں میں

نئے پھول کھلائیں گے

 

ارشد اقبال آرش

 

ارشد اقبال آرش ایک عرصہ سے اٹلی میں مقیم ہیں۔ اردو اور سرائیکی زبانوں میں شاعری کرتے ہیں۔ اردو ماہیوں کا ایک انتخاب ’’باغوں میں بہار آئی‘‘ مرتب کر کے چھاپ چکے ہیں۔

 

ارشد اقبال آرش  کے ماہیے :

 

رنگوں میں نہا آئی

رات ملن کی یہ

مشکل سے آئی

 

فرصت ہو تو آ جانا

اپنے  ہاتھوں سے

میتّ  دفنا     جانا

 

اب  اور  نہ  تڑپانا

شام سے پہلے ہی

ماہی  گھر  آ  جانا

 

کچھ موتی پروئے ہیں

یاد میں بالو کی

ہم رات بھی روئے ہیں

 

قسمت ہی کھوٹی  ہے

میرے لیے بالو

کے  ٹو کی  چوٹی ہے

 

ریحانہ احمد

 

ریحانہ احمد کینیڈا میں مقیم ہیں۔ وہاں سے انٹر نیٹ پر ان کی اردو کے فروغ کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ایک انٹرنیٹ میگزین دستک بھی جاری کر رکھا ہے۔ وقتاً  فوقتاً  ماہیے کہتی رہتی ہیں۔

 

ریحانہ احمد کے ماہیے :

 

کیا داغِ سویدا ہے

درد ہے سینے کا

اور سب پہ ہویدا ہے

 

ہیرے  کا  مِرا  کوکا

دیکھ لے آ چھو کر

کس نے ہے تجھے روکا

 

اب سانس بھی آری ہے

اک پل رکتی نہیں

ایسی  یہ  کٹاری  ہے

 

سلجھائے جو بالوں کو

چھو کے انگلی سے

اُلجھائے خیالوں کو

 

کیا حشرو قیامت ہیں ؟

پاس ہمارے بھی

کچھ اشکِ ندامت ہیں

 

یہ  وقت  کا  ریلا ہے

تو بھی چلتا چل

سنسار  کا  میلا  ہے

 

جاوید خان

 

جاوید خان جرمنی میں مقیم ہیں۔ کالج کے زمانے سے لکھنے کا شوق رہا لیکن با ضابطہ طور پر کسی صنف میں بھی نہیں لکھ سکے۔ اپنی دوسری نگارشات کی طرح انہوں نے ماہیے بھی بہت کم لکھے ہیں۔ جو ادبی رسائل میں چھپ چکے ہیں

 

جاوید خان کے ماہیے :

 

لکھوں ہجر حکایت کیا

ظلمی  زمانے کی

کروں تم سے شکایت کیا

 

جیون ہے عذابوں میں

سچی محبت  اب

ملتی  ہے  کتابوں میں

 

گو  رات  تو کالی تھی

رستہ نہ بھولوں گی

یہ  خام  خیالی  تھی

 

تیری یاد میں جلتا ہے

دیوانے دل پر

بس بھی کبھی چلتا ہے

 

جھرنا  کشمیر  کا  ہے

کس سے شکوہ کریں

قصہ ّ  تقدیر  کا   ہے

 

ارشاد ہاشمی

 

ارشاد ہاشمی ایک عرصہ سے جرمنی میں آباد ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ’’اردو دنیا‘‘ کے نام سے ایک ہنگامہ خیز ادبی رسالہ نکال چکے ہیں۔ پارٹ ٹائم شاعری بھی کرتے ہیں۔ شاعری میں ان کی ماہیا نگاری میں نسبتاً   امکانات موجود ہیں۔

 

ارشاد ہاشمی کے ماہیے :

 

ماہیا  تو  پرانا  تھا

ادبی دنیا میں

اسے لے کر آنا تھا

 

طوفان  سمندر  کا

کھلتا نہیں خود پر

کیا  بھید ہے اندر  کا

 

ممکن  نہیں چھپ جانا

انٹر نیٹ میں تجھے

ڈھونڈے  ترا دیوانہ

 

پھولوں  پر شبنم  ہے

چاہے ملے نہ ملے

دل میں تو وہ ہر دم ہے

 

ایک کھیت ہے سرسوں کا

کب پورا ہو گا

وعدہ  تیر  ا برسوں کا

 

بشارت احمد بشارت

 

بشارت احمد بشارت جرمنی میں مقیم شاعر ہیں۔ حیدر قریشی سے ماہیوں پر اصلاح لیتے رہے ہیں۔ ان کے ماہیوں کا مجموعہ ساجن ہرجائی چھپ گیا ہے۔

 

بشارت احمد بشارت کے ماہیے :

 

ہے  کل  اور آج  ترا

ہر اک ذرے پر

مالک   ہے   راج   ترا

 

اس  سے  فر  یاد  کرو

یادِ     الٰہی   سے

دل  کو   آ  باد    کرو

 

کیسے  دن  آئے ہیں

پہلے سے بڑھ کے

جنگوں کے سائے ہیں

 

قسمت  کا  ستارہ   ہے

حسن   ترا   جیسے

اک نور  کا  دھا را  ہے

 

یوں   بھاگ جگا  دینا

آنکھ  سے  آنکھ  ملی

دل ،  دل سے   ملا   دینا

 

طاہر عدیم

 

طاہر عدیم جرمنی میں مقیم پُر گو شاعر ہیں۔ تین شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔ حال ہی میں ’’ جزیرہ‘‘ کے نام سے ایک ادبی کتابی سلسلہ کا اجراء کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماہیا نگاری کی طرف بھی حال ہی میں متوجہ ہوئے ہیں۔

 

طاہر عدیم کے ماہیے :

 

وہ  آنکھ   جھپکتا   ہے

ساری   دنیا   پر

سایا  سا   لپکتا    ہے

 

آنکھوں  کو  کھٹکتا  ہے

لیکن  دل بن  کر

سینے  میں  دھڑ کتا  ہے

 

تعمیل  میں  رہتا  ہے

دل میرا اس کی

تحویل میں  رہتا  ہے

 

میری  ہر  کروٹ  میں

کون  ہوا   زخمی

بستر   کی  سلوٹ   میں

 

تیرا  ہے  نہ  میرا   ہے

بعد   نہ ہو نے  کے

ہر   سمت   اندھیرا  ہے

 

طفیل خلش

 

طفیل خلش جرمنی میں مقیم پنجابی زبان کے شاعر ہیں۔ اردو میں پنجابی ماہیا کو پنپتے دیکھ کر انہیں خوشی ہوئی اور انہوں نے تھوڑے بہت اردو ماہیے بھی کہہ ڈالے۔

 

طفیل خلش کے ماہیے :

 

گھر  کی  دیواروں  میں

دولتِ دل  پائی

افلاس کے ماروں   میں

 

نہیں روپ  فرشتوں  کا

شکوہ   کرتا   ہوں

ٹوٹے  ہوئے رشتوں  کا

 

اک داغ کو دھونا ہے

دو دن کی یاری

اور عمروں کا رونا ہے

 

ہم  لوگ  دوانے  ہیں

ہم  جیسے   لاکھوں

آنے  اور  جانے  ہیں

 

نا کامی  بہت  دیکھی

تیری  محبت  میں

بد نامی   بہت   دیکھی

 

طاہر مجید

 

طاہر مجید جرمنی میں مقیم شاعر ہیں۔ ایک شعری مجموعہ چھپ چکا ہے۔ جزوی طور پر ماہیا نگاری کی ہے لیکن اس میدان میں زیادہ چل نہیں سکے۔

 

طاہر مجید کے ماہیے :

 

یوں خود کو سزا دی ہے

پیار نہیں چھوڑا

دنیا ہی بھلا دی ہے

 

دل زخمی پرندہ ہے

اپنے لہو میں ہی

ڈوبا ہوا زندہ ہے

 

کچھ  زخم  نہیں بھرتی

پیار کے امرت سے

مر کے بھی نہیں مرتے

 

آنکھوں کی ہے مجبوری

دیکھنا پڑتا ہے

قربت ہو کہ ہو دوری

 

انفاس کی خوشبو ہے

یاد کے مندر میں

اک میں ہوں، اک تو ہے

 

       محمد نواز جنجوعہ

 

محمد نواز جنجوعہ  ناروے میں رہتے ہیں۔ ادب کی مختلف اصناف میں مشقِ سخن کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ماہیوں کا مجموعہ ’’صدائے نواز‘‘ چھپ چکا ہے۔

 

محمد نواز جنجوعہ کے ماہیے :

 

بے بس کی فغاں سمجھو

تھم تھم کے اُٹھتی

لہروں کی زباں سمجھو

 

بے بس کمزوروں کی

جل نہ جائے کہیں

دنیا  بے زوروں کی

 

گلیوں میں کانٹے ہیں

پھول وڈیروں نے

آپس میں بانٹے ہیں

 

دل کو مسمار نہ کر

زہر نہ گھول کبھی

لب کو تلوار نہ کر

 

اس  کو  بھی منانا ہے

جس نے مرے دل پر

خنجر  ہی  چلانا   ہے

 

ڈاکٹر ریاض اکبر

 

آسٹریلیاکی ایک یونیورسٹی میں فزکس پڑھاتے ہیں۔ کالج کے زمانہ میں ٹی آئی کالج کے میگزین المنار کے سٹوڈنٹ مدیر رہ چکے ہیں۔ اس زمانہ میں شعر کہنا شروع کیا تھا۔ پھر ایک لمبا وقفہ آگیا۔ اب کچھ عرصہ سے پھر شعر گوئی کی طرف مائل ہیں اور غزلوں کے ساتھ ماہیے بھی کہہ رہے ہیں۔

 

ڈاکٹر ریاض اکبر کے ماہیے :

 

کردار  کہانی کے

کچی دیواریں

ریلے ہیں  پانی کے

 

یہ کس نے چلائے بم

میری بستی کے

لوگوں کے بڑھائے غم

 

یہ غم ذرا کم ہوں گے

تیری سوچوں سے

الفاظ بہم ہوں گے

 

کیوں دور ہیں گاؤ ں مرے

روز کے چلنے سے

تھک جاتے ہیں پاؤں مرے

 

جو  ہم  نے  کہا  ماہیا

درد کے موسم میں

کیا تم نے   سنا  ماہیا؟

٭٭٭

 

حوالہ جات

 

یہاں درج ذیل ماہیوں کے مجموعوں اور رسائل سے استفادہ کیا گیا ہے۔

(۱ )   : دو ماہی گلبن احمد آباد ماہیا نمبر جنوری تا اپریل تا جون ۲۰۰۱ ء

(۲)    : نیرنگِ خیال راولپنڈی اکتوبر ۹۹۹ا ء     (۳)     : ماہنامہ قرطاس ستمبر، اکتوبر ۲۰۰۰ ء

(۴)      :   غزلیں، نظمیں، ماہیے از حیدر قریشی       (۵)باغوں میں بہار آئی انتخاب ارشد اقبال آرش اٹلی

(۶)    :    چن ماہی از  عاصی کاشمیری          (۷)     :اردو ماہیے انتخاب از سعید شباب

(۸)   : موسم سبھی ایک جیسے از عاصی کاشمیری       (۹):اردو دنیا جرمنی شمارہ اگست ۲۰۰۰ ء بشریٰ رحمن

(۱۰)   :۔ اردو دنیا شمارہ ستمبر ۲۰۰۰ ء شاہد  ماہلی     (۱۱): پیپل کی چھاؤں میں از پروفیسر رضیہ اسماعیل

(۱۲)   : یادوں کی بارش از ناصر نظامی

(۱۳)  : جدید ادب کے بیشتر شماروں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔

٭٭٭

ماخذ: ’جدید ادب‘، جرمنی۔ مدیر حیدر قریشی، شمارہ ۱۶

تشکر: وقاص جنہوں نے اس کی فائل فراہم کیبین الاقوامی سطح پر ماہیا نگاری ۔۔۔ صبیحہ خورشید