FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

انشائیہ کی روایت، مشرق و مغرب کے تناظر میں

 

 

                محمد اسد اللہ

 

پتہ: ۳۰؍گلستان کالونی، نزد پانڈے امرائی لانس

جعفر نگر، ناگپور۔ ٍ۴۴۰۰۱۳(مہاراشٹر)

 

 

 

 

شناس نامہ

 

نام             :       محمّد اسد اللہ

والد کا نام              :      محمد مشرف

مقامِ پیدائش   :       وروڈ، ضلع امراوتی (مہاراشٹر)

تاریخِ پیدائش   :       16جون 1958

تعلیم           :       ایم۔ اے۔ (اردو، عربی، انگریزی، فارسی )، بی ایڈ،          پی ایچ ڈی، ڈپلوما ان جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن۔

ملازمت               :       مولانا ابوالکلام آزاد جو نئیر کالج، گاندھی باغ، ناگپور

پتہ            :       30۔ گلستان کالونی، پانڈے امرائی لانس                                                         (ویسٹ)، جعفر نگرناگپور440013

فون نمبر        :       +91 9579591149

ای میل        :       zarnigar2006@yahoo.com

تصانیف

1۔ جمالِ ہم نشیں                (مراٹھی مزاحیہ ادب کے تراجم )1985

2۔ بوڑھے کے رول میں   (انشائیے )1991

3۔ پر پرزے            ( طنزیہ و مزاحیہ مضامین)1992

4۔ دانت ہمارے۔ ۔        ( مراٹھی مزاحیہ کہانیوں کے تراجم )1996

5۔ ہوائیاں             ( مزاحیہ مضامین، ریڈیو نشریات)1998

6۔ صبحِ زرنگار            (مرتّبہ یک بابی ڈرامے ) 2001

7۔ پرواز                ( مرتّبہ کوئز )2005

8۔ خواب نگر           (بچوں کے لئے نظمیں )2008

9۔ پیکر اور پرچھائیاں      (تحقیقی و تنقیدی مضامین)2012

10۔ گپ شپ         (بچوں کے لئے کہانیاں و مضامین )2013

11۔ انشائیہ کی روایت، مشرق و مغرب کے تناظر میں (تحقیق) 2015

 

انعامات و اعزازات

  • جمالِ ہمنشیں ( 1986)     مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادیمی ممبئی
  • پر پرزے ( 1993) مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادیمی ممبئی
  • • اردو مراٹھی خدمات کے لئے سیتو مادھو پگڑی ایوارڈ( 1997 )

مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادیمی ممبئی

  • • ہوا ئیا ں    ) (1999 مغربی بنگال اردو اکاڈیمی کا انعام۔
  • خواب نگر ( 2013)       احمد جمال پا شا ایوارڈ، بہار اردو اکاڈیمی کا انعام
  • • پیکر اور پرچھائیاں (2013) مہاراشٹر، بہار اور اتر پردیش اردو

اکاڈیمی کے انعامات

یک بابی ڈرامے

  • • دولہا لے لو دولہا   (اوّل، بہترین اسکرپٹ)   1998
  • • اسٹاف روم   (، بہترین اسکرپٹ) 1999
  • ناگپور یونی ورسٹی میں ایم اے ( عربی ) کے امتحان میں امتیازی کامیابی پر

1۔ ایچ ایم ملک گولڈ میڈل،

2۔ پرگیا گنپت را ؤ گولڈ میڈل،

3۔ یاسر عرفات گولڈ میڈل۔

  • • ایم اے ( عربی ) کے امتحان میں مہاراشٹر میں امتیازی کامیابی پر

انجمن اسلام ممبئی کی جانب سے انعام۔

  • • مہاتما پھلے بھارتیہ ٹیلینٹ ریسرچ اکاڈیمی ایوارڈ 2008
  • ودربھ مسلم گو رو پرسکار، ناگپور 2008
  • مہاتما جیوتی با پھلے فیلو شپ ایوارڈ 2008
  • ڈاکٹر چندر موہن تُلناتمک ساہتیہ راشٹریہ سنمان، 2009
  • منی رتنم شکشک گو رو پرسکار، 2011
  • آل انڈیا افسانہ نویسی مقابلہ (بہترین کہانی عورت) تیسرا انعام 2005
  • بیسٹ ٹیچرس ایوارڈ آ ف یو نائیٹید اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن، ناگپور 2003
  • ریاستی آ درش شکشک پرسکار، مہاراشٹر ٹیچرس کونسل، ناگپور2009
  • تعلیمی سفر ریاستی ایوارڈ، اوصاف گرو پ آف نیوز پیپرس، لاتور 2012
  • ساہتیہ ساگر اُپادھی، مہاتما پھلے ٹیلینٹ ریسرچ اکادیمی، ناگپور 2013
  • ساہتیہ رتن، راشٹریہ ساہتیہ کلا و سنسکرتی پریشد، ہلدی گھاٹی، راجستھان 2013

 

سماجی سر گر میاں

  • 1۔ سیکریٹری، ادبستان، ناگپور
  • 2۔ صدر، انجمن ترقّیِ اردو، شاخ، ناگپور
  • 3۔ صدر، العروج ایجوکیشنل فرنٹ، ناگپور
  • 4۔ سیکریٹری، گلستان کا لونی ویلفیر ایسو سی ایشن، ناگپور
  • 5۔ سابق سیکریٹری، ینگ مسلم پروگریسیو ایسوسی ایشن، وروڈ
  • 6۔ سابق خازن، حسن بشیر پبلک لا ئبریری، وروڈ
  • 7۔ سابق رکن، یشونت راو پرتِشٹھان، ناگپور
  • 8۔ سابق رکن مہاراشٹر راشٹر بھاشا سبھا، پونے، شاخ، ناگپور
  • 9۔ رکن مراٹھی بو لی ساہِتیہ سنگھ، ناگپور
  • 10۔ رکن بھارتیہ دلِت ساہِتیہ اکادمی، ناگپور

11۔ رکن، برار مسلم لٹریری فورم، امراؤتی

مجلسِ ادارت میں رکنیت

  • 1۔ مدیر، مُجلّہ تہذیب الکلام، ناگپور، چھ شمارے (2000تا 2011 )
  • 2۔ رکن، مجلسِ ادارت، مشاہیرِ برار، (جلد دوّم )
  • 3۔ رکن، مجلسِ ادارت، کماربھارتی، 2007 ، (اردو کی درسی کتاب      برائے جماعت دہم ) مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آ ف ایجوکیشن، پونہ           4۔ رکن، مجلسِ ادارت مجلہ عروج، بیادگار125 سالہ جشنِ یومِ تاسیس،      انجمن حامیِ اسلام، ناگپور 2013

5۔ رکن، اسٹینڈنگ کمیٹی، بال بھارتی، پونے۔

انتخابات ا ور درسی کتابوں میں شمولیت

1۔ بائیسکل کی رفاقت میں (انشائیہ)

مشمولہ : تعارفِ اردو، برائے جماعت نہم، مہاراشٹر ایجوکیشن بورڈ، پونے 1994

2۔ پیڑ نہ کٹنے پائے (نظم)

مشمو لہ :   بال بھارتی، برائے جماعت دوم، پونے 2013

3۔ پریس کئے ہوئے کپڑے (انشائیہ)

مشمو لہ : منتخب انشائیے، مرتبہ، سلیم آغا قزلباش، لاہور 1984

4۔ انڈر لائن (انشائیہ )

مشمو لہ : نئے انشائیے، مرتبہ، سلیم آغا قزلباش، لاہور 1992

5۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن

بال بھارتی، برائے جماعت پنجم، پونے 2014

6۔ یشونت راؤ چوہان مہاراشٹر اوپن یونی ورسٹی، ناسک کی نصابی کتابوں

کی تدوین۔ غیر افسانوی ادب(اردو انشائیہ)، تراجم

7۔ مجلسِ مترجمین، ماحول کا مطالعہ برائے جماعت سوم، (بال بھارتی) میں شمولیت

٭٭٭

 

 

 

 

پیش لفظ

 

انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں، بظاہر میری چند بر سوں پر محیط تحقیقی کا وشوں کا نتیجہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تلاش وجستجو اور تفکر کا یہ سلسلہ میرے تخلیقی سفر کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ قلم سنبھالتے ہی مجھے ذاتی قسم کے احساسات کی تخلیقی صورت گری کے لئے مناسب ذریعہ اظہار کی جستجو ہوئی اور نظرِ انتخاب انشائیہ پر پڑی۔ میں نے اس صنف کے فنی آ داب و رموز جاننے کی کوشش کی۔ اسی شوق نے مغربی انشا پردازوں کے رشحاتِ قلم سے استفادہ کی راہ روشن کی۔ میں نے اسی زمانے میں اوراق، ادبِ لطیف اور تخلیق، لاہور (پاکستان) میں انشائیے لکھے۔

گزشتہ ربع صدی میں انشائیہ برصغیر میں اردو کے ادبی حلقوں میں بحث کا ایک مستقل موضوع رہا ہے۔ انشائیہ پر چند مستقل تحقیقی تصانیف کی اشاعت کے علاوہ کئی تحقیقی و تنقیدی مضامین اور متعدد رسائل کے انشائیہ نمبر شائع ہو چکے ہیں۔ اردو انشائیہ (انور سدید )، انشائیہ کی بنیاد (سلیم اختر )، ممکناتِ انشائیہ (مشکور حسین یاد )، اردو کا بہترین انشائی ادب(وحید قریشی) جیسی اہم کتابوں نے انشائیہ کے فن پر قابلِ قدر مواد مہیا کر دیا ہے۔ انشائیہ کے مختلف انتخابات میں شامل مقدموں اور دیباچوں نے انشائیہ کے تعارف و تنقید کافریضہ انجام دیا۔ پا کستان سے شائع ہو نے والے مقتدر جرائد ادب لطیف اور اوراق (لاہور) نے اس صنف سے متعلق تنقیدی مباحث مضامین اور تخلیقی فن پاروں کو اپنے صفحات پر خصوصی اہتمام کے ساتھ پیش کیا۔ علاوہ ازیں اردو کے مقتدر ناقدین کے تنقیدی مضامین کی موجودگی میں بظاہر اس صنف پر تحقیقی کام کی گنجائش کم ہی نظر ہی آ تی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء پذیر اصنافِ ادب اپنے دامن میں تخلیقی امکانات کا ایک جہاں چھپائے ہوئے ہو تی ہیں اور ادبی تنقید تو ایک سائے کی مانند تخلیق کی پیر وی پر مجبور ہے۔ اس سائے کے قد و قامت کا تعین تخلیق کے وجود پر منحصر ہے۔ انشائیہ کے ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ انشائیہ اردو کی سب سے زیادہ متنازعہ فیہ صنف ہے، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا۔ اس پر جس قدر مباحث وجود میں آئے، اردو انشائیہ کا مسئلہ اسی قدر الجھتا گیا۔ حتیٰ کہ اس کے متعلق یہ کہا گیا کہ انشائیہ کو کثرت تعبیر نے ایک خوابِ پریشاں بنا دیا۔ ان مختلف و متنوع آراء کی موجود گی میں تفکر اور تلاش و جستجو کی راہیں کھلی ہو ئی ہیں۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر میں نے اردو انشائیہ کو تحقیق کا موضوع بنایا۔

اردو کی دیگر اصناف کی بہ نسبت انشائیہ کا مسئلہ اس لئے بھی مختلف ہے کہ دیگر اصناف کے ساتھ ارتقاء، رجحانات اور نئی اور پرانی قدروں کے رد و قبول کے مسائل وابستہ ہیں اس کے بر عکس انشائیہ کی بحث کا آغاز ہی ان سوالات سے ہو تا ہے کہ اردو انشائیہ کا بانی کون ہے ؟ انشائیہ کی ہیئت ؟انشائیہ کا شناختی نشان ؟ اس کی ادبی قدر و قیمت کیا ہے ؟ وغیرہ۔

اردو میں انشائیہ کی پہچان کا مسئلہ بھی بحث کا موضوع رہا ہے۔ اس کتاب کی ابتدا میں ’ انشائیہ کی شناخت ‘کے تحت انشائیہ کی ہیئت، مواد، زبان، اسلوب، طنز و مزاح کی شمولیت اور انشائیہ کے فن سے متعلق متعدد پہلوؤں پر بحث کر کے انشائیہ کو بحیثیت ایک ’کل ‘اختیار کر نے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ انشائیہ کے مختلف محاسن کی صحیح پہچان کے با وجود بھی یہ ممکن ہے کہ فن پارے میں انشائیہ کی داخلی وحدت مفقود ہو۔ اس صورت میں وہ تحریر صنف انشائیہ کی نمائندہ تخلیق قرار نہیں دی جائے گی۔ اسی باب میں انشائیہ کی اصطلاح کے تحت اردو ادب میں انشائیہ کا ظہور اور تاریخی اعتبار سے اردو میں مضمون نگاری کے فارم میں رونما ہو نے والی تبدیلیوں کا سلسلہ نئے انشائیہ نگاروں تک پہنچتے پہنچتے جن نشیب و فراز سے دو چار ہوا اس کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انگریزی انشائیہ کے برعکس شخصی اور ذاتی اظہار کا رواج اردو میں بہت تاخیرسے شروع ہوا۔

ہمارے عہد میں جمہوری نظریات نے فرد کی ذات کو خصوصی اہمیت عطا کی ہے۔ انشائیہ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کی پیدا وار ہے اس لیے اسے فکری آزادی اور ندرتِ اظہار کا علمبردار خیال کیا جا تا ہے۔ اس کے علاوہ تحلیل و تجزیہ انشائیہ کے اہم اجزاء ہیں۔ بظاہر یہ نثر کی خوبیاں ہیں اور رمز و ایمائیت شاعری کا زیور، لیکن انشائیہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے نثر اور شاعری کی ان خصوصیات کو حسنِ توازن کے ساتھ اپنے اندر سموکرایک نئی قوت کے ساتھ ماورائی مفہوم کے اظہار پر قدرت حاصل کی ہے۔ اسی کے ساتھ فلسفیانہ خیالات کی آمیزش بھی انشائیہ میں پائی جاتی ہے اسی لئے طنزیہ طور پر اسے درمیانی صنف کہا گیا ہے۔

ہمارے عہد میں ٹیلیویژن کے فروغ نے تحریری ادب کے مستقبل کو تاریک تر بنا دیا ہے ٹیلیویژن کے سبب بصری پیکروں کی پیش کش نے ناظرین کی قوتِ تخیل کو جس انداز سے متاثر کر نا شروع کیا ہے اسے ایک زبردست شخصی انحطاط سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ انشائیہ بحیثیت ایک صنفِ ادب اس تخلیقی قوت کو اور اس ذہنی استطاعت کو جو بین السطور میں موجود معانی از خود در یافت کرتی ہے تقویت پہنچاتا ہے کیونکہ ایک کامیاب انشائیہ اپنے اختتام پر ہمیں سوچنے اور اس میں موجود خلاء کو اپنے تخیل اور فکر سے پر کر نے کی دعوت دیتا ہے۔ انشائیہ تخیلی اور تجزیاتی قوت کے احیا ء کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے اس لحاظ سے مستقبل میں جن اصناف کی ترویج و بقاء کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے ان میں انشائیہ ضرور شامل ہو گا۔

انگریزی ایسّے ہی کی طرح مضمون نگاری کے فارم کو بھی اردو میں صحافت نے اپنا کر پیش قدمی کی ہے، اردو کے برعکس انگریزی صحافت کے میدان میں موجود ادیبوں مثلاً سٹیل، ایڈیسن، ہزلٹ، چسٹرٹن، رابرٹ لِنڈ وغیرہ ادیبوں کی ایک نسل نے روزمرہ کی خبروں سے ایک قدم آگے بڑھ کر انشائیہ کو دشتِ امکان میں تمنّا کا دوسرا قدم بنادیا۔ اس کے برعکس اردو میں اودھ پنچ کے دور میں مخصوص صحافیانہ مزاج نے اسے ضلع جگت، پھبتی اور طنز و تعریض کا خو گر بنایا، آ گے چل کر ہمارے بزرگ ادیبوں مثلاً پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی، مرزا فرحت اللہ بیگ، کرشن چندر اور مشتاق احمد یوسفی کے ہاتھوں مضمون نگاری کا یہ فارم صیقل ہوا لیکن اس کی بنیاد میں طنز و مزاح کا عنصر غالب رہا۔ انگریزی انشائیہ نگاروں نے ایسّے کو جس تحلیل و تجزیہ، تخیل آفرینی اور احتساب کا عادی بنایا تھا، اس کے علاوہ انگریزو ں کی فطری کم آمیزی نے اسے جس مراقبائی کیفیت سے سر شار کر کے خود انکشافی کا ذریعہ بنایا، ہمارا انشائیہ اس داخلی اور روحانی فضا کو عرصہ دراز تک ترستاہی رہا۔

اردو انشائیہ کو مغربی انشائیہ کے طرز پر استوار کر نے کی کوششوں نے اسے ایک نئے موڑسے ہم کنار کر دیا۔ حسنِ اتفاق سے اسی موڑ پر اس صنف کے لئے لفظ انشائیہ اپنایا گیا۔ اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں ’انشائیہ کے اولین نقوش ‘کے تحت سب رس اور خطوطِ غالب میں موجود انشائی خوبیوں کی نشان دہی کر نے کی کو شش کی گئی ہے۔

بیسویں صدی میں ہمارے انشا پردازوں نے انشائیہ سے قریب تر تحریریں پیش کی ہیں اس دور میں ہمیں میر ناصر علی اور خواجہ حسن نظامی جیسے صاحبِ طرز ادیب نظر آ تے ہیں جن کی تخلیقات اپنی بعض انشائی خصوصیات کے سبب اردو میں انشائیہ کے ظہور کی بشارت ثابت ہوئیں۔

مجموعی طور پر بیسویں صدی ذہنی تشنج اور ذہنی قطعیت سے آزادی کی فضا میں آ سودگی کے ساتھ تفکر کا انداز پیش کرتی ہے۔ اس دور میں انشائیہ کے بیشتر خواص کو ہمارے فنکاروں نے جزوِ تحریر بنایا۔ آزادی کے آ س پاس ملک کی تقسیم اور پھر ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر طنز کی تلخی خاص طور پر اردو نثر میں نمایاں ہے جو انشائیہ کے مزاج کے منافی تصور کی جاتی ہے۔ اس فضا کے بدلنے کے بعد سکون و عافیت کے لمحات میں انشائیہ کی طرف لوٹنے کا عمل نظر آ تا ہے اسی میں اپنی تہذیبی جڑوں کی تلاش، شناخت کی سعی بھی نظر آ تی ہے چنانچہ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کے دوران مرزا ادیب اور وزیر آغا کی کوششوں کے نتیجے میں انشائیہ کا شعور عام ہوا عصری انشائیہ کے تحت نئی نسل کی تخلیقات کا تفصیلی جائزہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔

اردو انشائیہ پر جو مضامین اور کتابیں منظرِ عام پر آئیں ان میں سے بیشتر مغربی مفکرین کے خیالات کی باز گشت ثابت ہوئیں۔ اس کتاب میں انشائیہ سے متعلق اختلافِ رائے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

اردو انشائیہ سے متعلق نظیر صدیقی اور مشکور حسین یاد کے نظریات اپنی انفرادیت کا احساس دلانے کے باوجود انشائیہ کا واضح تصور پیش کر نے سے قاصر ہیں۔ مشکور حسین یاد نے جو انشائیہ کو امّ ُ ُالاصناف خیال کرتے ہیں ’ ممکنات انشائیہ ‘میں انشائیہ کے فنّی آداب و رموز سے متعلق بعض اہم نکات پیش کئے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا خود انکشافی اور ندرتِ خیال کو انشائیہ کے وجود کا جواز تصور کرتے ہوئے اسے پر سنل ایسّے کے خطو ط پر اردو ادب میں رائج کرنے کے لیے کو شاں رہے۔

انور سدید اور سلیم اختر کی کتابیں انشائیہ کی مغربی روایت سے لے کر اردو میں انشائیہ کی فنی صورتِ حال سے متعلق حیرت انگیز طور پر ہم خیال ہو نے کا احساس دلاتی ہیں۔ سلیم اختر کی تصنیف ’ انشائیہ کی بنیاد‘ میں انشائیہ کا بانی کون ؟ یہ مسئلہ نزاع کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ انشائیہ چونکہ اردو میں ایک درآمدی صنف ہے لہٰذا یہ سوال اردو میں بے معنی سا معلوم ہو تا ہے دوم یہ کہ انشائیہ کا ارتقاء مغرب میں جن عوامل کا مرہونِ منت ہے اردو میں وہ ترتیب قائم نہیں رہ پائی۔

انشائیہ کے مختلف انتخابات میں انشائیہ کے متعلق مضامین قلم بند کئے گئے ہیں اس ضمن میں ڈاکٹر اختر اورینوی نے اکبر علی قاصد کی کتاب ’ترنگ‘ کے دیباچے میں انشائیہ کو پہلی مرتبہ صحیح طور پر اردو میں متعارف کروانے کی کوشش کی لیکن تخلیقی مواد کی پرکھ میں وہ بھی پوری طرح کامیاب نہ ہو پائے۔

اسی طر ح انشائیوں کے دیگر انتخاب مثلاً’ اردو ایسیز ‘کے دیباچے میں ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی نے انگریزی میں ایسّے نگاری کی روایت کا بھر پور تعارف پیش کرتے ہوئے انشائی مزاج کی حامل تحریروں کا ایک انتخاب پیش کیا ہے۔ ظہیر الدین مدنی نے ان کے لئے لفظ انشائیہ استعمال نہیں کیا۔ اسی کتاب میں نیاز فتح پوری نے اس صنف کے لیے ’ طیفیہ ‘ کا لفظ تجویز کیا۔ انشائیوں کے دیگر انتخابات مثلاً اردو کا بہترین انشائیہ (ڈاکٹر وحید قریشی ) صنف انشائیہ اور انشائیے (ڈاکٹر سید محمد حسنین )، اردو انشائیہ (سید صفی مرتضیٰ ) انشائیہ( ڈاکٹر آ دم شیخ )میں انشائیہ کی صحیح تعریف پیش کر نے کے ساتھ ہی طنزیہ و مزاحیہ مضامین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں زیرِ بحث موضوع پر دستیاب تصانیف، مضامین اور تخلیقی مضامین سے استفادہ کے بعد انشائیہ کی صورتِ حال، اس کی ابتدا، صنفی خصوصیات، ہمارے بزرگ انشا پردازوں اور نئی نسل کے فنکاروں کی تحریروں پر غور و خوض کے بعد نتائج اخذ کئے گئے ہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک انشائیہ مغرب سے در آ مد شدہ صنف ہے۔ البتہ ہماری تہذیبی روایات اور زبان و ادب نے اس پر اپنے تاثرات مرتسم کر کے انشائیہ کو اپنانے کی کو شش کی ہے۔ اسی لیے اس میں ہماری مٹّی کی بو باس بھی در آ ئی ہے۔ انشائیہ کی پرکھ کے سلسلے میں مغربی انشائیہ کی روایت نیز مشرقی زبان و ادبیات سے استفادہ کی گنجائش کو مد نظر رکھتے ہوئے انشائیہ کا مطالعہ کیا گیا ہے۔

میں اسے نعمتِ خداوندی تصور کرتا ہوں کہ میرے اکثر احباب اور اساتذہ کی نیک خواہشات اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی اور میری دیرینہ آرزو پوری ہوئی۔ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی کا ممنون ہوں جس کی مالی اعانت سے اشاعت کا راستہ ہموار ہوا۔ استاذی مرحوم ڈاکٹر سید نعیم الدین نے مجھے اس موضوع پر کام کر نے کا مشورہ دیا تھا اور قدم قدم پر میری رہنمائی فرمائی، تحقیق کے آداب و رموز سے آشنا کیا۔ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فر مائے۔

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے مقدمہ تحریر فرما یا، میں ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں ڈاکٹر شرف الدین ساحل صاحب کا بصمیمِ قلب شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب سے متعلق اظہارِ خیال کیا۔

میں ان تمام افراد کا ممنون ہوں جنھوں نے اس کتاب کی طباعت، تدوین اور   اشاعت میں کسی بھی طرح سے تعاون سے نوازا اور رہنمائی فرمائی، خصوصاً استادِ محترم ڈاکٹر سید صفدر، محترم ڈاکٹر آغا غیاث الرحمٰن، محترم ڈاکٹر رضی الدین معروفی، ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب، جناب محمد امین الدین، مدیر ماہنامہ قرطاس، ناگپور، جناب جاوید اختر فیروز حسن کامٹوی، محمد رفیع الدین اور محمد اختر الدین معروفی۔

میری شریکِ حیات فرزانہ اسد اور فرزندان توصیف احمد اور محمد انس کی کوششوں نے کتاب کی کمپوزنگ، سرورق کی تزئین اور اشاعت کے مراحل کو آ سان کر دیا، میں ان کا بھی شکر گزار ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

مقدمہ

 

گفتنی

 

                ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی

 

محمد اسد اللہ انشائیہ نگار ہیں انہوں نے زندگی کے بہت سارے پہلو کے الگ الگ نقوش کو ابھارا ہے۔ وہ جانتے ہیں انشائیہ کو نہ تو فلسفہ سے کوئی تعلق ہے نہ اسے اخلاق سے کوئی واسطہ ہے اور نہ وطن پرستی سے اسے کوئی لگاؤ ہے۔ دراصل انشائیہ میں ایک سلیس اور شگفتہ اندازِ بیان اختیار کیا جا تا ہے یہ عمیق خیالات اور علمی مباحث کو برداشت نہیں کرتا اور نہ سنجیدہ طرزِ بیان اور ثقیل الفاظ کی اس میں گنجائش ہے۔ محمد اسد اللہ اس باریک فرق سے واقف ہیں اسی لئے انشائیہ صنف میں طبع آزمائی کر کے انہوں نے اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔ اردو انشائیہ کے مجدد ڈاکٹر وزیر آغا ان کے بارے میں لکھتے ہیں :

’انشائیہ دراصل جونی اور عہدِ پیری کے سنگم پر نمودار ہوتا ہے یعنی دھڑ یا سر میں سے کسی ایک کا بوڑھا یا جوان ہونا ضروری ہے۔ ۔ ۔ ۔ محمد اسد اللہ کی خوبی یہ ہے کہ اس نے موضوع پر جوانی کے لہو کی مدد سے سوچا ہے۔ مگر اپنی ذات میں مضمر عہدِ پیری کی مدد سے سوچ کو توازن اور اعتدال سے مملو بھی کیا ہے۔ محمداسداللہ نے گہری سے گہری بات کے بیان میں تازہ کاری اور اپج کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے ہاں ندرتِ خیال ہے جو بنے بنائے تراشیدہ اقوال کی پیوست پر ہمیشہ سے خندہ زن رہی ہے۔ ‘

اور انشائیہ کے ایک بڑے علمبردار ڈاکٹر انور سدید کی رائے ہے :

محمد اسد اللہ کے موضوع کے باطن میں اترنے اور پھر ایک ان دیکھی کائنات سے باتیں کر نے کا ملکہ حاصل ہے۔ وہ صورتِ واقعہ سے گریز کرتے ہوئے۔ حقیقت کو موضوعی آنکھ سے دیکھتے اور اختصار و جامعیت سے معنویت کے نئے پھول کھلا دیتے ہیں۔ ‘

انشائیہ کے جسم کو توانائی بخشنے کے بعد محمد اسد اللہ نے مشرق اور مغرب کے تناظر میں انشائیہ کی روایت پر بھر پور اور نئے انداز کی کتاب لکھی ہے جسے انہوں نے درج ذیل ابواب میں تقسیم کیا ہے۔

 

۱۔ انشائیہ کیا ہے ؟

۲۔ مغرب میں انشائیہ کی روایت۔

۳۔ اردو میں انشائیہ کے اولین نقوش۔

۴۔ بیسویں صدی میں انشائیہ نگاری۔

۵۔ عصری انشائیہ۔

 

اس سے قبل اردو میں انشائیہ کی چند اہم کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اردو کا بہترین انشائیہ( ڈاکٹر وحید قریشی )صنف انشائیہ اور انشائیے (ڈاکٹر سید محمدحسنین )اردو انشائیہ (سید مرتضیٰ )انشائیہ ( ڈاکٹر آدم شیخ )چند اہم انشائیوں کا تجزیاتی مطالعہ (ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی )کے ساتھ اردو انشائیہ ( ڈاکٹر انور سدید)، انشائیہ کی بنیاد ( ڈاکٹر سلیم اختر)ممکناتِ انشائیہ ( مشکور حسین یاد )اردو کا بہترین انشائی ادب (وحید قریشی )جیسی تنقیدی کتابیں روشن راہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان میں فنی آ داب و رموز ہیں اور تعارف و تنقید بھی ہے۔ ان سب کو اور انشائیہ پر دیگر مضامین کو سامنے رکھ کر محمد اسد اللہ نے اندازہ لگایا کہ اس صنف کے تعین میں الجھاؤ پیدا ہو گیا ہے اور مباحث رد و قبول کے درمیان شناختی نشا ن پر سوال کھڑا کر رہے ہیں، صحیح پہچان کے لئے انھوں نے اپنی ناقدانہ رائے اس طرح پیش کی ہے :

’ ہمارے عہد میں جمہوری نظریات نے فرد کی ذات کو خصوصی اہمیت عطا کی ہے۔ انشائیہ یورپ کی نشاۃ الثانیہ کی پیدا وار ہے۔ اس لئے اسے فکری آزادی اور ندرتِ اظہار کا علمبردار خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تحلیل و تجزیہ انشائیہ کے اہم اجزا ہیں۔ بظاہر یہ نثر کی خوبیاں ہیں اور رمز و ایمائیت شاعری کا زیور لیکن انشائیہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے نثر اور شاعری کی ان خصوصیات کو حسین توازن کے ساتھ اپنے اندر سمو کر ایک نئی قوت کے ساتھ ماورائی مفاہیم کے اظہار پر قدرت حاصل کی ہے۔ اسی کے ساتھ فلسفیانہ خیالات کی آمیزش بھی انشائیہ میں پائی جاتی ہے اسی لئے طنزیہ طور پراسے درمیانی صنف بھی کہا گیا ہے۔ ‘

انشائیہ کے نشیب و فراز کو بیان کرتے ہوئے محمد اسد اللہ نے اپنی ذاتی رائے اس طرح بھی دی ہے۔ ’ انشائیہ بحیثیت ایک صنفِ ادب اس تخلیقی قوت کو اور اس ذہنی استطاعت کو جو بین السطور میں موجود معانی از خود دریافت کرتی ہے، تقویت پہنچا تا ہے کیونکہ ایک کامیاب انشائیہ نگار اپنے اختتام پر ہمیں سوچنے اور اس میں موجود خلا کو اپنے تخیل اور فکر سے پر کر نے کی دعوت دیتا ہے۔ انشائیہ تخیلی اور تجزیاتی قوت کے احیا ء کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے اس لحاظ سے مستقبل میں جن اصناف کی ترویج و بقا کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے ان میں انشائیہ ضرور شامل ہو گا۔ ‘

غیر جانب داری سے تجزیہ و تحلیل کے لئے معائب و محاسن پر روشنی ڈالنے کے لئے، ظاہر و باطن کو سامنے لانے کے لئے، جزئیات کی باریکی کو سمجھنے کے لئے اور معنویت کی تہہ تک پہنچنے کے لئے محمد اسد اللہ نے شعور و لاشعور سے کام لے کر تفہیم کو آ سان بنایا ہے۔ انہوں نے لفظ’ انشاء‘ سے بحث کی ہے۔ انشائیہ کی اصطلاح کا تعین کیا ہے۔ اس کے رواج پر روشنی ڈالی ہے۔ ادبی صنف کی حیثیت سے انشائیہ کی تعریف کے خد و خال کا احاطہ کیا ہے۔

انشائیہ کی شناخت کے لئے نقوش کی نشاندہی کی ہے۔ اساسی خصوصیات کو دریافت کیا ہے۔ انشائیہ اور مضمون کے فرق کو واضح کیا ہے۔ طنزیہ اور مزاحیہ مضمون اور انشائیہ کی امتیازی حیثیت کی عکاسی کی ہے۔ انشائیہ کے فن کی تفہیمِ نو کو اظہاری قوت عطا کی ہے۔ انشائیہ میں انکشافِ ذات اور منفرد نکتہ نظر پر غائر مطالعہ پیش کیا ہے۔ انشائیہ کی زبان میں لطافت، شگفتگی اور اسلوب کی تازگی پر روشنی ڈالی ہے۔

محمد اسد اللہ نے مغرب میں انشائیہ کی روایت تلاش کرتے ہوئے مانتین (۱۵۳۳تا۱۵۹۲)، بیکن(۱۵۷۱تا۱۶۲۶) ابراہم کاولے (۱۶۱۸تا۱۶۶۷) رچرڈ سٹیل(۱۶۷۲تا ۱۷۲۹)جوزف ایڈیسن (۱۶۷۲ تا ۱۷۱۹) ولیم ہزلٹ ( ۱۷۷۸تا ۱۸۳۰)جانسن(۱۷۰۹تا۱۷۸۴)جوناتھن سوِفٹ(۱۶۶۷تا۱۷۴۵)چارلس لیمب (۱۷۷۵تا۱۸۳۴) گولڈ اسمتھ ( ۱۷۲۷ تا۱۷۷۴ ) آر ایل اسٹیونسن ( ۱۸۵۰تا ۱۸۹۴)جی کے چسٹر ٹن ( ۱۸۷۴ تا ۱۹۳۶)ای وی لوکس ( ۱۸۶۸تا۱۹۳۸) رابرٹ لِنڈ ( ۱۸۷۹تا۱۹۴۹)ایلفا آ ف دی پلو( ۱۸۵۶تا۱۹۴۶) کا ذکر کیا ہے۔ جنہوں نے نت نئے رنگ و آہنگ سے انشائیہ کو روشناس کرایا، متنوع اسالیب اور طرزِ ہائے فکرسے اس صنف کو بوقلمونی عطا کی اور زندگی اور کائنات کی گہرائی کی تصویریں نئے انداز سے پیش کیں۔ ان مغربی انشائیہ نگاروں کی جانکاری سے جہاں فنی رموز سے آ گاہی ہو تی ہے وہیں اردو انشائیہ نگاروں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

اردو میں انشائیہ کے اولین نقوش کی نشاندہی محمد اسد اللہ نے سترہویں صدی سے کی ہے۔ ملا اسداللہ وجہی کی سب رس ( ۱۶۳۵ )میں انشائیہ کی تخلیقی توانائی ملتی ہے کیونکہ انہوں نے اظہار کا منفرد اسلوب اختیار کیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید وششٹ کے حوالہ سے محمد اسد اللہ نے بتایا ہے کہ وجہی کے ۶۱ ( اکسٹھ) انشائیے، ’ سب رس‘ میں ملتے ہیں۔ مغربی انشائیہ کے جد امجد مانتین سے بھی موازنہ کیا ہے۔

محمد اسد اللہ نے غالب ( خطوطِ غالبؔ )، ماسٹر رام چند ر( محبِ ہند) سرسید احمد خان (مضامینِ سرسید)محمد حسین آزاد (نیرنگِ خیال)، الطاف حسین حالیؔ (زبانِ گویا)، مولوی نذیر احمد (وقت)، مولوی ذکاء اللہ (آ گ)، عبدالحلیم شرر ( نسیمِ سحر، لالہ خودرو)، وحید الدین سلیم ( قرض)، رتن ناتھ سر شار (فسانہ آزاد) کی تحریروں میں اسلوب و فکر کی سطح پر انشائیہ کے خد و خال نمایاں کئے ہیں اور مضبوط جڑوں کی نشاندہی کی ہے۔

لیکن بعض اہم نام پر محمد اسد اللہ کی نظر نہیں پڑی ہے۔ مثلاً قدیم انشائیہ کی جھلک ’ نو طرزِ مرصع ‘(۱۷۸۰) میر محمد حسین عطا خان تحسین مین بھی مل جا تی ہے۔ اگرچہ ’نو طرزِ مرصع ‘کی عبارت عام طور سے مقفیٰ و مسجع ہے اور عربی و فارسی کے ادق و مغلق الفاظ سے بوجھل ہے۔ اس کے باوجود اس تصنیف میں مختلف مقامات پر انشا پردازی کی شان نظر آ تی ہے جس سے کیف و سرور حاصل ہو تا ہے۔ ۔ ۔ ۔

رجب علی بیگ سرور نے ’ فسانہ عجائب ‘میں انشا پردازی کی شان دکھائی ہے۔ اگرچہ اس مین بھی مقفیٰ و مسجع عبارت موجود ہے۔ مگر سرور کی عبارت تحسین کی عبارت سے بہتر ہے۔ سرور کے یہاں مختلف بیانات ایسے موجود ہیں جن میں شاعری کا لطف آ تا ہے۔ خصوصاً جہاں کہیں وہ منظر نگاری پیش کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فقیر محمد گو یا نے ’ انوارِ سہیلی ‘ کا اردو میں ترجمہ کیا اور اس کا نام ’ بستانِ حکمت ‘ رکھا۔ چونکہ یہ ایک تمثیل ہے اس لئے اس کے اسلوب پر انشائیہ کی اصطلاح بڑی حد تک منطبق ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔

مولانا غلام امام شہید کو بھی انشا پردازی کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ان کی عبارت بھی رجب علی بیگ سرور کی طرح بعض اوقات مقفیٰ ہو تی ہے مگر اس میں ثقل نہیں پا یا جا تا۔ ان کی انشا پردازی کا مطالعہ دامنِ دل کو سرور و کیف کے پھولوں سے بھر دیتا ہے۔ ۔ ۔

خواجہ غلام غوث بے خبر کا نام بھی اہم ہے۔ ’انشائے بے خبر‘ ان کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ مگر ان خطوط میں انشا پردازی کا رنگ بہت نمایاں ہے۔ بے خبر نے بعض مقامات پر خالص انشا پردازی کے نمونے پیش کئے ہیں۔ ۔ ۔

عبدالغفور شہ باز بھی ایک اعلی ٰ درجہ کے انشا پرداز تھے۔ ان کی انشا پردازی میں حسن و جمال کی لہریں رقص کرتی ہو ئی نظر آ تی ہیں۔ محمد اسد اللہ نے بیسویں صدی میں انشائیہ نگاری کے محاسن کو بھر پور طور پر اجاگر کیا ہے۔ مواد و ہئیت کے ربط و تسلسل سے بھی بحث کی ہے۔ انہوں نے میر ناصر علی، سجاد یلدرم، منشی پریم چند، مولوی عزیز مرزا، سید احمد دہلوی، سلطان حیدر جوش، مہدی افادی، سجاد انصاری، فلک پیما، مولانا ابوالکلام آزاد، خواجہ حسن نظامی، مرزا فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، کرشن چندر، اکبر علی قاصد اور مشتاق احمد یوسفی، مجتبیٰ حسین کی شوخی تحریر اور دانشورانہ عناصر کے نقطۂ اتصال کو مثال کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان سب کے یہاں انشائیہ تہہ نشیں موج کی طرح رواں دواں ہے۔

زندگی کے نئے منظرنامہ میں عصری انشائیہ نگاروں کی خدمات اور وصف خاص کے بر تاؤ کو محمد اسد اللہ نے سیاق و سباق کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وزیر آغا، داؤد رہبر، غلام جیلانی اصغر، مشتاق قمر، انور سدید، جمیل آذر، ممتاز مفتی، جاوید صدیقی، نظیر صدیقی، مشکور حسین یاد، سلیم آغا قزلباش، کامل القادری، احمد جمال پاشا، رام لعل نابھوی، سلمان بٹ، خالد پرویز صدیقی، انجم انصار، اکبر حمیدی، ارشد میر، طارق بشیر، حامد برگی، شہزاد احمد، محمداسداللہ، محمد اقبال انجم، مشرف احمد اور راجہ محمد ریاض الرحمٰن وغیرہ نے تخلیقی سطح پر جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں ان کا تنقیدی جائزہ محمد اسد اللہ نے لیا ہے۔ آ ج کے انشائیہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔

ہمارا انشائیہ عصری زندگی کی سچائیوں کا ایک ایسا مبصر ہے جو طنز و تعریض اور مزاح کے ذریعے تفریح مہیا کر نے یا اس عہد کے قبیح چہرے کو قبیح تر بنا کر پیش کر نے یا اس کے بے ہنگم، بے ڈول رویوں پر قہقہے لگانے کا کام نہیں کرتا۔ بلکہ ہمہ جہت حقائق کی ان جہتوں کو روشنی کے دائرے میں لانے کا اہتمام کرتا ہے جو عام نظر سے اوجھل ہیں۔ یہ جہت بظاہر ناپید بھی ہو سکتی ہے لیکن انشائیہ نگار کی ذات کا لمس پا کر حقیقت کا ایک نیا رخ سامنے آ تا ہے۔

محمد اسد اللہ نے انشائیہ کی کائنات اور اس کے امکانات کو نیا جہاں دینے کی کوشش کی ہے تاکہ صنف انشائیہ کی آ سودہ قوت کا مکمل جائزہ سامنے آ سکے۔

٭٭٭

 

 

 

انشائیہ کیا ہے ؟

 

                1۔ لفظ انشا ء کی بحث

 

انشائیہ اپنے نام کے ساتھ ہی زبان کے تخلیقی امکانات کا ایک واضح تصوّر وابستہ کئے ہوئے ہے۔ انگریزی Light Essayکے لئے اردو میں یہ لفظ اپنایا گیا۔ آج یہ نہ صرف ایک ادبی صنف کی حیثیت سے اپنی شناخت متعین کر چکا ہے بلکہ اپنی مخصوص خصوصیات کے سبب تخیلی و فکری جہتوں کی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔

لفظ انشائیہ انشاء سے مشتق ہے۔ انشائیہ کی صنف وجود میں آنے سے قبل انشا اور انشا پردازی کے الفاظ اردو میں مروّج رہے ہیں۔ فرہنگِ آصفیہ میں انشاء کے یہ معنی بیان کئے گئے ہیں :

۱۔ کچھ بات دل سے پیدا کرنا

۲۔ عبارت، تحریر

۳ ۔ علمِ معانی و بیان، صنائع و بدائع، خوبی، عبارت، طرزِ تحریر

۴۔ وہ کتاب جس میں خط و کتابت سکھانے کے واسطے ہر قسم        کے خطوط جمع ہوں،

۵۔ لیٹر بکس، چٹّھیوں کی کتاب۔ ۱

قرآن مجید میں بھی یہ لفظ پیدا کرنے کے معنوں میں کئی جگہ وارد ہوا ہے۔ سورۃ الملک   میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔    قل ھُوَ الّذی اَنشَاَ کُم

ترجمہ : کہو کہ وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ (سورۃ الملک )۔ ۲

سید محمد حسنین اس لفظ کے ادبی مفہوم کو ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں۔

’انشاء کا مادّہ نشاء (نش ء )ہے، جس کے لغوی معنی ’پیدا کرنا‘ ہے یعنی انشاء کی علّت غایت ’زائیدگی ‘ہے یا ’آفریدگی ‘۔ ۔ ۔

انشاء کی توانائی دراصل خیال کی تازگی و تنومندی سے ظاہر ہوتی ہے۔ انشائی قوّت سے بات میں معنویت پیدا ہوتی ہے اور خیالات کی لہریں نکلتی ہیں ‘۔ ۳

لفظ انشاء کے ادبی مفہوم کی مقبولیت سے قبل لغوی معنوں میں عبارت اور تحریر کے لئے روز مرّہ زندگی میں یہ لفظ عام تھا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر وحید قریشی رقمطراز ہیں :

’انشاء کا لفظ ابتدا میں ایک دفتری اصطلاح تھا۔ اس کا اطلاق سرکاری فرامین اور مکتوبات کے رف ڈرافٹ پر ہوتا تھا اور صاف شدہ مسودہ کو تحریر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ جس محکمہ کے سپرد ’مسودہ ‘ تیّار کرنے کا کام ہوتا تھا اس نے ’دیوان الانشاء ‘ کا نام پایا۔ رفتہ رفتہ فرامین اور مکتوبات کی تحریر و ترتیب کے لئے انشاء کا لفظ مستعمل ہو گیا۔ دربار داری کے زیرِ اثر فارسی نثر میں نثر سادہ کے پہلو بہ پہلو مصنوع ( نثر رنگین) ساسانی دور ہی سے رائج ہو چکی تھی۔ یہی نثر احکام و فرامین اور مکتوبات کی زبان قرار پائی۔ اس نثر میں خطابت کا عنصر جزوِ اعظم تھا۔ اس سے انشاء پردازی کی وہ نہج وجود میں آ گئی جس کو ہم انشائیہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ۴

فارسی زبان کے سرکاری زبان بن جانے کے بعد یہ عربی لفظ نہ صرف روز مرّہ کی تحریروں کے معنوں میں رائج ہوا بلکہ لفظ انشاء کو عبارت آرائی کا جو مفہوم ملا وہ بھی فارسی ادب ہی کا مرہونِ منّت ہے۔ فارسی زبان میں تخلیقی ادب کی ایک طویل روایت نے ممکن ہے اردو میں اپنے تعارف کے لئے اسی لفظ کا انتخاب کیا ہو۔

ڈاکٹر وحید قریشی لکھتے ہیں :

’نویں صدی ہجری تک فارسی میں نثر مکتوبات کے علاوہ نثر مصنوع کے فن پاروں کے لئے انشاء کا لفظ رائج ہو چکا تھا جس میں کسی خاص موضوع کو لے کر اس کے گرد نثر نگار اپنے جذبات و احساسات کا تارِ عنکبوت بنتا جاتا تھا۔ اردو نثر کا آغاز ہوا تو ادباء کے سامنے نثر ہی کے نمونے تھے اردو کا انشائی اد ب تخلیق ہوا تو اس پر فارسی کے انشائی ادب کا گہرا اثر پڑا۔ یہ قدیم انشائی ادب مرحوم دلّی کالج کی تاسیس کے بعد تک برا بر چلتا رہا۔ ‘   ۵

شعر و ادب کا خزانہ فارسی زبان جس سے عبارت آرائی اور دیگر ادبی خصوصیات کا مفہوم نمایاں ہے، بذاتِ خود کسی ایسی منفرد صنف کے نقوش پیش کرنے سے قاصر ہے جسے ہم صنف انشائیہ سے منسوب کر سکیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر آدم شیخ لکھتے ہیں :

’فارسی ادب اپنے رومانی اور تصّوراتی مزاج کی وجہ سے ایسی تحریروں کی تخلیق کا باعث بنا جن کے کچھ حصّے صنف انشائیہ سے مماثلت رکھتے ہیں تاہم فارسی کے قدیم نثری سرمائے میں کہیں بھی ایسی کوشش کا پتہ نہیں چلتا جس میں انشائیہ کو ایک صنف کی حیثیت سے ترقّی دینے کی کوشش کی گئی ہو۔ ۶

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک منفرد صنف کا جو تصور آج انشائیہ کے ساتھ وابستہ ہے خالصتاً مغرب کی عطا ہے۔ اسی کے ساتھ مشرق میں انشائیہ سے متعلقہ تصوّرات بھی واضح ہوتے ہیں۔ ان تصوّرات کا بڑا جامع اظہار مشکور حسین یاد کے اس نظریہ میں ہوا ہے جس میں انشائیہ کو ایک ’امکانی صنف ‘اور ’امّ الاصناف‘ کہا گیا ہے۔ گویا انشائیہ سے وابستہ مفہوم کلّی طور پر ادبی اظہار یا ادبی اسلوب کا رہا ہے۔ استعاراتی بیان، تشبیہ، لطافتِ خیال، شعری کیفیات اور عبارت آرائی سے مزیّن تحریر انشاء پردازی کا مطمحِ نظر ہے اور یہ تصوّر نیا نہیں ہے ڈاکٹرسلیم اختر کی تحقیق کے مطابق:

’’مولانا محمّدحسین آزادؔ کے مکاتیب کے مجموعے ’مکتوباتِ آزاد ‘میں ناٹک کی اہمیت کے متعلق لکھا گیا ہے :’اس کے لکھنے والے انشاء پرداز شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ فنونِ انشائیہ کا ادا کرنا بھی ایک جزوِ اعظم انشاء کا ہے ‘۔

اسی طرح شبلی نعمانی نے موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ میں بلاغت کی بحث کے سلسلہ میں لفظ انشائیہ کا استعمال یوں کیا ہے۔

ان تصریحات کی رو سے بلاغت اس کا نام ہے کہ جملہ اور خبر کہاں مقدّم لائے جائیں اور کہاں موخّر؟کہاں معرفہ ہو کہاں نکرہ ؟ کہاں مذکور ہوں کہاں مخذوف ؟ اسناد کہاں حقیقی ہوں کہاں مجازی ؟جملہ کہاں خبریہ ہو کہاں انشائیہ؟ ۷

اسی بات کو عبدالماجد دریا بادی نے انشائیہ کی تعریف پیش کرتے ہوئے ا س طرح واضح کیا ہے :

’ انشائیہ کی امتیازی خصوصیت حسنِ انشاء ہے یہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے۔ انشائیہ وہ ہے جس میں مغز و مضمون کی اصل توجّہ حسنِ عبارت پر ہو‘۔ ۸

لفظ انشاء کے استعمال پر غور کرنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ا س کے ساتھ وابستہ تحریر اور اندازِ نگارش کا محدود اور تکنیکی مفہوم فارسی میں موجود تخلیقی ادب کے زیرِ اثر ابتدا ہی سے وسعت آشنا ہو کر عبارت آرائی اور حسنِ بیا ن کے معنوں میں استعمال ہونے لگا تھا۔ انشا پردازی اسلوبِ بیان کی ایک مخصوص خوبی شمار کی جاتی ہے۔ مغرب سے در آمد شدہ صنف Light Essay کے لئے اردو میں انشائیہ کی اصطلاح مروّج ہونے سے قبل مناسب لفظ کے انتخاب اور ردّ و قبول کا سلسلہ چلتا رہا۔ غرض اردو میں ایک ادبی صنف کے لئے مخصوص اصطلاح تک پہنچنے میں لفظ ’انشاء ‘ نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔

 

حواشی

1۔ خان صاحب مولوی سیداحمد دہلوی، فرہنگِ آ صفیہ، جلد اول، نئی دہلی ، 1974     ص252

2۔ تذکیر القرآن، ترجمہ، مولانا وحید الدین خان، ص1515

3۔ سید محمد حسنین، صنف انشائیہ اور انشائیے، پٹنہ ,1978 ص38

4۔ ڈاکٹر وحید قریشی، اردو کا بہترین انشائی ادب، لاہور، 1964 ص13۔ 14

5۔ ڈاکٹر وحید قریشی، اردو کا بہترین انشائی ادب، لاہور، 1964 ص13۔ 14

6۔ ڈاکٹر آ دم شیخ، انشائیہ بمبئی، 1965ص7

7۔ ڈاکٹر سلیم اختر، انشائیہ کی بنیاد، لاہور 1986، ص153

8۔ عبدالماجد دریابادی، بحوالہ، انشائیہ، ایک ہمہ جہت صنفِ نثر، سلیم آغا قزلباش،

لاہور، 1985ص139

 

                2۔ انشائیہ کی اصطلاح

 

لفظ انشاء جو ابتداء میں عبارت آرائی اورشستگیِ تحریر کا مظہر تھا، ایک ادبی اصطلاح کی صورت اختیار کر کے قبولِ عام حاصل کر چکا ہے۔ اس ارتقائی سفر نے انشائیہ کی دستار میں کئی پروں کا اضافہ کیا۔ اردو انشائیہ کی ابتدا، اردو کا پہلا انشائیہ نگار کون تھا ؟ انشائیہ کیا ہے ؟ نیز اس کی صنفی خصوصیات کے تعین اور اس سلسلہ میں ابھر نے والے اختلافات کے سائے اس اصطلاح پر پڑے۔ انگریزی انشائیہ کے موجد فرانسس بیکن نے اپنی تحریروں کوDispersed Meditation   (افکارِ پریشاں ) کہا تھا۔ یہی پریشاں خیالی انشائیہ میں موجزن تفکّر و تخیّل کا امتیازی وصف قرار پائی۔ اپنی منفرد تحریروں کے متعلق بیکن کا یہ بیان منضبط و مربوط علمی مقالات کی قطعیت اور سنگلاخی سے برات کا اعلان تھا۔ گو اس کے ایسیز مانتین یا اس کے بعد ابھر نے والے انشائیہ نگاروں کی بہ نسبت قدرے منضبط ہیں۔ انگریزی ایسّے نگاری کی روایت نے آگے چل کر اسیDispersed Meditation کو واضح انداز میں پیش کیا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پریشاں فکری کی علمبردار اور فنّی اعتبار سے قطعیت سے گریزاں یہ صنف اپنی صنفی خصوصیات کے تعین کے معاملہ میں بھی انتشار کا شکار رہی ہے۔ انشائیہ کے معاملہ میں پایا جانے والا یہ انتشار اور غیر واضح صورتِ حال بھی کسی حد تک مغرب ہی سے مستعار ہے۔

انشائیہ کی اصطلاح کے ضمن میں دو باتیں خاصی اہم ہیں :

۱۔ انشائیہ کی اصطلاح کا تعین

۲۔ انشائیہ کی اصطلاح کا رواج

 

انشائیہ کی اصطلاح کا تعین

 

اردو میں انشائیہ کی اصطلاح کثرتِ استعمال کے باوجود مختلف معنوں میں برتی گئی ہے۔ اس کے مفہوم کے علاوہ اس کی شناخت مقرّر کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ تجربہ شاہد ہے کہ جہاں ایک طرف ان کاوشوں میں کامیابی حاصل ہوئی ہے وہیں دوسری طرف انشائیہ کا مسئلہ مزید الجھتا گیا۔ اس ضمن میں مشکور حسین یاد اور وزیر آغا نے دو مختلف مگر واضح موقف کا اظہار کیا ہے۔ ان دونوں کی متضاد آراء انشائیہ کو دو متضاد بنیادیں فراہم، کرتی ہیں۔

۱۔ مشکور حسین یاد انشائیہ کو امّ الاصناف اور ادب کے اظہار کا ایک فطری پیمانہ قرار دیتے ہوئے اسے تمام ادب میں جاری و ساری تخلیقی رَو کی صورت دریافت کرتے ہیں۔ اور ایک وسیع مفہوم کا حامل قرار دیتے ہیں۔ ان کے ہاں انشائیہ کے لئے نظم یا نثر کی بھی تخصیص نہیں۔ اسی بات کو انگریزی انشائیہ کے پسِ منظر میں انہوں نے اس طرح بیان کیا ہے :

’دنیا میں جس زبان میں بھی کوئی ادب تخلیق ہو ا خواہ نظم کی صورت میں ہو یا نثر کی صورت میں، اس کی ابتدا انشائیہ ہی سے ہوتی ہے۔ ۔ ۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ناول اورافسانہ کی طرح انشائیہ بھی اردو ادب میں انگریزی زبان کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اور چونکہ انگریزی میں فرانس سے آیا ہے اس لئے انشائیہ کی تاریخ بس اتنی ہی سی ہے، یعنی انشائیہ نگاری کا موجد مونتین اور مونتین سے پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ انشائیہ کے بارے میں مجھے اس خیال سے اختلاف ہے۔ اگر ہم مونتین کو انشائیہ کا موجد سمجھنے کے بجائے انشائیہ کا شناخت کنندہ کہیں تو پھر مسئلہ کا حل خود بخود سامنے آ جاتا ہے۔ ‘۔ ۔ 1

انگریزی کی طرح اردو میں بھی انشائیہ کو تمام اصناف پر محیط خیال کرتے ہوئے مشکور حسین یاد اسے ایک’ امکانی صنفِ ادب ‘ قرار دیتے ہیں۔ اسی لئے ان کے نزدیک اس کے ایک علاحدہ صنفِ ادب ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہو تا۔ یوں بھی مشکورحسین یاد انشائیہ کو ایک صنفِ ادب قرار دیتے ہیں لیکن انشائیہ کو منفرد صنفِ ادب ماننے کے لئے آمادہ نہیں۔

انشائیہ کو امّ الاصناف اور امکانی صنفِ ادب کہنے کے بعد یہ سوال بے معنی ہو جاتے ہیں کہ اردو میں اس کا بانی کون تھا یا پہلا انشائیہ نگار کسے قرار دیا جائے ؟یوں بھی مشکور حسین یاد نے ان مباحث سے گریز کیا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا انشائیہ کو نثر کی ایک مخصوص صنف قرار دیتے ہیں اور اس کی صنفی خصوصیات متعیّن کرنے پر مصر ہیں۔ اپنے طور پر انہوں نے انشائیہ کی تعریف بھی پیش کی ہے ان کے نزدیک:

’انشائیہ اس مضمون کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیاء اور مظاہر کے مخفی مفہوم کو کچھ اس طور گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو تا ہے۔ 2

انشائیہ کی صنفی خصوصیات متعیّن کرنے کے سلسلہ میں بعض حلقوں سے یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ اس کو محدود کر دیا گیا ہے اور ان حدود کا پاس رکھتے ہوئے نئے

نئے انشائیہ نگار بے رس، خشک اور میکانیکی قسم کی تحریریں انشائیہ کے نام پر پیش کرنے لگے ہیں۔ انشائیہ کو امّ الاصناف کہہ کر جن وسیع امکانات کا حامل قرار دیا گیا تھا، اسے صنفی خصوصیات کی قیود نے محدود کر دیا ہے اس سلسلہ میں وزیر آغا رقمطراز ہیں :

’ بعض ستم ظریفوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انشائیہ امّ الاصناف ہے اور اس لئے اس کے دائرے میں شاعری سے لے کریوشناس کر گزشتہ گر تنقید تک ہر قسم کی تحریر شامل کی جا سکتی ہے ۔ کسی بھی صنف کو دریا برد کرنے کا یہ آسان ترین نسخہ ہے کہ اس کی حدود کو اس درجہ پھیلا دیا جائے کہ اپنا تشخّص ہی باقی نہ رہے۔ ‘ 3

آگے لکھتے ہیں :

’ غزل، نظم اور افسانے کی طرح انشائیہ بھی ایک منفرد صنفِ ادب ہے۔ اگر آپ لوگ دوسری اصنافِ ادب کی حدود کا تعیّن کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور ان کو لا محدود ہونے سے بچاتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ انشائیہ کے ساتھ ہی غریب کی جورو والا سلوک روا رکھنے پر مصر ہیں ‘۔ 4

وزیر آغا نے انگریزی کے Light EssayاورPersonal Essay کے خطوط پر جو تخلیقات پیش کی ہیں اور ان ہی کی بنیاد پر انشائیہ نگاری کی جو تحریک چلائی ہے ان تحریروں پر وہ انشائیہ کا اطلاق کرتے ہیں۔ مضمون نگاری کا یہ انداز ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا ہے جسے خصوصاً پاکستان میں لکھنے والوں کا ایک بڑا طبقہ میسّر آیا۔

انشائیہ کی اصطلاح کے مفہوم کے تعیّن کے ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے انشائیہ کے حدودِ اربعہ کا تعیّن اسے ایک منفرد صنف کے طور پر قبول کرنے کا خیال اور اس کے لئے ایک مخصوص نام کی تلاش کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ یہ مباحث بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں شروع ہوئے اور ان کے نتیجہ میں ایک طرف اس کے خد ّو خال، تعریف، حدودِ اربعہ متعین کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف اس سے گریز کر کے اس اصطلاح کو وسیع مفہوم میں اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔ ان کوششوں کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ بقول احمد جمال پاشا :

’انشائیہ کی اصطلاح کثرتِ تعبیر سے ایک خوابِ پریشاں بن گئی‘۔ 5

 

انشائیہ کی اصطلاح کا رواج

 

اردو میں انشائیہ کی اصطلاح کا رواج کب ہو ا؟

 

اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ کہ آزادیِ ہند کے آس پاس مخصوص قسم کی تحریروں کو انشائیہ کہہ کر متعارف کروایا گیا۔ یہ مفصّل بحث آگے آئے گی۔ اس سے پہلے اردو کے ان اسالیبِ بیان پر نظر کرنا ضروری ہے جن کے تغیر کی رفتار انگریزوں کی آمد کے بعد خاصی تیز ہو گئی تھی اسی دور کے نثری ارتقاء کے نتیجہ میں انشائیہ ایک منفرد پیرایۂ اظہار کے طور پر نمودار ہوا۔ اس کی حیثیت ایک کونپل سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کے نقوش حد درجہ دھندلے دھندلے تھے چنانچہ اس کی شناخت اور صورت گری بہت بعد میں تقریباً آزادیِ ہند کے قریب قریب ہوئی۔ واقعہ یہ کہ انشائیہ فطری اظہار کی جس نوع سے عبارت ہے اسے فورٹ ولیم کالج نے عام کیا۔

فورٹ ولیم کالج کا قیام1818 ء میں عمل میں آیا۔ اسی کے ذریعے باضابطہ طور پر نثر کو اس قابل بنانے کی کوششیں کی گئیں کہ یہ زبان فطری اظہار کے قابل بن سکے۔ اسی مقصد کے لئے اسے مسجّع اور مقفّیٰ عبارت سے نجات دلوانے کی غرض سے ’ باغ و بہار ‘ قسم کی کتابیں لکھوائیں گئیں اس ضمن میں ڈاکٹر محّی الدین قادری زورؔ لکھتے ہیں :

’ان تمام کتابوں کی تصنیف و تالیف کا اصل مقصد یہ تھا کہ انگریزوں کو ہندوستانی زبان و ذہنیت سے واقف کروایا جائے اسی لئے ان کی زبان کا حتی الامکان صاف اور با محاورہ ہونا ضروری تھا۔ جملہ ہندوستانی علماء کو تاکید تھی کہ وہ اسلوبِ بیان میں تعقید اور تصنّع سے احتراز کریں۔ یہی وہ مبارک کام تھا جس نے بہت جلد اردو زبان کو سنجیدہ اور پاک و صاف بنا دیا جس کے باعث سر سیّد احمد خان اس قابل ہو گئے کہ اس کو اپنی خاص ترکیبِ عملی کے ذریعے سے بغیر دقتّوں کے راہِ راست پر لا ڈالتے۔ 6

اردو میں انگریزی ایسّے کو سر سیّد اور ان ہی کے ہمعصر ماسٹر رام چندر نے پہلے پہل متعارف کروایا۔ لیکن انگریزی ایسّے کی بنیادی خصوصیات مثلاً اظہار کی توانائی اور نفسِ مضمون کا واضح بیان جو یقیناً کھوکھلی عبارت آرائی اور لفظوں کی طوطا مینا گھڑنے کی ضد واقع ہوئی تھی، اسے فورٹ ولیم کالج ہی نے ختم کروانے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ گویا باغ و بہار جیسی کتابیں ایک طرح سے انشائیہ کے فطری اظہار کے لئے راہیں ہموار کر رہی تھیں۔

فورٹ ولیم کالج نے اردو نثر کو عملی زندگی کے تقاضوں سے آنکھ ملانے کے قابل بنایا۔ مسجّع اور مقفّیٰ زبان اور شعری تلازمات کے شکنجوں میں جکڑی ہوئی بے جان نثر کو اسی زمانے میں نہ صرف ان فرسودگیوں سے نجات ملی بلکہ اپنے فرائضِ منصبی کا شعور اور ادائیگیِ فرض کی قوّت اور سلیقہ بھی نصیب ہوا۔ اردو انشائیہ کے ارتقاء کے ضمن میں یہ مرحلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔

فورٹ ولیم کا لج بند ہو گیا لیکن اس کا مشن ختم نہیں ہوا۔ 1825ء میں دہلی کالج ان ہی مقاصد کے ساتھ وجود میں آیا جو فورٹ ولیم کا لج کے پیشِ نظر تھے۔ مجموعی طور پر ان دونوں اداروں نے مغربی ادب کے اسرار و رموز سے استفادہ کی راہ ہموار کی۔ اسی کا اثر تھا کہ 1945 کے آ س پا س اردو میں مقالہ نگاری کی ابتدا ہو ئی۔ ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں :

’اردو میں مقالہ نگاری کا آغاز ہو چکا تھا۔ مگر اس کی مقبولیت کا عہد1857 کے بعد شروع ہوا۔ دہلی کالج کے نصاب میں مختلف مضامین شامل تھے۔ امتحان کے پر چوں میں ایک پر چہ مقالہ نگاری سے متعلق بھی ہو ا کرتا تھا۔ ‘۔ 7

دہلی کالج کے نصاب میں شامل مقالہ نگاری کے پرچے کے علاوہ مضمون نگاری کے سالانہ مقابلے بھی ہوا کرتے تھے۔ ان میں کامیاب ہو نے والوں میں بیشتر وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے عہدِ سر سیّد میں انشائیہ نگاری کے بعض محاسن کو اپنی تحریروں کا جزو اعظم بنایا۔ اس سلسلے میں ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں :

ان مقابلوں میں انعام پا نے والے طلباء میں ماسٹر رام چندر، موتی لال، نذیر احمد، محمّد حسین آزاد، ذکاء اللہ، بھگوان داس خواجہ ضیا الدین، خصوصیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن جن میں سے بیشتر فارغ التحصیل ہو کر اسی کالج میں معلّمی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان ہی لو گوں کی مساعیِ جمیلہ سے مقالہ نگاری نے رواج پایا۔ 8

سرسیّد نے تہذیب الاخلاق1870 میں جاری کیا۔ اس کا ایک مقصد ایسّے نگاری کو اردو میں قومی بیداری کی غرض سے بطور وسیلہ استعمال کر نا بھی تھا۔ اس مجلّہ نے سَستی عبارت آ رائی سے کنارہ کشی اختیار کی اور دعوتِ فکر کے ساتھ وسعتِ قلب و نظ رکا پیام عام کیا۔ سر سیّد اردو نثر کے مخصوص پیرائے کو پیغام رسانی کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اردو ادب میں اس سے قبل ترسیل و ابلاغ کے لئے مختلف اسالیب مستعمل تھے۔ مثلا اسلامیات سے متعلق بیشتر کتابوں میں پند و نصائح کے علاوہ واضح داعیانہ انداز مو جود تھا لیکن یہ دعوتِ عمل تھی۔ سرسیّد دعوتِ فکر اور ذہنی بیداری کے اعلیٰ مقصد کے تحت مضمون نگاری کو عام کر نا چاہتے تھے۔ اسی تقاضے نے ان کے مضامین کو مخصوص خد و خال عطا کئے۔

ماسٹر رام چندر اور سر سیّداحمد خان میں ایک بات یہ مشترک ہے کہ دونوں کے پیشِ نظر انگریزی ادب کے شاہکار رہے خاص طور پرایڈیسن اورسٹیل کی پیروی ان دونوں کا شعار رہا۔ سر سیّد نے تہذیب الاخلاق کے ذریعے انگریزی ایسّے کو فنّی اعتبار سے اردو میں متعارف کروایا۔ ان کا یہ قدم اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ ان مضامین میں جس طرزِ تحریر اور پیرائیہ اظہار کو بروئے کار لا یا گیا ہے وہ انگریزی ایسّے کے ساتھ مخصوص تھا۔ دوّم جن لو گوں نے سر سیّد سے نظر یا تی اختلاف کی بنا پر اظہارِ خیال کیا وہ بھی سرسیّد کے اسی نو خیز اسلوب کو اپنانے پر مجبور ہوئے۔ اس سلسلے میں محی الدین قادری زور رقمطراز ہیں :

تہذیب الاخلاق اورسرسیّد کی مخالفتیں اسی صاف اورسیدھی زبان میں کی جاتی تھیں۔ اس مذہبی طوفان کا شروع ہو نا تھاکہ اردو زبان کے سادہ اور فطری اسلوبِ بیان کی سرجیون سوتیں ایک دم ابل پڑیں۔ ‘9

سادہ اور فطری اسلوب کو جو انگریزی مضامین کی خصوصیات ہیں اردو میں اپنانے کے علاوہ دیگر محاسن بھی اس صنف میں در آئے، اسی کے ساتھ ایسّے کا لفظ بھی عام ہوا۔

انگریزی میں ایسّے کے تحت علمی، تحقیقی، سماجی، تنقیدی، سائنسی وغیرہ مختلف قسم کے مضامین لکھے جا تے رہے ہیں۔ صدیوں پر محیط ایسّے نگاری کی اس روایت میں لائیٹ ایسے یا پرسنل ایسے بھی ہیں بھی ہیں جنھیں تخلیقی حیثیت کے سبب انگریزی ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہوا۔

بیکن، ہزلٹ لیمب، ایڈیسن سٹیل اور چسٹرٹن جیسے ادیبوں نے اس صنف کو چھوا تو شخصی مضمون نگاری کا یہ پیرایہ انگریزی ایسے کا مقبول رجحان بن گیا یہی سبب ہے کہ ایسیز کا ذکر آتے ہی مذکورہ ادیبوں کی ایک کہکشاں ذہن میں جھلملانے لگتی ہے۔ انگریزی کے عملی، تحقیقی و تنقیدی مضامین سے فطری اور تکنیکی اعتبار سے قطعی جدا گانہ ہونے کے باوجود ان مضامین کے لئے انگریزی میں کوئی علاحدہ لفظ اختیار نہیں کیا گیا۔ ان کی امتیازی شناخت کے لئے Personal Essay یاLight Essay کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ اس طرحEssay کودو قسموں میں تقسیم کیا گیا۔ اس ضمن میں سید ظہیرالدین مدنی لکھتے ہیں۔

ّایسّیز کو دو قسموں میں تقسیم کر دیا گیا پہلی قسم میں سماجی، سیاسی، مذہبی، ادبی، سوانحی وغیرہ ایسّیز کو شامل کیا گیا اور انھیں فارمل یعنی تکلفی اور رسمی کا نام دیا ہے۔ دوسری قسم کے ایسّیزکو فیمیلیر یعنی ذاتی اور شخصی کہا ہے۔ 10

اردو میں اول الذکر ایسّے کے لئے مضمون اور مقالہ کا لفظ اختیار کیا گیا اور ایک مدت تک ایسّے ہی کے تحت شخصی یا ذاتی مضامین پیش کر نے کی کوششیں جاری رہیں حالانکہ اس صنف کو مکمل طور پر اختیار نہیں کیا جا سکا پھر جب اس صنف کی طرف باقاعدگی سے دھیان دیا گیا تو ایک نیا پیرایہ اظہار اردو میں متعارف ہوا۔ ان تحریروں سے ایک نئی آب و ہوا کا احساس ہوا، اس کے لئے انشائیہ کا لفظ مناسب خیال کیا گیا۔ لفظ انشائیہ کو اردو میں قبولِ عام حاصل ہونے سے قبل کافی غور و خوض کیا گیا اس ضمن میں نثر کے اس مخصوص اسلوب کا ذکر بے جا نہ ہو گا جو ادبِ لطیف کے نام سے مشہور ہے در اصل ملّا رموزی، نیاز فتح پوری، عبدالحلیم شرر اور خلیق دہلوی نے اس دور میں نثر نگاری کے ایک نئے اسلوب کو اختیار کیا جو شاعر ی سے قریب تر تھا اور اس کی زبان پر تکلف اور مصنوعی تھی نثرنگاری کا یہ خاص رجحان مولانا ابوالکلام آزاد کی انشا پردازی اور رابندر ناتھ ٹیگور کی نظموں کے مترجمہ اردو اسلوب کے عناصر سے مرکب تھا۔

سر سید کے بعد ان کے مضامین کا پیدا کردہ مخصوص اسلوب اور ان کے بعد ادیبوں کی نگارشات سے ابھر نے والے اسالیب میں گلابی اردو، ادبِ لطیف، شاعرانہ نثر وغیرہ ہیں۔ اردو نثر میں ایک مخصوص طرزِ تحریر کے پیشِ نظر نئے نام کی تلاش شروع ہو ئی چنانچہ گلابی اردو، انشائے لطیف، طیفیہ، مطائباتِ ادب وغیرہ اصطلاحیں سامنے آئیں۔ نیاز فتح پوری نے ’ ’ طیفیہ ‘‘ کا لفظ تجویز کیا۔

بقول جاوید وششٹ مہدی افادی نے ایسے کو ’’ مطائباتِ ادب ‘‘ کا نام دیا ہے۔

ڈاکٹر وحید قریشی نے لکھا ہے :

انشائیہ کا لفظ سب سے پہلے مخصوص معنوں میں غالباً مہدی حسن نے استعمال کیا۔ ڈاکٹر جاوید وششٹ نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ چنانچہ ان کی تحقیق کے مطابق مہدی افادی نے انشائیہ کا لفظ سرے سے استعمال ہی نہیں کیا۔ البتہ لفظ مضمون اور آرٹیکل ان کے ہاں موجود ہے۔ 11

لفظ انشائیہ کو اردو میں پہلی مرتبہ1944 میں ڈاکٹر اختر اورینوی نے اکبر علی قاصد کے مضامین کے مجموعے "ترنگ ” کے مقدمے میں استعمال کیا اور انگریزی ایسّے کے خد و خال اور تعریف پیش کی۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں :

انشائیہ نگاری مضمون نویسی کی ایک خاص صنف ہے اس کا چرچا مغربی ادب میں تو خاصہ ہے مگر مشرق میں یہ پھلجھڑی چھوٹتی نظر نہیں آتی۔ اردو دنیا میں مضمون نگاروں کی کمی نہیں رہی۔ حالی، شبلی، شرر اور حسن نظامی کے مضامین اور مقالے تو بکثرت ہیں اور ان میں سے بعض مضامین میں انشائیہ کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ 12

اختر اورینوی انگریزی انشائیے کے مزاج داں واقع ہوئے ہیں چنانچہ انھوں نے اکبر علی قاصد کے مضامین کے سلسلے میں یہ اعتراف کیا کہ وہ مضامین ہی کے زمرے میں شامل ہوں گے۔ یہ لفظ مغربی ایسّے کے متعلق استعمال ہو نے اور اس کے مزاج اور خدوخال کی وضاحت کے باوجود غلط معنوں میں استعمال ہو تا رہا۔

اختر اورینوی کا ایک نئے پیرایہ اظہار کو اردو میں رواج دینے کا یہ خیال سعیِ رائیگاں ثابت ہوا اور ان کے مقدمے کی اشاعت کے بعد تقریباً بارہ سال کے عرصے میں یہ لفظ تو استعمال ہوتا رہا لیکن تخلیقی سطح پر لائیٹ ایسّے کی فنّی خصوصیات پر مبنی تحریروں کے ذیل میں نہیں بلکہ سر سید کے ذریعے متعارف کئے گئے ایسّے اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے لئے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگست 1958 میں سید محمد حسنین نے مضامین کا ایک انتخاب شائع کیا جس کا نام صنف انشائیہ اور انشائیے رکھا۔ اس میں صنف انشائیے کے خد و خال واضح کر نے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس کے مزاج کو اچھی طرح سمجھ نہیں پائے۔ صنف انشائیہ اور انشائیے میں محمد حسین آزاد، عبدالحلیم شرر، خواجہ حسن نظامی، مرزا فرحت اللہ بیگ، ملّا رموزی، رشید احمد صدیقی، حاجی لق لق، انجم مانپوری، پطرس بخاری، فلک پیما، کرشن چندر، کنہیا لعل کپور، شوکت تھانوی، اکبر علی قاصد، ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد جمال پاشا کی تحریریں شامل ہیں۔ ٗ

ّّّّصنف انشائیہ اور انشائیے کی اشاعت سے قبل ظہیر الدین مدنی نے اردو ایسیز کے نام سے 1957میں مضامین کا ایک انتخاب شائع کیا تھا جس میں انشائیہ لفظ کا کہیں بھی استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اسی کتاب میں نیاز فتح پوری نے ایسّے کے لئے مناسب نام کی تلاش کی کوشش کی اور ایک نام طیفیہ سجھایا۔

ایک اور لفظ میری سمجھ میں آیا تھا طیفیہ، طیف عربی میں خیال کو بھی کہتے ہیں اور اس روشنی کو بھی جو مثلثی شیشہ Prismکے اندر سے گزر کر مختلف رنگوں میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن یہ لفظ شاید مقبول نہ ہوتا۔ 13

اگست1955 میں وزیر آغا کا مضمون ’’ گرمی کی آغوش ‘‘میں ادبِ لطیف، لاہور میں شائع ہوا۔ مرزا ادیب نے اس مضمون میں موجود لائیٹ ایسے کی خصوصیات کو سراہا اور اسے انشائے لطیف کے تحت شائع کیا۔ 1956 میں اسی قسم کی تحریر کے لئے لطیف پارہ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اس تبدیلی کی وجہ بیان کرتے ہوئے مرزا ادیب نے ٹیگور کی نظموں کے تراجم سے مستعار اسلوب جو ادبِ لطیف کے نام سے اردو میں متعارف ہو چکا تھا، کی خصوصیات کو لائیٹ ایسّے کے مزاج سے مختلف قرار دیتے ہوئے لکھا :

’’انشائے لطیف ‘‘ لائیٹ ایسّے کا ترجمہ سہی مگر یہ نام ان مصنوعی خصوصیات کا احاطہ نہیں کر سکتا جو لائیٹ ایسّے سے وابستہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ، لائیٹ ایسّے اور دوسرے مضامین (ان کا موضوع خواہ کچھ بھی ہو ) میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دوسرے مضامین بہت حد تک ذاتی تاثرات اور تجربات سے الگ رہتے ہیں مگر لائیٹ ایسے خالصتاً ذاتی ہوتا ہے۔ 14

1959 میں علی گڑھ سے رسالہ’’ ادیب ‘‘ کا انشائیہ نمبر شائع ہواجس میں مقالات کو بھی انشائیہ کے ذیل میں شامل کیا گیا۔

1961 میں وزیر آغا کے مضامین کا مجموعہ ’’ خیال پارے ‘‘ شائع ہواجس میں انشائیہ کیا ہے ؟ اس مضمون میں انشائیہ کے خد و خال پر کھل کر بحث کی گئی۔ اس کتاب میں لائیٹ ایسّے کے نمونے اردو میں پہلی مرتبہ انشائیے کے نام سے پیش کئے گئے اور اسی کے بعد ادبِ لطیف میں مرزا ادیب نے لائیٹ ایسّے کے تعارف اور تخلیق کی جو تحریک چلائی تھی اسے وزیر آغا نے تخلیقی اور تنقیدی ہر دو جہتوں سے اردو میں متعارف کروانے کا فریضہ انجام دیا۔ اس سلسلے میں ماہنامہ” اوراق "نے بھی اس صنف کے نمونے شائع کئے جس کے نتیجہ میں انشائیہ نگاروں کی ایک نئی نسل وجود میں آ گئی اور لفظ انشائیہ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں اردو میں ایک نثری صنف کے لئے اصطلاح کے طور پر رائج ہو گیا۔

 

حواشی

1۔ مشکور حسین یاد، ممکناتِ انشائیہ، لاہور، 1983ص42۔ 130

2۔ ڈاکٹر وزیر آغا، پیش، لفظ دوسرا کنارہ، سرگودھا، 1982ص8

3۔ ڈاکٹر وزیر آغا، پیش، لفظ دوسرا کنارہ، سرگودھا، 1982ص8

4۔ ڈاکٹر وزیر آغا، پیش، لفظ دوسرا کنارہ، سرگودھا، 1982ص34۔ 35

5۔ احمد جمال پاشا، انشائیہ کی اصطلاح، ماہنامہ اردو زبان، سرگودھا، انشائیہ نمبر،      اپریل 83ص33

6۔ محی الدین قادری زور، اردو کے اسالیبِ بیان، حیدر آ باد، 1949ص23

7۔ ظہیر الدین مدنی، اردو ایسیز، دہلی، 1981ص27

8۔ ظہیر الدین مدنی، اردو ایسیز، دہلی، 1981ص28

9۔ محی الدین قادری زور، اردو کے اسالیبِ بیان، حیدر آ باد، 1949ص91

10۔ ظہیر الدین مدنی، اردو ایسیز، دہلی، 1981ص25

11۔ ڈاکٹر وحید قریشی، اردو کا بہترین انشائی ادب، لاہور، 1964 ص45

12۔ اختر اورینوی، بحوالہ اردو انشائیہ، انور سدید، لاہور، 1985ص47

13۔ نیاز فتحپوری، پیش لفظ، اردو ایسیز، دہلی، مرتبہ :ظہیرالدین مدنی، 1981 ۔ ص15

14۔ مرزا ادیب، پیرایہ آغاز، ادبِ لطیف، لاہور، مارچ 1956، ص3

 

 

                3۔ تعر یفِ انشائیہ

 

صداقتوں کی طرح اصنافِ ادب بھی مختلف جہات کی مالک ہیں۔ وہ تمام عناصر جنہیں کسی ادبی صنف میں اساسی حیثیت حاصل ہو، کوئی ایک تعریف (Definition)ان کی مکمل ترجمانی کرنے سے قاصر ہے۔ بعض تعریفیں جزوی صداقتوں کی حامل ہوا کرتی ہیں اور اس صنفِ ادب کی انفرادی خصوصیات، خد و خال کا احاطہ کرتے ہوئے اس صنف کے مزاج کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو تی ہیں۔ مغرب میں انشائیوں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد عالمی ادب پر اپنے اثرات مرتّب کر نے کے باوجود انگریزی میں انشائیہ کی کوئی حتمی تعریف مو جود نہیں ہے۔

انشائیہ بر صغیر میں اردو کے ادبی حلقوں میں بحث و تمحیص کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ اس صنف میں معیاری فن پاروں کے فقدان ہی کے سبب تخلیقی سطح پر زمین ہموار نہ ہو پائی اسی لئے اس کی جو تعریفیں موجود ہیں ان میں بھی انشائیہ کا کوئی واضح تصّور سامنے نہیں آ تا۔

انشائیہ کی جامع و مانع تعریف کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جا تی رہی ہے۔ اسی سعی و جستجو کے نتیجے میں کئی تعریفیں ادیبوں اور ناقدین نے پیش کی ہیں۔

ابتدا ہم مغربی ادباء و ناقدین کے اقوال سے کرتے ہیں کہ یہی خطّہ اس صنف کا اوّلین گہوارہ رہا ہے۔ انسا ئیکلو پیڈیا برٹینیکا میں ایسّے کی تعریف درج ذیل ہے :

"The English mind the true Essay is a composition of moderate length, usually in prose which deals in an easy, cursory way with the chosen subject and with the relation of that subject to the writer.”.1

جارج سینٹ بری کے نزدیک ایسّے کسی دلچسپ قسم کے آدمی کی گفتگو ہے جسے ہر قسم کی معلومات ہے اور انداز ایسا جو عام طور پر کھانے کے بعد پر لطف بات چیت کا ہوا کرتا ہے :

"After dinner monologue of an interesting and well informed man.” 2

ڈبلیو ایم ہڈسن انشائیہ کو ایک ایسی تحریر کے روپ میں دیکھتے ہیں جو مصنّف کے ذہن اور شخصیت کی عکاسی کرتی ہے :

’’سچّے انشائیہ کی بنیادی صفت یہ ہے کہ مصنّف کا ذہن اور کر دار اس کی تحریر کے مواد سے ظاہر ہو۔ ‘‘3

ڈبلیوای ولیم کے خیال میں :

’’انشائیہ عام طور پر ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا ہے تاہم انشائیہ نگار نکتہ آفرینی کے لئے کسی چھوٹے سے واقعے کو بھی استعمال کر سکتا ہے اور اپنے زاویۂ خیال کی تمثیلی وضاحت کے لئے ناول سے ایک ورق لے کر اس سے کر دار بھی تخلیق کر سکتا ہے۔ لیکن واضح رہے کہ انشائیہ نگار کا بڑا مقصد کہانی کی پیش کش نہیں بلکہ انشائیہ نگار معاشرے کا فیلسوف، ناقد اور حاشیہ نگار ہے۔ ‘‘ 4

ڈبلیو۔ ای۔ ولیم کے مطابق انشائیہ نگار کا بنیادی کام کہانی یا واقعہ کا بیان نہیں بلکہ نکتہ آفرینی ہے اور اس کے لئے وہ کوئی بھی وسیلہ اختیار کر سکتا ہے۔

فلسفیانہ توجیہ، معاشرتی مظاہر پر تنقید، حقائق کا انکشاف، وغیرہ مختلف پہلو اس کی تخلیقی قوتوں سے نمایاں ہوتے ہیں بلکہ اس سے بھی ایک قدم آ گے بڑھ کر ان کی مدد سے وہ اظہار کی وسعتوں کو تلاش کرتا ہے۔ ایف۔ ایچ۔ پریچرڈ کا قول ہے :

’’دوسری اصناف کے مقابلے میں ایسّے متوازن فکر کا عمدہ حاصل ہے۔ اس میں ہلکی سی بے اطمینانی اور نا موجود کو موجود سے دریافت کر نے کی آرزو ملتی ہے۔ ایسّے کی سعی پارہ پارہ اور مختصر ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ خلوص سے معمور ہو تی ہے اور موضوع کو ذات کے حوالے سے پیش کرتی ہے۔ ‘‘5

نا موجود کو مو جود سے دریافت کر نا تخلیق ہے۔ کسی بھی صنف کی ادبی حیثیت اس صفت کے بغیر مشکوک قرار دی جا سکتی ہے۔ انشائیہ کی کوئی تخصیص نہیں البتّہ متوازن فکر اور موضوع کو ذات کے حوالے سے پیش کر نے کا عمل انشائیہ کی انفرادی خصوصیت کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ ہاؤسٹن پیٹر سن لکھتے ہیں :

’’ایسّے کا مطلب تحریر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہو گا جس میں کسی بھی موضوع سے بحث کی گئی ہو مگر شخصی، غیر رسمی اور غیر مصنوعی انداز میں۔ ایسّے مفکّرانہ ہو گا لیکن سنجیدہ نہیں۔ وہ فلسفے سے قریب تر ہو گا لیکن فلسفے کی طرح با قاعدہ نہیں۔ اس میں ایک قسم کی ڈھیلی ڈھالی وحدت ہو گی۔ اس میں اصل موضوع سے مسرّت بخش انحراف بھی ہو گا۔ وہ ہمیں مصنّف کی رائے سے اتفاق کی ترغیب دے سکتا ہے لیکن وہ ہمیں اتّفاقِ رائے پر مجبور نہ کرے گا۔ ’ایسّے اِسٹ‘چاہے اور جو کچھ بھی ہو، وہ ہمارا دوست اور لفظوں کا فنکار ہو گا۔ ‘‘6

اس تعریف کی رو سے انشائیہ مسلّمات کا بیان نہیں بلکہ شخصی نقطہ ٔ نظر کا اظہار ہے۔ اسی لئے گھسے پٹے انداز، چبے چبائے الفاظ اور مخصوص فکری سانچوں سے گریز، موضوع سے منحرف ہو کر اس کے اچھوتے پہلو بے نقاب کرنا انشائیہ نگار کا طریقۂ کار ہے۔ انشائیے کے سلسلہ میں جانسن کی یہ تعریف سب سے زیادہ مشہور ہو ئی:

”An Essay is a sally of the mind, an irregular indigested piece, not regular and orderly composition’- 7

’’انشائیہ ذہن کی آزاد ترنگ اور بے قاعدہ اور غیر منظّم عمل ہے۔ جانسن منصوبہ بند فکر سے گریز اور سوچ کی آزاد روی کو انشائیہ کا شناختی نشان قرار دیتا ہے۔ اس پر یہ اعتراض کیا گیا کہ ذہن کی آزادانہ ترنگ تو کسی خبطی کی بڑ ہو گی۔ اس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ پاگل کی سوچ مرکزیت سے بے نیاز ہوتی ہے جبکہ انشائیہ نگار مرکز سے وابستہ ہوا کرتا ہے۔ انشائیہ کو بے قاعدہ اور غیر منظّم عمل قرار دے کر نہ صرف انشائیہ کی ہیئت بلکہ انشائیہ اور عملی مضمون کے فرق کو بھی واضح کر دیا گیا ہے۔ اردو میں انشائیہ کو سب سے پہلے اختر اورینوی نے ایک صنف کی حیثیت سے متعارف کروانے کی کوشش کی۔ اکبر علی قاصد کی کتاب ’ترنگ‘ کے مقدمے میں انشائیے کے کوائف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ دراصل انشائیہ، فلسفیت اور رنگینی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ایسی فلسفیت جس میں دل جلا پن، خشونت، یا وحشت خیزسنجیدگی نہ ہو، یہاں فلسفہ ہوتا ہے۔ بغیر رندھے ہوئے چہرے کی رنگینی ہوتی ہے مگر ذمّہ داری کے ساتھ، رِندی اور احتساب کا عجیب و غریب مجموعہ مضحکہ خیز نہیں ہوتا، بلکہ امتزاجِ کامل کے نتیجے میں ایک بڑی دلنواز شخصیت پیدا کر دیتا ہے۔ ایک ایسی صوفیت جس میں مزاح کا نمک ملا دیا جائے۔ ‘‘8

مو لانا عبدالماجد دریا بادی کے نزدیک :

’’انشائیہ کی امتیازی خصوصیت حسنِ انشاء ہے۔ یہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے۔ انشائیہ وہ ہے جس میں مغز و مضمون کی اصل توجّہ حسنِ عبارت پر ہو۔ ‘‘9

عبدالماجد دریا بادی نے انشائیہ کی اس تعریف میں مشرق میں مقبول عام اس رجحان کو بیان کیا ہے جو انشا پردازی کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ اردو اور فارسی میں ابتدا ہی سے عبارت آرائی اور حسنِ بیان انشا پردازی کا مطمحِ نظر رہا ہے۔ لیکن انشائیہ محض انشا پردازی نہیں ہے، گواسے اس کے بنیادی اوصاف میں شمار کیا جائے گا۔ انشائیہ کی دیگر اساسی خوبیوں اور فنّی جہتوں کو نمایاں کر نے والوں کے پیشِ نظر مغربی ایسّے کی روایت رہی ہے۔ ان ہی ناقدین میں کلیم الدین احمد انشائیہ کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ انشائیہ کوئی نئی صنف نہیں، یہ وہی صنف ہے جسے انگریزی میں ایسّے Essay کہتے ہیں۔ خط کی طرح انشائیہ بھی اپنی تلا ش اور اپنی دریافت ہے جس میں انشائیہ نگار اپنے کر دار کے سر چشموں کو پا لیتا ہے، جس میں اس کی شخصیت کے متضاد عناصر ابھر آ تے ہیں۔ یہ انمل، بے جوڑ اور ہم آہنگی سے عاری نظر آ تی ہے۔ وہ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو ابھارتا ہے۔ وہ اس طرح ان سے نجات پا لیتا ہے۔ اس کا اصل موضوع اس کی شخصیت اور اس کی آزادی ہے۔ کیونکہ دانش مند وہی ہے جو اپنی شخصیت کو پالے اور اپنی فطری آزادی کو ہاتھ سے جانے نہ دے۔ ‘‘10

مانتین نے اپنے انشائیوں کی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ:’’اس کتاب کا موضوع میں خود ہوں۔ فن پا کر ‘‘مانتین کے اسی قول کی بازگشت کلیم الدین احمد کی تعریف میں بھی سنائی دیتی ہے جب وہ کہتے ہیں کہ انشائیہ نگار کا اصل موضوع اس کی ذات اور اس کی آزادی ہے۔ گویا ان کے نزدیک اظہارِ ذات کو انشائیہ میں مرکزیت حاصل ہے اسی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار ڈاکٹر آدم شیخ نے کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :

’’انشائیے ایک ذہین، رنگین مزاج، ترقّی پسند اور روایت شکن فنکار کے جذبات اور احساسات کا پر تو ہی ہوتے ہیں۔ ایک انشائیہ میں لکھنے والے کے ان دبے ہوئے جذبات کا اظہار ہو تا ہے جن کی راہ میں اس کے عہد کی سماجی، مذہبی اور اخلاقی رکاوٹیں حائل ہو تی ہیں۔ انشائیہ مروجّہ اور فرسودہ روایتوں سے مانوسیت اور مطابقت پیدا کرنے میں نا کام رہتا ہے۔ اس کے انفرادی نظریات اور ذہنی کشمکش اظہار کے ذرائع ڈھونڈتی ہے۔ ادیب اس اظہار کے لئے زبان اور تحریر کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن اصنافِ ادب میں بھی جو تحریریں انشائیہ نگار کے لئے معنی خیز خیالات کی حامل ہو تی ہیں اپنے مواد، ہیئت اور اندازِ بیان کی وجہ سے دوسری تحریروں سے منفرد ہو تی ہیں۔ ‘‘11

مندرجہ بالا تعریفوں کی رو سے انشائیے کی حیثیت ذاتی قرار پا تی ہے۔

کلیم الدین احمد نے اسے کر دار کے پوشیدہ سرچشموں کی تلاش کے روپ میں پیش کر کے خود انکشافی کو اس کی ایک اہم خصوصیت قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر آ دم شیخ کے نزدیک انشائیہ ذات کے حوالے سے مروجّہ اقدار کے خلاف بغاوت، ذہنی کشمکش اور انفرادی نظریات کا فنّی اظہار ہے۔ نظیر صدیقی لکھتے ہیں :

’’انشائیہ ادب کی وہ صنف ہے جس میں حکمت سے لے کر حماقت تک ساری منزلیں طے کی جا تی ہیں۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس

میں بے معنی باتوں میں معنی تلاش کئے جا تے ہیں اور بامعنی باتوں کی مہملیت اجاگر کی جا تی ہے۔ یعنی Sense میں Non Sense اور Non Sense میں Sense ڈھونڈا جا تا ہے۔ یہ وہ صنف ہے جس میں لکھنے والا غیر سنجیدہ ہونے کے با وجود سنجیدہ اورسنجیدہ ہونے کے با وجود غیر سنجیدہ یعنی بالفاظِ غالبؔ لکھنے والے کی بے خودی میں ہشیاری اور ہشیاری میں بے خودی پا ئی جا تی ہے۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں کہیں سچ میں جھوٹ اور کہیں جھوٹ میں سچ کی آمیزش ہو تی ہے۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں نہ صرف اپنا نام اور دوسروں کی پگڑی اچھالی جا تی ہے بلکہ اپنی پگڑی اور دوسروں کا نام بھی۔ ‘‘12

نظیر صدیقی انشائیہ کو متضاد عناصر کا مجموعہ ثابت کر نے کی دھن میں خود بھی تضاد بیانی کا شکار ہوئے ہیں۔ جب وہ لکھتے ہیں، یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں کہیں سچ میں جھوٹ کی آمیزش اور کہیں جھوٹ میں سچ کی۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں نہ صرف اپنا نام اور دوسروں کی پگڑی اچھالی جا تی ہے بلکہ اپنی پگڑی اور دوسروں کا نام بھی، گویا مثال کے ذریعے طنز و مزاح کو انشائیہ کا ایک اہم وصف قرار دیتے ہیں۔ لیکن غیر سنجیدہ ہو نے کے باوجود سنجیدہ اورسنجیدہ ہو نے کے با وجود غیر سنجیدہ، ہونے والی بات مذکورہ بالا بیان کی نفی کرتی ہے۔ گویا انشائیہ کا مقصد طنز و مزاح کی تخلیق نہیں کیونکہ سنجیدگی تو مزاح کے لئے سمِ قاتل ہے۔ اور ادب کی مملکت میں طنز کے داخلے کے لئے بھی کم از کم شگفتگی کا پا سپورٹ ضروری ہے۔ اسی لئے اس تعریف سے انشائیہ کا کوئی واضح تصور سامنے نہیں آتا۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے قول کے مطابق انشائیہ کسی بیدار ذہن کی تخلیقی سرگرمی ہے۔

’’بیدار ذہن کے حامل تخلیقی شخصیت کی زندگی کے تنوع سے دلچسپی کے با مزا نثر میں مختصر اور لطیف اظہار کو انشائیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ‘‘13

اس سلسلہ میں مزید اظہار خیال کرتے ہوئے لنکن کی جمہوریت کی مشہور تعریف کے طرز پر انھوں نے انشائیہ کو مہذّب ذہنوں کے لئے مخصوص کیا ہے۔ مشکورحسین یاد انشائیے کو ’امّْ الاصناف‘ قرار دیتے ہوئے اسے ادب کا نقطۂ آغاز سمجھتے ہیں :

’’ انشائیہ ادب کا ایک فطری اظہار ہے اس لئے ہر ادیب اس کا موجد ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں جب اس کے ادب کا آغاز ہوا تو انشائیہ وجود میں آیا۔ اس لئے کسی کا یہ دعویٰ کر نا کہ صرف وہی انشائیہ کا مو جد ہے کھلی حماقت کے سوا اور کچھ نہیں۔ انشائیہ کی تعریف لفظوں میں نہیں ہوا کرتی۔ انشائیہ کی تعریف یا تو انشائیہ پڑھنا ہے یا انشائیہ لکھنا۔ ‘‘14

غلام جیلانی اصغر لکھتے ہیں :

’’ انشائیہ ایک ایسی نثری صنف ہے جو اتنی ہی بے ربط ہے جتنی کہ زندگی خود اور جس طرح زندگی کے آ خر میں حیاتیاتی وحدت وجود میں آتی ہے اسی طرح انشائیہ کے منتشر اجزاء میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک وحدتِ تاثر پیدا ہو جاتی ہے۔ زندگی خود کئی اجزاء سے عبارت ہے۔ انشائیہ کی یہی خوبی یا خصوصیت ہے۔ یہ اجزائے فکری بھی ہوتے ہیں اور جذباتی بھی یعنی انشائیہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے اور محسوسات کے وسیع تر امکانات بھی چھوڑ جا تا ہے۔ آپ جب انشائیہ ختم کر لیتے ہیں تو آ پ کی سوچ کو ایک نیا اور غیر رسمی سازاویہ مل جا تا ہے۔ ‘‘15

انشائیہ کے بے ربط ہو نے کا تصوّ ر مشہور مصنف جانسن کی تعریف "A loose sally of mind” اور آزاد تلازمۂ خیال کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن اپنی اصل کی طرف لوٹنے کے عمل کے نتیجے میں جو حیاتیاتی وحدت وجود میں آ تی ہے وہ انشائیہ کو بکھراؤ سے بچا لیتی ہے۔ فکری و جذباتی عناصر امکانات کے وسیع و عریض دشت کو کھنگالنے کے بعد انشائیہ کو ایک نئی آب و تاب سے روشناس کرواتے ہیں۔ گویا غلام جیلانی اصغر کے خیال میں فکر، جذبہ اور تخیل انشائیہ میں کلیدی رول اد ا کرتے ہیں۔

انشائیہ کے متعلق وزیر آغا کی یہ تعریف بڑے پیمانے پر موضوعِ بحث رہی ہے :

’’انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیاء و مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور پر گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جا تا ہے۔ ‘‘16

اس تعریف کی رو سے انشائیہ کے لئے درج ذیل خصوصیات لازمی ہیں :

ا۔ اسلوب کی تازہ کاری

۲۔ اشیا ء و مظاہر کے مخفی مفاہیم تک رسائی۔

۳۔ انسانی شعور کا اپنے مدار سے باہر نکل کر نئے مدار کو وجود میں لا نا۔

وزیر آغا بر صغیر میں انشائیے کی اس تحریک کے روحِ رواں ہیں جو اردو میں انشائیے کو ایک علاحدہ صنف کی حیثیت سے ان بنیادوں پر استوار کر نا چاہتے ہیں جنھیں مغرب میں قبولِ عام حاصل ہوا۔ وزیر آغا کے پیشِ نظر مغربی انشائیے کے و ہ نمونے رہے جنھیں Light Essay یا Personal Essayکہا جا تا ہے۔ اس لحاظ سے مذکورہ تعریف بھی مکمّل نہیں کہی جا سکتی کہ اس میں اس پہلو کا احاطہ نہیں ہو سکا جسے Self Expressionکہا جا تا ہے جو اس قبیل کے انشائیوں کا اہم جزو ہے۔

اس تعریف کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر صفدر لکھتے ہیں :

’’وزیر آغا نے انشائیے کی جو تعریف پیش کی ہے اور اس کی توضیح کرتے ہوئے جو تین صفات بیان کی ہیں وہ انشائیے سے مخصوص نہیں۔ کوئی ادب پارہ خواہ وہ کسی ہی صنفِ ادب کے زمرے میں آتا ہو، ان صفات کا حامل ہو تا ہے۔ قصیدے کو منہا کر دیجئے تو مجموعی حیثیت سے سارا ادب ہمیں زندگی اور اس کے مظاہر کے بارے میں زیادہ با خبر بناتا ہے۔ وارث علوی کہتے ہیں ’ بڑی شاعری ہمیں بڑے پیمانے پر ڈسٹرب کرتی ہے۔ تو انشائیہ ایسی صنف نہیں ہے جو قاری کو سلاتی نہیں بلکہ جگاتی ہے، لہٰذا زبان کا تخلیقی استعمال، معنی کی نئی سطحوں کی دریافت اور شعور کی توسیع کے ذریعے انشائیہ کو شناخت نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘17

گذشتہ صفحات میں انشائیوں کی تعریفوں کا ایک انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ منجملہ ان بے شمار تعریفوں کے جنھیں بخوفِ طوالت نقل نہیں کیا جا سکا، بیشتر ایسی ہیں جنھیں تعریف کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ مذکورہ تعریفوں سے بھی ظاہر ہے کہ انشائیہ بیک وقت کسی ایک تعریف کی گرفت میں نہیں آ سکا گو مختلف سمتوں سے پڑنے والی روشنی سے اس کی ظاہری و باطنی خصوصیات اور خد و خال نمایاں ضرور ہوئے ہیں۔

ڈبلیو ای ولیم، ہاؤسٹن پٹرسن، ڈاکٹر جانسن، اختر اورینوی، ڈاکٹر آدم شیخ، ڈاکٹر نظیر صدیقی، ڈاکٹر وشناس کرْوزیر آغا، ڈاکٹر سلیم اختر، مشکور حسین یاد اور غلام جیلانی اصغر کی تعریفوں میں انشائیہ کے بیشتر پہلوؤں کا احاطہ کر نے کی مستحسن کوشش نظر آ تی ہے۔ مغربی مفکرین میں اس کے متعلق جو اختلافِ رائے موجود ہے اس کا ایک سبب یہ ہے کہ وہاں بھی اس صنف کے خد و خال پوری طرح متعین نہیں کئے جا سکے۔

دوّم صدیوں پر محیط اپنے ارتقائی سفر میں اسلوب کی تبدیلیوں اور نئے رنگ و آہنگ کو اختیار کر نے کے نتیجے میں نہ صرف انشائیہ کی سر حدیں وسیع ہوئیں بلکہ یہ صنف ایک لچک سے بھی روشناس ہو ئی۔

انشائیہ کے سلسلے میں لطیف قسم کا اختلافِ رائے اس کی صنفی خصوصیات کی داستان ہی نہیں اس کے ارتقائی سفر کے مختلف مراحل کا بیان بھی ہے کہ بعض اوقات یہی چیز اس کی کسی ایک خوبی کی مختلف جہتوں کو روشن کر نے کا اہتمام کر گئی، مثلاً جارج سینٹ بری اس صنف کے شخصی اظہار کو   "After dinner monologue” کہتے ہیں۔ ہڈسن کے نزدیک یہ انشائیہ نگار کے ذہن اور شخصیت کی عکّاسی ہے۔ ڈبلیو ای ولیم کے خیال میں انشائیہ نگار کے زاویۂ نگاہ کی تمثیلی وضاحت اسے معاشرہ کو ایک فلسفی کی نظر سے دیکھنے کی ترغیب دیتی ہے اور انشائیہ نگار ایک ناقد اور حاشیہ نگار بن کر سامنے آتا ہے۔ پریچرڈ کے نزدیک انشائیہ ذات کے حوالے سے کسی موضوع کو پیش کر نے کا ایک ذریعہ ہے۔ آ لڈس ہکسلے انشائیہ کو ذات سے لے کر کائنات تک مختلف دنیاؤں کا سفر قرار دیتا ہے۔

اردو میں انشائیہ کی بیشتر تعریفوں پر غور کیا جائے تو محسوس ہو تا ہے کہ ان میں مغربی ناقدین اور ادیبوں کے خیالات کی باز گشت مو جود ہے۔ ہمارے یہاں اس سلسلے میں موجود اختلاف کھل کر رو نما نہیں ہو پا یا اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اختلاف جزئیات سے متعلق ہے۔ بیشتر کوائف کے متعلق باہمی اتفاقِ رائے مو جود ہے۔

انشائیہ کو ایک علاحدہ صنفِ ادب کی حیثیت سے قبول کر نے، اس کی صنفی خصوصیات، فارم اور حدودِ اربعہ کا مسئلہ سببِ اختلاف ہے۔ وزیر آغا، غلام جیلانی اصغر اور اختر اورینوی کی تعریفوں میں اسی نقطۂ نظر کی توثیق ہو تی ہے۔ اس کے بر عکس مشکور حسین یاد انشائیہ کو امّْ الاصناف قرار دیتے ہیں اور ڈاکٹر سلیم اختر اسے چند خانوں میں محدود کر نے کے بجائے تمام نثری اصناف میں جہاں جہاں اس کے نقوش دستیاب ہوں انھیں انشائی عناصر کے طور پر قبول کر نے کے حامی ہیں۔

مشکور حسین یاد کے نزدیک ندرتِ خیال اہمیت کی حامل ہے، نظیر صدیقی نے طنز و مزاح کے ساتھ سنجیدگی اور اسی قسم کے متضاد عناصر کے درمیان توازن قائم کر نے پر زور دیا ہے اور عبدالماجد دریابادی حسنِ انشاء کو انشائیہ کا امتیازی نشان قرار دیتے ہیں۔

مجموعی طور پر انشائیہ کی تعریف کے سلسلے میں غلام جیلانی اصغر کی یہ بات صادق آ تی ہے جو انھوں نے انشائیہ کے ضمن میں کہی ہے :

’’انشائیہ میں گریز کی کیفیت ہوتی ہے، آپ جب ایک سرے سے اسے پکڑ نا چاہتے ہیں تو دوسرا سرا آ پ کی انگلیوں سے پھسل جا تا ہے۔ ‘‘18

 

 

حواشی

 

  1. Encyclopedia Britannica, Vol. 8, P. No. 713

۲۔ جارج سینٹس بری، بحوالہ انشائیہ اور اردو انشائیے، سید محمّد حسنین، ص:32

  1. W. H. Hudson, An Introduction to the study of Literature, P. No. 332, London, 1558
  2. E. William, A Book of English Essays, P. No. 11, London, 1951
  3. F. H. Pritchered, Essays of today, P. No. 11, London, 1930
  4. Houston Peterson, Great Essays, P. No. 14, New York, 1954

7 Dr. Johnson, Refer. W. H. Hudson, An Introduction to the study of literature, P. No. 331, London, 1558

۸۔ اختر اورینوی، بحوالہ گفتگو، اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر، 1985ص16

۹عبدالماجد دریابادی، بحوالہ انشائیہ ایک ہمہ جہت صنفِ نثر، سلیم آغا قزلباش، اوراق، انشائیہ نمبر، 1985ص139

۱۰۔     کلیم الدین احمد، پیش لفظ، نشاطِ خاطر، از حسنین عظیم آ بادی، پٹنہ، 1980، ص:7

۱۱۔     ڈاکٹر آ دم شیخ، انشائیہ، بمبئی، 1965، ص:27

۱۲۔     نظیر صدیقی، شہرت کی خاطر، ڈھاکہ، 1961، ص:10

۱۳۔    ڈاکٹر سلیم اختر، انشائیہ کی بنیاد، لاہور، 1986، ص:210

۱۴۔    مشکور حسین یاد ممکناتِ انشائیہ، لاہور، ص:43

۱۵۔    غلام اصغر جیلانی، انشائیہ کیا ہے ؟ اوراق، انشائیہ و افسانہ نمبر مارچ-اپریل 1972، ص:230

۱۶۔     ڈاکٹر وزیر آغا، دوسرا کنارہ، سرگودھا، 1982، ص:8

۱۷۔    ڈاکٹر سید صفدر، دوسرا کنارہ ایک مطالعہ، ماہنامہ آہنگ، گیا، بہار، مارچ 1983، ص:17

۱۸۔    غلام جیلانی اصغر، انشائیہ کیا ہے ؟ اوراق، انشائیہ و افسانہ نمبر مارچ-اپریل 1972، ص:230

 

                4۔ انشائیہ کی شناخت

 

انشائیہ کیا ہے ؟

 

یہ سوال برصغیر کے ادبی حلقوں میں اتنی بار دہرایا جا چکا ہے اور اس کے جواب میں اس قدر صفحات سیاہ کئے جا چکے ہیں کہ ادب کی کسی دوسری صنف کے متعلق اس کی مثال ملنی محال ہے۔ سوال کا لہجہ اس صنف کے متعلق اجنبیت کا تاثر پیش کرتا ہے۔

جاوید وششٹ نے ملّا وجہی کی تصنیف ’ سب رس‘ سے انشائیہ کے نقوش کی نشاندہی کر کے بتایا کہ ہمارا انشائیہ کلیتاً ہمارا اپنا انشائیہ ہے۔

بیشتر ناقدین کے نزدیک انشائیہ ایک ایسی صنف ہے جسے مغرب سے

بر آ مد کیا گیا ہے۔ یہ مغرب کے باغ سے فراہم کی گئی ایک قلم ہے جسے اردو کے باغ میں لگایا گیا ہے۔ انشائیے کے متعلق اردو میں پا ئی جانے والی یہ الجھن ان مباحث سے آ شکار ہے جو ہند و پاک کے اخبارات و رسائل میں ابھرے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں موجود متضاد تصورات کا اندازہ فضیل جعفری کے اس اقتباس سے بہ آ سانی لگا یا جا سکتا ہے۔

’ جس طرح پچّیس برس پہلے تک ادبی گالی گلوچ کے لئے رجعت پسند اور زوال آمادہ جیسے کلیشیز بنا لیے گئے تھے ویسے ہی ان دنوں انشائیہ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے یعنی جس سے ناراض ہوئے اسے رجعت پسند نہ کہہ کر انشائیہ نگار کہہ دیا۔ حساب بے باق ہو گیا چنانچہ ترقّی پسند ٹیم کے نئے گول کیپر مشکور حسین یاد، عسکری کے مضامین کو اگر انشائیہ کہتے ہیں تو ادھر ممتاز نقّاد شمس الرحمن فاروقی فراقؔ صاحب کے مضامین کو انشائیہ کہنا پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف سرکش ادیب باقر مہدی کرشن چند رکے افسانوں کو انشائیہ سے تشبیہ دیتے ہیں تو لسانی تنقید کے سر گرم وکیل ڈاکٹر مغنی تبسّم وارث علوی کے مضامین کو انشائیہ گر دانتے ہیں۔ 1

یہی سبب ہے کہ مشکور حسین یاد انشائیہ کو اس ہاتھی سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے متعلق چار اندھے مختلف قیاس آرائیوں میں مبتلا تھے، وہ کہتے ہیں :

’ ہم نے انشائیہ کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جیسا کہ کچھ اندھوں نے ہا تھی کے ساتھ کیا تھا یعنی جس کے ہا تھ میں ہا تھی کے جسم کا جو حصّہ آ گیا اس نے اسی کو ہا تھی سمجھ لیا۔ ۔ ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہا تھی کی دم بھی ہاتھی ہی کے جسم کا ایک حصّہ ہے اور ہم ہاتھی کی دم پکڑ کر بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہاتھی ہے، لیکن ایسا اس وقت ممکن ہے جب کہ ہا تھی کی دم کے ساتھ ہماری نگاہیں پو رے ہا تھی پر بھی پڑ رہی ہوں یا کم از کم ہم نے ایک بار پورے ہا تھی کا نظارہ کر لیا ہو۔ ‘2

انشائیہ کی بعض جز وی خصوصیات کی بنا پر کم و بیش ہر قسم کی تحریر کو انشائیہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ انشائیہ کی شناخت میں یہ چیز اس قدر اہم ہے کہ اردو میں انشائیہ کے متعلق پائے جا نے والے اختلاف کی بنیاد بھی یہی ہے۔ ایک طبقہ اسے ایک کل کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے جس میں مخصوص محاسن متوقع ہیں۔ اس کے حدودِ اربعہ اور ہئیت بھی متعین ہیں۔ اس کے بر عکس دوسرا طبقہ انشائیہ کو ان قیود سے آزاد خیال کرتا ہے اس نقطۂ نظر کی تر جمانی احمد ندیم قاسمی نے ان الفاظ میں کی ہے :

’ میرے نزدیک انشائیہ کسی خاص موضوع کے بارے میں ادیب کی سوچ کا عکس ہو تا ہے۔ اس صنف کی متعین صورت نہیں ہے۔ ہر ادیب کا سلسلۂ خیال دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس میں حکمت کی گہرائی اور زندگی کی شگفتگی، مسائلِ حیات کی متانت اور ساتھ ہی ہلکی پھلکی ہنسی۔ سبھی کچھ سما سکتا ہے۔ اسی لئے میں انشائیہ پر کسی ہئیت کی چھاپ لگانے کا مخالف ہوں۔ ‘3

انشائیہ کے متعلق مختلف تصورات کی مو جو دگی کے سبب اس کی شناخت کے سلسلے میں حتمی قسم کی کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس کا کوئی واضح تصور سامنے نہیں آتا۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :

’ جہاں تک انشائیہ پر تنقیدی تحریروں کا تعلق ہے تو ان میں بیشتر کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ ان میں اخذ نتائج کے ذہن میں Inductive Method سے کام نہیں لیا جاتا یعنی انشائیوں کے مطالعہ کے بعد ان کی مشترک خصوصیات یا

ما بہ الامتیاز خصائص کے استنباط کی بنیاد پر بات کر نے کے برعکس پہلے سے طے شدہ نتائج، مفروضوں یا پھر پالتو تعصبات کی روشنی میں اچّھے یا برے انشائیہ کا فیصلہ کیا جا تا ہے۔ ‘ 4

انشائیوں کے اعلیٰ نمونے پیشِ نظر رکھ کر انشائیوں کی تعریف بھی پیش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں مغربی نقّادوں کی آراء معتبر اور حقیقی محسوس ہو تی ہیں کہ ان کے ہاں انشائیہ کے معیاری تخلیقی نمونے وافر تعداد میں مو جود ہیں اور اس صنف کا چار صدیوں پر محیط ارتقاء اس کے واضح خد و خال سمیت انشائیہ کے بنیادی محاسن کو پیش کر نے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ معیاری انشائیوں کا فقدان ہے۔ دوّم انشائیے کی ہماری بیشتر تعریفیں ذہنی قیود اور تعصبات سے مبرّا نہیں ہیں۔ اسی طرح ان میں سے اکثر تعریفیں مغربی ناقدین کے خیالات کی باز گشت ہیں۔ علاوہ ازیں مغرب میں بھی اس صنف سے متعلق اختلافِ رائے مو جود ہے، بلکہ Inductive Method کو اپنایا جائے تب بھی مسئلہ اتنا آ سان نہیں۔ انگریزی ایسّے میں مختلف اسالیب، رجحانات اور طریقۂ کار کی بنیاد پر انشائیہ کی قطعی صورت موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہڈسن لکھتے ہیں :

Its outlines are so uncertain, and it varies so much in matter, purpose and style that systematic treatment of it is impossible. The question may indeed be raised whether the essay is to be considered as an independent and settled form of literary art at all. .5

انگریزی انشائیہ اور ہمارے انشائیہ کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ انگریزی میں انشائیہ کے ساتھ فکر اور تخیل جیسے عناصر کو خصوصی تعلق ہونے کے علاوہ انشائیہ کی ذات کو مرکزیت حاصل ہے۔ اس کے برعکس انشا پردازی کے ساتھ اردو میں حسنِ عبارت اور بیان کی لطافتیں وابستہ ہیں اور ان ہی کی بدولت ہماری تحریریں انشائیہ کہلاتی ہیں۔

انشائیہ کی شناخت کے سلسلے میں بنیادی اختلاف کے باوجود اس کے محاسن اور بنیادی خصوصیات کا تذکرہ کثرت سے ہو تا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں کسی مخصوص نقطہ پر اجماع نہیں ہو پایا اور نہ ہی ممکن ہے۔ اسی ضمن میں سجاد باقر رضوی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مغربی فنِ انشائیہ نگاری کے اصولوں کی روشنی میں انشائیہ کا مطالعہ کیا جائے۔

صنف انشائیہ Essay اردو کی اور کئی اصناف کی طرح مغرب سے مستعار ہے۔ لہٰذا اسلوبِ انشائیہ کے سلسلے میں بنیادی طور پر وہی موقف ہو نا چاہئے جو مغرب میں بر تا گیا ہے۔ مغرب میں یہ صنف اپنے پیچھے کوئی بڑی روایت نہیں رکھتی اس کی ابتدا ہی ایسے عہد میں ہو ئی جس میں روایت ترمیم و تنسیخ کے عمل سے گزر رہی تھی۔ ایک شخص کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ زندگی اور اس سے متعلق اقدار و اشیاء کو اپنے زاویے سے اور اپنے تجربات کی روشنی میں دیکھے تو اس نے یہ صنف اختیار کی۔ اسے ایک خاص صنف کا درجہ یوں ملا کہ اس میں وحدت کا وہ بنیادی اصول موجود تھا جو زمانہ قدیم سے ہر فن پارے کی بنیادی خصوصیت سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس کے آگے یہ ہوا کہ لوگوں نے اس روایت کو آ گے بڑھایا اور یوں انشائیہ ایک مستقل صنف قرار پائی۔ ‘6

انشائیہ کی مختلف اساسی خصوصیات در اصل اس کے اجزا ء ہیں جن کی بنیاد پر کسی فن پارے کی انشائی کیفیت کو دریافت کیا جا سکتا ہے، البتہ انشائیہ بحیثیت کل جن اہم عناصر پر مشتمل ہوتا ہے ان میں انشائیہ نگار کی ذات اور اس کا منفرد نقطہ نظر خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مغربی انشائیوں میں دیگر محاسن کم و بیش موجود ہیں۔ البتہ ان چیزوں کو وہاں بھی انشائیہ کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ان عناصر کے سائے انشائیہ کے دیگر اجزاء پر پڑتے ہیں۔ مثلاً انشائیہ کی زبان، اسلوب، اندازِ فکر، ہئیت اور اس کا فن۔ یہ تمام مل کر انشائیہ کو ایک کل کی شکل عطا کرتے ہیں۔ انشائیہ کے یہ عناصر کیا رول ادا کرتے ہیں یہ جاننے کے لئے ہم ہر ایک کا الگ الگ جائزہ لیں گے۔

 

 

حواشی

1۔ فضیل جعفری، زخم اور کمان، بمبئی، 1985ص18

2۔ مشکور حسین یاد، ممکناتِ انشائیہ، لاہور، 1983ص53

3۔ احمد ندیم قاسمی، انشائیہ اور اہلِ قلم، مشمولہ :، انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر، لاہور 1986، ص371

4۔ ڈاکٹر سلیم اختر، انشائیہ کی بنیاد، لاہور 1986، ص384

  1. W.H. Hudson, An Introduction to the study of literature,page,331,London,1558.

6۔ سجاد باقر رضوی، انشائیہ اور اہلِ قلم، مشمولہ :، انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر، لاہور، ص373

 

                5۔ انشائیہ اور مضمون میں فرق

 

انشائیہ اور مضمون کو ہمارے ہاں تقریباً ایک ہی چیز خیال کیا جا تا ہے۔ انشائیہ مضمون ہی کی ایک قسم ہو نے کے باوجود اپنے مخصوص طریقہ کار اور تخلیقی خصوصیت کے سبب مضمون کی مختلف اقسام میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ عہدِ سرسید میں لکھے جانے والے بیشتر مضامین عموماً ایسّے کے خطوط پر لکھے گئے اور انھیں مضمون کا نام دیا گیا۔ مثلاً مضامینِ سر سید، مضامینِ رام چندر، مضامینِ ذکاء اللہ وغیرہ۔ ان مضامین کے علاوہ خالص علمی اور تحقیقی مضامین بھی اسی نام سے پیش کئے جاتے رہے۔ اس نوع کی تحریروں میں جو طریقہ استدلال اور قطعیت پا ئی جا تی ہے، اس سے انشائیہ مختلف قسم کی تحریر واقع ہو ا ہے۔ اسی فرق کو واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں۔

انشائیہ کو بالعموم مضمون سے خلط ملط کرتے ہوئے، مزاحیہ طنزیہ یا پھر تاثراتی مضمون قسم کی شے سمجھ لیا جا تا ہے جو کہ قطعی غلط ہے مضمون ایک عمومی اصطلاح ہے نہ ہی اپنی انفرادی حیثیت سے مضمون کوئی جدا گانہ صنف ہے مضمون کی کئی اقسام ہیں۔ مگر مضمون بذاتِ خود قسم نہیں ہے۔ اس لئے مزاحیہ یا طنزیہ مضمون کی منصوبہ بندی اور ادبی مقاصد قطعی طور سے انشائیہ کے مقابلے جدا گانہ نوعیت رکھتے ہیں۔ 1

ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے کے بر عکس وزیر آغا انشائیہ کو مضمون کی جدا گانہ نوعیت تسلیم کر نے کے بجائے ایک مختلف صنف قرار دیتے ہیں۔ اپنے موقف کو واضح کر نے کی غرض سے انھوں نے ادب کی مختلف اصناف کا ایک شجرہ ترتیب دیا ہے

شجرہ

ادب

نثر     ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔      شاعری

نثر

داستان ناول، افسانہ، ڈراما، سوانح عمری، سفرنامہ، انشائیہ، مضمون۔

مضمون

طنزیہ مضمون، مزاحیہ مضمون، تنقیدی مضمون، علمی مضمون، تحقیقی مضمون 2

 

بیشتر ناقدین کے نزدیک انشائیہ مضمون ہی کا ایک پیرایہ ہے جس طرح انگریزی میں لائیٹ ایسّے اور پر سنل ایسّے کہہ کر مضمون نگاری کے ایک مخصوص رجحان کو علاحدہ طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ اسی کو اردو میں انشائیہ کے نام سے پیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں دیگر مضامین سے اس قسم کی شخصی تحریروں کو الگ کرنے کے لئے جو چیز بنیاد بنائی گئی وہ اس کا غیر رسمی طریقہ کار اور ذاتی عنصر تھا۔ اس سلسلے میں انگریزی ایسے کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں۔

’ایسیز کو دو قسموں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پہلی قسم میں تمام سیاسی، سماجی، مذہبی، ادبی، سوانحی وغیرہ ایسیز کو شامل کیا گیا ہے اور انھیں Formal فارمل یعنی تکلفی اور رسمی کا نام دیا ہے۔ اور دوسری قسم کے ایسیز کوفیمیلیئرFamiliar یعنی ذاتی اور شخصی کہا ہے۔ پہلی قسم کے ایسیز کی مثال ایسی ہے جیسے ایک موضوع پر طول طویل مقالہ بھی لکھا جا سکتا ہے اور ا س موضوع پر پندرہ منٹ میں ختم ہو نے والی ریڈیائی تقریر بھی ہو سکتی ہے جو مربوط تو ہوتی ہے مگر مختصر اور نا مکمل سی رہتی ہے۔ ‘3

ان منضبط اور مربوط مقالات اور انشائیہ میں امتیازی طور پر یہ فرق پایا جاتا ہے کہ انشائیہ موضوع کو شخصی یا ذاتی حوالے سے پیش کرتا ہے موضوع کے کسی زاویے کو روشن کر کے ایک نئی راہ سجھا کر تصویر مکمل کر نے کا کام قاری کو سونپ دیتا ہے۔ یہ عدم تکمیلیت اس کا حسن ہے جب کہ مضمون میں عدم تکمیلیت کو ایک سقم شمار کیا جائے گا۔

مضمون یا مقالہ کی بندش مصنف کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ نفسِ موضوع سے بہت دیر کے لئے دوری اختیار کرے۔ مضمون میں نفسِ مضمون کے ساتھ انصاف شرط ہے۔ اس کے علمی تخلیقی پہلوؤں کو منضبط طور پر پیش کر نا اس کے آ داب میں شامل ہے جبکہ انشائیہ میں بے ترتیبی اپنا ایک الگ حسن ایجاد کرتی ہے۔ انشائیہ نگار اپنے موضوع سے الگ ہٹ کر دیگر موضوعات کے ذریعے انشائیہ کے عنوان پر کسی ایک زاویئے سے نئی روشنی ڈال سکتا ہے یا اپنے متعلق تاثرات و احساسات رقم کر کے انشائیہ کے موضوع کو ایک نئی شکل عطا کرسکتا ہے۔ اسی طرح اختصار اور اشارے کنائے میں اپنی بات کو مبہم انداز میں پیش کر سکتا ہے، جس طرح شاعری میں ہوا کرتا ہے۔ اس کے برعکس مضمون یا مقالات وضاحت قطعیت اور تفصیلات سے سروکار رکھتے ہیں۔ اس بنیاد پر انشائیہ مضمون سے قطعی مختلف قسم کی چیز ہے۔

منصوبہ بندی کسی نہ کسی سطح پر دیگر تخلیقی اصناف میں بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہے لیکن انشائیہ اس قسم کی منصوبہ بندی سے مبرا ہو تا ہے کیونکہ اس میں سوچ کا آزادانہ بہاؤ پایا جا تا ہے۔ پلاٹ سازی جسے ہم ایک قسم کی منصوبہ بندی ہی کہہ سکتے ہیں، بقول ارسطوؔ ڈرامے کی جان ہے۔ اس کے برعکس انشائیہ نگار جب انشائیہ لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کے آ گے انشائیہ کا خاکہ واضح طور پر موجود نہیں ہو تا۔ مضمون نگار یا مقالہ نگار کو اپنا تھیسِس اور

نتائجِ فکر طے کر لینے پڑتے ہیں۔ غرض منصوبہ بندی ایک اہم نکتہ ہے جو انشائیہ کو مضمون یا مقالہ سے جدا کرتا ہے۔

اسی طرح انشائیہ اور مقالہ کا حاصل بھی مختلف ہے اس فرق کی وضاحت ڈاکٹر سید محمد حسنین نے ان الفاظ میں کی ہے :

’ مقالہ پڑھنے کے بعد ہم کچھ سیکھتے یا پا تے ہیں۔ ایسی بات یا ایسا خیال جس سے ہماری علمیت میں گو نا گوں اضافہ ہو تا ہے جس سے ہماری شخصیت میں علم کی تابندگی آ تی ہے۔ انشائیہ پڑھنے کے بعد ہم کوئی گم کر دہ شے پا لیتے ہیں۔ ایسی شے جو روزانہ کی سادہ اور سپاٹ زندگی میں آنکھوں سے روپوش رہتی ہے، ایسی شے جو ٹھوس اور نا قابلِ انکار حقیقتوں میں اوجھل رہتی ہے۔ 4

ان تمام امور کے علاوہ انشائیہ اپنی تخلیقی حیثیت کے سبب مقالات اور مضامین سے قطعی مختلف ہے، جو اسلوب زبان اور فکر کی سطح پر غیر تخلیقی طریقہ کار اپناتے ہیں اسی طرح انشائیہ اپنی فنّی نزاکتوں کے سبب بعض تخلیقی فن پاروں سے بھی مختلف ہے مثلاً طنزیہ اور مزاحیہ مضمون جن کا فن زندگی کے مختلف مظاہر کو پیش کر نے کے لئے مخصوص طریقہ اپنا تا ہے۔ انشائیہ طریقہ کار، مقصد اور اپنی دلچسپیوں کے اعتبار سے مضامین کی ان اقسام سے بھی مختلف قسم کا نثر پارہ قرار پا تا ہے۔

 

حواشی

 

1۔ انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر، لاہور 1986، ص373

2۔ ڈاکٹر وزیر آغا، انشائیہ کا سلسلہ نسب، مشمولہ: تنقید اور مجلسی تنقید، نئی دہلی ,1982ص51

3۔ ظہیر الدین مدنی، اردو ایسز، ص25

4ٰ۔ صنف انشائیہ اور انشائیے، ڈاکٹر سید محمد حسنین، لکھنو، 1973 ص15

 

 

                6۔ طنزیہ و مزاحیہ مضمون اور انشائیہ

 

اردو میں طنز یہ و ظریفانہ مضامین کو انشائیہ قرار دینے کا رواج عام ہے۔ اس میں اخباروں کے کالم، ہلکے پھلکے شگفتہ مضامین، خاکے وغیرہ سبھی پر انشائیہ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ان تحریروں کے مطالعے سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ادیب اپنے مضمون میں بھر پور طنز و مزاح کو بروئے کار نہ لا سکے یعنی وار اوچھا پڑ جائے تو اسے بھی انشائیہ سمجھ لیا جاتا ہے گویا ایک ناکام قسم کا مضمون انشائیہ ہو گیا! بقول ڈاکٹر سید محمد حسنین ’انشائیہ نگاری کو مزاح نگاری قرار دینا بڑی مضحکہ خیز سی بات ہے۔ ‘

طنز و مزاح، ہجو، المیہ، رومان یہ تحریر کی خوبیاں ہیں، تحریر کی صورتیں نہیں ان صفات کو صنف کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ؟ اور حقیقت یہ ہے کہ انشائیہ ایک صنفِ ادب ہے نہ کہ کسی صنف کا اندازِ تحریر۔ اس سلسلے میں انشائیہ کی امتیازی حیثیت کو انیس ناگی اس طرح بیان کرتے ہیں۔

’مقالہ یا مضمون ’سیال قسم ‘کی ادبی ہیئت ہے جو تصور یا جذبہ کے ساتھ مختلف رنگ اختیار کرتی ہے اس لیے اس کی کوئی معین ہیئت نہیں ہے یہ موم کی ناک ہے۔ اگر ہنسی مذاق پھبتی اور جگت سے انشائیہ جنم لیتا ہے تو پھر’ نقا ل‘ بہت بڑے انشا پرداز ہیں اور تہواروں پر جواب الجواب اور تمسخر انشائیوں کے مجموعے ہیں۔ 1

اردو میں طنز و ظرافت کی تخلیق دیگر اصناف کی بہ نسبت بیشتر مضمون ہی کے فارم میں ہو ئی ہے۔ انشائیہ کے فنی آداب و رموز سے بے خبری کے سبب ان تمام تحریروں کو انشائیہ کے زمرے میں شامل کر نے کا رجحان عام رہا ہے۔ طنز و مزاح کی شوخی اور انشائیہ کی شگفتگی کی علاحدہ پہچان نہ ہو سکی۔ اسی لئے جو طنز و مزاح نگار ہے وہ انشائیہ نگار بھی گر دانا گیا جب کہ یہ دونوں اصناف الگ خواص اور طریقہ کار کو اپناتے ہیں۔

انشائیہ طنز و ظریفانہ مضامین سے مختلف قسم کے اظہار کا پیمانہ ہے۔ اس میں طنز و مزاح متوازن مقدار میں ایک معاون قوت کے طور پر بروئے کار لایا جاتا ہے لیکن یہ عناصر اپنی طبعی صلاحیتوں کے ساتھ کسی مضمون میں اپنے فرائضِ منصبی سے عہد ہ بر آ ہو نے لگیں، اس تحریر کا غالب رجحان بن جائیں اور زندگی یا کائنات کے مظاہر سے متعلق کسی انوکھے نقطہ نظر کو پیش کر نے کا وہ مقصد جو انشائیہ کے پیشِ نظر ہو تا ہے فوت ہو جائے تو اس صورت میں وہ تحریر طنز و ظرافت کا اعلیٰ معیار قائم کر نے کے با وجود انشائیہ نہیں کہلا سکتی۔ اسے طنزیہ مزاحیہ مضمون ہی کے زمرے میں شامل کر نا ہو گا۔

اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں۔

’ طنزیہ مزاحیہ مضامین انشائیہ نگاری کے مختلف اسالیب نہیں بلکہ قطعاً الگ قسم کی تحریریں ہیں اور یہ فرق محض لہجہ اور انداز کا فرق نہیں مزاج کا فرق بھی ہے۔ مثلاً غور کیجئے کہ ایک مزاحیہ مضمون کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں فاضل جذبہ خارج ہو جاتا ہے جب کہ انشائیہ میں جذبہ صرف ہو تا ہے۔ 2

انشائیہ اور طنزیہ و مزاحیہ مضمون میں جذبہ کے صرف ہو نے کی نوعیت مختلف ہونے کی وجہ سے ان دونوں سے پیدا ہو نے والا تاثر بھی جدا گانہ ہو تا ہے۔ انشائیہ چونکہ فطری اظہار اور انشائیہ نگار کے خیالات و تاثرات کا آئینہ ہو تا ہے نیز ایک متوازن اور مہذب شخصیت کا اظہارِ خیال ہے اس لئے اس میں ایک ٹھہراؤ اور لطیف انداز پا یا جا تا ہے۔

طنز و مزاح ایک شعوری کاوش کے طور پر تحریر کی مجموعی فضا پیدا کرتا ہے جو اس کے مخصوص ارادوں اور مقاصد کی نمائندگی سے عبارت ہے۔ اس میں طنز اور مزاح الگ الگ رول ادا کرتے ہیں۔ اسٹیفن لی کاک کے بقول :

’مزاح زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا اظہار فنکارانہ طور پر کیا گیا ہو۔ ‘

کلیم الدین احمد طنز و ظرافت کے فرق کو یو ں سمجھاتے ہیں :

خالص ظرافت نگارکسی بے ڈھنگی شے کو دیکھ کر ہنستا ہے اور پھر دوسروں کو ہنساتا ہے وہ اس نقص، خامی، بد صورتی کو دور کر نے کا خواہش مند نہیں۔ ہجو گو اس سے ایک قدم آ گے بڑھتا ہے اس ناقص و ناتمام منظر سے اس کا جذبہ تکمیل حسن، موزونیت، انصاف جوش میں آ تا ہے اور اس جذبہ سے مجبور ہو کر اس مخصوص مذموم منظر کو اپنی ظرافت اور طنز کا نشانہ بناتا ہے۔ نظری اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ خالص ظرافت اور ہجو کی راہیں الگ الگ ہیں اور منزلیں جدا جدا ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں کو جدا کر نا عموماً دشوار ہے۔ ‘3

طنز اور ظرافت یا ہجو کو الگ کرنا دشوار سہی لیکن نا ممکن نہیں۔ اسے کسی بھی فن پارے میں یا عملی زندگی میں علاحدہ کر نے میں جو دشواری پیش آ تی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ طنز یا ہجو کے ذریعے کسی برائی یا نا پسندیدہ عمل کا احساس دلایا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے طنز کر نے والا مبالغہ آ رائی کا سہارا لیتا ہے اسی لئے چسٹر ٹن کے مطابق :

’ایک سوّر کو اس سے بھی زیادہ مکروہ شکل میں پیش کر نا جیسا کہ خود خدا نے اسے بنایا ہے طنز یا تضحیک سٹائرSatire ہے ‘۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ طنز کا اصل مقصد نا پسندیدہ افعال یا مظاہر کی روک تھام ہے۔ اور مزاح جو اسٹے فن لی کاک کے مطابق زندگی کی نا ہمواریوں کے شعور کے نتیجے میں پیدا ہو تا ہے اس کا مقصد بھی نا ہمواریوں پر قہقہوں کے ذریعے ایک نرم قسم کی تنقید ہی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آغا کا خیال ہے :

’ہنسی ایک ایسی لاٹھی ہے جس کی مدد سے سوسائٹی کا گلہ بان محض شعوری طور پر ان تمام افراد کو ہانک کر اپنے گلّے میں دوبارہ شامل کر نے کی سعی کرتا دکھائی دیتا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے سو سائٹی کے گلّے سے علاحدہ ہو کر بھٹک رہے تھے۔ یعنی ہنسی ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے سوسائٹی ہر اس فرد سے انتقام لیتی ہے جو اس کے ضابطہ حیات سے بچ نکلنے کی سعی کرتا ہے ‘۔ 4

مقصد کے اعتبار سے طنز اور مزاح میں ناہمواریوں اور عدم توازن پر اظہارِ ناپسندیدگی ایک قدرِ مشترک ہے اس اعتبار سے یہ بات انشائیہ کے سلسلے میں ایک نیا زاویہ نظر مہیا کرتی ہے کہ انشائیہ ایک غیر مقصدی صنفِ ادب ہے۔ طنز و مزاح کے ذریعے جن جذبات کا اظہار کیا جا تا ہے انشائیہ میں یہ عناصر ان مقاصد کے ساتھ رچ بس نہیں سکتے۔ دوم یہ کہ برہمی یا بہجت کے جذبات طنزیہ مزاحیہ تحریر میں طنز و ظرافت کی شکل میں ایک ردِ عمل کی صورت میں ظاہر ہو تے ہیں۔ جب کہ انشائیہ میں ان جذبات کی فقط عکاسی ہو تی ہے شاید ڈاکٹر وزیر آغا کے قول کے مطابق فاضل جذبے کے خارج ہو نے اور صَرف ہونے کے مابین بھی یہی فرق ہے۔ اسی مختلف ردِّ عمل اور طریقہ کار کو سمجھانے کی غرض سے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں۔

’طنز میں ادیب ایک مصلح کا روپ اختیار کر لیتا ہے اور بقول ڈاکٹر وزیر آغا وہ فراز پر کھڑا ہو کر نشیب کی ہر چیز پر ایک استہزائی نظر ڈالتا ہے مزاح میں ادیب استہزا اور ہئیت کذائی کا خود نشانہ بنتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ نشیب میں گر کر ناظر کے جذبہ ترحم کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ پہلے ناظر کے لبوں پر قہقہہ بیدار ہو تا ہے پھر دل کی کسی اندرونی گہرائی میں رحم کا جذبہ، انشائیہ میں ادیب ایک ہموار سطح پر ناظر کے دوش بہ دوش کھڑا ہو کر منظر سے تحصیلِ مسرت کرتا ہے اور اپنا ردِ عمل بھی رواں دواں انداز میں بیان کرتا جاتا ہے۔ 5

ان تمام شواہد کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انشائیہ طنزیہ مزاحیہ مضامین سے قدرے مختلف چیز ہے۔ یہ عناصر انشائیہ میں جگہ تو پا سکتے ہیں لیکن ان کی حیثیت معاون قوت ہی کی طرح ہے نیز انشائیہ میں ان کا مقام بھی وہی ہے جو ان دیگر اجزا کا ہے جن کی شمولیت انشائیہ میں ممکن ہے مثلاً ڈرامائیت، افسانوی انداز، شاعرانہ احساس

فلسفیانہ تفکر وغیرہ، لیکن ان تمام یاکسی ایک عنصر کی موجودگی میں بھی انشائیہ انشائیہ ہی رہے گا نہ کہ ڈرامہ، افسانہ یا شاعری کہلائے گا۔ اسی طرح ان ہی اصناف میں اگر انشائیہ کی کوئی خصوصیت در آئے تو محض اسی بنیاد پر اسے انشائیہ کے زمرے میں داخل نہیں کیا جائے گا۔

ہمارے ہاں پائے جانے والے اس تصور کے باوجود کہ مزاح یا طنز اور انشائیہ ایک ہی چیز ہے، انشائیہ کی فنی اور فکری تنظیم و تشکیل، شگفتگی اور شوخی کی متحمل تو ہو سکتی ہے مگر اس کا وجود لازمی نہیں ہے۔

انشائیہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین سے قطعی مختلف قسم کے مزاج، طریقہ کار اور تاثر کو جنم دیتا ہے۔ اسی لیے ان دونوں کے درمیان واضح حدِّ فاصل موجود ہے۔

 

 

حواشی

 

1۔ انیس ناگی، بحوالہ :انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر، 1986ص365

2۔ ڈاکٹر وزیر آغا، انشائیہ کا سلسلہ نسب، مشمولہ: تنقید اور مجلسی تنقید، نئی دہلی، 1982 ، ص53

3۔ کلیم الدین احمد، اردو میں طنز و ظرافت، مشمولہ: طنز و مزاح۔ تاریخ و تنقید، مر تّبہ : طاہر تونسوی، دہلی 1986ص27

4۔ ڈاکٹر وزیر آغا، اردو ادب میں طنز و مزاح، نئی دہلی، 1978ص24

5۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو انشائیہ، مشمولہ: ذکر اس پری وش کا، سرگودھا، 1982،   ص30

 

 

                7۔ انشائیہ کا فن

 

انشائیہ زندگی اور کائنات کی تفہیمِ نو سے عبارت ہے۔ اس میں پایا جانے والا موضوعات کا تنوع اور آزادانہ تفکر زندگی کی رنگا رنگی اور وسعتوں کو سمیٹنے کی ایک سعی ہے۔ جمود، بے حسی اور فر سودگی سے جو موت کی علامت ہے انشائیہ برأت کا اظہار کرتا ہے۔ ہر شام دنیا کے مزید ایک دن پرانا ہو جانے کی خبر دیتی ہے، وہیں ہر صبح اس کے نشاۃِ ثانیہ کا اعلان بن کر نمودار ہوتی ہے۔ انشائیہ نئے لمحات میں ڈھلتی ہوئی زندگی کا آئینہ ہے، ہر لمحہ بدلتی ہو ئی اس دنیا میں ہماری نظر انقلابات کی سیڑھیاں پھلانگتی ہو ئی دنیا کا تعاقب کر نے اور پلکوں پر گرتی ہو ئی برف ہٹانے سے قاصر ہے۔ ہم ان چیزوں کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ یہ انقلابات ہمارے لئے اب حیرت افزا ہیں نہ مسرت بخش، حتیٰ کہ ان کا احساس بھی ہمیں چھو نہیں پاتا۔ انشائیہ نگار ان تمام مردہ آوازوں کو زندگی عطا کرتا ہے۔ ہمارے احساس کے خرابے میں دھندلائے ہوئے عکس انشائیہ اور کائنات کی کی تخلیقِ نو کے ذریعے ظہور پذیر ہو تے ہیں۔ ظاہر ہے یہ نازک کام زبردست قسم کی ہنر مندی کے بغیر ممکن نہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انشائیہ نگاری ایک مشکل فن ہے۔

انشائیہ نگاری اپنے متنوع موضوعات، اسالیب اور گوناگوں دلچسپیوں کے با وصف ادب کی مختلف اصناف کے رنگوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اسی لیے ادبی اظہار کے مختلف پیرایے انشائیہ کی جھلکیاں پیش کرتے ہیں۔ یہ صنف انشائیہ نگار سے بھی شخصیت کی رنگارنگی اور زبردست قسم کی ہنر مندی طلب کرتی ہے۔ انشائیہ میں ان خوبیوں کے علاوہ سب سے اہم چیز اس کا تخلیقی فن پارہ ہونا ہے، بقول ڈاکٹر وزیر آغا:

’ لفظ انشاء طرزِ تحریر کی تخلیقی سطح کی نشان دہی کرتا ہے، ‘لازم ہے کہ اس کا اسلوب بھی تخلیقی سطح کے محاسن کا آئینہ دار ہو۔ 1۔

انشائیہ میں انشائیہ نگار کا اسلوب اور فکر بھی اس لیے اہمیت رکھتے ہیں کہ انشائیہ متنوع عناصر کے حسنِ توازن کے نتیجے میں خلق ہو تا ہے۔ بعض اوقات کسی ایک عنصر کی خامی انشائیہ کو اس معیار سے نیچے گرا دیتی ہے۔ آزادانہ تفکر اور زندگی کے متعلق کسی انوکھے پہلو کا اظہار مجموعی طور پر انشائیہ کی امتیازی خصوصیت قرار دی گئی ہے۔

بقول رابرٹ لِنڈ،

’انشائیہ انسانی فطرت کے کسی نیم تاریک گوشے کو منوّر کر نے کی ایک سعی ہے۔ ‘

اگر انشائیہ اس مقصد کو پورا نہیں کرتا تو بحیثیت ایک انشائیہ اپنے وجود کا جواز پیش کر نے سے قاصر ہے۔ انشائیہ اپنے موضوع کے ان پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل تھے جیسے ماچس کی تیلی اپنے اطراف کو منّور کر دیتی ہے اسی طرح انشائیہ بھی موضوع کو نئی روشنی کے ساتھ پیش کر کے مسرت بہم پہنچا تا ہے۔ یہی مسرت اور لطف اندوزی انشائیہ کا حاصل ہے اس کے برعکس طنزیہ و مزاحیہ تحریروں سے حاصل ہونے والامسرت کا احساس جدا گانہ ہے۔

انشائیہ میں نئے مفاہیم کی دریافت کے طریقہ کار کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :

’انشائیہ دوسرے کنارے کو دیکھنے کی ایک کاوش تو ہے مراد محض یہ نہیں کہ آ پ دریا کا پل عبور کر کے دوسرے کنارے پر پہنچیں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔ اپنی جگہ یہ بات بھی غلط نہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ جب آ پ دوسرے کنارے پر پہنچتے ہیں تو آ پ کا ہر روز کا دیکھا بھالا پہلا کنارہ دوسرا کنارہ بن کر آ پ کے سامنے ابھر آ تا ہے۔ اب آ پ اسے حیرت اور مسرت کے ساتھ دیکھنے لگتے ہیں جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ انشائیہ نگار یہی کچھ کرتا ہے۔ وہ شے یا مظہر کو سامنے سے دیکھنے کے بجائے عقب سے اس پر ایک نظر ڈالتا ہے اوراس کی معنویت کو گرفت میں لے لیتا ہے جو ہمہ وقت ایک ہی مانوس زاویہ سے مسلسل دیکھنے کے باعث اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ 2

انشائیہ دراصل اندرونی طور پر ایک ایسے نظام کو پیش کرتا ہے جس میں غضب کی لچک اور بے پناہ امکانات ہیں۔ انشائیہ حقائق کے اظہار میں نہ صرف ندرت کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ، انگریزی اور اردو کے انشائیوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ انشائیہ نگار کا اس معاملہ میں اپنا طریقہ کار ہے۔ مثلاً انشائیہ نگار مضمون نگار کی طرح حقیقت کی مکمل وضاحت ہر گز نہ کرے گا بلکہ نشاندہی اور مزید بہتر انداز اپنا کر آ پ کے ذہن کو ایک نئی وادیِ خیال میں چھوڑ دے گا اس کے علاوہ فلسفیانہ تفکر کو بروئے کار لائے گا مگر اس کی سنگلاخی اور خشکی کو منہا کر دے گا۔ منطق کی قطعیت سے گریزاں ہو کر اپنی لطیف منطق ایجاد کرے گا جو فلسفیانہ منطق کے بر عکس شگفتگی اور شوخی کی بنیاد پر وجود میں آ ئی ہے، اس لحاظ سے انشائیہ میں کیا طریقہ کار اپنا یا جا تا ہے۔

اس ضمن میں مشکور حسین یاد لکھتے ہیں :

’انشائیہ صرف منطق پر آ کر رک نہیں جاتا وہ اس سے بھی آ گے جانا چاہتا ہے اور جاتا بھی ہے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ ہم زندگی کی صداقتوں کو محض منطق کے بل بوتے پر حاصل نہیں کر سکتے۔ سچائی کی راہ میں منطق ہمیں ایک خاص منزل پر لا کر خود آ گے چلنے سے انکار کر دیتی ہے۔ کسی ایک صداقت کے بہت سے رخ آ پ کو ایک انشائیہ میں نظر آ سکتے ہیں۔ شاید اس کا ایک ہزارواں حصہ بھی منطق میں نظر نہیں آ سکتا اور یوں انشائیہ کی منطقی صورت خالی پھیکی منطق کی صورت سے کہیں بڑھ کر صداقت ساماں اور صداقت افروز ہو تی ہے۔ 3

دیگر اصناف کی بہ نسبت انشائیہ کی تنظیم اس کے مختلف عناصر میں اس کے اسلوب سے گہری وابستگی رکھتی ہے۔ انشائیہ میں Craftsmanshipکے علاوہ شخصیت کا اظہار فطری طور پر راہ پاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انشائیہ منفرد اسلوب میں نمودار ہوتا ہے۔ انشائیہ کے فن کی طرح اسلوب کا معاملہ بھی حد درجہ نازک ہے۔

اس ضمن میں ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :

’انشائیہ کے اسلوب میں جو لچک ملتی ہے اس کی بنا پر دیگر اصناف کے اسلوب سے بھی بقدرِ ظرف استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن سلیقہ اور احتیاط کے ساتھ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذراسی بے احتیاطی یا فنّی چوک کے نتیجے میں انشائیہ کا اسلوب اس رس سے محروم ہو جائے گا جو اس کا جوہر سمجھا جا تا ہے اور جس کے بغیر انشائیہ محض ایک روکھا پھیکا نثر پارہ بن کر رہ جا تا ہے۔ 4

انشائیہ میں پائی جانے والی لطافت اور تخیل آفرینی بعض اوقات انشائیہ کو غنائیت کی حدود میں داخل کر دیتی ہے اور انشائیہ کی زبان نثر اور نظم کی سر حد پر وجود میں آ تی ہے۔ اس پہلو پر غور کریں تو یہ بات آئینہ ہو جاتی ہے کہ انشائیہ میں پائی جانے والی نثری اور شعری زبان کی خصوصیات در اصل اس کا حسن ہی نہیں اس کی ایک بہت بڑی طاقت بھی ہے۔

ایک انشائیہ اور غزل کے ایک شعر میں ہمیں گہری مماثلت محسوس ہوتی ہے، اس کی وجہ دونوں میں فنکار کا وہ شخصی اظہار ہے جس کے توسط سے وہ اپنے دل کی بات اور منفرد محسوسات ہم تک پہنچانا چاہتا ہے اور اس کا وہ تپیدہ جذبہ اظہار کی سعی میں غنائیت کی سرحدوں کو چھو کر دیگر اصناف سے ممتاز پیرایہ اختیار کر لیتا ہے۔ انشائیہ میں ہمیں اسی منفرد زبان و اسلوب کے نقوش ملتے ہیں۔

نثر کی خصوصیت وضاحت اور تفصیل کا پیش کر نا ہے اس کے برعکس شاعری ایجاز و اختصار اور رمز و کنایہ کو بروئے کار لا کر اپنا مطلب ادا کرتی ہے۔ غرض انشائیہ ان دونوں خصوصیات سے بھر پور استفادہ کر کے حقائق کا فنی اظہار کرتا ہے اسی سے مماثل عنصر، فلسفیانہ تفکر اور منطق بھی ہے۔ ان عناصر کو بھی انشائیہ اظہاری قوت کے طور پر اپنے انداز سے استعمال کرتا ہے۔ ان تمام باتوں کے پیشِ نظر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انشائیہ کا فن پر پیچ و نازک ہونے کے علاوہ فطری سادگی اور پر کاری کا مظہر ہے۔ با ایں ہمہ انشائیہ نگاری اپنے دامن میں لا محدود امکانات سمیٹے ہوئے ہے اورزبردست قسم کی فنکاری اور ہنر مندی سے عبارت ہے۔

 

حواشی

 

1۔ انشائیہ کے خد و خال۔ ڈ اکٹر وزیر آغا، ص14

2۔ ڈاکٹر وزیر آغا، دوسرا کنارہ، سرگودھا، 1982ص15

3۔ مشکور حسین یاد، ممکناتِ انشائیہ، لاہور، 1983ص95.99

4۔ ڈاکٹر سلیم اختر، انشائیہ کی بنیاد، لاہور ص۔ 245

 

 

                8۔ انشائیہ میں انکشافِ ذات اور منفرد نقطہ نظر

 

انشائیہ میں انکشافِ ذات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اظہارِ ذات کا رجحان مغربی انشائیہ نگاروں کی تخلیقات میں اس قدر غالب رہا ہے کہ انہیں امتیازی طور پر Personal Essay کے نام سے بھی مو سوم کیا گیا۔ انکشافِ ذات کو انشائیہ کے بنیادی محاسن میں شمار کیا جا تا ہے۔ یہ Essay کا محض رجحان ہی نہیں بلکہ انشائیہ نگاری کا بنظرِ غائر مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ انکشافِ ذات ایک ایسا سرچشمہ ہے جس سے انشائیہ کے دیگر اجزا کی گہری وابستگی ہے۔ خاص طور پر منفرد نقطہ نظر جو انشائیہ میں اس قدر اہمیت کا حامل ہے جتنا انکشافِ ذات بلکہ ذاتی یا انفرادی تاثرات کی شمولیت کے بغیر بے معنی سی چیز ہے اور انفرادی نقطہ نظر انکشافِ ذات ہی کا ایک پر تو ہے۔

انشائیہ میں انکشافِ ذات کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ یہ پیرایہ اظہار فرد کی نجی زندگی کے معاملات ہی سے سروکار رکھتا ہے بلکہ انشائیہ میں اپنی ذات کے حوالے سے زندگی کے جزو یا کل سے متعلق منفرد نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ حتی ٰ کہ عمومی نظر جس گھسے پٹے طریقے سے اشیاء کو دیکھنے کی عادی ہو گئی ہے، اس سے انحراف کر کے نئے زاویہ نظر کی ایجاد ہی میں انشائیہ نگاری کا کمال مضمر ہے۔ خود نوشت سوانح سے یہ صنف اس لیے بھی ممتاز ہے کہ سوانح عمری ذات کے جس تنگنائے میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے، انشائیہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر دشتِ امکاں میں قدم رکھتا ہے اور انوکھے مفاہیم اور منفرد نقطہ نظر کے اظہار کے ذریعے وسعتوں سے ہمکنار ہو جا تا ہے۔

انشائیہ میں شخصی ردِ عمل کے اظہار کے سلسلے میں پی۔ بی۔ مارٹن کا خیا ل ہے کہ :

’انشائیہ نثر کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جس میں مصنف دنیا کے کسی بھی موضوع کے باب میں اپنی ذات کا انکشاف کرتا ہے۔ 1

گویا انشائیہ میں موضوع کی بہ نسبت انشائیہ نگار کی ذات توجہ کا مرکز ہے اسی بات کو مزید واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا نے انشائیہ نگار کے طریقہ کار کو اس طرح بیان کیا ہے۔

’انشائیہ کا خالق نہ صرف رسمی طریقہ کار کے بجائے ایک غیر رسمی طریقہ کار اختیار کرتا ہے۔ بلکہ غیر شخصی موضوعات پر نقد و تبصرے سے کام لینے کے بجائے اپنی روح کے کسی گوشے کو بے نقاب اور اپنے ردِ عمل کے کسی پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ ‘2

پی۔ بی۔ مارٹن اور وزیر آغا کی بہ نسبت مشکور حسین یاد شخصی ردِ عمل کے اظہار کو ایک وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مشاہدہ ذات مشاہدہ کائنات کا ایک اہم وسیلہ اور انکشافِ ذات در اصل کائنات کی تفہیمِ نو ہی کی ایک کو شش ہے۔ اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’ کائنات کا انوکھا پن بھی آ پ کو اسی وقت محسوس و معلوم ہو گا جب کہ آپ نے اپنی ذات کے انوکھے پن کو تلاش کر لیا ہو گا اپنی طرف دیکھنے کا عمل کائنات کی طرف دیکھنے کے بے شمار باب وا کرتا ہے۔ مشاہدہ ذات تو کائنات کے اسرار معلوم کر نے کی بڑی چابی ہے۔ کلیدِ ہزار جہت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انشائیہ نگار کے لئے پر سنل ہو نا اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس طرح پر سنل ہو کر صرف اپنی ذات کا مشاہدہ نہیں کرتا بلکہ صحیح معنی میں کائنات کے مشاہدے کا آغاز کرتا ہے۔ 3

ڈاکٹر سلیم احمد انشائیہ میں فنکار کی ذات کی شمولیت کواس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ اسی کے سبب اس کا منفرد نقطہ نظر سامنے آئے گا۔ انشائیہ نگار کی شخصیت بھی انشائیہ کو ایک خاص رنگ میں رنگ سکتی ہے لیکن شخصیت کے یہ اثرات بالواسطہ طور پر اور زیرین لہروں کی صورت میں ہوں گے بلکہ اس لطیف انداز میں ظہور پذیر ہو ں گے کہ محسوس بھی نہ ہو ں گے اور یہی انشائیہ نگار کا کمال ہے کہ تخلیقی عمل میں سے شخصیت چھن کر تحریر میں آ تی ہے۔

’ دراصل انشائیہ میں شخصیت کا اظہار اس نگاہ کی صورت میں ہو تا ہے جو انشائیہ نگار کو افراد، اشیاء و وقوعات اور حوادث الغرض زندگی کو ایک خاص انداز میں دیکھنے کا زاویہ مہیا کرتی ہے۔ ایسازاویہ جو تازگی نظر کا باعث بن کر چیزوں کو مانوس تناظر سے ہٹا کر نئے تناظر میں لے آ تا ہے یوں کہ قاری چونک کر سوچتا ہے۔ کمال ہے اس چیز کو میں نے اب تک اس پہلو سے کیوں نہیں دیکھا تھا اور اس کے بارے میں یہ بات مجھے کیوں نہ سوجھی تھی۔ قاری کے اس چونکنے یا حیرت زدگی میں انشائیہ کی تازگی کا راز مضمر ہے۔ یہی وہ لطافت ہے جسے انشائیہ کے لیے بہت ضروری سمجھا جاتا ہے اور جس پر بطور خاص زور دیا جا تا ہے۔ 4

انشائیہ میں اظہارِ ذات کا معاملہ نازک بھی ہے اور فنکاری کا مرہونِ منت بھی کیونکہ انشائیہ محض ذاتی معاملات یا تجربات کی فہرست سازی کا نام نہیں یہ زندگی کے متنوع مظاہر کی فنکارانہ پیش کش ہے۔ انشائیہ میں اظہارِ ذات کا عمل زندگی میں پیش آنے والے اظہارِ ذات سے مشابہ ہے۔ یوں تو ہماری زندگی بذاتِ خود ایک انشائیہ ہے مثلاً ایجاز و اختصار، جامعیت، عدم تکمیلیت، اسلوب کی انفرادیت، بے ترتیبی میں ترتیب کی تلاش، ندرت اور اظہارِ ذات۔

زندگی سراسر اظہارِ ذات ہے البتہ انشائیہ میں اس کی نوعیت فنّی ہے لیکن طریقہ کار وہی ہے جو زندگی میں پایا جا تا ہے۔ یعنی مختلف ادارے، افراد اور حادثات و واقعات انسان کو مختلف رنگوں میں نمایاں کر کے بے نقاب کرتے ہیں۔

ایک شخص اپنے آ فس میں جو اس کی جولان گاہ ہے، اپنے فرائضِ منصبی کے شعور کے تحت مخصوص صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ افسر کے بلاوے پر کبھی خوف کی ایک ہلکی سے لہر اس کے اعصاب سے گزر جا تی ہے۔ کسی خطا پر وہ سرزنش کر بیٹھے تو یہ بھیگی بلّی بن جاتا ہے۔ باس کے آ فس سے نکل کر غم خوار کلرکوں کے حلقے میں پہنچ کر شیر بن جاتا ہے اور جی کی بھڑاس نکالتا ہے۔ اپنے بچوں کے درمیان بچہ، والدین کے روبرو فرمانبردار بیٹا بن جاتا ہے، حلقہ احباب میں بے تکلف ہو کر اس کی شخصیت پر پرزے نکالتی ہے قوی دشمن کے آ گے وہ انکسار کا پُتلا اور کمزور مقابل کے روبرو مختلف روپ اختیار کرتا ہے۔

یہ مختلف صورتیں ہیں جن میں ہر شخص اظہارِ ذا ت کا فطری عمل انجام دیتا ہے۔ انشائیہ فنکار کو ایک بڑا سماج مہیا کر دیتا ہے جس میں اس کی پسند، ناپسند، فطری خواہشات، محرومیاں، خوف، احساسِ کمتری، یا برتری کا احساس حتیٰ کہ اس کا ماضی و مستقبل بالکل اسی طرح اس کے رو برو ہوتے ہیں جس طرح سماج میں عام آ دمی کے دائرہ عمل کے اندر سماج میں پائے جانے والے مختلف ادارے (افراد)اسے متنو ع رویّوں کی دعوت دیتے ہیں۔ ان تمام امورِ کے پیش نظر انکشافِ ذات کو انشائیہ کی بنیاد کا پہلا پتھر قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ انشائیہ کے دیگر لوازمات مثلاً اسلوب زبان، ندرتِ خیال، فکر وغیرہ اظہارِ ذات کے پر تو ہیں۔

مشکور حسین یاد اظہارِ ذات کو پورے ادب کی بنیاد قرار دیتے ہیں اور انشائیہ چونکہ ان کے نزدیک امُّ الاصناف اور ادب کا نقطہ آغاز ہے، یہ انشائیہ کا اہم جزو ہے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق انشائیہ ایک ایسی صنفِ نثر ہے جس کی امتیازی خصوصیت منفرد سوچ کا آزادانہ اظہار ہے اور اق کے ایک ادارئیے میں لکھتے ہیں۔

’ اردو ادب میں انشائیہ کا طلوع تاریخی اہمیت کا حامل ہے وہ یوں کہ انشائیہ انفرادی سوچ کا محرک ہے اور اس لیے اس کی آ مد سے ہمارے ادب میں فرد کی سطح پر سوچ کا وہ عمل جاری ہو گیا جس کی کمی ہم ایک مدت سے محسوس کر رہے تھے۔ ۔ ‘5

یہاں وزیر آغا ایک دوسری انتہا تک جا تے ہوئے انشائیے کو ذہنی سر گر می کا سب سے بڑا آ لہ سمجھ کر یہاں تک کہہ گئے کہ اس کی آ مد سے ہمارے ادب میں فرد کی سطح پر سوچ کا وہ عمل جاری ہو گیا جس کی کمی ایک مدت سے محسوس کی جاتی رہی۔ یہ سچ ہے کہ جس قسم کی آزادانہ سوچ انشائیہ کا عطیہ ہے اس کا مکمل اظہار ہمارے ادب میں خال خال ہی نظر آتا ہے اور بیسویں صدی کے نثر نگاروں میں جہاں اس قسم کی خیال آرائیوں کی جھلکیاں ہمیں نظر آئیں ہم نے اسی بنیاد پر انھیں انشائیہ نگار قرار دیا۔

مشکور حسن یاد انشائیہ میں قلم کار کی ذات کی شمولیت کو لازمہ تحریر قرار دیتے ہیں۔ انکشافِ ذات اور منفرد نقطہ نظر، انشائیہ کے جد ِّ امجد مانتین کی چھوڑی ہو ئی وراثت ہے۔ اس نے اپنی شخصیت کے حسنِ بے پر وا کی بے نقابی کے لئے دیگر اصنافِ ادب کے شہروں کو خیر باد کہا اور انشائیہ کا الگ قریہ آ باد کیا۔ انگریزی انشائیہ نگاروں میں چارلس لیمب اور ابراہم کاولے سے رابرٹ لنڈ تک بیشتر کے ہاں اس کا خصوصی التزام پایا جاتا ہے۔

 

 

مانتینؔ

’میرا خیال تھا کہ میری طویل زندگی نے مجھے بالغ نظر بنا دیا ہے۔ رزمِ گہہِ حیات سے میں نے جو تجربات سمیٹے تھے ان کے گہرے نقوش میرے ذہن پرمرتسم تھے اور اقتضائے وقت نے اب مجھے بے حد پختہ کر دیا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ بے کاری تو ذہن کو منتشر کر دیتی ہے۔ اسے اضمحلال اورمایوسی کی آماجگاہ بنا دیتی ہے۔ حالانکہ ذہن تو مغرور گھوڑے کی مثال ہے جو اپنے مالک کے اصطبل سے آزاد ہو نے کے بعد زیادہ مستعد اور پھرتیلا ہو جا تا ہے اور جتنا کام پہلے وہ دوسروں کے لیے کرتا تھا اب اس سے سو گنا زیادہ اپنے لیے کر سکتا ہے۔ ‘6

 

ورجینا وولف

’ میں نے جب مرے ہوئے پتنگے کو دیکھا تو ایک عجیب سی حیرت نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ موت کی عظیم قوت نے کتنی حقیر سی مخلوق کو اپنا حریف سمجھ لیا تھا؟اسے پنجہ آ ز میں دبوچ لیا، موت فتح یاب ہو گئی تھی؟کیا اس کی یہ یلغار بہت بڑی کامیابی سے ہمکنار ہو چکی تھی ؟ چند لمحے پہلے زندگی میرے لیے ایک پراسرار قوت تھی، لیکن اب موت مجھے ایک اجنبی طاقت نظر آ نے لگی تھی۔ 6

انگریز قوم اپنی فطری کم گوئی اور کم آمیزی کے سبب اپنے نہاں خانہ دل تک پہنچنے کی کسی کو بہت کم اجازت دیتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بیکن کے ایسیز میں اظہارِ ذات کا عمل نمایاں نہیں ہو سکا۔ تاہم اس کے بعد آ نے والے انشائیہ نگاروں کو اس صنف کی طبعی خصوصیات نے اس بات پر آ مادہ کر لیا کہ وہ اس کے اظہار کی فطری صلاحیتوں کے امکانات کو بروئے کار لائیں چنانچہ بیکنؔ کے فوراً بعد ابراہم کاولے ایک ایسا موڑ ثابت ہوا جہاں سے انگریزی انشائیہ Personal Essay کی ڈگر پر گامزن ہوا۔

مشرق میں معاشرتی عوامل کے سبب انفرادی نقطہ نظر اور اپنی ذات کو بے نقاب کرنے کا رجحان مستحسن نہیں سمجھا گیا۔ اسی لیے ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کی مصداق مذہبی اور معاشرتی اقدار ہمیشہ ذہنوں پر غالب رہیں، آزادیِ افکار کو ابلیس کی ایجاد خیال کیا گیا۔ سوچ کا یہ آزادانہ انداز ہمارے معاشرے میں Tabooبن کر رہ گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں انشا پردازی فکری سرگرمی سے زیادہ لطفِ بیان کی چیز رہی ہے۔ اردو میں انشائیہ کی فکری جہت عہدِ سر سید میں روشن ہو ئی۔ شخصیت کے اظہار کا آغاز کھلے بندوں غالبؔ کے خطوط میں پہلی مرتبہ ہلکی پھلکی گفتگو کے انداز میں ہوا، خود کہا ہے :’میں نے وہ اندازِ تحریر ایجاد کیا کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا۔ ہزار کوس سے بزبانِ قلم باتیں کیا کرو، ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو ‘ انشائیہ کا یہ جوہر جس مقدار میں خطوطِ غالبؔ میں دستیاب ہے، اپنی مثال آ پ ہے۔

’سنو عالم دو ہیں ایک عالمِ ارواح اور ایک عالمِ آ ب و گِل۔ ۔ ۔ ۔ ، ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ عالمِ آ ب و گِل کے مجرم عالمِ ارواح میں سزا پا تے ہیں۔ لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالمِ ارواح کے گنہگار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ 8رجب1212 ہجری میں مجھ کو روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا۔ 13برس حوالات میں رہا۔ 18رجب 1235ہجری کو میرے واسطے حکمِ دوام حبس صادر ہوا، ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی اور دلّی شہر کو زنداں مقرر کیا اور مجھے اس زنداں میں ڈال دیا۔ نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا‘۔ 7

غالب کے رقعات میں پایا جا نے والا شخصی اظہار، مکالماتی زبان، برجستہ خیالات اور دلکش اسلوب اور زندگی کو ایک نئی نظر سے دیکھنے کا حوصلہ انشائی خصوصیات ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر غالبؔ کا اظہارِ ذات جس کے پسِ پردہ ایک زبردست عبقری شخصیت بھی موجو دہے۔

غالبؔ کے بعد عہدِ سر سید میں انکشافِ ذات ’ اردو میں ایسّے نگاری کے فروغ کے باوجود ابھر نہیں پایا۔ اس دور میں مغربی افکار کے خوشگوار جھونکے فکر و خیال کی بند کلیوں کو اِذنِ سخن دے رہے تھے۔ معاشرتی تشخص، تہذیبی جڑوں کی تلاش اور تحریکِ آزادی اس ہنگامی دور میں شعوری بیداری کے اہم ذرائع تھے، مختلف تحریکوں نے مورچے سنبھال رکھے تھے۔ لہٰذا اس دور میں شخصیتوں کے منفرد زاویوں کی نمائندگی اور ادبی سطح پر اس قبیل کے اظہار کا سامان مہیا نہ ہو ا۔

اس عہد میں افراد کی ذہنی اور ارادی قوتیں متعین مقاصد کے حصو ل کی خاطر صرف ہوئیں چناچہ ادبی اظہار کا والہانہ پن اور انشائیہ کا کھلا کھلا انداز اس دور میں رائج خطابت اور پند و نصائح سے متاثر نظر آ تا ہے۔

آزادیِ ہند کے بعد کی ہولناکیاں اور اس کے بعد ہند و پاک میں زندگی کا نقشہ ابتری کی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس زمانے میں ادیب و شاعر طنز و تشنیع اور زہر ناکی کی زبان کے علاوہ کسی اور ذائقے سے خال خال ہی آشنا ہو پائے۔

بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں انگریزی انشائیہ میں مروج ذاتی اور شخصی اظہار کو اردو میں متعارف کروانے کی کوششیں ہو نے لگیں تب بطور خاص انکشافِ ذات کا عمل دخل انشائیوں میں نظر آ نے لگا۔

 

 

حواشی

 

1۔ پی بی مارٹن، بحوالہ :انشائیہ، ایک ہمہ جہت صنفِ نثر، سلیم آغا قزلباش،

لاہور، 1985ص139

2۔ ڈاکٹر وزیر آغا، انشائیہ کیا ہے ؟خیال پارے، سرگودھا، بارِ دوم، 1984ص10

3۔ مشکور حسین یاد، ممکناتِ انشائیہ، لاہور، 1983ص88

4۔ انشائیہ کی بنیاد، سلیم اختر، لاہور 1986ص238

5۔ ڈاکٹر وزیر آغا، ، اوراق، لاہور، بہار نمبر، اپریل، مئی، 1982ص6

6۔ مونتین، ’ کچھ بے کاری کے بارے میں ‘، ترجمہ انور سدید، ، اوراق، لاہور، انشائیہ

نمبر85 ص312.

7۔ ورجنیا وولف، ’موت ایک پتنگے کی‘، ترجمہ ایضاًص300

8۔ مرزا اسد اللہ خان غالبؔ، عکسِ غالب، مرتبہ آلِ احمد سرور، علی گڑ ھ، ص17

 

                9۔ انشائیہ کی زبان

 

انشائیہ کی زبان اس کے فنّی تقاضوں اور اظہار کی ضروریات کی زائیدہ ہے۔ تخلیقی صنف ہو نے کے سبب انشائیہ زبان کی سطح پر فنکاری اور خلاقی کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ انشائیے کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زبان کے مخصوص ارتقا کے نتیجے میں ایک مخصوص وسیلہ اظہار کے طور پر انشائیہ وجود میں آیا۔

فورٹ ولیم کالج کے ذریعے اردو کی جو ابتدائی کتابیں لکھوائی گئیں ان کا مقصد اس زمانے میں اردو میں مروج مسجّع و مقفّیٰ مصنوعی نثر کو جو فطری اظہار کے قابل نہ تھی، تبدیل کر کے نثر نگاری کو روزمرہ کی ضروریات کے مطابق ڈھالنا تھا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ  فورٹ ولیم کالج کے توسط سے منظرِ عام پر آ نے والی کتب مثلاً باغ و بہار، گنجِ خو بی، طوطا کہانی، آرائشِ محفل اور نثر بے نظیر کے متعلق لکھتے ہیں۔

’ ان تمام کتابوں کی تصنیف و تالیف کا اصل مقصد یہ تھا کہ انگریزوں کو ہندوستانی زبان و ذہنیت سے واقف کر ایا جائے۔ اسی لیے زبان کا حتیٰ الامکان با محاورہ ہو نا ضروری تھا۔ جملہ ہندوستانی علماء کو تاکید تھی کہ وہ اسلوبِ بیان میں تعقید اور تصنع سے احتراز کریں۔ یہی وہ مبارک کام تھا جس نے بہت جلد اردو زبان کو سنجیدہ اور پاک وصاف بنا دیا۔ جس کے باعث نصف صدی بعد ہی سر سید احمد خان اس قابل ہو گئے کہ اس کو اپنی خاص ترکیبِ عملی کے ذریعہ سے بغیر دقتوں کے راہ راست پر لا ڈالتے۔ ‘1

اردو زبان کے اسی فروغ کے سبب سید احمد خان انگریزی ایسّے کو جو چار سو سالہ ارتقاء کے نتیجے میں وسعت، گہرائی اور اظہار کی قوت سے سر فراز ہو چکا تھا، اردو میں متعارف کروانے میں کامیاب ہوئے۔ گو انشائیہ کا بیج گرنے سے قبل اردو زبان کی زمین فورٹ ولیم کالج اور دیگر نثر نگاروں کے نوکِ قلم سے ہموار ہو چکی تھی۔ انشائیہ ارتقاء پذیر زبان ہی میں پنپ سکتا ہے کیونکہ یہ اظہار کی مخصوص توانائی کا مظہر ہے۔

انشائیہ تخلیقی صنف ہونے کے سبب اس میں زبان کا استعمال ارفع تر سطح پر ہوتا ہے۔ اولاً گلابی اردو، رومانی نثر، اور ادبِ لطیف کے ذریعے پیش کی جانے والی زبان کو انشائیہ تصور کیا گیا، لیکن یہ تمام اسالیب زبان کے محدود امکانات کو پیش کرتے ہیں۔ لہٰذا نہ یہ انشائیہ ہیں نہ ہی انشائیے کے لئے مناسب اسلوب۔ انشائیہ میں شوخی اور سنجیدگی، تفکّر اور تخیل، ایجاز و اختصار اور وضاحت، فلسفیانہ اندازِ فکر اور شاعرانہ احساس ان تمام مختلف و متضاد عناصر کی کار فرمائی ہو تی ہے۔ اسی لئے انشائیہ کی زبان بھی اپنے اندر اظہار کے بے پناہ امکانات سمیٹے رہتی ہے۔ مثلاً انشائیہ میں شوخی و شگفتگی اور بے تکلف گفتگو کا انداز پایا جا تا ہے۔ خود کلامی کی فضا بھی اس کی ایک خوبی ہے، فلسفیانہ اندازِ فکر بھی انشائیہ کا حصّہ ہے۔ لیکن انشائیہ فلسفے کے مسائل سلجھانے کے منصب پر فائز نہیں۔ اسی لیے انشائیہ نہ بے رس خشک، اور قطعیت کو راہ دینے والی زبان کو بروئے کا رلاتا ہے جو علمی اور تحقیقی مضامین کا خاصہ ہے بلکہ شگفتہ اور تجربہ کی تازگی کو اپنے اندر جگہ دیتا ہے۔ انشائیہ چونکہ ایک نثری صنف ہے، وضاحت اور تفصیل اس کا طریقہ اظہار ہے۔ یہ دوسری اصناف سے اس لیے بھی ممتاز ہے کہ رمز و اشاریت اور کفایتِ لفظی سے بھی کام لیتا ہے جو شاعری کی قلمرو ہے۔ شعری اسلوب انشائیہ میں در آ تا ہے۔ اسی لیے انشائیہ زبان اور فکر کی سطح پر بھی نثر اور شاعری سے ملاجلا آہنگ پیش کرتا ہے۔ انشائیہ کی اسی خوبی کی بنا پر مشکور حسین یاد لکھتے ہیں :

’انشائیہ اور نثری نظم میں بہت گہرا تعلق ہے اور تعلق بھی کیا نثری نظم انشائیہ ہی کے بطن سے وجود میں آ ئی ہے۔ ‘1

نثری نظم کو ہم انشائیہ نہیں قرار دے سکتے کہ اس میں لفظوں کا در و بست اور جذبہ جو آہنگ تخلیق کرتا ہے وہ شاعری سے زیادہ قریب ہے۔ اس کے علاوہ انشائیہ نثر کی جن دیگر خوبیوں کا حامل ہے نثری نظم ان سے عاری ہے۔ انشائیہ حقیقت کی تلاش کا نام ہے۔ وہ شعری زبان، شعری احساس، طرزِ استد لال اور منطق ان تمام کو آلہ کار بناتا ہے یہ تمام لوازمات انشائیہ کے فن کے تابع ہو تے ہیں اور ان کے استعمال کا انداز بھی جدا گانہ ہوتا ہے۔

انشائیہ حقیقت کی تلاش میں تحقیقی اور علمی مقالات کی قطعیت سے گریز کرتا ہے۔ اور ان مضامین میں استعمال ہو نے والی منطقی زبان پیش کر نے کے بجائے ایک لطیف نرم شگفتہ زبان میں خود اپنی منطق بروئے کار لاتا ہے۔

نثر جہاں غیر مرئی اور ما بعد الطبیعاتی عناصر کا بیان ہے۔ انشائیہ اشیاء کی مادّی حقیقت سے ما وریٰ ایک اور پوشیدہ حقیقت کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ لہٰذا ان مخفی مفاہیم کے اظہار کے لیے اسے علمی و تحقیقی مضامین کے اسلوب اور روزمرہ کی بندھی ٹکی زبان سے ایک قدم آ گے بڑھ کر ایک ایسی زبان تراشنی پڑتی ہے جو ان نئے انوکھے اور اجنبی معنی و مطالب تک رسائی حاصل کر سکے اور ان کے بیان پر قادر بھی ہو۔

انشائیہ کی زبان اس کی اپنی اندرونی ضروریات کے دباؤ کے تحت ایک مخصوص انداز میں ڈھل جاتی ہے اور مختلف و متنوع عناصر اور امکانات کی مظہر یہ زبان انشائیے کی شناخت بھی ہے۔ انشائیہ کی زبان لطیف شگفتہ اور اسلوب کی تازگی کا احساس دلاتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انشائیہ ایک لطیف فن پارہ ہے۔

 

حواشی

1۔ محی الدین قادری زور، اردو کے اسالیبِ بیان، حیدر آ باد، 1949ص22

2۔ مشکور حسین یاد، انشائیہ اور نثری نظم، ممکناتِ انشائیہ، ص124

٭٭٭

 

 

 

مغرب میں انشائیہ کی روایت

 

 

انشائیے کے اردو کی قلمرو میں داخلے اور اس کے آزاد بالذات صنفِ ادب کی حیثیت سے مستحکم ہو نے تک بحث اور رد و قبول کا ایک طویل سلسلہ ہے اس کے باوجود انشائیہ آ ج بھی حرام و حلال کے فتووں کے درمیان اپنے وجود کے جواز کا متلاشی نظر آتا ہے۔ جاوید وششٹ اور بعض دیگر اہل قلم کے نزدیک ملّا وجہی کی تصنیف سب رس اردو انشائیہ کا اولین نقش ہے۔

بعض ناقدین سرسید اور ان کے رفقا کی تحریروں کو انشائیہ کا نقطہ آغاز مانتے ہیں۔ بیسویں صدی کے وسط میں ابھر نے والے چند انشائیہ نگاروں کے متعلق بھی اس صنف کے موجد ہو نے کا دعویٰ دہرایا گیا۔ ان متضاد بیانا ت کے باوجود یہ بات قابلِ تسلیم قرار دی جا سکتی ہے کہ اردو انشائیہ کا فنّی ارتقا مغربی ایسّے کا مرہونِ منت ہے۔ اس لحاظ سے مغرب میں انشائیہ کی روایت کا مطالعہ اردو کی اس نوخیز صنف کی تفہیم میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

انشائیہ مغرب کی عطا کر دہ ایک ایسی صنفِ ادب ہے جسے بجا طور پر نشاۃِ ثانیہ کا تحفہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ شگوفہ تخلیقی اعتبار سے ایک زرخیز دور کی پیداوار ہے جس میں مخصوص فکری سانچوں اور عقائد کی قطعیت سے آزاد ہو کر اپنی تہذیبی روایات کی بازیافت کا رجحان پنپنے لگا تھا۔

ادبی تاریخ میں نشاۃِ ثانیہ کی آ ہٹیں سولہویں صدی کے دوسرے دہے سے سنائی دینے لگیں 1578تا 1625تک اس کا زمانۂ عروج قرار دیا گیا ہے۔ اس دور کی خصوصیات ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان الفاظ میں بیان کی ہیں :

نشاۃِ ثانیہ کوئی منظّم تحریک نہیں تھی۔ یہ ایک فضا تھی، نئی روشنی تھی جس نے آزاد خیالی اور جدید فکر و ادب کے شعور کو بیدار کیا اورسارا مغرب جو اب تک عیسائیت کے قلعے میں محصور تھا، شعور کے ساتھ نئے اصولوں کی تلاش میں لگ گیا۔ 1

نشاۃِ ثانیہ کی روح کو انشائیہ میں بہ آ سانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ فرانس انشائیہ کا مولد ہے لیکن وہاں اس کو خاطر خواہ فروغ حاصل نہیں ہوا۔

انشائیہ کی ایجاد سے متعلق ہاؤسٹن پیٹر سن لکھتے ہیں :

انشائیہ کے باب میں اس فن کے نقوش ایک متعین تاریخ اور ایک مخصوص شخص تک تلاش کئے جا سکتے ہیں یہ تاریخ 1580ہے جب مونتین نے اپنے تاثرات اور آراء پر مبنی پہلی دو کتابیں شائع کیں اور اس اصطلاح کو پہلی مرتبہ مخصوص معانی میں استعمال کیا۔ 2

بعض ناقدین کے نزدیک سنیکا کے خطوط غیر رسمی ایسّے کا اولین نقش ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہ خطوط یا دیگر اصناف میں ایسّے کی بعض خوبیاں دستیاب ہوں لیکن ایک جدا گانہ صنف کی حیثیت سے یورپ میں مانتین کو انشائیہ کا نقطۂ آغاز تسلیم کیا جاتا ہے۔

 

                مانتین 1592 -1533

 

مانتین انشائیہ کا جد امجد تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کی منفرد تحریروں نے اس صنف کو بنیاد کا پہلا پتھر فراہم کیا۔ اس نے نہ صرف ایک نیا پیرایۂ اظہار وضع کیا بلکہ اس کے لئے  ESSAI کا لفظ بھی تجویز کیا جو بعد میں انگریزی میں ESSAY کی شکل اختیار کر گیا۔ اس لفظ کے تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے ظہیر الدین مدنی رقمطراز ہیں :

اسائی ESSAI عربی لفظ السعی کی فرانسیسی شکل معلوم ہو تی ہے، دونوں الفاظ کو شش کے معنی و مفہوم ظاہر کرتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ لفظ اسّائی یونانی زبان سے فرانسیسی زبان میں آیا ہے مگر گمان غالب ہے کہ عربی لفظ ’السعی‘ہی اس کی اصل ہے۔ صدیوں تک اندلس اور جنوبی فرانس پر عربوں کا سکّہ چلتا رہا ہے۔ اسی وجہ سے فرانسیسی زبان میں لاطینی سے بھی زیادہ عربی الفاظ رائج ہیں ممکن ہے اسّائی بھی ان میں سے ایک ہو۔ 3

مانتین کا اختیار کیا ہوا یہ لفظ اسّائی کوشش کے معنوں میں اس صنف کے لئے مناسب ہے کیونکہ جن ذہنی و قلبی کیفیات اور اظہار کے تقاضوں نے اسے انشائیہ کو ضبطِ تحریر میں لانے پر آمادہ کیا اور جس انداز میں اس نے اس صنف کو برتا اور انوکھا پیرایۂ اظہار وضع کیا۔ اسی میں اس صنف کے خد و خال اور فنی خصوصیات کی صورت گری کا وافر سامان موجود تھا۔ نشاۃِ ثانیہ کا عطیہ آزادیِ افکار ان تحریروں کی نمایاں خصوصیت ہے۔

میشل دی مانتینMICHEL DE MONTAIGNE نے 28؍فروری 1533ء کوفرانس کے ایک آ سودہ گھرانے میں آنکھ کھولی۔ مانتین اپنی ابتدائی تعلیم کے زمانے ہی میں ایک ذہین اور حساس طالبِ علم کی حیثیت سے ابھرا۔ اسی دور میں فلسفہ بھی اس کے مطالعے میں رہا۔ اس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز قانون کے پیشے سے کیا۔ 1557 میں اسے مئیر کے عہدے کے لئے بھی منتخب کی گیا۔ اس کے مضامین کا مجموعہ 1580ء میں منظرِ عام پر آیا۔

مانتین نے زندگی بھر کے تجربات اور مشاہدات کو اس طرح پیش کیا کہ اس کے انشائیے ان واقعات یا تاثرات کا اظہار نہ ہو کر خود انکشافی کاوسیلہ بن گئے۔ یوں بھی مانتین عام قسم کا آ دمی نہیں تھا۔ اس کی درویشانہ صفت نے اسے ہنری آ ف ناروے کے دربار میں ایک اعلیٰ عہدے کی پیشکش کو قبول کر نے سے باز رکھا۔ مانتین کے انشائیے ایسے وقت تخلیق ہوئے جب اس کی زندگی ایک ٹھہراؤ سے دوچار ہو چکی تھی، اس کی تخلیقات اس کے تجربات اور مشاہدات کی باز آفرینی کا ایک ایسآہنگام ثابت ہوئیں جہاں وہ دنیا سے کٹ کر اپنے من میں ڈوب کرسراغِ زندگی کا متلاشی تھا، اور یہی رجحان نشاۃِ ثانیہ کی جان تھا۔ اسی لئے غواصی کے اس عمل کے دوران مانتین جو اسلوب اور پیرایہ اظہار لے کر ابھرا وہ اسی دور میں مقبولیت سے ہمکنار ہو گیا۔ جب مانتین کے انشائیے 1603ء میں جان فلوریو نے انگریزی میں ترجمہ کئے تو وہ نہ صرف مقبول ہوئے بلکہ جس طرزِ ادا کی اس نے بنیاد ڈالی تھی اس کی جڑیں انگریزی ادب میں گہری ہو تی چلی گئیں۔

مانتین کے انشائیے فکر و خیال کے نت نئے پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔

ان میں اپنی ذات، کائنات اور نئے رابطے دریافت کر نے کا عمل ایک تخلیقی مسرت سے ہمکنار کرتا ہے۔ چونکہ مانتین کے پیشِ نظر کوئی مخصوص مقصد نہیں تھا، اسی لئے اس کی سوچ و فکر آزادانہ طور پر اشیاء کا محاسبہ کرتی ہے۔ اور یہ تخلیقی تجربہ مسرور کن ثابت ہوتا ہے۔ اپنی تحریر کی غرض و غایت اس نے ان الفاظ میں بیان کی ہے۔

’قارئینِ کرام ! میری یہ کتاب دیانت کی امین ہے اسے لکھنے کا واحد مقصد ذاتی اور داخلی ہے، اسے لکھتے ہوئے آ پ کی خدمت یا اپنی شہرت کو ملحوظ نہیں رکھا کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، میرے پیشِ نظر تو دوستوں اور عزیزوں کی مسرت ہے تاکہ جب میں مر جاؤں اور ایسا عنقریب ہونے والا ہے تو میرے کر دار اور مزاج کی باز یافت سے مجھے اپنی یادوں میں زندہ رکھ سکیں۔ میرا مقصد دنیاوی ستائش ہوتا تو میں لباسِ فاخرہ زیبِ تن کرتا اور اپنے آپ کو ایک عالم کے روپ میں پیش کرتا۔ میں تو آ پ کے سامنے تصنّع اور بناوٹ کے بغیر سادہ فطری اور روزمرہ صورت میں آ نا چاہتا ہوں وجہ یہ ہے کہ میں جس چیز کی تصویر کشی آ پ کے سامنے کر رہا ہوں وہ میں خود ہوں۔ میری کمزوریوں کا مطالعہ زندگی کے ساتھ کیجئے کیونکہ میری فطرت زمانے کے تہذیبی معیار کو قبول کرتی ہے۔ اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنہیں قدرت کے آزاد قوانین نے بقائے دوام عطا کر دی تو یقین جانئے میں آ پ کے سامنے اپنے آ پ کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیتا اور بے حد خوش ہو تا۔ قارئینِ کرام ! میں خود اپنی کتاب کا موضوع ہوں اور کوئی وجہ نہیں کہ آ پ اپنی فرصت کے اوقات اتنے معمولی اور بے مصرف موضوع کی نذر کر دیں لہٰذا مانتین آج یکم مارچ1580کو آ پ کو الوداع کہتا ہے۔ ‘4

مانتین نے انشائیہ کو تصنع اور بناوٹ سے پاک فطری سادہ اور دلکش اسلوب کی بنیادوں پر استوار کیا، اس کے انشائیوں میں انکشافِ ذات اور ندرتِ خیال کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ان میں خود کلامی کا انداز پایا جاتا ہے۔

’میرا خیال تھا کہ میری طویل زندگی نے مجھے بالغ نظر بنا دیا ہے۔ رزم گہہِ حیات سے میں نے جو تجربات سمیٹے تھے ان کے گہرے نقوش میرے ذہن پر مرتسم تھے اور انقضائے وقت نے اب مجھے بے حد پختہ کر دیا تھا۔ ، لیکن میں نے دیکھا کہ بیکاری تو ذہن کو منتشر کر دیتی ہے۔ اسے اضمحلال اور مایوسی کی آماجگاہ بنا دیتی ہے۔ حالانکہ ذہن تو مفرور گھوڑے کی مثال ہے جو اپنے مالک کے اصطبل سے آزاد ہو نے کے بعد زیادہ مستعد اور پھرتیلا ہو جا تا ہے۔ اور جتنا کام پہلے وہ دوسروں کے لئے حالتِ جبر میں کرتا تھا، اب اس سے سو گنا زیادہ اپنے لئے کر سکتا ہے۔

اس تصور کے پیدا ہو تے ہی میرے ذہن نے بھی مفرور گھوڑے کی طرح دوڑنا شروع کر دیا۔ اب سینکڑوں عجیب الخلقت باتیں، دیو ہیکل افکار اور الجھے ہوئے تصورات، کسی نظم و ضبط کے بغیر یکے بعد دیگرے مجھ پر یلغار کر رہے تھے۔ میں ان کی مہملیت پر غور کر رہا تھا۔ ان کے انوکھے زاویوں پر اطمینان اور سکون سے سوچ رہا تھا۔ 5

مانتین کے ایسیز انشائیہ نگاری کا اولین نقش ہے۔ اس کے بعد اس صنف میں مزید رنگوں کا اضافہ ہوا۔ اپنے تقریباً چار سو سالہ ارتقائی سفر میں یہ صنف اسلوب، موضوع، مزاج اور آہنگ کے اعتبار سے نت نئی تبدیلیوں سے آشنا ہو ئی۔ ایسّے نگاری کی اسی روایت نے ایسے صاحبِ طرز انشائیہ نگار پیدا کئے جن کا اسلوب ان کی انفرادی شناخت کا مظہر تھا۔ اسا لیب کا یہ تنوع اس صنف کی آفاقی مقبولیت اور وسعتِ اظہار کا سبب بنا۔

 

 

                بیکن 1626۔ 1571

 

سر فرانسس بیکن انگریزی انشائیہ نگاروں کا باوا آ دم تسلیم کیا جا تا ہے۔ مانتین نے Essai کے عنوان سے فن پاروں کی تخلیق کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اسے فرانس میں کسی سحر طراز قلم نے نہ تھا ما البتہ اس کی مقبولیت فرانس کی سر حدیں پار کر گئیں۔ جان فلوریو نے 1606میں اس کی تحریروں کو ترجمہ کی شکل میں پیش کیا۔ ان سے متاثر ہو کر بیکنؔ نے ایسّے نگاری کی روایت کو آ گے بڑھایا۔ بیکنؔ کی عبقری شخصیت، علمیت، ذہانت اور غیر معمولی تخلیقی صلاحیت نے اس صنف کو مضبوط بنیادیں فراہم کر دیں۔ فرانسیسی Essai   انگریزی میں Essay بن گیا۔ انشائیے کی فرانس سے ہجرت اس نو خیز صنف کے لئے نیک فال ثابت ہوئی۔ بیکن کے انشائیوں کے متعلق ڈیل ڈوراں نے لکھا ہے :

’بیکن کو مرصع کاری پسند نہ تھی وہ الفاظ کے زیاں سے متنفر تھا۔ اس لئے ایک چھوٹے سے فقرے میں و ہ متاعِ دانش بھر دیتا ہے۔ یہ تمام ایسیز ایک یا دو جملوں کے اندر اندر زندگی کے اہم مسائل کے بارے میں عظیم خیالات کا نچو ڑ پیش کر دیتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اس کا مواد زیادہ بہتر ہے کہ اس کی پیش کش کا طریقہ، کیونکہ نثر میں بیکن کی زبان اتنی ہی گراں مایہ ہے جتنی شاعری میں شیکسپیر کی۔ 6

بیکن کی فطری ذہانت مشاقی اور ریاضت نے اسے وہ رنگ و آہنگ عطا کیا کہ ہم بیکن اور مانتین کے انشائیوں کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ محسوس ہو تا ہے گویا یہ دونوں قطعی مختلف اسالیب کے علم بر دار ہیں۔

بیکنؔ کا انشائیہ فرانسیسی مزاج سے قدرے منحرف ہو کر انگریزوں کی طبعی خصوصیات کی غمّازی کرتا ہے۔ انگریز فطرتاً کم آمیز اور ذاتی معاملات میں بہت کم کھل پاتا ہے۔ مانتینؔ کی تحریریں اس کے بر عکس، بے تکلفی کے ساتھ قلم کار کے احوال بیان کرتی ہیں۔ بیکنؔ نے اپنے مضامین میں، جنھیں اس نے اپنی ذہنی مشقوں کا ثمر قرار دیا ہے، روشنی کا دائرہ اپنی ذات پر مرکوز کر نے کے بجائے دنیا کی رنگینیوں کی طرف موڑ دیا۔ فارم کا پیمانہ تو اس نے مانتین ہی کے میخانے سے اٹھایا مگر جو مے اس میں انڈیلی اس کا مزاج قدرے مختلف تھا۔ اس نے انشائیے کو جامِ جہاں نما بنا دیا۔ اس طرح انگریزی میں انشائیہ کو ایک نیا آغاز عطا ہوا۔

ڈاکٹر محمد احسن فاروقی انگریزی انشائیے کے متعلق لکھتے ہیں :

’ بیکنؔ کی فطرت اور انگریز قوم کی خصوصیت نے اسے بالکل نئی چیز بنادیا۔ انگریز قوم کی اپنی اندرونی زندگی سے زیادہ دنیا کی گو نا گوں دلچسپی نے بیکن کے انشائیے کو زندگی کے ہرپہلو کا آئینہ دار بنا دیا۔ 7

بیکن بنیادی طور پر فلسفیانہ مزاج اور استدلالی ذہن کا مالک تھا۔ 1586میں اس نے The Greatest Birth Of Time کے عنوان سے ایک فلسفیانہ مقالہ قلم بند کیا اس کا مقالہ The Advancement of learning بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مانتین نے علمی و تحقیقی مقالات کی زبان کو جس قطعیت، سنگلاخی اور خشکی سے آزاد کر کے لطیف تر، لچکدار اور غیر رسمی و تخیلی انداز کا خو گر بنایا اس نثر کا واسطہ بیکن سے پڑا تو اس پر بیکن کے فلسفیانہ اندازِ فکر کا دباؤ پڑنا لازمی تھا۔ اس نے ایسی مناسب و موافق حدت کے ساتھ اس میں فلسفیانہ فکر کی آمیزش کی کہ یہ اہتمام انشائیے کا حسن بن کر ابھر آیا۔ بیشتر مقامات پر اس کا یہ فن خود اس کی ذات کا پر دہ ثابت ہوا اسی لئے اس کی تحریروں میں انشائیہ نگار کی ذات کا انکشاف کھل کر نہیں ہو پایا۔

بیکن نے ان مضامین میں حسن اختصار اور جامعیت کے ساتھ نئے موضوعات پر حکمت و دانش کا خزانہ سمودیا۔ اس نے غیر معمولی پہلوؤں کو فلسفیانہ سوچ کے لمس سے غیر معمولی بنا کر معاصر زندگی کے امور کو اپنے زاویہ نگاہ سے پیش کیا۔ اسی علم، حکمت اور فلسفیانہ رنگ کے سبب اس کی تحریروں کے بیشتر ٹکڑے انگریزی زبان کے محاورے بن گئے۔ یہ اس کی پر اثر اور قد آ ور شخصیت کا کمال تھا کہ اسے نشاۃِ ثانیہ کی روح اور تخلیقی توانائی کی علامت قرار دیا گیا۔ اس کے مضامین کا بڑا حصہ آ ج بھی حوالوں کے طور پر استعمال ہوتا ہے مثلاً یہ قول :

’کچھ کتابیں محض چکھنے کے لئے ہو تی ہیں، بعض نگلنے کے لئے مگر بہت کم ایسی جنھیں چبا کر ہضم کر نے کی ضرورت ہو تی ہے۔ ‘

بیکن کے مضامین کا مجموعہ 1597میں منظرِ عام پر آیاجس میں دس مضامین تھے۔ یہ مجموعہEssay کے نام سے شائع ہوا۔ جنھیں اس نے    Dispersed Meditation یعنی افکارِ پریشاں قرار دیا۔ بیکن نے اپنے نئے اور پرانے مضامین کو یکجا کر کے 1625میں جو کتاب شائع کی اس میں کل 85 ایسیز تھے جن میں سے بعض کو نظرِ ثانی کے بعد دوبارہ پیش کیا گیا تھا۔ ان مضامین میں ابھر نے والا بیکن کا اندازِ فکر Baconian Wisdom کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے عنوانات اپنی ندرت اور انوکھے پن کے سبب دلکش ہیں۔

Of life, Of Study, Of Gardens, Of Praise,

Of Flowers and friends, Of love,

Of Marriage and single life

بیکن کے مضامین میں نفسِ مضمون کو دیگر موضوعات سے موازنہ کر کے نئی روشنی میں پیش کر نے کا انداز نمایاں ہے۔ اس کے خیالات میں پریشاں فکری کے ساتھ موضوع سے مربوط رہنے کا عمل موضوع پر اس کی گرفت کو مضبوط تر کر دیتا ہے۔ ان دونوں متضاد عناصر کا امتزاج انشائیہ میں دلکشی پیدا کرتا ہے۔ بیکن کے مشہور انشائیے Of Gardens کے اس اقتباس سے اس کے اسلوب کی اس خوبی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے باغ اگایا۔ وجہ یہ ہے کہ باغ انسانی زندگی کو نہ صرف خالص مسرت عطا کرتے ہیں بلکہ انسانی روح کو بھی تازہ کر دیتے ہیں۔ باغوں کے بغیر محلات اور عمارتیں دستکاری کے محض ادنیٰ نمونے ہیں اور ہمارا مشاہدہ ہے کہ انسان جب تہذیب و لطافت کی طرف پیش قدمی کرتا ہے تو عمارتوں کو بعد میں پر شکوہ بناتا ہے لیکن باغات کو نفاستِ طبع سے پہلے آ راستہ کرتا ہے، وجہ یہ ہے کہ باغ کمالِ فن کے زیادہ متقاضی ہیں، کاش سر کاری طور پر یہ حکم بھی جاری کر دیا جائے کہ سال کے سب مہینوں میں باغ اگانے کا کام جاری رکھا جائے تاکہ حسین اور خوشنما پھول سب موسموں میں ہماری آنکھوں کے سامنے لہلہاتے رہیں۔ 8

بیکن کی انشائیہ نگاری سے متعلق ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں۔

’ ہمارے ہاں انشائیہ میں اختصار اور اس کی نا رتمامی پر زور دینے والے ناقدین نے یقیناً بیکن کے ایسیز کی مثال سامنے رکھی ہو گی۔ لیکن ان حضرات کے پاس نہ تو بیکن جیسا جز رس ذہن تھا نہ مختصر فقرات میں معانی کی بجلیاں بھر دینے والا اسلوب تھا اور نہ ہی ویسا علم و دانش، اس لئے ان کے ناتمام انشائیے پڑھ کر Loose sally of mind کا احساس ہو تا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے ہاں جو حضرات انشائیہ کو زندگی، اس کے تنوع، گہری سوچ اور فلسفیانہ استدل سے الگ رکھنا چاہتے ہیں وہ اگر بیکن کا مطالعہ کریں تو انھیں علم ہو جائے گا کہ انگریزی میں ایسے کو متعارف اور مقبول کرانے والا بیکن، فلسفیانہ نگاہ اور فلسفیانہ سوچ کے علاوہ اور کچھ تھا ہی نہیں۔ ‘ 9

بیکن کا مشہور انشائیہ، کتابیں پڑھنا، اس موضوع پر حکمت سے پر اور تجربات پر مبنی حقائق کو دلچسپ انداز میں پیش کرتا ہے اس مضمون کے کئی فقرے انگریزی ادب کا محاورہ بن چکے ہیں۔ بیکن اپنے مضمون’ کتابیں پڑھنا‘ میں جہاں کتابوں کی قسمیں انوکھے انداز میں گنواتا ہے اور ان کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے وہیں مطالعہ کے متعلق بھی عام روش سے ہٹ کر اپنی رائے ظاہر کرتا ہے۔

’چالاک آ دمی مطالعے کی تحقیر کرتا ہے۔ سادہ انسان کتاب بینی کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اہلِ خرد مطالعے سے استفادہ کرتے ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ مطالعہ فی نفسہ استعمال کی چیز نہیں بلکہ اس سے بالا تر وہ دانش ہے جو تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہو تی ہے۔ کتاب کو اس خیال سے نہ پڑھئے کہ اس کے مطالعے سے آ پ کسی مسئلہ کی تردید یا بطلان کر سکیں گے۔ کسی چیز پر مہرِ تسلیم و رضا ثبت کرنے یا اپنے ایقان کو اثبات فراہم کر نے کے لئے بھی مطالعہ نہیں کر نا چاہئے۔ مطالعے کا مقصد معاملہ بندی یا چرب زبانی بھی نہیں ہے بلکہ مطالعہ تو صرف اس لئے کیا جا تا ہے کہ آ پ کا فکر بیدار ہو اور آ پ تقابل و موازنہ کر سکیں۔ 10

بیکن کے بعد دنیا بھر میں ابھر نے والے انشائیہ نگاروں میں تھامس اوبری، 1613۔ 1581۔ ، جانسن 1637۔ 1573اور جان اورویل۔ 1601-1665 قابلِ ذکر ہیں۔ یہ Aphoristic انشائیہ نگار تھے جن کے ہاں عصری زندگی کی تصویر کشی کا رجحان نظر آ تا ہے۔ نیز ان کے ہاں حقائق کی قطعیت کو تخیل کی لطافتوں سے صیقل کیا گیا ہے۔ انہوں نے اظہارِ ذات کے لئے کر داروں کو اولیت دی جو بیک وقت عصری زندگی کی نمائندگی کے علاوہ مصنف کی پسند یا نا پسند کی آئینہ دار بھی ہے۔

 

 

حواشی

 

1۔ ڈاکٹر جمیل جالبی۔ مقدمہ ارسطو سے الیٹ تک۔ دہلی 1977 ص 33

2۔ Houston Peterson, Great Essays, page 15, London, 1960

3۔ ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی۔ دیباچہ :اردو ایسیز، ص9

4۔ مانتین۔ بحوالہ اردو انشائیہ، انور سدید، ص116

5۔ مونتین۔ ترجمہ : انور سدید، مطبوعہ، اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر، اپریل۔ مئی 85 ،   ص300

6۔ بحوالہ، انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر۔ 1986 ص 31

7۔ محمد احسن فاروقی۔ انشائیہ مشمولہ : نیا دور، کراچی، شمارہ 35۔ 36۔ ص 90

8۔ بیکن۔ On Garden بحوالہ: اردو انشائیہ، انور سدید۔ ص124

9۔ بحوالہ، انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر۔ ، ص 33

10۔ کتابیں پڑھنا، سر فرانسس بیکن، ترجمہ : انور سدید، مطبوعہ، اوراق، لاہور،  انشائیہ نمبر اپریل مئی 85ص289

 

 

                ابراہم کاولے 1618-1667

 

انگریزی ایسے ابتدا ہی سے مانتین کے اظہارِ ذات کے عمل سے انحراف کا عادی رہا ہے۔ اگر اسی سمت اس کی پیش قدمی جاری رہتی تو عین ممکن تھا کہ انگریزی انشائیہ اس کے اصل مزاج سے دور ہو جاتا لیکن بیکن کے بعد اسے ابراہم کاولے جیسا انشائیہ نگار مل گیاجس نے خود انکشافی کے عمل کو اس صنف میں ترجیح دے کر مانتین کے انشائیہ کی اصل روح کو انگریزی میں زندہ کیا ابراہم کاولے بنیادی طور پر شاعر تھا۔ مابعد الطبعیاتی شعراء Metaphysical Poetsمیں ابراہم کاولے کا شمار کیا جا تا ہے۔ شاعری کی بہ نسبت اس کے انشائیے زیادہ مقبول ہوئے۔ معدودے چند انشائیے تحریر کر نے کے باوجود اس کی تحریروں نے انگریزی انشائیوں کو جو سمت عطا کی اس کے پیش نظر ابراہم کاولے انگریزی ایسے کا ایک اہم نام شمار کیا جاتا ہے۔ جس طرح مانتین کے انشائیے اپنے تخلیقی ابال اور اظہارِ ذات کے نتیجے میں وجود میں آئے تھے، اسی خود انکشافی کے عمل سے ابراہم کاولے کے انشائیے بھی روشن ہوئے۔ اس کی نثر پر اس کی شاعرانہ شخصیت کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ اس کی حدیں غنائیت سے جا ملتی ہیں۔

ابراہم کاولے کی تحریروں میں خود کلامی، انکشافِ ذات اور غنائیت کے باہمی امتزاج نے جو اسلوب انگریزی انشائیے کو عطا کیا اس کے پیشِ نظر ابراہم کاولے کو انگریزی انشائیہ نگاروں میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ غلام جیلانی اصغر اس سلسلے میں لکھتے ہیں :

’کوئی انشائیہ جس میں انشائیہ نگار کی ذات موجود نہ ہو ایک تاریخی یا تنقیدی انشائیہ تو کہلا سکتا ہے لیکن وہ انشائیہ کے اصل مزاج کے قریب نہیں اور اگر اس کلیہ کو تسلیم کر لیا جائے تو انگریزی ادب میں بیکن پہلا انشائیہ نگار نہیں بلکہ ابراہم کاولے ہے، جس نے انشائیہ کے منفرد مزاج کو سمجھا اور اس کا انشائیہ کچھ اپنے بارے میں

Of myself اس مزاج کی پوری عکاسی کرتا ہے۔ 1۔

اپنے متعلق Of My self میں ابراہم کاولے رقم طراز ہیں۔

یہ قدرے مشکل بھی ہے اور اچھا موضوع ہے، کسی شخص کے لئے کہ وہ اپنے متعلق اظہارِ خیال کرے۔ سامعین اگر کسی کی کمزوریاں سن کر بھی تعریف کر نے کے لئے تیار ہوں تو اس سے زیادہ حوصلہ افزا اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ اس میں کسی دوسرے کو موردِ الزام قرار دینے کا خطرہ بھی نہیں ہے۔ نہ میرا جسم نہ روح نہ میری تقدیر مجھے اجازت دیتی ہے کہ خود نمائی کے لئے میں ایسی کوئی بات پیش کروں۔ میرے تسکینِ قلب کے لئے یہ کافی ہے کہ انھوں نے مجھے کسی شرمناک فعل میں ملوث ہو نے سے محفوظ رکھا۔

 

حوالہ

 

1۔ غلام جیلانی اصغر۔ انشائیہ کیا ہے ؟ ادبی دنیا شمارہ 9۔ ص 254

 

 

                رچرڈسٹیل 1672-1729

 

بیکن کے بعد انگریزی ایسے کو ایڈیسن اورسٹیل کے روپ میں دو مضبوط بازوؤں کا سہارا نصیب ہوا جنھوں نے نہ صرف اس کے میدانِ عمل، طریقہ کار اور اس کی مقبولیت کا احاطہ وسیع سے وسیع تر کیابلکہ عصری زندگی کی مختلف سچائیوں کو اپنا موضوعِ اظہار بنایا۔ انگریزی ایسے کو ایڈیسن اور سٹیل کے توسط اور صحافت کے فیضِ قربت سے ایک نئی آ ب و ہوا، موضوعات کا تنوع، نیا زاویۂ نظر اور زندگی کے نئے اقتباسات میسر آئے۔

حسنِ اتفاق سے ایڈیسن اور سٹیل کا سنِ پیدائش ایک ہی ہے، دونوں کو تعلیمی زندگی میں بھی ایک دوسرے کی رفاقت حاصل تھی۔ پھر جب سٹیل نے 1709ء میں اسپکٹیٹر کا اجرا کیا تو مضمون نگاری کا سلسلہ چل پڑا۔ اسپکٹیٹر ہفتہ میں تین مرتبہ شائع ہوا کرتا تھا۔ اس میں چھپنے والے مضامین انگلینڈ کی معاشرتی زندگی کی چھان پھٹک کرنے لگے اور اس طرح نئے نئے گوشے سامنے آ نے لگے۔ سٹیل بے پناہ تخلیقی قوت کا مالک تھا۔ اس کی فطری صلاحیتیں اسپکٹیٹرکے کالموں میں نمایاں ہو نے لگیں اور اس طرح اخبار کی صورت میں ایک ایسا ترجمان منظرِ عام پر آیا جو انوکھی سچّائیوں کا راز دار تھا اور رفیق بھی۔ سٹیل اور ایڈیسن نے اسی کے ذریعے اپنے لا جواب انشائیے پیش کئے۔ سٹیل نے ٹیٹلر جاری کیا۔ اس کی تحریروں میں طنز کا عنصر غالب تھا۔ آئرلینڈ کا باشندہ ہونے کے سبب اس کے طنز کی کاٹ اپنے ملک کے مخصوص مزاج کی غماز ہے۔ وہ مزاجاً مذہبی اور اخلاقی قدروں کا ہمنوا تھا۔ اس کی اولین تصنیف The Criston Hero   (1701) میں قدیم فلسفہ پر عیسائیت کو بر تر ثابت کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔

سٹیل زندگی کی ہماہمی کو بہت گہرائی تک محسوس کر کے اس کی بوالعجبیوں پر ناقدانہ نگاہ ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا طنز ایڈیسن کہ بہ نسبت شدید تر ہے۔ اس کی تحریروں میں زندگی کے مختلف شعبوں کی نمائندگی کر نے کر دار نظر آ تے ہیں۔ کافی ہاؤس اس کے مشاہدے کا خاص مرکز تھا۔ اسی لئے اسی طبقے کے افراد میں وہ زیادہ مقبول ہوا۔ اسی ضمن میں Émile Legouis رقمطراز ہے۔

’ابتدا میں سٹیل کے پیشِ نظر کوئی مقصد متعین نہیں ہو تا ہے، نہ ہی وہ منصوبہ بند طریقے پر آ گے بڑھتا ہے بلکہ شروع ہی سے وہ خبروں کے ساتھ دلچسپی اور تفریح کو ملحوظ رکھتا ہے۔ سٹیل بوالعجبیوں پر قہقہے لگا کر اصلاحِ احوال کا طریقہ اپناتا ہے۔ اس کا اظہار جاندار مزاح کا حامل ہے۔ 1

سٹیل اپنی طبعی خصوصیات کی بنا پر ایڈیسن سے مختلف قسم کا آدمی تھا۔ ان دونوں کے انشائیے دو مختلف شخصیات کے آئینہ دار ہیں۔ سٹیل کے مضامین کے چند اقتباسات:

گپ بازی میں مصروف زبان کے مقابلے میں آ گ اور تلوار تخریب کاری کے نسبتاً کمزور ذرائع ہیں۔

فطرت کو غیر جانب دارانہ نظر سے دیکھنا میرے لئے بے پایاں تسکین کا ذریعہ ہے۔

ایک صحت مند عمر رسیدہ شخص جو بے وقوف نہ ہو سب سے زیادہ خوشحال مخلوق ہے۔

 

حوالہ

  1. Émile Legouis, A short History of English Literature, Page 191,London.1956

 

 

                جوزف ایڈیسن 1672-1719

 

ایڈیسن کو تخلیقی میدان کے علاوہ تعلیمی زندگی میں بھی سٹیل کی رفاقت حاصل تھی۔ ایڈیسن سٹیل کی بہ نسبت ذہین اور محنتی طالب، علم کی حیثیت سے ابھرا۔ اس کی شخصیت کا یہی جوہر اس کی تخلیقات پر بھی اثر انداز ہوا۔ اس کی زندگی کا بیشتر حصہ علمی مصروفیات پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹر جانسن نے اس کی نثر کو ان الفاظ میں سراہا ہے۔

’سلیس اور نفیس طرز سیکھنے کے لئے ایڈیسن کے مضامین دن را ت پڑھنے چاہئے۔ ‘

ایڈیسن کی تحریروں میں خارجی زندگی کی تصویر کشی اور لطیف اظہارِ خیال ملتا ہے جس میں طنز کی جراحت مفقود ہے۔ اخلاقی قدروں کا پا س اور زندگی کی نا ہمواریوں پر لطیف اشارات پند و نصائح کا روپ نہیں اختیار کر پائے۔ ایڈیسن کے انشائیے گفتگو کی کھلی کھلی اور بے تکلف فضا پیش کرتے ہیں۔ اس کے اسی وصف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہڈسن رقمطراز ہے۔

Addison’s prose is the artistic development of real speech’1

ایڈیسن کے انشائیوں میں پائی جانے والی ان ہی خصوصیات کی بنا پر اس کی تحریروں کو سٹیل کی بہ نسبت انشائیہ کا بہترین نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسپکٹیٹر کا اجراء سٹیل نے کیا تھا۔ لیکن وہ ایڈیسن کی فطری اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا۔ اس طرح ایڈیسن نے انشائیہ کی نوکِ پلک سنوارنے میں اہم رول ادا کیا۔ ایڈیسن کے انشائیوں میں آزادانہ فکر اور غیر رسمی طریقہ کار کے شواہد ملتے ہیں۔ وہ جب اپنے تخلیقی عمل کے متعلق یہ وضاحت کرتا ہے کہ:

میں جب کسی ایسے موضوع کا انتخاب کرتا ہوں جس پر اس سے پہلے کسی نے قلم نہ اٹھایا ہو تو میں اپنے خیالات کو ترتیب اور لکھنے کے مخصوص طریقہ سے آزاد چھوڑ دیتا ہوں تاکہ وہ کسی باضابطہ مقالہ کے برعکس ایسے میں ملنے والی لچک اور آزادی سے اظہار پا سکیں۔

تو گویا وہ انشائیہ نگاری کی اہم خصوصیات آزادانہ سوچ کے عمل دخل اور غیر رسمی طریقہ کار کو انشائیہ کا جوہر قرار دیتا ہے۔ جوزف ایڈیسن اور سٹیل کے متعلق ناقدین کی عام رائے یہی ہے کہ انھوں نے انگریزی ایسّے کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔

اردو میں سر سید کے سامنے اسپکٹیٹر اور ٹیٹلر کا اسلوب تھا جو ان کی طرزِ فکر، نئی سوچ اور غیر روایتی خیالات کے اظہار کے لئے نہایت مناسب تھا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں۔

’جب سر سید احمد خان انگلستان گئے تو جیسا کہ انھوں نے لکھا ہے کہ جب انھوں نے اسپکٹیر اور ٹیٹلر میں ان دونوں کے ایسیز کا مطالعہ کیا تو وہ ان کے سیدھے سبھاؤ میں بات کرنے کے موثر انداز سے اتنے متاثر ہوئے کہ واپس آ کر انھوں نے ’ تہذیب الاخلاق‘ کا اجراء کر کے ان کے تتبع میں انشائیہ نگاری کا آغاز کیا۔ ادھر محمد حسین آزاد کی ’ نیرنگِ خیال ‘میں جتنے بھی انشائیے ملتے ہیں وہ بھی ان دونوں کے ایسیز کا اردو روپ ہیں۔

ایڈیسن کے مضامین سے چند اقتباسات:

ہم پر نازل ہو نے والی رحمتیں اکثر، محرومی، مایوسی اور دکھ کی شکل میں نازل ہوتی ہیں، ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے تاکہ ہم جلد ہی انھیں ان کی مناسب شکل میں دیکھ سکیں۔

ہر نئی اور انوکھی چیز ہمارے تصورات کو مسرت سے ہمکنار کرتی ہے کیونکہ یہ ہماری روح کو قابلِ قبول حیرت عطا کرتی ہے، تجسس کو بیدار کرتی ہے اور ہمیں نا آشنا خیالات سے واقف کرواتی ہے۔

مطالعہ ذہن کے لئے اسی طرح ہے جیسے ورزش بدن کے لئے۔

 

حوالہ

  1. Hudson, An Introduction to the study of Literature Page 53, 1958, London

 

 

                ولیم ہیزلٹ 1778-1830

 

ولیم ہیزلٹ کے لیکچرس اور مختلف النوع تصانیف بحیثیت ناقد ادب میں اس کا جو مرتبہ متعین کرتی ہیں، انگریزی کے ایک انشائیہ نگار کی حیثیت سے بھی وہ اسی مقام کا مستحق ہے۔ ولیم ہیزلٹ کے مضامین کے مجموعے

The Round table 1817,

The Table talk 1821,

The plain speaker 1826

کے ذریعے منظرِ عام پر آ نے والی اس کی منفرد تحریروں کا دلکش اسلوب آج بھی اس کے نام سے معروف ہے۔ ولیم ہیزلٹ انگریزی ایسے کا ایک اہم نام ہے۔ اس کے انشائیے شخصی تاثرات کے اظہار کے علاوہ روحانی وجدان کے ساتھ مسرتوں کی دریافت کا ایک ایسا سلسلہ پیش کرتے ہیں جن میں خود کلامی، جامعیت اورمعنویت کا انداز حاوی ہے۔ گفتگو کی خوش گوار ار فضا اس کے انشائیوں میں اول تا آ خر بر قرار رہتی ہے۔

اس کی ایک کتاب The Table talk کے نام سے ان مضامین کی کھلی کھلی فضا کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہزلٹ کی نگاہ ایک نرالی وابستگی اور جذباتی وارفتگی کے سبب جو تصاویر ابھارتی ہے اس کا انوکھا پن اس کے زاویہ ٗ نگاہ کا مرہونِ منت ہے۔ جب نظر عمومیت کا شکار ہو کر دیکھے بھالے اور سوچے سمجھے مناظر دیکھنے کی عادی ہو جائے تو بانجھ ہو کر نئے مفاہیم کی تخلیق کی قوت کھو بیٹھتی ہے۔ ہزلٹ اپنی فطری کم آمیزی اور حساس طبیعت کے سبب اپنے اندر موجود بچوں کے سے تجسس اور کو مل احساس کو بروئے کار لاتا ہے۔ استدلالی فکر کی وجہ سے وہ مختلف زاویوں کی کھوج اور پرکھ کے مرحلے سے بھی دوچار ہو تا ہے۔ وہ موضوع کی گہرائی میں اتر کر معنویت اور مسرت کے گوہر ہائے آ بدار بر آ مد کرتا ہے۔ اس کے متعلق جارج سمپسن نے لکھا ہے۔

Hazlitt’s best aphorism are to be found scattered in profusion up and down his longer essays, his deliberate attempt epigram are more like exised paragraphs than the stamped and coined utterance of genuine   .10

صحافت سے وابستگی کے باوجود ہزلٹ نے خبروں کی بار برداری اور وقتی دلکشی سے اپنے اسلوب کا دامن آلودہ نہ ہو نے دیا بلکہ نثر کے اعلیٰ معیار کے علاوہ آزادانہ فضا اور نئی آ ب و ہوا سے روشناس کروایا۔ اس کے فکر و نظر کا ارتقا اس کے مضامین کو درجۂ اعتبار عطا کرتا ہے۔ ہزلٹ کے انشائیے اخلاقی موعظت سے گراں بار ہو نے کے بجائے شخصی تاثرات کو فنکارانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔

 

حوالہ

  1. George Sampson, Concise Cambridge History of English Literature page 531.1959

 

 

                جانسن 1709-1784

 

انگریزی ادب میں جانسن کی عبقری شخصیت Dictionary of English Literature کے حوالے سے معروف ہے۔ ادب اور ادبی شخصیات کے مطالعے پر مبنی تحریریں اس کی غیر معمولی لیاقت کا ثبوت ہیں۔ جانسن کی علمی شخصیت سے انگریزی انشائیے کو بھی وافر حصہ دستیاب ہوا۔ ریمبلرRamblerمیں شائع ہو نے والے جانسن کے مضامین نے ایڈیسن اورسٹیل کے طرزِ ادا کو آگے بڑھایا۔

جانسن کی تحریروں میں قدرے لطافت کا فقدان اس کی دانشورانہ شخصیت کے علمی پہلوؤں کی قطعیت کے سبب ہے۔ علمیت کے ساتھ ہی واعظانہ انداز اس کی تحریروں کو بوجھل بنا دیتا ہے۔ اس کے باوجود اپنی فطری دلکشی کے سبب اس کے انشائیے مقبولیت سے ہمکنار ہوئے۔

 

                جوناتھن سوِفٹ   1667-1745

 

سوِفٹ کا شمار انگریزی کے صفِ اول کے طنز نگاروں میں ہوتا ہے۔

The Battle of the books   اور The Tale of a Tub میں سوِفٹ کی طنز نگاری بے مثال ہے۔ یہی انداز اس کے انشائیوں پر اثر انداز ہوا۔ اس کے انشائیے، گرجا گھر میں سونا اورسیاسی جھوٹ کا فن، میں بھی طنز کی نشتریت محسوس کی جا سکتی ہے۔ سوِفٹ کی نثر رواں دواں ہے اور اس کی زندہ دل شخصیت کے نقوش اس میں بھی نمایاں ہیں۔ اس کی کتاب Gullivers Travels کی تخیل پروازی اس کے انشائیوں کا بھی ایک اہم وصف ہے۔ سوِفٹ کا اسلوب سادگی اور پر کاری سے عبارت ہے۔

 

                چارلس لیمب 1775-1834

 

چارلس لیمب کے ساتھ انگریزی انشائیہ کا ایک مخصوص اسلوب وابستہ ہے۔ لیمب کے انشائیے اس صنف کے جد امجد مانتین کے ذریعے اپنائے گئے اظہارِ ذات کے مخصوص انداز کے نمائندہ ہیں بلکہ اس کا نقطہ ء عروج قرار دئے جا سکتے ہیں۔ لیمب نے Familiar ایسّے کے کامیاب نمونے پیش کئے ہیں۔ اس نے انگریزی انشائیوں کو شخصی مزاج، آہنگ اور طرزِ ادا کا وہ سلیقہ عطا کیاجس کی ابتدا مانتین نے کی تھی۔ اس کے بعد بیکن کے انشائیوں میں اس انداز سے انحراف بر تا گیا جسے ہم باطن کی سیاحت سے تعبیر کرتے ہیں۔ بیکن نے انشائیوں کو دل سے زیادہ ذہن کی جولان گاہ بنانے پر زور دیا۔

چارلس لیمب کے انشائیے جہاں اس کی متنوع ذہنی دلچسپیوں کی عکاسی کرتے ہیں وہیں اس کے نجی تجربات اور دلکش اندازِ نگارش نے اس کی شخصیت کے کئی گوشے بے نقاب کئے ہیں۔ اسی خوبی نے ان کے انشائیوں کو سوانحی اہمیت کا حامل بھی بنا دیا ہے۔ لیمب کا یہ انداز مرزا غالبؔ کے خطوط سے مشابہ ہے جن سے ہمیں اس عظیم شاعر کی فکر و تخیل آ رائی کے ساتھ زندگی کے سرد و گرم کا بھی بخوبی اندازہ ہو تا ہے۔

چارلس لیمب کے انشائیے شدید قسم کی داخلیت، لطیف احساسات اور آرزو ں کی بازیافت کے ذریعے زندگی کا ایک الگ رخ پیش کرتے ہیں جس میں انشائیہ نگار کی بھر پور شرکت زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے اور نرالے انداز سے پیش کر نے کی سعی کرتی ہے۔ چارلس لیمب کے انشائیوں میں کیف و نشاط کے ساتھ حزن و ملال کی آمیزش خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ لیمب کی زندگی جن دکھوں اور محرومیوں میں بسر ہوئی اس کا سایہ اس کے انشائیوں پر بھی پڑا۔

اپنے ایسّے Man   The Superannuated   میں ملازمت کے دوران پیش آئے تجربات کو لیمب اس طرح بیان کرتا ہے :

مستقل حاضری کے عذاب کے پہلو بہ پہلو مجھے یہ خوف بھی بھوت بن کر ڈراتا رہا ہے۔ (ویسے یہ میرا وہم بھی ہو سکتا ہے ) کہ میں کاروبار کے لئے ناموزوں ہوں۔ چنانچہ ملازمت کے آخری ایام میں یہ خوف اس حد تک شدت اختیار کر گیا تھا کہ خود میرے چہرے کے خطوط اس کے غماز تھے، میری صحت اور خوش طبعی کو گھن لگ گیا۔ میں ہمیشہ کسی ایسے بحران سے ہراساں رہتا میں جس کے مقابلے میں نا اہل ثابت ہوں گا۔ دن بھر کی اس غلامی کے بعد رات بھر نیند میں چاکری کرتا رہتا۔ رات کو ہڑ بڑا کر بیدار ہوتا تو دل مفروضہ غلط اندراج، حساب کے اغلاط اور اسی طرح دوسری باتوں سے خوف زدہ رہتا۔ میں پچاس برس کا ہو چکا تھا اور اس سے نجا ت کی کوئی صورت نہ تھی۔ یوں محسوس ہوتا گویا میں اپنی ڈیسک ہی کا ایک حصہ بن گیا تھا اور میری روح میں کاٹھ نے گھر بنا لیا تھا۔ ‘

لیمب کا مشہور انشائیہ Old Chinaہے جس میں و ہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ :

‘میں تقریباً عورتوں ہی کی مانند چین کے پرانے برتنوں کا شائق ہوں۔ ‘

لیمب کے انشائیوں میں انکشافِ ذات جس قدر سچا، بے تکلف، پر اثر اور جاندار ہے اس کی مثال انگریزی انشائیہ نگاروں کے ہاں بھی ملنا محال ہے۔

لیمب نے انگریزی انشائیے کو ایک ایسی منزل پر پہنچایا جہاں انشائیہ کا ایک مخصوص اسٹائل اس کی شناخت قرار پایا۔ چارلس لیمب کے تذکرہ کے بغیر انگریزی انشائیہ کا مطالعہ نامکمل ہے۔ لیمب نے ’لندن میگزین، میں اپنے بیشتر انشائیے شائع کئے۔

Essays of Elia   اس کے انشائیوں کا مجموعہ1831ء میں شائع ہوا۔

 

                گولڈ اسمتھ   1727-1774

 

گولڈ اسمتھ کے مشہور ناول The Vicar of Wakefield کے کرداروں ہی کی طرح گولڈ اسمتھ کے انشائیوں میں بھی اس کی شخصیت کی جھلک نمایاں ہے۔ گولڈ اسمتھ نے The Beeمیں ۱۷۵۶؁ء سے لکھنا شروع کیا۔ اس کے انشائیوں میں سادگی، سلاست، طنز و مزاح اور دانشوری کا باہمی امتزاج نمایاں ہے۔

گولڈ اسمتھ نہایت سلجھے ہوئے انداز، سادہ اور فطری اسلوب میں زندگی کی گتھیوں کو سلجھا نے کی کو شش کرتے ہیں۔ ان کے انشائیوں کا مجموعہ،

The Citizen of the World   1762 میں منظرِ عام پر آیا۔ اسے گولڈ اسمتھ کے نمائندہ انشائیوں میں شمار کیا جا تا ہے۔

اس کے متعلقConcise Cambridge History of English Literature میں لکھا ہے۔

"The easy, natural style, the simple wisdom, the good humour and the shrewd sense of preparation in life, give "the citizen of the world” a high place in our prose literature.”

 

                آر ایل اسٹیونسن1850-1894

 

آر ایل اسٹیونسن کے انشائیے سادگی و پر کاری کا ایسا نمونہ ہیں جس میں زبردست قسم کی ہنر مندی کا مظاہرہ ہوا ہے۔ یہ تحریریں بظاہر رسمی گفتگو کا انداز لئے ہوئے ہیں۔ اس کے انشائیے،

Apology for Idlers, Lantern Bearer, Walking Torch

خیالات کا ایک بے ربط نظام انشائیے کی ایک ڈھیلی ڈھالی بندش اور لطف اندوزی کی خوبیوں سے آ راستہ ہیں۔

فطرت کے مظاہر میں ڈوب جانے کا رویہ سٹیونسن کی نثر کو شعریت سے قریب تر کر دیتا ہے۔ اسٹیونسن کے انشائیوں میں الہامی کیفیت سے سر شار فقرے ملتے ہیں جن میں بندشِ الفاظ تہہ در تہہ معنویت کی حامل ہے۔

 

 

                جی کے چسٹرٹن 1874-1936

 

پرسنل ایسّے لکھنے والوں میں جی کے چسٹر ٹن کا انداز نرالا ہے۔ وہ سلجھے ہوئے انداز میں گہرے اور بصیرت افروز نکات پیش کرتے ہیں جو ان کے تجربات اور تخیلات کے امرت منتھن کا حاصل ہے۔ ان کی پسند و ناپسند سے ان کی شخصیت کی پرتیں کھلتی جا تی ہیں۔ چسٹرٹن کی تحریر میں زندگی کی حقیقتیں اس ترتیب سے بیان کی جا تی ہیں کہ بین السطور میں، نئی نئی سچائیوں کا احساس پڑھنے والے کو حزن و ملال سے دوچار کر دیتا ہے۔ چسٹر ٹن کے مشہور انشائیے ’ نو جوان رہنے کی خواہش ‘میں مصنف نے کچھ پا لینے میں کچھ کھو دینے کے احساس کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس انشائیے کا ایک اقتباس (ترجمہ) درج ذیل ہے :

جب ہم جوان تھے تو ضرب المثل مردہ تھی، اب کہ ہم موت کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں تو ایک جیتا جاگتا حکیمانہ قول بن گئی ہے۔ گویا جب ہم مر رہے ہو تے ہیں تو ساری دنیا از سرِ نو زندہ ہو رہی ہو تی ہے۔ ۔ ۔ ، تعلیم یافتہ لوگ جانتے تھے کہ مرے ہوئے دوبارہ اس جہانِ رنگ و بو میں نہیں آ تے لیکن وہ جو پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہیں اور جنھوں نے سراولیورلاج ایسے سائنس کے مردِ میدان کو ایک مقبولِ عام مذہب کا سنگ، بنیاد رکھتے ہوئے دیکھا ہے وہ جب کسی نو جوان کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ دنیا ما فوق الفطرت عناصر سے نجات حاصل کر رہی ہے تو محظوظ ہو تے ہیں، کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اس دنیا نے حقیقتاً کس سمت میں پیش قدمی کی ہے۔

میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ بوڑھے حضرات بالآخر دانا ہو جاتے ہیں کیونکہ آ دمی کو عقل مشکل ہی سے آ تی ہے، اس لیے بھی کہ بیشتر بوڑھے حضرات ایک نہایت پر کشش طفولیت اور ایک پر مسرت معصومیت کو قائم و دائم رکھتے ہیں۔ بوڑھے لوگ اکثر و بیشتر نسبتاًکم عمر حضرات سے کہیں زیادہ رومینٹک ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو نسبتاًزیادہ مہم جو بھی اور پھر انھیں اس بات کو تسلیم کر نے میں بھی قطعاً کوئی باک محسوس نہیں ہو تاکہ وہ کتنی ڈھیر ساری چیزوں کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔

لہٰذا اس ضرب المثل میں رتی بھر کھوٹ شامل نہیں کہ ’ایک بوڑھے احمق سے بڑھ کر کوئی احمق نہیں ہے ‘۔ شاید کہیں بھی کسی ایسے بے وقوف کا وجود نہیں ہے جو اپنی نجی’ احمقوں کی جنت‘ میں آ دھی خوشی سے بھی رہ رہا ہو۔ با ایں ہمہ یہ بالکل بجا ہے کہ پختہ سالی کی تعریف میں جن دلائل کی عام طور پر تشہیر کی جاتی ہے فی الحقیقت وہ ایسے نہیں ہیں جیسے کہ بظاہر سچائی پر مبنی نظر آ تے ہیں اور بالفرض اگر انھیں واقعی آشکار کر بھی دیا جائے تو یہ ہمیں بالکل ایک مضحک تضاد کی مانند معلوم ہوں گے۔ ‘ 1۔

 

حوالہ

1۔ نوجوان نہ رہنے کے مزے، جی۔ کے۔ چسٹر ٹن، ترجمہ : سلیم آغا قزلباش،      مطبوعہ، اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر، اپریل۔ مئی 85، ص309

 

                تھامس ڈی کوئنسی 1785-1859

 

تھامس ڈی کوئنسی کے انشائیے حقیقت اور تخیل کے نقطۂ اتصال کو پیش کرتے ہیں۔ یہ انداز اس کی زبان اور اسلوب سے نمایاں ہے اس کی نثر شاعری سے قریب ہے۔

Confessions of an English Opium Eater(1821)، میں افیم نوشی کے تجربات کا جائزہ لیتے ہوئے مصنف خود اپنی شخصیت کا احتساب کر نے لگتا ہے۔

English mail coach,

On Murder considered as one of the Time Art

اس کے مشہور انشائیے ہیں۔ تھامس ڈی کوئنسی کی غیر معمولی علمی شخصیت اور جرمن فلسفے پر اس دستگاہ کے باوجود اس کے انشائیے قطعیت اور خشک فلسفے سے متاثر ہو نے کے بجائے اس کی شخصیت کے شاعرانہ پہلو سے زیادہ متاثر نظر آ تے ہیں اور ایسی آزادانہ فضا مہیا کرتے ہیں جو مصنف کے لئے اپنی شخصیت کے بندِ قبا وا کر نے کی تقریب ثابت ہوتی ہے۔

 

                ای۔ وی۔ لوکس   1868-1938

 

ای۔ وی۔ لوکس کے بیشتر انشائیے Punch میں شائع ہوئے۔ یہ سلسلہ اس نے تا دمِ آ خر بر قرار رکھا۔ ای۔ وی۔ لوکس کے انشائیوں میں چارلس لیمب کی طرح ایک حزنیہ لے لیمب کے شعوری اتباع کے نتیجے میں نمودار ہو ئی۔ ای۔ وی۔ لوکس سادہ سلجھے ہوئے اور رواں دواں انداز میں متنوع موضوعات پر اپنے تاثرات رقم کرتا چلا جا تا ہے۔ اس کے انشائیوں میں محبّت اور انسانی ہمدردی پائی جا تی ہے۔ علاوہ ازیں مشاہدہ کی گہرائی، شخصی تجربات کا بیان اور گپ شپ کی سی فضا لوکس کے انشائیوں کی خصوصیات ہیں۔

 

                رابرٹ لنڈ 1879-1949

 

رابرٹ لنڈ انشائیے کے موضوعات کو ذات کے حوالے سے پیش کر نے والے مغربی انشائیہ نگاروں میں رابرٹ لنڈکا نام خصوصی توجہ کا حامل ہے۔ اس نے انکشافِ ذات اور ندرتِ خیال کو درجۂ کمال تک پہنچا کر پرسنل ایسّے کے مخصوص رنگ کی نمائندہ تحریریں پیش کیں۔ اس کے انشائیے میں کسی چھوٹے سے واقعے یا رویے سے پھوٹتی ہوئی خیال کی چنگاری کو ہوا دے کر رابرٹ لنڈ موضوع کا پورا دائرہ روشن کر دیتا ہے۔ اس کے انشائیے بنیادی معتقدات یا موضوع کے ساتھ وابستہ عمومی تصورات سے انحراف کے ذریعے شروع ہو تے ہیں اور خیالات کے مثبت یا منفی پہلوؤں کی چھان بین سے نئے مفاہیم بر آمد کرتے ہیں۔ رابرٹ لنڈ کے انشائیے کچھ عادت کے بارے میں کا اقتباس درج ذیل ہے۔

’میں اپنے بارے میں ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ میں چند عادات پر مشتمل ایک مخلوق ہوں جن میں سے بیشتر خراب ہیں لیکن آ ج مجھ پر عیاں ہوا کہ میں نئے پیکٹ کا پہلا سگریٹ نکالنے کے اس معمولی سے کام میں بھی عادات کا غلام بن کر رہ گیا ہوں۔ ویسے میں اصولی طور پر عادات کا دشمن نہیں ہوں۔ میری رائے میں آ ج تک کسی نے اتنی فضول بات نہیں کہی جتنا کہ پیٹر کا مشاہدہ ہے، پیٹر کا کہنا ہے، عام طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری ناکامی اس وجہ سے ہے کہ ہم عادات کو اپنا نہیں سکے۔ اس بات میں آ دھی سچّائی کے جراثیم تو موجود ہو سکتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی آ دمی جو بد قسمتی سے عادات کو اپنانے کے قابل نہ ہو، وہ اس کہاوت کو ظاہری طور پر تسلیم کر لے گا۔ ۔ ‘1

رابرٹ لنڈ نے بسوں کے متعلق اپنے منفرد خیالات اس طرح پیش کئے ہیں۔

’اگر نسلِ انسانی جسمانی تحرک کی لذت ترک کر نے میں بطور ازالہ ذہن یا روح کے تحرک کی نئی لذتوں کی تحصیل کر رہی ہو تی تو موٹروں بسوں کے حق میں مزید مو شگافی ممکن تھی۔ لیکن ذرا دنیا کے نقشے پر ایک نظر ڈالئے۔ آ پ اس میں کسی ایک گاؤں کی بھی نشاندہی نہیں کر سکیں گے کہ جس میں ذہنی یا روحانی نوع کی کسی دیسی ہلچل کا شائبہ بھی موجود ہو مثلاً وہ ہلچل جس نے لندن سے گزرنے اور انسان کا کچومر بنانے والی پہلی بس سے چار سو برس قبل سارے اٹلی کو سندرتا سے لبریز کر دیا تھا۔

ایسی صورتِ حال میں میری تمنا ہے کہ نئی چاکلیٹ بس ہر اعتبار سے کامیاب ہو۔ میں اسے ضرور استعمال میں لاؤں گا۔ لیکن میں ان تمام پا پیادہ آوارہ خرامیوں کو حسرت سے یاد کرتے ہوئے ایسا کروں گا کہ جب میں تر و تازہ ہرے بھرے گول مٹول پھلوں والے سادہ درختوں، کتب فروشوں، صرافوں، پھل فروشوں، تمباکو فروشوں کی دکانوں اور ان کے پر از افتخار اور قدیم سائن بورڈوں کے پاس سے با اطمینان گزر جا تا تھا، مگر جس سے میں اب محروم کر دیا گیا ہوں۔ ‘‘1

اسی طرح رابرٹ لِنڈ خاموشی کو انسانی فطرت کے خلاف محسوس کرتے ہیں۔

’ خاموشی انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ وہ اپنی زندگی ہلکی سی چیخ سے شروع کرتا ہے اور موت پر اسے ابدی سکوت سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ پیدائش اور موت کا جو درمیانی وقفہ ہے اس دوران وہ شور و غل میں مصروف رہتا ہے اس کی گفتگو کو بھی آ پ خاموشی کے خلاف جدوجہد تصور کر سکتے ہیں۔ اور کبھی کبھار گفتگو کے دوران وہ اپنی خاموشی کو اپنی ناکامی گردانتا ہے یا اپنے آ پ کو اس وقفے کے دوران ایک بے کار انسان تصور کرتا ہے۔ ‘2

 

حواشی

 

1۔ چاکلیٹ بس، ابرٹ لِنڈ، ترجمہ : انور سدید، مطبوعہ، اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر

اپریل مئی85، ص305

2۔ خاموشی، رابرٹ لِنڈ، ترجمہ : ممتاز احمد خان، مطبوعہ، اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر

اپریل۔ مئی85، ص317

 

 

                ایلفا اف دی پلو   1856-1946

 

ا یلفا آف دی پلو کے نام سے اے جی گارڈنر نے پہلی جنگ، عظیم کے دوران جو انشائیے تحریر کئے انگریزی انشائیے کا ایک جدا گانہ رنگ پیش کرتے ہیں۔ یہ تحریریں مہذب سوچ اور انشائیہ نگار کی شخصیت کا آزادانہ انعکاس ہو نے کے علاوہ عصری زندگی کی دلچسپ تصویریں بھی پیش کرتی ہیں۔

Leaves in the wind, Pebbles on the shore

اس کے انشائیوں کے مجموعے ہیں۔

اے جی گار ڈنر اپنے انشائیوں میں اسی طریقہ کار کو اپناتے ہیں جو رابرٹ لنڈ نے اختیار کیا۔ یعنی روزمرہ کی زندگی کے کسی معمولی سے واقعے کو لے کر اس کے گرد خیال آرائی کا ہیولا تیار کر موضوع کے متعلق اپنا ذاتی نقطۂ نظر پیش کر نا۔ لوگوں کے رویوں اور سماج کی ریت رواج سے قدرے منحرف ہو کر صورتِ حال کا از سرِ نو جائزہ لیتے ہوئے۔ نئے افکار کی دریافت کا انداز اے جی گارڈنر کے ہاں پایا جا تا ہے۔ اے جی گارڈنر ایک مہذب، امن پسند اورانسانیت کی بہتری کے خواہاں شہری کی طرح اخلاقی قدروں اور اصلاحی صورتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان اقدار کی پذیرائی یا مذموم حرکات کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس طرح کہ انشائیے کی لطافت اور فنی لوازمات کا پاس ان کی تحریر کو پند و نصائح کا روپ اختیار کر نے سے بچائے رکھتا ہے۔ نرم گفتاری اور شگفتگی ان کے انشائیوں کا حسن ہے انشائیہ اظہارِ تشکر کر نا میں لکھتے ہیں :

’دراصل خراب رویے زندگی میں زہر گھول دیتے ہیں، اور وہ سال بھر میں ہو نے والے جرائم سے زیادہ مہلک ہو تے ہیں مگر کوئی قانون ہمارے رویوں، ہماری گفتگو، ہمارے غصے اور ہمارے مخصوص آ داب پر قدغن نہیں لگا سکتا۔ اب اگر ایک طرف ہم لفٹ مین کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں تو دوسری طرف ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہمیں کسی بھی خدمت کے عوض اظہارِ تشکر ضرور کر نا چاہئے۔ آ پ کا شکریہ، نوازش، مہربانی جناب، معاف کیجئے، ، معذرت خواہ ہوں چند ایسے الفاظ ہیں جن سے ہر شخص کے دل میں اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور جو خدمت یا زحمت اس نے انجام دی ہے اس کا مداوا ہو جاتا ہے۔ یہ وہ چکنا تیل ہے جس سے زندگی کی مشین اٹکے بغیر رواں رہتی ہے۔ ‘1

اسی طرح دوبارہ زندہ ہونے کی عجیب و غریب خواہش پر اپنے خیالات کو اے جی گار ڈنر نے کچھ اس طرح لفظی جامہ پہنایا ہے۔

’’بارے دیگر دنیا میں آ نے کا خیال نیا نہیں ہے۔ یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود حضرتِ انسان۔ اور اس سوال کا جواب ہر دور میں ہمیشہ وہی دیا گیا ہے جو ہماری شامِ دوستاں میں دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جوانی کی دوپہر ڈھلنے لگتی ہے اور زندگی کا سوناصرف ہو جا تا ہے تو اس قسم کا سوال اچانک ذہن میں اٹھ کھڑ ا ہو تا ہے۔ جوانی کے تصورات توسلسلہ در سلسلہ اور لا متناہی ہوتے ہیں، جوانی ہمارے سامنے نئے نئے خیالی مناظر، انوکھے اور ان دیکھے خواب اور ان کی خوش رنگ اور دلنواز تعبیریں پیش کرتی رہتی ہے۔

ہر لمحہ بدلتے عالم میں پرانی چیزوں کی طرف مڑ کر دیکھنے کی نہ تو فرصت ہو تی ہے اور نہ خواہش لیکن فرازِ کوہ پر پہنچ کر جب ہم دیکھتے ہیں کہ مناظر سے بھر پور وادی کو تو ہم نشیب میں چھوڑ آئے ہیں اور اب نظر کی دھند میں یہ منظر صاف دکھائی نہیں دیتا اور گرجا گھر کے اونچے کلس پر بھی شام کے سائے پھیلتے نظر آ تے ہیں تو یوں محسوس ہو تا ہے جیسے آفتابِ حیات بھی اب ڈھلنے والا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب دوبارہ زندہ ہونے کی خواہش سر ابھارتی ہے اور حیاتِ مکرر کا سوال دل سے ابھر کر ہونٹوں سے چپک جا تا ہے۔ اس سوال کا مطلب یہ نہیں کہ زندگی کا سفر برا کٹا بلکہ یہ سفر طویل تھا اور راستہ ناہموار اور اب جیسے ہم آبلہ پا ہو کر سفرِ حیات سے تھک چکے ہیں۔ اس عالم میں آرام کا خیال کتنا شہد آگیں لگتا ہے اور پھر کس طرح فطرت لپک کر ہماری مدد کو آ تی ہے، ہمیں پچکارتی ہے، سہلاتی ہے اور آ رام بہم پہنچاتی ہے۔ ‘‘2

 

حواشی

 

1۔ اے جی گارڈنر، اظہارِ تشکر کرنا، مترجم : محمد احمد خان، اوراق، انشائیہ نمبر، مئ85

2۔ ایلفا آف دی پلو، دوبارہ زندہ ہو نے کی خواہش، ترجمہ : انور سدید، مطبوعہ،

اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر اپریل مئی 85، ص249

 

 

                حاصلِ مطالعہ

 

انگریزی ایسے نے صدیوں کے سفر میں مختلف ارتقائی مراحل طے کئے ہیں۔ اس کی کائنات میں کئی تبدیلیاں واقع ہوئیں، جداگانہ صلاحیتوں اور رجحانات کے حامل ادیبوں نے اسے نت نئے رنگ و آہنگ سے روشناس کیا متنوع اسالیب، طرز ہائے فکر، رجحانات، زبان، اندازِ پیش کش کے اعتبار سے انشائیہ کو بو قلمونی عطا کی۔

مانتین نے اس صنف کو جن مقاصد کے تحت باقاعدہ ایجاد کیا ان میں بنیادی چیز اظہارِ ذات تھی جو آ ج بھی اس کی انفرادی شناخت قرار دی جاتی ہے۔ انگریزی میں بیکن نے اس کے بنیادی مزاج سے قدرے انحراف کر کے دل کے بجائے دماغ کی نمائندگی کا آلہ کار بنایا اور اسے ایک حکیمِ نکتہ رس اور فلسفی کا منصب عطا کر کے زندگی اور کائنات کی گہرائی میں غواصی کا خوگر بنایا۔

ابراہم کاولے تک درمیانی وقفے میں انشائیہ معاشرہ کی تصویریں دکھاتا رہا ابراہم کاولے نے انشائیہ کو پھر وہ مقام عطا کیا جہاں نثر اور شاعری، حقیقت اور واہمہ، فکر اور جذبہ نیز انشائیہ اور زندگی باہم مربوط ہو کر تخلیقی ادب کا نیا انداز پیش کرتے ہیں۔

ولیم ہزلٹ نے انگریزوں کی طبعی خصوصیات کے تحت بھیڑ میں تنہائی سے آشنا فرد کے وجدان کو انشائیہ کا مزاج بنایا۔ چارلس لیمب اپنے لئے انگریزی انشائیہ نگاروں میں سب سے مختلف اور بلند مقام پیدا کر نے میں کامیاب ہوا۔ نشاط انگیزی اور المناکی کے اتصال پر فکر کا انعکاس کر کے اپنی ذات کے نہاں خانوں کی سیر کرواتا رہا۔

لیمب کی آواز اس کا سوز و گداز اور فکری آہنگ اپنی انفرادیت منوانے میں کامیاب ہوا۔ لیمب کے انشائیے میں انشائیہ نگار کی ذات کی شمولیت در اصل بیکن کے بعد انگریزی انشائیے کے اس نئے موڑ سے آ گے بڑھنے والے راستے کی توسیع ہے جسے ابراہم کاولے نے مانتین کی وراثت کے طور پر انگریزی انشائیے میں راسخ کیا۔

ایڈیسن اور سٹیل اپنی شگفتہ اور فکر انگیز تحریروں میں تہذیبی قدروں اور قومی روایات کی بازیافت کے علاوہ یورپ اور انگلینڈ کی تصویر کشی اور کر داروں کے ذریعے اپنے عہد کی دکھتی رگیں ٹٹولتے رہے۔ اسی لئے ان کے انشائیے ان کی دل کی دھڑکنوں کے امین نہ بن پائے اس جگ بیتی میں آ پ بیتی کا حصہ کم ہی رہا اس کے باوجود انشائیہ کا مزاج ان کی تحریروں میں پا یا جا تا ہے۔ خاص طور پر ایڈیسن کی تحریریں انشائیہ کا بہتر نمونہ ہیں۔

ایلفا آ ف دی پلو، آر ایل اسٹیونسن، گولڈ اسمتھ کے انشائیے حقائق کی بازیافت اور زندگی کو ایک حساس باخبر اور غور و فکر کے عادی شخص کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

میکس بیر بہوم، آلڈس ہکس لے، ڈی کوئینسی، پرسٹلے زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں سے زندگی کی ایک ایسی تصویر مرتب کرتے ہیں جس میں ان کے تخیلات، توقعات، خواہشات اور ذاتی رجحانات کا بھر پور عکس موجود ہو تا ہے۔

ورجنیا وولف جس نے شعور کی رو کی تکنک کو اپنے ناولوں میں بحسن و خوبی برتا اپنے انشائیوں میں وقت کو ایک نقطہ پر سمیٹ کر زندگی کے عظیم حقائق کا عرفان پید کر نے میں کو شاں نظر آ تی ہے۔ اس کا انشائیہ’ ڈیتھ آف دی موتھ‘، جو افسانوی انداز میں انشائیہ لکھنے کی کامیاب کوشش ہو نے کے علاوہ انگریزی انشائیوں میں خیال انگیزی اور زندگی کی سفاکیوں اور بے رحم حقیقتوں کو پیش کرتا ہے۔

رابرٹ لنڈ اور چسٹر ٹن پامال حقیقتوں سے انحراف کر کے نئی سچائیوں کی دریافت میں اپنی ذات کو اس درجہ شامل کرتے ہیں اس کے نتیجے میں انشائیہ میں ندرتِ خیال اور اظہارِ ذات کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے۔

انشائیہ کا یہی فن بیشتر ایسّے نگاروں کے ہاں نمو پذیر ہوا، خصوصاً جنھوں نے Familiar ایسّے لکھے Personal Essay کو بعض ناقدین نے Essay کا ایک مخصوص رجحان قرار دیا اور اسے Essay کی روایت سے الگ کر کے دیکھنے کی کو شش کی۔ اس کے نتیجے میں انگریزی میں اس رجحان پر عروج و زوال کے مرحلے آ تے رہے۔ اس قبیل کی تحریروں کے خاتمے کا بھی اعلان کیا گیا لیکن ماندگی کے وقفے کے بعد اس رنگ کے دیکھنے والے دوبارہ تخلیقی توانائی کے ذریعے اس صنف کا اثبات کرواتے رہے۔ ایسّے کا یہی رنگ در اصل اس صنف کی ادبی حیثیت اور تخلیقی صنف ہو نے کی ضمانت ہے کہ ان تحریروں میں Essay کو دفترِ معلومات کی تکنیکی حیثیت سے نجات دلوا کر ادب کی چیز بنا دیا۔ یہی وصفِ خاص انگریزی کے بڑے انشائیہ نگاروں کے ہاں نظر آ تا ہے۔ ان کی تحریریں انشائیہ کی ان ہی نزاکتوں اور فنی رموز کا احاطہ کرتی ہیں۔

جب بھی Essay کا نام آ تا ہے ان ادیبوں کی تخلیقات ہمارے ذہن میں اس صنف کے بنیادی محاسن اور خد و خال اجاگر کر دیتی ہیں۔ اردو انشائیہ نے بھی انگریزی انشائیہ کے متنوع اسالیب و رجحانات سے اکتسابِ نور کیا اور اس کے نت نئے انداز کو تخلیقی سطح پر بحسن و خوبی برتا۔ ابتدائی دور، خاص طور پرانیسویں صدی میں سماجی تحریکات اور اصلاحی نقطہ ء نظر کو جن ہنگامہ خیزیوں نے راہ دی تھی اس کے زیرِ اثر اس رنگ کی نمائندگی کر نے والے مغربی انشائیہ نگاروں کو ہمارے ادیبوں نے نظر کے سامنے رکھا۔

بیسویں صدی میں جب ٹھہراؤ اور سکون کی فضا قائم ہو ئی تو اردوایسے نگاروں کے ہاں بھی غور و فکر کا رواج عام ہوا۔ Familiar ایسّے میں پائے جانے والے تفکّر اور آزادانہ سوچ سے ہمارے انشائیے مزّین ہوئے۔ اس طرح اردو انشائیہ نگاری میں ایک نیا رنگ و آہنگ تخلیقی سطح پر نمودار ہوا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اردو میں انشائیے کے اولین نقوش

 

 

 

اردو کے ناقدین میں سے بعض نے اردو انشائیہ کو بھی ایک طویل زمانہ عطا کرتے ہوئے ملا وجہی کی سب رس کو جو سترہویں صدی کی تصنیف ہے اردو انشائیہ کا اولین نقش قرار دیا ہے۔

سترہویں صدی سے بیسویں صدی کے نصف تک اردو کے پہلے انشائیہ نگار کے طور پر ملا وجہی، سرسید احمد خان، ماسٹر رام چند ر، محمد حسین آزاد، اکبر علی قاصد، مشکور حسین یاد اور ڈاکٹر وزیر آغا وغیرہ مختلف نام پیش کئے جا چکے ہیں اور اس ضمن میں مختلف توجیہات بھی سامنے آ چکی ہیں۔

زیرِ نظر باب میں ہم نے سب رس سے عہدِ سر سید تک مختلف انشا پردازوں کی تحریروں میں انشائی عناصر کی نشاندہی کر نے کی کو شش کی ہے۔

 

 

                الف : سب رس

 

قطب شاہی سلطنت کے درباری شاعر ملا اسداللہ وجہی کی ’سب رس‘ دکنی کی قدیم ترین تصنیف خیا ل کی جاتی ہے۔ اس کا سنِ تصنیف ۱۶۳۵؁ء ہے سب رس دراصل فارسی کی مشہور داستان ’قصہ حسن و دل ‘کا دکنی روپ ہے۔ قطب شاہی سلطنت کے فر ماں رواں عبد اللہ قطب شاہ کی در خواست پر وجہی نے اس قصے کو دکنی زبان میں منتقل کیا۔ وجہی نے اپنی طبّاعی اور تخیل آفرینی کو بروئے کار لا کر اس صوفیانہ تمثیل کو زندہ جاوید بنا دیا۔ قصّہ حسن و دل، وجہی کے سحر طراز قلم کا لمس پا کر فنِ داستان گوئی کی بندشوں میں محدود نہ رہ سکا۔ تخلیقی جو ہر نے پر پرزے نکالے جس سے سب رس میں انشائیہ کا رنگ جھلک اٹھا۔

سب رس بنیادی طور پر ایک داستان ہے۔ اور اس میں بیشتر مقامات جن پر انشائیہ کا گمان ہو تا ہے، زورِ خطابت کے نتیجے میں نمودار ہوئے۔ سب رس میں واقعات کی تنی ہو ئی زنجیروں کے درمیان وجہی نے پند و موعظت، خطابت، نکتہ آفرینی اور اظہارِ خیال کے لئے کچھ آزاد لمحے فراہم کر لئے، جسے ناقدین نے اس قصّے میں نمودار ہو نے والے جھول سے تعبیر کیا ہے۔ در اصل یہ خلا انشائیہ کا با ب الداخلہ ثابت ہوا۔ یہیں سے انشائیہ سب رس میں سمونا شروع ہوا۔ سب رس میں انشائیہ کی نمود وجہی کے اندر پوشیدہ فطری انشائیہ نگار کا تخلیقی اظہار ہے۔

انشائیہ ہمارے ہاں مغرب سے در آ مد شدہ صنف تسلیم کی جا تی ہے۔

ڈاکٹر جا وید وششٹ جنھوں نے سب رس سے وجہی کے اکسٹھ انشائیے ترتیب دے کر پیش کئے ہیں۔ وہ وجہی کو اردو کا اولین انشائیہ نگار اور انشائیہ کو ایک دیسی صنف تسلیم کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

’اردو انشائیہ اپنی ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ دورِ سرسید میں انگریزی ادب سے ہمارے انشائیہ نے ضرور استفادہ کیا مگر یہ کہنا غلط ہے کہ اردو انشائیہ انگریزی سے آیا ہے ہمارا انشائیہ کلیتاً ہمارا انشائیہ ہے۔ ملا وجہی اردو انشائیہ کا باوا آ دم ہے۔ جس وقت عالمی ادب میں انشائیہ کی صنف نے جنم لیا کم و بیش اسی وقت ہمارا انشائیہ بھی عالمِ وجود میں آیا۔ ‘1

مغربی انشائیہ کے جد امجد مانتین اور سب رس کے مصنف وجہی کا موازنہ دلچسپ ہو نے کے با وجود بے معنی سا معلوم ہوتا ہے لیکن ہم ان دونوں کے حوالے سے مغربی انشائیہ اور اردو انشائیہ کے ابتدائی محرکات پر نظر ڈالیں تو ہمارے ہاں انشائیہ کی روایت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

مانتین ( 1533-1592)نے تقریباً 158ایسّیز سپردِ قلم کئے اور سب رس کا سنِ تالیف1635ہے۔ مانتین اپنی عمر کے آخری حصے میں زندگی کی ہماہمی سے کنارہ کش ہو کر تجربات، مشاہدات اور یادوں کی باز آفرینی کے عمل میں مبتلا ہوا۔ اس خود احتسابی کی مراقبائی کیفیت نے اس درماندۂ شوق کو ان مضامین کی تخلیق پر آ مادہ کیا جو ایسّے کی روایات کا سنگِ بنیاد ثابت ہوئے۔ زندگی بھر کے تجربات و مشاہدات اور فکر و تخیل کی روشنی میں وہ مختلف و متنوع موضوعات کو اپنے نوکِ قلم سے الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا اور ان موضوعات کے حوالے سے خود کو پیش کرتا رہا۔ اپنی کتاب کی ابتدا میں اس کا اعتراف بھی کیا کہ ’ اس کتاب کا موضوع میں خود ہوں۔ آ گے چل کر اس کا یہ کھیل ہی انشائیہ کا فن قرار پا یا۔

مانتین کے انشائیے کلی طور پر اس کی فکر و نظر سے روشن ہیں۔ یہ ایک ڈھیلا ڈھالا اظہار ہے جس پر جذبات کا بھاری دباؤ بھی نہیں۔

اس کی سبک خرامی اس کی تحریر کی اہم خصوصیت ہے یہی Lightness انشائیہ کی زبان اور خوبی ہے۔ اس کے بر عکس وجہی کی تصنیف سب رس مانگے کا اجالا ہے۔ وجہی نے اپنی جودتِ طبع کے رنگین شیشوں کو مخصوص زاویوں سے رکھ کر سب رس کے رنگ محل میں مختلف رنگوں کا تماشا منعقد کیا۔ تخلیقی تجربہ ادب کی شان ہے، سب رس بھی اسی بل بوتے پر آ ج بھی دکنی ادب کا زندہ جاوید شاہکار تسلیم کیا جا تا ہے۔

سب رس کے مختلف حصے جو انشائیہ کے زمرے میں شامل کئے جا تے ہیں اسی تخلیقی توانائی کے مظہر ہیں۔ لائیٹ ایسّے یا پر سنل ایسّے کے ساتھ وابستہ خود انکشافی اور سہل ممتنع کی پٹریوں سے اتری ہو ئی وجہی کی تحریر ممکن ہے مغربی ایسّے کی روایت سے کوئی علاقہ نہ رکھتی ہو لیکن جس طرح مانتین نے اپنے مضامین کو Essai السعی بمعنی کوشش کا نام دیا تھا اور اس کی تحریریں اسی کی نمائندہ ہیں، اسی طرح لفظ انشائیہ جو زبان کا احیا یعنی تخلیق کا مفہوم ادا کرتا ہے کے معیار پر وجہی کی تحریر پوری اترتی ہے اور اس کے لئے انشائیہ لفظ مناسب معلوم ہو تا ہے اس کا اظہار خود وجہی نے سب رس کا تعارف کرواتے ہوئے کیا ہے۔

’ عیسیٰ ہو کر بات کوں جیو دیا ہوں، دانش کے باغ میں آیا، بہار ہو کر پھولاں کھلایا، غرض بہت نادر نادر باتاں بولیاں ہوں۔ ‘۲

وجہی کو اس حقیقت کا احساس تھا کہ وہ اظہار کا ایک منفرداسلوب پیش کر رہے ہیں۔ ان کی نثر کا شاعری کی طرف جھکاؤ بھی ان کی تحریروں کو ادب لطیف کے قریب تر کر دیتا ہے ابتدا میں اسی انداز کو انشائیہ کا مخصوص اسلوب گر دانا گیا۔ وجہی کے اس اسلوبِ نگارش کا تجزیہ ڈاکٹر سید عبداللہ نے ان الفاظ میں کیا ہے :

سب رس کے اسلوبِ بیان کے جو خصائص خود وجہی نے بیان کئے ہیں ان میں اہم بات ( مصنف کے نزدیک )یہ معلوم ہو تی ہے کہ اس نثر میں شعریت کے انداز پیدا کئے ہیں۔ ’نظم ہور نثر ملا کر گلا کر ’بیان کے ایسے پیرائے ایجاد کئے جن سے نثر میں شعر کاسا لطف پیدا ہو گیا ہے۔ ‘.3

ڈاکٹر نور السعید اختر اپنے مضمون، قدیم اردو کا پہلا انشائیہ نگار، میں لکھتے ہیں۔

’وجہی کی تحریروں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہو تا ہے کہ باوجود یہ کہ وہ اس فن کے تعین سے پہلے اردو ادب میں نمودار ہوئے لیکن پھر بھی ان کی اکثر تحریروں میں وہ تمام خصوصیات پائی جا تی ہیں جن کو انشائیہ کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے ہم اگر یہ کہیں کہ وجہی نے اصطلاحی طور پر انشائیہ کے فن سے واقف نہ ہونے کے باوجود بھی انشائیے لکھے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ‘4

گویا انشائیے کی بعض خوبیوں کی بنا پر وجہی کی تحریروں پر انشائیہ قرار دیا گیا ہے۔

ان ہی خوبیوں میں موضوع کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے ان تحریروں میں صوفیانہ خیالات کے اظہار نے بھی ایک مختلف فضا خلق کی ہے۔ اسی سلسلے میں لطیف ساحل اپنی تصنیف ’اردو انشائیے کے نقوش‘ میں لکھتے ہیں :

سب رس بنیادی طور پر داستان کی کتاب ہے۔ لیکن مصنف اپنی علمی، فکری اور صوفیانہ اہمیت کو اجاگر کر نے کے لئے جا بجا انشائیے لکھتا چلا جاتا ہے جن کا بنیادی داستان سے بظاہر کوئی مربوط تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ان انشائیوں کو ’مضامینِ وجہی‘ قرار دیا ہے ‘۔ 5

آج اس فن کے تعین کے بعد انشائیہ کے نقوش ہم سب رس میں تلاش کرتے ہیں۔ انشائیہ کی بعض خصوصیات کو وجہی نے برتا بلکہ اس کا اظہار سب رس کی ابتدا میں بھی کیا ہے اسے پڑھ کر بے ساختہ مانتین کا وہ پیش لفظ یاد آ تا ہے جس میں اس نے اپنے انشائیوں کی تخلیق کے محرکات انکساری کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ یہاں انشائیہ کے متعلق دونوں کے ذہنی ابعاد کا بھی اندازہ ہو تا ہے۔ وجہی لکھتے ہیں :

’یو عجب کتاب ہے سبحان اللہ۔ ۔ ۔ ، یو کتاب سب کتاباں کا سر تاج ہے۔ سب باتاں کا سر تاج، ہر بات میں سو سو معراج، یو بات نہیں، یو تمام وحی ہے الہام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، اگر کسی سخن شناس ہور اسرارِ دانی ہے تو یو کتاب گنج العرش، بحرِ معانی ہے۔ جیتا کوئی طبیعت کے کواڑ کتاب میں نئیں سو بات کیا بولے گا۔ جو کچھ آ سمان ہور زمین میں ہے سو اس کتاب میں ہے۔ ۔ ۔ ، اس بات کوں، اس نبات کوں، یوں کوئی آ بِ حیات نئیں گھولیا، یوں غیب کا علم نئیں کھولیا، خضر کے مقام کوں انپڑیا تواس بات میں پڑنا، میں تو یہ بات نئیں کیا ہوں۔ عیسیٰ ہو کر بات کو جیو دیا ہوں۔ 6 ‘

وجہی نے اس اقتباس میں انشائیہ کا آ رٹ بیان کیا ہے۔ اصنافِ ادب پہلے وجود میں آ تی ہیں پھر اس کے تخلیقی فن پاروں سے اس کے آ رٹ کا تعین ہو تا ہے اصنافِ ادب کے فنی محاسن کا تعین تو کسی متحرک شے کے سائے کی مانند ہے کسی چیز کے پیکر پر اس کا سایہ اثر انداز نہیں ہو تا بلکہ سائے کے خد و خال اس شے کے پیکر کے تابع ہیں۔ ہر ادبی صنف ارتقاء پذیر ہو تی ہے چنانچہ اس کے فنی لوازمات کا قد بھی سائے کی طرح گھٹتا بڑھتا ہے۔

ان تمام شواہد کی روشنی میں ہم یہ نتائج اخذ کرتے ہیں :

۱۔ انشائیہ کے فنی آداب و رموز کا تعین ہو نے سے قبل وجہی نے سب رس میں اس صنف کے چندبنیادی محاسن کو برتا یہ بات ہمارے لئے قابلِ فخر ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج انشائیہ کے نام سے پہچانی جانے والی صنف صحیح معنوں میں وجہی کی تصنیف میں نایاب ہے۔

۲۔ جاوید وششٹ ملا وجہی کو اردو انشائیہ کا باوا آ دم قرار دیتے ہوئے یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ’ جس زمانے میں عالمی ادب میں انشائیہ وجود میں آیا کم و بیش اسی دوران اردو ادب مین بھی انشائیہ کی بنیاد پڑی ‘۔ ان کا یہ بیان کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے جب کہ وجہی کے بعد تقریباً دو سو سال تک اردو ادب میں اس صنف کے ارتقا کے نقوش ڈھونڈتے چلے جائیے تو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آ تا۔

۳۔ وجہی نے انشائیہ کے بعض محاسن کو تخلیقی سطح پر اجاگر کیا لیکن یہ سلسلہ ان کے بعد اردو میں جاری نہ رہ سکا۔ اسی قسم کا واقعہ مغربی انشائیہ کے جد امجد مانتین کے ساتھ بھی پیش آیا کہ انشائیہ کے مولد فرانس میں اس صنف کو پروان چڑھانے والا کوئی نہ ملا البتہ انگلینڈ میں بیکن نے اس سلسلے کو نئی زندگی عطا کر دی۔ اگر اردو میں بھی اسی طرح وجہی کے بعد اس کے اندازِ نگارش کو تخلیقی بنیادیں دستیاب ہو جاتیں تو عین ممکن تھا کہ انشائیہ کا پو دا اردو کی زمین میں کسی اور انداز میں بار آ ور ہو تا۔ اس دور میں جب اردو نثر اپنی ارتقائی منازل طے کر رہی تھی اپنی مٹی کی بو باس، عربی، فارسی اور دیسی زبانوں کی ادبی روایات اس صنف کی فنی تشکیل پر خوشگوار قسم کے اثرات مرتب کر کے اردو انشائیہ کو مغربی انشائیہ سے ایک جدا گانہ رنگ و آہنگ عطا کرتی رہی تھی۔

۴۔ ڈاکٹر نور السعید اختر کی اس رائے کے باوجود کہ وجہی نے انشائیہ کی صنفی خصوصیات کے تعین سے قبل ان محاسن کو سب رس میں سمو دیا۔ وجہی کی تحریروں کو انشائیہ کے طور پر قبول کر نے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ ان کا بنیادی طور پر ایک علاحدہ صنف یعنی داستان کا جزو ہونا ہے۔ سب رس بنیادی طور پر ایک داستان ہے۔ اسے انشائیہ قرار دینا ہر دو اصناف کے ساتھ زیادتی ہے۔

۵۔ سب رس کا قصّہ بذاتِ خود طبع زاد نہیں بلکہ فارسی سے مستعار ہے البتہ جاوید وششٹ یا نورالسعید اختر جن عناصر کی بنیاد پر اسے انشائیہ قرار دیتے ہیں وہ وجہی کی تخیل آفرینی اور اظہارِ دانش ہے۔ لیکن محض اس بوتے پر اسے انشائیہ کے زمرے میں داخل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فنی اعتبار سے انشائیہ مذکورہ عناصر کے علاوہ اور بھی دیگر لوازمات کا مرکب ہے جو وجہی کی سب رس یا اس کے منتخب اجزاء میں مفقود ہیں۔

ادب کی کوئی صنف محض چند عناصر کا مجموعی نہیں ہوا کرتی بلکہ اعلیٰ ادب زندگی کی طرح ایک وحدت پیش کیا کرتا ہے اور انشائیہ بھی اسی قبیل کی ایک وحدت سے عبارت ہے۔ لہٰذا ہم سب رس کو ایسی تصنیف کے طور پر تسلیم کر سکتے ہیں جس میں انشائیہ کے چند محاسن در آئے ہیں البتہ اسے انشائیہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔

 

حواشی

 

1۔ جاوید وششٹ، انشائیہ پچّیسی، دہلی، ص15

2۔ ملّا وجہی، سب رس، مرتبہ :شمیم انہونی، لکھنو، 1985، ص10

3۔ سب رسِ ، ملا وجہی، مقدمہ از ڈاکٹر سید عبداللہ، لاہور اکیڈمی، لاہور، 1961 بحوالہ : اردو کے بعض انشائیہ نگار، اردو انشائیہ کے اولین نقوش، از لطیف ساحل، لاہور، مئی1994، ص 39

4۔ ڈاکٹر نورالسعید اختر، نقوشِ دکن، ممبئی 1976، ص57

5۔ اردو کے بعض انشائیہ نگار، اردو انشائیہ کے اولین نقوش، از لطیف ساحل، لاہور، مئی 1994، ص 38

6۔ ملّا وجہی، سب رس، مرتبہ :شمیم انہونی، لکھنو، 1985، ص9

 

 

                ب : خطوطِ غالب

 

خطوطِ غالب اردو نثر کے اولین نقوش میں شمار کئے جا تے ہیں۔ ان خطوط کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے ذریعے اردو نثر کو آرائشی اور مصنوعی زبان سے نجات ملی اور اس کی جگہ سادہ اور فطری اظہار کا چلن عام ہوا۔ انشاء پردازی کا ایک نیا اسٹائل سامنے آیا اور زبان میں وہ قوت و توانائی پیدا ہو ئی جس کے سبب اردو نثر متنوع مضامین اور مختلف موضوعات پر اظہار کے قابل ہو ئی۔ غالبؔ کی نثر کے متعلق شبلی نعمانی لکھتے ہیں :

’اردو انشاء پردازی کا آ ج جو انداز ہے اور جس کے مجدد امام سر سید مرحوم تھے اس کا سنگِ بنیاد در اصل مرزا غالبؔ نے رکھا۔ 1

غالبؔ ابتدا میں فارسی میں خط و کتابت کرتے رہے۔ 1850میں اردو خطوط نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ غالب کی نثر جو ان خطوط میں پا ئی جاتی ہے سادگی اور پر کاری کا نمونہ ہے۔ اعلیٰ درجہ کی ظرافت، فکر و خیال کے اچھوتے گوشوں کی نمود اور شخصی اظہار ان رقعات کی وہ اہم خوبیاں ہیں جن کی بنا پر انھیں اردو انشائیہ کا ابتدائی نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ اردو نثر کے ابتدائی نمونوں میں رقعاتِ غالبؔ انشائی اظہار کا سب سے گہرا نقش ہیں۔ اس کا اصل سبب انشائیہ کے بنیادی محاسن مثلاً آزادانہ تفکر، شخصیت کا اظہار، زندگی اور کائنات کے مظاہر کو نئے انداز سے دیکھنے کی قوت اور سلیقہ نیز انشائیہ میں پا یا جا نے والا گفتگو کا غیر رسمی انداز جو گہری سے گہری اور بصیرت افروز بات کو علمی طمطراق سے پاک رکھ کر پیش کرتا ہے، غالبؔ کے خطوط میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ اپنے مراسلوں کے اسی حسن کی جانب غالبؔ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے۔

’ میں نے وہ اندازِ تحریر ایجاد کیا کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا۔ ہزار کوس سے بزبانِ قلم باتیں کیا کرو ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو ‘۔ 2

ہمارے ہاں لکھے جا رہے نام نہاد انشائیوں میں عام طور پر انشائیہ کی جس بنیادی خصوصیت کا فقدان ہے وہ انکشافِ ذات کا عمل ہے۔ انشائیہ کا یہ جو ہر غالب کے خطوط کی جان ہے۔ اس ضمن میں رشید صدیقی رقمطراز ہیں۔

’ غالبؔ کا ہر خط ان کی شخصیت کے کسی نہ کسی پہلو کی ترجمانی کرتا ہے۔ زندگی کی معمولی سے معمولی باتوں کو اکثر اس انداز سے پیش کیا ہے جیسے زندگی کے بڑے بڑے حقائق ان ہی معمولی باتوں کی کھلی چھپی یا بد لی ہو ئی شکلیں ہیں۔ دل کا معاملہ اشعار میں اتنا نہیں کھلتا جتنا خطوط میں اس اعتبار سے غالبؔ کے خطوط ان کے اشعار سے زیادہ گھر کے بھیدی ہیں۔ 3

مذکورہ بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ غالبؔ کے خطوط اپنے انشائی حسن اور خصوصیات کے سبب انشائیے کہلانے کے مستحق ہیں اردو کے ابتدائی نثر پاروں میں سب رس میں جن خصوصیات کی بنا پر انشائیہ ہونے کا گمان کیا گیا غالبؔ کے خطوط میں یہ رنگ زیادہ گہرے اور زیادہ منور ہیں۔ ذیل کے اقتباس سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ نواب امین الدین خاں کے نام تحریر کئے گئے ایک خط میں لکھتے ہیں :

’سنو عالم دو ہیں، ایک عالمِ ارواح اور ایک عالمِ آ ب و گل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا ایک ہے جو خود فر ماتا ہے۔

لِمن الملک الیوم، اور پھر جواب دیتا ہے۔ للٰلٰہ الواحد القہار۔ ہر چند قاعدہ یہ ہے کہ عالمِ آ ب و گل کے مجرم عالم، ارواح میں سزا پا تے ہیں لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالمِ ارواح کے گنہ گار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں چنانچہ آٹھویں رجب ۱۲۲۵ھ کو میرے واسطے حکمِ دوام جس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی اور دلّی شہر کو زنداں مقرر کیا اور مجھے اس زنداں میں ڈال دیا۔ فکر، نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ بر سوں کے بعد جیل خانہ سے بھاگا، تین برس بلادِ شرقیہ میں پھر تا رہا۔ پایانِ کار مجھے کلکتہ سے پکڑ لائے اور پھر اسی مجلس میں بٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے دو ہتھکڑیاں اور بڑھا دیں۔ پاؤں بیڑی سے فگار، ہاتھ ہتھکڑیوں سے زخم دار، مشقت مقرری اور مشکل ہو گئی۔ طاقت یک قلم زائل ہو گئی۔ بے حیا ہوں۔ سالِ گزشتہ بیڑی کو زاویہ زنداں میں چھوڑ کر مع دونوں ہتھکڑیوں کے بھا گا میرٹھ، مراد آ باد ہو تا ہوا۔ رام پور پہنچا۔ کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑ آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا، بھاگوں گا کیا۔ بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔ حکمِ رہائی دیکھئے کب صادر ہو۔ 4

بنیادی طور پر غالبؔ کے خطوط چونکہ ایک مخصوص فارم میں پائے جا تے ہیں، ان پر اسی صنف کا حکم لگا یا جائے گا۔

یہ خطوط انشائیہ کے جو ہر سے لبریز ہو نے کے باوجود ہئیت کے اعتبار سے خطوط نویسی کی صنف کے ساتھ پو را پورا انصاف کرتے ہیں۔ یہ مستقل طور پر انشائیہ کا فارم نہیں ہے، نہ ہی ایک کل کی حیثیت سے انشائیہ قرار دیا جا سکتا ہے خطوطِ غالبؔ جز وی طور پر انشائیہ کے بیشتر محاسن کا احاطہ کرتے ہیں۔

 

حواشی

 

1۔ شبلی نعمانی مقالاتِ شبلی، جلد دوم، اعظم گڑھ، 1964ص60

2۔ مرزا اسداللہ خاں غالبؔ، عکسِ غالب، مرتبہ: آلِ احمد سرور، علی گڑھ، 1973 ص98

3۔ رشید احمد صدیقی، غالب کی شخصیت اور شاعری، قومی زبان، کراچی، فروری، 1971ص37

4۔ مرزا اسداللہ خاں غالبؔ، عکسِ غالب، خط بنام نواب امین الدین خاں، عکسِ غالبؔ، ص18

 

 

                ج : ماسٹر رام چندر

 

سر سید کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے تہذیب الاخلاق کے ذریعے انگریزی کے مشہور انشائیہ نگار سٹیل اور ایڈیسن کے انداز میں مضامین قلمبند کر کے انگریزی ایسّے کی فکری و فنی جہتوں سے اردو ادب کو روشناس کروایا اور ایک نیا پیرایہ اظہار اردو میں رائج کیا۔ ماسٹر رام چندر اس لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں کہ وہ سر سید سے پہلے ہی اس ڈگر پر چل پڑے تھے۔ ماسٹر رام چندر نے نثر نگاری کے اس دشت میں جو پگ ڈنڈی چھوڑی تھی، سر سید اور ان کے بعد آ نے والے ادیبوں اور انشا پردازوں نے اسے ایک شاہراہ کی شکل دے دی۔ عہدِ سر سید میں اردو ایسے نگاری کی روایت جن ادیبوں کی مرہونِ منت ہے ان میں مولوی محمد آزاد، مولوی ذکاء اللہ اور مولوی نظیر احمد تینوں ماسٹر رام چندر کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔

ڈاکٹر سیدہ جعفر کی تحقیق کے مطابق ماسٹر رام چندر اردو میں دو رسائل ( پندرہ روزہ فوائد الناظرین، تاریخِ اجراء 23؍مارچ 1845، اور ماہنامہ محبِ ہند، تاریخِ اجراء یکم ستمبر 1845، ) میں مضمون نویسی کا آغاز کر چکے تھے۔ ماسٹر رام چندر نے محبِ ہند کو خیر خواہِ ہند کے نام سے جاری کیا تھا۔ بعد میں نومبر 1847میں پرچے کا نام تبدیل کر کے محبِ ہند کر دیا گیا۔

سر سید کا تہذیب الاخلاق 1870میں جاری ہوا، گویا سر سید سے تقریباً ربع صدی قبل ماسٹر رام چندر ایسے نگاری کا آغاز کر چکے تھے اس ضمن میں ڈاکٹر سیدہ جعفر رقمطراز ہیں۔

ابھی تک چونکہ ماسٹر رام چندر کی تحریروں اور ان کے مضامین منظرِ عام پر نہیں آئے اس لئے بہت سے ادیبوں اور نقادوں نے سر سید کو اردو کا پہلا مضمون نگار سمجھا ہے۔ سر سید کے ذہن میں بھی کچھ اس طرح کا خیال تھا چنانچہ وہ اپنی ادبی کوششوں کو مضمون نگاری کی ایجاد سمجھتے ہیں جیسا کہ ان کے ایک مضمون ’ترقیِ علم، انشاء ‘ سے ظاہر ہو تا ہے۔ ۔ ۔ یہ معلوم کر کے بڑا تعجب ہو تا ہے کہ سر سید اپنے مضامین کو مضمون نگاری کے اولین نقوش سمجھتے تھے۔ ماسٹر رام چندر کے مضامین کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے بہر حال وجہ کچھ بھی ہو واقعہ یہ ہے کہ سر سید نے رام چندر کے مضامین کا کہیں تذکرہ نہیں کیا۔ یہ کسی طرح نہیں کہا جا سکتا کہ سرسید رام چندر سے نا واقف تھے کیونکہ ان کے بھائی شنکر داس سے سر سید کی بڑی دوستی اور رسم و راہ تھی۔ مضمون نگاری کے ارتقا میں سر سید کے مضامین ایک توسیع ہے آغاز نہیں۔ ماسٹر رام چندر داس اردو کے پہلے مضمون نگار ہیں جنھوں نے شعوری طور پر اردو میں اس صنف کی ابتدا کی ‘۔ 1

ماسٹر رام چندر کے مضامین اور سر سید کی تحریروں کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ اپنے فطری رجحان اور معاشرتی سدھار کی خواہش کے سبب ان دونوں کی نظرِ انتخاب مغرب کے ان انشائیہ نگاروں پر پڑی جو ان سے طبعی مناسبت رکھتے تھے بیکن، ایڈیسن اور سٹیل میں ایک قدرِ مشترک یہ پا ئی جا تی ہے کہ ان کے ہاں انکشافِ ذات کوا س قدر اہمیت حاصل نہیں جس قدر معاشرتی معاملات سے دلچسپی ہے چنانچہ ان انشائیہ نگاروں کے ہاں داخلی زندگی کے حقائق موضوعِ اظہار نہیں ہیں سر سید اور رامچندر بھی ذاتی تاثرات اورمسائل کو قومی مسائل پر ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح بیکن بھی مانتین کی بہ نسبت وارداتِ قلبی کے بیان کے بجائے اظہارِ دانش کو انشائیہ میں سمونے پر اکتفا کرتا ہے۔ سر سید کے مضامین میں بھی بیکن کا اسلوب اور اسی کی سی شوکتِ خیال پا ئی جا تی ہے۔ ماسٹر رام چندر کے مضامین کے متعلق سیدہ جعفر لکھتی ہیں :

ان کے مضامین اور ان کا طرزِ بیان ایڈیسن سے زیادہ بیکن سے ملتا جلتا ہے۔ 2

سر سید کے مضامین ہی کی طرح رام چندر کے مضامین میں بھی شخصی اظہار جو انشائیہ کے ساتھ خصوصی طور پر وابستہ ہے مفقود ہے۔ ان کے مضامین کے لئے اس وقت بھی ایسے یا مضمون ہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ماسٹر رام چندر کے مضامین کو ہم ان کی فنی خصوصیات اور مواد و ہئیت کے اعتبار سے مضمون کے زمرے میں شامل کر نے پر مجبور ہیں کہ انشائیہ کے ساتھ وابستہ خصوصیات ان تحریروں میں نہیں پا ئی جاتی۔ ماسٹر رام چندر کو یہ شرف حاصل ہے کہ انھوں نے سر سید سے پہلے مضمون نگاری کی ابتدا کی اور ایک ایسا پیرایۂ اظہار اردو میں متعارف کروایا جس کے ارتقائی مرحلے میں انگریزی ایسے کے خاص انداز کوجسے پرسنل ایسے کے نام سے مو سوم کیا گیا، بحسن و خوبی برتا گیا ہم ماسٹر رام چندر کو ایک ایسے ادیب کے روپ میں تسلیم کرتے ہیں جس نے اردو میں مضمون نگاری کا سنگِ بنیاد رکھا۔

 

حواشی

 

1۔ سیدہ جعفر، ماسٹر رام چندر اور اردو نثر کے ارتقاء میں ان کا حصّہ، ص49۔ 52

2۔ سیدہ جعفر، ماسٹر رام چندر اور اردو نثر کے ارتقاء میں ان کا حصّہ، ص77

٭٭٭

 

 

 

 

عہد سر سید میں انشائیہ نگاری

1۔ سرسید احمد خان

2۔ مولانا محمد حسین آزاد

3۔ الطاف حسین حالی

4۔ مولوی نذیر احمد

5۔ نواب محسن الملک

6۔ مولوی ذکا اللہ

7۔ عبدالحلیم شرر

8۔ وحید الدین سلیم

9۔ رتن ناتھ سر شار

 

عہدِسر سید شعوری بیداری اور برسوں کے ذہنی جمود ٹوٹنے کا ہنگام تھا مغربی علوم اور ادبیات کے خوشگوار جھونکے بڑی سرعت کے ساتھ سوچ و فکر کے لب بستہ شگوفوں کو اذنِ سخن دے رہے تھے۔ ایک کشمکش اور بے اطمینانی کی لہر ملک گیر پیمانے پر عوامی شعور کا حصّہ بن چکی تھی۔ جمہوری نظامِ حکومت کا عطا کر دہ فرد کی آزادی کا تصور جو آزادیِ ہندسے قبل ابھرا عہدِ سر سید میں راسخ نہ ہوا تھا لیکن غدر کے واقعات اور حصولِ آزادی کی ناکام کوشش نے ذہنوں میں ٹھہر کر سوچنے اور آئندہ اقدامات کی منصوبہ بندی کی فضا ہموار کر نا شروع کی تھی۔ اسی فضا میں سوچ، احساسِ ندامت، شکست خوردگی اور اندیشہ ہائے دور دراز کے ساتھ ہی اپنی تہذیبی قدروں کی جانچ پڑتال کے لئے طبیعتوں کو آ مادہ کیا۔

جب سر سید انگلینڈ سے واپس ہوئے تو قومی تنظیم اور اصلاح کا ایک ایسا منصوبہ لے کر اٹھے جس میں زبان و ادب، علمی معاملات، طریقہ تعلیم سے لے کر آدابِ زندگی اور طرزِ معاشرت ہر باب میں مغرب سے استفادہ کا داعیہ موجود تھا۔ اس مقصد کے تحت سرسید نے چوبیس دسمبر 1870ء کو تہذیب الاخلاق کا اجراء کر کے انھوں نے مضمون نگاری کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کا اتباع نہ صرف ان کے رفقائے کار نے کیا بلکہ ان کے مخالف بھی اپنی تنقید کے دوران اسی انداز کو اپنانے پر مجبور ہوئے۔ سر سید کے مضامین اردو میں انشائیے کے لئے راستہ ہموار کر نے کی پہلی کوشش قرار دئے جا سکتے ہیں۔

سر سید کا مقصد شخصی تاثرات یا محض افکار و خیالات کی ترسیل نہیں تھی بلکہ ان مضامین کو وہ قوم کی اصلاح کا آلۂ کار بنانا چاہتے تھے چنانچہ سر سید کے رفقائے کار میں بالخصوص نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، مولوی چراغ علی، محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد، الطاف حسین حالی، مولوی ذکاء اللہ، وحید الدین سلیم وغیرہ نے سر سید کی مضمون نگاری کو بھی ادبی مشن کے طور جاری رکھا۔ ان کے مضامین بھی سر سید کی اصلاحی اوردرسی اسپرٹ سے سر شار نظر آ تے ہیں۔

سر سید کے تہذیب الاخلاق کے تقریباً سات برس بعد 1877ء میں اودھ پنچ کا اجراء عمل میں آیا۔

اودھ پنچ کا اجرا مغربی تہذیب اور سر سید کی تحریک کے خلاف واقع ہوا تھا۔ اس میں ابھر نے والی تحریروں کا مزاج انشائیہ سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا اس لحاظ سے عہدِ سر سید میں انشائیہ کے نقوش ان ہی ادیبوں کی تخلیقات میں دستیاب ہیں جو سر سید کی تحریک کے ساتھ وابستگی کے علاوہ مغربی انشائیہ نگاروں کے رشحاتِ قلم سے اکتسابِ نور کر کے اپنی تحریروں کو منور کرتے رہے۔

اودھ پنچ سے وابستہ ادیبوں میں سر شار کے ہاں بھی اسی طرز کے مضامین ملتے ہیں جن میں انشائیہ کی اصل روح نایاب ہے۔ اودھ پنچ کے انشائیہ نگاروں نے آگے چل کر پنچ Punchکے رنگ کو انشائیہ کے مزاج سے بدلنے کی کو شش کی، ان میں سید محفوظ علی اور سلطان حیدر جوش قابلِ ذکر ہیں۔ البتہ ان کے ہاں سر سید کا رنگ غالب حیثیت رکھتا ہے۔

عہدِسر سید میں اردو نثر اپنے عہد کی تکنیکی ضروریات کی تکمیل میں کو شاں نظر آتی ہے۔ اس دور کی ذہنی سر گرمیوں نے اسے اظہار کی عجیب و غریب توانائی عطا کی۔

مرزا غالب نے اپنے خطوط کے ذریعے نثر کو شاعرانہ احساس اور تشبیہات و استعاروں کے دھندلکے سے نکال کر اسے تفصیل، تفکر تجزیہ اور محاسبہ کا خوگر بنا دیا تھا۔ غالبؔ نے نہ صرف نثر کو تخلیقی حسن سے نوازا بلکہ نثر کی تکنیکی ضروریات کا سنگِ بنیاد بھی اپنے خطوط میں رکھ چھوڑا۔

ٍٍ        اسی سلسلے کو سر سید نے آگے بڑھایا۔ پھر سوچ و فکر کا یہ انداز عہدِ سر سید کی زبان بن گیا۔ انشائیے میں اس اندازِ فکر کو اہمیت حاصل ہے۔ اسی لئے عہدسر سید کے بیشتر اہلِ قلم کی تحریروں میں انشائیے کا یہ حسن جلوہ افروز نظر آ تا ہے۔

 

 

                ۱۔ سر سید احمد خان 1898۔ 1817

 

سر سید احمد خان نے مغربی علوم اور ادب سے استفادہ کی جو راہ روشن کی تھی اس پر سر سید ایک پل کی مانند نظر آ تے ہیں۔ سن 1857 کے غدر کے آ س پاس اور طوفان گزر جانے کے بعد بھی جب اس راہ کے مخدوش ہو نے کے امکانات نمایاں تھے اپنی تہذیبی قدروں سے چمٹنے کا رجحان زور پکڑ رہا تھا۔ سر سیدنے مغربی علوم اور ادبیات کے اصولِ فن کو قومی زبانوں میں برتنے پر خصوصی توجہ صرف کی۔ ادب کی دیگر اصناف مثلاً تنقید تخلیق شاعری، بایو گرافی وغیرہ کے فنی آ داب کے اخذ و استفادہ کا بڑا ذریعہ الطاف حسین حالی رہے۔ دیگر شعبوں کو بھی اسی طرح اردو میں نثری ادب کے عناصرِ خمسہ نے سنبھالا۔ اس طرح اصل کریڈٹ سر سیدکو ہی جا تا ہے کہ بنیادی محرک وہی تھے۔ لیکن نثر اور خاص طور پر انشائیے کے معاملے میں یہ امر خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اردو ایسے کے خد و خال سر سید نے خود اپنے ہاتھوں سے سنوارے۔

سر سید نے سٹیل اور ایڈیسن کے ایسیز کو نمونہ بنا کر تہذیب الاخلاق میں مضمون نگاری کا سلسلہ شروع کیا۔ اس انداز کے فن پارے پیش کئے جو زبان و بیان، اندازِ فکر اور طرزِ اسلوب کے علاوہ ہیئت کے اعتبار سے بھی اردو میں نئی چیز تھی۔

ڈاکٹر سیدہ جعفر کی تحقیق کے مطابق سرسید سے تقریباً ربع صدی قبل ماسٹر رام چندر نے مضامین لکھ کر انگریزی ایسے کو متعارف کروایا۔ ماسٹر رام چندر کے یہ مضامین فوائد الناظرین ( 1845)اور محب ہند( 1847) نامی پر چوں میں شائع ہوئے چنانچہ ڈاکٹر سیدہ جعفر کے قو ل کے مطابق:

’مضمون نگاری کے ارتقاء میں سر سید کے مضامین ایک توسیع ہیں، آغاز نہیں۔ ماسٹر رام چندر داس اردو کے پہلے مضمون نگار ہیں جنھوں نے شعوری طور پر اردو ادب میں اس صنف کی ابتدا کی۔ ‘1

ماسٹررام چندر کے مضامین منظرِ عام پر آ نے کے بعد بھی مضمون نگاری کا یہ پیرایہ مقبول نہ ہوا لیکن سر سید نے جب 1870میں تہذیب الاخلاق کے ذریعے پر زور انداز سے متنوع موضوعات پر مضامین پیش کئے تو مضمون نگاری کی ایک تحریک وجود میں آ گئی۔ مرزا غالبؔ نے 1850میں اردو خطوط نگاری کی طرف توجہ دی۔ غالب کے خطوط اردو نثر نگاری کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیث رکھتے ہیں۔

اسی کے بعد اردو نثر عہد جدید کے اظہار کے تقاضوں سے آنکھ ملانے کے قابل ہوئی۔ غالب سے قبل مقفیٰ، مسجع اور شعری تلازمات کے سہارے گھٹنوں کے بل چلتی ہو ئی اردو زبان کو غالبؔ کے رقعات نے اپنے پیروں پر کھڑا ہو نے اور چلنے کے قابل بنایا۔ مقفیٰ اور مسجع زبان سر سید کے عہد میں بھی سکہ رائج الوقت تھی یہی وجہ ہے کہ سر سید نے جب آ ثار الصنادید، تصنیف کی تو زبان کا وہی انداز اپنانے پر مجبور ہوئے۔

بلکہ مولانا امام بخش صہبائی جو اس زبان کے لکھنے والوں میں ماہر خیال کئے جاتے تھے سرسید کے بہت قریب تھے۔ چنانچہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔

’سرسید نے مجھ سے خود بیان کیا کہ ’ آ ثار الصنادید‘ کے بعض مقامات بالکل مولانا امام بخش صہبائی کے لکھے ہوئے ہیں جو انھوں نے میری طرف سے اور میرے نام سے لکھ دئے تھے۔ 2

سرسید اردو نثر کو اس مقام سے بہت آ گے لے گئے اور زبان کی سطح پر وہ قوت مہیا کی جو اظہار کی وسعتوں کا احاطہ کر سکے۔ یہ چیز چونکہ تہذیب الاخلاق کے ذریعے وجود میں آ ئی تھی اسی لئے یہ کام وسیع پیمانے پر ہوا۔ فطری اظہار کی راہ میں موجود سنگِ گراں ہٹانے میں ان کے رفقاء کار نے بھی ہاتھ بٹایا۔ سر سید نے اخذ و ترجمے کے ذریعے انگریزی ایسے کو متعارف کروانے کے بجائے اس کے تخلیقی نمونے پیش کئے۔ اس طرح سرسید انگریزی ایسے کو اردو میں اپنانے کے سلسلے میں نقطہ آغاز قرار دئے جا سکتے ہیں سرسید اورماسٹر رام چندر کی تحریریں ایڈسن اور سٹیل کے اتباع کے باوجود اپنے بنیادی مزاج اور آہنگ کے سبب انشائیے کی اس نہج کو پیش کر نے سے قاصر ہیں جس میں انشائیہ نگار کی ذات کا اظہار ہلکے پھلکے انداز میں موضوعات کو تخلیقی لمس سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ سرسید کے مضامین انشائیے میں پائی جانے والی خود انکشافی کی کیفیت سے خالی ہیں۔ اس کا ایک سبب تو ایڈیسن اور سٹیل کے اتباع کی بنیادی خرابی ہے کہ یہ دونوں انشائیے کے نمائندے نہیں ہیں بلکہ ان کی تحریروں میں شگفتگی طنز و مزاح کے ذریعے قومی اصلاح کا فریضہ بڑے فنکارانہ انداز میں انجام پا تا ہے۔ سرسید کے مضامین میں اس کی جگہ تدریسی اور تعلیمی انداز در آیا ہے۔

ان کے عہد کے تقاضوں اور تحریکات نے بھی ان کے مضامین کو منضبط اور منصوبہ بند قسم کی تحریریں بنا دیا اور انشائیہ کی کھلی کھلی فضا اور آزاد خیالی کم ہو تی گئی۔ سرسید کے چند مضامین مثلاً بحث و تکرار اور امید کی خوشی وغیرہ میں انشائیہ کا جوہر پایا جاتا ہے۔

امید کی خوشی کے متعلق شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔

’امید کی خوشی ‘کا مضمون جس کے ہم نے بعض فقرات اوپر نقل کئے دراصل ایک انگریزی مضمون سے ماخوذ ہے۔ 3

سرسید کے مذکورہ مضامین میں انشائی کیفیات دستیاب ہیں ماسٹر رام چندر کے مضامین میں اس کا فقدان پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ان کی بہ نسبت ہم سرسید کے مضامین کے طلوع کا منظر بہ آ سانی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ انشائی کرن سرسید کے مضمون’ امید کی خوشی‘ کے درج ذیل اقتباس میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔

’ اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید جب کہ زندگی کا چراغ ٹمٹماتا ہے اور دنیاوی حیات کا آفتاب لبِ بام ہو تا ہے، ہاتھ پاؤں میں گرمی نہیں رہتی، رنگ فق ہو جاتا ہے، منہ پر مردنی چھاتی ہے، ہوا ہوا میں پانی پانی میں مٹی مٹی میں ملنے کو ہوتی ہے تو تیرے ہی سہارے سے وہ کٹھن گھڑی آسان ہو تی ہے۔ 4

 

حواشی

 

1۔ سیدہ جعفر، ماسٹر رام چندر اور اردو نثر کے ارتقاء میں ان کا حصّہ، ص52

2.سیدہ جعفر، ماسٹر رام چندر اور اردو نثر کے ارتقاء میں ان کا حصّہ، ص58

3۔ شبلی نعمانی، مقالاتِ شبلی، ص58

4۔ سر سید احمد خان، امید کی خوشی، انتخابِ مضامینِ سر سید، علی گڑھ، 1976ص91

 

 

                ۲۔ محمد حسین آزاد

 

مولوی محمد حسین آزاد کا شمار اردو کے بہترین انشائیہ نگاروں میں ہو تا ہے۔ محمدحسین آزاد کا اسلوب خالص انشائیہ کا اسلوب ہے۔ ان کے ہم عصر ادیبوں کے بر عکس محمدحسین آزاد کی تحریریں بالکل ہی جدا گانہ کیفیت کی حامل ہیں۔

محمد حسین آزاد کے انشائیے سر سید کی طرح اصلاحِ معاشرت اور شعور ی تربیت کے منصوبہ بند پروگرام اور اسپرٹ سے خالی ہیں۔ سر سید کے بر عکس محمد حسین آزاد کا رویہ ادبی نکتہ نظر کا امین ہے۔ اس کے متعلق ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں۔

’اردو ایسے نگاری میں محمد حسین آزاد بالکل الگ مقام رکھتے ہیں۔ انھیں انگریزی ایسے نگاری سے شغف تھا۔ مولانا آزاد کے یہاں مشرقی مزاج کے پیش نظر ایسے نگاری میں تمثیلی رنگ خصوصیت و اہمیت نہیں رکھتا۔

آزاد نے ان خیالی مضامین میں انشا پردازی کا کمال دکھایا۔ ا ن کے اسلوبِ بیان کی وجہ سے ایسیز میں لطافت و دلکشی پا ئی جا تی ہے۔ تمثیلوں کے ذریعے سے تاریخ، فلسفہ، اخلاق وغیرہ کے اہم پہلوؤں کو پیش کیا ہے۔ 1

مولوی محمد حسین آزاد کے مضمون خوش طبعی کا ایک اقتباس درج ذیل ہے۔

خوش طبعی کی تعریف میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ و ہ کیا شے ہے۔ البتہ یہ کہنا آسان ہے کہ وہ کیا شے نہیں ہے۔ ۔ میں اگر اس کی نسبت کچھ خیالات بیان کروں تو افلاطون حکیم کی طرح کنایہ اور استعارہ سے بیان کروں اور ظرافت کو ایک شخص قرار دے کراس سے وہ صفتیں منسوب کروں جو کہ نسب نامہ مندرجہ ذیل میں درج ہے۔ یہ واضح ہو کہ سچ خوش طبعی کے خاندان کا بانی مبانی ہے۔ اس گھرانے میں حسنِ بیان ہوا۔ اس نے ایک اپنے برابر کے خاندان میں شادی کی اس کی دلہن کا نام خندہ جبیں تھا کہ آٹھ پہر ہنستی رہتی تھی۔ چنانچہ ان کے گھر میں میاں خوش طبع پیدا ہوئے۔ چونکہ خوش طبع سارے خاندان کا لب لباب تھا اور بالکل مختلف طبیعت کے والدین سے پیدا ہوا تھا۔ اس لئے اس کی طبیعت بوقلموں اور گو نا گوں تھی۔ 2

ڈاکٹر محمد صادق کی تحقیق کے بعد اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ محمد حسین آزاد کی کتاب نیرنگِ خیال انگریزی انشائیہ نگاروں مثلاً جانسن، ایڈیسن کے مختلف مضامین پر مبنی ہے۔ یہ انگریزی تحریریں بیشتر اسپکٹیٹر اور ٹیٹلر میں شائع ہوئیں۔ محمدحسین آزاد نے انھیں اردو میں منتقل کرتے وقت اپنی جو لانی طبع کا اظہار کیا۔ اس میں تمثیلی رنگ شامل کیا۔ لیکن بنیادی طور پر ان تحریروں کا ماخذ انگریزی انشائیے ہی ہیں۔ اسی جانب خود محمد حسین آزاد نے بھی ان الفاظ میں اشارہ فر مایا ہے۔

’میں نے انگریزی انشا پردازوں کے خیالات سے اکثر چراغ شوق روشن کیا ہے۔ ‘

نیرنگ خیال انشائی ادب کا بیش بہا خزانہ ہے جس میں محمد حسین آزاد نے اپنی طبع رسا کے جو ہر دکھائے ہیں۔ بنیادی خیالات اور انشائیے میں پایا جا نے والا فکری نظام انگریزی انشائیوں سے ماخوذ و مستعارہے۔ یہ کلی طور پر مولانا محمد حسین آزاد کی اپنی کاوش نہیں ہے لہٰذا اس بنیاد پر محمد حسین آزاد کو تخلیقی سطح پر اولین انشائیہ نگار تسلیم نہیں کیا جاتا۔

 

حواشی

1۔ بحوالہ: ظہیر الدین مدنی، ایسیز، ص31

2۔ خوش طبعی، مولوی محمد حسین آزاد، بحوالہ:اردو انشائیہ کے ابتدائی نقوش، لطیف ساحل، 1994۔ ص69

 

 

                ۳۔ الطاف حسین حالی

 

ٍ        الطاف حسین حالی جو پیرویِ مغرب کا عَلم لے کر اٹھے تھے سرسید کے تتبع میں ایسّے نگاری کی طرف متوجہ ہوئے حالی کے مقالات اور تصانیف مثلاً مقدمہ شعر و شاعری اور یاد گار، غالبؔ میں تنقید اور سوانح نگاری کے ان آدابِ فن کا خصوصی التزام ملتا ہے جو مغرب میں رائج تھے بلکہ حالی نے متاخرین کے لئے ادب میں پیروی مغرب کا ایک عملی نمونہ چھوڑا ہے لیکن اردو ایسے نگاری کے سلسلے میں وہ اس صنف کی اصل روح تک رسائی حاصل نہ کر پائے ان کا مضمون، زبانِ گویا سر سید کی اسپرٹ سے مزین ہے۔ اس میں اصلاحی اور تلقینی رنگ غالب ہے۔ ان کے متعلق ڈاکٹر زور رقمطراز ہیں :

’ حالی اور سلیم یہی دو انشا پرداز ایسے ہیں جنھوں نے سرسید کی اصلی اسپرٹ اور زمانے کے اقتضا سے واقف ہو کر اردو نثر نگاری کی طرف توجہ کی۔ 1

زبان گویا میں اول تا آ خر خطیبانہ لہجہ اور اصلاحی رنگ نمایاں ہے۔ البتہ زبان کی سلاست اور روانی دامن کشِ دل ہے۔ حالی کا اسلوب سادگی اور صفائی سے عبارت ہے۔

’ اے بلبلِ ہزار داستان !اے میری طوطیِ شیوہ بیان !اے میری قاصد! اے میری ترجمان!اے میری وکیل !اے میری زبان ! سچ بتا تو کس درخت کی ٹہنی اور کس چمن کا پودا ہے کہ تیرے ہر پھول کا رنگ جدا ہے اور تیرے ہر پھل میں نیا مزہ ہے کبھی تو ایک ساحرِ فسوں ساز ہے جس کے سحر کا رد نہ جادو کا اتار، کبھی تو ایک افعیِ جاں گداز ہے جس کے زہر کی دارو نہ کاٹے کا منتر، تو وہی زبان ہے کہ بچپن میں کبھی اپنے ادھورے بولوں سے غیروں کا جی لبھاتی تھی اور کبھی اپنی شوخیوں سے ماں باپ کا دل دکھاتی تھی۔ وہی زبان ہے کہ جوانی میں کبھی اپنی نرمی سے دلوں کا شکار کرتی تھی۔ اور کہیں اپنی تیزی سے سینوں کو فگار کرتی تھی۔ 2

 

حواشی

 

1۔ ڈاکٹر محی الدین زورؔ، اردو کے اسالیبِ بیان، ص35

2۔ الطاف حسین حالیؔ، زبانِ گویا، اردو ایسّیز، ص63

 

                ۴۔ مولوی نذیر احمد

 

مولوی نذیر احمد کی علمی شخصیت کی گہری چھاپ ان کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ ان کی تقریر اور تحریر میں معلومات اور خیالات کے ابلتے ہوئے سوتے بعض اوقات A loose sally of mind کا منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ کار علمی مضامین میں رونما ہو نے کی وجہ سے اس کا عیب گردانا گیا۔ اگر یہ حسنِ توازن کے ساتھ ان کے انشائیوں میں ظہور پذیر ہو تا تو یقیناً اس صنف کو سیراب کرتا۔ انھوں نے معدودے چند مضامین سپردِ قلم کئے۔ ایک مضمون وقت کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔

’دنیا میں ہر چیز کی کچھ نہ کچھ تلافی ہے۔ اگر نہیں ہے تو وقت کی جو گھڑی گزر گئی وہ کسی طرح قابو میں نہیں آ سکتی اور وقت کے گزرنے پر جو غور کرو تو اس کی تشبیہ تو کسی چیز کے ساتھ نہیں دی جا سکتی وقت ریل سے زیادہ تیز ہے، ہوا سے زیادہ اڑنے والا، بجلی سے سوا دوڑنے والا، اور ایسا دبے پاؤں نکلا چلا جاتا ہے کہ خبر تک نہیں ہوتی۔ 1

ان مضامین کے علاوہ نذیر احمد کے ناولوں کے فطری مکالمے جو دہلی زبان کا محاورہ پیش کرتے ہیں ایک انشائی فضا پیدا کرتے ہیں کیونکہ انشائیے میں نتائجِ فکر، رچاؤ اور فصاحت کے معیار کو پہنچ کر بلیغ فکروں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں جس طرح بیکن کے

ہاں ہوا، چنانچہ دلّی کی زبان کے محاورے اور فقرے اپنے تہذیبی رچاؤ کے باعث مولوی نذیر احمد کے ناولوں میں بھی ایک انشائی کیفیت کا احساس دلاتے ہیں۔

مولوی نذیر احمد کے اسلوب کا حسن یا زورِ انشا پردازی زبانِ دہلی کے ان ہی نگینوں کی حسن کاری کا مر ہونِ منت ہے ان کے متعلق محی الدین قادری زور لکھتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان کی انشا پردازی نے اردو اسلوبِ بیان میں ایک نیا دبستان قائم کر دیا۔ ان کے ناول اردو کے لئے مایہ ناز ہیں وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اردو میں مکالموں کا اسلوبِ بیان موقع محل کے مناسب اختیار کیا۔ 2

مولوی نذیر احمد کا یہ مکالماتی انداز ان کے ناولوں میں اپنے فرائضِ منصبی سے عہدہ بر آ ہوا ا ور جادہ اعتدال سے بھٹک جانے والی ذہنی ترنگ ان کے مقالات کا عیب قرار پائی۔ شگفتگی ان کی تحریر کی جاذبیت بڑھا گئی اور یہ تمام عناصر مجموعی طور پر ان کے ہاں انشائیہ نگاری کا گمان جگاتے رہے۔ البتہ انشائیہ اپنی مکمل شکل میں صورت پذیری کے لئے ان کے ہاں بھی ترستا ہی رہا۔

 

حواشی

 

1۔ مولوی نذیر احمد، وقت، اردو کا بہترین انشائی ادب، ڈاکٹر وحید قریشی، ص96

2۔ ڈاکٹر محی الدین زورؔ، اردو کے اسالیبِ بیان، ص60

 

 

                ۵۔ نوا ب محسن الملک

 

سرسید کی تحریک کے نتیجے میں ابھر نے والے لو گوں میں نواب محسن الملک ایک اہم شخصیت ہیں جنھوں نے سر سید کے نظریات کو تحریری شکل میں عام کیا تہذیب الاخلاق میں شائع ہو نے والے ان کے مضامین میں تمثیل کے ذریعے عصری زندگی پر اظہارِ خیال کا انداز پایا جا تا ہے ان مضامین میں اخلاقی اقدار کی وضاحت کا غلبہ انشائیہ کے دیگر عناصر کو ابھر نے کا موقع نہیں دیتا۔ ان مضامین میں اصلاحی تحریک کے اثرات اور جوش و جذبہ نمایاں ہے۔

 

                ۶۔ مولوی ذکاء اللہ

 

مولوی ذکاء اللہ علیگڑھ تحریک سے وابستہ سر سید کے ان رفقاء کار میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے سر سید کے علمی اور ادبی مشن کی روح تک رسائی حاصل کی اور اس میدان میں اپنا مقام پیدا کیا۔ مولوی ذکا ء اللہ نے سر سید کے اتباع میں مضامین قلمبند کر نے کے علاوہ انگریزی انشائیہ نگاروں کے رشحاتِ قلم کو بھی اردو میں منتقل کیا۔ بیکن کے مشہور انشائیہ OF STUDY کو مولوی ذکا ء اللہ نے کتب کا مطالعہ کے عنوان سے اردو میں ترجمہ کیا۔

مولوی ذکاء اللہ ان ہی تراجم کے توسط سے انشائیہ کو اردو میں متعارف کرواتے رہے۔ وہ انشائیہ کے فنی رموز سے بخوبی آشنا تھے اس کا ثبوت ان کے انشائیوں میں مل جاتا ہے۔ ان کے متعلق ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں۔

مولوی ذکاء اللہ نے انگریزی ایسے نگاری کے تتبع کی کامیاب کوشش کی ہے اگرچہ ایسے میں معلومات کا دفتر بھر دیا ہے لیکن اسلوبِ بیان کی شگفتگی نے عالمانہ سنجیدگی کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ‘1

مولوی ذکاء اللہ کے یہاں شگفتگی سے زیادہ اہم چیز ندرتِ خیال پائی جاتی ہے جو انشائیہ کی جان ہے۔ ان کے مضامین میں نکتہ آفرینی کا عمل بھی ان کی تحریر کو توانائی بخشتا ہے۔ ان کے مضمون آ گ کا یہ اقتباس جو ان خوبیوں کی عکاسی کرتا ہوا نظر آ تا ہے درج ذیل ہے۔

’آگ ا یک عجیب نا مبارک اولاد ہے پیدا ہو تے ہی ماں باپ کو کھا جا تی ہے۔ لکڑیوں کی زنا شوئی سے پیدا ہو تے ہی انھیں کو جلا کر خاک کر دیتی ہے اور آپ ماں باپ کو مار کر زندہ رہتی ہے۔ آگ ہی ہماری دشمنِ جاں سوز بھی ہے اور دوستِ دل افروز بھی۔ وہ گھر گھر مبارک مہمان ہے مہربان دوست ایسی کہ ہماری راحت کے لئے ہمارے رنج و تکلیف کو دور کر نے لئے آ سائش و آ رام کے واسطے صدہا ضروریاتِ زندگی کے رفع کر نے کے واسطے وہ سامان مہیا کرتی ہے۔ ‘2

مولوی ذکا ء اللہ کے انشائیوں پر بیکن کی چھاپ نظر آ تی ہے شاید اسی لئے ان کے ہاں اظہارِ ذات کھل کر نہیں ہو پایا اور موضوع کی مختلف جہتوں ہی کو واضح کر نے کی کوشش میں نکتہ آفرینی کے عمل کو تیز تر کیا ہے۔

 

حواشی

1۔ ظہیر الدین مدنی، اردو ایسّیز، ص30

2۔ مولوی ذکاء اللہ، ’آ گ‘، مشمولہ:اردو ایسّیز، ص68

 

 

                ۷۔ عبدالحلیم شرر

 

اسلامی تاریخ کی درخشاں روایات اور اسلامی عظمت نمایاں کر نے کی ایک کامیاب کو شش عبدالحلیم شرر کے ناولوں میں نظر آ تی ہے۔ شرر کے مضامین میں صالح اقدار کی جستجو فطرت پسندی کے روپ میں ظاہر ہو ئی ہے۔ شگفتگی اور بے ساختگی شرر کی تحریر کی اہم خصوصیات ہیں۔ فطرت کے مظاہر کی منظر کشی اور جزئیات نگاری میں معروض سے لطف اندوز ہو نے کا رویہ ان کے مضامین میں لذت اور سرور پیدا کر دیتے ہیں لالۂ خودرو اور نسیمِ سحر میں نفسِ موضوع کو مختلف پسِ منظر میں رکھ کر اس کی مختلف جہتوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ان کے مضامین میں اس قسم کے خالص انشائی جملے بھی پائے جاتے ہیں نسیمِ سحر کے متعلق لکھتے ہیں۔

آ ہ کیسی اچھی اچھی جگہ تیرا گزر ہو تا ہے اور تو کیسی کیسی لطف کی صحبتوں میں پہنچ جا تی ہے۔ تو آزادی کا نمونہ، محبتوں کا بے باک ہاتھ یا ہماری تمنا ہے۔ ‘22

شرر کا اسلوب تشبیہات اور استعاروں سے گندھا ہوا ہے موضوع کو مضمون کے خوش منظر Kaleidoscope میں رکھ کر اس کی مختلف سطحوں سے ایک دلکش ڈیزائن بنانے کا رویہ شرر کے مضامین نسیمِ سحر اور لالۂ خود رو میں نمایاں ہے۔ شرر کے مضامین میں ایک سوگوار سی فضا کے پہلو بہ پہلو شوخی بھی ہے اور اصلاحی رنگ بھی۔ مگر اس میں اپدیشکوں کا طنطنہ نہیں بلکہ نر می اور احساس کی لطافت موجود ہے۔

عبدالحلیم شرر اپنے مضمون’ نہیں میں ایک انوکھے موضوع کو الٹ پلٹ کر روزمرہ زندگی میں استعمال ہو نے والے اس لفظ نہیں کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے اسے پڑھ کر ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ ہم نے کبھی اس طرح اس پر غور نہیں کیا ’ غور تو اس بات پر کر نا ہے کہ یہ لفظ کس آ سانی سے بلاؤں کو ٹال دیتا ہے۔

عقلمند کی ’ دور بلا‘ ایک مشہور مقولہ ہے مگر انصاف کیجئے کہ نہیں ایک ایسا لفظ ہے جو عقلمند اور بے وقوف سمجھ دار اور نا سمجھ ہر ایک کی مصیبت ٹال دیتا ہے۔ عقلمند جس بات کو نا مناسب سمجھتا ہے اس کی نسبت سوچ سمجھ کے نہیں کہہ دیتا ہے۔ بے وقوف جس امر میں ایک ادنیٰ ظاہری مخالفت پاتا ہے فوراً بغیر کئے نہیں کہہ دیتا ہے۔ سمجھ دار اسی لفظ کو لوگوں سے مشورے کے لئے کہتا ہے اور ایک ناسمجھ بچہ ضد پر آ جا تا ہے تو نوجوان۔ امرائے قوم کی طرح بری اور بھلی ہر بات پر نہیں سمجھنے لگتا ہے۔ غرض کوئی نہیں جو اس لفظ کو استعمال میں نہ لاتا ہو جو بری رائے کسی مہیب دشمن کی طرح لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے وہ اگر ٹلتی ہے تو نہیں سے۔ حقیقت میں نہیں ایک بڑا مفید اور کار آ مد منتر ہے۔ ‘ 2

 

حوالہ

 

1۔ عبدالحلیم شرر، نسیمِ سحر، ، مشمولہ:اردو ایسّیز، ص32

2۔ صنف انشائیہ اور انشائیے۔ ڈاکٹر سید محمد حسنین۔ ص ۴۹

 

 

                ۸۔ وحید الدین سلیم

 

وحید الدین سلیم کی ادبی خدمات کے پیش نظر ڈپٹی نذیر احمد نے انھیں صحیح معنوں میں سر سید کا جا نشین قرار دیا تھا۔ ان کی شگفتہ نثر سادگی، سنجیدگی اور شعری کیفیتوں کے با وصف سوچ و فکر کے در وا کرتی ہے۔ وحید الدین سلیم نے مغربی انشائیہ نگاروں کے رشحاتِ قلم سے استفادہ کیا تھا ان کے متعلق ڈاکٹر زور لکھتے ہیں۔

’ سلیم کا قلم بھی انشائیہ نگاری کے گر سے نا واقف نہیں ہے۔ لیکن ان کی ولولہ خیز اور پر جوش ذہنیت نے ان کے اسلوب میں ایک خاص انفرادی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ وہ کار لائل کی طرح جو کچھ لکھتے ہیں متاثر ہو کر لکھتے ہیں۔ ان کی قلبی وارداتیں اور ذہنی حالتیں اکثر دفعہ الفاظ کے حجابوں کو چیر تی ہو ئی بے نقاب ہو کر نکل پڑتی ہیں۔ 1

وحید الدین سلیم کے ایک مضمون’ قرض ‘سے ماخوذ درج ذیل اقتباس سے اندازہ ہو تا ہے کہ ان کے ہاں نظر و تخیل کی کرشمہ سازیاں موضوع کے انوکھے پہلوؤں کو کس قدر دل کش انداز میں وا شگاف کرتی ہیں۔ سلیم کے ہاں انشائیہ کی روح پا ئی جاتی ہے۔ ان کی تحریر کی یہی کیفیت انھیں انشائیہ نگار کے روپ میں پیش کرتی ہے۔

’ اگر تم دولت کی قدر و قیمت معلوم کر نا چاہتے ہو تو اس کی آ سان ترکیب یہ ہے کہ تم کسی سے قرض لے لو۔ اس تجربہ سے تم یہ جان لو گے کہ تم اس کے غلام ہو۔ ہر ایک روپیہ جو تم اپنے ہمسائے سے قرض لیتے ہو وہ تمہاری ذاتی شرافت اور آزادی کی قیمت ہے جس کے عوض میں تم نے اس شرافت اور آزادی کو دوسرے کے ہا تھوں گرورکھ دیا ہے۔ افلاس انسان کی آزادی اور دلیری کو ملیامیٹ کر دیتا ہے۔ غور کرو کہ خالی تھیلی جس میں روپیہ نہیں ہے فرش پر سیدھی کھڑی نہیں ہو سکتی۔ 2

 

حواشی

 

1۔ ڈاکٹر محی الدین زورؔ، اردو کے اسالیبِ بیان، ص80

2۔ وحید الدین سلیم، ’قرضؔ، بحوالہ :اردو کے اسالیبِ بیان، ص82

 

 

                ۹۔ رتن ناتھ سر شار

 

پنڈت رتن ناتھ سر شار کی مایہ ناز تصنیف ’ فسانہْ آزاد ‘جو 1880میں کتابی شکل میں منظرِ عام پر آ ئی عہد اودھ پنچ کی ظرافت نگاری کے مخصوص رجحانات کی نمائندگی کرتی ہے۔ سرشار عصری زندگی کی بوالعجبیوں کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے متعلق مولوی عبدالباری آ سی لکھتے ہیں۔

’سر شار نے جو کچھ سیکھا وہ اودھ پنچ سے سیکھا اور باوجود اس کے وہ شگفتہ اور با محاورہ نثر لکھنے پر قادر تھے، ظرافت نگاری ان کا جزو تحریر ہو گئی تھی۔ 1

سرشار کے ہاں انشائی عناصر کی تلاش کی جائے تو مایوسی ہو تی ہے۔ سر شار کا بنیادی مقصد اپنے عہد کی مضحکہ خیزیوں اور نا ہمواریوں کو نمایاں کر نا تھاجسے انھوں نے اپنے مشہور کر دار خوجیؔ کے حوالے سے پیش کیا۔ سر شار کا فنِ ظرافت بنیادی طور پر واقعہ نگاری، ڈرامائی صورتِ حال اور محاکات کے بیان پر منحصر ہے۔ انشائیہ میں پایا جانے والا تفکر اور خیال آ رائی ان کے ہاں خال خال ہی دستیاب ہو تی ہے ڈاکٹر احرار نقوی نے ان کے دو مضامین ’ بنی نوع انسان اور عشق ‘ کی بنیاد پر انھیں انشائیہ نگاروں میں شامل کیا ہے ان کا اندازِ نگارش عشق کے اس اقتباس سے نمایاں ہے۔

عشق کس کو کہتے ہیں اس کا حال کسی چوٹ کھائے ہوئے دل سے پوچھئے وہ دل جو مسلکِ عشق میں فنا ہو گیا وہ دل جو عشق کے صدمے اٹھانے کا جگر رکھتا ہو، وہ دل جو عشق کی کڑی منزل میں تھک کے بیٹھ گیا مگر ہمت نہ ہارا ہو وہ دل جو راہِ عشقِ سر د و گرم چشیدہ ہو، وہ دل جو عشق کی بھول بھلیاں بھٹک کر کعبۃ اللہ جا تے جاتے ترکستان کا ڈھرا پکڑے اور بحرِ اوقیانوس ہو کر خوارزم پہنچنے کو سیدھا راستہ سمجھے وہ دل جس کی رنگینی نشترِ غم کی خوگر ہو۔ ‘2

سرشار کی یہ تحریر اپنی رومان زدگی کے باوجود اپنے مخصوص انداز کی غمازی کرتی ہے۔ اس مضمون میں خطابت کا انداز انشائیہ کے مزاج کو مجروح کرتا ہے۔ سر شار کی تحریریں انشائیہ کی ہلکی سی جھلک پیش کرتی ہیں۔ ان کے اندر کا انشائیہ نگار پوری طرح نمایاں نہیں ہو سکا۔

سر شار کی بہ نسبت سجاد حسین کی تحریریں انشائیہ سے قریب تر ہیں۔ شاید ان کے ہاں پائے جانے والے اسی انشائیے کے جوہر کو ملحوظ رکھتے ہوئے مولوی عبدالباری آ سی نے انھیں سر شار کے مقابلے میں بہتر مزاح نگار قرار دیا ہے اور جس خصوصی عنصرکوسر شار کی تحریر کا عیب گر دانا وہ آ ورد ہے گویاسرشار کے ہاں ہنسانے کی ایک مصنوعی کو شش ہے جب کہ سجاد حسین کی تحریروں میں اس کا اصل محرک تخلیقی ابال ہے اصل میں اسی کا فقدان سر شار کے ہاں انشائی عنصر کا فقدان ہے۔

 

حواشی

1۔ عبدالباری آ سی، بحوالہ طنزیات و مضحکات، الہٰ آباد1960ص98

2۔ رتن ناتھ سرشارؔ، بحوالہ : انشائیہ کی بنیاد، ص112

 

 

                حاصلِ مطالعہ

 

مغربی انشائیہ کی چار سو سالہ روایت اپنے جلو میں صاحبِ طرز ادیبوں کا ایک قابلِ لحاظ طائفہ لئے ہوئے ہے۔ اردو میں انشائیہ کے اولین نقش کی نشاندہی کر نے کی کوشش میں اردو کے ناقدین میں سے بعض نے اردو انشائیہ کو بھی اتنا طویل زمانہ عطا کرتے ہوئے ملا وجہی کی سب رس کو جو سترہویں صدی کی تصنیف ہے اردو انشائیہ کا اولین نقش قرار دیا ہے۔

سترہویں صدی سے بیسویں صدی کے نصف تک اردو کے پہلے انشائیہ نگار کے طور پر ملا وجہی، سرسید احمد خان، ماسٹر رام چند ر، محمد حسین آزاد، اکبر علی قاصد، مشکور حسین یاد اور ڈاکٹر وزیر آغا وغیرہ مختلف نام پیش کئے جا چکے ہیں اور اس ضمن میں مختلف توجیہات بھی سامنے آ چکی ہیں۔ زیرِ نظر باب میں ہم نے سب رس سے عہدِ سر سید تک مختلف انشا پردازوں کی تحریروں میں انشائی عناصر کی نشاندہی کر نے کی کو شش کی ہے۔ اس مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سب رس اور خطوطِ غالبؔ میں انشائیہ کے بعض فنی محاسن موجود ہیں۔ ہئیت، فارم اور منفرد صنف کی خصوصیات کے اعتبار سے یہ فن پارے داستان اور خطوط نگاری جیسی منفرد اور مکمل اصناف کے نمائندے ہیں۔ سب رس اور خطوطِ غالب میں مذکورہ Formایک کل کی حیثیت سے موجود ہیں جب کہ انشائیہ ان تصانیف کے جزوی محاسن میں شامل ہے۔

دوم انشائیہ اپنی مکمل شکل میں مواد و ہئیت کے ربط و تسلسل کے ساتھ ان تصانیف میں نا یاب ہے لہٰذا انھیں انشائیہ کیونکر کہا جا سکتا ہے ؟

غالبؔ ہی کے عہد میں ماسٹر رام چندر نے متعدد مضامین میں مغربی انشائیہ کے اسرار و رموز کو برتنے کی کوشش کی اور اسی سلسلے کی توسیع سر سید کے مضامین میں بھی نظر آ تی ہے لیکن سر سید کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اسپکٹیٹر اور ٹیٹلر کی تحریروں میں دستیاب اندازِ نگارش کو اپنا کر اسے ایک تحریک کی شکل عطا کی جس کے نتیجے میں تہذیب الاخلاق میں لکھنے والوں کا ایک فعال گروہ وجود میں آیا جن میں مولوی محمدحسین آزاد، مولوی ذکاء اللہ، وحید الدین سلیم، ڈپٹی نذیر احمد، الطاف حسین حالی، عبدالحلیم شرر، نواب محسن الملک، نواب و قار الملک، مولوی چراغ علی وغیرہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

مولوی محمد حسین آزاد اور مولوی ذکاء اللہ نے انگریزی انشائیہ نگاروں کی تحریروں سے اخذ اور ترجمہ کے ذریعے اسلوب و فکر کی سطح پر بھی اپنا چراغ روشن کیا البتہ اس عہد میں جو مضامین لکھے گئے ان میں سٹیل اور ایڈیسن کا نمونہ تحریر اکثر پیشِ نظر رہا چنانچہ اسی انداز میں رنگوں کی بو قلمونی نسبتاً محدود دائرہ کا رکے اندر زندگی کے خارجی مظاہر کو طبع آزمائی کے لئے جولان گاہ بنائے رہی اور انگریزی انشائیہ کا وہ انداز جو Familiar Essayکے نام سے معروف ہے انیسویں صدی کے اردو انشا پردازوں کے دستِ تصرف سے دور ہی رہا لہٰذا شخصی ایسے کے خد و خال اردو میں نمایاں نہیں ہو پائے۔ صنف انشائیے میں تفکر اور تخیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس لحاظ سے غالبؔ اور غالبؔ کے بعد عہدِ سر سید کے مختلف انشا پردازوں کی تحریروں کا جائزہ لینے کے بعد یوں کہا جا سکتا ہے کہ عمومی طور پر ان ادیبوں نے انشائیہ کی ان بنیادی خصوصیات کو اپنی تحریروں میں مستحکم کر کے اردو میں انشائیہ کی جڑیں مضبوط کر نے میں ایک اہم رول ادا کیا چنانچہ کسی ایک مخصوص انشاپرداز کو انشائیہ کا نمائندہ قرار دینے کے بجائے انیسویں صدی میں تخلیق ہو نے والی مذکورہ انشا پردازوں کی تحریروں کو انشائیہ کا اولین نقش قرار دینا زیادہ بہتر ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بیسویں صدی میں انشائیہ نگاری

 

1۔ میر ناصر علی دہلوی

2۔ نیاز فتح پوری

3۔ سجا د حیدر یلدرم

4۔ منشی پریم چند

5۔ مولوی عزیز مرزا

6۔ سید احمد دہلوی

7۔ مولانا خلیق دہلوی

8۔ سلطان حیدر جوش

9۔ مہدی افادی

10۔ سجاد انصاری

 

 

بیسویں صدی میں انشائیہ نگاری شعور ا اور فن کی گہرائیوں کو دامن میں سمیٹے ہوئے نظر آ تی ہے۔ اس صدی کے اوائل ہی میں تہذیب الاخلاق اور اودھ پنچ کی ہنگامہ آرائی فکری مد و جزر اور مناظرانہ کشیدگی کی فضاؤں میں پیدا شدہ ولولہ انگیزی اب تھم چکی تھی۔ تہذیب الاخلاق کا منصوبہ بند عقلیت پرستی کے تحت پیدا کر دہ غور و فکر کا رجحان اور اس کے برعکس طرزِ کہن سے چمٹی ہو ئی سکہ بند جذباتی وارفتگی اور جامد معتقدات جس کا علمبردار اودھ پنچ تھا، اپنے سحر کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ ان دونوں رجحانات کی بندشوں سے آزاد فکر اور حسیت اردو نثر میں پنپ رہی تھیں۔ اس تبدیلی کے شواہد اس عہد میں اردو کے انشا پردازوں کے ہاں نمایاں ہیں۔

انشائیہ نے بیسویں صدی میں فکر و فن کے دائرے کو وسعت بخشی یوں بھی انشائیہ آزادیِ افکار کی نمائندگی کرتا ہے۔ بیسویں صدی فکر و احتساب کے لئے سازگار حالات لے آئی۔ گزشتہ صدی کی بہ نسبت اس دور میں انشا پردازوں کا ایک قابلِ لحاظ طبقہ اپنی فطری صلاحیتوں کو اس صنف میں بروئے کار لایا جس کے نتیجے میں متنوع اسالیب اور انشائی تحریروں کے نت نئے نمونے اردو نثر کے دامن کی زینت بنے۔

آئندہ صفحات میں ہم ان انشا پردازوں کی تحریروں کا جائزہ لیں گے۔

 

                ۱۔ میر ناصر علی دہلوی

 

بیسویں صدی کے اوائل میں ابھر نے والے انشا پردازوں میں میر ناصر علی کے مضامین جذبات کے متوازن بہاؤ اور ندرتِ افکار کے سنگم پر شوخی اور شگفتگی کا ایسا حسین امتزاج پیش کرتے ہیں جو انشائیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ میر ناصر علی کی تحریریں بیشتر ان کے اخبار صلائے عام 1908تا 1933کی زینت بنیں۔ ان شگفتہ تحریروں کو موصوف نے مضمونِ پریشان کا نام دیا، ظاہر ہے ان کے ذہن میں بیکن کی Dispersed Meditation کی اصطلاح رہی ہو گی۔

مہدی حسن نے میر ناصر علی کی انشا پردازی کا اعتراف ایک خط بنام ایڈیٹر صلائے عام (میر ناصر علی) میں اس طرح کیا ہے۔

’آ ج سنجیدگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ میں نہیں جانتا ملک کے نام ور آ پ کے گزشتہ کمالات کی داد دیں گے لیکن میں کھل کر کہنا چاہتا ہوں کہ آ پ نے اس وقت انشا پردازی کو چمکایا جب بہتوں نے قلم بھی ہاتھ میں نہیں لئے تھے آ پ کا ادنیٰ مذاق اور خاص طرح کا مادۂ اختراعی (اوریجنلیٹی )در اصل آ پ کے اولیات میں داخل ہو نے کے لائق ہے موجودہ نسل تمام تر تہذیب الاخلاق کے ادبی دور کی پیدا کر دہ ہے۔ جب آ پ کے لٹریچر کا شباب تھا اور یہیں سے اپنا مرتبہ دیکھ لیجئے۔ 1‘

میر ناصر علی کے مضامین جس قدر لائقِ توجہ تھے وہ ان کو حاصل نہ ہو سکی۔ ان کے مضامین بیکن کے اتباع میں شوخی اور دانشوری کا اعلیٰ معیار پیش کرتے ہیں۔ انشائیہ عموماً ان دونوں عناصر کے نقطۂ اتصال پر وجود میں آ تا ہے۔ جہاں نہ شوخی مکمل شوخی رہ پاتی ہے نہ دانشوری روایتی دانشوروں کی سی خشک عالمانہ حیثیت بر قرار رکھ پا تی ہے۔ انشائیہ میں اسی طرح نثر اور شعریت کا بھی سنگم پایا جا تا ہے۔ نہ فکر خالص ہو تی ہے نہ جذبہ روایتی تشدد کی طرف مائل ہو تا ہے۔ بلکہ ہر دو متضاد عناصر سے انشائیہ ایک اور ہی چیز وجود میں لاتا ہے۔ میر ناصر علی کی تحریریں اسی نقطہ اتّصال کو پیش کرتی ہیں :

بیکن کے اتّباع کے ثمرات میں میر ناصر علی کی تحریروں میں اورسطح پر بھی مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں۔ بیکن کے ایسّیز اس حقیقت کے ضامن ہیں کہ معنویت، بلاغت، اختصار اور جامعیتِ اظہار کی دہلیز پر پہنچ کر انشائیہ جب آپ بیتی اور جگ بیتی کے امرت منتھن سے گزرتا ہے توساحلوں کو مدو جزر کے تحفے کے طور پر Quotations اور محاوروں سے نوازتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بیکن کے کتنے ہی فقرے انگریزی ادب کا محاورہ بن گئے۔ یہی صورت کسی قدر الگ انداز میں میر ناصر علی کے ساتھ پیش آ ئی۔ اس ضمن میں نیاز فتح پوری لکھتے ہیں۔ ’ میرناصرعلی اردو کے بجائے کسی اور زبان میں موتی لٹاتے اور بر صغیر کے بجائے کہیں یورپ میں پیدا ہوئے ہوتے تو اس نوع کے مقولوں، تلازمات، نشتروں یا مقامات کی سینکڑوں کتابیں Aphorism, Sayings and

Meditation کے نام سے شائع ہوتیں۔ 2

میر ناصر علی کی زبان میں دہلی کی ٹکسالی زبان، شوخیِ تحریر اور لطافت بات کو کہیں سے کہیں پہنچا کر دم لیتی ہے۔ اندازِ پیش کش ایسا کہ پڑھ کر قاری پھڑک اٹھے۔ دل کو چھو لینے والا یہ انداز دل سے نکلی ہو ئی بات کی طرح دل تک اپنی راہ بنا لیتا ہے۔

’ چرخ شعبدہ باز ‘ سے ماخوذ درج ذیل فقروں سے اس بیان کی توثیق ہو سکے گی۔

’ چرخ شعبدہ باز کا یہ ادنیٰ کھیل ہے کہ اس نے نیلے پٹارے میں سے جسے آ سماں کہیئے آغا زِعالم سے خدا جانے کتنے چٹّے بٹّے نکال چکا ہے اور نکالے چلا جائے گا۔ بڑے بڑے شعبدہ باز و نظر باز اس کے الٹ پھیر کو نہ سمجھ سکے۔ شعبدہ بازی کے کمال میں ہے کہ بچے کو بوڑھا اور بوڑھے کو جوان بنا دیا تو گویا بہت بڑی بات کی۔ 2

محبت کے افسانوں میں ابروئے خمدار کے مارے ہوئے اس قدر نکلیں گے جتنے کسی تاریخ میں تلوار کے مارے ہوئے نہ نکلیں گے 3۔

 

حواشی

 

1۔ ایم مہدی حسن، افاداتِ مہدی، اعظم گڑھ، 1932ص178

2۔ نیاز فتح پوری، مقاماتِ ناصری، بحوالہ : انشائیہ کی بنیاد، سلیم اختر، ص139

3۔ میر ناصر علی، ’ چرخِ شعبدہ باز‘، مشمولہ اردو ایسّیز، ظہیر الدین مدنی، ص95۔ 96

 

                ۳۔ سجاد حیدر یلدرم

 

بیسویں صدی کے اوائل میں مختلف اسباب کی بنا پر سجاد حیدر یلدرم کو انشائیہ کے ضمن میں خاصی اہمیت حاصل ہوئی۔ رومانیت، فلسفیانہ اندازِ نگارش، مغربی ادب کا مطالعہ اور اس کے لائٹ لٹریچر کو اردو میں منتقل کر نے کی کوششوں کے علاوہ سجاد حیدر یلدرم کا انشائیہ ’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘ اردو میں انشائیہ کا نقطہ آغاز قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ مذکورہ انشائیہ ان کی طبع زاد تخلیق نہیں ہے بلکہ انگریزی سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

یلدرم کی نثر جذبات کی حدّت سے لبریز ہے انشائے لطیف تحریر کر نے والوں میں سجاد حیدر یلدرم ایک اہم نام ہے۔ ان کے تراجم اور تحریریں اردو مضمون نگاری میں آب و ہوا کی تبدیلی کا احساس دلاتی ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب مضمون نگاری نے سر سید کی علی گڑھ تحریک اور اصلاحی ذمہ داریوں کی کینچلی اتار پھینکی اور سبک بار ہو کر مغربی انشائیہ کی روح کو اپنے اندر سمونے کا جتن کیا۔ انشائے لطیف سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے سجادحیدر یلدرم لکھتے ہیں :

’ لائٹ لٹریچر کی چاشنی کے ذریعے آ پ عمدہ اور اعلیٰ خیالات عوام میں رائج کر سکتے ہیں ورنہ نصیحت اور خشک فلسفہ کا قدر دانانِ علم کے سوا اور کوئی شنو ا نہ ہو گا۔ ‘ 1

یلدرم کے مضامین اور افسانوں کا مجموعہ ’ خیالستان ‘ شائع ہوا تو ان تحریروں کو انشائیے اور افسانے قرار دیا گیا۔ اس میں شامل ’ چڑیا چڑے کی کہانی، ‘ ’حضرت دل کی سوانح عمری ‘اور ’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ ‘میں جذبہ اور خیال کی آزادانہ ترنگیں مختلف صورتیں اختیار کر لیتی ہیں جو دلکش بھی ہیں اور حسین بھی۔

یلدرم کے مضامین تہہ داری، معنویت اور رنگین مزاجی کیے آئینہ دار ہیں۔ ان میں منطقی طریقہ اختیار کئے بغیر اپنی بات کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ان اوصاف سے مزین ہو نے کے باوجود یلدرم کی تحریریں صنف انشائیے کی صحیح نمائندگی کرنے سے قاصر ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر اپنی کتاب’ انشائیہ کی بنیاد‘ میں حسن کاری کو یلدرم کی بنیادی خصوصیت قرار دیتے ہوئے انشائیہ کے ذیل میں آ نے والی ان کی تحریروں کو ہیجانی انشائیے قرار دیتے ہیں۔

ہیجان انگیزی کا یہی عنصر انھیں انشائیہ کے سانچے میں مکمل طور پر فٹ ہو نے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ انشائیہ احساسات اور جذبات کے متوازن بر تاؤ کی نمائندگی کرتا ہے اسی لئے اسے لائیٹ ایسّے کہا گیا ہے۔ ڈراما، ٹریجڈی اور شاعری جیسی اصناف جذبات کے اُبال اور نکتہ عروج کو پیش کر نے کے لئے مناسب ذرائع اظہار ہیں۔ جذبات کا یہ ابال ان اصناف میں کتھارسس کا سبب بنتا ہے۔

انشائیہ میں جذبات اور احساسات درمیانی صور ت میں صرف ہو تے ہیں اور انھیں ایک متوازن انداز میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ سجاد حیدر یلدرم کی تحریر میں پائی جانے والی رومانی فضا کا اندازہ حضرتِ دل کی سوانح عمری کے اس اقتباس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے :

’ چاند، وہ بے جان مخلوق میں سب سے زیادہ طرب انگیز چیز یعنی چودھویں رات کا چاند تو مجھے بالکل بے تاب کر دیتا تھا اسے بھی پکڑنے اس سے بھی ملنے کی خواہش ہو تی تھی۔ میں اسے اپنے پاس اپنی طرف متوجہ سمجھتا تھا۔ سب کہتے تھے دیکھو دیکھو !کیسا ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے۔ آنکھ بھی نہیں جھپکتی۔ میں اسے دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑتا تھا کیونکہ میں اسے اپنی طرف مائل پاتا تھا اور پھر اسے پکڑ نے کے لیے ہاتھ بڑھاتا تھا مگر آ ہ! چاند دور تھا، حسن بھی دھوکہ دیتا ہے ‘۔ 2

 

حواشی

 

1۔ سجاد حیدر یلدرم، بحوالہ : اردو ایسیز، ص37

2۔ سجاد حیدر یلدرم، بحوالہ : اردو ایسیز، ص109

 

 

                ۴۔ منشی پریم چند

 

منشی پریم چند نے اردو ناول اور افسانے کو داستان کی تخیلی فضا اور بے زمینی سے نجات دلا کر زندگی کے تلخ حقائق کے اظہار کا ایسا پیمانہ بنا دیا جس میں ہندوستان کی دیہی زندگی کی تصویر اپنے پورے سیاق و سباق کے ساتھ موجود ہے۔

منشی پریم چند نے افسانوں کے علاوہ چند مضامین بھی سپردِ قلم کیے جن میں انشائیہ کے تیور موجود ہیں۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے ان کا ایک مضمون ’ گالیاں ‘ اردو کا انشائی ادب، میں شامل کیا ہے اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے :

یوں تو گالیاں بکنا ہمارا سنگھار ہے۔ مگر بالخصوص عالمِ غیض و غضب میں ہماری زبان جولانی پر ہو تی ہے غصّہ کی گھٹا سرپر منڈلاتی اور منہ سے گالیاں موسلا دھار مینہ کی طرح برسنے لگتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ حریف کی ہشتاد پشت کو زبان کی نجاست سے لت پت کر دیتے ہیں۔ علیٰ ہٰذا فریقِ مخالف بھی دور سے کھڑا ہماری گالیوں کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہا ہے، اسی طرح گھنٹوں تک گالی گلوچ کے بعد ہم دھیمے پڑ جاتے ہیں اور ہمارا غصّہ کم ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن گالیوں کو سن کر ہمارے خون میں جوش آ جا نا چاہئے ان گالیوں کو ہم دودھ کی طرح پیتے ہیں اور پھر اکڑ کر چلتے ہیں گویا ہمارے اوپر پھولوں کی برکھا ہوئی ہے۔ یہ بھی قومی زوال کی ایک برکت ہے۔ 1‘

یہ مضمون منشی پریم چند کے اس مخصوص رویے کوسامنے لاتا ہے جس نے ادب کو زندگی کی تنقید بنانے کے تصور کے پیشِ نظر ان کے افسانوں میں مقصدیت کو عام کیا۔ تشبیہات اور مثالوں کے ذریعے ایک سماجی عیب اور زوال کی نشاندہی اس مضمون میں سر سری طور پر کی گئی ہے۔ یہ مضمون سر سید کے مضمون ’ بحث و تکرار ‘ کی یاد دلاتا ہے جس میں پر کاری Craftsmanshipاور گہرے مشاہدے کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔

 

حوالہ

 

1۔ منشی پریم چند، گالیاں، مشمولہ : اردو کا بہترین انشائی ادب، مرتبہ : ڈاکٹر وحید قریشی، ص173

 

 

                ۵۔مولوی عزیز مرزا

 

مولوی عزیز مرزا کی شگفتہ تحریریں اپنے معروض پر تبصرہ کا انداز لئے ہوئے ہیں، اس تاثر میں قلم کا رکی شخصیت بھی کسی حد تک نمایاں ہو ئی ہے۔ ان کے مضمون ’وغیرہ ‘ کا عنوان ہی اچھوتا ہے اس میں جہانِ نو کی دریافت کی سعی موجود ہے اس مضمون کا ایک اقتباس پیش ہے :

’ خدا عربی زبان کا بھلا کرے کہ ہم کو ایک عجیب جامع لفظ مل گیا کہ جہاں تفصیل کی پیچیدگیوں میں الجھن ہو ئی یا حافظے نے بے وفائی کی اور ایک ہی لفظ میں مشکلیں حل ہو گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک لفظ زبان پر آیا اور دنیا بھر کے جھگڑوں سے نجات ملی۔ لفظ کا ہے کو ہے کوہِ ہمالہ ہے کہ اپنے فراخ دامن میں ایک پوری دنیا کو لئے ہوئے ہے ‘۔ 1

 

حوالہ

 

1۔ ’وغیرہ‘، مولوی عزیز مرزا، مشمولہ : اردو کا بہترین انشائی ادب، مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی، ص187

 

 

                ۶۔سید احمد دہلوی

 

سید احمد دہلوی کی تحریر میں شوخی اور روانی کے ساتھ مرقع نگاری اور جزئیات نگاری عام ہے ان کے مضمون ’مفلسی ‘کو ڈاکٹر وحید قریشی نے، اردو کا بہترین انشائی ادب میں شامل کیا ہے :

’بے چارے مفلس کے ناخن دیکھو تو کدالیں نکل رہی ہیں، مونچھوں پر نظر ڈالو تو منہ کے اندر جا رہی ہیں ریچھ کے سے بال بڑھ رہے ہیں۔ لو گ اس سے بھاگتے ہیں وہ لوگوں سے شر ماتا ہے ٹوٹی جوتی ہے تو پھٹا انگرکھا ہے ‘۔ 1

 

حوالہ

 

1.۔ سید احمد دہلوی، ’مفلسی‘، مشمولہ : اردو کا بہترین انشائی ادب، مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی، ص34

 

 

                ۷۔ مولانا خلیق دہلوی

 

منشی محی الدین خلیق دہلوی کے مضامین جو ادبستان میں یکجا کئے گئے ہیں مختصر جامع رواں دواں اسلوب کے حامل اور خود انکشافی کے مظہر ہیں۔ یہ اظہارِ ذات ’میں ‘ کے متعلق تاثرات و خیالات کے اظہار پر مبنی ہے۔ اس کا اندازہ ذیل کے اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔

’ سفر کی ساری رات میں اور وہ لطف خوابیدہ ایک ساتھ رہے اور خیال اور مذاق کا ایک ایسا اتحاد رہا جو ہزاروں پر امید تخیلات کی تخلیق کا باعث تھا۔ میں سمجھتا رہا کہ اس لطیف الجثّہ متناسب الاعضاء نوجوان خدا جانے میں نے نوجوان کیوں سمجھ لیا؟ معلوم یہ ہو تا ہے کہ ہماری فطرت ہر پُر شباب شے کے لیے حریص ہے جوان رہنے کی آرزو مند ہے اور جواں منظر دیکھنے کی بغایت متمنّی، ہاں تو میں سمجھ رہا تھا کہ اس لطیف الجثّہ متناسب الاعضاء نوجوان ہمسفر سے جب یہ بیدار ہو گا، ملاقات کروں گا۔ وہ مجھے نہایت ہی با مذاق دوست پائے گا اور میں اس کو اپنی توقعات کے موافق پاؤں گا‘۔ 1

مولانا خلیق دہلوی کا مضمون ’درّہ موت ‘ جو اردو ایسیز میں شامل ہے داخلی طور پر پند و نصائح کا ایک ایسا نمونہ پیش کرتا ہے جس پر عبارت آ رائی کا غلاف ڈال دیا گیا ہے یہ اس زمانے میں انشائیے کے متعلق اس تصور کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ فقط زبان و بیان کا نکھار ہی انشائیہ کا فن ہے اس کے باوجود منشی خلیق کے بعض مضامین میں اپنی ذات کو مضمون کا محور بنایا گیا ہے۔ اظہارِ ذات کے تقاضوں کو ان مضامین میں پورا نہیں کیا گیا تاہم’ میں ‘کے متعلق تاثرات و خیالات کا یہ اظہار انکشافِ ذات سے گریز کی فضا میں یقیناً مستحسن قرار دیا جائے گا مولانا خلیق دہلوی کے مضامین ان کے عہد میں انشائیے کی جانب پیش قدمی کی نمایاں مثال پیش کرتے ہیں۔ ان کے مضمون درہ موت کا ایک اقتباس درج ذیل ہے :

’ سرگزشت ابنِ آدم کی یہ ہے کہ اس کو معلمِ اخلاق ملے، ہادیانِ راہِ حق نصیب ہوئے، اس کو کتابیں راستی اور نیکی کی باتیں اختیار کرنے کے لیے عطا ہوئیں مگر جب یہ اپنی مستی پر آ تا ہے تو سب کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے پھر آ گے چل کر خمارِ گندم اترتا ہے تو حضرت ہائے وائے پر اتر آ تے ہیں۔ !‘2۔

دنیا نام مقامِ عشرت کا نہیں، یہ تو مزرعہ آخرت ہے۔ جیسا بونا ویسا پانا۔ اعمالِ حسن کے بیج خلوص کی زمین کو سونپو! تاکہ حاصل کے وقت مراد کے دامن پھل اور پھول سے بھریں اور مشامِ روح کے لئے یہ تحفہ عطر آ گیں، قابلِ مسرت اور راحت ہو۔ ورنہ یوں تو ہر لغزشِ عمل اور ہر بہک جانے کی شکل کے لئے مواخذہ کی دار و رسن موجود ہے۔ 3

 

حواشی

 

1۔ منشی محی الدین خلیق دہلوی، ’ میرا سفر‘مشمولہ : اردو ایسّیز، ص141

2۔ منشی محی الدین خلیق دہلوی ’ درہ موت ‘مشمولہ : اردو ایسّیز، ص137

3۔ منشی محی الدین خلیق دہلوی ’ درہ موت ‘مشمولہ : اردو ایسّیز، ص138

 

 

 

                ۸۔ سلطان حیدر جوش

 

سلطان حیدر جوش کے مضامین جنھیں کلیم الدین احمد فلسفیانہ ظرافت قرار دیتے ہیں مغربی ایسّے ہی کے نقشِ قدم پر گامزن نظر آ تے ہیں گو سلطان حیدر جوش ان مضامین میں مغربی تہذیب کو خصوصی طور پر نشانہ طنز بنائے ہوئے ہیں۔

سلطان حیدر جوش کے مضامین میں شگفتگی میں بھی سنبھلی ہو ئی کیفیت ہے۔ مغربی تہذیب کو ہدفِ ملامت بناتے ہوئے ان کی تحریروں میں طنز کی نشتریت ابھر آ تی ہے۔ نہایت سلجھے ہوئے انداز میں انھوں نے فلسفیانہ عنصر کو طنز و مزاح کا جزو بنایا ہے۔ جوش کے مضامین کا تجزیہ کرتے ہوئے کلیم الدین احمد لکھتے ہیں :

’ جو بات ان کی تحریر کو ممتاز بناتی ہے وہ غور و فکر کا وجود، خیالات و تجربات کی گہرائی اور سنجیدہ اور متین لب و لہجہ ہے۔ سلطان حیدر جوش ایک مخصوص شخصیت کے حامل ہیں ان کی انفرادیت ان کے الفاظ سے عیاں ہے وہ نوجوان مزاح نگاروں کی طرح غیر ذمہ دارانہ طور پر محض ہنسنے ہنسانے کے لزومات کی تلاش نہیں کرتے۔ ‘1

جوش کے مضامین کا ایک مجموعہ جوشِ فکر کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ ان مضامین میں ایک گہری حسیت، تجربات و مشاہدات کا اظہار کرتے ہوئے فلسفیانہ انداز کا استعمال کرتی ہے۔ وہ زندگی کے متعدد پہلوؤں کو پیش کرتے ہیں اور ان کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ مضمون لیڈر میں لکھتے ہیں :

’ لیڈر کو بقیہ افرادِ انسانی سے وہی نسبت ہے جو حضرتِ نوح کو سال خوردہ کشتی سے تھی۔ یا یسوع مسیح کو بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں سے رہی۔ تاریخِ عالم کا وہ باب جو آ گے چل کر اس بلند ہستی کی سوانح عمری پر روزِ اوّل سے روشنی ڈالے گا۔ دیکھنے اور سننے کے قابل ہو گا۔ فی الحال یہ حصّہ اوراقِ سادہ کا مجموعہ ہے۔ 2‘

اسی فلسفیانہ تعلق کی بنا پر ان کی تحریریں ادبِ لطیف کے زمرے میں شامل کی جاتی ہیں۔ ادبِ لطیف تحریر کر نے والوں میں سلطان حیدر جوش ایک اہم نام ہے۔ اپنے مضمون ’دل‘ میں لکھتے ہیں :

’یہ ازلی بے قرار، یہ دیوانہ مستقل، دلِ ناصبور، اب بھی ہزاروں خنداں بے حجابانہ اور از خود رفتگی کی کیفیتوں کے مزے لوٹنے کے بعد بھی ایک نئی نظر ایک نئے تبسم، ایک نئے نازو انداز کا جویاں ہی رہا۔ آ ہ !اے کم نصیب ! ہر پھول کو اپنی ظالم قوتِ شامہ کی بھینٹ چڑھانے والے دل دیوانگی کو بڑھا، وحشت کو ترقی دے، مجنوں ہو، پاگل بن اور حدِ انسانیت سے کوسوں تجاوز کر جا !!۔ ‘3

 

حواشی

1۔ کلیم الدین احمد، اردو میں ظرافت، مشمولہ : طنز و مزاح تاریخ و تنقید از: ڈاکٹر طاہر تونسوی۔ ص74

2۔ سلطان حیدر جوش، ’ لیڈر‘ مشمولہ، اردو ایسّیز، ص119

3.۔ سلطان حیدر جوش، ’دل‘ مشمولہ، اردو ایسّیز، ص122

 

 

                ۹۔ مہدی افادی

 

مہدی افادی کی تحریروں میں قدم قدم پر زبان و بیان کی لطافت اور رنگینی بکھری ہو ئی نظر آ تی ہے۔ مہدی کا جمالیاتی ذوق اور لطیف حسِ مزاح ان کی تحریر کا جزوِ اعظم ہے۔ افاداتِ مہدی میں شامل بیشتر مضامین تہذیب و تمدن اور تاریخ کا احاطہ کرتے ہوئے لطیف انشائی کیفیت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ اس ضمن میں عبدالماجد دریابادی رقمطراز ہیں۔

’ بعض مضامین کی شوخیاں سنجیدگیِ ادب کی حدود سے متجاوز نظر آئیں گی اس کا کھلا ہوا جواب یہ ہے کہ حضرت مہدی معلمِ اخلاق نہ تھے ادیب و انشا پرداز تھے اور جب شاعر کے لئے برہنہ رقاصی کا جواز بڑے بڑے ثقات نے تسلیم کر لیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس نثر کے شاعر پر’ انشائے عریاں ‘ حرام رہے۔ ‘ 1

مہدی افادی کے مضامین میں جمال پرستوں کے مخصوص رویّے نمایاں ہیں۔ مثلاً شعری زبان کا استعمال، نازک خیالی، تشبیہات و استعارات میں صنفِ نازک کا تذکرہ اور بادہ و ساغر کا بیان۔ مہدی افادی کو ان کے دور میں بھی بہترین انشاپرداز گر دانا گیا اس کا اصل سبب ان کی تحریر کی یہی رنگینی اور جاذبیت ہے۔ ان کی انشا پردازی کے متعلق شبلی نعمانی نے رشک کرتے ہوئے ایک خط میں لکھا :

’ کاش شعر العجم کے مصنف کو ایسے دو فقرے بھی نصیب ہو جاتے۔ ‘2

تحریر کی اس خصوصیت کے باوجود افاداتِ مہدی کے مضامین کو انشائیہ نہیں کہا جا سکتا کہ بہر حال ان کی ترتیب و تنظیم میں مقالات کا انداز اور علمی مباحث بھی شامل ہیں اس کے برعکس مہدی افادی کے خطوط میں انشائیے کی سی کھلی کھلی فضا اور گفتگو کا انداز نمایاں ہے جو انشائیے سے قریب تر ہے۔ افاداتِ مہدی میں علمی موضوعات کو بھی انشائیے کے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

اس ضمن میں یہ اقتباس مہدی افادی کی انشا پردازی کی نمایاں مثال ہے۔

’ غالب زندہ ہو تے تو شبلی کو اپنی اردوئے خاصّہ کی داد ملتی جس نے ایک نو خیز بازاری یعنی کل کی چھوکری کو جس پر انگلیاں اٹھتی تھیں آ ج اس لائق کر دیا کہ وہ اپنی بوڑھیوں اور ثقہ بہنوں یعنی دنیا کی علمی زبانوں سے آنکھ ملا سکتی ہے۔ مدتوں شعراء سے گاڑھا اتحاد رہا، بہ اقتضائے سن بری طرح کھل کھیلی ہاتھ پاؤں نکالے اور بہتیرے بنائے بگاڑے، کیونکہ ایک زمانہ شیدائی تھا۔ لیکن یہ باتوں ہی باتوں میں سب کو ٹالتی رہی۔ بعض جگہ بے آبروئی کے سامان ہو ہو کر رہ گئے اور با ل بال بچی۔ آ خر میں ملک کے منچلے یعنی ناول تو یہاں تک ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے کہ اس کی پر دہ دری میں کچھ اٹھا نہیں رکھا۔ کبھی کبھی دبی زبان سے اسے یہ کہتے سنا ’اری اٹھ جاؤں گی میں صحنک سے۔ ‘ 3

افاداتِ مہدی میں شامل مضامین کی بہ نسبت ا ن کے خطوط انشائی کیفیت کے حامل ہیں ان میں وہ خصوصیات بہ درجہ اتم موجود ہیں جن کی بنیاد پر ہم انھیں انشائیہ قرار دے سکتے ہیں۔

افاداتِ مہدی کے بیشتر مضامین میں شاعرانہ نثر انشا پردازی کے گل بوٹے بکھیرتی ہے۔ اس کے برعکس خطو ط میں جہاں دل کا معاملہ کھلنے کے کافی امکانات ہیں مہدی کی فکر کسی ایک موضوع کے ہاتھ سے انگلی چھڑا کر آزادانہ اٹھکھیلیاں کرتی ہو ئی چلتی ہے۔ ان میں وہ ایک بہتر انشائیہ نگار کے طور پر سامنے آ تے ہیں۔ ان کے ان ہی محاسن کی جانب عبد القوی دسنوی نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے۔

’ان خطوط میں الفاظ کی سج دھج، تراش خراش اور عبارت آ رائی کا احساس ہو تا ہے، لیکن ا ن کے دلی جذبات، احساسات اور کیفیات کی صداقتوں سے محرومی نہیں ہو تی، بلکہ جوں ہی ہم خطوط کا مطالعہ کرتے جاتے ہیں، ان کے مزاج، ان کی پسند ناپسند، ان کی آ گہی ان کے رجحانات، ان کے تعلقات، ان کی مشغولیات، ان کے اندیشہ ہائے دور دراز سے اچھی طرح واقفیت ہو نے لگتی ہے۔ اسی طرح مہدی اپنی پوری شخصیت کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ ‘4

مہدی الافادی کا اندازِ خطوط اس اقتباس سے ظاہر ہے۔

’ آ پ کا پرستانِ سفری وہ بھی تختِ رواں (ریل)پر بہت ہی لائقِ رشک رہا، سچ یہ ہے کہ جنسِ لطیف اپنی پاکیزہ وشی اور کافر ادائی کے ساتھ’ کائنات‘ کے خوبصورت چہرے کا ’غازہ‘ ہی نہیں ہے، بلکہ ہمارے لئے شرطِ زندگی بھی ہے کہ اس کے بغیر دنیا سرے سے رہنے کے لائق ہی نہیں تھی۔ ‘5

اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

عورت بہ اعتبارِ جذبات ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔ جس کی ساخت میں نہایت نازک پھول پتیاں صرف ہو ئی ہیں۔ جس طرح پھول کی پتیوں میں نازک رگیں نسیں اور باریک نقش و نگار ہو تے ہیں عورت کا دل و دماغ بھی ہر طرح کی لطافتوں اور نزاکتوں کا مخزن ہو تا ہے جس کے بیل بوٹے قدرت کی بہترین نقاشی ہیں ان ہی باریک حسیت و جذبات کا ابھارنا اور ان کے نشو و ارتقائے تدریجی کے سلسلے کو قائم رکھنا چاہنے والے کا اصلی فرض ہے۔

 

حواشی

 

1۔ عبد الماجد دریابادی، مقدمہ، افاداتِ مہدی، مرتبہ، مہد ی بیگم، اعظم گڑھ، 1932   ص4

2۔ شبلی نعمانی، مقدمہ، افاداتِ مہدی، مرتبہ، مہد ی بیگم، اعظم گڑھ، 1932ص5

3۔ نعمانی، مقدمہ، افاداتِ مہدی، مرتبہ، مہد ی بیگم، اعظم گڑھ، 1932ص109

4۔ عبدالقوی دسنوی، مہدی کی خطوط نگاری، مشمولہ ماہنامہ شاعر، ممبئ، جلد47۔ شمارہ 10   ص20

5۔ مہدی الافادی، مکاتیبِ مہدی، بحوالہ : طنزیات و مضحکات، ص68

 

 

                ۱۰۔سجاد انصاری

 

سجاد انصاری کی تحریریں بنیادی معتقدات سے منحرف ایک باغی ذہن کا شگفتہ اور متوازن اظہار ہیں جس کا انداز تجزیاتی ہے ان کا ہدف بظاہر مذہب کے متعلقات ہیں لیکن واقعتاً اس سے وابستہ بے اعتدالیاں سجاد انصاری کی تحریر میں طنز کی نشتریت کو بیدار کرتی ہیں۔ ان کی تحریر میں جو روانی اور تجزیاتی تفکر پایا جا تا ہے، اس کے نتائج انشائی شگوفوں کی شکل میں نمودار ہو تے ہیں۔ ’حقیقتِ عریاں ‘ میں لکھتے ہیں :

فرشتے کی انتہا یہ ہے کہ شیطان ہو جائے۔ ایک حقیقت جب مٹتی ہے تو دوسری حقیقت ہو جاتی ہے۔ خدا نے ابتدا میں صرف فرشتوں کو پیدا کیا تھا۔ اس وقت تخلیقِ شیطنت کی ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ جانتا تھا کہ خود ملوکیت میں عناصرِ شیطنت مضمر ہے۔ سلسلہ ارتقاء سے شیطان خود بخود پیدا ہو جائے گا۔ 1‘

سجاد انصاری کا اسلوب لطافت اور رنگینی اور خیال آ رائی جیسے دل کش عناصر کا امتزاج پیش کرتا ہے۔

ان کے متعلق رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں :

’سجاد اور مہدی (افادی مرحوم)اردوئے جدید کے رنگ و بو تھے ان کو اردو کا نشاۃ الثانیہ کہنا روا ہے۔ ۔ ۔ ،

سجاد مرحوم کا عقیدہ تھا کہ لطافتِ خیال ہی خلاصہ کائنات ہے اور لطافتِ خیال معتقدات کی کورانہ پیروی سے بالا تر ہے سجادکی خصوصیتِ انشائیہ تھی کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے جلد از جلد اور کم سے کم الفاظ میں کہہ دیا کرتے تھے۔ 2‘

اختصار اور جامعیت کے علاوہ ندرتِ خیال اور فکری تنوع جو انشائیے کی اہم خصوصیات ہیں سجاد انصاری کے ہاں نمایاں ہیں۔

’سعیِ ناکام دعائے مقبول سے بر گزیدہ تر ہے۔ کوششوں میں عظمتِ انسانی مضمر ہے لیکن دعا انسانیت کا ایک اعلانِ شکست ہے جس کے ذریعے سے انسانی مجبوریوں کا راز ان فرشتوں پر بھی منکشف ہو جاتا ہے جو کسی طرح سے اس انکشاف کے اہل نہیں۔ ‘3

سجاد انصاری نے قلیل تعداد میں مضامین چھوڑے ہیں۔ ’ محشرِ خیال‘ ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان کے مضامین میں پائی جانے والی انشائی ادب کی جھلکیوں کے کامل ظہور سے پہلے ہی ان کی جواں مرگی نے اردو ادب میں ایک خلاء پیدا کر دیا۔ اقتباس:

کائنات کی حقیقی دل فریبیاں انسان سے چھپا دی گئی ہیں۔ اس کی کم ظرفی اور تہی مائیگی ان حقائق کو برداشت نہیں کر سکتی اس لئے معاصیتِ رنگین کی تجلیاں بھی پر دہ فطرت میں پوشیدہ رکھی گئی ہیں ورنہ ان کی ایک جھلک انسان کے صد سالہ اعمالِ خشک اور محاسنِ قبیح کو برباد کر دے اربابِ قضا و قدر کو اسی وقت اختتامِ کائنات اور آغازِ قیامت کا انتظام کر نا پڑے کیونکہ التوائے قیامت کسی مقصد پر مبنی ہے خدا کی مصلحتیں ابھی اس نظامِ عالم کو قائم رکھنا چاہتی ہیں اس لئے گناہوں کے حقائقِ رنگین ابھی پر دہ راز ہیں لیکن جس دن خدا کو دنیا کا شیرازہ بر باد کر نا ہو گا۔ یہ رموز خود بخود روشن ہو جائیں گے۔

 

حواشی

1۔ سجاد انصاری، محشرِ خیال، بحوالہ : طنزیات و مضحکات ص227

2۔ رشید احمد صدیقی، طنزیات و مضحکات، ص225

3۔ سجاد انصاری، محشرِ خیال، بحوالہ : طنزیات و مضحکات، ص226

 

                ۱۱۔ فلک پیما

 

فلک پیما کے نام کے ساتھ مزاح نگاری کا ایک منفرد اسٹائل وابستہ ہے جس میں تمثیل، تشبیہ و استعارے اور زبان کی شوخی کے ساتھ فلسفیانہ انداز کی بھی آمیزش ہے۔ فلسفہ کی خشک بیانی اور طنز و مزاح کی شگفتگی آ گ اور پانی کی طرح ہے۔ فلک پیما کی نثر ان دونوں کے سنگم پر وجود میں آ ئی ہے۔ ان کے ہاں فلسفیانہ سوچ دراصل ناخوشگوار اور ناپسندیدہ مظاہر کو نشانہ طنز بنانے کا محرک ثابت ہوئی ہے۔

یہی طنز اکثر تلخی کا روپ بھی دھار لیتا ہے۔ فلک پیما کی تحریروں میں پائے جانے والے رجحانات کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :

’ فلک پیما زندگی کے عام اور ناقابلِ شکست اصولوں کو جنہیں ہمارے معاشرے میں صدہا سال سے تسلیم کر لیا ہے اور اب ان میں ذرّہ برابر رد و بدل کا متحمّل نہیں ہو سکتا ہے۔ ایک نئے زاوئیے سے پیش کر نے میں کامیاب ہوئے ہیں ان کا یہ عمل بجائے خود بہت بڑی بت شکنی کا درجہ رکھتا ہے کہ پرانی چیز کو نئی روشنی میں دیکھنے سے اس کی کہنگی اور فرسودگی از خود بے نقاب ہو جاتی ہے۔ 1

فلک پیما کے ہاں نقطہ نظر کی انفرادیت ندرتِ خیال کو جنم دیتی ہے، ایک نیا سلسلہ فکر ابھر تا ہے جو فلک پیما کی تحریر میں پایا جاتا ہے۔ اس فلسفیانہ سوچ کا انداز بلند بانگ قہقہوں سے گریز اختیار کرتا ہے۔ اور یہی کیفیت انشائیہ سے قریب تر ہے۔

اس کے علاوہ فلک پیما کے ہاں اکثر متنوع موضوعات ہیں، بجائے خندہ دنداں نما کے فکر کو بر انگیختہ کر دینے والا تبسم قاری کے حصّے میں آ تا ہے۔ ان کا اندازِ تحریر درج ذیل اقتباس سے نمایاں ہے :

’ کبھی حیرت خم ٹھونک کر آئینے کے بالمقابل ہو تی ہے، کبھی کبھی اس سے گتھم گتھا، کبھی بالکل آ پے سے باہر، کبھی خموشی میں، کبھی خواب میں، غرض سو سو طرح ذلیل ہو تی ہے یہی حال دوسرے الفاظ کا ہے۔ شوق بے چارہ تو بالخصوص اس قدر ہر جائی ہوا ہے کہ کہیں کا نہ رہا۔ کبھی آغوشِ حیرت میں، کبھی شعلہ سے ہم پیالہ و ہم نوالہ، کہیں غم کا میاں، کہیں چمن کا خانہ زاد غلام، دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوستا ہے اور بعض دفعہ بے تاب ہو کر خواہش کرتا ہے کہ کاش میں بھٹیارہ ہو تا مگر شوق نہ ہو تا۔

اردو شعر گو یوں کے ظلم سے تو بچتا باقی رہا چاند تو کچھ تعجب نہیں کہ وہ قطعی طور پر ہجرت کر جائے چند دن شاعروں سے مناظرِ قدرت پر سواری گانٹھنے کی ٹھہرائی تھی بے چارے دشت و کوہسار زخمی ہوئے، بادلوں کے پرخچے اڑے، چاندنی بلبلا اٹھی، تصوف و شاعری بھی شعر کی چکّی میں پس کر سر مہ ہو چکے۔ اس خاک کے اڑنے سے بھی کچھ نہ بنے گا تو آخر اب کیا ہو گا، اسٹرائیک یا ہڑتال۔ ‘2

فلک پیما نے لفظی کرتب بازی سے گریز کر کے ’ مرزا بنو ‘، ’قاضی دیگ بر‘ اور ’میاں چمّو ‘ وغیرہ کر دار تخلیق کئے اور عصری زندگی کو مزاحیہ پیرائے میں منعکس کیا۔

فلک پیما کی تحریروں میں نکتہ آفرینی اور لطف اندوزی کا رجحان انشائیہ نگاری کی فطری صلاحیت کو بروئے کار لایا چنانچہ فلک پیما کی تحریروں کے بیشتر حصے انشائیے کے زمرے میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔

 

حواشی

 

1۔ وزیر آغا، اردو ادب میں طنزو مزاح، ص32

2۔ فلک پیما، مضامینِ فلک پیما، لاہور، 1964، ص82

 

                ۱۲۔ مولانا ابو الکلام آزاد

 

مولانا ابو الکلام آزاد کی جامع الصفات شخصیت میں مقرر، مفسر، مدبّر، فلسفی اور انشائیہ نگار اپنے اپنے آسن جمائے ہوئے نظر آ تے ہوئے۔ ان تمام کی بے نقابی کے لئے مولانا نے الگ الگ پیرایہ اظہار وضع کیا۔ الہلال اور البلاغ کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کا طرزِ نگارش مقبول ہو نے لگا تھا۔ صحافیانہ زبان جس کی پشت پر عصرِ حاضر کے گراں بار مسائل اور کاندھے پر اخبار کی پالیسی کا جوا موجود ہو۔ چوکڑیاں بھر نا بھول جاتی ہے ہرنوں کی طرح آزادانہ قلانچیں مارنا ادبی زبان کا طرہ امتیاز ہے۔

مولانا نے اس دشتِ پر خار میں اپنی انفرادیت کے نقوش ثبت کئے اور اعلیٰ ذوق سے زبان و ادب کی آ بیاری کی۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی خطابت جس جذباتی وارفتگی اور ادبیت کا مرقع ہے اس میں روایتی ناصحین کا انداز نہیں بلکہ ایک مدبر کا اندازِ فکر اور حساس ادیب یا شاعر کے لب و لہجہ کی رعنائیاں موجود ہیں۔ نثر نگاری میں بھی ان کا یہی اسلوب ہے۔ لطیف جذبات و احساسات کے اظہار کی بدولت غبارِ خاطر کے خطوط میں انشائیہ کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔

غبارِ خاطر مولانا کے وہ خطوط ہیں جو انھوں نے 1943سے 1945کے درمیان نواب صدر یار جنگ، مولانا حبیب الرحمٰن شیر وانی کے نام لکھے ان خطوط کی تخلیق میں بعض ایسے عناصر کار فرما ہیں جن کا وجود انشائیہ کی تخلیق کے لئے ازبس ضروری ہے۔ مثلاً انشائیہ نگار شخصی سطح پر وارداتِ قلبی کا انکشاف کرتا ہے جیسے کسی بے تکلف دوست سے اپنی ذہنی ترنگیں بیان کر رہا ہو۔ بعینہ یہی حالت مولانا ابوالکلام آزاد کو اس وقت میسر آ ئی جب قلعہ احمد نگر میں اسیری کے دوران سیاست کی متلاطم ہیجان انگیز لہروں سے نجات حاصل کر نے کے بعد انھیں ایک گوشہ تنہائی میسر آیا۔

ان لمحات میں مولانا کے خیالات، جذبات اور افکار کے پر دوں میں ہو نے والی جنبش ان کے خطو ط میں ریکارڈ ہوئی اور اسی ارتعاش کی اوٹ سے ان کی شخصیات کی جھلکیاں نظر آ تی ہیں۔ ان خطوط میں یہی خود انکشافی انشائیہ نگاری سے عبارت ہے۔ غبارِ خاطر کے خطوط فوراً مکتوب الیہ تک نہیں پہنچے۔ مولانا کے سیکریٹر ی محمّد اجمل خان نے اس سلسلے میں لکھا ہے۔

’قلعہ احمد نگر کے زمانے میں دوستوں سے خط و کتابت کی اجازت نہ تھی اور حضرت مولانا کی کوئی تحریر باہر نہیں جا سکتی تھی۔ پندرہ جون 1945کو جب مولانا رہا ہوئے تو ان مکاتیب کے مکتوب الیہ تک پہنچنے کی راہ بار ہوئی۔ 1

خطوط لکھتے وقت ممکن ہے یہی احساس مکتوب نگاری کی عمومی سطح سے مولانا کو خود کلامی کی سطح تک لے گیا ہے۔ خود کلامی کی اسی کیفیت میں مولانا کے خطوط مکتوب نگاری کی عام ڈگر سے ہٹ کر انشائیہ کی راہ پر چل بڑے۔ مولانا ابوالکلام کے خطوط کا انداز ان کے ہم عصر اور دیگر مشاہیر کے خطوط سے قطعی جدا گانہ ہے۔

ان خطوط میں تنوع اور موضوعات کی رنگارنگی کے علاوہ علمی اور فلسفیانہ مباحث بھی موجود ہیں۔ ان مباحث پر جب مولانا کا قلم اپنی گرفت مضبوط کر نے لگتا ہے تو انشائیہ کا دامن ان کے ہاتھوں سے چھوٹ جاتا ہے، مثلاً غبارِ خاطر کا ایک خط اس طرح شروع ہوتا ہے۔

’ صبح کے ساڑھے تین بجے ہیں۔ اس وقت لکھنے کے لئے قلم اٹھایا تو معلوم ہوا سیاہی ختم ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی خیال آیا کہ سیاہی کی شیشی خالی ہو چکی تھی نئی شیشی منگوانی تھی، مگر منگوانا بھول گیا۔ میں نے سوچا۔ تھوڑا پانی کیوں نہ ڈال دوں ؟

یکایک چائے دانی پر نظر پڑی میں نے تھوڑی سی چائے فنجان میں انڈیلی اور قلم کا منہ اس میں ڈبو کر پچکاری چلا دی پھر اسے اچھی طرح ہلا دیا کہ روشنائی کی دھوون پوری طرح نکل آئے اور اب دیکھئے کہ روشنائی کی جگہ چائے کے تند و گرم عرق سے اپنے نفس ہائے سرد صفحہ قرطاس پر نقش کر رہا ہوں۔ 2‘

اس خالص انشائی بر تاؤ اور چائے سے حاصل ہو نے والی گرمی سے موضوع کو مزید کھلنا چاہئے تھا لیکن اس کے بعد پوری تحریر جس کا سلسلہ اگلے خط سے بھی جڑا ہوا ہے ایک علمی موضوع پر اظہارِ خیال کے تقاضے پورے کر نے میں صرف ہوئی ہے۔

اس کی علمی حیثیت سے قطع نظر اس قسم کے خطوط انشائیہ کا مزاج پیش کر نے سے قاصر ہیں۔ دوم یہ کہ خطوط کا فارم بہر حال خطوط ہی کے زمرے میں شامل کیا جائے گا البتہ ان خطو ط کے بعض حصے انشائیہ کی خصوصیات پیش کرتے ہیں۔ غبارِ خاطر میں زاغ و بلبل، چڑیا چڑے کی کہانی اور چائے کے متعلق مولانا کے تاثرات میں انشائیے کی جھلکیاں نمایاں ہو ئی ہیں۔ اس کا اندازہ حکایاتِ زاغ و بلبل کے اس اقتباس سے کیا جا سکتا ہے۔

’ روز صبح روٹی کے چھوٹے ٹکڑے ہاتھ میں لے کر نکل جاتے اور صحن میں جا کھڑے ہو تے۔ پھر جہاں تک حلق کام دیتا آ ا ا کرتے جاتے اور ٹکڑے فضا کو دکھا دکھا کر پھینکتے رہتے۔ یہ صلائے عام میناؤں کو تو ملتفت نہ کر سکی البتہ شہرستانِ ہوا کے دریوزہ گرانِ ہر جائی یعنی کووں نے ہر طرف سے ہجوم شروع کر دیا۔ میں نے کووں کو شہرستانِ ہوا کا دریوزہ گر اس لئے کہا ہے کہ کبھی انھیں مہمانوں کی طرح کہیں جاتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ اسی عالم میں پایا کہ فقیروں کی طرح ہر دروازے پر پہنچے، صدائیں لگائیں اور چل دئے، فقیرانہ آئے صدا کر چلے۔ 3‘

مولانا آزاد کے خطوط کے متعلق یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مولانا یہ جانتے تھے کہ ان کے مکتوب الیہ تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ غبارِ خاطر میں مولانا نے ہرچند اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کو بے نقاب کیا ہے، مغربی دانشوروں، مسلم اور عیسائی مورخوں کے خیالات کو پیش کیا ہے۔ غبارِ خاطر علم اور واقعات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ اس میں مولانا نے اپنے نہاں خانہ دل کی متاعِ گراں مایہ کی بے نقابی کا بھی اہتمام کیا۔ اپنے دکھ، اپنی تنہائی کو بھی ان خطوط کا حصہ بنایا ہے۔ اس کتاب کا نام بھی اس خود انکشافی کا مظہر ہے جو انشائیہ کا اہم جوہر ہے۔ یہ محض زخموں کی آرٹ گیلری نہیں، ان سانحات کو مولانا نے ایک ایسے روشندان میں تبدیل کر دیا جہاں سے وہ کاروبارِ حیات کو باندازِ دیگر دیکھتے ہیں۔

ان خطوط میں ان کی اہلیہ کی رحلت کے واقعہ پر ان کی سوچوں کی سطح پر ابھرنے والے دائرے ہوں، چائے اور چڑیوں سے متعلق ان کے لطیف احساسات ہوں یا اپنے ہم عصروں کے درمیاں اپنے مقام کا احساس ہو، یہ تمام خطوط انشائیہ کے ایک اہم وصف، انکشافِ ذات کا ادبی اظہار ہیں۔ درج ذیل اقتباسات سے ان خطوط کی انشائی کیفیت کا اندازہ لگ یا جا سکتا ہے۔

۱۔ لوگ بازار میں دکان لگاتے ہیں تو ایسی جگہ ڈھونڈ کر لگاتے ہیں جہاں خریداروں کی بھیڑ لگی ہو۔ میں نے جس دن اپنی دکان لگائی تو ایسی جگہ ڈھونڈ کر لگائی جہاں کم سے کم لوگوں کا گزر ہو سکے۔ فکر و نظر کی عام راہوں میں جس طرف بھی نکلنا پڑا اکیلا ہی نکلنا پڑا، جب مڑ کے دیکھا تو گردِ راہ کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا اور یہ بھی اپنی ہی تیز رفتاری کی اڑائی ہوئی تھی۔

۲۔ اب اس دنیا میں جو قلعے سے باہر ہے اور اس میں جو قلعے کے اندر صرف ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ چشمِ زدن میں یہ بھی طے ہو گیا اور ہم قلعے کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ غور کیجئے تو زندگی کی تمام مسافتوں کا یہی حال ہے۔ خود زندگی اور موت کا باہمی فاصلہ بھی ایک قدم سے زیادہ نہیں ہو تا۔  )غبارِ خاطر (

 

حواشی

1۔ محمد اجمل خان، مقدمہ غبارِ خاطر، ص5

2مولانا ابوالکلام آزاد، غبارِ خاطر، ص147

3۔ مولانا ابوالکلام آزاد، غبارِ خاطر، ص 246

 

                ۱۳۔خواجہ حسن نظامی

 

خواجہ حسن نظامی نے بسیار نویسی کے باوجود اعلیٰ ادبی معیار کو فروغ دیا اور اپنے پیچھے ایک لاثانی اسٹائل چھوڑ گئے۔ خواجہ حسن نظامی نے روزنامچے ادبی اور تنقیدی مضامین کے علاوہ مذہبی موضوعات پر تقریباً تین سو کتابیں تصنیف فر مائیں اور اپنے مخصوص رنگ و آہنگ کو بر قرار رکھا، خواجہ صاحب کی تحریریں کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے جس انشائی حسن کی حامل ہیں ان کے ہم عصروں میں اس کی مثال ملنی دشوار ہے۔ رشید احمد صدیقی نے ان کی طباعی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے۔

’ حقیقت یہ ہے کہ آزاد (محمّد حسین )ابوالکلام اور حسن نظامی کا طرزِ انشا، ان کی ذات ہے صفت نہیں۔ 1

خواجہ حسن نظامی کے مضامین شگفتگی اور زندہ دلی کی مثال ہیں۔ لفظوں کے حرکات و سکنات یا الٹ پھیر سے مزاح کی تخلیق کا رجحان ان کے ہاں نمایاں ہے، اس کے باوجود خواجہ صاحب کا اصل مقصد مزاح کی تخلیق نہیں ہے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں۔

’بعض مضامین کی شوخی کھلی ہوئی ہے بعض کی عبارت اوپر سے سنجیدہ معلوم ہو تی ہے مگر اثر دل پر ظرافت کا ہو تا ہے۔ دانستہ بھی ایسا کیا ہے کہ بعض شوخ مضامین کو رکاکت میں گر جانے کے اندیشے سے متانت کی چادر اڑھا دی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہنسی مذاق میرا کام نہ تھا مگر میں نے محض زبان اردو کی خاطر اس میں دخل دیا اور کچھ لکھا۔ ‘ 2

خواجہ صاحب کے پیشِ نظر وہ مقاصد نہ تھے جن سے طنز و مزاح نگاری یا تنقیدِ حیات یا اصلاحی پروگرام کی راہیں متعین ہو تی ہیں۔ اصلاحِ معاشرہ کی نیت ضرور تھی لیکن وہ باقاعدہ مشن کی شکل اختیار نہ کر سکی یہی وجہ ہے کہ فنّی قدروں کی باگ بھی انھوں نے متانت سے تھامی اور پاؤں بھی رکاب میں رہے۔ خواجہ صاحب کا ادبی ذوق نہایت سلجھا ہوا اور انشائیہ نگاری کی طبعی خصوصیات سے ہم آہنگ تھا۔ ان کے روزنامچے ان کے اندر پوشیدہ فطری انشائیہ نگار کی غمّازی کرتے ہیں۔

خواجہ حسن نظامی کی شخصیت اور ادب کے پلیٹ فارم سے ذاتی کوائف کا اظہار اس دور کے مخصوص حالات میں اجتہاد سے کم نہ تھا، اس پر اعتراضات بھی کئے گئے۔ انھوں نے روزنامچہ کے ذریعے ذاتی زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ شخصی اظہار کا وسیلہ بنایا۔ اسی کو انشائیہ میں اساسی اہمیت حاصل ہے۔

گو ان کے روزنامچے انشائیہ کے معیار پر پورے نہیں اترتے لیکن ان کے اندر چھپے ہوئے فطری انشائیہ نگار کی بے نقابی کے اسباب ضرور مہیا کر گئے۔ خواجہ حسن نظامی کا فن ان مضامین میں اپنے شباب پر نظر آ تا ہے جو آ ج بھی ہمارے ادب میں زندہ جاوید ہیں۔ خصوصاً جھینگر کا جنازہ، الّو، دیا سلائی وغیرہ۔ دیا سلائی کا اقتباس درج ذیل ہے۔

’ آ پ کون ؟ ناچیز تنکا!اسمِ شریف؟ دیا سلائی کہتے ہیں۔ دولت خانہ؟ جناب دولت خانہ اصلی گھر جنگل ویرانہ تھا مگر چند روز سے احمد آباد میں بستی بسائی ہے۔ اور سچ پوچھئے تو یہ ننھا سا کاغذی ہو ٹل جس کو آپ بکس کہتے ہیں اور جو آ پ کی انگلیوں میں دبا ہوا ہے۔ میرا موجودہ ٹھکانہ ہے۔ ۔ ۔

حضرات! آ پ ہزاروں لاکھوں سجدے کرتے ہیں مگر آپ کا سرکش وجود ایسا ہی باقی رہتا ہے مجھ کو دیکھئے کہ ایک ہی سجدے میں مقبول ہو جاتی ہوں اور تجلّی اس چھوٹی سی شکل کو جلا کر خاک کر دیتی ہے۔ ‘ 3

خواجہ حسن نظامی کا اسلوب انشائیہ کے لئے حد درجہ موزوں اور مناسب ہے۔ سلجھا ہوا ذوق، زندہ دلی اور منجھی ہو ئی جہاں دیدہ شخصیت کی چھاپ کا اثر ان کی ہر تحریر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

خواجہ صاحب نے ان مضامین کو ایک زندہ دل صوفی کی نظر دی جو زندگی کے رنگارنگ مناظر کو بچوں کی سی دلچسپی سے دیکھتا ہے۔ اس کی رعنائیوں سے کھلنڈرے نوجوان کی طرح محظوظ ہو تا ہے، ایک فلسفی کے دماغ سے سوچتا ہے اور صاحبِ طرز ادیب کے قلم سے بیان کر دیتا ہے۔ آنسو کی سر گزشت میں لکھتے ہیں۔

’جس دل میں درد نہیں اس کو انسان کے سینے میں نہ رہنا چاہئے۔ آنسو نشانِ درد ہے اور مجھ کو اس کی سرگزشت بہت بھاتی ہے۔ زمانے کی خاطر اس کو قلم بند کر دیا تاکہ سب درد آشنا دلِ دید کا لطف اٹھائیں۔ ‘4

خواجہ حسن نظامی کے مضامین کے عنوانات بھی ندرت اور جاذبیت کے مظہر ہیں۔ مثلاً جھینگر کا جنازہ، الّو، آ نسو کی سر گزشت وغیرہ معمولی اور غیر اہم موضوعات پر انھوں نے فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا اور معمولی چیزوں کے غیر معمولی پہلوؤں کو روشن کر نے کا اہتمام کر کے قطرے میں دجلہ دکھا دیا۔

خواجہ حسن نظامی کے مضامین میں روزنامچوں کی بہ نسبت شخصی اظہار کھل کر نہیں ہوا لیکن اشیاء کے مخفی مفاہیم کو اجاگر کر نے کی کو شش نے ان کی تحریروں کے مختلف حصّوں کو انشائی نثر کا بہترین نمونہ بنا دیا ہے۔

معمولی اشیا کو موضوع بنا کر اظہارِ خیال کا سلیقہ انھیں حاصل تھا وہ اس میں    ایسے انوکھے اور نادر پہلو تلاش کر لیا کرتے تھے جن تک عام نظر کی رسائی دشوار تھی۔ ان موضوعات کے تحت وہ فکر و خیال اور اظہار و بیان کئی دلچسپ اور فکر انگیز پہلو ڈھونڈ نکالتے تھے اور وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں۔ اکثر اشیا مجموعہ اضداد ہیں جن سے تعمیر و تخریب کے دونوں کام لئے جا سکتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کے متعلق ڈاکٹر عظیم الشان صدیقی لکھتے ہیں۔

’خواجہ حسن نظامی سے قبل اگر چہ اردو میں انشائیہ نگاری کی روایت موجود تھی اور محمد حسین آزاد، حالی، سرسید، ذکاء اللہ، محسن الملک وغیرہ کے متعدد انشائیے بھی شائع ہو چکے تھے لیکن ان کے انشائیوں میں فکر انگیزی یا رومانیت کا پہلو زیادہ نمایاں ہے اور انشائیہ کے عناصر کم ہیں لیکن لیکن خواجہ حسن نظامی کے ہاں انشائیہ نگاری کے تمام عناصر متوازن انداز میں موجود ہیں۔ گلاب اور کیکر کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’ گلاب کی ٹہنی میں کیا رکھا ہے ایک کمزور، لچکنے اور ٹوٹ جانے والی شاخ ہے جس کا آ ج کل کے شہ زور زمانے میں بقول ڈارون رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ وقت ان کی زندگانی کا ہے جو ایام کا مقابلہ کر سکتے ہیں جن کے اعضاء دوسروں کے کام آ سکتے ہیں۔ کیکر کا پھول ہفتوں سورج کا مقابلہ کرتا ہے اور آ ج کل تعریف اسی کی ہے جو دشمن کے مقابلے میں زندہ سلامت رہے۔ ‘ (گلاب تمہارا کیکر ہمارا)

 

حواشی

 

1۔ رشید احمد صدیقی، طنزیات و مضحکات، ص123

2۔ خواجہ حسن نظامی، ، طنزیات و مضحکات، ص152

3۔ خواجہ حسن نظامی، ’ دیا سلائی‘، مشمولہ: اردو ایسّیز، ص90

4۔ خواجہ حسن نظامی، ’ آ نسو کی سر گزشت‘، مشمولہ: اردو ایسّیز، ص83

 

 

                ۱۴۔ مرزا فرحت اللہ بیگ

 

بیسویں صدی کے دوسرے اور تیسرے دہے میں ابھر نے والے ظرافت نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ ایک منفرد اسلوب کے مالک ہیں شوخی، ظرافت اور درد مندی سے گوندھا ہوا یہ اسٹائل انشائیہ کی ان زیریں لہروں کی خبر دیتا ہے جو ان کی تحریروں میں رواں دواں ہیں یہ درد مندی ماضی کو اس کی تہذیبی قدروں سمیت چاہے جانے کے نتیجے میں ان کے ہاں نمودار ہوتی ہے۔ ظ۔ انصاری لکھتے ہیں۔

’ مرزا فرحت اللہ بیگ کو ہم نہ پوری طرح مزاح کے خانے میں ڈال سکتے ہیں نہ طنز کے سپر د کر سکتے ہیں طبیعت کی شگفتگی اور نظر کی اداسی نے ان کے ہاں دھوپ چھاؤں کا منظر رکھا ہے۔ ماضی اور اس کی قدریں عزیز ہیں سہانی ہیں مگر آنی جانی ہیں۔ وہ نہ چیختے ہیں نہ کراہتے ہیں، بیان کرتے اور مسکراتے جاتے ہیں۔ 1

’ دلّی کا ایک یادگار مشاعرہ ‘ ہو یا ’ نذیر احمد کی کہانی ‘مرزا فرحت اللہ بیگ ماضی کی تصویروں کو زندہ کرتے کرتے شخصیتوں کے مرقعے پیش کرتے ہیں اور اپنی فطری ذہانت اور کھلنڈرے پن سے انھیں بے نقاب کر دیتے ہیں۔ دلّی کی زبان کا چٹخارہ اور شگفتگی ان کی ظرافت میں ایک رنگ پیدا کر دیتی ہے۔ ان کے متعلق وزیر آغا لکھتے ہیں :

’مرزا فرحت اللہ بیگ کے ہاں وہ بہت سی باتیں ملتی ہیں جو انشائیے کا امتیازی وصف قرار پا چکی ہے مثلاً شگفتہ اندازِ نگارش اور موضوع سے مصنف کا گہرا تعلق۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ فرحت اللہ بیگ کے ہاں بھی دوسرے کرداروں کی عکاسی یا واقعات کا بیان ہی انشائیہ کا غالب عنصر ہے، اور اسی لیے وہ بھی اپنی ذات کے کسی گوشے کو عریاں نہیں کر سکے۔ 2‘

مرزا فرحت اللہ بیگ کا مضمون ’ مردہ بدستِ زندہ ‘ ایک جنازے میں شریک افراد اور دیگر متعلقین کی مختلف النوع زندہ تصویریں رننگ کمنٹری کے روپ میں پیش کرتے ہوئے، صورتِ واقعہ سے حزن وملال کا ملا جلا احساس ابھارتا ہے۔ اسی مضمون کا ایک ا قتباس درج ذیل ہے۔

’ ایک صاحب ہیں کہ قبروں کے کتبے ہی پڑھتے پھر رہے ہیں۔ کچھ نوٹ بھی کرتے جاتے ہیں۔ کوئی اچھا کتبہ مل گیا تو اپنے دوستوں کو بھی آواز دے کر بلا لیا اور بجائے فاتحہ کے دادِ سخن گوئی دی گئی کچھ اپنا کلام سنایا گیا۔ کچھ ان کا سنا، غرض کوئی نہ کوئی مشغلہ وقت گزارنے کا نکال ہی لیا۔ ‘3

مردہ بدستِ زندہ میں مرزا فرحت اللہ بیگ گہرے مشاہدے اور جذبات نگاری کے ذریعے جو تصویر پیش کرتے ہیں اس میں صورتِ واقعہ مزاح پیدا کرتی ہے۔ ان کے مضامین میں انشائی عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :

’تنوع ان کی تحریر کا وصفِ خاص ہے تو شگفتگی ان کے اسلوب کا جوہرِ خاص ہے اور اسی لیے ان میں انشائیہ نگار بننے کی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں اگر چہ انھوں نے اس کی طرف خصوصی توجہ نہ دی تاہم ’اونھ ‘اور ’پِٹنا‘ میں اچھے انشائیے کے تمام خواص موجود ہیں اسی طرح مردہ بدستِ زندہ اگر چہ ایک مخصوص تھیم کا حامل ہے لیکن اس کے اسلوب مین وہ لطیف انداز ملتا ہے جو انشائیہ سے مخصوص سمجھاجاتا ہے۔ ‘4

مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضمون ’ پٹنا ‘ کا ایک اقتباس درج ذیل ہے :

’ اگر اس لفظ کی تاریخ کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ انسان کچھ پٹنے ہی کے لئے پیدا ہوا ہے۔ بچپن میں رونے پر پٹتا ہے۔ لڑکپن میں نہ پڑھنے پر پٹتا ہے، جوانی میں شادی کر کے پٹتا ہے۔ بڑھاپے میں دادا نانا بن کر پٹتا ہے اور کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی اس پٹنے کا سلسلہ مختلف وجوہ اور نئی نئی شکلوں میں جاری رہنے والا ہے۔

جہاں تک منقولی شہادت مل سکتی ہے اس سے ثابت ہے کہ پٹنے کی ابتدا ایک بڑے فرشتے سے ہو ئی یعنی سب شاگردوں نے مل کر اپنے استاد کو ٹھونک دیا، اس سے دو نتیجے نکلتے ہیں، اوّل یہ کہ استاد جو شاگردوں کو پیٹتے ہیں وہ در حقیقت اسی گستاخی کا بدلہ لیتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ اگر کوئی شاگرد اپنے استاد کو مار بیٹھے تو اس کا یہ فعل قابلِ ملامت نہیں بلکہ قابلِ تعریف ہے کیونکہ ایسا کر نا افعالِ انسانی سے بڑھ کر فرشتوں کا فعل ہو جا تا ہے چنانچہ اسی لحاظ سے میں بھی ایک فرشتہ بن چکا ہوں ‘5

فکری تنوع اور آزادانہ سوچ مرزا فرحت اللہ بیگ کا خاصہ ہے۔

چونکہ ان کی اصل توجہ مرقع نگاری اور شخصیات کی ناہمواریوں سے مزاح کی تخلیق پر رہی ہے، اسی لیے اردو انشائیے کو مرزا فرحت اللہ بیگ سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو سکا۔ جس انشائی اسلوب کو انھوں نے عام کیا اس سے ان کے بعد والوں نے استفادہ ضرور کیا۔

 

حواشی

1۔ ظ۔ انصاری، اردو طنز نگاری اور ظرافت کے پندرہ سال، مشمولہ: ماہنامہ شگوفہ،   ہندوستانی مزاح نمبر جلد۔ 18جون 85ص20

2۔ وزیر آغا، خیال پارے، لاہور، 1984، ص19

3۔ فرحت اللہ بیگ، ’ مردہ بدستِ زندہ‘، مشمولہ: اردو ایسّیز، ص 148

4۔ ڈاکٹر سلیم اختر، انشائیہ کی بنیاد، ص122

5۔ فرحت اللہ بیگ، ’ پٹنا‘، مشمولہ: اردو ایسّیز، ص65

 

                ۱۵۔ رشید احمد صدیقی

 

اردو کے مزاح نگاروں میں رشید احمد صدیقی کی ظرافت غیر معمولی ذہانت، زبردست حسِ مزاح، قولِ محال کے کثرتِ استعمال اور فکری توانائی جیسے متنوع عناصر سے مرکب ہے۔ رشید احمد صدیقی کا مزاح پطرس بخاری سے قطعی مختلف قسم کا ہے کیونکہ رشید احمد صدیقی کے مزاح کی بنیاد محض طنز و مزاح کی تخلیق نہیں ہے بلکہ اس سے آ گے کی منزلیں بھی ان کی نظر میں ہیں۔ ان کی تحریروں میں حیاتِ انسانی کی بوالعجبیوں اور مضحکہ خیزیوں کو تاڑنے والی نظر سے زیادہ ایک شوخ ذہن، تقابل و تجزیہ اور تضادات کی تلاش میں غلطاں و پیچاں نظر آ تا ہے۔

رشید احمد صدیقی کے ہاں صورتِ واقعہ سے زیادہ الفاظ کا کھیل مزاح کی تخلیق کا ذریعہ ہے۔ زبان و بیان کی لطافتیں ان کی تحریروں میں تخلیقی لذتوں سے ہم کنار کرتی ہیں۔ وہ شگفتگی اور شوخی کے ساتھ بات سے بات پیدا کرتے ہیں اور ہر بات غور و فکر کی گہرائی لیے ہو تی ہے نکتہ آفرینی کے اسی مرحلے میں ان کے ہاں قولِ محال کا استعمال بکثرت ہوا ہے چنانچہ مونتین اور بیکن کی طرح بلیغ فقرے رشید احمد صدیقی کا مخصوص عطیہ ہے۔

’ اس وقت ہندوستان کو دو خطرات در پیش ہیں ایک سوراج کا اور دوسرے تعلیم یافتہ بیوی کا لیکن غور کیا جائے تو سوراج اور تعلیم یافتہ بیوی دونوں ایک ہی ہیں کیونکہ چارپائیت دونوں حالتوں میں نمایاں ہیں۔ سوراج تو وہ ایسا چاہتا ہے جس میں انگریزوں کو حکومت کر نے اور ہندوستانیوں کو گالی دینے کی آزادی ہو اور بیوی ایسی چاہتا ہے جو بیوی ہو نے سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو یعنی گالیاں دینے سے بہتر تالیاں بجا سکتی ہو۔ ‘1

رشید احمد صدیقی کی مزاح نگاری جن عناصرِ ترکیبی سے عبارت ہے ان میں انشائیہ کے بھی چند خواص سمٹ آئے ہیں گو بحیثیت کل انشائیہ ان کے مضامین میں ساکار نہیں ہو پایا۔ رشید احمد صدیقی کے متعلق اسلوب احمد انصاری رقمطراز ہیں :

’ انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک مخصوص وضع کے انشائیے لکھنے سے کیا جس میں عدم تسلسلDiscontinuity کے عنصر کو ایک ادبی قدر کی حیثیت سے بر تا گیا ہے۔ ان کے مضامین خیالات کے آزاد تلازمے Free Associationسے پیدا شدہ تانے بانے سے مرکب ہیں۔ ‘2

آزاد تلازمہ خیال اور موضوع کے انوکھے پہلوؤں کی تلاش کا عمل رشید احمد صدیقی کو ایک انشائیہ نگار کے روپ میں پیش کرتا ہے یہ عمل یقیناً ان کے ہم عصروں کی بہ نسبت ان کی تحریروں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس طریقہ کار کے ذریعے موضوع کو ایک بالکل ہی نئی معنویت عطا کر نے کا ملکہ رشید احمد صدیقی کو حاصل ہے اس کی نمایاں مثالیں ان کے مضامیں میں بہ آ سانی دستیاب ہیں خصوصاً ’ ارہر کے کھیت‘   ’چارپائی ‘ وغیرہ میں۔

’ کوئی چیز خواہ وہ کہیں گم ہو ہندوستانی اس کی تلاش کی ابتدا چارپائی ہی سے کرتا ہے۔ اس میں ہاتھی، سوئی، بیوی، بچے، روپے پیسے، جوتے کپڑے، موزے، مرغی یا چور کی تخصیص نہیں۔ رات میں کوئی کھٹکا ہوا اس نے چار پائی کے نیچے دیکھنا شروع کر دیا۔ کبھی خود مجرم بننے کی نوبت آئی تو کالا پانی جانے سے پہلے چارپائی کے نیچے دم سادھنے کی مشق بڑھاتے رہے۔

غرض انسانی زندگی کا کوئی فعل ایسا نہیں جس کا ارتکاب چار پائی پر نہ کیا گیا ہو۔ ‘3۔

رشید احمد صدیقی کے مضامین کا ایک غالب رجحان مرقع نگاری ہے۔ مخصوص کرداروں مثلاً لیڈر، عورت، ڈاکٹر، وکیل وغیرہ کے خد و خال اپنے شوخ قلم سے نمایاں کئے ہیں ان میں سے اکثر کردار آ رکی ٹیپیکل ہیں ان کرداروں کو طنز و مزاح کا ہدف بنانے اور تخلیقی سطح پر زبان و بیان کی لذتیں کشید کر نے کا عمل رشید احمد صدیقی کے مضامین کا بنیادی محرک ہے چنانچہ خود انکشافی کا پہلو ان کے ہاں تشنہ رہا ہے۔ رشید احمد صدیقی کے مضامین کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :

’رشید احمد صدیقی کے ہاں اگر چہ طنزیہ انداز غالب ہے اور ان کے مزاح کی اساس لفظی الٹ پھیر پر بھی قائم ہے تاہم ان کے مضامین میں کہیں کہیں انشائیے کے تیور ضرور مل جاتے ہیں ‘۔ 4

رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں ہر دوسرا فقرہ کھنچی ہوئی کمان کی طرح نظر آ تا ہے اور تیر کی طرح چھوٹتا ہے چنانچہ مجموعی طور پر ان کے مضامین میں غیر رسمی گفتگو کا انداز اور بے تکلف فضا میں اپنے نہاں خانہ ذات کو نمایاں کر نے کی کوششیں مفقود ہیں یہ تمام خصوصیات انشائیہ کی بنیاد قرار دی گئی ہیں۔ رشید احمد صدیقی کے ہاں یہ صفات خال خال ہی دستیاب ہوتی ہیں۔

 

حواشی

 

1۔ رشید احمد صدیقی، ’چارپائی ‘، مشمولہ: اردو ایسّیز، ص152

2۔ اسلوب احمد انصاری، حرفے چند، مشمولہ، ششماہی نقد و نظر، رشید احمد صدیقی نمبر،      جلد، شمارہ1ص3

3۔ رشید احمد صدیقی، ’چارپائی ‘، مشمولہ: اردو ایسّیز، ص152

4۔ وزیر آغا، خیال پارے، لاہور، ، ص9

 

 

                ۱۶۔ پطرس بخاری

 

ظرافت نگاری کا علمبردار اخبار اودھ پنچ جو1877میں شائع ہوا اردو میں طنز و مزاح کے ایک مخصوص اسٹا ئل کی بنیاد ڈال گیا۔ آ گے چل کر یہی انداز اس کی پہچان بن گیا۔ اودھ پنچ کے زیرِ سایہ ابھر نے والے فنکاروں نے اس اسلوب کو خوب چمکایا۔ مدِّ مقابل کو پھبتیوں، کٹیلے طنز اور فلک شگاف قہقہوں کی زد پر لے کر بر محل مزاح کی تخلیق کا یہ پیرایہ جسے اودھ پنچ نے عام کیا اپنے متعین ہدف یعنی انگریز اور مغربی تہذیب کی ہجو اور استہزاء کے مقصد کو یقیناً پورا کرتا تھا ادبی نکتہ نظر سے اسے ظرافت کا اعلیٰ معیار نہیں قرار دیا جاتا کیونکہ طنز و مزاح کی تخلیق سے زیاد ہ اس تحریک کا زور تمسخر، بذلہ سنجی، پھکّڑ پن اور ابتذال پر تھا۔ اودھ پنچ سے منسلک لوگوں میں بعض نے انگریزی ظرافت کا مطالعہ کر کے اسے برتا بھی، مثلاً رتن ناتھ سر شار کا کر دار خوجی ڈان کوئکزاٹ Don Quixote سے اور سجّاد حسین کا حاجی بغلول ڈکنس کے پکوک پیپرس Pickwick’s Papers سے ماخوذ ہے۔ اس کے باوجود پطرس نے مغربی طنز و مزاح کے رکھ رکھاؤ کو جس خوبی سے اردو میں منتقل کیا اس سے قبل اس کی مثال ملنی محال ہے۔ ظ۔ انصاری لکھتے ہیں :

’ پطرس اردو کے ظریفانہ ادب میں واحد شخصیت ہے جنھوں نے ٹائپ کیریکٹروں اور تصویروں پر طنز کی نیت سے ہلکے پھلکے مزاحیہ مضامین لکھے اور انگریزی ادب کی مہذب شوخی کو اردو سے روشناس کیا۔ 1

پطرس کے مضامین پڑھ کر محسوس ہو تا ہے گویا عہدِ اودھ پنچ کے کوہستانی مرحلے سے اچھلتا کودتا طنز و مزاح کا دریا پطرس کی تحریروں میں آ کر میدانی علاقے سے گزرتے ہوئے پر سکون ہو گیا ہے ظرافت ایک تہذیبی سر گر می کے طور پر وجود میں آ تی ہے اور یہی ظرافت کا اعلیٰ معیار بھی ہے گویا لفظی کرتب بازی، پھکّڑ پن اور ابتذال سے بلند تر سطح پر بہتر طنز و مزاح کی تخلیق ہوا کرتی ہے۔

انشائیہ اس سے بھی ارفع تر ایک اور سطح کا متلاشی ہے اسی لئے انشائیہ کی تحریک زیر، لب تبسم سے تجاوز کر کے فکر و نظر کے تھمے پانی میں کنکر پھینک کر پھیلتے ہوئے دائرے ابھارتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیہ کا اسلوب اس تناؤ سے بھی خالی ہو جا تا ہے جو طنز و مزاح میں ہیجانی لہریں برپا کرتا ہے۔ ان لہروں کے پر سکون ہونے پر ہنسی وجود میں آ تی ہے۔

اس صورتِ حال کو مدِّ نظر رکھیں تو رشید احمد صدیقی کا قد بحیثیت انشائیہ نگار پطرس سے اونچا ہے۔ پطرس کی اکلوتی کتاب’ پطرس کے مضامین ‘ بیکن کے مجموعے Bacon’s Essays کی یاد دلاتی ہے پطرس کے یہاں ’میں ‘ اور ’ہم‘ کے صیغوں کا استعمال اور تجربات و مشاہدات کی پیشکش کا سلیقہ بھی بیکن اور مانتین سے مماثلت رکھتا ہے لیکن پطرس کا تخلیقی سفر اپنی ذات کے جہانِ نو کی خبر لانے کے برعکس باہر کی دنیا کی خبر لیتا ہے۔ جس راستے کا انتخاب کرتا ہے وہ بجائے انشائیے کے طنز و ظرافت کی وادی کی طرف جاتا ہے۔ پطرس کے مضمون کتّے کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے :

’علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سر کھپاتے رہے مگر کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آ خر کتّوں کا فائدہ کیا ہے ؟ گائے کو لیجئے دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجئے دودھ دیتی ہے اور کچھ مینگنیاں بھی، یہ کتے کیا کرتے ہیں ؟ کہنے لگے کہ کتا وفادار جانور ہے اب جناب اگر وفاداری اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے جو بھونکنا شروع کیا تو لگا تار بغیر دم لئے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے تو ہم لنڈورے ہی بھلے ‘۔ 2

اس میں مصنف کی سنبھلی سنبھلی طبیعت اور کتوں کے متعلق اس کا رویہ اندازِ گفتگو ہی سے آ شکار ہے۔ قاری کو اعتماد میں لے لینے والا گفتگو کا یہ انداز After Dinner monologue کی سی کیفیت لئے ہوئے ہے، علاوہ ازیں اظہارِ خیال کی آزاد رو جو پورے مضمون میں جاری و ساری ہے، اردو میں پہلی مرتبہ اس موضوع کو ایک نئے زاویے سے روشن کر گئی ہے۔ یہاں پطرس بحیثیت انشائیہ نگار سامنے آ تا ہے البتہ میں اور ہم کے صیغوں اور شخصی تجربات اور مشاہدات کی پیش کش کے باوجود پطرس کے مضامین میں انکشافِ ذات کا پہلو عنقا ہے۔ خورشید الاسلام نے ا سی جانب اشارہ کیا ہے۔

’ پطرس روزمرہ کی زندگی کو ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں وہ تماشا دیکھتے ہیں خود تماشا نہیں بنتے۔ 3

مضمون کتّے میں پطرس کا فن جس عروج پر ہے اس کی جان پطرس کا بے مثال طنز ہے۔ خاص طور پر کتّو ں کے بھونکنے کو مشاعرے کے پس منظر میں رکھ کر دودھاری تلوار بنادیاجس کی زد پر کتّے بھی ہیں اور مشاعرے بھی۔ صورتِ واقعہ اور شخصی بر ہمی کے اتصال سے جنم لینے والی ہیجانی کیفیت کو تلخ گوئی سے بچا کر بڑے مہذب انداز میں صبر و تحمّل اور توازن کے ساتھ بھر پور مزاح کی تخلیق میں صَرف کر نا پطرس کا کمال ہے۔

بنیادی طور پر پطرس مزاح نگار ہے صورتِ واقعہ سے مضحکہ خیزیوں کو نمایاں کر کے مزاح پیدا کرنے کا رجحان اس کے مضامین میں پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ جزئیات نگاری، مبالغہ اور تخیل کا استعمال بھی اسی مقصد کے لئے کیا گیا ہے۔ پطرس مزاح نگار کے فرائض کو فراموش نہیں کرتا اس کے ہاں انشائیے کا جو دوسرا پہلو ابھر نہیں پایا اس کا سبب طنز و مزاح کے ہتھیاروں سے لیس اس کا اسلوب ہے، جو انشائیے کے ساتھ انصاف کرنے سے قاصر ہے۔ اس ضمن میں جوگیندر پال لکھتے ہیں :

’ پطرس کے یہاں طنز و مزاح کی پر کار باریکیوں کے با وصف مثالی انشائیے کے لوازم ابھر کر نہیں آئے۔ انشائیہ نگار کو اس خوبی پر حاوی ہو نا چاہئے۔ ڈبکیوں سے تھک جانے پر وہ سطح آ ب پر اپنے آ پ کو ڈھیلا چھوڑ دے اور مزے سے فلوٹ کرتا ہوا دکھے۔ ہمہ دم کرشمہ سازی کی چاہ سے انشائیہ کی روح بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ پطرس سے ایک یہی نہ ہو پایا کہ اپنے آ پ کو ایک ذراسی ڈھیل دے پائیں ان کا شائستہ تیکھا پن ان کی طبع زاد جینیس کا بڑا دل پسند نمائندہ ہے مگر مغرب کے ان تربیت یافتہ پروفیسر صاحب کو اپنے ہی گھر میں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جاتے ہوئے یہ کھٹکا لگا رہتا کہ ان کے لباس میں کہیں شکن تو نہیں آ گیا، 4

ہمارے بیشتر مزاح نگاروں کی طرح پطرس کے مضامین میں بھی لطیف اور سبک انشائیہ آلاتِ حرب سے لیس طنز و مزاح کے مقابل نہتا کھڑا نظر آ تا ہے۔ اس معرکہ میں اولیت بھی شمشیر و سنان کو حاصل ہو تی ہے اسی گروہ کی فتح میں مزاح نگار کی بھی کامرانی پوشیدہ ہے۔ اسی لئے پطرس ہمارے یہاں ایک کامیاب مزاح نگار کے طور پر مقبول ہے۔

 

حواشی

 

1۔ ظ۔ انصاری، اردو طنز نگاری اور ظرافت کے پندرہ بیس سال، مشمولہ: ماہنامہ شگوفہ، ہندوستانی مزاح نمبر۔ جون 85ص21

2۔ پطرس بخاری، کتے، مضامینِ پطرس، لکھنو، 1976، ص33

3۔ خورشید الاسلام، اردو میں ظرافت، مشمولہ : طنز و مزاح تاریخ و تنقید، از ڈاکٹر طاہر تونسوی۔ ص23

4۔ جوگیندر پال، وزیر آغا کی انشائیہ نگاری، مطبوعہ، شیرازہ، سری نگر، مارچ87، ص، 18

 

 

                ۱۶۔ کرشن چندر

 

پطرس بخاری نے ظرافت نگاری کے جس اسلوب کی بنیاد ڈالی تھی اسے بعد میں آ نے والے ادیبوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس میں نئے رنگ و آہنگ کا اضافہ ہوا، سیاست اور سماجی زندگی کے نئے اقتباسات اس میں شامل ہوئے، معاشرتی زندگی کی عکاسی، زندگی کی ناہمواریوں کو ترچھی نظرسے دیکھنے کا انداز اور اس منظر نامہ کو شوخ رنگوں سے سجانے والے مزاح نگاروں کی ترجیحات اور متنوع موضوعات پر نگاہ ڈالیں تو محسوس ہو تا ہے کہ پطرس بخاری ایک ریلوے جنکشن کی مانند ہیں، جہاں سے مختلف سمتوں میں ظرافت نگاروں کے قدموں کی گلکاری کے نشانات دکھائی دیتے ہیں۔

آزادیِ ہند کے بعد رونما ہو نے والی انقلابی تبدیلیوں نے ہمارے ادیبوں کو سماجی حقیقت نگاری کے کام پر لگا دیا۔ ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے یہ کرشن چندر کا وظیفہ   حیات ہی تھا کہ اس کے وسیلے سے وہ سماجی نا ہمواریوں اور نا انصافیوں کو بے نقاب کریں اس کام کے لئے طنز و مزاح ایک زبردست کا ر گر ہتھیار تھا۔ کرشن چندر کا افسانہ نگاری کے ساتھ طنز و مزاح کی وادی میں نکل آ نا ان کے اس مشن کا فطری تقاضا تھا جسے ہم ترقی پسندی کے نام سے جانتے ہیں۔

طنز و مزاح کا یہ انداز دراصل ان تابڑ توڑ حملوں سے عبارت تھا جس کا ہدف بے درد زمانہ، سامراجیت، بیوروکریسی اور سیاست تھی۔ اس، قبیل کے طنز و مزاح نگاروں نے عوام کی حالتِ زار کو شگفتگی کے ذریعے نمایاں کیا، ان تمام ستم ظریفیوں کو جن سے اس ملک کی عوام دوچار تھی ظرافت کے دائرے میں سمیٹ لیا۔ اس قافلہ میں شامل ادیبوں میں کرشن چندر، ، کنہیا لال کپور، فکر تونسوی، ابراہیم جلیس، عاتق شاہ۔ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ فکر و نظر، اندازِ تحریر اور بر تاؤ کے اعتبار سے ان میں سماجی حسیت ایک قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔

کرشن چندر کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے طنزیہ مضامین کے چھوٹے چھوٹے پیمانوں سے ساقی گری پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ’ایک گدھے کی سرگزشت‘،    ’ایک گدھے کی واپسی‘اور، ’ایک گدھا نیفا میں ‘جیسی خالص ظریفانہ تصانیف کے ذریعے اردو ظرافت کو ایک بڑا کینواس مہیا کر دیا جس میں اس عہد کے بھارت کی وہ تصویر ابھر ی جس میں خواب و حقیقت، شوخی و شرارت، سنجیدگی و قطعیت اور مبالغہ جیسے متضاد عناصر باہم دست و گریباں ہیں۔ ان مزاحیہ ناولوں کے علاوہ کرشن چندر نے بچو ں کے لئے لکھے گئے ناول ’الٹا درخت ‘اور ’چڑیوں کی الف لیلیٰ ‘نیز اپنے مشہور ڈرامے ’ دروازے کھول دو ‘اور دیگر ڈراموں میں بھی مزاح کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ کرشن چندر دیگر ترقی پسند مزاح نگاروں سے یوں بھی مختلف ہے کہ اس کے ہاں طنز سے زیادہ مزاح کی فراوانی ہے، محض تضادات کی دریافت سے مزاح پیدا کرنے کے بجائے، کرشن چندر مضحکہ خیز صورتِ حال کے انکشاف کو مزاح کی بنیاد بناتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صفدر رقمطراز ہیں :

’کرشن چندر سطحی تضادات کے بیان سے مزاح پیدا کر نے کی کو شش نہیں کرتے جو ہم رات دن مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ جو باتیں بظاہر مضحک نہیں معلوم ہوتیں، ان کے گرد ایسی فضا خلق کرتے ہیں جن میں ان باتوں کا مضحک پہلو روشن ہو جا تا ہے۔ یہ تخلیقی رویہ اردو طنزو مزاح نگاروں میں ناپید نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ مثلاً وٹامن غذا کا ایک اہم جزو ہے مگر غذا کے ایسے حصوں میں پائے جاتے ہیں جو مصنف کے لئے پرکشش نہیں چنانچہ لکھتے ہیں۔

’ وٹامن سیب کے گودے میں نہیں سیب کے چھلکے میں ہو تا ہے۔ ناشپاتی کے خول میں ہو تا ہے۔ سنگترے کے ریشوں میں ہوتا ہے۔ آم کے روئیں میں ہو تا ہے۔ ڈاکٹر لوگ اصرار کرتے ہیں کہ روٹی پکاتے وقت گیہوں کے آٹے سے بھوسی کو الگ نہیں کرنی چاہئے۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ میں اپنے مہمانوں کو جو اکثر وٹامن کے عاشق ہو تے ہیں بڑی آ ؤ بھگت کرتا ہوں، خود سیب کا گودا کھاتا ہوں انھیں چھلکے کھانے کو دیتا ہوں۔ خود چاول کھاتا ہوں، ان کے کئے بھوسے کی روٹی میز پر رکھتا ہوں، ( وٹامن)۔ ۱

کرشن چندر کی تخلیقات انسانی دوستی، سماجی شعور اور ترقّی پسندتحریک کے معتقدات کی عکاسی کے علاوہ اپنے منفرد اسٹائل شگفتگی، لطافت اور شاعرانہ نثر کے سبب بھی پہچانی جاتی ہیں۔ کرشن چندر کے ہاں تخیل عقلیت پسندی، رومانیت اور عصری زندگی کے حقائق کا شعور جیسے متضاد عناصر نے مل کر اظہار کی سطح پر لطیف اور شاعرانہ نثر کا منفرد اسلوب پیدا کیا۔ اس کے طرزِ تحریر کی اسی خصوصیت کے متعلق ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں۔

’ اگر شعری نثر کی کوئی صنف مانی جائے تو کرشن چندر کی نثر اس کا سب سے خوش آ ئند نمونہ ہو گی۔ مقصدیت کے ساتھ ادبِ لطیف کی شعریت کو سمودینا کرشن چندر ہی کا کارنامہ تھا۔ ‘1

ڈاکٹر گیان چند کی یہ رائے کرشن چندر کی ابتدائی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں پر تو صادق آتی ہے خصوصاً کرشن چندر کے مضامین کا مجموعہ ’ ہوائی قلعے ‘ جو 1940میں شائع ہوا تھا۔ ادبِ لطیف کی شعریت اور انشائی ادب کے کامیاب نمونے پیش کرتا ہے لیکن اس کے بعد جوں جوں اس کی تحریروں میں مقصدیت بڑھتی گئی لطافت کا یہ عنصر کم ہو تا گیا اور مخصوص زاویہ نگاہ کے اثر عصری زندگیوں کی ناہمواریوں اور سرمایہ داری کی قباحتوں کو بے نقاب کر نے کے مشن نے کرشن چندر کے ہاتھوں میں طنز کا نشتر تھما دیا۔ اس بے رحم آ لہ کو اس نے ’ایک گدھے کی سرگزشت ‘اور اسی سلسلے کی تخلیقات میں کامیابی کے ساتھ آزمایا۔ ’ہوائی قلعے ‘ کی لطافت گھٹتی گئی۔

کرشن چندر کے ہاں انشائیے کے نام پر فقط اسلوب کی چاشنی ہی نہیں ہے بلکہ وہ بنیادی عناصر بھی موجود ہیں جن کا تعلق فکر و فن سے ہے اور ان ہی سے انشائیہ کا اندرونی تار و پود تشکیل پا تا ہے۔ ان عناصر سے مراد آزادیِ فکر، تنوع، تخیل آفرینی اور ندرتِ خیال ہے۔ کرشن چندر کی تحریریں عام طور پر رومانی فضا میں سانس لیتی ہے۔ خیالات کی پھسلتی ہو ئی ردا متنو ع عناصر سے دل کش تصویریں ابھارتی ہے۔

’ ایک لڑکی بگھارتی ہے دال‘ میں لکھتے ہیں۔

’ پہلی بار جب اس دال کی کٹوری میری تھالی میں آ ئی تو میں نے آہستہ سے چمچہ ڈال کر ٹٹولا کچھ پتہ نہ چلا کون سی دال ہے پھر انگلی پھیر کر معلوم کر نے کی کوشش کی ناکام رہا۔ ناچار نیکر پہن کر کٹوری میں اتر گیا گھنٹہ بھر کی ناکام شناوری کے بعد پیندے میں کہیں سے دال کا ایک دانہ ملا۔ اس دال میں دانہ کم ہو تا ہے پانی زیادہ۔ آ ب و دانہ کی ترکیب غالباً اسی گجراتی دال نے سجھائی ہے۔ پھر وہ جملہ بھی یاد آیا کہ دانے دانے پر لکھا ہے کھانے والے کا نام۔ غالباً ایسی ہر کٹوری پر دال کا ایک دانہ ڈال دیا جاتا ہے اور ڈالنے سے پہلے اس پر مہمان کا نام چھاپ دیا جاتا ہے یا چپکا دیا جاتا ہے۔ تس پر میں نے صبر کیا اور کٹوری اٹھا کر دال کا سارا پانی پی لیا اور پینے کے بعد خدا کا شکر ادا کیا کہ اپنے حصّے میں یہی دانہ پانی مقسوم تھا۔ ‘ 2

جس مضمون سے یہ اقتباس ماخوذ ہے وہ کرشن چندر کی آخری تحریر ہے۔ ’ ہوائی قلعے میں وارداتِ قلبی بڑے لطیف پیرائے میں بیان ہو ئی ہے۔ ’ میں ‘ کا صیغہ ان مضامین میں مشاہدات و تجربات سے حیرت انگیز نتائج اخذ کر کے مسرت بہم پہنچاتا ہے بعد میں جب کرشن چندر کے اندر کمٹمنٹ کی روح داخل ہوئی انشائیہ زوال پذیر ہو گیا اور میں کی زبانی آپ بیتی کے بجائے جگ بیتی نشر ہونے لگی اس کا ذریعہ اظہار سماجی طنز تھا۔ انشائیہ کی داخلی کیفیت کو مخصوص زاویہ نگاہ اور مقصدیت نے نیست و نابود کر دینے کی حد تک نقصان پہنچایا تاہم کرشن چندر کی تحریریں اپنی طبعی خصوصیات کے سبب بعض انشائی عناصر کو آ خر تک نبھاتی رہیں۔ ہوائی قلعے میں شامل ایک مضمون ’غسلیات کا ایک اقتباس درج ذیل ہے :

’ بہت سے بچوں کا نفسیاتی تجزیہ کر نے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نہانے کی رسم پتھر کے زمانہ بلکہ اس سے بھی بہت پہلے زمانہ کی یاد گار ہے جب کہ اس کرہ ارض پر صرف پانی ہی پانی تھا۔ آ ہستہ آ ہستہ اس پانی میں مچھلیاں، مینڈک، گھڑیال اور مگر مچھ پیدا ہوئے اور تخلیقِ حیات کے مختلف منازل طے کرتے ہوئے مختلف انواع ارتقائی درجوں کے بعد انسان کی موجودہ صورت کو پہنچے، چنانچہ آ ج بھی بیسویں صدی کا بچّہ جب ٹب میں پڑے پڑے چلا اٹھتا ہے تو یقیناً پانی کے ٹھنڈے ہو نے کی شکایت نہیں کرتا بلکہ اس آ بی زمانہ کی وحشی رسم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے جس کے نام سے ڈارون کا نام ہمیشہ کے لیے وابستہ ہے۔ ‘3

 

حواشی

 

1۔ ڈاکٹر گیان چند، کرشن چندرا ایک تاثر، مطبوعہ : شاعر، کرشن چندر نمبر، ممبئی 77    ص23

2۔ کرشن چندر، ایک لڑکی بگھارتی ہے دال، مطبوعہ : شاعر، کرشن چندر نمبر، ممبئی، 77    ص14

3۔ غسلیات، کرشن چندر، صنفِ انشائیہ اور انشائیے، ڈاکٹر سید محمد حسنین 1973   ص127

 

 

                ۱۷۔ اکبر علی قاصد

 

اکبر علی قاصد کے مضامین کا مجموعہ’ ترنگ ‘شائع ہوا تو اختر اورینوی نے اس کے دیباچہ میں واضح طور پر انشائیہ کے متعلق اظہارِ خیال کیا اور اس کے خد و خال کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے یہ باور کروانے کی کو شش کی کہ انشائیہ ہمارے ہاں دستیاب مضامین سے مختلف قسم کی تحریر ہے اس کا مزاج الگ ہے۔ اس کے فنی تقاضے جدا ہیں چنانچہ اکبر علی قاصد کے مجموعے میں شامل اختر اورینوی کی رائے اردو میں انشائیے کا اولین واضح تعارف سمجھی جاتی ہے۔ جس کتاب کے ضمن میں یہ تعارف منظرِ عام پر آیا اسے بھی انشائیہ کہا گیا گو عمومی طور پر اختر اورینوی انشائیہ کو مغرب کی چیز خیال کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ:

’انشائیہ نگاری مضمون نویسی ہی کی ایک خاص صنف ہے اور یہ پھلجھڑی مشرق میں چھوٹتی نظر نہیں آ تی۔ ‘

ٍ        ایک اجنبی پیرایہ اظہار کے اس تعارف کے باوجود اکبر علی قاصد کے مضامین کسی نئے طرزِ ادا یا اسلوب کی بشارت نہ بن پائے کہ ا ن میں طنزیہ مزاحیہ تحریروں کا وہی روایتی انداز اور واقعاتِ زندگی کی ناہمواریوں سے ظرافت کی تخلیق کا رجحان نمایاں نظر آ تا ہے۔ اس کا اندازہ ذیل کے اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔

’ میں ان دنوں غالباً دسویں جماعت میں پڑھا کرتا تھا اسکول سے فوراً ہی چھٹّی ہو ئی تھی اور میں آ ہستہ خرامی کرتا ہوا گھر کی طرف آ رہا تھا۔ سامنے موڑ پر ایک موٹر سائیکل چمکی اور پھٹ پھٹاپھٹ کرتی ہوئی تیزی سے آ گے آ تی گئی، ایک دیہاتی بے چارہ زمین پر اپنی گٹھری رکھ کر سڑک کے کنارے ذرا دم لینے بیٹھا تھا کہ سائیکل سوار کی نظر دیہاتی پر پڑی اور وہاں سے پھسل کر اس کی گٹھری پر، پھر کیا تھا رفتار کم ہوئی، نزدیک پہنچتے ہی مسخرے نے ایک ہاتھ سے گٹھری اٹھا لی اور سائیکل یہ جا وہ جا۔ 1

 

حوالہ

 

1۔ علی اکبر قاصد، ’ موٹر سائیکل، صنف انشائیہ اور انشائیے مرتبہ : سید محمد حسنین ص139

 

 

                ۱۸۔ مشتاق احمد یو سفی

 

مشتاق احمد یوسفی بلاشبہ اردو کے صفِ اول کے مزاح نگاروں میں شامل ہیں۔ ان کے ہاں مزاح اور طنز کا زبردست استعمال وافر مقدار میں ہوا ہے۔ انھوں نے نہ صرف چراغ تلے میں شامل مضامین میں بلکہ زر گزشت، آبِ گم اور شامِ شہر یاراں کے طویل بیانیہ کو مسلسل قہقہوں سے سجایا اور ظرافت کے متعدد وسائل کا بخوبی استعمال کر کے جس تخلیقی قوت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال اردو ادب میں ملنی محال ہے۔ بقول ابنِ انشا بچھو کا کاٹا روتا ہے، سانپ کا کاٹا سوتا ہے اور یوسفی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔ یوسف ناظم نے لکھا تھا ہم اردو ظرافت کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔

انشائیوں کے مجموعوں میں ہمیں مشتاق احمد یو سفی کے مضامین نظر آتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے مزاح پیدا کر نے کے لئے ایسے موضوعات اور عام موضوعات کے ایسے انوکھے پہلو چنے جن پر کسی نے اس طرح کی چونکانے والی باتیں نہ کی ہوں گی۔ ان کا مزاح اکثر توقع کے ٹوٹنے اور کسی ایسے مزاحیہ پہلو کے بر آ مد ہونے سے پیدا ہو تا ہے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ قاری ان کی تحریروں کے مطالعے کے دوران سوچ کے ایک جہانِ امکاں سے گزرتے ہوئے حیرت اور مسرت سے دوچار ہو تا ہے۔ مثلاًسنہ سے متعلق جن بوالعجبیوں کو انھوں نے اپنی پر لطف زبان میں بیان کیا ہے ہم سب ان سے گزرتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں لیکن اسے خالص ظریفانہ رنگ میں جادو بیانی کی شکل دینا مشتاق احمد یو سفی ہی کا حصہ ہے۔

بھولے بھالے بچوں کو جب یہ بتایا جا تا ہے کہ روم کی داغ بیل ۷۵۳ قبل مسیح میں پڑی تو وہ ننھے ننھے ہاتھ اٹھا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگو ں کو یہ پتہ کیسے چل گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے پیدا ہو نے میں ابھی سات سو سال باقی ہیں۔ ان کی سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ ۷۵۳ ق م کو ساتویں صدی شمار کریں یا آٹھویں۔ عقلمند استاد ان جاہلانہ سوالات کا جواب عموماً خاموشی سے دیتے ہیں۔ آگے چل کر جب یہی بچے پڑھتے ہیں کہ سکندر ۳۵۶ ق۔ م۔ میں پیدا ہوا اور ۳۲۳ق۔ م۔ میں فوت ہوا تو وہ اسے کتابت کی غلطی سمجھتے ہوئے استاد سے پوچھتے ہیں کہ یہ بادشاہ پیدا ہو نے سے پہلے کس طرح مرا۔ استاد جواب دیتا ہے کہ پیارے بچو! اگلے وقتوں میں ظالم بادشاہ اسی مرا کرتے تھے۔

مشتاق احمد یوسفی کے مضامین میں اشیا کو ان کے مضحک پہلوؤں سمیت بیان کرنے کے ساتھ ہی ان چیزوں سے منسلک دیگر خیالات کی پیش کش میں جس تخلیقی انداز کی کارفرمائی نظر آتی ہے اس سے ان کی تحریریں انشائی کیفیت کا مظاہرہ کرتی ہے۔

’اب جو پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو یک گو نہ افسوس ہو تا ہے کہ عمرِ عزیز کی پندرہ سولہ بہاریں اور میوہ ہائے باغِ جوانی اسی سالانہ جان کنی کی نذر ہو گئی یادش بخیر وہ سلونا موسم جس کو اگلے وقتوں کی زبان میں جوانی کی راتیں مرادوں کے دن کہتے ہیں۔ شاہجہاں کے چاروں لڑکوں کی لڑائیاں اور فرانس کے تلے اوپر اٹھارہ لوئیوں کے سن ولادت و وفات یاد کر نے میں بسر ہو ا۔ ‘1

ان تمام حقائق کے باوجود مشتاق احمد یو سفی بنیادی طور پر ایک طنز و مزاح نگار ہیں کہ ان کا ہرتیسرا جملہ قہقہہ بردوش یا طنز کے تیر سے لیس ہے۔ ہمارے جذبات کو چھو لینے والے جملے بھی پے بہ پے وارد ہو تے ہیں۔ ان کی تحریریں ہمیں مختلف کیفیات کی سرنگوں سے گزارتی ہیں۔ یہی کیفیت کم و بیش ابنِ انشا، مجتبیٰ حسین اور خامہ بگوش کی ظرافت میں بھی پا ئی جاتی ہے۔ مزاح ان کی تخلیقات کا جزو اعظم ہے اور اس سے بھی قوی ان کا طنز ہے اور یہی دو عناصر ان کی ظرافت کا مجموعی کر دار طے کرتے ہیں۔

 

حوالہ

1۔ مشتاق احمد یوسفی ، سنہ بحوالہ اردو انشائیہ، ڈاکٹر آ دم شیخ ۔ ص۱۶۶

 

                ۱۹۔ مجتبیٰ حسین

 

ہمارے عہد کے مزاح نگاروں میں مجتبیٰ حسین نے ظرافت کا جو اعلیٰ معیار قائم کیا ہے وہ ان کے ادبی مرتبے کا ضامن ہے۔ ان کی ظرافت تہہ در تہہ معنویت اور ہلکے سوز و گداز کے ساتھ لہجے کی متانت قائم رکھتے ہوئے شگفتگی اور سنجیدگی میں طنز کا کٹیلا پن پوشیدہ رکھتی ہے۔ مجتبیٰ حسین کے منفرد اسلوب کا یہی وصفِ خاص ان کے تقریباً سبھی ظریفانہ مضامین اور خصوصاً مزاحیہ خاکوں میں بھی پایا جاتا ہے ان کے ہاں انشائیہ ایک تہہ نشین موج کی طرح رواں دواں نظر آتا ہے البتہ مزاحیہ تحریروں میں طنز کی جراحت خالصتاً طنز و مزاح کا پیرایہ اختیار کرتی ہے۔

مجتبیٰ حسین کے مضامین میں A loose sally of mindکا بھی نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ان مضامین میں ’ میں ‘ کا صیغہ کثرت سے وارد ہو نے کے باوجود اظہارِ ذات کی وہ شرائط پوری نہیں کرتا، جس سے انشائیہ کا پورا تار و پود نمو پاتا ہے۔ البتہ چند مضامین میں وہ اسے انشائیہ نگار کے شخصی تاثرات کے اظہار کا ذریعہ بناچکے ہیں مثلاً ’ساحلوں سے کہوں میں نہیں آؤں گا‘ میں لکھتے ہیں :

’مجھے کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے زندگی کا واحد مقصد اب یہ رہ گیا ہے کہ سانسوں کے تسلسل کو خواہ مخواہ اکیسویں صدی تک لے جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ہم لوگ بھی اب اس طرح زندگی گزار رہے ہیں جیسے بنا چینی کی چائے میں چمچہ چلا رہے ہوں۔ ۔ چمچہ ہے کہ چلتا جا رہا ہے اور چائے ہے کہ میٹھی ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ۔ ۔ ۔ اب میں وقت کی چھلنی میں بیسویں صدی کو چھاننے بیٹھا ہوں تو وقت کی چھلنی کے چھید اب کچھ اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ ڈپٹی نذیر احمد، مصحفی اور ذوقؔ تو کجا میرؔ اور غالبؔ تک اس چھلنی کے چھیدوں سے پھسلنے لگتے ہیں، مجھے تو لگتا ہے کہ بیسویں صدی کے خاتمے پر وقت کی چھلنی جب کچھ دیر کے لئے رکے گی تو میر اور غالب تو چھلنی سے نیچے پھسل آئیں گے اور چھلنی میں صرف اردو اکاڈمیاں باقی رہ جائیں گی۔ 1

درد مندی اور ظرافت میں لپٹا ہوا زندگی کو تیکھے پن اور نئے انداز سے دیکھنے کا سلیقہ مجتبیٰ حسین کے ہاں موجود ہے۔ مختلف پہلوؤں سے واقعات کو نئی روشنی عطا کرنے اور تخیل آفرینی کے علاوہ تفکراتی فضا میں زندگی کا ایک نیا منظر نامہ تخلیق کر نے کا فن مجتبیٰ حسین کے ہاں پایا جا تا ہے۔

ٍٍ        انشائیہ ایک ایسی سیال صنف ہے جس میں خیالات کا بے ربط ہو نا انشائیہ نگار کو نئے خیالات سے منسلک کر کے تخلیق کے مزید مواقع فراہم کرتا ہے۔ خیالات کے اس بکھراؤ کے بعد موضوع کی طرف لوٹنے والا فنکار خالی ہاتھ نہیں ہوتا۔ خیالات کی رو میں بہتے بہتے جب وہ لوٹتا ہے تواس کا دامن معنویت کے انوکھے گوہرِ آبدار سے پر ہو تا ہے۔ مجتبیٰ حسین کی تحریروں میں انشائیہ کی یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے مجتبیٰ حسین کے خاکوں اور کالموں کا بھی یہی حال ہے لیکن ان سب پر ان کا مزاح غالب ہے۔ ’ایک ملاقات دیمکوں کی ملکہ سے ‘، اس مضمون میں جب مصنف دیمکوں کی ملکہ سے یہ پوچھتا ہے کہ اسے اردو کی کتابیں کیسی لگتی ہیں تو اس کا جواب ملاحظہ فرمائیے :

’بولی، تمہارا جو ادب لیتھو گرافی کے ذریعے چھپا ہے اسے کھاؤں تو لگتا ہے جیسے باسی روٹی کے ٹکڑے چبا رہی ہوں پھر جگہ جگہ کتابت کی غلطیاں کباب میں ہڈی کی طرح چلی آ رہی ہیں۔ لیکن جو کتابیں اردو اکادیمیوں کے جزوی مالی تعاون کے ذریعے چھپنے لگی ہیں وہ بہت لذیذ ہو تی ہیں۔ میں تو جزوی امداد کی چاٹ میں کل کتاب کو ہی کھا جا تی ہوں۔ ان میں ادب ہو یا نہ ہو کھانے میں لذت ہو تی ہے۔ کیونکہ مفت خوری میں جو مزہ ہے وہ محنت کی کمائی میں کہاں ؟ ‘2

اسی طرح اپنے اعتراف کے جواب میں مصنف کا بیان دیکھئے :

’حضرات !میں اجتماعی طور پر آ پ کا ممنون ہوں کہ آج آپ نے میرے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو اردو کے معاشرہ میں ایک ادیب کے ساتھ اس کے مر نے کے بعد کیا جا تا ہے۔ گویا اس طرح آپ نے مجھے جیتے جی مرنے کا مزہ لوٹنے کا موقع عنایت کیا ہے۔ ۔ اپنی ہی آنکھوں کے سامنے اپنی ہی خدمات کے اعتراف کے ڈرامے کو دیکھنے کی سعادت بھلا کسے نصیب ہوتی ہے۔ ‘3

 

حواشی

 

1۔ مجتبیٰ حسین، ساحلوں سے کہو میں نہیں آؤں گا، شاعر ممبئی، شمارہ 1986، ص13

2۔ ایک ملاقات دیمکوں کی ملکہ سے۔ ماہنامہ شگوفہ ، حیدر آ باد، مارچ ۹۴

3۔ اعترافِ خدمات کرنے والوں کی خدمات کا، مہ شگوفہ ، حیدر آ باد جنوری ۸۸

٭٭٭

 

 

 

 

عصری انشائیہ

 

 

                وزیر آغا

 

انشائیہ کو اردو زبان نے اس کے تمام فنی محاسن سمیت اس وقت اپنایا جب وہ مغرب میں چار صدیوں پر محیط اپنے ارتقائی مراحل طے کر چکا تھا۔ انشائیہ کو تمام تر فنی لطافتوں اور طبعی خصوصیت کے ساتھ اردو میں متعارف کرانے کا سہرا وزیر آغا کے سر ہے۔ وزیر آغاسے قبل اختر اورینوی اس صف کی امتیازی خوبیاں اکبر علی قاصد کے مجموعے ترنگ 1944کے پیش لفظ میں بیان کر چکے تھے۔ لیکن یہ تعارف محض تھا۔ چنانچہ انشائیہ تخلیقی بنیادوں پر اردو میں اپنے قدم نہیں جما پایا۔

وزیر آغا کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی شخصیت میں مضمر تخلیقی توانائی اور تنقیدی صلابت نے اردو انشائیہ کو ایک منفرد صنفِ ادب کی حیثیت سے مستحکم بنیادیں فراہم کر دیں وزیر آغا نے نہ صرف مغربی اصولِ انشائیہ نگاری کو اردو میں تعارف کروایا بلکہ تخلیقی سطح پر بھی اس صنف میں قدرِ اول کے انشائیے تحریر کئے اس سلسلے میں ان کی اولین تحریر ’ گرمی کی آغوش میں ‘ ادبِ لطیف لاہور، اگست 1955میں شائع ہو ئی۔ نیز ان کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’ خیال پارے 1961میں منظرِ عام پر آیا۔ وزیر آغا کی ادارت میں شائع ہو نے والا ادبی جریدہ اوراق، لاہور انشائیہ کے فروغ میں پیش پیش رہا۔ اسی کے توسط سے نئے انشائیہ نگار اردو ادب میں متعارف ہوئے اور اردو انشائیہ نگاروں کی ایک نئی نسل وجود میں آ ئی۔ وزیر آغا اس تحریک کے سالارِ کارواں خیال کئے جا تے ہیں۔

وزیر آغا بنیادی طور پر ایک ناقد ہیں ان کے ہاں تنقید و تخلیق دو متوازی لکیروں کی طرح ایک دوسرے کا مزاج بگاڑے بغیر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بلکہ اکثر دریا کے دو کنارے بن جاتے یں جن کے درمیان ابلاغ و ترسیل کے فرائض انجام دینے کے لئے موجِ رواں بھی موجود ہو تی ہے۔

اردو انشائیہ نے وزیر آغا کی ادبی شخصیت کے ان دونوں پہلوؤں سے بھر پور استفادہ کیا۔ وزیر آغا نے انگریزی انشائیہ نگاروں کے رشحاتِ قلم کے اس حسن و ہنر کو جزو تحریر بنایا جو ان سے قبل اردو کے انشا پردازوں کی دسترس سے باہر رہا۔ وزیر آغا نے اسی ہنر مندی کو فنی اور تکنیکی باریکیوں سمیت بیان کرنے کے علاوہ انشائیہ کی ہیئتی اور فکری جہتوں کو بھی واضح کیا۔ وزیر آغا کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’ خیال پارے ‘شائع ہوا تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے خلیل الرحمٰن اعظمی نے لکھا :

’ خیال پارے، آغا صاحب کے پچیس انشائیوں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصنف نے زندگی کے ساتھ اس صنف کے خد و خال متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘

’خیال پارے ‘، کے انشائیوں کے ذریعے سر سید کا نکھارا ہوا مضمون نگاری کا پیرایہ ایک نئی آ ب و تاب سے روشناس ہوا۔ اس کے اندرونی نظام میں ایک خوشگوار قسم کی تبدیلی محسوس کی گئی۔ اودھ پنچ کی ظرافت اور اردو صحافت کے پروردہ ادبی کالموں کا کٹیلا طنز درجنوں مزاح نگاروں کی چھلنیوں سے گزر کر پطرس، رشید احمد صدیقی اور کرشن چندر کے ہاتھوں صیقل ہو نے کے باوجود اس قبیل کے مضامین میں مطلق العنان حکمراں کا رول ادا کرتا رہا۔ وزیر آغا کے مضامین میں شگفتگی کا یہ عنصر ایک معاون قوت کے طور پر نمودار ہوا۔ وزیر آغا کے انشائیوں میں طنز و مزاح مقصود بالذات نہیں ہے۔ ’خیال پارے ‘ اور ’چوری سے یاری تک ‘ کے بعد شائع ہو نے والے ان کے مجموعہ مثلاً دوسرا کنارہ میں شوخی یا تو شگفتگی کی صور ت میں دستیاب ہو ئی یا تازگی کے روپ میں ان کے انشائیوں میں اشیاء اور مظاہر کے علاوہ انشائیہ نگار کی اپنی ذات نت نئے انکشافات کا ذریعہ ہے۔ ان انشائیوں میں اظہارِ دانش اور شخصی تاثرات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

وزیر آغا کے انشائیوں میں جامد شعری تراکیب کو خیر باد کہہ کر شاعرانہ احساس بروئے کار لا یا گیا ہے جس کے نتیجے میں لطیف انشائی کیفیت سے لبریز فقرے نظر آ تے ہیں :

’سیدھی سڑک تو ایک لاش کی طرح ہے جو ازل اور ابد کے درمیان بے حس پڑی ہے۔ پہلے سنگِ میل سے آخری سنگِ میل تک سیدھی سڑک ایک سپاٹ، بے رنگ اور بے جان سی شے ہے جس پر سفر کر نے والا خود بھی اکتاہٹ اور بد مزگی کا شکار ہو کر دم توڑ دیتا ہے لیکن جونہی یہ سڑک ہر میل پر مڑنا شروع ہو تی ہے تو اس میں جان پڑ جاتی ہے، سڑک کے لئے ہر موڑ ایک دھڑکن ہے اور دھڑکنوں کا یہ سلسلہ جس قدر تیز اور پائیدار ہو گا سڑک اسی قدر جاندار، جاذبِ نظر اور جیتی جاگتی نظر آئے گی۔ ندی کے حسن کا راز بھی اسی میں ہے اور زندگی۔ ۔ ۔ زندگی میں اگر کوئی موڑ نہ ہو تو کس کام کی ہے۔  ‘ 2

وزیر آغا انشائیہ کے موضوع کو تہذیب و تمدن کے پس منظر میں رکھ کر ایک وسیع تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اظہارِ ذات بھی بالواسطہ طور پر اسی حوالے سے ہوتا ہے۔ ان کے شعور کی جڑیں جس گہرائی تک اپنے تہذیبی ورثہ میں پیوست ہیں ان کی نمی سے انشائی شگوفے برگ و بار لا تے ہیں۔ انشائیہ ’حقہ پینا ‘کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

’سگریٹ پینا ثقافت کی رو سے ایک بے ثمر عمل ہے کیونکہ یہ انسان کو ہوا میں تحلیل کر دیتا ہے جب کوئی سگریٹ سلگاتا ہے تو سگریٹ کے مرغولوں کے ساتھ ساتھ تخیلات کی ایک دنیا آ باد کر لیتا ہے اور پھر ان تخیلات میں یوں کھو جاتا ہے کہ اسے گرد و پیش کا ہوش نہیں رہتا۔ سگریٹ تو ہائیڈروجن گیس سے بھرا ہو ا وہ غبارہ ہے جو انسان کو آسمان کی طرف اڑا لے جا تا ہے اور زمین اس کے پاؤں تلے سے نکل جا تی ہے جب کہ حقہ اسے زمین کی سوندھی سوندھی باس سے آشنا کرتا ہے اور زندگی پر اس کی گرفت مضبوط ہو جاتی ہے ‘۔ 3

انشائیہ میں انشائیہ نگار کی شخصیت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے مصنف کی طویل القامت ادبی شخصیت کا خمیر اس کے قلب و نظر کی وسعتوں ہی سے اٹھتا ہے اس کا مشاہدہ مطالعہ اور تہذیب و تمدن کی پروردہ فکر، شخصیت کی صورت گری میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ وزیر آغا کی شخصیت میں موجود یہ تمام عناصر اور تہذیبی ورثہ کے ساتھ انسلاک کے ثمرات ان کے انشائیوں میں موجود ان کی شخصیت کی جھلکیو ں سے آ شکار ہیں۔ ‘ انشائیہ ’ آزادی‘ میں غلامی اور آزادی کے تصورات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔

’آزادی چاکِ ابر میں سے جھانکتا ہوا برق کا کوندا ہے، یہ ایک ایسا منوّر لمحہ ہے کہ جس کے دونوں طرف تاریکی کے سمندر موجزن ہیں۔ جب کوئی فرد یا قوم آزادی کی منزل کی طرف رواں ہو تی ہے تو اس خوش فہمی کے ساتھ کہ اس منزل سے آ گے آزادی ہی آزادی ہے، روشنی ہی روشنی ہے، حالانکہ اس کے بعد بھی وہی پہلے سی غلامی اور تاریکی ہے جس سے نجات پانے کے لیے اس نے آزادی کی آرزو کی تھی، آزادی آزاد ہو نے میں نہیں، آزادی کی اس خواہش میں ہے جو دل کے نہاں خانے سے اڑ کر آزادی مانگنے والے کے ہونٹوں کے محراب پر چند لحظوں کے لیے آ بیٹھتی ہے اور پھر چندا ماموں تک پہنچنے کے لیے کہرام بر پا کر دیتی ہے۔ ‘

 

حواشی

1۔ خلیل الرحمٰن اعظمی مضامینِ نو، علی گڑھ، 1977، ص165۔

2۔ وزیر آغا، موڑ، خیال پارے، ص109

3۔ وزیر آغا ,حقہ پینا‘، دوسرا کنارہ، ، لاہور، 1982ص34

 

                ڈاکٹر دا ؤد رہبر

 

انگریزی لا ئٹ ایسے کے طرز پر شخصی واردات کا التزام اور ندرتِ خیال کی بنیاد پر مضمون نگاری کا جو سلسلہ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں وزیر آغا نے شروع کیا تو ماہنامہ ’ ادبی دنیا ‘میں اسی طرز کو فروغ دیا گیا۔ آ گے چل کر انشائیہ نگاروں کا ایک قافلہ سا بن گیا۔ اس سفر کی ابتدا میں جن ادیبوں نے اردو انشائیہ کی وادی میں اولین نقوش ثبت کئے ان میں سب سے اہم نام ڈاکٹر دا ؤد رہبر کا ہے۔

ڈاکٹر دا ؤد رہبر نے اس صنف میں چند معیاری اور معنی خیز نمونے پیش کئے آگے وہ اس سفر کو جاری نہ رکھ سکے۔ ان کی تحریروں کی غیر معمولی ادبی حیثیت کے سبب ڈاکٹر دا ؤد رہبر اردو کے انشائیہ نگاروں میں آ ج بھی قدر کی نظروں سے دیکھے جا تے ہیں ان کا انشائیہ ’لمحے ‘ بہت زیادہ مقبول ہوا۔

’آ ج پھر دھوپ نکلی، کل بھی نکلی تھی، اسی طرح گرم، شفقت بھری، تھپکیاں دیتی ہو ئی لیکن یہ کل والی دھوپ نہ تھی وہ دھوپ مر چکی، یہ نئی دھوپ تھی ہر لمحہ نئی دھوپ۔

ہر لمحہ نئی گرمی۔ لمحہ کیا ہے ؟ یہ تسبیح کے دانوں کی طرح سے نہیں ہے۔ وقت تو گر تے تارے کی لکیر ہے ہر نقطہ پر ٹھہرا ہوا پھر بھی رواں۔ لمحہ کیا وقت کے چہرے پر ایک خال ہے ؟ ایک نقطہ؟ بے جسامت، بے طول، بے عرض، مگر نقطہ کتنا ہی باریک ہو موہوم نہیں ہو سکتا۔ 4‘

ڈاکٹر دا ؤد رہبر کے مضامین کا مجموعہ ’ نسخہ ہائے وفا‘ شائع ہو چکا ہے۔

داؤد رہبر کے انشائیوں میں فلسفیانہ اور آزادانہ فکر کے علاوہ رعنائیِ خیال بھی پا ئی جا تی ہے۔ داؤد رہبر کے انشائیوں میں شاعرانہ احساس اور فلسفیانہ افکار کا حسین امتزاج موجود ہے۔

ڈاکٹر دا ؤد رہبر کے انشائیے اشیاء کے فکر انگیز اور مسرت افزا پہلوؤں کا انکشاف کر کے انشائیہ نگار کی فکری توانائی اور احساس و مشاہدے کی گہرائی کا ثبوت بہم پہنچاتے ہیں اس کے علاوہ ان کے انشائیوں کی امتیازی خصوصیت ایک تخلیقی مسرت ہے جو ان کی تحریروں میں رواں دواں نظر آ تی ہے اور اشیاء کے نئے پہلوؤں کی دریافت پر اس مسرت کا وافر حصہ تخلیق کار کے ساتھ ہی قاری کے حصے میں بھی آ تا ہے۔

 

حوالہ

 

1۔ داؤد رہبر، لمحے، ادبی دنیا، مئی ,1949ص98

 

                غلام جیلانی اصغر

 

عصری انشائیہ نگاروں میں غلام جیلانی اصغر سب سے مختلف و منفرد اسلوب کے مالک ہیں۔ ان کا اسلوب شوخی و پر کاری سے عبارت ہے ان کی انشائیہ نگاری فنّی اعتبار سے ایک ایسے نقطہ اتصال کو پیش کرتی ہے جس پر ٹھہر کر انشائیہ تخلیق کر نا پل صراط سے گزرنے کے برابر ہے۔ طنز و مزاح کی پوری حدت کے ساتھ نفسِ انشائیہ کو بر قرار رکھنا اور بحسن و خوبی نبھانا غلام جیلانی اصغر کی امتیازی خوبی قرار دی جا سکتی ہے۔

غلام جیلانی اصغر کے انشائیوں میں شوخی و شگفتگی اپنی پوری بر جستگی کے ساتھ موجود ہے۔ طنز و ظرافت کے ساتھ تیزی سے گزرتے ہوئے وہ انشائیہ کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں۔ ظرافت ایک قطعی اور تکمیلی کیفیت پیدا کرتی ہے، یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو اوچھا وار کہلائے گی۔ طنز کے کٹیلے نشتروں اور مزاح کے فلک شگاف قہقہوں کا ایک ہدف متعین ہو تا ہے۔ ظرافت کے تیر مقررہ ہدف تک پہنچ کر تکمیل کی آ سودگی کو جنم دیتے ہیں۔ اس کے برعکس انشائیہ منصوبہ بند سوچ کا دشمن ہے، انشائیہ اپنے اوپر تعین اور تشنّج کی کیفیت طاری کئے بغیر غیر رسمی انداز میں کہیں سے بھی شروع ہو سکتا ہے اور سبک خرامی اور آوارہ خیالی کے نتیجے میں وہ خیالات و افکار کے گوہرِ آبدار سمیٹ لاتا ہے جو منصوبہ بندی اور مقصدیت کی دسترس سے باہر ہیں، اسی لئے انشائیہ میں آزاد تلازمہ خیال کا بھی استعمال ہو تا ہے۔ بے ربطی اور ذہن کی آزادانہ ترنگ بھی پا ئی جا تی ہے۔ غلام جیلانی اصغر کا ہر انشائیہ اپنے دامن میں یہ ساری خوبیاں سمیٹے ہوئے ہے۔

ان کے انشائیہ کا یہ اقتباس بڑا معنی خیز ہے۔

’ تسخیرِ کائنات کی مہم پر روانہ ہونے سے پہلے جب میں نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی تو مجھے Spaceکی کمی کا اندازہ ہوا۔ ایک کمرے میں میری بیوی بچے سوتے جاگتے۔ دوسرے میں میں خود پناہ گزیں تھا۔ تیسرے میں کچن اور باتھ روم تھا۔ اب میں اتنی بڑی کائنات کو کہاں رکھ سکتا تھا؟لیکن میں نے اس منصوبہ کو بالکل ترک نہیں کیا۔ بلکہ وہ ’ کر سکتے ‘کی سطح سے اتر کر ’ کبھی کر سکوں گا‘ کے تہہ خانے میں داخل ہو گیا تھا۔

یہ تہہ خانہ میری ذات کا LUMBER ROOM   ہے جہاں میں نے اپنی زندگی کی متاعِ عزیز کو چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ اس میں میری پہلی محبت بھی ہے۔ جس کی تسخیر میں مجھے ناکامی ہوئی، اس میں میری وہ نوکری بھی تھی، جس کا آخری سرا صوبہ کی گورنری سے جا ملتا تھا۔ اس میں میرا نکاحِ ثانی بھی تھا جس کے لئے میں نے ہیلن آ ف ٹرائے سے لے کر الزبتھ ٹیلر تک سب با سلیقہ خواتین کی ایک باقاعدہ فہرست مرتب کر رکھی۔ تھی.1‘

غلام جیلانی اصغر کے انشائیے بے تکلف گفتگو کی فضا میں بغیر کسی منطقی اور فلسفیانہ یا خطیبانہ انداز اختیار کئے، بصیرت افروز اور معنی خیز خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ غلام جیلانی اصغر کے انشائیے کسی خیال کی مسلسل پرتیں اتارتے ہوئے آوارگیِ خیال کا منظر پیش کر نے کے باوجود نفسِ موضوع سے گہرائی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ انشائیہ کے آ خر میں انشائیہ کا موضوع ہمارے لئے ایک نئی معنویت اختیار کر لیتا ہے۔ انشائیہ’ سوال اٹھانا‘ کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فر مائیں :

’ میں نے اکثر سوچا ہے ( ممکن ہے آ پ اس سے اتفاق نہ کریں ) کہ سوال ایک ایسا عالمِ برزخ ہے جس کے ایک طرف نہ جاننے کی ذہنی اذیت ہے اور دوسری طرف جاننے کی بے پایاں عقوبت، ہم ایک عذاب سے نکل کر جب دوسرے عذاب کی سرحد میں داخل ہو جا تے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ نہ جاننے کا عذاب تو اپنے اندر آ گہی کی بشارت بھی رکھتا تھا، لیکن جاننے کا عذاب اس لئے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ اس سے اپنی جہالت یا حماقت کا احساس اور گہرا ہو جاتا ہے۔ 2ٗ

غلام جیلانی اصغر موضوع کے ان پہلوؤں کو اپنے انشائیے میں پیش کرتے ہیں جو عام طور پر ہماری نظر سے اوجھل ہو تے ہیں۔ ان کے انشائیے ’گالی دینا‘ میں ان کا منفرد سوچ کا انداز ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ گالی دینا ایک مذموم فعل ہے لیکن اس کے نفسیاتی پہلو کو وہ اس طرح واضح کرتے ہیں :

’گالی کے قومی فوائد کا میں نے ابھی ذکر نہیں کیا۔ جس طرح پر دے کے کچھ قومی فوائد ہیں مثلاً آ دمی بد صورت عورتیں دیکھنے سے بچ جاتا ہے۔ اسی طرح آ دمی گالی دینے سے نیوراتی کیفیات سے بچ جاتا ہے۔ اگر گالیاں عام ہو جائیں تو پاگل خانے کی بنیاد میں خلل پیدا ہو جائے، مزید بر آں گالی دینے سے جمہوریت کو فروغ ملتا ہے، آمریت صرف اسی دور میں پنپ سکتی ہے جب گالیوں پر قدغن لگا دی جائے۔ اسی لئے ایک اچھے جمہوری نظام میں یہ خوبی ہو تی ہے کہ اسیمبلی کی کا روائی میں نکتہ اعتراض کا آغاز ا ور انجام گالی پر ہوتا ہے۔ اقتصادی توازن کو بر قرار رکھنے کے لئے گالی کا وجود ناگزیر ہے۔ جب مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ کا رجحان پایا جائے تو آ دمی اسی تناسب سے گالیوں میں اضافہ کرتا جائے۔ 3

غلام جیلانی اصغر اپنے انشائیے ’ وراثت ‘میں میر تقی میر کے حوالے سے اس موضوع کو ایک نئے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔

’ اس موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے کچھ تو شاید اس وجہ سے کہ موضوع ہی غیر دلچسپ ہے، اور کچھ اس لیے کہ جو ادیب خدا داد صلاحیتوں کے مالک ہیں وہ وراثت سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اور جو لکھتے نہیں وہ ادیبوں میں شمار ہی نہیں ہو تے اس لیے ان کی وراثت اتنی اہم نہیں کہ اسے موضوعِ بحث بنایا جائے۔ میرؔ اردو کا پہلا شاعر تھا جس نے وراثت کو اپنے شعر کی بنت میں شامل کیا۔ اسے اس بات کا شدید احساس تھا کہ وہ عالی نسل سید ہے چنانچہ اس نے اپنے نام کے دونوں سروں پر اس امر کا اعلان کیا ہے۔ اور عمر بھر (محض سیادت کی وجہ سے ) اپنے کاروبارِ عشق پر تاسف کرتا رہا کیونکہ اس سے جسمانی نظام کے علاوہ عزتِ سادات کو بھی نقصان پہنچا۔ 4

غلام جیلانی اصغر نے مکان بنانا، وراثت، سوال اٹھانا، تسخیرِ کائنات اٹھنا بیٹھنا وغیرہ متعدد خیال افروز انشائیے لکھے ہیں، ان کے انشائیوں کا مجموعہ’ نرم دمِ گفتگو ‘شائع ہو چکا ہے۔

 

حواشی

 

1۔ غلام جیلانی اصغر، ’ تسخیرَ کائنات ‘، ماہنامہ اوراق، لاہور، خاص نمبر، 1984، ص209

2۔ غلام جیلانی اصغر، ’سوال اٹھانا‘، اردو زبان ’ انشائیہ نمبر، سرگودھا(پاکستان)، 83ص14

3۔ ’گالی دینا‘ غلام جیلانی اصغر، ماہنامہ اوراق، لاہور

.4.وراثت۔ غلام جیلانی اصغر، ماہنامہ اوراق، لاہور

 

                مشتاق قمر

 

عصری انشائیہ نگاروں میں مشتاق قمر صفِ اول کے انشائیہ نگار شمار کئے جاتے ہیں۔ ان کے انشائیوں کا مجموعہ ’ ہم ہیں مشتاق ‘ شگفتہ اور فکر انگیز تحریروں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس نے اردو ایسے نگاری کی دیرینہ روایت کو ایک نئے اسلوب سے آشنا کیا۔ مشتاق قمر اردو کے ان ادیبوں میں شمار کئے جا تے ہیں۔ جنھوں نے Personal Essay کو اردو میں متعارف کروانے کی غرض سے اپنی جودتِ طبع کو بروئے کار لا کر متعدد خوبصورت انشائیے تخلیق کئے۔ ان کے تخلیقی سفر کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے فکری توانائی کو بر قرار رکھتے ہوئے اردو ایسے کے فارم میں مقبول ظرافت کو جزو تحریر بنا کر اپنی تحریروں میں فکر و احتساب اور شگفتگی کا حسین امتزاج پیش کیا۔ یہی انداز ہمیں غلام جیلانی اصغر کے انشائیوں میں اپنے ارتقائی مراحل میں نظر آ تا ہے۔ انشائیہ ’ آ ئس کریم ‘میں مشتاق قمر لکھتے ہیں :

’ آ ئس کریم کے خلاف انسانی تاریخ میں سب سے پہلے آواز بلند کرنے کے با وصف میں اپنے آ پ کو کسی خاص اعزاز کا مستحق نہیں سمجھتا۔ میرا مسلک تو ہے ہی بت شکنی اور آ ئس کریم کا شمار معدودے چند بتانِ ناز میں ہو تا ہے جو کسی نہ کسی طرح انسان کی مرضی کے خلاف اس کے اعصاب پر سوار ہو گئے ہیں۔ ‘

انشائیہ میں طنز و مزاح کے پل صراط پر چل کر انشائیہ کی اسپرٹ کو بر قرار رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ مشتاق قمر اور غلام جیلانی اصغر اس دشتِ پر خار سے سلامت گزرے اور اپنے پیچھے متاخرین کے لئے ایک نمونہ چھوڑ گئے۔ مشتاق قمر کا شمار بہر حال اس اسلوب کے سابقین اولین میں کیا جا سکتا ہے۔

مشتاق قمر اپنے انشائیے ’ کوہ پیمائی ‘ میں کوہ پیمائی کی داخلی اور خارجی دونوں سطحوں کی جانچ پڑتال کر کے نہ صرف کوہ پیمائی کے روایتی تصور کو ہدفِ طنز بناتے ہیں بلکہ اسے انسانی شخصیت کے داخلی ابا ل کا خارجی اظہار قرار دیتے ہیں۔

مشاق قمر کے انشائیوں میں اظہارِ ذات کے نام پر ’ میں ‘اور حدیثِ دیگراں کے لئے ’آ پ ‘کے الفاظ نہ بھی وارد ہوں تب بھی اپنی بات کو وہ اس ہنر مندی سے آ گے بڑھاتے ہیں کہ صاف محسوس ہو تا ہے کہ گفتگو کا ایک سرا قاری کی ذات سے وابستہ ہے اور دوسرے سرے پر انشائیہ نگار اپنی شخصیت کے تخلیقی اظہار میں مصروف ہے۔ مشتاق قمر کے انشائیے شگفتگی اور تفکر کا ایسا حسین امتزاج پیش کرتے ہیں جن میں تخلیقی توانائی کا بھر پور اظہار ہوا ہے۔

 

حوالہ

 

1۔ مشتاق قمر، ‘ آ ئس کریم کھانا، ‘منتخب انشائیے، مرتبہ سلیم آغا قزلباش، سرگودھا، 1984 ، ص53

 

 

                انور سدید

 

اردو انشائیہ کے تعارف، شناخت اور فروغ کی خاطر انور سدید نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں اس کے پیشِ نظر اردو انشائیہ نگاری کی تحریک میں انھیں ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔ انور سدید بنیادی طور پر ایک ناقد ہیں ان کے ہاں تخلیقی تحریروں کی بہ نسبت تنقیدی مضامین کے علاوہ اردو ادب کی بعض اصناف پر مکمل کتابیں ان کی تنقیدی صلابت اور تحقیقی صلاحیت کا بین ثبوت ہیں۔ ان تحقیقی کارناموں میں سفر نامہ، انشائیہ وغیرہ اصناف پر ان کی مستقل تصانیف ان کے گہرے مطالعے اور ادب کی مختلف اصناف پر ان کی دسترس کا مظہر اہیں۔

انھوں نے شاعری بھی کی اور انشائیوں کے مجموعے ’ ذکر اس پری وش کا ‘اور ’آسمان میں پتنگیں ‘ شائع کر کے اپنی ذات میں پوشیدہ تخلیقی فنکار کو آ شکار کیا۔

انشائیہ اور شاعری سے تخلیقی ربط کے علاوہ انھوں نے تحریف نگاری کے میدان میں بھی اپنے تخلیقی جوہر دکھائے اور’ غالب کے نئے خطوط ‘(طنز و مزاح)جیسی دلچسپ کتاب لکھ کر ظریفانہ ادب میں اپنی پہچان بنائی۔

انور سدید نے متعدد مضامین لکھ کر صنف انشائیہ کے تعارف، تجزیہ اور تنقید کا فریضہ انجام دیا۔ اسی طرح صنف انشائیہ سے متعلق گاہے بگاہے اٹھائے جانے والے سوالوں پر جوابی مضمون لکھ کر اس صنف سے متعلق مباحث کا تجزیہ کر کے اپنے خیالات کو واضح کیا۔ ’انشائیہ اردو ادب میں ‘جیسی مستقل تصنیف کے ذریعے اس نو خیز صنف کا مکمل جائزہ پیش کیا۔

انور سدید نے جہاں اردو انشائیے کے گرد پڑے غلط فہمیوں کے جالے اتارنے میں اپنا قلم استعمال کیا وہیں اس سے متعدد خوبصورت انشائیے بھی رقم کئے۔ ان کی تصنیف ’غالب کے نئے خطوط ‘جہاں ان کے اندر پوشیدہ تحریف نگاری اور ظرافت نگاری کی بھر پور صلاحیت کا ثبوت پیش کرتی ہے وہیں ان کے انشائیوں کا مجموعہ ’ ذکر اس پری وش کا ‘1982 ان کی انشائیہ نگاری کی تخلیقی صلاحیت کا پرتو ہے۔ فنی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انور سدید کے انشائیے قدرِ اول کی تخلیقات ہیں اسی اعتبار سے انور سدید کو عصری انشائیہ نگاروں میں ایک مقامِ افتخار حاصل ہے۔

انور سدید اپنے انشائیوں میں تاریخی و تہذیبی عوامل کے تجزیہ کو تخلیقی عمل کا حصہ بنا کر ایک ادبی شان عطا کر دیتے ہیں۔ ہمارے شعور میں موجود اشیاء اور حقائق کی صورتیں انشائیہ نگار کی گل افشانی گفتار کا سبب بنتی ہیں جو انور سدید کے انشائیوں کی ایک خوبی ہے۔ موضوع کو نئے منظر اور پسِ منظر میں رکھ کر غور و فکر کی راہیں پیدا کر دیتے ہیں۔

’تاریخ شاہد ہے کہ عہدِ قدیم میں یہی حرکت نمرود سے اس وقت سر زد ہو ئی جب اس نے زادہِ خاک ہو نے کے باوجود خدائی کا دعویٰ کر دیا اور اپنے جیسے انسانوں کو مجبور کیا کہ اس کے آ گے سربسجود ہو ں۔ نخوت اور تکبر کا یہ انداز ایک سر پھرے مچھر کو پسند نہ آیا اور وہ محض تفننِّ طبع کے لئے نمرود کی ناک میں گھس کر سحرِ نغمہ جگانے لگا۔ پھر یہ خلوت اسے ایسی پسند آ ئی کہ مچھر نے وہیں بیٹھ کر عرفان حاصل کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ تاریخ نگاروں نے لکھا ہے کہ نمرود جس کے سامنے ساری خدائی سر بہ زانو تھی اس مچھر کے سرمدی نغمہ کی تاب نہ لا سکا۔ 1

انور سدید کے انشائیے دسمبر، مچھر کی مدافعت میں، مونچھیں، غلطی کر نا، تاروں بھری رات اور ذکر اس پری وش کا، کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے گویا انور سدید انشائیے کے موضوع کو تاریخی اور تہذیبی پسِ منظر میں رکھ کر اس کی نت نئی جہتوں کو ایک نئی روشنی میں دکھا رہے ہیں۔ انور سدید کے انشائیے سماجی زندگی کی تصویریں دکھا کر فنکارانہ انداز میں نئے حقائق طشت از بام کرتے ہیں۔ ان کا طریقۂ کار دسمبر کے اس اقتباس میں ملاحظہ فر مائیں۔

دسمبر آ تا ہے تو کسی مہمان کی طرح کال بیل کو دبا کر اپنی آ مد کا اعلان نہیں کرتا بلکہ ایک شریر بچے کی طرح پائین باغ کی دیواریں پھاند کر پہلے گھر کے صحن میں آ تا ہے پھر برآمدے میں پلاسٹک سے بنی ہو ئی کر سی پر آ کر بیٹھ جا تا ہے۔ میری بیوی اس کے مخصوص قدموں کی چاپ پہچانتی ہے وہ جلدی سے آ تش دان میں آ گ جلا کر کر سیوں کو اس کے گرد نصف دائرے میں ڈال دیتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ، ہم سب افرادِ خانہ جو گزشتہ گرمیوں میں جزءاً جزءاً اکائیوں میں بٹ گئے تھے اب ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں جیسے کٹی ہو ئی پھانکیں دوبارہ تربوز میں سما گئی ہو ں۔ 2 ‘

انور سدید کے انشائیوں میں تاثرات اور خواہشات کا اظہار نہایت دلکش انداز میں ہوا ہے۔ انور سدید کے انشائیوں کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے گویا وہ زندگی کو اپنے طور پر برتنے اور روز مرہ کے واقعات کو باندازِ دیگر سمجھنے کی کو شش کر رہے ہوں گویا معمولاتِ زندگی ان کے نزدیک ایک خواب ہے اور وہ اپنے انشائیوں میں انوکھی دلکش تعبیروں کے ساتھ اس خواب کو بیان کر رہے ہیں۔

پتنگ بازی کا ذکر کرتے ہوئے انور سدید جس قسم کے فلسفیانہ خیالات کو نہایت سہل انداز میں بیان کرتے ہیں وہ نہ صرف ہمارے لئے دلچسپ اور انوکھے ہیں بلکہ چشم کشا بھی ہیں۔

’ تہذیب یافتہ قومیں فرد کو پتنگ کی طرح فضا میں اڑنے کا موقع تو دیتی ہیں لیکن معاشرے کے نظم و ضبط کو بر قرار رکھنے کے لئے انھیں تہذیب کے مضبوط تاگے سے باندھے رکھتی ہیں۔ انسان پتنگ ہے تو اقدار اس پتنگ کو گرفت میں رکھنے والے تاگے ہیں۔ یہ نہ ہو ں تو انسانی معاشرہ انتشار کا شکار ہو جائے اور انسان کٹی ہوئی پتنگ کی طرح بھٹکنے لگے ‘۔

اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ انھوں نے پتنگ کو فرد اور قوم کے تناظر میں دیکھنے کی کو شش کی ہے اور سماج کے اہم اصولوں کو اس موضوع کے حوالے سے ایک نئی روشنی میں پیش کیا ہے۔ اسی طرح تاروں بھری رات سے متعلق ان کے تاثرات ان کے خوبصورت اسلوب اور لطیف احساسات کو پیش کرتے ہیں۔

’ ایک عرصے تک تو میں ان غفلت شعار لو گوں کے ہجوم میں شامل رہا ہوں جنھیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ صبح ہو تی ہے تو نوزائیدہ سورج سنہری کرنوں کی بارش کس طرح کرتا ہے۔

نسیمِ بہار جرسِ غنچہ کی صدا پر لپکتی ہے تو کیسی فرحت انگیز کیفیت بیدار کر دیتی ہے۔ شنگرفی شفق پھوٹتی ہے تو کرنیں کس طرح آنکھ مچولی کھیلتی ہیں اور کائنات میں رنگوں کی پھوار سی کیسے بکھر جاتی ہے۔ دن بھر کے تھکے ماندے پرندے اپنے گھونسلوں کو لوٹتے ہیں تو کون سا نغمہ الاپتے ہیں۔ افق کے لپکتے ہوئے اندھیرے سے رات کا پہلا تارہ کب نمودار ہو تا ہے اور پھر کس طرح ہزاروں لاکھوں ستاروں کوساتھ لے کر سورج کی آمریت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیتا ہے ‘۔ (تاروں بھری رات)

ان کے انشائیے ’ مچھر کی مدافعت میں مچھر اور انسان کو تہذیبی پس منظر میں رکھ کر زندگی کے نئے گوشے بے نقاب کئے گئے ہیں یہ انشائیہ نہ صرف طنز و مزاح کا بہترین نمونہ ہے بلکہ سوچ کے انوکھے پن کو تحریف نگاری کے ذریعے خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے۔

انور سدید نے اظہار کے مختلف ذرائع کو نہایت سلیقے کے ساتھ اپنایا ہے ان کے انشائیوں میں کہیں شاعرانہ احساس کی کار فر مائی نظر آ تی ہے، کہیں افسانوی انداز یا ڈرامائیت نمایاں ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کا انشائیہ موضوع کو فنکارانہ اور دلچسپ انداز میں ایک انوکھی شے بنا کر پیش کرتا ہے۔

کرکٹ میں گیند ایک پری وش کی سی خندہ جبینی کے ساتھ کھلاڑی کی طرف آ تا ہے لیکن کھلاڑی اسے ایک برہمچاری کی طرح منہ نہیں لگاتا اور بڑی بے اعتنائی سے ٹھوکر لگا کراسے پرے پھینک دیتا ہے۔ کر کٹ کا کھلاڑی اس یوسف کی طرح ہے جس کے بھائی اسے میدان میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں اور خود پیویلین میں بیٹھ کر چلغوزے کھاتے اور تماشا دیکھتے ہیں۔

گیند کی زلیخا اس پر پے در پے حملہ آ ور ہو تی ہے اور وہ اس سے اپنا دامن بچانے کے لیے کبھی وکٹوں کے شمالی قلعے کی طرف بھاگتا ہے اور کبھی جنوبی حصار میں پناہ تلاش کرتا ہے، کرکٹ میں آ ج تک کسی بیٹس مین نے گیند پر قابض ہو نے کی کوشش نہیں کی بلکہ جو کھلاڑی گیند کو جتنا دور پھنک سکے اتنا ہی ماہر اور پختہ کار شمار ہو تا ہے۔ گیند کو باؤنڈری سے پرے پھینکنے والا کھلاڑی تو وکٹوں کے درمیان دوڑنا بھی ضروری نہیں سمجھتا بلکہ وہیں کھڑا کھڑا تماشائیوں سے داد حاصل کرتا رہتا ہے۔ 3

اسی طرح ’ غصہ ‘ کے متعلق بھی ان کے تاثرات اپنے انوکھے پن کا اظہار کرتے ہیں۔

بعض لوگ تھوکنے کے عمل کو غصّہ کا سیفٹی والو تصور کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غصّہ اعصاب پر شدید بوجھ ڈال دیتا ہے۔ اور بعض اوقات تو جسم کے غبارے میں غصّہ کی گرم خشک ہوا زیادہ بھر جائے تو یہ ہائیڈروجن بم کی طرح امن عالم کو تباہ و بر باد بھی کر دیتا ہے۔ لیکن غور کیجئے تو غصّہ اضطراری عمل ہے اور اس میں اختیارِ تمیز کی تمام قوت سلب ہو جا تی ہے جس طرح شاعر پر نزولِ شعر فطری انداز میں نہ ہو تو اس پر تشنج کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اسی طرح کسی انسان کے دل میں غصّہ پر ورش پانے لگے تو اس کے اعصاب ٹوٹنے لگتے ہیں اور وہ راستے میں آ ئی ہو ئی ہر چیز کو پائے استحقار سے ٹھکراتا چلا جا تا ہے۔ ایسے میں اگر آ پ اچانک گدگدی کر کے غصّہ سے مغلوب شخص کو تھوڑا سآہنسنے پر مائل کر دیں تو جسم کے غبارے سے غصّہ کی ساری ہوا خارج ہو جاتی ہے اور لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہو تے ہی ہر طرف امن کے پھریرے لہرانے لگتے ہیں۔ پس غصّہ کا سیفٹی والو تھوکنا نہیں بلکہ گدگدی ہے نہ جانے ماہرینِ لغت نے غصّہ تھوکنے کا محاورہ کس طرح وضع کیا ہے، حالانکہ غصہ مرکز مائل عمل ہے اور غصّہ تھوکنا مرکز گریز فعل ہے اور ان دونوں کو آ پس میں پیوست کر نا ایسے ہی ہے جیسے نظم کو نثر سے ملا کر نثری نظم بنا لی جائے۔ ‘4

 

حواشی

1۔ انور سدید، ’مچھر کی مدافعت میں ‘، ذکر اس پری وش کا، لاہور، 1982ص54

2۔ انور سدید، ’دسمبر‘، ذکر اس پری وش کا، لاہور، 1982ص49

3۔ انور سدید، کرکٹ، ماہنامہ اوراق، انشائیہ نمبر۔ اپریل۔ مئی 1985ص154

4۔ انور سدید، قومی مشغلہ، ماہنامہ اوراق، خاص نمبر نومبر۔ دسمبر، 1983ص219

 

                جمیل آذر

 

جمیل آذر نئی نسل کے انشائیہ نگاروں میں منفرد لب و لہجہ، اندازِ فکر کی ندرت اور جدید حسیت کے علم بردار ہیں۔ انشائیہ نگاری کی تحریک جسے پاکستان میں ڈاکٹر وزیر آغا کی رہنمائی حاصل رہی ہے انشائیہ نگاروں کی نئی آوازوں کو متعارف کر گئی۔ اس تحریک میں جمیل آذر کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ جمیل آذر نے نہ صرف اعلیٰ اور معیاری انشائیوں کی تخلیق کی بلکہ اس کی تنقید اور تفہیم کا بھی فریضہ انجام دیا اور تخلیقی و تنقیدی ہر دو سطحوں پر اس صنف کے نبض شناس کی حیثیت سے انشائیہ کے فروغ کے سلسلے میں قابلِ قدر کام انجام دیا۔

تحریک خواہ سماجی ہو یا ادبی وہ خود سے وابستہ لوگوں کی شخصیتوں اور سوچ کے نکیلے گوشوں کو تراش کر اپنے رنگ میں ڈھال لیتی ہے۔ ان کے ذہنوں میں اپنی سوچیں رکھ کر ان کی زبانوں پر اپنا کلمہ جاری کرتی ہے، چنانچہ تحریکات سے وابستہ افراد تحریک کی زندگی جیتے ہیں (انفرادی زندگی کی قیمت پر )انفرادیت کی اس قربانی کو اس تحریک کو پیش کیا جا نے والا خراجِ عقیدت بھی کہہ لیں تو بے جا نہیں۔

انشائیہ نگاری کی اس نئی تحریک پر بھی یہ اعتراض ہے کہ نئی نسل کے بیشتر انشائیہ نگار بے چہرہ بھیڑ کی مانند اپنی انفرادیت منوانے میں ناکام ہیں۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ انشائیہ بذاتِ خود ایک انفرادی سوچ کا مظہر اور عمومی اندازِ فکر سے براءت کا علمبردار ہے، اس پسِ منظر میں انشائیہ نگاری کی تحریک میں واقع اس تضاد کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ انشائیہ کو اپنانے والے ابتدائی ذہنوں نے انفرادیت کے جو نقوش ثبت کئے، نئے لوگوں میں ان کی پیروی کے نتائج ظاہر ہوئے اور اس طرح مخصوص اندازِ فکر کی بے روح تقلید کے عبرت ناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ جب یکساں آوازوں کا شور بر پا ہو اپنی آواز کی پہچان قائم کر نا کھیل نہیں ہے۔ جمیل آذر اس تحریک کے سابقین اولین میں ہونے کے باوجود آ ج بھی ان کا ہر انشائیہ ان کے لہجے کی کھنک اور منفرد زاویہ فکر کے سبب الگ پہچانا جا تا ہے۔ اپنے انشائیہ واشنگ مشین میں لکھتے ہیں۔

’بچے مشین کے ارد گرد کھڑے خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے لیکن جب میں ان کی مسرت کے مہین آنچل میں سے باہر ماحول کو دیکھتا ہوں تو میری نگاہیں دھندلا کر واپس آ جا تی ہیں اور میں سوچتاہوں کاش میرے گھر کے باہر کوئی ایسی واشنگ مشین نصب ہو جائے جس سے گزر کر معاشرہ کے سارے غلیظ اور بد بو دار پیراہن، صاف ستھرے، اجلے اور سپید ہو جائیں روحوں پر سے صدیوں کی جمی ہو ئی میل اتر جائے اور دلوں سے بغض، کینہ اور منافقت کی بساند دھل جائے تاکہ عظیم انقلاب کی پھلجھڑیاں جو میں اپنے ننھے سے گھر کے اندر دیکھتا ہوں، باہر بھی دیکھ سکوں۔ 10

فنِ انشائیہ نگاری پر جمیل آذر کی گرفت اور مشاقی کے شواہد ان کے انشائیوں میں ملتے ہیں۔ ان کی زبان اس کارِ خیر میں معاون و مدد گار ثابت ہو ئی ہے بقول سجاد ظہیر :

’جمیل آذر بطور انشائیہ نگار اس لئے کامیاب ہیں کہ انھیں لفظ کو گو یا ئی عطا کر نے کا فن آ تا ہے۔ ان کے انشائیے ان کی علمیت اور ژرف نگاہی کے باوجود قاری کو مرعوب نہیں کرتے بلکہ اسے رفاقت اور اپنائیت کا احساس دلاتے ہیں۔ ‘2

جمیل آذر کے تقریباً سبھی انشائیوں میں ان کی گفتگو کا موضوع گھر ہے اس حوالے سے افرادِ خانہ سے لے کر پرندوں تک ان کی والہانہ محبّت کا اظہار ان کی تحریروں کو قابلِ مطالعہ بناتا ہے۔ اپنے انشائیے ’ میرا گھر ‘میں ان کے خیالات اس قدر وسعت اختیار کرتے ہیں کہ انھیں اپنا وطن بھی اپنا گھر نظر آ تا ہے۔

’ میرا گھر بہت عظیم، کشادہ اور بہت وسیع ہے، یہاں دبیز بر ف کے لحاف اوڑھے بلند ترین پر بت ہیں، چوڑے چکلے پاٹوں والے دریا ہیں، تند و شوخ بہتی ندیاں ہیں، نیلی شفاف جھیلیں ہیں، پر شور آبشار ہیں، روشن چمکدار ریگستان ہیں یہ سب میرے پیارے گھر کی زینتیں اور راحتیں ہی نہیں بلکہ میرے لیے سامانِ زیست پیدا کرتے ہیں۔ ‘

جمیل آذر نے اپنے انشائیے بالک ہٹ میں گھر کی رونق، بچوں کا بڑی اپنائیت سے ذکر کر کے اس ہٹ دھرمی کے تکلیف دہ پہلو بھی بیان کئے ہیں۔

رُت کے مہمان میں وہ مہاجر پرندوں کے ہر سال وارد ہونے ستے متعلق اپنے تجربات بیان کرتے ہیں۔

جمیل آذر کے انشائیوں کے مجموعے شاخِ زیتون 1981میں شامل انشائیوں میں روز مرہ کی زندگی سے متعلق عمومی باتوں سے انشائیہ نگار کے خیال کا سفر شروع ہو تا ہے اور بڑی سبک روی کے ساتھ انکشافات کی حیرت آمیزی سے موضوع کو دلچسپی سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ واشنگ مشین، مچھلی کا شکار اور شاخِ زیتون میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ہی ایک بے تکلف شخصیت بھی سامنے آ تی ہے۔ نیم پلیٹ، اخبار پڑھنا، تمباکو نوشی اور مانگے کا سگریٹ وغیرہ انشائیہ نگار کی دل آویز شخصیت کے اظہار کی کامیاب کو شش قرار دئے جا سکتے ہیں۔

جمیل آذر کے انشائیوں میں افراد اور اشیاء کو بنیاد بنا کر مصنف کا منفرد نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے جو عصری زندگی پر ایک بلیغ تبصرہ ثابت ہوا ہے۔ یوں تو نئے انشائیہ نگاروں کے ہاں اپنے اطراف کی زندگی پر نظر ڈالنے اور نئی اور انوکھی ایجادات کو موضوع بنانے کا رجحان عام ہے لیکن جو چیز جمیل آذر کی امتیازی خصوصیت قرار دی جا سکتی ہے وہ عصری زندگی کے مظاہر کی پیش کش سے ایک قدم آ گے بڑھ کر روحِ عصر تک رسائی کی وہ کوشش ہے جہاں فن کو اعلیٰ معیار اور دوامی حیثیت حاصل ہو تی ہے اور جو فن کا مطمحِ نظر بھی ہے کہ در اصل تیسری آنکھ کی کار فرمائی بھی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔

’تعجب ہے کہ افلاطون نے اپنے فلسفہ اعیان نا مشہود میں نیم پلیٹ کا کوئی ذکر نہیں کیا، ویسے مجھے افلاطون کے نظریہ نقل پر مکمل اعتماد ہے فی الواقع ہم اصل کی نقل نہیں تو اور کیا ہیں اور یہ نیم پلیٹ لوحِ محفوظ کی ایک نقل ہی تو ہے۔ پس جو تبدیلی نیم پلیٹ پر ظہور میں آ تی ہے وہ پہلے لوحِ محفوظ میں پیدا ہو تی ہے۔ تغیر اور تبدل ایک فطری اور لازمی امر ہے۔ یہ تغیر و تبدل کا خوف ہی تو ہے جس نے مجھے آ ج تک یہ موقع نہیں دیا کہ میں گھر کی چار دیواری کے باہر کوئی خوبصورت نیم پلیٹ آویزاں کر دوں۔ ویسے میں نے ابھی تک نیم پلیٹ آویزاں کر نے کی کوئی خاص ضرورت محسوس بھی نہیں کی۔ 2

جمیل آذر کے انشائیوں میں بے تکلف گفتگو کی کیفیت اور غیر رسمی انداز نمایاں ہے۔ ان کے انشائیے ان کے ہم عصر انشائیہ نگاروں کی تحریروں سے مختلف قسم کی فضا اور تاثر کا احساس دلاتے ہیں۔

 

حواشی

1۔ جمیل آذر، ’نیم پلیٹ ‘، شاخِ زیتون، 1981لاہور، ص53

2۔ جمیل آذر، ’نیم پلیٹ ‘، شاخِ زیتون، لاہور، ص53

 

                ممتاز مفتی

 

ممتاز مفتی بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانے انسانی نفسیات کی فنکارانہ تصویریں پیش کرتے ہیں۔ افسانہ کو نفسیات کی بنیاد پر استوار کر نے والے ادیبوں میں ممتاز مفتی نے اپنی راہ الگ نکالی ہے۔ ان کے افسانوں میں نفسیاتی تجزیہ کے لئے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ نہ صرف افسانوی فضا پیدا کرتا ہے بلکہ ماورائے حقیقت مفاہیم کو بھی گرفت میں لینے پر قادر ہے۔ اسلوب کی یہی توانائی انشائیے کی جان ہے بقول ہڈسن:

اسلوب اوڑھا ہوا اور کوٹ نہیں بلکہ بدن کی کھال سے عبارت ہے۔

ممتاز مفتی کے اسی اسلوب میں انشائیہ نگاری کا جوہر پوشیدہ ہے۔ اردو میں انشائیہ کے باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر نے سے قبل ہی ممتاز مفتی نے اس رنگ کی تحریریں پیش کیں ان کے مضامین کے مجموعے غبارے 1954میں شامل کئی مضامین انشائی خصوصیت کے حامل ہیں۔ ممتاز مفتی نے غبارے میں شامل بیشتر مضامین کو اپنے تجربات اور مشاہدات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ دل کش رواں دواں انداز میں زندگی کی مختلف سرگرمیوں کو بیان کرتے ہوئے ان کے اندر چھپا انشائیہ نگار روزمرہ کے واقعات سے ایک قدم اوپر اٹھ کر ایک انوکھی تخلیقی جہت دریافت کرتا ہے۔

ہمارے ہاں عام طور پر انشائیہ کو محض ذاتی تجربات اور مشاہدات کا کچا چٹھا بیان کر دینے کا سیدھا سادہ عمل خیال کیا جا تا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انشائیہ اسی وقت معرضِ وجود میں آ تا ہے جب انشائیہ نگار کی ذات زندگی اور معروض سے مس ہو کر تخلیقی سحر کے تحت ایک تیسری جہت کو جنم دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ یہی انشائیہ نگاری کا فن ہے۔

ممتاز مفتی کی تحریریں اپنے مخصوص انکشافات کی فضا میں شگفتہ انداز میں روزمرہ کے واقعات بیان کرتے ہوئے جہاں ایک جانب ہلکا پھلکا انداز جو انشائیہ کے ساتھ مخصوص ہے، اختیار کرتی ہے تو دوسری جانب واقعات اور مشاہدات کی زنجیر سے وہ سحرِ نغمہ بھی جگاتی ہے، جو انشائیہ نگاری کا ماحصل ہے۔ ممتاز مفتی کی کتاب میں ہمیں، پڑھانا، پہاڑے اور باپ جیسے مضامین ملتے ہیں جو انشائیہ کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ غبارے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں بعض تکنیکی موضوعات مثلاً فنِ افسانہ نگاری (صریرِ خامہ)عورت اور جنسیات، مشکلات اور محبّت وغیرہ پر بھی مضامین شامل ہیں ان مضامین میں ممتاز مفتی میں چھپے ہوئے افسانہ نگار کی بھی گہری چھا پ نظر آ تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مقامات پر کر داروں کا بھی عمل دخل ان مضامین میں ایک نئی آ ب و ہوا سے روشناس کرواتا ہے۔ مجموعی طور پر غبارے اردو کے انشائی ادب کا ایک اہم باب ہے۔

اس کتاب کا ایک اقتباس درج ذیل ہے :

مجھے گدھے پر رشک آ تا ہے کہ اس عقلمند جانور نے اپنی بے وقوفی کا پر چار کر کے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے ہر مشکل کام اور ذمہ داری سے محفوظ کر لیا ہے۔ وہ بڑی سے بڑی چالاکی کرے تو بھی آپ اسے حماقت پر محمول کر کے ہنس دیں گے اور پیار سے کہیں گے گدھا ہے گدھا۔ چونکہ آپ اسے خالص بے وقوف تسلیم کر چکے ہیں اور حماقت کے سوا اور کسی بات کی توقع نہیں رکھتے اور گھوڑا بے وقوف اپنی ذہانت کا ڈھونگ رچا کر ہمیشہ کے لئے غلام بن چکا ہے ہر کام جس میں ذہانت کی ضرورت ہو تی ہے اس کے ذمہ ہو چکا ہے۔ مثلاً بھرے بازار میں تانگہ لئے پھر نا، لڑائیوں میں سوار اور توپوں کو لے کر آگے بڑھنا، شادی میں دولہا کو اٹھائے پھر نا۔ اس کے برعکس گدھا زیادہ سے زیادہ مٹی کا بورا اٹھایا اور بس۔

(بحوالہ : غبارے )

 

                جاوید صدیقی

 

اردو انشائیہ نگاری کے ارتقاء پر نظر ڈالیں تو ہمیں بیشتر ایسے نام نظر آ تے ہیں جو اس وقت منظرِ عام پر آئے جب انشائیہ اپنے ابتدائی مراحل میں تھا۔ اس زمانے میں انشائیہ کو مغربی پرسنل ایسے کی طرز پر استوار کر نے کی کوششیں جاری تھیں۔ بعض ادیبوں نے بہت کم تعداد میں تخلیقات پیش کر کے اس بہاؤ کو قوت پہنچائی اور خاموشی اختیار کر لی۔ ان میں جاوید صدیقی بھی ایک اہم نام ہے۔

جاوید صدیقی کے انشائیے، ’ بے ترتیبی ‘، ’ میں ایک فلسفی ہوں ‘، ’ میں تنہائی کا شیدائی ہوں ‘ وغیرہ میں فطرت کے مظاہر کے پسِ منظر میں زندگی اور اپنی ذات کے نئے معنی دریافت کر نے کا رجحان نمایاں نظر آ تا ہے۔ بے ترتیبی میں لکھتے ہیں۔

’ زندگی اپنی فطرت میں بے ترتیب ہے اور اس میں ترتیب پیدا کر نا گویا اس کے فطری بہاؤ پر بند باندھنا ہے۔ زندگی ایک دریا کی طرح، ایک پہاڑی چشمے کی طرح آزاد ہے۔ وہ ہر لحظہ نیا راستہ اختیار کرتی ہے۔ ۔ ۔ ۔

وہ کسی مخصوص راستے کی پابند نہیں اورایسی تہذیب، ترقی اور پھیلاؤ کے حق میں رکاوٹ ہے جو اسے بالترتیب بنانے کے لئے اس پر پابندیاں عائد کر دے۔ تہذیب کے اسی تصور کی وجہ سے ابھی تک انسان مہذب نہیں بن سکا۔ ‘ 1

جاوید صدیقی کے انشائیوں میں خود کلامی کی فضا اور انشائیہ کا مزاج موجود ہے مذکورہ بالا تحریر اور جاوید صدیقی کے دیگر انشائیے اس زمانے میں منظرِ عام پر آئے جب انشائیہ اردو میں بحیثیت ایک منفرد صنفِ ادب اپنی پہچان قائم کر نے کی کو شش کر نے میں ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا۔ اس کے خد و خال روشن نہیں ہوئے تھے جاوید صدیقی کی تحریریں بیشتر دوسرے انشائیہ نگاروں ہی کی طرح تخلیقی سطح پر اس صنف کے خد و خال منور کر نے کا اہتمام کر گئیں۔

 

حوالہ

 

1جاوید صدیقی، ’ بے ترتیبی، ‘مخزن، لاہور، مئی 1950ص27

 

                نظیر صدیقی

 

بیسویں صدی میں انشائیہ کو تنقیدی اور تخلیقی ہر دو سطحوں پر متعارف کر نے والوں میں نظیر صدیقی اس صنف کے متعلق جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں ان میں جو بات انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ انشائیہ میں طنز کی شمولیت ہے۔

نظیر صدیقی کے انشائیوں کا مجموعہ شہرت کی خاطر اپنی تحریروں میں اسی خصوصیت کے ساتھ انشائیہ کا ایک نیا رنگ و آہنگ پیش کرتا ہے۔ بعض ناقدین کا یہ خیال ہے کہ نظیر صدیقی کی ظرافت چونکہ طنز کی جراحت سے حد درجے آشنا ہے اسی لئے انھوں نے اس کتاب کے دیباچے میں انشائیہ کے متعلق اپنے نظریات میں اسی عنصر پر زور دیا ہے، وہ لکھتے ہیں :

’ میں جن حالات و حوادث سے گزرتا رہا ہوں ا ن کے اثر سے میری زندگی بڑی حد تک غم و غصّے کا شکار رہی ہے یہی غم و غصّہ میری شاعری اور میرے انشائیوں کے محرکات رہے ہیں۔ میری شاعری کا محرک غم ہے اور میرے انشائیوں کا محرک غصّہ۔ یہی وجہ ہے کہ میرے انشائیوں میں مزاح سے زیادہ طنز کا عنصر نمایاں ہے۔ 1

نظیر صدیقی انشائیوں کو متضاد عناصر کا مرکب قرار دیتے ہوئے جن مختلف عناصر کے اتصال پر انشائیہ کو کھڑا دیکھتے ہیں ان میں سنجیدگی اور غیر سنجیدگی کے علاوہ حکمت سے حماقت تک کے مرحلے، بے خودی میں ہشیاری اور رندی میں مستی کا شمار ہے۔

وہ انشائیہ کی تعریف پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’انشائیہ ادب کی وہ صنف ہے جس میں حکمت سے لے کر حماقت تک ساری منزلیں طے کی جا تی ہیں۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں بے معنی باتوں میں معنی تلاش کئے جا تے ہیں اور بامعنی باتوں کی مہملیت اجاگر کی جا تی ہے۔ یعنی Sense میں Non Sense اور Non Sense میں Sense ڈھونڈا جا تا ہے۔ یہ وہ صنف ہے جس میں لکھنے والا غیر سنجیدہ ہونے کے با وجود سنجیدہ اورسنجیدہ ہو نے کے با وجود غیر سنجیدہ یعنی بالفاظِ غالبؔ لکھنے والے کی بے خودی میں ہشیاری اور ہشیاری میں بے خودی پا ئی جا تی ہے۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں کہیں سچ میں جھوٹ اور کہیں جھوٹ میں سچ کی آمیزش ہو تی ہے۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں نہ صرف اپنا نام اور دوسروں کی پگڑی اچھالی جا تی ہے بلکہ اپنی پگڑی اور دوسروں کا نام بھی۔ ‘

یہ سچ ہے کہ انشائیہ نثر اور غنائیت، احساس اور تفکر، داخل اور خارج کا نقطہ اتصال پیش کرتا ہے لیکن نظیر صدیقی جن دو آفاق کو انشائیہ کی زمین پر باہم مربوط کرتے ہیں وہ اردو میں ایک نئی چیز ہیں۔ نظیر صدیقی کے انشائیوں میں بھی حکمت سے حماقت تک کے تمام مرحلے طے ہو تے نظر آ تے ہیں۔ ان کے انشائیوں میں شخصیت طنز کے وار پر ہی اپنا اظہار کرتی ہے۔ ان کے ایک مضمون کا اقتباس درج ذیل ہے۔

 

’غنڈو ں کے بار ے میں سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ایک غنڈہ ہر آ دمی کے اندر ہو تا ہے اور باقی غنڈے شہر کے اندر ہوتے ہیں۔ جب کسی مقصد کی تکمیل میں اندر کے غنڈے سے کام نہیں چلتا تو باہر کے غنڈے بلائے جا تے ہیں۔ بڑے بڑے انقلابوں کو ممکن بنانے میں غنڈوں کا جو ہاتھ رہا ہے تاریخ میں اس کا اعتراف کہیں نہیں ملتا اس کی ایک وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ تاریخ صرف حقائق اور واقعات کے اندراج سے عبارت نہیں بلکہ بہت سے حقائق اور واقعات کے اخفاء سے بھی عبارت ہے۔ 2

نظیر صدیقی نے اپنے انشائیہ ’ غنڈے ‘ ہی کی طرح ’امتحان گاہ ‘ میں بھی موضوع کو ایک وسیلہ کے طور پر اختیار کیا ہے جس کی مدد سے وہ سماج ملک اور قومی مزاج کے علاوہ عصری زندگی کے حقائق طشت از بام کرتے چلے گئے ہیں۔ نظیر صدیقی کے انشائیوں میں انشائیہ نگار کی بصیرت اور سوجھ بوجھ کے شواہد قدم قدم پر ملتے ہیں ان کی تحریریں بیسویں صدی میں تخلیق ہو نے والے انشائیوں کے درمیان ایک نئی آ ب و ہوا کا احساس دلاتی ہیں۔

 

حواشی

 

1۔ شہرت کی خاطر، نظیر صدیقی، ص12

2۔ نظیر صدیقی، غنڈے، ماہنامہ آہنگ، گیا، بہار، اگست، ستمبر، 1980ص38

 

                مشکور حسین یاد

 

مشکور حسین یاد انشائیہ کو کمالِ آزادی، اظہارِ ذات اور کائنات کی تفہیمِ نو کا ایک ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں، گریزاں مفاہیم کو فکر و احساس کی سطح پر متشکل کرنے کی ایک کامیاب کوشش قرار دی جا سکتی ہیں۔ مشکور حسین یاد کی تحریروں میں پایا جانے والا غور و فکر کا انداز بیکن کی اس تعریف کی یاد دلاتا ہے جس میں انشائیہ کو Dispersed Meditation کہا گیا ہے۔

مشکور حسین یاد حیات و کائنات کے حوالے سے اپنے غور و فکر کے نتائج فنکارانہ انداز میں پیش کرتے ہیں چنانچہ ان کے انشائیوں کی ہر تیسری سطر کوئی بصیرت افروز نکتہ سامنے لاتی ہے جس میں انکشاف کی سی ڈرامائی کیفیت کے علاوہ خبر کی ترسیل میں تخلیقی لمس بھی شامل ہو تا ہے۔ بعض مقامات پر گہری سوچ کا ماحصل نمایاں ہے اورکہیں وہ سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے ہوئے نظر آ تے ہیں۔

مشکور حسین یاد کے انشائیوں میں سوچ و فکر کی یہی فضا طنزیہ و مزاحیہ مضامین کی بھیڑ میں ایک نئے اور منفرد اسلوب کی ضمانت بن کر ابھری ہے۔ ان کا یہ مخصوص انداز اس بات کا اعلان ہے کہ انشائیہ دیگر مضامین سے طبعاً مختلف ہے۔ وہ انشائیہ کو تمام اصناف پر محیط خیال کرتے ہیں۔

’ میں جس وقت انشائیہ کو امّ الاصناف کہتا ہوں اس سے عموماً میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے نثری ادب کی جتنی بھی اصناف ظہور میں آ ئی ہیں ان کا منبع اور مصدر انشائیہ ہے۔ گویا امّ الاصناف کہنے سے میرا مطلب زیادہ تر انشائیہ کے ماضی سے ہوتا ہے۔ ‘1

اس کا اندازہ ان کے انشائیے ’سطح ‘ میں ملاحظہ فر مائیں۔

’وقت کو کسی نے نہیں دیکھا، کسی نے نہیں پایا، لیکن سطح کی بدولت ہمیں اس کے صدہا روپ نظر آ جا تے ہیں۔ سطح نہ ہوتی تو وقت خلاؤں میں مارا مارا پھرتا۔ وقت سطح کے دامن میں پروان چڑھ رہا ہے۔ سطح کا دامن بڑا وسیع ہے۔ اس کی آغوش میں اندھیرا بھی ہے اور اجالا بھی۔ یہاں تلخیوں کو بھی پناہ ملتی ہے اور حلاوتوں کو بھی۔ اس کے سائے میں پھول اور کانٹے دونوں پر ورش پا تے ہیں۔ سطح مٹ جائے تو زندگی کی رنگا رنگی ختم ہو جائے۔ تضاد کا سارا لطف سطح سے قائم ہے۔ ہر چمکتی ہوئی شے سونا ہو یا نہ ہو چمک اپنی جگہ ایک قدر و منزلت رکھتی ہے۔ 2

مشکور حسین یاد نئی نسل کے بیشتر انشائیہ نگاروں کی طرح موضوع سے مسلسل چمٹے رہنے کے بر عکس موضوع کی ڈور کو ڈھیلا چھوڑ دینے کے بعد آزادانہ سیر کر نے اور انشائیہ میں ابھر نے والے ذیلی نکات کو نئے انداز سے روشن کر نے کا اہتمام کرتے ہیں اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ ان کے ہاں نادر خیالات کی کرید کا حوصلہ موجود ہے آخر میں موضوع کا سرا ان کے ہا تھ میں ہو تا ہے اور انشائیہ نگار حقائق کی کرچیوں کو سمیٹ کر موضوع کو ایک منفرد دلکشی کے ساتھ انشائیہ کے آئینے میں منعکس کر دیتا ہے۔

مشکور حسین یاد کے انشائیے، ’ لے سانس بھی آ ہستہ‘ میں موضوع سے متعلق مختلف نکات مثلاً نزاکت اور احتیاط کی فلسفیانہ توجیہ کے سہارے آ گے بڑھتے ہیں۔ کائنات اور حقائق کے چہرے بے نقاب کرتے ہوئے موضوع کو ایک نئی فکری جہت عطا کر دیتے ہیں۔ مشکور حسین یاد نے اپنی کتاب ’دشنام کے آئینے ‘ میں جو مضامین پیش کئے ان میں طنز کا عنصر نمایاں ہے۔ اسی احساس کے تحت انھوں نے اس کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے :

’ دشنام کے آئینے ‘ میرے طنزیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ایک طرح سے میں ان مضامین کو طنزیہ انشائیے بھی کہہ سکتا ہوں۔ لیکن چونکہ انشائیہ کے بارے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ انشائیہ نگار جس وقت انشائیہ تحریر کر نے بیٹھتا ہے تو اس وقت اس کے ذہن میں موضوع کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہو تی۔ اسی لیے میں ان مضامین کو انشائیہ کہنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ یہ مضامین لکھتے وقت میرے ذہن میں طنز لکھنے کی واضح خواہش اور تصور موجود تھا۔ میں سمجھتا ہوں غیر ارادی طور پر طنز و مزاح، فلسفہ وغیرہ انشائیہ میں شامل ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر انشائیہ تحریر کر نے سے قبل اس قسم کی کوئی چیز ذہن میں موجود ہے تو پھر ایسی تحریر کو ہم انشائیہ نہیں کہہ سکتے۔ ‘3

مشکور حسین یاد کے انشائیے جو ’جوہرِ اندیشہ‘ میں شامل ہیں گہری سنجیدگی لیے ہوئے ہیں۔ انشائیہ کے متعلق ان کے خیالات جو انھوں نے اپنی مذکورہ تینوں کتابوں میں پیش کئے ہیں ان میں اگرچہ انشائیہ کا کوئی واضح تصور موجو د نہیں لیکن ان کے اس بیان سے جس میں انھوں نے انشائیہ کو طنزیہ تحریروں سے امتیازی قسم کی تحریر کے طور پر تسلیم کیا ہے، ایک اہم بیان ہے اوراس سے انشائیہ کے متعلق موجود بڑی غلط فہمیوں کو دور کر نے میں مدد ملتی ہے۔

 

حواشی

1۔ ممکناتِ انشائیہ، مشکور حسین یادص57

2۔ مشکور حسین یاد، سطح، ’جوہرِ اندیشہ، ‘لاہور، 1975ص33

3۔ ’دشنام کے آئینے میں ‘مشکور حسین یاد، نسیم بک ڈپوِِ ، لاہور، 1975ص7

 

                سلیم آغا قزلباش

 

انشائیہ نگاروں کی نئی نسل میں نوجوان انشائیہ نگار سلیم آغا قزلباش کے انشائیے فکری گہرائی اور سادگی و پر کاری کا دل آ ویز نمونہ ہیں۔ ان کے انشائیوں میں دیہاتوں کی پر سکون فضا اور فکری آ سودگی انشائیہ نگار کو کائنات کے مظاہر پر آزادانہ اظہارِ خیال کے مواقع فراہم کر دیتی ہے۔

مثل مشہور ہے کہ حضرت لقمان سے جڑی بوٹیاں باتیں کیا کرتی تھیں۔ سلیم آغا قزلباش کے انشائیے پڑھ کر محسوس ہو تا ہے گویا وہ کائنات کی مختلف اشیا سے محو کلام ہیں۔ وہ چیزیں انھیں بتا رہی ہیں کہ اس بھری پری کائنات اور تاریخ میں ان کی رشتہ داریاں کہاں کہاں ہیں۔ اس حقیقت کا اندازہ انشائیہ ’ ناریل ‘ کے اس اقتباس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

’در اصل ناریل، جزیرہ اور رابن سن کروسو ایک ہی رشتے کے تین نام ہیں۔ جزیرہ ایک ایسا خشک قطعہ زمین ہے جسے چہار جانب سے بے کراں سمندر نے گھیر رکھا ہے۔ جب کہ ناریل ایک ایسا خطہ ارض ہے جس نے سمندر کو پورے طور پر اپنی اوک میں بھر رکھا ہے، سمندر سے دونوں کا تعلق بہت قدیم ہے۔ رہا رابن سن کروسوتو وہ جزیرے کی طرح اپنے وطن اور معاشرے سے کٹا ہوتا ہے، اورناریل کی طرح اس نے داڑھی چھوڑ رکھی ہے۔ سو مجھے ناریل، جزیرہ اور رابن سن کروسو، ایک ہی چیز کے مختلف رو پ نظر آتے ہیں۔ ‘1

سلیم آغا قزلباش کے انشائیوں پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ ان کے عنوانات اکثر مختلف اشیاء کے ناموں پر منحصر ہیں مثلاً جنگل، موم بتی، ناریل وغیرہ۔ دراصل سلیم آغا کے انشائیوں میں اشیاء کے حوالے سے رویوں تک پہنچنے کا رجحان غالب ہے۔ اس طرح وہ اشیاء کے بطن میں پوشیدہ ایک غیر مر ئی کائنات کی دریافت کا عمل انجام دیتے ہیں جسے انشائیہ نگاری کا جوہر قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ جمادات کی یہ دنیا مختلف عنوانات کے وسیلے سے ان کے انشائیوں میں جہانِ دیگر کا منظر پیش کرتی ہیں۔

سلیم آغا قزلباش کے انشائیوں میں اشیاء کو وسیع تناظر میں دیکھنے اور خیال کی مختلف پر تیں الٹنے کا عمل نمایاں ہے۔ سلیم آغا نے افسانے بھی لکھے ہیں۔ ان کے افسانے بھی اسی انشائی کیفیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنے انشائیوں میں افسانوی طرزِ بیان کو مناسب انداز میں اختیار کر کے اس سے اس صنف کا وقار بلند کیا ہے ۔

سلیم آغا کے انشائیوں کے دو مجموعے ’ سرگوشیاں (1981)اور’ آ منا سامنا (1987 ) منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔

 

حوالہ

 

1۔ سلیم آغا قزلباش، ناریل، آ منا سامنا، سرگودھا، 1987ص18

 

 

                کامل القادری

 

کامل القادری کے انشائیے نہ صرف اپنے عنوان سے ہمیں انوکھے پن کا احساس دلاتے ہیں بلکہ انشائیہ نگار اور موضوع دونوں کے باطن میں موجود ایک جہانِ نو کی سیر کراتے ہیں۔ کامل القادری کی تحریریں واضح طور پر انشائیے کی اس خوبی کی نشاندہی کرتی ہیں کہ انشائیہ ہمیں مختلف جہانوں کی سیر کراتا ہے جہاں ہماری سوچ روزمرہ کی گھسی پٹی ڈگر سے ہٹ کر ایک نئی راہ پر گامزن ہو تی ہے۔ اس دنیا میں ہم روز مرہ کی دیکھی بھالی اشیا ء کے ان دیکھے پہلوؤں سے بہ اندازِ دیگر متعارف ہو تے ہیں۔ انشائیہ نگار ہماری بصارت کی حدود میں اپنی بصیرت کے اجالے شامل کر کے، ہمیں ہماری دنیا میں موجود، ان ہی چیزوں کے پوشیدہ گوشوں سے واقف کرواتا ہے۔ کامل القادری کے انشائیے ’ فٹ نوٹ ‘ میں موضوع کو پیش کر نے کا انداز ملاحظہ فر مائیں :

’ فٹ نوٹ لگانا تخلیقی آ رٹ ہے، آتے آ تے آ تا ہے۔ امرت نکالنے کا نسخہ کسے معلوم نہیں لیکن واقعی سات سمندر کو کس نے متھا ہے۔ صفحہ کے دامن میں ستارے کی طرح دمکتا، کودتا، ضو بار فٹ نوٹ امرت کی وہ بوند ہے جو پھیلے تو سمندر ہو جائے۔ 1

کامل القادری کے انشائیوں میں اختصار، بلاغت، ندرتِ خیال اور تخیل کی جولانیاں نمایاں ہیں۔ فٹ نوٹ، ہارڈ بیڈ، سریش کا درخت اور الگنی جیسے خیال انگیز انشائیے لکھ کر کا مل القادری نے نامانوس موضوعات کے متعلق خیال آ رائی کے ایک ایسے سلسلے کو جنم دیا جو تاریخ، تہذیب اور زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے مسرت افزا حقائق طشت از بام کرتا ہے روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہو نے والی ایک معمولی سی شے الگنی انشائیہ نگار کے تخیل کا لمس پاکر عجیب و غریب حقائق کا انکشاف کر جاتی ہے۔ ان کے نزدیک تہذیبی اقدار سے غفلت کا عمل گویا ان اصولوں کو طاقِ نسیاں کی زینت کر دینا ہے۔ اسے وہ طاق کے بجائے الگنی کے حوالے سے کس خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔

’ ہم کیسی کیسی چیزوں کو الگنی پر ٹانگ کر بھول جاتے ہیں۔ گویا الگنی نہ ہوئی طاقِ نسیاں ہو ئی۔ آ ج ہم نے اپنی پوری تہذیب اور صدیوں کی ذہنی یافت کو الگنی پر سکھا رکھا ہے اور بدحواس پھر رہے ہیں۔ در ماندہ ہیں۔ تلملا رہے ہیں کہ ہماری کوئی تہذیب نہیں۔ ہم اپنی تہذیب دریافت کر نے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ہماری تہذیب الگنی ہے، ہنگر نہیں ہے۔ ‘2

کامل القادری نے بہت قلیل تعداد میں انشائیے لکھے اس کے باوجود ان کی تحریروں میں پائی جانے والی جامعیت، گہرائی اور اس صنف کے فنی آداب کے التزام سے انھیں عصری انشائیہ نگاروں میں ایک امتیازی مقام حاصل ہوا۔

فٹ نوٹ پر حقارت کی نظر نہ ڈالئے نہ جانے کب اس بوتل میں بند جن باہر نکل آئے۔ متن کے زیرِ سایہ بظاہر بے ضرر سا پاؤں سمیٹے فٹ نوٹ چھلاوے کے تمام اوصافِ حسنہ رکھتا ہے۔ اس میں بلا کی قوتِ نمو و بالیدگی ہو تی ہے بڑتے بڑھتے وہ متن پر امر بیل کی طرح چھا جاتا ہے۔ ‘3

 

حواشی

1۔ کامل القادری، فٹ نوٹ، ، منتخب انشائیے، مرتبہ سلیم آغا قزلباش، سرگودھا 1984

ص86

2۔ کامل القادری، الگنی، منتخب انشائیے، مرتبہ سلیم آغا قزلباش، سرگودھا 1984

ص90

3۔ کامل القادری، فٹ نوٹ، ، منتخب انشائیے، مرتبہ سلیم آغا قزلباش، سرگودھا

 

                احمد جمال پاشا

 

احمد جمال پاشا طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے اردو میں مقبولیت سے ہمکنار ہوئے۔ اپنی عمر کے آخری دور میں انشائیہ نگاری کی اس تحریک سے وابستہ ہو گئے جسے پاکستان میں وزیر آغا نے شروع کیا تھا۔ احمد جمال پاشا کوا س طرح طبع آزمائی کے لئے ایک نیا میدان ہاتھ آ گیا جسے انھوں نے بحسن و خوبی طے کیا اور اردو ادب کو چند نہایت خوبصورت انشائیے دئے۔

احمد جمال پاشا اپنی شگفتہ تحریروں کے ذریعے کر داروں کے مضحکہ خیز رویوں کو نمایاں کر کے سماجی زندگی کی بوالعجبیاں بے نقاب کرتے رہے۔ ڈرامائی صورتِ حا ل اور واقعہ نگاری کے علاوہ کر دار سازی پر احمد جمال پاشا ابتدا ہی سے خاص توجہ صرف کرتے رہے۔ انشائیے کو اپنا کر انھوں نے خیالات کی مسلسل قلا بازیوں کے ذریعے حقائق کی نئی جہتوں کو روشن کر نے کے علاوہ ندرتِ خیال اور نکتہ آفرینی کو بھی اپنی تحریروں میں جگہ دی۔ اس کا اندازہ ان کے انشائیے، بے ترتیبی کے اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے جس میں و ہ بادل میں انسانی شخصیت کا عکس دیکھ لیتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق بادل میں بھی انسانی طبیعت کا عکس نمایاں ہے۔

’ نفسِ انسانی کی طرح ان سیماب پا ابر پاروں کو قرار نہیں، بادل کے ٹکڑے یوں پلک جھپکنے میں بدل جاتے ہیں جیسے آ دمی بات بدل دیتا ہے۔ بادل تو دھرتی کا عکس ہیں۔ ان میں انسانی فطرت جھلکتی ہے۔ یہ بھی باہر کے آ دمی کی طرح اندر سے کچھ، باہر سے کچھ۔ جیسے انسان کے دل میں کچھ ہوتا ہے، دماغ میں کچھ، منہ پر کچھ، پیٹھ پر کچھ، حلق میں کچھ اور زبان پر کچھ۔ خیال کی طرح بادل میں سرے سے کوئی ترتیب نہیں ہو تی۔ 1‘

احمد جمال پاشا کا قلم اپنی عمرِ عزیز کے بیشتر حصّے میں ظرافت کے نوکِ پلک سنوارتا رہا اور اکثر طنز و مزا ح کی چاشنی میں ڈوبا رہا اسی لئے شگفتگی ان کے اسلوب کا خاص جوہر ہے۔ احمد جمال پاشا کی یہی طبعی خصوصیت انشائیے میں چہرہ بدل کر وارد ہوئی یعنی عصری زندگی کے حقائق کو تاڑ کر صفحہ قرطاس پر فنکارانہ طور پر نمایاں کر نا۔ احمد جمال پاشا نے انشائیہ میں زندگی کے منظر نامہ کو متحرک تصویروں اور کر داروں کی مدد سے صفحات پر منتقل کر نے کے بجائے زندگی کو ایک غیر جانب دار تماشائی کی نظر سے دیکھا اور پر سکون انداز میں اپنے نتائجِ فکر اور لطیف احساسات کو رقم کیا۔ اس دوران طنز و مزاح کا ترکش ایک طرف رکھ چھوڑا اور اس میدانِ کار زار میں استعمال ہونے والے دیگر آلاتِ حرب کو بھی اٹھا رکھا کہ انشائیے کی راہِ سلوک الہامی کیفیات کے اظہار کے لئے ایک صوفی کا زیرِ لب تبسم متانت اور لہجے کا دھیما پن ہی بطور زادِ سفر کافی تھا۔ احمد جمال پاشا کو انشائیے کی تحریک سے وابستگی کے بعد بہت کم عرصہ میسر آیا جس میں انھوں نے اس صنف کو اپنے رشحاتِ قلم سے سرفراز کیا۔

احمد جمال پاشا کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے انشائیہ نگاری کی تحریک کو فروغ دینے کے لئے بھی نمایاں کر دار ادا کیا۔ چونکہ ہندوستان میں اس طرزِ تحریر اور اندازِ فکر کو انشائیوں میں برتنے والے بہت کم لوگ تھے اس لئے اس سلسلے میں جو بھی آ گے بڑھا انھوں نے اس کی پذیرائی اور رہنمائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور اس صنف کی تفہیم کی غرض سے کئی مضامین سپردِ قلم کئے اور انشائیوں کے متعلق صحیح رائے قائم کر نے میں مدد کی۔

انشائیہ کی اصطلاح (مطبوعہ اردو زبان، سرگودھا ) مضمون میں احمد جمال پاشا نے انشائیہ اور مضمون کے متعلق مفصل اظہار خیا ل کیا اور ان دونوں کے فرق کو واضح کیا۔ عملی طور پر اسے سمجھانے کے لئے انھوں نے ایک ہی موضوع پر انشائیہ اور مزاحیہ و طنزیہ مضمون اور سنجیدہ مضمون کا فرق واضح کیا اس مقصد کے لئے انھوں نے ’ بور ‘ عنوان کا انتخاب کر کے تینوں اصناف میں اس پر طبع آزمائی کی۔ ان کی یہ تحریریں ماہنامہ اوراق کے انشائیہ نمبر میں شائع ہوئیں۔

احمد جمال پاشا نے اپنے آخری ایام میں ’ ہجرت‘، ’بے ترتیبی‘ اور’ بلیوں کے سلسلے میں ‘ وغیرہ کامیاب انشائیے رقم کئے۔

 

حوالہ

 

1احمد جمال پاشا، بے ترتیبی، منتخب انشائیے، سرگودھا، 1984ص49

 

 

                رام لعل نابھوی

 

طنزیہ و مزاحیہ تحریروں پر مشتمل کتاب تبسّم کی اشاعت کے بعد رام لعل نابھوی کے انشائیوں کا مجموعہ’آم کے آم ‘ منظر پر آیا اس میں سترہ انشائیوں کے علاوہ اس صنف سے متعلق ایک تعارفی مضمون بھی شامل ہے۔ اس میں انشائیہ نگاری کی تحریک سے وابستہ نئے انشائیہ نگاروں کے موقف کو واضح کیا گیا ہے۔

رام لعل نابھوی ہندوستان سے انشائیہ نگاروں کی تحریک میں شامل ہونے والے معدودے چند ادیبوں میں شامل ہیں جن کی تخلیقات اس صنف کے تخلیقی تقاضوں کو پورا کرتی ہیں۔ ان کے بیشتر انشائیے اوراق، لاہور میں شائع ہوئے۔

رام لعل نابھوی کے انشائیوں کا اختصار، معنویت سے بھر پور فقروں کی ترتیب اور موضوع کو فنکارانہ انداز میں پرت در پرت کھولنے کا سلیقہ انھیں دیگر انشائیہ نگاروں میں ممتاز حیثیت عطا کرتا ہے۔ ان کی تحریروں میں قلم کار آ پ بیتی اور جگ بیتی کے دوراہے پر کھڑا، اپنے تجربات و مشاہدات بیان کرتا ہے۔ وہ روزمرہ زندگی کے واقعات اور نظر کے سامنے موجود اشیاء کو اپنے تفکر، تخیل اور مشاہدات کے تناظر میں رکھ کر ایک نئی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ ان کے انشائیوں میں ذہانت اور دانشمندی کا مظاہرہ خود انکشافی کی شکل میں ظاہر ہو تا ہے۔ رام لعل نابھوی کے انشائیے جزئیات نگاری کی عمدہ مثالیں ہیں۔ گالی، پوسٹ کارڈ، اور انتظار تخلیقی اعتبار سے جاندار تحریریں ہیں۔ ان کے انشائیوں کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔

’پوسٹ کارڈ بہت مسکین طبیعت کا مالک ہو تا ہے لیکن کبھی کبھی اسے شرارت سوجھ جاتی ہے پھر وہ سفر کر نے کی سوچتا اور میز پر سے کھسک کر دوسرے تھیلے میں چلا جا تا ہے۔ ۔ ۔ وہ جانتا ہے کہ اسے قید میں رہنا ہے اور ڈاکخانے کی چوٹیں سہنی ہیں لیکن اسے آ پ کی خدمت کا اتنا شوق ہے اور اس جذبہ سے وہ اتنا سر شار رہتا ہے کہ یہ مار اسے یاد نہیں رہتی۔ منزلِ مقصود تک پہنچ کر وہ بیتاب ہو نا شروع ہو جا تا ہے۔ اس کا کام تب ختم ہو گا جب وہ مکتوب الیہ کے ہاتھوں میں ہو گا۔ 1‘

’مسکراہٹ معصومیت کی دلدادہ ہے۔ ایک پنشنر پچھلے تین ماہ کی پنشن لینے جا تا ہے اسے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہے، وہ پچھلے مہینو ں کا بھی سرٹیفکیٹ دے دیتا ہے۔ اس کی سادگی پر کلرک مسکراتا ہے۔ افسرِ خزانہ مسکراتا ہے۔ ان کو مسکراتے دیکھ کر پنشنر بھی مسکراتا ہے۔ کسی بھی وضع کا کاؤنٹر ہو وہاں نوخیز کلی کی طر ح مسکراتی ایک جاذب نظر دوشیزہ نظر پڑے گی، یہی وہ مسکراہٹ ہے جو آ پ کو کہیں اور جانے نہیں دے گی۔ مسکراہٹ کی ایک طاقت ہے۔ کششِ ثقل ہے، مسکراہٹ جوڑتی ہے۔ بکھراؤ کو ختم کرتی ہے، مسکراہٹ ایک متبسم سورج ہے، جس کے گرد تمام سیارے گردش کر نے پر مجبور ہیں۔ مسکراہٹ نہ ہو تو ساراعالم ایک جھنکار کے ساتھ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے۔ 2

 

حواشی

1۔ پوسٹ کارڈ۔ ۔ رام لعل نابھوی

2۔ مسکرانا۔ رام لعل نابھوی، مشمولہ، نئے انشائیے، مرتبہ : سلیم آغا قزلباش، 1992

ص73

 

                سلمان بٹ

 

سلمان بٹ کے انشائیے طنز و مزاح کی نشتریت کے با وصف قومی اور سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے آئینہ دار ہیں۔ اس ضمن میں ان کے انشائیہ ’جمعہ ‘ اور’ دن منانا‘ قابلِ ذکر ہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں ہمارا دیکھا بھالا اور برتا ہوا دن جمعہ جب سلمان بٹ کے انشائیہ کا عنوان بن جاتا ہے تو وہ اسے تاریخی اور مذہبی پسِ منظر میں رکھ کر اس کی ایک نئی معنوی جہت دریافت کرتے ہیں۔

اسی طرح وہ انشائیہ ’بد صورتی میں بھی بد صورتی کی سماجی افادیت بیان کر کے اسے ہمارے لئے اسے قابلِ قبول بنا دیتے ہیں۔ مثلاً ایک بدصورت بڑھیا کی عمرِ گزشتہ کی تصویر ہماری چشمِ تصور کے سامنے لا کر بد صورتی کو ایک پر دہ قرار دیتے ہیں جو ہر خوبصورت شے کے اوپر ڈال دیا گیا ہے۔ موضوع کے ارد گرد دور تک مفاہیم کی تلاش سلمان بٹ کے انشائیوں کی خصوصیت ہے۔

سلمان بٹ چند خوبصورت انشائیوں کی تخلیق کے بعد کم عمری ہی میں راہیِ ملکِ عدم ہو گئے۔ ان کے انشائیوں کا مجموعہ ’سفید بال‘ منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ انشائیہ ’بد صورتی ‘ میں وہ ایک عبرت کا پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔

’ بد صورتی میں ایک عبرت کا پہلو بھی مضمر ہے، بد صورت اشیاء احساس دلاتی ہیں کہ خوبصورتی ایک عارضی شے ہے۔ اس سراب کے پیچھے بھاگ کر حقیقت کو نظروں سے اوجھل نہیں ہو نے دینا چاہئے بد صورت چیزو ں میں کئی اور اخلاقی سبق پنہاں ہیں مثلاً یہ کہ انسان کو باہر سے بھی وہی کچھ نظر آ نا چاہئے جو اندر ہے۔ گویا بدصورتی منافقت کے خلاف ایک احتجاج ہے۔

بدصورت چیزیں آپ کو قناعت کا درس دیتی ہیں۔ زندگی میں خوبصورتی کم اور بدصورتی زیادہ ہے لہٰذا زندہ رہنے کا طریقہ یہی ہے کہ بد صورتی کو قبول کیا جائے۔ اسے سینے سے لگایا جائے۔ ورنہ زندگی ایک ناقابلِ بر داشت بوجھ بن جائے گی۔ ہر روز اور ہمہ وقت خوبصورتی کو تلاش کر نے والے لوگ بالآخر مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں کیونکہ خوبصورتی تو چھوئی موئی ہے ہاتھ لگاؤ تو فوراً مرجھا جاتی ہے یا کم از کم میلی ضرور ہو جاتی ہے۔ 1‘

 

حوالہ

 

1۔ بد صورتی، سلمان بٹ، مشمولہ، نئے انشائیے، مرتبہ : سلیم آغا قزلباش، 1992       ص139

 

                خالد پرویز صدیقی

 

خالد پرویز صدیقی زندگی کے گوں نا گوں مظاہر کی چھوٹی چھوٹی تصویریں انشائیہ میں سجا کر چند جملوں میں گہرے سماجی شعور اور طویل غور و فکر کے شواہد مہیا کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب موضوع کے تحلیل و تجزیہ کے لئے مناسب ہے۔ ان کی تحریروں میں اختصار اور بلاغت و دانش کے جگمگاتے ہوئے جگنوؤں سے پورے انشائیے کو ایک آب و تاب عطا ہوتی ہے۔ انشائیہ ’زیرو پوائنٹ ‘میں لکھتے ہیں۔

’بات جب زیرو کی چل نکلی ہے تو عرض ہے کہ ریاضی میں زیرو ابتدائی عدد ہے۔ جو بڑا ئی کے احساس سے آزاد ہے جوں جوں اعداد کا شمار آ گے بڑھتا جا تا ہے ان میں بڑائی کا میلان پیدا ہو تا جاتا ہے۔ زیرو کا عدد تو بالکل نو زائیدہ بچے کی طرح ہے جو انتہائی معصوم اور تمام آلودگیوں سے پاک ہوتا ہے۔ 1‘

خالد پرویز صدیقی نے انشائیہ دائرہ میں جس تکنک کو اپنایا ہے اس میں وہ بات کو مکمل کر کے ایک نئے سلسلہ خیال کا دوسرا سرا پکڑ نے کی کو شش کرتے ہیں۔ ایک ڈھیل اور سکتے کے بعد نئی ابتدا پا کر انشائیہ میں ایک مخصوص آہنگ پیدا ہو جا تا ہے مجموعی طور پر یہ تمام اجزاء پھول کی متفرق پتیوں کی ترتیب سے انشائیہ کے حسن اور معنویت کو اجاگر کرتے ہیں۔ انشائیہ ’دائرہ ‘ کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے :

اس دنیا کی مشینی ترقی کی بہ دولت انسان اگر مہذب اور ترقی یافتہ کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف دائرے ہی کی وجہ سے ہے۔ وہ شخص یقیناً کوئی عظیم آ دمی تھا جس نے مشینی ترقی کا پہلا زینہ یعنی پہیہ ایجاد کر کے انسانی زندگی میں ہلچل مچا دی، جس کی وجہ سے اس پہلے پہیے کی اولاد انگنت مشینوں کی صورت میں رات دن رواں دواں ہے۔ پہیے کی وجہ سے زمانی اور مکانی فاصلے سمٹ کر انسان کی مٹھی میں آ گئے ہیں۔ سڑکوں پر جب سرخ روشنی کا دائرہ ضابطہ کے تحت رکنے کا اشارہ کرتا ہے تو سبز روشنی کا دائرہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے رجوع کئے بغیر زندگی کے قافلے کو آگے کی طرف روانہ کر دیتا ہے۔ 2

اس انشائیے میں خیالات کی مختلف لہریں ابھرتی ہیں جو پانی پر ابھر نے والے دائروں کی طرح ایک دوسرے سے مس نہیں ہوتیں لیکن مجموعی طور پر ہمارے ذہن میں موضوع کے دائرے کو وسیع تر کرتی جا تی ہے۔ خا لد صدیقی کے انشائیے اختصار اور جامعیت کے علاوہ انکشافِ ذات کے علمبردار ہیں۔

 

حواشی

 

1زیرو پوائنٹ، خالد پرویز صدیقی، اوراق، انشائیہ نمبر، ص112

2۔ خالد پرویز صدیقی، ’ دائرہ‘، منتخب انشائیے۔ سرگودھا، 1984، ص173

 

                انجم انصار

 

بر صغیر میں انشائیہ نگاری کی تحریک کے تحت ابتدا میں ابھر نے والے قلم کاروں میں انجم انصار کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے انشائیے فکر اور تخیل کا دل کش امتزاج پیش کرتے ہیں۔ انجم انصار کے انشائیے ’منگنی کی انگوٹھی‘ میں انگوٹھی کے متعلق نسوانی سوچ اور احساسات کی لطیف لرزشیں فنکارانہ انداز میں انشائیہ میں ڈھل گئی ہیں۔ اس کا اندازہ ذیل کے اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔

’منگنی کی انگوٹھی اپنے ساتھ انتہائی وابستگی کا احساس لاتی ہے۔ یہ احساس اس احسا س سے بھی زیادہ پر مسرت ہو تا ہے جب پکنک پر والدین کی نظروں سے بچ کر سہیلیوں کے سنگ گھٹنوں تک شلوار کے پائینچے چڑھائے پانی میں شڑپ شڑپ کرتے دور تک نکل جایا کرتے تھے اور یہ احساس اس احساس سے بھی قطعی مختلف ہو تا ہے جس کا تعلق شادی کی انگوٹھی سے ہے۔ منگنی کی انگوٹھی پہنتے ہی آپ ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں داخل ہو جا تی ہیں۔ یہ دائرہ منگنی سے پہلے اور منگنی سے بعد والی زندگی کے در میان ایک نو مین لینڈ کا تصور پیش کرتا ہے جس میں تمام تر وابستگی کے باوجود آ پ اپنی آزادی، خود مختاری اور رائے کو بر قرار رکھ سکتے ہیں۔ تب آپ رعایا ہو تے ہوئے بھی حکمرانی کرتی ہیں۔ 1

انجم انصار بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں میں بھی انشائیوں کا رنگ نمایاں ہے البتہ انشائیہ کے فارم میں ان کی بہت کم تحریریں منظرِ عام پر آئیں۔ جمیل آذر نے اردو کے بہترین انشائیوں کے انتخاب میں منگنی کی انگوٹھی کو شامل کیا ہے۔

انشائیہ نگاری کی فطری صلاحیت کے سبب معدودے چند انشائیے تخلیق کر نے کے باوجود انجم انصار اپنی منفرد شناخت قائم کر نے میں کامیاب ہو گئیں۔

 

حواشی

 

1۔ انجم انصار، ’ منگنی کی انگوٹھی‘ اردو کے بہترین انشائیے، مرتبہ جمیل آذر، ص151

 

اکبر حمیدی

 

اکبر حمیدی کے انشائیوں میں فکری تازگی اور جذباتی وارفتگی حسنِ توازن کے ساتھ خود کلامی کے روپ میں ظاہر ہو کر غنائیت کی حدود کو چھوتی ہو ئی نظر آ تی ہے۔ ان کے یہاں خود احتسابی کی زد پر انشائیہ نگار کی ذات ہوتی ہے۔ وہ سماج، کائنات اور زندگی کے ساتھ اپنے روابط کا جائزہ لیتے ہوئے انوکھے روابط کی دریافت کے عمل سے گزرتے ہیں۔

’ میں نے کئی بار محسوس کیا کہ میری عدالت میرے اندر لگتی ہے جہاں سے میں حکمِ حیات یا سزائے موت سنتا ہوں، مجھ سے باہر کی عدالتیں میرے لئے غیر اہم ہیں کیونکہ انھیں حقیقتِ حال کا براہِ راست علم نہیں ہوتا۔ میرے اندر کی عدالت حقائق کو براہِ راست جانتی ہے ‘۔ 1

اکبر حمیدی کے انشائیوں میں غور و فکر کا رخ خارجی زندگی کی بہ نسبت فرد کے داخلی معاملات کی طرف زیادہ ہے۔ اکبر حمیدی اپنی نفسیاتی اور فکری موجوں کی تفہیم اور احتساب کے لئے خارجی زندگی کے مظاہر کو بطور آئینہ استعمال کرتے ہیں۔

اسی شدید قسم کی داخلیت کے سبب ان کے انشائیوں میں فلسفیانہ اندازِ فکر اور شاعرانہ احساس در آیا ہے۔ انشائیہ نگار کی سوچ اپنی ذات زندگی اور کائنات کے دائرے میں سوالات مقرر کرتی ہے۔ ان سوالات پر قاری کو شرکت کی دعوت دیتی ہے اور پھر خود ہی ا س کے جوابات مہیا کر کے قاری کے آ گے ایک ادھوری تصویر سجا دیتی ہے۔ تصویر کا بقیہ حصہ مکمل کر نے کے لئے قاری کو ایک دعوتِ فکر اکبر حمیدی کے انشائیوں میں دستیاب ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس قتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔

’ہم صدیوں سے اس سورج کے طلوع کا انتظار کر رہے ہیں جو سب کے لئے ہو اور جسے دستار میں چھپا کر نہ لے جایا سکے۔ میں سوچتا ہوں وہ سورج کب نکلے گا۔ میں صدیوں کے اندھیروں میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوں اور دور افق پر نظریں جمائے ہوئے ہوں مگر پھر میں سوچتا ہوں۔ وہ سورج تو کبھی کا طلوع ہو چکا۔ میری یہ سوچ شعائیں بکھیرتی، روشنی دیتی ہوئی، یہ سوچ سورج نہیں تو اور کیا ہے ؟ 2

 

حواشی

 

1۔ میں سوچتا ہوں، اکبر حمیدی، اوراق انشائیہ نمبر، لاہور، مئی 1985، ص226

2۔ میں سوچتا ہوں، اکبر حمیدی، اوراق انشائیہ نمبر، لاہور، مئی 1985، ص226

 

 

                ارشد میر

 

ارشد میر کے انشائیوں میں معاشرتی زند گی میں پنپنے والے مختلف رجحانات کا نفسیاتی مطالعہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسی تناظر میں ان کے انشائیوں میں موضوع کی شناوری کا عمل انجام پا تا ہے۔ ارشد میر نفسیاتی یا سماجی مطالعہ کو انشائیہ کے موضوع کی مددسے ایک ایسی ڈگر پر ڈال دیتے ہیں جو امکانات اور معنویت کے نا مختتم وادی کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اس راہ پر ارشد میر کا شگفتہ اندازِ بیان اور غور و خوض کا انداز ان کی فکری گہرائی سے روشناس کرواتا ہے۔ اس کی مثال ان کے انشائیے ’ کڑھنا‘ میں دیکھئے۔

’ کڑھنے کی جولانگاہ ذہن کی پر فریب وادی ہے جہان وہ کبھی ہرن کی طرح چوکڑیاں بھر تا ہے۔ تو کبھی کچھوے کی طرح رینگنے کے عمل کو دہراتا ہے۔ گاہے گاہے ترنگ میں آ کر منہ کا ذائقہ بدلنے کی خاطر قلبی واردات کی نشاندہی بھی کر دیتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر اس کے اندر جھانک کر سر بستہ راز تلاش کر نے سے بھی نہیں چوکتا۔ ۔ ۔ ۔

اگر کبھی براہِ راست اجرامِ فلکی سے زمینی رابطہ قائم ہو سکاتو شاید وہاں سے بھی کڑھنے کے بلیٹن سنائی دینے لگیں۔ سر دست اس کے بارے میں کوئی مثبت یا منفی رائے نہیں دی جا سکتی اتنا ضرور ہے کہ جب خونِ صد ہزار انجم سے سحر پیدا ہو تی ہے تو غروبِ آفتاب کے نتیجے میں لیلیِٰ شب زلفیں دراز کرتی ہے تو اغلب ہے کہ فریقِ ثانی ہر دو صورتوں میں کڑھنے ہی کا مظاہر کر رہا ہوتا ہو گا۔ ‘1

ارشد میر کے انشائیے ’ تولیہ، ‘’نعرہ‘، ’استعفے ٰ‘ اور دوپٹہ (مطبوعہ اوراق،

لاہور)کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے انشائیے گہرا مشاہدہ، تنقیدی بصیرت، اور شگفتگی کے حامل ہیں اور انشائیہ نگار سماج کے مختلف افراد اور اداروں کو ان کی تمام تر سر گرمیوں اور حرکات و سکنات کے ساتھ پرکھنے اور منفرد انداز میں پیش کر نے پر قادر ہے۔ ان کے موضوعات بھی نئے ہیں اور ان پر گہرائی کے ساتھ غور و فکر کے بعد مصنف نے جو نتائج برآ مد کئے ہیں انھیں انشائی انداز میں جزو تحریر بنایا ہے۔ ذاتی واردات کا فقدان ہو نے کے باوجود ان کے تاثرات انشائیہ نگار کی ذات کے لمس آشنا ہیں۔

 

حوالہ

 

1۔ ارشد میر، ’ کڑھنا‘، ماہنامہ اوراق، لاہور، نومبر دسمبر، 83ص19

 

طارق بشیر

 

زمان و مکان کی تبدیلیوں کے اشیاء پرنے والے سایوں کو طارق بشیر نے اپنے انشائیوں میں زبان عطا کی ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کا مقبول ترین انشائیہ ’ پڑچھتی‘ ہے۔

’ جی ہاں، پڑچھتی گھر کے لاشعور کا درجہ رکھتی ہے، جہاں نا ا سودہ خواہشوں کی طرح غیر تکمیل شدہ مکانوں کے نقشے، پڑدادا جان کے زمانے کے صندوق( جن پر سیروں وزنی تالے لگے ہیں کہ کھل نہ سکیں )، پلنگوں کے دیو قامت کٹہرے اور پائے جو بر سوں سے بلکہ پشتوں سے بیٹوں کو دئے جانے کی خواہش میں کبھی استعمال نہ کئے جا سکے اور آج تک اسی طرح بغیر استعمال کئے بندھے بندھائے اسی پڑچھتی کی زینت ہیں۔ ‘ 1

طارق بشیر کے انشائیے میں تنوع اور مختلف مناظر کے ذریعے موضوع کی مختلف جہتوں کو روشن کر نے کا اہتمام پارہ پارہ شکل میں نہیں بلکہ ایک مربوط اور منضبط صورت میں پایا جاتا ہے۔ طارق بشیر کا انشائیہ اندرونی ہئیت کے اعتبار سے ایک کل کی شکل میں موجود رہتا ہے۔ آوارہ خیالی کی ایک لچیلی تنظیم کے ساتھ ان کے انشائیہ میں پایا جانے والا داخلی ربط ان کی تحریر کو ایک انوکھی دلکشی سے سر فراز کرتا ہے۔ ان کا انشائیہ   ’پڑچھتی‘ کہانی پن اور واقعات کی کڑیوں کے بغیر افسانوی اندازِ بیان لئے ہوئے ہے لیکن مجموعی حیثیت سے یہ ہمارے شعور و لا شعور میں موجود لطیف احساسات کی تجسیم کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

’ میرا خیال تو یہ بھی ہے کہ ایک ننھی سی پڑچھتی تقریباً ہر شخص کے ساتھ ہر وقت رہتی ہے جس میں بالکل میرے گھر کی پڑچھتی کی طرح ہزاروں ایسی یادیں موجود رہتی ہیں جن کو پھینکنے کو بھی جی نہیں کرتا مگر جو کسی کام بھی نہیں آتیں۔ ‘2

طارق بشیر کے ہاں لطیف مزاح کی اچانک نمود بھی انشائیہ کو قہقہہ زار بناتی ہے اور ساتھ ہی ہماری سوچ کے دائرے کو وسعت بھی عطا کرتی ہے۔

 

حواشی

1۔ طارق بشیر، ’ پڑچھتی‘، منتخب انشائیے، سرگودھا، ص121

2۔ طارق بشیر، ’ پڑچھتی‘، منتخب انشائیے، سرگودھا، ص124

 

                حامد برگی

 

حامد برگی فرد اور سماج کے مابین استوار ایک مضبوط رشتہ کی ان کڑیوں کی بازیافت میں مصروف نظر آ تے ہیں جو بظاہر ہماری نظر سے اوجھل ہیں۔ حامد برگی کے متعدد خیال انگیز انشائیے منظرِ عام پر آئے جن میں وہ تجزیاتی انداز اختیار کر کے زندگی کے نشیب و فراز کو دلچسپ انداز میں بے نقاب کرتے ہیں۔ شگفتگی اور طنز و مزاح کے فقدان کے باوجود ان کی تحریریں دلچسپ ہیں کیونکہ وہ ہمیں موضوع سے ایک فکر کی ڈور سے باندھے رکھتی ہیں۔ مواد کی ترتیب و پیشکش کا سلیقہ ان کے انشائیوں کو قابلِ مطالعہ بناتا ہے۔

حامد برگی نے اپنے انشائیہ’ کھڑکی‘ کے حوالے سے کئی ایسے خیالات پیش کئے ہیں جو ہمارے لیے دلچسپ بھی ہیں اور چونکانے والے بھی ہیں ان کی ذہنی ترنگ انھیں اس موضوع کی ڈور سے باندھ کر نئے نئے ایوانوں کی سیر کرواتی ہے۔ کھڑکی کو وہ انسانوں کے قانون سے راہِ فرار اختیار کرنے کے روپ میں بھی دیکھتے ہیں۔

’کھڑکی انسانی کاموں میں کسی نہ کسی خامی اور کمی کا اشارہ بھی ہے، انسان کے بنائے ہوئے قانون میں ہزاروں احتیاط کے باوجود کوئی نہ کوئی ایسی کھڑ کی کھلی رہ جا تی ہے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر قانون کی زد میں آیا شخص قانون سے بچ نکلتا ہے۔ قانون سے فائدہ اٹھانے والے لوگ قانون میں ایسی ہی کھڑکیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ۔ ۔ اس زندگی اور ابدیت کے درمیان موت بھی تو ایک کھڑکی ہے۔ یہ پر اسرار کھڑکی کھلے گی تو ابدیت کا راز آشکار ہو گا۔ ‘1

اسی طرح ’رٹّو طوطا ‘ میں وہ موجودہ تعلیمی حکمتِ عملی کے تحت رٹنے کی مذمّت کے خلاف نظر آ تے ہیں اور رٹنے کا دفاع اس طرح کرتے ہیں۔

’ اب کتنے ظلم کی بات ہے بلکہ کتنا تضاد ہے کہ ہمارے معلم ہمیں جانچتے تو ہماری رٹنے کی صلاحیت کی بنا پر ہیں مگر ہمیں رٹنے سے ہمیشہ پرہیز بتاتے ہیں۔

بھلا بغیر رٹے یعنی سبق کو مناسب رنگ اور الفاظ میں زبانی یاد کئے ہم معلم اور ممتحن کے معیار پر سو فیصد کس طرح پورا اتر سکتے ہیں ہماری تحریر میں تو ہماری سوچ کا رنگ اور مزاج آئے گا جو شاید ممتحن کے مزاج کے مطابق نہ ہو وہ ہم سے مقررہ وقت میں جچا تلا اور صحیح الفاظ میں ڈھلا جوا ب چاہتا ہے۔ اس کی یہ توقع ہمارے پہلے سے تیار شدہ جواب کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔ ہم کوئی مصنف اور تخلیق کار نہیں طالبِ علم ہیں۔ ‘2

ان کے دیگر انشائیوں کے عنوانات ہیں، نیند، شکوہ دوستوں کے نہ ہونے کا، آشوبِ علم، اداکاری، اور عام آ دمی۔ یہ تحریریں جہاں ان کے ذاتی احساسات کی آئینہ دار ہیں وہیں ہمارے سماجی منظر نامے کو بھی پیش کرتی ہیں۔

انشائیہ ’عام آ دمی ‘ (مطبوعہ اوراق، لاہور، جون، جولائ(1988 )میں وہ ہجوم کا ایک حصہ ہو تے ہوئے بھی خود کو مرکزِ کا ئنات تصور کرتے ہیں اور عام آ دمی کی شخصیت کے ایسے نادر پہلو دریافت کرتے ہیں جن سے ہم بے خبر تھے۔ سدا کے کنوارے ‘ (مطبوعہ اوراق، لاہور، نومبر، دسمبر، 1983)ان کے انشائیوں میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

 

حواشی

1۔ کھڑکی، حامد بر گی ,ماہنامہ اوراق، لاہور، دسمبر1991، ص306

2۔ ’رٹّو طوطا، حامد بر گی ,ماہنامہ اوراق، لاہور، فروری مارچ1995ص329

 

 

                شہزاد احمد

 

شہزاد احمد بحیثیت شاعر بہت مشہور ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران ان کے چند خوبصورت انشائیے شائع ہوئے جن میں گہری اور معنی خیز باتیں ہلکے پھلکے انداز میں سرگوشیوں کا سا دھیما پن لئے ہوئے ہیں۔

ان کے انشائیے آہٹ کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے۔

’ دنیا کی ہر شے اپنا اظہار آوازوں کی وساطت سے کرتی ہے اس میں حیوانات، نباتات، جمادات سبھی شامل ہیں۔ سب سے بڑا دھماکہ پتھروں کے آپس میں ٹکرانے سے ہو تا ہے درخت ہواؤں کے دوش پر اپنے پیغامات میلوں دور تک لے جاتے ہیں اور ہوا کے پاس جب کہنے کو کچھ نہ ہو تو سائیں سائیں ضرور کرتی ہے۔ پانی جب برستا ہے یا دھرتیوں کی چھاتیوں میں سے دودھ کی طرح باہر نکلتا ہے تو بے حد شوریدہ سر ہو تا ہے اور جب بلندی سے گرتا ہے تو آسمان سرپر اٹھا لیتا ہے، مگر پرندے بہت سبک رفتار ہیں ان کی آوازیں دھیمی بھی ہیں اور سریلی بھی مگر یہ سب ایک فریب ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم بہت اونچا سنتے ہیں ورنہ یہی آوازیں ہمارے دلوں کو دہلا دینے کے لئے کافی ہیں۔ ‘1

شہزاد احمد کے انشائیو ں کے مطالعے سے محسوس ہو تا ہے گویا ایک گہری جذباتی وابستگی کے تحت کائنات اپنے پر اسرار مفاہیم انشائیہ نگار پر منکشف کر نے لگی ہے اور ان کا انشائیہ ایک ایسا ریسیور ہے جو کائنات کے قلب کی گہرائیوں سے ابھرتی ہوئی آوازیں وصول کر کے نشر کر رہا ہے۔

شہزاد احمد کے چند انشائیے آہٹ، گھوڑا اور میں اور نیند سے پہلے، اوراق، لاہور میں شائع ہوئے۔

 

حوالہ

 

1۔ شہزاد احمد، آہٹ، اوراق، انشائیہ نمبر، لاہور، 1985، ص185

 

 

                محمد اسد اللہ

 

انشائیہ نگاری کی تحریک میں بھارت سے شامل ہو نے والے ادیبوں میں احمد جمال پاشا اور رام لعل نابھوی کے بعد تیسرا نام محمد اسد اللہ ہے۔ محمد اسداللہ شہر ناگپور میں پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ ابتدا میں ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد میں طنزیہ و مزاحیہ مضامین لکھے جو ان کے مجموعے پر پرزے میں شامل ہیں ان تحریروں میں بھی انشائیہ نگاری کی خصوصیات مثلاً نکتہ آفرینی اور اظہارِ ذات موجود ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی انشائیہ نگاری کی تحریک سے وابستگی کے بعد ایک نیا انداز محمد اسدا للہ کی تحریروں میں نمایاں ہوا۔ محمد اسد اللہ کے بیشتر انشائیے ماہنامہ اوراق، ادبِ لطیف اور تخلیق میں شائع ہوئے ہیں۔ ۔ ان کے انشائیوں کا مجموعہ بوڑھے کے رول میں 1991 میں منظرِ عام پر آیا اس کا پیش لفظ ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا اور محمد اسد اللہ کے انشائیوں کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا :

’محمد اسد اللہ نے گہری سے گہری بات کے بیان میں بھی تازہ کاری اور اپج کا مظاہرہ کیا ہے اس کے ہاں ندرتِ خیال ہے جو بنے بنائے تراشیدہ اقوال کی پیوست پر ہمیشہ سے خندہ زن رہی ہے۔ اس نے زندگی کو دوسروں کی نہیں خود اپنی نظر سے دیکھا ہے اور اسی لئے اس کے ہاں ردِ عمل شخصی اور ذاتی نوعیت کا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے اور انشائیہ نگاری کے سلسلے میں اس کی بڑ ی اہمیت ہے۔ ‘1

محمد اسد اللہ کے انشائیوں کے عنوانات بھی نئے انشائیہ نگاروں کے موضوعات سے مماثلت رکھتے ہیں۔ مثلاً انڈر لائن، چوہوں سے نجات کی خاطر، پریس کئے ہوئے کپڑے، انڈا اور لحاف وغیرہ۔ محمد اسد اللہ کے انشائیے بخار کا ایک اقتباس درج ذیل ہے۔

’بخار در اصل ایک مراقبہ ہے جس میں آدمی پر انکشاف کے نت نئے دروازے کھلتے ہیں۔ بخار میں جہاں مریض کو برے برے خواب دکھائی دیتے ہیں وہیں کچھ حقیقتیں بھی اس کے سامنے دست بستہ حاضر ہوتی ہیں۔ منجملہ ان حقائق کے اس کی بے بسی، بے بضاعتی اور بے مصرفی بھی ہے۔ اس کے سامنے اس کی شخصیت کے دونوں پہلو آئینہ ہو جاتے ہیں کہ وہ جتنا کار آمد سمجھا جاتا ہے وقت پڑے تو اتنا ہی ناکارہ بھی ہے ‘۔ 2

 

حواشی

 

1۔ وزیر آغا۔ پیش لفظ، بوڑھے کے رول میں، محمد اسد اللہ 1991ص 6

2۔ محمد اسد اللہ، بخار، بوڑھے کے رول میں، 1991ص62

 

 

                محمد اقبال انجم

 

محمد اقبا ل انجم اوراق لاہور کے توسط سے نئی نسل کے انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔ ان کے انشائیہ سر گوشی، نبض، کال بیل اور سگریٹ فکری توانائی سے سرشار نظر آتے ہیں۔ محمد اقبال انجم روزمرہ کی دیکھی بھالی اشیا کو انشائیہ کا موضوع بنا کر انھیں وسیع تناظر میں دیکھنے کی کو شش کرتے ہیں۔ فکر و خیال کے پھیلتے ہوئے یہ دائرے سماج اور عصری زندگی کے حوالے سے ہمیں متعدد نئے حقائق کی خبر دینے کے علاوہ ایک نیا اندازِ فکر بھی مہیا کرتے ہیں۔

محمد اقبال انجم اپنے انشائیے ’ برسوں کی فصل ‘میں وقت کے گزرنے کو انسانی تجربات و مشاہدات، خواہشات اور زندگی کے سرد و گرم حالات کے حوالے سے دیکھتے ہیں مگر اس میں معنویت کے گہرِ آ بدار بھی برآ مد کر لیتے ہیں۔

’کائنات ایک عظیم محفلِ مشاعرہ ہے، جس کی نظامت وقت کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہر بار ایک نئے برس کو سٹیج پر بلا تا ہے جو اپنی آنکھوں پر امیدوں کی عینک چڑھائے، بدن پر نئی ایجادات کی قبا پہنے، جیب میں نئے خیالات و تصورات کی فہرست لیے خراماں خراماں سٹیج پر آ تا ہے گزشتہ برسوں اور صدیوں کے تمام سامعین اس کے لیے ہمہ تن چشم و گوش بن جاتے ہیں۔ ‘1

محمد اقبال انجم کی نظر زندگی کی تبدیلیوں میں کائنات کے رنگوں کو یکجا کر کے ایک نیا منظر پیش کر نے کی کو شش کرتی ہے۔ جب وہ انگڑائی پر اظہارِ خیال کرتے ہیں تو فطرت، تاریخ، سماج، شاعری، مصّوری وغیرہ کے وسیلے سے نہ صرف انگڑائی کے متعدد پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کر لیتے ہیں بلکہ اس کی قسمیں بھی گنواتے ہیں۔

ان کے اسلوب میں شوخی اور شگفتگی بھی موجود ہے۔

’ انگڑائی کی مختلف قسمیں ہیں بعض عالمِ بے قراری میں فقط انگلیاں چٹخا کر رہ جا تے ہیں اور بعض صرف جماہی پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔ یوں تو یہ تینوں ادائیں ہم رشتہ معلوم ہوتی ہیں لیکن ان کی حدود و قیود مختلف ہیں۔ جماہی لیتے ہوئے یوں محسوس ہو تا ہے جیسے دونوں جبڑے مقناطیس کے دو مخالف پول بن چکے ہیں جو ایک دوسرے کو پوری شدت سے پرے دھکیل رہے ہوں اور ’ انگڑائی ‘ پورے جسم کو یوں کھینچتی ہے کہ بعض اوقات انسان بلبلا اٹھتا ہے۔ لمحے بھر کو پورا بدن ’ انگڑائی ‘کی صلیب پر آویزاں نظر آ تا ہے۔ جماہی بیزاری کی علامت ہے اور انگڑائی آسودگی کی خواہش، جماہی نیند کا پیغام ہے اور انگڑائی عمل کی صدا۔ 2

 

حواشی

 

1۔ ‘محمد اقبال انجم، ’ برسوں کی فصل، ماہنامہ اوراق، خاص نمبر نومبر، دسمبر، 1984

2۔ محمد اقبال انجم، انگڑائی، ، اوراق، انشائیہ نمبر 1985ص182

 

                مشرف احمد

 

مشرف احمد نے اپنے انشائیہ قرض میں موضوع کے منفی پہلوؤں کو مثبت انداز میں بیان کر کے شوخی اور ندرتِ خیال کو جنم دیا ہے۔ بیشتر انشائیہ نگاروں کے ہاں یہ بھی انشائیہ نگاری کا ایک مخصوص انداز بن گیا ہے۔ اس طرح حقائق کا ایک نیا پہلو واضح ہونے کے علاوہ امکانات کا ایک جہانِ دیگر بھی روشن ہو جا تا ہے۔ مشرف احمد اس طریقہ کار کو اپنا کر قرض جیسے عمومی موضوع کے پاتال سے کس قسم کے معنی کے گوہرِ آبدار بر آمد کرتے ہیں اس کا اندازہ ذیل کے اقتباس سے کیا جا سکتا ہے۔

میں قرض حاصل کر نے کے فن کو فنون لطیفہ میں شمار کرتا ہوں۔ مجھے مورخین اور سوانح نگاروں کی اس کوتاہی پر حیرت ہو تی ہے کہ انھوں نے انسانی تاریخ کے زعما اور فاتحین کے حالتِ زندگی میں اہم ترین پہلو کو نظر انداز کر دیا جس سے یہ معلوم ہوتا کہ آیا وہ سب لوگ بھی قرض لیا کرتے تھے یا نہیں ؟ اس پہلو کو پیش کئے جانے سے کم از کم میری حد تک تو تاریخ کی گیلری میں سجی ہوئی ان شخصیات کے شرف اور احترام میں بہت اضافہ ہو جاتا کیونکہ قرض حاصل کر نا کسی طور بھی کسی مملکت کی تسخیر سے کم نہیں۔ 1

 

حوالہ

1۔ مشرف احمد، قرض، ، منتخب انشائیے، اپریل مئ1984، ص165

 

                راجہ محمد ریاض الرحمٰن

 

راجہ محمد ریاض الرحمٰن کے انشائیوں میں تلاش و جستجو سے سر شار ذہن مختلف خیالات کی پرتیں کھولتے ہوئے نت نئے انکشافات سے دوچار ہو تا ہے۔ راجہ محمد ریاض الرحمٰن کا سلوب اور شاعرانہ اندازِ بیان بے تکلفی کی ایسی فضا خلق کرتا ہے جس میں قاری خود انشائیہ نگار کے اٹھائے ہوئے سوالات کو اپنے اندر کی آواز محسوس کرتے ہوئے انشائیہ نگار کے تخلیقی سفر میں شریک ہو جاتا ہے۔ راجہ محمد ریاض الرحمٰن کا اسلوب فکر انگیزی اور غنائیت کے امتزاج کو پیش کرتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے ہاں اس قسم کے بلیغ فقرے نمودار ہو تے ہیں۔

داخلی شخصیت کی مثال اس جوتے کی ہے جو کثرتِ استعمال سے گھس چکا ہو۔ چنانچہ میں مدت سے ایسے کاریگر کا متلاشی تھا جو داخلی شخصیت کو عمر کی پگ ڈنڈی پرسفر کے قابل بنا دے۔

راجہ محمد ریاض الرحمٰن کا لہجہ قاری کو اپنے اعتماد میں لے لیتا ہے اور اس کے انشائیہ میں پائی جانے والی انکشافِ ذات کی شدید کیفیت نہ صرف انشائیہ نگار کی ذہنی اور قلبی وارداتوں سے ہمیں مانوس کرتی ہے بلکہ تلاش و جستجو کے تخلیقی سفر میں ہم خود کو بھی اس کا شریکِ سفر پا تے ہیں۔

 

 

                شمیم ترمذی

 

شمیم ترمذی کے انشائیوں میں موضوع کے گرد گھوم پھر کر اس کے نئے پہلو دریافت کر نے اور انھیں بیان کر نے میں جس تخلیقی صلاحیت کا مظاہر ہ ہوا ہے اس میں شگفتگی اور تازگی بر قرار رہتی ہے۔ رواں دواں زبان اور اپنی بات کو مختلف حوالوں سے واضح کر نے کی کوشش، گویا اندھیرے میں پڑی ہو ئی کسی چیز پر بیک وقت کئی سمتوں سے ٹارچ کی روشنی پڑ رہی ہو۔ اپنے انشائیہ ’ جھوٹ بولنا ‘میں وہ جہاں جھوٹ کو ایک آرٹ بتاتے ہیں اورسچ کو سائنس وہیں جھوٹ کی ڈھٹائی کو تاریخی حوالوں سے ثابت کرتے ہیں۔ جھوٹ ہمیشہ ہارا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جھوٹ نے کبھی اپنی ہار تسلیم نہیں کی۔

ان کے نزدیک جھوٹ کی دو قسمیں ہیں۔ جھوٹ سفید ہو تو سننے والے کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں اور جھوٹ سیاہ ہو تو سننے والے کا منہ کھلا رہ جاتا ہے۔

جمالیاتی اعتبار سے جھوٹ کے دو روپ ہیں حسین جھوٹ اور بھونڈا جھوٹ۔ اخلاقی اعتبار سے دو قسمیں ہیں دروغِ فتنہ انگیز اور دروغ مصلحت آ میز۔ انفرادی جھوٹ کے پاؤں نہیں ہو تے لیکن اجتماعی جھوٹ کی جڑیں گہری ہوتی ہیں۔ آ ج ہم اجتماعی جھوٹ کے دور میں زندہ ہیں اور دنیا کی ساری بے چینی اسی جھوٹ کا نتیجہ ہے۔ پہلے جھوٹ پکڑا جا تا تھا اب ساری انسانیت جھوٹ کی گرفت میں ہے۔ 1

شمیم ترمذی کے ہر جملہ میں انشائیہ اپنے موضوع کا ایک نیا رخ نمایاں کرتا ہے۔ جامعیت اور اختصار کے ساتھ آ خر تک قاری کی دلچسپی بر قرار رہتی ہے۔

 

حوالہ

 

1۔ جھوٹ بولنا۔ نئے انشائیے۔ ص93

 

                جان کاشمیری

 

جان کاشمیری روزمرہ کے واقعات کو اپنے پر لطف انداز میں بیان کرتے ہوئے جن نکات کی خوشہ چینی کرتے ہیں وہ فکر انگیز بھی ہیں اور ہمیں زندگی کے معمولات کو بہ اندازِ دیگر دیکھنے کی صلاحیت بھی عطا کرتے ہیں۔ اپنے انشائیے ’رات رانی ‘ میں وہ صبح کی سیر کا ذکر چھیڑ کر پھولوں تک پہنچ جا تے ہیں۔ گلاب کے متعلق ان کے خیالات یقیناً چونکانے والے ہیں۔

’مجھے گلاب بالکل پسند نہیں۔ یہ تو طوائف کی طرح ہر آنے والے کے لئے آنکھیں بچھائے رکھتا ہے۔ زود گو شاعر کی مانند کچی پکی خوشبو لٹا تا رہتا ہے اور یہ تو تجھے خبر ہے کہ زود گو شعری مجموعوں کے انبار تو لگا سکتا ہے لیکن کوئی اچھا شعر پیش کر نے سے قاصر رہتا ہے۔ گلاب تو مغرور انسان کی مثل گردن اکڑا کر رکھتا ہے اور تو اور اس پر خود نمائی کا ایسا بھوت سوار ہے کہ شہروں سے لے کر قبروں تک کے لئے بک جاتا ہے۔ اس ننگِ گلشن کو اچھے برے کی تمیز ہی نہیں۔ 1

انشائیہ’ ایش ٹرے ‘ کا عنوان ہی بذاتِ خود انوکھا ہے اس پر ان کی گل افشانیِ گفتار ملاحظہ فرمائیے۔

میری نگاہ سے دیکھا جائے تو ارض و سما کا ہر جاندار اور بے جان شے ایش ٹرے کا روپ دھارے ہوئے ہے یا کم از کم اس سے تعلق خاص رکھنے کی بنا پر زندہ جاوید ہو کر رہ گئی ہے۔ انسان ہی کو لیجئے ایک اچھی بھلی ایش ٹرے ہے جس کے ظرف میں عمر کا ہاتھ ماہ و سال کی راکھ، سانس کی صورت میں گراتا رہتا ہے۔ گویا انسان ایک چلتی پھر تی متحرک ایش ٹرے ہے جو راکھ کے دم قدم سے زندہ ہے۔ یا انسان راکھ کا ایک ایساڈھیر ہے جس کی تہہ میں کوئی چنگاری دبی ہوئی ہے۔ ‘2

انسان کا حافظہ اور تاریخ ایسی ایش ٹریز ہیں جن کو راکھ سے بھروانے کے بعد تند و تیز ہواؤں کے رخ پر رکھ دیا گیا ہے۔

آ سمان پر ایک دزدیدہ نگاہ ڈالئے تو اس کی حیثیت ایک ایسی ایش ٹرے کے مماثل نظر آئے گی جس کے بد ن اور کناروں پرلا تعداد سگریٹ سلگا کر رکھ دئے گئے ہوں۔ کہکشاں کا وجود یوں ہے کہ جیسے کسی شریر بچے نے سگریٹ کی پوری ڈبیا یکمشت جلا کر ایش ٹرے میں پھینک دی ہو۔ جب ایش ٹرے راکھ سے لبالب بھر جاتی ہے تو کناروں سے چھلک جاتی ہے جسے لوگ شہاب ثاقب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

 

حوالہ

1۔ رات رانی۔ نئے انشائیے۔ ص۱۳۸

2۔ ایش ٹرے۔ منتخب انشائیے۔ ص۔ ۱۴۷۔ ۱۴۶

 

 

                بشیر سیفی

 

بشیر سیفی کے انشائیے معنی کے جہانِ نو کی دریافت سے عبارت ہیں۔ اشیاء اور حالات ہمارے لئے مخصوص معنی اور تصورات کے حامل ہیں، بشیر سیفی انھیں اس خول سے آزاد کر کے نئی آ ب و ہوا سے آشنا کرتے ہیں اور ہر خیال ایک پودے کی طرح نئی زمین میں برگ و بار لانے لگتا ہے۔ پھول اور برزخ، ان دو انشائیوں میں انھوں نے چند نئی باتوں کا انکشاف کیا ہے۔

’ اب خال خال گھروں میں قدرتی پھولوں کے گلدستے دکھائی دیتے ہیں۔ جس گھر میں چلے جائیے سنگِ مرمر کے خوبصورت گل دانوں میں کاغذ اور پلاسٹک کے پھول مکینوں کے ذوق کی مفلسی پر ماتم کناں نظر آ تے ہیں۔ بچپن میں جب ہم یہ سنتے تھے کہ قیامت کے نزدیک خدا اپنی نعمتیں زمین سے اٹھا لے گا تو تعجب ہوتا تھا مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ خدا اپنی نعمتیں زمین سے اٹھائے نہ اٹھائے ہم خود ہی ان نعمتوں سے دست کش ہو نے کو تیار ہیں۔ تبھی تو قدرتی پھولوں کے چھوڑ کر کاغذ اور پلاسٹک کے پھولوں سے اپنے گھروں کو سجانے لگے ہیں۔ جس گھر میں کاغذ اور پلاسٹک کے پھول ہوں اس کے مکینوں کے دلوں میں محبت کی خوشبو کہاں سے آئے گی۔ 1

اپنے انشائیے برزخ میں وہ سماج کے طبقات کے حوالہ سے ایک اہم بات بیان کرتے ہیں۔

جب سے وہ سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں ان کے رویّے میں زبردست تبدیلی آ گئی ہے۔ اب وہ خود کو اپنے ساتھی کلرکوں سے بر تر سمجھ کر ان کے پاس بیٹھنے اور ان کے ساتھ گپ شپ لگانے سے گریز کر نے لگے ہیں۔ اس کے برعکس اب وہ افسروں سے راہ و رسم پیدا کر نے میں مصروف نظر آ تے ہیں مگر افسر انھیں ماتحت سمجھ کر منہ نہیں لگاتے اور ماتحتوں کو وہ منہ لگانے کے لئے تیار نہیں۔ نتیجۃً وہ ایک عالمِ برزخ میں معلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ 2

 

حواشی

 

1۔ پھول۔ نئے انشائیے۔ ص۱۲۲

2۔ برزخ۔ منتخب انشائیے۔ ص۱۴۲

 

 

                محمد اسلام تبسم

 

محمد اسلام تبسم کے انشائیوں میں بے تکلف گفتگو کا انداز قاری کو موضوع سے باندھے رکھتا ہے۔ وہ اپنی دلچسپ باتوں میں ہمیں زندگی کی عام ڈگرسے ہٹا کر حقیقت کی نئی روشنی میں لانے کی کو شش کرتے ہیں۔

ان کا انشائیہ ’جنگل ‘، جنگل کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ نہیں کرتا بلکہ انشائیہ نگار اس موضوع کے حوالے سے نہ صرف اپنی ذات کے نہاں خانے کی سیر کرتا ہے بلکہ دیگر انسانوں کی زندگی کو سمجھنے کی کو شش کرتا ہے۔ ان کے نزدیک:

جنگل انسان کی پہلی اور آخری پناہ گاہ ہے ابتدا میں جنگل ہی انسان کی کل کائنات تھی، لیکن انسانی ترقی نے یہ دن دکھائے کہ انسان نے جنگل ہی کو ٹھکانے لگانا شروع کر دیا۔ جنگل کو شہر بنتے بنتے کئی برس لگ جاتے ہیں لیکن شہر کو جنگل بنانا بہت آ سان ہو گیا ہے۔ 1

 

حوالہ

 

1۔ محمد اسلام تبسم، جنگل، ماہنامہ اردو زبان، انشائیہ نمبر، ص۵۱

 

                محمد یونس بٹ

 

محمد یونس بٹ کے انشائیوں میں غور و فکر کی فراوانی اور اشیا کو نئے تناظر میں رکھ کر دیکھنے کے نتیجے میں دلچسپ حقائق کی نمو د ہو ئی ہے۔ وہ صورتِ حال کو انوکھی تشبیہات کے ذریعے پر کشش بناتے ہیں اور کبھی ان کا تخیل چیزوں کو ان کی اصل جگہ سے ہٹا کر سوچ کے نئے دائرے کو جنم دیتا ہے اور اس دائرے سے نئے نئے دائرے نکلنے لگتے ہیں۔ یاد ان کے نزدیک قدرت کا ایک انعام ہے۔ انسان یادوں کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ یاد ماضی اور حال کے درمیان ایک ایسا پل ہے جس سے گزر کر ہم ویران کھنڈروں میں مانوس آوازیں اور شناسا چہرے دیکھتے ہیں اسی کے ذریعے ہم اپنے ماضی سے جڑے ہوتے ہیں وہ لکھتے ہیں۔

’ماضی وہ ڈائن ہے جو منہ کھولے وقت کی زنجیروں میں قید انسان کو لمحہ لمحہ نگل رہی ہے۔ وہ پہلے بچپن پھر جوانی اور جب انسان کمزور اور بوڑھا ہو جا تا ہے تو ایک جھٹکے سے اسے سالم ہڑپ کر جا تی ہے۔ انسان ماضی میں تحلیل ہو کر ماضی بن جا تا ہے۔ ایسے میں یاد کسی ہیرو شہزادے کی طرح اس ڈائن کے پیٹ سے بیتی باتوں اور گزرے واقعات کی صورت بکھرے انسانی جسموں کو پھر سے زندہ کرتی ہے اور وہ یادوں کی بیساکھیاں لئے پھر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔

یاسوچتا ہوں اگر یاد نہ ہو تی کوئی کسی کو یاد نہ کرتا۔ کسی کو کسی کی یاد نہ ستاتی تو ہماری معاشرتی کتنی مختلف ہو تی خاوند گھر لوٹتا تو بیوی دروازہ کھولتی اور اسے اندر بٹھاتی، خوش اخلاقی سے پیش آ تی کہ اسے یاد نہ رہتا کہ یہ اس کا خاوند ہے۔ مہمانوں کی بڑی عزت اور خاطر کرتی کہ اسے یاد نہ ہوتا کہ اسے سسرالی رشتہ دار ہیں۔ جوش ملیح آ بادی یادوں کی برات نہ سجاتے اور محمد منشا یاد نہ رہتے۔ ‘1

 

حوالہ

 

1۔ محمد یونس بٹ، یاد، منتخب انشائیے ص ۱۵۷

 

 

                ناصر عباس نیّر

 

ناصر عباس نیّر کے انشائیوں میں مثبت اور منفی پہلوؤں کی تلاش اور ان پر رائے زنی کا عمل، جسے وہ فنکارانہ انداز میں انجام دیتے ہیں، ان کے ذاتی تاثرات کو ہمارے لئے قابلِ مطالعہ بنا دیتا ہے۔ ہم ان کی دلیلوں اور مشاہدات سے ہم آہنگ ہو تے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی گل افشانیِ گفتار ہمارا اعتماد حاصل کر لیتی ہے۔ اپنے انشائیے، نا تجربہ کاری میں لکھتے ہیں :

نا تجربہ کار آدمی زندگی سے ٹوٹ کر پیار کرتا ہے۔ وہ زندگی کے سب رنگوں اور موسموں کی راہ ایک تخلیق کار کے سے اضطراب اور ایک معشوق کی سی سپر دگی کے جذبے کے ساتھ تکتا ہے۔ اس کے لئے ہر طلوع ہو نے والا منظر آنکھوں میں بسا لینے کے قابل ہو تا ہے۔ اس کی نظر میں زندگی کے بدلتے مناظر اوپر تلے وقوع ہو تے واقعات کا چکر نہیں بلکہ پھلجھڑی کی طرح ہیں جو لمحے بھر کے لئے ماحول میں نور، رنگ، حرارت اور چہک پیدا کرتے اور پھر غائب ہو جاتے ہیں جبکہ تجربہ کار آدمی ہمیشہ ایک دائرے میں چکر کاٹتا رہتا ہے۔ وہ ایک رٹے ہوئے سبق سے ہر بات کو سمجھتا ہے بلکہ اس نے اپنے ذاتی تجربات سے معانی کا ایک قاعدہ ترتیب دیا ہوا ہوتا ہے۔ وہ ہر کھلی بات کو اسی قاعدہ میں پہلے سے درج دیکھتا ہے۔ اس کی معانی کی فرہنگ میں کوئی لفظ متروک ہوتا ہے نہ نیا داخل ہو تا ہے۔ تجربہ کار زندگی کو ایک دیگ خیال کرتا ہے جس کا فقط ایک چاول چکھ کر وہ پوری دیگ کے ذائقے کو جانچ لیتا ہے۔

ادھر نا تجربہ کاری، انسان کو زندگی کے خوانِ نعما پر سجی قسم قسم کی ڈشوں کے نو بہ نو ذائقوں سے متعارف ہو نے کے قابل بناتی ہے۔ تجربہ کار پتنگا اور نا تجربہ کار بھونرا ہے۔ پہلے کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ ایک مرکز میں خود کو مرکوز اور بعد ازاں معدوم کر لیتا ہے، جب کہ بھونرا ایک تجربہ کی لذت اور اس لذت سے سیر ی کی اذیت کے بعدکسی تازہ لذت اور اس سے وابستہ اذیت اٹھا نے کی طاقت سے ہمکنار ہے۔ ۱

 

حوالہ

 

۱۔ نا صر عباس نیر، نا تجربہ کاری، ماہنامہ اوراق سالنامہ ۱۹۹۶ص ۶۱

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

انشائیہ نگاری کی تحریک کے زیرِ اثر منظرِ عام پر آنے والے انشائیہ نگار

 

                ماہنامہ اوراق لاہور میں شائع ہو نے والے چند انشائیہ نگار اور ان کے انشائیے

 

وزیر آغا۔ (آندھی، پُل )، انور سدید (ذکر اس پر وش کا، شور)، جمیل آذر( ریلوے پلیٹ فارم، نیم پلیٹ)ارشد میر (آنسو، کڑھنا)، مشتاق قمر ( آئس کریم کھانا، بلاوجہ)غلام جیلانی اصغر ( سردی، سوال اٹھانا)سلیم آغا قزلباش( نام میں کیا رکھا ہے، کان )کام القادری ( الگنی، فٹ نوٹ )، طارق بشیر (پڑ چھتی)سلمان بٹ( بد صورتی )احمد جما ل پاشا( بے ترتیبی، بور)رام لعل نابھوی ( مسکرانا، پوسٹ کارڈ)، محمد اسد اللہ ( بائیسکل کی رفاقت میں، انڈر لائن )، حامد بر گی (ہمزاد، سہ پہر )، اکبر حمیدی (موڑ، دور اندیشی )محمد یونس بٹ(کاغذ، یاد ) حیدر قریشی ( بڑھاپے کی حمایت )میں، نقاب )انجم نیازی ( بڑ کا درخت، چار آنکھیں )محمد اقبال انجم( خانہ بدوش، کال بیل )سعشہ خان (لہریں، سوال)جان کاشمیری ( رات کی رانی، پردہ )امجد طفیل( اضطراب، آوارگی)اظہر ادیب ( کر سی، سوچنا)رشید احمد گریجہ ( ضرب، تفریق، تقسیم، خود نمائی )علی اختر ( گرگٹ، ٖفاؤل )قمر اقبال( خوف کھانا، ڈوبنا) خیر الدین انصاری ( اناڑی، قاری)حنیف باوا( نیم، چاک)عبدالقیوم ( کنگھی کر نا، ڈائری )نیر عباس نیر ( فاصلے، نشہ)رعنا تقی ( ڈولی، ماسک )مشتاق احمد ( سازش، بیوی ) رضی الدین رضی ( ترمیم)محمد اسلام تبسم ( جنگل)راجی محمد ریاض الرحمٰن ( تاش کے پتے )خالد صدیقی ( بریف کیس ) شمیم ترمذی (جھوٹ بولنا)شہزاد احمد ( ایک انجانا دن )پرویز عالم ( عینک )عذرا اضغر (خوشی )محمد عامر رانا(لوری )خیر الدین انصاری (سوئی)محمد شفیع بلوچ (چیخ)عبدالقیوم( آئینہ، کنگھی کر نا )فرح سعید رضوی(وقت)خالد اقبال ( گوبھی کا پھول )مشرف احمد ( قرض )محمد ہمایوں ( نہ جنبد گل محمد )، اے غفار پاشا( سوئیاں )

 

 

                حاصلِ مطالعہ

 

وقت کے ساتھ ارتقا کے نتیجے میں ادبی اصناف کا تبدیلیوں سے ہمکنار ہو نا ناگزیر ہے۔ کسی بھی صنف، ادب میں اس قسم کا موڑ زندگی کا ثبوت ہے۔ ان تبدیلیوں کا تعلق رجحانات، اسالیب، اندازِ فکر اور زبان و ادب کی دیرینہ روایات سے ہے۔ یہ تغیرات ان اصناف کے بنیادی ڈھانچے کو متاثر کئے بغیر اصنافِ ادب کی صورت گری کا عمل انجام دیا کرتے ہیں۔

اردو انشائیہ کے ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کہ تقریباً سو سال تک انگریزی ایسیز کے خطو ط پر نگارشات پیش کر نے کا عمل جاری رہا۔ ہمارے انشا پردازوں کے طبعی رجحانات، مقامی آ ب و رنگ اور اردو زبان و ادب کی تہذیبی روایات نے اس صنف کی دستار میں چند نئے پروں کا اضافہ کیا۔ البتہ ایک صدی پر محیط طبع آزمائی کے باوجود انگریزی انشائیہ کی چند اساسی خصوصیات کا احاطہ کما حقہ نہیں کیا جا سکا۔ یہ وہ نمایاں خوبیاں ہیں جنہیں پر سنل ایسے کی بنیا د قرار دیا جا سکتا ہے۔

انیسویں اور بیسویں صدی کی پانچویں دہائی تک انگریزی انشائیہ کے بیشتر محاسن اردو میں اپنائے جا چکے تھے لیکن پر سنل ایسے کی بنیادی محاسن کو اس دور میں منظرِ عام پر آنے والے تنقیدی مباحث نے نمایاں کیا۔ ان خصوصیات کے بغیر صفِ اول کے مغربی انشائیہ نگاروں کی تحریریں بھی اس صنف کی نمائندگی سے قاصر ہیں۔ ان ہی عناصر کو انشائیہ کا جزو بنانے کی غرض سے ایک تحریک رونما ہوئی جس کے پیش رو بیشتر پاکستانی ادیب تھے۔ اسی تحریک نے انشائیہ کی صورت گری کا فریضہ انجام دیا۔ اسی کے نتیجے میں عصری انشائیہ وجود میں آیا۔ عصری انشائیہ اپنی شناخت منوانے میں کامیابی سے ہمکنار ہو چکا ہے اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آغا، داؤد رہبر، غلام جیلانی اصغر، مشتاق قمر، انور سدید، جمیل آزر۔ ممتاز مفتی، جاوید صدیقی، نظیر صدیقی، مشکور حسین یاد، احمد جمال پاشا، ڈاکٹر اختر اورینوی، ڈاکٹر آدم شیخ، سید محمد حسنین، سلیم آغا قز لباش وغیرہ ادیبوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اس صنف کے آداب و رموز کا احاطہ کیا اور انشائیہ کی تفہیم اور تعبیر کا فریضہ انجام دیا۔

عصری انشائیہ کی تحریک اس نوخیز صنفِ کی توضیح اور تعارف میں نمایاں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔ تاہم انشائیہ کے متعلق عام قاری اب بھی بہت سی ذہنی الجھنوں کا شکار ہے۔ خالص مزاحیہ اور طنزیہ مضامین کو انشائیہ شمار کر نے کی روش تا حال موجود ہے۔ کسی بھی تحریک کے تحت وجود میں آنے والے ادب میں عام طور پر میکانیکیت پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ اردو انشائیہ بھی اس عیب سے اپنا دامن نہیں بچا پایا۔ عام قاری کی نظر میں نئے انشائیہ نگاروں کی تحریروں کے تئیں ایک بیزاری کا رجحان نمایاں نظر آتا ہے۔ یوں بھی اردو کے تخلیقی ادب کے قارئین کا حلقہ دن بہ دن سکڑتا جا رہا ہے۔ ادب کا صحیح ذوق رکھنے والا طبقہ انشائیہ کی تحریک کے نتیجے میں ابھرنے والے انشائیہ کو غیر انشائی نگارشات سے الگ کر نے کے قابل ہو گیا ہے، یہ ایک قابلِ تحسین تبدیلی ہے۔

انشائیہ کے متعلق اردو ادب میں موجودہ صورتِ حال انوکھی اس لئے بھی نہیں قرار دی جا سکتی کہ کم و بیش یہی کیفیت انگریزی میں بھی رہی ہے۔ وہاں بھی بارہا اس صنف کی موت کا اعلان کیا جا چکا ہے لیکن انگریزی میں وافر مقدار میں موجود اس صنف کے تخلیقی نمونے اس صنف کے لئے حیات بخش ثابت ہوئے۔ انگریزی ادب کا قاری ایسیز کے فنی لوازمات سے بخوبی واقف ہے۔ وہ دیگر اصناف کے درمیان اس صنف کو اس کی امتیازی خوبیوں کے سبب اسے بہ آسانی الگ کر نے پر قادر ہے۔ انشائیہ کی تحریک کے نتیجے میں بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے دوران اردو میں صورتِ حال پہلے سے قدرے بہتر ہے۔

اردو میں عصری انشائیہ نے موضوعات، فکر اور بر تاؤجیسی بنیادوں پر نیا انداز اختیار کر کے روایتی مضمون نگاری کے پیرائے میں تخلیقی عنصر کو نمایاں کیا ہے۔ اسی کے ساتھ آزادانہ سوچ اور اشیاء و مظاہر کو نئے اندازسے دیکھنے کی کو شش بھی کی ہے۔

ہمارا انشائیہ عصری زندگی کی سچائیوں کا ایک ایسا مبصر ہے جو طنز و تعریض اور مزاح کے ذریعے تفریح مہیا کر نے یا اس عہد کے قبیح چہرے کو قبیح تر بنا کر پیش کر نے یا اس کے بے ہنگم، بے ڈول رویوں پر قہقہے لگانے کا کام نہیں کرتا بلکہ ہمہ جہت حقائق کی ان جہتوں کو روشنی کے دائرے میں لانے کا اہتمام کرتا ہے جو عام نظر سے اوجھل ہیں۔ یہ جہت بظاہر ناپید بھی ہو سکتی ہے لیکن انشائیہ نگار کی ذات کا لمس پا کر حقیقت کا ایک نیا رخ سامنے آتا ہے جیسے وزیر آغا کا انشائیہ، بارہواں کھلاڑی، کھیل سے محظوظ ہونے والے ناظر کی ذات میں موجود شخص کی مختلف جھلکیوں سے بارہواں کھلاڑی کا کر دار تراش لیتا ہے جو کھلاڑیوں کی باقاعدگی اور تماشائیوں کی بے قاعدگیوں کے درمیان ایکBuffer Stateکا درجہ رکھتا ہے۔ اسی طرح غلام جیلانی اصغر کا انشائیہ تسخیرِ کائنات، امکانات کا ایک نیا جہاں اور حصولِ قوت کا ایک انوکھا منصوبہ پیش کرتا ہے جس میں عام آدمی کی خفتہ اور نا اسودہ خواہشات کی تشکیل کے دباؤ تلے پیدا ہونے والے تاثرات نے اس انشائیہ کو قدرِ اول کی چیز بنا دیا ہے۔

مذکورہ انشائیوں کے علاوہ نئی نسل کے بیشتر انشائیہ نگاروں کی نگارشات میں یہ جہت اس وقت نمایاں ہوئی جب فنکار کی ذات عصری زندگی کے حقائق سے رابطہ قائم کرنے کے بعد معنویت کی ایک نئی سطح کو اپنے فن پارے میں جنم دینے میں کامیاب ہوئی۔ انشائیہ شش جہت سے باخبری کے عالم میں ساتواں در وا کر کے حیرت اور مسرت پیدا کرتا ہے۔ عصری انشائیہ سستی تفریح فراہم کرنے سے گریز کر کے تخلیقی بہجت اور لطف اندوزی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس کے ثبوت میں گزشتہ صدی کے دوران تحریر کئے گئے انشائیے پیش کئے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر غلامی، پل، ہینڈ بیگ (وزیر آغا)دسمبر، شور، ذکر اس پری وش کا، (انور سدید )مکان بنانا، تسخیرِ کائنات (غلام جیلانی اصغر) شاخِ زیتون، نیکی، دریا اور سمندر ( جمیل آذر)ناریل، انگلیاں (سلیم آغا قزلباش)ضمیر کی مخالفت میں، کھانے کی میز (اکبر حمیدی )جمعہ، سفید بال، ( سلمان بٹ) موڈ(ارشد میر) ہجرت، بلیوں کے سلسلے میں ( احمد جمال پاشا) وغیرہ عصری انشائیہ میں زندگی اور کائنات کو انوکھے انداز سے دیکھنے اور نئے زاویہ نظر سے پیش کر نے کے علاوہ اظہارِ ذات کا عمل بھی وسیع پیمانے پر وقوع پذیر ہوا ہے۔

اردو میں عہدِ سر سید کی اصلاحی تحریک، جس میں فرد کی نجی زندگی کی تشکیلِ نو پر زور دیا گیا تھا، اور اودھ پنچ کی ظرافت نگاری جس میں مقابل کے عیوب پر طنز و استہزا کے ساتھ خندہ زنی کا رویّہ توانا تھا، ان دونوں میں منصوبہ بند منضبط اور بے لچک فکری رویّے سامنے آتے ہیں اسی طرح مصنف کی ذات جو انشائیے میں کلیدی کر دار ادا کرتی ہے، ابھر نہیں پاتی۔ ہمارے ہاں ہم کے پر دے میں عمومی سوچ کا پر تو مضامین پر نمایاں رہا اور ادیب کی شخصیت کے انفرادی گوشے اس کی نجی رائے، فکر اور تاثرات جزوِ ادب نہیں بن پائے۔

عصری انشائیے کی یہ امتیازی خوبی ہے کہ اس نے فنکار کے انفرادی تفکر کو آزادی عطا کی اور بے محابا اظہارِ ذات کو فنی حدود میں کمالِ حسن تک پہچانے کے لئے ایک پیرایہ اظہار مہیا کیا۔ اسی کے ساتھ زندگی اور کائنات کو ذاتی حوالے سے دیکھتے ہوئے شخصی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو انشائیہ کی فطرت سے قریب تر ہے۔ اردو میں گزشتہ چند دہائیوں میں منظرِ عام پر آنے والے انشائیوں نے اس طرزِ تحریر کواس صنف کی ایک توانا روایت بنا دیا۔ اس حقیقت کے شواہد ہمیں درج ذیل انشائیوں میں خاص طور پر نظر آتے ہیں۔ ہینڈ بیگ( وزیر آغا) مسکرانا( انور سدید) کوہ پیمائی ( مشتاق قمر) واشنگ مشین( جمیل آذر) دوربین(سلیم آغا) کال بیل (اقبال انجم ) بوڑھے کے رول میں ( محمد اسداللہ ) وغیرہ انشائیہ کے وہ تمام محاسن جن کے سبب غالب، ملا وجہی، سرسید، خواجہ حسن نظامی، مولانا ابوالکلام آزاد، میر ناصر دہلوی وغیرہ کی تحریروں میں ہمیں انشائیہ کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، در اصل طلوعِ آفتاب کا منظر ہے جس کے نتیجے میں انشائیہ کی کرنیں اس عہد کے مذکورہ انشا پردازوں کی تخلیقات میں نظر آتی ہیں۔

انشائیہ اپنی جملہ خصوصیات کے ساتھ اردو ادب میں بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کے بعد نمودار ہوا اس میں اس صنف کے بیشتر محاسن پور ی آب و تاب کے ساتھ روشن ہوئے۔ عصری انشائیہ کی ایک نمایاں خصوصیت موضوعات کی ندرت ہے۔ یہ موضوعات اپنے انوکھے پن کے سبب ہمارے ذہن کو فوراً انشائیہ نگار کی مخصوص فنی مہارت کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ اس کے عنوانات پر ایک نظر ڈالنے کے بعد بہ آسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان پر مغربی انشائیہ نگاروں کی گہری چھاپ ہے۔ انگریزی انشائیہ صحافت کی آغوش میں پروان چڑھا ہے اور خبر Newsکو ایک قدم آگے بڑھ کر بصیرت افروز خیال Viewsمیں ڈھالنا اس شعبہ کا خاص کمال رہا ہے۔

یورپی انشائیہ نگار حیرت انگیز عنوانات کے ذریعے بھی حقائق کے جہانِ نو کی دریافت کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ بعض اوقات موضوع سے انحراف کے نتیجے میں بھی اپنے نتائجِ فکر پیش کر نے کو انشائیہ کا ہنر خیال کیا گیا۔ اردو میں اس رجحان کے اتباع کے بھی شواہد ملتے ہیں۔ اس سے ایک نقصان یہ ضرور ہوا کہ بوالہوسوں اور نو سکھیوں کے ہاں جد ت طراز ی کے نام پر بے کیفی اور میکانکیت پیدا ہو ئی ہے۔

عصری انشائیوں کے درج ذیل عنوانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان نئے انشائیہ نگاروں کے ہاں ندرت، تازہ کاری اور مشاہدات و تجربات کی بو قلمونی موجود ہے۔

چوری سے یاری تک۔ ( وزیر آغا) مچھر سے مدافعت کی خاطر ( انور سدید) بلیوں کے سلسلے میں ( احمد جمال پاشا ) منگنی کی انگوٹھی ( انجم انصار )آئس کریم کھانا( مشتاق قمر ) بچہ پالنا( غلام جیلانی اصغر) فٹ نوٹ ( کامل القادری ) چوہوں سے نجات کی خاطر ( محمد اسد اللہ )۔

مذکورہ انشائیوں کے ہاں بعض اوقات موضوع سے انحراف کے علاوہ، مذموم رویوں کے روشن پہلو بیان کر کے فکر کو ایک نئی سمت میں سفر کا رجحان بھی موجود ہے۔ نئے انشائیہ نگاروں نے اشیا کے علاوہ انسانی رویّوں کو بھی انشائیہ کا موضوع بنا کر اس کے گرد اپنی تحریر کا تار و پود بنا ہے۔ افعال، رویّے اور اشیا کے حوالے سے فن کار انسان اور کائنات کی متنوع تصاویر سے اپنی تخلیقات کا نگار خانہ سجاتا ہے۔ موجودہ اردو انشائیہ نگاروں سے قبل عنوانات کی یہ ندرت اردو مضمون نگاری کے لئے نئی چیز تھی اور نہ معمولی اور عمومی موضوعات کو اس طرح برتنے کا رواج تھا۔

انشائیہ نگاروں کی نئی نسل میں اکثریت ایسے ادیبوں کی ہے جنھوں نے انشائیے ہی کو اپنا اولین تخلیقی اظہار قرار دیا ہے اسی کے ساتھ دیگر انشائیہ نگاروں کے ہاں جو دوسری اصناف میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں ان اصناف کا پر تو انشائیہ پر پڑا ہے۔ مثلاً وزیر آغا اور انور سدید کے انشائیوں میں حقائق کی بازیافت کے دوران تخلیقی ذہن اور تنقیدی نظر کی کار فرمائی دکھائی دیتی ہے۔ غلام جیلانی اصغر، نظیر صدیقی، احمد جمال پاشا، رام لعل نابھوی ارشد میر، شمیم ترمذی کے انشائیوں پر ان ادیبوں کی ظریفانہ تحریروں کے اثرات بہ آسانی مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں۔ سلیم آغا قزلباش اور انجم انصار کے انشائیے افسانوی انداز لئے ہوئے ہیں۔ اسی کا دوسر ارخ یہ بھی ہے کہ دونو ں انشائیہ نگاروں کے افسانے انشائیہ اور افسانہ کے نقطہ اتصال پر تخلیق ہوئے ہیں۔ البتہ انشائیوں میں افسانوی انداز کو محتاط اور متوازن مقدار میں برت کر انھوں نے اسے حسنِ تحریر کا مرتبہ عطا کیا۔ ڈاکٹر داؤد رہبر مشکور حسین یاد، خالد پرویز صدیقی اور جان کاشمیری کے انشائیے شعری احساس اور فلسفیانہ تفکر کا امتزاج پیش کرتے ہیں۔

مذکورہ انشائیہ نگاروں نے پرسنل ایسے یا فیمیلیر ایسے کی خصوصیات کو جزو تحریر بنانے کے علاوہ اختصار اور غیر رسمی پیرایہ اختیار کر کے روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے معمولی واقعات یا استعمال ہو نے والی غیر اہم اشیا پر غور و فکر کے ذریعے معنی خیز نتائج بر آمد کئے۔ نئی نسل کے انشائیہ نگاروں میں مواد کی پیش کش کا سلیقہ نظر آتا ہے۔

مجموعی طور پر عصری انشائیہ اپنی انفرادیت منوانے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ اس صنف کی طرف متوجہ ہو نے والے نئے فنکاروں کی تحریریں اردو ادب میں انشائیے کے خوش آئند مستقبل کی نشاندہی کرتی ہیں۔

البتہ تحریکوں کے نتیجے میں پیدا ہو نے والے ادب کے ساتھ ہوتا آیا ہے کہ متاخرین جب اولین کی کورانہ تقلید شروع کر دیتے ہیں تب ادب سے روحِ تخلیق ختم ہو تی جاتی ہے اور روحِ تخلیق کے بغیر کوئی بھی صنف زندہ نہیں رہ سکتی۔ اردو انشائیہ نگاروں کی نئی نسل میں پیش رو انشائیہ نگاروں کی اندھی تقلید اور دہراؤ کے مناظر بھی نظر آتے ہیں جو اس نوخیز صنف کے لئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔

 

                 انشائیہ اور آزادیِ افکار

 

انشائیہ بحیثیت ایک صنفِ ادب فکر و نظر، تخیل و تدبّر اور آزادیِ اظہار کی جو لانیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ مشہور انگریزی انشائیہ نگار ولیم ہیزلٹ انشائیہ کو تمام انسانی معاملات پر محیط خیال کرتے ہوئے فنکار کی ذاتی دلچسپیوں اور دریافت کا فنّی اظہار قرار دیتا ہے۔

’’ ایسّے Essay ذہنی استعداد اور تدبّر کو انسانی امور کی ہمہ اقسام پر آزمانے کا فن ہے۔ یہ امور باقاعدہ کسی سائنس، فن یا عقیدے کی زد میں نہیں آ تے لیکن ادیب کی توجّہ اپنی طرف منعطف کرا لیتے ہیں اور پھر دوسرے لو گوں کی دلچسپی اور ہمّت کا باعث بن جا تے ہیں۔ ‘‘

 

غلام جیلانی اصغر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ’ انشائیہ کے اجزاء فکری بھی ہیں اور جذباتی بھی‘۔ یعنی انشائیہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے اور محسوسات کے وسیع تر امکانات بھی چھوڑ جا تا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر وزیر آغا کے نزدیک انشائیہ نگار، ’اشیاء یا مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لا نے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ‘‘

انشائیہ کی ان تعریفوں سے ظاہر ہے کہ انشائیہ میں آزادانہ سوچ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے مسلم معاشرے میں ابتدا ہی سے مذہبی روایات سے زیادہ خود ساختہ پابندیوں کی گرفت اس قدر مضبوط رہی ہے کہ انفرادی سوچ اور اظہارِ خیال کو فروغ حاصل نہ ہو پا یا۔ اجتہاد کی اجازت اور گنجائش کے با وجود نہ صرف یہ شے عوام الناس کے لئے شجرِ ممنوعہ بنی رہی بلکہ اعلیٰ طبقے میں بھی اس کا خو ف قائم رہا۔ سماج کے بعض مذہبی طبقات نے اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھا یا اور اس خوف کی دیواریں مضبوط کر نے کی کو شش کیں تاکہ بھیڑ چال کو رواج دے کر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کئے جا سکیں۔ آزادیِ افکار کو ابلیس کی ایجاد سمجھنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آزادیِ وطن سے پہلے ندرتِ خیال اور انکشافِ ذات کا علمبردار انشائیہ اردو ادب میں ناپید رہا۔ انشائی کیفیت ہماری تحریروں میں ’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آ تے بھی نہیں ‘کی حالت میں دکھائی دیتی ہے۔

انشائیہ نگار اپنی ذات کے حوالے سے اشیاء اور مظاہر کے پیچھے پوشیدہ حقائق کو دریافت کر کے ہمارے لئے حیرت اور مسرّت کا سامان مہیّا کر دیتا ہے۔ ہمارے ادب میں تصّوف اور مذہبی افکار و خیالات کے تناظر میں موجودات کو دیکھنا اور ان سے معنویت کے نئے پہلو نکالنا اسی طرح مذہبی روایات کے حوالے سے اشیاء اور واقعات میں چھپے جہانِ دیگر کی دریافت کو انشائیہ کا محل سمجھا گیا۔ البتّہ یہاں انکشافِ ذات کی گنجائش کم تھی۔ علم و دانش پر مبنی اقوال، بصیرت افروز خیالات اور حکیمانہ توجیہات کو اسی بنیاد پر انشائیہ گردانا گیا کہ ان میں سے بیشتر کا سرچشمہ مذہبی افکار و عقائد رہے ہیں۔ تصوّف اور روحانیت سے متعلق مضامین اور غیر مرئی عناصر کا احاطہ کر نے والی قدیم تحریروں اور تمثیلوں میں ما فوق الفطرت کر دار بھی ملتے ہیں۔ تصوّف کے موضوعات جس اسلوب میں اظہار کی منزل تک پہنچے وہ انشائیہ کا انداز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ’ سب رس ‘کے وہ حصّے جن میں حکمت و دانش کی باتیں تمثیلی پیرائے میں بیان کی گئی ہیں، انھیں جاوید وششٹ نے منتخب کر کے انشائیہ کے طور پر کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔ جاوید وششٹ کے خیال میں ’سب رس ‘کا مصنّف ملّا وجہی اردو انشائیہ کا باوا آ دم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو ادب کے اس شاہکار میں انشائیہ کی بعض خو بیاں تو یقیناً مو جود ہیں مگر اس کے بعد بھی دو صدیوں تک اردو ادب میں اس طرزِ اظہار کے نشو و نما کے شواہد نہیں ملتے۔

ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی نے انشائیہ نگاری میں سرسیّد کی اوّلیت کو تسلیم کیا ہے۔ ’تہذیب الاخلاق ‘‘کے پلیٹ فارم سے منظرِ عام پر آ نے والے سر سیّد کے مضامین ’ٹیٹلر ‘اور’اسپکٹیٹر ‘ کے اتّباع میں لکھے گئے۔ ان کی تحریروں پر انگریزی انشائیہ نگار ایڈیسنؔ اور سٹیل کی گہری چھاپ نمایا ں ہے۔ سر سیّد کے مضمون ’امّید کی خوشی ‘کو بعض ناقدین نے نمائندہ انشائیہ قرار دیا ہے۔ لیکن شبلی نعمانی نے اپنے مقالہ ’ سر سیّد مرحوم اور اردو لٹریچر‘(مطبوعہ مخزن، لاہور، مارچ۱۹۵۰ء؁ ص: ۲۳) میں لکھا ہے : ’امّید کی خوشی ‘ایک انگریزی مضمون سے ماخوذ ہے۔

سر سیّد کے مضامین مسلمانوں میں تعلیمی شعور اور قومی بیداری پیدا کر نے کی غرض سے ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال ہوئے۔ ان تحریروں کا اسلوب، منطقی استدلال اور فکری جہت تمام تر قومی مسائل اور ان کی سماجی بیداری کی تحریک سے متاثر نظر آ تے ہیں۔ سر سیّد کے مضامین میں خلوص اور قومی اصلاح کے جذبے نے پند و نصائح کا انداز اختیا ر کیا ہے۔ ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

’’سمجھ جس طرح کہ انسان کے لئے ایک بہت بڑا کمال ہے اسی طرح مکر اس کے حق میں بڑا وبا ل ہے۔ نیک دل کی منتہائے خوبی سمجھ ہے اور بد دل کی منتہائے بدی مکر۔ یا یوں کہئے کہ وہ نیک دل کے لئے معراج ہے اور یہ بد دل کے لئے کمال، سمجھ نہایت عمدہ اور نیک مقصد پیدا کرتی ہے اور ان کے حاصل ہو نے کو نہایت عمدہ اور تعریف کے قابل ذریعے قائم کرتی ہے …افسوس کہ ہماری قوم میں سب کچھ ہے پر یہی نہیں ہے۔ ‘‘(مضامین سرسیّد)

عہدِ سرسیّد کے دیگر ادیبوں مثلاً الطاف حسین حالیؔ اور ڈپٹی نذیر احمد کی تحریروں میں بھی خطیبانہ انداز نمایاں ہے۔ حالیؔ زبانِ گو یا میں رقمطراز ہیں :

’’الٰہی ! اگر ہم کو رخصتِ گفتار ہے تو زبانِ راست گفتار دے اور دل پر تجھ کو اختیار ہے تو زبان پر ہم کو اختیار دے۔ جب تک دنیا میں رہیں سچّے کہلائیں اور جب تیرے دربار میں آئیں تو سچّے بن کر آئیں۔ (آمین)‘‘

مولوی نذیر احمد نے اپنے مضمون ’وقت ‘میں بھی یہی لہجہ اختیا رکیا ہے :

’’ اے لڑکو! یہ فراغت کا وقت جو تم کو میّسر ہے اسے بس غنیمت سمجھو۔ ‘‘

قومی مسائل کا ادراک اور مسلمانوں کی زبوں حالی اور تہذیبی قدروں کا زوال ان مسائل کا اظہار سرسیّد اور ان کے بعد آ نے والے انشا پردازوں مثلاً رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں جس شدّت کے ساتھ ہوا ہے آزادیِ ہند کے بعد منظرِ عام پر آنے والی تحریروں میں وہ گر می بر قرار نہ رہ پا ئی اس دور کے مسائل کی تیز آ نچ نے سوچ و فکر کی رنگت بدل دی۔ نیا ماحول، مسائلِ حیات کی مسموم ہوائیں اور جھلسادینے والا یہ مو سم انشائیہ کی تھم تھم کر برسنے والی بارش کی طرح کی سوچ اور کونپلوں کی طرح ابھرنے والے خیالوں کے لئے یوں بھی سازگار نہ تھا۔

ناہمواریوں اور ناگوار رویّوں پر ٹوٹ پڑنے اور طنز و مزاح کی کاری ضربوں سے مدِّ مقابل کی قلعی کھول کر رکھ دینے کا چلن اس دور کی تحریروں میں مقبولیت کی ضمانت تھا۔

یوں بھی ان نئے انشائیوں میں جدیدیت اور ترقّی پسند تحریک کے زیرِ اثر مذہبی درد مندی اور داعیانہ روش ختم ہو چلی تھی۔ آزادی کے بعد لکھے گئے انشائیوں میں تلمیحات، اساطیر اور مذہبی حوالے مختلف سیاق و سباق کی وضاحت اور نئے مفاہیم کی تخلیق کے لئے آئے ہیں جبکہ سر سیّد اور ان کے ہم عصروں کے مضامین میں یہ چیزیں اصلاحِ احوال اور سماجی بیداری کے متعین مقصد کو پو را کرتی ہیں۔

مسلمانوں میں تعمیری روح پھونکنے کا عزم اور اصلاح کا جذبہ سر سیّد کے مضامین کا اصل محرّک تھا۔ لیکن یہی چیز انشائیہ جیسی صنفِ لطیف کے لئے سمِ قاتل تھی اور ان تحریرو ں کو عام قسم کے مضمون کی سطح سے بلند ہو کر تخلیقی جہت تک پہنچنے میں مانع تھی۔ تحریکیں مشن اور منصوبے مخصوص سمتوں میں اپنے متعین ہدف کی طرف گامزن ہوا کرتے ہیں اور انشائیہ کسی منصوبہ بند پروگرام کا متحمّل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقّی پسند تحریک سے وابستہ فن کاروں سے انشائیہ کے حقوق ادا نہ ہو پائے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ’ سب رس ‘ کے نام نہاد انشائیے اور سر سیّد کے مضامین مسلمانوں کی روحانی، جذباتی اور سماجی فکروں کے آئینہ دار ہیں۔ ان تحریروں نے فکر و خیال کی نئی جہتوں کو رو شناس کرانے کا فریضہ انجام دیا۔ ان کے عہد میں یہی ندرتِ خیال نئی سوچ کی علمبردار بھی تھی۔ ان تخلیق کاروں نے جمود کو توڑ کر شعور کی سطح پر نئے دائرے تخلیق کئے اسی برتے پر سرسیّد کو انشائیہ نگا ر کہا جا تا ہے۔ البتّہ شخصی سطح پر ہو نے والا خود انکشافی کا عمل جو انشائیہ کی امتیازی خصوصیت ہے سر سیّد اور ان کے ہم عصر ادیبوں میں مفقود ہے۔

سر سیّد کے بعد محمّد حسین آزاد کی تصنیف ’’نیرنگِ خیال ‘‘میں موجود تحریریں اپنے تمثیلی انداز سمیت انشائیہ کے بہترین نمونے ہیں۔ لیکن اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور محمّد حسین آزاد نے اپنی تحریر میں خود بھی تسلیم کیا تھا کہ کئی مضامین انگریزی سے ماخوذ ہیں۔ خود لکھتے ہیں :

’’میں نے انگریز انشا پردازوں کے خیالات سے اکثر چراغ روشن کیا ہے۔ ‘‘

اس عہد میں عبدالحلیم شرر کی تخلیقات میں خصوصاً اسلامی موضوعات پر قابلِ قدر سرمایہ مو جود ہے، البتّہ انشائیوں میں ان کی مشرق پرستی اور جمالیاتی حس کائنات کے اسرار سے پر دے اٹھا کر قدرت کی نیرنگیوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ اپنے مضمون اچھوتا پن میں لکھتے ہیں :

’’خلاصہ یہ کہ قدرت نے ان کی خوبیوں اور لذتوں پر جو مہر لگائی ہے۔ وہ ابھی تک نہیں ٹوٹی اور ان کا کو را پن یہ دلکش جملے کہہ کے ہمیں لالچ دلا رہا ہے کہ لا عین راء ت و لا اذن سمعت ’’رات دن ‘‘ تم دیکھتے ہو کہ آبدار موتی یا جلا دار آئینہ کسی کا ہاتھ چھوتے ہی دھندلا ہو جا تا ہے اور چھوئی موئی کی نازک پتیوں کو ہماری ہوا بھی لگتی ہے تو مرجھا جا تی ہے۔ ‘‘

خواجہ حسن نظامی کے مضامین میں معمولی واقعات اور حقیر چیزوں کے متعلق انکشافات میں معارف و حقائق بیان ہوئے ہیں۔ انھوں نے ’’دیا سلائی‘‘، ’’آنسو کی سر گزشت‘‘ اور ’’جھینگر کا جنازہ ‘‘ وغیرہ مضامین میں جس شگفتہ انداز میں تبصرے کئے ہیں وہ کسی واعظ کے بیان سے کم پر اثر اور بصیرت افروز نہیں۔ دیا سلائی کی زبانی یہ مکالمہ ملاحظہ فرمائیے :

’’حضرات!آپ ہزاروں لاکھوں سجدے کرتے ہیں مگر آپ کا سرکش وجود ویسا ہی باقی رہتا ہے مجھ کو دیکھئے ایک ہی سجدے میں مقبول

ہو جا تی ہوں اور تجلی اس چھوٹی سی شکل کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ ‘

میر ناصر علی نے اپنے مضامین کو ’’خیالاتِ پریشاں ‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ ان کی تحریروں میں بقول ڈاکٹر آ دم شیخ نہ سر سید احمد خاں اور حالی کی مقصدیت ملتی ہے نہ محمد حسین آزاد کی شدت پسند تخلیقیت۔ میر ناصر علی کے درج ذیل جملے دیکھئے :

’’ دنیا ایسا تماشا ہے کہ جس قدر دیکھئے اسی قدر جی لگتا ہے۔ اس سرائے فانی کے دو دروازے ہیں جو اندر آنے کا ہے اس پر لکھا ہے کبھی خوش نہ رہنا اور جو جانے کا ہے اس پر کندہ ہے غم نہ کر نا۔ ‘‘

مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضمون ’’مردہ بدستِ زندہ‘‘ میں قبرستان میں جنازے کے ساتھ آئے ہوئے لو گوں کے رویوں کو دلچسپ انداز میں پیش کی گیا ہے :

’’غرض اسی طرح جوڑی بدلتے بدلتے مسجد تک پہنچ ہی گئے، یہاں ہمراہیوں کی پھر تقسیم ہو ئی۔ ایک تو وہ جو ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں اور اب پڑھیں گے اور دوسرے وہ جو نہا دھو کر کپڑے بدل کر خاص اسی جنازے کے لئے آئے ہیں۔ تیسرے وہ ہیں جو اپنی وضعداری پر قائم ہیں یعنی نماز نہ کبھی پڑھی ہے اور نہ اب پڑھیں گے۔ دور سے مسجد کو دیکھا اور انھوں نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ ‘‘

مولانا ابو الکلام آزاد کے خطوط جو ’’غبارِ خاطر ‘‘ میں شامل ہیں، مسلمانوں کے مذہبی اور معاشرتی پہلوؤں کا بھی احاطہ کرتے ہیں البتہ ’’غبارِ خاطر‘‘ کے بعض حصّے خصوصاً حکایاتِ ’’زاغ، بلبل ‘‘ اور ’’چائے ‘‘ کے متعلق مولانا کے تاثرات انشائی ادب کے بہترین نمونے ہیں۔ بیسویں صدی کے بیشتر ادیبوں کی تحریروں میں انشائیہ کی خصوصیات نظر آ تی ہیں۔

احمد جمال پا شا بنیادی طور پر مزاح نگار کے طور پر ادب میں اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔ ان کے انشائیے ’’ہجرت‘‘، ’’بے ترتیبی‘‘ اور ’’بلّیوں کے سلسلے میں ‘‘ماہنامہ اوراق لاہور میں شائع ہو کر مقبول ہوئے۔ اپنے انشائیہ ’’بے ترتیبی‘‘ میں ابر پاروں کو نفسِ انسانی سے تشبیہ دیتے ہیں :

’’نفسِ انسانی کی طرح ان سیماب صفت ابر پاروں کو قرار نہیں … ان میں انسانی فطرت جھلکتی ہے۔ یہ بھی با ہر کے آ دمی کی طرح اندر سے کچھ با ہر سے کچھ، جیسے انسان کے دل میں کچھ ہو تا ہے دماغ میں کچھ…سارے مذاہب اور عبادات کا نزول اسی لئے ہوا ہے کہ یہ شانتی کے ساتھ بیٹھ کر گیان دھیان کر سکے۔ سادھنا پانے والے کے حضور میں سر بسجود ہو سکے۔ اگر یہ اس پر تیار بھی ہو جائے تو چوبیس گھنٹے میں فقط چند منٹ خدا سے لو لگا تا ہے لیکن اس میں بھی جہاں وہ جسمانی طور پر صرف اپنی نا رسا خواہشوں کی تکمیل کے لئے سر بسجود ہوتا ہے۔ وہاں اس کا نفس شیطان کے کندھوں پر سوار چاروں کھونٹ کی خبر لینے میں مصروف رہتا ہے۔ اس سلسلے میں نفسیات کے ایک پروفیسر نے جو نہ صرف عالمی شہرت کے حامل بلکہ اللہ والے بھی ہیں، ان سے کسی نے پو چھا: ’’کیا یہ ممکن نہیں کہ عبادت کے دوران خیال ادھر ادھر نہ بھٹکنے پائے ‘‘۔ بولے : ’’ صاحب ! نفس تو کتے کی دم ہے کہیں کتے کی دم سیدھی بھی ہوئی ہے ؟‘‘

آزادی کے بعد انشائیے کو ہندوستان میں تخلیقی اور تنقیدی ہر دو سطحوں پر متعارف کرانے والوں میں نظیر صدیقی اپنے انشائیوں کی شگفتگی اور طنز کے سبب خاص طور پر مشہور ہیں۔ اپنے انشائیے ’’امتحان گاہ ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’اللہ والوں کے نزدیک تو یہ دنیا ہی امتحان گاہ ہے لیکن چونکہ میرا شمار اللہ والوں میں نہیں ہو تا اور نہ ہو سکتا ہے اس لئے امتحان گاہ سے میری مراد دنیا نہیں بلکہ وہ جگہ یا کمرہ ہے جہاں طلبہ امتحان دیتے ہیں اور اساتذہ امتحان لیتے ہیں۔ ‘‘

اسی مضمون میں آ گے امتحان میں ہو نے والی دھاندلیوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے :

رام لعل نابھوی کے انشائیوں کے مجموعے ’آم کے آم‘ کی تحریروں میں مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ پوسٹ کارڈ کے متعلق لکھتے ہیں :

’’وہ وقت یاد کیجئے جب پوسٹ کارڈوں پر راجے مہاراجے، نواب، بادشاہ بیگم، ملکہ اپنا نام، تصویر، اپنی ریاست کا نام چھپواتے تھے۔ نہ راجے رہے نہ مہاراجے نہ نواب نہ بادشاہ، نہ بیگم نہ ملکہ نہ ریاستیں لیکن اگر کوئی پوسٹ کارڈ ایسا کسی کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ اسے نمائش میں دکھا تا ہے۔ ‘‘

محمّد اسد اللہ کے انشائیے نافرمانی کو انسان کی ایک پر اسرار طاقت اور کمزوری سے تعبیر کیا ہے :

’’نافرمانی ایک سکّہ ہے جس کا دوسرا پہلو یقیناً فرمانبرداری ہے۔ شیطان کے یہاں فرمانبرداری والا پہلو نفسیاتی خباثت میں ڈوبا ہوا تھا اس لئے خدا نے انسان کو نافرمانی کے آ لات سے لیس کیا، فرشتے عبادت کے بل پر اپنا دفاع تو کر سکتے تھے البتہ یقین کی سطح پر خدا کی ذات کے اثبات کی ایک ارفع صورت یہ قرار پا ئی کہ خدا کے ما سوا کی نفی کی جائے۔ نافرمانی نفی کا بہترین آ لہ تھا۔ چنانچہ اسی ایک تیر سے خدا کے ماسوا کی نفی کا عمل بھی وجود میں آیا جس کے بطن سے خدا کی ذات کے اثبات کی صبح خود بخود نمودار ہو گئی جیسے تاریکی کی چادر پھاڑ کر صبح کا اجلا اجلا وجود ہر طرف بکھرجائے۔ ‘‘

ڈاکٹر آدم شیخ نے انشائیوں کے چند مجموعے مرتب کئے ہیں ’انشائیہ‘ (۱۹۶۵ء)، اردو انشائیہ (۱۹۸۸ء؁)وغیرہ اردو انشائیہ میں شامل ڈاکٹر آ دم شیخ کے انشائیے خصوصاً ’’انٹلکچول‘‘ اور ’’کتّا‘‘ میں نظیر صدیقی کی طرح طنزیہ انداز غالب ہے جو انشائیے کی لطافت پر بارِ گراں ہے۔ اس انشائیے میں مولویوں کو نشانۂ طنز بنایا گیا ہے :

’’ دنیا میں بڑے بڑے انٹلکچول بلا کے عاشق مزاج اور کمال کے نظر باز رہے ہیں۔ آ ج بھی دنیا میں ایسے چھپے ہوئے انٹلکچول ضرور ملیں گے جو اپنی منکوحہ بیوی کے علاوہ پانچ پچیس حسیناؤں سے ادبی اور غیر ادبی تعلقات ضرور رکھتے ہوں گے۔ اس منطق پر بعض علماء کو اعتراض ہے ہو تو ہو لیکن میری نظروں سے ایک بھی جید مولوی ایسا نہیں گزرا جو صرف ایک بیوی کا شوہر ہو البتہ ایک مولوی اور ایک انٹلکچول کے طریقہ میں فرق صرف اتنا ہے کہ جو کام ایک مولوی شریعت کے دائرے میں رہ کر کرتا ہے انٹلکچول وہی کام جامے سے باہر ہو کر کرتا ہے۔ ‘

 

 

                آخری بات

 

اردو انشائیہ کے متعلق تفصیلی مباحث، انشائیہ نگاروں کا تعارف اور ان کے فن پر تبصرہ کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انشائیہ نگاروں کا ایک قافلہ اس نئی نئی رہ گزر پر جادہ پیما ہوا، اگرچہ زمانہ اس پر ہزار بار گزرا مگر پرانے معتقدات اور طرزِ تحریر سے کی جانے والی اس ہجرت نے اس راستہ پر موجود نقش و نگارِ بہار کا منظر دکھایا۔ اس تحریک کے روحِ رواں ڈاکٹر وزیر آغا اپنے معروف جریدہ ماہنامہ اوراق لاہور کے ذریعے اس لالہ کی حنا بندی میں مصروف رہے۔ انشائیہ نگار ی کی تحریک کا دامن تھامنے والے بیشتر قلمکار اسے اسی سرزمین سے میسر آئے جہاں سے یہ ابھری۔ بھارت سے اس میں شامل ہونے والے تین ادیب تھے۔ ان کے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں۔

پاکستان میں انشائیہ نگاری ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے جب کہ بھارت میں تا حال صرف تین انشائیہ نگاروں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے۔ ان میں دو تو منجھے ہوئے ادیب یعنی احمد جمال پا شا اور رام لعل نابھوی، لیکن تیسرا ایک نوجوان انشائیہ نگار محمداسد اللہ ہے۔ 1

ہندوستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ ہر قسم کی تحریر پر یہ لفظ بہ آ سانی چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ طنزیہ یا مزاحیہ مضمون جو نا پختہ رہ جائے، طنز کا وار اوچھا پڑھائے یا مزاح یا قہقہہ تو درکنار تبسم زیرِ لب پیدا کر نے میں بھی ناکام ہو جائے تو اسے انشائیہ کہنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انشائیہ کے تمام مباحث، مضامین، تنقید وغیرہ میں انشائیہ کی صنفی خصوصیات پر عام طور سے اتفاقِ رائے موجود ہ ہے۔ انشائیے کے خد و خال واضح ہو جانے کے بعد نصابی کتب اور تعارفی مضامین میں بھی انشائیہ کے متعلق عمومی طور پر انشائیہ کا ایک واضح تصور موجود ہے۔ اس کے باوجود ہر وہ تحریر جو اس خانے میں کسی طور سما نہ سکے اسے انشائیہ گردانا جاتا ہے۔ مضامین کی نوعیت کے اعتبار سے بعض لوگ عجیب و غریب خود ساختہ اصطلاحات کے ساتھ انشائیہ کو منسلک کرتے ہیں۔ تنقیدی انشائیے، افسانوی انشائیے، مزاحیہ انشائے، طنزیہ انشائیے، سنجیدہ انشائیے وغیرہ

انشائیہ اور طنز و مزاح کے فرق کو واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید نے لکھا تھا :

انشائیہ نہ تو طنز کی جراحت پیدا کرتا ہے نہ مزاح کی ظرافت انشائیہ میں طنز و مزاح کی آمیزش بس اتنی ہی ضرور ہے جتنی آٹے میں نمک کی۔ لیکن نمک کی مقدار بڑھ جائے تو لقمہ حلق سے اتارنا مشکل ہو جاتا ہے چنانچہ جب یہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک غیر معمولی انداز میں انشائیہ پر حملہ زن ہو جائے تو انشائیہ عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔ انشائیہ تو غیر رسمی، بے ترتیب، ڈھیلی ڈھالی اور سیال صنفِ ادب ہے جو موضوع کی مناسبت سے اپنی ہئیت اور رنگ تبدیل کر لیتی ہے اور نیرنگِ نظر پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔ 2

ہمارے ہاں پطرس بخاری اور رشید احمد صدیقی سے موجودہ دور تک بیشتر طنز و مزاح نگاروں کی تخلیقات کو انشائیہ کہنے کا رواج رہا ہے۔ بھارت میں طنز و مزاح کی روایت کا پاسدارزندہ دلانِ حیدر آباد کا ماہنامہ شگوفہ یک طویل مدت سے ظرافت کے میدان میں پرورشِ لوح و قلم کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس میں شائع ہو نے والے ظرافت سے بھرپور بیشتر مضامین انشائیہ کے عنوان تلے شائع ہو تے ہیں۔ ظریفانہ تحریروں کے متعدد مجموعے اور انتخابات جو گزشتہ بر سوں کے دوران منظرِ عام پر آئے ہیں انھیں بھی انشائیہ کے لیبل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ ماہنامہ شگوفہ اور دیگر رسائل میں انشائیہ نگاری کے تحت جو نام منظرِ عام پر آئے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور، کرشن چندر، فکر تونسوی، مشتاق احمدیوسفی، ابنِ انشا، کرنل محمد خان، عطا الحق قاسمی، خامہ بگوش، مجتبیٰ حسین، یوسف ناظم فرحت کاکوروی، احمد جمال پاشا، رام لال نابھوی، اندر جیت لال، مانک ٹالہ، سید طالب حسین زیدی، ، پرویز ید اللہ مہدی، وجاہت علی سندیلوی، انجم مانپوری، سید ضمیر دہلوی، جاوید وششٹ، دلیپ سنگھ، عابد معز، نریندر لوتھر، عاتق شاہ، مسیح انجم، ، علیم خان فلکی، جہاں قدر چغتائی، اسد رضا، نصرت ظہیر، رؤف خوشتر، شفیقہ فرحت، ، حلیمہ فر دوس، ڈاکٹر حبیب ضیا، انیس سلطانہ ، ڈاکٹر لئیق صلاح، فرزانہ فرح، ڈاکٹر سید محمد حسنین، اعجاز علی ارشد، مناظر عاشق ہر گانوی، فیاض احمد فیضی، منظور الامین، منظور عثمانی، رشید قریشی، ممتاز مہدی، رشید الدین، شمیم کلیم، رؤف پاریکھ، جہانگیر انیس، ڈاکٹر راہی قریشی، عباس علی متقی، مرزا کھونچ، مشتاق رضا، ، مختار ٹونکی، مسرور شاہجہاں پوری، ممتاز مہدی، پروفیسر شمیم کلیم، علیم جہانگیر مختار یوسفی، محمد رفیع انصاری، الیاس صدیقی، انجم نجمی، ڈاکٹر آ دم شیخ، بانوسرتاج، داؤد کاشمیری، ڈاکٹر صفدر، شیخ رحمٰن اکولوی، شکیل اعجاز، ، محمد اسد اللہ، رفیق شاکر، بابو آ رکے، ایس ایس علی، حیدر بیابانی، محمد طارق کھولاپوری، جاوید کامٹوی، انصاری اصغر جمیل، غلام صوفی حیدری، ثریا صولت حسین، شکیل شاہجہاں، انصاری اصغر جمیل، ایس ایس علی، شاہد رشید، سیدحسنین عاقب، وغیرہ

یہ فہرست یقیناً نامکمل ہے بلکہ اس فہرست کی ایک جھلک ہے۔ ا س میدان میں تحقیقی کام کی گنجائش ہے تاکہ ان قلم کاروں کی فنی کاوشوں کا جائزہ لے کراس روایت پر تنقیدی نظر ڈالی جائے جس کی بنیاد پطرس اور رشید احمد صدیقی جیسے قد آ ور مزاح نگاروں نے رکھی تھی اور مذکورہ قلم کاروں کی تخلیقات اس روایت کی توسیع، ترویج اور بقا کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔

 

 

حواشی

1۔ ڈاکٹر وزیر آغا، پیش لفظ، بوڑھے کے رول میں، مصنفہ : محمد اسد اللہ، 1988، ص5

2۔ انور سدید، انشائیہ کے مباحث، ص۸۹ ماہنامہ اردو زبان انشائیہ نمبر88

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے یونی کوڈ فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید