FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

انتخاب نیر مسعود

 

 

 

 

                   نیر مسعود

 

ترتیب: اجمل کمال

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

تعارف

 

’’16نومبر1936 تاریخ پیدائش ہے (بہ مقام ’’ادبستان‘‘لکھنؤ)، ادبی تربیت والد مرحوم پروفیسر سیّد مسعود حسن رضوی ادیب کے زیر سایہ ہوئی۔ گھر کے کتب خانے میں کلاسیکی ادب کی کتابیں تھیں۔ مکان سے متصل الطاف فاطمہ صاحبہ کا مکان تھا، ان کے یہاں بچوں کے رسالے ’’پھول‘‘ اور ’’پیام تعلیم‘‘ وغیرہ آتے تھے اور بچوں کی کتابوں کا بھی بڑا اچھا ذخیرہ تھا۔ مطالعے کا شوق ان دونوں کتب خانوں سے پورا ہوتا تھا۔ بچپن میں نظمیں اور ڈرامے لکھتا تھا۔ کچھ چیزیں بچوں کے رسالوں میں شائع ہوئیں۔ 1957 میں فارسی ادب میں ایم اے کیا۔ پھر اردو اور فارسی میں پی ایچ ڈی کر کے لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں پڑھانے لگا، اور اب بھی پڑھا رہا ہوں۔ شمس الرحمٰن فاروقی کی دوستی نے ادب سے دل چسپی کو مہمیز کیا۔ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی بیشتر انھیں کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ سوا سو کے قریب مضامین وغیرہ اور چھوٹی بڑی گیارہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ افسانوں کی تعداد ایک درجن سے متجاوز نہیں ہے۔

1971 میں شادی ہوئی۔ چار بچے (ایک بیٹا، تین بیٹیاں ) ہیں۔‘‘

نیر مسعود

 

 

 

 

وقفہ

 

گذاشتیم و گذشیتم و بودنی ہمہ بود

شدیم و شد سخنِ ما فسانۂ اطفال

 

یہ نشان ہمارے خاندان میں پشتوں سے ہے۔ بلکہ جہاں سے ہمارے خاندان کا سراغ ملنا شروع ہوتا ہے وہیں سے اس کا ہمارے خاندان میں موجود ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح اس کی تاریخ ہمارے خاندان کی تاریخ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔

ہمارے خاندان کی تاریخ بہت مربوط اور قریب قریب مکمل ہے، اس لیے کہ میرے اجداد کو اپنے حالات محفوظ کرنے اور اپنا شجرہ درست رکھنے کا بڑا شوق رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاندان کی تاریخ شروع ہونے کے وقت سے لے کر آج تک اس کا تسلسل ٹوٹا نہیں ہے۔ لیکن اس تاریخ میں بعض وقفے ایسے آتے ہیں۔ ۔ ۔

 

میرا باپ ان پڑھ آدمی تھا اور معمولی پیشے کیا کرتا تھا۔ اسے کئی ہنر آتے تھے۔ بچپن میں تو مجھے یقین تھا کہ اسے ہر ہنر آتا ہے، لیکن اس کا اصل ہنر معماری کا تھا، اور یہی اس کا اصل پیشہ بھی تھا، البتہ اگر موسم کی خرابی یا کسی اور وجہ سے اس کو معماری کا کام نہ ملتا تو وہ لکڑی پر نقاشی یا کچھ اور کام کرنے لگتا تھا۔

میری پرورش اس کے زانوؤں پر ہوئی اور آنکھیں کھولنے کے بعد میں نے مدتوں تک صرف اسی کا چہرہ دیکھا۔ مجھے اپنی ماں یاد نہیں، حالانکہ مجھے اس وقت تک کی باتیں یاد ہیں جب میں دودھ پیتا بچہ تھا۔ اس وقت میں روتا بہت تھا لیکن میرا باپ مجھے بہلانے کے بجائے مجھ کو اپنے زانو پر لٹائے خاموشی کے ساتھ دیکھتا رہتا تھا یہاں تک کہ میں اس کا چہرہ دیکھتے دیکھتے آپ ہی آپ چپ ہو جاتا۔ ظاہر ہے میری پرورش تنہا اس نے نہیں کی ہو گی اس لیے کہ اسے کام پر بھی جانا ہوتا تھا، لیکن اس زمانے کی یادوں میں، جن کا کوئی بھروسا بھی نہیں، اپنے باپ کے سوا کسی اور چہرے کا نقش میرے ذہن میں محفوظ نہیں اور وہ بھی صرف اتنا کہ ایک دوہرے دالان میں وہ گردن جھکائے چپ چاپ مجھے دیکھ رہا ہے اور مجھ کو اس کے چہرے کے ساتھ اونچی چھت نظر آ رہی ہے جس کی کڑیوں میں سرخ اور سبز کاغذ کی بچی کھچی سجاوٹ جھول رہی ہے۔

 

جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا تو مجھے احساس ہونے لگا کہ میرا باپ دیر دیر تک گھر سے غائب رہتا ہے۔ یہ اس کا ایسا معمول تھا کہ جلد ہی مجھ کو گھر سے اس کے جانے اور واپس آنے کے وقتوں کا اندازہ ہو گیا۔ میں ان دونوں وقتوں پر، بلکہ ان سے کچھ پہلے ہی، ایک ہنگامہ کھڑا کر دیتا تھا۔ اس کے جاتے وقت میں صحن میں جمع ملبے کے ڈھیر میں سے اینٹوں کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر اسے مارتا رہتا یہاں تک کہ پڑوس کی کوئی خستہ حال بڑھیا آ کر مجھے گود میں اٹھا لیتی۔ ایسی عورتیں میرے مکان کے آس پاس بہت تھیں۔ جتنی دیر میرا باپ گھر سے باہر رہتا، ان میں سے ایک دو عورتیں میرے پاس موجود رہتیں۔ کبھی کبھی ان کے ساتھ میلے کچیلے بچے بھی ہوتے تھے۔ باپ کے جانے کے کچھ دیر بعد میرا غصہ کم ہو جاتا اور میں بڑھیوں سے کہانیاں سننے یا بچوں کے ساتھ کھیلنے میں لگ جاتا، لیکن اس کی واپسی کا وقت قریب آتا تو میرا مزاج پھر بگڑنے لگتا تھا۔ اور جیسے ہی وہ گھر کے صحن میں قدم رکھتا، میں لپک کر اس کی طرف جاتا اور اپنے چھوٹے چھوٹے کم زور ہاتھوں سے اسے مارنا شروع کر دیتا۔ اس وقت میرا باپ مجھ سے بھی زیادہ ہنگامہ کرتا اور اس طرح چیختا اور تڑپتا تھا گویا میں نے اس کی ہڈیاں توڑ پھوڑ کر رکھ دی ہیں۔ آخر میرا غصہ کم ہو جاتا اور میں اس کا علاج شروع کرتا۔ وہ تتلا تتلا کر مجھے بتاتا کہ اس کو کہاں کہاں پر چوٹیں آئی ہیں اور میں اس کے بدن کو کہیں دباتا، کہیں سہلاتا اور کہیں پر پھونکتا، اس کے فرضی زخموں سے بہتا ہوا فرضی خون پونچھتا اور خیالی شیشیوں سے خیالی دوائیں اس کے منھ میں انڈیلتا، جن کی کڑواہٹ ظاہر کرنے کے لیے وہ ایسے برے برے منھ بناتا کہ مجھے ہنسی آ جاتی تھی۔

اس وقت تک، بلکہ اس کے آخری وقت تک، مجھے علم نہیں تھا کہ وہ میرا حقیقی باپ ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ میرے خاندان کا کوئی پرانا ملازم ہے جس نے وفاداری کے ساتھ میری پرورش کی ہے۔ اس غلط فہمی کی ذمہ داری مجھ سے زیادہ خود اس پر تھی۔ اس کا برتاؤ میرے ساتھ واقعی ایسا تھا جیسے میں اس کا آقا زادہ ہوں۔ اس لیے میرا برتاؤ اس کے ساتھ برا تھا۔ لیکن میں اپنے وحشیانہ انداز میں اس سے محبت بھی کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کا بدن خراشوں سے کبھی خالی نہ رہتا۔

جب میں کچھ اور بڑا ہوا تو اس کا گھر سے نکلنا مجھے اور زیادہ ناگوار گزرنے لگا۔ اب میں کبھی اس کے اوزاروں کا تھیلا چھپا لیتا، کبھی اس میں سے کچھ اوزار نکال کر ان کی جگہ اینٹوں یا لکڑی کے ٹکڑے رکھ دیتا، یہاں تک کہ اس نے تھیلا ایک مچان پر چھپا کر رکھنا شروع کر یا۔ اور جب میں اس مچان تک بھی پہنچنے لگا تو ایک دن تھیلا غائب ہو گیا۔ اس کے بعد کئی دن تک میرا باپ گھر سے باہر نہیں نکلا، اور دوہرے دالان کی سرخ سبز سجاوٹ والی چھت کے نیچے بیٹھا لکڑی پر نقاشی کرتا رہا۔ اس میں اس کا انہماک ایسا تھا کہ میں اس کے کام میں مخل ہوتے ڈر رہا تھا، لیکن اس سے زیادہ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ جلد ہی وہ نقاشی کا کام چھوڑ دے گا اور اوزاروں کا تھیلا نکال کر پھر گھر سے باہر جانا شروع کر دے گا، اس لیے میں اس فکر میں لگ گیا کہ تھیلا تلاش کر کے اسے ہمیشہ کے لیے غائب کر دوں۔ اپنے باپ کو بتائے بغیر کہ مجھے کس شے کی تلاش ہے، میں تھیلے کو مکان کے ایک ایک حصے میں ڈھونڈتا پھرا۔ مکان کے اندرونی دالانوں میں زیادہ تر دروازے مقفل تھے اور مجھے پتا نہیں تھا کہ ان کے پیچھے کیا ہے۔ پرانی وضع کے زنگ آلود قفلوں کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ انھیں مدت سے کھولا نہیں گیا ہے بلکہ ان کی کنجیاں بھی کب کی غائب ہو چکی ہوں گی، اس لیے میں نے فیصلہ کر لیا کہ تھیلا ان دروازوں کے پیچھے نہیں ہے۔ لیکن مکان میں ایسے دروازے بھی بہت تھے جو مقفل نہیں تھے۔ ان کے پیچھے مجھے خالی کمرے اور کوٹھریاں نظر آئیں۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان میں کا سامان ہٹا کر حال ہی میں ان کی مرمت کی گئی ہے۔ بعض بعض کے فرش پر تو ابھی پانی تک موجود تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ میرا باپ گھر پر بھی کسی وقت معماری کا کام کرتا ہے۔ یہی تعجب کرتا ہوا میں مکان کی مغربی دیوار کے قریب ایک بڑے دروازے کے پاس پہنچ گیا۔ اس دروازے کے دونوں پٹوں پر لکڑی کی دو مچھلیاں ابھری ہوئی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے مکان میں کوئی ایسا دروازہ بھی ہے۔ میں دیر تک اس پر ہاتھ رکھے سوچتا رہا کہ اس کے پیچھے کیا ہو گا۔ مجھ کو یقین تھا کہ یہ کسی خالی کمرے کا دروازہ نہیں ہے۔ مزید یقین کے لیے میں نے اسے تھوڑا سا کھول کر اندر جھانکا۔ اوّل اوّل مجھ کو صرف لکڑی کے لمبے لمبے مچان نظر آئے۔ پھر میں نے دیکھا کہ ان مچانوں پر بہت بڑی بڑی کتابیں ترتیب کے ساتھ سجی ہوئی ہیں۔ میں نے ابھی پڑھنا شروع نہیں کیا تھا، تاہم مجھے ان کتابوں میں کچھ دل چسپی سی پیدا ہوئی اور انھیں قریب سے دیکھنے کے لیے میں دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ سامنے والی دیوار کے قریب فرش پر بھی کتابیں ڈھیر ہیں۔ انھیں نزدیک سے دیکھنے کے لیے میں آگے بڑھا اور کتابوں کی طرف سے میری توجہ ہٹ گئی۔ ڈھیر کے اُس طرف دیوار سے ملی ہوئی چٹائی پر ایک بوڑھا آدمی آنکھیں بند کیے چت پڑا ہوا تھا۔ پرانے کاغذوں کی خوشبو کے بیچ میں وہ خود بھی ایک بوسیدہ کتاب معلوم ہو رہا تھا۔

میں ایک قدم پیچھے ہٹا۔ دور پر میرے باپ کی ہتھوڑی کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دے رہی تھی اور میں چٹائی پر پڑے ہوئے آدمی کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اپنے بالوں اور لباس سے وہ مجھے کچھ فقیر سا معلوم ہوا۔ اسے اور غور سے دیکھنے کے لیے میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھکا ہی تھا کہ اس نے آنکھیں کھول دیں، کچھ دیر تک چپ چپ مجھ کو تکتا رہا، پھر اس کے ہونٹ ہلے۔

’’آؤ شہزادے‘‘ اس نے کہا، ’’سبق شروع کیا جائے ؟‘‘

پاگل! میں نے سوچا اور بھاگ کر اپنے باپ کے پاس آ گیا۔ وہ اسی طرح اپنے کام میں منہمک تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں چاندی کا تار لپٹا ہوا تھا اور داہنے ہاتھ میں ایک نازک سی ہتھوڑی تھی۔ لکڑی کی ایک ہشت پہل تھالی اس کے سامنے تھی جس پر اس نے طرح طرح سے مڑی ہوئی پتیاں ابھاری تھیں اور اب ان پتیوں کی باریک رگوں میں چاندی کا تار بٹھا رہا تھا۔ مجھے اپنے قریب محسوس کر کے اس نے گردن اٹھائی اور آہستہ سے مسکرایا۔

’’آئیے‘‘ ، وہ دھیرے سے بولا، ’’کہاں گھوم رہے تھے آپ؟‘‘

’’وہاں۔ ۔ ۔ وہ بڈھا کون ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’تو آپ نے اپنے استاد کو ڈھونڈھ نکالا‘‘ وہ بولا اور پھر پتیوں کی رگوں میں تار بٹھانے لگا۔

’’استاد؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’لیکن آپ ڈھونڈھ کیا رہے تھے ؟‘‘ جواب میں اس نے بھی پوچھا اور مجھے یاد آ گیا۔

’’تھیلا۔ ۔ ۔ !‘‘ میں نے کہا، ’’اوزاروں کا تھیلا کہاں ہے ؟‘‘

’’وہ آپ کو نہیں ملے گا۔‘‘

اب مجھے غصہ آنے لگا۔

’’کہاں ہے ؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔

’’نہیں ملے گا۔‘‘

مجھے اور غصہ آیا، لیکن اسی وقت اس نے پوچھا:

’’آج کون دن ہے ؟‘‘

میں نے اسی غچّے میں بتا دیا اور پھر پوچھا:

’’تھیلا کہاں ہے ؟‘‘

’’پرسوں سے آپ کا سبق شروع ہو گا‘‘ اس نے بڑے سکون کے ساتھ کہا۔ میں نے اسے برا بھلا کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ اس نے دونوں ہاتھ آگے بڑھا کر مجھے اپنے قریب کھینچ لیا۔ دیر تک وہ میرا چہرہ دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں امید اور افسردگی کی ایسی آمیزش تھی کہ میں اپنا سارا غصہ بھول گیا۔ اس کی مضبوط انگلیاں میری کلائی اور شانے میں گڑی جا رہی تھیں اور بدن دھیرے دھیرے لرز رہا تھا۔ اس حالت میں وہ مجھے ہمیشہ بہت اچھا معلوم ہوتا تھا۔

’’چھوڑ، بڈھے !‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا اور لکڑی کی منقّش تھالی پر ہلکی سی ٹھوکر لگائی۔ ایک پتّی کی رگ میں بیٹھا ہوا تار تھوڑا اکھڑ آیا اور میرے باپ نے جلدی سے مجھے چھوڑ دیا۔ اس کی انگلیوں میں لپٹے ہوئے تار نے میری کلائی پر جالی کا سا نقش بنا دیا تھا۔ میں نے کلائی اس کی آنکھوں کے سامنے کی۔ وہ تار کے نقش کو دیر تک سہلاتا اور پھونکتا رہا، پھر بولا:

’’پرسوں سے‘‘ ، اور پھر بولا، ’’پرسوں سے۔‘‘

 

 

 

 

                   2

 

سبق شروع ہونے کا خیال مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا تھا اس لیے دوسرے دن میں اپنے باپ سے خفا خفا سا رہا، لیکن شام ہوتے ہوتے مجھے اپنے استاد کے بارے میں تجسس پیدا ہوا، اور تیسرے دن میں اپنے باپ کے پیچھے پیچھے قدرے اشتیاق کے ساتھ مچھلیوں والے دروازے میں داخل ہوا۔ استاد چٹائی پر دو زانو بیٹھا ہوا تھا۔ باپ نے مجھے اس کے سامنے بٹھا دیا اور خود فرش پر ڈھیر کتابوں کو اٹھا اٹھا کر مچانوں پر سجانے لگا، یہاں تک کہ فرش پر صرف ایک کتاب پڑی رہ گئی۔

’’اسے آپ اٹھائیے، شاباش!‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔ مجھے یہ سب ایک دل چسپ تماشا معلوم ہو رہا تھا۔ کتاب کا وزن زیادہ تھا، تاہم میں نے اس کو اٹھا لیا اور باپ کے اشارے پر اسے استاد کے سامنے رکھ دیا۔ استاد کتاب پر ہاتھ رکھ کر آہستہ سے مسکرایا اور مجھے حیرت ہوئی کہ پرسوں وہ مجھ کو فقیر کیوں معلوم ہوا تھا۔

’’اِسے کھولو، شہزادے‘‘ اس نے کہا۔

کتاب کے چند ابتدائی صفحوں کو چھوڑ کر باقی ورق سادہ تھے۔ اس دن پہلے سادہ ورق پر استاد نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے کچھ لکھوایا۔ اتنی بڑی سی کتاب پر اپنے ہاتھ کی تحریر مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی۔ میں چاہتا تھا استاد مجھ سے کچھ اور لکھوائے لیکن میرے باپ نے دونوں ہاتھ آگے بڑھا کر مجھے اپنے قریب کھینچ لیا۔ اس کا بدن پھر دھیرے دھیرے لرز رہا تھا۔ اسی حالت میں دیر تک وہ استاد سے چپکے چپکے باتیں کرتا رہا، لیکن وہ دونوں معلوم نہیں کن اشاروں میں گفتگو کر رہے تھے کہ میری سمجھ میں ان کی ایک بات بھی نہیں آئی اور میں اپنے باپ کے ہاتھوں کے حلقے میں گھرا ہوا، مچانوں پر سجی بڑی بڑی کتابوں پر نظریں دوڑاتا رہا۔ آخر میرا باپ مجھے لے کر باہر آ گیا۔

اس کے بعد سے میرا زیادہ وقت استاد کے ساتھ گذرنے لگا اور میں اپنے باپ کو بھول سا گیا، یہاں تک کہ کچھ دن تک مجھے یہ بھی احساس نہیں ہوا کہ اس نے پھر سے اوزاروں کا تھیلا لے کر کام پر جانا شروع کر دیا ہے۔ مچھلیوں والے دروازے کے پیچھے موٹی کتابوں میں گھرا ہوا استاد مجھے ہر وقت موجود ملتا تھا۔ وہ شاید وہیں رہتا تھا۔ میں اکثر اسے دیکھتا کہ فرش پر ڈھیر کتابوں کے پاس آنکھیں بند کیے چت پڑا ہے اور فقیر معلوم ہو رہا ہے۔ میری آہٹ سن کر وہ آنکھیں کھولتا اور ہمیشہ ایک ہی بات کہتا:

’’آؤ، شہزادے، سبق شروع کیا جائے۔‘‘

لیکن اس نے مجھے پڑھایا کچھ نہیں، البتہ لکھنا بہت جلدی سکھا دیا۔ ہر روز لکھنے کی باقاعدہ مشق کرانے کے بعد مجھے اپنے سامنے بٹھا کر وہ بولنا شروع کرتا۔ کسی کسی دن وہ مجھے پرانے وقتوں اور دو  ر دراز کے علاقوں کی دل چسپ باتیں بتاتا، لیکن زیادہ تر وہ میرے اپنے شہر کے بارے میں باتیں کرتا تھا۔ وہ شہر کے مختلف محلّوں میں بسنے والے خاندانوں کا حال سناتا تھا کہ کس محلے کا کون خاندان کس طرح آگے بڑھا اور کیونکر تباہ ہوا اور اب اس خاندان میں کون کون لوگ باقی ہیں اور کس حال میں ہیں۔ یہ دل چسپ قصے تھے لیکن استاد انھیں بے دلی سے بیان کرتا تھا اس لیے وہ مجھے محض بے ربط ٹکڑوں کی طرح یاد رہ جاتے تھے، البتہ شہر کے محلوں کا ذکر وہ اس انداز سے کرتا تھا کہ ہر محلہ مجھے ایک انسان نظر آتا تھا جس کا مزاج اور کردار ہی نہیں، صورت شکل بھی دوسرے محلوں سے مختلف ہوتی تھی۔ جوش میں آ کر استاد یہ دعویٰ بھی کرنے لگتا تھا کہ وہ شہر کے کسی بھی آدمی کو دیکھتے ہی بتا سکتا ہے کہ وہ کس محلے کا رہنے والا ہے یا کن کن محلوں میں رہ چکا ہے۔ اس وقت میں اس کے اس دعوے پر ہنستا تھا لیکن اب دیکھتا ہوں کہ خود مجھ میں یہ صفت کچھ کچھ موجود ہے۔

کبھی کبھی استاد باتیں کرتے کرتے چٹائی پر چت لیٹ کر آنکھیں بند کر لیتا تو میں فرش پر ڈھیر کتابوں کے ورق الٹنے پلٹنے لگتا۔ انھیں ورق گردانیوں میں مجھے معلوم ہوا کہ میں پڑھ بھی سکتا ہوں۔ لیکن ہاتھ کی لکھی ہوئی وہ بھاری بھاری کتابیں میری سمجھ میں نہیں آئیں۔ ان میں بعض تو میری اپنی زبان ہی میں نہیں تھیں، بعض کی عبارتیں اور بعض کی تحریریں اتنی گنجلک تھیں کہ بہت غور کرنے پر بھی ان کا بالکل دھندلا سا مفہوم میرے ذہن میں آتا اور فوراً نکل جاتا تھا۔ ایسے موقعوں پر مجھے اپنے استاد پر غصہ آنے لگتا اور کئی مرتبہ میں نے اس سے بڑی بدتمیزی کے ساتھ بات کی۔ ایک بار وہ آنکھیں بند کیے چپ چاپ پڑا میری باتیں سن رہا تھا کہ اچانک میرے سر کے اندر چمک سی ہوئی۔ میں نے چلاّ کر کہا:

’’بہرا ہو گیا ہے، فقیر؟‘‘ اور ایک بھاری کتاب اٹھا کر اس کے سینے پر پھینک دی۔

اس کے دوسرے دن مجھے اپنے مکان کے قریب کی ایک چھوٹی سی درس گاہ میں پہنچا دیا گیا۔

اس کے بعد میں شہر کی مختلف درس گاہوں میں پڑھتا رہا۔ شروع شروع میں میرا باپ بڑی پابندی کے ساتھ مجھ کو درس گاہ تک پہنچاتا اور وہاں سے واپس لاتا تھا۔ چھٹی ہونے پر میں باہر نکلتا تو دیکھتا کہ وہ درس گاہ کے پھاٹک سے کچھ فاصلے پر کسی درخت کے تنے سے ٹیک لگائے خاموش کھڑا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ آگے بڑھتا، میری کتابیں سنبھالتا، اور کبھی کبھی مجھ کو بھی گود میں اٹھانے کی کوشش کرتا لیکن میں اسے نوچ کھسوٹ کر الگ ہو جاتا تھا۔ اگر کسی دن اسے آنے میں دیر ہو جاتی تو میں خوشی خوشی سیر کرتا ہوا تنہا گھر لوٹتا اور دوسرے دن اکیلے جانے کی ضد کرتا تھا۔ آخر رفتہ رفتہ میں نے تنہا جانا اور واپس آنا شروع کر دیا۔ پھر میں خالی وقت اور چھٹّی کے دنوں میں بھی گھر سے باہر نکلنے لگا اور اسی زمانے میں اچھی بری صحبتوں سے بھی آشنا ہوا۔ میں نے شہر کے ان تمام محلوں کے چکر لگائے جن کے بارے میں استاد بتاتا تھا کہ کون ریاکار ہے، کون بزدل، کون چاپلوس اور کون فسادی۔ انھیں گردشوں کے دوران ایک دن میں نے اپنے باپ کو بازار میں دیکھا۔

وہ بازار کے اس حصے میں کھڑا ہوا تھا جہاں ہر روز صبح کے وقت مزدور اور کاریگر کام کی تلاش میں آ کر جمع ہوتے تھے۔ اوزاروں کا تھیلا زمین پر اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں رکھے وہ آس پاس کے لوگوں سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہا تھا کہ اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ تھیلا زمین پر چھوڑ کر وہ لپکتا ہوا میری طرف آیا۔

’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’کچھ نہیں‘‘ میں نے جواب دیا۔

وہ کچھ دیر تک مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتا رہا، پھر بولا:

’’کوئی بات ہو گئی ہے ؟‘‘

’’کچھ نہیں‘‘ میں نے پھر کہا۔

’’ہمیں دیکھنے آئے تھے ؟‘‘ اس نے پوچھا، پھر خود ہی بولا، ’’ایسا ہی ہے تو ہمیں کام پر دیکھیے۔‘‘ پھر وہ آہستہ سے ہنسا۔

اسی وقت کسی مزدور نے اس کا نام لے کر پکارا اور وہ اپنے تھیلے کی طرف لوٹ گیا جہاں ادھیڑ عمر کا ایک شخص اس کے انتظار میں کھڑا ہوا تھا۔ اس نے میرے باپ سے کچھ پوچھا، پھر دیر تک اسے کچھ سمجھاتا رہا۔ وہ بار بار اپنے ہاتھوں سے ہوا میں محراب یا گنبد کی سی شکل بناتا تھا۔ اس کی انگلیوں میں بڑے بڑے نگینوں والی کئی انگوٹھیاں تھیں جنھیں وہ جلدی جلدی انگوٹھے سے گھماتا تھا۔ بہت سی آوازوں کے بیچ میں اس کی اونچی کھرکھراتی ہوئی آواز صاف سنائی دے رہی تھی لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ کچھ دیر بعد میرے باپ نے اوزاروں کا تھیلا اٹھایا اور اس شخص کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ مجھے خیال آیا کہ اس کے تھیلے میں کسی اوزار کی جگہ میرا رکھا ہوا لکڑی یا اینٹ کا ٹکڑا نہیں ہو گا۔ لیکن اس خیال سے مجھ کو خوشی کے بجائے کچھ افسردگی سی محسوس ہوئی۔ اس افسردگی پر مجھے تعجب بھی ہوا۔ میں سیدھا گھر واپس آ گیا، اور اگرچہ وہ پورا دن میں نے استاد کے ساتھ فضول بحثوں میں گذارا لیکن تمام وقت مجھے گھر میں باپ کی کمی محسوس ہوتی رہی۔ یہ خیال بھی مجھے بار بار آیا کہ میں نے ابھی تک اس کو معماری کا کام کرتے نہیں دیکھا ہے اور یہ مجھے اپنی بہت بڑی کوتاہی معلوم ہوئی مگر اس کی تلافی کا خیال مجھے نہیں آیا۔

ایک دن سہ پہر کے قریب گھومتا پھرتا میں اپنی ایک پرانی درس گاہ کے سامنے پہنچ گیا۔ یہ درس گاہ مدتوں پہلے ایک تاریخی عمارت میں قائم کی گئی تھی اور اب بھی اس عمارت میں تھی۔ عمارت بوسیدہ ہو چکی تھی اور جب میں وہاں پڑھتا تھا تو اس کی ایک چھت بیٹھ گئی تھی جس کے بعد میرے باپ نے مجھے اس درس گاہ سے اٹھا لیا، اس لیے کہ کچھ دیر پہلے تک میں اسی چھت کے نیچے تھا۔ اتنے دن بعد ادھر آیا تو میں نے دیکھا کہ درس گاہ کی ٹوٹی ہوئی چاردیواری درست کر دی گئی ہے۔ لکڑی کا وہ بیرونی پھاٹک غائب تھا جس کے پٹوں میں لوہے کے پھول جڑے ہوئے تھے اور بائیں پٹ میں نیچے کی طرف چھوٹا سا ایک پٹ کا دروازہ تھا۔ اب اس پھاٹک کی جگہ لوہے کا کٹہرے دار پھاٹک تھا جس کے پیچھے اصل عمارت میں داخلے والی اونچی محراب نظر آ رہی تھی۔ محراب کے پیچھے لوگ چل پھر رہے تھے، حالانکہ وہ چھٹی کا دن تھا۔ یہ سوچ کر کہ شاید ان لوگوں میں کوئی میری جان پہچان والا مل جائے، میں پھاٹک سے گذر کر محراب کی طرف بڑھا۔ قریب پہنچ کر میں نے دیکھا کہ محراب کی پیشانی پر بالکل ویسی ہی دو مچھلیاں ابھری ہوئی ہیں جیسی میرے مکان میں استاد والے کمرے کے دروازے پر تھیں۔ مجھ کو حیرت ہوئی کہ اس درس گاہ میں اتنے دن تک آنے جانے کے باوجود ان مچھلیوں پر کبھی میری نظر نہیں پڑی۔ اب میں نے انھیں غور سے دیکھا۔ محراب کی شکستہ پیشانی کی مرمت کی جا چکی تھی۔ مچھلیاں بھی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ داہنی طرف والی مچھلی کی دم غائب تھی۔ اس کی جگہ نیا نارنجی مسالا بھر دیا گیا تھا اور میرا باپ دو آڑی بلّیوں پر ٹکا ہوا اس مسالے کو مچھلی کی دم کی شکل میں تراش رہا تھا۔ وہ سر پر ایک کپڑا لپیٹے ہوئے تھا جس کی وجہ سے میں اسے پہچان نہیں سکا۔ میں نے اسے اس کے تھیلے سے پہچانا جو محراب کے داہنے پائے سے لگا ہوا رکھا تھا اور اس میں سے کچھ اوزار باہر جھانک رہے تھے۔ دیر تک اسے اپنے کام میں کھویا ہوا دیکھتے رہنے کے بعد میں نے زمین پر سے پرانے ٹوٹے ہوئے مسالے کا ایک ٹکڑا اٹھا کر اس کی طرف اچھالا۔ ٹکڑا اس کے پیر کے پاس بلّی سے ٹکرا کر واپس گرا اور اس نے نیچے کی طرف دیکھا، آہستہ سے ہنسا، پھر بولا:

’’تو آپ نے ہم کو ڈھونڈھ نکالا؟‘‘

مجھے اس کی آواز شکستہ مچھلی کے کھلے ہوئے منھ سے آتی معلوم ہوئی۔ وہ پھر اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔

’’ابھی کتنی دیر ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’وقت تو ہو چکا‘‘ اس نے بتایا، ’’کام تھوڑا باقی ہے، زیادہ دیر نہیں ہے۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ نیچے اترا۔ اس کے ہاتھ میں چھوٹے اوزار تھے جنھیں اس نے قریب ہی بنے ہوئے ایک عارضی حوض میں دھویا، سر پر لپٹا ہوا کپڑا کھول کر اس سے اوزاروں کو پونچھا اور میری طرف دیکھ کر تھکے ہوئے انداز میں مسکرایا۔ میں نے اوزار اس سے لے کر تھیلے میں رکھ دیے اور ہم دونوں ساتھ ساتھ کٹہرے دار پھاٹک کی طرف چلے۔ آدھا راستہ طے کر کے وہ رک گیا۔ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے گردن موڑ کر اس نے اپنے دن بھر کے کام کو دیکھا، پھر پھاٹک کی طرف بڑھ گیا۔

چوتھے یا پانچویں دن میں نے اسے تھیلا لے کر گھر سے باہر نکلتے دیکھا تو پوچھا:

’’آج کہاں کام لگایا ہے ؟‘‘

’’وہیں‘‘ اس نے کہا، پھر بولا، ’’آج بھی دیر میں لوٹنا ہو گا۔‘‘

لیکن اس دن دوپہر سے ذرا پہلے کچھ طالب علموں کے جھگڑے میں محراب سے لگی ہوئی بلّیاں اس طرح ہلیں کہ میرے باپ کا توازن بگڑ گیا اور وہ مچھلیوں کی اونچائی سے درس گاہ کے سنگی فرش پر آ گرا۔

اس وقت میں گھر ہی پر تھا اور استاد سے کسی فضول بات پر بحث کر رہا تھا۔ دو تین مزدور اسے سہارا دے کر لائے۔ انھوں نے اپنی دہقانی بولی میں حادثے کی مبہم سی تفصیل بتائی اور کام پر واپس چلے گئے۔ اس کے بدن پر کوئی زخم نہیں تھا لیکن اس کی آنکھوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کرب میں ہے۔ میں نے اور استاد نے اسے بستر پر لٹا دیا۔

کئی دن تک میرا باپ چپ چاپ بستر پر پڑا رہا اور میرا استاد چپ چاپ اس کے سرہانے بیٹھا رہا۔ پڑوس کی خستہ حال بڑھیاں ان دونوں کی خبرگیری کرتی رہیں۔ میں اس عرصے میں کئی بار گھر سے باہر نکلا لیکن تھوڑی ہی دور جا کر واپس آ گیا۔

ایک دن واپس آتے ہوئے مجھے اس محراب اور اس کی پیشانی کی شکستہ مچھلیوں کا خیال آیا اور میں درس گاہ کی طرف لوٹ گیا۔ وہ بھی چھٹی کا دن تھا۔ میں محراب کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ ایک مچھلی درست ہو چکی تھی۔ اس کی پشت پر سفنوں کا جال اس طرح تراشا گیا تھا کہ معلوم ہوتا تھا ایک ایک سفنے کو الگ الگ ڈھال کر مچھلی کے بدن میں بٹھایا گیا ہے۔ ہر سفنا بیچ میں ہلکا سا ابھرا ہوا، کناروں پر دھنسا ہوا اور دوسرے سفنوں میں پھنسا ہوا نظر آتا تھا۔ مچھلی کی آنکھ کی جگہ ایک گول سوراخ تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مچھلی منھ کھولے ہوئے مجھے گھور رہی ہے۔ میں نے اس پر سے نظر ہٹا لی۔

دوسری مچھلی کا سارا اوپری مسالا توڑ دیا گیا تھا اور اب اس کے نیچے کی پتلی پتلی اینٹیں نیم دائرے کی شکل میں ابھری رہ گئی تھیں، لیکن ان ابھری ہوئی اینٹوں سے بھی ایک مچھلی کا خاکہ بنتا تھا۔ داہنی طرف والی مکمل مچھلی کے مقابل اس خاکے کی وجہ سے محراب کی پیشانی کچھ ٹیڑھی اور کچھ شکن آلود معلوم ہونے لگی تھی۔ بلّیاں اسی طرح لگی ہوئی تھیں۔ میں نے ایک بلّی کو پکڑ کر آہستہ سے ہلایا۔ اس کی اوپری سرے پر آڑی بندھی ہوئی بلّی ہلکی آواز کے ساتھ محراب سے ٹکرائی۔ یہ آواز بھی مجھے مچھلی کے کھلے ہوئے منھ سے آتی محسوس ہوئی۔ پھر یہ آواز ایک انسانی آواز میں بدل گئی جو دہقانی بولی میں میرے باپ کی خیریت دریافت کر رہی تھی۔ اسی وقت میری نظر محراب کے نیچے کھڑے ہوئے ایک شخص پر پڑی۔ یہ انھیں مزدوروں میں سے ایک تھا جو میرے باپ کو گھر لائے تھے۔ میں نے اس کے سوال کا مختصر جواب دیا اور وہ دیر تک میرے باپ کی کاریگری کی تعریفیں کرتا رہا۔ اس میں اس نے معماری کی کئی ایسی اصطلاحیں استعمال کیں جن کے مفہوم سے میں واقف نہیں تھا۔ پھر اس نے شہر کی بعض مشہور تاریخی عمارتوں کے نام لیے جن کی مرمت اور درستی میں وہ میرے باپ کے ماتحت کام کر چکا تھا۔ اس نے اپنا نام بھی بتایا اور تاکید کی کہ میں اپنے باپ کو بتا دوں کہ اس نام کا مزدور اسے پوچھ رہا تھا۔ پھر مجھے ٹھہرے رہنے کا اشارہ کر کے وہ پاس کی ایک کوٹھڑی میں داخل ہوا اور میرے باپ کا تھیلا لیے ہوئے باہر آیا۔ تھیلا میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے اس نے لمبی سانس کھینچی۔ وہ میرے باپ سے بہت زیادہ عمر کا معلوم ہوتا تھا۔ ایک اور لمبی سانس کھینچنے کے بعد وہ کچھ کہنے ہی کو تھا کہ درس گاہ کے اندرونی حصوں سے کسی نے اس کو آواز دی۔ میں نے اسے محراب میں داخل ہوتے اور بائیں طرف مڑتے دیکھا۔ تھیلے کے اوزاروں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور اگرچہ میری نظریں زمین پر تھیں لیکن مجھے پھر محسوس ہوا کہ داہنی طرف والی مچھلی منھ کھولے ہوئے اپنی آنکھ کے سوراخ سے میری طرف دیکھ رہی ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر اوزاروں کو تھیلے میں ٹھیک سے رکھا اور درس گاہ کے کٹہرے دار پھاٹک سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ گھر پہنچ کر تھیلا میں نے استاد والے کمرے میں کتابوں کے ایک ڈھیر پر رکھ دیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔

دوہرے دالان میں بستر پر میرا باپ اسی طرح چپ چاپ لیٹا ہوا اور استاد اسی طرح چپ چاپ اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا۔

 

 

 

 

                   3

 

درس گاہ میں گرنے کے بعد میرا باپ پھر کام پر نہیں جا سکا بلکہ بستر سے اٹھ بھی نہ سکا۔ کچھ دن تک وہ اس طرح گم سم پڑا رہا کہ خیال ہوتا تھا اسے دماغی چوٹ آئی ہے اور وہ اپنے حواس کھو بیٹھا ہے، لیکن ایک بار جب میں نے چاہا کہ اس کا بستر کتابوں والے کمرے میں کر دوں تو اس کی آنکھوں سے ظاہر ہونے لگا کہ وہ اس دوہرے دالان سے ہٹنا نہیں چاہتا جہاں ابھی تک اس نے ہر موسم گذارا تھا۔ آخر رفتہ رفتہ اس نے دھیمی آواز میں بولنا شروع کیا۔ ایک دن اس نے مجھ کو اشارے سے اپنے قریب بلایا اور استاد جو اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا، اٹھ کر کتابوں والے کمرے میں چلا گیا۔

’’میرا کام ختم ہو گیا ہے‘‘ وہ مجھے بستر پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ مجھے اس کا گردن موڑ کر اپنے دن بھر کے کام کو دیکھنا یاد آیا اور میں نے اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کا سر اپنے زانو پر رکھ لیا۔

’’ایک مچھلی ابھی باقی ہے‘‘ میں نے گردن جھکا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ کچھ بولے بغیر میری طرف دیکھتا رہا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں اپنے چہرے کے ساتھ چھت کی کڑیوں سے جھولتی ہوئی سجاوٹ نظر آئی، یا شاید یہ میرا صرف وہم تھا۔ اسی وقت اس نے اپنی گردن موڑ لی اور بولا:

’’مجھے بٹھا دو۔‘‘

کئی تکیوں کے سہارے بیٹھنے کے بعد وہ کسی خیال میں ڈوب گیا۔ اس سے پہلے وہ مجھے سوچنے والا آدمی نہیں معلوم ہوتا تھا، لیکن اس وقت کئی تکیوں سے ٹیک لگائے، قاعدے کا صاف ستھرا لباس پہنے وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ اور اس وقت پہلی بار مجھے خفیف سا شبہ ہوا کہ وہ میرا حقیقی باپ ہے۔

’’جب صرف یہ مکان اور تم باقی رہ گئے‘‘ اس نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’تو میں نے سوچا اب مجھے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔‘‘

مجھے یقین تھا کہ وہ اپنی زندگی کی کہانی سنانے والا ہے، لیکن وہ خاموشی کے ساتھ چھت کو گھورتا اور کچھ سوچتا رہا۔ پھر دوسری طرف گردن موڑ کر بولا:

’’جاؤ، کہیں گھوم آؤ۔‘‘

’’جی نہیں چاہتا‘‘ میں نے کہا۔

اس نے میرا شانہ پکڑ کر آہستہ سے اپنی طرف کھینچا۔ اس کی گرفت کم زور اور ہاتھ میں لرزش تھی۔

’’سامان کم رہ گیا تھا‘‘ اس نے تقریباً سرگوشی میں کہا، ’’میں نے اسے اور کم نہیں ہونے دیا۔ تمھیں وہ بہت معلوم ہو گا۔‘‘

مجھے زنگ آلود قفلوں والے بند دروازے یاد آئے۔ میں نے کہا:

’’سامان مجھ کو نہیں چاہیے۔‘‘

’’میں نے اس میں کچھ بڑھایا بھی ہے۔‘‘

’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘

’’اسی میں کہیں وہ بھی ہے‘‘ اس نے کہا، ’’میں نے اسے تلاش نہیں کیا۔ تم ڈھونڈھ لینا‘‘ پھر کچھ رک کر بولا، ’’وہ کتابوں میں بھی ہو گا‘‘ یہ کہتے کہتے اس کی حالت کچھ بگڑ گئی۔ میں دوڑتا ہوا استاد کے کمرے میں گیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور میں اسے ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا باپ کے بستر تک لایا۔ اس نے گردن گھما کر استاد کو دیکھا، پھر مجھے۔ میری طرف دیکھتے دیکھتے اس نے اپنی ناہموار سانسوں پر قابو پایا اور بولا:

’’اُسے الگ مت کرنا، وہ ہمارا نشان ہے۔‘‘

میں نے استاد کی طرف دیکھ کر اشارے سے پوچھا کہ میرا باپ کس چیز کا ذکر کر رہا ہے، لیکن استاد اس طرح گم سم بیٹھا تھا جیسے نہ کچھ سن رہا ہو، نہ دیکھ رہا ہو۔ البتہ میرے باپ کی آنکھیں، جن کی چمک ماند پڑ گئی تھی، کچھ دیکھتی معلوم ہو رہی تھیں۔

’’وہ کیا چیز ہے ؟‘‘ میں نے اس پر جھک کر پوچھا۔

’’اس کی خاطر خاندان میں خون بہا ہے‘‘ وہ دھیمی آواز میں بولا اور اس کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔ اس کی سانس جو ہموار ہو چلی تھی، پھر ناہموار ہو گئی۔

استاد اسی طرح گم سم بیٹھا تھا اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس موقعے پر مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں نے باپ کے دونوں کندھے پکڑ لیے۔ اب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں اس کا حقیقی بیٹا ہوں، اور میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا کہہ کے پکاروں، اس لیے میں اس کے کندھے پکڑے خاموشی کے ساتھ اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگوں کو دیکھتا رہا۔ کچھ دیر بعد اس کی حالت اپنے آپ سنبھل گئی اور وہ بالکل ٹھیک معلوم ہونے لگا۔ اس نے بہت صاف اور معتدل آواز میں کہا:

’’جاؤ، گھوم آؤ۔‘‘

اس بار میں انکار نہیں کر سکا اور اس کے کندھے چھوڑ کر مکان سے باہر نکل آیا۔

میرا باپ بہت دن زندہ نہیں رہا۔ آخری دنوں میں وہ زیادہ تر خاموش پڑا رہتا تھا، صرف کبھی کبھی آہستہ آہستہ کراہنے لگتا لیکن پوچھنے پر بتاتا نہیں تھا کہ اسے کیا تکلیف ہے۔ ایک بار جب میں نے بہت اصرار سے پوچھا اور اس کے خاموش رہنے پر خود کو غصے میں ظاہر کیا تو اس نے صرف اتنا بتایا:

’’کچھ نہیں۔‘‘

اس کے دوسرے یا تیسرے دن دو پہر کے وقت میں سو رہا تھا کہ استاد نے مجھے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ آنکھ کھلتے ہی میں نے سمجھ لیا کہ میرا باپ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن جب میں دوڑتا ہوا اس کے بستر کے پاس پہنچا تو وہ مجھے زندہ ملا۔ مجھ کو دیکھتے ہی اس نے ایک ہاتھ آگے بڑھایا اور میرا شانہ پکڑ کر جلدی جلدی کچھ کہنے لگا۔ اس کی آواز بہت دھیمی تھی۔ میں ٹھیک سے سننے کے لیے اس پر جھک گیا، پھر بھی میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ بہت جھک کر سننے پر صرف اتنا سمجھ میں آیا کہ وہ تتلا کر بول رہا ہے۔ اسی وقت وہ بے ہوش ہو گیا، اور اسی بے ہوشی میں کسی وقت اس کا دم نکل گیا۔

باپ کے مرنے کے بعد دیر تک میں بالکل پرسکون رہا۔ میں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس کے آخری انتظامات کے سلسلے میں استاد سے صلاح مشورہ کیا اور ہر بات کا خود فیصلہ کیا۔ لیکن جب وہ انتظام شروع ہو گئے تو میرے سر کے اندر کوئی چیز ہلی اور مجھ پر ایک جوش طاری ہو گیا۔ میں نے اسی جوش میں فیصلہ کر لیا کہ موت میرے باپ کی نہیں، میری ہوئی ہے ؛ پھر یہ فیصلہ کیا کہ باپ بھی میں خود ہی ہوں۔ پھر مجھ کو یہ دونوں فیصلے ایک معلوم ہونے لگے اور میں نے عجب واہیات حرکتیں کیں ؛ صحن سے اینٹوں کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر دوہرے دالان میں پھینکے اور خود کو مخاطب کر کے تتلانا شروع کر دیا، میرے باپ کا مردہ نہلانے کے لیے جو پانی بھرا گیا تھا اس میں سے کچھ اپنے اوپر انڈیل لیا اور باقی میں کوڑا کرکٹ ملا دیا؛ اس کے بدن پر لپیٹنے کے لیے جو سفید کپڑا منگایا گیا تھا اسے کھول کر خود کو اس میں لپیٹ لیا؛ اور جب اسے لے کر جانے لگے تو اس میں بھی ایسی ایسی رکاوٹیں ڈالیں کہ کئی بار اس کی میت زمین پر گرتے گرتے بچی۔ میں نے اتنا ہنگامہ کیا کہ لوگ اس کے مرنے پر افسوس ظاہر کرنا بھول گئے۔ آخر مجھے زبردستی پکڑ کر واپس لایا گیا اور گھر میں بند کر دیا گیا جہاں سوتی ہوئی خستہ حال بڑھیوں کی تسلی آمیز باتیں سن کر مجھے اتنا غصہ آیا کہ کچھ دیر کے لیے میں اپنے باپ کی موت کو بھول گیا۔ لیکن میں نے ان بڑھیوں پر اپنا غصہ ظاہر نہیں ہونے دیا اور توقع کے بالکل خلاف مجھے نیند آ گئی۔

میں دوسرے دن تک سوتا رہا۔ میں نے کئی خواب بھی دیکھے لیکن ان کا میرے باپ یا اس کی موت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

تین دن تک میں کھویا کھویا سا رہا۔ استاد دن میں کئی بار آتا اور کچھ دیر تک مجھے خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہنے کے بعد واپس چلا جاتا تھا۔ چوتھے دن مجھے یاد آیا کہ میرے باپ نے مجھ سے کچھ ڈھونڈھنے کو کہا تھا، اور میں نے بے سمجھے بوجھے گھر بھر میں اسے تلاش کرنا شروع کر دیا۔ اسی تلاش میں پھرتا ہوا میں مچھلیوں والے دروازے میں داخل ہوا اور مچانوں پر سجی ہوئی کتابیں کھینچ کھینچ کر زمین پر گرائے اور پڑھے بغیر ان کے ورق پلٹنے لگا۔ فرش پر غبار پھیل گیا اور کاغذ خور روپہلی مچھلیاں کتابوں کے اندر سے نکل نکل کر زمین پر اِدھر اُدھر بھاگنے لگیں۔ اسی میں میری نظر چٹائی کے قریب کتابوں کے ڈھیر پر رکھے ہوئے اوزاروں کے تھیلے پر پڑی۔ میں اس کے قریب بیٹھ گیا، دیر تک بیٹھا رہا اور رات ہوئی تو وہیں سو گیا۔

اس رات میں نے خواب میں اپنے باپ کو دیکھا کہ درس گاہ کی محراب کے آگے کھڑا ہوا ہے اور گردن موڑ کر اپنی درست کی ہوئی مچھلی کو دیکھ رہا ہے اور مچھلی کی آنکھ چمک رہی ہے اور وہ بھی میرے باپ کو دیکھ رہی ہے۔

دوسرے دن میں نے اوزاروں کا تھیلا اٹھایا، گھر سے نکلا اور بازار میں اپنے باپ کی جگہ پر جا کھڑا ہوا۔ دیر ہو گئی تھی اور سب لوگ وہاں سے جا چکے تھے، پھر بھی میں بہت دیر تک اسی جگہ کھڑا رہا اور کسی نے میری طرف توجہ نہیں کی، یہاں تک کہ میرا استاد مجھے ڈھونڈھتا ہوا وہاں آ پہنچا اور میرا ہاتھ پکڑ کر گھر واپس لے آیا۔ راستے میں جب اس نے مجھ کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کی تو میں نے اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے۔

کئی روز تک اسی طرح استاد سے میرا جھگڑا چلتا رہا، آخر اس نے میرے یہاں آنا چھوڑ دیا، لیکن میرا کھانا وہ دونوں وقت پابندی سے بھجواتا رہا۔ میلی کچیلی آوارہ گرد چھوکریاں اور ہلتی ہوئی گردنوں والی بوڑھی عورتیں مکان کا صدر دروازہ کھٹکھٹاتیں اور کھانے کی پوٹلی میرے ہاتھ میں تھما کر چپ چاپ لوٹ جاتیں۔ مگر ایک دن میں نے دیکھا کہ کھانا لانے والی ایک چھوکری کے پیچھے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے میرا استاد کھڑا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ آگے بڑھ آیا، کچھ دیر تک خاموشی کے ساتھ میری طرف دیکھتا رہا، پھر اپنے سینے کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے بولا:

’’اب میں ختم ہو رہا ہوں !‘‘

اس دن میں نے روشنی میں پہلی بار اسے غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر جھریوں کا جال تھا اور وہ ہمیشہ سے زیادہ فقیر معلوم ہو رہا تھا۔ دیر تک ہم دونوں بغیر کچھ بولے آمنے سامنے کھڑے رہے اور اس کے ساتھ کی چھوکری دونوں ہاتھوں سے اپنا سر کھجاتی رہی۔ الجھے ہوئے بالوں میں اس کے بڑھے ہوئے ناخنوں کی رگڑ سے کھرکھراہٹ کی ایسی آواز پیدا ہو رہی تھی جسے سن کر مجھے بہت سی انگوٹھیوں والا وہ شخص یاد آ گیا جو میرے باپ کو بازار سے اپنے ساتھ لے گیا تھا، پھر مجھے باپ کے اوزار لے کر اپنا بازار جانا اور استاد کا مجھ کو واپس لانا یاد آیا۔

’’میں نے تمھارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔

اس نے میری بات یا تو سنی نہیں، یا سن کر اَن سنی کر دی اور میری طرف اس طرح دیکھتا رہا جیسے مجھ سے کسی بات کی توقع کر رہا ہو۔ اس طرح وہ میری طرف پہلے بھی کبھی کبھی دیکھنے لگتا تھا جس پر مجھے خواہ مخواہ غصہ آ جاتا تھا۔ اس وقت بھی مجھے الجھن سی محسوس ہوئی اور میں نے اس کے چہرے پر سے نظریں ہٹا لیں۔ میں اس سے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے ہی اس نے مڑ کر چھوکری کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

’’اب طاہرہ بی بی‘‘ اس نے چھوکری کو بتایا اور اس کے پیچھے دھیرے دھیرے چلتا ہوا واپس ہو گیا۔

جب وہ دونوں میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے تو مجھے خیال آیا کہ میں نے استاد سے گھر کے اندر چلنے کو نہیں کہا۔

مجھے اس کا گھر نہیں معلوم تھا۔ پڑوس کی بڑھیوں نے محض اندازے سے اس کے الگ الگ پتے بتائے، لیکن جب میں ان پتوں پر پہنچا تو وہاں کوئی استاد کا جاننے والا نہ نکلا۔ میں نے اس تلاش میں کئی دن ضائع کیے، البتہ اس طرح ایک بار پھر میں نے قریب قریب پورے شہر کا چکر لگا لیا۔ اس گردش میں اپنے شہر کی تاریخی عمارتوں کو میں نے خاص طور پر دیکھا۔ میں نے ان عمارتوں کے مرمت شدہ حصوں کا غور سے جائزہ لیا اور ان میں کئی جگہ مجھے اپنے باپ کا ہاتھ نظر آیا۔ ان عمارتوں کے کسی نہ کسی دروازے یا داخلے کے پھاٹک پر مجھے مچھلیاں ضرور بنی ہوئی نظر آئیں۔ شہر کے پرانے گرتے ہوئے مکانوں کے دروازے بھی مچھلیوں سے خالی نہیں تھے اور ہر مچھلی مجھے اپنے باپ کی بنائی ہوئی معلوم ہوتی تھی اور ہر شکستہ مچھلی کو دیکھ کر مجھے اپنی درس گاہ کی محراب پر بنی ہوئی مکمل مچھلی یاد آتی تھی۔

انھیں سیروں میں مجھے یقین ہوا کہ مچھلی میرے شہر کا نشان ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے مبہم سے معمے کا حل دریافت کر لیا ہے، لیکن اس کے ساتھ مجھے یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ حل اصل معمے سے بھی زیادہ مبہم ہے۔ اپنے باپ کا خیال مجھ کو بار بار آنے لگا، یہاں تک کہ ایک گم نام تاریخی عمارت کے کھنڈر کی طرف بڑھتے بڑھتے میں پلٹ پڑا۔ گھر پہنچ کر میں نے استاد کے کمرے والی چٹائی اٹھائی اور دوہرے دالان میں اپنے باپ کے آخری بستر کی جگہ بچھا دی۔ چٹائی کے عین اوپر چھت کی کڑیوں میں سرخ سبز کاغذ کی سجاوٹ جھول رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس دالان کی بھی مرمت ہوئی ہے اور چھت میں جگہ جگہ نیا مسالا بھرا گیا ہے۔ لیکن چھت کا وہ حصہ جہاں پر یہ سجاوٹ تھی، بے مرمت رہ گیا تھا اور اس کے پرانے پھو لے ہوئے مسالے کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ یہ بہت جلد گرنے والا ہے۔ میں نے خواہش کی کہ یہ ابھی گر جائے، اور چٹائی پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ اسی وقت مکان کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔

آخری بار استاد کے ساتھ آنے والی چھوکری دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ ایک ہاتھ سے سر کھجائے جا رہی تھی، دوسرے ہاتھ میں ایک بڑا سا فصلی پھل تھا جس پر وہ اِدھر اُدھر دانت لگا رہی تھی۔

’’کیا بات ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

وہ کچھ دیر تک پھل پر منھ مارنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کرتی رہی، پھر بولی:

’’طاہرہ بی بی نے کہلایا ہے، آپ کے استاد نہیں رہے۔‘‘

ایک لمحے کے لیے مجھے وہم ہوا کہ استاد اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑا ہے۔ میں دیر تک چھوکری کی طرف دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ شرمانے لگی۔

’’کب؟‘‘ آخر میں نے پوچھا۔

’’کئی دن ہو گئے۔ ہم تین بار آئے، آپ ملے نہیں۔‘‘

’’ان کے گھر میں کون کون ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’استاد کے گھر میں ؟ کوئی بھی نہیں۔‘‘

’’ان کی دیکھ بھال کون کرتا تھا؟‘‘

’’طاہرہ بی بی آ جاتی تھیں۔‘‘

’’طاہرہ بی بی ان کی کون ہیں ؟‘‘

’’پتا نہیں ۔‘‘

’’وہ رہتی کہاں ہیں ؟‘‘

’’طاہرہ بی بی؟ پتا نہیں۔‘‘

اس کے بعد وہ واپس جانے کے لیے مڑ گئی۔ کچھ دیر بعد میں نے صدر دروازہ بند کر لیا اور مڑ رہا تھا کہ پھر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھول دیا۔ چھوکری سامنے کھڑی تھی۔ اب اس کے ہاتھ میں پھل کی جگہ سرخ کپڑے کا گولا سا تھا۔

’’ہم بھول گئے تھے‘‘ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا اور گولا میری طرف بڑھا دیا، ’’یہ رکھ لیجیے، کنجیاں ہیں۔‘‘

’’کیسی کنجیاں ؟‘‘

’’پتا نہیں، طاہرہ بی بی نے دی ہیں۔‘‘

میں نے صدر دروازہ بند کر لیا۔

چٹائی پر کھڑے ہو کر میں نے گولے کو کھولا۔ یہ کسی دبیز مگر بہت نرم کپڑے کا پارچہ تھا جس کے ایک کونے میں پرانی وضعوں کی کنجیاں بندھی ہوئی تھیں۔ پارچے میں سے فصلی پھل کی خوشبو آ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے کنجیاں کھول کر اسے چٹائی کے پائینتی زمین پر ڈال دیا اور کنجیوں کو گننے لگا۔ ان میں سے کچھ کا رنگ حال ہی میں صاف کیا گیا تھا۔ سب سے بڑی کنجی، جس کے پورے حلقے پر باریک باریک ہندسے کھدے ہوئے تھے، مجھے استاد کے چہرے سے مشابہ نظر آئی لیکن مشابہت کا سبب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کنجیاں چٹائی کے نیچے رکھ دیں اور ایک بار پھر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے اسی جگہ پر اپنے باپ کا مرنا یاد آیا اور میں نے اپنا بدن اکڑا کر پیر پھیلا دیے۔ میری ایڑی کو نرم کپڑے کا لمس محسوس ہوا۔ میں نے آنکھیں بند کیے کیے خم ہو کر سرخ پارچے کو اٹھا لیا اور اس کا گولا بنا کر پھینکنے کو تھا کہ مجھے احساس ہوا اس میں سے پھل کی خوشبو غائب ہو گئی ہے۔ میں اسے اپنے نتھنوں کے قریب لایا اور مجھے شبہ ہوا کہ اس میں کوئی اور خوشبو موجود ہے۔ میری آنکھیں میری خواہش کے بغیر کھل گئیں۔ میں نے پارچے کو پورا کھول کر دونوں ہتھیلیوں پر پھیلا لیا۔ یہ ایک بڑا رو مال تھا جس کے بیچ میں بہت ہلکے سبز رنگ کے ریشمی دھاگے سے ایک مچھلی کڑھی ہوئی تھی۔ اس کے سفنوں کا جال چھوٹے چھوٹے پھندوں سے بنایا گیا تھا اور جگہ جگہ سے ادھڑا ہوا تھا۔ لیکن اس وقت میری توجہ مچھلی سے زیادہ اس مدھم خوشبو کی طرف تھی جو پورے رو مال میں گشت کرتی معلوم ہو رہی تھی۔ میں نے رو مال کا پھر سے گولا بنا لیا اور پوری سانس کھینچ کر اسے سونگھا۔ خوشبو بہت آہستہ آہستہ ابھرتی اور پھر ڈوب جاتی، جیسے کوئی سوتے میں سانس لیتا ہو۔ مجھے خوشبوؤں سے دلچسپی اور عطریات کی اچھی پہچان تھی مگر اس مرکب خوشبو کا کوئی بھی جز میری شناخت میں نہ آ سکا۔ میں نے اسے دیر تک اور بڑے دھیان سے سونگھا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ بڑی آہستگی کے ساتھ رو مال سے نکل کر میرے سینے میں اتر گئی ہے۔ میں اسے پہچان تو نہ سکا لیکن مجھے یقین ہو گیا کہ اگر یہ ذرا بھی تیز ہوتی تو اسی وقت میرا دم گھٹ جاتا۔

جب نیند سے میری آنکھیں بند ہونے لگیں تو مجھے دھندلا سا خیال آیا کہ میں اپنے باپ کے مرنے کی جگہ پر لیٹا ہوا ہوں اور ابھی ابھی میں نے اپنے استاد کے مرنے کی خبر سنی ہے۔ لیکن اس خیال کا کوئی اثر ظاہر ہونے سے پہلے ہی میں سو گیا۔

میں نے اپنے استاد کو دیکھا، لیکن خواب میں وہ مجھے ایک نوجوان لڑکی نظر آیا اور اس پر، جیسا کہ خوابوں میں اکثر ہوتا ہے، مجھ کو ذرا بھی تعجب نہیں ہوا۔

٭٭٭

 

 

 

 

مراسلہ

 

آنہا کہ کہن شدند و اینہا کہ نوند

(عمر خیام)

 

مکرمی! آپ کے موقر اخبار کے ذریعے میں متعلقہ حکام کو شہر کے مغربی علاقے کی طرف متوجہ کرانا چاہتا ہوں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج جب بڑے پیمانے پر شہر کی توسیع ہو رہی ہے اور ہر علاقے کے شہریوں کو جدید ترین سہولتیں بہم پہنچائی جا رہی ہیں، یہ مغربی علاقہ بجلی اور پانی کی لائنوں تک سے محروم ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کی تین ہی سمتیں ہیں۔ حال ہی میں جب ایک مدت کے بعد میرا اس طرف ایک ضرورت سے جانا ہوا تو مجھ کو شہر کا یہ علاقہ بالکل ویسا ہی نظر آیا جیسا میرے بچپن میں تھا۔

 

 

 

 

                   1

 

مجھے اس طرف جانے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اپنی والدہ کی وجہ سے مجبور ہو گیا۔ برسوں پہلے وہ بڑھاپے کے سبب چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی تھیں، پھر ان کی آنکھوں کی روشنی بھی قریب قریب جاتی رہی اور ذہن بھی ماؤف سا ہو گیا۔ معذوری کا زمانہ شروع ہونے کے بعد بھی ایک عرصے تک وہ مجھ کو دن رات میں تین چار مرتبہ اپنے پاس بلا کر کپکپاتے ہاتھوں سے سر سے پیر تک ٹٹولتی تھیں۔ در اصل میرے پیدا ہونے کے بعد ہی سے ان کو میری صحت خراب معلوم ہونے لگی تھی۔ کبھی انھیں میرا بدن بہت ٹھنڈا محسوس ہوتا، کبھی بہت گرم، کبھی میری آواز بدلی ہوئی معلوم ہوتی اور کبھی میری آنکھوں کی رنگت میں تغیر نظر آتا۔ حکیموں کے ایک پرانے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کو بہت سی بیماریوں کے نام اور علاج زبانی یاد تھے اور کچھ کچھ دن بعد وہ مجھے کسی نئے مرض میں مبتلا قرار دے کر اس کے علاج پر اصرار کرتی تھیں۔ ان کی معذوری کے ابتدائی زمانے میں دو تین بار ایسا اتفاق ہوا کہ میں کسی کام میں پڑ کر ان کے کمرے میں جانا بھول گیا، تو وہ معلوم نہیں  کس طرح خود کو کھینچتی ہوئی کمرے کے دروازے تک لے آئیں۔ کچھ اور زمانہ گذرنے کے بعد جب ان کی رہی سہی طاقت بھی جواب دے گئی تو ایک دن ان کے معالج نے محض یہ آزمانے کی خاطر کہ آیا ان کے ہاتھ پیروں میں اب بھی کچھ سکت باقی ہے، مجھے دن بھر ان کے پاس نہیں جانے دیا اور وہ بہ ظاہر مجھ سے بے خبر رہیں، لیکن رات گئے ان کے آہستہ آہستہ کراہنے کی آواز سن کر جب میں لپکتا ہوا ان کے کمرے میں پہنچا تو وہ دروازے تک کا آدھا راستہ طے کر چکی تھیں۔ ان کا بستر، جو انھوں نے میرے والد کے مرنے کے بعد سے زمین پر بچھانا شروع کر دیا تھا، ان کے ساتھ گھسٹتا ہوا چلا آیا تھا۔ دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بستر ہی ان کو کھینچتا ہوا دروازے کی طرف لیے جا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر انھوں نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن تکان کے سبب بے ہوش ہو گئیں اور کئی دن تک بے ہوش رہیں۔ ان کے معالج نے بار بار اپنی غلطی کا اعتراف اور اس آزمائش پر پچھتاوے کا اظہار کیا، اس لیے کہ اس کے بعد ہی سے میری والدہ کی بینائی اور ذہن نے جواب دینا شروع کیا، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ان کا وجود اور عدم برابر ہو گیا۔

ان کے معالج کو مرے ہوئے بھی ایک عرصہ گذر گیا۔ لیکن حال ہی میں ایک رات میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پائینتی زمین پر بیٹھی ہوئی ہیں اور ایک ہاتھ سے میرے بستر کو ٹٹول رہی ہیں۔ میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔

’’آپ۔ ۔ ۔ ؟‘‘ میں نے ان کے ہاتھ پر خشک رگوں کے جال کو دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’یہاں آ گئیں ؟‘‘

’’تمھیں دیکھنے۔ کیسی طبیعت ہے ؟‘‘ انھوں نے اٹک اٹک کر کہا، پھر ان پر غفلت طاری ہو گئی۔

میں بستر سے اتر کر زمین پر ان کے برابر بیٹھ گیا اور دیر تک ان کو دیکھتا رہا۔ میں نے ان کی اس صورت کا تصور کیا جو میری اولین یادوں میں محفوظ تھی اور چند لمحوں کے لیے ان کے بوڑھے چہرے کی جگہ انھیں یادوں والا چہرہ میرے سامنے آ گیا۔ اتنی دیر میں ان کی غفلت کچھ دور ہوئی۔ میں نے آہستگی سے انھیں اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:

’’آئیے آپ کو آپ کے کمرے میں پہنچا دوں۔‘‘

’’نہیں !‘‘ انھوں نے بڑی مشکل سے کہا، ’’پہلے بتاؤ۔‘‘

’’کیا بتاؤں ؟‘‘ میں نے تھکے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

’’طبیعت کیسی ہے ؟‘‘

کچھ دن سے میری طبیعت واقعی خراب تھی، اس لیے میں نے کہا، ’’ٹھیک نہیں ہوں۔‘‘

میری توقع کے خلاف انھوں نے بیماری کی تفصیل دریافت کرنے کے بجائے صرف اتنا پوچھا:

’’کسی کو دکھایا؟‘‘

’’کس کو دکھاؤں ؟‘‘

مجھے معلوم تھا وہ کیا جواب دیں گی۔ یہ جواب وہ فوراً اور ہمیشہ تیز لہجے میں دیتی تھیں، لیکن اس بار انھوں نے دیر تک چپ رہنے کے بعد بڑی افسردگی اور قدرے مایوسی کے ساتھ وہی بات کہی:

’’تم وہاں کیوں نہیں چلے جاتے ؟‘‘

میں ان کے ساتھ بچپن میں وہاں جایا کرتا تھا۔ وہ پرانے حکیموں کا گھرانہ تھا۔ یہ لوگ میری والدہ کے قریبی عزیز تھے۔ ان کا مکان بہت بڑا تھا جس کے مختلف درجوں میں کئی خاندان رہتے تھے۔ ان سب خاندانوں کے سربراہ ایک حکیم صاحب تھے جنھیں شہر میں کوئی خاص شہرت حاصل نہیں تھی لیکن آس پاس کے دیہاتوں سے ان کے یہاں اتنے مریض آتے تھے جتنے شہر کے نامی ڈاکٹروں کے پاس بھی نہ آتے ہوں گے۔

اس مکان میں تقریبیں بہت ہوتی تھیں جن میں میری والدہ کو خاص طور پر بلایا جاتا تھا اور اکثر وہ مجھے بھی ساتھ لے جاتی تھیں۔ میں ان تقریبوں کی عجیب عجیب رسموں کو بڑی دل چسپی سے دیکھتا تھا۔ میں یہ بھی دیکھتا تھا کہ وہاں میری والدہ کی بڑی قدر ہوتی ہے اور ان کے پہنچتے ہی سارے مکان میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ وہ خود بھی وہاں کے کسی فرد کو فراموش نہ کرتیں، چھوٹوں اور برابر والوں کو اپنے پاس بلاتیں، بڑوں کے پاس آپ جاتیں اور وہاں کے خاندانی جھگڑوں میں، جو اکثر ہوا کرتے، ان کا فیصلہ سب کو منظور ہوتا تھا۔

وہاں اتنے بہت سے لوگ تھے، لیکن مجھ کو صرف حکیم صاحب کا چہرہ دھندلا دھندلا سا یاد تھا؛ وہ بھی شاید اس وجہ سے کہ ان میں اور میری والدہ میں ہلکی سی خاندانی مشابہت تھی۔ اتنا مجھے البتہ یاد ہے کہ وہاں ہر عمر کی عورتیں، مرد اور بچے موجود رہتے تھے اور ان کے ہجوم میں گھری ہوئی اپنی والدہ مجھے ایسی معلوم ہوتی تھیں جیسے بہت سی پتیوں کے بیچ میں ایک پھول کھلا ہوا ہو۔

لیکن اس وقت وہ اپنا مرجھایا ہوا چہرہ میری طرف گھمائے ہوئے اپنی بجھی ہوئی آنکھوں سے میرا چہرہ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

’’تمھاری آواز بیٹھی ہوئی ہے‘‘ انھوں نے کہا، ’’تم وہاں کیوں نہیں چلے جاتے ؟‘‘

’’وہاں۔ ۔ ۔ اب میں وہاں کسی کو پہچان بھی نہ پاؤں گا۔‘‘

’’دیکھو گے تو پہچان لو گے۔ نہیں تو وہ لوگ خود بتائیں گے۔‘‘

’’اتنے دن ہو گئے‘‘ میں نے کہا، ’’اب مجھے راستہ بھی یاد نہیں۔‘‘

’’باہر نکلو گے تو یاد آتا جائے گا۔‘‘

’’کس طرح؟‘‘ میں نے کہا، ’’سب کچھ تو بدل گیا ہو گا۔‘‘

’’کچھ بھی نہیں‘‘ انھوں نے کہا۔ پھر ان پر غفلت طاری ہونے لگی، لیکن ایک بار پھر انھوں نے کہا، ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ بالکل غافل ہو گئیں۔

میں دیر تک ان کو سہارا دیے بیٹھا رہا۔ میں نے اس مکان کا راستہ یاد کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ان دنوں کا تصور کیا جب میں اپنی والدہ کے ساتھ وہاں جایا کرتا تھا۔ میں نے اس مکان کا نقشہ بھی یاد کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے اس کے سوا کچھ یاد نہ آیا کہ اس کے صدر دروازے کے سامنے ایک ٹیلہ تھا جو حکیموں کا چبوترا کہلاتا تھا۔ اتنا اور مجھے یاد تھا کہ حکیموں کا چبوترا شہر کے مغرب کی جانب تھا، اس پر چند کچی قبریں تھیں اور اس تک پہنچتے پہنچتے شہر کے آثار ختم ہو جاتے ہیں۔

میں نے اپنی والدہ کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا۔ بالکل اسی طرح جیسے کبھی وہ مجھ کو اٹھایا کرتی تھیں، اور یہ سمجھا کہ میں نے ان کا کچھ قرض اتارا ہے، اور اگر چہ وہ بالکل غافل تھیں، لیکن میں نے ان سے کہا:

’’آئیے آپ کو آپ کے کمرے میں پہنچا دوں۔ کل سویرے میں وہاں ضرور جاؤں گا۔‘‘

 

دوسرے دن سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد میری آنکھ کھلی، اور آنکھ کھلنے کے کچھ دیر بعد میں گھر سے روانہ ہو گیا۔

 

 

 

 

                   2

 

خود اپنے محلے کے مغربی حصے کی طرف ایک مدت سے میرا گذر نہیں ہوا تھا۔ اب جو میں ادھر سے گذرا تو مجھے بڑی تبدیلیاں نظر آئیں۔ کچے مکان پکے ہو گئے تھے۔ خالی پڑے ہوئے احاطے چھوٹے چھوٹے بازاروں میں بدل گئے تھے۔ ایک پرانے مقبرے کے کھنڈر کی جگہ عمارتی لکڑی کا گودام بن گیا تھا۔ جن چہروں سے میں بہت پہلے آشنا تھا ان میں سے کوئی نظر نہیں آیا، اگرچہ مجھ کو جاننے والے کئی لوگ ملے جن میں سے کئی کو میں بھی پہچانتا تھا، لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ میرے ہی ہم محلہ ہیں۔ میں نے ان سے رسمی باتیں بھی کیں لیکن کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔

کچھ دیر بعد میرا محلہ پیچھے رہ گیا۔ غلّے کی منڈی آئی اور نکل گئی۔ پھر دواؤں اور مسالوں کی منڈی آئی اور پیچھے رہ گئی۔ ان منڈیوں کے داہنے بائیں دور دور تک پختہ سڑکیں تھیں جن پر کھانے پینے کی عارضی دکانیں بھی لگی ہوئی تھیں، لیکن میں جس سڑک پر سیدھا آگے بڑھ رہا تھا اس پر اب جا بجا گڈھے نظر آ رہے تھے۔ کچھ اور آگے بڑھ کر سڑک بالکل کچی ہو گئی۔ راستہ یاد نہ ہونے کے باوجود مجھے یقین تھا کہ میں صحیح سمت میں جا رہا ہوں، اس لیے میں آگے بڑھتا گیا۔

دھوپ میں تیزی آ گئی تھی اور اب کچی سڑک کے آثار بھی ختم ہو گئے تھے، البتہ گرد آلود پتیوں والے درختوں کی دو رویہ مگر ٹیڑھی میڑھی قطاروں کے درمیان اس کا تصور کیا جا سکتا تھا، لیکن اچانک یہ قطاریں اس طرح منتشر ہوئیں کہ سڑک ہاتھ کے پھیلے ہوئے پنجے کی طرح پانچ طرف اشارہ کر کے رہ گئی۔ یہاں پہنچ کر میں تذبذب میں پڑ گیا۔ مجھے گھر سے نکلے ہوئے بہت دیر نہیں ہوئی تھی اور مجھے یقین تھا کہ میں اپنے محلے سے بہت دور نہیں ہوں۔ پھر بھی میں نے وہاں پر ٹھہر کر واپسی کا راستہ یاد کرنے کی کوشش کی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ گرد آلود پتیوں والے درخت اونچی نیچی زمین پر ہر طرف تھے۔ میں نے ان کی قطاروں کے درمیان سڑک کا تصور کیا تھا لیکن وہ قطاریں بھی شاید میرے تصور کی پیداوار تھیں، اس لیے کہ اب ان کا کہیں پتا نہ تھا۔ اپنے حساب سے میں بالکل سیدھی سڑک پر چلا آ رہا تھا، لیکن مجھے بارہا اس کا تجربہ ہو چکا تھا کہ دیکھنے میں سیدھی معلوم ہونے والی سڑکیں اتنے غیر محسوس طریقے پر اِدھر اُدھر گھوم جاتی ہیں کہ ان پر چلنے والے کو خبر بھی نہیں ہوتی اور اس کا رخ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے میں کئی مرتبہ اِدھر اُدھر گھوم چکا ہوں، اور اگر مجھ کو سڑک کا سراغ نہ مل سکا تو میں خود سے اپنے گھر تک نہیں پہنچ سکتا؛ لیکن اس وقت مجھ کو واپسی کے راستے سے زیادہ حکیموں کے چبوترے کی فکر تھی جو کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہر طرف پھیلے ہوئے درخت اتنے چھدرے تھے کہ زمین کا کوئی بڑا حصہ میری نگاہوں سے اوجھل نہیں تھا، لیکن میرے بائیں ہاتھ زمین دور تک اونچی ہوتی گئی تھی اور اس پر جگہ جگہ گنجان جھاڑیاں آپس میں الجھی ہوئی تھیں۔ ان کی وجہ سے بلندی کے دوسری طرف والا نشیبی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔

اگر کچھ ہو گا تو ادھر ہی ہو گا، میں نے سوچا اور اس سمت چل پڑا۔ میرا خیال صحیح تھا۔ جھاڑیوں کے ایک بڑے جھنڈ میں سے نکلتے ہی مجھے سامنے کتھئی رنگ کی پتلی پتلی اینٹوں والا ایک مکان نظر آیا۔ یہ وہ مکان نہیں تھا جس کی مجھے تلاش تھی، تاہم میں سیدھا اس طرف بڑھتا گیا۔ اس کے دروازے پر کسی کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی جس کے قریب قریب سب حروف مٹ چکے تھے۔ مکان کے اندر خاموشی تھی لیکن ویسی نہیں جیسی ویران مکانوں سے باہر نکلتی محسوس ہوتی ہے، اس لیے میں نے دروازے پر تین بار دستک دی۔ کچھ دیر بعد دروازے کے دوسری طرف ہلکی سی آہٹ ہوئی اور کسی نے آہستہ سے پوچھا:

’’کون صاحب ہیں ؟‘‘

بتانے سے کیا فائدہ؟ میں نے سوچا، اور کہا:

’’میں شاید راستہ بھول گیا ہوں، حکیموں کا چبوترا ادھر ہی کہیں ہے ؟‘‘

’’حکیموں کا چبوترا؟ آپ کہاں سے آئے ہیں ؟‘‘

یہ غیر متعلق بات تھی۔ اپنے سوال کے جواب میں سوال سن کر مجھے ہلکی سی جھنجھلاہٹ محسوس ہوئی، لیکن دروازے کے دوسری طرف کوئی عورت تھی جس کی آواز نرم اور لہجہ بہت مہذب تھا۔ اس نے دروازے کے خفیف سے کھلے ہوئے پٹ کو پکڑ رکھا تھا۔ اس کے ناخن نارنجی پالش سے رنگے ہوئے تھے۔ مجھے وہم سا ہوا کہ دروازے کا پٹ تھوڑا اور کھلا اور ایک لمحے کے اندر مجھ کو دروازے کے پیچھے چھوٹی سی نیم تاریک ڈیوڑھی اور ڈیوڑھی کے پیچھے صحن کا ایک گوشہ اور اس میں لگے ہوئے انار کے درخت کی کچھ شاخیں نظر آ گئیں جن پر دھوپ پڑ رہی تھی۔ اور دوسرے لمحے مجھے کچھ کچھ یاد آیا کہ میری والدہ کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لیے اس مکان میں بھی اترتی تھیں۔ لیکن اس مکان کے رہنے والے مجھے یاد نہ آ سکے۔

’’آپ کہیں باہر سے آئے ہیں ؟‘‘ دروازے کے دوسری طرف سے پھر آواز آئی۔

’’جی نہیں !‘‘ میں نے کہا اور اپنا اتا پتا بتا دیا۔ پھر کہا: ’’بہت دنوں کے بعد ادھر آیا ہوں۔‘‘

دیر کے بعد مجھے جواب ملا:

’’اس مکان کے پیچھے چلے جائیے۔ چبوترا سامنے ہی دکھائی دے گا۔‘‘

مکان کے اندرونی حصے سے کسی بوڑھی عورت کی بھاری آواز سنائی دی:

’’کون آیا ہے، مہر؟‘‘

میں رسمی شکریہ ادا کر کے مکان کی پشت پر آ گیا۔ سامنے دور تک چھوٹے بڑے کئی ٹیلے نظر آ رہے تھے اور ان کی بے ترتیب قطاریں پھر ایک سڑک کا تصور پیدا کر رہی تھیں۔ یہ ٹیلے محض مٹی کے تودے تھے، لیکن ان سے ذرا ہٹ کر ایک ٹیلے پر جھاڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ میں نے اس ٹیلے کو غور سے دیکھا۔ جھاڑیوں کے بیچ بیچ میں کچی قبروں کے نشان نمایاں تھے۔ بعض بعض قبروں پر چونے کی سفیدی دھوپ میں چمک رہی تھی۔

 

 

 

                   3

 

مکان چبوترے کی اوٹ میں تھا اور اس تک پہنچنے کے لیے مجھے چبوترے کا آدھا چکر کاٹنا پڑا۔ پرانی لکڑی کے بھاری صدر دروازے کے سامنے کھڑا دیر تک میں سوچتا رہا کہ اپنے آنے کی اطلاع کس طرح کراؤں۔ دروازے کی لکڑی بہت دبیز اور تھوڑی سیلی ہوئی تھی۔ اس پر دستک دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، پھر بھی میں نے تین بار اس پر ہاتھ مارا، لیکن اپنی دستک کی آواز خود مجھ کو ٹھیک سے سنائی نہیں دی۔ مجھے شبہ ہوا کہ مکان ویران ہے۔ میں نے دروازے کو آہستہ سے دھکا دیا تو اس کے دونوں پٹ بڑی سہولت کے ساتھ اپنی چولوں پر گھوم گئے اور مجھ کو اپنے سامنے ایک کشادہ ڈیوڑھی نظر آئی جس کے ایک سرے پر دوہرے ٹاٹ کا پردہ لٹک رہا تھا۔ میں دروازے کے قریب گیا اور اب مجھے مکان کے اندر لوگوں کے بولنے چالنے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے دستک دی اور اندر کسی نے کسی کو پکار کر کہا:

’’دیکھو کوئی آیا ہے۔‘‘

تب میرا دماغ سوالوں سے منتشر ہونا شروع ہوا۔ اس مکان میں کون کون ہے ؛ میں کس سے کیا بات کروں گا؛ اپنے آنے کی غرض کیا بتاؤں گا؛ اپنے کو کس طرح پہچنواؤں گا۔ میرا جی چاہا کہ واپس لوٹ جاؤں، لیکن اسی وقت پردے کے پیچھے سے کسی عورت نے روکھے لہجے میں پوچھا:

’’کون ہے ؟‘‘

میں نے اپنا پورا نام بتا دیا۔

’’کس سے ملنا ہے ؟‘‘

اس کا میرے پاس ایک ہی جواب تھا۔

’’حکیم صاحب سے‘‘ میں نے کہا۔

’’مطب دوسری طرف ہے۔ وہیں جائیے۔ وہ تیار ہو رہے ہیں۔‘‘

آخری لفظوں تک پہنچتے پہنچتے آواز دور ہونا شروع ہو گئی تھی، اس لیے میں نے اور ذرا بلند آواز میں کہا:

’’اندر اطلاع کرا دیجیے۔‘‘

آواز پھر قریب آ گئی اور اب اس کے لہجے کا روکھاپن کچھ کم ہوا:

’’آپ کہاں سے آئے ہیں ؟‘‘

میں نے یہاں بھی اپنا اتا پتا  بتایا؛ کچھ توقف کیا، پھر اپنی والدہ کا نام لیا؛ پھر توقف کیا؛ پھر ان کا گھر کا نام بتایا؛ یہ بتایا کہ میں ان کا بیٹا ہوں ؛ پھر جھجکتے جھجکتے اپنا وہ دُلار کا نام بھی بتا دیا جس سے میں بچپن میں چڑتا تھا۔ میں نے یہ سب کچھ بہت بے ترتیب انداز میں بتایا، جسے پردے کے اُدھر والی عورت نے کسی کے پوچھنے پر قدرے مربوط کر کے دہرایا، اور مکان کے اندر عورتوں کے بولنے کی آوازیں تھوڑی دیر کے لیے تیز ہو گئیں۔ مجھے ان آوازوں میں اپنی والدہ کا گھر کا نام اور اپنا بچپن والا نام بار بار سنائی دیا۔ یہ دونوں نام میں بہت دنوں کے بعد سن رہا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اگر یہ نام اسی طرح سنائی دیتے رہے تو مجھ کو اس مکان کا پورا نقشہ اور اس کے رہنے والے سب یاد آ جائیں گے ؛ بلکہ میرے ذہن میں ایک کشادہ صحن کا نقش بننا شروع بھی ہو گیا تھا، لیکن عین اس وقت ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ ٹاٹ کا پردہ میری طرف بڑھا، اوپر اٹھا، اور اس کے نیچے سے ایک بائیسکل کا اگلا پہیا نمودار ہوا۔ میں ایک کنارے ہو گیا اور بائیسکل لیے ہوئے ایک لڑکا اندر سے ڈیوڑھی میں آیا اور مجھے سلام کرتا ہوا صدر دروازے سے باہر نکل گیا۔ میں خاموش کھڑا انتظار کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد پردے کے پیچھے سے دبی دبی آوازیں آئیں اور چار پانچ بطخیں پردے کے نیچے سے نکل کر ڈیوڑھی میں آئیں ۔ ان کی بے ترتیب قطار دیکھ کر صاف معلوم ہوتا تھا کہ انھیں باہر کی طرف ہنکایا گیا ہے۔ بطخیں آپس میں چہ میگوئیاں سی کرتی اور ڈگمگاتی ہوئی صدر دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔ اس کے بعد مکان کے اندر سے دیر تک کوئی آواز نہیں آئی۔ میں ڈیوڑھی میں کھڑے کھڑے اکتا گیا۔ مجھے وہم ہونے لگا کہ پردے کے پیچھے سے ویران مکانوں والی خاموشی باہر نکل کر مجھ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ لیکن اسی وقت دوسری طرف سے کسی نے کہا:

’’آئیے، اندر چلے آئیے۔‘‘

دوہرے ٹاٹ کا پردہ ایک طرف کر کے میں اس مکان کے صحن میں اتر گیا۔

 

 

 

                   4

 

بڑے صحن، دوہرے تہرے دالانوں، شہ نشینوں، صحنچیوں اور لکڑی کی محرابوں والے مکان میں نے اپنے بچپن میں بہت دیکھے تھے۔ یہ مکان ان سے مختلف نہیں تھا، لیکن مجھے یاد نہ آ سکا کہ کبھی میں یہاں آیا کرتا تھا۔ کشادہ صحن کے بیچ میں کچھ لمحوں کے لیے رک کر میں نے دیکھا کہ مکان کا ہر درجہ آباد ہے۔ کئی صحنچیوں سے عورتیں گردن باہر نکالے متجسّس نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس گھر کی بیگم کو کس حصے میں ہونا چاہیے، اور سیدھا اس دالان کی طرف بڑھتا چلا گیا جس کی بلند محرابوں میں عنّابی رنگ کے بڑے قمقمے لٹک رہے تھے۔ دالان میں نیچے تختوں کا چوکا اور اس کے دونوں طرف بھاری مسہریاں تھیں۔ سب پر صاف دھُلی ہوئی چادریں بچھی تھیں جن میں سے بعض کا ابھی کلف بھی نہ ٹوٹا تھا۔ چوکے پر ایک معمر خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے انھیں پہچانے بغیر سلام کیا، انھوں نے آہستہ سے مسکرا کر بہت سی دعائیں دیں۔ پھر بولیں :

’’بیٹے ! آج ادھر کہاں بھول پڑے ؟‘‘

مجھے خیال ہوا یہ سوال اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ اس کا جواب دیا جائے، لہٰذا اپنے امکان بھر شائستگی کے ساتھ میں نے ان کی مزاج پرسی کی، اور وہ بولیں :

’’تمھیں تو اب کیا یاد ہو گا، چھٹ پنے میں تم یہاں آتے تھے تو جانے کا نام نہیں لیتے تھے۔‘‘

پھر انھوں نے ایسی کئی تقریبوں کا ذکر کیا جن کے بعد میری والدہ کو محض میری ضد کی وجہ سے کئی کئی دن رکنا پڑا تھا۔

’’تب بھی تم روتے ہوئے جاتے تھے‘‘ انھوں نے کہا، اور دوپٹے کے پلّو سے آنکھیں پونچھیں۔

اس دوران مکان کے مختلف درجوں سے نکل نکل کر عورتیں اس بڑے دالان میں جمع ہوتی رہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے اپنا تعارف خود کرایا۔ پیچیدہ رشتے میری سمجھ میں نہ آتے تھے لیکن میں نے یہ ظاہر کیا کہ ہر تعارف کرانے والی کو میں پہچان گیا ہوں اور ہر رشتہ مجھے پہلے ہی سے معلوم تھا۔ سب عورتوں نے بالوں میں بہت سا تیل لگا کر چپٹی کنگھی کر رکھی تھی۔ سب موٹے سوتی دوپٹے اوڑھے ہوئے تھیں جن میں سے بعض بعض گھر کے رنگے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ ہر ایک کے پاس میرے بچپن کے قصوں کا ذخیرہ تھا۔ مجھے صحن کے کنارے لگا ہوا امرود کا ایک درخت دکھایا گیا جس پر سے گر کر میں بے ہوش ہو گیا تھا اور مجھے بے ہوش دیکھ کر میری والدہ بھی بے ہوش ہو گئی تھیں۔ میری شرارتوں کا ذکر چھڑا تو معلوم ہوا کہ میں نے وہاں پر موجود ہر عورت کو کسی نہ کسی شرارت کا نشانہ بنایا تھا۔

مجھے احساس ہوا کہ میں دیر سے ایک لفظ بھی نہیں بولا ہوں۔ سب لوگ شاید اب میرے بولنے کے منتظر تھے اور دالان میں کچھ خاموشی سی ہو گئی تھی۔ میں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو چوکے پر ایک طرف تین چار لڑکیاں بیٹھی دکھائی دیں۔ میں نے ان سے ان کی تعلیم اور دوسرے مشغلوں کے بارے میں دریافت کیا تو وہ شرما کر ایک دوسرے کے قریب گھسنے لگیں اور ان کی طرف سے دوسروں نے جواب دیے۔ ان سے کچھ فاصلے پر تین لڑکے کسی وقت آ کر بیٹھ گئے تھے۔ میں نے ان سے اپنے خیال میں ان کی دل چسپی کی دو چار باتیں کیں، لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ انھیں کن باتوں میں دل چسپی ہے۔ لڑکے مجھے بے وقوف اور لڑکیاں بے صورت معلوم ہوئیں، لیکن لڑکیوں کا شرمانا اچھا لگا۔ میں ان سے کچھ اور باتیں کرنے کے لیے ان کی دل چسپی کا کوئی موضوع سوچ رہا تھا کہ ڈیوڑھی کے دروازے پر کھڑکھڑاہٹ ہوئی۔ سائیکل والا لڑکا واپس آ گیا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں اخباری کاغذ کی کئی پڑیاں تھیں جن میں بعض پر چکنائی پھوٹ آئی تھی۔ اس نے دالان کی طرف دیکھ کر کچھ اشارہ کیا اور لڑکیاں اٹھ کر چلی گئیں۔ کچھ دیر بعد قریب کے کسی درجے سے ان کے ہنسنے اور چینی کے برتن بجنے کی آوازیں آئیں۔ مجھے دونوں آوازوں میں مبہم سی مشابہت محسوس ہوئی، اور یہ بھی شبہ ہوا کہ لڑکیاں میرے بولنے کی نقل اتار رہی ہیں۔

 

میں نے اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ مجھے اس دالان میں بیٹھے ہوئے کتنی دیر ہوئی ہو گی، لیکن اسی وقت میرے بائیں ہاتھ پر ایک دروازہ کھلا اور اس کی چلمن کے پیچھے حکیم صاحب کھڑے نظر آئے۔ میں نے انھیں فوراً پہچان لیا۔ وہ سر پر ٹوپی کا زاویہ درست کر رہے تھے۔ پھر وہ چلمن کی طرف منھ کر کے اپنی جیبوں میں کچھ ٹٹولنے لگے۔ ان کے پیچھے ایک اور دروازہ نظر آ رہا تھا جس کے قریب دیہاتی مردوں اور عورتوں کا مجمع لگا ہوا تھا۔

’’ارے بھئی، ہم آ رہے ہیں‘‘ حکیم صاحب نے کہا اور چلمن اٹھائی۔

’’آئیے آئیے‘‘ گھر کی بیگم بولیں، ’’دیکھیے کون آیا ہے۔ پہچانا؟‘‘

حکیم صاحب دالان میں آ گئے۔ میں نے جلدی سے اٹھ کر انھیں سلام کیا اور انھوں نے آہستہ سے میرا نام لیا۔ پھر بولے :

’’میاں آپ تو بہت بدل گئے، کہیں اور دیکھتا تو بالکل نہ پہچانتا۔‘‘

کچھ دیر تک وہ بھی مجھے میرے بچپن کی باتیں بتاتے اور میرے والد کی وضع داری کے قصے سناتے رہے۔ اتنے میں ایک ملازمہ پیتل کی ایک لمبی کشتی میں کھانے کی چیزیں لے کر آ گئی۔ میں نے ایک نظر کشتی میں لگی ہوئی چینی کی نازک طشتریوں کو دیکھا۔ ان میں زیادہ تر بازار کا سامان تھا، لیکن کچھ چیزیں گھر کی بنی ہوئی بھی تھیں۔ حکیم صاحب نے کشتی کی طرف اشارہ کیا اور بولے :

’’میاں، تکلف سے کام مت لیجیے گا‘‘ پھر بیگم سے بولے، ’’اچھا بھئی، ہم کو دیر ہو رہی ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ واپس اپنے کمرے میں چلے گئے۔

’’ان کو مطب سے فرصت ہی نہیں ہوتی‘‘ بیگم نے معذرت کے انداز میں کہا۔ وہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھیں، لیکن مجھ پر شاید کچھ دیر کو غنودگی سی طاری ہو گئی تھی، اس لیے کہ جب میں چونکا تو دالان میں صرف بیگم تھیں اور اس کی دو محرابوں پر کسی موٹے کپڑے کے پردے جھول رہے تھے۔ صرف بیچ کی محراب کھلی ہوئی تھی اور اس میں لٹکتا ہوا قمقمہ ہوا میں ہلتا ہوا کبھی داہنی طرف چکر کھاتا تھا کبھی بائیں طرف۔ میں نے چلمن کی جانب دیکھا۔ دوسرے دروازے کے قریب حکیم صاحب ایک بوڑھے دیہاتی کی نبض پر ہاتھ رکھے کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں بیگم کی طرف مڑا۔ ان پر بھی غنودگی طاری تھی، لیکن قریب کی کسی صحنچی سے لڑکیوں کی گھٹی گھٹی ہنسی کی آواز آئی تو وہ ہوشیار ہو کر بیٹھ گئیں۔

 

’’کیا مہر آئی ہیں ؟‘‘ انھوں نے اپنے آپ سے پوچھا۔ مجھے ان کے آسودہ چہرے پر پہلی بار فکر کی ہلکی سی پرچھائیں نظر آئی۔ اسی وقت داہنی طرف والی محراب کا پردہ ہٹا اور ایک نوجوان لڑکی دالان میں داخل ہوئی۔ میں نے اس کو اچٹتی ہوئی نظر سے دیکھا۔ وہ کسی بے شکن کپڑے کی نارنجی ساری باندھے تھی اور اس کے ناخن نارنجی پالش سے رنگے ہوئے تھے۔ بیگم مجھ سے مخاطب ہوئیں :

’’مہر کو پہچانا؟‘‘

میں نے پھر ایک اچٹتی ہوئی نظر اس کے چہرے پر ڈالی۔ اس کے ہونٹوں پر نارنجی لپ اسٹک کی بہت ہلکی تہہ تھی۔ میں نے سر کو یوں جنبش دی گویا اسے بھی دوسری عورتوں کی طرح پہچان گیا ہوں۔ پھر میں نے اس کو غور سے دیکھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ پردے کے پیچھے سے کسی لڑکی نے اسے دھیرے سے آواز دی اور وہ دالان سے باہر چلی گئی۔

حکیم صاحب اسی طرح بوڑھے دیہاتی کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے اور بیگم پر پھر غنودگی طاری ہو گئی تھی۔ میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ بیگم نے ادھ کھلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور میں نے کہا:

’’اب اجازت دیجیے۔‘‘

’’جاؤ گے ؟‘‘ انھوں نے بوجھل آواز میں پوچھا، اور اچانک مجھے کچھ یاد آ گیا۔

’’وہ۔ ۔ ۔ ڈراؤنی کوٹھری۔ ۔ ۔ اب بھی ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ڈراؤنی کوٹھری‘‘ انھوں نے کہا، کچھ سوچا، پھر افسردگی کے ساتھ مسکرا کر بولیں، ’’ایک بار تم نے مہر کو اس میں بند کر دیا تھا۔‘‘ پھر ان کی مسکراہٹ میں اور زیادہ افسردگی آ گئی۔ ’’چلو تمھیں یہاں کی کوئی شے تو یاد آئی۔‘‘

’’اب بھی ہے ؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔

’’وہ کیا ڈیوڑھی کے برابر دروازہ ہے۔ کچھ بھی نہیں، وہاں پہلے باورچی خانہ تھا، دھوئیں سے دیواریں کالی ہیں۔ ایک دروازہ باہر کی طرف بھی ہے، کھلا ہو گا۔ اس کی کنڈی نہیں لگ پاتی۔‘‘

’’میں ادھر ہی سے نکل جاؤں گا‘‘ میں نے کہا، رخصتی سلام کے لیے ہاتھ اٹھایا اور صحن کی طرف مڑا۔

’’اسی طرح کبھی کبھی یاد کر لیا کرو۔ پہلے تو روز کا آنا جانا تھا‘‘ انھوں نے لمبی سانس لی اور ان کی آواز تھوڑی کپکپا گئی، ’’وقت نے بڑا فرق ڈال دیا ہے، بیٹے۔‘‘

ان کے ہونٹ ابھی ہل رہے تھے، لیکن میں صحن پار کر کے ڈیوڑھی سے متصل دروازے میں داخل ہو گیا۔ وہاں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ چھت اور دیواروں پر کلونس تھی، اس کے باوجود اندھیرا بہت گہرا نہیں تھا۔ ایک طرف بھوسا ملی ہوئی چکنی مٹی کا بڑا سا چولھا تھا جسے توڑ دیا گیا تھا۔ سامنے روشنی کی ایک کھڑی لکیر نظر آ رہی تھی۔

 

باہر کا دروازہ، میں نے اپنے آپ کو بتایا اور لکیر کے پاس پہنچ کر اس سے آنکھ لگا دی۔ سامنے حکیموں کا چبوترا دکھائی دے رہا تھا۔ میری پیشانی کو لوہے کی لٹکتی ہوئی زنجیری کنڈی کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ میں نے اسے اپنی طرف کھینچا۔ دروازے کا ایک پٹ کھلا۔ میں نے کنڈی چھوڑ دی۔ پٹ آہستہ آہستہ بند ہو گیا۔ دو تین مرتبہ یہی ہوا۔ مجھے خیال آیا کہ اس طرح کے دروازوں کو کھولنا اور انھیں اپنے آپ بند ہوتے ہوئے دیکھنا بچپن میں میرا پسندیدہ کھیل تھا۔ میں نے دونوں پٹ ایک ساتھ اپنی طرف کھینچ کر کھولے اور باہر نکل آیا۔

کچھ دیر بعد میں کتھئی اینٹوں والے ایک منزلہ مکان کی پشت پر تھا۔ حکیموں کا چبوترا اور اس پر کی جھاڑیاں اور کچی قبریں اب اور زیادہ صاف نظر آ رہی تھیں۔ مجھے وہاں کسی چیز کی کمی محسوس ہوئی اور اسی کے ساتھ خیال آیا کہ میں نے چبوترے کو اوپر جا کر نہیں دیکھا۔ اور اسی وقت مجھے کچھ اور یاد آ گیا۔ میں واپس ہوا اور چبوترے کے اوپر آ گیا۔

قبروں کی تعداد میرے اندازے سے زیادہ تھی، لیکن پتاور کا وہ جھنڈ غائب تھا جو ایک بہت پرانے سانپ کا مسکن بتایا جاتا تھا۔ جو لوگ اسے دیکھنے کا دعویٰ کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اس کے پھن پر بال اُگ آئے ہیں۔ بچے پتاور کے جھنڈ کے پاس کھیلتے رہتے تھے، بلکہ میں تو اس کے اندر جا چھپتا تھا لیکن سانپ سے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا تھا۔ شاید اسی وجہ سے یہ بات مشہور تھی کہ وہ کئی پشتوں سے حکیم خاندان کا نگہبان ہے۔ خشک اور سبز پتاور کے اس جھنڈ کا نقش میرے ذہن میں بالکل واضح ہو گیا تھا، لیکن یہ مجھے یاد نہ آ سکا کہ وہ چبوترے پر کس طرف تھا۔ جس جگہ اس کے ہونے کا مجھے گمان تھا وہاں پر کئی قبریں تھیں جن پر چونے کی سفیدی چمک رہی تھی۔

چبوترے پر سے مکان کے صدر دروازے کو میں دیر تک دیکھتا رہا۔ میرا جی چاہنے لگا کہ اس پر دستک دوں، اور میں چند قدم ادھر بڑھا بھی، لیکن پھر رک گیا۔

یہ بہت واہیات بات ہو گی، میں نے سوچا، اور چبوترے پر سے مکان کی مخالف سمت اتر گیا۔

واپسی کا راستہ مشکل نہیں تھا۔ میں بہت آسانی سے گھر پہنچ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ساسانِ پنجم

 

دور دور تک پھیلے میدانوں میں بکھری ہوئی ان کوہ پیکر سنگی عمارتوں کے بننے میں صدیاں لگ گئی تھیں اور ان کو کھنڈر ہوئے بھی صدیاں گذر گئی تھیں۔ خیال پرست سیاح ان کھنڈروں کے چوڑے دروں، اونچے زینوں اور بڑے بڑے طاقوں کو حیرت سے دیکھتے اور ان زمانوں کا تصور کرتے تھے جب گذشتہ بادشاہوں کے یہ آثار صحیح سلامت اور وہ بادشاہ بھی زندہ رہے ہوں گے۔ ان عمارتوں میں لگے ہوئے پتھر کی سلوں پر کندہ تصویروں کو زیادہ غور اور دل چسپی سے دیکھا جاتا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ تصویریں اپنے زمانے کی تاریخ بیان کر رہی ہیں۔ ان میں تاج پوشیوں، جنگوں، ہلاکتوں، فاتح بادشاہوں کے دربار میں شکست خوردہ بادشاہوں کی حاضری اور دوسرے موقعوں کے منظر دکھائے گئے تھے جن سے ان پرانے زمانوں کی بہت سی باتوں کا کچھ اندازہ ہوتا تھا اور ان علاقوں کی پرانی تاریخ اور تمدن کے بارے میں کچھ غیریقینی سی معلومات حاصل ہوتی تھیں۔

انھیں کھنڈروں کے پتھروں پر بہت سے کتبے بھی کھدے ہوئے تھے اور سیاح ان کو بھی دل چسپی سے اور دیر دیر تک دیکھتے تھے، لیکن ان تحریروں کو کوئی پڑھ نہیں سکتا تھا۔ دیکھنے میں صرف ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے قطاروں کی صورت میں مختلف زاویوں سے تیروں کے پیکان بنا دیے ہیں، لیکن اس میں کسی کو کوئی شک نہیں تھا کہ پتھر کی سلوں پر پیکانوں کی یہ قطاریں در اصل لمبی لمبی عبارتیں ہیں جنھیں اگر پڑھ لیا جائے اور سمجھ بھی لیا جائے تو ان کی مدد سے ان تصویروں کو بھی اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے اور بہت سی ایسی باتیں بھی معلوم ہو سکتی ہیں جن کا تصویروں سے معلوم ہونا ممکن نہیں۔

ہمارے عالم ایک مدت سے ان تحریروں کو پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے اور ناکام ہو رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ اسی زبان کی تحریریں ہیں جس کے کچھ نمونے ساسانِ پنجم نے فراہم کیے تھے، لیکن ان نمونوں کی مدد سے ان کتبوں کو پڑھنا ممکن نہ ہوا اس لیے کہ وہ نمونے پیکانی تحریر میں نہیں تھے، اور ساسانِ پنجم کو گذرے ہوئے زمانہ ہو گیا تھا، بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کس زمانے میں تھا۔

آخر ایک مدت کی کاوشوں کے بعد جب مردہ زبانوں کو پڑھنے کا فن کافی ترقی کر گیا تو کھنڈروں کی انھیں تصویروں کی مدد سے اور کچھ دوسرے طریقوں سے ہمارے عالم پیکانوں کی شکل کی یہ تحریریں پڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور ان تحریروں کی مدد سے ان تصویروں کو بھی پوری طرح سمجھ لیا گیا۔ اس طرح گویا تحریروں نے تصویروں کا احسان اتار دیا۔

ایک ایک کر کے سارے کتبے پڑھ لیے گئے اور اس خبر کا عام طور پر خیرمقدم کیا گیا کہ ہماری زبانوں میں ایک نئی زبان کا اضافہ ہوا ہے جو ہزاروں سال پرانی ہے۔

لیکن اس زبان کا ساسان پنجم کے فراہم کیے ہوئے نمونوں کی زبان سے کوئی تعلق نہیں نکلا بلکہ ان دونوں زبانوں میں کوئی اتفاقی مشابہت بھی نہیں پائی گئی، اور یہ بات ہمارے عالموں کے گمان میں بھی نہیں تھی اس لیے کہ ان کی کئی پشتوں نے ان نمونوں کی زبان کا بڑی سنجیدگی سے مطالعہ کیا تھا اور اس کے بارے میں عالمانہ خیال ظاہر کیے تھے۔ اب انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ ساسانِ پنجم زبانوں کی تاریخ کا سب سے بڑا فریب یا سب سے بڑا مذاق تھا، جس کا شکار ہونا ظاہر ہے انھیں پسند نہیں آ سکتا تھا، اس لیے اب وہ چاہتے ہیں کہ ساسانِ پنجم اور اس کی زبان کو بھلا دیا جائے۔

 

ماننا پڑتا ہے کہ ساسانِ پنجم کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ ایک تو اس کے وجود ہی کا انکار کر دیا گیا، اور انکار کی دلیل یہ دی گئی کہ چار ابتدائی ساسانوں کے بغیر پانچویں ساسان کا وجود قائم نہیں ہو سکتا، اور تاریخ میں ایک ساسان کے سوا ساسانِ دوم، ساسانِ سوم اور ساسانِ چہارم کا سراغ نہیں ملتا، لہٰذا ساسانِ پنجم بھی نہیں تھا؛ اسی کے ساتھ اس کی پیش کی ہوئی زبان کو بھی باطل کر دیا گیا۔

لائق عالموں نے بڑی محنت سے ثابت کیا ہے کہ ساسانِ پنجم نے جس زبان کے اصلی اور قدیمی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس زبان کا کبھی وجود نہ تھا، اور ساسانِ پنجم نے اس موہوم زبان کے جو الفاظ درج کر کے ان کے جو معنی لکھے ہیں وہ سب لفظ خود اس کے گھڑے ہوئے ہیں اور اس سے پہلے نہ کسی زبان سے ادا ہوئے تھے نہ کسی قلم نے انھیں لکھا تھا۔ اور اس زبان کی جو قواعد ساسان پنجم نے ظاہر کی ہے وہ بھی سراسر اس کے ذہن کی اختراع ہے، حقیقتاً کسی بھی زبان کے جملوں میں لفظوں کی ترتیب اس طرح نہیں تھی جس طرح ساسان پنجم کی اس مفروضہ قواعد میں ملتی ہے۔

عالموں نے یہ تمام باتیں ثابت کرنے میں حیرت خیز مطالعے اور ذہنی کاوش کا ثبوت دیتے ہوئے علم اور منطق دونوں سے کام لیا ہے اور اس سلسلے کی ہر نئی دریافت ان کے دعووں کو مزید مستحکم کرتی جاتی ہے۔ تاہم انھیں دریافتوں کی بنیاد پر یہ عالم اس کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ایک عرصے تک ساسانِ پنجم کو حقیقی اور اس کی زبان کو اصلی سمجھا جاتا رہا اور گذشتہ عالم اس زبان کے لفظوں کا فخریہ استعمال کرتے تھے، لیکن ان لفظوں کی مدد سے ایک مستقل اور قائم بالذات زبان بولنے اور لکھنے میں ان گذشتہ عالموں کو کامیابی نہیں ہو سکی اگرچہ ان میں سے کئی اس زبان سے واقفیت کے مدعی بتائے جاتے تھے۔

آج کا عالم بتاتا ہے کہ گذشتہ زمانے میں کچھ لفظ استعمال ہوتے تھے جن کا حقیقی وجود نہیں تھا، وہ اس طرح کہ یہ لفظ جن معنوں میں استعمال کیے جاتے تھے در اصل ان کے معنی وہ نہیں تھے، در اصل ان کے معنی کچھ بھی نہیں تھے، تاہم ان میں کا ہر لفظ ایک مخصوص معنی کے لیے استعمال ہوتا تھا، یعنی بولنے والا ایک لفظ بولتا تھا اور اس سے ایک معنی مراد لیتا تھا اور سننے والا اس کے وہی معنی سمجھتا تھا جو بولنے والا مراد لیتا تھا، لیکن حقیقتاً اس لفظ کے وہ معنی نہیں ہوتے تھے جو بولنے والا مراد لیتا اور سننے والا سمجھتا تھا، اس لیے کہ در اصل وہ کوئی لفظ نہیں ہوتا تھا اور چونکہ وہ کوئی لفظ نہیں ہوتا تھا اس لیے اس کے کوئی معنی بھی نہیں ہوتے تھے۔ اور یہ بے معنی لفظ جس زبان کے سمجھے جاتے تھے اس زبان کا بھی حقیقی وجود نہیں تھا، اگرچہ عالم اس امکان کا انکار نہیں کرتے کہ کسی زمانے میں کہیں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہو، تاہم در اصل یہ کوئی زبان تھی نہیں۔

عالموں کی ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نہ کوئی ساسانِ پنجم تھا، نہ اس کی پیش کی ہوئی کوئی زبان تھی، نہ اس زبان کا کوئی لفظ تھا اور نہ اس لفظ کے کچھ معنی تھے۔

لیکن اسی ساری تحقیق کا خلاصہ یہ بھی ہے کہ ایک وقت میں کچھ معنی تھے جو بعض لفظوں سے ادا ہوتے تھے، اور یہ لفظ ایک زبان سے منسوب تھے، اور اس زبان کا تعارف ایک شخص نے کرایا تھا، اور وہ شخص خود کو ساسانِ پنجم بتاتا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

جانِ عالم

 

 

اوّل اس خالقِ حقیقی کی ثنا چاہیے جس نے ایک حرف کن سے صفحۂ دو عالم پر کیا کیا صورتیں دکھائیں، بعدہٗ گلہ اس خالقِ مجازی کا کیا چاہیے جس نے فسانۂ عجائب لکھ کر اس گناہ گار جانِ عالم کی ہزار در ہزار گتیں بنائیں۔ وہ کون، مرزا رجب علی بیگ سرور مغفور کہ بیت السلطنت لکھنؤ کے ایک مردِ تماش بین تھے لیکن بادشاہی کارخانے سے اصلا واقف نہیں تھے۔ یہ بھی اپنی شورہ بختی، نصیبے کی سختی تھی کہ اپنی خلقت اس مردِ تماش بین کے ہاتھوں ہونی تھی، اس حلیے سے ہم چشموں میں آبرو کھونی تھی۔

فسانۂ عجائب، کہ فی الواقع خزانۂ غرائب ہے، مرزا نے دوستوں میں چھیڑ تو دیا، لیکن جس شاہ زادے کو بزورِ طلاقتِ لسانی و فصاحتِ بیانی کتمِ عدم سے معرضِ وجود میں لائے، اس کے این و آں کو سمجھ نہ پائے۔ ناچار بہ حالتِ اضطرار ان مغفور نے فرض کر لیا کہ اگر خود بدولت شاہ زادۂ دل دار ہوتے تو کیا کرتے اور وادیِ عشق میں کیونکر پاؤں دھرتے۔ پس سب سے پہلے یہ مقدمہ دھیان میں رکھا چاہیے کہ جانِ عالم میں روحِ پُر فتوح مرزا سرور کی غالب ہے، شاہ زادے کا جو سچ پوچھو تو قالب ہی قالب ہے۔

پہلا ستم مرزا نے توتے کی خریداری میں ڈھایا۔ یہ فقرہ سنایا کہ جانِ عالم نے بہ نفسِ نفیس گزری بازار میں اس حیوانِ ناطق کا پنجرہ ہاتھ میں لے مالک سے اس کی قیمت پوچھی۔

ذرا انصاف کو کام فرمائیے گا، شاہ زادہ جانِ عالم، باپ جس کا شاہ فیروز بخت، ’’مالک تاج و تخت‘‘، ’’گردوں وقار، پر تمکین، با افتخار‘‘ جس کے ’’سکندر سے ہزار خادم، دارا سے لاکھ فرماں بردار‘‘ وہ گزری بازار میں چڑی ماروں سے مول تول کرتا پھرے !

تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو

میں تو شرم سے کٹ گیا، بخدا جینے سے جی ہٹ گیا، اس درجہ یہ امر شاق ہوا، مگر وہ جو مثل ہے مردہ بدست زندہ، اسی کا مصداق ہوا۔

پھر مرزا نے یہ تماشا دکھایا کہ توتے کی زبان سے احوال شہرِ زرنگار اور شاہ زادی انجمن آرا کا سنایا اور مجھ کو اس کا نادیدہ عاشق بنایا۔ باللہ میں اتنا سادہ لوح نہ تھا کہ ایک توتے کی باتوں میں آ کر انجمن آرا کا جاں نثار، آوارۂ شہر و دیار ہوتا۔ مگر مرزا کو تو قصہ آگے بڑھانا تھا، اس واسطے یہ کھیل بھی دکھانا تھا۔ اس طائرِ سبز قبا کو یوں بھی سخنانِ مبالغہ آمیز سے شغف تھا اور اس وقت تو وہ ماہ طلعت کے  علی الرغم انجمن آرا کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔ یہ بھید میری سمجھ میں بھی آ رہا تھا۔ مگر اصل یہ ہے کہ معاملہ اپنا اور اس طائر کا واحد تھا، یعنی وہ قفس کی تنگی سے نکل کر لطف سیّاحت کا اٹھانا چاہتا تھا، میں بھی، کہ شادی کے جنجالوں میں گرفتار تھا، کچھ دن کے لیے تاہل کی زندگی سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا۔ نہ تو میں کسی شاہ زادی کی خاطر دربدر ہوا تھا نہ توتا از راہِ خیرخواہی میرا رہبر ہوا تھا۔ دلیل اس کی یہ کہ آغازِ سفر ہی میں وہ مجھ سے جدا ہو گیا؛ اچھا بھلا توتا تھا، عنقا ہو گیا۔

معلوم ہوا ہے کہ اب داستانوں میں کسی ایک فرد کو ہیرو کہا جاتا ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فسانۂ عجائب کا ہیرو مجھ گناہ گار کو مقرر کیا ہے۔ اپنے تئیں ہیرو جان کر جو صدمے جانِ حزیں پر گذر گئے ان کا تو ذکر ہی کیا ہے، بڑا رنج اس کا ہے کہ اربابِ نقد نے ہیرو قرار دے کر مجھ کو انتقاد کی کسوٹی پر کسنا اور کبھی مجھ پر گرجنا، کبھی سرورِ مغفور پر برسنا شروع کر دیا ہے۔ بعضے بعضے بزرگواروں نے لکھا کہ جانِ عالم کا مثالی کردار ہے، بدیں سبب یہ کردار عیب دار ہے، کس واسطے کہ اربابِ نقد کی نظرِ کدورت اثر میں اگر کوئی کردار مبرّا از عیب ہے تو یہ بے عیبی اس کا عیب لاریب ہے۔ دو ایک بزرگوار میرے طرف دار بن کر اٹھے اور کہنے لگے کہ جان عالم کا کردار کہاں مثالی ہے، وہ تو جوہرِ عقل ہی سے خالی ہے۔ اور بارِ ثبوت بھی اٹھا لائے کہ اس نے بے سمجھے بوجھے آپ کو حوض میں گرایا اور اس نے تو نقشِ سلیمانی ہاتھ سے گنوایا اور وہ تو وزیر زادۂ نابکار کی باتوں میں آیا؛ حرم میں اس کی بے عقلی کی دھوم رہتی ہے، انجمن آرا اس کو ساری مصیبتوں کا ذمے دار، مہر نگار ’’احمق الذی شاہ زادہ‘‘ کہتی ہے۔ بلکہ وہ تو خود بھی اپنے آپ کو ’’حمق میں گرفتار‘‘ بتاتا اور ساری داستان میں از اول تا آخر غلطی پر غلطی کرتا جاتا ہے۔ مگر ان کلماتِ لا طائل سے جو اذیتیں دلِ صفا منزل کو ہوئیں، وہ اس صدمے کے مقابل ہیچ تھیں کہ اس حماقت مآبی کو مجھ حقیر بے تقصیر کی خوبی بتایا گیا ہے، اور اربابِ نقد کے نزدیک اسی خوبی کی وجہ سے جانِ عالم کو جیتا جاگتا پایا گیا ہے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔

بر ایں عقل و دانش بباید گریست

جواب ان امور کا تفصیل طلب ہے، یہاں اتنی فرصت کب ہے۔ المختصر کہتا ہوں کہ میں ایک محبوب پری رو کی ترغیب سے حوضِ مصفّا میں کود پڑا، لوگ تو ان مقدموں میں آگ جہنم کی اپنے اوپر گوارا کرتے ہیں۔ میں نے نقشِ سلیمانی کو ہاتھ سے دیا تو اسی پری رو کی ناسازیِ مزاج سے گھبرا کر۔ وزیر زادے پر اگر میں نے اعتبار کیا، تبدیلیِ قالب کا راز اسے بتا دیا، تو کیا آپ اپنے کسی جگری دوست پر اعتبار، اس کو اپنا راز دار نہیں کرتے ؟ اگر انجمن آرا اور مہر نگار مجھ کو کم عقل جانتی ہیں تو کون سی انوکھی بات ہے، خاوند کو بے عقل سمجھنا تو منجملۂ صفاتِ مستورات ہے۔ اور ہاں جو میں نے اپنے تئیں حمق میں گرفتار کہا، وہ از راہِ انکسار کہا۔ اعترافِ نادانی نہ کرتا تو کیا ہمہ دانی کا دم بھرتا؟

خیال فرمائیے گا کہ جب میں وزیر زادے کے فریب میں آ کر روح اپنی بندر کے قالب میں لے گیا اور وہ نمک حرام میرے قالب پر متصرف ہوا، خود جانِ عالم بن بیٹھا اور میرے درپے ہو کر تمام بندروں کو پکڑوانے اور بلا فرق سب کے سر پھڑوانے لگا، تو میں خوفِ جاں سے درختوں میں چھپتا پھرتا تھا۔ بارہا یہ تدبیر خیال میں آئی کہ بندر کا قالب چھوڑ روح اپنی کسی اور جانور کے قالب میں لے جائیے اور وزیر زادۂ بد نہاد کے جوروں سے جان بچائیے، مگر میرے جملہ امور مرزا سرور کے حوالے تھے، وہ بھلا کہاں ماننے والے تھے۔ انھیں تو میری جان ملکہ مہر نگار کے ہاتھوں بچانی تھی، مجھ سے زیادہ اس کی فراست دکھانی تھی۔ پس جب اس نے مجھے توتا دکھا کر اس کی گردن مروڑی، تب میں نے بندر کے جسم کی جان چھوڑی، توتے کے قالب میں سمایا، خواہی نخواہی ملکہ کا بارِ احسان اٹھایا۔

اب اصل قصہ مجھ سے سنیے اور ناسازیِ بختِ ناساز و کج بازیِ فلکِ حقّہ باز پر سر دھنیے۔ ہوا یوں کہ مرزا سرور داستان سنانے چلے تھے میری اور انجمن آرا کی، جب دیکھا کہ یہ داستان جلد ختم ہو جائے گی اور گروہِ سامعین میں شرفِ قبول نہ پائے گی، بیچ میں ملکہ مہر نگار کو کھینچ لائے۔ وہ عورت بلا کی دماغ دار، تیز طرار، آئے تو کہاں جائے۔ میری اس کی پہلی ملاقات ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ پری زادوں کے جھرمٹ میں ’’ہوادار پر ایک آفتابِ محشر سوار، تاجِ مرصّع سر پر، لباسِ شاہانہ پُرتکلف در بر، نیمچۂ سلیمانی ہاتھ میں، سیماب وَشی بات بات میں، بندوقِ چقماقی طائرِ خیال گرانے والی برابر رکھے، شکار کھیلتی، سیر کرتی چلی آتی ہے۔‘‘ اس پر نظر پڑتے ہی منھ سے تو نکلا:

کیا تنِ نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے

کیا بدن کا رنگ ہے تہہ جس کی پیراہن پہ ہے

مگر جی میں سوچا، مرزا نے غضب کر دیا۔ کس برق جہندہ کو مہمان کیا، میری رسوائی جگ ہنسائی کا سامان کیا۔ کیا جانِ عالم بے چارہ اور کیا شاہ زادی انجمن آرا، یہ دم کے دم میں سب پر غالب آ جائے گی، دیکھتے دیکھتے پورے فسانے پر چھا جائے گی، پھر کسی سے کچھ بن نہیں آئے گی۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اور خود مرزا بھی اس کو داستان میں لا کر ایسے مدہوش ہوئے کہ دوسرے افرادِ قصہ یکبارگی فراموش ہوئے۔ واللہ اعلم مجھ روسیاہ میں اس ملکۂ ذی جاہ نے کیا بات پائی کہ صورت دیکھتے ہی متاعِ صبر و ہوش لٹائی۔ روبرو جس آن ہوئی، عاشق بہ ہزار جان ہوئی۔ عشق اور عقل میں بیر مشہور ہے مگر اسے دیکھا کہ سراپا عشق اور مجسم شعور ہے۔ میں نہ اس کے مقابلے پر آ سکتا تھا نہ اس زبردست سے پیش پا سکتا تھا۔ وہ ملکۂ تجربہ رسیدہ، جہاں دیدہ، انصرامِ امور میں مرد انکار سے زیادہ، میں نازوں کا پلا نا آموز شاہ زادہ۔ جب دیکھا کہ وہ ہر مہم کو سر کر سکتی ہے اور مجھ سے بہتر کر سکتی ہے، اور مرزا سرور بھی اسی کی جانب نگراں، مجھ سے روگرداں ہیں، سب کچھ اسی پر چھوڑ دیا، یہ شعر شاعر کا اپنے حسب حال کیا:

ما اختیارِ خویش بہ دستِ تو دادہ ایم

دنیا و دیں بہ نرگس مستِ تو دادہ ایم

آخر میں مرزا سرور کی ایک اور ستم ظریفی کا مذکور ضرور ہے۔ وہ کیا کہ فسانۂ عجائب کے ختم پر یہ جملہ مسطور ہے : ’’جس طرح جانِ عالم کے مطلب ملے اسی طرح کل عالم کی مراد اور تمنائے دلی اللہ دے۔‘‘ سبحان اللہ، ہم ایک شادی کے بندھن سے گھبرا کے، جان چھڑا کے وطن سے نکلے، خراب و خوار ہوئے، مرزا کے لطفِ داستان کی خاطر دو اور شادیوں سے دوچار ہوئے۔ اب ہر ثانیہ شش و پنج میں گرفتار ہیں، حواسِ خمسہ یکسر بے کار ہیں۔ تین بی بیوں کے درمیان عمر بسر ہوتی ہے، اور اربابِ نقد میں سے ایک نہیں پوچھتا کہ کیونکر ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بابا مقدم

 

 

                   پنجرے

 

پنجروں کا عجائب خانہ اس شہر کی قابل دید جگہوں میں سے تھا۔ وسیع میدان میں ایک پہاڑی پر بنی ہوئی اس کی مخروطی چھت والی عمارت دور ہی سے نظر آنے لگتی تھی۔

موٹریں تماشائیوں کو ایک لہراتی ہوئی سڑک سے، جس کے دونوں طرف شہتوت کے درخت لگے ہوئے تھے، عمارت کے سامنے والے میدان میں اتارتی تھیں۔ اگر کوئی پہاڑی پر پیدل جانا چاہتا تو اس کے لیے ایک تنگ راستہ تھا جس پر سو سے زیادہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ پیدل جانے والا دو تین بار بیچ بیچ میں بنے ہوئے چبوتروں پر بیٹھ کر سستانے کے بعد بھی آگے بڑھ سکتا تھا۔

اوپر سے نیچے تک پوری پہاڑی تھالوں میں ترتیب کے ساتھ لگائی ہوئی انگور کی بیلوں اور سماق کی جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ایسے بنجر میدان میں جہاں خاردار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ اگتا تھا، اس ہری بھری پہاڑی کا منظر بہت بھلا معلوم ہوتا تھا اور ہر شخص کا جی چاہتا تھا کہ ان سیڑھیوں سے اوپر چڑھے اور اس سبز پہاڑی پر سے میدان اور اطراف کے نشیب و فراز کا سماں دیکھے۔

باہر سے عجائب خانے کی شکل ایک چوڑے ستون کی سی تھی جس کی چھت گنبد نما تھی۔ اس کی دیوار بندی زمین سے اٹھ کر گنبد تک پہنچتی ہوئی لوہے کی لمبی لمبی سلاخوں سے کی گئی تھی۔ گنبد کے سرے پر ایک حلقہ تھا اور اس میں لگا ہوا ایک بڑا سا آنکڑا اوپر فضا میں اٹھا چلا گیا تھا۔

عمارت کا فرش دور دور پر بنے ہوئے پایوں پر قائم کیا گیا تھا اور اس طرح دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بہت بڑا پنجرہ آسمان سے لٹکا ہوا ہے۔

اگر کوئی پنجروں کے عجائب خانے کی سیر کرنا چاہے تو اس کو عمارت کے سامنے کے میدان سے شروع ہونے والی کچھ اور سیڑھیاں چڑھ کر اس بڑے پنجرے کے دروازے تک جانا ہو گا۔ وہاں پنجرے ہی کی شکل کے ایک حجرے میں عجائب خانے کے تنہا محافظ سے معلوماتی کتابچہ لے کر وہ عمارت کے اندر داخل ہو گا۔

عمارت کے اندر تین منزلیں ہیں اور اس کے مرکز میں بنا ہوا ایک پیچ دار زینہ ان تینوں منزلوں کو آپس میں ملاتا ہے۔

اور یہ عمارت پنجروں سے بھری پڑی ہے۔ چھوٹے اور بڑے پنجرے، لکڑی کے پنجرے، لوہے کے تار کے بنے ہوئے پنجرے، سونے کے اور چاندی کے پنجرے۔ اور یہ پنجرے طرح طرح کی شکلوں کے ہیں۔ ان میں سے بعض، جو دور دست سرزمینوں کے نیم وحشی قبیلوں اور پہناور سمندروں کے جزیروں سے حاصل کیے گئے ہیں، ایسی ایسی وضعوں کے ہیں کہ تماشائی انھیں اچھی طرح دیکھنے کے لیے دیر دیر تک ایک ہی جگہ کھڑا رہ جاتا ہے۔ ہر پنجرے کے پاس ہی یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اسے کہاں بنایا گیا، کب خریدا گیا اور اس میں کس قسم کا جانور یا پرندہ رکھا جاتا تھا۔ ان پنجروں میں کوئی جانور نہیں ہے۔ سب خالی ہیں اور ان میں کھانے پینے کے برتن جوں کے توں رکھے ہوئے ہیں۔ سارے پنجروں میں جانوروں کے بیٹھنے اور سونے کے اڈے، پٹریاں، کڑے اور آشیانے بھی موجود ہیں۔

عجائب خانے کے اندر کی فضا بھی ایسی ہے کہ ذرا غور کرنے پر تماشائی خود کو اچانک ایک بڑے سے پنجرے میں بند محسوس کرتا ہے اور اس پر دہشت طاری ہو جاتی ہے۔

سب سے پہلا پنجرہ، جس کا نمبر ایک ہے، چھوٹا سا اور لکڑی کا بنا ہوا ہے جس میں پانی پینے کی کٹوری اور دانے کا برتن رکھا ہوا ہے۔ معلوماتی کتابچہ دیکھنے پر تماشائی کو اس کی صراحت ملتی ہے۔

 

میں نے پہلے قفس کو ایک لڑکے کے پاس دیکھا جس نے اس میں ایک گوریا کا بچہ بند کر رکھا تھا۔ یہ ننھا پرندہ پنجرے کے اندر سکڑا ہوا اونگھ رہا تھا۔

میں نے یہ پنجرہ پرندے سمیت لڑکے سے خرید لیا۔ پرندے کا پوٹا سوج گیا تھا اور وہ بالکل نڈھال ہو رہا تھا۔ میں نے اسے رہا کر دیا۔ وہ جھجکتا ہوا پنجرے سے باہر نکلا اور اپنے کم زور پروں سے بہ مشکل اڑ کر ایک دیوار پر بیٹھ گیا۔ پھر وہاں سے بھی اڑا اور ایک درخت کی ٹہنی پر جا بیٹھا۔ میں خالی پنجرہ اپنے ساتھ لے آیا اور کئی دن تک اپنے کمرے میں رکھ کر اسے دیکھتا رہا۔

میں دیکھتا تھا کہ بہت سے لوگ طرح طرح کی چیزیں جمع کرتے ہیں اور اپنے اس شغل میں انھیں بڑا انہماک رہتا ہے۔ لوگ ٹکٹ جمع کرتے ہیں، ماچس کی ڈبیاں، قفل، پرانے پیالے اور قابیں ادھر ادھر سے تلاش کر کے اکٹھا کرتے ہیں، میں نے بھی ارادہ کر لیا کہ میں پنجرے جمع کروں گا۔ یہ خیال مجھے پسند آیا۔ مجھے اپنے باپ کے ترکے میں بڑی جائداد ملی تھی۔ میرے بیوی بچے بھی نہیں تھے۔ میرے سے تنہا آدمی کے لیے یہ بڑا اچھا مشغلہ تھا۔ لہٰذا میں اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے بازاروں اور محلوں میں گھومنا شروع کیا اور پنجرہ نمبر دو خریدا۔ اس پنجرے میں ایک طرقہ تھا۔ گوریا سے کچھ بڑا مٹیالے رنگ کا یہ پرندہ پنجرے کے فرش پر مستقل ادھر سے ادھر چکر کاٹا کرتا ہے اور ہمیشہ باہر کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔

جس دن میں نے اسے دیکھا وہ چہچہا رہا تھا اور سیٹیاں بجا رہا تھا۔ وہ اپنے ہم جنسوں کو بلا رہا تھا، بیابانوں کا خواہاں تھا، کھلی فضا کا طالب تھا جس میں پر کھول کر اڑ سکے۔ آزادی کے لیے اس کی یہ کوشش اور فریاد کا انداز دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ جیسے بھی بن سکا میں نے اس کے مالک کو، جو ایک دکان دار تھا، راضی کر کے اسے خرید لیا اور گھر لے آیا۔ یہ پرندہ دن بھر میرے گھر میں سیٹیاں بجاتا اور زور زور سے چہچہاتا رہا۔ پنجرے کے اندر ایک آئینہ لگا ہوا تھا۔ پرندہ کبھی کبھی اس کے سامنے آ کر ٹھہر جاتا اور یہ سمجھ کر کہ سامنے ایک اور طرقہ ہے، اپنے حلقوم کو پھلا کر چہچہانے لگتا۔ اسی دن سہ پہر کے قریب میں نے اس کا پنجرہ اٹھایا اور شہر کے باہر آ گیا۔ ترکاریوں کے ایک کھیت میں جا کر میں نے پنجرے کا دروازہ کھولا اور پرندے کو آزاد کر دیا۔ ایک شخص جو وہیں پر موجود تھا، کہتا رہا کہ اس پرندے کو شکرا جھپٹ لے جائے گا مگر میں اس کی بات پر کان دھرے بغیر دیکھ رہا تھا کہ پرندہ اڑا اور اڑتے اڑتے نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔

گھر لوٹ کر میں بہت خوش تھا کہ اب میرے پاس ایک اور پنجرہ ہو گیا۔ میں نے اسے جھاڑ پونچھ کر ایک کھونٹی سے لٹکا دیا۔ یہ مضبوط پنجرہ تھا جس کے کڑے تانبے کے تھے، غلاف سرخ کپڑے کا، پانی کی کٹوری پھول دار چینی کی، دانے کی پیالی پر منبت کاری، اور ایک چھوٹا سا آئینہ۔

پھر دو تین دن ایسے گذرے کہ میرے دل میں جو خیال پیدا ہوا تھا میں اس کو دور نہ کر سکا۔ میں نے خود سے کہا:

’’اے مرد! ہر شخص کسی نہ کسی راستے پر لگا ہوا ہے۔ یہ تیرا راستہ ہے : پرندوں کو ان کے پنجروں سمیت خریدنا، پرندوں کو آزاد کرنا اور پنجروں کو جمع کرنا۔‘‘

کبھی کبھی میں یہ سوچ کر خوش ہوتا تھا کہ ایک دن میں پنجروں کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک ہو جاؤں گا۔ میں چاہتا تھا کہ ایک دن ایسا آئے جب دنیا میں کوئی پنجرہ باقی نہ رہ جائے یا کم از کم وہ سرزمین جہاں میں رہتا ہوں پنجروں سے خالی ہو جائے۔

اسی فکر اور اسی آرزو میں آخر میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ میں نے دو لڑکوں کو ملازم رکھ کر اپنے ساتھ لیا۔ میں جہاں بھی کسی پرندے کو پنجرے میں دیکھتا اسے خرید لیتا۔ بہت سے لوگ اپنے پنجرے بیچنے پر تیار نہ ہوتے۔ کہتے کہ یہ تو ہمارا مشغلہ ہے اور ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ میں جواب میں نرمی کے ساتھ ان سے بحث کرتا اور بہرطور آخرکار مجھی کو کامیابی ہوتی۔ ان سب کو پیسہ ہر چیز سے عزیز تھا۔

اس دن میں نے گیارہ پنجرے خریدے۔ ان پنجروں میں چار سہرے، دو گوریاں، ایک طرقہ، ایک طوطا، دو قناریاں اور ایک بلبل تھی۔ دونوں ملازم لڑکوں کی مدد سے میں ان پنجروں کو شہر کے باہر ایک باغ میں لے گیا اور ان سب لوگوں کے سامنے جو ہمارے ساتھ ہو لیے تھے، میں نے پرندوں کو چھوڑ دیا۔ کئی لوگوں نے کہا کہ قناریاں بھوکی مر جائیں گی، گوریوں کو شکرا کھا جائے گا، طوطا اس علاقے میں زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن میں ان کی باتوں پر دھیان دیے بغیر پرندوں کو آزاد کر کے خالی پنجرے گھر لے آیا۔

میرے اپنے شہر میں بہت سے لوگ کرک پالتے تھے۔ یہ پرندہ درخت پر نہیں بیٹھتا بلکہ میدانوں اور کھیتوں میں رہتا ہے۔ اس کی رنگت خاکی اور جسامت کبوتر سے کم ہوتی ہے، جنگلی جھاڑیوں اور گیہوں کے کھیتوں میں انڈے دیتا اور بچے پالتا ہے۔ اس کا شکار کرنے والے جس کھیت میں اس کی آواز سنتے ہیں اس کے قریب ہی جال بچھا دیتے ہیں۔ پھر اپنے ساتھ لائے ہوئے سامان کی مدد سے ایسی آواز پیدا کرتے ہیں جو اس کی مادہ کی آواز سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ بے چارہ پرندہ آواز کی طرف بڑھتا ہے اور ناگہاں جال میں پھنس جاتا ہے۔ تب اس کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر لیتے ہیں۔ یہ اسیر پرندہ دن رات پنجرے کے در و دیوار پر ٹکریں مارتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر اور پروں سے خون بہنے لگتا ہے، اور لوگ اس کو تلف ہونے سے بچانے کے لیے پنجرے کی دیواریں سوت کی جالی سے بناتے ہیں۔ گرمی کے دنوں میں سویرے تڑکے جب دھندلکا چھایا ہوتا ہے اور صبح کی نرم ہوا چل رہی ہوتی ہے، کرک بولتا ہے۔ اس کی آواز میں تمنا، یاس اور التجا ہوتی ہے۔ میں نے کرک کا سا آزادی کا جویا کوئی پرندہ نہیں دیکھا۔ یہ کبھی پنجرے سے مانوس نہیں ہوتا، ہمیشہ باہر کی سمت دیکھتا رہتا ہے اور ہمیشہ پنجرے کی جالیوں سے سر ٹکراتا رہتا ہے۔

میں نے فیصلہ کر لیا کہ سب کرکوں کو آزاد کر کے رہوں گا۔ اپنی املاک سے میری یافت بہت تھی اور اس کی بدولت اپنے فیصلے پر عمل کرنا میرے لیے بہت آسان ہو گیا، اتنا کہ کچھ عرصے کے اندر اس شہر میں ایک بھی ایسا پنجرہ نظر نہیں آتا تھا جس میں کوئی پرندہ قید ہو۔ اب کسی کو پنجرے کے اندر سے بلبل کی آواز، قناری اور طرقے کی چہچہاہٹ، طوطے کی بولی سنائی نہیں دیتی تھی۔ اب صبح کی ٹھنڈی ہوا میں گھروں کے اندر سے آتی ہوئی کرک کی فریاد کانوں تک نہیں پہنچتی تھی۔ ہم دیکھتے تھے کہ قمریاں چھتوں پر بیٹھی ہوئی ہیں اور طوطے شہر کے باغوں میں اونچے درختوں پر سے ایک دوسرے کو آوازیں دے رہے ہیں۔

جب میں اپنے گھر میں خالی پنجروں کو دیکھنا شروع کرتا تو مجھ پر ایک کیف و نشاط کا عالم طاری ہو جاتا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ دنیا میں اکیلا میرا ہی شہر نہیں ہے۔ اور جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک میری عمر ختم نہیں ہوتی، میرا کام بھی باقی ہے۔ مجھے دورافتادہ قریوں اور شہروں، زخار سمندروں کے دور دست جزیروں، تپتی ہوئی زمینوں، سر بہ فلک برف آلود پہاڑوں سے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر پنجرے لانا ہیں۔ ذخیرے کو مکمل ہونا چاہیے، ذخیرے میں ہر نمونہ موجود ہونا چاہیے۔ میرا ذخیرہ تو محض مقامی تھا اور اس کی میری نظروں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔

تو میں نے سفر کا سامان کیا اور دوسرے ملکوں کی سیاحت کے لیے روانہ ہوا۔ جس طرح شہر بہ شہر لوگوں کی زبان، لہجے، شکل صورت، رسم و رواج میں تبدیلی ہوتی جاتی ہے اسی طرح الگ الگ شہروں کے پنجروں کی ساخت اور پرندوں کی قسموں میں بھی فرق آ جاتا ہے۔ جس چیز میں فرق نہیں آتا وہ انسان کا یہ شوق ہے کہ پنجرے بنائے اور حیوانوں کو اسیر کرے۔ ہر جگہ طرح طرح کی شکلوں والے پنجروں کی کثرت تھی اور ان سب پنجروں میں رنگ رنگ کے پرندے، بھانت بھانت کے جانور نظر آتے تھے کہ یا تو ایک کونے میں سمٹے ہوئے پڑے ہیں یا چیخ رہے ہیں۔

ایک شہر میں مجھے لومڑی کا ایک لاغر اور کم زور بچہ پنجرے میں بند نظر آیا۔ اس کے بال جھڑ رہے تھے اور اس کی سوجی ہوئی سرخ کھال نیچے سے جھلک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ میں نے اسے پنجرے سمیت خرید لیا۔ اس کا فروخت کر لینا اس کے مالک کے لیے ایسی امید کے خلاف بات تھی کہ وہ حیران تھا، اور خوش تھا۔ میں نے پنجرہ صحرا میں لے جا کر لومڑی کے بچے کو ٹیلوں کے درمیان چھوڑ دیا۔ اس کا پنجرہ بہت بھاری، غلیظ اور متعفن تھا۔ اس کا ساتھ لانا دشوار اور بے کار تھا، اس لیے میں نے اسے وہیں توڑ کر جلا دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ سارے پنجروں کو ساتھ لانا مجھ سے ممکن بھی نہ تھا۔ لہٰذا میں ہر جگہ کے صرف دو ایک خاص پنجرے چھانٹ کر رکھ لیتا اور بقیہ کو ضائع کر دیتا۔ میں ایک مشہور آدمی ہو چکا تھا، وہ آدمی جو پرندوں کو آزاد کرتا ہے، پنجروں کو توڑ ڈالتا ہے یا ساتھ لے جاتا ہے۔ میری خوشی کا یہی واحد ذریعہ تھا کہ جہاں سے میں گذرتا تھا، میرے پیچھے کوئی پنجرہ اور اس میں فریاد کرتا ہوا کوئی جانور، کوئی پرندہ باقی نہیں رہتا تھا۔

تماشائی! تو اس عجائب خانے میں پنجرے دیکھ رہا ہے۔ ان کی تعداد ہزاروں سے اوپر ہے۔ میں نے انھیں دور دور کے شہر و دیار سے لا کر جمع کیا ہے۔ اپنے امکان بھر میں ہر جگہ پہنچا اور زیادہ سے زیادہ پنجرے حاصل کرنے کی دھن میں ہر سرزمین کی سیر کی۔ تو اس عجائب گھر میں ایک پنجرے کے سامنے پہنچے گا جو بہت شان دار اور خوش نما ہے، بہترین لکڑی سے بنایا گیا ہے، ایک چابک دست استاد کی مہارت کا نمونہ ہے۔ اس کو سیپ کے ٹکڑوں، چاندی کی کیلوں اور سونے کے چھلوں سے منقش کیا گیا ہے۔ اس کے حلقوں اور خانوں پر کندہ کاری کی گئی ہے۔ اسے پھول پتیوں اور دل کش وضعوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔ ایک دن تھا جب اس پنجرے میں ایک مینا بند تھی۔ میں نے اسے یہاں سے بہت دور ایک جگہ دیکھا تھا۔ حسین مینا تھی، سیاہ رنگ، چونچ اور پنجے زرد اور سڈول۔ وہ لگاتار پنجرے میں ادھر سے ادھر پھر رہی تھی۔ اڈے پر اس کو چین نہ تھا، بار بار سیٹیاں سی بجاتی اور اس کی تیز آواز دور تک سنائی دیتی تھی۔ میں اسے بڑی منت سماجت کے بعد خرید پایا۔ اس کا مالک اتنے خوب صورت پرندے کو ہاتھ سے دینا نہیں چاہتا تھا، مگر آخر راضی ہو گیا۔ میں نے اس کے سامنے ہی پنجرے کا در کھول دیا۔ مینا پر پھڑپھڑا کر نکلی اور پاس کے ایک درخت پر جا بیٹھی۔ اس کے دوسرے دن وہیں مجھے ایک اور مینا نظر آئی، اتنی ہی بڑی اور اسی وضع قطع کی۔ میں نے اسے بھی خریدا اور آزاد کر دیا۔ تین دن میں تین دفعہ یہی واقعہ پیش آیا۔ چوتھے دن مجھے شبہ ہوا کہ شاید میں اسی ایک پرندے کو چوتھی مرتبہ خرید رہا ہوں۔ اس لیے اب کی بار میں نے پنجرے اور مینا کو ساتھ لیا اور اس شہر سے روانہ ہو گیا۔

راستے میں ایک جنگل کے پاس رک کر میں نے پنجرے کا دروازہ کھولا، مینا آہستہ سے پنجرے کے اڈے پر سے اتری، کچھ دیر تک دروازے پر رکی رہی، اس کی نظر درختوں پر جمی ہوئی تھی، شاخوں میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ذرا سی ہچکچاہٹ کے بعد اچانک مینا نے پر کھول دیے اور جنگل میں غائب ہو گئی۔

غیر ملکوں اور اجنبی سرزمینوں کی سیاحت میں مجھے برسوں لگ گئے۔ بیس سال سے زیادہ عرصے تک میں ملکوں ملکوں شہروں شہروں سرگرداں رہا۔ پنجرے دیکھے، ان میں محبوس جانور اور پرندے دیکھے، پنجرے خرید لیے، جانوروں کو چھوڑ دیا، پرندوں کو اڑا دیا۔ خالی پنجرے جتنے لا سکا ساتھ لایا۔ باقی کو توڑ ڈالا، پانی میں ڈبو دیا، آگ میں جلا دیا۔

آخر برسوں کے بعد، جب میرے بال سفید ہو چکے تھے، امنگ، جوانی، زندگی کا ولولہ سب ختم ہو چکا تھا، ایک دن ہزارہا پنجروں کے ساتھ لدا پھندا میں اپنے شہر واپس پہنچا۔ میں بہت خوش تھا کہ دنیا میں پنجروں کا سب سے بڑا ذخیرہ میرے پاس ہے۔

لیکن واپس آنے کے پہلے ہی دن مجھے ہر دکان پر اور ہر مکان میں پنجرے نظر آئے۔ ان پنجروں میں رنگارنگ پرندے گردن ڈالے اڈوں پر بیٹھے تھے۔ پرندے پنجروں کے در و دیوار سے سر ٹکرا رہے تھے۔ کرک کی التجائیں، طوطے کی چیخیں، قناری کی فریادیں پہلے سے زیادہ تیز تھیں۔ پنجرے اور ان میں اسیر حیوان لوگوں کی دولت و ثروت کا نشان تھے۔ بہت ایسے تھے کہ انھیں کے ذریعے روزی کماتے تھے، بہت ایسے تھے کہ خوب صورت پنجروں، نایاب پرندوں، گھنے پروں والی مضبوط قناریوں، خوش آواز کرکوں اور پڑھائے ہوئے طوطوں کے مالک ہونے پر فخر کرتے تھے۔

پھر، اب میں کیا کرتا؟ نئے سرے سے سب کو خریدنا اور آزاد کرنا شروع کرتا؟ نہیں، وقت گذر چکا تھا۔ میری زندگی کے کتنے برس اسی دھن میں نکل گئے اور اس تمام کوشش اور دوا دوش کے بعد میں دیکھ رہا تھا کہ پنجروں کی تعداد پہلے سے بھی بڑھی ہوئی اور پرندوں کی فریاد پہلے سے بھی زیادہ دل خراش ہے۔ سکھائے ہوئے سہرے ایک شاہدانے کی خاطر مجبور ہیں کہ چونچ سے لفافے کھولیں اور ان میں سے لوگوں کی تقدیر کے نوشتے باہر نکالیں۔ میں نے دیکھا کہ کرکوں کے سر لہولہان ہیں، مینائیں پنجروں کی دیواروں پر ٹکریں مار رہی ہیں، قناریوں کے پر جھڑ رہے ہیں اور بلبلیں پنجروں کے گوشوں میں سر جھکائے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ طرقے آئینے کے سامنے کھڑے اپنے جوڑے کی آرزو میں چیخ رہے ہیں اور اونگھتی ہوئی گوریاں ہر روز پنجرے کے در پر بھکارنوں کی طرح اپنے راتب کی منتظر ہیں۔

تماشائی! تو جو اس شہر یا کسی اور شہر سے یہاں کی سیر کرنے آیا ہے، اس بڑے پنجرے میں ہزاروں پنجرے دیکھتا ہے اور اچانک سوچنے لگتا ہے کہ تو خود اس پنجرے کا قیدی ہے۔ تو ان خالی پنجروں کو دیکھتا ہے اور ان حیوانوں کا تصور کرتا ہے جو ان میں رہ کر سختیاں اٹھا چکے ہیں۔ تو دروازے کی طرف جاتا ہے۔ تیرے دل میں ایک خوف ہے۔ اگر دروازہ بند ہوا، اگر کٹہرے کی سلاخیں تنگ اور مضبوط ہوئیں تو تُو یہیں پھنس کر رہ جائے گا۔ چیخے گا، مدد کے لیے پکارے گا مگر کوئی سننے والا نہیں، کوئی فریاد کو پہنچنے والا نہیں۔ تو، تنہا اور مجبور، سلاخوں کے پیچھے سے، پنجرے کے اندر سے باہر کا عالم دیکھ رہا ہے۔ آسمان پر بادل دوڑ رہے ہیں، دریاؤں اور ندیوں میں پانی بہہ رہا ہے، ہوائیں اور آندھیاں پہاڑوں پر، دشت میں چل رہی ہیں، گونج رہی ہیں۔ چڑیاں آزادی کے ساتھ اڑ رہی ہیں، لوگ آ جا رہے ہیں اور تُو نامعلوم مدت کے لیے اس پنجرے میں اسیر ہے۔ تیرے چہرے پر پسینہ آ جاتا ہے، تیرے پیروں کی طاقت سلب ہو جاتی ہے اور تیرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ تو چاہتا ہے کہ سلاخوں کو گرفت میں لے کر آخری کوشش کرے، لیکن سلاخیں مضبوط ہیں اور تیرے بازو شل۔

تماشائی! ہراساں نہ ہو۔ اس پنجرے کا دروازہ ہرگز بند نہ ہو گا۔ تو جب چاہے بڑی آسانی کے ساتھ ان سلاخوں کے باہر جا سکتا ہے۔

تو اے تماشائی، تو بلا خطر پہلی اور دوسری منزلوں سے گذر کر اس پنجرے کی تیسری منزل پر چلا جا۔ یہاں بھی تجھے جگہ جگہ پنجرے نظر آئیں گے۔ لیکن اصلی پنجرہ، بڑا پنجرہ، چھت کے کڑے سے فانوس کی طرح لٹکا ہوا ہے۔ یہ پنجرہ فن کا شاہکار ہے اور بہترین کاریگروں نے کئی سال تک مسلسل اس پر محنت کی ہے۔ اس کے نقش و نگار دیکھ، اس کے بیل بوٹوں کے پیچ و خم دیکھ، کس کمال کے ساتھ لوہے میں پیوست کیے گئے ہیں ؛ سونے کے بنے ہوئے ان پرندوں کو دیکھ جو پنجرے کے باہر کی چھت اور سلاخوں پر بیٹھے ہیں۔

پھر پنجرے کے اندر دیکھ۔ تعجب نہ کر۔ جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے، ایک انسان کا پنجر ہے۔ میرے لیے ممکن نہ تھا کہ خود کو کسی پنجرے میں قید کروں اور پھر خود ہی اپنا تماشائی بنوں، اس لیے میں گیا اور سچ مچ کا انسانی پنجر لے آیا۔ میں نہیں جانتا یہ کس کا پنجر ہے۔

میں نے وصیت کر دی ہے کہ جب میں مر جاؤں تو میرے جسم کو جلا دیا جائے اور میری راکھ کسی برتن میں بھر کر اسی پنجرے میں رکھ دی جائے۔ اگر میری وصیت پر عمل کیا گیا ہو گا تو تو اسے دیکھے گا۔

 

اور تماشائی جب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچتا ہے تو اس کو بہت بڑا اور شان دار نقش و نگار سے آراستہ پنجرہ اونچی چھت سے لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ پنجرہ کھڑکیوں سے آنے والی ہوا میں ہلتا رہتا ہے، اور جو انسانی پنجر اس میں بند ہے، اس کے ہاتھ پیروں اور کمر میں کمانیاں لگا کر اسے سلاخوں میں اس طرح باندھا گیا ہے کہ وہ پنجرے میں ادھر سے ادھر چکر لگاتا رہتا ہے۔ اور تماشائی جب غور سے دیکھتا ہے تو اسے شیشے کا ایک سربند مرتبان بھی نظر آتا ہے جس میں کچھ راکھ اور جلی ہوئی ہڈیوں کے ٹکڑے بھرے ہیں۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.adbiduniya.com/2015/10/aaj-1-september-1989.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل