FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

انتخاب کلام شاہ حاتمؔ

 

 

شیخ ظہور الدین حاتمؔ المعروف بہ شاہ حاتمؔ

 

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

ایک تو تری دولت تھا ہی دل یہ سودائی

تس اوپر قیامت ہے بے کسی و تنہائی

 

تیرے تئیں تو لازم تھا توبہ کا سبب پوچھے

مے کشی سے اے ساقی گو کہ ہم قسم کھائی

 

دل تو ایچ پیچوں سے دام خط کے چھوٹا تھا

زلف پھر نئے سر سے سر اوپر بلا لائی

 

جی تو بے قراری سے جاں بہ لب ہے اے ناصح

کو تحمل و طاقت صبر اور شکیبائی

 

عمر عاشق و معشوق صرف ناز و حیرت ہے

حسن ہے ادا پرداز عشق ہے تماشائی

 

رات اس کی محفل میں سر سے جل کے پاؤں تک

شمع کی پگھل چربی استخواں نکل آئی

 

حسب حال حاتمؔ ہے شعر میرزا مظہرؔ

اس سے پھر زیادہ کچھ ہے عبارت آرائی

 

”دل ہمیشہ می خواہد طوف کوئے جاناں را

ہائے بے پر و بالی وائے ناتوانی”

٭٭٭

 

 

 

 

احسان ترا دل مرا کیا یاد کرے گا

جو خاک کو اس کی نہ تو برباد کرے گا

 

نے حسرت گل گشت نہ پرواز کی طاقت

صدقے میں ترے کیا مجھے آزاد کرے گا

 

موجود ہوں حاضر ہوں میں راضی ہوں میں خوش ہوں

سر پر مرے جو کچھ کہ وہ جلاد کرے گا

 

جز غم کے نہ حاصل ہوا صحبت میں کسو کی

اس دل کو الٰہی کوئی بھی شاد کرے گا

 

سودا نہ گیا اس کا طبیبوں کی دوا سے

تو آ کے علاج اب کوئی فصاد کرے گا

 

جو اس میں بھی چنگا نہ ہوا تو کوئی دن میں

جا خانۂ زنجیر کو آباد کرے گا

 

اس کی جو کمر ہووے تو کھینچے کوئی حاتمؔ

کیا اپنا سر آ کر یہاں بہزاد کرے گا

٭٭٭

 

 

 

 

اس منہ سے کلام کچھ نہ نکلا

جز تیرا ہی نام کچھ نہ نکلا

 

قاصد کی زباں سے اس کے آگے

پیغام و سلام کچھ نہ نکلا

 

دل جانے تھے عشق میں ہے پختہ

تھا بسکہ یہ خام کچھ نہ نکلا

 

بازار سے آئے ہاتھ خالی

کیسے میں دام کچھ نہ نکلا

 

چاہیں تھے کہ دیں کسی کو کچھ ہم

گھر ڈھونڈا تمام کچھ نہ نکلا

 

یک عمر ہوئی خراب پھرتے

مجھ سے مرا کام کچھ نہ نکلا

 

حاتمؔ کو خوش آیا مصرع رند

یارب یہ غلام کچھ نہ نکلا

٭٭٭

 

 

 

 

آگے کیا تم سا جہاں میں کوئی محبوب نہ تھا

کیا تمہیں خوب بنے اور کوئی خوب نہ تھا

 

ان دنوں ہم سے جو وحشی کی طرح بھڑکو ہو

یہ تو ملنے کا تمہارے کبھو اسلوب نہ تھا

 

نامہ بر دل کی تسلی کے لیے بھیجوں ہوں

ورنہ احوال مرا قابل مکتوب نہ تھا

 

طاقت اب طاق ہوئی صبر و شکیبائی کی

کب تلک صبر کرے دل مرا ایوب نہ تھا

 

غلبۂ عشق نے حاتمؔ کو پچھاڑا آخر

زور میں اپنے وہ اتنا بھی تو مغلوب نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک مدت سے طلب گار ہوں کن کا ان کا

تشنۂ حسرت دیدار ہوں کن کا ان کا

 

جان کو بیچ کے یہ نقد دل اب لایا ہوں

سب سے پہلے میں خریدار ہوں کن کا ان کا

 

امتداد اس مرے بیمار کا مت پوچھ طبیب

روز میثاق سے بیمار ہوں کن کا ان کا

 

مخلصی قید سے مشکل ہے مجھے تا دم مرگ

دام الفت میں گرفتار ہوں کن کا ان کا

 

بود و باش اپنا بتاؤں میں تمہیں کیا یارو

ساکن سایۂ دار ہوں کن کا ان کا

 

ہے بجا فخر کروں اپنی اگر طالع پر

کفش برداروں کا سردار ہوں کن کا ان کا

 

گالیاں تجھ کو جو دیتے ہیں یہ حاتمؔ ہیں کون

کچھ نہ پوچھو میں گنہ گار ہوں کن کا ان کا

 

تو سزا وار سزا کس کا ہوا ہے حاتمؔ

صاحب من میں گنہ گار ہوں کن کا ان کا

٭٭٭

 

 

 

 

جس کو دیکھا سو یہاں دشمن جاں ہے اپنا

دل کو جانے تھے ہم اپنا سو کہاں ہے اپنا

 

قصۂ مجنوں و فرہاد بھی اک پردا ہے

جو فسانہ ہے یہاں شرح و بیاں ہے اپنا

 

وصف کہنے میں ترے حسن کے شرمندہ ہوں

اس کے قابل نہ زباں ہے نہ دہاں ہے اپنا

 

جس کو جانا ہو بھلا اس کو برا کیا کہیے

گو کہ بد وضع ہے پر اب تو میاں ہے اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس نے آدم کے تئیں جاں بخشا

خضر کو چشمۂ حیواں بخشا

 

پیر کنعاں کو دیا درد فراق

یوسف مصر کو زنداں بخشا

 

تخت برباد سلیماں کا کیا

دیو کو ملک سلیماں بخشا

 

زینت افلاک کو دی انجم سے

مہر کو نور درخشاں بخشا

 

زیور حسن کیا چشم حیا

عشق کو دیدۂ حیراں بخشا

 

کوہ کن کو کمر کوہ دیا

قیس کو دشت کا داماں بخشا

 

رنگ و بو گل کو دیا گلشن میں

سیر بلبل کو گلستاں بخشا

 

کفر کافر کے نصیبوں میں لکھا

اہل اسلام کو ایماں بخشا

 

روز میثاق میں حاتمؔ کے تئیں

چشم گریاں دل بریاں بخشا

٭٭٭

 

 

 

 

جو مے خانہ میں جاتا تھا قدم رکھتے جھجھکتا تھا

کہ ساغر آنکھ دکھلاتا تھا اور شیشہ بھبھکتا تھا

 

تماشہ ہو رہا تھا ابر میں رونے سے کیا میرے

ادھر پانی برستا تھا ادھر لوہو ٹپکتا تھا

 

بڑا احساں کیا جو دل کو میرے کھینچ کر کاڑھا

کہ مدت سے مرے سینہ میں جوں کانٹا کھٹکتا تھا

 

ترے کوچہ میں میں نے آج دشت کربلا دیکھا

کوئی مارا پڑا تھا اور پڑا کوئی سسکتا تھا

 

گیا تھا تیلیا کپڑوں سے تو آئینہ خانہ میں

کہ اب تک خانۂ آئینہ اس بو سے مہکتا تھا

 

مزا لینے کے تئیں شیریں مقالی کا تری حاتمؔ

کھڑا منہ کو ادب سے دور نادیدہ سا تکتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

چمن میں کیوں نہ باندھے عندلیب اب آشیاں اپنا

کہ جانے ہے گل اپنا گلشن اپنا باغباں اپنا

 

تصدق تجھ اوپر کرتا ہوں جوں بلبل گلوں اوپر

دم اپنا ہوش اپنا جسم اپنا بلکہ جاں اپنا

 

مرے رونے سے ناصح تو جو ناخوش ہے سو کیا باعث

دل اپنا دامن اپنا دیدہ و اشک رواں اپنا

 

اٹھائیں کیوں نہ اس کے ناز نکتوڑے ہزاروں ہم

کہ ہے اٹکھیل اپنا لاڈلا اپنا میاں اپنا

 

گلایا آپ کو حاتمؔ نے سر سے پاؤں تک تجھ بن

رگ اپنا گوشت اپنا پوست اپنا استخواں اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل مرا آج یار میں ہے گا

کس خزاں میں بہار میں ہے گا

 

گالیاں مجھ کو دے ہے دینے دو

کچھ نہ بولو خمار میں ہے گا

 

سن کے کہنے لگا تو جانے ہے

کہ نشے کے اتار میں ہے گا

 

گالیاں میں تو سب کو دیتا ہوں

ایک تو کس شمار میں ہے گا

 

حاتمؔ ایسی کہاں ہے لذت وصل

جو مزا انتظار میں ہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

دورا ہے جب سے بزم میں تیری شراب کا

بازار گرم ہے مرے دل کے کباب کا

 

خوباں کو کس طرح سے لگا لے ہے بات میں

بندا ہوں اپنی طبع ظرافت مآب کا

 

جو نامہ بر گیا نہ پھرا ایک اب تلک

اے دل تو انتظار عبث ہے جواب کا

 

حسرت یہ ہے کہ رات کو آئے وہ ماہرو

دولت سے اس کی دید کروں ماہتاب کا

 

الطاف میں بھی اس کے اذیت ہے سو طرح

لاؤں کہاں سے حوصلہ اس کے عتاب کا

 

رخسار کے عرق کا ترے بھاؤ دیکھ کر

پانی کے مول نرخ ہوا ہے گلاب کا

 

حاتمؔ یہی ہمیشہ زمانے کی چال ہے

شکوہ بجا نہیں ہے تجھے انقلاب کا

٭٭٭

 

 

 

دیکھا کسی نے ہم سے زمانے نے کیا کیا

اور کیا کہیں کہ یار یگانے نے کیا کیا

 

دل چاہتا ہوں اور کو دوں تیرے جور سے

کہنا نہ پھر کہ ہم سے فلانے نے کیا کیا

 

قاتل تو اس کا ہر سر مو بال پن سے تھا

آرائش اس کی زلف کو شانے نے کیا کیا

 

دینار اور درم کی نہ لا دل کو دام میں

قاروں سے ہے خبر کہ خزانے نے کیا کیا

 

حاتمؔ دیا ہے شیخ نے اب دل صنم کے ہاتھ

دیوانہ میں تو تھا یہ سیانے نے کیا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

سچ اگر پوچھو تو نا پیدا ہے یک رو آشنا

سارے عالم میں جو ہوں شاید تو یک دو آشنا

 

حاضر و غائب ہو یکساں ظاہر و باطن ہو صاف

اس طرح کا کم نظر آیا ہے یکسو آشنا

 

ہم وہ مخلص ہیں کہ آنکھیں دیکھتے گزری ہے عمر

جی نکل جاوے جو ہو ہم سے کج ابرو آشنا

 

سارے عالم سے کروں میں ترک رسم دوستی

مجھ سے ہووے اے مرے دشمن اگر تو آشنا

 

کس کے کوچے میں تو ہو نکلی تھی ہاں سچ کہہ نسیم

تجھ میں جو بو ہے سو ہے مدت سے یہ بو آشنا

 

جاں بہ لب ہوں میں تو ان یاروں کی خوش خلقی کو دیکھ

ہے معاذ اللہ جو ہو صحبت میں بد خو آشنا

 

ایک بھی ہم نے نہ دیکھا دوست حاتمؔ بعد مرگ

ہے تکلف بر طرف کو یار اور کو آشنا

٭٭٭

 

 

 

 

عاشق کا جہاں میں گھر نہ دیکھا

ایسا کوئی در بدر نہ دیکھا

 

جیسا کہ اڑے ہے طائر دل

ایسا کوئی تیز پر نہ دیکھا

 

خوبان جہاں ہوں جس سے تسخیر

ایسا کوئی ہم ہنر نہ دیکھا

 

ٹوٹے دل کو بنا دکھاوے

ایسا کوئی کاری گر نہ دیکھا

 

اس تیغ نگہ سے ہو مقابل

ایسا کوئی بے جگر نہ دیکھا

 

جاری ہیں ہمیشہ چشمۂ چشم

ایسا کوئی ابر تر نہ دیکھا

 

جو آب ہے آبرو میں حاتمؔ

ایسا کوئی ہم گہر نہ دیکھا

٭٭٭

 

 

 

 

عجب احوال دیکھا اس زمانے کے امیروں کا

نہ ان کو ڈر خدا کا اور نہ ان کو خوف پیروں کا

 

مثال مہر و مہ دن رات کھاتے چرخ پھرتے ہیں

فلک کے ہاتھ سے یہ حال ہے روشن ضمیروں کا

 

قفس میں پھینک ہم کو پھر وہیں صیاد جاتا ہے

خدا حافظ ہے گلشن میں ہمارے ہم صفیروں کا

 

مجھے شکوہ نہیں بے رحم کچھ تیرے تغافل سے

کھلے بندوں پھرے تو حال کیا جانے اسیروں کا

 

دل یاقوت ہے تجھ لعل لب کے رشک سے پر خوں

ترے دنداں کے آگے گھٹ گیا ہے مول ہیروں کا

 

کیا ہے اس نشاں انداز نے ترکش تہی مجھ پر

مری چھاتی سرا ہو جس اوپر تودہ ہے تیروں کا

 

ہمیں دیوان خانے سے کسی منعم کے کیا حاتمؔ

ہے آزادوں کے گر رہنے کو بس تکیہ فقیروں کا

٭٭٭

 

 

 

 

کشش سے دل کی اس ابرو کماں کو ہم رکھا بہلا

جو کر قبضے میں دل سب کا پھرے تھا سب سے  وہ گہلا

 

جو گزرا عرش سے یہ نہ فلک کرسی ہے اس آگے

کرے ہے لا مکاں کی سیر عاشق چھوڑ نو محلا

 

تھکا آخر کو مجنوں غم سے راہ عشق میں میرے

غبار خاطر و آنسو کی بارش دیکھ کر چہلا

 

گلابی لعل کی ہوئی ہر کلی مے نوش سن تجھ کو

چمن میں ہے کھڑی لے جام نیلم نرگس شہلا

 

رکھی ہے ہم نے بازی زور سے شمشیر کے دشمن

کیا چاہے تھا سر واسوخت ہو مجھ نقش سے دہلا

 

تمہارے حسن کے گلشن میں پیارے کچھ نہ چھوڑوں گا

رقیبوں کے سر اوپر چڑھ کے توڑوں گا یہ پھل پہلا

 

نہ تھا ناجیؔ کو لازم طعن کرنا ہر سخن گوپر

جواب اس شعر کا حاتمؔ نہیں کچھ کام تو کہلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کن کے کہنے میں جو ہوا سو ہوا

رانڈ رونا نہ رو ہوا سو ہوا

 

جو ازل میں قلم چلی سو چلی

بد ہوا یا نکو ہوا سو ہوا

 

رنج و راحت میں اختیار نہیں

راضی ہو یا نہ ہو ہوا سو ہوا

 

یوں نہ ہو یوں ہو یوں ہوا سو کیوں

کیا ہے یہ گفتگو ہوا سو ہوا

 

شکوہ قسمت کا شکوۂ حق ہے

بک نہ خاموش ہو ہوا سو ہوا

 

ہاتھ آتا نہیں بغیر نصیب

پاؤں پھیلا کے سو ہوا سو ہوا

 

جو مقدر تھا ہو چکا حاتمؔ

فکر میں دم نہ کھو ہوا سو ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

میں اپنے دست پر شب خواب میں دیکھا کہ اخگر تھا

سحر کو کھل گئی جب آنکھ میرا ہاتھ دل پر تھا

 

نہ تھی تا صبح کچھ حاجت چراغ و شمع و مشعل  کی

ہماری بزم میں شب جلوہ گر وہ ماہ پیکر تھا

 

تری اک جنبش ابرو سے عالم ہو گیا ضائع

نظر کر جس طرف دیکھا تو جو دھڑ تھا سو بے سر تھا

 

تو اس رفتار و قد سے جس طرف گزرا مرے صاحب

ترے فیض قدم سے ہر قدم سرو و صنوبر تھا

 

نہ تھی پرواز کی طاقت سر دیوار گلشن تک

کہ جو طائر تھا سو صیاد کے ہاتھوں سے بے پر تھا

 

چلا جاتا تھا حاتمؔ آج کچھ واہی تباہی سا

جو دیکھا ہاتھ میں اس کے ترے شکوے کا دفتر تھا

٭٭٭

 

 

 

 

نہ بلبل میں نہ پروانے میں دیکھا

جو سودا اپنے دیوانے میں دیکھا

 

برابر اوس کی زلفوں کے سیہ بخت

میں اپنے بخت کو شانے میں دیکھا

 

کسی ہندو مسلماں نے خدا کو

نہ کعبے میں نہ بت خانے میں دیکھا

 

نہ کوہستاں میں دیکھا کوہ کن نے

نہ کچھ مجنوں نے ویرانے میں دیکھا

 

نہ اسکندر نے دیکھا آئینہ میں

نہ جم نے اپنے پیمانے میں دیکھا

 

پر اس کی کنہ کو کوئی نہ پہنچا

جسے دیکھا سو افسانے میں دیکھا

 

فقیروں سے سنا ہے ہم نے حاتمؔ

مزا جینے کا مر جانے میں دیکھا

٭٭٭

 

 

 

 

ہر گل اس باغ کا نظروں میں دہاں ہے گویا

صورت غنچہ جو دیکھوں تو زباں ہے گویا

 

تاک کی طرح سبھی مست پڑے اینڈیں ہیں

مے کدہ اب گرو بادہ کشاں ہے گویا

 

چشم ہے ترک نگہ نیزہ و مژگاں ترکش

زلف پر پیچ کا ہر حلقہ کماں ہے گویا

 

جا بھڑاتا ہے ہمیشہ مجھے خوں خواروں سے

دل بغل بیچ مرا دشمن جاں ہے گویا

 

حاتمؔ اب اس کی سبھی منہ کی طرف دیکھے ہیں

شیشہ مجلس میں یہاں پیر مغاں ہے گویا

٭٭٭

 

 

 

 

ہماری سیر کو گلشن سے کوئے یار بہتر تھا

نفیر بلبلوں سے نالہ ہائے زار بہتر تھا

 

انا الحق کی حقیقت کو جو ہو منصور سو جانے

کہ اوس کو آسماں چڑھنے سے چڑھنا دار بہتر تھا

 

کبھو بیمار سن کر وہ عیادت کو تو آتا تھا

ہمیں اپنے بھلے ہونے سے وہ آزار بہتر تھا

 

تو اپنے من کا منکا پھیر زاہد ورنہ کیا حاصل

تجھے اس مکر کی تسبیح سے زنار بہتر تھا

 

نہ کہتا میں کہ عاشق ہوں ترا تو کیوں وہ رم کرتا

مجھے اقرار اب کرنے سے وہ انکار بہتر تھا

 

ہماری عقل میں گھر کی گرفتاری سے حاتمؔ کو

کہو دیوانہ پھرنا کوچہ و بازار بہتر تھا

٭٭٭

 

 

 

 

ساقی مجھے خمار ستائے ہے لا شراب

مرتا ہوں تشنگی سے اے ظالم پلا شراب

 

مدت سے آرزو ہے خدا وہ گھڑی کرے

ہم تم پئیں جو مل کے کہیں ایک جا شراب

 

مشرب میں تو درست خراباتیوں کے ہے

مذہب میں زاہدوں کے نہیں گر روا شراب

 

ساقی کے تئیں بلاؤ اٹھا دو طبیب کو

مستوں کے ہے مرض کی جہاں میں دوا شراب

 

بے روئے یار او مطرب و ابرو بہار و باغ

حاتمؔ کے تئیں کبھی نہ پلائے خدا شراب

٭٭٭

 

 

 

 

کروں ہوں رات دن پھیرے کئی پھیرے میاں صاحب

کبھی تو بھی نہ پایا تم کو ہم ڈیرے میاں صاحب

 

اٹھاویں کیوں نہ نکتوڑے کہ ہم چاکر ہیں الفت کے

وگرنہ تم سے عالم میں ہیں بہتیرے میاں صاحب

 

جہاں کے خوب صورت ہم بہت تاڑیں ہیں نظروں میں

تو سب کا سب طرح صاحب ہے اے میرے میاں صاحب

 

یہی ہوتی ہے عاشق پروری کی شرط ہے ظالم

کہ ہم مرتے ہیں تم جاتے ہو منہ پھیرے میاں صاحب

 

برا کرتے ہو جو گھر سے نکل جاتے ہو حاتمؔ کے

نشے میں مست اجیالے و اندھیرے میاں صاحب

٭٭٭

 

 

 

 

نہ اتنا چاہئے اے پر شکم خواب

کہ تیرے حق میں ہے ظالم ستم خواب

 

خیال ماہ رو میں تا دم صبح

نہ آیا رات مجھ کو ایک دم خواب

 

کہو تو کس طرح آوے وہاں نیند

جہاں خورشید رو ہو آ کے ہم خواب

 

پلک لگتے نہیں کیا اوڑ گیا ہے

نصیبوں کا ترے اے چشم نم خواب

 

ہمیں بہتر ہے سونا جاگنے سے

بھلاتا ہے ہمارا درد و غم خواب

 

کہے تھا رات کو حاتمؔ سے مضموں ؔ

مجھے مخمل اوپر آتا ہے کم خواب

٭٭٭

 

 

 

 

چمن میں دہر کے ہر گل ہے کان کی صورت

ہر ایک غنچہ ہے اس میں زبان کی صورت

 

نہیں ہے شکوہ اگر وہ نظر نہیں آتا

کسو نے دیکھی نہیں اپنی جان کی صورت

 

کہیں تو سب ہیں جہاں کو رباط کہنہ ولے

ہمیشہ ہے گی نئی اس مکان کی صورت

 

جو دیکھتا ہے سو پہچانتا نہیں، ایسی

بدل گئی ہے دل ناتوان کی صورت

 

جو نکلی بیضے سے بلبل تو ہوئی اسیر قفس

نہ دیکھی کھول کے آنکھ آشیان کی صورت

 

اگر ہزار مصور خیال دل میں کریں

کبھو نہ کھینچ سکیں اس کی آن کی صورت

 

فلک کے خوان اوپر اس کی تنگ چشمی سے

کبھو نظر نہ پڑی میہمان کی صورت

 

گھڑی گھڑی میں بدلتا ہے رنگ اے حاتمؔ

ہمیشہ بو قلموں ہے جہان کی صورت

٭٭٭

 

 

 

شہر میں پھرتا ہے وہ مے خوار مست

کیوں نہ ہو ہر کوچہ و بازار مست

 

ہو گئی اس کا قد و رخسار دیکھ

سرو قمری بلبل و گل زار مست

 

زاہدو اٹھ جاؤ مجلس سے کہ آج

بے طرح آتا ہے وہ مے خوار مست

 

جس کے گھر جاتا ہے وہ دارو پیے

ہو ہے اس گھر کے در و دیوار مست

 

سر کو قدموں پر دھر اس کے لوٹیے

رات کو آئے اگر وہ یار مست

 

مے کشو حاتمؔ کو متوالا کہو

ایسا ہم دیکھا نہیں ہشیار مست

٭٭٭

 

 

 

 

آج دل بر کے نام کو رٹ رٹ

رو دیا لا علاج ہو پٹ پٹ

 

ظلم سے تیرے دل مرا کھٹ کھٹ

پارہ پارہ ہوا جگر پھٹ پھٹ

 

اے میاں دیکھ تجھ کمر میں تیغ

ٹکڑے ٹکڑے جگر ہوا کٹ کٹ

 

مو سے باریک تر ہوا ہوں ضعیف

تیری زلفوں کی دیکھ کر لٹ لٹ

 

ہاتھ دکھلا کے جی نکال لیا

یہ کلا دیکھ کر گئے نٹ نٹ

 

سیلی بازوں کے ہاتھ سے حاتمؔ

دل ترا مفت میں گیا بٹ بٹ

٭٭٭

 

 

 

 

اس واسطے نکلوں ہوں ترے کوچے سے بچ بچ

ہر ایک مچاتا ہے مجھے دیکھ کے کچ کچ

 

نیرنگیِ قدرت کا وہی دید کرے ہے

پانی کی طرح ہو جو ہر اک رنگ میں رچ رچ

 

سر پر سے تو مندیل کو اب دور کر اے شیخ

گردن تری اس بوجھ سے اب کرتی ہے لچ لچ

 

نادان ہے ایسا کہ جو دشمن مرے حق میں

جھوٹی اسے کہتے ہیں تو وہ جانے ہے سچ سچ

 

مکتب میں جو کی سیر تو دیکھا یہ تماشا

ملا کے بھی شاگرد ہیں مرغے کے سے کچ کچ

 

زر ہووے تو معشوق بھی ہاتھ آوے ہے حاتمؔ

مفلس عبث اس فکر میں جی دیوے ہے نچ نچ

٭٭٭

 

 

 

 

بے ترے جان نہ تھی جان مری جان کے بیچ

آن کر پھر کے جلایا تو مجھے آن کے بیچ

 

ایک دن ہاتھ لگایا تھا ترے دامن کو

اب تلک سر ہے خجالت سے گریبان کے بیچ

 

تو نے دیکھا نہ کبھی پیار کی نظروں سے مجھے

جی نکل جائے گا میرا اسی ارمان کے بیچ

 

آج عاشق کے تئیں کیوں نہ کہے تو در در

واسطہ یہ ہے کہ موتی ہے ترے کان کے بیچ

 

ہوئی زباں لال ترے ہاتھ سے کھا کے بیڑا

کیا فسوں پڑھ کے کھلایا تھا مجھے پان کے بیچ

 

کچھ تو مجنوں کو حلاوت ہے وہاں دیوانو

چھوڑ شہروں کو جو پھرتا ہے بیابان کے بیچ

 

دیکھ حاتمؔ کو بھلا تو نے برا کیوں مانا

کیا خلل اس نے کیا آ کے تری شان کے بیچ

٭٭٭

 

 

 

 

عشق نے چٹکی سی لی پھر آ کے میری جاں کے بیچ

آگ سی کچھ لگ گئی ہے سینۂ بریاں کے بیچ

 

اہل معنی جز نہ بوجھے گا کوئی اس رمز کو

ہم نے پایا ہے خدا کو صورت انساں کے بیچ

 

اس سبب میں جنگ شانے سے کروں ہوں بار بار

دل ہوا ہے گم مرا اس کاکل پیچاں کے بیچ

 

زلف و چشم و خال و خط چاروں ہیں دشمن دین کے

حق رکھے ایماں سلامت ایسے کفرستاں کے بیچ

 

نقد دل کھویا ہے ہم نے جان کر اس راہ میں

فی الحقیقت عاشقوں کو سود ہے نقصاں کے بیچ

 

گر عدو میری بدی کرتا ہے خاص و عام میں

میں اسے رسوا کروں گا باندھ کر دیواں کے بیچ

 

رات دن جاری ہے عالم میں مرا فیض سخن

گو کہ ہوں محتاج پر حاتمؔ ہوں ہندوستاں کے بیچ

٭٭٭

 

 

 

 

صنم کے دیکھ کر لب اور دہن سرخ

ہوا ہے خون بلبل سے چمن سرخ

 

شہید لالہ رویاں کو بجا ہے

دفن کے وقت گر کیجے کفن سرخ

 

ہوا مجنوں کے حق میں دشت گل زار

کیا ہے عشق کے ٹیسو نے بن سرخ

 

گلوں کا رنگ اب زرد ہو گیا ہے

چمن میں دیکھ کر تیرا بدن سرخ

 

کر حاتمؔ یاد احوال شہیداں

شفق سے جب کہ ہوتا ہے گگن سرخ

٭٭٭

 

 

 

 

آئی عید و دل میں نہیں کچھ ہوائے عید

اے کاش میرے پاس تو آتا بجائے عید

 

قربان سو طرح سے کیا تجھ پر آپ کو

تو بھی کبھو تو جان نہ آیا بجائے عید

 

جتنے ہیں جامہ زیب جہاں میں سبھوں کے بیچ

سجتی ہے تیرے بر میں سراپا قبائے عید

 

 

کوئی دیتا نہیں ہے داد بے داد

کوئی سنتا نہیں فریاد فریاد

 

کہیں ہیں کیا بلا دام بلا ہے

تیری زلفوں کو اے صیاد صیاد

 

نہ رکھ امید آسائش جہاں میں

کہ ہے دنیا کی بے بنیاد بنیاد

 

تجھے معشوقیت کے فن میں محبوب

کہیں ہیں عشق کے استاد استاد

 

گئی غفلت میں ساری عمر حاتمؔ

کہ جیسی خاک رہ برباد برباد

٭٭٭

 

 

 

 

طرفہ معجون ہے ہمارا یار

غیر سے ہم کنار ہم سے کنار

 

ہم کہیں باغ چل تو ہاں نہ کہے

غیر کے ساتھ روز سیر و شکار

 

ہم کو مجلس میں دیکھ چپ ہو جائے

غیر سے ٹوک کر کرے گفتار

 

ہم کو دیکھے کہیں تو آنکھیں چرائے

غیر کو دیکھ کر آپ سے ہو دو چار

 

غیر سے صاف سینہ ہو کے ملے

ہم سے دل میں رکھے ہمیشہ غبار

 

غیر جور و جفا و بے مہری

ہم سے اس کا نہیں ہے اور شعار

 

غیر کی بات سن کے خوش ہووے

ہم سے ہر بات میں کرے تکرار

 

منت و عجز و انکسار و نیاز

کرتے کرتے ہوئے بہت لاچار

 

وہ کسی طرح آشنا ہی نہیں

امتحاں ہم کیا ہے چندیں یار

 

ذرا بھی کان دھر کبھو نہ سنے

درد دل ہم اگر کریں اظہار

 

جان اور مال دے چکیں اس کو

دل سے جانے ہمیں اگر غم خوار

 

جو رہے ہم سے روز بیگانہ

صحبت ایسے سے کیسے ہو برار

 

کر الٰہی تو مہرباں اس کو

جس کے پیچھے ہوئے ہیں زار و نزار

 

غرض اب شکوہ کب تلک کیجے

چپ ہی رہنا ہے حاتمؔ اب درکار

٭٭٭

 

 

 

 

کیا ستاتے ہو رہو بندہ نواز

کہ نہیں خوب یہ خو بندہ نواز

 

بے سبب بے وجہ و بے تقصیر

اس قدر غصہ نہ ہو بندہ نواز

 

ظلم ناحق نہ کرو کوئی دن

جیو اور جیونے دو بندہ نواز

 

مے کشو بیچ نہ بیٹھو ہرگز

خون میرا نہ پیو بندہ نواز

 

عطر کو مل کے نہ آؤ ہم پاس

ذبح کرتی ہے یہ بو بندہ نواز

 

کب تلک اپنی کہے جاؤ گے

بات میری بھی سنو بندہ نواز

 

واجب القتل تمہارا میں ہوں

اور کا نام نہ لو بندہ نواز

 

گو کہ سب مجھ کو برا کہتے ہیں

تم زباں سیں نہ کہو بندہ نواز

 

کس کا منہ ہے جو ترے سنمکھ ہو

ہو نہ ہو آئینہ ہو بندہ نواز

 

جا تری چشم میں میری ہے جا

سرو ہو ہے لب جو بندہ نواز

 

وصف کاکل میں سدا گویا ہے

جو زباں ہر سر مو بندہ نواز

 

دل سے حاتمؔ بخدا بندہ ہے

دور خدمت سے ہے گو بندہ نواز

٭٭٭

 

 

 

 

اس زمانے میں نہ ہو کیوں کر ہمارا دل اداس

دیکھ کر احوال عالم اڑتے جاتے ہیں حواس

 

بس رہا ہے بو سے تیری جان من ایسا دماغ

بے دماغ ہم کو رکھے ہے باغ میں پھولوں کی باس

 

جس طرف جاوے تو اے خورشید رو سایہ کی طرح

ہر قدم میں بھی ہوں تیرے ساتھ ساتھ اور پاس پاس

 

تشنگی سے چاہ کی تیری نہیں سیراب دل

ہے مثل مشہور مستسقی کی نئیں بجھتی ہے پیاس

 

حق سے ملنا گیروے کپڑوں اوپر موقوف نئیں

دل کے تئیں رنگو فقیری یہ ہے اور سب ہے لباس

 

جوں جوں تو ساغر پیے ہے غیر کی مجلس کے بیچ

توں توں اے بد مست دل میں میرے آتا ہے ہراس

 

کنہ ذات حق کو کیا پاوے کوئی حاتمؔ کبھو

سب کے عاجز ہیں یہاں وہم و گماں فہم و قیاس

٭٭٭

 

 

 

 

گر بھلا مانس ہے تو خندوں سے تو مل مل نہ ہنس

مسکرا جوں غنچہ پر گل کی طرح کھل کھل نہ ہنس

 

رو روا چاہے جتا رونے سے جا ہے دل سے دنگ

زنگ ہو ہے دل اوپر ہنسنے سے آ اے دل نہ ہنس

 

تو ہنسے ہے موت کو اور موت ہنستی ہے تجھے

موت کو ہنسنا نہیں ہے خوب اے غافل نہ ہنس

 

عقل سے ہے دور ہنسنا دم بدم عاقل کے تئیں

عقل ہے تو تو کسی بے عقل پر عاقل نہ ہنس

 

ہنس جتا چاہے اکیلا ہنس تو دیوانے کی طرح

پر ہنسی میں تو کسی ہنستے سے ہو شامل نہ ہنس

 

جو ہنسی ہے اور کو اس نے ہنسایا آپ کو

اس ہنسی میں کچھ نہیں حاصل ہے بے حاصل نہ ہنس

 

ہنستے ہنستے میں کئی کے گھر لگے ہیں خالصے

ضبط کر اپنی ہنسی حاتمؔ تو اب یک تل نہ ہنس

٭٭٭

 

 

 

 

ہو رہا ہے ابر اور کرتا ہے وہ جانانہ رقص

برق گرد اس کے کرے ہے آ کے بے تابانہ رقص

 

دور میں چشم گلابی کے ترے اے بادہ نوش

بزم میں کرتا ہے مستوں کی طرح پیمانہ رقص

 

اس قد و رخسار پر اے شمع رو اس حسن پر

قمری و بلبل کرے ہے وجد اور پروانہ رقص

 

گھنگرو جانے ہے پاؤں میں وہ زنجیروں کے تئیں

کیوں نہ اس آواز پر بن بن کرے دیوانہ رقص

 

جس کے گھر آوے وہ حاتمؔ ناز سے رکھتا قدم

اٹھ کھڑا ہو کر کرے اس آن صاحب خانہ رقص

٭٭٭

 

 

 

 

جلوہ گر فانوس تن میں ہے ہمارا من چراغ

بے بتی اور تیل یہ ہے روز و شب روشن چراغ

 

تا ابد اس کو نہیں باد مخالف سے خطر

ہے ہمارے ہاتھ پر بے پردۂ دامن چراغ

 

آج کی شب لطف ہے سیر چمن اے عندلیب

روغن گل سے ہوا ہے ہر گل گلشن چراغ

 

ڈر نہیں مجنوں کو پھرنے کا شب ہجراں کے بیچ

حق میں اس کے دیدۂ آہو ہوئے بن بن چراغ

 

یک نظر اس کی دل مشتاق ہے جن نے کہ آج

ایک جلوہ میں کیا ہے خانۂ درپن چراغ

 

جب سے ہے روشن دلوں کے دل پر حاتمؔ کی نگاہ

تب سے روشن ہے گا اس کے دل کا بے روغن چراغ

٭٭٭

 

 

 

 

زور یارو آج ہم نے فتح کی جنگ فلک

یک طمانچے میں کبودی کر دیا رنگ فلک

 

گرمئ دوکاں پر اپنی شیشہ گر سرکش نہ ہو

ڈھونڈھتا پھرتا ہے تیرے سر کے تئیں سنگ فلک

 

کج روی سے اس کی گر عاقل ہے تو غافل نہ رہ

ان دنوں اور ہی نظر آتا ہے کچھ ڈھنگ فلک

 

تو جو تل بیٹھے تو پلے چاہئے ہوں مہر و ماہ

ایسی میزاں کے تئیں لازم ہے پاسنگ فلک

 

شوق ہے گر سیر بالا کا تو حاتمؔ ہو سوار

کہکشاں سے کھینچ کر لایا ہوں اب تنگ فلک

٭٭٭

 

 

 

 

تھا پاس ابھی کدھر گیا دل

یہ خانہ خراب گھر گیا دل

 

خوار ایسا ہوا بتاں کے پیچھے

نظروں سے مری اتر گیا دل

 

شبنم کی مثال روتے روتے

اس باغ سے چشم تر گیا دل

 

جوں خضر رہا ہمیشہ تنہا

ایسے جینے سے بھر گیا دل

 

کیا پوچھتے ہو خبر تم اس کی

یک عمر ہوئی کہ مر گیا دل

 

مرتے مرتے بھی یہ جواں مرگ

سوراخ جگر میں کر گیا دل

 

تھا دشمن جاں بغل میں حاتمؔ

جانے دے بلا سے گر گیا دل

٭٭٭

 

 

 

 

نظر سے جب اکستا ہے مرا دل

تو جا کاکل میں بستا ہے مرا دل

 

میں اس کی چشم سے ایسا گرا ہوں

مرے رونے پہ ہنستا ہے مرا دل

 

گیا ہے جب سے وہ میری بغل سے

اسی کی بو میں بستا ہے مرا دل

 

خریدار اس کے بہتیرے ہیں تم سے

نہ جانو یہ کہ سستا ہے مرا دل

 

یہاں تک غرق ہوں رونے میں حاتمؔ

کہ ہنسنے کو ترستا ہے مرا دل

٭٭٭

 

 

 

 

جب آپ سے ہی گزر گئے ہم

پھر کس سے کہیں کدھر گئے ہم

 

کیا کعبہ و دیر و کیا خرابات

تو ہی تھا غرض جدھر گئے ہم

 

آئے تھے مثال شعلہ سرگرم

جاتے ہوئے جوں شرر گئے ہم

 

شبنم کی طرح سے اس چمن سے

ہوتے ہی دم سحر گئے ہم

 

کچھ اپنے تئیں کیا نہ معلوم

کیا آپ سے بے خبر گئے ہم

 

جز حسرت عمر رفتہ افسوس

کچھ آ کے یہاں نہ کر گئے ہم

 

شیخی سے گزر ہوئے قلندر

بگڑے تھے پر اب سنور گئے ہم

 

اس درجہ ہوئے خراب الفت

جی سے اپنے اتر گئے ہم

 

فیض اس لب عیسوی کا حاتمؔ

بالعکس ہوا کہ مر گئے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

دہن ہے تنگ شکر اور شکر ترا ہے کلام

لباں ہیں پستہ زنخ سیب و چشم ہیں بادام

 

تری نگہ سے گئے کھل کواڑ چھاتی کے

حصار قلب کی گویا تھی فتح تیرے نام

 

دلوں کی راہ میں خطرے پڑے ہیں کیا یارو

کہ چند روز سے موقوف ہے پیام و سلام

 

امیدوار جناب خدا سے ہے حاتمؔ

کہ ہووے کام کا اس کے شتاب سے انجام

 

نہ محتسب سے یہ مجھ کو غرض نہ مست سے کام

مجھے تو لینا ہے ساقی کے آج دست سے کام

 

صنم تو میری پرستش کی قدر تب جانے

کہ جب پڑے تجھے کافر خدا پرست سے کام

 

میں گوشہ گیر ہوا سیر کر نشیب و فراز

رہا نہ میرے قدم کو بلند و پست سے کام

 

رکھے ہے شیشہ مرا سنگ ساتھ ربط قدیم

کہ آٹھ پہر مرے دل کو ہے شکست سے کام

 

جسے مساوی ہے ماضی و حال و مستقبل

اسے رہا نہیں آئندہ بود و ہست سے کام

 

میں کفر و دیں سے گزر کر ہوا ہوں لا مذہب

خدا پرست سے مطلب نہ بت پرست سے کام

 

کسو کو قید کرے ہے کسو کو باندھے ہے

وہ لے ہے اپنے عمل بیچ بند و بست سے کام

 

دل اس کی زلف کے پیچوں میں حاتمؔ الجھا ہے

رکھے نہیں ہے مرا صید دام و شست سے کام

٭٭٭

 

 

 

 

ہووے وہ شوخ چشم اگر مجھ سے چار چشم

قرباں کروں میں چشم پر اس کے ہزار چشم

 

مدت ہوئی پلک سے پلک آشنا نہیں

کیا اس سے اب زیادہ کرے انتظار چشم

 

جس رنگ سے ہو ابر سفید و سیاہ و سرخ

اس طرح کر رہے ہیں تمہارے بہار چشم

 

سوتے سے نام سن کے مرا یار جاگ اٹھا

بختوں کے کھل گئے مرے بے اختیار چشم

 

جاگے ہو رات یا یہ نشے کا اتار ہے

جو صبح کر رہے ہیں تمہارے خمار چشم

 

ظالم خدا کے واسطے حاتمؔ کو منہ دکھا

مدت سے دیکھنے کے ہیں امیدوار چشم

٭٭٭

 

 

 

 

اس دور کے اثر کا جو پوچھو بیاں نہیں

ہے کون سی زمیں کہ جہاں آسماں نہیں

 

اس درجہ دلبروں سے کوئی رسم دلبری

دل ہاتھ پر لیے ہوں کوئی دل ستاں نہیں

 

افسردہ دل تھا اب تو ہوا غم سے مردہ دل

جیتا ہوں دیکھنے میں ولے مجھ میں جاں نہیں

 

آداب صحبتوں کا کوئی ہم سے سیکھ لے

پر کیا کروں کہ طالب صحبت یہاں نہیں

 

دل جل کے بجھ گیا ہے کسی نے خبر نہ لی

ہم سوختہ دلوں کا کوئی قدرداں نہیں

 

ہے کل کی بات سب کے دلوں میں عزیز تھا

پر ان دنوں تو ایک بھی دل مہرباں نہیں

 

ایسی ہوا بہی کہ ہے چاروں طرف فساد

جز سایۂ خدا کہیں دار الاماں نہیں

 

عالم کی ہے گی نرخ الٰہی سے زندگی

تس پر بھی دیکھتا ہوں کہ بہتوں کو ناں نہیں

 

حاتمؔ خموش لطف سخن کچھ نہیں رہا

بکتا عبث پھرے ہے کوئی نکتہ داں نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

اس کی قدرت کی دید کرتا ہوں

روز نو روز عید کرتا ہوں

 

میرا احوال فقر مت پوچھو

زہد مثل فرید کرتا ہوں

 

روز بازار ملک ہستی میں

جنس عصیاں خرید کرتا ہوں

 

فتح کرنے کو قلب دل کا حصار

تیغ ہمت کلید کرتا ہوں

 

بسکہ میں تشنۂ شہادت ہوں

دل کو ہر دم شہید کرتا ہوں

 

نہ میں سنی نہ شیعہ نے کافر

صوفی ہوں سب کا وید کرتا ہوں

 

شیخ تو گو کہ پیر زادہ ہے

رہ تجھے میں مرید کرتا ہوں

 

اپنے احسان خلق سے حاتمؔ

آدمی کو عبید کرتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

بندہ اگر جہاں میں بجائے خدا نہیں

لیکن نظر کرو تو خدا سے جدا نہیں

 

نقطے کا فرق ہے گا خدا اور جدا میں دیکھ

صورت میں گر چھپا ہے بمعنی چھپا نہیں

 

ہر شے کے بیچ آپ نہاں ہو عیاں ہوا

دیکھا تو ہم نے اس سا کوئی خود نما نہیں

 

حیران عقل کل کی ہے اس کی صفت کو دیکھ

سب جا میں جلوہ گر ہے مگر ایک جا نہیں

 

لذت چکھا کے دل کے تئیں ہجر و وصل کی

حاتمؔ سے مل رہا ہے اور اب تک ملا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تری جو زلف کا آیا خیال آنکھوں میں

وہیں کھٹکنے لگا بال بال آنکھوں میں

 

تری جو چشم کے گوشے میں تل ہے ایسا تل

نظر پڑا ہے کہیں خال خال آنکھوں میں

 

نشے میں سرخ ہیں ایسی طرح سے تیرے چشم

گویا کھلا ہے کنول لال لال آنکھوں میں

 

وہ خوش نگہ تری حاتمؔ نظر پڑا ہے آج

چھپا لے اس کے تئیں حال حال آنکھوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

تو صبح دم نہ نہا بے حجاب دریا میں

پڑے گا شور کہ ہے آفتاب دریا میں

 

چلو شراب پئیں بیٹھ کر کنارے آج

کہ ہووے رشک سے ماہی کباب دریا میں

 

تمہارے منہ کی صفائی و آب داری دیکھ

بہا ہے شرم سے موتی ہو آب دریا میں

 

میں اس طرح سے ہوں مہماں سرائے دنیا میں

کہ جس طرح سے ہے کوئی حباب دریا میں

 

جہاں کے بہر میں ہر موج بوجھ سیل فنا

بنا نہ گھر کو تو خانہ خراب دنیا میں

 

کبھو جو عالم مستی میں تم نے کی تھی نگاہ

بجائے آب بہے ہے شراب دریا میں

 

میں آب چشم میں ہوں غرق مجھ کو نیند کہاں

کہیں کسو کو بھی آیا ہے خواب دریا میں

 

اگر ہے علم جو تجھ کو عمل کے در پے ہو

وگرنہ شیخ ڈبا دے کتاب دریا میں

 

صنم کی زلف کی لہروں کے رشک سے حاتمؔ

نہیں یہ موج یہ ہے پیچ و تاب دریا میں

٭٭٭

 

 

 

 

جب سے تمہاری آنکھیں عالم کو بھائیاں ہیں

تب سے جہاں میں تم نے دھومیں مچائیاں ہیں

 

جور و جفا و محنت مہر و وفا و الفت

تم کیوں بڑھائیاں ہیں اور کیوں گھٹائیاں ہیں

 

مل مل کے روٹھ جانا اور روٹھ روٹھ ملنا

یہ کیا خرابیاں ہیں کیا جگ ہنسائیاں ہیں

 

ٹک ٹک سرک سرک کر آ بیٹھنا بغل میں

کیا اچپلائیاں ہیں اور کیا ڈھٹائیاں ہیں

 

زلفوں کا بل بناتے آنکھیں چرا کے چلنا

کیا کم نگاہیاں ہیں کیا کج ادائیاں ہیں

 

آئینہ روبرو رکھ اور اپنی سج بنانا

کیا خود پسندیاں ہیں کیا خود نمائیاں ہیں

 

آنچل اٹھا کے تم نے جو ڈھانک لیں یہ چھتیاں

کس کو دکھائیاں ہیں کس سے چھپائیاں ہیں

 

تم میں جو شوخیاں ہیں اور چنچلائیاں ہیں

کن نے سکھائیاں ہیں کن نے بتائیاں ہیں

 

حاتمؔ کے بن اشارہ سچ کہہ یہ چشم و ابرو

کس سے لڑائیاں ہیں کس پر چڑھائیاں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دنیا خیال و خواب ہے میری نگاہ میں

آباد سب خراب ہے میری نگاہ میں

 

بہتی پھرے ہے عمر تلاطم میں دہر کے

انسان جوں حباب ہے میری نگاہ میں

 

میں بحر غم کو دیکھ لیا نا خدا برو

کشتی نہ ہو پہ آب ہے میری نگاہ میں

 

چھوٹا ہوں جب سے شیخ تعین کی قید سے

ہر ذرہ آفتاب ہے میری نگاہ میں

 

تم کیف میں شراب کے کہتے ہو جس کو دل

بھونا ہوا کباب ہے میری نگاہ میں

 

کیوں کھینچتے ہو تیغ کمر سے چہ فائدہ

مدت سے اس کی آب ہے میری نگاہ میں

 

حاتمؔ تو اس جہان کی لذات پر نہ بھول

یہ پائے در رکاب ہے میری نگاہ میں

٭٭٭

 

 

 

دیکھنے سے ترے جی پاتا ہوں

آنکھ کے پھیرتے مر جاتا ہوں

 

تیرے ہونٹوں کے تئیں پان سے لال

دیکھ کر خون جگر کھاتا ہوں

 

آرزو میں تری یک مدت سے

اپنے دل کے تئیں ترساتا ہوں

 

چاؤ جو دل میں بھرے ہیں پیارے

تجھ سے کہتا ہوا شرماتا ہوں

 

بھولے بسرے جو کبھی وحشی سا

تیرے کوچے کی طرف آتا ہوں

 

دیکھ دروازے کی صورت تیرے

نقش دیوار سا ہو جاتا ہوں

 

تو جو نکلے ہے بدلتا آنکھیں

اس گھڑی اپنا کیا پاتا ہوں

 

دل غمگیں کے تئیں مردا سا

گود میں اپنے اٹھا لاتا ہوں

 

آنسو پوچھوں ہوں دلاسا دے دے

منتیں کر کے میں سمجھاتا ہوں

 

وہ نہیں مانتا جوں جوں حاتمؔ

توں توں جینے سے میں گھبراتا ہوں

٭٭٭

 

 

کون دل ہے کہ ترے درد میں بیمار نہیں

کون جی ہے کہ ترے غم میں گرفتار نہیں

 

کون دہرا ہے کہ تجھ بت کی نہیں ہے پوجا

کون مسجد ہے کہ تجھ درس کی تکرار نہیں

 

کون خوش رو ہے کہ تجھ رو کا نہیں ہے طالب

کون طالب ہے کہ تجھ شے کا طلب گار نہیں

 

کون صوفی ہے کہ تجھ مے سے نہیں ہے مد ہوش

کون کیفی ہے کہ تجھ کیف سے ہشیار نہیں

 

کون کہتا ہے کہ حاتمؔ کو نہیں تجھ سے پیار

کون کہتا ہے کہ حاتمؔ سے تجھے پیار نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ملا دئے خاک میں خدا نے پلک کے لگتے ہی شاہ لاکھوں

جنہوں کے ادنیٰ غلام رکھتے تھے اپنے چاکر سپاہ لاکھوں

 

نماز و روزے زکوٰۃ و حج پر نہیں ہے موقوف کچھ اے زاہد

جدھر کو جاوے اُدھر کو ہیں گے خدا کے ملنے کے راہ لاکھوں

 

سنا ہے میں نے کہ تو نے میرا کیا ہے شکوہ کسی سے ظالم

ترے ستم اور مری وفا کے جہاں میں ہیں گے گواہ لاکھوں

 

عجب تماشا ہے کس سے کہیے اثر نہیں سنگ دل کے دل میں

کروں ہوں یارو میں ایک دم میں ہزاروں نالے و آہ لاکھوں

 

کرے ہے فریاد ایک عالم گلی میں اس کی ہے شور محشر

جو ایک ہوئے تو کیجے انصاف اس کے ہیں داد خواہ لاکھوں

 

کروڑ باری میں سو طرح سے کہا کہ کھا اور کھلا نہ مانا

کوئی تو لیوے گا چھین تجھ سے تو جوڑ خست پناہ لاکھوں

 

یہ مصرع سوز سن کے حاتمؔ کہے ہے ناصح سے اے عزیزو

امید بخشش ہے جب سے ہم کو کیے ہیں ہم نے گناہ لاکھوں

٭٭٭

 

 

 

 

میں ذات کا اس کی آشنا ہوں

اور اس کی صفات پر فدا ہوں

 

افسوس کہ آپ کو میں اب تک

معلوم نہیں کیا کہ کیا ہوں

 

ہے عین زوال میں ترقی

مجھ کو کہ گل دوپہریا ہوں

 

حیرت ہے مجھے یہی کہ اس بن

کس طرح سے اب تلک جیا ہوں

 

کرتا نہیں میں خوشامد خلق

حاتمؔ ہوں ازل سے بے ریا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

نہ کچھ ستم سے ترے آہ آہ کرتا ہوں

میں اپنے دل کی مدد گاہ گاہ کرتا ہوں

 

نہ آفریں نہ دلاسا نہ دل دہی نہ نگاہ

غرض میں ہی ہوں جو تجھ سے نباہ کرتا ہوں

 

اسے کہیں ہیں سنا ہو گا شیخ خوف و رجا

ادھر تو توبہ ادھر میں گناہ کرتا ہوں

 

تو اپنے دل کی سیاہی کرے ہے دھو کے سفید

میں اپنے نامہ عمل کا سیاہ کرتا ہوں

 

تو روز سنگ سے مسجد کے سر پٹکتا ہے

میں اس کا نقش قدم سجدہ گاہ کرتا ہوں

 

تجھے ہے اپنی عبادت اوپر نظر کیوں کر

میں اس کے فضل کے اوپر نگاہ کرتا ہوں

 

مثال رشتۂ تسبیح روز و شب حاتمؔ

چھپے چھپے میں کسی دل میں راہ کرتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

نے شکوہ مند دل سے نہ از دست دیدہ ہوں

اس بخت نارسا سے اذیت کشیدہ ہوں

 

کو خندہ کو تبسم و کو فرصت سخن

اس انجمن میں ہیں لب حسرت گزیدہ ہوں

 

نے کام کا کسی کے نہ مجھ کو کسی سے کام

حیراں ہوں کس لیے میں یہاں آفریدہ ہوں

 

ہستی کو نے ثبات نہ جینے کا اعتماد

کس کی امید پر کوئی دم آرمیدہ ہوں

 

میرا تو کام ایک پلک میں تمام ہے

مانند اشک بر سر مژگاں رسیدہ ہوں

 

گلچیں عبث نگاہ رکھے ہے مری طرف

میں اس چمن میں جوں گل رنگ پریدہ ہوں

 

سونپوں میں کیوں نہ اپنا گریباں اجل کے ہات

اے عمر زندگی سے میں دامن کشیدہ ہوں

 

اس واسطے تو قدر مری جانتا نہیں

ہاں ان ترے غلاموں میں بے زر خریدہ ہوں

 

میرا بھی دل شگفتہ کبھو ہو نسیم وصل

بہتوں کا اس چمن میں میں اب خارویدہ ہوں

 

پاس ادب سے اس کے قدم تک نہیں مجال

ورنہ نہ پا شکستہ نہ دست بریدہ ہوں

 

دشمن سے بھی تواضع میں رکھتا نہیں دریغ

تعظیم کو عدو کی میں تیغ خمیدہ ہوں

 

رونے تلک تو کس کو ہے فرصت یہاں سحاب

طوفاں ہوا بھی جو ٹک اک آب دیدہ ہوں

 

یاراں دماغ کو جو کروں تم سے اختلاط

اس دشت میں میں وحشیِ از خود رمیدہ ہوں

 

کیا پوچھتے ہو درد کو حاتمؔ کے دوستاں

جو کچھ کہ ہوں سو ہوں غرض آفت رسیدہ ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

ہم فقیروں میں مرے بیٹھے ہیں

ترک دنیا کو کرے بیٹھے ہیں

 

دے کے دل ہاتھ ترے اپنے ہاتھ

ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں

 

خانماں اپنا لٹا کر عاشق

ترے در پر نہ گھرے بیٹھے ہیں

 

کوئی اس وقت نہ بولو ان سے

آپ غصے میں بھرے بیٹھے ہیں

 

دل تو تم پاس ہے گو مجلس سے

دور بیٹھے ہیں پھرے بیٹھے ہیں

 

سو ہنر مند ہیں صحبت میں ترے

ہم بھی اک بے ہنرے بیٹھے ہیں

 

کئی صاحب ترے دروازے پر

جیسے مل کر نفرے بیٹھے ہیں

 

اس غضب ناک کی خو سے حاتمؔ

چھپ کے کونے میں ڈرے بیٹھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دیکھتے سجدے میں آتا ہے جو کرتا ہے نگاہ

تیرے ابرو کی ہے محراب مگر بیت اللہ

 

یک پلک میں وہ کرے پیس کے فوجیں سرمہ

جس طرف کو پھرے ظالم تری مژگاں کی سپاہ

 

بیت بحثی نہ کر اے فاختہ گلشن میں کہ آج

مصرع سرو سے موزوں ہے مرا مصرع آہ

 

کشور عشق کی شاہی ہے مگر مجنوں کو

کہ زمیں تخت ہے سر پر ہے بگولے کی کلاہ

 

کیوں کر ان کالی بلاؤں سے بچے گا عاشق

خط سیہ خال سیہ زلف سیہ چشم سیاہ

 

چاہتا ہے شب زلفاں کی تری عمر دراز

کہ مرے عشق کا ہووے نہیں قصہ کوتاہ

 

کیا کہے کیونکہ کہے تجھ سے یہ حاتمؔ غم دل

کہ وہ ہے شرم سے محجوب و تو ہے بے پرواہ

٭٭٭

 

 

 

 

کس ستم گر کا گناہ گار ہوں اللہ اللہ

کس کے تیروں سے دل افگار ہوں اللہ اللہ

 

اس کے ہاتھوں سے نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں میں

کس مصیبت میں گرفتار ہوں اللہ اللہ

 

خضر اب دور کر آگے سے مرے آب حیات

کس کے بوسے کا طلب گار ہوں اللہ اللہ

 

کیوں نہ آنکھوں میں رکھے مجھ کو زلیخا بھی عزیز

کیسے یوسف کا خریدار ہوں اللہ اللہ

 

نمک حسن سے اس لب کے مزے لوٹوں ہوں

کس نمک داں کا نمک خوار ہوں اللہ اللہ

 

نرگس اب ہم سے نہ کر دعویٰ ہم چشمی تو

کس کی نرگس کا میں بیمار ہوں اللہ اللہ

 

اتنا کہتا بھی نہیں کون یہ چلاتا ہے

کب سے نالاں پس دیوار ہوں اللہ اللہ

 

خواب میں یار نے آ مجھ کو جگایا حاتمؔ

کس قدر طالع بے دار ہوں اللہ اللہ

٭٭٭

 

 

 

 

درد دل میری آہ سے پوچھو

سبب اس کی نگاہ سے پوچھو

 

معنئ بے مروتیِ بتاں

اس تغافل پناہ سے پوچھو

 

باعث تیرہ بختیِ عالم

اس کی زلف سیاہ سے پوچھو

 

اس کی تیغ ستم کا شرح و بیاں

جا کسی بے گناہ سے پوچھو

 

اس کے مکھڑے کی روشنی کی صفت

مجھ سے کیا مہر و ماہ سے پوچھو

 

گریہ و نالہ و فغاں کیوں ہے

یہ مرے دل کی چاہ سے پوچھو

 

محضر حسن و عشق کا قضیہ

حق ہے شاہد گواہ سے پوچھو

 

کیا کہیں اوس کا گھر ہے کتنی دور

تھک گئے ہم تو راہ سے پوچھو

 

قبلہ حاتمؔ کدھر ہے راست بتا

جا کے اس کج کلاہ سے پوچھو

٭٭٭

 

 

 

 

رکھتا ہوں میں حق پر نظر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو

ہشیار ہوں یا بے خبر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو

 

قسمت مقدر بوجھ کر غفلت میں آ کر حرص سے

پھر کیا ہے پھرنا در بدر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو

 

جز معصیت کے کچھ نہیں ہے کام مجھ عاصی کے تئیں

ہر روز و ہر شام و سحر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو

 

کچھ نیک و بد کہنے کا اب خطرہ نہیں ہے خلق کا

یکساں کیا نفع و ضرر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو

 

ہے چار دن کی زندگی خوش رہ کے آخر کے تئیں

دنیا سے جانا ہے گزر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو

 

حاتمؔ توقع چھوڑ کر عالم میں تا شاہ و گدا

آ کر لگا حیدر کے در کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو

٭٭٭

 

 

 

 

مے ہو ابر و ہوا نہیں تو نہ ہو

درد ہو گر دوا نہیں تو نہ ہو

 

ہم تو ہیں آشنا ترے ظالم

تو اگر آشنا نہیں تو نہ ہو

 

دل ہے وابستہ تیرے دامن سے

دست میرا رسا نہیں تو نہ ہو

 

ہم تو تیری جفا کے بندے ہیں

تجھ میں رسم وفا نہیں تو نہ ہو

 

آستاں پر تو گر رہے ہیں اگر

تیری مجلس میں جا نہیں تو نہ ہو

 

ہم تو ہیں صاف، بد گماں میرے

تیرے دل میں صفا نہیں تو نہ ہو

 

دل کو اکسیر ہے گی تیری نگاہ

ہوس کیمیا نہیں تو نہ ہو

 

ہم تو حاشا نہیں کسی سے برے

کوئی ہم سے بھلا نہیں تو نہ ہو

 

طالب وصل کب تلک رہیے

ہو تو ہو جائے یا نہیں تو نہ ہو

 

حاتمؔ اب کس کی مجھ کو پروا ہے

کوئی مرا جز خدا نہیں تو نہ ہو

٭٭٭

 

 

ہم کو کب انتظار ہے فصل بہار ہو نہ ہو

داغ جگر شگفتہ باد گل بہ کنار ہو نہ ہو

 

درد تو میرے پاس سے مرتے تلک نہ جائیو

طاقت صبر ہو نہ ہو تاب و قرار ہو نہ ہو

 

صبح تو ہوئی ہے دیر کیا تیری بلا سے ساقیا

جام شراب تو تو دے ہم کو خمار ہو نہ ہو

 

تیر نگہ لگا کے تم کہتے ہو پھر لگا نہ خوب

میرا تو کام ہو گیا سینہ کے پار ہو نہ ہو

 

طالب یک نظارہ ہوں اتنا بھی مجھ سے بیر کیا

منہ تو مری طرف کو ہو گو کہ دو چار ہو نہ ہو

 

حلقۂ در ہے حلقہ زن کوئی بھلا خبر تو لو

دل مرا شادی مرگ ہے ہے وہی یار ہو نہ ہو

 

حاتمؔ اگر گناہ کرے شکوہ نہ کر خدا سے ڈر

فدوی جاں نثار ہے تو بھی ہزار ہو نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

اب کی چمن میں گل کا نے نام و نے نشاں ہے

فریاد بلبلاں ہے یا شہرۂ خزاں ہے

 

ہم سیر کر جو دیکھا روئے زمیں کے اوپر

آسودگی کہاں ہے جب تک یہ آسماں ہے

 

ہم کیا کہیں زباں سے آپ ہی تو سن رہے گا

شکوہ ترے ستم کا ظالم جہاں تہاں ہے

 

مدت ہوئی کہ مر کر میں خاک ہو گیا ہوں

جینے کا بد گماں کو اب تک مرے گماں ہے

 

ہولی کے اب بہانے چھڑکا ہے رنگ کس نے

نام خدا تجھ اوپر اس آن عجب سماں ہے

 

مکرے سے فائدہ کیا رندوں سے کب چھپی ہے

کیا حاجت بیاں ہے جو کچھ ہے سب عیاں ہے

 

رنگ گلال منہ پر ایسا بہار دے ہے

جوں آفتاب تاباں زیر شفق نہاں ہے

 

کیسر میں اس طرح سے آلودہ ہے سراپا

سنتے تھے ہم سو دیکھا تو شاخ زعفراں ہے

 

آپ ہی میں دیکھ حاتمؔ وحدت کے بیچ کثرت

تو ایک و ایک جا ہے اور دل کہاں کہاں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ابر میں یاد یار آوے ہے

گریہ بے اختیار آوے ہے

 

باغ سے گل عذار آوے ہے

بوئے گل پر سوار آوے ہے

 

اے خزاں بھاگ جا چمن سے شتاب

ورنہ فوج بہار آوے ہے

 

اے صبا کس طرف کو گزری تھی

تجھ سے بوئے نگار آوے ہے

 

مجھ ہوا خواہ سے گریز سو کیوں

تجھ کو کیا مجھ سے عار آوے ہے

 

سن کے کہنے لگے کسی کے کوئی

کا ہے کو بار بار آوے ہے

 

اس قدر بسکہ روز ملنے سے

خاطروں میں غبار آوے ہے

 

میں تو کیا حاتمؔ ایسے بد خو سے

کس کو صحبت برآر آوے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اس دکھ میں ہائے یار یگانے کدھر گئے

سب چھوڑ ہم کو غم میں نہ جانے کدھر گئے

 

جو اس پری کو شیشۂ دل میں کرے تھے بند

وے علم عاشقی کے سیانے کدھر گئے

 

فوجیں جنوں کی دیکھ کے یک بارگی سبھی

اس ملک دل سے عقل کے تھانے کدھر گئے

 

معلوم ہے کسو کو کہ وہ آج شعلہ خو

ہم کو جلا کے آگ لگانے کدھر گئے

 

ڈھونڈا بہت پا ہم نے نہ پایا انہوں کا کھوج

دل کو چرا کے ہم سے چھپانے کدھر گئے

 

حاتمؔ کے دل کو مصرع اول نے خوں کیا

اس دکھ میں ہائے یار یگانے کدھر گئے

٭٭٭

 

 

 

 

اوقات شیخ گو کہ سجود و قیام ہے

میرے کنے تو ایک خدا ہی کا نام ہے

 

ہر صبح اٹھ بتوں سے مجھے رام رام ہے

زاہد تری نماز کو میرا سلام ہے

 

تیری نگہ کے دور میں ایسا ہوا ہوں مست

ساغر سے مجھ کو آنکھ ملانا حرام ہے

 

ہم اور تیری شکایتیں ظالم خدا سے ڈر

بہتان ہے غلط ہے یہ محض اتہام ہے

 

دن کو نہ بھوک ہے نہ مجھے رات کو ہے نیند

اس روزگار میں یہ مری صبح و شام ہے

 

مرتا ہوں آ کے دیکھ ترے انتظار میں

ورنہ سنے گا اب کوئی دم کو تمام ہے

 

قاصد کہاں چلا ہے مجھے بھی خبر تو دے

یک دم تو بیٹھ جا کہ مجھے تجھ سے کام ہے

 

تجھ کو قسم خدا کی جو جاتا ہے اس طرف

تو بھولیو نہ اتنا ہی میرا پیام ہے

 

قاصد سے اس نے سن کے حقیقت کہا کہ واہ

کیا خوب اس سخن کا کوئی یہ مقام ہے

 

کہنا اسے یہی تو کہ اے بو الہوس ہنوز

عاشق ہوا تو پر یہ ترا عشق خام ہے

 

معشوق کی جناب میں کوئی بھی بے ادب

بولا ہے اس طرح سے جو تیرا کلام ہے

 

کہیو مری طرف سے نہ پہنچا مرا جواب

اتنا دماغ کیا ترا حاتمؔ غلام ہے

٭٭٭

 

 

 

 

باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے

غنچۂ دل مرا بکستا ہے

 

ارے بے مہر مجھ کو روتا چھوڑ

کہاں جاتا ہے مینہ برستا ہے

 

تیرے ماروں ہوؤں کی صورت دیکھ

میرا مرنے کو جی ترستا ہے

 

تیری تروار سے کوئی نہ بچا

اب کمر کس اوپر تو کستا ہے

 

کیوں مزاحم ہے میرے آنے سے

کوئی ترا گھر نہیں یہ رستا ہے

 

میری فریاد کوئی نہیں سنتا

کوئی اس شہر میں بھی بستا ہے

 

حاتمؔ اس زلف کی طرف مت دیکھ

جان کر کیوں بلا میں پھنستا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پھر خبر اس فصل میں یارو بہار آنے کی ہے

اب بجز زنجیر کیا تدبیر دیوانے کی ہے

 

خاک کر دیوے جلا کر پہلے پھر ٹسوئے بہائے

شمع مجلس میں بڑی دل سوز پروانے کی ہے

 

بھید زلفوں کا بیاں کرنے میں ہو جاتا ہے گنگ

ورنہ کہنے کو جو پوچھو سو زباں شانے کی ہے

 

شیخ اس کی چشم کے گوشے سے گوشے ہو کہیں

اس طرف مت جاؤ ناداں راہ مے خانے کی ہے

 

حوصلہ تنگی کرے ہے شہر کے کوچے ہیں تنگ

اب ہوس دل میں ہمارے سیر ویرانے کی ہے

 

چاہئے کیا بات کہتے ہو جہاں میں قتل عام

دیر منہ سے اب تمہارے حکم فرمانے کی ہے

 

جی میں آتا ہے کہ حاتمؔ آج اس کو چھیڑئیے

مدتوں سے دل میں حسرت گالیاں کھانے کی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ترا دل یار اگر مائل کرے ہے

تو جان اب تجھ کو صاحب دل کرے ہے

 

تجلی کو نہیں تکرار ہرگز

یہاں تکرار اب جاہل کرے ہے

 

رعایت بوجھ تو معشوق کا جور

کہ تجھ کو عشق میں کامل کرے ہے

 

تو کھو مت دین کو دنیا کے پیچھے

کوئی یہ کام بھی عاقل کرے ہے

 

بڑی دشمن تری غفلت ہے ہر دم

کہ تجھ کو موت سے غافل کرے ہے

 

کوئی دن کو چلے اور قاصد عمر

یہ رات اور دن میں دو منزل کرے ہے

 

کسی کو کام میں تیرے نہیں درک

عبث حاتمؔ کو تو شامل کرے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تری بھواں کی تیغ جب آئی نظر مجھے

کرنا ہوا ضرور میاں ترک سر مجھے

 

زینت ہے عاشقوں کو لب خشک و چشم تر

حاصل ہوئی ہے سلطنت بحر و بر مجھے

 

باریک بیں ہوں مجھ سے کہو اس میاں کی بات

رہتا ہے بسکہ دل میں خیال کمر مجھے

 

بے خود ہوں اس قدر کہ نہیں دل کو شوق مے

اس مست کہ نگہ کا ہوا ہے اثر مجھے

 

میں کوہ و دشت ایک قدم میں کیا ہے طے

مجنوں و کوہ کن کی نہیں کچھ خبر مجھے

 

جب سیم بر کے غم سے ہوا رنگ جوں طلا

تب سب نے جا عزیز کیا مثل زر مجھے

 

حاتمؔ ہوا ہوں آل نبی کی پناہ میں

دنیا و دیں کے غم سے نہیں کچھ خطر مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

تمہارے عشق میں ہم ننگ و نام بھول گئے

جہاں میں کام تھے جتنے تمام بھول گئے

 

نمازیوں نے تجھ ابرو کو دیکھ مسجد میں

بہ سمت قبلہ سجود و قیام بھول گئے

 

یہ وضع کیا ہے کہ ہوتے نہیں ہو دست بسر

ابھی سے اپنوں کا لینا سلام بھول گئے

 

گئے تھے زعم میں اپنے پر اس کو دیکھتے ہی

جو دل نے ہم سے کہے تھے پیام بھول گئے

 

تری طرف ہوئی صورت گران چیں کی نگاہ

قلم کو ہاتھ سے رکھ اپنا کام بھول گئے

 

بتان چرب زباں سن کے خوبئ گفتار

ادب میں دب گئے حسن کلام بھول گئے

 

تری اے سرو رواں دیکھ کر انوکھی چال

جو خوش خرام تھے اپنا خرام بھول گئے

 

تری یہ زلف گرہ گیر دیکھ کر صیاد

شکار آپ ہوئے صید و دام بھول گئے

 

بڑا غضب ہے کہ حاتمؔ کو تم نہ پہچانا

وہی قدیم تمہارا غلام بھول گئے

٭٭٭

 

 

 

 

تو جو کہتا ہے بولتا کیا ہے

امر ربی ہے روح مولا ہے

 

جب تلک ہے جدا تو ہے قطرہ

بحر میں مل گیا تو دریا ہے

 

فی الحقیقت کوئی نہیں مرتا

موت حکمت کا ایک پردا ہے

 

اور شریعت کی پوچھتا ہے تو یار

وحدہ لا شریک یکتا ہے

 

ہے گا وہم و قیاس سے باہر

وہ نہ تجھ سا ہے اور نہ مجھ سا ہے

 

جہاں ہو جو کہو سمیع و بصیر

سب کو دیکھے ہے سب کی سنتا ہے

 

نظر آتا نہیں وہ اعمیٰ کو

ورنہ اس کا ظہور سب جا ہے

 

ور طریقت کا تو کرے ہے سوال

سو تو کہتا ہوں گر سمجھتا ہے

 

غیر حق کے نہ دیکھ غیر طرف

دیدۂ دل جو تیرا بینا ہے

 

بات سنتا ہے تو اسی کی سن

گر طریقت سے تجھ کو بہرا ہے

 

اس کے تو ذکر بن نہ کر کچھ ذکر

گر دہاں میں زبان گویا ہے

 

ہاتھ سے کام بھی اسی کا کر

پاؤں سے چل جو راہ اس کا ہے

 

کام اس میں بڑا ہے نفس کشی

ہو سکے تو عجب تماشا ہے

 

معرفت پوچھ کیا ہے عارف سے

جس کو عرفان ہے سو تو گوں گا ہے

 

جس نے پایا اسے سو ہے خاموش

جس نے پایا نہیں سو بکتا ہے

 

آپ ہی آپ ہے جہاں دیکھو

کل شی محیط پیدا ہے

 

عشق کا مرتبہ ہے سب سے بلند

سر سے پہلے قدم گزرتا ہے

 

جو ہوا سر عشق سے آگاہ

آگے مرنے سے آپ مرتا ہے

 

جو فنا ہو ہوا بقا باللہ

کب اسے زندگی کی پروا ہے

 

اس کو ہر آن ہر قدم ہر دم

از ثریٰ سیر تا ثریا ہے

 

رمز توحید کو سمجھ کر بول

گر تو صاحب شعور و دانا ہے

 

وہ نہ سمجھے گا یہ سخن حاتمؔ

جس کو جہل اور خیال سودا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تو دیکھ اسے سب جا آنکھوں کے اٹھا پردے

مانند سویدا کے دل بیچ اسے گھر دے

 

عالم کے مرقع میں تصویر اسی کی ہے

سب حسن یہاں یارو اس حسن کے ہیں گردے

 

صیاد کا شرمندہ ہوں بے پر و بالی سے

اڑ کر ابھی جا پہنچوں جو مجھ کو خدا پر دے

 

ساقی تجھے کم ظرفی مستوں سے نہیں لازم

ترسا نہ مجھے کافر ساغر کے تئیں بھر دے

 

بزم دل مشتاقاں جوں شام غریباں ہے

یک جلوہ میں تو روشن آ شمع صفت کر دے

 

ہم عرض کیا اس کی خدمت میں کہ اے صاحب

اتنے ترے بندوں میں ایک ہم بھی ہیں نو وردے

 

دولت سے تری سب کچھ ہم پاس مہیا ہے

لب خشک و جگر بریاں چشم تر و دل سر دے

 

حاتمؔ وہ لگا کہنے غصے سے کہ چل جھوٹھے

بندا میں اسے جانوں جو پہلے قدم سر دے

 

ہشیار کروں حاتمؔ مستوں کو نگاہوں میں

قطرہ مئے وحدت سے جو ساقی کوثر دے

٭٭٭

 

 

 

 

توبہ زاہد کی توبہ تلی ہے

چلے بیٹھے تو شیخ چلی ہے

 

دل میں ہے مکر و ہاتھ میں تسبیح

یہ عبادت نہیں چبلی ہے

 

ریش ہے یہ کہ شاخ شانہ ہے

جس کی رندوں کے بیچ کھلی ہے

 

پگڑی اپنی یہاں سنبھال چلو

اور بستی نہ ہو یہ دلی ہے

 

سگ شیر خدا ہے تو حاتمؔ

خارجی تیرے آگے بلی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جب وہ عالی دماغ ہنستا ہے

غنچہ کھلتا ہے باغ ہنستا ہے

 

ہاتھ میں دیکھ کر ترے مرہم

میرے سینے کا داغ ہنستا ہے

 

کیا ہوا پھر گئی ہے گلشن کی

صوت بلبل کو زاغ ہنستا ہے

 

شمع ہر شام تیرے رونے پر

صبح دم تک چراغ ہنستا ہے

 

شیخ کی دیکھ صورت تقویٰ

آج حاتمؔ ایاغ ہنستا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جنبش دل نہیں بے جا تو کدھر بھولا ہے

کوئی لڑکا اسے گہوارہ سمجھ جھولا ہے

 

خون تو نے جو بہایا ہے سیہ بختوں کا

تیرے کوچے میں عجب شام و شفق پھولا ہے

 

خوب رندوں نے اڑائے ہیں مزے دنیا کے

ہیز کو بکر ہے مردوں کی وہ مدخولا ہے

 

بہتر ہے عشق مجازی تجھے بیکاری سے

جب تلک عشق حقیقی ہو یہ مشغولا ہے

 

پائے ہمت تو مرا لنگ نہیں ہے حاتمؔ

گو مرے کام کے تئیں دست فلک لولا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جو کوئی کہ یار و آشنا ہے

رخصت کی مری اسے دعا ہے

 

کیا بیٹھا ہے راہ میں مسافر

چلنا ہی یہاں سے پیش پا ہے

 

امروز جو ہو سکے سو کر لے

فردا کی خبر نہیں کہ کیا ہے

 

معشوق تو بے وفا ہیں پر عمر

ان سے بھی زیادہ بے وفا ہے

 

دنیا میں تو خوب گزری حاتم

عقبیٰ میں بھی دیکھیے خدا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جو مرے ہم عصر ہم صحبت تھے سو سب مر گئے

اپنی اپنی عمر کا پیمانہ ہر یک بھر گئے

 

پوچھتے کیا ہو گناہوں کے گرفتاروں کا حال

خشک زاہد تھے سو اس جاگہ سے دامن تر گئے

 

ہاتھ سے صیاد کے ثابت نہ چھوٹا ایک صید

بال و پر رکھتے تھے سو بے بال اور بے پر گئے

 

یہ قمار عشق ہے اے بو الہوس بازی نہ جان

سر گئے بہتوں کے اور بہتوں کے اس میں گھر گئے

 

ہم نے ہستی اور عدم کی آ کے کی ہے خوب سیر

رسم و آئیں دیکھ ان لوگوں کا از بس ڈر گئے

 

ایک جو آیا اسے لے گود میں دی گھر میں جا

دوسرے کو کاڑھ کر گھر سے زمیں میں دھر گئے

 

تم کہو اپنی میاں حاتمؔ کہ ہو کس فکر کی

اور جو آئے جنے جیسی بنی سو کر گئے

٭٭٭

 

 

 

 

دیکھ بنیاد رب کی آدم ہے

جان لے گا اگر تو محرم ہے

 

سب صفت اوس کی دیکھ لے ان میں

کہہ تو بندہ خدا سے کیا کم ہے

 

ہر نفس کیوں کہیں ہیں صاحب دم

کہ جہاں بیچ عمر دو دم ہے

 

پاس ہے اور نظر نہیں آتا

میرے وحشی میں اس قدر رم ہے

 

تیرے بندے ہیں سب ولے سب میں

بندۂ کمترین حاتمؔ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دیکھنا اس کی تجلی کا جسے منظور ہے

سنگ ریزہ بھی نظر میں اس کی کوہ طور ہے

 

ہم سے ہم چشمی انا الحق کو کہاں مقدور ہے

اشک ہر یک دار مژگاں پر مرے منصور ہے

 

نحن اقرب کی نہیں ہے رمز سے تو آشنا

ورنہ وہ نزدیک ہے تو آپ اس سے دور ہے

 

ہجر کی شب کو اگر کاٹے تو پھر ہے روز وصل

نیش کے پردے میں دیکھا نوش بھی مستور ہے

 

کیا ہوا واعظ کرے ہے شور جوں طبل تہی

وہ سر بے مغز گویا کانسۂ طنبور ہے

 

آج ہمیں اور ہی نظر آتا ہے کچھ صحبت کا رنگ

بزم ہے مخمور اور ساقی نشے میں چور ہے

 

روز و شب رہتا ہے تیری یاد میں عاشق کا دل

گو مقصر ہے تری خدمت سے گو معذور ہے

 

آرزو ہے رات اندھیری میں کہ آوے ماہ رو

جس کے آگے روشنائی شمع کی بے نور ہے

 

خاکساروں کو کبھو لاتا نہیں خاطر میں وہ

حسن کی دولت پر اپنے اس قدر مغرور ہے

 

عشق ہے دار الشفا اور درد ہے اس کا طبیب

جو نہیں اس مرض کا طالب سدا رنجور ہے

 

اب تلک حاتمؔ سے تو واقف نہیں افسوس یار

شاعری کے فن میں وہ آفاق میں مشہور ہے

٭٭٭

 

 

 

 

رونا وہی جو خوف الٰہی سے روئیے

سونا وہی جو اس کے تصور میں سوئیے

 

کپڑے سفید دھو کے جو پہنے تو کیا ہوا

دھونا وہی جو دل کی سیاہی کو دھوئیے

 

دہقاں کی طرح دانہ زمین میں نہ بو عبث

بونا وہی جو تخم عمل دل میں بوئیے

 

کھویا گیا ہے شیخ قیامت کے وہم میں

کھونا وہی کہ آپ کو آپ ہی میں کھوئیے

 

حاتمؔ تو گو کہ خاک ہوا کیمیا کہاں

ہونا وہی جو خاک سے اکسیر ہوئیے

٭٭٭

 

 

 

 

سب مخالف جب کنارے ہو گئے

ہم میں اور اس میں اشارے ہو گئے

 

آئے اور بیٹھے نہ کچھ شکوہ نہیں

یہ غنیمت ہے کہ بارے ہو گئے

 

جب چڑھ آئی رو بہ رو فوج جنوں

ہم بھی سنمکھ ہو اتارے ہو گئے

 

ہجر نے اس کو جلایا اس قدر

داغ سینے پر انگارے ہو گئے

 

جانتے تھے اپنے ہم ہوش و حواس

یک نگہ میں سب تمہارے ہو گئے

 

چشم تو تیغے تھے آگے ہی میاں

سرمہ دینے سے دو دھارے ہو گئے

 

کان کے موتی تری زلفوں میں رات

خلق کی نظروں میں تارے ہو گئے

 

جب ہوئے حاتمؔ ہم اس سے آشنا

دوست بھی دشمن ہمارے ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

شیخ تو تو مرید ہستی ہے

مئے غفلت کی تجھ کو مستی ہے

 

طوف دل چھوڑ جائے کعبہ کو

بسکہ فطرت میں تیری پستی ہے

 

کیوں چڑھے ہے گدھے، گدھے اوپر

تیری داڑھی کو خلق ہنستی ہے

 

تیری تو جان میرے مذہب میں

دل پرستی خدا پرستی ہے

 

بے خود اس دور میں ہیں سب حاتمؔ

ان دنوں کیا شراب سستی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

طریقت میں اگر زاہد مجھے گمراہ جانے ہے

مرے دل کی حقیقت کو مرا اللہ جانے ہے

 

وہ بے پروا مرا کب امتیاز چاہ جانے ہے

مری حالت کو دل اور دل کی حالت آہ جانے ہے

 

اسے جو دیکھتا ہے دن کو سو خورشید جانے ہے

جو گھر سے رات کو نکلے تو عالم ماہ جانے ہے

 

ہماری بات کو وہ عاقبت نا فہم کیا مانے

جو بد خواہوں کو اپنے اپنا دولت خواہ جانے ہے

 

مرا دل بار عشق ایسا اٹھانے میں دلاور ہے

جو اس کے کوہ دوں سر پر تو اس کو کاہ جانے ہے

 

ہمیں دیر و حرم شیخ و برہمن سے نہیں مطلب

ہمارا دل تو اپنے دل کو بیت اللہ جانے ہے

 

وہ وحشی اس قدر بھڑکا ہے صورت سے مرے یارو

کہ اپنے دیکھ سائے کو مجھے ہم راہ جانے ہے

 

کہیں ہم بحر بے پایان غم کی ماہیت کس سے

نہ لہروں سے کوئی واقف نہ کوئی تھاہ جانے ہے

 

خدا کے واسطے انصاف کیجو کیا تماشہ ہے

میں اس کا خیر خواہ اور وہ مجھے بد خواہ جانے ہے

 

اگر وہ فتنہ جو تجھ سے ملے حاتمؔ تو کہہ دیجو

کہ منصوبے ترے سب بندۂ درگاہ جانے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

عاشقوں کے سیر کرنے کا جہاں ہی اور ہے

ان کے عالم کا زمین و آسماں ہی اور ہے

 

پوچھتا پھرتا ہے کیا ہر ایک سے ان کا سراغ

لا مکاں ہیں ان کو رہنے کا مکاں ہی اور ہے

 

آزمائش ان کی وضعوں کا تجھے ہے گا ضرر

یہ وہ فرقہ ہے کہ ان کا امتحاں ہی اور ہے

 

کیا خریدے گا خراب آباد کے بازار میں

درد کی ہو جنس جس میں وہ دکاں ہی اور ہے

 

سنگ و گل کا طوف ہو تجھ کو مبارک حاجیو

حضرت دل کے حرم کا کارواں ہی اور ہے

 

بیٹھنے کو شاخ طوبیٰ پر نہیں کرتیں نگاہ

اس چمن کی بلبلوں کا آشیاں ہی اور ہے

 

اس کو کیا نسبت کسی افسانۂ و قصے کے ساتھ

عشق کے دفتر کی حاتمؔ داستاں ہی اور ہے

٭٭٭

 

 

 

 

عشق کے شہر کی کچھ آب و ہوا اور ہی ہے

اس کے صحرا کو جو دیکھا تو فضا اور ہی ہے

 

تجھ سے کچھ کام نہیں دور ہو آگے سے نسیم

وا کرے غنچۂ دل کو وہ صبا اور ہی ہے

 

نبض پر میری عبث ہاتھ تو رکھتا ہے طبیب

یہ مرض اور ہے اور اس کی دوا اور ہی ہے

 

گل تو گلشن میں ہزاروں نظر آئے لیکن

اس کے چہرے کو جو دیکھا تو صفا اور ہی ہے

 

زاہدو ورد وظائف سے نہیں حاصل کار

جس کو ہو حسن اجابت وہ دعا اور ہی ہے

 

اے جرس ہرزہ درا ہو نہ تو اتنا چپ رہ

پہنچے پس ماندہ بہ منزل وہ صدا اور ہی ہے

 

محتسب ہم سے عبث کینہ رکھے ہے حاتمؔ

جو نشہ ہم نے پیا ہے وہ نشا اور ہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

فکر میں مفت عمر کھونا ہے

ہو چکا ہے جو کچھ کہ ہونا ہے

 

کھیل سب چھوڑ کھیل اپنا کھیل

آپ قدرت کا تو کھلونا ہے

 

آنکھ ٹک کھول دید قدرت کر

پھر تو پاؤں پسار سونا ہے

 

چپ رہا کر بڑوں کی مجلس میں

یہ بھی ایک عافیت کا کونا ہے

 

میرا معشوق ہے مزوں میں بھرا

کبھو میٹھا کبھو سلونا ہے

 

چھل بل اس کی نگاہ کا مت پوچھ

سحر ہے ٹوٹکا ہے ٹونا ہے

 

رو تو حاتمؔ ‘حسین’ کے غم میں

اور رونا تو رانڈ رونا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کلیجا منہ کو آیا اور نفس کرنے لگا تنگی

ہوا کیا جان کو میری ابھی تو تھی بھلی چنگی

 

ذقن کی چاہ میں یہ سبزئ خط زہر قاتل ہے

پری ہے بھانگ کوئے میں نہ ہو کیوں خلق چت بھنگی

 

جہاں کی طرح سو سو رنگ پل پل میں بدلتا ہے

کبھو کچھ ہے کبھو کچھ ہے کبھو کچھ ہے وہ بہو رنگی

 

ترے رخسار سے بے طرح لپٹی جائے ہے ظالم

جو کچھ کہیے تو بل کھا الجھتی ہے زلف بے ڈھنگی

 

غریبوں کا خدا حافظ ہے حاتمؔ دیکھیے کیا ہو

کہ وہ ہے چور کیفی ہاتھ میں شمشیر ہے ننگی

٭٭٭

 

 

 

 

کہیں وہ صورت خوباں ہوا ہے

کہیں وہ عاشق حیراں ہوا ہے

 

کہیں گل ہے کہیں بلبل کہیں باغ

کہیں درد و کہیں درماں ہوا ہے

 

کہیں مست و کہیں ہشیار ہے وہ

کہیں دانا کہیں ناداں ہوا ہے

 

کہیں خاک و کہیں باد و کہیں آب

کہیں وہ آتش سوزاں ہوا ہے

 

کہیں لفظ و کہیں معنی کہیں حرف

کہیں پوتھی کہیں قرآں ہوا ہے

 

کہیں نور و کہیں ایمن کہیں طور

کہیں موسیٰ کہیں عمراں ہوا ہے

 

کہیں مسجد کہیں بت خانہ ہے وہ

کہیں کفر و کہیں ایماں ہوا ہے

 

کہیں خلق او کہیں خلاق عالم

کہیں ظاہر کہیں پنہاں ہوا ہے

 

کہیں حاتمؔ کہیں جاں بخش حاتمؔ

کہیں حاتمؔ کا جا مہماں ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کیا اس کی صفت میں گفتگو ہے

جیسا تھا وہی ہے جو تھا سو ہے

 

آنکھیں ہیں تو دیکھ لے کہوں کیا

حاضر ناظر ہے روبرو ہے

 

یک بین کی نظر میں ایک ہے گا

احوال کی نگہ میں گو کہ دو ہے

 

تو سیر کرے ہے جس چمن کی

ہر گل میں صبا اسی کی بو ہے

 

وہ تجھ میں ہے تو ہے اسی میں ہر دم

کیا اس کا سراغ و جستجو ہے

 

اے شیخ تو اس کی کچھ حقیقت

مت پوچھ یہ سر گو مگو ہے

 

اپنی اپنی سی سب کہیں ہیں

کب عقدہ یہ حل کسو سے ہو ہے

 

یہ مسئلہ لا جواب ہے گا

چپ رہنا یہاں ہماری خو ہے

 

چالیس برس ہوئے کہ حاتمؔ

مشاق قدیم و کہنہ گو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کیا ہوا گر شیخ یارو حاجی الحرمین ہے

طوف دل کا حق میں اس کے دین فرض عین ہے

 

رات دن جاری ہیں کچھ پیدا نہیں ان کا کنار

میرے چشموں کا دو آبا مجمع البحرین ہے

 

غیر جاوے اس کے گھر اور وہ نہ آوے گھر مرے

دونوں باتیں دوستاں حق میں مرے خبرین ہے

 

وقت فرصت دے تو مل بیٹھیں کہیں باہم دو دم

ایک مدت سے دلوں میں حسرت طرفین ہے

 

آؤ اے ساقی شتابی آ کے شمع بزم ہو

ساری مجلس انتظاری میں تری بے چین ہے

 

دو قرن گزرے اسی فکر سخن میں روز و شب

ریختے کے فن میں حاتمؔ آج ذوالقرنین ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کیونکہ دیوانہ بیڑیاں توڑے

اس کو جانے ہے پاؤں کے توڑے

 

سب نے موڑا ہے منہ خدا نہ کرے

تیری تروار ہم سے منہ موڑے

 

تیرے کوچے میں سر شہیدوں کے

ہیں پڑے جیسے باٹ کے روڑے

 

ظرف ٹوٹا تو وصل ہوتا ہے

دل کوئی ٹوٹا کس طرح جوڑے

 

ایک پرواز میں دکھاؤں پر

جو وہ صیاد میرے تئیں چھوڑے

 

کوہ کن جاں کنی ہے مشکل کام

ورنہ بہتیرے ہیں پتھر پھوڑے

 

ہر گھڑی ہم کو آزمانا کیا

چاہنے والے اور ہیں تھوڑے

 

قتل کرتا ہے تو جو حاتمؔ کو

کون اٹھاوے گا تیرے نکتوڑے

٭٭٭

 

 

 

 

گزک کی اس قدر اے مست تجھ کو کیا شتابی ہے

ہمارا بھی دل صد لخت دوکان کبابی ہے

 

نہیں جز قرص مہر و ماہ کچھ گردوں کے مطبخ میں

سو وہ بھی ایک نان سوختہ اور ایک آبی ہے

 

چھڑا مشاطہ زلف یار کو شانے کے نیچے سے

کہ اس کی کشمکش سے دل کو میرے پیچ و تابی ہے

 

بدن پر کچھ مرے ظاہر نہیں اور دل میں سوزش ہے

خدا جانے یہ کس نے راکھ اندر آگ دابی ہے

 

شکست آتی ہے اس میں موج مے سے دیکھیو ساقی

بچانا ٹھیس سے شیشہ مرے دل کا حبابی ہے

 

رہے ہے کام ہم کو روز و شب قرآن و مسجد سے

کہ ابرو اس کی ہے محراب اور چہرا کتابی ہے

 

کسو کے ابلق ایام چڑھنے کا نہیں راضی

ازل سے حاتمؔ اس توسن میں عیب بدر کابی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

گل کی اور بلبل کی صحبت کو چمن کا شانہ ہے

سرو ہے جوں شمع تس پر فاختہ پروانہ ہے

 

روز و شب یا نوحہ یا زاری ہے یا آہ و فغاں

یا الٰہی یہ کوئی دل ہے کہ ماتم خانہ ہے

 

تن کر اس کی تیغ کے آگے ہوا ہے سر بکف

ہے قیامت ہے غضب یہ دل ہے یا دیوانہ ہے

 

بلبل تصویر کی مانند صید دل کے تئیں

نے ہوا اڑنے کی نے پروائے آب و دانہ ہے

 

ایک حالت پر نہ دیکھا اس کو ہم نے ایک آن

گہ گل و گہ بلبل و گہ شمع و گہ پروانہ ہے

 

معتکف ہو شیخ اپنے دل میں مسجد سے نکل

صاحب دل کی بغل میں دل عبادت خانہ ہے

 

مے کشو مجھ کو تمہاری بزم کی حسرت نہیں

پاس میرے دیدہ و دل شیشہ و پیمانہ ہے

 

خواب میں تھے جب تلک تھا دل میں دنیا کا خیال

کھل گئیں آنکھیں تو دیکھا ہم نے سب افسانہ ہے

 

شعر استادانہ و حاتمؔ ہے بے باکانہ وضع

طبع آزادانہ و اوقات درویشانہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے کیا دیکھ کر تو تک رہا ہے

ترے ہاتھوں کلیجہ پک رہا ہے

 

جہاں کیونکر نہ ہو نظروں میں تاریک

ترا منہ زلف نیچے ڈھک رہا ہے

 

تمہاری نا قدر دانی کا افسوس

ہمارے جی میں مرتے تک رہا ہے

 

خدا کے واسطے اس سے نہ بولو

نشے کی لہر میں کچھ بک رہا ہے

 

پھرا اب تک نہیں حاتمؔ کا قاصد

خدایا راہ میں کیا تھک رہا ہے

٭٭٭

ماخذ:

ریختہ ڈاٹ آرگ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل