FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

آنکھ بھر آسمان

 

 

               یاور ماجد

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

 

تو جاگتی ہوئی دنیا میں سو کے رہنا ہے؟

تو اپنی خمس حواسی بھی کھو کے رہنا ہے؟

 

تو غم تمام ہی آنسو میں روکے رہنا ہے؟

تو بحر قطرے میں اب کے سمو کے رہنا ہے؟

 

تو کشتِ یاد میں بونے کو اور کچھ بھی نہیں؟

تو اپنی یاد کو ہی اس میں بو کے رہنا ہے؟

 

تو کچھ محال نہیں اب کے دہرِ امکاں میں؟

تو ہو سکا نہ کبھی جو بھی، ہو کے رہنا ہے؟

 

افق کی سرخی چلی جا رہی ہے گر یاور

تو اس کو آنکھ میں اپنی پرو کے رہنا ہے؟

٭٭٭

 

 

 

 

جو پی لیا تھا، جو سوئے وطن گیا آنسو

وہ دِل کی سیپی میں موتی سا بن گیا آنسو

 

جو فرطِ غم سے زباں گنگ ہو گئی میری

تو احتجاج سے آنکھوں میں تن گیا آنسو

 

دھواں سا اٹھتے ہوئے اس طرف سے جب دیکھا

ہے سوئے کوئے دِل سوختن گیا آنسو

 

سوائے حُزن کے اس دِل میں کچھ رہا ہی نہیں

ہے میری روح میں بن کر بدن، گیا آنسو

 

یہ میرا صبر مرا حوصلہ گیا غارت

یہ دیکھو آنکھ کی چھلنی سے چھن گیا آنسو

 

جو مصلحت سے مرے لب سلے ہوئے دیکھے

کہانی دِل کی سنانے پہ ٹھن گیا آنسو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گل کی فطرت تم نہ دیکھو صرف مہکاروں میں بند

کچھ تو نظروں سے پرے بھی ہے چھُپا خاروں میں بند

 

جانے کتنی روشنی مجھ تک پہنچ پاتی نہیں

آسماں کی اوٹ کے پیچھے کہیں تاروں میں بند

 

رِہ کے زنداں میں پروں پر کیا جوانی آئے گی

چار دن اُڑنے کے تھے اور ہم رہے چاروں میں بند

 

وقت کے کولہُو میں جُت کر ڈھوندتے ہی رہ گئے

لحظہ گم نروان کا تھا لمحوں کے دھاروں میں بند

 

اک کرن ہیرے کے اندر قید رہ کر گھُٹ گئی

مر گئی اک یاد تھی جو دل کی دیواروں میں بند

 

ہر صدا بس ایک ہی آواز کی ہے بازگشت

چہرہ اک ہی گھومتا ہے آئینہ زاروں میں بند

٭٭٭

 

 

 

ہر پل سے ہی جب برسرِ پیکار نہ گزرا

سمجھو کہ مرا وقت مرے یار نہ گزرا

 

اے شاخ پہ مرجھائے ہوئے پھولو بتاؤ

کیا کوئی تمہارا بھی طلبگار نہ گزرا؟

 

آنکھوں کے سُبُو سے میَں پیئے جاؤں مئے غم

مجھ ایسا کبھی بھی کوئی مے خوار نہ گزرا

 

وہ پل وہ کسی کھائی میں گرتا ہوا اک پل

سو بار گزارا مگر اک بار نہ گزرا

 

گھائل ہے اُسے ڈھونڈے ہر اک راہ پہ سیمرغ

ان وادیوں سے پھر کبھی عطّار نہ گزرا

٭٭٭

 

 

 

 

راستے جب گلابوں سے ڈھک جائیں گے

ہم تمہیں ڈھونڈنے دور تک جائیں گے

 

پیش رو نسل کی دلبری کے لئے

زرد پتّے شجر سے سرک جائیں گے

 

ہم ہیں راہِ گُماں کے سفر پر رواں

راستہ مل گیا تو بھٹک جائیں گے

 

تم دلاسوں کے پتھر نہیں پھینکنا

درد کے دائرے دور تک جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

ٹوٹی ہوئی تھی چونچ تو تھے پر لہو لہو

پنجرے میں اک اسیر کا تھا سر لہو لہو

 

درپن ہی میرے آگے نہیں ٹوٹتے رہے

ہوتا رہا ہوں میں بھی برابر لہو لہو

 

پہلے خزاں کے وار نے گھائل کیا مجھے

پھر آئی مجھ کو دیکھنے صرصر لہو لہو

 

کیا احمریں سی شام تھی اپنے وداع کی

لگنے لگے تھے سارے ہی منظر لہو لہو

 

شب بھر جو تیرگی سے لڑا تھا سرِ فلک

آیا افق پہ لوٹ کے ہو کر لہو لہو

 

دیکھو کنارِ شام شفق کی یہ سرخیاں

ہونے لگا ہے جن سے سمندر لہو لہو

 

آ آ کے لوٹتی رہی اک یاد رات بھر

چپکی ہوئی ہیں دستکیں در پر لہو لہو

٭٭٭

 

 

 

 

میں رختِ دل میں وجود کے سب فشار باندھے

چلا ہوں پاؤں میں پھر پرانے غبار باندھے

 

نہیں سے ہاں سے یہ اک تعلق نہ ٹوٹ پایا

ہیں عہد خود سے ہزار توڑے، ہزار باندھے

 

دھنک بہاروں کی گلستاں میں جو آ نہ پائی

تو ابر کرنوں پہ پل پڑے ہیں، حصار باندھے

 

فلک پہ جائے نماز افق کی بچھا کے دیکھو

نکل پڑے ہیں پرند سارے قطار باندھے

 

جنون دل کا، نہ جستجو ہے نظر کی باقی

یہ بار سر سے ہیں میں نے کب کے اتار باندھے

 

تبسمِ گُل بھی دل کا غنچہ نہ کھول پایا

تو اور کتنا حسین منظر، بہار باندھے؟

 

جنم جنم سے میں اس جنوں کی تلاش میں ہوں

جو ہوش نظروں کا توڑ دے جو، خمار باندھے

٭٭٭

 

خود قلم بن کے، ٹوٹ کر لکھی

ایک ہی نظم عمر بھر لکھی

 

اس نے قسمت میں کب سحر لکھی

لکھ بھی دی گر، تو مختصر لکھی

 

لکھی تقدیر میری بے اعراب

اور نقطے بھی چھوڑ کر لکھی

 

میرے قرطاسِ عمر پر اُس نے

ہر کٹھن رَہ، سفر سفر لکھی

 

کیا وہ مانیں گے داستاں تیری؟

دوسرے رُخ سے میَں نے گر لکھی

 

دیکھنا تو کرن نے سورج کی

بہتے پانی پہ کیا خبر لکھی

 

مُصحفِ شب پہ ایک دن یاوؔر

پڑھ ہی لوُں گا کہیں سحر لکھی

٭٭٭

 

 

 

 

قدغن لگی ہے سوچ پہ اور لَب سلے ہوئے

اور چاک تک قفس کے مرے سَب سلے ہوئے

 

نکلا ہوں کتنے زعم سے دُنیا کے سامنے

پہنے ہوئے یہ چیتھڑے بے ڈَھب سلے ہوئے

 

صدیوں کی گھاٹیوں میں یہ لمحوں کی مشعلیں

گہرے فلک پہ اختر و کوکب سلے ہوئے

 

مشکل کہاں ہے میرے سوالوں کو بوجھنا

سادہ ہیں ان حُرُوف میں مطلب سلے ہوئے

 

آنکھوں میں سُرخ ڈوریاں عمروں سے ساتھ تھیں

اس دِل کے زخم پھر بھی رہے کب سلے ہوئے

 

جُوں جُوں چمن میں سُرخی پروتی گئی بہار

کھلتے گئے ہیں گھاؤ مرے سَب سلے ہوئے

 

ایسا بیاں کا زور کیا تھا اگر عطا

کیوں ہونٹ دے دئیے مجھے یارب سلے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہوئی ہے زرد سی دیکھو زمیں، مری ہی طرح

ذرا سی خشک ہے، بنجر نہیں، مری ہی طرح

 

نسیمِ صبح کے جھونکوں میں جھومتا برگد

یہ کہہ رہا ہے کہو آفریں مری ہی طرح

 

اسے بھی اپنے درُوں کا کبھی تو گیان ملے

یہ شعلہ ہو اگر آئینہ بیں مری ہی طرح

 

بھنور میں ڈوب نہ جاؤ کہیں گمانوں کے

گئے جو تم سوئے بحرِ یقیں مری ہی طرح

 

اسے بھی شام نے آنچل میں اپنے ڈھانپ لیا

یہ دن بھی دیکھو ہوا احمریں، مری ہی طرح

 

اُفق بھی رات کی آمد کے خوف سے یاور

پٹخ رہا ہے زمیں پر جبیں، مری ہی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

وہم کی کالی گھٹا نظروں سے ہٹتی ہی نہیں

دھُند ایسی دل پہ چھائی ہے کہ چھٹتی ہی نہیں

 

آنکھ بھر ہی آسماں ہے دل کی دُنیا کا مگر

اتنی وُسعت ہے کہ نظروں میں سمٹتی ہی نہیں

 

ہے دلِ عابد کی ہر اٹھتی صدا میں انتشار

جائے گنبد میں نظر کے تو پلٹتی ہی نہیں

 

صبح کے ہر در سے اژدر یاس کا لپٹا ملے

رات اس مارِ سیہ کے ساتھ کٹتی ہی نہیں

 

میں لُڑھکتا ہی چلوں کون و مکاں کی کھائی میں

ایسی گردش شش جہت کی ہے کہ گھٹتی ہی نہیں

 

میں ہوں یاور اپنی فطرت میں اجالوں کا سفیر

دھول مجھ سے دشتِ ظلمت کی لپٹتی ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے

کہانی تو چلے گی اختتامی باب سے آگے

 

تخیّل ساتھ ہے، بے خوابیوں کا پھر گلہ کیسا

کئی اک خواب باقی ہیں شکستِ خواب سے آگے

 

خدا کے نام پر کتنے خدا ہم نے بنا ڈالے

جبیں پر ہیں کئی سجدے، گڑی محراب سے آگے

 

مرے شعروں میں لفّاظی سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہے

معانی ڈھونڈنے ہیں تو پڑھو اعراب سے آگے

 

ابھی سے پاؤں کے چکّر سے یاور تھک گئے کیونکر

بھنور باقی کئی ہیں اور اس گرداب سے آگے

٭٭٭

 

 

اتار پھینکا جو میں نے انا کا، آن کا وزن

اُتر گیا مرے کندھوں سے دو جہان کا وزن

بہت ہے ثقلِ زمیں اور میرے پر نازک

سنبھال پائیں گے کیسے مری اُڑان کا وزن

گزاری عمر یونہی شک کی دھُول میں دب کر

پنپ نہ پایا یقیں اِتنا تھا گُمان کا وزن

میں آج ہوں زدِ طوفاں، گھرا ہوں بیچ بھنور

اور اُس پہ توڑے مری کشتی بادبان کا وزن

گھُٹن سے کیسے نہ برسیں، زمین پر بادل

اُٹھائے بیٹھے ہیں اِتنا جو آسمان کا وزن

یہ دیکھو کونوں سے کچھ گھاس آ گئی باہر

نمودِ زندگی روکے گا کیا چٹان کا وزن

اُٹھاؤ، دل سے اُٹھاؤ، کبھی جیو کھُل کر

نہیں کچھ ایسا بھی بے کار جسم و جان کا وزن

شکار شعر کے پنچھی کا کیا کروں یاور

کہ میرے تیر سے کم ہے مری کمان کا وزن

٭٭٭

 

 

 

 

جو ایک جسم تھے دیکھو کہاں کہاں بھٹکے

ستارے ٹوٹ کے ہر سمت ناگہاں بھٹکے

ثبات اپنا تذبذب پہ ہی رہا قائم

یقیں کہیں کو گئے اور کہیں گُماں بھٹکے

مری اُڑان کی اوجیں تھیں ماورائے جہات

تلاش میں مری کتنے ہی آسماں بھٹکے

نہ مل سکی اُنہیں پہچان خود پرستی میں

جو اپنی کھوج میں نکلے، کہاں کہاں بھٹکے

نہ راس آئی کبھی اس کو دشت پیمائی

تو کیوں نہ شہر میں آوارہ ءِ جہاں بھٹکے

چلے ہو لمبے سفر پر، نظر اُترواؤ

ملیں نہ راہ میں تم کو کہیں سگاں بھٹکے

قتیلِ حسرتِ تکمیلِ فن ہوں، اور یاور

مرے خیال ہیں گم اور مرا بیاں بھٹکے

٭٭٭

 

 

زورِ سُخن جو ہوتا برابر تراشتے

شعروں میں اُس کا پھول سا پیکر تراشتے

 

محوِ سفر رہے ہیں قدم اور قلم سدا

رُک پاتے گر کہیں تو کوئی گھر تراشتے

 

گر قیدِ شش جہات پہ ہوتا کچھ اختیار

روزن کوئی بناتے کوئی در تراشتے

 

پرکارِ فن سے دائرے کھینچا کئے ہزار

نروان پاتے گر کبھی محور تراشتے

 

سیپی میں دل کی تم جو اگر ٹھہرتے ذرا

ہم تیشۂ خیال سے گوہر تراشتے

 

ہاتھوں کی کونپلوں سے کٹھن روزگار کے

عمریں گُزر گئیں مجھے پتھر تراشتے

 

ناخن کی نوک سے فلکِ روسیاہ پر

ہم چودھویں کے چاند کا منظر تراشتے

 

اس بار بھی بنی وہی مبہم سی شکل پھر

اس بُت کو اب کی بار تو بہتر تراشتے

٭٭٭

 

 

 

 

دِن بھَر کی شورشوں کے دباؤ کے شور سے

شب کے لِباسِ حبس میں کوئی شکن نہیں

کیوں روشنی گروں کی زبانیں ہیں سوختہ

کیوں لَو کسی چراغ کی بھی سینہ زن نہیں

اندھے خلا کی کھائی میں گرتا ہی جاؤں میں

پیروں تلے زمیں نہیں سر پر گگن نہیں

اک نغمہ خامشی کا بنی جائے زندگی

اک رقص ہے کہ جس میں کوئی چھن چھنن نہیں

 

پلکیں بچھاؤ راہ، میں دل میں اسے سجاؤ

یہ زندگی ہے یہ تو کوئی پیرہ زن نہیں

یاور ہی اِک ہے عاجزو ناچیز و خاکسار

ورنہ یہاں پہ کون خدائے سُخن نہیں

٭٭٭

 

 

 

کیا ہوا جو مہ و اختر کے برابر نہ اڑا

وقت کی آندھی مجھے دھول سمجھ کر نہ اڑا

میں نے کب تجھ سے بہاروں کی تمنا کی تھی

کم سے کم رنگ مرے باغ کا صرصر نہ اُڑا

کیسے اُڑ پائے گا آئندہ کے طوفانوں میں

وہ تو ماضی کے قفس سے کبھی باہر نہ اُڑا

یہ برستی ہوئی بوندیں تو گھٹا کی دیکھو

کون کہتا ہے گگن میں کبھی ساگر نہ اُڑا

کس نے اُڑتے ہوئے ساگر کو فلک پر دیکھا

ایسی بے پر کی مری جاں، مرے یاور نہ اُڑا

٭٭٭

 

 

نذر محترم آفتاب اقبال شمیم

 

مجھے بے شک انہی محدود دُنیاؤں میں رہنا ہے

مگر یہ ایک چکّر جو مرے پاؤں میں رہنا ہے

 

سکوتِ بحر کو جب تک نہ پا جائیں مسافت میں

عجب بے چینیوں کا شور دریاؤں میں رہنا ہے

 

کڑی دھوپوں کو سہنا، لوُ میں جلنا بھی ضروری ہے

شجر وہ کیا پھلیں پھولیں جنھیں چھاؤں میں رہنا ہے

 

ہر اک پرواز کو بنیاد سے چمٹائے رکھے گا

یہ مقناطیس صدیوں تک کلیساؤں میں رہنا ہے

 

پٹختے سر یونہی کرتے رہیں گے ورد اک ہی سب

تخیل ایک ہی سب کی کویتاؤں میں رہنا ہے

 

جو تنہا چھوڑ کر خود کو زمانے کے ہوئے ہم تو

لئے یہ اجنبی صورت، شناساؤں میں رہنا ہے

٭٭٭

 

 

 

عُمرِ اُداس صدیوں سے کیا کاٹتی رہی

پیہم سفر، سفر سے سوا کاٹتی رہی

 

میری بصیرتیں تو مرے دل میں تھیں نہاں

اشکوں کی دھار! تُو بھی یہ کیا کاٹتی رہی؟

 

اظہار کے جنوں نے نہ جینے کبھی دیا

اک پھانس تھی الگ، جو گلا کاٹتی رہی

 

آتے ہوئے زمانوں سے جب گفتگو ہوئی

میری ہر ایک بات ہوا کاٹتی رہی

 

آنسو مرے نے کتنے گگن رنگ سے بھرے

اک بوند ہر کرن کا گلا کاٹتی رہی

 

صدیوں سے میَں نہ کاٹ سکا عمرِ ناتمام

اِک پل کی عمر مُجھ کو سدا کاٹتی رہی

 

تکمیل کی طلب نے ادھورا کیا مجھے

لکھا ہر ایک شعر مرا کاٹتی رہی

٭٭٭

 

 

بالِشتیے

 

کُرسیوں پر

میز کے چاروں طرف

بیٹھے ہوئے بالِشتیے

سگرٹیں سُلگائے

اپنی عینکوں کے

ملگجے شیشوں سے

اِک دُوجے کو تکتے

چائے کی چینک سے

کپ میں چُسکیاں بھرتے ہوئے

اور چھلکتی چائے کپ سے چاٹ کر

ڈونگرے برسا رہے ہیں داد کے اک بات پر

اور زیرِ لب سرگوشیوں میں گالیاں بھی بڑبڑاتے جا رہے ہیں

اِن کے اک اک حرف، اک اک بات میں ایقان ہے

۔۔۔۔اور ایسا اندھا اعتماد

جیسے دُنیاؤں کے خالق نے

انہی کے مشورے سے

زندگی ترتیب دی

گالیوں کے، داد کے اور قہقہوں کے دور میں

چائے کے کپ میں اٹھے طوفاں کے بڑھتے شور میں

لے کے اپنے ہاتھوں میں عدسے مُقَعِّر،

پِنڈلیوں سے بانس باندھے

اپنا اپنا قد چھپا کر

سب کی پَستہ قامتی کو ماپتے بالِشتیے

اونچی آوازوں میں پورے زور سے

بات ہر اک دوسرے کی کاٹتے بالِشتیے

چائے کے کپ چاٹتے بالِشتیے

٭٭٭

 

ہمیں مجرم نہیں کہنا

 

 

وہی ہیں فاصلے اور قافلے پھر بھی رواں ہیں

انہی میں گم کہیں لمحوں کے، برسوں اور صدیوں کے گماں ہیں

 

یہ ہم جو ایک بوسیدہ عمارت کے کھنڈر سے پھول چننے جا رہے تھے

ہمارا خواب تھا !

ہم دہر کو خوشبو سے بھرنا چاہتے تھے !

مگر ہم ہڈیوں کی راکھ لے آئے

 

یہ ہم جو خواب کے دریا سے اِک جھرنا۔۔۔

بس اِک چھوٹا سا جھرنا چاہتے تھے

جو ہمارے دشت کی بے آب مٹی کو ذرا نم آشنا کر دے

مگر جانے کہاں سے لوُ کا ہم طوفان لے آئے

 

کبھی بھی ہم نے لمبے فاصلوں سے سرخیاں دیکھیں

تو ہم اس سمت کو لپکے

مگر رستوں کے پیچ و خم میں ہی اتنا سمے بیتا

کہ ہم چہرے پہ زردی اور پیلاہٹ لپیٹے لوٹ آئے

 

وہی ہیں فاصلے قدموں کے منزل سے

وہی ہے راکھ چہرے پر،

وہی لوُ کے تھپیڑے ہیں

وہی زردی میں لپٹی نیم وا آنکھیں

شکستہ دِل میں تھوڑا اور جی لینے کی خواہش بھی

مگر عمرِ معین کی بچی پونجی تو بس چند ایک لمحے ہے

 

یہ سچ ہے ہم کبھی بھی عشق کے معیار پر پورے نہیں اترے

مگر ایسا نہیں کرنا

ہمیں مجرم نہیں کہنا

کہ ہم کوہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھہرے

 

خدایا!!۔

ہم کو اب تیری گواہی کی ضرورت ہے ۔۔۔۔

ہمیں پھر سے تباہی کی ضرورت ہے

٭٭٭

 

 

بوجھ

 

 

یہ میں ہو ں

پاتال میں گڑا ہوں

وہ تُو ہے

ہر دم فلک کی جانب رواں دواں ہے

 

یہ میں ہوں

جس نے تجھے نکھارا

تجھے سنوارا

ترے لئے سب نشیلی راتوں کی نیند چھوڑی

ترے لئے سارے خواب چھوڑے

وہ خواب جن میں

ہزار کرنوں کی روشنی تھی

بہار جن میں رچی بسی تھی

یہ میری آنکھیں

یہ زرد آنکھیں!!

یہ آنکھیں جن میں ہزار راتوں کی تیرگی ہے

 

یہ میں ہوں

تیرے عظیم دولت سرا کو اپنے مہین کندھوں پہ جانے کب سے لئے کھڑا ہوں

یہ میں

جو پاتال میں گڑا ہوں

٭٭٭

ماخذ:

http://yawarmaajed.wordpress.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید