FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

اس کی گلی

غزلیں

 

               شاہدؔ کبیر

مرتب  :  ثمیر کبیر

 

زندگی تو خفا ہم سے ہے ہی موت بھی نہ کہیں رُوٹھ جائے

روٹھنے والے سے کوئی کہہ دے یوں نہ روٹھے کہ دل ٹوٹ جائے

آہ کیونکر نہ پہنچے فُغاں تک گھر جلے اور نہ نکلے، دھُواں تک

اُس کو دو گے تسلی کہاں تک جس کی تقدیر ہی پھوٹ جائے

گُدگُدی سے صبا کی مچل کر ناز کرتی ہے اپنے بدن پر

اُن کی انگڑائیاں دیکھ لے گر شاخ گُل کی کمر ٹُوٹ جائے

غمزدوں کا ٹھکانہ نہ چھُوٹے، زندگی کا بہانہ نہ چھُوٹے

یارکاآستانہ نہ چھُوٹے چاہے سارا جہاں چھوٹ جائے

قیمتی ہے ہر اک بول لیکن کُفر ہے پیار میں مول لیکن

دل کی دولت ہے انمول لیکن مُسکرا کے کوئی لُوٹ جائے

میکشوں کی نہ چھُوٹے کبھی ضد، لاکھ کوشش کریں شیخ و زاہد

اُن کی آنکھوں میں دیکھو تو شاہدؔ جام بھی ہاتھ سے چھوٹ جائے

٭٭٭

 

جس طرح تُو نے اٹھایا ہے بھلائیں کیسے

اب تِری بزم میں ہم لَوٹ کے آئیں کیسے

اَشک بیتاب ہیں آنکھوں میں گرائیں کیسے

دن کے آنچل پہ ستاروں کوسجائیں کیسے

رات باقی ہے اُمیدو نہ ابھی دَم توڑو

صبح سے پہلے چراغوں کو بجھائیں کیسے

وہ بچھڑ کے بھی سَدا پاس رہا کرتا ہے

جس کو کھویا نہیں ہم نے اُسے پائیں کیسے

روشنی اُس کی بتا دے گی پتہ قاتل کا

زخم کا چاند زمانے سے چھُپائیں کیسے

ضُعف سے ہاتھ بھی اَب اُٹھ نہیں پاتے شاہدؔ

زندگی کے لئے مانگوں میں دُعائیں کیسے!

٭٭٭

 

ہاتھ میں لے کے مرا ہاتھ یہ وعدہ کر لو

اب نہ چھوڑو گے کبھی ساتھ یہ وعدہ کر لو

ہم نہ بدلیں گے بَدلتے ہوئے موسم کی طرح

بیتنے والی ہے برسات یہ وعدہ کر لو

اس سے پہلے کہ جدائی کی گھڑی آ جائے

کل بھی پھر ہو گی ملاقات یہ وعدہ کر لو

لوگ حالات بدلتے ہی بدل جاتے ہیں

تم بدل دو گے روایات یہ وعدہ کر لو

میرے غم میں نہ مرے بعد پریشاں ہونا

تم ہنسوگے یونہی دن رات یہ وعدہ کر لو

تم تو وعدے بھی بھُلا دیتے ہو اکثر شاہدؔ

اب نہ بھولو گے کوئی بات یہ وعدہ کر لو

٭٭٭

 

ہوتی نہیں وَفا تو جفا ہی کیا کرو

تم بھی تو کوئی رسمِ  محبت ادا کرو

ہم تم پہ مر مٹے تو یہ کس کا قصور ہے

آئینہ لے کے ہاتھ میں خود فیصلہ کرو

اب اُن پہ کوئی بات کا ہوتا نہیں اثر

مِنت کرو، سوال کرو، اِلتجا کرو

شَرمندہ ہوں کہ موت بھی آتی نہیں مجھے

میرے لئے اب اور کوئی بَد دُعا کرو

بیٹھو نہ محفلوں میں زمانہ خراب ہے

دیکھو ہماری بات کبھی سُن لیا کرو

شاہدؔ کبھی تو دیکھے گات م  کو وہ جھانک کر

اُس کی گلی میں روز تماشا کیا کرو

٭٭٭

 

ہم آج کتنی چاہ سے، وفا کی سخت راہ سے قدم قدم پہ راستے بدل بدل کے آئے ہیں

چلے ہیں تو چلے چلو، اب اس کے بعد جو بھی ہو یہاں تلک توہم بہت سنبھل سنبھل کے آئے ہیں

تمہاری زندگانی کے اندھیرے راستوں میں یہ  جلیں گے جگمگائیں گے، تمہارے کام آئیں گے

یہ زندگی کی ہیں کرن، سجالو ان سے پیرہن جو اشک میری آنکھ میں مچل مچل کے آئے ہیں

وفا کے ہیں یہ سلسلے، یونہی توسب نہیں ملے زمیں کی سخت گود کو یہ شبنموں کے قافلے

اماں ملی نہ دھوپ میں، تو موتیوں کے رُوپ میں گُلوں کی پنکھڑی سے یہ پھِسل پھسل کے آئے ہیں

حسین پیکروں میں کچھ نزاکتیں تو ہیں مگر وفا کا حوصلہ بھی ہے اُمنگ بھی ہے پیار کی

دلوں میں لے کے اک چُبھن سجا کے اپنے تن بدن گھروں سے سب یونہی نہیں نکل نکل کے آئے ہیں

ہے سچ تو یہ کہ سب کے سب، کھِلے نہیں ہیں بے سبب گلوں کی سوچ کر طلب تم آ گئے چمن میں جب

قبولیت کی چاہ میں، تمہاری بارگاہ میں یہ پھول شاخ شاخ سے اُچھل اُچھل کے آئے ہیں

نہ جیت ہے نہ مات ہے، یہ سب پَلوں کی بات ہے ابھی یہ سَراُٹھائیں گے، ابھی یہ ڈوب جائیں گے

یہ سب کے سب ہیں خواب سے، نکل کے سطح آب سے جو پانیوں کے بُلبُلے اُبل اُبل کے آئے ہیں

مہ و نجوم سے بھی یہ عظیم تر کبیرؔ ہیں بتائیں کیا کسی سے ہم کہ کتنے بے نظیر ہیں

جلے وفا کی دھوپ میں، توآنسوؤں کے رُوپ میں  نظر کی راہ سے جو دل پگھل پگھل کے آئے ہیں

٭٭٭

 

اے زندگی! اک بار تو، نزدیک آ تنہا ہوں میں

یا دُور سے پھر دے مجھے، کوئی صدا تنہا  ہوں میں

مجھ سے بچھڑ کر کھو گیا، دنیا کی تواس بھیڑ میں!

تجھ سے بچھڑ کر آج تک، اے بے وفا تنہا ہوں میں

اے جانِ تنہائی بتا، میں کیا کروں، جاؤں کہاں

دیتا نہیں کوئی مجھے، تیرا پتہ تنہا ہوں میں

تک تک کے تیری راہ سب، چاند اورستارے سوگئے

اُمید کی دہلیز پہ جلتا دیا، تنہا ہوں میں

ایسانہیں کہ پیار کے، سب راستے ویران ہیں

اس راہ میں جو بھی ملا، کہنے لگا تنہا ہوں میں

اب کیا کہوں اُمید کا ایک ایک پَل کیسے کٹا!

دن ڈھل گیا، شب کٹ گئی، دل بجھ گیا، تنہا ہوں میں

دنیا کی محفل میں کہیں، میں ہوں بھی شاہدؔ یا نہیں

اک عمرسے اس سوچ میں ڈوبا ہوا تنہا ہوں میں

٭٭٭

 

تو مرے دل سے جداکیسے ہوا اور کیوں ہوا

وقت کا یہ فیصلہ کیسے ہوا اور کیوں ہوا

 توڑ کر وہ دل مرا اب پوچھتے ہیں نازسے

بندہ پَروَر کیا ہوا کیسے ہوا اور کیوں ہوا

جب تِری کوئی اداسے بھی ہمیں شکوہ نہیں

پھِر تجھے ہم سے گلہ کیسے ہوا اور کیوں ہوا

 تم نے ہی دی تھی مرے دیوانہ ہونے کی خبر

مجھ کو یارو کیا پتہ کیسے ہوا اور کیوں ہوا

دے گئے سجدے میں جوسر اُن کواِس کی کیا خبر

بندگی کا حق ادا کیسے ہوا اور کیوں ہوا

اور بھی تو لوگ شاہدؔ  کر رہے ہیں شاعری

تُو مگر سب سے جُداکیسے ہوا اور کیوں ہوا

٭٭٭

 

چاند چھُپنے لگا، شمع بجھنے لگی، جانِ جاناں جُدائی کی حد ہو گئی

دیر سے ہی سہی اب تو آ جائیے، دیکھئے بے وفائی کی حد ہو گئی

دل پریشاں ہے خیریت کیلئے، ہم ترستے ہیں اب ایک خط کیلئے

کچھ دنوں سے سلام و دعا بھی نہیں جائیے کج ادائی کی حد ہو گئی

ہر جھلک دلنشیں، ہر ادا جادوگر آئینہ بن گئی ہے تمہیں دیکھ کر

رُخ سے ہٹتی ہیں میری پاگل نظر دِلرُبا دِلرُبائی کی حد ہو گئی

آپ بیٹھے ہیں کیا سوچ کے تَشنہ لب، آسماں کی ملے گی خدا جانے کب

اس زمیں کی بھی تھوڑی پی لیجئے شیخ جی پارسائی کی حد ہو گئی

بزم جاناں کے سب راستے بند ہیں، میکدے بھی مِرے واسطے بند ہیں

دُورسے روک دیتی ہے دُنیا مجھے، شہر میں جگ ہنسائی کی حد ہو گئی

قَید میں رہ کے اُڑنے کی طاقت کہاں، دیکھ لیتے ہیں اُجڑا ہوا آشیاں

عُمر گزری یہ زنجیر ٹوٹی نہیں، اب تو خوابِ رہائی کی حد ہو گئی

٭٭٭

 

دعاؤں میں ہو گا اثر دھیرے دھیرے

ملے گی نظر سے نظر دھیرے دھیرے

ملا کر نظر کیسے دامن بچانا

تمھیں آ گیا ہے ہنر دھیرے دھیرے

کوئی زخم دو، دل دکھاؤ، ستاؤ

اجازت ہے تم کو مگر دھیرے دھیرے

محبت میں منزل نہیں راستے ہیں

چلو طے کریں یہ سفر دھیرے دھیرے

تری یاد کی یا جدائی کی شب ہو

ہر شب کی ہو گی سحر دھیرے دھیرے

بھلا پاؤ گے  کیا  انھیں دل سے شاہدؔ

بھلانا بھی چاہو اگر دھیرے دھیرے

٭٭٭

 

سرِ عام تم روز ملتے ہو جن سے اُنہی دوستوں کی نظر لگ نہ جائے

یہ ہے مشہور آئینہ بھی نہ دیکھو کہیں آئینوں کی نظر لگ نہ جائے

بڑے بد نظر ہیں یہ رنگیں نظارے، یہ چاند اور سُورج، یہ کرنیں یہ تارے

یہ سارے کے سارے ہیں دشمن تمہارے، تمہیں دشمنوں کی نظر لگ نہ جائے

تُمہارے بنا شاعری ہے اَدھوری، یہ مانا سراپا غزل تم ہو پھر بھی

رہا کرتے ہو تم خیالوں میں جن کے اُنہی شاعروں کی نظر لگ نہ جائے

کوئی قیس اور کوئی فرہاد بن کر، مَہیوال کے دَور کی یاد بن کر

تمہاری اداؤں پہ جو مر رہے ہیں انہی عاشقوں کی نظر لگ نہ جائے

یہی جام دن رات ہم پی رہے ہیں، اِنہیں کے تصور میں ہم جی رہے ہیں

سلامت رہے یہ شرابی نگاہیں اِنہیں مَیکدوں کی نظر لگ نہ جائے

مہکتے ہیں یُوں پھول جیسے چمن میں، چمکتے ہیں ستارے جیسے گگن میں

چھُپا کر رکھو اپنے زخموں کو شاہدؔ کہیں قاتلوں کی نظر لگ نہ جائے

٭٭٭

 

کرم چاہتے ہیں نہ لُطف و عنایت، حسینوں میں حُسن و ادا چاہتے ہیں

محبت کے بدلے ستم چاہتے ہیں، وفاؤں کے بدلے جَفا چاہتے ہیں

ذراسوچئے آپ ہی بندہ پَرور کسی شے سے ہم کیا بُرا چاہتے ہیں

شبابوں سے ہم مستیاں مانگتے ہیں، شرابوں کے اندر نشہ چاہتے ہیں

وہ نازک بدن وہ کلائی کہاں اب، اداؤں میں وہ دِلرُبائی کہاں اب

مگر چاہنے والوں کاہے یہ عالم تجھے آج بھی دلربا چاہتے ہیں

ہمیشہ بدلتی ہے ان کی طبیعت، عجب ہے ان حسن والوں کی فطرت

لباسوں کی طرح بدلتے ہیں عاشق، یہ ہر روز اک دوسراچاہتے ہیں

وہ ظالم سِتم پرسِتم روز ڈھائیں یہ قاتل کو دیتے ہیں پھر بھی دُعائیں

کسی حال میں بھی ہوں یہ عشق والے حسینوں کا ہر دَم بھلا چاہتے ہیں

محبت کے مُجرم، حسینوں کے مارے، جفاؤں کے بدلے وفا کرنے والے

یہ سب ہاتھ باندھے کھڑے ہیں بچارے گناہوں کی اپنے سزاچاہتے ہیں

٭٭٭

 

لوگ تیری آنکھوں کی مستیاں خریدیں گے

گیسوؤں سے ساون کی بدلیاں خریدیں گے

کہکشاں اُتاریں گے مانگ سے ستاروں کی

تیرے ہر تبسم کی بجلیاں خریدیں گے

بے اثر ہوئے گھُنگھرو اب وہ بیچ کر پائل

عاشقوں کے پَیروں کی بیڑیاں خریدیں گے

نرم نرم ہونٹوں کی نوچ لیں گے پنکھڑیاں

پھول جیسے گالوں کی سُرخیاں خریدیں گے

خوش لباس لڑکی سے یوں بضد ہے اک بچہ

ہم تمہارے آنچل کی تتلیاں خریدیں گے

یہ بھی ایک خوبی ہے آج کے جوانوں میں

دُلہنوں سے دھن لے کر کوٹھیاں خریدیں گے

اب بھی کچھ شریفوں کو روز فکر رہتی ہیں

آج کیسے بچوں کی روٹیاں خریدیں گے

بھر نہ پائے گی غُربت ہاتھ اپنی بہنوں کے

لوگ صرف خوابوں میں چُوڑیاں خریدیں گے

لکھتے لکھتے کیوں شاہدؔ بھیگ جاتا ہے کاغذ

چلئے لکھنے سے پہلے دستیاں خریدیں گے

٭٭٭

 

جاؤ گے تو پچھتا کے چلے آؤ گے اک دن

تنہائی سے گھبرا کے چلے آؤ گے اک دن

روکا ہے کبھی تم کو نہ روکیں گے کبھی ہم

معلوم ہے تم جا کے چلے آؤ گے اک دن

جو دِل تمہیں روکے گاکسی ڈر کے بہانے

اس دل کو بھی سمجھا کے چلے آؤ گے اک دن

تڑپائے گا اتنا تمہیں یوں میرا ترسنا

اپنے پہ ترس کھا کے چلے آؤ گے اک دن

بن جائے گا آنے کا نہ آنے کا بہانہ

ہررسم کو ٹھکرا کے چلے آؤ گے اک دن

جذبات کے طوفان کو روکو گے کہاں تک

ان موجوں میں لہرا کے چلے آؤ گے اک دن

ہاں میں بھی یہی جان کے انجان ہوں شاہدؔ

تم میری خبر پا کے چلے آؤ گے اک دن

٭٭٭

 

پیار کے موڑ پرمل گئے ہو اگر اور ملنے ملانے کا وعدہ کرو

آ گئے ہو تو جانے کی ضد نہ کرو جا رہے ہو تو آنے کا وعدہ کرو

مجھ سے وعدہ کرو تم رہو گے مرے مجھ کو اپنا بنانے کا وعدہ کرو

اور وعدوں سے پھر مجھ کو کیا ہے غرض تم کسی سے زمانے کا وعدہ کرو

جسم سے جاں ملی دل سے دل مل گئے آرزوؤں کے سارے کنول کھل گئے

پیار کی شاخ تو ہو چلی ہے ہری اب کوئی گل کھلانے کا وعدہ کرو

چلئے مانا یہ الفت کادستورہے، حسن کی یہ ادا ہم کو منظور ہے

روٹھنا ہے ضروری تو روٹھو مگر بعد میں مان جانے کا وعدہ کرو

انکساری، فقیری، وفا،سادگی، بس سمجھ لو یہی ہے مری زندگی

صرف مجھ سے نبھانے کا وعدہ نہیں، زندگی سے نبھانے کا وعدہ کرو

خیر اپنے لئے تو وہ انجان ہے آئینے سے تمہاری تو پہچان ہے

اس کی نظروں میں رہئے خوشی سے مگر ہر نظر میں نہ آنے کا وعدہ کرو

بات رکھنے میں ہو گی نہ کوئی کسرپھول چن لوں گا حسبِ ضرورت مگر

میرے آگے بہارو ادب سے اگر شاخِ گل کو جھکانے کا وعدہ کرو

چھوڑ  کر جا رہے ہو تو جاؤ مجھے، اپنی مجبوریاں مت بتاؤ مجھے

تم بڑے شوق سے بھول جاؤ مجھے پر مجھے یاد آنے کا وعدہ کرو

مجھ سے بچھڑے تو گم خود بھی ہو جاؤ گے، اس اجالوں کی دنیا میں کھو جاؤ گے

میری تاریک دنیا کا جگنو ہو تم روشنی میں نہ آنے کا وعدہ کرو

آنسوؤں سے توسب راز کھل جائیں گے اور خیانت محبت میں ہو جائے گی

میری محبوب تم ہو امانت مری غم میں بھی مسکرانے کا وعدہ کرو

اپنی آوارگی کو نبھاتے رہو نازسارے جہاں کے اٹھاتے رہو

شوق سے ساتھ تم سب کے جاتے رہو، لوٹ کرپاس آنے کا وعدہ کرو

میں ہی شاہدؔ نہیں تم کو بھی ہے پتہ، بات آگے بڑھانے سے کیا فائدہ

جب نبھانے کی ہمت نہیں ہے توپھرسارے وعدے بھلانے کا وعدہ کرو

٭٭٭

 

دل کی خاطرکسی ناتواں سے، زَرکی خاطرکسی اجنبی سے

تم اِسی طرح حسبِ ضرورت، پیار کرتے رہوہرکسی سے

اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے کے، پھر رہے ہوں ہواؤں کے جھونکے

کون کہتا ہے آوارہ خوشبو، قید ہوتی نہیں ہے کسی سے

پھول، خوشبو، چمن کے نظارے، میکدوں کی نظر کے اشارے

ہر قدم پر ہیں چانداورستارے روشنی مانگ لوں گا کسی سے

تیرتی ہیں فضاؤں میں بانہیں، ڈھونڈتی ہیں خلاء میں نگاہیں

کھڑکیاں دُور تک جھانکتی ہیں، میں گذر جاتا ہوں جس گلی سے

جان سب کو ہی ہوتی ہے پیاری، موت سے کون کرتا ہے یاری

کوئی تو بات قاتل میں ہو گی، لوگ مرنے چلے ہیں خوشی سے

اُس کے دل میں رہے لاکھ کینہ، زندگی پھر بھی ہے اک حسینہ

اس حقیقت سے مجبور ہو کر، پیار کرنا پڑا زندگی سے

زخم مرہم سے تو کیا بھریں گے، لوگ عُریاں سمجھ کرہنسیں گے

تم اندھیروں کی چادر لپیٹے، چھپ کے بیٹھے رہو روشنی سے

دیکھ دُور ہی سے درندے، ڈر کے اُڑتے ہیں جیسے پرندے

سہمے رہتے ہیں ایسے ہی شاہدؔ شہر میں آدمی آدمی سے

٭٭٭

 

دوستو ! عِشق میں ہر قدم پر ضبط کو آزمانا پڑا ہے

پیار ہم نے کیا ہے توہم کو غم میں بھی مسکراناپڑاہے

موت آئے سرآنکھوں پہ لیکن اس قدر بے بسی میں نہ آئے

اپنے کاندھے پہ اپنا جنازہ ہم کو خود ہی اُٹھانا پڑا ہے

ہوکے مایوس یوں ہر خوشی سے، روٹھ جانانہ تُو زندگی سے

میری خاطر ترا غم بہت ہے تیرے آگے زمانا پڑ ہے

 کس کو معلوم تھا ایک پَل میں یوں بدل جائے گا رنگِ محفل

ایک نادان کی ضد کے آگے رُخ سے پردہ ہٹانا پڑا ہے

کیا بتائیں تمہیں کیا وفا ہے، آرزوؤں کا انجام کیا ہے

اپنے ہی خون میں دیکھ لیجئے آج ہم کو نہانا پڑا ہے

کشتی و بادباں کے سَہارے لگ نہ پاتے کبھی ہم کنارے

یہ محبت کا دریا ہے شاہدؔ ڈوب کر پار جانا پڑا ہے

٭٭٭

 

برسات کی چنچل بُوندوں سے کیوں کھیل رہے ہو آنگن میں

کیا آگ لگانے نکلے ہو گھنگوربرستے ساون میں

بھرپُور جوانی کے سِن کا طُوفان نہیں رُکنے والا

جذبات کی بے کل لہروں کو تم لاکھ چھپاؤ دھڑکن میں

اُمڈے ہوئے کالے بادل سے کوندے سے لپکتے ہوں جیسے

رَہ رَہ کے چمکتی ہے بجلی یہ کون چھپا ہے چلمن میں

کل بولی سکھی سے یُوں گوری، اچھے تو ہیں تیرے وہ بھی سکھی

ہاں پھر بھی مگر وہ بات کہاں جو بات ہے میرے ساجن میں

یوں سامنے سب کے محفل میں، زُلفیں نہ بکھیرو چہرے پر

میں خود ہوں پریشاں اور مجھے کیوں ڈال رہے ہو الجھن میں

تم آج کے اس آئینے سے، گذرے ہوئے کل کی مت پوچھو

بیتے ہوئے دن کب لوٹے ہیں، کیا ڈھونڈ رہے  ہو دَرپن میں

گُلشن کی بہاروں کو ہم نے یوں بانٹ لیا اب کے شاہدؔ

کانٹے ہیں ہماری جھولی میں اور پھول ہیں اُن کے دامن میں

٭٭٭

 

اجنبی شے تھی خوشی گھبرا گئے

ہنستے ہی آنکھوں میں آنسو آ گئے

زندگی بھی آنٔسووں کا جام تھی

پی گئے کچھ اور کچھ چھلکا گئے

ذکر تھا میری وفاؤں کا مگر

بندہ پرور آپ کیوں شرما گئے

شعریت جاتی رہی اشعار سے

بزم سے شاہدؔ وہ اٹھ کر کیا گئے

٭٭٭

 

کسی کے بھید کب وہ کھولتا ہے

مگر آئینے میں دل ڈولتا ہے

ہے جس کے پاس کہنے کو بہت کچھ

وہ اپنے لب بہت کم کھولتا ہے

فضاؤں پر ہے قابض وہ پرندہ

قفس میں رہ کے جو پر تولتا ہے

گذر جاتی مصیبت میں بھی سکھ سے

مگر یہ آدمی سچ بولتا ہے

اُسی کی بات میں ہے وزن شاہدؔ

جو  کچھ کہنے سے پہلے تولتا ہے

٭٭٭

ساری دنیا کا غم بسا لائے

بس یہ سمجھو کہ دل بچا لائے

ہم تو اپنی سی کر کے بیٹھ گئے

اب انھیں لائے تو خدا لائے

دے گئے لوگ اپنے اپنے دکھ

ہم یہ سمجھے تھے سب دوا لائے

زخم ہی لے لو ان کی محفل سے

لوگ پوچھیں گے آپ کیا لائے

اک تری یاد ساتھ جلتی ہے

بس یہی اک دیا بچا لائے

٭٭٭

تم نے کبھی راہوں کو بدل کر نہیں دیکھا

دنیا کو ابھی گھر سے نکل کر نہیں دیکھا

کیا قدر فقیروں کی ہے یہ ہو جائے گا معلوم

شاہوں نے کبھی بھیس بدل کر نہیں دیکھا

ہر رنگ کو آنکھوں میں بسا کر بھی رکھا ہے

پھولوں کو کبھی ہم نے مسل کر نہیں دیکھا

شعلوں میں دہکتی بھی ہیں پھولوں بھری راہیں

ہمراہ مرے آپ نے چل کر نہیں دیکھا

تم نے تو ابھی عشق میں گرمایا ہے دل کو

اس آگ میں تم نے ابھی جل کر نہیں دیکھا

شاہدؔ جسے تم نے بھی سنبھالا تھا کسی دن

پھر اُس نے کبھی تم کو سنبھل کر نہیں دیکھا

٭٭٭

 

نظریں چرا لو، بند رکھو کان، چپ رہو

سب لوگ چپ ہے تم بھی مری جان چپ رہو

سچ بات کہہ کے صاحبو شرمندگی نہ لو

سمجھیں گے لوگ آپ کو نادان چپ رہو

ہر چیخ بے اثر ہے، ہر اک ظلم بے صدا

دے گا نہیں کسی پہ کوئی دھیان چپ رہو

جھوٹی تسلیوں سے دلاسہ نہ دو اُسے

ہوتے نہیں غریب کے ارمان چپ رہو

کہنے کو یوں تو سب کے ہے منہ میں زباں مگر

اس دور میں ہے بس یہی آسان چپ رہو

دیوانہ ہم سے کہہ گیا شاہدؔ پتے کی بات

خود اپنی ذات پہ کرو احسان چپ رہو

٭٭٭

 

گھوم کر شہر کی فضاؤں میں

لوٹ آئے تمھارے گاؤں میں

کولروں میں کہاں جو ٹھنڈک ہے

تیرے پیپل کی نرم چھاؤں میں

زلف سے چاندنی سی چھنتی ہے

حسن چھپتا نہیں گھٹاؤں میں

زندگی خاک چھانتی ہی رہی

لوگ اڑنے لگے خلاؤں میں

کون پربت تلے براجا ہے

کھلبلی سی ہے مینکاؤں میں

٭٭٭

 

کوئی قیمت نہ لگی اپنی خریداروں میں

عمر بھر خاک اڑاتے پھرے بازاروں میں

وہ تو کچھ ہم ہی تھے بیزارِ سکوتِ ساحل

ورنہ کیا زور تھا طوفان ترے دھاروں میں

ہے ستاروں میں گھرا دل سا دھڑکتا ہوا چاند

یا کوئی سہمی سی جوگن ہے پر ستاروں میں

وہ تو  چُپ چُپ  سے تھے کمرے میں مگر ساری رات

جیسے سرگوشیاں ہوتی رہیں دیواروں میں

کوئی تنہائی میں بھی ساتھ رہا کرتا ہے

رات دن ہوتی ہیں سرگوشیاں دیواروں میں

انگلیاں ہم پہ اٹھاتی رہی دنیا اور ہم

مسکراتے رہے پھولوں کی طرح خاروں میں

لوٹنے والوں نے لوٹی ہیں بہاریں شاہدؔ

ہم تو بس مفت ہی بد نام رہے یاروں میں

٭٭٭

 

پھر فصل لہو کی پک رہی ہے

آنکھوں سے مری ٹپک رہی ہے

ہر جھوٹ ہے دلفریب اتنا

سچ بات بہت کھٹک رہی ہے

صحراؤں میں پھول کھل رہے ہیں

باغوں میں صبا بھٹک رہی ہے

کھیتوں میں ہے جشنِ قحط سالی

شہروں کی فضا لپک رہی ہے

دیکھا نہ تھا شرم کا یہ عالم

آنے میں بھی جو جھجک رہی ہے

اک خواب ہے ہر خیال شاہدؔ

سو جاؤ پلک جھپک رہی ہے

٭٭٭

 

پھول کی طرح برستے ہیں ترے شہر کے لوگ

یا مرے حال پہ ہنستے ہیں ترے شہر کے لوگ

کچھ تو احساس انھیں اپنی ملاقات کا ہے

ہم پہ آواز تو کستے ہیں ترے شہر کے لوگ

میں بھٹکتا ہوں ترے شہر کی ان سڑکوں پر

اور اس شہر میں بستے ہیں ترے شہر کے لوگ

جب زباں چلتی ہے نشتر کا گماں ہوتا ہے

بات کرتے ہیں کہ ڈستے ہیں ترے شہر کے لوگ

تیرا پیکر ہے کہ خواہش کا ابھرتا سورج

دھوپ میں جس کی جھلستے ہیں ترے شہر کے لوگ

میں تو خیر ایک مسافر ہوں مرا ذکر ہی کیا

تیری صورت کو ترستے ہیں ترے شہر کے لوگ

اجنبی آج بھی لگتا ہے تو اِن کو شاہدؔ

کیسے بھولے ہوے رستے ہیں ترے شہر کے لوگ

٭٭٭

 

جانے کیا محبت کو لڑکیاں سمجھتی ہیں

آنسوؤں کو دامن کی موتیاں سمجھتی ہیں

بات یہ الگ ہے کہ منہ سے کچھ نہیں کہتیں

ورنہ  مرد  کی  چالیں  بیویاں سمجھتی ہیں

لاکھ پٹ لگاؤ تم لاکھ چلمنیں تانو

کیا ہوا ہے کمروں میں کھڑکیاں سمجھتی ہیں

لوگ ایک دوجے کو بے سبب نہیں تکتے

ساری آنکھیں، آنکھوں کی بولیاں سمجھتی ہیں

جھومتی گھٹاؤں کو کون روک سکتا ہے

کب کہاں برسنا ہے بدلیاں سمجھتی ہیں

ڈولتی ہیں پھولوں پر دیکھتی نہیں چھو کے

کون کتنا نازک ہے تتلیاں سمجھتی ہیں

ٹوٹنا ہے کب شاہدؔ کب نکل کے آنا ہے

وقت کی ہواؤں کو بتیاں سمجھتی ہیں

٭٭٭

 

جب سے وہ ماہ پارہ گیا

شامِ غم کا سہارا گیا

ہم نے دنیا  لُٹا دی مگر

تم سے دل بھی نہ ہارا گیا

خاموشی نے صدا دی تمہیں

جب نہ ہم سے پکارا گیا

جانے کس دل پہ بجلی گری

دور تک اک شرارا گیا

ہم نے شاہدؔ جو چھیڑی غزل

چلمنوں سے پکارا گیا

٭٭٭

 

ہاتھ سے ہاتھ آنکھوں سے آنکھیں ملیں، دل سے دل بھی ملانے چلے آئیے

پیار کی شاخ بھی ہو چلی ہے ہری، اب کوئی گل کھلانے چلے آئیے

جتنے وعدے تھے سب خاک میں مل گئے لوگ دیتے ہیں طعنے چلے آئے

دیکھئے ہر طرف اپنی تکرار کے بن رہے ہیں فسانے چلے آئے

کیا ہوا آپ کو آپ کیا ہو گئے، دیکھتے دیکھتے ہی خفا ہو گئے

کس لئے آپ ہم سے جدا ہو گئے، کچھ سبب ہی بتانے چلے آئیے

رات سنسان ہے راہ ویران ہے، ایسا ماحول تو عشق کی جان ہے

تھم چکی ہے ہوا،  پیڑ خاموش ہیں، سوچکے آشیانے چلے آئیے

اسقدر ہو کے مایوس جو جائے گا زندگی بھر نہیں لوٹ کر آئے گا

آج تک آپ کو جو مناتا رہا، آج اس کو منانے چلے آئیے

سو گئیں منزلیں، کھو گیا راستہ، شیخ جی میکشوں کا تمھیں واسطہ

کس کو ہو گی خبر بند ہیں سارے در، ہیں کھلے بادہ خانے چلے آئیے

٭٭٭

 

قد و قامت کی بندش سے بڑا ہوں

میں اپنی ذات میں تنہا کھڑا ہوں

نہ تھا وہ غیر تو اپنا بھی کب تھا

میں اُس کے واسطے خود سے لڑا ہوں

وہ منزل کے تعین میں کھڑے ہیں

یہاں رستہ نہیں اور چل پڑا ہوں

مجھے گھر پھر بھی لے آئے ہو شاہدؔ

تمھیں معلوم ہے مہنگا پڑا ہوں

٭٭٭

 

عجیب الجھن ہے کیا بتائیں، اداس چہرہ اداس آنکھیں

کہاں چھپائیں، کسے دکھائیں اداس چہرہ اداس آنکھیں

چھپائیں گی کیسے سب کی نفرت ہماری آنکھیں ہماری صورت

کس آئینے میں اسے سجائیں، اداس چہرہ اداس آنکھیں

اگر یہی آپ کی ہے حسرت، رکھے ہمیشہ انھیں سلامت

خدا سے مانگتیں دعائیں اداس چہرہ اداس آنکھیں

تمہاری خاطر ہر ایک غم کو چھپا کے ہنسنا پڑا ہے ہم کو

یہ کھیل اب تلک رچائیں، اداس چہرہ اداس آنکھیں

نہ روکتا ہے نہ ٹوکتا ہے جو دیکھتا ہے وہ سوچتا ہے

کہ یاد رکھیں یا بھول جائیں، اداس چہرہ اداس آنکھیں

شکن جبیں پر نہ آنکھ نم ہے یہ بے بسی بھی ترا کرم ہے

رہیں سلامت تری عطائیں، اداس چہرہ اداس آنکھیں

خوشی جو غم کے لباس میں ہے، ہر اک پل اُس کی آس میں ہے

اس آس پر کچھ تو مسکرائیں، اداس چہرہ اداس آنکھیں

جو ساتھ لائے تھے اپنے شاہدؔ، گئے  وہی اپنے ساتھ لے کر

کہاں سے اب اُن کو جا کے لائیں اداس چہرہ اداس آنکھیں

‎٭٭٭

 

دیوانے تھے خواب میں کٹی ہے

اک عمر سراب میں کٹی ہے

تم آئے نہ ماہتاب نکلا

یہ شب بھی عذاب میں کٹی ہے

صد شکر قفس کے عمر اپنی

بھر پور شباب میں کٹی ہے

لمحوں کی قلیل عمر شاہدؔ

صدیوں کے حساب میں کٹی ہے

٭٭٭

 

عجیب کرب سے دو چار ہو رہا ہوں میں

یہ کس جہاد کو تیار ہو رہا ہوں میں

جسے بھی دیکھئے عزت سے پیش آتا ہے

تمھارے شہر کا بیوپار ہو رہا ہوں میں

دبی زبان کے اترے ہیں مجھ پہ الہامات

جھکی نگاہوں کا دیدار ہو رہا ہوں میں

شکست و ریخت کا انبار ہو رہا ہوں میں

بدن کی ٹوٹتی دیوار ہو رہا ہوں میں

تلاش کرتے سے رہتے ہیں لوگ کچھ مجھ میں

چھپے خزانوں کا اسرار ہو رہا ہوں میں

اِسی زمانے میں زندہ ہوں پھر بھی میں شاہدؔ

اسی زمانے کا آثار ہو رہا ہوں میں

٭٭٭

 

دیکھا گیا نہ چارہ گروں سے نکال کر

رکھا ہے دل میں یوں ترے غم کو سنبھال کر

کچھ تو مری انا کی طلب کا خیال کر

مجبور بھی جو کر تو مجھے بے مثال کر

میں بھی اٹل ہوں اپنی جگہ جانتا ہے تو

تو نے بھی سو دفعہ مجھے دیکھا ہے ٹال کر

دیکھا تھا اُس کو اپنی غزل کے خیال میں

سوچا ہے جس کو اپنی طبعیت میں ڈھال کر

تھا حوصلہ تو شیخ کی پگڑی اچھالتے

یاروں کو کیا ملا مرا ساغر اچھال کر

٭٭٭

 

یونہی نہیں کھلا ہوں تری رہگذار میں

اے پائے خوش خرام مجھے پائمال کر

بجھنا تو ہے تجھے بھی مگر شمع میکدہ

کچھ دیر کے لئے تو طبعیت بحال کر

تیری طلب میں اس کی رضا کا بھی دخل ہو

ٹھکرا سکے نہ وہ جسے ایسا سوال کر

شاہدؔ وہ فن بھی ساتھ ترا چھوڑنے لگا

تو نے جسے چنا تھا بہت دیکھ بھال کر

٭٭٭

 

دوست بھی بن کے عدالت کی گواہی آئے

اب ترے حق میں جو آئے تو خدا ہی آئے

میں نے اپنے لئے اے دوست یہ مانگی ہے دعا

دشمنوں کے بھی لئے لب پہ دعا ہی آئے

اس کی آواز میں ہے اس کے بدن کی خوشبو

وہ نہ آئے نہ سہی، اس کی صدا ہی آئے

دیکھ کر لوگوں کو خوشحال، پریشان ہیں لوگ

شہر والوں پہ نہ ایسی بھی تباہی آئے

تھا گماں ہم کو بہت ضبط کی دولت پہ مگر

آج وہ بھی ترے کوچے میں گنوا ہی آئے

آج بھی ہو گی تسکین انا کی شاہدؔ

آج بھی آپ اُسے جا کے رُلا ہی آئے

٭٭٭

 

گجرا مہکا کنگنا کھنکا کھن کھن آدھی رات کے بعد

ٹوٹ گئے سب لاج حیا کے بندھن آدھی رات کے بعد

سوچ رہی ہے آس کی ماری برہن آدھی رات کے بعد

جلتا ہے کیوں آگ کے جیسے تن من آدھی رات کے بعد

دروازے پر گرتی ہے جب چلمن آدھی رات کے بعد

سُونا ہو جاتا ہے گھر کا آنگن آدھی رات کے بعد

ایک تو ہر آہٹ پہ دل ویسے ہی ڈوبا جاتا ہے

اس پہ ستم ڈھاتی ہے دھڑکن آدھی رات کے بعد

رات، رات بھر رنگ محل میں گھنگرو بجتے رہتے ہیں

پائل آدھی رات سے پہلے کنگن آدھی رات کے بعد

کرچی کرچی ڈھونڈ کے اب کیا باندھا ہے آنچل سے

ٹوٹ چکا ہے گوری تیرا درپن آدھی رات کے بعد

دن میں جو تلقین کیا کرتے ہیں شاہدؔ اوروں کو

وہ بھی دیکھیں اپنا اپنا دامن آدھی رات کے بعد

٭٭٭

 

زندگی کا سفر پیار سے ہے مگر پیار کرنا خطا ہو تو کیا کیجئے

عمر بھر سلگتی اِسی آگ میں اِس خطا کی سزا ہو تو کیا کیجئے

بھول کر بھی خوشی پاس آتی نہیں، کوئی محفل اُسے راس آتی نہیں

درد کی وادیوں میں بھٹکتا ہے دل، غم ہی دل کی دوا ہو تو کیا کیجئے

لاکھ کانٹے بچھے تھے ہر اک گام پر  ہم کو چلنا پڑا پیار کے نام پر

کو چہ یار کا منزلِ دار کا ایک ہی راستہ ہو تو کیا کیجئے

ضبط ہم نے کیا  صبر ہم نے کیا دل نے ہنس ہنس کے ہر اک ستم سہہ لیا

بے رخی کا بھی ان سے نہ شکوہ کیا پھر بھی اُن کو گلا ہو تو کیا کیجئے

زندہ رہنے کی صورت نہیں تھی مگر ان کے وعدوں پہ جیتے رہے سر بسر

زندگی کر رہی تھی وفا بھی مگر یار ہی بے وفا ہو تو کیا کیجئے

ہر طرف ہر جگہ جو خرابی ہے سب، یہ نہ سمجھو کہ عالم شرابی ہے سب

تیری آنکھوں کی یہ تو گلابی ہے سب،جس کے دم سے نشہ ہو تو کیا کیجئے

٭٭٭

 

یوں خالی ہاتھ میں ترے در سے گذر گیا

جیسے بھرے جہاں سے سکندر گذر گیا

کس کا گناہگار ہے یہ با ثمر شجر

جو شخص آیا مار کے پتھر گذر گیا

کیسے نظر میں ڈھونڈ کے لائے تھے اک ہلال

کیا وہ پلک جھپکتے ہی منظر گذر گیا

یوں بڑھ گئے قزاق مسافر کو لوٹ کر

یوں باغ سے بہار کا لشکر گذر گیا

دل کو تو ہاتھ تک نہ لگایا مسیح نے

دیوار و در پہ کر کے پلستر گذر گیا

شاہد میں اُس کو دیکھنے پایا ہی تھا کہ بس

وہ خود کو میری آنکھ میں رکھ کر گذر گیا

 ٭٭٭

 

زندگی ایک ایک پل میں ہے ایک ایک بات کا مزہ لے لو

دن میں دن کے سمیٹ لو دُکھ سکھ رات میں رات کا مزہ لے لو

نفرتوں میں بھی ڈھونڈ لو چاہت درد میں بھی تلاش لو لذت

زندگی لوٹ کر نہ آئے گی اس کی ہر بات کا مزہ لے لو

جسقدر مشکلیں ہو جینے میں، لطف آتا ہے اتنا پینے میں

مے کی بھڑکا کے آگ سینے میں، آؤ برسات کا مزہ لے لو

پھول جب گلستاں میں مہکے تو پھول کو چوم کر امر کر دو

چاند جب آسماں پہ چمکے تو چاندنی رات کا مزہ لے لو

اور بھی اس کی ریت ہوتی ہے ہار کر اسمیں جیت ہوتی ہے

پیار کو جیتنا ہے گر تم کو پیار کی مات کا مزہ لے لو

دل کے مانا بہت امیر ہیں ہم دولت حُسن کے فقیر ہیں ہم

دے کے سوغات پیار کی ہم کو خیر خیرات کا مزہ لے لو

زندگی نذر جام کر جاؤ عمر یونہی تمام کر جاؤ

دل جو کہتا ہے کام کر جاؤ دل کے جذبات کا مزہ لے لو

چاند کو گھول کر پیالوں میں زندگی کاٹ دو اجالوں میں

کیف و مستی ہو جن خیالوں میں ان خیالات کا مزہ لے لو

گلستاں میں گلوں کے منہ چومو، پھول کا پات کا مزہ لے لو

جام لے کے ہاتھ میں جھومو، سارے حالات کا مزہ لے لو

٭٭٭

 

بے چینیوں کو گھول کے اپنے گلاس میں

ہم لوگ زہر پیتے ہیں جینے کی آس میں

کچھ لوگ آگ سے بھی بجھاتے ہیں پیاس کو

کچھ لوگ ہیں جو خون بھی پیتے ہیں پیاس میں

اوپر سے زندگی ہے بہت خوشنما مگر

اندر سے کتنے زخم چھپے ہیں لباس میں

ہر شخص کو سناؤ نہ اپنی ہی داستاں

یہ حال ہے تو کون بٹھائے گا پاس میں

اس مدرسے سے نکلے ہیں دیوانہ بن کے لوگ

ہم اب تلک  پڑے ہیں وفا کی کلاس میں

اپنے لہو سے جس نے دیا گلستاں کو رنگ

لیتا رہے گا سانس وہ پھولوں کی باس میں

روتے ہیں اپنے داغ جہاں کو دکھا کے لوگ

ہم ہنس رہے ہیں زخم چھپا کر لباس میں

شاہدؔ وہ شخص کب سے ترے دل میں ہے چھپا

نکلا ہے ڈھونڈنے تو جسے آس پاس میں

٭٭٭

 

دل کی خطا معصوم بہت ہے

شہر میں لیکن دھوم بہت ہے

راز میں ہے ہر بات ہماری

سب کو مگر معلوم بہت ہے

دنیا کو ہے جس سے شکایت

وہ صورت معصوم بہت ہے

بجھتی نہیں ہے پیاس لہو کی

ظالم بھی مظلوم بہت ہے

دل کو ترے سب کچھ ہے میسر

درد سے بس محروم بہت ہے

مے کی حقیقت آج کھلے گی

آج یہ دل مغموم بہت ہے

یار ترے اشعار میں شاہدؔ

حرف ہیں کم مفہوم بہت ہے

٭٭٭

 

وہ اپنے طور پہ دیتا رہا سزا مجھ کو

ہزار بار لکھا اور مٹا دیا مجھ کو

خبر ہے اپنی نہ راہوں کا کچھ پتا مجھ کو

لیے چلی ہے کوئی دور کی صدا مجھ کو

اگر ہے جسم تو چھو کر مجھے یقین دلا

تو عکس ہے تو کبھی آئینہ بنا مجھ کو

چراغ ہوں مجھے دامن کی اوٹ میں لے لے

کھلی ہوا میں سرراہ مت جلا مجھ کو

مری شکست کا اس کو گمان تک نہ ہوا

جو اپنی فتح کا ٹیکا لگا گیا مجھ کو

تمام عمر میں سایہ بنا رہا اس کا

اس آرزو میں کہ وہ  مڑکے دیکھتا مجھ کو

مرے علاوہ بھی کچھ اور مجھ میں تھا شاہدؔ

بس ایک بار کوئی پھرسے سوچتا مجھ کو

٭٭٭

 

پیاس دل کی بجھا گئے آنسو

آپ آئے تو آ گئے آنسو

روک رکھا تھا ہم نے مدت سے

آپ آئے تو آ گئے آنسو

آج روئے ہیں اُن کے قدموں پر

آج دے کر مزا گئے آنسو

بھرتے بھرتے جھلک گئے ساغر

پیتے پیتے بہا گئے آنسو

اپنے ہونٹوں پہ کیا ہنسی آئی

اُن کی آنکھوں میں آ گئے آنسو

ہم کو پہنچا دیا رقیبوں تک

دے کے کس کا پتا گئے آنسو

جب بھی بھڑکی ہے آگ یادوں کی

لے کے برسات آ گئے آنسو

اُن کو کوئی نہیں سمیٹ سکا

موتیاں جو  لُٹا گئے آنسو

پڑ گئی اوس اُن کے دامن پر

اپنی آنکھوں سے کیا گئے آنسو

کھل کے روئے بھی تو نہیں شاہدؔ

آج پھر دل دکھا گئے آنسو

٭٭٭

 

زیست جو وقفِ حادثات نہیں

موت ہے موت وہ حیات نہیں

زندگی اک جہادِ پیہم ہے

یہ نفس دو نفس کی بات نہیں

تیری زلفوں کا فیض ہے ورنہ

دن کے ماتھے پہ کوئی رات نہیں

تجھ سے مل کر بھی کیا بھلا ہو گا

تجھ سے ملنا تو کوئی بات نہیں

ہم نے رسماً تجھے بھی چاہا ہے

ورنہ تو مقصدِ حیات نہیں

اب کوئی ہم پر الزام کیوں ہو

جب کوئی وجہ التفات نہیں

جس کو کہتے ہیں زندگی شاہدؔ

ہم غریبوں کے بس کی بات نہیں

٭٭٭

 

یہ شوخ ستمگر زہرہ جبیں کس گل سے تعلق رکھتے ہیں

ہر بات پہ ہے قدرت ان کو ہر دل سے تعلق رکھتے ہیں

بیتابیِ دل کے عالم میں تسکیں سے تعلق کیا کہیے

طوفاں میں رہتے ہیں لیکن ساحل سے تعلق رکھتے ہیں

کیا زخم جگر، کیا دردِ جگر، کیا ناکامی کیا بدنامی

ہم اہل محبت عشق کی ہر منزل سے تعلق رکھتے ہیں

رعنائیِ گل بیتابیِ بو، رنگینیِ مے، رفتارِ سبو

جتنے بھی سہارے ہیں تیری محفل سے تعلق رکھتے ہیں

پوچھو نہ تعلق کی شاہدؔ ہم دیوانے اِس دنیا میں

ہے قطع تعلق زخموں سے قاتل سے تعلق رکھتے ہیں

٭٭٭

 

غزل والوں کی جب جادو بیانی بول پڑتی ہے

حقیقت کچھ نہیں کہتی کہانی بول پڑتی ہے

زباں چپ ہو تو آنکھوں کی زبانی بول پڑتی ہے

محبت میں ہے اک عادت پرانی بول پڑتی ہے

امیری میں، غریبی میں، رئیسی میں فقیری میں

کسی بھی حال میں آئے جوانی بول پڑتی ہے

کمان اٹھتی ہے تو بے بس پرندے پھڑپھڑاتے ہیں

تری وحشت پرندوں کی زبانی بول پڑتی ہے

کسی سے زندگی کب رخ ملا کر بات کرتی ہے

مگر ہم پر ہے اُس کی مہربانی بول پڑتی ہے

غموں کی دھوپ سے ندیوں کے پانی سوکھ جاتے ہیں

مگر اشکوں کی دریا کی روانی بول پڑتی ہے

چلو مانا کسی بھی حال میں تم کچھ نہیں کہتے

مگر شاہدؔ تمہاری بے زبانی بول پڑتی ہے

٭٭٭

 

اس راز کو دنیا کیا جانے، یا میں جانوں یا تو جانے

کیوں شمع جلی کیوں پروانے، یا میں جانوں یا تو جانے

دل پیار سے جب ملتے ہیں کبھی، اُس وقت اچانک اپنے بھی

ہو جاتے ہیں کیسے بیگانے، یا میں جانوں یا تو جانے

ہوتی ہیں بیاں جو آنکھوں سے دنیا نے ان ہی دو باتوں سے

کیا کیا نہ بنائے افسانے، یا میں جانوں یا تو جانے

ہر ذرے میں تھی اُس کی خوشبو، آتی تھی نظر لیلی ہر سو

مجنوں کو دیا کیا صحرا نے، یا میں جانوں یا تو جانے

دنیا میں جہنم کے سائے، فرزانے کہاں تک لے آئے

ہم لوگ ہوئے کیوں دیوانے، یا میں جانوں یا تو جانے

ہم رندوں کی مستی سے شاہدؔ، یا شیخ و برہمن سے زاہد

آباد ہیں کن سے میخانے، یا میں جانوں یا تو جانے

٭٭٭

 

 یہ رخ بھی اپنی وفا کا تجھے دکھاؤں گا

میں اپنے ہاتھ سے ڈولی تری اُٹھاؤں گا

رلانے والے تجھے اسطرح رلاؤں گا

تو زخم دے گا مجھے اور میں مسکراؤں گا

ترا بدن نہ اگر چھو سکی نظر میری

میں عکس بن کے تجھے آئینہ بناؤں گا

ترے بغیر بھی ویراں نہ ہو گا میرا چمن

میں پھول یاد کے ہر شاخ پر کھلاؤں گا

ہر ایک موڑ پر شرمندگی ملی ہے مجھے

کہاں تلک تجھے اے دوست آزماؤں گا

جو زندگی سے مری دور جا چکا شاہدؔ

غزل میں لا کے اسے اور گنگناؤں گا

٭٭٭

 

تجھ سے شکوہ نہیں شکوہ ہے یہ تقدیراں سے

کب تلک بات کروں میں تری تصویراں سے

کیا تمہیں خوف نہیں اپنی گرفتاری کا

کھیلنا ٹھیک نہیں زلف کی زنجیراں سے

کیا رُلانے کیلئے تم نے ہنسایا تھا ہمیں

دل لگی یوں نہیں کرتا کوئی دیگراں سے

پیار کا خوف خطا ہے تو سزا دے دینا

پہلے کچھ لُطف تو لے لینے دو تعبیراں سے

ہم جلا کرتے ہیں ہر رات چراغوں کی طرح

گرمیِ بزم ہے سب حسن کی تنویراں سے

پیار کی دنیا میں جب رکھ چکے مختار قدم

اب جو ہونا ہے وہ ہو جائے تقدیراں سے

یوں تو آتے ہیں سبھی لوگ عیادت کیلئے

کوئی اُن کو بھی بلائے کسی تدبیراں سے

پاؤں چھالوں سے بھرے سر میں ہے صحراؤں کی دھول

یہی خیرات ملی عشق کی جاگیراں سے

٭٭٭

 

مری آنکھ میں ترے اشک ہیں، ترا درد میرے جگر میں ہے

مرے دل میں ہیں تری دھڑکنیں، تو چھپا ہوا اسی گھر میں ہے

کوئی پل تجھے نہ بھلا سکا، کون پل نہیں تو جدا رہا

تو نظر سے دور رہا بھی تو، یہ گماں رہا کہ نظر میں ہے

ترا درد ہے مری زندگی، جسے چھو سکے گی نہ موت بھی

ترے پیار کے میں اثر میں ہوں، مرا پیار ترے اثر میں ہے

جو قیاس میں ہے نہ عقل میں، وہ ملے گا کوئی بھی شکل میں

مری جستجو کو یقین ہے، کوئی میری راہگذر میں ہے

کسی موڑ پہ جو بچھڑ گیا، کہیں پھر نہ اس کا پتہ ملا

کہیں ایک ایسا مقام بھی، میری زندگی کے سفر میں ہے

٭٭٭

 

بھولنے والے کو یہ سزا دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے

ہم بھی تم کو دل سے بھُلا دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے

شام کا ہو یا رات کا وعدہ دیر سویر تو ہو گی ہی

صبح سے پہلے دیپ بجھا دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے

ہم تو یہاں بے تاب ہیں کب سے آپ پہ مرنے کی خاطر

آپ ہمیں جینے کی دعا دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے

حسن و ادا کے ساتھ وفا ہو اور جفا کا نام نہ ہو

چاند کے منہ کا داغ مٹا دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے

آس کسی کی دید کی شاہدؔ جھانک رہی ہے آنکھوں سے

آپ اسے اشکوں میں بہا دیں یہ کسیے ہو سکتا ہے

٭٭٭

 

چاندنی رات تاروں کی بارات ہے، دل کی محفل سجانے میں کیا دیر ہے

دھڑکنیں دل کی شہنائیاں بن گئیں، اب دلہن بن کے آنے میں کیا دیر ہے

بسکے آنکھوں میں آنکھیں چراتے ہو کیوں، مہربان بن کے یوں ظلم ڈھاتے ہو کیوں

لے چکے دل مرا اب بتا دو ذرا، مجھ کو اپنا بنانے میں کیا دیر ہے

مان کر روٹھنا روٹھ کر ماننا، سب کے بس میں نہیں تم کو پہچاننا

روٹھ جانا تمھاری ادا ہی سہی، روٹھ کر مان جانے میں کیا دیر ہے

ہونٹ پیمانہ ہیں آنکھیں ہیں میکدہ، سر سے ہو پاؤں تک تم نشہ ہی نشہ

پھر شرابِ محبت پلا کر مجھے، پیاس میری بجھانے میں کیا دیر ہے

ایسی لگتی ہے یہ زلف بکھری ہوئی، جیسے ہو موج دنیا کی بپھری ہوئی

تیری آنکھوں کی جب جھیل ہو سامنے، پھر مرے ڈوب جانے میں کیا دیر ہے

میں نے مانا ہو تم ایک نازک حسیں، بوجھ تم سے جوانی کا اٹھتا نہیں

جب قیامت اٹھا دی اٹھا کے نظر، رخ سے پردہ اُٹھانے میں کیا دیر ہے

٭٭٭

 

زخم کھاتا ہے درد سہتا ہے

دل مرا دوستوں میں رہتا ہے

آپ کیسے زمین پر اترے

چاند تو آسماں پہ رہتا ہے

جو بھی چاہے بجھا لے پیاس اپنی

دل مرا ندیوں سا بہتا ہے

آپ شاہدؔ کبیر ہیں یا نہیں

کون سنتا ہے کون کہتا ہے

٭٭٭

 

مہتاب کی کرنوں سے چھن کر جب رات سہانی ناچے گی

شیشے سے نکل کر ساغر میں انگور کی رانی ناچے گی

بجلی ہے بھری اس پانی میں پی پی کے یہ پانی ناچے گی

ہر بوند نچائے گی اس کی لہرا کے جوانی ناچے گی

یوں دور نہ جا، نزدیک تو آ، پیمانہ اٹھا، منہ سے تو لگا

تو اس کے لبوں کو چوم ذرا، یہ دلبر جانی ناچے گی

گھنگھور گھٹائیں اٹھیں گی لینے کو بلائیں اٹھیں گی

میخانے پہ بادل برسیں گے، رات ہو کے دیوانی ناچے گی

پھر مہکیں گی کلیاں سانسوں میں پھر پھول کھلیں گے آنکھوں میں

ساغر سے اتر کر رگ رگ میں جب مے کی روانی ناچے گی

ناچو گے جو لے کر پیمانہ بن جاؤ گے تم بھی افسانہ

اک روز تمہاری لوگوں کے ہونٹوں پہ کہانی ناچے گی

ہم جان ہیں اس مے کی شاہدؔ میخانے میں جب دیکھے گی ہمیں

جھومے گی صراحی میں پاگل،  بوتل میں روانی ناچے گی

٭٭٭

 

دستِ قاتل کو بھی ہم پیار کریں گے یارو

یہ تماشہ بھی سرِدار کریں گے یارو

صاحبِ عقل ہوتے ہیں دلیلوں سے خموش

ہم تو دیوانے ہیں تکرار کریں گے یارو

جو سزا ہے وہی ہر بار ملے گی ہم کو

جو کیا ہے وہی ہر بار کریں گے یارو

آؤ مل بیٹھ کے زخموں کا مداوا سوچیں

کب تلک درد کا اظہار کریں گے یارو

عمر کٹ جائے گی زنجیر کے کٹتے کٹتے

اب تو زنداں کو ہی گلزار کریں گے یارو

ہر تبسم کو جلا دیں گے لہو سے اپنے

احترام لب و رخسار کریں گے یارو

شاہدؔ عظمت رسم قفس و دار ہیں ہم

فخر ہم پر قفس و دار کریں گے یارو

٭٭٭

 

کبھی تم کو ہم سے بھی پیار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ زمانہ اپنے پیار کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

یوں ہی بھول جاؤ گے ایک دم، ہمیں ساتھ رکھنے کو وہ قسم

ہمیں کیا خبر ہمیں کیا پتا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی اک نظر جو حیات تھی، وہی اک زراسی جو بات تھی

مری زندگی کا سوال تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی تم کو ہم سے ملے بنا، نا تھا سہل وقت گزارنا

مگر اب ملو تو کہیں  بھی کیا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جو تھا وعدہ میں نے کبھی کیا، اسے جان دے کے نبھا دیا

میرے ہم نفس مرے دل ربا،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

 ٭٭٭

 

نیند سے آنکھ کھلی ہے ابھی دیکھا کیا ہے

دیکھ لینا ابھی کچھ دیر میں دنیا کیا ہے

باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو

ورنہ اپنا در  و  دیوار سے رشتہ کیا ہے

ریت کی اینٹ کی پتھر کی ہو یا مٹی کی

کسی  دیوار کے سائے کا بھروسا کیا ہے

گھیر کر مجھ کو بھی لٹکا دیا مصلوب کے ساتھ

میں نے لوگوں سے یہ پوچھا تھا کہ قصہ کیا ہے

سنگریزو کے سوا کچھ ترے دامن میں نہیں

کیا سمجھ کر تو لپکتا ہے اٹھا تا کیا ہے

اپنی دانست میں سمجھے کوئی دنیا شاہد

ورنہ ہاتھوں میں لکیروں کے علاوہ کیا ہے

٭٭٭

 

پانی کا پتھروں پہ اثر کچھ نہیں ہوا

روئے تمام عمر مگر کچھ نہیں ہوا

شعلوں کے اِس حصار میں تنہا کھڑا ہوں میں

سب اس طرف گئے ہیں جدھر کچھ نہیں ہوا

کیا حادثہ ہوا ہے مسافر کے ساتھ بھی

راہیں ہوئیں تمام سفر کچھ نہیں ہوا

ہونے کو یوں تو کیا نہیں ہو تا حیات میں

اک اپنی زندگی میں مگر کچھ نہیں ہوا

شاہدؔ سے کہہ رہا ہے کوئی حال پوچھ کر

اتنے اداس کیوں ہو اگر کچھ نہیں ہوا

٭٭٭

 

تمھارے شہر میں بھٹکے ہیں اجنبی کی طرح

کسی نے بات بھی پو چھی نہ آدمی کی طرح

بہت گراں تھی شب تار وہ تو خیر ہوئی

تم اس طرف جو نکل آئے چاندنی کی طرح

یہ ماہتاب سا کچھ ہے کہ ماہتاب ہے یہ

ستارے سوچ میں ڈوبے ہیں فلسفی کی طرح

کسی کی پیاس بجھانے کی آرزو لے کر

تمام دشت میں تنہا ہوں میں ندی کی طرح

زمانہ پھونک چکا تھا ہمیں مگر شاہدؔ

بکھر گئے ہم اندھیروں میں روشنی کی طرح

٭٭٭

 

شام آئی سنور گئے چہرے

رستہ رستہ بکھر گئے چہرے

خود کو اب ڈھونڈنے کدھر جائیں

ساری راہوں کو بھر گئے چہرے

جن کے دم سے تھی شہر کی رونق

کیا ہوئے وہ کدھر گئے چہرے

ویسے جاتے تو کوئی بات نہ تھی

جان پہچان کر گئے چہرے

اپنی پہچان کھو چلی دنیا

جسم زندہ ہیں مر گئے چہرے

تیرا آنا تھا سانحہ شاہدؔ

ہنستے ہنستے اتر گئے چہرے

٭٭٭

 

پھولو ں کی برسات ہوئی انگنائی میں

ہار گلے کے ٹوٹ گئے انگڑائی میں

رونے سے اب کیا ہو گا تنہائی میں

چیخیں بھی جب ڈوب گئیں شہنائی میں

چپ رہنے میں گھٹ گھٹ کر جب مرنا ہے

ڈھونڈ نہ لیں کیوں راہ کوئی رُسوائی میں

جانے کس کی آس لئے روتی آنکھیں

دیپ جلائے بیٹھی ہیں پروائی میں

ہنستی ہوئی آنکھوں میں بھی غم پلتے ہیں

کون مگر جھانکے اتنی گہرائی میں

نام تمھارا سنتے ہی چونک اٹھتا ہے

تھوڑا تھوڑا ہوش بھی ہے سودائی میں

محفل میں ہنسنے کو کہاں سے لاؤں ہنسی

اکثر سوچا کرتا ہوں تنہائی میں

یوں ہی نہیں شاہدؔ کی زباں پر چھالے ہیں

آنچ بلا کی ہوتی ہے سچائی میں

٭٭٭

 

بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے

ہم خفا کب تھے منانے کی ضرورت کیا ہے

آپ کے دم سے تو دنیا کا بھرم ہے قائم

آب جب ہیں تو زمانے کی ضرورت کیا ہے

تیرا کوچہ ترا در تیری گلی کافی ہے

بے ٹھکانوں کو ٹھکا نے کی ضرورت کیا ہے

دل سے ملنے کی تمنا ہی نہیں جب دل میں

ہاتھ سے ہاتھ ملانے کی ضرورت کیا ہے

٭٭٭

 

دستک ہے کہ پتا کوئی کھڑکا ہے کہ تم ہو

محسوس ہر آہٹ پہ یہ ہوتا ہے کہ تم ہو

آتی ہے دبی چاپ سی تم ہو کہ صبا ہے

آنگن میں کوئی پھول چٹکتا ہے کہ تم ہو

بر سات کی اس رات میں رہ رہ کے اچانک

کوندا سا گھٹاؤں سے لپکتا ہے کہ تم ہو

بادل میں تو ہے چاند سمیٹے ہوئے کرنیں

زینے سے اتر تا ہوا سایہ ہے کہ تم ہو

کھیلے ہے اندھیروں سے جو دور آنکھ مچولی

لہراتا ہوا شمع کا شعلہ ہے کہ تم ہو

کوئی نہیں ہوتا مگر ہونے کے گماں پر

ہر رات یہ دل ایسے دھڑکتا ہے کہ تم ہو

سوکھے ہوئے زخموں کو کبھی پیار سے شاہدؔ

جھونکا کوئی چھو جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

٭٭٭

 

خاموش کیوں ہو جانے جاں، کچھ میں کہوں کچھ تم کہو

بیتے دنوں کی داستاں، کچھ میں کہوں کچھ تم کہو

جب مل گئے تو یوں لگا، مر جائیں گے ہو کر جدا

اب تک کٹی کیسے کہاں،کچھ میں کہوں کچھ تم کہو

گم سُم جو ہم چلتے رہے، بڑھ جائیں گے یہ فاصلے

کٹ جائیں گی تنہائیاں،کچھ میں کہوں کچھ تم کہو

کیا راز ہے کیا بات ہے، ڈرتے ہو کیوں کہتے ہوئے

کوئی نہیں اب درمیاں،کچھ میں کہوں کچھ تم کہو

جو دوست تھے ہم راز تھے، اب تک جو اپنے ساتھ تھے

کیوں ہو گئے وہ بد گماں،کچھ میں کہوں کچھ تم کہو

یہ رات غم کی کاٹ لیں، مل جل کے سکھ دکھ بانٹ لیں

پاس آؤ  بیٹھو مہرباں،کچھ میں کہوں کچھ تم کہو

چپ چاپ کیوں ہو کچھ کہو، شعروں پہ میرے داد دو

کہنے کا مطلب ہے میاں،کچھ میں کہوں کچھ تم کہو

٭٭٭

 

میں نہ ہندو نہ مسلمان مجھے جینے دو

دوستی ہے مرا ایمان مجھے جینے دو

ہر قدم پر حرم و دیر کی باتیں کر کے

مت کرو مجھ کو پریشان مجھے جینے دو

کوئی احساں نہ کرو مجھ پے تواحساں ہو گا

صرف اتنا کرو احسان مجھے جینے دو

زندگی اور میری کیا ہے یہی زندہ دلی

اور یہی ہے میری پہچان مجھے جینے دو

موت آئے گی تو ہنستے ہوئے مر جاؤں گا

زندگی ہے تو میری جان مجھے جینے دو

لوگ ہوتے ہے جو حیران میرے جینے سے

لوگ ہوتے رہے حیران مجھے جینے دو

سب کے دکھ درد کو بس اپنا سمجھ کر جینا

بس یہی ہے میرا ارمان مجھے جینے دو

گھول کر جام میں دکھ درد زمانے بھر کے

زندگی کرنے دو آسان مجھے جینے دو

٭٭٭

 

اب ترے غم سے تعلق کوئی پل کا تو نہیں

دل میں رہتا ہے کبھی آنکھ سے چھلکا تو نہیں

تھوڑی ہی دیر میں اڑ جائے جو خوشبو کی طرح

رنگ یادوں کا تری اس قدر ہلکا بھی نہیں

دل کشی بھی ہے تحیر بھی ہے تقدیس بھی ہے

عکس آنکھوں میں مری تاج محل کا تو نہیں

لاکھ سورج ہو کھڑا سر پہ تو کیا ہوتا ہے

دن کہا ں نکلے گا آنچل ترا ڈھلکا تو نہیں

ہر کسی کو نہیں اس شخص کی تعریف کا حق

وہ میرا یار ہے محبوب غزل کا تو نہیں

٭٭٭

 

غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی

یہ نذرانہ تیرا بھی ہے میرا بھی

اپنے غم کو گیت بنا کر گا لینا

راگ پرانا تیرا بھی ہے میرا بھی

کون ہے اپنا کون پرایا کیا سوچین

چھوڑ زمانہ تیرا بھی ہے میرا بھی

شہر میں گلیوں گلیوں جس کا چرچا ہے

و افسانہ تیرا بھی ہے میرا بھی

تو مجھ کو اور میں تجھ کو سمجھاؤں کیا

دل دیوانہ تیرا بھی ہے میرا بھی

میخانے کی بات نہ کر واعظ مجھ سے

آنا جانا تیرا بھی ہے میرا بھی

جیسا بھی ہے شاہدؔ کو اب کیا کہئے

یار پرانا تیرا بھی ہے میرا بھی

٭٭٭

 

تم سے ملتے ہی  بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے

دل ملے تو جان کے دشمن قبیلے ہو گئے

آج ہم بچھڑے ہیں تو کتنے رنگیلے ہو گئے

میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہو گئے

اب تیری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند

ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے

کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں مگر

چھو کے جب دیکھا تو میرے ہاتھ گیلے ہو گئے

اب کوئی امید ہے  شاہدؔ نہ کوئی آرزو

آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلے ہو گئے

٭٭٭

 

ٹھکراؤ اب کہ پیار کرو میں نشے میں ہوں

جو چاہو میرے یار کرو میں نشے میں ہوں

اب بھی دلا رہا ہوں یقینِ  وفا مگر

میرا نہ اعتبار کرو میں نشے میں ہوں

اب تم کو اختیار ہے اے اہلِ  کارواں

جو راہ اختیار کرو میں نشے میں ہوں

گر نے دو تم مجھے مرا ساغر سنبھال لو

اتنا تو میرے یار کرو میں نشے میں ہوں

اپنی جسے نہیں اسے شاہدؔ کی کیا خبر

تم اس کا انتظار کرو میں نشے میں ہوں

٭٭٭

 

آج کا دن تو بیت چکا ہے آج کی شب بھی کٹ جائے گی

کل کے دن کی عمر بھی یوں ہی دکھ اور سکھ میں بٹ جائے گی

جھانک رہا ہے سورج لیکن لوگ ابھی تک اُونگھ رہے ہیں

سارا گاؤں جاگ اُٹھے گا گوری جب پنگھٹ جائے گی

آپ خفا ہو یا شرمائیں روپ نکھرتا ہی جائے گا

یا ماتھے پر بل آئیں گے یا چہرے پر لٹ جائے گی

دھوپ رسوئی تک آ پہنچی بس اب وہ آتے ہی ہوں گے

پیاز کترنا چھوڑ سہیلی ورنہ انگلی کٹ جائے گی

باغ کی سحر انگیز فضا سے نکل بھی چلیے شاہدؔ جی اب

بُت کی صورت کھڑے رہے تو کوئی بیل لپٹ جائے گی

٭٭٭

تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید