FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

انسانی حقوق اور فدائی حملے۔۔۔ اسلامی نقطۂ نظر

 

عبد الکریم عثمان

 

 

 

 

 

 

 

 

 

پیش لفظ

 

راقم نے اپنی کتاب ’غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق‘ (جس کے تین ایڈیشن اب تک شائع ہو چکے ہیں ) میں عام حالات میں غیر مسلموں سے تعلقات اور ذمیوں (اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں ) کے حقوق پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس کے ساتھ، اسلامی ریاست میں انھیں کتنی مذہبی آزادی حاصل ہو گی؟ احکام شریعت کا ان پر نفاذ کس حد تک ہو گا؟ اسلامی ریاست اور غیر اسلامی ریاست کے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟ جہاد کی اقسام اور ان کے احکام کیا ہیں ؟ جیسے سوالات پر ’تحقیقاتِ اسلامی‘ میں اس عاجز کے مقالات شائع ہو چکے ہیں۔ ذیل کے مقالہ کے پہلے حصہ سے اس کی فی الجملہ تائید ہوتی ہے۔ مآخذ بھی بڑی حد تک مشترک ہیں۔ البتہ بعض باتیں وضاحت طلب محسوس ہو سکتی ہیں۔

مقالہ کے دوسرے حصہ میں فدائی حملوں سے متعلق بحث ہے۔ اس نام سے جو کارروائیاں سامنے آتی رہتی ہیں ان سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ مقالہ نگار کا بھی یہی رجحان ہے۔ حالت جنگ میں فقہاء نے بعض شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے۔ یہ کوئی عام قاعدہ نہیں ہے۔ بہر حال اس طرح کے موضوعات پر مزید غور ہوتے رہنا چاہیے۔

جلال الدین عمری

 

 

 

ابتدائیہ

 

اسلام آیا تو اس نے انسانی حقوق کی پاسداری اور ادائی کا ایک نظام بھی اپنے دور آغاز سے ہی دنیا کے سامنے پیش کیا۔ قبل از اسلام ’ متوازن انسانی حقوق‘ کے کسی نظام سے انسانی معاشرہ واقف نہ تھا، اندھیر نگری کا یہ عالم تھا کہ تمام حقوق قوت و طاقت کی بنا پر طے کیے جاتے تھے ،اور ان کے مطالبہ و ادائیگی کی مہم بھی اسی بنیاد پر چلائی جاتی تھی، گویا حقوق کی جنگ میں ہمیشہ حق پر، صاحب قوت و طاقت ہی ہوا کرتا تھا۔ کمزور اور ناتواں کا کسی چیز کا محض مطالبہ کر لینا بھی جرم تھا، غلام تو غلام آزاد انسانوں کی خرید و فروخت تک کرنے سے دریغ نہ ہوتا تھا۔ عورت معاشرہ میں بد نامی و رسوائی کا بدنما داغ سمجھی جاتی تھی۔

ہمارے پیش نظر اس وقت خاص طور پر غیرمسلموں کے حقوق کا مطالعہ ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل اسلامی احکام کا حاصلِ مطالعہ اور خلاصہ پیش کیا جائے گا اور اسی پس منظر میں ’فدائی حملوں ‘ سے بھی بحث ہو گی:

۱۔       عمومی حالات میں غیر مسلموں کے حقوق

۲۔       حالت جنگ میں انسانی حقوق

۳۔       انسانی حقوق کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ’فدائی حملوں ‘ کا جواز و عدم جواز

 

 

 

عام حالات میں غیر مسلموں کے حقوق

 

’عام حالات ‘ سے مراد یہ ہے کہ حالت امن میں اور عدم حالت جنگ میں اسلام نے غیر مسلموں کو کیا حقوق دیے ہیں ؟

اسلام کی تعلیمات کی وسعت و ہمہ گیری کی بنا پر خاص اس موضوع پر اس قدر تفصیلی احکام موجود ہیں کہ ان کے بیان کے لئے ایک مکمل و مستقل کتاب درکار ہے ، علامہ ابن القیم الجوزی ؒ نے ’ احکام اہل الذمہ‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب دو جلدوں میں (ایک ہزار پینسٹھ(۱۰۶۵) صفحات پر مشتمل ) لکھی ہے ، جس میں غیر مسلموں کی مذہبی ، معاشی ، معاشرتی آزادی اور ان کے حقوق کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اسکے علاوہ بھی بہت سی کتب اس موضوع پر موجود ہیں۔

ذیل میں نمونہ کے طور پر غیر مسلموں کے صرف ان حقوق کو ذکر کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے جو زیر بحث موضوع سے متعلق ہیں۔

 

 

 

 

 

 

غیر مسلموں کی معاشرتی آزادی اور ان کی عصمت و آبرو کا تحفظ

 

ہر انسانی معاشرہ میں عزت و آبرو کی حفاظت بنیادی اہمیت رکھتی ہے ، جس معاشرہ میں انسانوں کی عزت و آبرو ہی محفوظ نہ ہو وہ اپنی تمام تر مادی ترقیوں کے باوجود انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں۔

اسلام نے غیر مسلموں کی عزت و آبرو کی حفاظت کا جو بندوبست کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مسلم کسی ذمیہ یامستأمنہ ( غیر مسلمہ) کے ساتھ زنا کا ارتکاب کر لے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ قاضی ابویوسف نے لکھا ہے:

لم یشترط الفقہاء لوجوب حد الزنیٰ علی المسلم أن یکون زناہ بمسلمۃ ، انما الذی اشترطوہ لإقامۃ حد الزنیٰ علیہ ہوأن یطأ الرجل امرأۃ محرمۃ علیہ من غیرعقد…… فلا یباح للمسلم ان یزنی، فاذا زنی أقیم علیہ الحد سواء کان المزنی بھا مسلمۃ أو ذمیۃ أومستأمنۃ،و مع ذالک فقد صرح بعض الفقہاء بأن المسلم اذا زنیٰ المستأمنۃ حد حد الزنیٰ۔… ۱؎

فقہاء نے مسلم پر زنا کی سزا ( رجم یا جلد ) کے وجوب کے لئے صرف مسلمان عورت سے زنا کرنا شرط قرار نہیں دیا ہے، بلکہ انہوں نے زانی مسلم پر حد قائم کرنے کے لئے یہ شرط قرار دی ہے کہ وہ اپنے اوپر حرام کسی بھی عورت کے ساتھ بغیر اس سے عقد (نکاح یا تملیک ) کئے، جنسی عمل کرے … لہٰذا کسی مسلمان کے لئے روا نہیں کہ وہ زنا کرے اگر اس نے زنا کیا تو اس پر ہر صورت میں حد جاری ہو گی، خواہ وہ عورت جس سے زنا کیا گیا ہے مسلمان ہو یا ذمی یامستأمنہ۔ اس کے باوجود بعض فقہاء نے تو صراحۃً کہا ہے کہ مسلمان اگر مستأمنہ (غیر مسلمہ) سے زنا کرے گا تو اس پر حد زنا قائم کی جائے گی۔

اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے جس طرح مسلمان عورت کی عصمت و آبرو کے تحفظ کا بندوبست کیا ہے اور اس پر کسی بھی قسم کی آنچ نہ آنے کے لئے حدود کا نظام قائم کیا ہے وہی نظام غیر مسلم عورت کی عصمت کی حفاظت کے لئے بھی رکھا ہے۔

 

 

 

 

غیر مسلموں کے لئے شخصی آزادی

 

یوں تو شریعت اسلامیہ نے غیر مسلموں کو وہ تمام حقوق دیے ہیں جو کسی فرد کو انسانی معاشرہ میں رہنے کے لئے درکار ہوتے ہیں اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا، جیسے جان کی حفاظت ، مال کی حفاظت وغیرہ۔ اس کے ساتھ اسلام نے کچھ ایسے حقوق بھی بیان کئے ہیں جو اسلام کا ہی امتیاز ہے ،اور اس کی نظیر کسی مذہب و قانون میں نہیں ملتی۔مثلاً :

۱۔        نقل و حرکت کی ہر قسم کی آزادی ، یعنی غیر مسلم شخص اگر کسی مسلم ملک میں مقیم ہے تو اسے ہر جگہ آنے جانے کی اجازت ہے اور اسے بیرون ملک سفر کرنے کی (کسی صحیح غرض اور ضرورت کے لئے ) بھی اجازت ہے۔…۲؎

۲۔       کسی بھی شہر میں غیر مسلم (ذمی) کو رہائش اختیار کرنے کی اجازت ہے، سوائے حرم کے اور حرم میں بھی تجارت وغیرہ ( کسی صحیح غرض) کے لیے داخلہ کی گنجائش ہے ،کما قال بعض الفقہاء و منہم الحنفیۃ۔…۳؎

۳۔       کسی مسلمان کو ہر گز اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ بلا کسی شرعی و قانونی وجہ کے کسی ذمی کو قید کر لے یا اس کو کوئی سزا دے ، کیونکہ اس کو بلا وجہ قید کرنا یا سزا دینا زیادتی ہے ،جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

چنانچہ عام حالات میں غیر مسلموں کے حقوق پر حضور اکرم ﷺ کا ایک جامع ارشاد ہے :

من آذٰی ذمیاً فأنا خصمہ و من کنت خصمہ خصمتہ یوم القیامۃ۔… ۴؎

جس نے کسی ذمی کو ( بلاوجہ ) اذیت دی تو میں اسکا خصم ( مد مقابل) ہوں گا اور جس کا مد مقابل میں روزِ قیامت ہوں گا وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔

امام ابو یوسفؒ نے اپنے زمانے میں خلیفہ وقت کو ذمیوں کے حقوق اور ان کی رعایت کرنے کے متعلق اپنے ایک مکتوب میں فرمایا:

حتی لا یظلمو ا ولا یکلفو ا فوق طاقتھم۔…۵؎

ان پر ظلم نہ کیا جائے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لیا جائے۔

ان تعلیمات سے واضح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کی شخصی آزادی اور ان کے شخصی حقوق کا کس قدر خیال فرمایا ہے حتی کہ ایک حدیث کی رو سے اگر کوئی غیر مسلم ( مستأمن / ذمی) سے قتال کرے تو مسلمان اس کے خلاف لڑیں گے۔

 

 

 

 

غیر مسلموں کے لئے مذہبی آزادی

 

۱۔        اسلامی شریعت میں غیر مسلموں پر مذہبی تشدد قانونی طور پر ممنوع ہے۔ شریعت کا معروف قاعدہ ہے ، ’’ونترکھم وما ید ینون‘‘ (ہم ان ذمیوں کو ان کے دین کے بارے میں ان کے حال پر چھوڑتے ہیں )

ارشاد خداوندی ہے :

لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ۔… (البقرۃ:۲۵۶)

دین میں اکراہ نہیں ، تحقیق ہدایت کا راستہ گم راہی سے بالکل واضح ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے ایک خط اہل نجران کے نام لکھا اس میں آپ ﷺ نے واضح طور پر فرمایا:

والنجران و حاشیتھا جوار اللّٰہ و ذمۃ محمد النبی رسول اللہ علی أموالھم و انفسہم وا رضھم و ملتھم و غائبھم وشاھد ھم و عشیرتھم و بیعھم و کل ماتحت أیدیھم من قلیل أو کثیر۔… ۶؎

اور نجران اور اسکے اطراف کے لوگوں کے لئے اللہ کی طرف سے پناہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ذمہ ہے۔ ان کے مال ، جان ، زمین ، مذہب، ان کے موجود ، غیر موجود اور ان کے قبیلے کے لوگوں اور ان کی خرید و فروخت ( کے معاملات) پر اور ہر اس چیز پر جو ان کے قبضے میں ہے، چھوٹی ہو یا بڑی‘‘۔

معلوم ہوا کہ کسی غیر مسلم کو عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنا اسلامی تعلیمات کی رو سے ممنوع ہے۔ وہ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے بلا د اسلامیہ میں رہ سکتے ہیں۔

۲۔       مذہبی آزادی میں یہ بھی شامل ہے کہ غیر مسلموں کو اپنی عبادات ادا کرنے اور مذہبی رسوم و تہوار منانے کی اجازت ہے۔ اس سلسلہ میں فقہاء نے جو تفصیلات فراہم کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی علاقوں میں رہنے والے غیر مسلموں کو اپنی عبادت گاہوں کے اندر اپنی مذہبی رسوم و شعائر کو اپنانے اور قائم کرنے کی اجازت ہے اور اس سلسلہ میں ان پر کوئی پابندی نہیں ، البتہ مسلم آبادیوں میں ان رسوم و عبادات کو علانیہ طور پر ادا کرنے کی اجازت نہ ہو گی۔ کیونکہ اس سے مسلمانوں کی تخفیف و اہانت اور اسلامی احکام کے علانیہ مقابلہ کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر زیدان نے فقہاء کے خیالات کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے :

’’ للذ میین الحق فی اقامۃ شعائرہم الدینیۃ داخل معابد ھم ویمنعون من اظہار ھا فی خارجھا فی امصار المسلمین، لان امصار المسلمین مواضع اعلام الدین و اظہار شعائر الاسلام من اقامۃ الجمع والأ عیاد و اقامۃ الحدود ونحو ذلک فلا یصح اظہار شعائر تخا لفھا۔… ۷؎

ذمیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہبی شعائر اپنی عبادت گاہوں میں انجام دیں ،البتہ انھیں ان شعائر کو مسلمانوں کے بڑے شہروں میں اپنی عبادت گاہوں کے باہر انجام دینے سے روکا جائے گا، اس لیے کہ وہ شہر ایسے مقامات ہیں جہاں دین کا اعلان اور اسلامی شعائر کا اظہار ہوتا ہے، جمعہ اور عیدین کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں ، حدود قائم کیے جاتے ہیں وغیرہ، اس لیے وہاں مخالف اسلام شعائر کی علانیہ انجام دہی کی اجازت نہیں۔

 

 

 

 

 

 

غیر مسلموں کے لئے معاشی آزادی

 

انسانی حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق مختلف ذرائع معاش اختیار کرنے کی اجازت ہو، تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ اپنے گزر بسر کا بندوبست کرے، معاشی اعتبار سے خود کفیل ہو اور کسی پر بوجھ نہ بنے۔

اس سلسلہ میں فقہاء کرام اور مفسرین نے وضاحت فرمائی ہے کہ غیر مسلم افراد معاملات، تجارات، اور دیگر تصرفات میں مسلمانوں کی طرح ہیں۔یعنی جو چیزیں ان کے مذہب کے مطابق حلال ہیں ان کی خرید و فروخت کی، (بعض شرائط کے ساتھ) اجازت ہو گی، البتہ بعض وہ چیزیں جو ان کے ہاں جائز ہیں ، مگر اسلام میں ان کی ممانعت ہے۔ ان کو اس سے منع کیا جائے گا، ’ہجر‘ نامی علاقے کے مجوسیوں کی طرف یہ پیغام بھیجا تھا:

أما أن تذ روا الربا أو تأ ذنوا بحرب من اللّٰہ و رسولہ ۸؎

کہ تم سودی معاملے کرنا چھوڑ دو ورنہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے۔

چونکہ سودی معاملات پورے معاشرہ کے معاشی نظام کو برباد کر دیتے ہیں اس بنا پر اسلامی ملکوں میں مقیم غیر مسلموں کو سودی کاروبار کرنے کی اجازت نہ ہو گی۔ اس کے علاوہ جتنے بھی معاملات ہیں ان کی اپنے ماحول ، علاقوں اور آبادیوں میں انجام دہی کی اجازت ہو گی۔

ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اسلام نے بلاد اسلامیہ میں مقیم غیرمسلموں کو جان، مال، عزت و آبرو اور معاشی تگ و دو کا مسلمانوں ہی کی طرح تحفظ فراہم کیا ہے۔

اب حالت جنگ سے متعلق یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے گی کہ اسلام نے اس کے کچھ اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں یا اس بات کی کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ بے دریغ جو انسان ، علاقہ یا آبادی سامنے آئے اس کو ختم اور تہس نہس کر دیا جائے۔

 

 

 

 

 

حالتِ جنگ اور انسانی حقوق کی رعایت

 

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائز جنگ و قتال کو ’جہاد ‘کہتے ہیں۔ اسلامی جہاد کی مشروعیت محض قتل انسانیت اور زمین میں فساد کے لئے نہیں ہوئی ، بلکہ اس کا مقصد اسلام کی دعوت، مذاہب کی آزادی، ظلم کا خاتمہ اور عدل و انصاف کا قیام ہے۔ اس مقصد کو ایک موقع پر صحابی ٔ رسول ﷺ حضرت ربعی بن عامر ؓ نے رستم کے دربار میں ان الفاظ میں بیان کیا تھا:

اللّٰہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادۃ العباد اِلی عبادۃ اللّٰہ ومن ضیق الدنیا اِلی سعتھاومن جور الأدیان الی عدل الاسلام فأرسلنا بدینہ الی خلقہ لند عوھم الیہ فمن قبل ذلک قبلنا منہ و رجعنا عنہ ومن أبی قاتلناہ أبدًا…۹؎

اللہ نے ہمیں اس لیے بھیجا ہے ، تاکہ جس کو وہ چاہے اسے ہم انسانوں کی غلامی سے اللہ کی غلامی میں ، دنیا کی تنگی سے اس کی وسعت میں اور مذاہب کے ظلم سے اسلام کے عدل میں لائیں۔ چنانچہ اس نے ہمیں اپنے دین کے ساتھ اپنی مخلوق کی طرف بھیجا ، تاکہ ہم انھیں اس کی طرف دعوت دیں۔ اب جو لوگ اسے قبول کر لیں گے ان کی بات مان کر ہم بھی واپس جائیں گے اور جو لوگ انکار کریں گے ان سے آخر تک جنگ کریں گے۔

اسلام نے جہاد کے سلسلے میں ایک مکمل ضابطۂ اخلاق دیا ہے، جس کی پاسداری شرط ہے۔ اس ضابطہ اخلاق کو نظر انداز کر کے کوئی بھی جنگی اقدام قومیت اور ملک گیری کی جنگ تو ہو سکتا ہے، اسلامی جہاد نہ ہو گا۔

 

 

 

 

 

حالتِ جنگ میں اسلام کا ضابطۂ اخلاق

 

اسلام چونکہ بے جا جنگ مسلط کرنے کو پسند نہیں کرتا ، بلکہ اسلامی جنگ ایک نظریاتی جنگ ہوتی ہے، اس میں نہ تو ملک گیری کی ہوس اور جذبے سے مغلوب ہو کر جنگ کی جاتی ہے اور نہ کسی ذاتی رنجش یا خالص انتقامی جذبہ کی بنیاد پر قتال کیا جاتا ہے ، بلکہ مسلمانوں کی جنگ دراصل اللہ تعالی کی حاکمیت اور شریعت کے قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :

وَقٰتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّہِ فَإِنِ انتَہَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَی الظَّالِمِیْنَ

(البقرۃ:۱۹۳)

تم ان سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے، پھر اگر وہ باز آ جائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں۔

گویا کہ یہ بدی اور نیکی، ظلم اور عدل ، فتنہ اور امن کے مابین جنگ ہے ، اس لئے اس میں محض دشمن کو مغلوب کر لینے اور اس کے علاقوں پر قبضہ کر لینے سے زیادہ اہم اسلام کی ان اعلیٰ اور پاکیزہ تعلیمات کا نفاذ اور ان پر عمل در آمد ہے جو قطعی اور ابدی ہیں ، اس لئے مسلمان ہر وقت اس پہلو کو مد نظر رکھتا ہے کہ اسلام نے اس موقع پر جو تعلیمات دی ہیں ان کی تکمیل ہو رہی ہے یا نہیں ، اگر ہو رہی ہے تو یہی مقصود ہے۔ حالت جنگ میں بھی اور حالت امن میں بھی۔

 

۱۔ حملہ آور ہونے سے قبل دعوت و مذاکرات کا اہتمام

تمام فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب مسلمان کسی علاقہ پر حملہ کریں یا اس کا محاصرہ کریں تو اچانک حملہ کرنے سے اجتناب کریں ، بلکہ اس سے قبل ان کو دعوت اسلام دیں۔ اگر وہ اس کو قبول کر لیں تو ان سے جنگ نہ ہو گی۔

چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے :

أمرت أن أقاتل الناس حتی یشھدوا أن لا الٰہ الّا اللّٰہ وأن محمدًا رسول اللّٰہ و یقیموا الصلوٰۃ و یؤتو ا الزکوٰۃ فان فعلو ذلک عصموا منی دماء ھم و أ موالھم الابحق الاسلام و حسابھم علی اللّٰہ…۱۰؎

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کی جان اور مال محفوظ ہوں گے۔ ان سے ناحق تعرض نہیں کیا جائے گا اور ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہو گا۔

اور اگر وہ دعوت کو ٹھکرا دیں تو پھر ان کو جزیہ قبول کرنے کی پیش کش کی جائے گی اگر اس کو بھی ٹھکرا دیں تو پھر ان سے قتال کیا جائے گا… ۱۱؎

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی جنگ کا مقصد ملک گیری نہیں ، بلکہ شریر لوگوں کے شر سے اللہ کی زمین کو پاک کرنا اور اس پر اللہ تعالیٰ کے عادلانہ نظام کو قائم کرنا ہے، اس لئے انسانی جان کی قدر و قیمت کی وجہ سے براہ راست قتال کرنے کی بجائے پہلے دعوت کو ضروری قرار دیا گیا ہے… ۱۲؎

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حالت جنگ میں بھی اسلام میں انسانی حقوق کا لحاظ رکھا گیا ہے اور بغیر دعوت دیے قتال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

 

۲۔غیر محارب لوگوں کے قتل کرنے کی ممانعت

جہاد کادوسرا اخلاقی اصول و ضابطہ یہ ہے کہ قتال کے دوران مندرجہ ذیل طبقات کے کسی فرد کو قتل نہیں کیا جائے گا:

۱۔عورتیں          ۲۔بچے   ۳۔مجنون   ۴۔بوڑھے افراد   ۵۔دنیا سے منقطع راہب اور عبادت گزار ۶۔مستقل مفلوج اور بیمار شخص   ۷۔کفار کے قاصد اور ایلچی   ۸۔جنگ سے لا تعلق زراعت پیشہ دیہاتی… ۱۳؎

کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے فتنہ اور فساد کا اندیشہ نہیں ہے۔

معلوم ہوا کہ اسلام نے حالت جنگ میں بھی انسانی حقوق کی اس قدر رعایت کی ہے کہ کفار کے راہبوں ، خلوت نشینوں ، قتال سے لا تعلق شہریوں اور دیہاتیوں ، عبادت گزاروں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ہے، جب کہ ایسی مثال دنیا کے کسی ملک اور کسی مذہب و قانون میں نہیں ملتی۔چنانچہ بہت سی روایات میں مندرجہ بالا نوعیت کے افراد کے قتل کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔

بخاری کی روایت ہے:

عن ابن عمر ؓ قال وجدت امراۃ مقتولۃ فی بعض مغازی رسول

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ کسی غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی

اللہﷺ فنھیٰ رسول اللہﷺ عن قتل النساء والصبیان۔ …۱۴؎

تو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔

علامہ محمود بن صدر الشریعۃ بیان کرتے ہیں :

قال أبو یوسف ؒ سألت أبا حنیفۃ ؒ عن قتل النساء ، و الصبیان و الشیخ الکبیر الذی لا یطیق القتال والذین بہم زمانۃ لا یطیقون القتال ، فنھی عن ذلک وکرہ ، والا صل فیہ ماروی ان رسول اللہ ﷺ رأی امرأۃ مقتولۃ فی بعض الغزوات فقال ماکانت ھذہ تقاتل فلم قتلت، أدرک خالداً وقل لہ لا تقتلن ذریۃ ولا عسیفاً…۱۵؎

ابویوسف کہتے ہیں : میں نے ابوحنیفہؒ سے عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور بیماروں (جو جنگ میں قادر نہیں ) کے قتل کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے اس سے منع کیا اور اسے ناپسند کیا۔ اس سلسلے میں اصل حکم وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے۔ کسی غزوہ میں ایک عورت کو مقتول دیکھا تو فرمایا یہ تو جنگ نہیں کر رہی تھی ، پھر اسے کیوں قتل کیا گیا۔ خالدؓ کے پاس جاؤ اور کہو کہ وہ کسی عورت ، بچے اور بوڑھے (یا مزدور) کو قتل نہ کریں۔

علامہ ڈاکٹر و ھبۃ الزحیلی اپنی معروف کتاب الفقہ الاسلامی وادلتہ میں تحریر فرماتے ہیں :

’’صرف ان جنگ جُو لوگوں کو قتل کرنا جائز ہے جو براہ راست یا رائے و تدبیر سے جنگ میں شریک ہوں ، دوسرے لوگوں کا قتل جائز نہیں ، جیسے عورت، بچہ، مجنون، بوڑھا، مریض، معذور، نابینا، جس کے ہاتھ اور پیر مخالف سمتوں سے کٹے ہوں ، یا جس کا داہنا ہاتھ کٹا ہو، یا جسے صاف نہ دکھائی دیتا ہو، راہب، گوشہ نشین، جنگ پر قدرت نہ رکھنے والے لوگ، کسان، البتہ اگر یہ لوگ قول، فعل، مشورہ یا مالی تعاون کے ذریعے جنگ میں شریک ہوں تو اس صورت میں انھیں قتل کرنا جائز ہے‘‘۔۱۶؎

امام ابوزکریا محی الدین بن شرف النووی ؒ لکھتے ہیں :

’’دشمنوں کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا، اگر وہ جنگ میں شریک نہ ہوں ، جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ آگے کہتے ہیں : راہب کے بارے میں دو اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ اسے قتل کیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ اسے نہیں قتل کیا جائے گا۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یزید بن ابی سفیانؓ ، عمرو بن العاصؓ اور شرحبیل بن حسنہؓ کو شام کی طرف بھیجتے وقت فرمایا تھا: بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا۔ تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو خانقاہوں میں گوشہ گیر ہوں گے ، انھیں ان کے حال پر چھوڑ دینا، اس لیے کہ ان سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پھر انھیں کفر اصلی پر کیوں قتل کیا جائے، وہ عورتوں کی طرح بے ضرر ہیں ‘‘۔۱۷؎

 

۳۔ذمی، معاہد اور حربی کو امن دینے کے بعد قتل کرنے کی ممانعت

ذمی اسلامی ریاست کا شہری ہوتا ہے۔ ریاست اس کے جان اور مال کی حفاظت کی پابند ہے۔ کسی کو اس پر دست درازی کی وہ اجازت نہ دے گی۔ اسی طرح اگر کسی غیر اسلامی ریاست سے اس کا معاہدہ ہے کہ جب تک معاہدہ بر قرار ہے اس سے جنگ نہ ہو گی۔

ارشاد خداوندی ہے :

إِلاَّ الَّذِیْنَ عَاہَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنقُصُوکُمْ شَیْْئاً وَلَمْ یُظَاہِرُواْ عَلَیْْکُمْ أَحَداً فَأَتِمُّواْ إِلَیْْہِمْ عَہْدَہُمْ إِلَی مُدَّتِہِمْ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ… (التوبۃ:۴)

بجز ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے، پھر انھوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمھارے ساتھ کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدّت معاہدہ تک وفا کرو کیوں کہ اللہ متقیوں کو ہی پسند کرتا ہے۔

وَأَوْفُواْ بِعَہْدِ اللّہِ إِذَا عَاہَدتُّمْ وَلاَ تَنقُضُواْ الأَیْْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّہَ عَلَیْْکُمْ کَفِیْلاً  (النحل:۹۱)

اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔

ذمی اسلامی ریاست کا شہری ہے اور مستأمن کے ساتھ امن ، عزت اور جان و مال کے تحفظ کا معاہدہ ہوتا ہے اس لئے اس کی خلاف ورزی سخت گناہ ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :

من قتل نفساًمعاہداً لم یرح رائحۃ الجنۃ وان ریحھا لیو جد من مسیرۃ أربعین عا ما ً۔ ۱۸؎

’’جس شخص نے کسی ایسی جان کو قتل کیا جس سے معاہدہ ہو چکا ہو تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی معلوم ہو جاتی ہے۔‘‘

 

۴۔دشمن کے مُردوں کا مثلہ کرنے کی ممانعت

جب اسلامی جہاد کا مقصد نہ انتقامی کاروائی ہے اور نہ ملک گیری کی مہم، تو اس سے ایک ضابطۂ اخلاق یہ مستنبط ہوتا ہے کہ کفار (دشمنوں ) کے مقتولین کا مثلہ کرنا یعنی ان کے اعضاء کی قطع و برید، جیسے ہاتھ کاٹنا، ناک کاٹنا یا آنکھیں نکال دینا وغیرہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس قسم کے کام تو وہ شخص کرتا ہے جو محض اپنا جذبۂ انتقام ٹھنڈا کرنا چاہتا ہو ، جب کہ مسلمان مجاہد تو رضائے الہٰی کے حصول کے لئے اور زمین سے شر و فساد کو ختم کر نے کے لئے کفار کو قتل کرتا ہے۔

چنانچہ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

صرح جمہور الفقہاء بأنہ یحرم فی الجہاد الغدر و الغلول و التمثیل بالقتلیٰ، لقولہ علیہ السلام : لا تغلواولا تغدروا ولا تمثلوا…الی قولہ: فھی العقوبۃ الشنیعۃ من مثل قطع الأنف والأذن و ونحو ذلک۔ ۱۹؎

جمہور فقہاء نے صراحت کی ہے کہ جہاد میں غدّاری ، مالِ غنیمت میں چوری اور مثلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے : مالِ غنیمت میں خیانت نہ کرو، غدّاری نہ کرو، مثلہ نہ کرو۔۔۔ چنانچہ ناک کان وغیرہ کاٹنا شنیع کام ہیں۔

یہ نمونے کے چند احکام اور آداب ہیں ، ان کے علاوہ بہت سے تفصیلی احکام ہیں جن کو فقہاء کرام نے ذکر کیا ہے۔

 

 

 

 

انسانی حقوق کا تحفظ اور فدائی حملے

 

گزشتہ تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں امن کے حالات ہوں یا جنگ کے، ہر حال میں انسانی حقوق کی کس قدر رعایت رکھی گئی ہے، اب آئندہ اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ فدائی حملے انسانی حقوق کے بیان کردہ اس ضابطۂ اخلاق کے مطابق درست ہیں یا نہیں ؟ یہاں فدائی حملوں کی شرعی حیثیت اور جواز و عدم جواز کی بحث عمومی اعتبار سے نہیں ہو گی ، بلکہ بحث کا موضوع یہ ہو گا کہ فدائی حملے انسانی حقوق کے بیان کردہ ضابطے کے مطابق بھی ہیں یا نہیں ؟ گویا کہ انسانی حقوق کے تحفظ و عدم تحفظ کی روشنی میں فدائی حملوں کی حیثیت کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔

انسانی حقوق کے پس منظر میں فدائی حملوں کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ان کا حکم بھی مختلف ہے۔ پہلے ہم ان مختلف صورتوں کو ذکر کرتے ہیں۔

 

فدائی حملے کی ناجائز صورتیں

 

فدائی حملے کی درج ذیل صورتیں متفقہ طور پر ناجائز ہیں :

پہلی صورت: فدائی حملہ آور ایسے مقامات اور عمارتوں کو نشانہ بنائے جہاں جنگ سے لا تعلق بوڑھے،عورتیں اور بچے ہی رہتے ہوں اور وہ مقام فوج اور اس کی عسکری قوت سے کوئی تعلق نہ رکھتا ہو، جیسے ہسپتال، اسکول وغیرہ۔

دوسری صورت: فدائی حملہ آور کفار کے اُن مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنائے جہاں دنیا سے لا تعلق پادری قیام پذیر ہوں ، جیسے چرچ اور کلیسا وغیرہ۔

تیسری صورت: فدائی ایسے غیر مسلموں کو حملہ کا نشانہ بنائے جو اسلامی ملک کے شہری بن چکے ہوں۔

چوتھی صورت: فدائی حملہ آور کا شکار غیر اسلامی ملک کے وہ شہری ہوں ، جو اسلامی حکومت سے قانونی اجازت حاصل کر کے وہاں عارضی طور پر قیام پذیر ہوں ،اور ان کا مقصدِ قیام خلافِ اسلام سازش کرنا نہ ہو، اور نہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی سرگرمیوں میں شریک ہوں۔

پانچویں صورت: فدائی حملہ آور اسلامی ملک کی ہی املاک و تعمیرات اور وہاں کے باشندوں کو نشانہ بنائے، تاکہ اس کے ذریعہ سے حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنے سیاسی یا مذہبی مقاصد حاصل کرے اور دیگر غیر جمہوری اور مفادِ عامہ کے خلاف پالیسیوں اور اقدامات سے باز رہنے پر اسے مجبور کرے۔

یہ تمام صورتیں (قطع نظر اس کے کہ فدائی حملے بذات خود جائز ہیں یا نہیں ) چونکہ اسلامی جنگی ضابطۂ اخلاق کے منافی ہیں ، اس لیے وہ انسانی حقوق کے بیان کردہ اسلامی اصول و احکام کے خلاف ہیں ، جن کی اسلام میں اجازت نہیں۔

ابتدائی دو صورتوں کے عدم جواز کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :

ارشادِ خداوندی ہے:

وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ (البقرۃ:۱۹۰)

اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں ، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اور چونکہ مذکورہ بالا لوگ ’’یقاتلونکم ‘‘میں شامل نہیں ہیں ، اس لئے ان کا قتل کرنا ’اعتداء‘ میں داخل ہے۔

سورۂ نحل آیت ۹۱ گزر چکی ہے۔ اس سے ایفائے عہد کا تاکیدی حکم اور نقض عہد کی ممانعت معلوم ہوتی ہے، اور ذمی‘مستأمن اور معاہد کو قتل کرنا نقض عہد میں داخل ہے۔

اس پر وعید حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے مروی حدیث رسول میں موجود ہے، جو اوپر گزر چکی ہے:… ۲۰؎

علامہ ظفر احمد عثما نی ؒ نے ایک روایت ذکر کی ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ جب کوئی لشکر روانہ کرتے تھے تو فرماتے ہیں :

انطلقوا بسم اللّٰہ ولا تقتلوا شیخاً فانیاً ولاطفلاً صغیراً ولا امرأۃ۔۔الخ۔… ۲۱؎

اللہ کا نام لے کر روانہ جاؤ۔ (جنگ میں ) کسی بوڑھے کھوسٹ ، چھوٹے بچے اور عورت کو قتل نہ کرنا۔

مشہور حنفی عالم علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں کہ :

والاصل فیہ ان کل من کان من اہل القتال یحل قتلہ، سواء قاتل اولم یقاتل، وکل من لم یکن من اہل القتال لا یحل قتلہ الا اذا قاتل حقیقۃ، او معنیً بالرای والطاعۃ والتحریض واشباہ ذلک۔… ۲۲؎

اس میں اصل یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اہل قتال میں سے ہو ، اسے قتل کرنا جائز ہے چاہے وہ جنگ کر رہا ہو یا نہ کر رہا ہو اور جو اہل قتل میں سے نہ ہو اسے قتل کرنا جائز نہیں ، الاّ یہ کہ وہ حقیقتاً جنگ کر رہا ہو یا معناً ، مثلاً رائے دے رہا ہو یا جنگ پر ابھار رہاہو، وغیرہ۔

تیسری اور چوتھی صورت کے عدم جواز پر سورۂ النحل کی آیت ۹۱ اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروی حدیث رسول دلالت کرتی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ مسلمان حکومت نے جس شخص سے معاہدہ کر لیا ہے(خواہ وہ معاہدہ بین الممالک امن کا ہو یا کسی فردِ واحد کو امان دینے کا، بہر دو صورت) اس شخص کو قتل کرنا خواہ کسی بھی طریقے سے ہو وہ اسلامی شریعت کی رو سے ایک ممنوع فعل ہو گا۔

مسلمانوں نے معاہدوں کی پاسداری کا کس قدر اہتمام کیا ہے اس کی کئی مثالیں اسلامی تاریخ میں ملتی ہیں۔ نمونہ کے طور پر ایفائے عہد کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ملاحظہ فرمائیں :

امام ترمذیؒ نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے کہ حضرت معاویہؓ اور اہل روم کے درمیان معاہدۂ صلح تھا۔ وہ ان کے علاقے میں تھے۔ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی انھوں نے ان پر حملہ کرنا چاہا۔ اچانک دیکھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار، چلاّتا ہوا آ رہا ہے : ’’اللہ اکبر، عہد پورا کرو، غدّاری نہ کرو‘‘ وہ حضرت عمرو بن عبسہؓ تھے۔ حضرت معاویہؓ نے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:

من کان بینہ وبین قوم عہدًٌ فلا یحلّنّ عہداً ولا یشدّنہ حتیٰ یمضی امدہ او ینبذ الیھم علیٰ سواء۔

اگر کسی شخص کے درمیان اور کسی قوم کے درمیان معاہدہ ہو تو وہ ہرگز اس معاہدہ کو نہ توڑے اور نہ اس کی خلاف ورزی کرے۔ یہاں تک کہ اس کی مدت گزر جائے، یا علانیہ اس معاہدے کو ختم کرے۔

یہ سن کر حضرت معاویہؓ اپنی فوج کے ساتھ واپس آ گئے۔ ۲۳؎

پانچویں صورت کے عدم جواز کے بارے میں شرعی حکم اور دلائل مندرجہ ذیل ہیں :

جنادۃ بن ابی امیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبادۃ بن صامتؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ بیمار تھے۔ ہم نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ آپ کی صحت بحال کرے۔ ہمیں کوئی حدیث سنائیے جو آپ نے نبی ﷺ سے سنی ہو۔ انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ہمیں بلایا اور ہم سے بیعت لی۔ آپ نے جن باتوں پر ہم سے بیعت لی ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی:

وان لاننازع الامر اھلہ الا ان تروا کفراً بواحاً عندکم من اللہ فیہ برھان۔… ۲۴؎

کہ ہم اقتدار اہل اقتدار سے چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے، الاّ یہ کہ صریح کفر کا ارتکاب کیا جا ریا ہو اور اس کے خلاف من جانب اللہ قطعی دلیل موجود ہو۔

امام نوویؒ اس کی شرح میں لکھتے ہیں :

ومعنی الحدیث: لا تنازعوا ولاۃ الامور فی ولایتھم ولا تعترضوا علیھم الا ان تروا منہم منکراً محققاً تعلمونہ من قواعد الاسلام فاذا رأیتم ذلک فانکروا علیھم

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حکم رانوں کا اقتدار چھیننے کی کوشش نہ کرو اور نہ ان کی مخالفت کرو، الاّ یہ کہ تم ان سے کسی ایسے کام کو سرزد ہوتا ہوا دیکھو جسے اسلام کے اصولوں کے خلاف سمجھتے ہو۔ اگر ایسا دیکھو

وقولوا بالحق حیث ما کنتم، واما الخروج علیھم وقتالھم فحرام باجماع المسلمین، وان کانوا فسقۃ ظالمین، وقد تظاہرت الاحادیث بمعنی ما ذکرتہ واجمع اہل السنۃ ان لا ینعزل السلطان بالفسق۔… ۲۵؎

تو ان پر نکیر کرو اور حق بات کہو، خواہ جس حال میں بھی ہو۔ البتہ ان کے خلاف خروج کرنا اور ان سے جنگ کرنا حرام ہے۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہوں۔ اس بات پر بہ کثرت احادیث دلالت کرتی ہیں اور اس پر اہل سنت کا اجماع ہے کہ حکم راں کو فسق کی بنیاد پر معزول نہیں کیا جائے گا۔

حدیث بالا اور اس کی تشریح سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ مسلمان حکمراں کے خلاف خروج اور بغاوت جائز نہیں ہے، اگرچہ وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو، البتہ اگر اس کی طرف سے کفر صریح کا اظہار اور ضروریات دین کا واضح انکار ہو تو اس صورت میں اس شخص کے لئے جو قدرت رکھتا ہو اسکے خلاف خروج جائز ہے۔ ۲۶؎

ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اوپر ذکر کردہ خاص صورتوں اور حالات میں فدایانہ کاروائیاں کرنا اسلام کے قانون تحفظ انسانی حقوق کے خلاف ہے اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اور یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اسلام اپنے متبعین کو کس قدر کنٹرول کرتا ہے ، کہ میدان جنگ اور دشمن کے خلاف مسلح کارروائی میں بھی کسی ایسے اقدام کی اجازت نہیں دیتا جو انسانی حقوق کے اصول و ضوابط کے خلاف ہو۔

 

فدائی حملے کی جائز صورتیں

 

فدائی حملے کی جو صورتیں جائز معلوم ہوتی ہیں اور ان میں کسی کا اختلاف نہیں ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :

۱)         دشمن سے جنگ کے دوران میں فدائی حملہ آور بم یا بارود لے کر محارب قوم کے علاقے میں گھس جائے اور پھر اس بم یا بارود کو اپنے سے علیٰحدہ کر کے اپنے ٹارگٹ پر پھینک دے اور خود وہاں سے نکلنے کی پوری کوشش کرے، لیکن اپنے ہی بم یا بارود کی زد میں آ کر شہید جائے۔ بظاہر اس صورت کا جواز موجود ہے۔

۲)        حملہ آور محارب قوم کی فوجی تنصیبات کو ختم کرنے کے لیے گولہ بارود کے ساتھ ان میں گھس پڑے اور اس کوشش میں مارا جائے۔

یہ دونوں صورتیں اوپر ذکر کردہ شرائط اور مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہیں :

۱)         حملہ آور کو اس بات کا یقین یا غالب گمان ہو کہ اس کے اس حملہ کی وجہ سے محارب قوم کا یقینی نقصان ہو گا (خواہ قتل کی صورت میں ہو یا کثیر تعداد میں فوج کو شدید زخمی کرنے کی صورت میں ہو یا دشمن پر نفسیاتی برتری حاصل ہونے اور رعب ڈالنے کی صورت میں ہو)۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ صورتیں بھی جائز نہیں ہوں گی جیسا کہ فقہاء کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔

چنانچہ ابن حجر العسقلانی، الجصاص،الشوکانی اور علامہ السرخسی نے معمولی فرق کے ساتھ یہ نص ذکر کی ہے:

وأما مسئلۃ حمل الواحد علی العددالکثیر من العدو فصرح الجمہور بأنہ ان کان لفرط شجاعتہ وظنہ أنہ یرھب العدوّ بذلک ویجرّیٔ المسلمین علیھم ونحوذلک من المقاصد الصحیحۃ فھو حسن ومتی کان مجرّد تھوّر فممنوع ولا سیّما ان ترتب علی ذلک وھن فی المسلمین۔… ۲۷؎

رہا یہ مسئلہ کہ ایک شخص دشمن کی بڑی تعداد پر حملہ آور ہو، تو جمہور نے صراحت کی ہے کہ اگر وہ ایسا اپنی غیر معمولی شجاعت کی وجہ سے کرے اوراسے یہ غالب گمان ہو کہ اس طریقہ سے وہ دشمن کو خوف زدہ کر دے گا، مسلمان ان پر جری جائیں گے اور دیگر فائدے حاصل ہوں گے تو ایسا کرنا صحیح ہے۔ لیکن اگر ایسا محض ناعاقبت اندیشی پر مبنی دلیری کے اظہار کے لیے ہو تو ممنوع ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں جب اس سے مسلمانوں میں کم زوری آ جائے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اس جائز صورت کا تعلق اصلاً حالت جنگ سے ہے اور وہ بھی اس وقت جب کہ فریق مخالف کے نقصان کا غالب گمان ہو، ورنہ یہ حملہ جائز نہ ہو گا، خصوصاً جبکہ اس حملہ کے بعد مسلمانوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کے بڑے نقصان کا اندیشہ ہو۔

۲)        حملہ آور کی نیت مخالف طاقت کو کم زور کرنے، اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور اس کا کلمہ بلند کرنے کی ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّہ۔… (الانفال:۳۹)

اور ان کافروں سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے جائے۔

حضرت ابوموسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ایک آدمی مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے۔ ایک آدمی شہرت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے۔ کس کی جنگ اللہ کی راہ میں ہو گی۔ آپ ؐ نے فرمایا:

من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا فھو فی سبیل اللہ۔ … ۲۸؎

جو شخص اس لیے جنگ کرے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اس کی جنگ اللہ کی راہ میں ہو گی۔

۳)       فدائی حملہ آور اس حملہ کا ہدف ان کفار کو بنائے جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں ، خواہ انہوں نے مسلمانوں کے علاقے پر قبضہ کیا ہو یا اپنے ہی ملک میں ہوں ، لیکن مسلمانوں کے ساتھ ان کی جنگ جاری ہو اور مسلمانوں کی ان کے ساتھ صلح یا امن کا کوئی معاہدہ نہ ہو یا معاہدہ تو ہو مگر اسے انہوں نے توڑ دیا ہو۔

اس سے یہ بات واضح ہے کہ وہ ملک جس نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے اور مسلمانوں کے علاقوں میں گھس کر ان کے خلاف لڑ رہا ہے ان کے مقابلہ میں فدائی حملوں کی صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں۔

 

 

 

فدائی حملے کی مختلف فیہ صورتیں

 

فدائی حملے کی کچھ صورتیں ایسی ہیں جن میں اہلِ علم کی آراء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ ذیل میں ان صورتوں کو ذکر کیا جاتا ہے:

۱۔         فدائی حملہ آور اپنے جسم کے ساتھ بم یا بارود باندھے یا اسے لباس میں چھپا کر دشمن کی صفوں میں یا اس کی تنصیبات میں گھس جائے اور اس بارود کے پھٹنے کے ساتھ اس کا جسم بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے۔

۲۔        فدائی کسی بارود سے بھری گاڑی،ٹینک یا جہاز کو لے کر جائے اور اس کو دشمن کی تنصیبات، افواج،حساس علاقوں میں بغیر کسی توقف کے دے مارے ، جس سے سوار سمیت وہ سواری تباہ ہو کر دشمن کا نقصان کرے۔

ان دونوں صورتوں کا حکم نصوص شرعیہ اور جزئیات فقہیہ میں تلاش و غور کرنے کے باوجود واضح نہیں ہوا، اس لیے اس قسم کے حملہ کے جواز و عدم جواز میں معاصر اہلِ علم کی دو رائے ہیں :

(الف) عدم جواز کی رائے

پہلی رائے یہ ہے کہ چونکہ اس قسم کے حملہ میں حملہ آور پہلے خود اپنے کو قتل کرتا ہے، پھر دشمن کو ، اس لئے یہ صورت خود کشی کے مشابہ ہے۔ لہٰذا اس قسم کا حملہ کرنا خلاف احتیاط ہے، خواہ اس میں دشمن کو نقصان پہنچانے اور ان کو ضرر عظیم لاحق ہونے کا غالب گمان ہو۔ اس لئے یہ صورت درست نہیں ہے،

امام محمدؒ نے فرمایا ہے:

ولو أن مشرکاً طعن مسلماً برمح فأنفذہ فأراد أن یمشی فی الرمح الیہ لیضربہ بالسیف فان کان یخاف الھلاک ان فعل ذلک ویرجو النجاۃ ان خرج من الرمح فعلیہ أن یخرج (لان المشی الیہ فی الرمح اعانۃ علیٰ

اگر کوئی مشرک کسی مسلمان کو نیزہ مارے جو اس کے جسم میں گھس جائے ، اب وہ مسلمان چاہے کہ نیزہ اس کے جسم میں گھسا ہونے کے باوجود وہ اس مشرک تک پہنچ کر اس پر تلوار سے حملہ آور ہو تو اگر ایسا کرنے میں اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہو اور اگر وہ نیزہ نکال دے تو اس کی جان بچ سکتی ہو تو اسے چاہیے کہ نیزہ نکال دے۔ اس لیے

قتل نفسہ والواجب علیٰ کل أحد الدفع عن نفسہ بجھدہ أوّلاً ثم النیل من عدوّہ… ۲۹؎

کہ نیزہ کے ساتھ دشمن تک پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے جب کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ دشمن کو نقصان پہنچانے سے قبل اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش کرے۔

اس کے علاوہ حضرت عمرؓ کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی جان ایک قلعہ فتح کرنے سے یا پورے جزیرۂ عرب سے یا دشمن کے چار ہزار افراد کو قتل کر کے کسی قلعہ کو فتح کرنے سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس لئے اس قسم کے حملو ں سے احتیاط کرنا ہی بہتر ہے۔ جن لوگوں نے اس قسم کے حملوں میں حصول رضائے الٰہی کے لئے جان دے دی ہو ا ن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ اس رائے کے قائل شیخ عبداللطیف المناوی اور جامعۂ ازہر کے مفتی شیخ طنطاوی اور سعودی عرب کے بعض اوقاف کے علماء اور دارالعلوم کراچی کے مفتی حضرات ہیں۔ ۳۰؎

(ب) جواز کی رائے

دوسری رائے جو اکثر معاصر علماء اور خاص طور پر عرب علماء (جیسے شیخ یوسف القرضاوی‘ شیخ عجیل جاسم النشمی‘ شیخ عکرمہ صابری مفتی القدس وغیرہ) کی ہے، وہ یہ ہے کہ اس قسم کا حملہ کرنا (ان تمام قیود و شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے جو جواز کی صورتوں میں ذکر کی گئی ہیں ) جائز ہے، بلکہ عین شہادت ہے۔ ۳۱؎

ان حضرات کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :

۱-سورۂ البقرۃ (۱۹۰،۱۹۳) اور سورۂ توبہ (۳۶،۱۱۱) کی آیات۔

۲- قصہ أصحاب الأخدود۔

۳- کسی مسلمان کو جب کفار نے ڈھال بنا لیا ہو تو اس کو قتل کرنے کے جواز پر قیاس۔

۴- کفار کے قلعوں اور شہروں میں مقیم مسلمانوں کی موجودگی کے باوجود ان پر حملہ کرنے یا پانی چھوڑنے یا پتھر پھینکنے کے جواز پر قیاس ( کہ اجتماعی مفاد کے لئے انفرادی جانوں کی قربانی دی جاسکتی ہے)۔

۵-وہ تمام آثار صحابہ و تابعین جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یقینی موت کے مواقع میں اپنے آپ کو ڈالا اور شہید ہو گئے۔

 

جواز کے قائلین کے دلائل کا جائزہ

 

اگر جواز کے قائلین کے دلائل پر غور کیا جائے تو ان میں سے کوئی ایک دلیل بھی ایسی نہیں جو ان کے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لئے واضح اور حتمی ہو۔ مثلاً :

۱۔   سورۃ البقرۃ و سورۃ التوبۃ کی آیت (۱۱۱) سے استدلال کرنا بہت بعید ہے، اس میں واضح طور پر آیا ہے یُقْتَلُوْنَ یعنی وہ کفار کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں ، جب کہ صورت مختلف فیہ میں فدائی خود اپنے ہاتھوں اپنے کو قتل کرتا ہے۔

۲۔   قصۂ اصحاب الأخدود سے استدلال کرنا بھی درست معلوم نہیں ہوتا ، کیونکہ اس میں ’لڑکے‘ نے بادشاہ کو صرف اپنے قتل کا طریقہ بتلایا تھا، ناکہ خود اپنے ہاتھوں قتل ہوا تھا، اور اس کا اپنے کو قتل کروانے کی کوشش کرنا اس لیے تھا تاکہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی حقیقت واضح جائے، اس کا کوئی متبادل طریقہ نہ تھا، چنانچہ اس کے نتیجے میں وہی ہوا جس کے لئے اس ’لڑکے‘ نے قربانی دی تھی۔

قاضی عیاضؒ نے لکھا ہے:

وقول الغلام ھذا وفعلہ ما فعل بنفسہ ودل علیہ الملک من قتلہ لیشتھر فی الناس أمر الایمان ویرو ابرھانہ کما کان۔… ۳۲؎

لڑکے نے جو بات کہی اور جو کچھ کیا اور بادشاہ کو اپنے قتل کا طریقہ بتایا وہ اس لیے کیا تاکہ لوگوں میں ایمان کی بات عام جائے اور وہ اس کی دلیل دیکھ لیں اور ایسا ہی ہوا۔

دوسرا جواب یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ یہ’’شرائع من قبلنا‘‘ میں سے ہے اور وہ اس صورت میں حجت ہوتے ہیں جب کہ اس کے خلاف کوئی دلیل ہمای شریعت میں نہ ہو، جبکہ ابن عربیؒ نے ’احکام القرآن‘ میں وضاحت سے لکھا ہے کہ یہ حکم ہمارے یہاں منسوخ ہو چکا ہے، وہ فرماتے ہیں :

والذی یختص بہ من الأحکام ہھناأن المرأۃ والغلام صبرا علی العذاب من القتل والصلب والقاء النفس فی النا ر دون الایمان وھذا منسوخ عندناحسبما تقرر فی سورۃ النحل۔… ۳۳؎

یہاں معلوم ہو رہا ہے کہ عورت اور لڑکے نے قتل اور پھانسی کے عذاب کو گوارا کیا اور خود کو آگ میں ڈال دیا، مگر ایمان سے نہیں پھرے۔ یہ ان کے لیے مخصوص حکم تھا۔ ہماری شریعت میں یہ منسوخ ہے، جیسا کہ سورۂ النحل میں بیان کیا گیا ہے۔

۳۔   مسلمانوں کو ڈھال بنانے کی صورت اور کفار کے علاقوں میں رہائش پذیر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی صورت پر قیاس کرنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک ناگزیر صورت ہے جس کا لحاظ کرنے سے ترکِ جہاد کرنا پڑے گا، جیسا کہ اس کی وضاحت فقہاء نے فرمائی ہے ،چنانچہ علامہ سرخسیؒ نے’’المبسوط ‘‘ میں وضاحت فرمائی ہے :

فیتعذر علیھم لأجل ذلک قتالھم وھذا لایجوز۔ … ۳۴؎

ایسا کرنے سے تو ان سے قتال ہی نا ممکن جائے گا اور یہ جائز نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس صورت میں بھی فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ اگر ان کو بچانے کی کوئی صورت ہو تو ان کو بچایا جائے ، حتیٰ کہ بعض حضرات (مثلاً حسن بن زیادؒ) نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اس صورت میں اگر مسلمان کو بچانے کی کوئی صورت نہ بنے تو حملہ نہ کریں ، کیونکہ مسلمان کا قتل حرام ہے اور کفار کے قتل کو چھوڑ دینا جائز ہے۔…۳۵؎

جس صورت میں مسلمان دوسرے کے ہاتھوں قتل ہو اس کی کس قدر مشروط و ناگزیر حالات میں اجازت ہے تو جس صورت میں مسلمان خود اپنے ہاتھوں اپنے کو قتل کرے اس کی کیسے اجازت ہو سکتی ہے۔ ؟

تیسری بات یہ ہے کہ فقہ کا ایک عام اصول ہے:

یتحمل الضررالخاص لدفع ضرر عام۔… ۳۶؎

عام ضرر کو دفع کرنے کے لیے خاص ضرر کو برداشت کیا جائے گا۔

اس قاعدہ کی بنا پر ضرر عام (دشمن سے قتال نہ کرنا اور زمین پر ظلم و فساد کو باقی رکھنا) کو دفع کرنے کے لئے ضرر خاص(چند مسلمانوں کی شہادت) کو برداشت کیا جائے گا۔ اس قاعدہ کو اپنے ہاتھوں قتل ہونے پر منطبق نہیں کیا جاسکتا ہے۔

۴۔   صحابہؓ کا اپنے کو مواقع ہلاکت میں ڈالنا بھی فدائی حملوں کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ ان میں سے کچھ واقعات میں تو صحابہؓ نے حضور ﷺ کے دفاع کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور یہ فعل عین اجر و ثواب کا باعث تھا۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں خود کو قتل نہیں کیا۔اور بعض واقعات میں وہ کفار کی صفوں میں گھس کر کفار کے ہاتھوں شہید ہوئے اور یہ صورت فدائی حملوں کی ذکر کردہ صورت سے مختلف ہے۔

اس لیے ہماری رائے کے مطابق زیر بحث صورت میں فدائی حملے کی عام حالات میں اجازت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ عدم جواز کے دلائل بہت زیادہ واضح ہیں۔

 

 

 

حواشی و مراجع

 

؂۱          ابو یوسف امام قاضی یعقوب بن ابراہیم ،کتاب الخراج ، دارالمعرفۃ ، بیروت ، ۱۹۸۹،ص ۱۸۹

۲؎         زیدان ،عبدالکریم الدکتور،احکام الذمیین و المستأمنین فی دار الاسلام ،ا لمطبع جامعہ بغداد ،۱۹۶۳ ص ۸۷

۳؎         ایضاً ، ص۹۱

۴؎         السیوطی امام،جلال الدین بن ابی بکر، الجامع الصغیرفی حدیث البشیر والنذیر، دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، ۱۹۸۱ء ، ج۲،ص۴۷۳

۵؎         کتاب الخراج ،ص ۱۲۴-۱۲۵

۶؎         کتاب الخراج ،ص ۷۲

۷؎         احکام الذمیین ، ص ۹۹

۸؎         الجصاص، ابوبکر احمد بن علی، احکام القرآن، داراحیاء التراث العربیۃ، بیروت،۱۹۸۵ ج۲، ص۴۳۶، والکاسانی،علاؤالدین ابو بکر بن مسعود بن احمد، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ، ج۵،ص۱۹۳

۹؎          الکاندھلوی، محمد یوسف ، حیاۃ الصحابۃ، کتب خانہ فیضی، لاہور،س ن، ج۱، ص۱۱۳

۱۰؎        مسلم بن الحجاج القشیری ،الجامع الصحیح ، قدیمی کتب خانہ، کراچی،۱۹۵۶، ج۱،ص۵۳

۱۱؎         ایضاً ج۳،ص۱۳۵۷، الموصلی، عبد اللہ بن محمود، الاختیارلتعلیل المختار،دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، ۱۹۹۸، ج۴،ص۱۱۸

۱۲؎        لجنۃالمؤلفین، الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ ،ج ۱۲ ص ۱۴۸

۱۳؎       ابو المعالی ، برہان الدین محمود بن صدر الشریعۃ البخاری، المحیط البرھانی ،مطبع: ادارۃ القرآن، کراچی، ۱۴۲۴/۲۰۰۴ء، ج ۷ ،ص ۹۷

۱۴؎       البخاری محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح ، کتاب الجھاد، باب قتل النساء فی الحرب ، حدیث:۳۰۱۵

۱۵؎       المحیط البرھانی ج۷ص۹۷

۱۶؎        الزحیلی ، وھبۃ،دکتور، الفقہ الاسلامی وادلتہ، دارالفکر، دمشق، ۱۹۹۷ء، ۱۴۱۸ھ، ج۴،ص۵۸۵۵

۱۷؎       النووی امام ابو زکریا محی الدین بن شرف: المجموع شرح المھذب ( کتاب السیر و الجہاد ) داراحیاء التراث العربی بیروت، لبنان، ۲۰۰۱ء/۱۴۲۲ھ، ج ۱۱ ،ص ۱۰۷ اور۱۰۸

۱۸؎       صحیح بخاری، کتاب الدیات، باب اثم من قتل ذمّیاً بغیر جرم ، حدیث: ۶۹۱۴

۱۹؎        لجنۃالمؤلفین، الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ،ج ۷،ص۱۵۱،

۲۰؎       ملاحظہ کیجیے حاشیہ نمبر ۱۸

۲۱؎        التھانوی ظفر احمد العثمانی، علامہ، اعلا السنن، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، ۱۹۹۷ ء، ج۱۲،ص۱۸

۲۲؎       بدائع الصنائع ، ج۶،ص۶۳

۲۳؎      الترمذی، ابو عیسیٰ،محمد بن عیسیٰ بن سورہ،الجامع ، ابواب السیر، باب ما جاء فی الغدر، حدیث:۱۵۸۰

۲۴؎      مسلم بن الحجاج القشیری ، الجامع الصحیح، کتاب الإمارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ ، حدیث: ۴۷۷۱

۲۵؎      النووی،ابوزکریا محی الدین بن شرف، شرح مسلم، قدیمی کتب خانہ کراچی ۱۹۵۶، ج۲، ص۱۲۵

۲۶؎       تفصیل کے لئے دیکھیے: عثمانی، محمد تقی، مفتی، حکیم الامت کے سیاسی افکار، ادارۃ المعارف کراچی، ۱۹۹۴،ص۶۹

۲۷؎      ابن حجر العسقلانی، فتح الباری، ج۱۲،ص۳۹۱،و الجصاص ،احکام القران،ج۱،ص۲۶۲والشوکانی،فتح القدیر،ج۱،ص۱۹۳،السرخسی،شرح السیر الکبیر ج۴،ص ۱۵۱۲

۲۸؎      صحیح بخاری ، ۲۶۵۵

۲۹؎       السرخسی،شرح السیر الکبیر ج۴،ص ۱۵۱۱،

۳۰؎      تفصیل کیلئے دیکھیے:جریدۃ الشرق الاوسط،اپریل ۲۰۰۰،شمارہ۸۱۵۸

۳۱؎       دیکھیے:

www.islamonline.net\fatwa\arabic\fatwadisplayID=98657

۳۲؎      قاضی عیاض،اکمال المعلم بفوائدمسلم،دارالوفاء،بیروت۱۹۹۸،ج۸ ص۵۵۷

۳۳؎      ابن العربی،احکام القرآن،ج۴ ص۱۹۱۶

۳۴؎      السرخسی،المبسوط،ج۱۰ ص۶۴

۳۵؎      ایضاً

۳۶؎       الحموی احمد بن محمد،غمز عیون البصا ئر شرح الاشباہ والنظا ئر،تحت القاعدۃ الخامسۃ

 

 

 

 

٭٭٭

ماخذ: سہ ماہی تحقیقات اسلامی، علی گڑھ، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۸ء

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید