باری کا بُخار
راجندر سنگھ بیدی
— مکانوں کے بلاک اور باڑیاں، بھٹّے میں تپتی جلتی ہوئی اینٹیں ہو گئے،گھروں کے اندر پنکھے چل تو پوری اسپیڈ سے رہے تھے، لیکن اُس گرم اور چِپ چِپ ہوا کو چاروں طرف پھینک رہے تھے، جس سے بچنے کے لیے ہمہ شما نے دروازے بند کر رکھے تھے۔
سواتی کو یوں لگا، جیسے کسی نے اس کی باڑی کے کواڑ پہلے سہلائے اور تھپتھائے ہیں۔ وہ کھُل کر بیٹھی تھی، اس عالم میں جس میں عورتیں کسی بھی ایکا ایکی چلے آنے والے کو ڈانٹ دیتی ہیں — آتے تو آواز کر کے آتے؟… دیکھتے نہیں ، گھر میں کبھی کوئی کیسے بیٹھا ہوتا ہے، کبھی کیسے؟ جلدی سے سواتی نے ساری بدن پر پھینکی ۔ چابیوں کا گچّھا جو پلّو کے ساتھ بندھا تھا، کوڑے کی طرح بدن پہ پڑا، جس سے درد ہوا اور مزا بھی آیا… اوما گو! اس کے منھ سے نکلا اور پھر وہ دروازے کی طرف لپک گئی۔ تیز چلتی ہوئی وہ پیچھے سے بطخ معلوم ہو رہی تھی، جو کسی بلّی یا کتّے کے جھپٹنے کی وجہ سے پوکھر کی طرف بھاگی اُڑی جاتی ہے…
باہر ، اتنی گرمی پر بھی کوئی بھُورا ، کالا کمبل لپیٹے کھڑا تھا اور ہُونگ رہا تھا۔ سواتی نے آدھے کھلے کواڑوں کے بیچ میں سے جھانکتے ہوئے پوچھا —کون ہے؟
میں—ایک خلاصہ سی آواز آئی۔
پھر وہ پتلا سا، ڈرتا کانپتا، گرتا پڑتا ہوا باڑی میں گھسنے کے لیے بڑھا… اب گھر اور عورت ایک ہی بات ہے۔ دیکھے پرکھے بنا کوئی کسی کو کیسے اندر آنے دے؟
مجھے آنے دے، سواتی۔
— یہ آواز… پہلے بھی کہیں سُنی تھی، مگر اس پر بھی کوئی بھورے کالے کمبل لپٹے ہوئے تھا۔
مجھے جُورَ آ رہا ہے— بُخار!
سامنے، افیم چورستے پہ رکشا والے، رکشا کے بازوؤں پر گھنٹیاں مارتے ہوئے گزر رہے تھے۔ کام کرنے والوں، مزدوروں کی شکل دنیا میں ہر جگہ ایک ہی سی ہوتی ہے، اس لیے یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے یہ لوگ گول گول بھوگول کے چکّر کاٹ کر پھر وہیں آ نکلے ہیں۔ ایسے ہی ٹھیلے، بمبوکاٹ اور گاڑیوں والے… انھیں لوسے بھی بڑی کوئی آگ لگی تھی، ورنہ گھر کا سُکھ اور آرام چھوڑ کر یہ لوگ دوپہر کے وقت سڑکوں پہ نکل آتے؟ دراصل انھوں نے عورت کو محبت کی مار کے بدلے جو پیسہ دیا تھا، ختم ہو گیا تھا۔ اب اُلٹے دھکوں سے مجبور وہ باہر نکل آئے تھے—جاؤ۔ کماؤ اور مرو! گھر میں تب گھُسنے دوں گی، جب ہاتھ میں ٹکے ہوں گے۔
اور وہ سب بہکے بہکے، مارے مارے پھر رہے تھے۔ کچھ اور بھی محنت اور پسینے سے شرابور وہ دل میں انہی لوگوں کو گالیاں دے رہے تھے، جنھیں اپنی مرضی اور خوشی سے خود پہ سوار کر رکھا تھا۔ اس گلی میں تو وہ گھس ہی نہ سکتے تھے، کیونکہ جگہ جگہ شہر کی حد باندھنے والی کارپوریشن نے ’نواِنٹری‘ کے بورڈ لگا رکھے تھے۔
آدمی کا چہرہ کمبل سے باہر آتے ہی سواتی نے پہچان لیا— نبھ دا!
ہاں، یہ نبھ کرشن ہی تھے۔ وہی چہرہ — تانبے اور جست کا بھرت، جو غصّے سے ایک دم تپ اُٹھتا اور اسی سانس میں نُچڑ کر ٹھنڈا پیلا بھی پڑ جاتا، دھات فلزات کے سب قانون جھٹلاتے ہوئے۔ بچپن میں کسی ہمجولی نے جو غلیل ماری تھی، بَھوؤں کے اوپر، بائیں آنکھ سے تھوڑا ملتا ہوا اس کا نشان ابھی تک دکھائی دے رہا تھا۔ آدمی بڑا ہو اور طاقت پکڑلے تو بچپن کی مار کے سب داغ مٹ جاتے ہیں۔ لیکن نبھ کرشن پہ ٹوٹی ہوئی صحت کی قیامت اور برسی ہوئی سینتیس برساتیں اس داغ کو دھو مٹا نہ سکی تھیں۔ اُلٹا وہ پھیل کر ان کی شخصیت کا خاص نشان بن گیا تھا۔
نبھ کرشن کو پہچانتے ہی سواتی اپنے آپ سے گھبرانے لگی۔ اس نے دھوتی ساری کو تھوڑا اوپر کھینچا، لیکن اس پر بھی اس کا آپا باہر جھانکتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ ناٹے قد، سانولے رنگ کی ایک خوش شکل عورت تھی، جس کے بدن کو اس کے پتی نے جگا تو دیا تھا، لیکن سُلا نہ سکا تھا… یوں سواتی آکاش پہ تاروں کا ایک جھُمکا ہے۔ بتیس برس پہلے وہ دھرتی پہ کیسے چلا آیا؟ یہ کسی کو نہیں معلوم۔ اتنا ہی معلوم ہے کہ دھرتی سے بھی کچھ ستارے آکاش کو جاتے ہیں اور اس سنسار میں جتنے اچھے کام کیے ہیں، ان کے بدلے کا سکھ بھوگ کر پھر نیچے آتے، دھرتی کی کوکھ میں پڑتے اور جنم لیتے ہیں… مہا کوی ٹیگور بھی وہیں ہیں — اوپر جوڑا سانکھو کے آکاش پر۔ مگر ان کے آنے میں ابھی بڑے جُگ ہیں …
آپ؟ … سواتی نے کہا— بہودی نہیں باڑی پر؟
نہیں۔
کہاں گئی؟
گورُوکُل—پڑھانے۔
گورُوکُل میں — عورت!
عورت؟
— اور اپنی پتنی کی بات کرتے ہوئے نبھ کرشن نے جُور سے پٹی ہوئی ہنسی ہنس دی۔ اب رام جانے وہ ایک عورت کا مذاق اُڑا رہے تھے، یا دنیا بھر کی عورتوں کا؟… گورُوکُل سے ان کا مطلب لڑکوں کا اسکول تھا، البتہ، جہاں مادہبی، ان کی پتنی پڑھاتی تھی، وہ شہر سے اتنا دور تھا کہ ہفتے میں صرف تین دن وہاں بس جاتی تھی۔
یہی نبھ کرشن کبھی سواتی کے اپنے تھے۔ شریر سے اپنے، تو آتما سے بھی اپنے۔ شادی سے پہلے وہ کیسے گھر کے گربھ استھل تک گھُسے آتے تھے۔ سواتی ڈرتی، کانپتی، بے ہوش ہو جاتی تھی، مگر ان کے وجود سے ایک اپار آنند کا انوبھو بھی ہوتا تھا۔ ان کے جانے کے بعد وہ جیسے کسی نشے میں سوجاتی۔ جاگتی تو ہر کام کے لیے بھاگ کر پہنچتی، جہاں وہ چل کر بھی جا سکتی تھی… پھر کیا ہوا؟ جیسے کہ ہوتا ہے—سواتی کو کمل بابو لے گئے اور نبھ کرشن کو مادہبی… نبھ اُن مردوں میں سے تھے جن کے لیے عورتیں براتیں لے کر آتی ہیں…
اسی ہار اور ضد کی وجہ سے نبھ کرشن ’’بڑے آدمی‘‘ ہو گئے تھے۔ کلکتے کی تین ہزار سے اوپر ناٹک کمپنیوں میں سے نبھ دا کی ’’لَوک بانی‘‘ ہی تھی، جسے سب سے زیادہ عزّت ملی۔ ٹکے ملے بھی تو انھوںنے ساتھ کام کرنے والوں میں بانٹ دیے۔ خود یوں سکھی ہو گئے، جیسے آدمی جھڑ جانے کے بعد ہوتا ہے۔ ہاتھ جھٹکتے ہوئے وہ اشتوش باڑی، اپنے گھر چلے آئے اور اپنی پتنی سے وہ مار کھائی کہ پتی کی مار بھی اس کے سامنے کیا ہو گی؟
نبھ دا لکھتے تھے اور ابھنے بھی کرتے تھے۔ جب لوگ انھیں پھولوں کے ہار پہناتے، تو وہ انھیں اُتار کر اپنے کھیل کی سندھیا رانی یا ناگ بھیم کے گلے میں پہنا دیتے اور کبھی اپنی پتنی مادہبی اس مان پر تیشٹھا میں شامل تو ہو جاتی، مگر اسے حاصل کرنے کے لیے کلاکار کو جو گِرنا ، اُٹھنا پڑتا ہے، اس کے لیے تیار نہ تھی… یہ تو سب اِن کا ہے، میرا کیا ہے؟ وہ ان عورتوں میں سے تھی، جو اپنے بچوں کے بارے میں بھی یہی کہا کرتی ہیں— سب ان کے ہیں، میرا کیا ہے؟… اس کے لیے اپنی قیمت بڑھانے، اپنا مول ڈلوانے کا اب کوئی راستہ نہ تھا، سوائے اس بات کے کہ وہ سب ایسی باتیں کرے، جو نبھ کرشن نہیں کرسکتے تھے۔ وہ شخصیت تھے، چلن نہیں۔ چنانچہ نبھ شخصیت ہوتے گئے اور مادہبی چلن پکڑتی گئی۔ اس نے گھر اور دھڑا دھڑ آنے والے پانچ بچّوں کی طرف اپنا دھرم سنبھال لیا۔پوجا پاٹھ شروع کر دیے۔ کہاں وہ ہوٹل ، چکن اور مٹن سے اِدھر بات ہی نہ کرتی تھی اور کہاں اب اس نے انڈہ میٹ تو ایک طرف، گھر میں مچھلی بھی گھسنے کی ممانعت کر دی۔ اب بھی جب وہ باہر سے آتی ہے تو اشتوش باڑی کے پیچھے، پوکھر کی مچھلیاں پانی میں سے اُچھل اُچھل کر اُسے دیکھتی ہیں…
اور نبھ کرشن گرتے پڑتے اوپر ہی اوپر جا رہے تھے۔ ایک دن نُذرل نے ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا اور اپنے ہست اکھشروں سے ’’سندہو ہنڈول‘‘ کی کاپی دی۔ الیکشن لڑنے والے جانتے تھے کہ جیتنا ہے تو بھوانی پور کے نبھ کرشن کو ساتھ لے لو۔ اب معاملہ تھوڑا ٹھنڈا پڑ گیا تھا البتہ، کیونکہ نینی کے بازار میں بے شمار پارٹیوں نے دکانیں کھول لی تھیں اور منھ کے بھونپو بنا بنا کر، چلاّ چلاّ کر وہ اپنا اپنا مال بیچ رہے تھے۔ ٹاؤٹ لوگ تک بوکھلا گئے تھے اور نہیں جانتے تھے، اب کس پارٹی کا جھنڈا اُٹھائیں۔ ایک دن نبھ دا نے کہا بھی — مجھ سے کہیں کہ کون سی پارٹی اب جنتا کے لیے اچھی ہے، تو میں آپ سے پوچھوں گا، وہ سامنے دیوار پر بیٹھا ہوا کوّا نر ہے یا مادہ؟
مجھے باری کا بخار ہے، سواتے۔
باری کا بکھار؟
ہاں… جو ایک دن چھوڑ کر آتا ہے۔
میں مر گئی … سواتی نے چھاتی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ لیکن ابھی تک وہ دروازے میں کھم گڑی تھی اور نبھ کرشن کو اندر آنے نہ دے رہی تھی۔
تم نے دھُنیے کو نہیں دیکھا؟ نبھ بولے —کیسے روئی کے پھوئیں اڑا دیتا ہے؟ بخار کے بعد ایسی حالت ہو جاتی ہے میری… آج پانچ بجے پھر باری ہے۔
اب کے سواتی نے نبھ کرشن کی طرف دیکھا تو اس کے من میں ممتا چلی آئی۔ نبھ کہتے رہے—اسے ہی ٹالنے کے لیے میں چلا آیا ہوں، تیرے دوار۔
ہیں (ہاں) نبھ دا! — سواتی نے انھیں، اور کچھ اپنے آپ کو سناتے ہوئے کہا —وہ نہیں ہیں نا گھر پر۔ کھوکھی کے پِتا۔
کمل بابو؟… مجھے اس سے کیا لینا؟
اور پھر کچھ دیر کے بعد بولے—تو نہیں آنے دے گی، تو میں یہیں گر جاؤں گا۔ چوکھٹ پر… اور پھر مری پٹی ہوئی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولے—بیمار کے بھی کوئی لِنگ ہوتا ہے، سواتی؟
سوال بدنامی کا تھا، جو ممتا سے بڑی ہے اور لِنگ سے بھی بڑی۔ وہ ایسی لُوہے، جو بدن ہی کو نہیں، دماغ کو بھی جھلس کے رکھ دیتی ہے… پرویج (پرویز)، کمل بابو کے نائب کی عادت تھی، وقت بے وقت کمل بابو کا سندیس لے کر آ دھمکنے کی۔ پھر پڑوس میں بھیشم باڑی کی کھڑکی میں اُڑیا کی رادھا یوں نیچے دیکھ رہی تھی، جیسے ادڑ کے دنوں میں کِرشی لوگ اوپر میگھا پانی کے لیے دیکھتے ہیں۔
سب کچھ کیسے اوپر نیچے ہو گیا تھا —دھرتی، آکاش… سواتی، کمل… نبھ اور مادہبی…
سواتی کے من میں سب پرانی یادیں لپک آئیں، جنھیں آدمی یوں دہرانا، کھانا چاہتا ہے، جیسے اگھوری لوگ مردہ کھاتے ہیں۔ لیکن اُڑیا کی رادھا کو دکھانے کے لیے سواتی نے دروازے کو کھُلا رہنے دیا، اور نبھ کرشن کو اندر آنے کا اشارہ کرتی ہوئی آپ باہر بھاگ گئی… بطخ پوکھر کی طرف بھاگی، اُڑی جا رہی تھی…
نبھ کرشن گرتے پڑتے باڑی میں داخل ہوئے، جب کہ اس کی مالکن خود باہر چلی گئی تھی۔ بھر تری ہری کے شرنگار شتک کی عورت کی طرح سے، جو ہوتی اپنے مرد کے بازوؤں میں ہے، لیکن سوچتی کسی دوسرے کے بارے میںہے۔
اندر آ کر نبھ کرشن نے کمبل کو بدن سے الگ کیا، جو انا کی طرح سے انسان کا پیچھا ہی نہ چھوڑ رہا تھا۔ پہلے تو انھیں اچھا لگا، لیکن فوراً ہی بعد ایک کپکپی آئی اور انھوں نے اسے دوبارہ اوڑھ لیا۔ پھر وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگے کہ شاید اسی گھر میں انھیں پرانی محبت کے کوئی چِنہہ نظر آ جائیں۔ کوئی تصویر، کوئی مان پتر جو ’’لوک بانی‘‘ سے کبھی سواتی کو دیے تھے، جب وہ اُن کے کھیل میں چھوٹے چھوٹے، نٹ کھٹ سے رول کیا کرتی تھی، لیکن وہاں پرانی محبت کا تو ایک طرف، نئی کا بھی کچھ پتہ نہ تھا۔ البتہ ایک تپائی پہ، صندل کے چوکھٹے میں چار پانچ سال کی ایک بچّی کی تصویر ضرور تھی، جو کھوکھی کی ہو گی … کوئی مزا لیتے ہوئے نبھ کرشن نے حساب لگایا—کھوکھی ضرور اب بارہ ساڑھے بارہ برس کی ہو گئی ہو گی…
چھت کے کُنڈوں کے ساتھ لٹکا ہوا، گجراتیوں کے ہاں کی طرح کا ایک جھولا ہنڈولا تھا، جو بیٹھنے اور جھولنے کے بجائے گھر کی ہر آلتو فالتو چیز، حتیٰ کہ کوڑا کباڑ تک رکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ سواتی تو بلّی کی طرح سے صاف اور ستھری رہتی تھی۔ اس کی ہر بات میں ایک قرینہ، ایک ادا تھی، پھر یہ سب کیا ہوا؟… پھر؟ کچھ بھی ہوا… بدن سے اُتارے اور اِدھر اُدھر پھینکے ہوئے کپڑوں میں سے کل پرسوں کے پسینے کی باس آ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا اسے کہ گھر کی مالکن اب کیچ اور غلاظت ہی کو پسند کرنے لگی ہے، اُس بھینس کی طرح سے جو دلدل میں لوٹ کر ہی تسکین پاتی ہے۔ اوپر پنکھے کی ہوا میں وہ کپڑے ہل رہے تھے—کبھی آہستہ، کبھی تیز تیز… دھوتیاں اور جُبّے ایک دوسرے میں یوں اُلجھے ہوئے تھے، جیسے رنڈیوں اور بھڑووں کی محبت۔ نیچے، دیوار کے ساتھ، ریلوے ویٹنگ روم میں دکھائی دینے والی آرام کرسی اپنے لانبے لانبے بازو پھیلائے پڑی تھی۔ نا طاقتی کے احساس سے نبھ کرشن اس پر بیٹھ تو گئے، مگر پچھتائے… پچھتانے کے سوا اور ہئی کیا، اس دنیا میں؟… کرسی لیٹنے اور بازوؤں پہ اپنی ٹانگیں پھیلا دینے کے لیے کہہ رہی تھیں، مگر نبھ کرشن پرائے گھر میں ایسے بے تکلف نہ ہو سکتے تھے۔ اب وہ بیٹھے ہوئے تھے اور نہ لیٹے ہوئے۔ وہ صرف اس انتظار میں تھے کہ سواتی آئے اور انھیں اس ’’آرام‘‘ سے موکش دلائے…
کھلے دروازے میں سے کلکتہ شہر کے خصیے نظر آ رہے تھے۔ اس علاقے میں بلاک، باڑیاں اور پوکھر کسی نے بنائے تھوڑے ہی تھے۔ وہ تو ایک لفظ کُن سے ہو گئے اور یا پھر اندر کی کسی بیماری، کسی تخمیر سے بنی، بڑھ اور پھول گئے تھے۔ ہائیڈروسیل کی طرح سے اور اب کلکتہ اپنے فوطوں کو تھیلی میں ڈال کر، کمر سے انھیں لٹکائے پھر رہا تھا، ٹکے بنا رہا تھا۔ کیسے بھی، کسی طرح سے بھی۔ ٹرانسپورٹ کا نیا ٹرک خریدا گیا۔ چونکہ پہلا ٹِرپ ہو گا اس کا، اس لیے بہت سی رسمیں ادا ہوں گی، جیسی جہاز کو سمندر میں ٹھیلنے پہ ہوتی ہیں۔ ڈھانچے پہ کاجو یا فینی شراب کی بوتل توڑی جاتی ہے، ناریل پھوڑے جاتے ہیں۔ پھر پوجا، پھول، مانگ میں سیندور… کیا کچھ نہیں ہوتا؟ آخر ایک بار رواں ہو جانے پہ کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ انجر پنجر ڈھیلے ہی رہیں گے۔ چرخی مُڑی تُڑی ہے تو مُڑی تُڑی ہی رہے گی۔ پھر کسی جانکار کی نظر پڑے گی تو—
جبھی سواتی لوٹ آئی۔ اس کے ساتھ کھوکھی تھی۔
ماں کے کہنے پہ کھوکھی نے نبھ دا کو پرنام کیا اور آشیرواد لی۔ سواتی دیکھتی رہی— بھلا کہاں تک پہچانتے ہیں؟
نبھ کرشن نے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔
اب میں کھیلوں، ماں؟—کھوکھی نے کہا۔ جیسے وہ باہر، پوکھر کے پاس، سال کے پیڑ تلے کھیل رہی تھی کہ ماں اسے زبردستی گھسیٹ لائی۔
ہیں— کھیلو۔
کھوکھی کے ہاتھ میں چاک تھی اور ٹھیکری۔ اس نے زیادہ باتیں نہ کیں۔ وہیں فرش پر لکیریں کھینچ کر وہ ٹھیکری سے داؤ روڑا کھیلنے لگی۔ سواتی سے نظریں بچاکر نبھ کرشن نے کھوکھی کی طرف دیکھا، جو اب ایک ٹانگ کے بل کھڑی تھی اور کسی بھی وقت ٹھیکری کو ٹھوکر لگا سکتی تھی، لائن کے پار جا سکتی تھی۔
کتنی بڑی ہو گئی!— نبھ دا نے مانتے ہوئے کہا… کچھ اور برس، اور یہ آپ ہی اپنی ماں ہو جائے گی۔ اور پھر کیلنڈر پہ کسی پرانی تاریخ کو لگے دیکھ کر بولے۔ تاریخ تو بدل دو، نہیں تو ہم سب امر ہو جائیں گے۔
سواتی نے نبھ کرشن کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔ کھوکھی کے چلے آنے سے اسے کوئی رہائی سی مل گئی تھی۔ اب وہ نبھ کے ساتھ کھل کر بات کرسکتی تھی اور ان کے بیمار ہونے کے ناتے دیکھ ریکھ بھی۔ البتہ، اندر آتے ہوئے اس نے دروازے کو کھلا رہنے دیا، مبادا—
کمبل اُتار دو، نبھ دا۔ اس نے کہا… آپ کو دیکھ کر تو میرا اپنا بدن پھنکنے لگا ہے… او کالی ماں! کتنی گرمی ہے۔ پچھلے بارہ برس میں تو اتنی پڑی نہیں۔
کمبل اُتارتا ہوں تو سردی لگتی ہے—وہ بولے
سر… دی؟
ہاں۔
کوئی بات نہیں۔ میں کھاٹ ڈال کر بستر بچھائے دیتی ہوں اور خاشے کی ایک موٹی چادر دیتی ہوں، جس سے سردی نجیک بھی نہیں آئے گی… اوماگو، یہ کمبل تو پورا بھیگا ہوا ہے…
سواتی نے برآمدے کی طرف، دیوار سے لگی ہوئی کھاٹ اُٹھائی۔ اندر سے مرزاپور کا نیا خریدا ہوا کارپیٹ نکالا اور بچھا دیا۔ پھر جلدی جلدی اس پر وہ تہی ڈالی اور پھر سفید، براق چادر اور پائینتی پہ خاشے کی اُجلی، موٹی چادر رکھ دی۔ نبھ کرشن نے ڈرتے ڈرتے کمبل اُتارا، لیکن اندر دھوتی اور جبّے کو دیکھنے سے یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے کسی پوکھر کے پانی اور دلدل سے نکل کر آئے ہیں۔
وہ تو شاید کچھ نہ کہتے، لیکن سواتی نے ٹوک دیا— ٹھہرو… وہ بولی، اور پھر کمرے کی طرف چلی گئی۔ لوٹی تو اس کے ہاتھ میں اپنے مرد کی گنجی وغیرہ تھی اور دھوتی جبّہ…
اوپر کمرے میں جا کر بدل لیجیے۔ سواتی نے کہا۔
نبھ کرشن نے تھوڑا تامل کیا—نہیں، میں بیمار ہوں نا؟
’’تو یہ کس روگ کے دارو ہیں؟‘‘
نبھ دا نے اپنا چہرہ پھر دوسری طرف کر لیا۔ ان کی صحت اب ذرا سی بھی مہربانی برداشت کرنے کی تاب نہ رکھتی تھی۔ جب تھوڑی دیر اور انھوں نے ہاتھ نہ بڑھایا تو سواتی کہنے لگی—بدل، نبھ دا! آپ کو میری سوگند لگے۔ پھر میں یہ دھو دوں گی، آپ والے…
نبھ کرشن نے اپنے کپڑے لیے اور اندر چلے گئے… وہ کانپ رہے تھے۔
سواتی نے جلدی جلدی چولھا جلایا۔ بیچ بیچ میں وہ کھوکھی کو کوئلے، دسپناہ قسم کی کوئی چیز پکڑانے کے لیے کہتی، تو کھوکھی جھلاّ اُٹھتی—تم ہمیشہ میرا کھیل خراب کرتی ہو، ماں!
آخر سواتی نے کہا—اور تم لوگوں نے، جو میرا کیا ہے؟
کھوکھی نے ماں کی طرف دیکھا کہ کیا بک رہی ہے۔ پھر کچھ سمجھ میں نہ آنے سے وہ اپنے داؤ روڑے میں لگ گئی۔ بیچ میں وہ کبھی کبھی دروازے کے پاس جا کر باہر کی طرف جھانک لیتی تھی۔
کمرے سے نکلے تو نبھ کرشن کو اپنا آپ عجیب سا لگ رہا تھا۔ جیسے کپڑے پہننے ہی سے وہ تھوڑا کمل بابو ہو گئے۔ جُملہ حقوق کے ساتھ ایسا نہ ہوتا تو سواتی کیوں ان کی طرف دیکھ کر شرماتی، نگاہیں نیچی کر لیتی؟… آگ جل چکی تھی۔ سواتی نے پانی کی پتیلی چولھے پر رکھی اور اپنے آپ کو ساری کے پلّو سے ہوا دیتی ہوئی وہ آنگن کی طرف چلی گئی، جہاں ایک کٹگھرے میں تلسی کا پودا لگا ہوا تھا۔ اس نے تلسی کی پتیاں توڑیں اور جا کر پتیلی میں پھینک دیں۔ جب پانی کھولنے لگا تو اسے نیچے اتار کر سواتی نے اسی میں حاجیوں والی، اِنسٹنٹ چائے کی پوٹلی ڈالی دی۔
سواتی نے کیسے بستر بچھایا تھا، چادر پر کی ایک ایک سلوٹ نکال دی تھی ۔ کس محبت سے تلسی کی چاء بنائی تھی۔ کیا وہ کمل بابو کے ساتھ بھی ایسے ہی کرتی تھی؟ کیا مادہبی کبھی بھی ایسا کرسکتی ہے؟… نبھ کرشن کھاٹ کے پاس جا کر اس پر لیٹ گئے اور کمبل کے بجائے چادر اپنے اوپر کھینچ لی۔ وہ اعتنا قسم کی بے اعتنائی سے گھر کے آکاش پہ سواتی کو چمکتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ جبھی ان کے چہرے پہ کئی ورق اُلٹنے لگے اور اَن گنت تالیوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں، جو ’’لوک بانی‘‘ کے کام کے سلسلے میں پڑی تھیں —— سواتی کے ساتھ، سواتی کے بغیر… اگر وہ ان کی ہوتی تو کیا اچھا ہوتا؟… پھر اس عورت کی سخاوت کی وجہ سے ٹِکے بھی رہتے، جو اب مادہبی کے ’’سنجگت‘‘ کی وجہ سے پارٹیوں ، ہوٹلوں اور کوٹھوں کی راہ بنا رہے تھے۔
لو نبھ دا— پی لو۔
نبھ کرشن نے ہوش میں آتے ہوئے دیکھا——سواتی گرم گرم چائے کی کٹوری ساری کے پلّو میں تھامے کھڑی تھی۔ کمبل تو انھوں نے اُتار ہی دیا تھا۔ اب خاشے کی چادر نہ اُتر رہی تھی
اس سے میرا بخار جاتا رہے گا کیا؟ اُنھوں نے کہا۔
ہیں—تلسی کی چائے تو برسوں کے روگ نکال دیتی ہے۔ پھر میں کالی مرچ اور دھنیے کا لیپ بناؤں گی۔ سِل بٹے پہ پیسوں گی، ماتھے پہ لگاؤں گی اور آپ ٹھیک ہو جائیں گے… اور اس سانس میں کھوکھی سے بولی … کھوکھی ! کپڑے تو پانی میں ڈال۔
ماں!… کھوکھی نے بُرا سا منھ بناتے ہوئے کہا، اور کھیل چھوڑ کر کپڑے اٹھانے چلی گئی۔
ان باتوں سے میرا کچھ نہ ہو گا—نبھ نے کہا
آپ… پی کے دیکھیے۔
نا … نا۔
پینا پڑے گی—سواتی نے کچھ برہم ہوتے ہوئے کہا اور پھر جیسے پچکارتے ہوئے بولی… پی بھی لیجیے نا، پھر مِشٹھی دوں گی…
اُچھو اور ہنسی نبھ کرشن میں مل گئے، جیسا کہ عمر زیادہ ہو جانے پہ ہوتا ہے۔ جبھی جیسے بانہہ ڈال کر سواتی انھیں سہارا دینے، اُٹھانے لگی۔ نبھ آہستہ آہستہ حرکت میں آئے۔ اُٹھے۔ دو کانپتی ہوئی جانیں ایک دوسرے کے اتنا قریب ہو گئی تھیں کہ نبھ کرشن کا سر، آنکھیں اور منھ سواتی کے بدن کے اُن حصوں کو چھورہے تھے، جہاں ممتا اور نارِ تو ایک ہوتے ہیں۔ ایسے ہی سواتی کے ہونٹ نبھ دا کے اس نشان کو چھوتے ہوئے گزر گئے، جو بچپن ہی سے ان کے ساتھ تھا۔ کھوکھی کے دیکھنے سے وہ ایکا ایکی الگ ہو گئے۔ اب وہ ایک دوسرے سے یوجنوں دور تھے، ایک ایسی ہی ہی نِیتی کے کارن، جس نے شونار بنگلہ کو دو حصّوں میں بانٹ دیا تھا۔ دو گانووں کے بیچ گنگا یا برہم پُتر کی لکیر اور کہیں نہ دکھائی دینے والا خط تھا، جسے پھاندنے پہ گولی لگتی تھی — اِدھر کی یا اُدھر کی…
چائے پینے کے بعد نبھ کرشن پیچھے کی طرف لیٹ گئے۔ جہاں گھٹنے کی مدد سے سواتی نے دو تکیے سرکا دیے تھے۔ پھر وہ لیپ بنانے کے لیے سِل بٹہ ڈھونڈنے جا رہی تھی کہ نبھ دا نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا—سواتے!
ہیں… سواتی محبوبانہ انداز سے ان کی طرف دیکھنے لگی۔ کھوکھی پرے ٹب میں کپڑے کھنگال رہی تھی۔ بیچ بیچ میں چور آنکھوں سے وہ ان دونوں کی طرف دیکھ بھی لیتی تھی، جیسے کچھ سمجھ رہی ہے، نہیں سمجھ رہی۔
لیپ ویپ سے میرا کچھ نہ ہو گا—نبھ دا نے کہا… باری کا بخار ٹوٹکوں سے جاتا ہے۔
ٹوٹکے؟—ٹوٹکے تو مجھے نہیں معلوم۔
کوئی کہہ رہا تھا، ایک کتھا سننے سے تئیا تپ چلا جاتا ہے۔
کیسی کوتھا؟… کون سُناتا ہے؟
یہاں کالی گھاٹ میں ہیں، کوئی اچاریہ جی… تم بھی سنا سکتی ہو۔
میں؟
ہاں… وہ سُنا دو، جب تمھارے پِتا مادھو داس کو ہماری محبت کا پتہ چل گیا تھا اور انھوں نے جیسے کلف لگے ہوئے کپڑے پکڑ لیے تھے۔
سواتی زور سے چلاّ ئی——کھوکھی! گھنٹے بھر میں تم دو کپڑے نہیں دھُلک سکتیں؟ کیا اس لیے پال پوس کے بڑا کیا ہے، کہ ماں کا اتنا سا بھی کام نہ کرو؟… اور پھر جیسے نبھ کرشن کا منھ بند کرنے کے لیے وہ بولی—وہ کوتھا میں نہیں سنا سکتی نبھ دا! جو ہونا تھا ، ہو گیا۔ بھگوان جو بھی کرتے ہیں، اچھا ہی کرتے ہیں۔
اور وہ پرے دیکھنے لگی۔
ایک بات بتاؤ نبھ کرشن نے کہا… تم سکھی ہو، کمل بابو کے ساتھ؟
ہیں… سواتی نے کچھ زیادہ ہی زور سے سر ہلاتے ہوئے کہا—بیشی (بہت)… آپ اپنی کوتھا بولیے۔ پھر وہ ایک پیڑھی سی گھسیٹ کر نبھ کرشن سے تھوڑا دور بیٹھ گئی۔ اس فاصلے کو دیکھ کر کھوکھی بے توجہ ہو گئی اور اپنے کام میں جُٹی رہی۔
کھلے دروازے میں سے افیم چورستے کے رکشا والے چکّر کاٹتے دکھائی دے رہے تھے۔ سنائی دے رہے تھے۔ وہ بھاگ رہے تھے۔ جاگ رہے تھے—ٹکے ملیں گے… سالی خوش ہو گی… سالی بیوی نہیں ہوتی، مگر بیوی ضرور سالی ہوتی ہے!… ان میں سے کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اگلے ہی قدم پر وہ گرسکتا ہے، مرسکتا ہے، خواہ مخواہ لُو کا نام بدنام کرتا ہے۔ ہاتھ میں ٹکوں کی بجائے اپنے دو نیبو رہ جائیں گے، جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ لُو کا حملہ اپنے اوپر لے لیتے ہیں۔ انھیں کیا معلوم کہ ایک حد کے بعد وہ لُو ہی کا حصّہ ہو جاتے ہیں۔ پھر لُو اور نیبو مل کر جو حملہ کرتے ہیں، اس سے کوئی اجمل خاں بھی نہیں بچا سکتا۔
نبھ کرشن نے سواتی کی طرف منھ موڑتے ہوئے آہستہ سے کہا — تو نے کمل بابو کو بتا دیا تھا؟
کیا بتا دیا تھا؟ سواتی بولی۔
اپنا اور میرا!
سواتی نے بے توجہ کھوکھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا—ہیں، وُہی تو بھول ہوئی!
تو؟… وہ تم سے پیار نہیں کرتے؟
کرتے ہیں۔ پر جب نکٹ آتے ہیں تو جانے کیا ہوتا ہے…؟
کیا؟
جیسے کوئی کوتھا بیچ میں آ گئی…
کیسی کتھا؟
سواتی چُپ رہی…
بولو نا — نبھ کرشن نے ضد کی۔
تم… بچپن میں جو ہوا سو ہوا۔ میں تو سب بھول کر ان کی ہوتی ہوں، مگر وہ … میرے پاس نہیں ہوتے۔ ویسے سب کچھ ہوتا ہے، پر مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ کوئی اور ہیں اور میں —ہر بار وہ میرا پتی برت توڑ دیتے ہیں… اور سواتی جیسے رونے لگی۔
وہ آپ پتنی برت ہیں؟
سواتی ایکا ایکی خفا ہو گئی۔ اس نے نبھ کرشن کی طرف یوں دیکھا جیسے کوئی اجنبی ، کسی دشمن کی طرف دیکھتا ہے۔ وہ اس کے دل کو ٹھیس پہنچا رہے تھے۔ چھت پر جو پنکھا چل رہا تھا، جیسے صدیوں پُرانا ہو۔ اس کی آواز جو پہلے سُنائی دے رہی تھی، اب شور مچانے لگی۔ نبھ دا نے پہلے دُور دیکھتے اور پھر نزدیک آتے ہوئے کہا—میرا تو سرب ناش ہی ہو گیا۔
کیا کہتے ہو…؟ سواتی ایک ہی جست میں خفگی سے دل چسپی میں چلی آئی— کھوکھے کھوکھیاں ہیں اور پھر—بہودی…
مادہبی؟—اب کیا بتاؤں؟ تم جیسے جانتی نہیں، مادہبی کو…
کیوں؟—سندر ہے۔
سندر!
سچّی ۔ نیم دھرم کی پکّی۔ پوجا پاٹھ کرتی ہے۔ مچھلی مانس کو ہاتھ نہیں لگاتی۔ ہفتے میں کچھ نہیں تو دو بار دکشینشور جاتی ہے، جہاں وہ رام کرشن کو نہیں، ماں کو ما تھا ٹیکتی ہے۔ وہ تو دیوی ہے۔
نہیں چاہیے دیوی—اور پھر نبھ کرشن نے سواتی کو ایسی نظروں سے دیکھا، جیسے کہہ رہے ہوں—ایسی باتیں کرکے تو میرے بخار کا علاج کر رہی ہے؟… جِبّے کے نیچے گنجی پسینے سے تر ہو رہی تھی۔ کیا آپ کو چاہیے، دیوی نہیں تو؟
عورت!… آدمی کتنا بھی شریف ہو، کتنا بھی ٹھنڈا ہو، لیکن ایک وقت تو آتا ہی ہے، جب اُسے عورت کی ضرورت ہوتی ہے… دیوی کے ساتھ بھی سمبھوگ کرسکتا ہے کوئی؟
دھت—سواتی ساری میں منھ چھپاتے ہوئے بولی۔
ہاں—نبھ کرشن نے کہا—بس وہ دن، وہ رات مادہبی کی ہوتی ہے۔ وہ اپنا دیوگُن اور بھی اُبھار لیتی ہے۔ جیسے اسے میری ضرورت ہی نہیں۔ جب وہ مجھے یوں ذلیل کرتی ہے، جیسے میں انسان نہیں، جانور ہوں۔
سواتی کچھ سوچ رہی تھی۔ وہ بولی—اس میں سب آپ کا دوش ہے۔
میرا دوش؟
میں—یہ تم ہی ہو، مرد لوگ، جو اچھی بھلی عورت کو دیوی بنا دیتے ہو۔
ہم بنا دیتے ہیں؟
ہیں—سواتی نے کہا… تم لوگ آگ تو لگا سکتے ہو، بُجھانا بھی آتا ہے؟ اور پھر نبھ کرشن سے نظریں نچاتے ہوئے کہنے لگی—میں تمھاری بات نہیں کرتی، مگر یہ بتاؤ، سوراتھ کے بنا کبھی گئے ہو اس کے پاس؟ اس کے پورا ہو جانے کے بعد اس کے اور پرتھم کے دنوں میں دھڑدھڑ پیدا کیے ہوئے بچّوں کے ساتھ رہے ہو؟
انہی سے چمٹے رہیں تو کام کون کرے؟
کام!…سواتی نے کہا اور سر ہلاتی رہی، جس کا مطلب تھا، میں سب جانتی ہوں، تم مردوں کے کام۔ وہ چاہتا ہے، یہ اسے ہر آن میں سمجھے۔ اُٹھتے بیٹھتے سمجھے، عیش کرے، جھک مارے تو … پھر اندر ہی اندر مزے لیتے ہوئے سواتی بولی —وہ بھی آپ ایسے کسی کلاکار کے ساتھ رہتی، تو دیوی ہو جاتی۔
سواتی!
دوسری جس کے پاس جاتے ہو، عورت نہیں؟
نہیں۔ وہ پشاچنی تو… کپڑے بھی اُتار لیتی ہے۔
سواتی ایک دم کھلکھلا کر ہنس پڑی، جیسے کوئی کسی بچّے کی بات پر ہنس دے۔ پھر وہ ہنسی کے بیچ ایکا ایکی رُک گئی —عورت کو اتنی بلند آواز سے نہیں ہنسنا چاہیے۔ کھوکھی نے گھوم کر ماں کی طرف دیکھا۔ اسے سب کتنا بُرا لگ رہا تھا۔
تم ہنسیں کیوں؟— نبھ کرشن نے پوچھا۔
ایسے ہی… اور پھر ایک دم پیڑھی سے اُٹھتی ہوئی بولی —اب تم دیوتا بننے کی کوشش مت کرو… اور سواتی کے چہرے پر کوئی شرارت چلی آئی تھی۔
دیوتا کیسے؟
ہیں… کپڑے اُتارے بنا بھی کوئی پیار کرسکتی ہے؟
اور سواتی وہاں سے بھاگ گئی۔ رسوئی میں جا کر اس نے سِل بٹہ نکالا، پھر کالی مرچ دھنیا اور دوسرا نِک سُک۔ تھوڑا پانی ملا کر وہ ان سب چیزوں کو پیسنے، ان کا لیپ بنانے لگی۔ وہ بٹہ سِل پر اتنے زور زور سے مار رہی تھی کہ نبھ کرشن کو بھی حیرانی ہوئی۔ اب وہ آنکھیں پونچھ رہی تھی… کالی مرچ تو آنکھوں میں نمی نہیں لاتی—؟
تم ناراض ہو گئیں، سواتی؟ نبھ دا نے پوچھا
جواب دینے کی بجائے سواتی نے صرف سر ہلا دیا۔
نبھ کہنے لگے—یہ شادی ہئی بکواس… ہاں، مرد اور عورت کے بیچ مصیبت یہی ہے نا کہ بچّہ صرف عورت ہی کے ہو سکتا ہے۔ مرد بچّے اور اس کی ماں کی ذمّے داری نہ لے تو عورت دو کوڑی کی ہو جاتی ہے۔ اُسے اس سے بچانے کے لیے مرد کے سر پہ ڈنڈا رکھا جاتا ہے— کبھی دھرم کا، کبھی قانون کا…
سواتی نے لیپ کٹوری میں ڈالا۔ اس کے کنارے سے دو انگلیاں رگڑیں اور پھر نبھ کرشن کی طرف دیکھا کہ اب اور کیا بکھان کرنے والے ہیں؟ اور اُنھوں نے کہا بھی —ہر شادی اس بات کا ثبوت ہے کہ مرد ابھی مہذب نہیں ہوا۔
سواتی نے شک کی نظروں سے نبھ دا کی طرف دیکھا، جیسے کوئی دشمن کی چال بھانپنے کی کوشش کرے… یہ مرد… جب چاہیں اپنا دوش مان لیں اور جب چاہیں انکار کر دیں۔ یہ چھ آٹھ انچ کا غرور ان کا، کاٹ کے پھینک دیں تو رہ ہی کیا جائے ان کے پاس؟
اُدھر نبھ دا کے من کی استیمتی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ اگر قدرت ،جس نے سُننے کے لیے دھیرے دھیرے کانوں کے چھاج، راڈار بنا دیے ہیں، سونگھنے کے لیے یہ لمبی ناک دی ہے، عورت کی مرضی اور اکڑ قائم رکھنا چاہتی تو اس کی جونی میں دانت نہ بنا دیتی؟
نبھ کرشن کے پاس پہنچ کر سواتی نے لیپ ان کے ماتھے پہ لگا دیا، جو ان کو بہت اچھا لگا۔
ہا آ… ہاآ… نبھ نے کچھ تسکین پاتے ہوئے کہا۔
پھر ایک لرزہ سا ان کے بدن میں دوڑ گیا اور وہ بولے—چادر کھینچ دو، اوپر۔
سواتی چادر کھینچنے کے لیے جھکی تو پھر اس کا جوبن سامنے تھا، جسے لنگ ہین آنکھوں سے دیکھتے ہوئے نبھ کرشن نے کہا—وہ کپڑوں والی بات… شریر کے کپڑے ہوتے ہیں، سواتی آتما کے نہیں۔
…اور پھر جیسے ہذیان بک رہے ہوں—جب تک آتما اپنا سب کچھ اتار کر، پوری طرح سے ننگی ہو کر مانسروور میں نہا کر اپنے مالک کے پاس نہیں جاتی، سویکار نہیں ہوتی۔ ہم سب آتمائیں ہیں استھول روپ میں… میں نے کمبل اُتار دیا ہے، چادر بھی ہٹا دیتا ہوں اور کمل بابو کے کپڑے بھی … اب آؤ سواتی…
کھوکھی کپڑے چھانٹتی ہوئی رُک گئی تھی اور کھُلے منھ سے’اُس آدمی‘ کی باتیں سُن رہی تھی۔ سواتی لپک کر اس کے پاس پہنچی ۔ جبّے کو دیکھا اور پھر سے اسے نچوڑنے، کھوکھی کو ڈانٹنے لگی—یہ سِرماں کا دھویا ہے؟ ابھی تک اتنا پانی ہے اس میں…
کھوکھی نے کچھ نہ کہا۔ صرف فریادی نظروں سے دیکھتی رہی۔ گھر ہی تو وہ پاٹھ شالہ ہے، جس میں ہر لڑکی سبق سیکھتی ہے۔ اچھا لگے تو ، بُرا لگے تو… آگے چل کر جانے زندگی میں کہاں مرنا ہے، کس کے بس پڑنا ہے؟ … وہ پسینہ پسینہ ہو رہی تھی اور اس پہ کھُلے دروازے میں سے لُو کے جھونکے آ رہے تھے اور افیم چورستے کا پورا شور، لیکن آگے ہونے کے باوجود، پسینے سے پٹے ہوئے وجود کو وہی لُو ٹھنڈی لگ رہی تھی اور ایک عجیب طرح کی راحت دے رہی تھی۔
جبھی دروازے کے پاس ڈرین پائپ پہنے ہوئے ایک لڑکا دکھائی دیا۔ اس کے بال آج کے فیشن میں ماتھے پہ گرے ہوئے تھے اور ٹی شرٹ میں اس کے بازوؤں کے کمائے ہوئے پٹھے نظر آ رہے تھے، جن کو وہ شاید کبھی مل کر خرچ کریں گے۔ وہ ہماری مارا ماری کی قسم کا ہیرو دکھائی دے رہا تھا۔ کچھ اوٹ میں ہو کر اس نے کھوکھی کو آنے کا اشارہ کیا۔ کھوکھی نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر اشارے ہی میں جواب دیا—آتی ہوں…
لڑکے کے جاتے ہی کھوکھی نے کہا —دروازہ بند کر دوں، ماں؟
نہیں… سواتی نے اسے ڈانتے ہوئے کہا۔ پھر وہ نبھ دا کے گندے، بیمار کپڑے کاندھے پہ ڈالے، انھیں الگنی پہ لٹکانے، سکھانے چلی گئی۔
چار سوا چار بجے کے قریب کمل بابو چلے آئے۔ جبھی سواتی نے ٹب کا پانی بالٹی میں ڈال کر باہر پھینکا، جو اُن پہ گرا۔ لیکن—حیرانی کی بات، وہ بھیگے نہیں۔ صرف ان کے منھ سے ایک موٹی سی، پان آلود گالی جھڑتی ہوئی دکھائی دی۔
ایسے موسم میں گھر کا دروازہ کھُلا دیکھ کر کمل بابو حیران ہوئے۔ اندر آئے تو نبھ کرشن کو صاف ستھرے بستر پہ آرام سے لیٹے پاکر اور بھی حیران۔ لیکن پھر کھُلے دروازے اور کھوکھی کو دیکھ کر ان کی تسلّی ہو گئی۔
کھوکھی کے آتے ہی انھوں نے کہا… دروازہ بند۔
کھوکھی فوراً حکم کی تعمیل کرنے گئی۔ یہ ماں تھوڑی تھی جس کے سامنے وہ اوں آں کرتی۔
کمل بابو جہاد رائے کی شکل کے آدمی تھے۔ وُہی قد، وُہی کاٹھ، بات منھ سے نکل کر پھیل جاتی تھی، البتہ اس کی وجہ ان کے برے دانت تھے اور پان، جو وہ کثرت سے کھاتے تھے۔ نبھ کرشن کو وہ بڑے تپاک سے ملے۔ خاص طور پر جب کہ انھیں پتہ چلا کہ نبھ دا کو باری کا بخار آتا ہے اور وہ ٹھیک سے اُٹھ بھی نہیں سکتے۔
سواتی، جو کمل بابو کے پیچھے، دروازے کی طرف سے آئی تھی، بولی، کیا پئیں گے؟ کھائیں گے کچھ؟… کہیں تو نیبو پانی بنا دوں؟… ہئی، کتنی گرمی ہے۔ دھنیہ ہیں مرد لوگ جو باہر اتنی گرمی اور لُو میں کام کرتے ہیں اور ہم یہاں گھر میں بیٹھی رہتی ہیں مجے سے۔ ایک ٹھو چائے؟—
کمل بابو نے ڈانٹ دیا… تھوڑا دم تو لینے دو کہ آتے ہی پیچھے پڑ جاتی ہو۔
اس پہ سواتی پاس کھڑی انھیں پنکھا کرتی رہی، حالانکہ وہ چھت پہ پوری رفتار سے چل رہا تھا۔ اور پھر جب اپنی ساری کے پلّو سے سواتی نے ان کی گردن پر سے پسینہ پونچنا چاہا تو انھوں نے اسے پرے دھکیل دیا—سواتی ذرا بھی شرمندہ نہ ہوئی۔ یہی بات اگر نبھ دا ایسا آدمی کرتا تو وہ کنوئیں میں چھلانگ لگا دیتی۔
وہ صرف اندر چلی گئی۔
کمل بابو نے اٹھ کر کونے میں پان کی پیک پھینکی اور کُرتا اتارتے ہوئے نبھ کرشن کے پاس لوٹ آئے… بیٹھے تو صحت مبارک کی آواز سے پوری باڑی گونج اٹھی، جس کے بعد وہ بے جھجھک بولے—سناؤ نبھ دا، آج دُدر کے گھر کیسے چلے آئے بھگوان؟
بیچ میں کھوکھی آ گئی— باپی، میرے لیے سوندیس لائے؟
ارے جا سو ندیس کی بچی… کمل بابو نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا— میرا نیا ٹرک فیل ہو گیا ہے اور تجھے سوندیس کی پڑی ہے۔
کھوکھی رونے، ماں کی چھاتیاں ڈھونڈنے کے لیے اندر چلی گئی۔ نبھ دا کی مجبوری جان کر کمل بابو بہتیرے خوش ہوئے اور ان کے لیے جان بھی حاضر، کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ بیچ میں اُڑیا کی رادھا اِدھر اُدھر جھانکتی ہوئی چلی آئی۔ آج سب کچھ گویا اتفاق ہی سے ہو رہا تھا… اتفاق ہی سے اس کے گھر میں نمک ختم ہو گیا تھا۔ کمل بابو کو دیکھ کر اس کی تسلّی ہو گئی۔ دو مردوں کو وہاں پاکر وہ ٹھٹک جانا چاہتی تھی۔ اس کے اندر بھی فاسفورس اور مچھلیاں تڑپ رہی تھیں، لیکن کمل بابو نے اسے ہنکال دیا، یہ کہہ کر — یہاں تیرے مطلب کا کچھ نہیں، رادھی… مزے کی بات کہ اُڑیا کی رادھا کو بھی کمل بابو کا یہ فقرہ برا نہ لگا۔ جان بوجھ کر اپنی چال بگاڑتی، پیچھے کی طرف دیکھتی ہوئی وہ چلی گئی۔ پھر پرویز ٹرک کے ٹھیک اور ’نوبرنو‘ ہونے کی خبر دینے چلا آیا۔
میری چیز لایا؟— کمل بابو نے پرویز سے پوچھا۔
پرویز نے سر ہلا دیا اور جیب کے اندر سے ایک تِبتی ڈبیا نکال کر کمل بابو کو دے دی، جو انھوں نے کھدر کی گنجی کے اندر چھوٹی سی پاکٹ میں رکھ لی۔
اچھا، تم جاؤ—کمل بابو نے پرویز کو ٹالتے ہوئے کہا… ہاں دلاّل قسم کے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہیے۔ ایک بار راستہ سیدھا ہو گیا تو پھر تو کون، میں کون؟
اور پھر وہ نبھ دا سے میٹھی میٹھی، پیاری پیاری باتیں کرنے لگے۔ رقیبوں میں دوستی ہو گئی تھی، کوئی مذاق تھوڑے تھا! بیچ بیچ میں کمل بابو کے منھ سے پان کی پھوہار نبھ کرشن پہ پڑتی تھی۔ وہ انھیں بری نہیں لگ رہی تھی اور یا پھر مجبوری تھی محض… یہ بات بھی تو درست تھی کہ نبھ کرشن بڑے کام کے آدمی تھے۔ حکومت کے منسٹر ونسٹر سب انھیں جانتے تھے اور ان کی بہت عزّت کرتے تھے۔ یہ تو کمل بابو کی خوش قسمتی تھی کہ آج وہ ان کے ہاں پدھارے۔
نبھ دا کی بیماری کے سلسلے میں کمل نے بیسیوں ہی نسخے گنوائے، لیکن بخار کی اصل وجہ گرمی بتائی۔ پھر آنکھ مار کر بولے—جب تک اسے نکالیں گے نہیں، نبھ دا، آپ ٹھیک نہیں ہوں گے۔
نبھ کرشن نے ایک روکھے پھیکے انداز سے مسکرا دیا۔
آپ اشارہ تو کیجیے… کمل کہتے رہے۔
نبھ کو زیادہ متوجہ نہ پاکر کمل بابو سندھیا کی باتیں کرنے لگے، جو ان کے کھیل ’لوک بانی‘ میں کام کرتی تھی۔
اس کی تو بات ہی نہ کرو، کمل بابو… نبھ کرشن نے کہا — وہ کُتیا ہے۔
کمل نے قسطوں میں ہنستے ہوئے کہا—کون عورت کُتیا نہیں ہوتی؟
کرشن کانپ گئے۔ لیکن سواتی کہیں دور اندر تھی۔
کمل بابو جاری رہے—کبھی کُتیا کو عورت کہہ کے دیکھو۔ پھاڑ کھائے، ٹانگیں چیر دے آدمی کی…
اور پھر بولے۔ میں اسے ملوں گا نبھ دا، کیا لڑکی ہے۔ تمھارے کھیل میں جب وہ ’میگھ دوت‘‘ کی نائیکہ بنتی ہے تو صاف پتہ چلتا ہے، اُسے ماہواری آ رہی ہے… ایک ٹھو پان لیں گے؟
نہیں۔
…کتنی ایکسائٹنگ معلوم ہوتی ہے، جب وہ دونوں پانو ایک دوسرے سے تھوڑا فاصلے پہ رکھتی ہے۔ باپ رے باپ… اور پھر نبھ کرشن کے کان کے پاس اپنا منھ لے جاتے ہوئے کہنے لگے—ایک بات بتاؤں، نبھ دا؟
نبھ کرشن نے شکل ایسی بنا لی ، جس کا مطلب تھا—اب بتاؤ؟
کمل نے دائیں بائیں دیکھا اور پھر کرسی سرکاتے ہوئے اور بھی قریب آ گئے، اور بولے… میں تو جب سواتی سے لَو میکنگ کرتا ہوں، تو میرے بچار میں سندھیا ہی ہوتی ہے… اور پھر وہی قسط وار ہنسی!
نبھ کرشن نے کمل بابو کی طرف دیکھا اور پھر سامنے کھونٹی کی طرف، جہاں ہائیڈروسیل کی دوسری تھیلی سوکھ رہی تھی۔ انھیں گھن سی آئی اور منھ پھیرتے ہوئے وہ تکیے کے سہارے پیچھے کی طرف لیٹ گئے۔ جبھی کمل بابو نے پانی مانگا اور جیب سے ڈبیا نکالی۔ جب کھوکھی پانی لائی تو کمل بابو ایک گولی نکال کر پانی کے ساتھ نگل گئے۔
جب پانچ بجنے میں دس منٹ رہ گئے تو نبھ کرشن نے ایکا ایکی اُٹھ کر اپنا ہاتھ کمل بابو کی طرف بڑھایا اور بولے —دیکھو کمل بابو مجھے جَور ہے؟
کمل نے کسی بہت بڑے وید حکیم کی طرح سے نبض پہ ہاتھ رکھا۔ یہی نہیں۔ بایاں ہاتھ باقاعدہ اپنے کولھے پہ رکھ کر تھوڑا جھکے، کان نبض کے ساتھ لگایا اور کہنے لگے—نہیں تو؟
سواتی اندر سے لپکی آئی اور نبھ دا کا ہاتھ چھوتے ہوئے بولی— نہیں تو، بکھار آپ کے دشمنوں کو ہو … پھر اس نے بلا جھجک اپنا ہاتھ نبھ کرشن کے پنڈے پہ دوڑنے دیا۔ ہاں، اب کیا تھا؟—اس کے اپنے پتی کمل بابو پاس بیٹھے تھے اور یوں پوری رہائی تھی۔ سواتی کا ہاتھ بدن پہ آتے ہی نبھ کرشن پہ سکتہ طاری ہو گیا۔
وہ آیا ہو گا—انھوں نے کہا
کون؟… سواتی اور کمل بابو نے ایک ساتھ پوچھا۔ کھوکھی ان دونوں کے بیچ میں سے اپنے چچا یا تاؤ کو دیکھ رہی تھی۔
باری کا بخار۔
کہاں؟—سواتی بولی
امار باڑی—اشتوش باڑی۔
اور پھر سامنے دیکھتے ہوئے نبھ کرشن کہنے لگے۔ اب وہ گھر کے سامنے کھڑا ہو گا—اب دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو گا۔ مگر دروازوں کا کیا ہے؟ وہ تو سوکھم ہے، دیواروں میں سے بھی اندر جا سکتا ہے۔
سواتی نے ہاتھ کھینچ کر اپنی دھڑکتی ہوئی چھاتی پہ رکھ لیا اور منھ کھول کر نبھ کرشن کی طرف دیکھنے لگی۔
اب اس نے اندر جھانکا ہو گا …میرا بستر خالی پایا ہو گا، کہاں گیا میرا شکار؟ اب میں کیا کروں؟ کسے دھُنوں؟
پھر بستر سے اُٹھ کر دنپتی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے—اسے ہر روز ایک پائینٹ خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے خون کا گروپ آر، ایکس ہے، جو بہت کم ملتا ہے، اور اس کے خون کا بھی ۔ جبھی وہ میری جان نکالتا، مجھے ہی نچوڑتا ہے… لیکن آج…
—آج وہ بھوکا پیاسا ہی رہے گا۔ میں یہاں چلا آیا ہوں نا —— تمھارے ہاں۔ اسے کیا معلوم، کدھر بھاگ گیا میں؟ نہیں نہیں، اس نے تو سِدّھی پراپت کر رکھی ہے۔ آنکھیں بند کرے گا تو جان لے گا… دروازہ بند ہے نا؟
کمل بابو ہنسی کے بیچ رُک گئے۔ سواتی نے کچھ اور بھی دم سادھ لیا —اوماگو! یہ تو پاگل ہو گئے… جبھی نبھ کرشن نے ہاتھ بڑھا کر سواتی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے سینے پہ رکھ لیا۔ سواتی نے کمل بابو کی طرف دیکھا، جنھوں نے اشارے سے کہا—پڑا رہنے دو، ہاتھ کا کیا ہے؟
جُورَ آ رہا ہے— نبھ کرشن ایک دم ہنکارے… وہ آ رہا ہے، اِدھر ہی آ رہا ہے۔
تمھیں کیسے معلوم ہے، دادا؟ کمل بابو نے پوچھا۔
مجھے؟… نبھ نے ابھی سے ہانپتے ہوئے کہا ——— کو بھی ایک طرح کی سِدّھی مل جاتی ہے۔ مجھے وہ دکھائی دے رہا ہے۔ وہ دیکھو …
بالی گنج سے آنے والی بڑی سڑک پہ وہ … وہ افیم چورستے پہ پہنچ گیا۔… اب اس گلی کی طرف مُڑا ہے۔
جبھی دروازے پہ دستک آئی
سب نے اسے کانوں کا دھوکا سمجھا۔ دوبارہ دستک آنے پہ سواتی نے کھوکھی کو دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا۔
مت کھولو— نبھ دا چلاّئے
لیکن جب تک کھوکھی دروازہ کھولنے اور پھر سے بند کرنے کے جتن میں تھی، مگر آنے والا دروازہ دھکیل کر اندر چلا آیا—
—وہ مادہبی تھی۔
مادہبی ایک سفید، بے داغ ساری میں ملبوس تھی۔ معلوم ہوتا تھا ،وہ بیماری کی حد تک صفائی سے محبت کرتی تھی۔ جیسے کہیں سے گندے پانی کا چھینٹا بھی پڑ گیا تو ہ حاملہ ہو جائے گی۔ اس کے چہرے پہ ایک تیج تھا، جو اندر کے غصے کی وجہ سے اور بھی بڑھ گیا تھا۔ وہ خوب صورت تھی اور دیوی لگ رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی سواتی نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن دیوی کی نظروں سے کچھ نہ بچ سکتا تھا۔ اس نے دیکھا ، سواتی کا پتی پاس کھڑا ہے اور کھوکھی بھی ہے۔ اس کی بھی تسلّی ہو گئی۔ مگر ایکا ایکی کوئی پرچھائیں سی اس کے چہرے پر سے گزری۔ کیا یہ ہو سکتا ہے؟…اس شہر میں جو بھی ہو جائے، ٹھیک ہے، پورپ اور پچھم یہیں ملتے ہیں نا۔
مادہبی نے کسی کو نمسکار کی نہ پرنام۔ اس نے تو کھوکھی کے سر پہ بھی پیار سے ہاتھ نہ پھیرا۔ وہ سیدھے نبھ کرشن کے پاس آئی اور بولی —یہاں کیا کر رہے ہو؟
کچھ نہیں— نبھ کرشن نے جواب دیا۔
کہاں نبھ کرشن ہذیان بک رہے تھے اور کہاں اب انھیں چُپ سی لگ گئی۔ جواب دیتے بھی تو یوں جیسے مشین میں دس پیسے ڈالے اور کھٹ سے ٹکٹ باہر۔ ان کے ماتھے کی سب ریکھائیں سیدھی ہو گئیں اور وہ منتر مگدھ مادہبی کی طرف دیکھے جا رہے تھے۔ کہیں ایسا تو نہ تھا کہ وہ دور، اندر سے اس عورت کی قناعت، عفّت اور پاکیزگی سے محبت کرتے تھے؟
کچھ دیر ایسے ہی دیکھتے رہنے کے بعد نبھ بولے— اکیلا تھا، چلا آیا۔ پہلے میں اکیلا رہ لیتا تھا، اب پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ اندر سے کوئی ہول اُٹھنے لگتا ہے اور میں اپنے آپ کے ساتھ کیا کرنے لگتا ہوں… شاید بوڑھا ہو گیا ہوں…
پھر اپنے سامنے برف کے تودے کو دیکھتے ہوئے نبھ کرشن نے پوچھا — تمھیں کیسے پتہ چلا ، میں یہاں ہوں؟
میں سب جانتی ہوں— مادہبی نفرت سے بولی—کیا تم سوتے، بڑبڑاتے نہیں؟ آخر کچھ اور بھی کبیدہ ہو کر کہنے لگی— تم جانتے ہی تھے، آج میری سالگرہ ہے۔ بچّے بھی پہاڑ پر سے لوٹنے والے ہیں۔ اس پہ بھی تم چلے آئے یہاں، دوسرے کے ہاں—؟
یہ دوسرا گھر نہیں ہے، بہودی… کمل بابو نے کہا۔
مادہبی کمل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی—دوسرا نہیں، سو واں، ہزارواں ہے شاید… یہ رہ ہی نہیں سکتے نا۔
جبھی نبھ کرشن کو دیکھ کر مادہبی کے دل میں کوئی شک پیدا ہوا ، اور اس نے پوچھا—تم نے پی ہے؟
نہیں … ہاں…
خوب سگریٹ اُڑائے ہوں گے؟
نبھ کرشن نے سواتی کی طرف دیکھا، جو بولی— نہیں، بہودی!
یہاں آئے ہیں، جب سے تو نہیں۔
چلو اپنے گھر—مادہبی نے تحکمانہ انداز سے کہا۔
گھر؟… نبھ کرشن نے کچھ بھرائی ہوئی آواز میں کہا—— وہ تو مندر ہے!
آخر، سواتی کی طرف دیکھتے ہوئے، کمل بابو کے سہارے نبھ کرشن بستر سے اُٹھے، کہتے ہوئے—پانچ بج گئے، میں نے کہا نہیں تھا؟ میں کپڑے بھجوا دوں گا۔ جو دینے آئے گا، اس کے ہاتھ میرے بھیج دینا۔
سواتی اندر سے نبھ کرشن کو کمبل لوٹانے کے لیے لے آئی۔ اس نے ساری کا پلّو منھ میں ٹھونس رکھا تھا، جب کہ نبھ دا نے کہا —— میں جا رہا ہوں، سواتی!
سواتی انھیں جاتے دیکھتی رہی۔ جبھی کھلے دروازے میں سے لُو کا ایک تیز سا جھونکا آیا، جس نے سب کی روح تک کو جھلس کے رکھ دیا۔ نبھ کرشن مادہبی کے ساتھ نکلے تو پیچھے کھوکھی بھی چلی گئی—پوکھر کے پاس اپنا داؤ روڑھ کھیلنے…
٭٭٭
ماخذ:
http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید