FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اردو ادب کی رومانوی تحریک

ایک مطالعہ

غلام شبیر رانا

ابتدائیہ

اس عالم آب و گل کے نظام کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح و جاتی ہے کہ قدرت کے کارخانے میں سکون عنقا ہے۔ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت ہے جو اس حقیقت کی غماز ہے کہ ثبات تو محض تغیر کو نصیب ہے۔ ادبیات عالم بھی اسی تغیر کی زد میں چلے آ رہے ہیں۔ تخلیق کار اور اس کے لاشعوری تخلیقی محرکات پیہم جواں اور دما دم رواں رہتے ہیں۔ تخلیقی عمل جمود کی مسموم فضا کی تاب نہیں لا سکتا۔ ہر لمحہ تغیر پذیر کائنات اور اس کا ماحول فکر انسانی اور تخلیق کار اور اس کے تخلیقی محرکات پر جو گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ان کے اعجاز سے فکر و نظر میں واضح تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ انگلستان میں جب ملکہ وکٹوریہ (24مئی 1819تا22جنوری 1901)کی حکومت تھی تو اس کے تریسٹھ سالہ عہد اقتدار (20جون 1837تا22جنوری 1901)میں عالمی افق پر جو برق رفتار تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں ان کے اثرات ہر شعبہ زندگی پر مرتب ہوئے۔ خاص طور پر صنعت و حرفت، تہذیب و ثقافت، سائنس و ٹیکنالوجی، معیشت و تجارت اور دفاع کے شعبوں میں حالات کی کایا پلٹ گئی۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے دیرینہ اقدار و روایات کو یکسر بدل دیا۔ رفتہ رفتہ حالت یہ ہوئی کہ زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کا تصور خیال و خواب بن گیا۔ معاشرتی زندگی سے دیانت، خلوص، بے لوث محبت، دردمندی، سادگی اور انسانی ہمدردی کو بارہ پتھر کر دیا گیا۔ ہوس نے نوع انساں کو ہولناک انتشار اور پرا گندگی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کے عنقا ہونے کے بعد معاشرتی زندگی میں جعل سازی، تصنع، بد دیانتی، خود غرضی اور ہوس زر کو سکہ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اس اعصاب شکن اور مسموم صورت حال نے گلشن ادب کو بھی متاثر کیا۔ جبر کے ماحول میں تو طیور بھی اپنے آشیانوں میں دم توڑ دیتے ہیں۔ ادبی تخلیق پر بھی اس کیفیت کے منفی اثرات مرتب ہونے لگے۔ تخلیق ادب کو متعدد ناروا پابندیوں کا سامنا تھا۔ تخلیقی سطح پر جب جذباتی انخلا اور ما فی الضمیر کے اظہار کی راہیں مسدود کر جائیں تو زیرک اور جری تخلیق کار تزکیہ نفس کی نئی صورتیں تلاش کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتے۔ روشنیوں کے سفر میں سد راہ بننے والے حرف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔ تیشہ حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے والے ہر عہد میں قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرتے چلے آئے ہیں۔ غالب نے کہا تھا :

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

رومانویت نے جبر کے ماحول میں بھی حریت فکر کا علم بلند رکھنے پر اصرار کیا۔ اس نے واضح کر دیا کہ لب اظہار پر تالے لگانے والے تاریخ کے مسلسل عمل اور فطرت کی تعزیروں سے غافل ہیں۔ یہ نوشتہ تقدیر ہے کہ ظلم و جبر کا پرچم بالآخر سر نگوں ہو جاتا ہے۔ ایک مستعد تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اپنے اشہب قلم کی جو لانیوں سے ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اور اس کی قوت فکر کی جولانیاں اور جذبات و احساسات کی تند و تیز موجیں فسطائی جبر کی مسلط کردہ پابندیوں کو خس و خاشاک کے ما نند بہا لے جاتی ہیں۔ ادب میں رومانوی تحریک کے سوتے بھی اسی نوعیت کے ماحول سے پھوٹے۔ رومانویت کے علم برداروں نے ہر قسم کے جبر اور نا روا پا بندیوں کے خلاف کھل کر لکھا۔ رومانویت نے عالمی ادبیات پر دوررس اثرات مرتب کیے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ گزشتہ صدی کی روشن خیالی، خشک اور بیزار کن سائنسی انداز فکر، یکسانیت کی شکار اکتا دینے والی مقصدیت اور ہوس کے خلاف رومانویت نے صدائے احتجاج بلند کی۔ سائنسی انداز فکر نے لطیف جذبات، قلبی احساسات اور بے لوث محبت کو بالعموم نظر انداز کر دیا تھا۔ رومانویت نے انھی دل کش اور حسین جذبوں کے احیا پر پوری توجہ مر کوز کر دی۔ ان کا اصرار تھا کہ لوک ادب، لوک داستانوں اور ما بعد الطبیعاتی عناصر در اصل ادب کی جمالیات کی تفہیم میں چراغ راہ ثابت ہوتے ہیں۔ رومانویت نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ تخلیق فن کے لمحوں میں تخلیق کار کے جذبات و احساسات ہی اس کا زاد راہ ہوتے ہیں۔ انھی کو اساس بنا کر وہ اپنی تخلیقی فعالیت کے لیے لائحہ عمل کا تعین کرتا ہے۔

برطانیہ میں جن شعرا نے حسن کے بارے میں لطیف جذبات اور قلبی احساسات کو اپنے اسلوب میں جگہ دی ان میں ورڈس ورتھ، کالرج، ولیم بلیک، لارڈ بائرن، شیلے اور کیٹس کے نام قابل ذکر ہیں۔ فرانس میں وکٹر ہیوگو، امریکہ میں ایڈگر ایلن پو، واشنگٹن ارونگ اور روس میں الیگزنڈر پشکن کو رومانویت کے بنیاد گزار کی حیثیت سے اہم مقام حاصل ہے۔ ان تخلیق کاروں نے حرف صداقت اور قلبی سکون کے پر لطف احساس کو باہم مربوط کر دیا۔ رومانویت کے بارے میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ رومانویت کا مطمح نظر یہ ہے کہ فکر و خیال کی آزادی اور تخلیقی عمل کی روح کو ایسی جہت عطا کی جائے کہ تخلیقی عمل فطرت کے مقاصد کی ترجمانی اور نگہبانی کا فریضہ انجام دے سکے۔ اس کے علاوہ رومانویت نے تخیل کی شادابی پر توجہ دی۔ عقل کی بالادستی کے بجائے انھوں نے تخیل کی جو لانیوں پر توجہ دی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے مافوق الفطرت عناصر کو بھی مرکز نگاہ بنا لیا تھا۔ عقل عیار ہے جو کہ مصلحت کے تحت متعد د سوانگ رچا لیتی ہے، اس کے بر عکس عشق و محبت اور رومان کی اپنی ایک دلکش فضا ہے جس میں فرد کو سکون قلب کی دولت ملتی ہے۔ رومانویت نے تکنیکی خلوص کو رو بہ عمل لانے کی مقدور بھر سعی کی۔ اس عہد کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو جس پر یشانی ، درماندگی اور ابتری کا سامنا تھا اسے انھوں نے پوری قوت کے ساتھ پیرایہ اظہار عطا کیا۔ رومانویت نے ہئیت اور تکنیک کی بالا ستی کے مروج اور روایتی تصور کو لائق اعتنا نہ سمجھا۔ وہ دھیمے سروں میں عرض نوائے حیات کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ سینے پر درد کی سل رکھ کر اس قدر کیف پرور انداز میں بات کرتے ہیں کہ ان کی گفتگو دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔ رومانویت نے اس خیال کو تقویت دی کہ جس طرح بصارت کو روشنی کی ضیا پاشیوں کی احتیاج ہو تی ہے اسی طرح عقل بھی حسن کی جلوہ آرائیوں کا مرہون منت ہے۔ رومانیت کو کلاسیکیت کی ضد سمجھنا درست نہیں بل کہ حقیقت یہ ہے کہ رومانیت جس کا امتیازی وصف داخلیت ہے اپنی نو عیت کے اعتبار سے حقیقت پسندی کی ضد ہے۔ رومانیت کے سوتے مسحور کن حسن کی دلفریب کیفیات ، تخیر، ندرت اور محیر العقول تصورات کے شیر و شکر ہونے سے پھوٹتے ہیں۔ زندگی کے تلخ حقائق اور واقعیت سے گریزکی جو کیفیت ان کے اسلوب میں جلو ہ گر ہے وہ قاری کو وادی ء خیال کو مستانہ وار طے کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے رومانیت کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’رومانیت کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسے اسلوب اظہار یا انداز احساس کا اظہار کرتی ہے جس میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو، رسم و روایت کی تقلید سے آزادی خیالات کوسیلاب کی طرح جدھر ان کا رخ ہو، آزادی سے بہنے دیا جائے۔ ‘‘(1)

زندگی کی برق رفتاریوں نے اقدار و روایات پر بھی دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہر انسان محسوس کرتا ہے کہ رخش عمر مسلسل رو میں ہے۔ انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کا پاؤں رکاب میں ہے۔ یہ کائنات ابھی نا تمام ہے اور دما دم آنے والی صدائے کن فیکون یہ ثابت کرتی ہے کہ نظام کائنات پیہم تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہر قسم کی شدت خواہ اس کا تعلق تخیل کی جولانی سے ہو یا احساس کی فراوانی سے اس کے پس پردہ رومانویت پر مبنی سوچ کار فرما ہوتی ہے۔ یہ سوچ تخلیقی عمل کو اس طرح مہمیز کرتی ہے کہ اس کے معجز نما اثر سے فکر و نظر کے نئے دریچے و ا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ارونگ ببٹ (Irving Babbit) نے رومانویت پر مبنی سوچ کے اہم پہلو کے بارے میں لکھا ہے :

’’رومانوی ذہن اپنی مثالی دنیا کے تصور میں سرشار گرد و پیش کی ٹھوس حقیقتوں سے قطع نظر کرنا چاہتا ہے ‘‘(2)

روسو (Rousseau)کو حسن ارواح کے ہر فعل میں نیکی کی جھلک دکھائی دی۔ اپنے رومانی تخیل میں روسو نے فرد کی انا اور انفرادیت کو اس قدر اہمیت دی کہ اس کے خیالات نہ صرف روایت سے کلی طور پر انحراف کرتے ہیں بل کہ بعض اوقات تو یہ خیالات روایات سے بغاوت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ روح جمال کے تمام افعال کو مبنی بر حقیقت سمجھتا ہے اور ان کی تمام کار گزاریوں کو بر محل قرار دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے ابلیس کو بھی ایک فعال رومانی کردار کے روپ میں پیش کیا۔ رومانویت کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے نہاں خانہ دل سے باہر موجود افراد کی متلاطم دنیا میں کیا نشیب و فراز سامنے آ رہے ہیں۔ وہ اس سے قطعی طور پر بے تعلق رہنے پر اصرار کرتے ہیں۔ اپنی انا کے علاوہ انھیں کسی دوسری چیز سے کوئی دلچسپی نہیں ہو تی۔ کلاسیکی اور رومانوی سوچ کے مابین جو حد فاصل ہے اس کے بارے میں گریرسن نے صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’ تاریخ میں ان کی مثال قلب انسانی کے گھٹنے اور بڑھنے کی حرکت سے دی جا سکتی ہے۔ کلاسیکی ادب کی تحریک نظم و ضبط، مختلف اشیا کے امتزاج فکر جذبات اور عمل کو ایک ترتیب کی طرف لے جاتی ہے لیکن رومانوی تحریک کا دائرہ وسیع ہے اور یہ تحریک اہل قلم کو کلاسیکی ادب کے مقررہ اصول کے خلاف آزادہ روی اور شدت کی طرف لے جاتی ہے۔ (3)

رومانویت نے رنگ، خوشبو، حسن و خوبی اور صوت و آہنگ کے تمام استعارے اپنے اسلوب کی اساس بنائے۔ وہ فرد کی روح کو نہ صرف حیات مستعا ر بل کہ حیات بعد الممات کی پیش بینی کی صلاحیت سے متمتع کرنے کے متمنی تھے۔ رومانویت کے علم بردار ادیب سر حد ادراک سے بھی آگے جا کر حسن کی اقلیم کو اپنی جولاں گاہ قرار دیتے ہیں۔ حسن کے نا قابل فراموش مناظر ، لائق صد رشک و تحسین کارہائے نمایاں اور ابد آشنا وجدانی جلوے اس وسیع و عریض کائنات کو نیرنگی ء تقدیر جہاں کی صورت میں سامنے لاتے ہیں اور فرد یہ سوچتا ہے کہ یہ لمحے اور یہ ایام زبان حال سے جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ کشف کی منزل کی جانب لے جانے کا ایک طریقہ ہی تو ہے۔ رومانویت نے تخلیق شعر وا دب کو مطلقات کی اقلیم کو زیر و زبر کرنے کا ایک طریقہ قرار دیا۔ رومانویت نے قوت، جوش، جذبے، تجسس، بے چینی، بے قراری، اضطراب، روحانیت، دشوار پسندی، آزادی کا ارتقا، پیہم تجربات و مشاہدات، جہد مسلسل اور اشتعال سب کو ایک نئے اور منفرد انداز میں دیکھا۔ زندگی کا کوئی پہلو ایسانہیں جس میں رومانویت کو حسن کی جلوہ آرائی دکھائی نہ دے۔ یہاں تک کہ کائنات کے ہیبت ناک مناظر، موت کے اذیت ناک لمحات، دل دہلا دینے والے پر خطر سانحات، ویرانوں ، بیابانوں اورقبرستانوں کا سکوت مرگ اور جاں گسل تنہائی کی جان لیوا کیفیات میں بھی انھیں حسن کی کارفرمائی محسوس ہوتی ہے۔ شیلے نے یونانی دیو مالا کی حسینہ میڈوسا کے بارے میں لکھا ہے :

یہ دہشت کی خوب صور ت دیوی ہے

کیونکہ سانپوں سے پیتل کی چمک پیدا ہوتی ہے

شاید یہ کسی حل نہ ہو نے والی غلطی کا نتیجہ ہے

جس سے فضا میں ایک ہیجانی کیفیت برپا ہے

یہ تصویر ایک لا زوال چمکتا ہوا آئینہ ہے

جس میں سر ا سر حسن اور دہشت نظر آ تی ہے

ایک عورت کا چہرہ اور بالوں میں سانپ

یہ گویا ان بھیگی ہوئی پہاڑیوں سے ابد کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں۔ (4)

فرانس کے ممتاز شاعر چارلس بودلئیر (Charles Baudelaire)جس کا عرصہ حیات 9۔ اپریل 1821تا 31۔ اگست 1867ہے، نے میڈوسا کے سر سے حسن کی تلاش کی ہے۔ اس کا یہ انداز فکر رومانویت کی خوشہ چینی کا مظہر ہے۔ اس کی نظم ’’حسن کی جناب ‘‘ سے ایک اقتباس پیش ہے :

اے حسن کی دیوی !تو آسمان سے اترتی ہے یا جہنم سے آتی ہے

اس بات کو سمجھنا بالکل بے کار ہے

اے حسن کی دیوی !تو ایک عجیب الخلقت ہستی ہے، دہشت ناک مگر سادہ

تیری چشم (فسوں کار )تیرے تبسم (جانفزا)اور تیرے قدم نے

میرے لیے ابدیت کا دروازہ کھول دیا ہے، جس کو میں پسند کرتا ہوں اور جس سے میں واقف تھا۔ (5)

روسو کے اثرات دیدیرو(Denis Diderot) کے افکار میں موجود ہیں۔ وہ روسو کی اس فطرت پسندی پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ اس دنیا کی ہر چیز اس لیے پسندیدہ اور حسین ہے کہ اسے کائنات کے خالق نے اپنے دست قدرت سے تخلیق کیا ہے۔ اس کے بر عکس کاؤنٹ ساد(Count Sade) ایک مجسم ابلیس تھا، اسے ہر چیز میں منفی پہلو دکھائی دیتا تھا۔ اس ابلیس نژاد شخص کو ہر چیز شیطان کی تخلیق دکھائی دیتی تھی۔ سادیت پسندی (sadism) اسی سے منسوب ہے۔ لذت ایذا حاصل کرنا ہمیشہ اس کا وتیرہ رہا۔ اس کے ہم عصر گان کورٹ(Gon Court)نے اس کے مکر کا پردہ فاش کیا اور اسے ایک ایسا جنسی جنونی قرار دیا جس کی نگاہ خیر پر نہیں بل کہ شر پر مرکوز رہی۔ اس کے قابل مذمت اور لائق نفرت شہوانی جذبے کو اس کے خبط پر محمول کیا گیا۔ اسی عہد کے ایک ممتاز انگریزی ناول نگار سموئیل رچرڈ سن (Samuel Richardson ) جس کا عرصہ حیات (19-8-1689تا04-7-1761)ہے نے اپنے اسلوب میں رومانویت کو پروان چڑھایا۔ اس کے ناول پامیلا (1740)اور کلیریسا(Clarissa)کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ فرانس میں بھی وکٹر ہیوگو (Victor Marie Hugo 26-2-1802 To-27-5-1885)، نامور ناول نگار اور مورخ الیگزنڈر ڈیوما(Alexander Dumas 24-7-1802 To-5-12-1870)اور الفریڈ ڈی مسے (Alfred de Musset 11-12-1807 To 02-5-1857)کے اسلوب نگارش سے رومانوی تحریک کو تقویت ملی۔

مغرب کی رومانوی تحریک نے تخلیق کار اور قاری دونوں کو فرسودہ روایتی انداز ترک کر کے نئے انداز فکر کی جانب مائل کیا۔ اس طرح فہم و ادراک کو نئے آفاق تک رسائی کی راہ دکھائی۔ اس طرح دلوں کو ایک ولولہ تازہ نصیب ہو نے کی توقع تھی۔ اس تخلیقی عمل میں انھیں لا شعور کی جانب مراجعت کی راہ دکھائی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ رومانویت نے لسانیات، ہیئت اور تخیل کے پرانے معائر اور نظریات کو بالعموم لائق اعتنا نہیں سمجھا بل کہ اس کی جگہ فکر و خیال کی ایک نئی دنیا کا تصور پیش کیا گیا۔ اس دنیا میں تخلیقی سطح پر جو تنوع، رعنائی، کشش اور بو قلمونی پیدا کرنے کی سعی کی گئی اس کے اعجاز سے مفاہیم اور معانی کا ایک جہان تازہ قلب و نظر کو مسخر کرنے پر قادر تھا۔ رومانویت نے موضوعات کو ندرت، وسعت اور تنوع سے آشنا کیا۔ اس طرح تخیل کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی امید پیدا ہوئی۔ تخلیق کار کو اپنی پسند کے مطابق تخلیقی اظہار کا طریقہ اپنانے کا موقع ملا اور اس طرح اسلوب پر عائد قدغنوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تخلیق فن کے لمحوں میں حسن کی جلوہ آرائی کے دھنک رنگ مناظر سے مسحور کن سماں پیدا ہو گیا۔

ادب کو کلاسیکی اور رومانی اعتبار سے تقسیم پر سب سے پہلے گوئٹے نے توجہ دی۔ یورپ کی ادبی تاریخ میں یہ تحریک تین ادوار میں سے گزری۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :

پہلا دور :قدیم یونان میں یوری پی ڈیز(Euripedes)کے ڈراموں سے اس کا آغاز ہوا۔ اس دور کا اختتام افلاطون کے مکالموں پر ہوا۔

دوسرا دور :اس دور میں بارہویں اور تیرہویں صدی کے افسانے شامل ہیں۔

تیسرا دور :اٹھارہویں صدی کے نصف دوم سے انیسویں صدی کے نصف اول پر مشتمل ہے۔

روسو نے معاشرے کے جان لیوا صدمات، الم ناک حالات اور جبر کے اذیت ناک ماحول کے خلاف کھل کر لکھا۔ اس کی تحریروں میں سماجی زندگی کی بے اعتدالیوں ، معاشرتی تضادات، شقاو ت آمیز نا انصافیوں اور استحصال کے خلاف جو دبنگ لہجہ اپنایا گیا اس کے اعجاز سے فرانس میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہوئی ور اس طرح انقلاب فرانس کا رستہ ہموار ہو گیا۔ اس نے فرد کی آزادی کو درپیش خطرات اور جبر کے ماحول کے خلاف بھر پور احتجاج کیا۔ اسے اس بات کا شدید rveاللہ نے رومانن قلق تھا کہ قدرت کاملہ نے تو فرد کو آزاد حیثیت میں تخلیق کیا لیکن جبر کے ماحول میں اسے پا بہ زنجیر کر دیا گیا ہے۔

اردو ادب میں رومانوی تحریک کا آغاز بھی ایک رد عمل کی صورت میں ہوا۔ 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد سر سید احمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار نے سائنس، فلسفہ، مقصدیت، عقلیت پسندی، اصلاح اور نئے طرز احساس پر جس شدت کے ساتھ زور دیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے بیزار کن یکسانیت اور انجماد، ثقالت اور غیر معمولی سنجیدگی کو تقویت دی۔ اسلوب نگارش کا یہ ناصحانہ انداز عام قاری کے لیے اپنی یک رنگی کے باعث بوجھل صورت اختیار کر گیا۔ خشک اور غیر دلچسپ تخلیقات میں عام قاری کی دلچسپی بتدریج کم ہوتی جا رہی تھی۔ سرسید احمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار نے اس وقت ملی فلاح کے کاموں کا آغاز کیا جب استعماری قوتوں نے بر عظیم کے سماجی، معاشرتی، اقتصادی، سیاسی اور تہذیبی و ثقافتی شعبوں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا تھا۔ ان حالات میں سر سیداحمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار نے سائنسی انداز فکر کو اپناتے ہوئے تخلیق ادب میں مقصدیت، مادیت ، عقلیت، اجتماعیت، حقیقت نگاری اور اصلاح کو اپنا نصب العین قرار دیا۔ تخلیق ادب میں اس نوعیت کے انداز فکر کو بالعموم وقتی ضرورت کے تابع سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد جلد ہی قارئین ادب ایک تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے علی گڑھ تحریک کی مقصدیت کے رد عمل کے بارے میں لکھا ہے :

’’سر سید کی بے انتہا مقصدیت کے بعد اودھ پنچ اور اکبر الہ آبادی کا ظہور بالکل قدرتی اور نا گزیر تھا۔ یہاں تک کہ خود پیروان سر سید کے یہاں سے شرر کی تاریخی ناول نگاری اور علی گڑھ کی رومانیت بے ساختہ طور پر ابھر آئی۔ ‘‘(6)

اردو ادب میں رومانویت کا عرصہ 1900 سے 1935 تک کے عرصے پر محیط ہے۔ اگرچہ اس تحریک کا عرصہ بہت کم ہے اس کے باوجود اس نے تخلیق ادب، اجتماعی شعور و ادراک اور اسالیب شعر پر جو اثرات مرتب کیے وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اردو شاعری میں رومانی تحریک کے سلسلے میں محمد داؤد خان اختر شیرانی(4-5-1905تا 9-9-1948) کا نام بہت اہم ہے۔ اردو کے رومانوی شعرا کے تخیل کی جولانیوں کے چند نمونے ملاحظہ ہوں ۔

اختر شیرانی

محمد داؤد خان اختر شیرانی رومانوی تحریک کے بنیاد گزاروں میں شامل ہیں۔ وہ مولانا تاجور نجیب آبادی کے شاگرد تھے اور انھیں اردو کے شاعر رومان کی حیثیت سے بہت مقبولیت نصیب ہوئی۔ ان کی مشہور رومانی نظمیں ’’اے عشق کہیں لے چل ‘‘ ، ’’آج کی رات ‘‘’’او دیس سے آنے والے بتا ‘‘ ، ’’ اے عشق ہمیں برباد نہ کر ‘‘ان کے کمال فن کی دلیل ہیں۔ اختر شیرانی کی شاعری میں بیزار کن ماحول سے نجات کی تمنا، اخوت، امن و آشتی اور سکون قلب کی آرزو اور حسن فطرت کی جستجو کے مضامین کی فراوانی ہے۔ اختر شیرانی نے اپنے اشہب قلم کی جولانیاں اس انداز سے دکھائی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ایک الگ دنیا آباد کرنے کے آرزومند تو ہیں لیکن اس کے لیے وہ سخت کوشی کے بجائے محض تخیل کی شادابی پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ نظام کہنہ کو سخت نا پسند کرتے ہیں اور ان کی یہ دلی خواہش ہے کہ مسموم ماحول سے گلو خلاصی کی کوئی صورت پیدا ہو۔ ان کے اسلوب میں حالات کی تبدیلی کی تمنا تو موجود ہے مگر آلام روزگار کے مہیب طوفان میں وہ اپنی خیالی دنیا کی جستجو کرتے کرتے سرابوں میں بھٹک جاتے ہیں۔ ان کی زندگی بہاروں کی جستجو میں کٹ گئی اس کے بعد وہ یہ تمنا کرتے ہیں کہ ممکن ہے انھیں اس زندگی کے بعد سکون نصیب ہو جائے۔ اختر اورینوی نے اختر شیرانی کے اسلوب کے بارے میں لکھا ہے :

’’اختر اس دنیا سے ہجرت کر کے ایک دوسری دنیا میں ، پھلوں سے بسی ہوئی دنیا میں ، حسن و رعنائی کی دنیا میں ، شراب و شباب کی دنیا میں چلا جانا چاہتا ہے تا کہ اس کی روح کو سکون نصیب ہو۔ ‘‘(7)

اختر شیرانی نے اپنی رومانی سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے جس مہتاب نما، خواب نما، دلکش و حسین، مثالی اور خیالی دنیا کے خواب دیکھ کر اپنی زندگی کو پر سکون رکھنے کی سعی کی اس کے پس پردہ ان کی زندگی کے جان لیوا صدمات کی تکلیف دہ کیفیات کے اثرات کے پرتو صاف دکھائی دیتے ہیں۔ محبت میں ناکامی، نو جوان بیٹے (جاوید محمود )کی اچانک وفات، ایک معتمد ساتھی مرزا شجاع کی خود کشی اور کئی عزیزوں کی دائمی مفارقت کے بعد ان کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ گیا لیکن ان کا پورا وجود کر چیوں میں بٹ گیا۔ وہ اپنے آنسو حسن و رومان کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا کر رومانوی شاعری کے ذریعے تزکیہ نفس کی صورت تلاش کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں حسن و کیف کی بہار آفرینی، بے لوث محبت، ایثار اور اخوت کی فراوانی، انسانی ہمدردی اور خلوص کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ اختر شیرانی کی شاعری میں والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کی وہی کیفیت جلوہ گر ہے جو کیٹس کی شاعری کا اہم وصف ہے۔ قلبی احساسات اور بے ساختہ جذبات کا ایک سیل رواں ہے جو وقتی مسائل اور عارضی دشواریوں کو ریگ ساحل پر لکھی وقت کی تحریروں کے مانند بہا لے جاتا ہے۔

ہم میں کچھ جرات گویائی بھی ہو گی کہ نہیں

ہمت ناسیہ فرسائی بھی ہو گی کہ نہیں

شرم سے دور شکیبائی بھی ہو گی کہ نہیں

یوسف دل سے ’’زلیخائی ‘‘بھی ہو گی کہ نہیں

آج کی رات! اف میرے خدا آج کی رات

آج کی رات !اف میرے خدا آج کی رات

آج کی رات !اف میرے خدا آج کی رات

اختر شیرانی کی رومانوی شاعری میں تخیل کی جولانیاں ، لفظی مرقع نگاری، سراپا نگاری اور پیکر تراشی کا جو مسحور کن سماں ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اختر شیرانی کی رومان پسندی فکر و خیال کی ایسی شمعیں فروزاں کرتی ہے جو سفاک ظلمتوں میں دلوں کو ایک ولولہ تازہ عطا کرتی ہے۔ مہیب سناٹوں میں اختر شیرانی کی آواز بانگ درا ثابت ہوتی ہے۔ زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس اور منفرد اسلوب کے اعجاز سے وہ قاری کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ غیر مرئی اشیا کے بارے میں بھی ان کی لفظی مرقع نگاری قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اختر شیرانی کی شاعری میں رومانویت کی دلکش، پر کیف اور مسحور کن کیفیت قاری کے جذب دروں اور فکر واحساس پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ انسانی زندگی کے جملہ نشیب و فراز اس شاعری کا موضوع بن گئے ہیں۔ حسن و رومان کی یہ دل آویز مر قع نگاری زندگی کے حقیقی حسن، رعنائی اور معنویت کو پوری شدت اور دل کشی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے قاری چشم تصور سے حسن و رومان کی جولاں گاہ میں عشاق کو مستانہ وار سر گرم عمل دیکھ سکتے ہیں۔ اختر شیرنی کی شاعری میں ترنم اور موسیقیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اختر شیرانی نے فرانس کے ممتاز رومانی ادیبوں کی تخلیقات کا انگریزی تراجم کے وسیلے سے مطالعہ کیا تھا جن کے اثرات ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ اختر شیرانی کی شاعری ان کے تزکیہ نفس کی ایک صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ان کے اہم شعری مجموعے درج ذیل ہیں :

صبح بہار، اخترستان، طیور آوارہ، نغمہ حرم، شہرود، شہناز، لالہ طور

اختر شیرانی نے اپنے ا سلوب میں حسن و رومان اور بے کراں محبت کو اہم مقام عطا کیا ہے۔ مقصدیت کی سنجیدگی سے انھیں کوئی غرض نہیں۔ ان کے اسلوب میں عشق کو محوری حیثیت حاصل ہے۔ اپنے مؤثر محاکاتی اسلوب اور دلکش تخلیقی فعالیت کو ر و بہ عمل لا کر وہ عشق و محبت کے جذبات کو لطیف انداز میں پیش کرتے ہیں:

عشق و آزادی بہار زیست کا سامان ہے

عشق میری جان آزادی مر ا ایمان ہے

عشق پر کر دوں فدا میں اپنی ساری زندگی

لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے

اردو ادب میں بر ملا اپنی محبوبہ کا نام لے کر اس سے پیمان وفا باندھنے کے سلسلے میں اختر شیرانی کو اولیت حاصل ہے۔ وہ ریحانہ، پروین، شمسہ، عذرا اور سلمیٰ کا نام لے کر ان سے وابستہ یادوں کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ وہ جس عورت کا بھی مرقع پیش کرتے ہیں اس کی جادوئی کیفیت دلوں کو مسخر کر لیتی ہے۔ حسیناؤں کے شباب اور محبت کے جذبات کی لفظی مرقع نگاری کر نا اختر شیرانی کے رومانوی مزاج کا ا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ ان کی محبوب حسینائیں جو مثالی اور خیالی ہیں ان کے حسن کی دل کشی کا احوال بیان کرتے وقت اختر شیرانی قاری کو جذب و مستی کی دنیا میں پہنچا دیتے ہیں۔ ان تمام مہ جبینوں کا حسن اپنی پوری جلوہ سامانیوں ، پر بہار اثر آفرینیوں اور دلدوزمسکراہٹوں کے ساتھ نہاں خانہ دل پر دستک دیتا ہے۔ اختر شیرانی نے اپنے اسلوب کے بارے میں لکھا ہے :

کبھی سلمیٰ کے رومان حسیں کے تذکرے کیجے

کبھی عذرا کے افسانے کو عشق رائیگاں لکھیے

کبھی پرویں کی مرگ عاشقی پر فاتحہ پڑھیے

کبھی شمسہ کے زہر آلود ہونٹوں کا بیاں لکھیے

اختر شیرانی کی شاعری میں عور ت کو ایک نفسیاتی کل کے روپ میں دیکھنا چاہیے۔ اپنے رومانوی مزاج اور عشق کے رجحانات کے تحت عورت کی محبت کو اپنے لا شعور ی رجحانات کی تسکین کی صورت میں سامنے لاتے ہیں ، وہ عورت کے ذکر سے لاشعوری رجحانات کی تسکین کے متمنی ہیں۔ وہ حقیقت پسندی کی انتہائی کٹھن منازل سے دامن بچاتے ہوئے وادیِ خیال کو مستانہ وار طے کرتے ہوئے نشاط و کیف کی جستجو میں رہتے ہیں۔ اس جستجو میں حسین عورت کا ساتھ ان کے لیے ہمیشہ زاد سفر ثابت ہوتا ہے۔ ان حسین و جمیل عورتوں کا ذکر کر کے وہ اپنے رومانوی جذبات کی تسکین کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ ان کی محبوبہ سلمیٰ ان کے لیے ہمیشہ مرکز نگا ہ رہی۔ ان کے خیال میں صرف سلمیٰ ہی ان کے لیے طلوع صبح بہاراں کی نوید لا سکتی ہے۔ سرور و کیف کی اس جستجو میں وہ سلمیٰ کو اپنے خیالوں میں بسا لیتے ہیں۔ زندگی کے کٹھن حالات میں بھی وہ سلمیٰ کی آمد کا شدت سے انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ رومانویت کا یہ انداز کیٹس کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔

گنوا نہ سوگ میں اپنے شباب کی راتیں

نہ ہاتھ آئیں گی پھر ماہتاب کی راتیں

نہ نکہتوں کا ہجوم اور یہ خواب کی راتیں

فضا پہ خواب کے مانند چھا بھی جا سلمیٰ

بہار بیتنے والی ہے آ بھی جا سلمیٰ

اختر شیرنی کی شاعری میں عورت کو حسن و رومان کی علامت کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر جب وہ سلمیٰ کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہیں تو قاری کو اقلیم محبت میں ان کی دسترس کا سب احوال معلوم ہو جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سلمیٰ کو اختر شیرانی نے ٹوٹ کر چاہا۔ سلمیٰ کی ناکام محبت نے اس حساس شاعر کو مکمل طور پر منہدم کر دیا اور اس نے الکحل کا سہارا لے کر زندگی کے دن پورے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اختر شیرانی ہجر میں گھل گھل کے ڈھانچہ بن گئے۔ سلمیٰ کی یادیں تمام عمر ان کے لیے سوہان روح بنی رہیں لیکن اس کے با وجود جب بھی اس کی یادوں کے زخموں کے اندمال کی کوئی صور ت پیدا ہوتی وہ پنی شاعری کے ذریعے اسے یاد کر کے پھرسے ا س کے حسن و رومان کی دنیا میں کھو جاتے۔

بہار و کیف کی بدلی اتر آئے گی وادی میں

سرور و نور کا کوثر چھڑک جائے گی وادی میں

شباب و حسن کی بجلی سی لہرائے گی وادی میں

سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں

ابھی سے جاؤں اور وادی کے نظاروں سے کہہ آؤں

بچھا دیں فرش گل وادی میں گلزاروں سے کہہ آؤں

چھڑک دیں مستیاں پھولوں کی مہکاروں سے کہہ آؤں

کہ سلمیٰ میری سلمیٰ نور برسائے گی وادی میں

سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں

زمیں پر بھیج دے آج اے بہشت اپنی بہاروں کو

بچھا دے خاک پر اے آسماں اپنے ستاروں کو

خرام و رقص کا دے حکم فطرت ابر پاروں کو

وہ بے خود چاند کی نظروں سے گھبرائے گی وادی میں

سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں

اردو شاعری میں رومانوی انداز فکر کی نمو میں اختر شیرانی، جوش ملیح آبادی اور حفیظ جالندھری کو بنیاد گزار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ان کے جن معاصرین ممتاز شعرا نے اپنے اسلوب میں رومانویت کو جگہ دی ان میں روش صدیقی، ساغر نظامی، اختر انصاری، احسان دانش اور حامد اللہ افسر کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے اسلوب میں مقامی تہذیب و ثقافت، رسوم و رواج، لوک گیتوں اور لوک داستانوں کی مجموعی کیفیات کو پیرایہ اظہار عطا کیا گیا ہے۔ بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ رومانوی شعرا نے تخلیق فن کے لمحوں میں محض فہم و ادراک اور عقل و خرد کی بالادستی اور ذہن و ذکاوت کی مطلق کارفرمائی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے حسن و عشق اور رومان و پیمان وفا کی فرمانروائی کو اولیت دی۔ ان کا اصرار تھا کہ تخیل، جذبات اور احساسات کو زندگی کے جملہ امور میں اولیت حاصل ہے۔ رومانوی تخلیق کار اسباب و علل اور کسی قسم کی فارمولہ سازی پر یقین نہیں رکھتے بل کہ حسن و عشق کے لا زوال سر چشمے ان کی فکری آبیاری کرتے ہیں۔ ان کے رومانی مزاج کی تشکیل میں محبت کو محوری حیثیت حاصل ہے۔

شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی

جوش بنیادی طور پر ایک پر دردمند رومانی شاعر تھے۔ جذبوں کی شدت اور صداقت، لہجے کی قوت اور تاثیر، حسن و رومان کی فراوانی، انقلاب اور شباب کا پر زور احوال ان کی شاعری کے امتیازی اوصاف سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ندرت، شگفتگی، منظر نگاری اور محبت کے جذبات کی فراوانی قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف ہے۔ ان کی شاعری میں صنائع بدائع کا حسن دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ حالات و واقعات کا لفظوں میں نقشہ کھینچ کر رکھ دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اپنی رومانی شاعر ی سے انھوں نے اردو ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب کا ایک اہم باب ہے۔ ان کی نظمیں رومانوی انداز فکر کے تمام پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ’ ’تصویر جمال ‘‘، ’’کو ہستان دکن کی ایک عورت ‘‘، فتنہ خانقاہ ‘‘اور ’’نقش و نگار ‘‘سدا بہار نظمیں ہیں۔ ان کی شاعری میں جوانی کی امنگیں ، جذبات و احساسات کی ترنگیں ، حسن و رومان کی روانی اور پیمان وفا کی تمہید طولانی قاری کے لیے امید فردا کی ایک صور ت بن جاتی ہے۔ جوش کی شاعری کا کنول اور رومانی تخیل ابتلا و آزمائش کی مسموم فضا میں بھی ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔

فکر ہی ٹھہر ی تو دل کو فکر خوباں ہی کیوں نہ ہو ؟

خاک ہونا ہے تو خاک کوئے جاناں کیوں نہ ہو ؟

زیست ہے جب مستقل آوارہ گردی ہی کا نام

عقل والو پھر طواف کوئے جاناں کیوں نہ ہو؟

اک نہ اک ظلمت سے جب وابستہ رہنا ہو تو جوش

زندگی بھر سایہ زلف پریشاں کیوں نہ ہو؟

مست صہبائے ترنم ہوں خدا خیر کرے

آج پھر محو تبسم ہوں خدا خیر کرے

کہیں تا حشر نہ چھائے خموشی دل پر

ان سے پھر گرم تکلم ہوں خدا خیر کرے

اب آفتاب عمر کو دے رخصت جواب

تجھ کو طلوع صبح بہاراں کا واسطہ

جوش ملیح آبادی کی شاعری جو مجموعے شائع ہو چکے ہیں ان میں نقش و نگار، سرو د و خروش، شعلہ و شبنم، فکر و نشاط، حرف و حکایت، جنون و حکمت، سیف و سبو، آیات و نغمات، جوش و خروش، اور روح ادب شامل ہیں۔ ان کی سوانح عمری ’’یادوں کی برات ‘‘ان کے اسلوب کی مظہر ہے۔ جوش کی نظم ’’تصویر جمال ‘‘سے ایک اقتباس پیش ہے۔ اس نظم میں جوش نے لفظی مرقع نگاری سے جو سماں باندھا ہے وہ حد درجہ مسحور کن ہے۔ جوش کی رومانی شاعری کی یہ ایک عمدہ مثال ہے :

لہراتی تھیں زلفیں کھل کھل کر اس شان سے رنگیں شانوں پر

جس طرح گھٹائیں ساون کی جھک پڑتی ہیں مے خانوں پر

ہونٹوں پر دھیمے نغمے تھے یا محو تھیں حوریں قرأت میں

مکھڑے پر لٹوں کا پرتو تھا یا آب حیواں ظلمت میں

چلتی تو قدم یوں رکھتی تھی دن جیسے کسی کے پھرتے ہیں

یا ناز سے بھیگی راتوں میں شبنم کے قطرے گرتے ہیں

جوش کی رومانی شاعری میں تخیل کی جولانی، جوانی کی مستانہ وار ادائیں ، جذبہ عشق کی ہمہ گیری کے ساتھ ساتھ طنز کا ایک انوکھا رنگ بھی مو جود ہے۔ ان کی نظم ’’فتنہ خانقاہ ‘‘اس کی عمدہ مثال ہے۔ اس نظم میں جوش نے کئی بگلا بھگت جعل سازوں کے مکر کا پردہ فاش کیا ہے۔ ایک حسینہ کے حسن کے سامنے بڑے بڑے ضبط کرنے والے بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے پوری جرأت کے ساتھ اس واقعہ کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ جوش کی رومانوی شاعری میں حسن و محبت کی تصویر کشی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اس نظم میں جوش نے اس حسینہ کا احول بیان کیا ہے جو کسی خانقاہ پر فاتحہ کی غرض سے پہنچی مگر وہاں موجود لوگوں نے اسے میلی نگاہ سے دیکھا۔ دیکھنے والوں کی حریصانہ نگاہوں اور مریضانہ ذہنیت کا جو احوال جوش نے بیان کیاہے وہ لمحہ فکریہ ہے :

ایک دن جو بہر فاتحہ ایک بنت مہر و ماہ

پہو نچی نظر جھکائے ہوئے سوئے خانقاہ

زہاد نے اٹھائی جھجکتے ہوئے نگاہ

ہونٹوں پہ دب کے ٹوٹ گئی ضرب لا الہ

برپا ضمیر زہد میں کہرام ہو گیا

ایماں دلوں میں لرزہ بر اندام ہو گیا

اس آفت زمانہ کی سرشاریاں نہ پوچھ

نکھرے ہوئے شباب کی بیداریاں نہ پوچھ

رخ پر ہوائے شام کی گل کاریاں نہ پوچھ

کاکل کی ہر قدم پہ فسوں کاریاں نہ پوچھ

عالم تھا وہ خرام میں اس گل عذار کا

گویا نزول رحمت پروردگار کا

ساغر نظامی

ساغر نظامی کی رومانوی شاعری کا مجموعہ ’’رنگ محل ‘‘جس میں 1936سے لے کر 1942تک کی رومانی شاعر ی شامل ہے، اسے جون 1943 میں ادارہ اشاعت اردو، حیدر آباد دکن نے شائع کیا۔ اس شعری مجموعے میں انھوں نے اپنے رومانی مسلک کا بر ملا اظہار کیا ہے .۔ ان کے اسلوب میں درد انگیز نالے بھی دلفریب نغموں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ عشق و محبت اور حسن و رومان کے نغموں کو ایک دلنشیں آہنگ، مسحور کن کانوں میں رس گھولنے والی لے اور حسین ترتیب کو دل کو چھو لینے والی کیفیت سے پیش کر کے سے پیش کر کے ساغر نظامی نے اپنے رومانی اسلوب کی انفرادیت کو تسلیم کرایا ہے۔ کہیں کہیں یہ گمان گزرتا ہے کہ ساغر نظامی کی انا نے ان کے تخلیقی عمل کو متاثر کیا ہے اس کی وجہ سے ان کے قلبی جذبات اس متوقع شدت اور بھر پور قوت کے ساتھ اسلوب میں جلوہ گر نہیں ہو سکے۔

ہواؤں کا ترنم بحر و بر کا شور سب کیا ہے

مر اک نغمہ ہے جو سو ادا سے کارفرما ہے

اپنی نظم ’’اوشا ‘‘میں ساغر نظامی نے ایک حسینہ سے مخاطب ہو کر محبت کے بے ساختہ جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اس نظم میں رومانی مزاج کی تمازت کو محسوس کیا جا سکتا ہے :

اوشا

تجھے معلوم ہے میں کس لیے مصروف ہوں اوشا

مجھے دن رات مصروف عمل پاتی ہو اے اوشا

تو تم یہ دیکھ کر سکتہ میں رہ جاتی ہو اے اوشا

کہ شاید میں تمھیں اس غم میں دل ہی سے بھلا بیٹھا

کسی کے مست و رنگیں گیسوؤں میں دل پھنسا بیٹھا

مگر یہ جہد مضراب رباب کامیابی ہے

عمل دیباچہ باب کتاب کامیابی ہے

ساغر نظامی کی شاعری میں عورت کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ رومانوی مزاج کی عمدہ مثال ہے۔ ساغر نظامی کا خیال ہے کہ عورت کو خالق کائنات نے حسن کے ایک شاہ کار کی حیثیت سے تخلیق کیا۔ حسن و عشق کے مضامین ساغر کی رومانوی شاعری میں کثرت سے مو جود ہیں۔ ایک طرف تو وہ قوم پرستی اور انسان دوستی پر توجہ دیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ رومانویت اور عورت کے حسن کے دلکش موضوع پر پوری قوت اور جرأت سے لکھتے ہیں۔ ان کی رومانوی شاعری کا یہ پہلو بلا شبہ قابل توجہ ہے :

عورت اک پھول ہے جہاں میں

خوشبو میں گلاب سے بھی بڑھ کر

مستی میں شراب سے بھی بڑھ کر

اس کی آنکھیں حیا کی کشتی

نظریں اس کی وفا کا مندر

اس کی ہنسی خدا کی ہنسی

اس کے ہو نٹوں پہ کھیلتا ہے

ہلکا ہلکا سا اک تبسم

کچی کلیوں کا بند بربط

آواز شگفت کا ترنم

نکہت میں نسیم سے بھی نازک

معصوم شمیم سے بھی نازک

عورت اک پھول ہے جہاں میں

خوشبو ہے اس کی جسم و جاں میں

ساغر نظامی کی شاعری میں نر گسیت اور فن کا کی انا کا پہلو بھی موجود ہے۔ خود پسندی پر مبنی اس انداز فکر نے ساغر نظامی کی رومانی شاعری کو اس وسعت نظر اور محبت کی اس لا محدود مستی اور کیف سے آشنا نہیں ہونے دیا جو تخلیق ادب اور بالخصوص رومانی شاعری کا اہم ترین وصف سمجھا جاتا ہے۔

ابو الاثر حفیظ جالندھری

(14-01-1900تا21-12-1982)

حفیظ جالندھری کی شاعری میں رومانویت اور ملی تشخص کے موضوعات باہم شیر و شکر ہو گئے ہیں۔ ان کے اسلوب میں مشرق و مغرب کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ جہاں وہ مغرب کی رومانی شاعری سے اثر قبول کرتے ہیں وہاں ٹیگور کی سادگی بھی ان کے اسلوب میں ایک شان کے ساتھ جلوہ آرا ہے۔ حفیظ جالندھری کی تصانیف میں نغمہ زار، سوز و ساز، تلخابہ شیریں ، شاہنامہ اسلام، اور بچوں کی نظمیں شامل ہیں۔ اپنی شاعری میں انھوں نے حسن و رومان، جذبات نگاری، فطرت نگاری اور لفظی مرقع نگاری پر بھرپور توجہ دی ہے۔ حفیظ جالندھری کے قصر شاعری کی اساس عہد شباب کی بے فکری، خود نظری، لطیف جذبات، نازک خیالی، مسرت اور کرب کے احساسات، قہقہے اور سسکیاں جستجو اور حسرتیں ، فاقہ کشی اور تونگری، استغنا اور طلب، غرض متنوع مضامین ہیں جو قوس قزح کے رنگوں کی طرح قاری کو متوجہ کرتے ہیں۔ ان کے رومانی مزاج سے اردو شاعری کو موضوعاتی تنوع نصیب ہوا۔

اے اہل قلم رنگ جہاں دیکھ رہے ہو

یہ خون کا سیلاب رواں دیکھ رہے ہو

ہے خاک وطن شعلہ فشاں دیکھ رہے ہو

افلاک پہ آہوں کا دھواں دیکھ رہے ہو

یہ زہر سیاست ہے کہ ہے قہر الٰہی

اے اہل قلم دیکھ رہے ہو یہ تباہی

حفیظ جالندھری پاکستان کے قومی ترانے کا خالق ہیں۔ ان کی علمی، ادبی، قومی اور ملی خدمات پر انھیں حکومت پاکستان نے ہلال پاکستان اور صدارتی تمغہ حسن کار کردگی سے نوازا۔ یہ عظیم شاعر مینار پاکستان، لاہور کے سامنے میدان میں آسودہ خاک ہے۔ حفیظ جالندھری کی رومانی شاعری میں ان کے تجربات اور احسات کا منفرد انداز قابل توجہ ہے :

کیسے بند ہوا مے خانہ۔ اب معلوم ہوا

پی نہ سکا کم ظرف زمانہ۔ اب معلوم ہوا

پیٹ پجاری ناچ رہے ہیں اپنی قبروں پر

ایک نیا رقص مستانہ۔ اب معلوم ہوا

جرم وفا میں گھر تو گیا تھا سر بھی جائے گا

یہ بھی مجھ پر ہے جرمانہ۔ اب معلوم ہوا

احسان دانش

احسان دانش کا نام احسان الحق تھا ان کا عرصہ حیات 1914تا 21مارچ 1982ہے۔

احسان دانش کی رومانی نظمیں اپنے عہد میں بے حد مقبول ہوئیں انھوں نے زندگی کے تلخ حقائق کو جذبوں کی صداقت سے مزین کر کے اشعار کے قالب میں ڈھالا۔ ان کے شعری مجموعوں میں حدیث ادب، نوائے کار گر، نفیر فطرت، درد زندگی، چراغاں ، زخم و مرہم، آتش خاموش، ، جادہ نو، شیرازہ، مقامات، گورستاں بہت اہم ہیں۔ معاشرے کے پسے ہوئے مفلوک الحال طبقے سے انھیں بہت ہمدردی ہے۔ افلاس کی پر درد کراہیں سن کر وہ تڑپ اٹھتے ہیں۔ ان کی رومانی شاعری میں غربت و افلاس، بے روزگاری، جبر، ناداری کے عذاب اور محنت کشوں کے مسائل کو اہم موضوع کی حیثیت حاصل ہے۔ انھوں نے معاشرے کے تباہ حال پس ماندہ طبقے کے مصائب و آلام، معاشی اور اقتصادی زبوں حالی کے بارے میں نہایت خلوص اور دردمندی سے اظہار خیال کیا ہے۔

کبھی مجھ کو ساتھ لے کر کبھی میرے ساتھ چل کر

وہ بدل گئے اچانک میری زندگی بدل کر

جو تیرے آستاں سے لوٹ آئے

جنت دو جہاں سے لوٹ آئے

ما ہ و انجم کے ساتھ تھے ہم بھی

ہم مگر درمیاں سے لوٹ آئے

یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے

ساتھ چل موج صبا ہو جیسے

لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں

تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

رعنائیِ کونین سے بیزار ہمیں تھے

ہم تھے ترے جلووں کے طلب گار ہمیں تھے

ہے فرق طلب گار و پرستار میں اے دوست

دنیا تھی طلب گار پرستار ہمیں تھے

احسان ہے بے سود گلہ ان کی جفا کا

چاہا تھا انھیں ہم نے خطا وار ہمیں تھے

احسان دانش نے ایک مزدور کی حیثیت سے رزق حلال کمایا اس لیے احسان دانش کو شاعر مزدور کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ احسان دانش کی رومانیت میں ان کے ذاتی تجربات، مشاہدات قلبی جذبات واحساسات اور خلوص و دردمندی کی مظہر ہے۔ اگرچہ احسان دانش نے مغرب کے رومانی شعرا کی تخلیقات سے براہ راست استفادہ نہیں کیا تھا لیکن کئی تراجم ان کی نظروں سے گزرے تھے۔ ان کی مشہور نظموں ’’شام اودھ ‘‘اور ’’بیتے ہوئے دن ‘‘میں ان کی رومانیت اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ استحصالی معاشرے میں فرد کو جن مسائل اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے بارے میں احسان دانش کی شاعری میں پوری قوت اور جرأت سے رومانوی انداز میں صدائے احتجاج بلند کی گئی ہے۔ انھوں نے زبان و بیان پر اپنی کامل دسترس کا ثبوت دیتے ہوئے تشبیہہ اور استعارے کے بر محل استعمال سے اپنی شاعری کو حسین و دلکش بنا دیا ہے۔ ان کی منظر نگاری سے قاری کو ایک نئے جہان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ احسان دانش نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔ وہ مو ت کو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔ وہ خود احساس کی قندیل پر سلگ کر روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ان کی نظم ’’گورستان‘‘ان کی خطابت اور رومانیت کی عمدہ مثال ہے۔

یہ کھلا عقدہ جہاں ہنگامہ زار مرگ ہے

عرش سے تا فرش بحر بے کنار مرگ ہے

شمع محفل کے لیے ہے موت دامان نسیم

روح گل کو موت کا پیغام پرواز شمیم

بے قراری چھین لی جائے تو ہے پیارے کی موت

چھوڑ کر گردش کو رک جائے تو سیارے کی موت

ذرے ذرے میں نمایاں موت کی تصویر ہے

لیکن اس تصویر میں گنجائش تقریر ہے

موت ہی جب تیرگی ہے موت ہی تابندگی

زندگی ہے نام کس شے کا کہاں ہے زندگی

علامہ اقبال

علامہ اقبال کی شاعری میں بھی رومانیت کے اثرات مو جود ہیں لیکن ا ن کی تاریخی، قومی، ملی اور بین الاقوامی شاعری کے بلند آہنگ میں ان کی رومانویت پر کم توجہ دی گئی ہے۔ زندگی اور موت کے موضوع پر علامہ اقبال کے خیالات قابل توجہ ہیں :

سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات

سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات

سلسلہ روز و شب تار حریر دو رنگ

جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات

علامہ اقبال کی شاعری کو کسی ایک انداز فکر تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے اپنے متنوع خیالات سے اردو شاعری کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھا جائے گا۔ ان کی شاعری میں توحید، رسالت، مذہب، ملت، سرمایہ، محنت، معاشرتی زندگی، شہر آشوب، قصائد، مرثیے اور حالات کی لفظی مرقع نگاری اس مہارت سے کی گئی ہے کہ یہ شاعری ہر عہد میں دلوں کو ایک ولولہ تازہ عطا کر کے فکر و نظر کو مہمیز کرتی رہے گی۔ بے یقینی کے مسموم ماحول میں یہ شاعری حوصلے، امید اور یقین کی نقیب ثابت ہو گی۔

روش صدیقی

روش صدیقی کے اسلوب میں حسن و عشق کے بارے میں جو خیالات موجود ہیں وہ رومانیت کے مطہر ہیں۔ اپنی شاعری میں روش صدیقی نے حسن کو دائمی مسرتوں ، پیہم راحتوں ، ابدی خوشیوں اور غیر مختتم کامرانیوں کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ روش صدیقی کی شاعری میں محبوب سے قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت کو عمدہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے :

مری سرو ناز ابھی نہ جا

مری دل نواز ابھی نہ جا

ابھی ماہتاب ہے چرخ پر تجھے ماہتاب نہ دیکھ لے

ہے یہ سوچ لیلیِ شب تجھے کہیں بے نقاب نہ دیکھ لے

پس پردہ کوئی چھپا ہوا تجھے بے حجاب نہ دیکھ لے

کہیں قدسیوں میں نہ گل کھلیں

کہیں کہکشاں کے نہ پر لگیں

ترے نقش پا کی تلاش میں

کہیں کھل نہ جائے نجوم پر یہ حسین راز ابھی نہ جا

مری سرو ناز ابھی نہ جا

اختر انصاری

اختر انصاری کی رومانی شاعری میں دل شکستگی، غم دوراں اور ہجر و فراق کے جذبات کی فراوانی ہے۔ اس عالم آب و گل میں انھیں ہر جگہ ہجوم غم دکھائی دیتا ہے۔ اس کے باوجود وہ حالات سے مایوس اور دل برداشتہ ہونے کے بجائے دل تھام کر پیار اور وفا کی باتیں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ غم سے بھی نباہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ ان کی شاعری میں حسن و عشق اور شباب کی رنگینیوں کے دلکش تذکرے ملتے ہیں۔

جب اتنی چیزیں ملائی گئیں شباب بنا

شباب کاہے کو اک دل فریب خواب بنا

کسی کے عشق میں وہ نا مرادیوں کے مزے

وہ نو جوان طبیعت کی یاس آگینی

سکوت شب میں وہ بچھڑے ہوئے دنوں کی

یاد وہ دل کو بخشتی ہے اک لطیف غم گینی

رومانی جذباتیت اختر انصاری کی شاعری کا اہم پہلو ہے۔ وہ اپنے ماضی کی یادوں ، حال کے واقعات، مستقبل کے امکانات اور خوابوں کے بارے میں نہایت پر لطف انداز میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کے تخیل میں ایک خیالی دنیا کا تصور موجود ہے جہاں سکون قلب اور راحت کی فضامیسر ہو گی۔ ان کی رومانی شاعری میں جذباتی مدو جزر کی کیفیت سامنے آتی ہے۔ ان کے اسلوب بیان میں محبت کے بے ساختہ جذبات کا کرشمہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے :

گرمیوں کی شب پر کیف سناٹے میں

گل فروشوں کی جب آتی ہیں حسیں آوازیں

میں کسی دوسری دنیا میں چلا جاتا ہوں

فصل گل میں جب آتی ہے گھٹا گھر گھر کر

اور جذبات ابھرتے ہیں دل کافر کے

میں کسی دوسری دنیا میں چلا جاتا ہوں

اختر انصاری اپنے رومانی تخیل کی شادابی کے اعجاز سے سکون و راحت کی تلاش میں ایک نئی خیالی اور مثالی دنیا کی جانب رخت سفر باندھ لینے کی جو بات کرتے ہیں یہی رومانیت کی پہچان ہے۔

اختتامیہ

اردو کے رومانی شاعروں نے تخلیق فن کے لمحوں میں جذبات احساسات کے فطری عمل کو کسی مصلحت، جبر یا پابندی کے تابع نہیں سمجھا۔ ان کے اسلوب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس طرح فطرت لالے کی حنا بندی کے عمل میں پیہم مصروف عمل ہے اسی طرح حسن و رومان کا سیل رواں بھی پوری قوت اور شدت کے ساتھ موجزن رہتا ہے اور ہر قسم کی قدغنوں اور پا بندیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔ محبت میں پیمان شکنی، بے مروتی، بے وفائی، کج ادائی اور ہجر و فراق جیسے کئی سخت مقام بھی آتے ہیں لیکن خار زار محبت کے آبلہ پا مسافر جان لیوا مسافتوں اور خار زار راہوں کے طویل فاصلوں کی پروا نہیں کرتے اور اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں انتظار کی دنیا بسائے لمبی جدائی میں بھی وصل کے خواب دیکھتے ہیں ٹامس کیمبل کا ایک مشہور مصرع ہے :

’’فاصلہ نظارے کو ایک طلسمی کیفیت بخش دیتا ہے ‘‘(8)

اردو کی رومانی شاعری میں یہی اصول کار فرما دکھائی دیتا ہے کہ خواہ ہجر ہو یا وصال ہر صورت میں مسرت و انبساط کی توقع رکھنی چاہیے۔ اردو کے رومانوی شعر ا نے حسن فطرت پر بھی کھل کر لکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے بالعموم آبادیوں سے بڑھ کر ویرانے پسند ہیں۔ پہاڑوں ، صحراؤں ، ریگستانوں ، جنگلوں بیابانوں ، کھنڈرات، شہر خموشاں ، سمندروں ، دریاؤں ، وادیوں ، مرغزاروں ، چشموں اور آبشاروں کے مناظر دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ اس کی قدرت کاملہ کے یہ حسین و دلکش مناظر دیکھ کر حسن و رومان کی بالادستی کا یقین ہو جاتا ہے۔ رومانوی شعرا کے اسلوب میں جو گہرا نفسیاتی شعور مو جود ہے اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ان شعرا نے حسن و رومان کے بیان سے معاشرے میں پائی جانے والی بیزاری اور جمود کا خاتمہ کیا اور صبر و استقامت ، حوصلے اور امید کی راہ دکھائی۔ نفسیاتی اعتبار سے ان کی یہ سوچ فرد کے طرز عمل پر دور رس اثرات مرتب کرتی ہے۔ ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کا خیال ہے :

’’رومانوی ذہن کی نفسیات میں دلچسپی نے فن میں اشاریت (Suggestiveness)کی نئی صنعت دریافت کی۔ نئے نفسیاتی زاویہ نظر نے یہ ثابت کیا کہ فن کا مقصد ذہن میں

ایک خاص حرکت اور مخصوص رد عمل بیدار کرنا ہے۔ ‘‘(9)

رومانوی انداز فکر نے عقل کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ حسن و رومان اور عشق و محبت ہی کے وسیلے سے منزل تک رسائی ممکن ہے۔ رومانوی انداز فکر نے فطرت کے متعلق ایک انوکھا نامیاتی تصور اپنایا۔ اس نامیاتی تصور میں یہ بات واضح کی گئی کہ عقل عیار ہے جو سو بھیس بدل کر فرد کی سوچ، بصیر ت اور قوت فیصلہ کو سرابوں کی نذر کر دیتی ہے۔ عشق جس منزل تک لے جانے پر قادر ہے وہ عقل کی دسترس سے باہر ہے۔ عقل کی بے بضاعتی اور بے توفیقی کے باعث صداقتوں کی تکذیب اورمسلمہ حقائق کی تمسیخ کی نوبت آ جاتی ہے، لب اظہار پر تالے لگ جاتے ہیں اور ان لوگوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے جو حق گوئی اور بے باکی کو شعار بناتے ہیں۔ رومانوی شعرا نے اپنی شاعری کے ذریعے عقل کی مطلق العنان بالادستی کے تصور کو منہدم کرنے کی کوشش کی۔ وہ کشف و ادراک کے وسیلے سے محبت کے حصول کے لیے حسن کی جستجو کو اپنا مطمح نظر سمجھتے تھے۔ رومانی انداز فکر نے اس جانب توجہ دلائی کہ عقل میں اتنی استعدا د نہیں کہ وہ فطرت کے مقاصد کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے سکے۔ اس کے بر عکس عقل نے فطرت کے نامیاتی اصولوں کو بالعموم پیش نظر نہیں رکھا۔ رومانوی سوچ نے اس بات پر اصرار کیا کہ اسے فطرت سے والہانہ محبت ہے اور داخلی اور خارجی نوعیت کے جذبات کے اظہار کے لیے فطرت کے مظاہر سے مطابقت کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھنا چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ عقل اپنی مو شگافیوں کے باعث زندگی کے حقائق کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے جب کہ رومانوی سوچ نے ان تمام حقائق، مظاہر اور صداقتوں کی شیرازہ بندی کو ہمیشہ اپنی اولین ترجیح سمجھا ہے۔ رومانوی سوچ نے فرد کی فطری آزادی کو ہمیشہ مقدم سمجھا۔ جان لیوا سکوت، مہیب سناٹوں ، گمبھیر مسائل، ناگہانی صدمات اور سمے کے سم کے ثمر نے پورے ماحول کو جس اداسی، بیزاری، مایوسی اور اضطراب سے دوچار کر رکھا تھا رومانویت نے اس سے گلو خلاصی کے لیے حسن و رومان اور تخیل کی وادی میں پناہ لینے کی راہ دکھائی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس انداز فکر نے جہد و عمل کی راہیں مسدود کر دیں اور آرام طلبی، تن آسانی، عیش کوشی اور بے عملی کا عفریت ہر طرف منڈلانے لگا۔ اگرچہ رومانوی تحریک نے اردو ادب میں تخلیقی عمل کو مہمیز کیا لیکن اس نے تخلیق ادب کے لیے کوئی قابل عمل اور ٹھوس لائحہ عمل پیش نہ کیا۔ زندگی کی بے اعتدالیوں ، تضادات، ارتعاشات اور صدمات کوخیال و خواب سمجھ کر پیہم نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ رفتہ رفتہ رومانوی تحریک اپنی دلکشی کھو بیٹھی اور تخلیق ادب کے لیے جہان تازہ تک رسائی کے لیے افکار تازہ کی جستجو کا آغاز ہو گیا۔

اردو کے رومانوی شعرا نے اپنے تخیل کی جو لانیوں کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اپنے باطنی تجربات کو فطرت کے مظاہر سے ہم آہنگ کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اندر کے موسموں کا مظاہر فطرت کے ساتھ گہرا تعلق ہے اس کائنات کی ہر چیز محو سفر ہے اور اس کے اندر ایک بے چینی اور بے قراری سرایت کر گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں رومانیت کو لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ رومانوی تحریک نے زندگی کے تلخ حقائق کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کے بجائے محض عشق و محبت، حسن و رومان اور تخیل کا سہارالیا۔ اسے منفی انداز فکر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ دیر تک نہ چل سکا یہاں تک کہ 1936میں ترقی پسند تحریک نے واضح کر دیا کہ زمانے میں محبت کے سوا اور بھی دکھ موجود ہیں جن پر توجہ دینا حساس تخلیق کار کی ذمہ داری ہے۔ مجبور، بے بس اور مظلوم انسانیت کی پر درد کراہیں سن کر کب تک وادیِ خیال میں مستانہ وار گھوما جا سکتا ہے۔ ترقی پسند تحریک نے پوری شدت کے ساتھ رومانوی تحریک سے اختلاف کیا اور اس کے تصورات کو عصری تقاضوں کے خلاف سمجھ کر پس پشت ڈال دیا۔ اس طرح یہ تحریک ماضی کا حصہ بن کر تاریخ کے طوماروں میں دب گئی۔

٭٭٭

مآخذ

(1)عبداللہ ڈاکٹر سید :مباحث، مجلس ترقی ادب، لاہور، طبع اول1965، صفحہ 392

(2)سجاد باقر رضوی ڈاکٹر :مغرب کے تنقیدی اصول، کتابیات، لاہور، طبع اول 1966، صفحہ318

(3)پاشا رحمان :تخلیقی ادب، عصری مطبوعات، کراچی، جلد اول، 1980 ، صفحہ 161۔

(4)پاشا رحمان : تخلیقی ادب صفحہ 166۔

(5)پاشا رحمان:تخلیقی ادب، صفحہ 165۔

(6)عبداللہ ڈاکٹر سید :اردو ادب 1857تا1966، مکتبہ خیابان ادب، لاہور، طبع اول، 1967 ، صفحہ 53۔

(7)اختر احمد ارینوی :کسوٹی، مکتبہ خیال، بانکی پور، پٹنہ، صفحہ 64۔

(8) بہ حوالہ محمد ہادی حسین :مغربی شعریات، مجلس ترقی ء ادب، لاہور، طبع اول، 1968، صفحہ 305۔

(9)سجاد باقر رضوی ڈاکٹر :مغرب کے تنقیدی اصول، صفحہ 193۔

٭٭٭

تشکر: پروفیسر غلام شبیر رانا جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید