FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اُڑیہ زبان و ادب

               اُڑیہ زبان و ادب

 اڑیہ کا علاقہ اور اس کے بولنے والوں کی تعداد ۱۹۷۱ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست اڑیسہ کا کل رقبہ (۷۹ء۶۰۱۷۱) مربع میل اور آبادی (۲۱۶۹۴۸۱۹) ہے۔ اس کے منجملہ (۱۸۴۵۷۹۵۸) افراد نے جو کہ کل آبادی کا ۱۱ئ۸۴فیصد ہوتے ہیں اپنے نام اڑیہ بولنے والوں کی حیثیت سے درج کروائے ہیں موجودہ ریاست اڑیسہ ۱۹۳۶ء میں صوبہ بہار و اڑیسہ کی تقسیم کے بعد قائم ہوئی پھر ۴۹-۱۹۴۸ء میں سابقہ دیسی ریاستوں کے علاقے بھی اس میں شامل کر دیئے گئے۔ لسانی نقطۂ نظر سے سمبل پور، گنجام اور کوراپٹ کے علاقوں کی اڑیہ میں باہم تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن ان مقامی خصوصیات اور بولیوں نے زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہی کیا ہے۔ دوسری زبانوں سے اڑیہ کا تعلق اڑیہ اپنی بہنوں بنگالی اور آسامی کی طرح انڈو جرمن زبان کی ذیلی گروہ مگدھی میں شمار کی جاتی ہے۔ شمال میں اس کا علاقہ بھوجپور اور جنوب میں تلگو زبان کے علاقہ سے متصل ہے۔ ایل ایس ایس او مالی (L.S.S. O’Mally) نے ’پوری ڈسٹرکٹ گزیٹیر‘ میں اڑیہ زبان اور لپی کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اڑیہ اور بنگالی کی مماثلت کا خاص طور سے ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا ہے کہ بنگالی کے برخلاف اڑیہ زبان جس طرح بولی جاتی ہے اسی طرح لکھی بھی جاتی ہے۔ بہر حال علمائے لسانیات و تاریخ کا خیال ہے کہ اڑیہ، بنگالی اور آسامی کا ماخذ کسی دور دراز زمانہ میں ایک ہی رہا ہوگا۔ یہ خیال اس لیے پیدا ہوا کہ اس صدی کی ابتدا میں ہر پرشاد شاستری کو نیپال اسٹیٹ لائبریری سے بعض بدھی نظمیں دستیاب ہوئیں جو بدھ گیان اودھان (Buddha Gaan O’Dohan) کے نام سے شائع کی گئیں ۔ اس کے دیباچہ میں شاستری جی نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ ان نظموں کا خالق یا تو کوئی بنگالی ہوسکتا ہے یا پھر بنگالی سے ملحقہ کسی ریاست کا باشندہ۔ انہوں نے ایک نظم بھی پیش کی ہے جو تمام تر اڑیہ زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس اہم قلمی دستاویز سے مشرقی ہندوستان کی زبانوں کے ارتقا اور اس علاقہ کے مذہبی عقائد پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ ان نظموں کی لسانی ساخت جدید اڑیہ سے اسی قدر قربت یا دوری رکھتی ہے جتنی کہ بنگالی یا آسامی سے۔ بہر حال ان بدھی نظموں سے اس بات کا قطعی ثبوت ملتا ہے کہ اڑیہ، بنگالی اور آسامی کا مبدا ایک ہی رہا ہے۔ اڑیا زبان کے امکانی ماخذ سے متعلق سب سے پہلا اشارہ ’ڈھاؤلی‘ (Dhauli) اور ’جوگدا‘ (Jaugada) اشوکی فرا مین اور کھنڈ گری کی ’ہتی گمپھا‘ (Hanti Gumpha) میں ’کھراولی‘ (Kharavels) کتبوں کی لکھاوٹ میں ملتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں اڑیسہ کی زبان شاید پالی رہی ہو لیکن اس کا تنہا ثبوت صرف ہتی گمپھا کے حجری کتبات ہی میں ہے جو کہ پالی زبان میں ہیں ۔ شاید اس لیے مشہور جرمن ماہر لسانیات پروفیسر اولڈن برگ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ پالی ہی اڑیسہ کی اصل زبان تھی۔

                ادبی تاریخ کے مختلف دور

 کسی قوم کے ادب کو تاریخی ادوار میں بانٹنے کی تمام کوششیں ایک حد تک مصنوعی ہی ہوتی ہیں ۔ ہنٹر نے ’اڑیسہ‘ (حصہ دوم) میں اڑیہ ادب کا بھی ایک ضمیمہ شامل کیا ہے۔ منموہن چکرورتی نے ۱۸۹۷ء اور ۱۸۹۸ء کے جرنل ایشیاٹک سوسائٹی میں اڑیہ زبان و ادب سے بحث کی ہے اور سارے اڑیہ ادب کے ارتقا کو مختلف ادوار میں تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلہ میں پریہ رنجن سین کی کتاب ’جدید اڑیہ ادب‘ کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہوگا۔ ان کے علاوہ ترینی چرن، اپرنا پانڈہ پنڈت، بنایک مشرا، جگناتھ سنگھ اور پنڈت سوریہ نارائن داس نے بھی اڑیہ ادب کے مختلف تاریخی ادوار پر روشنی ڈالی ہے۔ ترینی چرن نے اڑیہ ادب کو حسب ذیل چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ۱- دور سرولا (Sarola) ۱۰۰۰ء تا ۱۵۰۰ء کا زمانہ ۲- جگناتھ داس یاوشناب (Vishnab) کا دور ۱۵۰۰ء تا۱۷۰۰ء ۳- اوپندریا کا ودیہ کا دور ۱۷۰۰ء تا۱۸۵۰ء اور ۴- رادھنا تھ یا جدید دور ۱۸۵۰ء سے آگے یہ تقسیم جیسا کہ ظاہر ہے ہر دور کے ایک اہم مصنف کی اساس پر کی گئی ہے یعنی سرولا داس، جگناتھ داس اوپندر بھانج اور رادھناتھ رے۔ پنڈت سوریہ نرائن داس نے اڑیہ ادب کے تاریخی ادوار کو تین مختلف طریقوں سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اولاً کسی مخصوص دور کے نمائندہ مصنفین کی بنیاد پر۔ اس اساس پر انہوں نے اڑیہ ادب کو دور سرولا، دور پنج ساکھا (Panch Saka)، دور اوپندر اور دور جدید میں تقسیم کیا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی اور ادبی قدروں کی بنا پر نارائن داس نے پھر اس کے چار دور قرار دیے ہیں ۔ ابتدائی دور کو وہ سرولا دور کا نام دیتے ہیں ۔ اس کے بعد دور وسطیٰ ہے جسے وہ بھگتی عقیدہ یا مذہبی ادب کا دور کہتے ہیں ۔ تیسرا دور عہد وسطیٰ کے بعد کا ہے جس میں اوپندر بھانج کی مرصع نظموں اور کاویوں کا غلبہ رہا ہے اور آخر میں جدید دور ہے۔ تیسری قسم انہوں نے سیاسی تاریخ کی بناپر کی ہے جس کے لحاظ سے اڑیہ ادب پانچ حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ یعنی گنگا کا دور، سورج ہنسی دور، مغل دور، مراہٹہ دور اور آخر میں برطانوی دور۔ قدیم دور کے اہم رجحانات اور لکھنے والے سرولا داس کی ’مہابھارت‘ کس زمانہ میں لکھی گئی تھی۔ یہ امر ابھی نزاعی ہے۔ عام طور پر اسے چودھویں صدی کی تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ممتاز ناول نگار سری گوپی ناتھ موہانتی سرولا کا زمانہ نویں صدی کا قرار دیتے ہیں ۔ واضح رہے کہ نویں صدی سے لے کر تیرہویں یا چودہویں صدی کے درمیان کا کوئی قابل ذکر ادبی کارنامہ ہمیں نہیں ملتا۔ کلچر اور ادب کے مورخ اس نمایاں انحطاط کی وجہ برہمی تہذیب کے غلبہ کو قرار دیتے ہیں ۔ جس نے بدھ مت اور اس کے مقبول عام ادب کا بالکل ہی خاتمہ کر دیا تھا اور جس کا نتیجہ یہ تھا کہ برہمنی خیالات و تصورات عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو گئے تھے۔ اڑیہ زبان اپنے موجودہ روپ میں غالباً چودھویں صدی میں سنوری ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں سرکنڈہ داس کی نظموں ’کیسیا کوئلی‘ (Kesaba Koeli) سرولا داس کی ’مہا بھارت‘ اور دھوت نارائن کی نثری رزمیہ ’ردراسدھاندھی (Rudra Sudhanidhi) سے ملتا ہے۔ ناتھ سنیاسیوں کی لکھی ہوئی سیشووید (Sishuveda) اور سپ تنگ (Saptang) اڑیہ زبان کی قدیم ترین تصانیف میں شمار کی جاتی ہیں۔ یہ دونوں حال تک مخطوطات ہی کی شکل میں تھیں ۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ ایک غیر اڑیائی باشندہ گورکھ ناتھ نے شیو وید لکھی تھی۔ ان دونوں تصانیف کا تعلق ادب سے اتنا نہیں ہے جتنا غیر ادبی مسائل مثلاً تانتر کی عملیات اور دیگر مختلف سماجی رسومات سے ہے۔ ردراسدھاندھی جو کہ نثر میں پہلی اہم رزمیہ ہے۔ تیرہویں یا چودہویں صدی کی تصنیف سمجھی جاتی ہے۔ اس رزمیہ میں راجہ اننگا پدماکر کی کہانی کے ذریعہ جو لا ولد تھا سینا (Saina) عقیدہ کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یوں تو یہ نثر میں ہے لیکن نثر اور نظم کا یہ ایک عجیب سا آمیزہ ہے جس میں نثر نظم کی خصوصیات رکھتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ردراسدھاندھی موجودہ شعری زبان سے بہت کچھ مناسبت رکھتی ہے۔ دوسری اہم نثری تصنیف مادلہ پا نجی (Medala Panji) ہے جو پوری کے جگناتھ مندر کی سرگزشت سمجھی جاتی ہے اس میں واقعات کا بیان لگ بھگ بارہویں صدی سے شروع ہوتا ہے۔ تاہم اس تصنیف کی تاریخی حیثیت اور صداقت نزاعی ہے۔ مختصراً حسب ذیل تصانیف کو قدیم اڑیہ ادب کی (تقریباً سولہویں صدی تک) نمائندہ تصانیف قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۱- ردرااسدھاندھی از ابہ دھتہ نارائن سوامی ۲- مہابھارت از سرولا ۳- رامائن بالا رام داس ۴-گیتا از اچھوتا نند اور ۵- بھاگوت از  جگناتھ داس

 سرولا داس اڑیہ زبان کا پہلا اہم شاعر ہے اور اس کی ’مہابھارت‘ نہ صرف ایک ضخیم طبع زاد ادبی تصنیف ہے بلکہ اپنے اثر کے لحاظ سے اڑیہ ادب کے ارتقا میں سب سے بلند مقام رکھتی ہے۔ یہ نہ تو سنسکرت کی عظیم رزمیہ ’مہابھارت‘ کا ترجمہ ہے اور نہ اس کی تلخیص۔ البتہ اس میں سنسکرت ’مہابھارت‘ کی کہانی کے بنیادی عناصر کے ساتھ ساتھ کئی دیگر موضوعات اور مضامین شامل ہیں ۔ اس کے اسٹائل اور آہنگ میں ایک خاص کشش ہے اور اڑیہ زبان کے جدید شعرا نہ صرف اس کے موضوعات کی رنگارنگی کے قائل ہیں بلکہ اس کے داخلی ترنم کے اتار چڑھاؤ اور مرصع اور شستہ تحریری زبان کے ساتھ مقامی بولیوں کی آویزش سے بھی بے حد متاثر ہیں ۔ اظہار بیان میں کم سے کم الفاظ کا استعمال اور سادگی و پرکاری اس عظیم فن پارہ کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ اس کے اشعار کا وزن اور ترنم اور خاص طور سے ڈنڈی مالا دریا (ایک خاص قسم کی بحر) کا اپنگ جس کا سرولا داس موجد ہے۔ اپنا جواب نہیں رکھتا اور بقول گوپی ناتھ مہانتی قاری کے جذبات کے زیر و بم کا وہ پوری طرح ساتھ دیتا ہے۔ اس کا آہنگ داخلی ہے اور اس کی موسیقی ایک جذبات انگیز دل کی پکار کی طرح بے شمار نغمے چھیڑ دیتی ہے۔ یہاں کویلی (Koilis) اور چوتیسی (Chautisa) کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہوگا۔ ان کا مقابلہ انگریزی ادب کے غنائی نغموں (Lyrics) اور چاربیتی نظموں (Ballads) سے کیا جاسکتا ہے۔ کویلیوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ چوتیسی اور کویلی میں قریبی مشابہت ہے۔ ممکن ہے کہ چوتیسی سنسکرت سے اڑیہ ادب میں داخل ہوئی ہو لیکن اڑیہ میں اس کی مقبولیت اور تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چوتیسی سانیٹ (Sonnet) کی طرح شاعر کو ایک خاص جذباتی چوکھٹے میں طبع آزمائی کا موقع فراہم کرتی ہے۔ وہ سانیٹ ہی کی طرح تغزلا نہ رنگ رکھتی ہے لیکن وہ سانیٹ کے مقابلہ میں تین یا چار گنا زیادہ طویل ہو تی ہے۔ محبوب کی جدائی اور فراق کی داستان اثر اس کا موضوع رہتا ہے۔ بیشتر یہ رادھا اور کرشنا کی محبت اور جدائی کے اطراف میں گھومتی ہے اور اس میں جذبات کا مخفی پہلو مذہبی پہلو سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ بعض چوتیسیاں خالص مناجات یا بھجن کی شکل میں ہیں ۔ من و بودھیہ چوتیسیاں (Manobodha Chautisas ) زندگی کی بے مائیگی اور لایعینت سے بحث کرتی ہے گیان دایہ کویلی (Gyanadaya Koili) میں یوگا کے نظریات بیان کیے گئے ہیں ۔ بو آچوتیسی (Boa Chautisi) میں سماجی اور سیاسی واقعات کی پیش قیاسی کی گئی ہے۔ بحیثیت مجموعی چوتیسی کا موضوع، اسٹائل اور زبان روایتی ہے لیکن عشق و محبت کی جذبات نگاری میں بعض چوتیسیاں اپنا جواب نہیں رکھتیں ۔ سرولا کی ’مہابھارت‘ کے علاوہ جن دو تصانیف نے اڑیہ ادب کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے وہ ہیں بالا رام داس کی ’رامائن‘ اور جگناتھ داس کی ’بھاگوت‘ بالا رام ان پانچ ممتاز شاعروں میں سے ایک ہے جنہیں پنچ ساکھا کہا جاتا ہے۔ بقیہ چار کے نام یہ ہیں جگناتھ، اننتا، جشو، بنتا (Jasbo Bania) اور اچوت۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا ان پانچوں شاعروں کا تعلق ایک ہی زمانہ سے تھا۔ تاہم انہیں اس بنا پر ہم عصر قرار دیا جاتا ہے کہ ان سبھوں نے عوام کی روز مرہ کی زبان میں شاعری کی اور یہ کہ وہ مذہبی درجہ بندی اور بت پرستی کے خلاف تھے سرولا داس کی مہابھارت کی طرح بالا رام داس کی ’رامائن‘ کا طرز بیان بہت ہی واضح اور بھر پور ہے اور زبان بڑی جاندار اور پر اثر ہے۔ ’رامائن‘ کے علاوہ بالا رام داس نے ’ویدانت سراگنتا‘ (Vedant Sara Genta) ’سپتنگ جو گ سراتکا‘ (Saptang Jogasra Tuka) اور مختصر لیکن بہت ہی اہم ’بھا بہ سمدرا (Bhaba Samudra) لکھی۔ جگناتھ داس کی ’بھاگوت‘ اڑیہ ادب کی غالباً سب سے زیادہ مقبول اور مشہور تصنیف ہے۔ اڑیہ ادب اور کلچر میں اس کا وہی مقام ہے جو انگریزی ادب اور کلچر میں انجیل کا ہے۔ یہ نظم دیہات کی اڑیہ زندگی اور تہذیب کے بڑے ہی گہرے نقوش پیش کرتی ہے۔ اس میں الہیات کے اعلیٰ سے اعلیٰ مسائل اور خیالات کو سادہ ترین زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ جذبات کا بھر پور ادراک اور اظہار بیان کی سادگی بھاگوت کی شعری خصوصیات کی جان ہے۔ پنج ساکھاؤں کی دوسری تحریروں میں اچوت نندا کی ’ملکہ اننکار سینہتہ (Malika Anankar Senhita) اور ’گرو بھگتی گیتا‘ زیادہ مشہور ہیں ۔ اس دور کے کئی اور مذہبی گیت ہیں جو ’بھجن جنن‘ (Janan) ’استوتی‘ (Astuti) گوہاری الی (Ali) پرارتھنا اور کیرتن جیسے مختلف ناموں سے موسوم ہیں ۔

دور وسطیٰ کے اہم رجحانات اور لکھنے والے دور وسطیٰ کی اڑیہ ادب کی سب سے اہم خصوصیات اس کی غنائی شاعری ہے جس میں شخصی محبت، ذاتی اور حقیقی سکون و طمانیت کی تلاش نمایاں پہلو رکھتی ہیں ۔ ان سب کا اظہار عام طور سے رادھا اور کرشنا جیسے محبت کے موضوع کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ گوپال کرشنا ابھمانیو (Abhiman yu) اور بانا ملی (Banamali) جیسے شاعروں کا موضوع یہی ہے لیکن سوائے چند مقامات کے ایسی شاعری جذباتی اعتبارسے بے اثر اور بے رنگ ہے۔ اس دور کا ایک اور ممتاز شاعر کوی سوریہ بلدیو ناتھ ہے جس نے ’چمپنو‘( Champno) شاعری کی ہے۔ چمپنو روایتی اڑیہ گیتوں کی ایک اہم صنف ہے اور آج بھی بے حد مقبول ہے۔ اس میں ہر گیت کی پہلی سطر کا پہلا لفظ اڑیہ کے ایک حرف تہجی سے شروع ہوتا ہے۔ موضوع کے اعتبارسے دیکھا جائے تو دور وسطی کا ادب اپنے اندر کوئی اپج اور نیا پن نہیں رکھتا۔ اس وقت کی شاعری بے انتہا آرائشی، تصنع آمیز اور روایتی تھی۔ چنانچہ دینا کرشنا ابھانیو۔ بھکتہ چرن، جادو منی، دیبہ درلاؤ بھوپتی پنڈت اور کوی سوریہ بلدیو پھانا ملی اور گوپال کرشنا کے ویشنوی گیتوں میں بھی یہی خصوصیات مشترکہ ہیں ۔

 دور وسطیٰ کے ادب کا دوسرا اہم میدان پر ان نگاری کا ہے۔ اس دور میں متعدد پر ان نگار گزرے ہیں لیکن ان میں سے تین اہم شخصیتیں مہادیو داس، پیتمبر داس اور کرشنا چند پٹنائک کی ہیں ۔ پرانوں (Puranas) میں ہمیں لوک ادب کی روایات ملتی ہیں ۔ اس میں کہانی کا عنصر مہابھارت یا نارائن یا پھر کسی مقامی تاریخی واقعہ یا قصہ سے لے کر اسے شعر کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ یہ صنف شاعری بے حد مقبول رہی ہے۔ اس میں مختلف محیر العقول واقعات کے ذریعہ ہی سادہ اور غیر مرصع زبان میں دیوتاؤں اور دیویوں کی قدرت اور برتری کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لڑائی،سماجی رسوم و رواج اور عقائد کی بھی دلچسپ تفصیلات اس میں ملتی ہیں ۔ اس دور کی سب سے اہم پران پتمبر داس ۱۷۳۷ء کی ’نروشنچ پران‘ (Narushinch Purana) ہے۔

وسطی دور کے ادب کی تیسری اہم دھارا وہ ہے جسے عام طور سے روایتی رمزیہ شاعری یا ’ریتی کا ویہ‘ (Riti Kavya) کا نام دیا جاتا ہے۔ مرصع اور آرائشی زبان کا قصداً استعمال اور الفاظ کا جذباتی پہلو کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا بلکہ پر پیچ اور لچھے دار انداز میں ان کی تکرار کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا تھا۔ اس صنف شاعری کی ممتاز شخصیت اوپندر بھانج (۱۶۷۰ء تا ۱۷۲۸ئ) کی ہے۔ شاہی جوڑوں ، شہزادوں اور شہزادیوں اور امیر طبقہ کی داستان عشق اس کی شاعری کا موضوع ہے۔ جس میں مشکل ہی سے کوئی جدت یا ندرت پائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اوپندر بھانج کا اکثر کلام اپنے پر پیچ انداز بیان اور دو معنی الفاظ کی تکرار کی وجہ سے بڑی حد تک ناقابل فہم ہے تاہم اس کی بعض نظمیں اپنے ترنم اور موسیقیت کی وجہ سے عوام میں بے حد مقبول رہی ہیں ۔ موجودہ دور کے نقادوں کے نزدیک اس کی شخصیت نزاعی بن گئی ہے۔ فحش نگاری، اوہام پرستی اور الفاظ کی بازی گری کے لیے اسے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن ان سب خامیوں کے باوجود اس کی تحریک کا آہنگ اور اس کے کلام کا زور کچھ ایسا ہے کہ وہ عہد وسطیٰ کا ایک اہم شاعر قرار پاتا ہے۔

اس دور کے چوتھے اہم رجحان کا اظہار بھیما بھوئی (Bhima Bhoi) اور ارکیتھا داس (Arkitha Das) کی تحریروں سے ہوتا ہے۔ بھیما بھوئی جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک نابینا کنڈہ نگار (Kondh Writer) تھا۔ یہاں ہمیں ایک ایسا شاعر ملتا ہے جو ذات کی الجھنوں میں کھویا ہوا زندگی کا مفہوم تلاش کرنے میں سرگرداں اور حیات و موت کے مسائل سے دوچار ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت ہی مفلوک الحال بلکہ سماج سے باہر تھا لیکن اس باغی شاعر کا کلام عرفانی شاعری کے بلند ترین معیار کا حامل ہے۔ وہ اس تحریک کا علم بردار تھا۔ جسے عرف عام میں الکھ دھرم (Alekh Dharam) کہا جاتا ہے۔ اس عقیدہ نے ہندو دیوتاؤں اور مقدس کتابوں کے علاوہ برہمنی مذہب کے بنائے ہوئے سماجی ڈھانچے کو بھی یکسر رد کر دیا تھا۔ بھیما خلا کی ایک ایسی تابناک اور غیر مری ہستی کو جو اپنیشد کے تصور برہما اور بودھی عدم مطلق (Pure Void) سے مشابہت رکھتی ہے وجود اور حقیقت کی علامت سمجھتا تھا۔ اس کی غنائی شاعری میں الٰہیاتی موضوعات پر بعض بہترین شعر ملتے ہیں جن میں ایک ایسا کرب ہے جو بیک وقت ذاتی بھی ہے اور آفاقی بھی۔ وسطی دور کے ادب کا آخری اہم رجحان ہمیں برجناتھ بدجینا (Brajnath Badjina) کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اس کی ’چتور بنود‘ (Chatura Binod) اور ’سمرترنگ‘ نے بہ حیثیت شاعر اور نثر نگار اس کی اہمیت کا سکہ جمایا۔ ان تصانیف میں ایک ایسی تاز گی، جوش اور ولولہ ملتا ہے جو اس زمانہ میں کمیاب تھا۔ دور جدید جدید اڑیہ ادب کا آغاز انیسویں صدی کے آخر میں تین ادیبوں سے ہوتا ہے۔ ان میں ایک فقیر موہن سینا پتی ناولسٹ اور بقیہ دور ادھنا تھ رائے اور مدھو سودن راؤ شاعر ہیں ۔

فقیر موہن پہلا کہنہ مشق اور منجھا ہوا نثر نگار اور ناولسٹ ہے جس نے سماجی موضوعات کا استعمال کیا۔ اس کے پاس ہمیں حالات و واقعات کی صحیح جانکاری کے ساتھ ساتھ ایک ایسی زبان ملتی ہے جو اصلیت سے قریب ہے جس میں مقامی رنگ بھی پایا جاتا ہے اور عدالتوں میں استعمال ہونے والے فقرے بھی جا بجا ملتے ہیں ۔ اس میں ایک طرح کی لطیف ظرافت اور بذلہ سنجی ہے۔ ’’مامو‘‘ اور ’’چھمن انتھ گنتھ‘‘ میں اس کے کردار معمولی مرد اور عورتیں ہیں ۔ اس کی آپ بیتی بھی نثر نگاری کا ایک بے مثل نمونہ ہے۔

جو کام فقیر موہن نے نثر میں انجام دیا وہ ایک اسکول انسپکٹر رادھناتھ نے شاعری میں پورا کیا۔ اس کے پاس مقامی پس منظر اور جغرافیائی حدود ملتے ہیں ۔ اڑیہ کا شاید ہی کوئی پہاڑ، جھیل، جنگل، یا دیوتا ہوگا جس کے وہ گن نہ گاتا ہو۔ الفاظ کا استعمال روایتی ہونے کے باوجود کاویوں کے ذریعہ قصہ گوئی کا اس کا انداز واقعی بہت پر اثر ہے ’’دربار‘‘ میں ہمیں طنز و مزاح کی چاشنی بھی ملتی ہے اس کے برخلاف مدھوسودن راؤ ایک صوفی منش فلسفی تھا۔ جس کے لہجہ سے مذہبی عقیدت مندی جھلکتی ہے۔ اس کی بعض نظمیں بے مثال غنائی حسن اور مذہبی جوش و خروش کی حامل ہیں ۔ یہاں ادیبوں کے اس گروہ کا مختصر تذکرہ بے جا نہ ہوگا جو اپنے آپ کو ’’سبزہ‘‘ لقب سے موسوم کرتا تھا اس گروہ میں آنند شنکر میکنٹھ کا لندی اور سرت مکرجی شامل تھے۔ ان کا لہجہ عارفانہ غیر واضح اور خالص نظری ہوتا تھا۔ ان میں ٹیگور کی کافی جھلک پائی جاتی ہے۔ اس کے بعد گوپہ بند ھو اور نیل کنٹھ کے ستیہ وادی (Satyavadi) اسکول کو شہرت حاصل ہوئی۔ گوپہ بندھو کی ’’دھرم ید‘‘ اور ’’کارا کویتہ‘‘ وغیرہ میں غنائیت کے ساتھ ساتھ وطن پرستی کا جوش و خروش بھی ملتا ہے اور وہ بہت زیادہ مقبول رہی ہیں ۔ نیل کنٹھ کی ’’کاویہ کو نارک‘‘ اپنی نوعیت کی ایک ہی چیز ہے۔ گود اور ش مشرا کے ’’چار بیتی گیت‘‘ مایا دھرمان سنہا کی رومانٹک غنائیہ نظمیں اور کالندی چرن کا ناول ’’متیرا منیش (Matira manish)اور ان کی کہانیاں اور نظمیں تیسرے اور چوتھے دشک کی اہم تحریرات ہیں ۔ یہاں کنٹالہ کاری براکشورد اس اور بنچھاندی داس کی وطن پرستانہ نظموں کا بھی تذکرہ کیا جاسکتاہے۔ اس کے علاوہ اوپندر کشور اور چندر امنی داس کے ناول ’’گوداورش مہاپترا‘‘ اور ’’بہاگوتی پانی گرہی‘‘ وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں ۔

               شاعری

’’سبزہ‘‘ اور ’’ستیہ وادی‘‘ دبستانوں کے تذکرہ کے بعد جن کے نمائندہ ادبی کالندی چرن پانی گرہی۔ نیل کنٹھ داس اور گوپہ بندھو داس، آنجہانی ڈاکٹر مایادھر مان سنگ، رادھا موہن گارنائک، اننت پٹنائک، چنتا منی، پھیرا، بنودہراوت اور کنج بھاری داس کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مان سنگ کا رومانٹک کلام، رادھا موہن کے چار بیتی گیت اور اننت پٹنائک کا عوامی مسائل کو دیکھنے کا انقلابی انداز انہیں اڑیہ شاعری میں ایک ممتاز مقام عطا کرتے ہیں ۔ خاتون ادبیوں میں نرملا دیوی، بدیوت پربھا اور پھر برمہوتری موہانتی اور پرتیوا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ۱۹۴۷ء میں ساچی روترے کی پنڈولپی (Pandulipi) کی اشاعت عمل میں آئی۔ یہ تصنیف اپنے ادعائے مارکسزم کے باوجود مارکسیت اور رومانیت کا ایک عجیب و غریب آمیزہ ہے۔ سواگت ۱۹۵۳ء اور کویت ۱۹۶۲ء میں روترے کی شاعری ایک نیا موڑ اختیار کرتی ہے جس میں موجودہ حقیقت کے مقابل فرد کی ذات پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اس کی جدید ترین نظموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر پورا چکر کاٹ کر پھر ترقی پسند موضوعات کی طرف رجوع ہو گیا ہے۔ ۱۹۵۵ء میں مہانوجی راؤ اور گروپرشاد موہانتی نے کیا۔ یہ مختصر سا مجموعہ جدید شاعری کا غالباً اہم ترین انتخاب تھا۔ جس سے نئی نسل کی بالغ نظری اور فریب زمانہ سے نجات پانے کی کوششوں کا پتہ چلتا ہے۔ ایک اور پرگو اور انقلابی شاعرر بی سنگ ہے جو اپنے رنگ کا ایک منفرد اور مقبول شاعر ہے۔ اس نے سماجی ناانصافی کے خلاف اور پچھڑے ہوئے نا آسودہ طبقہ کی تائید میں انتقامانہ جوش و جذبہ کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔ جدید اڑیہ شاعری کے دیگر اہم شعرا کے متعلق ڈاکٹر دیبی پرسنا پٹنائک کے ایک مضمون کے کچھ اقتباسات دئیے جاتے ہیں ۔ ’’دو شاعر سری سیتا کانت مہاپترا اور سری رماکانت رٹھ جدید لکھنے والوں کے جھرمٹ میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ ان دونوں نے ابھی اپنی عمر کی تیسری دہائی میں قدم رکھا ہے۔ دونوں نے مختصر غنائی شاعری اور طویل نظموں میں ایک ممتاز جگہ حاصل کر لی ہے۔ سری سیتا کانت مہاپترا کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے جدید حالات کے چوکھٹے میں قدیم دیو مالائی قصوں کا احیا کیاہے اور ان میں روح پھونکی ہے‘‘۔ ’’رماکانت نے نہایت ہی کامیابی کے ساتھ مختصر اور طویل دونوں طرح کی شاعری کے تجربہ کیے ہیں ۔ ان کے کلام کی ذہنی سطح کافی بلند ہے۔ ان کی بعض ابتدائی نظموں میں اگرچہ ترتیب و تنظیم کا سقم ہے تاہم ان کا شعری تھیم قابو سے باہر نہیں ہو پاتا‘‘۔ جدید اڑیہ کی تمام اصناف ادب میں غالباً شاعری ہی سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے اور جس نے متعدد لکھنے والے پیدا کیے ہیں ۔ ان میں سے چند شاعروں کے نام یہ ہیں جو میدان شاعری میں مختلف نوع کے تجربے کر رہے ہیں ۔ دیپک مشرا۔ سبھا گیہ کار مشرا، بیبک جنا، ہری ہر مشرا، ہرپر شاد داس، دیوی داس چھوترے اور پھر سنا پٹانی وغیرہ۔

               ڈرامہ

جدید اڑیہ ڈرامہ کا آغاز انیسویں صدی کے آخری دہائی میں غیر پیشہ ور شوقیہ تھیٹر سے ہوا۔ اولین اڑیہ ڈرامہ ’’باباجی‘‘ جسے جگموہن لال نے لکھا تھا چار ایکٹ پر مشتمل تھا۔ رام شنکر رے کا ’’کانچی کابیری‘‘ ۱۸۸۰ء ایک اہم تاریخی اور سماجی ڈرامہ تھا۔ رام شنکر نے تاریخی،دیومالائی اور سماجی غرض ہر طرح کے ڈرامے لکھے اشونی کمار گھوش نے اڑیہ میں پیشہ ور اسٹیج کی بنیاد رکھی اور خود بھی کئی نثری ڈرامے لکھے۔ لیکن اڑیہ ڈرامہ کو آزادی سے قبل جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اس کا سہرا کالی چرن کے سر ہے۔ کالی چرن کے علاوہ گوپال چھوترے، رام چندر مشرا، بھنج کشور پٹنائک، پرنابندھو کار اور جادو ناتھ داس مہاپترا بھی سماجی موضوعات کی پیش کش میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ ان کے بعد قابل ذکر ڈرامہ نگار یہ ہیں ۔ منورنجن داس، بسواجیت داس، بجٹے مشرا اور کارتک رٹھ ان سب میں منورنجن سب سے زیادہ اہم ہیں ان کے ڈرامہ ’’ارنیارافصلا‘‘کوساہتیہ اکیڈمی کا اوارڈ بھی مل چکا ہے۔ بسو اجیب کا ’’مرو گایہ‘‘ بجئے مشرا کا ’’سبابا ہک مانے‘‘ (تابوت بردار) اور کارتک رٹھ کا’’سورگ دوار‘‘ غالباً سب سے زیادہ معنی خیر ڈرامے ہیں ۔

               ناول اور افسانہ

 گوپی ناتھ موہانتی اور ان کے بھائی کانہوں چرن اڑیہ کے دو ممتاز ناول نگار ہیں ۔ گوپی ناتھ نے قبائلی فرقوں کے ساتھ رہ بس کر ان ہی کی زندگی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ان کی ’’امر ترسنتان‘‘ پرجا‘‘ اور ’’ہریجن‘‘ میں ان ہی پچھڑے ہوئے لوگوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیاگیاہے۔ اس کے پاس محض سماجی حقیقت نگاری نہیں ہے بلکہ جو چیز ان کے فکشن کوممتاز کرتی ہے وہ ان کا انسان کے ناگفتہ بہ بنیادی مسائل سے گہرا تعلق خاطر ہے وہ ایک اقراری (Committed) ادیب ہیں ۔ ان کی وفاداری محض سماجی نہیں بلکہ وجودی (Existential)نوعیت کی ہے۔ ان کی زبان بے حد عام پسند اثر انگیز اور شاعرانہ ہے۔ شری موہانتی ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی اسی قدر مشہور ہیں ۔ ان کی ’’امر ترسنتان‘‘ پہلی اڑیہ تصنیف ہے جسے ۱۹۵۵ء میں ساہتیہ اکیڈمی کا اوارڈ ملا ہے۔ ان کے بڑے بھائی کانہوں چرن غالباً اڑیہ کے سب سے زیادہ لکھنے والے اور سب سے زیادہ مقبول ناول نگار ہیں ۔ وہ بہت ہی سیدھے سادے موضوعات اور واقعات کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا اسلوب بہت ہی پر کشش اور دلچسپ ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں میں گاؤں کا ماحول اور وہاں کے عوام اپنی پوری مسرتوں اور دکھوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں ۔ ان کے ناول ’’کا‘‘ (Kaa)کو ساہتیہ اکیڈمی کا ایوارڈ مل چکا ہے۔ بعض دیگر ممتاز ناول نگار یہ ہیں ۔ سریندر موہانتی، نتیانند امہاپترا، راج کشور پٹنائک، بسنت کماری پٹنائک، گوبند داس، بھبھوتی پٹنائک، سنتانو اچاریہ، مہاپترا نیلامنی، چندر شیکھر رٹھ، فتورانندا، بھاگیرتی نییک وغیرہ۔ سریندر موہانتی نے اپنے ناول ’’اندھا دیگانتہ‘‘ میں موجودہ دور کی سیاسی حقیقت اور اس کے چڑ چڑے پن اور اس کی نفرت پرستی وکلیت کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ان کے دوسرے ناول ’’نیل سیلا‘‘ میں جسے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ مل چکاہے۔ انہوں نے بھگوان جگناتھ کے سارے مذہبی رسوم تاریخی چوکھٹے میں پیش کئے ہیں ۔ راج کشور پٹنائک ایک اور ناول نگارہیں جن کا اپنا ایک خاص ڈھنگ ہے۔ بسنت کماری پٹنائک کے ناول ’’امداباتہ‘‘ اور ’’چورابالی‘‘ بھی خصوصی اہمیت رکھتے ہیں ۔ ان میں ناول کے کرداروں کی نگاہ سے موجودہ حقائق کا بہت ہی خاموش لیکن بھر پور جائزہ لیا گیا ہے۔ کالندھی چرن پانی گرہی کا ’’متریامانس‘‘ ایک جاندار اور مقبول ناول ہے انگریزی کے ترجمہ کے علاوہ وہ اب کئی ہندوستانی زبانوں میں بھی دستیاب ہوتا ہے۔ ’’متریامانس‘‘ کی ساری خوبی اس کی بھرپور سماجی عکاسی اور اس کی قوت بیان میں ہے آزادی کے بعد کے افسانہ نگاروں میں سنتانو اچاریہ اس لحاظ سے ممتاز ہیں کہ انہوں نے ایسے موضوعات کو اپنایا ہے جس سے اب تک تغافل برتا جاتا تھا۔ ان کے پہلے ہی ناول ’’نارا کنارہ‘‘ نے اڑیہ فکشن میں ایک نئی روایت کی بنا ڈالی لیکن ان کے دوسرے ناولوں ’’ست بریرا نچی کیتا‘‘ اور ’’تنوتی راتیسرا سکالہ‘‘ میں موضوع کی شدت کا وہ معیار قائم نہیں رہاجو پہلے ناول میں تھا ’’ناراکنارہ‘‘ ایک جدید ناول ہے جس میں محض سماجی حقائق کی بجائے فرد کی ذات سے بحث کی گئی ہے۔ اس سلسلہ کے دو اور خوبصورت اور اثر انگیز ناول گوبند داس کا ’’امد بسیارہ چندرا‘‘ اور چندر شیکھر ناتھ کا ’’جنتر رودھ‘‘ ہیں جہاں ’’امدبسیارہ چندرا‘‘ کاہیر و عملاً ایک اینٹی ہیرو ہے جو نہ تو کسی قسم کے ذہنی التباسات میں مبتلا ہے اور نہ ہی خیالی پلاؤ پکاتا ہے وہیں ’’جنتر رودھ برہماں ‘‘ کا اہم کردار دیہات کا ایک اینٹی ہیرو ہے۔ بھبھوتی پٹنائک افسانوی ادب کا ایک بسیار نویس قلم کار ہے اور اسی قدر مقبول بھی ہے۔ جدید اڑیہ افسانہ کا تنوع اور پھیلاؤ کا اندازہ گودادرش مشرا،بھاگ بتی پانی گرہی، راج کشورے، کالندی چرن پانی گرہی، کانہو چرن موہانتی اور دیگر کئی ادیبوں کی نگارشات سے کیا جا سکتاہے۔ آزادی کے بعد گوپی ناتھ موہانتی، سریندر موہانتی، باماچرن مترا، اکھیل موہن پٹنائک، نندنی ستپتی،منوج داس، کشوری داس مہاپترا، نیلامنی، سنتا نو آچاریہ، کرشنا پرشاد موہانتی، پنیاپنت موہانتی، ربی پٹنائک کے علاوہ اور کئی لکھنے والوں نے اڑیہ ادب کے ذخیرہ میں اصافہ کیا ہے۔ ان کی بعض تحریریں بڑی ہی خیال انگیز ہیں جن میں اصلیت کی تلاش اور زندگی کے حقیقی مفہوم کی جستجو کا ایک بے پایاں جذبہ پایا جاتاہے۔ ان افسانہ نگاروں میں سریندر موہانتی اور گوپی ناتھ موہانتی اپنے قوت بیان کی وجہ سے سب سے زیادہ ممتاز ہیں ۔ سریندر موہانتی کی کہانیاں اپنے اندر تازگی رکھتی ہیں اور ان کے تیکھے اور تیز الفاظ ذہن پر ایک گہرا نقش چھوڑتے ہیں ۔ گوپی ناتھ کی تحریریں زیادہ موثر ہیں ۔ وہ عام زبان اور روز مرہ کا زیادہ بے تکلفی سے استعمال کرتے ہیں ۔ منوج، سنتانو، کرشناپرشاد اور اکھیل موہن نے بھی اڑیہ فسانہ نگاری میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔

               ادبی تنقید

 آزادی سے قبل ادبی تنقید کا سرمایہ بہت ہی کم تھا۔ جو کچھ بھی تھا اس کی نوعیت ’’بے کیف لیکن فاضلانہ‘‘ تھی۔ عہد وسطیٰ کے بعض غیر اہم اڑیہ شاعروں پر پروفیسر ارنہ بانو موہانتی کے دیباچے اور پنڈت نیل کنٹھ داس اور پتامبر آچاریہ وغیرہ کی بعض متفرق تحریریں اس قبیل کی ہیں ۔ سریندر موہن پہلے نقاد ہیں جن کی ’’فقیر موہن سمکشا‘‘ نے تنقید نگاری کی طرح ڈالی۔ اور اس میدان میں کئی تصانیف کے لئے جن میں نٹاباسامنت راج،اوپندر مشرا اور منشی دھرم مہانتی کی تصانیف بھی شامل ہیں راستہ صاف کیا۔ یہاں پنڈت گوپی ناتھ نندا کی ’’بھارت درپن‘‘ کا تدکرہ بھی ضروری ہے جس میں ’’مہا بھارت‘‘ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دیگر اسکالروں میں متھانی پٹنائک، جانکی موہانتی، گوری بہیرا، کنج بھاری داس اور اشیت کوی قابل ذکر ہیں ۔ ڈاکٹر مایادھرمان سنگ کی ’’تاریخ اڑیہ ادب‘‘ نے اپنے نزاعی ریمارکس اور غیر فیاضانہ تبصروں کی وجہ سے اڑیہ کے ادبی حلقوں میں ایک ہل چل مچادی۔ جتندر موہن موہانتی نے جدید اڑیہ شاعری کو مغربی اصول تنقید نگاری پر جانچنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری زبانوں کے ادب کے اثرات:ایک تقابلی جائزہ ادب میں دوسری زبانوں کے اثرات کی بحث کسی قدر بے معنی ہوتی ہے۔ علم کی بڑھتی ہوئی آفاقیت کے دور میں جب کہ تہذیب،زبان اور ادب کے حدود ٹوٹتے جا رہے ہیں ۔ اس قسم کا سوال ایک حد تک بے سود معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اڑیہ ادب کے نشو نما میں ہم بعض گہرے اثرات کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں ۔ جہاں تک دور وسطی کے غنائیہ کلام کا تعلق ہے ہم اس وقت کے شاعروں میں جسے دیو کی ’’گیتا گووند‘‘ اور ’’سنسکرت کاریہ‘‘ کے اثرات نمایاں طور پر پاتے ہیں ۔ آنے والے دور پر اوپندر بھانج کے اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انیسویں صدی کے آخری دور میں راد فساتھے رے کی نظموں مثلاً ’’پاروتی‘‘ اور ’’اوشا‘‘ وغیرہ میں ہم مغربی کہانیوں ، قصوں اور چاربیتی گیتوں کے اثرات دیکھتے ہیں ۔ اس ادبی گروہ پر جو اپنے آپ کو ’’سبزہ‘‘ کے نام سے موسوم کرتا تھا ٹیگور کے کافی اثرات پڑے ہیں ۔ بحیثیت مجموعی دوسری ہندوستانی زبانوں کے ادب کی طرح اڑیہ ادب پر بھی مغربی ادبی روایات خاص طور سے رومانٹک اور مارکسی اثرات اور آخر میں وجود یت کی تحریک کے اثرات کافی نمایاں رہے ہیں ۔ ساچی روترے اور اننت پٹنائک کی ابتدائی تحریروں پر مایا کو وسکی کا اثر بھی موجود ہے۔ موجودہ دور کی آگہی اور اس کی اصلیت کو ایک مخصوص پیرایہ بیان عطا کرنے میں ہم ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اور ازراپاونڈ کے اثرات کو نظر انداز نہیں کر سکتے ’’شعور کی رو‘‘،’’منفی صلاحیت‘‘، ’’تفریق حسیت‘‘ اور ’’شخصیت سے فرار‘‘ جیسی ادبی اصطلاحات کا استعمال نہ صرف ادبی تنقید میں کیا جاتا ہے بلکہ اڑیہ زبان کی دوسری اصناف ادب میں بھی ہم ان کے اثرات محسوس کرتے ہیں ۔ تاہم ایسے اثرات خواہ وہ مغربی ہوں یا مشرقی استادانِ سخن کے نزدیک ایک خارجی محرک ہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس سے وہ اپنی ادبی روایات، تہذیبی علاقوں اور تجربوں کو ایک نئی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، بحد ضرورت مدد لیتے ہیں ۔ بعض ایسے ادیب بھی ہیں جو شعوری طور پر ماضی کی طرف دیکھتے ہیں ۔ اور قدیم روایات کے معنی موجودہ دور کی قدروں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

                تراجم

جہاں تک دوسری زبانوں سے اڑیہ تراجم کا تعلق ہے اس سلسلہ میں قابل لحاظ کام ہو چکا ہے۔ نہ صرف انگریزی زبان سے ترجمے ہوئے ہیں بلکہ روسی،فرانسیسی، جرمن، اطالوی، جاپانی اور دیگر بیرونی زبانوں سے بھی ترجمے کیے گئے ہیں ۔ تاہم یہ تراجم زیادہ تر اصل زبان کے انگریزی نسخوں ہی پر مبنی ہیں ۔ ان کا نقص یہ ہے کہ وہ اکثر جگہ انگریزی کے لفظی ترجمے ہو کر رہ گئے ہیں اور اس طرح اصل سے بہت ہٹ گئے ہیں ۔ البرٹ کامو،رومے رولاں ،سینٹ جان، پرمی، ہرمن ہیس، کافکا، گرازیہ دلیدا، ٹالسٹائی، گورکی مایا کو وسکی اور واستوو،نغمگی کے ترجمے اڑیہ میں موجود ہیں ۔ ان کے علاوہ متعدد اینگلو۔ امریکن مصنفوں کے بھی ترجمے ہوئے ہیں ۔ نندر ورما نے ایلیٹ، پونڈ اور وہسٹمین کے ترجمے کیے ہیں لیکن آخر ترجموں میں اصلی متن یا کہانی کا صرف خاکہ ہی ہوتا ہے اور اصل تصنیف کے اسٹائل یا مخصوص خوبیوں کا مشکل سے ہی اندازہ کیا جا سکتاہے۔ تاہم گوپی ناتھ مہانتی کا گور کی کی ’’میری تعلیم گاہیں ‘‘ کا ترجمہ۔ اننت پٹنائک کا گور کی کی’’ماں ‘‘ کا ترجمہ اور جیبا نانند پانی کالور کی بعض نظموں کا ترجمہ اس سے مستثنی ہے۔ اڑیہ سے ہندوستان کی دوسری زبان میں اور ان زبانوں سے اڑیہ میں کافی ترجمے ہوئے ہیں ۔ یہ کام مرکزی ساہتیہ اکیڈمی کی سرپرستی اور نیشنل بک ٹرسٹ کی ’’ادان پر دان‘‘ اسکیم کے تحت انجام پایا ہے۔ ایسے ترجموں کی فہرست کتابیات بھی دستیاب ہوتی ہے۔ اڑیہ سے انگریزی میں ترجموں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ فقیر موہن سینا پتی کی ’’گھامن اتھ گنتھ‘‘ کے دو انگریزی ترجمے ہوئے ہیں۔ سی۔ وی۔ این داس کے ترجمے میں اصل کی اسپرٹ شاید ہی باقی رہی ہے۔ دوسرا ترجمہ در اصل تلخیص ہے اور اس میں بھی اصل کتاب کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے۔ کوئی پندرہ سال پہلے ہرندر ناتھ چٹرجی نے ساچی روترے کی نظموں کا ترجمہ ’’کھلنتی ران‘‘ اور دیگر نظمیں کے عنوان سے کیاتھا لیکن یہ ترجمہ بھی اچھا نہیں ہے۔ حال ہی میں سیتا کانت مہاپترا کی نظموں کے تین مجموعوں کا انگریزی میں ترجمہ شائع ہوا ہے۔ ان کے نام ہیں ’’پرسکون تشدد‘‘ بوڑھا گرمیوں میں ‘‘ اور ’’سکوت دیگر‘‘۔ سوبھاگیہ مشرا کی نظموں کا بھی ایک مجموعہ ’’جوابی کارروائی‘‘ کے عنوان سے انگریزی میں شائع ہوا ہے۔

                بچوں کا ادب رسالہ جات اور حوالے کی کتابیں

 ادب کے ارتقا میں رسائل کی اہمیت سے شاید ہی کوئی انکار کر سکتا ہے۔ پہلا مطبع اڑیسہ میں ۱۹۳۷ء میں قائم ہوا اور پہلا اڑیہ میگزین ’’گیان ارون ‘‘ یعنی طلوع علم ۱۸۴۹ء میں شائع ہوا۔ ریورنڈ لیسس اس کے مدیر تھے ’’گیان ارون‘‘ سے پہلے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک رسالہ ’’کوکی بارہ پترا‘‘ نکلتا تھا۔ لیکن انیسویں صدی کے رسالے اڑیہ ادب کے حق میں حیات کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان میں سے چندمشہور یہ ہیں ’’اتکل دیپک‘‘ ۱۸۶۶ء، ’’بالاسور سمید بجیکہ ۱۸۶۸ئ، اتکل ہیتسی (۱۸۸۹ئ)’’اتکل درپن‘‘ اور بجلی ۱۸۹۳ء اور اتکل مدھویہ‘‘۱۸۷۸ء ’’ اتکل پربھا‘‘ ۱۸۹۱ء میں شائع ہوا۔ جس نے ایک فضا تیار کی اور اڑیسہ میں پہلی مرتبہ ممتاز ادیبوں کو معاوضہ بھی دینا شروع کیا۔ اتکل ساہتیہ ۱۸۹۷ء نے بھی ادب کی رہبری میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ اس صدی کے دوسرے دشک میں ’’مکرا‘‘، ’’سپتہ بدی‘’، ’’ساہکا‘‘ اور ’’جک جینا‘‘ نے پڑھنے والوں کا ایک نیا طبقہ اور ادبی قدروں کا ایک نیا معیار قائم کیا۔ آزادی کے بعد کے بیس تیس سال میں وقتاً فوقتاً کئی چھوٹے چھوٹے رسالے نکلتے اور بند ہوتے رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض جو اب بھی نکل رہے ہیں یا جو اپنے اثر و نفوذ کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتے ہیں ، حسب ذیل ہیں : ’’جھنکار‘‘، ’’دغارو‘‘، ’’دیگانتہ‘‘، ’’پراجیہ‘‘، جبن رنگا‘‘، ’’بنولی‘‘، اسنتہ کالی‘‘ اور ’’گانس‘‘ وغیرہ نیان کھنٹہ جسے ابتداً شاعر گو داورش مہاپترا ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ سماجی طنز نگار ی کا بہت اچھا نمونہ ہے۔ ’’اڑیہ ساہتیہ اکیڈمی‘‘ بھی ایک ادبی رسالہ ’’کونارک‘‘ کے نام سے نکالتی ہے لیکن اس کی اشاعت باقاعدہ نہیں ہے۔ چنندر موہن موہانتی اور سیتا کانت مہاپترا کی ادارت میں ’’بھونیشور ریویو‘‘ کے نام سے انگریزی میں ایک بہت ہی اہم جرنل نکلتا ہے۔ اس میں تراجم اور مباحث کے ذریعہ اڑیہ زبان و کلچر کے بہت ہی اچھے نقول پیش کیے جاتے ہیں ۔ سنتا نو اچاریہ، جن کی موہانتی، جگناتھ موہانتی، آننت پٹنائک اور کئی دوسرے ادیبوں کا بچوں کے ادب کی ترقی میں نمایاں حصہ رہا ہے۔ ’’من پاپن‘‘، ’’مودیش‘‘ جھا ماسق ’’برامچہ‘‘ وغیرہ جسے رسائل کہانیوں اور مختلف مضامین کے ذریعہ علم کی روشنی بچوں تک پہنچاتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں اڑیہ روزنامہ ’’پرجاتنتر‘‘ میں بچوں کا حصہ جو ’’مینابازار‘‘ کہلاتا ہے قابل داد ہے۔ نیشنل بک ٹرسٹ نے بھی بچوں سے متعلق اپنی کتابوں کے اڑیہ ترجمہ نکالے ہیں ۔ حوالے کی کتابوں کی تدوین کے لیے عالمانہ صلاحیتیں درکار ہیں ۔ ایسی کتابیں کسی زبان اور اس کے ادب کی ترقی میں اہم مقام رکھتی ہیں ۔ یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں تخلیقی فن کار مشکل ہی سے دلچسپی لیتے ہیں ۔ بھانو منوج کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ تقریباً تن تنہا ’’گیان منڈل‘‘ کے نام سے اڑیہ انسائیکلوپیڈیا کی جلدیں یکے بعد دیگرے نکالتے جا رہے ہیں ۔ اتکل یونیورسٹی کے پاس بھی اڑیہ انسائیکلوپیڈیا کی تدوین کی ایک تجویز ہے جس کی ذمہ داری آنجہانی ڈاکٹر مایا دھرمان سنگ کو سونپی گئی تھی۔ یہ کام ابھی نامکمل ہی ہے۔ کئی ناولوں کو ڈراموں اور قلمی اسکرپٹ میں منتقل کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں کانہوں چرن کے ’’کا‘‘ نسوت گوری پٹنائک کے ’’امداد بانا‘‘ کالندی چرن پانی گرہی کے ’’مستر بامنش‘‘ اور منسرابلاپانیز، اوپندرر کشورداس کے ’’ملا جنہا‘‘ وغیرہ کا خاص طور سے ذکر کیا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://urdupedia.in/index.php?title=%D8%A7%D9%8F%DA%91%DB%8C%DB%81_%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86_%D9%88_%D8%A7%D8%AF%D8%A8

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید