FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               مرزا خلیل احمد بیگ

مصنف کی کتاب ’تنقید اور اسلوبیاتی تنقید سے


 اسلوبیاتی تنقید

اردو میں تنقیدی نظامِ فکر کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اگر تذکروں سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے اور بیان و بلاغت اور صنائع، نیر عروضی مباحث کے قدیم سرمائے کو ادبی تنقید میں جگہ نہ دی جائے تو حالی اور شبلی کی بعض تحریریں بجا طور پر ادبی تنقید کا نقطۂ آغاز قرار دی جا سکتی ہیں۔ بیسویں صدی میں سماجی علوم کے فروغ کے ساتھ ساتھ ادبی تنقید نئے جہات و ابعاد سے روشناس ہوئی، نئے علوم کی روشنی میں ادب کے مطالعے سے تنقید کو بین العلومی Interdisciplinary  حیثیت حاصل ہوئی اور اردو میں تاثراتی تنقید، جمالیاتی تنقید اور رومانی تنقید کے شانہ بشانہ عمرانی تنقید، نفسیاتی تنقید اور فلسفیانہ تنقید بھی پروان چڑھنے لگی، مغربی فکر کے زیر اثر عملی تنقید، تجزیاتی تنقید، ساختیاتی تنقید اور سب سے بڑھ کر سائنٹفک تنقید کی اصطلاحیں عام ہوئیں۔ آج ادب کے تحلیل و تجزیے، تشریح و توضیح اور افہام و تفہیم کے نِت نئے انداز ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ اب ہر نیا نظریہ اور ہر نئی فکر ایک نئے تنقیدی زاویے کو معرضِ وجود میں لا رہی ہے۔ تقابلی تنقید کا رواج تو اُردو میں شروع سے ہی تھا ج کا نمونہ شبلی کی موازنۂ انیس و دبیر ہے۔ اب تخلیقی تنقید کا رجحان بھی پیدا ہو گیا ہے۔ کارل مارکس کے معتقدات اور فروئڈ کے نظریات کے زیر اثر جب ادب تخلیق ہونے لگا تو مارکسی تنقید اور تحلیلِ نفسی کا وجود بھی عمل میں آ گیا ورنہ کچھ دنوں پہلے تک ان چیزوں سے بھلا کون واقف تھا!

ادبی تنقید کے ان تمام میلانات و رجحانات میں ادب کو خاص زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور ادب کا مطالعہ مخصوص نظریوں کے تحت کیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے زاویے اور نظریے پہلے سے طے شدہ تھے۔ ادبی مطالعات میں محض ان کا اطلاق کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس قسم کی تنقید میں ادب کے علاوہ بہت سی چیزیں راہ پا گئیں اور ادبی فن پارے کی حیثیت محض ثانوی بن کر رہ گئی۔ ویلک اور ویرن نے اپنی کتاب (۱ Theory of Literature )  میں ادبی تنقید کو دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔

۱-        Extrinsic Criticism

۲-       Intrinsic Criticism

اول الذکر موٹے طور پر خارجی تنقید اور موخرالذکر کو داخلی تنقید کہہ سکتے ہیں۔ خارجی تنقید میں ادب کا مطالعہ خارجی اشیاء یا اجزاء کے حوالے سے کیا جاتا ہے اور ادب میں اور ان اشیاء میں ایک سببی رشتہ پایا جاتا ہے۔ یہ خارجی اشیا ہیں: ماحول، فضا، معاشرہ، مصنف، قاری، مخصوص متعقدات و نظریات وغیرہ۔ جب کہ داخلی تنقید میں ادبی فن پارے کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے اور اس کے تجزیے اور تشریح میں اس کی اندرونی ساخت اور تنظیم کو بروئے کار لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ادب کے مطالعے اور تنقید میں خارجی امور کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نقّاد کسی شاعر یا ادیب کے احوال و کوائف سے کام لے سکتا ہے اور اس کی سماجی زندگی، گرد و پیش کے ماحول اور معاشرہ سے رجوع کر سکتا ہے۔ اسی طرح قاری کسی فن پارے کو پڑھ کر جن داخلی کیفیات اور جمالیاتی تجربات سے ہو کر گزرتا ہے اور اس کے ذہن و دماغ پر جو تاثر یا ردِّ عمل قائم ہوتا ہے اسے بھی نقّاد اپنے تنقیدی مباحث میں جگہ دے سکتا ہے اور ادب کی سماجی سطح پر جو کار پروازی ہو سکتی ہے یعنی معاشرے کو متاثر یا متحرک کرنے کا جو فریضہ ادیب انجام دیتا ہے اسے بھی وہ قلم کی حرکت کے تابع کر سکتا ہے لیکن یہ تمام باتیں ادب کے خارجی پہلوؤں سے تعلق رکھتی ہیں اور ادب کا ان سے محض ایک سببی رشتہ ہوتا ہے۔ ان تمام امور کے بیان میں نقّاد کی نظر فن پارے سے ہٹ جاتی ہے اور وہ فن پارے سے صرفِ نظر کر کے دوسرے مسائل و مباحث میں الجھ جاتا ہے۔ ادب کے خارجی اور داخلی مطالعے کے فرق کو یوں بھی واضح کیا جا سکتا ہے، مثلاً نقّاد کسی فن پارے میں پیچ کی گئی زندگی، کردار، ماحول اور فضا، نیز معاشرے کا مطالعہ بڑی باریک بینی اور تنقیدی نظر کے ساتھ کر سکتا ہے اور کرداروں کے جذبات و احساسات محبت و ایثار اور خلوص و انکسار کی قدر کر سکتا ہے اور ان کی نفرت و عداوت اور بغض و عناد کے جذبے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے اس ماحول کا نقشہ کھینچ سکتا ہے اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کر سکتا ہے ان امور کے مطالعے کے لیے کسی خارجی زندگی اور ماحول کے حوالے کی ضرورت نہیں، ان چیزوں کا مطالعہ ادب کو خود مکتفی مان کر کیا جا سکتا ہے۔ یہ مطالعہ ادب کا داخلی مطالعہ کہلائے گا۔ اس مطالعے کو داخلی تنقید کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے لیکن جہاں نقاد نے یہ دیکھنا شروع کر دیا کہ ادبی فن پارے میں اصلی سماجی زندگی منعکس ہو رہی ہے یا نہیں، یا ادیب گردو پیش کے ماحول کی عکاسی میں کہاں تک کامیاب ہوا اور اس دور کے حالات کی کہاں تک تصویر کشی ملتی ہے، وہاں اس کا ذہن فن پارے سے ہٹ کر دوسری طرف پہنچ جاتا ہے۔ یہ بات بخوبی واضح ہو گئی ہو گی کہ ادب میں پیش کی جانے والی فضا، ماحول اور کرداروں کا مطالعہ اور بات ہے اور یہ دیکھنا کہ ادب میں سماج کی کہاں تک عکاسی پائی جاتی ہے اور بات۔ ادب میں پیش کیے جانے والے سماجی اور تہذیبی رویے کیفیتی اعتبار سے ان رویوں سے مختلف ہوتے ہیں جو ادب کا خارج کہلاتا ہے اور جن کا وقوع اصلی سماجی زندگی میں ملتا ہے۔ لیکن تنقید خواہ داخلی ہویا خارجی، نفسیاتی ہو یا عمرانی، تاثراتی ہویا جمالیاتی ان سب میں ادب کے لسانی پہلوؤں کے مطالعے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے۔

(۲)

بیسویں صدی کے نصفِ اول میں کچھ ایسے نقاد سامنے آئے جنھوں نے فن پارے کی اہمیت کو تسلیم کیا اور فن پارے کی داخلی تنظیم اور لسانی ساخت کے مطالعے پر اپنی تنقید کی بنیاد رکھی جسے نئی تنقید، (New Criticism)   یا عملی تنقید، (Practical Criticism)  کا نام دیا گیا۔ ایسے نقادوں میں آئی اے رچرڈز، ولیم امپن، ایف۔ آر۔ لیوس، جے۔ سی۔ رینسم۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اور کلینتھ بروکس کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔

بیسویں صدی میں لسانیات کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس کی مختلف شاخیں بھی قائم ہوئیں اور اس کا اطلاق مختلف مضامین کے مطالعے میں کیا جانے لگا۔ ادب کے مطالعے میں لسانیات کے اطلاق کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس نے بہت جلد ایک شعبۂ علم کی حیثیت اختیار کر لی جسے اسلوبیات، (Stylistics)  کہتے ہیں۔ اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید زبان اور اس کی ساخت کے حوالے سے ادب کے مطالعے کا نام ہے، اسلوبیاتی تنقید میں ادبی زبان کا تجزیہ یا ادب میں زبان کے استعمال کا مطالعہ پیش کیا جاتا ہے اور فن پارے کے اسلوبی خصائص (Style- features)  کا تعین کیا جاتا ہے جن کا ایک فن پارے کو دوسرے فن پارے سے ممتاز بنانے میں اہم رول ہوتا ہے، اسلوبی خصائص کی بنیاد پر ہم ایک ادیب یا شاعر کو دوسرے ادیب یا شاعر سے بھی ممتاز بنا سکتے ہیں۔ اسلوبیاتی تنقید کی بنیاد فن پارے کے لسانیاتی تجزیے پر قائم ہے۔ لسانیاتی تجزیے کے بغیر کسی فن پارے کی اسلوبیاتی خصوصیات کا تعیّن ممکن نہیں۔ ہر ادیب یا شاعر کے ہاں یا ہر فن پارے میں زبان کے استعمال کی کچھ خصوصیات کو اسلوبی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو دوسرے ادیب یا شاعر کے ہاں یا دوسرے فن پارے میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ انھیں خصوصیات کو اسلوبی خصوصیات قرار دیا گیا ہے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ زبان کا صرف لسانی تجزیہ اسلوبیات تجزیہ نہیں کہلا سکتا۔ اسلوبیاتی تجزیے کی بنیاد لسانیاتی تجزیہ پر ضرور ہے، لیکن خالص لسانیاتی تجزیے کو اسلوبیاتی تجزیہ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس میں لسانیاتی تجزیے کے علاوہ اسلوبی خصائص کی شناخت بھی ضروری ہوتی ہے اور اسلوبی خصائص کا تعیّن اسی وقت ہو سکتا ہے جب فن پارے کا لسانیاتی تجزیہ کیا جائے لہٰذا اسلوبیاتی تنقید کو صرف لسانیاتی تنقید سمجھ لینا۔ کافی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر اسلوبیاتی تجزیہ، لسانیاتی تجزیہ بھی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسلوبیاتی تنقید سے صرف لسانیاتی تجزیہ مراد لیتے ہیں۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ تاوقتیکہ لسانیاتی تجزیے کے بعد اسلوبی خصائص کی شناخت نہ کی جائے یہ لسانیاتی تجزیہ اسلوبیاتی تجزیہ یا اسلوبیاتی تنقید کے دائرے میں داخل نہیں ہو سکتا، لہٰذا اسلوبیاتی تنقید کی مکمل صورت یہ ہو گی:

لسانیاتی تجزیہ +  اسلوبی خصائص  =        اسلوبیاتی تنقید

دوسرے تمام دبستانِ تنقید کسی نہ کسی انداز سے مواد و موضوع پر زور دیتے ہیں جب کہ اسلوبیاتی تنقید اسلوب اور اسلوبی خصائص کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے۔ بقول شمس الرحمٰن فاروقی موضوعات کسی کی ملکیت نہیں ہوتے۔ ہمیں کسی مصنف کی انفرادیت کو جاننے کے لیے پایانِ کار اس کے اسلوب کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے (۲)  کسی مصنف کے اسلوب کی تشکیل، ادب میں زبان کو مخصوص طور پر بروئے کار لانے سے ہی ہوتی ہے اور زبان سے متعلق اس کا اپنا شعری و ادبی استعمال ہی اس کے اسلوب کی انفرادیت کا ضامن ہوتا ہے۔ بعض ادبی نقاد ادب کے مطالعے میں لسانیات کے اطلاق کو بے جا تصوّر کرتے ہیں۔ ایسے نقاد یہ بھول جاتے ہیں کہ ادب اور لسانیات کے درمیان زبان کے متعلق سے گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ ادب ایک فنّی اور تخلیقی سرگرمی کا نام ہے جسے دوسری فنّی اور تخلیقی سرگرمیوں کی طرح میڈیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادب کا میڈیم زبان ہے۔ ادب زبان کو ذریعۂ اظہار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اگر ذریعۂ اظہار نہ ہو تو اظہار کی تجسیم ناممکن، ہو جائے گی۔ اپنے اظہار کی خراد پر پورا اتارنے کے لیے شاعر زبان میں اکثر کتر بیونت، تراش خراش اور کانٹ چھانٹ اور رد و بدل سے کام لیتا ہے۔ اس عمل سے شاعرانہ زبان عام بول چال کی زبان سے مختلف ہو جاتی ہے شاعرانہ زبان کی اس نُدرت، جدّت یا انوکھے پن کو زبان کے وضع کردہ اصولوں سے انحراف کا نام دیا گیا ہے۔ نلس ایرک انکوسٹ نے اپنے مضمون (٣”On Defining Style”)  میں زبان کی وضع کردہ اصولوں سے انحراف Deviation from the norm کو تشکیل اسلوب کا ایک اہم عنصر قرار دیا ہے۔ ہر دور کے شاعروں نے زبان کے مروّجہ اصولوں سے انحراف کیا ہے جس سے زبان کے استعمال کا دائرہ وسیع ہوا ہے نیز نئی نئی لفظیات، نئی نئی تراکیب اور نِت نئے تلازمات معرض وجود میں آئے ہیں۔ الفاظ کے Connotation اور Collocation تک بدلے اور معنی میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے اور بحیثیتِ مجموعی ایک نئی شعری لسانیات وجود میں آئی ہے۔ زبان کے استعمال میں جدّت طرازی اور اظہار کے نت نئے طریقوں کی عمل پذیری نے ہر دور میں لوگوں کو چونکا یا اور اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ یہی نئے اظہار کی پہچان اور نئے شعری اسلوب کی شناخت ہے۔ غالب کی زبان پر آغا جان عیش اور اقبال کے لہجے پر پیارے صاحب رشید ہونے کا اعتراض اس بات کی علامت ہے کہ ان دونوں شاعروں نے اپنے عہد کی زبان کے مروّجہ معیاروں (Norms)  سے انحراف کر کے ایک نیا شعری لہجہ اور ایک نیا اسلوب خلق کیا تھا۔

یہ بات کہی جا چکی ہے کہ زبان ادب کا ذریعۂ اظہار یا میڈیم ہے لیکن یہی زبان لسانیات کا مواد موضوع یعنی Content بھی ہے۔ لہٰذا ادب اور لسانیات دونوں کا واسطہ زبان سے پڑتا ہے۔ ادب اور لسانیات کے رشتے کی ایک مضبوط کڑی اسلوبیات ہے جس کی حد ایک طرف لسانیات سے ملتی ہے تو دوسری طرف ادب سے۔ زبان جو لسانیات کا مواد و موضوع ہے کس طرح ادب کے ذریعۂ اظہار کے طور پر استعمال کی جاتی ہے اور کس طرح اس میں انحراف پیدا ہوتا ہے اور کس طرح یہ انحراف انفرادی خصوصیات کا حامل بن جاتا ہے اور کس طرح یہ انفرادیت اسلوب کی انفرادیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور کس طرح اسلوبی خصائص کی بنیاد پر ایک فن پارہ دوسرے فن پارہ سے اور ایک ادیب دوسرے ادیب سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں اسلوبیات اور اسلوبیاتی تنقید کے دائرے میں آتی ہیں۔ زبان اور ادب، زبان اور لسانیات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زبان اور اسلوبیات اور ادب اور لسانیات کے درمیان رشتوں کو یوں ظاہر کیا جا سکتا ہے:

زبان

         مواد موضوع                                                  ذریعۂ اظہار

 

لسانیات                                                                               ادب

 

اسلوبیات

اسلوبیاتی تنقید کا آغاز بیسویں صدی کے وسط سے ہوتا ہے اگرچہ روسی ہیئت پسندوں اور امریکی نئی تنقید کے مبلغوں کے ہاں اس کی ابتدائی صدارت دیکھی جاتی ہے تاہم ۱۹۶۰ء میں امریکہ سے ٹامس اسے سبیوک کی مرتّب کردہ کتاب Style in Language کی اشاعت سے اس کے خط و خال متعیّن ہوتے ہیں اور اس کے بعد کے مطالعے اور تجزیے سے اطلاقی لسانیات (Applied Linguistics)  کی ایک اہم شاخ کی حیثیت سے اس اہمیت مسلم ہو جاتی ہے(۴) ۔ اس کتاب کی اشاعت اگر ایک طرف ادبی تنقید میں ایک نئی جہت کی بازیافت کہی جا سکتی ہے تو دوسری طرف اسے لسانیات کے اطلاق کے ایک رُخ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں ادب کے مطالعے میں جن لسانیاتی طریقۂ کار کو پیش کیا گیا ہے ان کا اطلاق دوسری زبانوں کے ادب کے مطالعے اور تجزیے پر آج بھی جاری ہے۔ اس کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ماہرین لسانیات اور مروی ناقد یعنی دونوں کی نگارشات شامل ہیں۔ اسلوبیاتی تنقید کا ارتقاء دراصل انھیں دونوں کی مجموعی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ماہرین لسانیات کی توجہ ہمیشہ اس امر کی جانب مرکوز رہی تھی کہ متعلقہ میدانوں میں لسانیات کے اطلاق کا دائرہ کس طرح وسیع کیا جائے۔ دوسری جانب ادب اور زبان کے درمیان مضبوط اور گہرے رشتے کی بنیاد پر ادبی اسکالرز کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ادب کی افہام و تفہیم اور تشریح و تجزیے میں کس طرح لسانیاتی طریقِ کار سے مدد لی جائے۔ چنانچہ انگریزی اور دوسری زبانوں میں اسلوبیاتی تنقید کا جو کچھ بھی سرمایہ اکٹھا ہوا ہے اس میں زیادہ تر ایسے اسلوبیاتی نقادوں کی نگارشات شامل ہیں جو بنیادی طور پر ادیب یا ادبی اسکالرز تھے اور ادب کا صحیح ذوق رکھتے تھے لیکن انھوں نے لسانیات کے مطالعے کے بعد ادب پر اس کے اطلاق کی ضرورت محسوس کی جس سے ایک نئے دبستانِ تنقید کی بنیاد پڑی۔ اردو میں بھی ادب پر لسانیات کے اطلاق کی پہل ادبی اسکالروں کے ہی جانب سے ہوئی۔

(۳)

اردو میں پروفیسر مسعود حسین خاں پہلے ادبی اسکالر ہیں جنھوں نے اسلوبیاتی نوعیت کے مضامین لکھے اور اُردو میں باقاعدہ طور پر اسلوبیاتی تنقید کی بنیاد ڈالی۔ بعد کے دو اسلوبیاتی نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر مغنی تبسم بھی ادب کے ہی راستے سے اسلوبیاتی تنقید کے میدان میں داخل ہوئے۔ راقم الحروف نے اسلوبیاتی تنقید کے جو نمونے پچھلے دس پندرہ سال کے دوران پیش کیے ہیں اس میں ادبی ذوق اور لسانیات کے ٹھوس علم کے علاوہ پروفیسر مسعود حسین خاں کی تربیت کا بھی خاص دخل رہا ہے۔

پروفیسر مسعود حسین خاں نے اپنے مضامین میں اسلوبیاتی تجزیے کی معروضیت (Objectivity) اور اس کے سائنسی انداز کے ساتھ ساتھ اس کے جمالیاتی پہلوؤں پر بھی زور دیا ہے اور ادب کے لسانیاتی تجزیے میں رچے ہوئے ذوق کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے یعنی اسلوبیاتی نقاد فن پارے کے اسلوبی خصائص اور دیگر لسانی جمالیاتی باریکیوں کی اسی وقت شناخت کر سکتا ہے جب اس کے اندر ادب کا رچا ہوا ذوق بھی ہو۔ پروفیسر مغنی تبسم بھی اسلوبیاتی تنقید میں ادبی ذوق کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایک اچھا اسلوب شناسی وہی ہے جو ادب کا سچا ذوق بھی رکھتا ہو ورنہ محض لسانیاتی اوزاروں (Linguistic Tools) سے کام لینے سے فن پارے کا تجزیہ میکانکیت کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے ذوق کی اہمیت کو ہمارے مغربی اسلوبیاتی نقادوں نے بھی تسلیم کیا ہے اسی لئے وہ اسلوبیات کو ادبی مطالعہ و تجزئے کا لسانی جمالیاتی رویّہ یعنی (Lingua- Aesthetic approach)  قرار دیتے ہیں۔

اردو میں اسلوبیاتی تنقید کو عہدِ حاضر میں کافی فروغ حاصل ہوا ہے جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اس کی ابتدا پروفیسر مسعود حسین خاں کے مضامین و مقالات سے ہوتی ہے اور وہ اس کے بنیاد گزار ہیں۔ انھوں نے اس علم کی سائنسی بنیادیں فراہم کیں۔ اس کے اصول مرتب کئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ، اس ضمن میں مسعود صاحب کا مقالہ ’’مطالعہ شعر:صوتیاتی نقطۂ نظر سے ‘‘ (۵)  اولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ غالباً اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید پر سب سے پہلا مقالہ ہے جو اُردو میں لکھا گیا۔ اس سے اور لوگوں کو بھی اس موضوع پر لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ مسعود صاحب نے غالب کے قوافی و ردیف کے صوتی آہنگ کا ایک نہایت جامع اسلوبیاتی تجزیہ بھی پیش کیا ہے (۶) ۔ اس کے علاوہ میر ، اقبال ، نظیر اکبر آبادی کے صوتی  آہنگ پر بھی مسعود صاحب کا مطالعہ نہایت معروضی اور سائنسی ہے۔ فانی کے ہاں غم کی فراوانی اور یاس و حرماں نصیبی کی توجیہہ ان کے صوتی آہنگ سے بھی کی جاتی ہے کیونکہ فانی کے ہاں طویل مصوّتوں کا استعمال بہت زیادہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ہکار یا نفسی آوازوں کے استعمال سے بھی فانی غم کی شدّت کو ظاہر کیا ہے مسعود حسین صاحب کے نظریے کے مطابق ہکار  آوازیں اور طویل مصوتے اپنے اندر ایک صوتی رمزیت (Sound)  Symbolism رکھتے ہیں۔ طویل مصوتوں کے حوالے سے مسعود صاحب نے میر کی غم انگیزی کی بھی توجیہہ کی ہے۔ چند دوسری آوازوں مثلاً کوز آوازوں Retroflex Soundsکی اظہاری (Expressive) کیفیات کا پتا انھوں نے بہ خوبی لگایا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی اور انشاءاللہ خاں انشا کے ہاں کوز  آوازوں کے تاثر کو بھی انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مسعود صاحب کی حالیہ تصنیف اقبال کی نظری و عملی شعریات (۷)  ہے اس کتاب کے آخری نصف حصّے میں انھوں نے اقبال کی شاعری کا اسلوبیاتی محاکمہ کیا ہے اور ان کی بعض نظموں کے اسلوبیاتی تجزیے پیش کئے ہیں۔ یہ کتاب اسلوبیاتی تنقید میں ایک گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔

پروفیسر مسعود حسین خاں کے بعد اسلوبیاتی تنقید کے ضمن میں دوسرا نام پروفیسر گوپی چند نارنگ کا آتا ہے۔ انھوں نے اُردو میں اسلوبیاتی تنقید کے بڑے اچھے نمونے پیش کیے ہیں۔ میر کی اسلوبیات پر انھوں نے جو لیکچرز دیے وہ اُردو اسلوبیاتی تنقید میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میر کے اسلوب کے کئی ایسے گوشے ہیں جو پہلی بار اجاگر کیے گئے۔ (۸)  اسی طرح میر انیس کے مرثیوں کے اسلوبیاتی تجزیے سے انھوں نے انیس کے ہاں ایک مخصوص صوتی آہنگ کی شناخت کی ہے اور اس تجزیے سے بڑے اہم اور دلچسپ نتائج مرتّب کیے ہیں۔ اسی طرح اقبال کے کلام کا مطالعہ بھی انھوں نے مختلف صوتیاتی اور اسلوبیاتی پہلوؤں سے کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اسلوبیاتی نقاد کی حیثیت سے اردو کے انتقادی ادب میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ اردو کے ایک دوسرے اہم اسلوبیاتی نقّاد پروفیسر مغنی تبسم ہیں۔ انھوں نے فانی کی شاعری کا صوتیاتی اور اسلوبیاتی مطالعہ تجزیہ پیش کر کے اسلوبیاتی تنقید میں اپنے لیے ایک مستقل جہت بنا لی ہے۔ (۹)  فانی کی شاعری کا جس تفصیل کے ساتھ مغنی صاحب نے لسانیاتی تجزیہ کیا ہے اور ان کے اسلوب کی شناخت میں جو لسانی طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ ہر لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس شرح و بسط کے ساتھ اُردو کے کسی بھی ادیب یا شاعر کا اسلوبیاتی تجزیہ تا حال نہیں کیا گیا۔ فانی پر اپنی کتاب کی اشاعت کے بعد سے بھی وہ اسلوبیاتی موضوعات پر برابر لکھتے رہے اور اسلوبیاتی تنقید سے اُردو والوں کو روشناس کراتے رہے ہیں۔ چند سال قبل پروفیسر مغنی تبسم کی ایک اور کتاب آواز اور آدمی (۱۰)  شائع ہوئی جو اسلوبیاتی مضامین کا ایک اہم مجموعہ ہے غالب، میر اور چند دوسرے شاعروں کے لسانیاتی اسالیب کا بہت اچھا تجزیہ ان مضامین میں موجود ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اسلوبیاتی تنقید کی سمت و رفتار اور جہات و ابعاد کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔

اسلوبیاتی تنقید کے ضمن میں راقم الحروف کی کتاب زبان، اسلوب اور اسلوبیات (۱۱)  کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا۔ اس کتاب میں اسلوبیاتی تنقید کے ارتقا اور اس کے طریقۂ کار سے بحث کی گئی ہے اور اقبال، غالب، اختر انصاری، فیض احمد فیض اور رشید احمد صدیقی کی نگارشاتِ نثر و نظم کا اسلوبیاتی تجزیہ پیش کیا گیا ہے اور اسلوبیاتی خصائص کی شناخت کے بعد ان کی توجیہہ بھی کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اُردو داں حلقوں میں اس کتاب نے گہرا نقش چھوڑا ہے۔

اسلوبیاتی تنقید سے متعلق اردو میں کچھ اور لوگوں نے بھی لکھنے کی کوشش کی ہے لیکن علمِ لسانیات سے کماحقّہٗ  واقفیت نہ ہونے کے سبب ان کی تحریروں میں اسلوب شناسی سے متعلق وہ قطعیت اور معروفیت اور وہ طرزِ استدلال نہیں پیدا ہو سکا ہے جو دوسرے اسلوبیاتی نقادوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔

حواشی و حوالے

۱۔        رینے ویلک اور آسٹن ویرن  (Rene Wellek and Austin Werren) ، ۱۹۶۵ء(دوسرا ایڈیشن) ، Theory of Literature (نیو یارک: ہارکورٹ، برپس)

۲۔        شمس الرحمٰن فاروقی، ’’مطالعۂ اسلوب کا ایک سبق‘‘ مطبوعہ اردو ادب (علی گڑھ: انجمن ترقی اردو ہند)  ،شمارہ ۲ ( ۱۹۷۲ ء)  ، ص ۵۔

۳۔       نلز ایرک انکوسٹ  (Nils Erik Enkvist) ، ۱۹۶۴ء، "On Defining Style” مشمولہ Linguistics and Style (نلز ایرک انکوسٹ اور دیگر) ، لندن: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔

۴۔       ٹامس اے، سیبیوک (Thomas A. Seebok)  کی مرتبہ کتاب Style in Language (کیمبرج، ملیسا چوسٹس: MIT، ۱۹۶۰ء)  ان مقالات کا مجموعہ ہے جو امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی کی سوشل سائنس ریسرچ کونسل کے زیر اہتمام ۱۹۵۸ء میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں پیش کیے گئے تھے۔ اس کانفرنس میں مقالہ نگاروں نے ادبی و شعری اسلوب کے صوتی، صرفی، نحوی اور معنیاتی پہلوؤں نیز بحور و اوزان سے متعلق مسائل پر لسانیاتی نقطۂ نظر سے روشنی ڈالی تھی۔ اس کانفرنس میں دوسرے بہت سے عالموں کے اے۔ ملر، جان ہولینڈر، آرکی بالڈ اے۔ ہل، سال سپلورٹا، رینے ویلک، ڈیل ایچ۔ ہائمز اور ٹامس اے۔ سپیوک نے بھی مقالات پیش کیے اور بحث میں حصّہ لیا۔

۵۔       مسعود حسین خاں، ’’مطالعۂ شعر: صوتیاتی نقطۂ نظر سے‘‘ مشمولہ شعر و زبان (مسعود حسین خاں) ، حیدرآباد: شعبۂ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی، ۱۹۶۶ء۔

۶۔       مسعود حسین خاں، ’’کلام غالب کے قوافی و ردیف کا صوتی آہنگ‘‘ مطبوعہ شعر و حکمت (حیدرآباد) ، شمارہ ۲۵ ص ۱۳ تا ۲۰۔

۷۔       پروفیسر مسعود حسین خاں، اقبال کی نظر و عملی شعریات (سری نگر: اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی،۱۹۸۳ء)

۸۔       دیکھیے گوپی چند نارنگ کی کتاب اسلوبیاتِ میر (کراچی : انجمن ترقی اردو پاکستان، ۱۹۸۵ء)

۹۔        مغنی تبسم، فانی بدایونی: حیات، شخصیت اور شاعری (حیدرآباد، ۱۹۶۹ء)

۱۰۔      مغنی تبسم، آواز اور آدمی (حیدرآباد)

۱۱۔       مرزا خلیل احمد بیگ، زبان، اسلوب اور اسلوبیات (علی گڑھ: ادارۂ زبان و اسلوب، ۱۹۸۳ء)

 

اسلوبیاتی تنقید:  چند بنیادی باتیں

اردو میں اسلوبیاتی یا اسلوبیاتی تنقید کو اب کافی فروغ حاصل ہو چکا ہے۔ ایک مکمل دبستانِ تنقید کی حیثیت سے اردو میں اس کی اہمیت اب مسلّم ہو چکی ہے۔ اب اردو کے مستند نقاد بھی لسانیات اور اسلوبیات کا ذکر اپنی تنقیدی تحریروں میں برملا کرنے لگے ہیں اور ادب کے مطالعے اور تجزیے میں سماجی اور دیگر علوم کی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ نقاد لسانیات کی اہمیت کو بھی تسلیم کرنے لگے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فلسفہ، تاریخ سماجیات، نفسیات اور لسانیات کے تعاون اور تفاعل سے ادبی تنقید میں نظری وسعت پیدا ہوتی ہے اور یہ اپنے روایتی خول سے باہر نکل آئی ہے۔ اب تنقید محض تاثرات کے پُر کیف اظہار کا نام نہیں یا تنقید کو اب محض اس کے داخلی رنگ سے نہیں پہچانا جا سکتا، اور نہ ہی تنقید اب صرف ذوق اور وجدان کی چیز بن کر رہ گئی ہے، بلکہ اس میں معروضی نقطۂ نظر اور سائنسی انداز پیدا ہوا ہے اور نتائج کے استنباط میں غیر جانب دارانہ رویّے اور قطعیت کو فروغ ملا ہے۔ اب تنقید میں محض تخیّل آمیزی اور مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا جاتا، بلکہ عملی اور تجزیاتی طریقۂ کار بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید نظریۂ تنقید کی تمام خوبیاں اسلوبیاتی تنقید میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادبی تنقید کو  مطالعۂ ادب کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کراتے ہیں لسانیات و اسلوبیات نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ادبی تنقید کے جدید نظریات کا خواہ وہ ساختیات ہوتا ہے۔ ساختیات یا نظریۂ ردِ تشکیل، لسانیات و اسلوبیات سے کسی نہ کسی حد تک رشتہ ضرور استوار ہے اسلوبیات جس کی بنیاد لسانیات پر قائم ہے، ان نظریات و تصورات سے گہرا علاقہ رکھتی ہے۔ ان نظریات کو سمجھنے کے لیے اسلوبیات کا سمجھنا بیحد ضروری ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے ایک مضمون ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات‘‘ میں اس امر کا بالتصریح  ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اسلوبیات کو سمجھے بغیر یا لسانیات کے بنیادی اصول و ضوابط کو جانے بغیر، نظریۂ ساختیات کو نیز ان تمام فلسفیانہ مباحث کو جو ’پس ساختیات‘ کے تحت آتے ہیں، سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ ‘‘(۱)

لہٰذا اسلوبیات یا اسلوبیاتی نظریۂ تنقید سے کماحقہٗ واقفیت کے لیے بنیادی باتوں کا جاننا، بیحد ضروری ہے۔ (۲)

اسلوبیات تنقید سے متعلق چند بنیادی باتیں یہ ہیں:

۱۔         اسلوبیات سے متعلق سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس کا لسانیات سے بہت گہرا رشتہ ہے، کیوں کہ زبان جو لسانیات کا مواد و موضوع ہے، وہی زبان ادب کا ذریعۂ اظہار بھی ہے۔ اور ادبی زبان کا مطالعہ و تجزیہ ہی ’اسلوبیات‘ (Stylistics)  کہلاتا ہے

اسلوبیات میں لسانیات سے بھر پور مدد لی جاتی ہے۔ لسانیات زبان کے سائنسی مطالعے سے متعلق جو علم و  بصیرت فراہم کرتی ہے، اس کا اطلاق ادب کے مطالعے اور تجزیے میں بھی کیا جاتا ہے۔ لسانیات میں جتنے بھی نئے نئے نظریات فروغ پاتے ہیں ان کا اطلاق ادب کے مطالعے میں بھی کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ادب کا مطالعہ و تجزیہ چامسکی کی تبادلی تخلیقی قواعد (Transformational Generative Grammar)  کی روشنی میں بھی کیا گیا ہے۔ اسلوبیات میں لسانیات کی اصطلاحات سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اسلوبیات میں ادبی متن کا تجزیہ لسانیات کی مختلف سطحات پر کیا جاتا ہے۔ جن میں صوتی، صرفی، لغوی، نحوی، قواعدی اور معنیاتی سطحیں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلوبیات کو اطلاقی لسانیات (Applied Linguistics)  کی ایک اہم شاخ قرار دیا گیا ہے۔ اسلوبیات اور لسانیات کے اسی گہرے رشتے کی وجہ سے اسلوبیات کو ’لسانیاتی مطالعۂ ادب‘ یا ’لسانیاتی تنقید‘ بھی کہا گیا ہے۔ روجرفاؤلر نے تو اسلوبیات پر اپنی ایک کتاب کا نام ہی لسانیاتی تنقید (Linguistic Criticism)  رکھا ہے۔ (۲)  ایک دوسرے اسکالر نائجل فیب نے اسلوبیات کو ’ادبی لسانیات‘ (Literary Linguistics)  کے نام سے یاد کیا ہے۔ (۳)  جب کہ ہیلیڈے اسلوبیات کو ’ادبی اسلوبیات‘ سے ممیز کرنے کے لیے ’لسانیاتی اسلوبیات‘ (Linguistic Stylistics)  کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ (۴)  اردو میں ’اسلوبیات‘ اور ’اسلوبیاتی تنقید‘ دونوں ہی اصطلاحیں مروج رہی ہیں۔

لسانیات جدید (Modern Linguistics)  کا ارتقا بیسویں صدی کے آغاز سے فرڈی نینڈ ڈی سلسیور (۱۸۵۸ تا ۱۹۱۳ء)  کے ان بصیرت افروز اور انقلاب آفریں لسانیاتی افکار سے ہوتا ہے جو اس کی پس از مرگ کتابCourse in Genegal Linguistics میں پائے جاتے ہیں۔ یہ کتاب سلسیور کے کلاس نوٹس پر مشتمل ہے جو اس نے لسانیات کی تدریس کے دوران تیار کیے تھے۔ سلسیور کے انتقال (۱۹۱۳ء)  کے بعد اس کے شاگردوں نے ان نوٹس (Notes)  کو مرتب کر کے ۱۹۱۶ء میں پیرس سے کتابی شکل میں شائع کرایا۔ سلسیور کے لیے مثل افکار نے لسانیات کی دنیا میں ایک زبردست انقلاب برپا کر دیا۔ سلسیور کو اسی لیے ’’لسانیاتِ جدید کا باوا آدم‘‘ اور ساختی /ہئیتی لسانیات (Structural Linguistics)  کا بانی کہا جاتا ہے۔ اسلوبیات کی بنیاد چوں کہ ہئیتی یا توضیحی لسانیات (Descriptive Linguistics)  پر قائم رہے، اس لیے اسلوبیات کا سلسیور کے افکار و خیالات سے گہرا رشتہ ہے۔ سلسیور کے بعد بلوم فیلڈ نے اپنی کتابLanguage کی اشاعت سے ساختی / ہئیتی یا توضیحی لسانیات کو فروغ دیا جس سے زبانوں کے توضیحی مطالعے اور تجزیے کی راہیں مزید ہموار ہوئیں۔

توضیحی لسانیات پر مبنی اسلوبیاتی مطالعات کا آغاز اگرچہ بیسویں صدی کے وسط سے ہوتا ہے، لیکن ادب کے لسانی سروکار کی تاریخ اس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ زبان کے حوالے سے ادب کے مطالعے کا ارتقا موئے طور پر۱۹۱۰ء اور ۱۹۳۰ء کے دوران روسی ہئیت پسندوں (مثلاً رومن یاکوبسن، وکٹر شکلووسکی اور بورس تو میشیوسکی) ، رو، نس ماہرینِ السنہ (مثلاً چارلزبیلی، لیواسپٹزر اور کارل ووسلر) ، چیک ساخت پسندوں (مثلاً بوہسلوو ہیورانک اور جان مکارووسکی) ، برطانوی ماہرین معنیات (مثلاً آئی۔ اے۔ رچرڈز اور وہکم امپلسن) ، نیز امریکی نئے نقادوں (مثلاً بے۔ سی۔ رینسم، ٹی۔ ایس ایلیٹ اور کلینتھ بروکس)  کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان گروپوں کے درمیان اگرچہ نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے اور تحصیل مقاصد اور طریقۂ کار کے اعتبار سے یہ ایک دوسرے سے مغائرت رکھتے تھے، تاہم یہ تمام گروپس لسانی ساخت اور ہئیت کو ادبی مواد اور ادبی سروکار پر فوقیت دیتے تھے۔ اور زبان کے جمالیاتی استعمال پر زور دیتے تھے۔ اس دور کے اسلوبیاتی مطالعات کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ۱۹۵۰ء، ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائیوں میں اسلوبیات سے دلچسپی میں اضافہ ہوا، کیوں کہ ماہرین اسلوبیات نے لسانیات کے توضیحی طریقۂ کار کو اپنا یا اور بہت سے نئے لسانیاتی نظریات کی روشنی میں ادب کے مطالعے اور تجزیے کا کام انجام دیا۔ اس دوران میں اسلوبیات کو کافی فروغ حاصل ہوا اور ایک شعبۂ علم کی حیثیت سے اس کی اہمیت مسلّم ہوئی۔ (۵)

(۲)      اسلوبیات کے سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کا بنیادی تصور (Basic Assumption)  ’اسلوب‘ ہے۔ اسی لیے اسلوبیات کو مطالعۂ اسلوب بھی کہتے ہیں۔ اسلوبیات کا یہ بنیادی نکتہ ہے کہ ادب میں اسلوب زبان کے استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے ماہرینِ لسانیات و اسلوبیات نے اسلوب کی جتنی بھی تعریفیں بیان کی ہیں وہ سب زبان کے ہی حوالے سے ہیں۔ اسلوب میں انفرادیت بھی زبان کے ہی مخصوص اور انفرادی استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ اسلوب کی تشکیل میں زبان کے تخلیقی استعمال کو بھی بیحد اہمیت حاصل ہے۔

اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا کہ ہر مصنف کے یہاں اسلوب پایا جاتا ہے، کیوں کہ ہر مصنف کے یہاں زبان کا استعمال ملتا ہے۔ اسی طرح ہر فن پارے کا اپنا اسلوب ہوتا ہے اور ہر عہد کا بھی اپنا اسلوب ہوتا ہے۔ اسلوب کا مطالعہ انفرادی طور پر بھی کیا جا سکتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی۔ اسلوب الگ سے مسلط کردہ کوئی چیز نہیں، بلکہ یہ مصنف کی زبان میں جاری و ساری ہوتا ہے۔ یہ اسلوبیاتی نقاد کا کام ہے کہ وہ مصنف کے یہاں زبان کے استعمال کے امتیازات کا پتا لگائے اور اس کے اسلوبی خصائص (Style- features)  کو نشان زد کرے۔ اگر ادبی متن کا لسانیاتی تجزیہ کیا گیا اور اس کے لسانی امتیازات یا اسلوبی خصائص کو نشان زد نہ کیا گیا۔ تو وہ مطالعہ و تجزیہ تشنہ اور نامکمل تصور کیا جائے گا۔

یہاں اس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اسلوب کا یہ نیا تصور جو اسلوبیات نے ہمیں دیا ہے، اُس تصور اسلوب سے مختلف ہے جو روایتی نظریۂ ادب یا مشرق و مغرب کی ادبی و تنقیدی روایت میں رائج رہا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اسلوب کے قدیم اور جدید تصور کو بڑی خوبی کے ساتھ ان سطور میں بیان کیا ہے:

’’مشرقی روایت میں ادبی اسلوب بدیع و بیان کے پیروؤں کو شعر و ادب میں بروئے کار لانے اور ادبی حُسن کاری کے عمل سے عہدہ بر آ ہونے سے عبارت ہے، یعنی یہ ایسی شے ہے جس سے ادبی اظہار کے حُسن و دلکشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ گویا اسلوب زیور ہے ادبی اظہار کا جس سے ادبی اظہار کی جاذبیت، کشش اور تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے، یعنی مشرقی روایت کی رُو سے اسلوب لازم نہیں بلکہ ایسی چیز ہے جس کا اضافہ کیا جا سکے۔ پس اسلوب کے قدیم اور جدید تصور یعنی اسلوبیات کے تصور میں پہلا بڑا فرق یہی ہے کہ اسلوبیات کی رُو سے اسلوب کی حیثیت ادبی اظہار میں اضافی نہیں، بلکہ اصلی ہے۔ یعنی اسلوب لازم ہے یا ادبی اظہار کا ناگزیر حصّہ ہے یا اس تخلیقی عمل کا ناگزیر حصّہ ہے جس کے ذریعے زمانِ ادبی اظہار کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ یعنی ادبی اسلوب سے مُراد لسانی سجاوٹ یا زینت کی چیز نہیں جس کارد یا اختیار میکانکی ہو، بلکہ اسلوب فی نفسہ ادبی اظہار کے وجود میں پیوست ہے۔ ‘‘(۶)

اسلوب کے اس جدید تصور کے پیش نظر، اسلوبیات اسلوب کی ان تمام تعریفوں کو جن میں زبان کے حوالے کی بجائے شخصیت، ذات یا ذہنی کیفیت کے حوالے پائے جاتے ہیں، مسترد کرتی ہے۔ مثلاً فرانسیسی دانشور بغوں کا یہ قول کہ ’’اسلوب ہی خود انسان کی ذات ہے‘‘ (۷) ، یا مشہور انگریزی نثر نگاری اور مورخ گبن کا یہ کہنا کہ ’’اسلوب کردار یا شخصیت کا عکس ہے‘‘(۸) ، یا امریکی انشا پرداز اور شاعر ایمرسن کا یہ خیال کہ ’’انسان کا اسلوب اس کے ذہن کی پرواز  ہے‘‘(۹)  اسلوبیات کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ (۱۰)

(۳)     اسلوبیاتی تنقید سے متعلق تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ اس میں توضیحی (Descriptive)  انداز اختیار کیا جاتا ہے، نہ کہ تشریحی (Interpretative) ۔ ادبی متن کی تشریح میں نقاد کو معنی کی گرہیں کھولنے کے لیے بہت کچھ اپنی طرف سے جوڑنا اور گھٹانا پڑتا ہے۔ اور تخیل (بلکہ رنگِ تخیل)  سے کام لینا پڑتا ہے۔ توضیحی میں اپنی طرف سے کچھ شامل نہیں کیا جاتا۔ کسی مصنف کی زبان یا اس کا اسلوب جیسا ہے ویسا ہی بیان کر دیا جاتا ہے۔ اس کی زبان کے معائب و محاسن بیان نہیں کیے جاتے، اور نہ ہی اس کے اسلوب کو اچھا یا بُرا بتایا جاتا ہے۔ مطالعۂ زبان کا یہ توضیحی (Descriptive / Synchronic)  انداز سلسیور کی دین ہے جس کے تحت ایک ماہر لسانیات کا بنیادی کام یہ دیکھنا ہے کہ (ایک وقت میں)  لوگ کیسے بولتے ہیں (How people speak) ، نہ کہ یہ بتانا کہ لوگوں کو کیسے بولنا چاہئے (How people ought to speak) ۔ تبھی اس مطالعے کو توضیحی مطالعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ادبی زبان کے مطالعے اور تجزیے کے سلسلے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ اسلوبیات کا کام محض یہ دیکھتا ہے کہ کوئی مصنف زبان کا استعمال کس طرح کرتا ہے، نہ کہ اسے (مصنف کو)  زبان کا استعمال کس طرح کرنا چاہیئے۔

ادبی زبان یا اسلوب کا توضیحی مطالعہ لسانیات کی مختلف سطحوں پر کیا جاتا ہے، مثلاً صوتی(Phonological)  لفظیاتی (Morphological) ، نحوی (Syntactic) ، اور معنیاتی (Semantic)  سطح۔ ان کے علاوہ ایک قواعدی (Grammatical)  سطح بھی ہے جو لفظیاتی اور نحوی سطحوں پر ادبی متن کی توضیحی اور اس کے تجزیے کا کام انجام دیا جا سکتا ہے، اور ان تمام سطحوں پر اس کے لسانی امتیازات کا پتا لگایا جا سکتا ہے اور اس کے اسلوبی خصائص کو نشان زد کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام سطحیں توضیحی لسانیات (Descriptive Linguistics)  کی سطحیں ہیں جسے یک زمانی لسانیات (Synchronic Linguistics)  بھی کہتے ہیں۔

فرڈی نینڈ ڈی سلسیور کے انقلاب آفرین افکار سے بیسویں صدی کے عشرۂ دوم میں لسانیات کی اس شاخ کا ارتقا عمل میں آیا، ورنہ اس سے قبل زبانوں کے تاریخی و تقابلی مطالعے کا رجحان عام تھا۔ سلسیور پہلا اسکالر ہے جس نے تاریخی (Diachronic)  اور توضیحی (Synchronic)  لسانیات میں فرق کیا اور بتایا کہ زبانوں کا صرف تاریخی مطالعہ ہی کافی نہیں، بلکہ توضیحی اعتبار سے بھی زبانوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ سلسیور کی اس نئی فکر سے زبانوں کے توضیحی مطالعے کی بنیاد پڑتی ہے اور بعد کے دور میں اس کی مختلف شاخیں قائم ہوتی ہیں۔

آج دنیا کی مختلف زبانوں (بشمولِ اردو )  میں اسلوبیاتی مطالعے اور تجزئے کا جتنا بھی کام ہوا ہے وہ زیادہ تر توضیحی نقطۂ نظر سے ہی انجام پذیر ہوا ہے اور اسے توضیحی اسلوبیات (Descriptive Stylistics) کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ تاہم اسلوب کا مطالعہ تاریخی اعتبار سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسلوب کے تاریخی مطالعے کے ضمن میں یہ دیکھنا ہو گا کہ اسلوب میں عہد بہ عہد کس نوع کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ، نیز پہلے اس کی صورت کیا تھی اور اب کیا ہو گئی۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ کسی ایک مصنف کے اسلوب میں مختلف النوع تبدیلیاں واقع ہو سکتی ہیں۔ ایک مصنف تاریخ کے مختلف ادوار میں یا اپنی پور تصنیفی زندگی میں کئی اسالیب اختیار کر سکتا ہے۔ اس مصنف کے اسلوب کی ارتقائی حالت، نیز اس میں وقوع پذیر ہونے والی عہد بہ عہد تبدیلیوں کا مطالعہ اور جائزہ تاریخی اسلوبیات (Historical Stylistics) کا موضوع قرار پا سکتا ہے۔

۴۔        اسلوبیاتی مطالعے سے متعلق چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ یہ متن پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لئے اسے متن آشنا (Text oriented)  یا متن مرکزی (Text Centred)  مطالعہ بھی کہتے ہیں۔ اس مطالعے میں ادبی متن کو بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور اس خود مکتفی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور ماورائے متن جتنی بھی چیزیں ہیں، انہیں خارج از مطالعہ قرار دیا جاتا ہے اور صرف متن کے حوالے سے ہی گفتگو کی جاتی ہے۔ مصنف کے شخصی یا سوانحی کوائف ، نیز اس کے دکھ درد ، غم اور عشق یا اس کے عہد یا اس عہد کے سماجی حالات اور تہذیبی پس منظر کو ادبی متن کے مطالعے اور تجزیے کے دوران زیر بحث نہیں لایا جاتا۔ پروفیسر مسعود حسین خاں اپنے مضمون ’’مطالعۂ شعر : صوتیاتی نقطۂ نظر سے ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’لسانیاتی مطالعہ شعر میں نہ تو فن کار کا ماحول اہم ہوتا ہے اور نہ خود اس کی ذات۔ اہمیت در اصل ہوتی ہے اس فن پارے کی جس کی راہ سے ہم اس کے خالق کی ذات اور ماحول دونوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ‘‘ (۱۱)

۵۔        اسلوبیاتی مطالعۂ ادب کے سلسلے میں پانچویں اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ یہ مطالعہ معروضی اور سائنٹفک ہوتا ہے۔ اس میں سائنسی انداز اور معروضی طرزِ استدلال اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ مطالعہ مشاہد اتی ہوتا ہے، تخیلی یا ذوقی نہیں۔ اس میں قطعیت (Precision) سے کام لیا جاتا ہے۔ اس مطالعے میں داخلیت ، تاثر یا ذاتی پسند نا پسند کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ نتائج تجزئے کی بنیاد پر اخذ کئے جاتے ہیں۔ بعض اسلوبیاتی تجزئے اعداد و شمار پر بھی مبنی ہوتے ہیں جن کی معروضیت اور قطعیت صد فی صد ہوتی ہے۔

۶۔        اسلوبیات یا اسلوبیاتی نظریۂ تنقید کے سلسلے میں چھٹی اور آخری بنیادی بات یہ ہے کہ اس میں اقداری فیصلوں (Value Judgments)  سے گریز کیا جاتا ہے ، کیونکہ تعینِ قدر اس کا مقصد نہیں۔ اس کی علی الرغم روایتی یا ادبی تنقید میں تعینِ قدر کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب تنقید کا دائرۂ علم کا فی وسیع ہو چکا ہے۔ او ریہ روز بروز نت نئے علوم کی روشنی میں نئے نئے نظریات اور جہات و ابعاد سے روشناس ہوتی جا رہی ہے۔ لہٰذا تنقید کی اب وہ تعریف نہیں رہی جو قدماء نے بیان کی تھی۔ بعض ادبی اصناف کی بھی اب وہ تعریف نہیں رہی جو پہلے بیان کی جاتی تھی۔ مثلاً غزل کو پہلے ’’حکایت با یار گفتن ‘‘ یا ’’عورتوں سے باتیں کرنا‘‘ کہا جاتا تھا ، لیکن اب غزل کے موضوعات اس حد تک بدل گئے ہیں اور ان میں اتنا تنوع پیدا ہو گیا ہے کہ ’غزل ‘ کی یہ تعریف اب انتہائی مضحکہ خیز معلومات ہوتی ہے۔ اسی طرح ’مرثیہ ‘ جو پہلے خالص مذہبی چیز سمجھی جاتی تھی، اب اس کا دائرہ اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ حالی نے غالب کی وفات پر، اقبال نے اپنی والدہ کے انتقال پر اور پنڈت آنند نرائن ملا نے گاندھی جی کے سانحۂ قتل پر جو حُزنیہ نظمیں لکھیں انہیں بھی ’مرثیہ‘ کے ذیل میں رکھا جاتا ہے۔

اسلوبیاتی تنقید ایک سائنسی نظریۂ تنقید ہے جو مزاحاً توضیحی ، معروضی اور غیر اقداری ہے ، لہٰذا اس میں تعینِ قدر کا کوئی جواز نہیں۔ بقولِ گوپی چند نارنگ ’’ادب کی تحسین کاری اور تعینِ قدر کا کام ادبی تنقید اور جمالیات کا کام ہے، اسلوبیات کا نہیں ‘‘ (۱۲)

(۳)

اسلوبیاتی تنقید روایتی یا ادبی تنقید سے کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ اسلوبیاتی تنقید بحیثیتِ مجموعی لسانیات پر مبنی ہے۔ یہ اپنے حربے ، نظری زاوئے اور طریقۂ کار لسانیات سے لیتی ہے جب کہ ادبی تنقید کا لسانیات سے کوئی سروکار نہیں، یہ بیان و بلاغت ، صنائع و بدائع اور قدیم اندازِ نقد سے اپنا رشتہ استوار کرتی ہے۔ ادبی تنقید داخلی اور تاثراتی رنگ لئے ہوئے ہوتی ہے، جبکہ اسلوبیاتی تنقید میں سائنسی اور معروضی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ ادبی تنقید میں مصنف کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے اور مصنف اور اس کے سوانحی کوائف ، نیز اس کے عہد اور اس کے عہد سماجی و تہذیبی سیاق و سباق میں ادب کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ جب کہ اسلوبیاتی تنقید میں یہ چیزیں خارجی اور ماورائے متن (Extratextual) تصور کی جاتی ہیں اور صرف متن کو ہی خود مکتفی مان کر اس کا مطالعہ و تجزیہ کیا جاتا ہے اسلوبیاتی تنقید میں مصنف کی زبان اور اسلوب نیز اس کے لسانی روئے کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ زبان کے تخلیقی اور جمالیاتی استعمال کے امکانات تلاش کئے جاتے ہیں اور متن کے اسلوبی خصائص (Style-features) کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ اس کے علی الرغم ادبی تنقید میں زبان اور اسلوب کا ذکر ضروری خیال نہیں کیا جاتا، اور اگر کبھی ان چیزوں کا ذکر آتا بھی ہے تو محض سرسری طور پر اور وہ بھی تاثراتی انداز میں۔

ادبی تنقید میں ادبی فن پارے کے معائب و محاسن بیان کئے جاتے ہیں اور انھیں کے مطالعے کی بنیاد پر قدروں کا تعین کیا جاتا ہے۔ ادبی تنقید میں تعینِ قدر پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید میں تعینِ قدر کی کوئی اہمیت نہیں، کیوں کہ یہ سائنسی تنقید ہے اور اس کا انداز توضیحی ہے اور اسی رشتے کی وجہ سے معروضی بھی۔ تعینِ قدر یا اقداری فیصلوں کا براہِ راست تعلق تاثرات سے ہے جس کا انداز داخلی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اقداری فیصلے ذاتی پسند و ناپسند کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہماری ادبی تنقید اس سے بھری پڑی ہے۔ اسلوبیاتی تنقید میں مُبالغے اور افراط و تفریط سے بھی بچا جاتا ہے اور تشریح و تبصرہ کرنے کے بجائے توضیحی انداز سے کام لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں خوبصورت فقرے اور جملے ، حسین و دلکش تراکیب ، نیز بلند و بانگ اور متحیر کن دعوے اور مبالغہ آمیز تعمیمات جنھیں ہم ادبی تنقید کا طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں، ان سے اسلوبیاتی تنقید کو سوں دور رہتی ہے۔

ان تمام تخالفات (Contrasts) کے با وصف اسلوبیاتی تنقید کا ادبی سے اس لئے گہرا رشتہ ہے کہ یہ ادب کی افہام و تفہیم میں ادبی تنقید کی خاطر خواہ مدد اور رہنمائی کرتی ہے، کیونکہ اگرچہ یہ دونوں دبستانِ تنقید مختلف زاویہ ہائے نظر رکھتے ہیں، لیکن دونوں ادب کو Approach) کرتے ہیں۔ اسلوبیات کا تعلق براہِ راست زبان سے ہے جو ادب کا ذریعہ اظہار ہے اور جس کے بغیر ادب کی تخلیق یا تجسیم ممکن نہیں۔ اسلوبیاتی تنقید سے متعلق یہ وضاحت بھی ضروری کہ یہ مکمل تنقید نہیں۔ مکمل تو کوئی بھے تنقید نہیں کیونکہ کہ ہر تنقید ادب کا کسی نہ کسی مخصوص زاوئے سے ہی مطالعہ کرتی ہے خواہ وہ رومانی تنقید ہویا جمالیاتی، نفسیاتی تنقید ہو یا فلسفیانہ۔ ان سب کا اپنا اپنا زاویۂ نظر ہے ان میں سے کوئی بھی تنقید ادب کے ہمہ جہتی اور مکمل مطالعے کا دعوا نہیں کر سکتی۔ یہی بات اسلوبیاتی تنقید کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ادب کی لسانیاتی اور اسلوبیاتی تنقید کے بارے میں ڈونلڈ سی۔ فریمن کی یہ رائے نہایت درست کہ یہ "Contributory Discipline”ہے ، نہ کہ "Controlling”یعنی یہ ادب کے مطالعے اور تنقید میں معاونت کر سکتی ہے ، اس کا حتمی طور پر احاطہ نہیں کر سکتی۔ ( ۱۳)

حواشی و حوالے

۱۔         گوپی چند نارنگ، ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات ‘‘ مشمولہ ادبی تنقید اور اسلوبیات (گوپی چند نارنگ) ، دہلی : ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، ۱۹۸۹ء۔ ص ۱۳۔

۲۔        روجر فاؤ لر (Roger Fowler) ، ۱۹۸۶ء، Linguistic Criticism (آکسفرڈ : نیویارک آکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔

٣۔        نائجل فیب (Nigel Fabb) اور دیگر (مرتبن) ، ۱۹۸۷ء، The Linguistics of Writing : Arguments between language and Literature (نیویارک: میتھیون )

۴۔        ایم۔ اے۔ کے۔ ہیلیڈے (M.A.K. Halliday) ‘ ۱۹۶۴ء،”The Linguistic Style of literary Texts”مشمولہ Proceedings of the Ninth International Congress of Linguistic(دی ہیگ : موتاں اینڈ کمپنی ) ، ص ١٠٣تا ٧٠٣۔

۵۔        مزید تفصیلات کے لئے دیکھے رچرڈ ڈی۔ کیورٹن (Richard D. Cureton) کا مضمون "Literary Stylistics”مشمولہ International Eneyclapedlia of Linguistics(مرتبِ اعلیٰ ولیم برائٹ ، نیویارک : آکسفرڈ یونیورسٹی ، ۱۹۹۲ء جلد چہارم ، ص ۸۱ و ۸۲۔

۶۔        گوپی چند نارنگ ، محولہ مضمون ، ص ۱۴۔ ۱۵۔

۷۔        (Buffon)  "Style is the man himself”

۸۔        بحوالۂ عابد علی عابد ، اسلوب ( علی گڑھ : ایجو کیشنل بک ہاؤس، ۱۹۸۶ء)  ، ص ۶۲

۹۔         (Emerson)  "A man’s style is his mind’s voice.”

۱۰۔       ’اسلوب‘ کی مزید تعریفوں کے لئے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب زبان ، اسلوب اور اسلوبیات (علی گڑھ : ادارۂ زبان و اسلوب ، ۱۹۸۳ء، ص ۱۵۷تا ۱۸۸۔

۱۱۔        مسعود حسین خاں ، ’’مطالعۂ شعر : صوتیاتی نقطۂ نظر سے‘‘ مشمولہ شعر و زبان (حسین خاں)  ، حیدرآباد:شعبۂ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی ، ۱۹۶۶ء۔ ص ۱۸۔

۱۲۔       گوپی چند نارنگ ، محولہ مضمون ، ص۲۱

۱۳۔       ڈونلڈ سی۔ فریمن (Donald C. Freeman) ، ۱۹۷۰ء، "Linguistic Approaches to Literature”مشمولہ Linguistics and Literary Style (مرتبہ ڈونلڈ سی۔ فریمن )  ، نیویارک: ہولٹ ، رائن ہا رٹ اینڈ و لنسٹن۔ ص ۳۔