FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تیسرا آدمی

سماجی اور معاشرتی زندگی میں کوئی شخصیت غیر معمولی ہوتی ہے۔ اسے کسی لمحہ نظرانداز نہیں کر سکتے۔ اقتصادی زندگی میں اس کا عمل اہم ہوتا ہے اور اکثر دلچسپ بھی۔ کاروباری ماحول میں قدم قدم پر اس کی شخصیت محسوس ہوتی ہے۔ اپنے مفاد کے لیے اسے برتنا پڑتا ہے۔ ’تیسرا آدمی‘ نہ ہو تو سماجی زندگی کا اقتصادی نظام درہم برہم ہو جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اقتصادی حالات و مسائل کا انحصار اس کے عمل اور رد عمل پر ہے۔ بازار کے بھاؤ، قیمتوں کے اتار چڑھاؤ، غلوں کی پیداوار اور تقسیم میں اس کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ خرچ کیے بغیر فائدہ حاصل کرتا ہے۔ اس کی شخصیت کے کئی پہلو اہم ہیں۔ شہر اور گاؤں کی روزانہ زندگی میں ’تیسرے آدمی‘ سے اکثر ملاقات ہوتی ہے۔ یہ کارخانوں میں بھی ہے اور کھلیانوں میں بھی۔ سیاسی زندگی میں بھی ’تیسرا آدمی‘ اپنا خاص مقام رکھتا ہے۔ گھریلو زندگی میں اس کی شخصیت ایک معمہ بھی بن جاتی ہے۔ کبھی اپنی بربادی پسند کرتا ہے تو ایک گھر آباد ہو جاتا ہے اور کبھی شخصیتوں کے درمیان آتا ہے تو صرف اپنے مفاد پر نظر رکھتا ہے۔ اپنے مشن میں ناکام ہو کر کبھی واپس چلا جاتا ہے اور کبھی کامیابی حاصل کرتا ہے تو گھریلو زندگی کی حالت بدل جاتی ہے۔ جب اپنے اغراض و مقاصد اور صرف اپنے مفاد پر نظر رکھتا ہے تو اسے اس کی فکر نہیں ہوتی کہ اس کے عمل سے زندگی کے کتنے آتش کدے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ عناصر اور اقدار کو بدلتے دیکھ کر اسے ذہنی اور نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ لذت ملتی ہے، انتقام کے جذبے سے بھی سرشار ہو کر اکثر کسی پرامن گھر میں ’تیسرا آدمی‘ داخل ہوتا ہے اور اس کی بے چینی اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک کہ وہ گھر ویرانہ نہ بن جائے۔ کبھی بے غرض بھی ہوتا ہے اور اس وقت بے قرار ہو جاتا ہے جب اس پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ اس کے خلوص و محبت اور دوستی پر شبہ کیا جاتا ہے۔

’تیسرا آدمی‘، ’’خواجہ اہل فراق‘‘ بھی ہے اور ’’خضر راہ‘‘ بھی۔ رقیب بھی ہے اور دوست بھی۔ اس کی دوستی اور رقابت دونوں سے قصہ آدم رنگین بنتا ہے۔ کشمکش اور تصادم کے بغیر زندگی اور فن دونوں کا کوئی تصور پیدا نہیں ہوتا اور اسی کے لہو کی گرمی سے یہ کشمکش بڑھتی ہے۔ ہم اسے ہیرو سمجھنا نہیں چاہتے اس لیے بھی کہ ہیرو کے روایتی تصور کو ابھی تک عزیز رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک بڑی سچائی ہے کہ فکشن کا اصل ہیرو عموماً یہی ہوتا ہے۔ ہیرو سمجھنا نہیں چاہتے لیکن یہ ضرور چاہتے ہیں کہ وہ کچھ اور لمحوں کو کشمکش اور تصادم کے قریب کرتا رہے۔ اس کی شکست سے اگر دوستی، خلوص اور محبت کی شکست ہو گئی تو ہمیں دکھ بھی ہوتا ہے اور اگر رقابت، دشمنی اور جارحانہ عمل کی شکست ہوئی تو ہمیں ذہنی اور نفسیاتی سکون ملتا ہے۔ محسوس ہو یا نہ ہو ہر شخص کسی نہ کسی لمحے تیسری شخصیت کا روپ اختیار کرتا ہے۔ دراصل ہم اس کی شخصیت میں اپنی بعض جبلّتوں، بنیادی ہیجانات اور جذبات کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ ان جبلتوں اور جذبوں اور ہیجانوں کے اظہار کو دیکھ کر شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کی ذات سے دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی جذباتی زندگی کی تکمیل کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

ایپک، ناول اور افسانوی کلچر میں ’تیسری شخصیت‘ کے بغیر داخلی اور خارجی اقدار کی نقاب کشائی نہیں ہوتی۔ڈراموں کی کشمکش کی محرک بھی یہی شخصیت ہوتی ہے۔ ادبی تخلیقات میں عموماً کشمکش، انتشار، کرخت حقائق اور بے ترتیبی کو ختم ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ’تیسری شخصیت‘ کو اپنی نگاہوں سے دور کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس کے زوال کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے، شیکسپیئر کے ’’رومیو اور جیولیٹ‘‘ میں پیرس سے ہمیں ہمدردی نہیں ہوتی۔ یہ ’تیسرا شخص‘ جب جولیٹ سے یہ کہتا ہے: ’’خوب ملے، میری محبوب، میری رفیقۂ حیات‘‘ یا ’’مجھے یقین ہے تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔‘‘ تو الجھن سی ہوتی ہے۔ جولیٹ کے سامنے پھن مارے ہوئے سانپ اور چیختے ہوئے جنگلی درندے ذہن کو پریشان کرتے ہیں۔ پیرس کی علامت المیہ کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کی موت سے لمحاتی سکون ملتا ہے لیکن جب رومیو زہر کھا لیتا ہے تو اس کی غلط فہمی ہمیں شدید ذہنی اذیت پہنچاتی ہے۔ ’جولیس سیزر‘ کا تیسرا آدمی مارکس اینٹونی ہے جو بروٹس کی تقریر کے بعد عوام سے مخاطب ہوتا ہے اور اس کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ایسی نفسیاتی شعاعیں ڈالتا ہے کہ حالات بدل جاتے ہیں۔ فضا تبدیل ہو جاتی ہے۔ خود بروٹس بھی ایک ’تیسرا آدمی‘ ہے۔ کرداروں کے عمل اور رد عمل میں اس کی پہچان بھی کبھی کبھی بہت مشکل ہو جاتی ہے کہ کون ’تیسرا آدمی‘ کہے جانے کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ ’تیسرا آدمی‘ دراصل ایک تحرک بن جاتا ہے۔ ایک ہی فکشن یا کہانی میں یہ تحرک کئی کرداروں کا مقدر ہو جاتا ہے۔ کچھ کردار کبھی اس حالت میں اپنے آپ کو پا کر الجھ جاتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ پلاٹ کے پیش نظر اور واقعات کے پھیلاؤ کے ساتھ تیسری شخصیت کی قدروقیمت کا اندازہ ہو گا۔ فارسی اور اردوغ زل کا رقیب ’تیسرا آدمی‘ ہی تو ہے ’’برادر کراموزوف‘‘، ’مادام بوئری‘‘، ’’بن ہر‘‘، ’’دی پوٹریٹ آف اے لیڈی‘‘ اور ’’گؤدان‘‘، ’’شکست‘‘، ’’تلاشِ بہاراں ‘‘، ’’خدا کی بستی‘‘، ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ اور دوسرے ناولوں میں تیسرے آدمی کا مطالعہ کم دلچسپ نہ ہو گا۔ افسانوں میں تیسری شخصیت کی تلاش عموماً مشکل نہیں ہوتی، آپ نے بھی کسی افسانوی تخلیق کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ محسوس کیا ہو گا کہ کبھی کبھی ہیرو اور ہیروئن کی حیثیت تیسری ذات یا شخصیت کی ہو گئی ہے۔ افسانوی کلچر کے مطالعے میں مرکب اور پیچیدہ واقعات کا مطالعہ تیسری شخصیت کے بغیر ممکن نہیں۔ احساسات، جذبات، رویہ، مختلف ہیجانات اور جبلتوں کے اظہار اور حسیاتی کیفیتوں کے تجزیے کے لیے تیسری شخصیت کا سہارا ضروری ہے اس لیے کہ وہی مختلف رجحانات پیدا کرتا ہے۔ جذبات کے اظہار پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کرداروں کے عمل اور ردِ عمل کو متاثر کرتا ہے اور واقعات و پلاٹ میں تیزی، نوکیلاپن اور تیکھا پن پیدا کرتا ہے۔

پریم چند کے افسانوں میں بھی ’’تیسرا آدمی‘‘ توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ ’تیسرے آدمی‘ یا ’تیسری شخصیت‘ کے چند مختلف پہلوؤں کا مطالعہ فنکار کے آرٹ اور اس کی تخلیقی فکر و نظر کی اہمیت کا احساس عطا کرتا ہے۔

نفسیاتی تصادم اور جذباتی تکمیل

پریم چند کی کہانی ’’گھاس والی ‘‘ میں چین سنگھ تیسرا آدمی ہے جو ملیا اور اس کے شوہر مہابیر کے درمیان کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ زمیندار، جوانی کے نشے میں سرشار ملیا کو چھیڑتا ہے۔ تیسرے آدمی میں نفس پروری ہے، رعونت ہے، ہوس پرستی اور خود غرضی ہے۔ ملیا چماروں کے گھر میں اپسرا سے کم نہیں ہے۔

’’صبح کا وقت تھا، ہوا آم کے بور کی خوشبو سے متوالی ہو رہی تھی۔ آسمان زمین پر سونے کی بارش کر رہا تھا۔ ملیا سرپر ٹوکری رکھے گھاس چھیلنے جا رہی تھی کہ دفعتاً نوجوان چین سنگھ سامنے آتا دکھائی دیا۔ ملیا نے چاہا کہ کترا کر نکل جائے مگر چین سنگھ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا ’’ملیا، کیا تجھے مجھ پر ذرا بھی رحم نہیں آتا؟‘‘

چین سنگھ کا یہ ہاتھ دراصل مہابیر کی زندگی کی طرف بڑھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ملیا مہابیر کی بیوی ہے اور ایک سال سے دونوں ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تیسرے آدمی کا ہاتھ کہانی میں تحریک پیدا کرتا ہے۔ اس وقت چین سنگھ یہ نہیں سوچتا کہ اپنی مٹھی میں کسی کی زندگی مسلنا چاہتا ہے، اس کی ہوس پسندی اور خود غرضی اندھی ہے۔ اس لذت اور مسرت کو معراج سمجھ رہا ہے۔دراصل اس کا عقیدہ ہے کہ نیچی ذاتوں میں حسن کا اس کے سوا اور کوئی کام نہیں کہ وہ اونچی ذاتوں کا کھلونا بنے! اس نے ایسے کتنے ہی معرکے جیتے ہیں اس لیے اس کے ہاتھ میں زبردست طاقت پیدا ہو گئی ہے لیکن جب ملیا کا پھول سا چہرہ شعلے کی طرح دہک اٹھتا ہے اور کہتی ہے ’’مجھے چھوڑ دو نہیں تومیں چلاتی ہوں ‘‘ تو چین سنگھ کے ذہن پر ایک چوٹ سی پڑتی ہے۔ ملیا کا غصہ اور اس کا غرور ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آ جاتا ہے۔وہ ملیا کا ہاتھ چھوڑ دیتا ہے۔ مہابیر کی جھونپڑی آگ لگنے سے بچ جاتی ہے۔ دوسرے دن چین سنگھ ملیا کو دیکھتا ہے تو اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں پھر گرمی آ جاتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے جیسے کل جو گرفت ڈھیلی ہو گئی تھی آج پھر اس میں سختی آ جائے گی۔ چین سنگھ ملیا پر نفسیاتی شعاعیں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے:

’’ایشور جانتا ہے کل بھی تجھے ستانے کے لیے تیرا ہاتھ نہیں پکڑا تھا، تجھے دیکھ کر آپ ہی آپ ہاتھ بڑھ گئے۔ مجھے کچھ سدھ ہی نہ رہی تھی۔تو چلی گئی تو میں وہیں بیٹھ کر گھنٹوں روتا رہا۔ جی میں آتا تھا اس ہاتھ کو کاٹ دوں۔ ‘‘

’’روپیہ پیسہ، اناج، پانی، بھگوان کا دیا سب کچھ گھر میں ہے۔ بس تیری دیا چاہتا ہوں۔ میری جوانی کام نہ آوے، اگر میں کسی کھوٹ سے یہ باتیں کہہ رہا ہوں۔ بڑا بھاگوان تھا مہابیر کہ ایسی دیوی اسے ملی۔‘‘

تیسرا آدمی دیکھتے ہی دیکھتے ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔ ملیا کے ایک جملے سے سچائی کا ایسا احساس ملتا ہے کہ رجحان متاثر ہو جاتا ہے۔ ملیا کی بات سے اسے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ’’عورت جتنی آسانی سے دین اور ایمان غارت کر سکتی ہے، اتنی ہی آسانی سے انھیں قوت بھی عطا کر سکتی ہے۔‘‘ پریم چند یہی سمجھانا چاہتے ہیں۔ ملیا کا ہر لفظ چین سنگھ کے طبقے کی زندگی کے سینے میں تیرکی مانند چبھتا ہوا لگتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا اپنا طبقہ ساتھ ہی اس طبقے کی تمام عورتیں اپنے گناہوں کے زخموں کو لیے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ تلملا جاتا ہے۔ ایک دوسری کشتی آ جاتی ہے اور وہ اب دوسری سمت جانے لگتا ہے۔ ملیا کے تصور کو ذہن میں لیے اپنی ذات میں گم! تیسرا آدمی جس طنطنے کے ساتھ ابھرتا ہے، اسی شدت سے ڈھیر ہو جاتا ہے۔ اس میں حیرت انگیز تبدیلی آ جاتی ہے۔ بنیادی رجحان میں ! مزدوروں کو بات بات پر گالیاں دینے والا چین سنگھ خود کو ایک نئی دنیا میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسامیوں اور مزدوروں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ اب کسی کو نہیں ڈانٹتا، کسی کو نہیں پیٹتا، اس کے لہجے میں نرمی ہے، ٹوٹی ہوئی نالی کو خود مٹی سے باندھتا ہے اور کیاری بنانے والی عورت کو کچھ نہیں کہتا۔ اس کے باغ کے بیر مزدور چوری کر کے کھاتے ہیں تو کسی کی مزدوری نہیں کاٹتا، کہتا ہے ’’کیسے بیر ہیں ؟ ذرا مجھے بھی دکھاؤ، میرے ہی باغ کے ہیں نا۔۔۔ جلدی سے آؤ جی، کھڑے کیا ہو، مگر پکی پکی سب میں لے لوں گا، کہے دیتا ہوں اور ذرا ایک آدمی لپک کر گھر سے تھوڑا سا نمک تو لے لو، چھوڑ دو پر، آؤ بیر اٹھاؤ، اس کے باغ کے بیر بہت میٹھے ہوتے ہیں، کام تو کرنا ہی ہے۔‘‘

ابتدا میں ہوس پرست تیسرے آدمی کا ہاتھ مہابیر کی زندگی میں بے چینی پیدا کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے لیکن ایک ہی روز میں اسے لگتا ہے جیسے ملیا کے لیے اس کے دل میں واقعی جگہ ہے۔ ملیا کی وفاداری اور شوہر پرستی سے متاثر ہوتا ہے۔ اس کے دل میں ملیا کی شخصیت کا احترام بڑھ جاتا ہے اور اس کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔

دوسری منزل بہت ہی نازک ہے لیکن چین سنگھ خود کو سنبھال کر آگے بڑھ جاتا ہے، جو ہاتھ ملیا کی طرف بڑھا تھا وہ کٹ چکا ہے۔ اب دوسرا ہاتھ ہمدردی کے لفظوں کو لے کر آگے بڑھتا ہے۔ ملیا کی محبت مہابیر کی زندگی سے دلچسپی لینے پر مجبور کرتی ہے، غیر شعوری طور پر ہاتھ آگے بڑھاتا ہے۔ اس تیسرے آدمی کی جذباتی زندگی کی یہ تیسری منزل ہے کہ جہاں اپنے آپ کو غیر شعوری طور پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مہابیر سے کہتا ہے: ’’دو چار بیگھے کی کھیتی کیوں نہیں کر لیتے، کھیت مجھ سے لے لو۔‘‘

کچہری میں ملیا کو گھاس بیچتے ہوئے دیکھتا ہے۔ بنی ٹھنی بیٹھی ہے۔ کوئی اسے گھور رہا ہے۔ کوئی مذاق کر رہا ہے۔ ایک ادھیڑ کوچوان فٹن کے اوپر سے کہتا ہے: ’’تیرا جمانا ہے بارہ آنے نہیں، ایک روپیہ مانگ بھائی۔ لینے والے جھک ماریں گے اور لیں گے۔ نکلنے دو وکیلوں کو، اب دیر نہیں۔ ‘‘ پریم چند چین سنگھ کا جائزہ لیتے ہیں :

’’چین سنگھ کو ایسا غصہ آ رہا تھا کہ ان بدمعاشوں کی جوتوں سے خبر لے۔ سب کے سب اس کی طرف ٹکٹکی لگائے تاک رہے ہیں، گویا آنکھوں سے پی جائیں گے اور ملیا بھی یہاں کتنی خوش ہے، نہ لجاتی ہے، نہ جھجکتی ہے، نہ بگڑتی ہے، کیسا مسکرا مسکرا کر رسیلی چتونوں سے دیکھ دیکھ کر سرکا آنچل کھسکا کھسکا کر، منہ موڑ موڑ کر باتیں کر رہی ہے۔ وہی ملیا جو شیرنی کی طرح تڑپ اٹھتی تھی۔‘‘

چین سنگھ ملیا کی زندگی کو اپنا المیہ سمجھنے لگتا ہے۔ غیر شعوری طور پر یہ نہیں چاہتا کہ چاند کی روشنی پر سیاہ بادل آئیں۔ بنیادی کمزوری پر اس کی نظر پہنچ چکی ہے۔ دیکھتا ہے کہ وکیل اور مختار نکلے۔ کوچوانوں نے بھی چٹ پٹ گھوڑے جوتے، ملیا پرچاروں طرف عینک بازوں کی مشتاق، مستانہ، قدر دانہ، ہوس ناک نظریں پڑنے لگیں۔ ایک انگریزی فیشن کا بھلا آدمی آ کر فٹن پر بیٹھ جاتا ہے اور ملیا کو اشارے سے بلاتا ہے۔ کچھ باتیں ہوتی ہیں۔ ملیا گھاس پائدان کے پاس رکھتی ہے۔ ہاتھ پھیلا کر اور منہ موڑ کر کچھ لیتی ہے اور پھر مسکرا کر چلی جاتی ہے۔ جب مہابیر کا یکہ آتا ہے تو چین سنگھ اس پر بیٹھتے ہوئے پوچھتا ہے: ’’آج کتنے پیسے کمائے مہابیر؟‘‘

مہابیر ہنس کر کہتا ہے: ’’آج تو مالک دن بھر کھڑا ہی رہ گیا۔ کسی نے بیگار میں بھی نہ پکڑا اور اوپر سے چار پیسے کی بیڑیاں پی گیا!‘‘

چین سنگھ بے چین ہے۔ جس جھونپڑی کی جانب اس نے ہاتھ بڑھا کر کھینچ لیا تھا اس پر کسی اور کا ہاتھ دیکھنا نہیں چاہتا۔ مہابیر سے ہمدردی دراصل ملیا کو اس زندگی سے نکال لینے کے لیے پیدا ہوتی ہے۔ یہ تیسرا آدمی ذرا پس و پیش کے بعد کہتا ہے:

’’میری ایک صلاح مانو، عزت ہماری اور تمہاری ایک ہے۔ تم مجھ سے ایک روپیہ روز لے لیا کرو، بس جب بلاویں تو یکہ لے کر آ جاؤ۔ تب تو تمہاری گھر والی کو گھاس لیکر بازار نہ آنا پڑے گا۔ بولو منظور ہے۔‘‘

اس کے جملوں میں حسرت بھی ہے اور آرزو بھی۔ اذیت کو لذت آمیز مسرت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اب دھندلی روشنی میں ملیا کی مٹتی ہوئی تصویر اطمینان سے دیکھ رہا ہے۔ اس تیسرے آدمی کی شخصیت کے چڑھاؤ اور اتار، کردار کی نفسیاتی الجھن اور اس کی جذباتی زندگی کی تکمیل کی خواہش پریم چند کے فن کی عظمت کا ثبوت ہے۔ چین سنگھ میں جو تبدیلی آتی ہے وہ اچانک ضرور ہے لیکن میکانکی نہیں ہے۔ کسی تیز چوٹ کا ایسا ردِ عمل ہوتا ہے۔ نفسیات کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں تو جبلتوں کا اظہار اس طرح بھی ہوتا ہے۔ اچانک ’شاک‘(Shock)لگنے اور حسن کی چاہت کے دل میں بیٹھ جانے کی وجہ سے یہ ردِ عمل فطری ہے۔ جنس بیدار تو ہوتا ہے لیکن ایک پیاری سی آرزو میں تبدیل ہو کر لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے۔ انسان کی نفسیات کا یہ پہلو جاذبِ نظر بن گیا ہے۔ اس تیسرے آدمی کے ردِ عمل کے پیشِ نظر کئی سوالیہ نشان اُبھرتے ہیں اور یہی اس مختصر افسانے کا حسن ہے۔

الفاظ کی زنجیر

بھون داس گپتا بھی ایک تیسرا آدمی ہے جو معاشرے میں پائی جانے والی عام تیسری ذات یا شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ صرف اپنی موجودگی سے شدید قسم کا ذہنی اور ڈرامائی تصادم پیدا کر دیتا ہے۔ پدما کی زندگی میں داخل ہو کر لمحوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ لیکن ہمدردی کے لفظوں کی زنجیر بھی کام نہیں آتی۔ ہاں اس کی ذات پدما کے شوہر ونود کو غلط فہمی میں مبتلا ضرور کر دیتی ہے کہ جس سے اس مختصر افسانے کا ڈراما پیدا ہوتا ہے۔ اس شخص کی وجہ سے ازدواجی زندگی بدگمانی کی بوجھل فضا میں دَم توڑتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ شادی کے بعد پدما سمجھتی ہے جیسے شوہر کے ذریعہ تمام مسرتوں اور خوشیوں کو حاصل کر رہی ہے۔ لکھتی ہے:

’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ ونود کے ساتھ میں کسی سنسان جنگل میں اتنے ہی سکھ سے رہتی، انھیں پا کر اب مجھے کسی شے کی خواہش نہیں۔ ‘‘

کچھ عرصہ بعد اس کا خیال یہ ہے:

’’مجھے ایسا شک ہو رہا ہے کہ ونود نے میرے ساتھ دغا کی۔ان کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں جتنا میرا خیال تھا۔ صرف مجھے ٹھگنے کے لیے یہ سوانگ بھرا تھا۔ یہ سوانگ اس لیے بنایا گیا تھا کہ کوئی شکار پھنس جائے۔ اب دیکھتی ہوں کہ ونود مجھ سے اپنی اصلی حالت چھپانے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ ‘‘

ایک سال کے اندر ہی بدگمانی پیدا ہو جاتی ہے۔ ونود کھویا کھویا سا رہتا ہے اور پدما اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ اپنے شوہر سے ہمدردی بھی نہیں کر سکتی۔ سمجھتی ہے اس کا شوہر اسے محض ریشمی گڑیا تصور کرتا ہے۔ ونود گھریلو زندگی میں دلچسپی نہیں لیتا۔ پدما ملازموں کو ہٹا دیتی ہے اور چند دوسری مشکلات پیدا کر کے شوہر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کرتی ہے۔ا س کی خواہش ہے کہ اس کے انتظام پر ونود تنقیدی نظر ڈالے۔ عیب نکالے، مہینے کے خرچ کا بجٹ بتاتے ہوئے دونوں کے درمیان بحث ہو مگر کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی۔

بھون موہن داس گپتا ایک فلم شو میں ملتا ہے توپدما ونود کو جلانے کے لیے اس سے مسکرا مسکرا کر باتیں کرتی ہے۔ گھنٹوں کیفے میں اس کے ساتھ بیٹھتی ہے۔ لیکن اسے سخت حیرت ہے کہ اس کا کوئی اثر ونود پر نہیں ہوتا۔ بھون یہ سمجھتا ہے کہ شکار ہاتھ آیا ہے اور اب وہ تیسرے آدمی کی صورت پدما اور ونود کے درمیان آ جاتا ہے۔ پدما اسے گھر بلانے لگتی ہے۔ بظاہر ونود کوئی اثر نہیں لیتا۔ کھانے کی میز پر ونود اور بھون میں شادی کے مسئلے پر گفتگو ہوتی ہے۔ ونود کہتا ہے کہ وہ عورت اور مرد دونوں کی مکمل آزادی کا قائل ہے۔ پدما کے ذہن پراس کا اچھا اثر نہیں ہوتا۔ وہ بھون کے سامنے رونے لگتی ہے۔ سمجھتی ہے ونود کا دل اس سے بھر چکا ہے۔ لکھتی ہے:

’’اگر میں تنہا ہوتی تو کبھی نہ روتی مگر بھون کے سامنے اپنے آپ پر قادر نہ رہ سکی۔‘‘

یہ تیسرا آدمی اسی لمحے کی تلاش میں ہوتا ہے:

’’بھون نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ ناحق اس قدر غم کرتی ہیں۔ مسٹر ونود خواہ آپ کی قدر نہ کریں مگر دنیا میں کم از کم ایک ایسی ہستی بھی ہے جو آپ کے اشارے پر جان تک نثار کر سکتی ہے۔ آپ جیسا گراں بہا رتن پا کر دنیا میں کون ایسا شخص ہے جو اپنی قسمت پر نازاں نہ ہو گا، آپ قطعی فکر نہ کریں۔ ‘‘

پدما بھون کی باتوں سے پریشان ہو جاتی ہے۔ اس نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا۔ وہ اپنی نفسیاتی پیچیدگیوں کو اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔ بھون کی یہ بات اسے سخت ناگوار گزرتی ہے۔ غصے سے چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ تیسرا آدمی پدما کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور پدما کو اپنی ذات سے الجھن سی ہونے لگتی ہے۔ سوچتی ہے:

’’ابھی شادی ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا اور میری یہ حالت ہو گئی کہ دوسروں کو مجھے بہکانے اور مجھ پر اپنا جادو چلانے کا حوصلہ ہو رہا ہے۔‘‘

وہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ آنسو پونچھتے ہوئے کہتی ہے: ’’میں آپ سے معافی کی خواستگار ہوں۔ ذرا آرام کرنے دیجیے۔‘‘ یہ تیسرا آدمی اس نازک اور غنیمت لمحے کو جانے دینا نہیں چاہتا لہٰذا اپنے الفاظ کی زنجیر پھینکتا ہے:

’’ہاں ہاں، آپ آرام کریں۔ میں بیٹھا رہوں گا۔‘‘

زنجیر کی ایک کڑی اس طرح ٹوٹتی ہے۔ ’’جی نہیں، آپ مہربانی فرما کر تشریف لے جائیں، اس طرح مجھے آرام نہ ملے گا۔‘‘

وہ زنجیر اس طرح پھر آگے بڑھتی ہے: ’’بہت اچھا، آپ آرام کریں، میں شام کو آ کر دیکھ جاؤں گا۔‘‘ دوسری کڑی بھی ٹوٹ جاتی ہے ’’جی نہیں، آپ کو تکلیف فرمانے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ اس طرح باقی دوسری کڑیاں بھی ٹوٹنے کو تیار ہیں۔ تیسرا آدمی ہمت کر کے کہتا ہے: ’’اچھا تومیں کل آؤں گا، شاید راجہ صاحب بھی تشریف لائیں۔ ‘‘

’’نہیں !وہ اس چوٹ سے ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ تیسرے آدمی کے سامنے پدما ایک معمہ بن جاتی ہے، وہ چلا جاتا ہے لیکن دو تین بار آ کر پھر اسی ماحول کا خواہش مند نظر آتا ہے۔ پدما ملنے سے صاف انکار کر دیتی ہے اور یہ تیسرا آدمی ہلچل پیدا کر کے گم ہو جاتا ہے۔

ونود عورتوں کی آزادی کا قائل ہے لیکن پدما کی حرکتیں اسے بدگمان کر دیتی ہیں۔ وہ پدما کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ پدما نے جو کچھ کیا وہ اسے قریب لانے کے لیے ہے۔ ونود گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور ایک طویل خط رکھ جاتا ہے۔ اس تیسرے آدمی کو پا کر خود کو پدما اور بھون کے راستے کی رکاوٹ تصور کرتا ہے، لکھتا ہے:

’’دو چار دن پیشتر ہی مجھ پر یہ انکشاف ہوا ہے اس لیے اب میں تمہارے سکھ کے راستہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں کہیں بھاگ کر نہیں جا رہا ہوں۔ صرف تمہارے راستہ سے ہٹا جا رہا ہوں کہ تمھیں میری طرف سے پوری بے فکری ہو جائے۔ اگر میرے بغیر تمہاری زندگی زیادہ خوبصورت اور شاندار ہو سکتی ہے تومیں تمھیں جبراً رکھنا نہیں چاہتا۔‘‘

پریم چند نے پدما اور ونود دونوں کی غلط فہمیوں، بدگمانیوں اور نفسیاتی الجھنوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔اس تیسرے آدمی پر ونود کو شبہ ہے کہ پدما اس کے ساتھ ہنسی خوشی زندہ نہیں رہ سکتی۔۔۔لکھتا ہے:

’’دنیا میں محبت کا سوانگ بھرنے والے شبدوں کی کمی نہیں ہے۔ان سے بچ کر رہنا، ایشور سے یہی پرارتھنا کرتا ہوں۔ ‘‘

پدما جو جادو جگا رہی تھی اب اس میں کوئی اثر نہیں رہا۔ دونوں ایک دوسرے کو غلط سمجھتے رہے۔ پدما نے جان بوجھ کر اس تیسرے آدمی کو زندگی میں داخل کیا اور اس نے نازک وقت سے فائدہ اٹھانا چاہا لیکن اس کے لیے کوئی بنیاد نہیں تھی۔ جسے وہ بنیاد تصور کر رہا تھا وہ غلط فہمی کی ایک نازک کمزور اینٹ تھی۔ اس افسانے میں ونود کی غلط فہمی بھی ایک تیسری شخصیت کسم کی وجہ سے دور ہو جاتی ہے اور وہ پھر پدما کے قریب آ جاتا ہے۔ بھون چونکہ آنکھوں کا برا اور دل کا اچھا ہے اس لیے اس غلط فہمی کو دور کرنے میں بڑی صاف گوئی سے کام لیتا ہے۔

شیش محل

’’حقیقت ‘‘ میں امرت اور پورنما کی محبت کے درمیان ایک ادھیڑ، مغرور اور بدمزاج شخص ملتا ہے جو پورنما سے شادی کر لیتا ہے۔ اس طرح اس تیسرے آدمی کی وجہ سے پورنما امرت سے دور ہو جاتی ہے۔ تین سال کے اندر امرت کی بھی شادی ہو جاتی ہے۔ پورنما جب میکے آتی ہے تو گود میں ایک دو سال کا پیارا سا بچہ بھی ہے۔ امرت کے دل میں پورنما کی محبت تھرمامیٹر کے پارے کی طرح محفوظ ہے لہٰذا پورنما کو دیکھتے ہی تین سال پیچھے چلا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تین سال کے اندر پورنما شوہر پرست بن چکی ہے۔ ہندوستانی لڑکی شادی کی پہلی رات ہی سے شوہر کو اپنا دیوتا سمجھتی ہے۔ تین سال قبل امرت اور پورنما کی زندگی میں وہ ادھیڑ، مغرور اور بدمزاج شخص تیسرا آدمی تھا اب تین سال بعد پورنما اور اس کے شوہر کے درمیان امرت کی حیثیت تیسرے آدمی کی ہو جاتی ہے!

تینوں کہانیوں ’’گھاس والی‘‘، ’’دو سکھیاں ‘‘ اور ’’حقیقت‘‘ میں تیسرے آدمی کی شخصیت کے تین مختلف پہلو ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ امرت کو اپنے عمل کے تئیں ایک قسم کی بے خبری ہے۔ ماضی کے تجربوں میں خود کو وہی امرت اور پورنما کو وہی پورنما سمجھتا ہے اور ماضی کو اپنے وجود پر طاری کر لیتا ہے۔ ادھر پورنما ہے جو اپنے دیوتا کی پرستش میں گم ہے۔ امرت، اس کے بچے کو دن بھر اپنے کندھے پر بٹھائے ٹہلاتا پھرتا ہے اور بازار سے کھلونے اور مٹھائیاں لے آتا ہے۔ جب بچے سے یہ پوچھتا ہے: ’’تم کس کے بیٹے ہو؟‘‘ اور بچہ جواب دیتا ہے ’’ٹمالے‘‘ تو متوالا ہو جاتا ہے۔ غیر شعوری طور پر ماضی کے تجربوں کی روشنی میں اپنے جذبات یا اپنی جذباتی زندگی کی تکمیل کرتا ہوا امرت تیسرے آدمی کے روپ میں توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔

امرت کی عمر چالیس سال سے آگے نکل چکی ہے۔ اس کے لڑکے بڑے ہو گئے ہیں۔ پورنما بھی تین بچوں کی ماں بن گئی ہے اور اس کا ایک لڑکا اسکول میں پڑھنے لگا ہے۔ ایسے وقت میں پورنما کے شوہر کا انتقال ہوتا ہے تو امرت کو افسوس نہیں ہوتا۔ غیر شعوری طور پر مطمئن ہو جاتا ہے۔

’’اس خبیث شوہر کے ساتھ پورنما کی زندگی قابلِ رشک نہیں ہو سکی۔ فرض کی مجبوری اور عصمت پروری کے لحاظ سے پورنما نے کبھی اپنے سوزِ جگر کا اظہار نہیں کیا۔ مگر یہ غیر ممکن ہے کہ آرام اور فارغ البالی کے باوجود اسے اس مکروہ صورت انسان سے کوئی خاص محبت رہی ہو۔‘‘

پریم چند نے انسان کی جبلت اور نفسیات کی گہرائیوں میں اتر کر جس طرح ٹٹولا ہے اس سے یہ تیسرا شخص ایک یادگار کردار بن گیا ہے۔ امرت جب تیسرا آدمی بنتا ہے تو پورنما کے جذبات، اس کی شوہر پرستی اور اس کے خیالات پر غور نہیں کرتا۔ اپنے جذبوں کو پورنما کے جذبوں سے ہم آہنگ تصور کرنے لگتا ہے اور یہی اس اس کا المیہ ہے۔ پورنما کے شوہر کے انتقال کے بعد اتنا مطمئن ہو جاتا ہے کہ اپنے تخیل کے بت کدے میں خواہشوں کے چراغ روشن کرنے لگتا ہے:

’’پورنما بھی اب آزاد ہے۔ تقاضائے سن نے یقیناً اسے زیادہ مہر پرور بنا دیا ہو گا۔ وہ شوخی اور اکھڑ پن اور بے نیازی تو کب کی رخصت ہو چکی ہو گی۔ اس دوشیزگی کی جگہ اب آزردہ کار نسائیت ہو گی جو محبت کی قدر کرتی ہے اور اس کی طلب گار ہوتی ہے۔‘‘

ان جملوں سے اس تیسرے آدمی کے ذہن کی کیفیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ سوچتا ہے وہ پورنما کے گھر ماتم پرستی کرنے جائے گا اور اسے اپنے ساتھ لائے گا اور اس کے مکان میں جو خدمت ہو گی کرے گا۔ اب اسے پورنما کے محض قرب سے تشفی ہو جائے گی۔ اس کے منہ سے یہ سن کر تشفی پائے گا کہ وہ اب بھی اسے یاد کرتی ہے۔ اب بھی اس سے وہی بچپن کی سی محبت ہے۔ پورنما کے نا آسودہ ذوقِ محبت کو اپنی ناز برداریوں اور گرم جوشیوں سے محظوظ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی پچھلی فروگذاشتوں کی تلافی ہو جائے۔ اس طرح پریم چند نے اس مرکزی کردار کی نقاب کشائی کی ہے۔

یہ تیسرا آدمی ہمدردی کا مستحق ہے۔ اس کا شیش محل اس وقت ٹوٹتا ہے جب پورنما آتی ہے۔ ’بچپن اور شباب کی شیریں اور پر مسرت اور پر شوق یادوں کو دل کے دامن میں سنبھالتا ہوا امرت دوڑتا ہے جیسے کوئی بچہ اپنے ہم جولی کو دیکھ کر اپنے ٹوٹے پھوٹے کھلونے لے کر دوڑے۔‘‘ لیکن سفید ساڑی، جھکی کمر، ابھری ہوئی رگیں اور زرد رخسار دیکھ کر شیش محل کا ایک ایک شیشہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ پورنما کو دیکھنا چاہتا تھا، کفن میں لپٹی ہوئی لاش کو نہیں۔ اس نے اپنے دل میں مٹی کا ایک دیوتا بنایا تھا اور پورنما نے ایک انسان کو اپنا دیوتا بنا لیا تھا دونوں میں بڑا فرق تھا۔ اس تیسرے آدمی کا سر جھک جاتا ہے۔ اس کے ذہن کی کیفیتوں کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوتا۔

اس افسانے میں امرت کا المیہ تخیل اور تخیلی عمل کا سنجیدہ اظہار ہے جو اپنے طور پر مکمل ہے۔ فنکار نے محسوسات کے ذریعہ المیہ کے جوہر کو نمایاں کر دیا ہے۔ تیسرے آدمی کے جذبات کی جو ’کتھارسس‘ ہوتی ہے وہی اس مختصر افسانے کا حسن اور جلوہ ہے۔

دہقانی

’’نئی بیوی‘‘ میں لالہ ڈنگا مل نئی شادی کرتے ہیں۔ ان کی عمر ۴۵ سے زیادہ ہے۔ نئی بیوی آشا کو ہر وقت سنگار کرتے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ معمولی کپڑوں میں رہتی ہے۔ چاہتے ہیں کہ آشا انھیں ’آپ‘ نہیں ’تم‘ کہے لیکن آشا توجہ نہیں دیتی۔ لالہ جی کی باتوں میں اس کے لیے کسی قسم کی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ لالہ ہر روز سینما، تھیٹر، دریا کی سیر اور تفریح کا تقاضا کرتے ہیں اور آشا ٹال جاتی ہے۔ جب بوڑھا مہاراج بیمار ہو کر گھر چلا جاتا ہے تو اس کی جگہ ایک سولہ سترہ سال کا لڑکا جگل آتا ہے۔ اس کا قدم ایک تیسرے آدمی کا قدم ہے۔ اُجڈ اور دہقانی ہے۔ آشا جگل سے دلچسپی لیتی ہے۔ جگل کہتا ہے: ’’آپ ڈانٹ دیتی ہیں بہو جی تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ سیٹھ جی کتنا ہی گھڑکیں مجھے ذرا بھی صدمہ نہیں ہوتا۔‘‘

جگل کے آتے ہی آشا میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس کی خواہش پر خوبصورت ساڑیاں پہنتی ہے اور موتیوں والا ہار بھی۔ خود کو زیورات سے آراستہ کرتی ہے۔ لالہ جی سمجھتے ہیں ان کی باتوں کا اب اثر ہو رہا ہے۔ جب جگل یہ کہتا ہے: ’’آج آپ بہت سندر لگ رہی ہیں۔ ‘‘ تو آشا کے سارے جسم میں رعشہ سا آ جاتا ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ بوڑھے مہاراج کے آنے کے بعد جگل چلا جائے۔ آشا اور جگل دونوں دن بھر باورچی خانے میں بیٹھے اشاروں اور کنایوں میں باتیں کرتے ہیں اور جذباتی رشتہ قائم ہونے لگتا ہے۔ ایک روز بوڑھے شوہر کا مسئلہ سامنے ہے۔ دونوں اپنی باتیں اشاروں میں کر رہے ہیں کہ لالہ جی آ جاتے ہیں۔ آشا یہ کہتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے ’’لالہ کھانا کھا کر چلے جائیں گے، تم ذرا آنا‘‘ ’جنس‘ یا ’سیکس‘ کے موضوع پر یہ پریم چند کی نمائندہ کہانی ہے۔ تیسری شخصیت سے انسانی نفسیات کی گرہیں کھلتی ہیں۔ آخری جملہ سرگوشیاں کرتا ہے۔ اس افسانے میں ’تیسرا آدمی‘ ایک دوسرے انداز سے پیش ہوا ہے۔ یہ تیسرا آدمی اس بات کو سمجھانے کا محرک بن جاتا ہے کہ عورت اور مرد دونوں دلکش ’’فینومینا‘‘ میں اپنے عمل سے نظر باندھ سکتے ہیں۔ تیسری شخصیت سے ایک نئی لذت آمیز زندگی کی تخلیق کا اشارہ ملتا ہے۔

پرچھائیں

شوہر کے انتقال کے بعد عورت تنہا نہیں رہتی اس لیے کہ شوہر کی یاد ساتھ رہتی ہے۔ اس یاد کو وہ سینے سے لگائے سانس لیتی ہے۔ ’’مالکن‘‘ کی رام پیاری بھی بیوہ ہے۔ سماجی زندگی کا تقاضا ہے کہ بیوہ کی طرح رہے۔ گھر سنبھالے۔ ایک ایک فرد کا خیال رکھے۔ سماجی زندگی اور رام پیاری کے درمیان جوکھو آتا ہے۔ وہ اس کی ذات سے دلچسپی لیتی ہے۔ اس تیسری شخصیت کی ایک ایک بات اسے اچھی لگتی ہے۔ جوکھو شادی کے مسئلے پر بات کرتا ہے اور رام پیاری گہری دلچسپی لیتی ہے۔ چاہتی ہے وہ اس مسئلے پر خوب باتیں کرے اور یہ بتائے کہ وہ کیسی بیوی چاہتا ہے۔ تیسرا آدمی اپنی پسند کا اظہار اس طرح کرتا ہے ’’اچھا تو سنو، میں چاہتا ہوں کہ وہ تمہاری طرح ہو، ایسی ہی لجانے والی ہو، ایسی ہی بات چیت میں ہوشیار ہو، ایسا ہی کھانا پکاتی ہو، ایسی ہی کفایت شعار ہو، ایسی ہی ہنس مکھ ہو، بس ایسی عورت ملے تو بیاہ کروں گا، نہیں تو اسی طرح پڑا رہوں گا‘‘ پیاری کا چہرہ شرم سے سرخ ہو جاتا ہے، پیچھے ہٹ کر کہتی ہے:

’’تم بڑے دل لگی باج ہو، ہنسی ہنسی میں سب کچھ کہہ گئے۔‘‘

رام پیاری کی جذباتی زندگی، زندگی کے المیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور یہی اس افسانے کا حسن ہے۔ تیسرے آدمی کی پرچھائیں عورت کے بنیادی رجحان پر اثر انداز ہوتی ہے اور نفسیاتی رویے کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

’’نئی بیوی‘‘ اور ’’مالکن‘‘ میں جذباتی زندگی کم و بیش ایک ہی انداز سے پیش ہوئی ہے۔ دونوں افسانوں میں تیسرے آدمی کے کردار کے عمل سے باتیں کہہ دی گئی ہیں۔

جال!

’’ستی ‘‘ میں تیسرے آدمی کا ایک اور پہلو ابھرتا ہے۔ یہ شخص پر آشوب اور تباہ کن واقعے (Catastrophic Incident)کا ذمہ دار بن جاتا ہے۔ ملیا کلو کی بیوی ہے جو خوبصورت ہے۔ کلو ملیا کے لیے کوڑی ہے اور ملیا کلو کے لیے جواہر اس لیے کلو کو اندیشہ ہے۔ خصوصاً اپنے چچا زاد بھائی راجہ سے۔ راجہ اس افسانے کا تیسرا آدمی ہے۔ خوبصورت اور رنگین مزاج۔ باتیں کرنے میں چالاک اور خصوصاً عورتوں کو رجھانے میں ماہر۔ کلو اس تیسرے آدمی کی پرچھائیں سے ملیا کو دور رکھتا ہے۔ وہ باہر نہیں جاتی۔ کلو شب و روز محنت مزدوری کرتا ہے تاکہ ملیا کوکسی بات کی تکلیف نہ ہو اور اس کی محبت حاصل رہے۔ ملیا بھی اپنے شوہر کو پسند کرتی ہے۔ جب تک شوہر گھر نہیں آ جاتا بے چینی سے انتظار کرتی رہتی ہے۔ اپنے ہی گھر میں راجہ سے ملاقات ہوتی ہے تو راجہ کہتا ہے: ’’بھابی، بھیا تمہارے قابل نہیں ہیں۔ ‘‘

اس تیسرے آدمی کے تیر کو پہچاننا مشکل نہیں ہے۔ ملیا کا جواب سن کر راجہ سمجھتا ہے کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے۔ ملیا کا جواب یہ ہے ’’قسمت میں تو وہی لکھے ہوئے تھے، تمھیں کیوں کر پاتی۔‘‘ راجہ اُس کے لیے چندری خریدتا ہے اور تاکید کرتا ہے اسے کلو نہ دکھائے۔ کلو راجہ کو دیکھ کر بدگمان ہو جاتا ہے۔ ملیا سوچتی ہے کہ ذرا سا ہنس دینے سے اگر کسی کا دل خوش ہو جائے تو کیا حرج ہے لیکن کلو کی بدگمانی محسوس کر کے اسے اچھا نہیں لگتا۔ وہ بھیانک خواب دیکھتی ہے اور پریشان ہو کر اپنے شوہر کو جگا بوٹمزا دیتی ہے۔ اسی رات وہ اس راز کو راز رہنے نہیں دیتی کہ راجہ نے اسے چندری خرید کر دی ہے۔ کلو جو اس تیسرے آدمی سے بدگمان تھا اب ملیا کی جانب سے بھی بدگمان ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈی سانس لے کر کہتا ہے ’’روپ تو میرے بس کی بات نہیں ہے۔ بھگوان نے بدصورت بنا دیا تو سندر کہاں سے ہو جاؤں ‘‘ کلو کی زندگی اداس ہو جاتی ہے۔ تیسرے آدمی کے بڑھتے ہوئے ہاتھ دیکھ کر اپنی زندگی سے گریز کرتا ہے۔ گھر سے دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔ملیا تاڑی پی کر غم کو بھولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کلو دور ہی رہتا ہے۔راجہ جس انگریز کے یہاں ملازم ہے اس کا تبادلہ ہوتا ہے اور راجہ اُس کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ اس طرح ہم سمجھتے ہیں کہ تیسرا آدمی درمیان سے ہٹ گیا۔کلو کی بیماری سے ملیا پریشان رہتی ہے۔ کلو، راجہ اور اس کے تعلقات کے بارے میں دریافت کرتا ہے تو ملیا اس کی غلط فہمی دور کرتی ہے۔ چند ماہ بعد راجہ پھر آتا ہے۔ جب اُسے کلو کی مہلک بیماری کی خبر ملتی ہے تو خوش ہو جاتا ہے اور ملیا سے مل کر کہتا ہے: ’’بھابی کیا اب بھی مجھ پر مہربانی نہ ہو گی؟ کتنی بے رحم ہو تم، کئی دن سے تمھیں تلاش کر رہا ہوں مگر تم مجھ سے بھاگی، پھرتی ہو، بھیا اب اچھے نہ ہوں گے، انھیں گرمی ہو گئی ہے۔ ان کے ساتھ کیوں اپنی زندگی خراب کر رہی ہو۔تمہارا گلاب سا بدن سوکھ گیا ہے۔ میرے ساتھ چلو، زندگی کے مزے اڑائیں گے۔ یہ جوانی بہت دن نہیں رہے گی۔ یہ دیکھو تمہارے لیے کرن پھول لایا ہوں۔ ذرا پہن کر دکھاؤ‘‘ ملیا اس تیسرے آدمی کی باتوں سے پریشان ہو جاتی ہے۔ اس کی ذہنی کشمکش کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہتی ہے:

’’لالہ، تمہارے پیروں پڑتی ہوں، مجھے مت چھیڑو، یہ ساری مصیبت تمہاری ہی لائی ہوئی ہے۔ تمھیں میرے دشمن ہو۔ پھر بھی تمھیں شرم نہیں ہوتی۔ کہتے ہو بھیا اب کس کام کے ہیں۔ مجھے تو اب وہ پہلے سے زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

کلو کے مرنے کے بعد راجہ پھر سنبھالا لیتا ہے اور ملیا کو پھانسنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اب ملیا کو راجہ سے نفرت ہو چکی ہے۔ لہٰذا ملیا کا جواب سن کر راجہ واپس چلا جاتا ہے۔ اس تیسرے آدمی کی واپسی اس وقت ہوتی ہے جب ملیا کی دنیا لٹ چکی ہوتی ہے۔

تعلیم یافتہ

روپ چند بھی ایک ’تیسرا آدمی‘ ہے جو ’’نگاہِ ناز‘‘ (پریم بتیسی، حصہ اول، ص۴۱) میں گوپال کی بیوی کامنی سے محبت کرتا ہے۔ کامنی بھی اس پر فریفتہ ہے۔ دونوں ہر شام ملتے ہیں۔ محبت کا اندازہ ان جملوں سے کیا جا سکتا ہے:

’’ٹھیک بتلاؤ کب آؤ گے؟‘‘

’’گیارہ بجے، مگر احاطہ کا پچھلا دروازہ کھلا رکھنا‘‘

’’اسے میری آنکھیں سمجھو!‘‘

روپ چند تعلیم یافتہ ہے۔ نوجوان ہے اور سنسکرت کا شاستری، انگریزی کا ایم اے اور فارسی اردو سے اچھی طرح واقف۔ لکھنؤ کے ایک بڑے لوہے کے کارخانے میں منیجر ہے۔ گھر میں خوبصورت بیوی اور دو پیارے بچے ہیں۔ دوستوں میں عزت ہے، شباب کی مستی‘‘ ہے اور نہ ’’مزاج کا چھچھورا پن‘‘ یوں تو عیال داری کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود کامنی سے عشق کرتا ہے۔ چھپ چھپ کر ملتا ہے۔کامنی نئی روشنی کی عورت ہے۔ آزاد ہے۔ دونوں کی پہلی ملاقات الفریڈ تھیٹر میں ہوتی ہے۔ کامنی کے حسن اور اس کی چنچل طبیعت سے چند بہت متاثر ہوتا ہے۔ بات آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہے۔ پہلے نگاہوں کی سرگوشیاں پھر اضطراب کا دور اور فتہ رفتہ وصال کے دن! کامنی روپ چند کو البیلے اور پیارے پیارے خط لکھتی ہے۔ فراق میں تڑپتی ہے۔ ’’اِن گنے گنائے لمحوں میں جدائی کا دکھ مت دو، آؤ جس قدر جلد ممکن ہو اور گلے سے لگا کر میرے دل کی جلتی ہوئی آگ کو بجھاؤ‘‘ روپ چند کو اس طرح یاد کر کے اپنے شوہر گوپال کو خط لکھتی ہے ’’تمہارے دومحبت نامے آئے مگر افسوس ہے کہ میں ان کا جواب نہ دے سکی۔۔۔ میرے لیے ایک اپنی پسند کا گاؤن بنوا کر بھیج دو۔ ضرورتیں تو اور بھی بہتیری ہیں مثلاً کانوں کے آویزے، جھوٹے اور بے آب ہو گئے ہیں۔ ‘‘ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ روپ چند کی شخصیت اس کے دل و دماغ کو کس حد تک متاثر کر چکی ہے۔ اپنے شوہر کو پیار کا ایک جملہ بھی نہیں لکھتی۔ ایک روز روپ چند رات کو کامنی سے ملنے آتا ہے اور کامنی کے بھائی پنڈت کیلاش ناتھ اسے پکڑ لیتے ہیں۔ مقدمہ چلتا ہے تو بہت سی باتیں سامنے آ جاتی ہیں۔ کامنی کا بیان بہت ہی مختصر ہے، جج سے کہتی ہے:

’’میں اپنے کمرہ میں رات کو سو رہی تھی۔ کوئی ایک بجے کے قریب چور چور کا غل سن کر چونک پڑی اور اپنی چارپائی کے قریب چار آدمیوں کو ہاتھا پائی کرتے ہوئے پایا۔ میرے بھائی صاحب دو چوکیداروں کے ساتھ ملزم کو پکڑے ہوئے تھے اور وہ اپنے تئیں ان سے چھڑا کر بھاگنا چاہتا تھا۔ میں تیزی سے اٹھ کر برآمدے میں نکل آئی اس کے بعد میں نے چوکیداروں کو مجرم کے ساتھ پولیس اسٹیشن کی طرف جاتے دیکھا۔‘‘

اس بیا ن سے ’’تیسرے آدمی‘‘ کو سخت چوٹ پہنچتی ہے۔ سوچتا ہے کہ یہ وہی کامنی ہے جس نے آنکھوں میں آنسو لیے کتنی بار کہا میں تمہاری ہو گئی، جب وکیل جرح کے سوالات کرتے ہوئے کامنی سے یہ پوچھتا ہے ’’کیا تم حلفاً کہہ سکتی ہو کہ تم نے اسے محبت آمیز خطوط نہیں لکھے؟‘‘ تو کامنی کے ہوش اڑ جاتے ہیں، اس وقت روپ چند کو کچھ اطمینان ہوتا ہے۔ اس تیسرے آدمی کا چہرہ انتقام کی خوشی سے دمک اٹھتا ہے۔ سمجھتا ہے اب کامنی قابو میں آ گئی ہے۔ ایسے لمحوں میں تیسرا آدمی کامنی کی گھبرائی ہوئی آنکھوں کی التجا اور ندامت کو دیکھ رہا ہے۔ عورت کی آنکھوں میں معذرت اور بے کسی ہے۔ روپ چند سوچتا ہے کامنی کمزور اور مجبور ہے۔ میں مرد ہوں، مضبوط اور عالی ہمت ہوں۔ وہ کبھی میری تھی لیکن حالات نے اسے جدا کر دیا۔ اس کی عزت آخر میرے ہی ہاتھوں میں ہے۔ جب کامنی بے باکانہ کہتی ہے: ’’میں ازروئے حلف کہتی ہوں کہ میں نے اسے کبھی کوئی خط نہیں لکھا اور عدالت سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ مجھے ان اہانت آمیز جملوں سے بچائے‘‘ تو یہ تیسرا آدمی اطمینان کی سانس لیتا ہے۔ اسے پانچ سال کی قیدِ سخت کی سزا ہو جاتی ہے اور یہ شخص مطمئن عدالت سے جیل کی طرف چلا جاتا ہے۔ مڑکے بھی یہ دیکھنا نہیں چاہتا کہ کامنی وہیں عدالت میں کھڑی زار زار رو رہی ہے۔

اس کہانی کا تیسرا آدمی شرطِ وفا اور آئین الفت کی وجہ سے خاموش رہتا ہے۔ لوگ اس کی حماقت پر ہنستے ہیں۔ وہ چاہتا تو کامنی کی عزت خاک میں ملا دیتا لیکن اس وقت اس کے لیے کامنی کی بے وفائی اور ستم آرائی سے زیادہ اس کی عزت کی حفاظت کا خیال ہے۔ چاہتا ہے کامنی عزت کی زندگی بسر کرے۔

اس افسانے کا تیسرا آدمی انسان کی طرح اپنے دائرے کو وسیع کر دیتا ہے، اپنی اذیت سے لذت لیتا ہے اور المیہ کردار بن جانا پسند کرتا ہے۔

’’شکست کی فتح‘‘ ‘ میں شاردا چرن اور سوشیلا ’’موسی ‘‘ میں چندرکماری ’’سہاگ کا جنازہ ‘‘ میں ارمیلا، ’’انتقام ‘‘ میں ایشورداس، ’’وفا کی دیوی‘ ‘ میں تلیا، ’’لعنت ‘‘ میں کاڑی جی، ’’حسرت ‘‘ کی بڑھیا، ’’پچھتاوا ‘‘ کے پنڈت درگا ناتھ، ’’فریب ‘‘ کی جگنو، ’’الزام ‘‘ کا رضا، ’’ترشول ‘‘ کا کرف ناکس یہ سب تیسری شخصیتیں ہیں جن کی وجہ سے کہانیوں میں تحرک پیدا ہوا ہے۔ کشمکش اور تصادم کا معیار سامنے آیا ہے۔ المیات کے پہلو روشن ہوئے ہیں۔

تیسری طاقت(The Third Force)

پریم چند نے جہاں کرداروں کی صورت میں تیسرے آدمی یا تیسری شخصیت کو پیش کیا ہے وہاں تیسری طاقت کو بھی نمایاں کیا ہے۔ کس طرح کچھ لوگ ایک ساتھ مل کر طاقت بن جاتے ہیں اور ان کے عمل سے انتشار پیدا ہوتا ہے۔ کہانیوں میں کشمکش اور المیہ کے ڈرامے تیسری طاقت کے ذریعہ بھی پیش ہوئے ہیں۔ کبھی ان سے کوئی گھریلو زندگی تباہ ہوتی ہے۔ توکبھی سماجی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ سماجی زندگی میں ایسی منظم جماعتیں موجود ہیں کہ جن کی حیثیت تیسری طاقت کی ہے۔ اپنے مفادات کے لیے مذہب اور سماجی تقاضوں کا سہارا لے کر یہ جماعتیں افراد کی زندگی میں انتشار پیدا کرتی ہیں۔ ’’زادِ راہ۱؎ ‘‘ کا المیہ اس وقت شروع نہیں ہوتا جب سیٹھ رام ناتھ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں بلکہ اس کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب ان کے انتقال کے بعد برادری کے لوگ ان کے گھر میں قدم رکھتے ہیں۔ مذہب اور برادری کے نام پر سیٹھ دھنی رام، کبیر چند، بھیم چند اور سنت لال اس گھر کو تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ سب تیسری طاقت کے نمائندے ہیں۔ مکان فروخت ہو جاتا ہے۔ زیورات چلے جاتے ہیں۔ بیوہ کو بچوں کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑتا ہے اور وہ ایک انتہائی اذیت ناک زندگی بسر کرتی ہے۔ یہ سب برادری کی اس طاقت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ تیسری طاقت معلوم نہیں کتنے گھروں کو تباہ کر چکی ہے۔ سیٹھ جھابرمل اس تیسری طاقت کے سب سے بڑے نمائندے ہیں۔ جو ریوتی جیسی کم سن لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور جب ناکامی ہوتی ہے تو اپنے گھر سے سوشیلا اور اس کے بچوں کو نکال دیتے ہیں۔ اس تیسری قوت سے لڑ کر افراد کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ پنچ لوگ اتنے ’شریف‘ ہیں کہ مکان فروخت کرنا نہیں چاہتے لیکن چونکہ برادری کا کھانا ضروری ہے اس لیے مکان بھی فروخت ہو جاتا ہے۔

’’خون سفید ‘‘ میں بھی اسی تیسری طاقت کی وجہ سے بیٹا دوبارہ والدین سے جدا ہوتا ہے۔برادری کے مطالبے کو سادھو پورا کرنا محبت کی ہتک تصور کرتا ہے۔ وہ پیار اور محبت کا بھوکا ہے۔ چودہ برس بعد اپنے والدین سے ملا ہے۔ جگن سنگھ اس تیسری قوت کی نمائندگی کرتے ہیں۔

پریم چند نے زندگی کے مختلف پہلوؤں میں تیسرے آدمی اور تیسری شخصیت کو دیکھا ہے اور اس کے کردار کی مختلف جہتوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ کہیں یہ تیسری شخصیت رحمت بن کر آتی ہے اور کہیں عذاب۔ محبت کی دنیا میں تیسری شخصیت کی تلملاہٹ مذہبی زندگی میں دیوتاؤں اور انسانوں کے درمیان پجاریوں کی شخصیت کسانوں اور زمیندار کے درمیان تیسری شخصیت کا عمل، کھیت اور زمیندار کے درمیان کاشتکار کی زندگی، گھریلو زندگی میں نوکرانی کی ذات۳؎، بیوی اور شوہر کے درمیان کسی عورت کا ظہور، پریم چند نے ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھا ہے اور اس طرح ہمیں چین سنگھ، جگل، جوکھو، راجہ، روپ چند، بھون داس، امرت، پورنما، شاردا چرن، سوشیلا، اُرمیلا، چندرکماری، ایشور داس، تلیا، کاؤس جی، مہاتما جی، رضا، قاسم، پنڈت درگاناتھ، کرین، جگنو، گومتی اور وشومبھر جیسے کردار ملے ہیں۔

پریم چند کا تیسرا آدمی بنیادی حقیقتوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ انسانی نفسیات کو نمایاں کرتا ہے۔ جبلتوں کا آزادانہ اظہار کرتا ہوا ملتا ہے۔ اس کے ذریعہ انسانی نفسیات کے کئی پہلو اور گوشے نمایاں ہوئے ہیں۔ فطرتِ انسانی کی کوئی نہ کوئی سچائی ظاہر ضرور ہوتی ہے جس سے فنکار کے مشاہدے کی باریکیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ تیسری شخصیت کو پیش کرتے ہوئے اکثر تخیل سے بھی کام لیتے ہیں لیکن اپنے خاص نقطۂ نظر سے کوئی نہ کوئی ایسا پہلو اجاگر کر دیتے ہیں جس کی اہمیت مسلّم ہوتی ہے۔ پریم چند کا تیسرا آدمی مثالی بھی بنتا ہے لیکن اپنی نفسیاتی پیچیدگیوں اور باریکیوں کے ساتھ کچھ اس طرح پیش ہوتا ہے کہ اس کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگتے ہیں۔ گھاس والی کی زندگی سے دور ہٹ کر بھی اس کے قریب ہے۔ واقعات کا اثر اس کی نفسیات پر گہرا ہوتا ہے۔غیر شعوری طور پر اپنی خواہش پوری کرتا ہے۔ اگرچہ راہ مختلف ہے۔ جب ملیا اس کے طبقے کی عورتوں کو ذلیل کہتی ہے اور چین سنگھ اپنا ہاتھ پیچھے کر لیتا ہے تو ہم یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ جیسے وہ حج اکبر یامہاتیرتھ، خونِ حرمت کوئی مثالی کردار بن جائے گا اور افسانے کی روح فنا ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے کردار میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ایک نفسیاتی ردِ عمل کی وجہ سے خود کو ایک دوسرے روپ میں پیش کر رہا ہے۔ ملیا کے شوہر کی مدد کرتا ہے، مزدوروں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اس کے باوجود کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جبلت کے اظہار میں فرق ضرور آ گیا ہے لیکن پیچیدگی وہی ہے۔ پریم چند نے ایسے لمحوں میں ڈرامائی انداز و اثرات سے فضا کی تشکیل کی ہے۔۔۔ ان کا تیسرا آدمی چین سنگھ گریز کر رہا ہو یا بھون داس گپتا، اس گریز میں ڈرامائیت ہے۔ تیسرا آدمی عام طور پر مصلحتوں کا قائل ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے گریز میں بھی مصلحت ہے۔ پریم چند کے افسانوں میں تیسرا آدمی صرف درمیان میں نہیں آتا بلکہ رونما ہونے والے واقعات پر اثرانداز بھی ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت المیہ اور طربیہ کی ذمہ دار ہے۔ کہانی کے ارتقا، کرداروں کے عمل اور ردِ عمل اور کہانی کے انجام پر اس کی شخصیت کی چھاپ ہوتی ہے۔ تیسرے آدمی کے عمل سے ہم آنے والے واقعات کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جاتے ہیں۔ خاص اثرات و نتائج کے ساتھ اگر تیسرے آدمی میں نفسیاتی طور پر کوئی تبدیلی آتی ہے تو فضا کا رنگ بھی بدل جاتا ہے۔ پریم چند اپنے تیسرے آدمی کو متعارف کراتے ہوئے بہت محتاط رہتے ہیں۔ چند اشاروں میں اس کے خدوخال اور شخصیت کو سمجھا دیتے ہیں۔ بعض افسانوں میں تو تعارف برائے نام ہے۔ گفتگو کے انداز اور عمل اور ردِ عمل سے شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ’’گھاس والی‘‘ کا تیسرا آدمی بغیر کسی تعارف کے سامنے آتا ہے اور ملیا کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ آہستہ آہستہ معلوم ہوتا ہے وہ کون ہے۔اس کے خیالات کیا ہیں۔ ’’دو سکھیاں ‘‘ کا بھون جب پہلی بار سینما دیکھتے ہوئے ملتا ہے تو محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی عام کردار ہے۔ ابھی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا۔ ابتدا میں صرف ایک بنگالی بابو ہے لیکن آہستہ آہستہ ابھرتا ہے تو پوری کہانی کا مرکز بن جاتا ہے۔ جب تیسرا آدمی بنتا ہے تو اس کی نفسیاتی کیفیتوں سے کہانی جان پرور بن جاتی ہے اور جب اس کے ذہن کا شیش محل ٹوٹتا ہے تو اس کی آواز دیر تک سنائی دیتی ہے۔ ’’زادِ راہ‘‘ کے دھنی رام اور کبیر چند اپنی گفتگو سے پہچانے جاتے ہیں اور پھر ان دونوں کی لائی ہوئی قیامت سے اس افسانے کے المیہ میں شدت پیدا ہوتی ہے۔بھیم چند اور دربل داس کے نام سے بھی ان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔ دربل داس جب زیورات کو ہاتھ میں تول کرکہتے ہیں : ’’تین ہزار کے کیسے میں ساڑھے تین ہزار لادوں گا‘‘ توان کی ذات کی گہرائیوں کا احساس ہوتا ہے، ایسی کہانی میں تیسری قوت کے ساتھ ایک دلّال چوکھے لال شامل ہوتا ہے تو پریم چند اس کا تعارف چند اشاروں میں کرا دیتے ہیں۔ ’’پستہ قد آدمی، پوپلا منہ، کوئی ستر سال کی عمر نام تھا چوکھے لال!‘‘

’’فریب‘‘ کی جگنو کو پریم چند نے ابتدا میں متعارف کر دیا ہے اور تفصیل سے باتیں پیش کی ہیں۔ ان باتوں کے پس منظر ہی میں اس بوڑھی عورت کے عمل کو سمجھنے میں زیادہ لطف ملتا ہے۔ فنکار نے اپنے تیسرے آدمی کے مکالموں کے ذریعہ ذہنی حالت اور جذبات کی اٹھان اور پستی کو پیش کیا ہے۔ عموماً تیسرے آدمی کے مکالموں میں طوالت نہیں ہوتی۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں گہری باتیں کہہ دی جاتی ہیں۔ کسی کے جذبات کی شدت کو پیش نظر رکھ کر ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے مناسب الفاظ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اسی اختصار اور افسانوی دلکشی کی وجہ سے انفرادیت نمایاں ہوتی ہے!

٭٭٭

Pages: 1 2 3 4 5 6 7 8