FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اعتبار کی شبنم

 

 

 

 

               سید انور جاوید ہاشمی

 

 

 

 

 

               بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

شروع اللہ کے نام سے

 

 

انتخاب ۱۹۸۸ء تا ۲۰۱۲ء

انتظار کے پودے کے بعد

 

 

 

کوائف نامہ سید انور جاوید ہاشمی

 

اٹھائیس 28 فروری 1953 کراچی میں پیدائش

1968 والد:  سید عبداللہ  ہاشمی  المعروف  سالک الہاشمی علیگ ایڈوکیٹ  شاعر ادیب  مجموعہ خاک  دل

اپوا اسکول نئی کراچی سے میٹرک

1972 اسلامیہ کالج کراچی سے انٹر

1974 کراچی یونی ورسٹی سے اختیاری اردو امتیازی نمبر کے ساتھ گریجویشن

1969 تا حال اردو صحافت،شاعری،تراجم،حروف بینی، آن لائن ایڈیٹنگ

اردو لغت بورڈ اور روزنامہ جنگ کراچی میں 2003ء تا 2008 خدمات بطور معاون رکن مجلس ادارت سر انجام دیں

رسائل نشاط،کشش،زیر لب،اخبارات اعلان، جسارت،انکشاف میں سب ایڈیٹر

ساکن کراچی پاکستان

حالیہ مصروفیات شریک مدیر اعزازی سہ ماہی تذکرہ کراچی فروری 2009 تا دسمبر 2012 7 شمارے شائع ہو چکے ہیں

معاون اردو لغت بورڈ ۲۰۰۴ تا ..۲۰۰۸…Daily Jang 2003-2005

کاپی رائٹر ایڈگروپ ایڈورٹائزنگ ۲۰۰۹

فری لانس،مترجم،شاعر، حروف بیں، آن لائن ایڈیٹنگ

کتب: نئے بت پرانے پجاری ، تکلف برطرف،مشاہدہ حق،کاغذ کا رزق،

شعری مجموعہ انتظار کے پودے

تحقیق: کراچی نامہ شہر کی منظوم تاریخ مع حواشی

رفتگاں کا تذکرہ خاک میں پنہاں

جاپانی شاعری سہ لسانی مطالعہ

نارتھ کراچی ٹاؤن شپ کی ادبی تنظیموں کی تقریبات میں باقاعدگی سے شرکت اور ان کی روداد کو اردو نیٹ فورمز پر مشتہر کرتے رہنا۔سہ ماہی تذکرہ کی ادارت،پروف خوانی،فری لانسر،مترجم،سماجی سرگرمیاں

 

 

ا نتساب

 

 

کراچی پاکستان اور اردو دنیائے ادب کے اُ ن حقیقی سخن وروں کے نام

جن کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو مگر جن کی شناخت ان کی تخلیقات اور شعر و ادب سے ان کی ذہنی و قلبی وابستگی ہے

 

 

 

اعتبار کی شبنم کے شاعر

 

بیشتر فن کار فن پر حاوی ہونے کے با وصف درپیش فکری سانحات سے خوف زدہ رہتے ہیں لہٰذا اپنی فنّی گولائیوں میں بھی وہ چپٹے سے محسوس ہوتے ہیں۔ ’’انتظار کے پودے‘‘ پڑھ کر مجھے انور جاوید ہاشمیؔ کی یہ خصوصیت بہت بھلی لگی کہ اِن کی شرکتیں محض خوش گوئی کی خواہش سے عبارت نہیں بلکہ وہ عین اپنی سطح پر اپنے وارداتی تقاضوں سے سبک دوش ہونے کے لیے شاعری کرتے ہیں۔ اُنہوں نے اگر اپنے ریاض کے اسباب میں خلل واقع نہ ہونے دیا تو اپنی اس بڑی پکّی بنیاد پر ہوتے ہوتے وہ یقیناً ایک بڑا خوش نما سکائی سکریپر کھڑا کر لیں گے۔

٭

 

جوگندر پال ، دہلی۔ ۔ ۔ ۔

25 Jan(19)90

  1. Mandakini, New Delhi 110019

India

 

 

 

 

اعتبار کی شبنم  کے شاعر

 

               تعارف از قلم : محمّد محسنؔ اسرار

٭

ہر ایک فرد کو مت دست یاب و ارزاں ہو

اُس آدمی سے ملو واقعی جو انساں ہو

اُس آگہی کی تڑپ اپنے دل میں پیدا کرو

کہ جس سے فکر و عمل کا دیا فروزاں ہو

شُدہ و نا شدہ دونوں معاملات الگ

ادائے فرض ہے لازم کسی بھی عنواں ہو

سوالِ عزتِ سادات کرنا چاہو اگر

سُنو! کہ عرض و گذارش بہت نمایاں ہو(ہاشمیؔ)

۱۹۷۰ء کی دہائی میں سرزمین ادب پر قدم رکھنے والے نوجوان اہلِ قلم بہت سے تھے۔ شہر کراچی ادبی گہوارہ بنا ہوا تھا۔ سلیم احمد، قمر جمیل، عبیداللہ علیم، قمر ہاشمی، خالد علیگ، سحر انصاری، عبدالرؤف عروج، جمیل جالبی، احمد ہمدانی ، عزیز حامد مدنی، رضی اختر شوق، حمید نسیم، ضیا جالندھری جیسے دیگر اہل قلم جن پر یہ عشرہ فخر کرتا رہا، کراچی کی ادبی فضا میں سرگرمِ عمل تھے۔ کیفے ڈی پھوس، فریڈرک کیفے ٹیریا، زیلن کافی ہاؤس، علامہ اقبال لائبریری، عثمانیہ کالج ، نبی باغ ضیا الدین میموریل کالج، کاشانۂ عزیر(قیام الدین کا مکان سلیم احمد اور شمیم احمد کی رہائش) اور متذکرہ بالا ادب و فن کے چھتنار سرپرست اپنی قیام گاہوں، تنقیدی نشستوں اور محافل میں جس طرح ہم نوجوانوں، نو آموز شعراء و اہلِ قلم کی حوصلہ افزائی کرتے۔ بعض اوقات مختلف ہوٹلوں اور گھروں پر جمنے والی نشستوں میں بحث و مباحثہ سار ی ساری رات چھڑے رہتے تھے۔ اخبارات کے ادبی صفحات میں بھی ان مباحثوں کو نمایاں طور پر جگہ دی جاتی اور بلاشبہ جو ادبی تحریک جاری و ساری تھی اس سے ہمارے معاصرین کے ادب میں قائم کیے جانے والے معیارات کا برملا تعین کر لیا جاتا تھا۔ تخلیقی استعداد اور ذہنی صلاحیتوں کو بھر پور طور پر بروئے کار لانے والے اس کارواں میں سلیم کوثر، صابر ظفر، ساجد امجد، جمال احسانی، احمد فواد، حسنین جعفری، احمد نوید، شاہد حمید، افضال احمد سید، احمد جاوید، سارہ شگفتہ، فاطمہ حسن، شاہدہ حسن، عشرت آفریں، سید انور جاوید ہاشمی، لیاقت علی عاصم، جاوید صبا، عزم بہزاد، انور انصاری، امتیاز ساغر، اجمل سراج، اخترسعیدی اور شاداب احسانی تک کتنے ہی شعراء، ادیب، صحافی اسی عصر کی پیداوار ہیں اور بسا اوقات مجھے یہ سوچ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ میں بھی کتنا خوش نصیب ہوں کہ ایسے اچھے اور صاحبِ علم و ادب لوگوں کا ہم عصر رہا ہوں۔ مجھے یہ کہتے اور لکھتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ متذکرہ بالا نوآموز اہلِ قلم میں سے کوئی بھی ایسا نام نہیں جس کی اپنی الگ راہ اور منفرد اسلوب و لہجہ نہ ہو۔ کسی نہ کسی سطح پر ان کی ادبی خدمات اپنی جگہ مسلّم اور مانی جاتی رہی ہیں اور یہی نہیں بلکہ کراچی کی ادبی فضا کے تحفظ کے ذمے دار بھی یہی اہلِ قلم قرار دیے گئے اور نظر آتے ہیں۔ آنے والے دو ۳ عشروں میں سلیم فوز، خالد معین کے بعد اس تحریر تک کوئی اور نوجوان اہل قلم نظر نہیں آتا۔

’’‘‘ کے شاعر جن کا پہلا شعری مجموعہ ادارۂ فکر نو کورنگی کراچی سے ہمارے عزیز محترم دوست نور احمد میرٹھی نے پروفیسر ثنا گورکھپوری اور سرور اقبال کے تعارفی کلمات کے ساتھ ’انتظار کے پودے‘ کے عنوان سے ۱۹۸۹ء میں شائع کیا تھا انہی نوجوانان میں شامل ہیں جن کا ذکر سطورِ بالا میں راقم نے کیا ہے! جن کی ادبی سرگرمیاں تواتر سے روز و شب جاری رہی ہیں۱۹۷۰ء کی دہائی سے قبل بھی بزمِ اتحاد ادب کے معتمد نشر و اشاعت، خبر نامے کے شریک مدیر، نئی روشنی کے کالم نگار اور بچوں کے لیے نظمیں، کہانیاں لکھتے ہوئے مستقل مزاجی کو اپنا شعار بنائے رکھتے ہیں اور ان کا اپنا ایک معیار و رجحان ہے، شاعری نثر نقد و نظر اور صحافت میں ہمہ وقت طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ابھرتے رہنے والوں کے تعارف اور ان کی تخلیقات، تالیفات پر ادبی رسائل، اخبارات کے ادبی صفحات پر ہی نہیں انٹرنیٹ فورمز پر بھی بھرپور طریقے سے اپنے آپ کو منواتے رہے ہیں۔ ان کا شخصی تعارف کچھ یوں ہے :

، اپنے زمانے کے معروف ادیب و شاعر مدیر ماہنامہ مضراب ، ماہنامہ الانسان و ترقی پسند ادب کے ترجمان جریدہ’ ترکش‘ اور حسرت موہانی کے شاگرد سید عبداللہ ہاشمی المعروف سالک الہاشمی علیگ ایڈوکیٹ کے چشم و چراغ ۲۸ فروری ۱۹۵۳ء کو اسی شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ اپوا بوائز اسکول نئی کراچی کے قیام کے بعد پہلے بیج میں پروفیسر محمد ظریف خان نے اور دوسرے بیج ۶۸۔ ۱۹۶۷ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ انٹر کے لیے اسلامیہ کالج میں رہے اور مجلے میں اپنی غزل کی اشاعت کے بعد بین الکلیاتی شعری مقابلوں، ریڈیو پر سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی پہنچے جہاںسے گریجویشن یعنی بی اے پاس کی ڈگری ۱۹۷۴ء میں حاصل کرنے والے اس ادیب ، شاعر و صحافی نے شاعری کا آغاز اسکول وال میگزین ۱۹۶۶ء کے ساتھ کیا۔ ابتدائی عمر میں بچوں کے لیے کی گئی شاعری اور مضمون نویسی کے بعد باقاعدہ پہلی تخلیق چاند کی تسخیر یعنی نیل آرم اسٹرانگ[نیل آرمسٹرانگ کا انتقال اگست ۲۰۱۲ء میں ہوا ہے] کے کارنامے کے پس منظر میں ہمدرد نونہال رسالے کی ستمبر ۱۹۶۹ء کی اشاعت میں منصہ شہود پر آئی:

 

چاند سے پہلی آواز

نہیں آثار کچھ بھی زندگی کے

زمیں والو یہاں میں ہوں اکیلا

سیاہی چار سُو پھیلی ہوئی ہے

چنبیلی ہے، نہ جوہی ہے نہ بیلا

موصوف کا کلام اور مضامین و تبصرے پاکستان کے مشہورو معیاری رسائل و جرائد میں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے جن میں ادب لطیف لاہور، تخلیق، اردو ادب اسلام آباد، تجدید نو، کندن، کشش، نشاط، چہار سو، دریچہ، نفاذ اردو، انشاء کلکتہ، عبارت، لوح ادب، انشاء حیدرآباد، طلوع افکار اور روزنامہ جسارت، مشرق، جنگ، حریت، انصاف ڈھاکہ، قوم چٹاگانگ، شرارت ڈھاکا، کلیم سکھر وغیرہ کے ادبی صفحات قابلِ ذکر ہیں۔ موصوف نے محض شاعری پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ اپنی خداداد صلاحیت اور بھرپور مطالعے، ادب سے سنجیدہ اور گہری وابستگی کی بنیاد پر ادبی صحافت کے میدان میں بھی یہ کافی فعال ثابت ہوئے ہیں۔

مختلف اخبارات و رسائل میں معاون مدیر رہے جن میں ۱۹۷۰ء کی دہائی کے ہفت روزہ انکشاف، روزنامہ نئی روشنی، اعلان، ماہ نامہ کشش، نشاط، کھلتی کلیاں، نئی کرن، بچوں کا اخبار ہفتہ وار اقدام کا خصوصی شمارہ، بچوں کا مشرق اور قافلہ انٹرنیشنل و زیر لب جیسے جرائد بھی شامل ہیں۔ برصغیر کے اہم ادبی رسائل کی دستاویز کے ذیل میں ان کا اہم کام پاکستان کے ادبی رسائل کا اشاریہ(ہندستانی رسائل کا ادارتی عملے نے مرتب کیا تھا) اور تعارف انٹرنیٹ اور بعض ادبی رسائل میں سامنے آیا۔

انور جاوید ہاشمی تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کی جو کتب منظرِ عام پر آئیں ،نئے بت پرانے پجاری، مشاہدۂ حق اور تکلف برطرف نثری تالیفات ان پر روزنامہ جنگ کے مبصر شفیع عقیل، ماہنامہ صریر کے مدیر ڈاکٹر فہیم اعظمی، معروف افسانہ نگار ادیب جوگیندر پال، امن کے مبصر عاقل بریلوی اور دیگر لکھنے والوں نے ان کی نمایاں انداز میں ستائش و توصیف کی۔ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی ان کی شعری و ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کے ساتھ شام اعزاز کا انعقاد بھی کر چکی ہے۔ شاعر، ادیب، صحافی اور محقق کی ۱۵ برسوں کی مشق اور مہارت تامہ کے بعد نشر و اشاعت کے سلسلے کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ:

پہلی تالیف ۱۹۸۵ء میں ، نئے بت پرانے پجاری‘ خودنوشت ہے جس میں انہوں نے معاشرتی مسائل پر طنزیہ و مزاحیہ پیرایہ اختیار کرتے ہوئے خاکے پیش کئے ہیں۔ ڈاکٹر یونس حسنی نے اس کی تعریف اس وقت کی تھی جب وہ اردو لغت بورڈ میں مدیر اعلا کے طور پر فرائض منصبی ادا کر رہے تھے۔ اگر اس کتاب کے مندرجات پر غور کیا جائے تو یقیناً معاشرتی کرب کا بھرپور اندازہ ہوسکتا ہے اور ساتھ ساتھ ذمہ داروں کی لاپرواہیاں بھی سامنے آتی ہیں۔ یعنی معاشرے کے اہم فرد ہونے کے ناطے ایک ادیب کا جو کام ہے اسے ہاشمی صاحب نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔ ان کی دوسری کتاب مختلف مضامین پر مشتمل ’مشاہدۂ حق‘‘ ۱۹۸۷ء میں شائع ہوئی تھی۔ فضلی سنز پرنٹرز سے شائع شدہ اس کتاب پر شفیع عقیل نے بہت عمدہ پیرائے میں تبصرہ کیا تھا۔ ان مضامین میں موصوف نے ذات و کائنات سے متعلق مواد یکجا کیا ہے اور ان حقائق پر روشنی ڈالی ہے جو انسانی زندگی کے لیے لازم و ضروری ہیں۔ اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے اردگرد دکھائی دینے والے اندھیرے آنے والی روشنیوں کو کھا رہے ہیں۔

محترم انور جاوید ہاشمی کی تیسری شائع شدہ کتاب ’تکلف برطرف‘ تنقیدی مطالعہ ۱۹۸۸ء میں ہمیں موصول ہوئی تھی۔ اس کتاب

میں انہوں نے اپنے معاصر شعراء اور ان کی تخلیقات و تالیفات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ دبستان کورنگی و لانڈھی سے مرکزی ادبی دھارے میں شریک ہونے والے جمال احسانی (ستارہ سفر کا شاعر) ڈاکٹر ساجد امجد(قافیہ پیمائی) ڈاکٹر یوسف جاوید، ڈاکٹر شاہد الوری(سخن در سخن)قابل اجمیری، مصطفی زیدی، نور احمد میرٹھی، انور انصاری کا ایک بھرپور مطالعہ قاری کے لیے دل چسپی و معلومات کا گوشہ ہی سامنے نہیں لاتا بلکہ تنقیدی کے کچھ نئے پہلو بھی سامنے آتے ہیں موصوف نے ثابت کیا ہے کہ ہر شاعر کے یہاں کچھ غیر مستند عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ اس کتاب کو اردو ادب کے سنجیدہ قارئین کو ضرور پڑھنا چاہئے جس کے پڑھنے سے انور جاوید ہاشمی کی تنقیدی صلاحیتوں کا لوہا ماننا پڑتا ہے۔

شاعر کا مجموعہ کلام ’انتظار کے پودے‘ چوتھی کتاب ہے جو ۱۹۸۹ء میں ادارۂ فکر نو کراچی کے نور احمد میرٹھی کی محبت و محنت کا عملی اظہار ہے۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی سے جون ۲۰۱۱ء نور احمد میرٹھی کی وفات تک ان دونوں صاحبان کی محبت آمیز دوستی قابل رشک ہے جس کا اظہار مرحوم نے اپنی تالیفات میں کیا ہے۔ اس مجموعے میں شاعری کے جو گل ہائے محبت کھلائے گئے ہیں ان میں غزلیں، نظمیں، نثری نظم، تراجم اور قطعات وغیرہ شامل ہیں۔

کے شاعر کے ۴۵ برس کے مطالعے اور ادبی وابستگی کے کچھ اور نمونے تنقیدی مضامین ، مطالعۂ اہل قلم و تصانیف پر تبصرے کا کتابت شدہ مجموعہ ’کاغذ کا رزق‘ ، کراچی کی منظوم تاریخ مع حواشی و تعلیقات ’کراچی نامہ‘، جاپانی شاعری، شعرائے جاپان و پاکستان کی مختلف اصناف میں طبع زاد و ترجمہ شدہ شاعری اور تعارف پر مبنی چمن زار اور زیر نظر مجموعہ ان کے ادبی قد و قامت میں اضافے کا باعث ہیں۔

محترم انور جاوید ہاشمی اپنی زندگی کے لگ بھگ ۵۸ برس رہ گزار زیست کی مسافت میں گزار چکے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نصف صدی میں جو کہ نئے ہزاریے سے آمیز ہو چکی ہے انہوں نے تقریباًاس نصف صدی میں کئی صدیوں کا تجربہ حاصل کر لیا ہے۔ وہ دوستوں کے لیے ایک مخلص دوست اور زود گو شاعر بھی ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کی شاعری نے ایک ایسا رخ اختیار کیا ہے جو جمالیاتی کذب نگاری سے ہٹ کر حیاتیاتی حقائق کی ترجمانی تک جا پہنچی ہے۔ ان کے ہاں کلاسیک و روایات کی پاسداری تو ہے گل و بلبل کی داستانیں، ساغر و مینا کی سحر انگیزیاں نہیں ہیں بلکہ زندگی کے تلخ حقائق سے پردہ ہٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اس طرح وہ شاعری میں مکتبۂ میر کے طالب علم دکھائی دیتے ہیں۔ جس طرح میرؔ نے اپنے مسائل بہت خوش اسلوبی سے لکھے ہیں اسی طرح انور جاوید ہاشمی کے بعض اشعار چونکا دینے کے لئے کافی ہیں۔

انور جاوید ہاشمی کے اندر کا آدمی سخت بے چین دکھائی دیتا ہے لیکن ان کا یہ اضطراب بیرونی احتیاط کا محرک ثابت ہو رہا ہے۔ آج ان کی ذات سے کسی کو دکھ نہیں پہنچا بلکہ وہ خود ہی دوسروں کی زیادتیوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس کرب کو فطری برائی نہیں بننے دیا۔ وہ جب اپنے کہے کے نہ سمجھے جانے کا گلہ کرتے ہیں تو ایسا نہیں کہ وہ اہلِ سماعت سے سماعت کی کجی کا شکوہ کر رہے ہوں بلکہ وہ اپنا کرب اور وجۂ کرب لفظ سخن یا فن میں سمودینا چاہتے ہیں۔ دراصل وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ان کے اندر چھپے ہوئے کرب کو بھی سمجھا جائے اس ضمن میں ان کے یہاں ایسے اشعار اکثر ملیں گے جو بہت جلد کتابی صورت میں قارئین تک پہنچ جائیں گے۔ وہ میرؔ کا تذکرہ بھی اکثر اپنی شاعری میں کرتے نظر آتے ہیں اس کی وجہ بھی یقیناً یہی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے میر کو خوب پڑھا ہے اور سمجھا بھی ہے

وہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو مسائل میرؔ کو در پیش تھے وہ انہیں بھی ہیں لیکن وہ ان مسائل کا حل اپنے عہد کی روشنی میں تلاش کرنا چاہتے ہیں اور وہ لفظ ’سُخَن‘‘ کو بہ طور استعارہ برائے ’ انسانی چیخ‘ جب کہ لفظ ’ میر‘ بطور فن کار استعمال کرتے ہیں۔

۱نور جاوید ہاشمیؔ کی نثر میں بھی اچھی خاصی خدمات ہیں جیسا کہ ماقبل سطور میں جائزہ لیا گیا۔ یہ اہلِ علم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اسی لئے کسبِ علم ان کی فطرت ہے۔ ان کے قریب رہنے والے ان کے حصولِ علم کی رفتار سے واقف ہوں گے۔ ان کی

معلومات عام طور پر Up to date رہتی ہیں۔ بعض اوقات تو مجھے اِن کے نہ تھکنے والی صلاحیت پر حیرت ہوتی ہے۔ حتّیٰ کہ جو کتابیں میرے پاس ہیں وہ بھی انور صاحب کے صرفِ نظر ہو گئیں اور ساتھ ساتھ مجھے بھی یہ نئی نئی کتابیں پڑھوانے لگے۔ وہ کتاب دیتے ہیں تو کتاب کے متن سے بھی آگاہ کر دیتے ہیں اس طرح کتاب پڑھنا میرے لئے بہت آسان ہو جاتا ہے۔

ہاشمی ؔ صاحب میں ایک اور خصوصیت بھی پائی جاتی ہے کہ اگر آپ کسی معاشرتی الجھن پر سوال کریں تو وہ طویل تمہید باندھے بغیر مختصر الفاظ میں اس کا جواب دے دیتے ہیں تاکہ سامنے والا بہ خوبی اور بہ آسانی اُلجھن کی سُلجھن تک پہنچ جائے۔ یہ عنوان ایک کالم کا انہی سے مستعار لیا ہے جو وہ ماہ نامہ زیرِ لب میں فرضی نام سے لکھا کرتے تھے۔ ان کی اس کم گوئی کے سبب ان کے کچھ دوست ان کو Under Estimateکرتے چلے آئے ہیں کیوں کہ بات خود ان کی سمجھ میں دیر سے آتی ہے تاآنکہ دوچار انگریزی فلاسفرز کے حوالے نہ دیئے جائیں۔ لیکن اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ ہاشمیؔ صاحب کو یہاں Over Estimate کیا جا رہا ہو۔ وہ خود ہی اپنے لئے ایک اچھے محتسب ہیں کیوں کہ ایک زود گو شاعر کا اختصار سے کلام پیش کرنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اُسے کیا کہنا چاہئے۔ نثر نگاری کے متعلق انور جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ جہاں تک نثر نگاری کا احوال ہے میں نے طبع زاد بچوں کی کہانیاں، غیر ملکی کہانیوں کے تراجم کئے، خبرنامہ جاپان اور ریڈیو کے لیے معقول محنتانے پر یہ کام کسی کی وساطت سے کیا جاتا تھا، فلمی اور سیاسی تجزیہ نگاری بھی کی۔ حالاتِ حاضرہ Current Affairsکے حوالے سے معاصر شخصیات کے انٹرویوز کئے۔ کتابوں پر تبصرے کا لگ بھگ دورانیہ تیس برس سے زائد ہو گیا ہے۔ روزنامہ نئی روشنی میں ہر دوسرے دن ’یہ نئی کراچی ہے‘ نامی کالموں میں علاقائی معاشرتی، سماجی مسائل، سماجی کارکنوں کے بیانات، الیکشن مہم اور صحت و تعلیم کے حوالے سے مقامی سرگرمیوں کی جھلکیاں لکھتا رہا۔ صداقت، جسارت، آغاز، اعلان، انکشاف ، پندرہ روزہ رابطہ (نسیم عثمانی)میں ادبی و ثقافتی محافل کی روداد لکھتا رہا اور کچھ شخصیات نگاری بھی کی۔ ۱۹۶۹ تا ۱۹۷۱ء ورکنگ جرنلسٹ اس کے بعد روزنامہ جسارت ملتان کراچی سے آیا تو اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسین قریشی کی سربراہی میں ڈیسک پر سب ایڈیٹر کی ذمہ داریاں شوقیہ طور پر نبھائیں ظہور نیازی جو لندن میں غالباً جنگ کے نمائندے یا جنگ لندن کی ادارت میں شامل ہوئے، نذیر احمد خان، نصیر ہاشمی، عرفان علی یوسف، محمد نیاز، معین کمالی، اطہر ہاشمی، احمد سعید قریشی وغیرہ ہمارے سینئرز تھے۔ جسارت پر بندش کے باعث بہت سے ساتھی اعلان میں گئے۔ ۱۹۷۶ء مئی میں ایسا وقت بھی آیا کہ تنہا پورا اخبار نکالا مالک رحیم اختر کا انتقال ہو گیا تھا ان کا بیٹا جو مالک بنا اس نے تنخواہیں روک لیں تو تمام عملے نے بائیکاٹ کر دیا تھا جن میں جاوید اقبال قادری، حمیرا اطہر، فضل ادیب، شکیل احمد صدیقی کے نام یاد ہیں۔ بطور نامہ نگار کراچی سے باہر کے اخبارات کلیم سکھر، انصاف ڈھاکہ، قوم چاٹگام، شعلہ سرگودہا جیسے اخبارات سے بھی وابستگی رہی۔ کشش، نشاط، غنچہ، چہکار، کندن، قافلہ، زیر لب میں مجلس ادارت میں شامل کیا گیا‘‘۔ ہاشمیؔ صاحب کے چند اشعار پیش خدمت ہیں جن سے ان کی ذہنی بالیدگی کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے:

چلو چلتے ہیں اب اک فیصلے کے مرحلے میں ہم

بہت خوش ہو رہے تھے خوب یہ دُنیا کمالی ہے

 

یہ گفتگو تھی کسی اور ہی تناظر میں

سو میں ہنوز وہی حرفِ ناشنیدہ رہا

 

زمین زادوں پہ افتاد ہر گھڑی کیوں ہے

چمکتی رہتی ہے بجلی تو آسمان میں بھی

 

یہ آدمی جو جزیروں میں بٹ گیا یارو

ہو متحّد تو سمندر نگل نہیں سکتا

 

ہاشمیؔ رنج کے عوض ہرگز

نفرتوں سے نہ واسطہ رکھنا

 

بخت سوئے تو کوئی خرابی نہیں

ہے بُری بات دل میں بدی جاگنا

 

کہا تھا ہم نے دُنیا ہے تماشا

تماشے کو کہاں دنیا کہا تھا

 

فراق وہ ہے کہ پتھر بنی رہیں آنکھیں

وصال کیسا جو مستی میں انگ انگ نہ ہو

 

سبھی کو نیند کے بدلے ہُنر کہاں ملتا

بہت سے لوگ فقط کروٹیں بدلتے ہیں

 

کائناتِ آئینہ میں ہو گئے محدود سب

خود سے باہر کون دیکھے یہ چلن آیا کہاں

 

کنارے ہی پہ ٹھہرے یا کہ نیّا پار لے جائے

بتا دو نا خُدا کو درمیاں کچھ بھی نہیں ہوتا

 

یہ آدھی رات یہ بے داریاں کہو صاحب

یہ شہرِ درد اُٹھا لائے تم کہاں اپنا!

 

اس کے بعد میں شاعر اور آپ کے درمیاں مخل نہیں ہونا چاہتا۔ کلام دیکھتے جائیے

محسن اسرار

٭٭٭

 

 

 

 حمدیہ

 

 

 

 اِذنِ ربیّ سے عنایت ہو گئی

حمد کہنے کی ریاضت ہو گئی

 

جب پکا راسُن لیا اللہ نے

مُلتَفِت گو یاسماعت ہو گئی

 

جو بھٹکتے رہ گئے اُلٹے قدم

دُور اُن لوگوں سے جنّت ہو گئی

 

زندگی صَرفِ عبا د ت کیوں نہ ہو

بندگی سے پو ر ی حا جت ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

نعت

 

دل میں رکھتے ہیں یہ ایمان اُترسکتا ہے

قلبِ اطہر پہ ہی قرآن اُترسکتا ہے

 

نیکیاں کیا ہیں بہ جُز حُسنِ عمَل حسنِ عمل

کر کے احسان ہی احسان اُترسکتا ہے

 

حرفِ صادق مرے دل پر بھی کوئی القا ہو

حرفِ مدحت اسی عنوان اُترسکتا ہے

 

مان لو نعتِ شہ عظمتِ والا کے طفیل

ہو بڑا کتنا ہی طوفان اُترسکتا ہے

 

ہاشمیؔ دل سے عقیدت کا جو اظہار کریں

حرف کیا نعت کا دیوان اُتر سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

غزل

               غزل غزل ہے

ہے

 

 

 

 

 

جب تک کھلا رہے گا دبستانِ شاعری

ہم ہوں گے اور رحمتِ بارانِ شاعری

 

نو واردانِ شعر و سُخن کاش جانتے

کھُلتا کہاں ہر ایک پہ ایوانِ شاعری

 

اُس کو نصیب دولتِ احساس ہو گئی

جس کو عطا کیا گیا مَیلانِ شاعری

 

آنے لگا ہے دیکھنا اپنی طرف ہمیں

کھُلنے لگا ہے اب درِ امکان ، شاعری

 

رکھا ہوا ہے میز پر مجموعۂ سُخن

پڑھ لیجئے گا آپ بھی دیوانِ شاعری

 

واجب ہے تم پہ اور بھی انساں کا احترام

جب ہاشمیؔ ہوئے ہو نگہبانِ شاعری

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنوں یا غیر سے نبھائیے گا

جو بھی ہوں، خیر سے نبھائیے گا

 

منتظَر ہم ہیں اپنی باری کے

دیر تک دَیر سے نبھائیے گا

 

آنکھیں رکھئے گا خواب منظر تک

راستا پیر سے نبھائیے گا

 

خار ہوتے ہیں اس کے پہلو میں

کہئے کیا بَیر سے نبھائیے گا!

٭٭٭

 

 

 

 

رات کو نغمہ و گریہ زاری ورنہ دن بھر سناٹا

کس نے شور بھرا ہے باہر ، روح کے اندر سناٹا

 

زادِ سفر میں اس سے زیادہ اور بھلا ہم کیا رکھتے

ان جانی سی راہیں، مسافر، مٹی ، پتھر سناٹا

 

بابِ سماعت وا نہیں رہتا، لفظ کہیں کھو جاتے ہیں

بر سرِ محفل بھر جائے دیوار کو چھوکر سناٹا

 

کارِ جہاں میں خود کو کھپائیں ہفت افلاک سے کیا لینا

کیسی پستی کیسی بلندی دیکھا ہے یک سر سناٹا

 

یاد نگاری ، نوحہ گزاری، شغل کہیں آزار لکھیں

خوش اوقات رہیں پل دو پل پھر ہو مکرر سناٹا

٭٭٭

 

 

 

 

جو بھی کہئے ثبات ڈالتا ہے

جو مرے دل میں بات ڈالتا ہے

 

دھوپ میں کون جلتا ہے دن بھر

آگ میں کون ہاتھ ڈالتا ہے

 

کون دیتا ہے سانحے کی خبر

دل میں صدمات کون ڈالتا ہے

 

دہر ہے آئینہ تحّیر کا

پر طلسمات کون ڈالتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

شعر لکھا کئے روانی میں

باعث رنج رائگانی میں

 

حرف سارے ہی اُس کی نذر کئے

جس کو شامل رکھا کہانی میں

 

دل جھکایا تھا اُس کی چوکھٹ پر

سر اُٹھایا نہ سرگرانی میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ میرا تجربہ ہے جانِ جاں کچھ بھی نہیں ہوتا

بہت کچھ چاہے جانے پر یہاں کچھ بھی نہیں ہوتا

 

نہاں خود کو کیا دُنیا سے پھر اعلان یہ کیسا!

مکاں تا لا مکاں دیکھیں کہاں کچھ بھی نہیں ہوتا

 

جہاں کچھ بھی نہ ہو آنکھیں اُدھر بھی گھوم جاتی ہیں

گھُماتے جاؤ خالی پُتلیاں کچھ بھی نہیں ہوتا

 

کَنارے ہی پہ ٹھہرے یا کہ نیّا پار لے جائے

بتا دو ناخدا کو درمیاں کچھ بھی نہیں ہوتا

 

گوارا نفع و نقصان صاحب کرنا پڑتا ہے

رکھیں دل میں حسابِ دوستاں کچھ بھی نہیں ہوتا

 

سُخن گوئی میں کیوں احساس آخر رائگانی کا

میانِ فن سمجھ لے رائیگاں کچھ بھی نہیں ہوتا

 

۱۲جنوری۱۹۹۵ء

٭٭٭

 

 

معمول ہے جیتے رہنا مگر حسبِ معمول نہیں ہوتا

جُز کارِ سُخن ہم سے کوئی کارِ معقول نہیں ہوتا

 

وہی چھوٹے چھوٹے مسئلے ہیں ہم چھوٹے چھوٹے لوگوں کے

اِن باتوں سے تمہیں کیا لینا ہر ایک ملول نہیں ہوتا

 

بس ایک ہی بار تو بکِنا ہے بازارِ ہنر میں فن کارو

کسی حالِ تباہ پہ ہنسنا نہیں فن راہوں کی دھُول نہیں ہوتا

 

سب سُنی سنائی باتیں ہیں اُستاد جنہیں دہراتے رہیں

فطرت کا سبق سکھلائے کوئی ایسا اسکول نہیں ہوتا

۱۹۹۶۔ ۱۱۔ ۱۸

٭٭٭

 

 

 

تری مرضی جو تو میری پذیرائی نہیں کرتا

میں جھوٹی بات شعروں میں بیاں بھائی نہیں کرتا

 

حصولِ رزق کی گھاٹی سے بھی اکثر گزرتا ہوں

فقط کارِ سُخن میں آبلہ پائی نہیں کرتا

 

حدودِ وہم سے جب سرحدِ ادراک تک آئے

تخئیل وقت کی رفتار پیمائی نہیں کرتا

 

جب اپنے غم کو میں اظہار کی صورت میں لے آؤں

تو کیوں شکوہ کروں کوئی شکیبائی نہیں کرتا

 

تماشا کرنے والو تم تماشا کرتے جاؤ، میں

حریفِ آئینہ بن کر صف آرائی نہیں کرتا

 

صدائے حق لگانا ہاشمیؔ ہے آزمائش کیا!

بغیر اس کے کوئی تسلیم سچّائی نہیں کرتا

۲۲ستمبر۱۹۹۷ء

٭٭٭

 

 

 

کیا ہے دل کو شب و روز پارا پارہ کیا

کسی کی آنکھ میں آنسو ہوا ستارہ کیا

 

نظر لگی ہے ہُنر مند بازوؤں کو عجب

سو کار و کسب پر اُکساؤگے دوبارہ کیا

 

سپاہ و لشکر و اسباب سب تمہارے سہی

ہماری روح پر ہو جائے گا اجارہ کیا!

 

توہّمات سے کوئی بچے تو کیسے بچے

میانِ زیست میاں نفع کیا خسارہ کیا

 

الَست و مَست و فراموش اور کیا کہتا

ہمارے حرف و نوا کیا ہمارا نعرہ کیا!

 

سُنی سنائی کو دہرا رہا ہے ہر شاعر

غزل کہے گا نئی ہاشمیؔ بچارہ کیا

۶جنوری ۱۹۹۶ء کراچی

٭٭٭

 

 

 

 

رہ نما کی ضرورت بھلا آپ کو

آپ کے واسطے رہ نما راستے

٭٭

 

عمر بھر لکھے حرف کس کے لیے

عمر کی ہم نے صرف کس کے لیے

 

چھُپ گیا جامِ عمر چھلکا کے

ساقیا خالی ظرف کس کے لیے!

٭٭

 

دوچار بھی ازبر ہوں کسی کو تو غنیمت

کیا فرض ہے ہر ایک غزل ہو مری مشہور

٭٭

 

خامشی ھو کہے کہ الا ھو

دل سے آتی رہے صدا یاھو

٭٭٭

شاعر کے تشکر کے سات کہ انہوں نے  کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید