FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

آفاق کی یہ کارگہِ شیشہ گری

 

 

                تلخیص و ترجمہ: زہیر عبّاس

ترمیم،  ادارت و اضافہ جات: علیم احمد

 

 

 

 

 

دیباچہ

 

۱۹۸۰ءکی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک سے ایک پروگرام "Cosmos” کے عنوان سے جمعے کی صبح نشر ہوتا تھا۔ شاید یہ پروگرام امریکن ٹیلی ویژن سیریز ” "Cosmos: A Personal Voyageکی اردو ڈبنگ تھی۔ اس پروگرام کے کچھ دھندلے سے نقوش اب بھی ذہن میں باقی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں بت بنا اس پروگرام کو دیکھ کر کائنات کی بیکراں گہرائیوں میں کھو جاتا تھا۔ اس وقت سے لے کر علم فلکیات کا میں شیدائی رہا ہوں۔ ہرچند ایک اکاؤنٹنٹ ہونے کے ناطے میری سائنس سے کوئی زیادہ واقفیت نہیں ہے لیکن عمومی سائنس خصوصاً علم فلکیات اور علم طبیعیات کے بارے میں کافی تجسس رہا ہے۔

سال گزشتہ بقرعید کی پانچ چٹھیاں آ رہی تھیں۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اتنی چھٹیوں میں کیا کروں گا لہٰذا بیگم کے ساتھ سی ڈ ی کی دکان پر کچھ موویز لینے چلا گیا۔ وہاں پر ڈسکوری چینل کے پروگرام کی سی ڈ ی "How The Universe Works” نظر آ گئی۔ پہلی ہی قسط دیکھ کر مزہ آ گیا کیونکہ یہ پروگرام ہائی ڈیفی نیشن ویڈیو (High Definition Video)میں ریکارڈڈ تھا۔ پروگرام دیکھتے وقت خیال آیا کہ اگر یہ پروگرام اردو میں ہوتا تو زیادہ مزہ آتا۔ اگرچہ فلکیات سے متعلق کچھ پروگرام نیشنل جیوگرافک چینل انڈیا(National Geographic Channel ،  India) پر میں ہندی میں تو دیکھ چکا ہوں مگر یہ پروگرام مجھے ہندی زبان میں انٹرنیٹ پر بھی نہیں مل سکا۔ لہٰذا وقت گزاری کے لئے اس کا اردو ترجمہ شروع کیا۔ شروع میں سوچا کہ سب ٹائٹل (Subtitle)کی شکل میں اس کا ترجمہ کروں پھر خیال آیا کیوں نہ مضمون کی شکل میں کیا جائے اور انٹرنیٹ پر کسی بلاگ(Blog) پر اپلوڈ(Upload) کر دوں تاکہ فلکیات میں دلچسپی لینے والے بھی اس کو پڑھ سکیں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ کبھی اردو ٹائپ نہیں کی تھی نہ ہی ان پیج(Inpage) چلانا آتا تھا۔ گوگل مترجم (Google Translator) ایک دفعہ استعمال کیا تھا اور اس میں موجود فونیٹک کی بورڈ(Google Phonetic) اردو لکھنے کے لئے شروع میں استعمال کیا مگر اس کا استعمال کافی مشکل تھا۔ پھر گوگل ڈاکس(Google docs) کا استعمال کیا اور ۶  اقساط اسی میں فونیٹک کی بورڈ کی مدد سے ٹائپ کیں۔ گوگل ڈاکس کے لئے ہر وقت آن لائن رہنا ضروری تھا۔ اگر انٹرنیٹ دستیاب نہ ہو تو پھر کچھ کام نہیں ہو سکتا تھا۔ لہٰذا گوگل پر اردو آف لائن ٹائپنگ ٹول تلاش کیا اور یوں گوگل ان پٹ میتھڈ ایڈیٹر (Google Input Method ،  IME)سے روشناس ی بک کی تشکیل: اعجاز عبید بک سے ترمیم شدہ ہےی ہوئی اور اس نے زندگی کافی آسان کر دی۔ پہلی قسط ترجمہ کرنے میں مجھے کوئی ۱۲ دن لگے مگر گوگل کے اس اردو ٹول سے آخری قسط صرف دو دنوں میں مکمل ہوئی۔

اگرچہ ترجمہ کرنے کی یہ میری زندگی کی پہلی کاوش تھی (جبکہ کسی بھی کتاب کا ترجمہ کرنے کی پہلی کوشش میچو کاکو کی "ناممکنات کی طبیعیات ” ہے ) اور میں جانتا ہوں کہ نہ میں کوئی بڑا اردو داں ہوں، نہ کوئی بڑا لکھاری اور نہ ہی کوئی بڑا مترجم۔ مجھے ذخیرہ الفاظ کی کم مائیگی ہونے کا بھی احساس ہے بہرحال اپنے تئیں جتنی کوشش کر سکتا تھا کہ روانی اور سلاست کے ساتھ ترجمہ کروں نہ کہ لفظ با لفظ، وہ میں نے کی۔ پھر جہاں جہاں مجھے معلومات پرانی اور فرسودہ نظر آئیں ان کو بھی اپ ڈیٹ کر دیا اور جہاں جہاں معلومات پر شک ہوا اس کی بھی تحقیق کی۔ انگلش الفاظ کا ترجمہ کے لئے میں نے www.urduenglishdictionary.org کی ویب سائٹ کا سہارا لیا۔

اس کے شروع کے پانچ ابواب کی ادارت جناب علیم احمد صاحب مدیر اعلیٰ "ماہنامہ گلوبل سائنس کراچی ” نے کی ہے۔ ان سے مزید ابواب کی ادارت کی فرمائش کی ہے اگر انہوں نے اپنی گوں نا گوں مصروفیات سے وقت نکال لیا اور باقی بچے ہوئے ابواب کی بھی ادارت فرما دی تو میں ان کے تصحیح شدہ ابواب ہی پوسٹ کروں گا ورنہ ایسے ہی پوسٹ کر دوں گا۔

اس پروگرام کی آٹھ اقساط ۲۵ اپریل ۲۰۱۰ءسے لے کر ۲۴  مئی ۲۰۱۰ء  تک نشر ہوئی تھیں۔ ان مضامین کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔ قوسین میں دیے گئے انگریزی کے نام اصل پروگرام کے عنوان ہیں :

1۔ بگ بینگ(Big Bang)

2۔ بلیک ہولز (Black Holes)

3۔ ملکی وے کہکشاں اور دوسری کہکشائیں (Alien Galaxies)

4۔ سورج اور دور دراز کے تارے (Extreme Stars)

5۔ سپرنووا (Supernovas)

6۔ کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے (Extreme Planets)

7۔ نظام شمسی اور پردیسی نظام ہائے شمسی(Alien Solar Systems)

8۔ چندا ماما اور ماورائے ارض چاند (Alien Moons)

٭٭٭

 

 

 

۱۔ عظیم دھماکا

1۔ Big Bang

 

کائنات میں ارب ہا ارب کہکشائیں (Galaxies)موجود  ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ  کائنات ہمارے تصور سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال کلبلاتا ہے کہ یہ اتنی بڑی اور ہمہ دم وسعت پذیر کائنات کب اور کیسے وجود میں آئی؟ سائنس دانوں کے مطابق آج سے لگ بھگ  ١٤ ارب سال پہلے کچھ بھی موجود نہیں تھا۔ ماہرین فلکیات کی تحقیق و مطالعے کے مطابق،   کائنات کی ابتداء آج سے تقریباً ۱۳ ارب ۸۰ کروڑ سال پہلے ہوئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ زمان و مکان (Time and Space) کا آغاز بگ بینگ (انفجار عظیم یا زبردست دھماکے ) سے ہوا تھا۔ ہم اس باب میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی۔ ہمارا یہ سفر،  زمان و مکان کے راستے سے ہوتا ہوا،  ابتدائے کائنات سے شروع ہو کر اس کے انجام تک پہنچے گا۔ تو آئیے،  اس عظیم الشان سفر کی ابتداء کرتے ہیں۔

کرۂ ارض ہماری دنیا ہے۔ شہر،  جنگل،  سمندر اور لوگ،  غرض ہر وہ چیز جو اس دنیا اور  کائنات میں موجود ہے،  اسی مادّے سے بنی ہے جو بگ بینگ کے ابتدائی چند سیکنڈوں میں تخلیق ہو گیا تھا۔ ہر ستارہ،  ہر سیارہ،  گھاس کا ہر پتّا،  پانی کی  ہر اِک بوند،  ہر ایک جوہر،  یہ سب کے سب اسی مادّے سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہائیڈروجن کے وہ ایٹم جو کائنات میں بکثرت پائے جاتے ہیں،  ان کے مرکزے بھی  بگ بینگ کے چند لمحوں بعد ہی وجود میں آ گئے تھے۔ بگ بینگ،  کائنات کی پیدائش کا،  اس عظیم الشان کارخانہ قدرت کی ابتداء کا معیّن واقعہ ہے۔ ہمارا ماضی،  حال اور مستقبل،  سب کچھ اسی ایک اہم واقعے میں قید ہیں۔ لیکن یہ سب  جاننے کے لئے ہمیں  بہت دُور کا  سفر کرنا ہو گا… ہمیں   نظام شمسی کے پار،  اپنی کہکشاں مِلکی وے (Milky Way) سے بھی بہت آگے جانا ہو گا۔

جب ہم خلاء میں دیکھتے  ہیں تو دراصل ہم ماضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں۔ خلاء میں بہت دُور تک دیکھنے پر ہم اس قابل  ہوتے ہیں کے زمانے کی،  اس زمان و مکان کی،  اس کائنات کی  ابتداء کو دیکھ سکیں۔ پہلی نوزائیدہ کہکشاں اور اس میں موجود پہلے ستارے کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے،  ہم کائنات کے بالکل ابتدائی دور میں آ چکے ہیں۔

بگ بینگ اس وقت سائنس کی سب سے بڑی پہیلی ہے۔ دراصل ہم جاننا چاہتے ہیں کے بگ بینگ کے موقعے پر کیا ہوا،  کیسے ہوا،  اور کیوں ہوا تھا ؟ اور اس سے پہلے کیا تھا… اگر ہم واقعی جان سکیں۔ ان سب سوالوں کے جوابوں کے لئے سائنس داں ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے  انہوں نے بڑی بڑی عظیم الجثہ  مشینیں اور طاقتور دوربینیں بنائیں،  تاکہ وہ ان تمام حالات کی  نقل کر سکیں کہ جب کائنات اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی۔ ان لمحوں کی باقیات دیکھ سکیں کہ جب ایک ننھی سی کائنات میں ہنگامہ بپا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم اس حقیقت سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں کہ آخر ہم یہاں کیوں ہیں ۔ اور کہاں سے آئے  ہیں۔ کیا واقعی کائنات کا کوئی نقطہ آغاز تھا ؟ اس کا انجام کیا ہو گا ؟ اگر ہم نے ان سوالات کے مکمل  جوابات حاصل کر لئے،  تو یہ انسانیت کی سب سے شاندار فتح ہو گی۔ شاید تب ہم یہ جان  سکیں کے خدا نے اسے کیوں تخلیق کیا ہے۔ بگ بینگ کی ابتداء ایک سربستہ راز ہے ۔ اور جیسے جیسے ہمارا علم بڑھ رہا ہے،  ویسے ویسے یہ راز اور بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ سرِدست ہم پورے وثوق سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہماری کائنات ایک منفرد جگہ ہے۔ شاید ہماری کائنات،  کئی دوسری کائناتوں میں سے ایک ہو۔ بہت ممکن ہے کہ یہ بگ بینگ جس کے نتیجے میں ہماری کائنات ظہور پذیر ہوئی،  وہ دوسرے کئی "بگ بینگوں‘‘ میں سے کوئی ایک ہو۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بگ بینگ تو ایک ہی رہا ہو مگر اس کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والی لاتعداد کائناتوں میں سے ایک،  ہماری کائنات بھی ہو۔ یہ بھی عین ممکن ہے کے ان لاتعداد کائناتوں میں کچھ جگہیں ایسی بھی ہوں جہاں اب بھی بگ بینگ وقوع پذیر ہو رہا  ہو۔ وہ کائناتیں ابھی اپنی ابتداء اور تخلیق کے مراحل ہی طے کر رہی ہوں۔ لیکن فی الحال  تو ہم صرف اپنی کائنات کے بارے میں ہی بات کر سکتے ہیں ۔ اگرچہ اسے سمجھنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ بقول آئن اسٹائن: "کائنات کی سب سے ناقابلِ فہم بات یہی ہے کہ یہ قابلِ فہم ہے۔‘‘

۱۹۲۰ء کی دہائی کے اختتام سے ذرا پہلے تک جو کچھ ہم کائنات سے متعلق جانتے تھے،  اس عشرے کے اختتام پر وہ سب کچھ بالکل تبدیل ہو کر رہ گیا۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ پچھلی یعنی بیسویں صدی میں  کائنات سے متعلق ہماری سوجھ بوجھ کس حد تک بدل گئی تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل  میں ہم سمجھتے تھے کہ کائنات ابدی اور سا کن ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہے،  اور ایسی ہی ہے جیسی کہ یہ ہے۔ لیکن ۱۹۲۹ء میں یہ سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ امریکی شہر لاس اینجلس میں مشہور زمانہ ماؤنٹ ولسن  رصد گاہ (Mount Wilson Observatory) واقع ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ۱۹۲۹ء میں ماہر فلکیات  ایڈوِن ہبل(Edwin Hubble) نے دریافت کیا کہ کائنات صرف ہماری کہکشاں،  ملکی وے پر ہی مشتمل نہیں بلکہ اس میں ان گنت کہکشائیں ہیں۔ ان میں سے کوئی کہکشاں بھی اپنی جگہ پر ساکن نہیں۔ اس کے برعکس،  کہکشائیں نہ صرف مسلسل تیزی سے حرکت کر رہی ہیں بلکہ وہ نا قابل یقین رفتار کے ساتھ ہماری زمین سے دُور ہوتی جا رہی ہیں۔ دراصل یہ بگ بینگ سے متعلق پہلی شہادت تھی۔ اوسطاً تمام کہکشائیں ہم سے دور بھاگ رہی ہیں۔ صرف یہی نہیں،  بلکہ جو کہکشاں ہم سے جتنی زیادہ دور ہے وہ اتنی زیادہ تیزی سے ہم سے اور دُور ہوتی جا رہی ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہکشاں ہم سے دگنے فاصلے پر ہے تو وہ دگنی رفتار سے مزید دور ہو رہی ہے ۔ اور اگر تین گنا فاصلے پر ہے تو تین گنا رفتار سے دور بھاگتی جا رہی ہے … علیٰ  ہٰذالقیاس۔ ہر چیز ہم سے دور بھاگ رہی ہے،  آج ہم اس  کُلئے کو ” ہبل کے قانون” (Hubble’s Law)کے نام سے جانتے ہیں۔

مگر ہبل کی یہ دریافت تو صرف ابتداء تھی۔ کہکشاؤں کے حرکت سے ہبل نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماضی کے کسی موقعے پر یہ ساری کی ساری کائنات یقیناً کسی ایک جگہ پر،  یکجا ضرور رہی ہو گی۔ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار سے ماہرین فلکیات نے اندازہ لگایا کہ یہ تمام کا تمام مادّہ کب،  آج سے کتنا عرصہ پہلے،  یکجا رہا ہو گا۔

اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب ہم کائنات کی پیدائش کے وقت موجود ہی نہیں تھے تو ہمیں کیسے پتا چلا کہ کائنات کی عمر ۱۳ اَرب ۸۰ کروڑ سال کے لگ بھگ ہے۔ اس بات کو ہم ایک سادہ مثال سے سمجھ  سکتے ہیں۔ ہم  جب کوئی ویڈیو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہم اسے روکنے (Stop) اور پیچھے (Rewind)  کرنے پر بھی قادر ہوتے ہیں۔ ہم اسے دوبارہ بھی چلا سکتے ہیں۔ کونیات میں بھی بالکل  ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب ہم کونیاتی دھماکے کی بات کرتے ہیں تو یہ ویڈیو والی مثال اس پر صادق آتی ہے۔ ماضی میں جھانکنے کے لئے ماہر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب آپ نگاہ اٹھا کر آسمان میں رات کو ستارے دیکھتے ہیں تو دراصل ان کی روشنی آپ تک کروڑوں نوری سال(Light Year) کا فاصلہ طے کر کے  پہنچ رہی ہوتی ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ان ستاروں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے کے لئے کروڑوں سال درکار ہیں۔ لہٰذا اگر آپ اور بھی دور تک دیکھنے کے قابل ہو جائیں،  تو دراصل آپ اور بھی پرانی،  اور بھی زیادہ قدیم کائنات کا نظارہ کر رہے ہوں گے۔ کائنات کی گہرائی میں دیکھتے چلے جائیے،  اور ہوتے ہوتے ایک مقام وہ بھی آئے گا جو ہم سے اربوں نوری سال دور ہو گا۔ اور وہاں آپ اس کائنات کو اس کے اوّلین وقت میں دیکھ سکیں گے۔ ہبل خلائی دوربین کے ذریعے (جسے ایڈوِن ہبل کی خدمات کے اعتراف میں یہ نام دیا گیا ہے ) ہم اس قابل ہو گئے ہیں کہ خلائے بسیط میں،  کائناتی ماضی کے جھروکوں میں جھانک سکیں ۔ خلاء میں ہم جتنا زیادہ دور تک دیکھ سکیں،  ہم اتنا ہی قریب سے بگ بینگ کو بھی  دیکھ سکیں گے۔  سائنس دانوں کے لئے بگ بینگ کی ابتداء کو دیکھنا تو بس ابتدائے عشق جیسا معاملہ ہے !

عام آدمی جب بگ بینگ کے بارے میں سنتا ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ یہ کس جگہ وقوع پذیر ہوا تھا؟ اس کا سادہ جواب ہے کہ یہ ہر جگہ وقوع پذیر ہوا تھا، کیونکہ کائنات اس وقت انتہائی مختصرسی جگہ تھی۔ کائنات کے متعلق ابھی ہمارا نظریہ بہت مبہم اور مشکل ہے۔ مگر دماغ کی چولیں ہلا دینے والاسوال تو یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ قدیم زمانے کے اہلِ علم اکثر یہ کہتے تھے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز عدم (Nothingness) سے اچانک وجود میں آ جائے ! حیرت انگیز طور پر،  قوانینِ طبیعیات کی روشنی میں ایسا ہونا بالکل ممکن ہے۔ سیدھے لفظوں میں بات یہ ہے کہ  ہماری پوری کائنات اور اس میں موجود ہر شے  بشمول کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا،  ہماری عزیز ترین چیزیں وغیرہ،  سب کی سب اچانک عدم سے وجود میں آ گئیں۔ آج بگ بینگ کو سمجھنے میں جو  سب سے بڑی رکاوٹ ہے،  وہ کائنات کا عدم سے وجود میں آنا ہی ہے۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ یہ یقیناً نا  ممکن سی بات ہے اور اس بات کو سمجھنا انسانی ذہن کے لئے  آسان نہیں۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ عدم سے اچانک لامحدود توانائی اور لامحدود کثافت نے جنم لیا۔ اور تو اور اس زمان و مکان نے،  اس خلاء اور وقت نے بھی اسی عدم سے وجود پایا ہے۔  کائنات کا  سب سے بڑا اسرار،  اس کا عدم سے وجود میں آنا ہی  ہے۔ لیکن اگر آپ نے عدم سے وجود کو سمجھنا شروع کر دیا تو گویا آپ نے بگ بینگ کو سمجھنا شروع کر دیا۔ آغازِ وقت پر کائنات ایک عظیم دھماکے سے وجود میں آ گئی۔ کائنات اس وقت دراصل ایک نقطہ تھی۔ یہ نقطہ  لامحدود طور پر  چھوٹا،  نا قابلِ تصور حد تک گرم اور لا محدود و لا متناہی کثافت و توانائی پر مشتمل تھا۔ ہم بگ بینگ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سارے  کا سارا مادّہ اور توانائی جو کہ آج ہم تقریباً چار کھرب کہکشاؤں میں ہم دیکھتے ہیں،  وہ سب کا سب اس ایک نقطے  میں قید تھا،  جس کی جسامت ایک سادہ ترین ہائیڈروجن کے ایٹم سے بھی کم تھی۔ تمام قابل مشاہدہ تمام کائنات،  اُس وقت صرف ایک سینٹی میٹر کے بھی کروڑ ہا کروڑویں حصے جتنی مختصر تھی۔ ہر چیز ناقابل یقین حد تک کثیف اور گرم تھی۔ اس وقت تک  مادّہ وجود میں نہیں آیا تھا۔ بس توانائی ایک بپھری ہوئی شکل میں موجود تھی۔ بس یہی نقطہ آغاز تھا ہماری کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کا۔

اس وقت ہر چیز بہت ہی سادہ تھی۔ کائنات کی وہ تمام بنیادی قوّتیں جنہیں ہم آج جانتے ہیں،  وہ سب ایک اور یکجا تھیں۔ اس وقت کائنات کسی خاص ترتیب میں نہیں ڈھلی ہوئی تھی۔ نہ ہی اس کی  کوئی ساخت تھی۔ اس اوّلین   وقت میں قوانین طبیعیات  (جنہوں  نے کائنات کو اس کی موجودہ شکل و صورت دی ہے ) بذات خود تشکیل پا رہے تھے۔ کشش ثقل (Gravity)  پہلی قوّت کے طور پر نمودار ہوئی۔  کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کی قسمت کا فیصلہ اسی وقت ہو گیا تھا۔

کارلوس فرینک (Carlos Frenk) نے ایک سپر کمپیوٹر پر مصنوعی طریقے (سمیولیشن) سے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کس طرح کشش ثقل نے کائنات کو اس کی موجودہ شکل دی۔ یہ جاننے کے لئے انہوں نے کئی طرح کی (مصنوعی) کائناتیں (سپر کمپیوٹر پر) تشکیل دیں اور ان میں کشش ثقل کی مختلف قیمتیں رکھیں۔ انہوں نے پہلی سمیولیشن میں کشش ثقل کی قیمت (یعنی اس قوت کی شدت)،  اس کی موجودہ سے قیمت سے بہت کم رکھی۔ جس کا نتیجہ کچھ بھی  نہ نکلا۔ اتنی کم ثقلی قوّت کے ساتھ مادّہ ایک ساتھ یکجا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یعنی قوّت ثقل کی موزوں شدت نے ہمیں بچا لیا۔ کیونکہ اگر یہ اپنی موجودہ قیمت سے تھوڑ سی بھی کم ہوتی تو ہماری کائنات بہت ہی بیزار کن جگہ ہوتی۔ ایک ایسی جگہ جہاں ہر چیز ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہوتی۔ اور جب مادّہ ہی ایک جگہ جمع نہ ہوتا توستاروں کو جنم دینے والے،  گردو غبار کے بادل کیسے وجود میں آتے۔ ہماری کائنات کو اس کی موجودہ شکل و صورت دینے میں ثقلی قوّت کا بڑا ہی اہم کردار ہے۔ اگر ثقلی قوّت اپنی موجودہ شدت سے ذرا بھی کم ہوتی تو ستارے ہوتے نہ ان سے بھری کہکشائیں ۔ اور نہ ہی کچھ اور۔

ایک اور سمیولیشن میں فرینک نے قوتِ ثقل کی شدت،  اس کی موجودہ کیفیت کے مقابلے میں زیادہ رکھی۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات: اگر کشش ثقل اپنی موجودہ شدت سے ذرا بھی زیادہ مضبوط ہوتی تو کائنات،  اپنی ابتداء کے کچھ ہی عرصے بعد ایک بلیک ہول کی شکل میں سمٹ کر ختم ہو جاتی۔

مختصر یہ کہ کائنات کی تشکیل سے لے کر اس کی موجودہ شکل و صورت کو برقرار رکھنے تک کے لئے  ثقلی قوّت کو بالکل  اتنا ہی طاقتور،  عین اتنا ہی شدید   ہونا چاہئے   تھا کہ جتنی یہ اس وقت ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ بگ بینگ سے وجود پذیر ہونے والی قوتِ ثقل ٹھیک اتنی ہی مضبوط تھی کہ جتنا اسے (ہماری اپنی تخلیق و تشکیل کے لئے) ہونا چاہئے تھا۔

پہلے سیکنڈ کے کچھ ابتدائی  حصّے میں،  جب ثقلی قوّت وجود میں آ گئی تھی اور مختلف قوتوں کی ہنگامہ خیزی جاری تھی،  توانائی کی ایک زبردست صدماتی لہر (شاک ویو) پھوٹ پڑی اور کائنات،  ناقابل تصور رفتار سے ہر طرف پھیل گئی۔ صرف ایک سیکنڈ کے کچھ حصّے میں ہی کائنات ناقابل یقین حد تک پھیل چکی تھی! ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک سیکنڈ کے سو  کھربویں حصّے کے بھی سو  کھربویں حصّے کے دوران یہ کائنات  ایک کھرب کھرب گنا سے بھی زیادہ پھیل چکی تھی۔ آج اس مرحلے کو ہم "کائنات کا افراط زدہ پھیلاؤ” کہتے ہیں۔

تب کائنات کے پھیلنے کی رفتار،  روشنی کی رفتار سے بھی تیز تھی۔ یہ تو سائنس سے مناسب واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں  کرسکتی۔ تو پھر خلاء کس طرح روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرسکتی ہے ؟ تو کیا اس نے طبیعیات کا قانون  توڑ نہیں دیا تھا؟ یہ بات تو  چوٹی کے سائنس دنوں کو بھی پریشان کئے  رکھتی ہے۔ مگر اہم بات  اُس وقت کی کائنات کو جاننا ہے۔ یہ بالکل  ایسا ہی ہے کہ ہائیڈروجن کا  ایک سادہ  ایٹم اتنے ہی وقت میں پھیل کر گولف کی ایک گیند جتنا ہو جائے۔ ہمارے لئے شاید ایٹم اور گولف کی گیند کے حجم کو سمجھنا مشکل ہو،  لیکن اگر گولف کی ایک  گیند پھیل کر،  اتنے ہی وقت میں،  دنیا کے گولے جتنی بڑی ہو جائے،  تو شاید ہمیں بات سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہ تو پھر وہی بات ہو گی جس کا مطلب روشنی کے رفتار سے بھی زیادہ ہوا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ابتدائے  وقت میں بہت ساری چیزیں جو ایک دوسرے کے بہت ہی قریب تھیں،  بہت ہی تیزی کے ساتھ  وقوع پذیر ہوئیں۔ اس بات کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لئے  ہمیں وقت کی ایک نئی اکائی تخلیق کرنا ہو گی: پلانک وقت (Planck Time)۔

پلانک وقت  کتنا مختصر پیمانہ ہوتا ہے ؟ اسے سمجھنے کے لئے یہ جان لیجئے کہ صرف ایک سیکنڈ میں پلانک وقت کی جتنی اکائیوں کی تعداد ہوتی ہے،  وہ ان تمام سیکنڈوں سے بھی زیادہ ہیں جو بگ بینگ سے لے کر آج تک گزر چکے ہیں ! آج بگ بینگ ہوئے تقریباً ۱۳ اَرب ۸۰ کروڑ سال ہو چکے ہیں۔ حساب کتاب میں آسانی کی غرض سے ہم انہیں پورے ۱۴ اَرب سال مان لیتے ہیں۔ اب اس ۱۴ اَرب (۱۴۰۰۰۰۰۰۰۰۰) کو ایک سال کے دوران گزرنے والے سیکنڈوں کی مجموعی تعداد (یعنی ۳۱۵۵۶۹۲۶سیکنڈ) سے ضرب دیجئے تو اس سے حاصل ہونے والا  جواب  واقعی میں سِٹیّ گُما دینے والا عدد ہو گا۔ وقت کا یہ پیمانہ،  یعنی پلانک وقت،  اس قدر مختصر ہے کہ انسان اس کا ادراک ہی نہیں کرسکتا۔ اگر ہم اپنی گھڑی کو دیکھتے ہوئے  ایک سیکنڈ کو پلانک وقت  میں ناپنے کی کوشش کریں تو وہ  کتنے پلانک وقت  پر مشتمل ہو گا؟ وہ  ایک ارب ارب ارب ارب ارب  پلانک سیکنڈوں پر مشتمل ہو گا!

چلئے،  اب واپس بگ بینگ شروع ہونے کے اوّلین وقت کی طرف چلتے ہیں۔ اس وقت بگ بینگ کی عمر صرف چند پلانک سیکنڈ ہی تھی۔ اُس وقت مادّہ نہایت ہی تیزی کے ساتھ کائنات میں پھیل رہا تھا۔ اگلے چند پلانک سیکنڈوں میں کائنات،  جیسا کہ اس کے بارے میں ہم اب تک جان پائے ہیں،  پیدا ہو چکی تھی۔ ہتھیلی پر سما جانے والی یہ چھوٹی سی کائنات،  صرف ایک سیکنڈ کے بہت ہی معمولی حصے میں پھیل کر ہمارے کرۂ  ارض جتنی جسامت کی ہو گئی۔ اور پھر اسی قدر معمولی وقت کے دوران یہ مزید پھیل کر ہمارے نظامِ شمسی سے بھی بڑی ہو گئی!

اُس وقت تک کائنات ایک بپھری ہوئی توانائی کا طوفان تھی۔ وہ لا محدود و لا متناہی  طور پر گرم اور کثیف تھی۔ جس کا ہم تصور بھی نہیں  کرسکتے۔ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اس کے مقابلے پر کسی بھی ستارے کا قلب (جس کا درجہ حرارت کروڑوں ڈگری سینٹی گریڈ میں ہوتا ہے ) بہت ہی ٹھنڈا اور پُرسکون لگے گا۔ اُس وقت درجہ حرارت اس حد تک تھا کہ  ہمارا جسم ریزہ ریزہ  ہو جاتا۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس درجہ حرارت میں ایٹم بھی اپنا وجود قائم نہ رکھ سکیں گے۔ اس وقت درجہ حرارت دسیوں کھرب ڈگری تک جا پہنچا تھا۔ جیسے جیسے کائنات پھیلتی گئی،  ویسے ویسے اس کا درجہ حرارت بھی کم ہوتا گیا۔ کم ہوتے درجہ حرارت نے کائناتی ارتقاء کے اگلے مرحلے میں اہم کردار ادا کیا۔ عظیم دھماکے (بگ بینگ) سے پیدا ہونے والی خالص توانائی ایٹم کے ذیلی ذرات (Subatomic Particles) میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ یہ ہماری کائنات میں تشکیل پانے والا اوّلین مادّہ تھا۔

توانائی کے مادّے میں تبدیل ہونے کا تصور سب سے پہلے البرٹ آئن اسٹائن (Albert Einstein) نے،  بگ بینگ کے نظریئے سے بھی بہت پہلے دیا تھا۔ یہ وہی سائنسی مساوات ہے جسے  تقریباً سب ہی جانتے ہیں ۔ یعنی E = mc2 یہی کلیہ ہمیں تخلیق کائنات  کے  بارے میں آگہی دیتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ کائنات کی  ابتداء صرف اور صرف خالص  توانائی سے  ہوئی تھی۔ جس سے بعد میں مادّہ پیدا ہوا۔ توانائی اور مادّہ ایک ہی چیز کی دو مختلف شکلیں ہیں ۔ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ مادّہ،  توانائی میں اور توانائی،  مادّے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ہم کائنات کی ہر چیز اس خالص توانائی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ آئن اسٹائن کی یہ چھوٹی سی مساوات نہایت ہی پُر اثر ہے۔ اسی کی بنیاد پر پہلا ایٹم بم بنایا گیا۔

نیو کلیائی دھماکے میں مادّے کی تھوڑی سی مقدار زبردست توانائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کائنات کی تشکیل میں اس کا بالکل  الٹ ہو رہا تھا۔

خالص توانائی،  مادّے میں تبدیل ہو رہی تھی۔ شروع میں مادّے کی    ضرورت نہیں تھی،  بس توانائی ہی چاہے ہ تھی۔ صرف توانائی ہی سے مکمل کائنات وجود میں آ سکتی تھی۔   بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے کچھ ہی حصّے میں کائنات کو بنیاد فراہم کرنے والے ذیلی ایٹمی ذرّات بننا شروع ہو گئے تھے۔ اوّلین  وقت میں وجود آنے والا مادّہ،  اس مادّے سے بہت مختلف تھا کہ جس کا ہم آج کل مشاہدہ کرتے ہیں۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ  عام مادّہ،  بگ بینگ کی ابتداء میں بننے والے مادّے سے نہایت مختلف تھا۔ جس کی  وجہ اس وقت کی وہ انتہائی  صورتحال تھی جس نے  اس وقت  تک کسی بھی  کوئی ایٹم کو  پنپنے نہیں دیا  تھا۔ بس سارا مادّہ ذیلی ایٹمی ذرّات (سب اٹامک پارٹیکلز) ہی پر مشتمل تھا۔ بگ بینگ کے وقت کائنات انتہاء درجے کی گرم اور کثیف تھی۔ وہ لامحدود و لا متناہی توانائی پر مشتمل تھی۔ اس وقت مادّہ کے توانائی میں اور توانائی کے مادّے میں تبدیل ہونے کا سلسلہ جاری تھا۔ تخلیق ہونے والا یہ اوّلین مادّہ اتنا غیر قیام پذیر تھا کہ وہ اس کائنات کو تشکیل دینے کی ابتداء کر ہی نہیں سکتا تھا کہ جس سے ہم واقف ہیں۔

اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے  ہیں :آپ  کسی بڑے بازار کا منظر اس کے مصروف اوقات کار میں تصور کیجئے۔ اس بازار کو ابتدائی کائنات،   اور  بھیڑ سے نکلنے اور اس میں گم ہو جانے والے لوگوں کو ذیلی ایٹمی ذرّات سمجھئے۔ اگر آپ نے ایک بڑے ہجوم  کا تصور کر لیا  تو آپ دیکھیں گے کے بھیڑ میں سے لوگوں کا نکلنا اور اس میں گم ہونا کسی خاص ترتیب سے نہیں ہو گا بلکہ وہ بالکل  بے ترتیب ہو گا۔ لوگوں کی یہ حرکت خاصی حد تک کائنات کے ابتدائی وقت میں ذیلی ایٹمی ذرّوں کی حرکات سے مِلتی جُلتی ہے۔ ابتدائی کائنات کے انتہائی شدید درجہ حرارت نے توانائی سے بھرپور ذیلی ایٹمی ذرّوں میں زبردست ہلچل پیدا کر دی تھی۔ وہ وجود میں آتے اور فوراً ہی توانائی میں تحلیل ہو کر غائب ہو جاتے۔ ان کا اس طرح سے حاضر اور غائب ہونا ناقابل یقین رفتار اور عجیب افراتفری کے انداز میں ہو رہا تھا۔

اب ذرا  تصور کیجئے کہ کسی ریلوے ا سٹیشن پر لوگ ٹرین میں جلدی  جلدی میں سوار ہونے کی کوشش کر رہے ہوں تو کیا ہو گا؟ شروع میں لوگ شدید دباؤ میں ہوں گے،  ہر ایک جلدی جلدی ٹرین میں سوار ہونے کی کوشش کر رہا ہو گا۔ مگر جیسے جیسے رش کم ہو گا،  ویسے ویسے لوگ پُرسکون ہو کر ٹرین پر سوارہوں گے۔ ابتدائی کائنات میں ذیلی  ایٹمی ذرّات کا  برتاؤ بھی بالکل ایسا ہی تھا۔ شروع میں ذرّات بہت تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔ مگر پھر ان کی حرکت بتدریج دھیمی پڑتی چلی گئی۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان میں بے ترتیبی (randomness) کا عنصر بھی خاصا کم ہوتا چلا گیا۔ کائنات کے درجہ حرارت میں جب خاصی کمی ہو گئی تو ذرّات نے واپس توانائی میں تبدیل ہونا تقریباً بند کر دیا۔ اس وقت بس ذیلی ایٹمی ذرّات ہی ہر جگہ موجود تھے۔ درجہ حرارت میں بہت کمی ہو جانے کے باوجود، کائنات میں اب بھی بہت گرمی اور ہنگامہ خیزی جاری تھی۔ یہ سب کچھ ایک سیکنڈ کے کچھ ہی حصّے میں ہو رہا تھا۔ بگ بینگ اپنے پہلے سیکنڈ کے سب سے اہم حصّے میں داخل ہو رہا تھا۔

اسی مرحلے پر ایک جنگ،  مادّہ اور ضد مادّہ (Antimatter) میں شروع ہو چکی تھی۔  ضد  مادّہ،  کائنات کو تشکیل پانے سے پہلے ہی ختم کرسکتا تھا۔ کائنات کی ہر چیز، جس میں چھوٹے سے ذرّے سے لے کر  عظیم الجثہ ستارے تک شامل ہیں،   مادّے سے بنی ہوئی ہے۔ اور سارے کا سارا مادّہ بگ بینگ کی خالص توانائی ہی سے  تخلیق ہوا ہے۔

آئن اسٹائن مشہورِ زمانہ مساوات ہمیں بتاتی ہے کہ مادّہ اور توانائی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ جب آئن ا سٹائن  نے یہ تصور پیش کیا تھا تووہ  صرف ایک مفروضہ ہی تھا۔ مگر آج سائنس اس تصور کو پرکھ  چکی ہے۔ ذرّاتی طبیعیات کی مشہور یورپی تجربہ گاہ "سرن” (CERN) سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے ۔ جہاں دنیا کی سب سے بڑی مشین موجود ہے۔ یہ مشین ایک شہر جتنی بڑی ہے۔ اسے خاص اسی مقصد کے لئے بنایا ہے کہ اس میں بگ بینگ کے وقت کی صورتحال کو دوبارہ چھوٹے پیمانے پر تخلیق کیا جا سکے۔ ہم جتنے خورد بینی ماحول میں اسے جانچنا چا ہتے ہیں،  اتنی ہی بڑی مشین ہمیں درکار ہو گی۔ یعنی جتنے چھوٹے پیمانے پر تجزیہ درکار ہو گا،  اتنی ہی بڑی مشین بھی درکار ہو گی۔ فی الحال  اس طرح کے تجزیئے اور مطالعے کا  دوسرا کوئی طریقہ دستیاب  نہیں۔ بڑی مشین کا مطلب نہایت ہی چھوٹے پیمانے پر طبیعات کی جانچ پڑتال کرنا  ہے ۔ جو ہمیں ابتدائے زمان و مکاں،  یعنی کائنات کی پیدائش کے اوّلین   وقت کے ماحول کا تجزیہ کرنے میں مدد کرے گی۔ اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔

سرن میں واقع اس جناتی مشین کو "تصادم گر” (کولائیڈر) کہتے ہیں ۔ جس کا پورا نام "لارج ہیڈرون کولائیڈر” (The Large Hadron Collider) ہے۔ یہ مشین خاص طور پر اس لئے بنائی ہے تاکہ ہم اس میں بگ بینگ کے اوّلین  وقت کا مطالعہ کرسکیں۔ یہ تقریباً ١٢ فٹ چوڑی،  کنکریٹ سے بنی گول سرنگوں پر مشتمل ہے۔ ان سرنگوں کی مجموعی لمبائی لگ بھگ  ١٧ میل ہے۔ اس مشین میں مادّے کے چھوٹے ذرّات (پروٹونوں ) کو قریب قریب   روشنی کی رفتار تک پہنچا کر آپس میں ٹکرایا جا سکتا ہے۔ اس  عمل میں ایک  سیکنڈ کے کچھ حصّے تک ہی رہنے والی زبردست  توانائی پیدا ہوتی  ہے۔ بالکل  اسی طرح جیسے آج سے ۱۳ اَرب ۸۰ کروڑ سال پہلے،  بگ بینگ سے توانائی پیدا ہوئی تھی۔ اور پھر یہ خالص توانائی،  مادّے میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ بالکل ویسے ہی جیسے بگ بینگ کے فوراً بعد،  ابتدائے کائنات میں ہوئی تھی۔ اس تصادم کی سراغرسانی کرنے کے لئے بھی ہمیں اتنا ہی بڑا کوئی سراغرساں آلہ درکار ہو گا۔ لارج ہیڈرون کولائیڈر میں بھی ایسا ہی ایک دیو قامت سراغرساں (Giant Detector) نصب ہے۔یہ ڈکٹیٹر پانچ منزلہ عمارت جتنا اونچا اور تقریباً ٧ ہزار  ٹن وزنی ہے۔ ٧ ہزار  ٹن!  پڑھنے میں بہت معمولی سا لگتا ہے مگر پورے آئفل ٹاور کا وزن بھی اس سے زیادہ نہیں۔ مگر اپنے اس حجم کے باوجود  بھی یہ مادّے کے ان ذرّات کو نہیں دیکھ سکتا۔ وہ تو ایک سیکنڈ کے بہت ہی معمولی حصے میں نمودار ہو کر غائب بھی ہو جاتے ہیں۔ البتہ،  اپنے پیچھے کچھ نشانیاں ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ دیو قامت سراغرساں،  ان ہی نشانیوں کا مشاہدہ کر پاتا ہے۔ یا پھر یوں کہئے کہ یہ سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتا رہ جاتا ہے۔ لیکن لیکن یہی لکیر،  وجود پذیر ہو کر غائب ہو جانے والے ذرّات کی نشانیاں،  ہمیں بہت کچھ جاننے میں مدد دیتی ہیں۔ ان ذرّات میں بہت زیادہ توانائی ہوتی ہے ۔ اور وہ بہت تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں جناتی سائز کا ڈٹیکٹر بھی چاہئے،  جو اُن کے راستوں (trails) کی ٹھیک ٹھیک نقشہ کشی کرسکے۔ بہتر ریزولوشن کے لئے جناتی سائز کا  ڈٹیکٹر نہایت ضروری ہے۔ یہ بالکل  کیمرے ہی کی طرح ہے :جس قدر زیادہ پکسل کا کیمرا ہو گا،  اتنی ہی بہترین تصویر بھی ملے گی۔ یہ ڈٹیکٹر پانچ منزلہ کیمرے جیسا  ہی ہے !

سائنسدانوں کو اُمید ہے کہ جلد ہی اس راز سے پردہ اٹھ جائے گا کہ توانائی کس طرح مادّے میں تبدیل ہوتی ہے۔ عام مادّے میں نہیں،  بلکہ  اس طرح کے مادّے میں جو آج سے تقریباً ۱۴  ارب سال پہلے،  اوّلین   وقت میں تشکیل پایا تھا۔ کائنات کی تشکیل میں اوّلین  وقت بہت ہی نازک مرحلہ تھا۔ کیونکہ اس وقت خالص توانائی انتہائی خطرناک چیز پیدا کر رہی تھی۔ اور وہ تھی ضد مادّہ۔

جی ہاں ضد مادّہ بالکل  حقیقی ہے۔ اصل میں ضد مادّہ،  مادّے کے برعکس ہے۔ مادّی ذرّات کے مقابلے میں ضد مادہ کے ذرّات پر بالکل اُلٹ چارج ہوتا ہے۔ مادّے کے الیکٹرون پر منفی چارج ہوتا ہے،  لیکن ضد مادّہ کے الیکٹرون پر مثبت چارج ہوتا ہے (اسی لئے وہ "پوزیٹرون” کہلاتا ہے )۔ یہی معاملہ مادّی پروٹون اور ضدمادّہ سے بنے پروٹون (اینٹی پروٹون) کا ہے۔ اب فرض کیجئے کہ اگر ہمارا کوئی ہمزاد،  جو ضد مادّہ سے بنا ہو،  اپنی شکل و صورت،  چہرے مہرے اور شخصیت کے اعتبار سے بالکل ویسا ہی دکھائی دے گا جیسے کہ ہم خود ہیں۔ لیکن جونہی ہم اس سے ہاتھ ملائیں گے،  ایک زبردست دھماکہ ہو گا… ہم اور ہمارا ہمزاد،  دونوں ہی فنا ہو جائیں گے ۔ خالص توانائی میں تبدیل ہو جائیں گے۔ یہ دھماکہ انتہائی شدید ہو گا،  اتنا شدید کہ ایک طاقتور ایٹم بم کا دھماکہ بھی اس کے سامنے کچھ نہ ہو!

مادّہ،  ضدّ مادّہ کے ساتھ ایسے سینگ لڑاتا ہے جیسے وہ ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہوں۔ اور بات بالکل  صحیح بھی ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ مادّے کے مقابلے میں ضد مادّہ پر بالکل یکساں لیکن اُلٹ چارج ہوتا ہے۔ کائنات کا مقدّر بھی مادّے اور ضد مادّہ کی لڑائی پر منحصر تھا۔ مادّے اور ضد مادّہ کی یکساں مقدار ایک دوسرے کو مکمل طور پر ختم کر دیتی (کیونکہ مادّہ اور ضد مادّہ ایک دوسرے کو فنا کر دیتے ہیں ) لہٰذا کائنات میں کچھ بھی نہ بچتا۔ تو وہ کائنات جس میں سوائے اشعاع (Radiation) کے کچھ بھی نہ بچا ہو،  وہاں نہ تو کوئی ستارہ جنم لے سکتا تھا اور نہ  ہی کوئی کہکشاں تخلیق ہو پاتی۔ نہ کوئی سیارہ وجود میں آسکتا تھا اور نہ ہی اس پر بسنے والے انسان پیدا ہو  سکتے تھے۔  عام طور پر جس طرح جنگ میں وہی فریق جیتتا ہے جس کی تعداد زیادہ ہو،  بالکل  ایسے ہی مادّے اور ضد مادّہ کی لڑائی میں ہوا۔ اگرچہ مقابلہ بہت ہی ٹکر کا تھا،  پھر بھی جیت تو کسی ایک ہی کی ہونی تھی۔ ہر ایک ارب ضدمادّہ کے ذرّات کے مقابل،  مادّے کے ذرّوں کی تعداد صرف ایک ذرّے کے بقدر زیادہ یعنی ایک ارب ایک ذرّات تھی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مادّہ تشکیل پا گیا۔ مادّے کا یہی وہ ایک ذرّہ تھا جو ایک ارب ایک ذرّات  میں سے بچ گیا تھا۔ اتنا قلیل ہونے کے باوجود بھی یہ مادّہ،  موجودہ کائنات کی تشکیل کے لئے کافی تھا۔ وہ تمام مادّہ جو کہکشاؤں اور ستاروں میں ہم آج دیکھتے ہیں،  یہ وہی بچ جانے والا مادّہ ہے۔

سننے میں "ایک ذرّہ بہ مقابل ایک ارب ایک ذرّات” بہت ہی حقیر سا لگتا ہے۔ مگر یہ فرق واقعی اتنا ہے کہ اس سے پوری کائنات وجود میں آئی۔ لیکن سچ تو یہی ہے کہ ہم "کائناتی کھرچن” ہیں۔ مادّے اور ضد مادّہ کے مابین تصادم کی باقیات ہیں ۔ اُس تصادم کی باقیات جو ابتدائے کائنات میں بڑے شدّومدّ سے جاری تھا۔ آپ کو یقین آئے یا نہ آئے،  لیکن ہر وہ چیز جو آج ہمارے ارد گرد موجود ہے،  یہاں تک کہ ہم خود،  ہمارے جسم کا ایک ایک ایٹم،  ستاروں کا ایک ایک ذرّہ،  یہ سب وہی باقی ماندہ  مادّہ ہے۔ یہ وہی آخری  کھرچن ہے جو مادّے اور ضد مادّہ کی ازلی لڑائی کے بعد بچ گئی تھی۔ خوش قسمتی سے کائنات کے پہلے ایک سیکنڈ کے دوران ہی وہ سارے کا سارہ مادّہ بچ چکا تھا کہ جس سے بعد میں تمام ستارے،  کہکشائیں اور سیارے وغیرہ وجود میں آئے۔

لیکن ٹھہریئے ! کائنات ابھی ناتمام تھی۔ یہ بہت ہی مختصر اور ابتدائی قسم کے ذرّات سے لبریز تھی۔ اب اگلا مرحلہ ایٹموں (atoms) کی تشکیل کا تھا۔ کائنات کی عمر ابھی بمشکل ایک سیکنڈ ہی تھی۔  مگر اب بھی یہ بہت ہی عجیب و غریب  سی جگہ تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کا مادّہ،  ضد مادّہ سے جنگ جیت چکا تھا۔ اب وقت تھا کائنات کی تشکیل کا! یہ ابھی تک انتہائی گرم تھی اور ناقابل یقین رفتار سے پھیل رہی تھی۔ جب کائنات کی عمر صرف ایک سیکنڈ تھی،  تو اُس وقت کائناتی ذرّات اپنی آج کی موجودہ شکل سے بالکل  مختلف تھے۔ اس وقت کوئی ایٹم پیدا نہیں تھا۔ ایسا کوئی ایٹم وجود میں نہیں آیا تھا کہ جس سے ہمارے ارد گرد موجود چیزیں،  جنہیں ہم جانتے اور پہچانتے ہیں،  تشکیل پائی ہیں۔ لیکن اب سب کچھ بدلنے والا تھا۔

درجہ حرارت بتدریج کم ہو رہا تھا۔ اوّلین  کائناتی ذرّوں نے اپنی حرکی رفتار کم کرنی شروع کر دی تھی۔ اب انہوں نے آپس میں بند باندھنے شروع کر دئیے تھے جس سے ایٹموں کے اوّلین مرکزے (Nucleus) تشکیل پانے لگے تھے۔ سب سے پہلے  ہائیڈروجن کا مرکزہ بنا۔ اور اگلے تین منٹوں میں مزید دو عناصر کے ایٹمی مرکزے تشکیل پا گئے ۔ اور یہ تھے ہیلیم اور لیتھیم۔ کائنات اب تک تقریباً ایک نوری سال پر پھیل چکی تھی۔ ان پہلے تین منٹوں کے دوران ہماری دلچسپی کا جو سامان بھی پیدا ہونا تھا،  وہ تقریباً سارے کا سارا پیدا ہو چکا تھا۔ البتہ،  اگر ہم اس وقت وہاں موجود ہوتے تو کچھ بھی نہ دیکھ پاتے۔

ہم جب رات کو آسمان پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دراصل میں ہم ارب ہا سال پرانے ماضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں۔ اور ہم یہ گمان کرتے ہیں کہ شاید  یہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔  بگ بینگ کے تقریباً تین لاکھ اسّی ہزار (۳۸۰۰۰۰) سال بعد کائنات کچھ شفاف ہونا شروع ہوئی۔ اس سے پہلے وہ دودھیا سی تھی۔ یہ دودھیا کہر،  آزاد الیکٹرونوں پر مشتمل تھی۔ کائنات کو اپنا درجہ حرارت ابھی اور بھی کم کرنا تھا۔ اس حد تک کہ الیکٹرون مزید دھیمے پڑ جاتے،  ایٹموں کے مرکزے انہیں اپنے مداروں میں قید کرنے کے قابل ہو جاتے،  اور بھرپور ایٹم تشکیل پا جاتے۔ کائنات کو اس کی موجودہ ساخت دینے میں ہائیڈروجن،  ہیلیم اور لیتھیم کو بہت ہی طویل عرصہ انتظار کرنا پڑا۔ سائنسدانوں کے تخمینے کے مطابق،  الیکٹرونوں کو دھیما ہونے اور بڑی تعداد میں ایٹم بنانے میں لگ بھگ تین لاکھ اسّی ہزار سال لگ گئے۔ اسی کے ساتھ کائنات پر چھائی ہوئی دودھیا کہر ختم ہو گئی۔ اور روشنی کی پہلی کرن کو خلاء میں فرار ہونے،  اور پوری کائنات میں پھیل جانے کا موقع ملا۔

تقریباً ۱۴  اَرب سال بعد،  نیو جرسی میں دو نوجوان سائنسدانوں نے اتفاقاً ان لہروں کا (روشنی کی اوّلین کرنوں کا) سراغ لگا لیا۔ یہ ۱۹۶۴ ء کی بات ہے۔ آرنو پنزیاس (Arno Penzias) اور رابرٹ ولسن (Robert Wilson)،  ہماری کہکشاں میں پھیلی ہوئی ریڈیو لہروں کی نقشہ کشی کرنے میں مصروف تھے۔ لیکن وہ جہاں کہیں بھی دیکھتے،  ہر جگہ پس منظر میں  ایک عجیب سی بھنبھنا ہٹ  جیسے ریڈیائی سگنل پاتے۔ پہلے پہل انہیں  لگا کہ ان کے آلے (انٹینا) میں کوئی خرابی ہو گئی ہے۔ انہیں شک ہوا کہ شاید کبوتروں کی بیٹ اس انٹینا پر گری  ہے جس کی وجہ سے ایسے سگنل موصول ہو رہے ہیں۔ مگر خوب اچھی طرح سے انٹینا صاف کرنے کے بعد بھی وہ سگنل ویسے ہی موصول ہوتے رہے۔

اس بارے میں ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنی اس دریافت کے بارے میں پرنسٹن یونیورسٹی میں ایک لیکچر دے رہے تھے۔ وہاں موجود ایک شخص نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "آپ نے یا تو کبوتروں کی بیٹ کے اثرات دریافت کئے ہیں یا پھر تخلیقِ کائنات کے۔‘‘

درحقیقت یہ تخلیق کے لمحے کی دریافت ہی تھی۔ یہ وہی لمحہ تھا جب تقریباً ۱۴  اَرب سال قبل،  ایٹموں نے پہلی پہلی بار الیکٹرونوں کو اپنی آغوش میں لیا تھا اور اپنی تکمیل کی تھی… جب کائنات پر چھائے ہوئے دودھیا بادل صاف ہوئے  تھے ۔ اور نوزائیدہ  کائنات اپنا نظارہ کرانے کو بے پردہ ہوئی تھی۔

اس یادگار لمحے کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لئے ناسا نے "کوبے‘‘ (COBE) یعنی Cosmic Background Explorer Satellite نامی مصنوعی سیارہ خلاء میں بھیجا تھا۔ اس نے خلاء میں جا کر کائناتی پس منظر کے مختلف حصوں کا درجہ حرارت ناپنا شروع کیا۔ پھر اس کا تجزیہ کیا گیا،  جس سے اوّلین  کائنات کی نقشہ سازی ہوئی۔ اس نقشے کو "خدا کا چہر” (Face of God) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اُس نومولود کائنات کا نقشہ تھا جس کی عمر صرف تین لاکھ اسّی ہزار سال تھی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ نقشہ بہت دھندلا تھا۔ ہمیں اور زیادہ واضح،  مفصل اور باریک بینی سے تیار کئے ہوئے نقشے کی ضرورت تھی۔ کوبے سے  حاصل شدہ معلومات،  بگ بینگ کی گتھی سلجھانے میں کافی نہیں تھیں۔ لہٰذا،  ناسا نے ایک اور مصنوعی سیارہ خلاء میں چھوڑا جو کوبے کے مقابلے میں کہیں زیادہ جدید اور حساس تھا۔ اسے Wilkinson Microwave Anisotropy Probe یعنی مختصراً "ڈبلیومیپ” (WMAP) کا نام دیا گیا۔

٢٠٠١ء میں ڈیوڈ  اسپر جیل (David Spergel) اس ٹیم  کا حصّہ تھے جس کا کام کائناتی پس منظر کی تفصیلی نقشہ کشی کرنا تھا۔ اس یادگار لمحے کے بارے میں بتاتے ہوئے،  کہ جب وہ سیارہ (ڈبلیومیپ) خلاء میں چھوڑا گیا تھا،  اسپرجل کہتے ہیں : "یہ بہت ہی پُر جوش موقعہ تھا  جب میں کیپ کیناورل گیا تھا۔ وہاں میرے گھر والے بھی میرے ساتھ تھے۔ میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ٹیلی ویژن پر راکٹ کو خلاء میں جاتے ہوئے  دیکھ رہا تھا۔ وہ لمحہ بہت ہی قیمتی تھا جب اس سیارے کے خلاء میں پہنچنے کے ایک دن سے بھی کم وقت کے دوران،   ہمیں اس سے اوّلین سگنلز موصول ہوئے ۔ اور تب ہمیں اطمینان ہوا کہ وہ مصنوعی سیارہ صحیح طرح سے کام کر رہا ہے۔‘‘

کائناتی پس منظر کی تصویر،  جو ڈبلیومیپ سے حاصل ہوئی تھی،  اب تک کی حاصل کردہ تصاویر  میں سے سب سے بہتر اور واضح تھی۔ یہ آغازِ کائنات کے تین لاکھ اسّی ہزار سال بعد کی تصویر تھی۔ اس تصویر کے لال اور پیلے حصے گرم ہیں ۔ جبکہ نیلے اور ہرے حصے،  کائنات کے سرد علاقوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔  اور درجہ حرارت کے اسی فرق میں کائناتی مستقبل کی تمام تر جزئیات قید ہیں۔ کائناتی پس منظر کے مختلف حصوں میں درجہ حرارت کا فرق،  یہ اتار چڑھاؤ صرف درجہ حرارت سے وابستہ نہیں،  بلکہ یہ اُس نوزائیدہ کائنات میں (مادّے کی) کثافت کے فرق سے بھی تعلق رکھتا ہے جس نے آگے چل کر کائنات کو وہ شکل،  وہ ساخت عطا کی کہ جس میں آج ہم اسے دیکھتے ہیں۔ کائناتی پس منظر کے اس نقشے میں گرمی کی نمائندگی کرنے والے حصے دراصل ان علاقوں کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں کثافت (مادّے کی مقدار) زیادہ تھی۔ جبکہ ٹھنڈک کے نمائندہ حصے،  ایسے علاقوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں یا تو مادّے کی بہت کم مقدار اکٹھی تھی،  یا پھر وہ بالکل خالی تھے۔ وہ حصّے جہاں مادّہ زیادہ نہیں تھا وہ خالی رہ گئے ۔ اور جہاں زیادہ مادّہ تھا،  وہ جگہیں کہکشاؤں،  ستاروں،  اور سیاروں کا گھر بنیں۔ یعنی درجہ حرارت کے یہ فرق صرف کثافت کے فرق نہیں تھے،  بلکہ یہ کائنات کی موجودہ ساخت کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتے ہیں۔

یاد رہے کہ تب ہماری کائنات کی عمر تین لاکھ اسّی ہزار سال ہو چکی تھی۔ اور تب تک وہ کھرب ہا کھرب میلوں پر محیط ہو چکی تھی۔ ہائیڈروجن اور ہیلیم کے گیسی بادل خلاء میں تیر رہے تھے۔ پہلا ستارہ بننے میں اب بھی کروڑ سال باقی تھے۔ ان  ستاروں نے اس وقت کائنات میں آتش بازی کا وہ شاندار مظاہرہ کیا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہو گا۔ کائنات ایک تاریک دور سے نکل کر ایک ایسے شاندار دور میں داخل ہو رہی تھی جب اوّلین  ستاروں نے گیسی بادلوں کو اپنی ضو سے منور کرنا شروع کیا اور اسی کے ساتھ کائنات ایک شاہانہ انداز میں روشن ہونا شروع ہوئی۔ کاش  کہ ہم اس نظارے  کو دیکھنے  کے لئے وہاں موجود ہوتے۔ یہ بالکل  ایسا ہی ہو گا جیسے کسی نے گھپ اندھیرے میں برقی  قمقموں کو روشن کر دیا ہو۔ کائنات ہر سمت سے روشن ہونا شروع ہو گئی تھی۔ یکے بعد دیگر ستارے وجود میں آنا شروع ہو گئے  تھے۔

بگ بینگ کے ایک ارب سال بعد پہلی کہکشاں نے جنم لیا۔ اگلے آٹھ ارب سال میں لاتعداد کہکشائیں وجود میں آ گئیں۔ تقریباً پانچ اَرب سال پہلے کسی کہکشاں کے ایک گوشے میں قوّت ثقل نے گرد اور گیس کے بادلوں کو ایک جگہ جمع کرنا شروع کیا۔ یہ ایک گرم گیسی گولا تھا جو گیس اور گرد کے مزید بادل ہڑپ کرتے ہوئے خود کو بڑا کر رہا تھا۔ اور آخرکار وہ وقت بھی آ گیا جب گیس کے اسی گولے سے ایک ستارے نے جنم لیا… جسے ہم اپنے سورج کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ بگ بینگ کے تقریباً ۹ اَرب سال بعد ہمارے اس ننھے سے نظامِ شمسی میں کچھ امن و امان ہوا۔ اور ہماری زمین پر زندگی نے اپنی پہلی پہلی جڑیں نکالنا شروع کیں۔

بگ بینگ ہی کی وجہ سے ہر چیز کا وجود ہے۔ ہر چیز تب سے مسلسل نشوونما پا رہی ہے۔ ہر چیز جس کا آغاز ہے،  اس کا انجام بھی ہو گا۔ بگ بینگ سے لے کر اب تک،  ان تقریباً ۱۴ اَرب سال میں کہکشائیں تخلیق ہوتی رہیں اور وہ ستاروں،  سیاروں  اور چاندوں سے بھرتی رہیں۔ اور اس پورے عرصے میں کائنات بھی مسلسل پھیلتی رہی۔ ہم یہ جان گئے ہیں کہ کائنات بہت ہی بڑی جگہ ہے ۔ لگ بھگ ١۵۰ اَرب نوری سال پر پھیلی ہوئی۔ لیکن یہ کائنات لامحدود بھی ہو سکتی ہے۔ (از مترجم: پال ہالپرن کی کتاب Edge of the Universe ،  A Voyage to the Cosmic Horizon  کے پہلے باب How Far Out Can We See میں کائنات کا پھیلاؤ ۹۳  اَرب نوری سال بیان کیا گیا ہے۔ ) لیکن  کیا یہ کائنات  واقعی ہمیشہ ہمیشہ پھیلتی ہی رہے گی؟ ہو سکتا ہے کہ کائنات کے باہر کچھ بھی نہ ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کائنات محدود ہو۔ ایسا بھی تو ممکن ہے کہ کائنات ایک بند جیومیٹری کی حامل ہو۔ یعنی اگر ہم بہت دور تک خلاء میں دیکھیں تو اپنے آپ ہی کو دیکھیں۔ شاید ہم یہ کبھی نہ جان پائیں کہ بگ بینگ سے وجود پذیر ہونے والی یہ کائنات ہمیشہ جاری و ساری رہے گی۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ بگ بینگ رکا نہیں ۔ وہ آج بھی کائناتی پھیلاؤ کی صورت میں جاری ہے۔

ایک اور تعجب انگیز بات یہ ہے کہ کائنات کا پھیلاؤ سست نہیں پڑ رہا،  بلکہ یہ تو تیز ہو رہا ہے ! یعنی کائنات صرف پھیل نہیں رہی،  بلکہ اس کے پھیلنے کی رفتار بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اسراع پذیر کائناتی پھیلاؤ (یعنی کائناتی پھیلاؤ کی بڑھتی ہوئی رفتار) کے پس پشت ایک "تاریک توانائی” (Dark Energy) کارفرما ہے۔ یہ پراسرار اور غیر مرئی شئے،  کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔ لیکن ہم اس تباہ کن طاقت کو نہ تو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ آخر یہ پراسرار توانائی موجود ہی کیوں ہے۔ مگر کہیں تاریک توانائی کی موجودگی کا مطلب یہ تو نہیں کہ بگ بینگ سے جو کچھ بھی تخلیق ہوا،  وہ سب کچھ ختم ہو جائے گا؟ اگر تاریک توانائی اسی طرح کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور دھکیلتی رہی تو ہماری ملکی وے  کہکشاں اکیلی ہی رہ جائے گی۔ آج سے  ایک کھرب سال بعد ہمارے کائناتی پڑوس میں موجود زیادہ تر اجرام فلکی ہم سے بہت دور ہو کر ہماری نظروں ہی سے اوجھل ہو چکے ہوں گے۔ تب تک ہماری کہکشاں میں موجود ستارے اپنا ایندھن پھونک چکے ہوں گے۔ کہکشائیں اندھیری ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اور شاید ایٹموں کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ جائیں گے۔ کائنات کی ابتداء،  بگ بینگ سے،  چشمِ زدن میں ہو گئی تھی۔ لیکن شاید اس کے اختتام کو ایک اَبد کا زمانہ درکار ہے ۔ اِک ہمیشگی کی ضرورت ہے۔ یہ بحث کہ کائنات کا اختتام کیسے ہو گا،  بگ بینگ ہی کی مانند ایک پہیلی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا کائنات اس غبارے کی طرح پھس ہو جائے گی جس کی ہوا نکال دی جائے ؟ یا اس کا خاتمہ ایک عظیم چٹاخے،  ایک "بگ کرنچ” کی صورت میں ہو گا،  جو بگ بینگ کے بالکل  الٹ ہے ؟ یا پھر یہ پھیلتی چلی جائے گی اور آخرکار ایک سرد و تاریک اختتام پر منتج ہو گی؟ اگر کائنات واپس سکڑتی ہے اور اپنے آپ میں منہدم ہو جاتی ہے،  تو شاید ایک اور بگ بینگ کی ابتداء ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہو۔ اور ہماری کائنات اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کوئی ایک کائنات ہی ہو۔ ممکن ہے یہ ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو جس میں کائناتیں آپس میں ٹکراتی ہوں،  منہدم ہوتی ہوں،  نئی کائناتوں کو جنم دیتی ہوں … شاید ایسی کائناتوں کو کہ جن میں ایک دوسرے سے مختلف قوانینِ طبیعیات کی حکمرانی ہو۔ شاید،  اس سے ہٹ کر،  یہ سب کچھ پہلی بار نہ ہوا ہو۔ بلکہ یہ ایک چکر دار سلسلہ ہو: بگ بینگ سے کائنات پیدا ہوئی ہو اور بگ کرنچ پر ختم ہو گئی ہو۔ لیکن فوراً ہی ایک نئے بگ بینگ سے ایک نئی کائنات وجود میں آ گئی۔ اس طرح زمان و مکان کی بار بار پیدائش اور اختتام کا سلسلہ جاری رہا ہو۔

خیر! کائنات ایک ہو یا لامحدود،  ان سب کا نقطہ آغاز بہرحال بگ بینگ ہی ہے۔

ہر وہ چیز جو ہمارے انسان ہونے کا باعث ہے ،  ہمارے جسم میں موجود ایٹم،  ہمارے زیورات،  وہ تمام چیزیں جو ہمیں خوشی دیتی ہیں،  غمگین کرتی ہیں،  جن سے ہم میں جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے،  محبت جاگری ہے ،  اس لئے وجود پذیر ہوئیں کیونکہ آج سے لگ بھگ چودہ ارب سال پہلے "بگ بینگ” وقوع پذیر ہوا تھا۔ جس نے یہ سب کچھ جنم دیا۔ اور اگر ہم واقعی میں خود کو سمجھنا چاہتے ہیں،  تو ہمیں بگ بینگ کو صحیح طریقے سے سمجھنا ہو گا۔

١٤ اَرب سال پہلے بگ بینگ سے اس کائنات نے،  اس تمام زمان و مکان نے جنم لیا۔ وقت کے بے انتہاء مختصر لمحے میں سارے کے سارے قوانینِ طبیعیات وجود میں آئے۔ بس! یہی وہ مختصر سا لمحہ ہے جس میں اس ساری کائنات کا،  ہمارے اپنے وجود کا،  عظیم ترین راز پوشیدہ ہے۔ اگر ہم ابتدائے وقت کے اس لمحے کی باریک ترین جزئیات کو کھنگال پائے،  اور اس سربستہ راز سے پردہ اٹھا سکے،  تو شاید یہ ہماری سائنس کی،  ہمارے فہم و فکر کی،  پوری انسانیت کی سب سے بڑی فتح ہو گی۔ غرض اسی لمحے میں ہمارا ماضی،  حال اور مستقبل،  سب کچھ پنہاں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

۲۔ بلیک ہولز

 2.Black Holes

 

یہ سچ ہے کہ کائنات میں نادیدہ اور غیر مرئی،  دیو ہیکل عفریت پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ ہم ان کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے لیکن ان کی موجودگی محسوس ضرور کی جا سکتی ہے۔ کائنات میں کوئی بھی چیز ان بلیک ہولز (Black Holes) سے زیادہ طاقتور،  ہیبت ناک اور خوفناک نہیں۔ بلیک ہولز بلا تفریق ہر وہ چیز ہضم کر لیتے ہیں جو ان کی دسترس میں ہو۔ اس میں وہ کوئی تخصیص نہیں کرتے چاہے وہ سیارے ہوں یا ستارے۔ کوئی بھی چیز ان سے بچ نہیں سکتی۔ بلیک ہولز نے شروع ہی سے ماہرین طبیعیات کو الجھا رکھا ہے۔ اس کی وجہ ان کے آس پاس اور ان کے اندر،  قوانین طبیعیات کا بہت ہی عجیب طریقے سے برتاؤ ہے۔ بہرحال،  ایک بات تو ثابت ہے کہ ہماری کائنات پر ان ہی کی حکمرانی ہے۔ بلیک ہولز عموماً کہکشاؤں کے مرکز یا قلب میں ہوتے ہیں۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ کائنات کے ارتقاء میں ان کا کردار بہت ہی کلیدی نوعیت کا رہا ہے۔ بلیک ہولز،  کائنات کی سب سے زیادہ پراسرار چیزوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی ثقلی قوّت اس قدر شدید اور زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز ان سے فرار حاصل نہیں کرسکتی… چاہے وہ روشنی کی رفتار ہی سے سفر کرنے کے قابل کیوں نہ ہو۔ ان میں سے بعض بے رحم عفریت اتنے بھیانک ہوتے ہیں کہ پوری کی پوری کہکشاں تک نگل سکتے ہیں ۔ وہ بھی ڈکار لئے بغیر۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے تک بلیک ہولز صرف سائنس فکشن ہی میں نظر آتے تھے۔ مگر اب ہم جانتے ہیں کہ وہ واقعتاً،  حقیقت میں وجود رکھتے ہیں۔ یہ کچھ زیادہ پہلے کی بات نہیں جب لوگ بلیک ہولز کے تصور کا مذاق اڑایا کرتے تھے ۔ اور انہیں سائنسی خرافات سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ مگر اب لوگ انہیں سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک یہ تو ممکن نہیں ہو سکا کہ ہم خلاء میں کئی نوری سال کا سفر کر کے کسی ایک بلیک ہول تک جا پہنچیں،  اور نہ ہم ان کا براہ راست مشاہدہ ہی کرسکتے ہیں ۔ مگر پھر بھی ہمارے پاس ان کی موجودگی کے واضح ثبوت ہیں۔ سائنس دان "عقاب” (Aquila) نامی مجمع النجوم (ستاروں کے جھرمٹ) میں ایک نادیدہ بلیک ہول کو ایک ستارہ ہڑپ کرتے ہوئے مشاہدہ کر چکے ہیں۔ کچھ ہی لاکھ سال میں یہ پورے کا پورا ستارہ،  اپنے قریبی بلیک ہول کا تر نوالہ بن جائے گا۔ بلیک ہولز لکڑ ہضم پتھر ہضم ہوتے ہیں۔ ان میں گرنے والی کسی بھی چیز کا وقت،  اس کے خاتمے کا وقت ہوتا ہے۔ اس میں گرنے والی چیز کے لئے ،  چاہے وہ ستارہ ہو،  معمولی سا مادّہ ہو،  توانائی ہو یا پھر کچھ اور ،  انجام صرف اور صرف موت ہے۔ اگرچہ یہ کائنات کی سب سے تباہ کن طاقتوں میں سے ہیں،  لیکن پھر بھی یہ کہکشاؤں کے ارتقاء میں،  ان کی تعمیر میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

کچھ ماہرین فلکیات کے نزدیک بلیک ہولز کسی دوسری متوازی کائنات کا دروازہ ہیں۔ ہم بلیک ہولز کی طبیعیات پر ہونے والی تحقیق کے سنہرے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کائنات کے آغاز،  ارتقاء اور انجام کے بارے میں وہ ایسی اہم معلومات فراہم کرسکیں جو اس سے پہلے ہمارے علم میں نہیں تھیں۔ جدید فلکیات میں بلیک ہولز کا کردار صف اول کا ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہکشاؤں کے ارتقاء سے متعلق ہمارے خیالات بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ بلکہ اس بارے میں بھی ہماری سوچ اتھل پتھل کر دی ہے کہ یہ کائنات،  آفاق کی یہ کارگہِ شیشہ گری،  کس طرح کام کرتی ہے۔ اور بلیک ہولز کو یہ صلاحیت ایک بنیادی کائناتی قوت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے : قوتِ ثقل کی وجہ سے۔

قوتِ ثقل ہمارے قدموں کو زمین پر جمائے رکھتی ہے۔ اسی کی بدولت زمین،  سورج کے گرد چکر لگاتی ہے۔ مگر یہی ثقلی قوّت جب بلیک ہولز میں ہوتی ہے تو اس قدر شدید ہوتی ہے کہ ہر چیز کو اپنے شکنجے میں اس مضبوطی سے جکڑ لیتی ہے کہ وہ اس کی گرفت سے فرار ہی نہیں ہو سکتی۔ یہاں تک کہ یہ دور ستاروں سے آنے والی روشنی کو بھی بہت خم دے دیتی ہے ۔ اور اگر وہ روشنی ان سے کچھ زیادہ قریب آ جائے تو یہ اسے بھی ہضم کر لیتے ہیں۔

بلیک ہول کی ہر چیز ہضم کر لینے کی یہ خاصیت سمجھنے کیلئے ہم ایک مثال سے مدد لیتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک دریا بہتا آ رہا ہے،  جو آگے جا کر ایک آبشار کی صورت میں گر رہا ہے۔ آبشار والی جگہ سے بہت پیچھے،  دریا کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے۔ لیکن جیسے جیسے آبشار قریب آ رہا ہے،  ویسے ویسے دریا کا بہاؤ بھی تیز ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ عین آبشار کے دہانے پر پہنچ کر دریا کا بہاؤ انتہائی تیز ہو کر آبشار کی شکل اختیار کر لیتا ہو۔ اور تیزی سے گرنے لگتا ہے۔ اس دریا میں ایک ڈونگی (چپوؤں والی چھوٹی کشتی) بھی تیر رہی ہے۔

یہ مثال ذہن میں رکھتے ہوئے ہم قوتِ ثقل کو بہتا دریا تصور کرتے ہیں،  جبکہ آبشار کے دہانے کو بلیک ہول کا کنارہ قرار دیتے ہیں۔ ڈونگی کو ہم ایک وجود سمجھے لیتے ہیں ۔ جو روشنی بھی ہو سکتی ہے اور مادّہ بھی۔ آبشار سے بہت پیچھے،  خاصی دوری پر دریا کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے ۔ یعنی قوتِ ثقل بھی معمول پر ہے۔

ڈونگی اس بہاؤ میں خراماں خراماں آبشار کی سمت بہتی جا رہی ہے۔ اس وقت ڈونگی پر سوار فرد کے لئے ممکن ہے کہ وہ رخ موڑ سکے اور چپوؤں کی مدد سے بہاؤ کے مخالف بھی حرکت کرسکے۔

لیکن جیسے جیسے آبشار (بلیک ہول کا کنارہ) قریب آ رہا ہے،  ویسے ویسے دریا کے بہاؤ (قوتِ ثقل کی شدت) میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ڈونگی میں بیٹھے شخص کے لئے بہاؤ کے خلاف جانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن اب بھی وہ خاصی جدوجہد کے بعد ڈونگی کا رُخ موڑ سکتا ہے … مگر وہ ایسا نہیں کر پاتا۔

یہ ڈونگی آگے بڑھتے بڑھتے آبشار کے دہانے کے بالکل قریب پہنچ جاتی ہے۔ دریا کا بہاؤ اور بھی تیز ہو چکا ہے ۔ یعنی قوتِ ثقل کی شدت میں اور زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔

اب یہ ڈونگی،  بالکل آبشار کے دہانے پر،  بلیک ہول کے کنارے پر جا پہنچی ہے … اگلے ہی لمحے دریا کا تیز بہاؤ اسے آبشار میں گرا دے گا۔

بالکل اسی طرح جو چیز بھی بلیک ہول کے کنارے پر آتی ہے،  بلیک ہول اپنی انتہائی شدید قوتِ ثقل استعمال کرتے ہوئے اسے اپنے اندر کھنچ  لیتا ہے … فرار ہونے کا کوئی موقعہ نہیں دیتا۔

بہ الفاظِ دیگر،  خلاء میں بھی یہی اصول کارفرما ہوتا ہے۔ جیسے جیسے آپ بلیک ہول کے کنارے کے قریب ہوتے جائیں گے ویسے ویسے ثقلی طاقت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اور وہ اس قدر طاقتور ہو جائے گی کہ روشنی کی کرن بھی اس سے فرار حاصل نہ کر پائے گی۔

روشنی ہضم کرنے کی اسی خاصیت کی بدولت انہیں "بلیک ہول” (سیاہ سوراخ) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بالکل یک طرفہ ٹکٹ کی طرح ہے جہاں آپ اندر داخل تو ہو سکتے ہیں مگر باہر نہیں نکل سکتے۔ جو چیز بھی ان کے قریب جائے گی اس کا خاتمہ لازم ہو گا۔ ستارے،  سیارے،  نظام ہائے شمسی،  سب کچھ۔ اور ہاں ! یہ نہ سمجھئے گا کہ یہ بلیک ہولز ہم سے یا ہماری کہکشاں سے کہیں بہت دور واقع ہیں۔ بلیک ہولز بالکل ہمارے پڑوس میں بھی موجود ہیں۔

اب ہم جان چکے ہیں کہ ہماری کہکشاں ملکی وے میں بھی بہت سارے بلیک ہولز مٹرگشت کر رہے ہیں۔ اگر کبھی کوئی بھٹکتا ہوا بلیک ہول ہمارے نظام شمسی کے قریب نکل آیا تو وہ ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ کسی بھی قسم کا بلیک ہول،  جو ہمارے قریب سے گزرسکتا ہو،  وہ سارے نظام شمسی کے سیارے نگل لے گا۔ درحقیقت بلیک ہول سارے سیاروں کو ان کے مداروں سے کھینچ کر،  ایک دوسرے سے ٹکرا کر،  ریزہ ریزہ کر دے گا۔ یہ بڑا ہولناک اور قیامت خیز منظر ہو گا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے شیشے کے برتنوں کی دکان میں ایک بپھرا ہوا سانڈ چھوڑ دیا جائے۔ اگر یہ بلیک ہول سیارہ مشتری کے قریب آئے گا تو مشتری کے تمام چاند اپنے مداروں سے ہٹ جائیں گے۔ نظام شمسی کے دوسرے سیارے ادھر ادھر بھٹکیں گے۔ قیامت کا سماں ہو گا۔

اگر بلیک ہول زمین کا رُخ کرے گا تو تمام شہابیئے اور سیارچے اپنے مداروں کو چھوڑ کر زمین کی طرف لپکیں گے۔ سطح زمین جہنم بن جائے گی۔ اور یہ تو بس خاتمے کی شروعات ہو گی۔ پہلے پہل تو وہ زمین کی فضا کو نگلے گا۔ پھر اس کے بعد زمین کی اپنی باری آئے گی۔ ایک مکمل نظام شمسی کو تباہ کرنا کسی بلیک ہول کیلئے کوئی بڑی بات نہیں۔

بلیک ہولز کی کثافت ناقابل یقین حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی کثافت کا اندازہ لگانے کے لئے ہم ایک اور مثال کا سہارا لیتے ہیں۔ ذرا ہمارے سیارہ زمین کو تصور میں لائیے۔ اب اسے دبانا شروع کیجئے ۔ اور اتنا دبائیے کو وہ انتہائی کثیف ہو کر،  اور سکڑ سمٹ کر صرف دو اِنچ قطر کی رہ جائے۔ بلیک ہول کی کثافت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی ہماری پوری زمین پر جتنا بھی مادّہ موجود ہے،  وہ بلیک ہول میں صرف گولف کی ایک گیند جتنی جگہ میں سما جائے گا۔

مگر ذرا ٹھہریئے … اور بتائیے کہ آخر وہ کونسی قوّت ہے جو زمین کے جتنی کمیت کو اتنا دبا کر چھوٹا اور اس قدر کثیف بنا سکتی ہے۔ کوئی بیرونی قوّت تو بلیک ہول کو تخلیق نہیں کرتی۔ یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب قوّت ثقل بذات خود ایسا کرے۔ یہ قوتِ ثقل کے سوا کسی اور قوت کے بس کا روگ نہیں۔

کائنات میں صرف ایک ہی ایسی جگہ موجود ہے جہاں قوّت ثقل یہ کام کرسکتی ہے ۔ اور وہ ہے ستاروں کے قلب یا مرکز (Center)۔ جب کوئی ستارہ جو سورج سے کم از کم دس گنا زیادہ کمیت رکھنے والا ہو،  اپنی زندگی مکمل کر لیتا ہے تو قوّت ثقل اسے اتنا بھینچ دیتی ہے کہ وہ ایک زبردست دھماکے سے پھٹ جاتا ہے جسے ہم سپرنووا (Supernova) کہتے ہیں۔ لیکن کچھ ستارے اس سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ وہ عظیم الجثہ ستارے ہمارے سورج سے بھی سو گنا زیادہ تک بڑے،  سو گنا سے بھی زیادہ جسیم ہو سکتے ہیں۔ اور ان کی ثقلی قوّت بھی سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔ جب ایسا کوئی ستارہ اپنی زندگی پوری کرتا ہے تو وہ کائنات کے سب سے بڑے دھماکے کے ساتھ پھٹ جاتا ہے جسے ہم نے "ہائپرنووا” (Hypernova) کا نام دے رکھا ہے۔ اسی کے ساتھ ایک بلیک ہول جنم لیتا ہے۔

ہماری پوری کائنات ستاروں سے اٹی پڑی ہے۔ کچھ ستارے اپنی زندگی پوری کر کے خاموشی سے مر جاتے ہیں ۔ اور کچھ انتہائی شدید دھماکے سے پھٹ پڑتے ہیں … اور ان ہی میں سے کچھ بلیک ہولز کو جنم دیتے ہیں۔ جب کوئی عظیم الجثہ ستارہ،  جو سورج سے لگ بھگ سو گنا بڑا ہو اور اپنا تمام نیوکلیائی ایندھن پھونک چکا ہو،  تواس وقت مادّے کی قوّت ثقل،  ستارے کی کمزور پڑتی ہوئی نیوکلیائی طاقت پر غالب آ جاتی ہے ۔ اور پھر وہ ستارہ اپنی شکل برقرار نہیں رکھ پاتا اور وہ اپنے آپ ہی پر منہدم ہونے لگتا ہے۔ اس کا مرکز بلیک ہول میں ڈھل جاتا ہے … اور جب ایسا ہوتا ہے تو ستارے کے مرکز سے پیدا ہونے والی زبردست ثقلی قوّت بے قابو ہو جاتی ہے۔

سائنس دانوں نے ایک ایسا ہی مرتا ہوا ستارہ دیکھا ہے،  جسے انہوں نے "وی وائی کینس میجورس” (VY-Canis Majoris) کا نام دیا ہے ۔ یہ "کلبِ اکبر” کہلانے والے،  ستاروں کے مشہور جھرمٹ میں واقع ہے۔ اس جھرمٹ کو عام زبان میں "بڑا کُتّا” بھی کہا جاتا ہے۔ اس ستارے کا پھیلاؤ ایک ارب میل سے بھی زیادہ ہے۔ ہر ستارے کی طرح یہ بھی ایک عظیم و جسیم نیوکلیائی ری ایکٹر کی طرح کام کرتا ہے ۔ جس کا کام توانائی پیدا کرنا ہے۔ لیکن اس میں نیوکلیائی عمل کے ساتھ ساتھ ستارے کی ثقلی قوّت اسے اندر کی طرف دبا رہی ہے،  بھینچ رہی ہے پچکا رہی ہے۔ نیوکلیائی عمل سے پیدا ہونے والی قوت،  اس ستارے کو پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ لیکن اس کے برعکس،  قوتِ ثقل اسے اندر کی طرف بھینچنے میں مصروف ہے۔

چند سال تک ثقلی قوّت اور نیوکلیائی قوّت میں رسہ کشی جاری رہے گی۔ مگر،  آخرکار،  جب ستارہ اپنا تمام ایندھن پھونک چکے گا تو نیوکلیائی عمل رک جائے گا۔ اور جیت ثقلی قوّت ہی کی ہو گی۔ ایک سیکنڈ کے لاکھویں حصّے سے بھی کم وقت میں ستارے کا مرکز سکڑ کر بہت ہی چھوٹا سا رہ جائے گا اور ایک نئے بلیک ہول کا جنم ہو جائے گا۔ ستارے کے قبل میں یہ بلیک ہول جیسے ہی وجود میں آئے گا،  وہ فوراً ہی ستارے کا بچا کچا حصّہ ہضم کرنا شروع کر دے گا۔ جیسے جیسے مادّہ،  بلیک ہول کے بھنور میں گم ہو گا،  ویسے ویسے اس کا درجہ حرارت بھی بڑھنا شروع ہو جائے گا۔ اور دوسری قوّتوں (مثلاً مقناطیسی قوّت اور رگڑ کی قوّت) کی کارستانیاں بھی شروع ہو جائیں گی۔ یہ سب کچھ بہت ہی ہولناک طریقے سے ہو گا۔

سائنس دان یہ جاننے کے لئے نہایت بے چین ہیں کہ اس وقت بلیک ہول کی سطح سے بالکل اوپر کیا چل رہا ہو گا۔ نومولود بلیک ہول،  ستارے کے بالکل مرکز میں پیدا ہوا ہو گا اور وہ مسلسل ستارے کے بچے کچے ئ مادّے کو ہضم کر رہا ہو گا۔ ستارے کا باقی ماندہ مادّہ،  بلیک ہول کی سطح یعنی "واقعاتی اُفق” (Event Horizon) کے بالکل قریب پاس ایک پرت دار ٹکیہ (Accretion Disk) بنا دے گا۔ اب بلیک ہول اس پرت دار ٹکیہ میں موجود،  ستارے کے بچے کچھے مادّے کو،  ستارے کی بیرونی گیسوں کو،  بہت تیزی سے ہضم کرنا شروع کر دے گا۔

گیسیں ہڑپنے کا یہ عمل شدید سے شدید تر ہوتا جائے گا۔ لیکن ستارے کے اندر گرنے والی گیسیں،  اپنی آخری نشانی کے طور پر زبردست توانائی بھی خارج کر رہی ہوں گی۔ بلیک ہول کی کمیت بڑھتی جائے گی،  وہ اور بھی زیادہ بے رحم ہوتا چلا جائے گا… وہ مزید تیزی سے،  مزید شدت کے ساتھ،  زیادہ مقدار میں گیسوں کو نگلنے لگے گا۔ اور جب یہ سلسلہ اپنی تمام حدیں پھلانگ جائے گا تو یک لخت بہت سارا مادّہ،  بہت ساری گیسیں اس بلیک ہول میں گریں گی اور چشمِ زدن میں بہت زیادہ توانائی خارج ہو گی: ایک زبردست دھماکے سے توانائی کی لہروں کا اخراج،  توانائی کے فواروں (Jets) کی صورت میں ہو گا جسے ہم "گیما شعاعوں کی بوچھاڑ” (Gamma Rays Burst) کہتے ہیں ۔ دراصل یہ سب اتنی تیزی سے ہو گا کے باقی ماندہ ستارے کو بھی یہ پتا نہیں چل سکے گا کہ اس کا مرکز غائب ہو چکا ہے۔ اور یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی چیز کے زمین پر گرنے سے پہلے ہی اس کی موت ہو جائے۔ آخرکار ستارہ پھٹ جائے گا۔

ستارے کے پھٹ پڑنے سے انتہائی شدید توانائی خارج ہو گی۔ یہ توانائی کتنی شدید ہو گی؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے صرف یوں سمجھ لیجئے کہ جتنی توانائی ہمارا سورج اپنی پوری زندگی (تقریباً دس ارب سال) میں مجموعی طور پر خارج کرے گا،  ہائپرنووا اس سے ١٠٠ گنا زیادہ توانائی صرف ایک سیکنڈ میں خارج کر دیتا ہے۔ دھماکے کے بعد صرف بلیک ہول اور توانائی کے دو فوارے ہی بچ پاتے ہیں۔ یہ فوارے کائنات میں روشنی کی رفتار سے دوڑتے ہیں۔ اس قیامت خیز منظر کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں۔ بگ بینگ کی طاقت اور توانائی کے بعد اگر کسی اور چیز کا نمبر آتا ہے،  تو وہ یہی گیما شعاعوں کی بوچھاڑیں ہیں۔ اگرچہ گیما شعاعوں کی یہ بوچھاڑیں صرف چند سیکنڈ تک ہی جاری رہتی ہیں،  لیکن اس قدر توانا ہوتی ہیں کہ اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بھون کر رکھ دیتی ہیں۔ ان کی طاقت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایسی کوئی ایک (گیما شعاعوں کی) بوچھاڑ بھی ہماری کہکشاں میں،  نظام شمسی کے آس پاس واقع ہو یہ ہمارے پورے کے پورے سیارے کو بھاپ بنا کر اُڑا دینے کے لئے کافی ہو گی۔ لیکن خوش قسمتی سے زیادہ تر گیما شعاعوں کی بوچھاڑیں ہماری کہکشاں سے خاصی دور وقوع پذیر ہوتی ہیں۔

بلیک ہولز کے بارے میں گیما شعاعوں کی یہی بوچھاڑیں ہمیں بہت ہی اہم معلومات فراہم کرتی ہیں ۔ اور ہمیں کائنات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ ہم جب بھی آسمان میں ان گیما شعاعوں کی بوچھاڑوں کو دیکھتے ہیں تو درحقیقت یہ کسی نئے نئے پیدا ہونے والے بلیک ہول کی نشانی ہوتی ہیں۔ ان شدید و توانا بوچھاڑوں کو ریکارڈ کر کے سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اب تک کتنے بلیک ہولز بن چکے ہوں گے۔

2004ء میں ناسا نے "سوئفٹ” (Swift) کے نام سے ایک خلائی کھوجی روانہ کیا تھا ۔ جس کا مقصد کائنات میں گیما شعاعوں کے ان ہی دھماکوں کی کھوج کرنا تھا۔ سوئفٹ نے اب تک کے سب سے طاقتور اور شدید گیما دھماکے دریافت کئے ہیں جو ہم سے بہت ہی فاصلے پر،  کائنات کے دور افتادہ علاقوں میں واقع ہو رہے ہیں۔ اگرچہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود،  اب تک سوئفٹ نے سمندر میں سے صرف چند قطروں جتنی دریافتیں ہی کی ہیں،  لیکن پھر بھی وہ اوسطاً ہر روز کم از کم ایک نیا گیما دھماکہ ریکارڈ کر ہی لیتا ہے۔ بلیک ہول کی ان دریافتوں نے جدید فلکیات کو آگے بڑھنے کے لئے نہایت ہی ٹھوس بنیاد فراہم کر دی ہے۔

ہم سمجھتے تھے کہ جس طرح جل پریوں کو ہم آج تک نہیں دیکھ سکے،  بالکل اسی طرح بلیک ہولز بھی ایک افسانوی قصّہ ہی ہوں گے ۔ اور ہم کبھی ان کا سراغ نہیں لگا پائیں گے۔ مگر اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کائنات میں ارب ہا ارب بلیک ہولز پائے جاتے ہیں۔ جب ہم اپنی اور دوسری کہکشاؤں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جا تی ہے کہ ہماری کائنات،  بلیک ہولز سے بھری ہوئی ہے۔ بلیک ہولز کو تلاش کرنا ایک بات ہے اور ان کے کام کرنے کا طریقہ سمجھنا دوسری بات۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے تصویر کا دوسرا رخ۔ ان کے کام کرنے کا انداز سمجھنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ بلیک ہول تک کا سفر کریں۔ اس کے لئے آپ کو ایک بہت ہی بڑے خلائی جہاز کی ضرورت ہو گی۔ جب آپ بلیک ہول کے قریب پہنچیں گے،  تب آپ پر یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ وہاں تو وقت بالکل ہی ساکن ہے۔

کائنات میں ارب ہا ارب بلیک ہولز موجود ہیں۔ مگر فی الحال ہم ان کی کھوج دوربینوں اور مصنوعی سیاروں کے ذریعے ہی لگا سکتے ہیں۔ ہم انہیں قریب سے نہیں دیکھ سکتے کہ اصل میں وہ کیسے نظر آتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ابھی بہت انتظار کرنا ہو گا۔ سائنس دانوں نے بلیک ہول تک خلائی سفر کے مشن کے لئے ابھی سے خیالی گھوڑے دوڑانا شروع کر دیے ہ ہیں۔ یہ سفر،  کائنات کی سب سے خطرناک جگہ کا ایک طرح سے یک طرفہ ٹکٹ ہی ہو گا۔

شروع میں ماہرینِ طبیعیات،  بلیک ہولز کے نظریے ے سے بہت زیادہ خائف تھے۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ کسی طرح بلیک ہولز کا نظریہ ناممکن اور ناقابلِ قبول ثابت ہو جائے ۔ کیونکہ وہ قوانین طبیعیات جن سے ہمارا روزمرّہ میں واسطہ پڑتا ہے،  ان کا اطلاق بلیک ہولز پر بالکل نہیں ہوتا۔ وقت وہاں ساکن ہو جاتا ہے۔ قوّت ثقل لامحدود و لامتناہی ہو جاتی ہے۔ یہ واقعی ایک بھیانک خواب کی مانند ہے۔

بہرحال! یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ انسان،  بلیک ہولز کے قریب بالکل نہیں جا سکتے۔ مگر شایدانسان مستقبل میں وہاں روبوٹ کھوجی ضرور بھیج سکیں۔ یہ روبوٹ کھوجی صرف اس مقام تک جا کر ہمیں اطلاعات بھیج سکتا ہے جس کا نام واقعاتی افق (Event Horizon) ہے۔ یہ دراصل کسی بلیک ہول کے گرد،  زمان و مکان کا وہ آخری کنارہ ہے جسے ہم اب تک جانتے ہیں۔ یہ خلاء (مکان) کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ کوئی جسمانی وجود رکھنے والی سطح نہیں کہ جسے دیکھا جا سکے۔ اس کنارے کو پار کرتے ہوئے شاید ہمیں یہ بھی پتا نہ چلے مگر درحقیقت اگر ایک مرتبہ آپ نے اس مقام کو،  اس واقعاتی افق کو پار کر لیا تو سمجھ لیجئے کہ اب آپ گئے ! آپ جیسے ہی اس کنارے کے پاس پہنچتے ہیں،  ویسے ہی ثقلی قوّت انتہائی طاقتور ہو جاتی ہے ۔ اور بہت ہی عجیب و غریب قسم کی صورتحال سے آپ کا سامنا ہوتا ہے۔ جسم کا جو حصّہ بلیک ہول کے قریب ہو گا،  وہ ثقلی قوت کو اتنا ہی زیادہ محسوس کرے گا۔ اصل میں آپ کا جسم سویّوں کی طرح لمبا ہو کر کھنچ رہا ہو گا اور آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ کے جسم کو دو مختلف و مخالف سمتوں میں کھینچا جا رہا ہو۔ آپ کا جسم باریک سے باریک تر ہوتا چلا جائے گا۔ قوّت ثقل ہمارے اس کھوجی روبوٹ کو اس کنارے سے آگے بڑھنے پر ریزہ ریزہ کر دے گی۔

فرض کیجئے کہ وہ روبوٹ اس قدر طاقتور ہے کہ واقعاتی افق کو پار کرنے کہ بعد بھی سالم بچ جائے،  تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ جیسے ہی روبوٹ کھوجی،  واقعاتی افق کے پاس پہنچے گا،  ویسے ہی ہر چیز عجیب و غریب برتاؤ کرنے لگے گی۔ وہاں ثقلی قوّت اس قدر طاقتور ہو گی کہ اس نے وقت کو ساکن کر دیا ہو گا۔ وقت ایک نہ ختم ہونے والی چیز بن گیا ہو گا۔ بہرحال،  یوں سمجھ لیجئے کہ بلیک ہول میں وقت بالکل ساکن ہو گیا ہو گا۔ یہ سننے میں بالکل پاگل پن محسوس ہو رہا ہے،  مگر بلیک ہول میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ریاضی کی مساواتیں اور ان سے حاصل ہونے والے نتیجے تو ہمیں ابھی تک یہی بتاتے ہیں۔ اگر آپ اس روبوٹ کو دور سے دیکھ سکتے ہوں گے،  تو آپ کو ایسا لگے گا جیسے روبوٹ کی رفتار دھیمی ہو گئی ہے ۔ اور اس کے بعد وہ ایک جگہ آ کر رک سا گیا ہے۔ اگرچہ یہ سارا عمل بہت ہی تیزی سے پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہو گا لیکن باہر سے بالکل ایسا لگ رہا ہو گا جیسے ہر چیز دھیمی پڑ گئی ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک جگہ پر منجمد ہو گئی ہے۔

دراصل ہم کسی بھی جسم کو واقعاتی افق پار کر کے،  بلیک ہول میں گرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ ہمیں ایسا نظر آئے گا جیسے وہ واقعاتی افق کے پاس جا کر رک گیا ہو کیونکہ اس جگہ وقت کے بہنے کی رفتار لامحدود طور پر سست ہو جائے گی۔ لیکن درحقیقت وہ روبوٹ کھوجی رکا ہوا نہیں ہو گا۔ اگر کسی طرح اس روبوٹ کھوجی کا کیمرا،  واقعاتی افق میں داخلے کی جگہ کی طرف دیکھنے کے قابل ہو گا تو وہ روشنی کو بلیک ہول میں قید ہوتا دیکھ سکے گا۔ اگر وہ کیمرے کا رخ بلیک ہول کی طرف کرے گا تو وہ ایک انوکھی دنیا سے روشناس ہو گا۔ بلیک ہول کا مرکز ہر چیز کو اپنی جانب کھینچ رہا ہو گا… ایک ایسے نقطے کی طرف،  جو ناقابل بیان حد تک چھوٹا ہو گا۔ سائنس دانوں نے اس جگہ کا نام "وحدانیت” (Singularity) رکھا ہے۔

وحدانیت وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ہمارے مروجہ قوانینِ طبیعیات کے پر جلنے لگتے ہیں۔ وہ قوانین اور ان سے متعلق ریاضیاتی مساواتیں کوئی قابلِ بھروسہ جواب دینے سے معذور ہو کر رہ جاتی ہیں۔ جب ایسی کوئی وحدانیت،  بلیک ہول کا حصہ ہو،  تو ہم اسے "بلیک ہول وحدانیت” (بلیک ہول سنگولیریٹی) کہتے ہیں۔

اب تک ہم یہ معلوم نہیں کرسکے کہ وہاں،  بلیک ہول کے اندر،  کیا چل رہا ہو گا۔ کثافت اتنی زیادہ ہو گی کہ ہمارے جانے پہچانے طبیعیاتی قوانین کا وہاں اطلاق نہیں ہو سکے گا۔ وحدانیت ایک ایسی جگہ ہے جہاں زمان و مکان کا تصور بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ آپ کو یہ بہت ہی عجیب لگے گا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ وحدانیت کا سیدھا سادہ مطلب ہے "ہم کچھ نہیں جانتے۔‘‘ ہمارے پاس اس گتھی کو سلجھانے کا کوئی طریقہ نہیں۔ اب تک سائنس دان اس سوال کا جواب صحیح طور سے دینے سے معذور ہیں کہ بلیک ہول میں کیا چل رہا ہو گا۔ یہ بہت زیادہ حوصلہ افزاء صورت حال نہیں کہ ہمیں یہ تو معلوم ہو کہ خلائے بسیط میں کچھ اجسام ایسے ہیں جن پر موجودہ قوانین طبیعیات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں کچھ اور،  کچھ دوسرے ہی طبیعیاتی قوانین لاگو ہوں جن سے ہم اب تک لاعلم ہیں۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ مرتے ہوئے ستاروں سے بلیک ہول وجود میں آتے ہیں ۔ اور یہ کہ ان میں سے زیادہ تر کا قطر صرف بیس میل کے لگ بھگ ہوتا ہے۔

البتہ،  کچھ بلیک ہول بہت زیادہ بڑے ہوتے ہیں جنہیں ہم "فوق ضخیم بلیک ہول” (Super-massive Black Hole) کہتے ہیں۔ وہ ہمارے نظام شمسی جتنے بڑے بھی ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک فوق ضخیم بلیک ہول تو ہماری اپنی کہکشاں،  ملکی وے ہی میں واقع ہے ۔ ارب ہا ارب ستارے اس کے گرد چکر لگا رہے ہیں جن میں ہمارا اپنا سورج بھی شامل ہے۔

اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر چاند،  زمین کے گرد اور زمین،  سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے تو سورج کس کے گرد چکر لگا رہا ہے ؟ واقعی یہ بہت ہی عمدہ سوال ہے۔ ماہرینِ فلکیات خود یہی معلوم کرنا چاہتے تھے۔ سائنس دانوں کو شک تھا کہ شاید ملکی وے کے مرکز میں کچھ ایسا چل رہا ہے جو وہاں بلیک ہول کے موجود ہونے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ چونکہ ہم بلیک ہول کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے،  اس لئے ہم اس کے ثقلی اثرات کا صرف جائزہ ہی لے سکتے ہیں۔ انفراریڈ دوربینوں کے ذریعے سائنس دانوں نے ملکی وے کے مرکز میں لاکھوں ستاروں کو ایک دوسرے کے انتہائی قریب تو دیکھ لیا ہے،  مگر مرکز میں موجود گرد و غبار کے بادلوں کی وجہ سے وہ یہ نہیں دیکھ سکے کہ مرکز (کہکشانی مرکز) میں دراصل کیا ہے۔

سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے پندرہ سال اس تحقیق پر صرف کئے ہیں کہ کیا واقعی ملکی وے کے مرکز میں کوئی فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہے یا نہیں۔ امریکی ریاست ہوائی کے علاقے موانا کی (Mauna Kea) میں بادلوں سے خاصے اوپر  عذرنصب دیو ہیکل دوربین "کیک” (Keck) اس قابل ہے کہ وہ ہماری کہکشاں کے عین مرکز کا جائزہ لے سکے۔ اپنی کہکشاں کے اسی حصے کا نہایت باریک بینی سے مطالعہ کر کے ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ وہاں موجود بلیک ہول انتہائی مختصر ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بھوسے کے ڈھیر سے سوئی کی تلاش کرنا۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں ہمیں معلوم ہے کہ بلیک ہول کا محل وقوع کیا ہے۔ یہ تجربہ کرنے کے لئے آپ کو ان تمام ستاروں کا محل وقوع نہایت درستگی سے معلوم ہونا چاہئے کہ جو کہکشاں کے مرکز میں ایک دوسرے سے نہایت ہی قریب ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی لاہور میں بیٹھ کر،  دوربین سے کسی کو کراچی میں تلاش کرے ۔ اور اس کی حرکات و سکنات کو بالتفصیل دیکھ بھی سکے۔

کیک دوربین کی لیزر شعاعیں کرہ ہوائی میں ایسی معمولی ہلچل کا سراغ لگاتی ہیں جو حاصل ہونے والے عکس میں دھندلا پن پیدا کرسکتی ہیں۔ اور یہ دھندلا پن ختم کرنے کے لئے موٹروں کی مدد سے اس کا دیو قامت،  تیس فٹ قطر والا آئینہ درست کیا جاتا ہے تاکہ عکس میں دھندلاہٹ ختم کر کے اسے بالکل صاف ستھرا حاصل کیا جا سکے ۔ اور کہکشانی مرکز میں ستاروں تعاقب،  پوری درستگی سے کیا جا سکے۔ گزشتہ پندرہ سال کے دوران سائنس دانوں نے ہزاروں تصاویر حاصل کی ہیں۔ اور جب انہوں نے ان تصاویر کا باریک بینی سے تجزیہ کیا تو پتا چلا کہ ستارے،  کہکشاں کے مرکز میں کئی لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ کہکشانی مرکز کا ماحول بہت ہی قیامت خیز ہوتا ہے۔ جس رفتار سے وہ ستارے حرکت میں ہیں،  اتنی رفتار سے کوئی بھی ستارہ ہماری کہکشاں کے کسی بھی دوسرے حصے میں حرکت نہیں کر رہا ہے۔ یہی چیز اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ یہاں بلیک ہول وجود رکھتا ہے۔

کہکشانی مرکز میں یہ ستارے ایسے لگتے ہیں جیسے چھوٹے چھوٹے سیارے،  کسی نادیدہ سورج کے گرد بڑی تیزی سے چکر کاٹ رہے ہوں۔ اتنے جسیم ستاروں کو اس قدر تیز اور اتنے چھوٹے سے مدار میں چکر کاٹنے کیلئے بہت ہی زیادہ ثقلی قوّت درکار ہوتی ہے … اور کائنات میں صرف ایک چیز ہی ایسی ہے جس کے پاس اس قدر ثقلی قوّت ہے۔ اور وہ ہے فوق ضخیم بلیک ہول!

اس بلیک ہول کا جائزہ لینے کے بعد سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کی کمیت (مادّے کی مقدار) ہمارے سورج کے مقابلے میں تیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔ اور یہ ہماری کہکشاں کے عین مرکز میں موجود ہے۔ یہ ایک بہت ہی بڑی دریافت تھی۔ ہماری کہکشاں کی ہر چیز،  جس میں ہمارا مکمل نظام شمسی بھی شامل ہے،  سب اس کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ مگر دھیان رہے کہ صرف ملکی وے کہکشاں ہی وہ واحد کہکشاں نہیں جس میں فوق ضخیم بلیک ہول ہے۔ اس طرح کے فوق ضخیم بلیک ہول اکثر کہکشاؤں کے مرکزوں میں پائے جاتے ہیں۔ اینڈرومیڈا (Andromeda) یعنی "مراۃ المسلسلہ” ہمارے پڑوس میں سب سے قریبی کہکشاں ہے۔ اس کے مرکز میں بھی ایک بہت بڑا،  فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہے،  جس کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں 3 کروڑ گنا زیادہ ہے۔ اینڈرومیڈا کہکشاں کے تمام ستارے،  اسی بلیک ہول کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔ دوسری کہکشاؤں کے مرکزوں میں،  جیسے کہ M-87 اور اس قبیل کی بڑی کہکشائیں ہیں،  بلیک ہول کی کمیت ہمارے سورج سے 20 اَرب سورجوں جتنی ہے۔

بلیک ہول اس قدر بڑے کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اور وہ کہکشاؤں کے مرکز میں کیا کر رہے ہوتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ہمیں واپس تقریباً 14 اَرب سال پہلے کی کائنات میں جانا ہو گا۔ اس موقعے پر کہ جب کائنات بالکل نئی نئی وجود میں آئی تھی۔ تب کائنات گیس کے بادلوں سے اٹی پڑی تھی۔ کچھ جگہوں پر گیس کے بادل اتنے کثیف تھے کہ وہاں لاکھوں ستارے بیک وقت جنم لے سکتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر ستارے فوق ضخیم تھے … یعنی ان کی کمیت،  بہت ہی زیادہ تھی۔ انہوں نے اپنا نیوکلیائی ایندھن بہت ہی تیزی سے جلایا اور اس کے بعد پھٹ کر بلیک ہولز میں تبدیل ہو گئے۔ ابتدائی کائنات ایک ایسی منہ زور اور تباہ کن جگہ تھی جہاں کمیت کے عظیم حصے اپنی کشش ثقل کے باعث،  اپنے آپ ہی میں منہدم ہو کر بلیک ہولز تشکیل دے رہے تھے۔ درحقیقت ابتدائی کائنات میں جگہ جگہ بلیک ہولز بن رہے تھے۔ قوّت ثقل انہیں ایک دوسرے کے قریب کھینچ رہی تھی،  اور وہ ایک دوسرے میں ضم ہو کر اور بھی بڑے فوق ضخیم بلیک بناتے جا رہے تھے۔

آئندہ کروڑوں سال کے دوران ہر بلیک ہول اور بھی بڑا ہوتا چلا گیا۔ اس کی ثقلی قوّت بڑھتی گئی۔ اور نتیجتاً اس نے اور زیادہ گیس کو کھنچنا  شروع کر دیا۔ دوسری جانب معمول کی کمیت اور جسامت والے ستارے بننے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ یہ مرحلہ،  کہکشاں کے وجود میں آنے کا مرحلہ تھا۔ بلیک ہول نے گیس کے بادلوں کو ہضم کرنا جاری رکھا،  یہاں تک کہ وہ شکم سیر ہو گیا۔ اس میں مزید گیسیں ہڑپنے کی گنجائش نہیں رہی۔ اور یہی وہ موقعہ تھا جب کائنات کی عظیم الشان آتش باری وجود میں آئی۔ اس آتش باری کو آج ہم "کوزار” (Quasar) کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن کسی نوزائیدہ کہکشاں میں کوزار کے وجود میں آنے کا قصہ بھی اپنے آپ میں ایک الگ داستان ہے۔ تو آئیے ! اس داستان سے بھی لطف اندوز ہوتے چلئے۔

ذرا تصور کیجئے کہ ایک کہکشاں نئی نئی بنی ہے۔ اس نوزائیدہ کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں جو اپنی تشکیل کے مرحلے سے گزر رہے ہیں ۔ اور اس کے مرکز میں ایک فوق ضخیم بلیک ہول بن رہا ہے۔ گرد و غبار اور گیس کے بادلوں کی وافر مقدار ستاروں اور بلیک ہول،  دونوں کی ضروریات بخوبی پوری کر رہی ہے۔ بلیک ہول کے قرب و جوار میں ماحول انتہائی گرم ہے۔ گیس کے بادل نہایت تیزی سے بلیک ہول میں داخل ہو رہے ہیں۔ بلیک ہول میں گرتے وقت ان کی رفتار اور بھی بڑھ رہی ہے ۔ جبکہ یہ اور بھی زیادہ گرم ہوتے جا رہے ہیں۔ پھر ایک ایسا لمحہ آتا ہے جب بلیک ہول کی واقعاتی افق کے بالکل قریب موجود پرت دار ٹکیہ (Accretion Disk) میں جگہ اس قدر تنگ ہو جاتی ہے کہ حرارت اور رگڑ کی قوتوں کی وجہ سے گیس کے بادل،  عظیم الشان اور انتہائی روشن فواروں کی شکل میں باہر کی طرف پھوٹ پڑتے ہیں۔ یہ فوارے،  انتہائی زبردست توانائی سے لبریز ہیں۔ ایسا ہر فوارہ ہمارے نظامِ شمسی کے مقابلے میں بھی بیس گنا زیادہ چوڑا ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب فوق ضخیم بلیک ہول،  کوزار کو جنم دیتا ہے۔ کوزار درحقیقت کائنات میں سب سے زیادہ منور چیزیں ہیں۔ ان کی روشنی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پوری کہکشاں میں موجود،  تمام کے تمام ستاروں کی مجموعی روشنی سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ صحیح معنوں میں باقی تمام کہکشاں کو گہنا دیتے ہیں۔

سائنس دانوں نے M-87 کہکشاں میں ایک کوزار کی تصویر کشی کی ہے ۔ یہ ہم سے پانچ کروڑ نوری سال دور ہے۔ کوزار اپنے ارد گرد موجود کہکشاں کی گیس کو بڑی تیزی اور نہایت بے رحمی سے بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ وہ ہر ایک منٹ میں سیارہ زمین جیسے دس سیاروں جتنی کمیت،  خلاء میں اُچھال رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ گیس کو گرم کرتے ہیں تو یہ پھیلتی ہے اور باہر کی جانب حرکت کرتی ہے۔ کوزار سے خلاء میں اچھالی جانے والی گیسوں کو بھی آپ ایک طرح کے جھکڑ سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ جھکڑ بہت ہی بڑے پیمانے پر چل رہے ہوتے ہیں۔ آخر کو یہ فوق ضخیم بلیک ہولز کے چلائے ہوئے جھکڑ ہیں ۔ انتہائی تیزی سے،  بے دردی سے،  اور بہت بڑی مقدار میں خلاء بُرد کی جانے والی توانا اور روشن گیسوں کے جھکڑ! آپ کوزار اور بلیک ہولز کو ایک دوسرے کا اُلٹ بھی سمجھ سکتے ہیں : بلیک ہولز گیس کو ہضم کرتے ہیں ۔ اور کوزار اسے دور دھکیلتے ہیں۔ یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ جب کسی فوق ضخیم بلیک ہول کو بد ہضمی ہو جاتی ہے،  اور وہ "کائناتی الٹیاں‘‘ کرنے لگتا ہے،  تو پھر ایک کوزار وجود میں آتا ہے۔

لیکن کب تک؟ آخرکار کہکشاں میں ستارے بنانے کے لئے گیس نہیں بچے گی۔ یعنی تب کہکشاں کی مزید نشوونما بھی رک جائے گی۔ اسی بناء پر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کسی بھی کہکشاں کی حتمی جسامت کا انحصار،  اس کے مرکز میں موجود (فوق ضخیم) بلیک ہول پر ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ گیسی بادلوں کے ختم ہو جانے کے بعد کوزار کے فوارے بھی سکڑتے سکڑتے بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔ کہکشاں کے مرکز میں فوق ضخیم بلیک ہول اور اس کے ارد گرد ڈھیر سارے نوزائیدہ ستارے ہی بچ رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ماضی میں ہماری ملکی وے کہکشاں میں بھی ہوا تھا،  جب یہ نوجوان تھی۔ جب ہماری کہکشاں نئی نئی وجود پذیر ہوئی،  تو شاید اس کے مرکز میں بھی ایک کوزار تھا۔ مگر اب چونکہ ہماری کہکشاں کی عمر اچھی خاصی ہو گئی ہے،  اس لئے یہ بہت پرسکون ہے۔ اب ماہرینِ فلکیات جان چکے ہیں کہ بلیک ہولز کا راز پانے کے لئے کوزاروں کا مطالعہ ضروری ہے ۔ اور اسی لئے وہ زیادہ سے زیادہ کوزار تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

چندرا ایکسرے رصد گاہ (Chandra X-Ray Observatory) ایک خلائی دوربین ہے جو طاقتور ایکس ریز شعاعوں کا کھوج لگاتی ہے۔ یہ اب تک ہزاروں کوزار دریافت کر چکی ہے … ہر قسم اور ہر شکل کے کوزار،  جو خلاء میں گیس اور روشنی کے فوارے چھوڑ رہے ہیں۔ ان میں سے ہر کوزار ایک نئی کہکشاں کی نشاندہی کر رہا ہے ۔ جو اپنی تخلیق و تشکیل کے مرحلے سے گزر رہی ہے،  اور جس کے مرکز میں ایک فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہے۔ کہکشاؤں کی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ یہ کوزار بھی آخرکار پُرسکون ہو جاتے ہیں۔ کہکشائیں بھی شاید انسانوں کی طرح ہوتی ہیں : نوجوانی میں جوش سے بھرپور اور جیسے جیسے ادھیڑ عمری کی طرف بڑھتی جائیں،  ویسے ویسے ان کے مزاج میں ایک ٹھہراؤ آتا چلا جاتا ہے۔

اب ہم یہ جان چکے ہیں کہ فوق ضخیم بلیک ہول ہی کوزار کو جنم دیتے ہیں اور یہی اصل میں کہکشاؤں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کہکشاؤں کا ارتقاء سمجھنے میں سب سے زیادہ ضروری ان کا سمجھنا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ کہکشاؤں کو سمجھنے کی کنجی ان ہی کو سمجھنے میں ہے۔ یہ ہماری کائنات اور کہکشاؤں کو سمجھنے کے لئے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ ان کے بغیر ہم کائنات اور کہکشاؤں کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ انہیں سمجھنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ ان کا براہ راست،  قریب جا کر مطالعہ کیا جائے۔ کوئی بھی ایسا سفر جو ان کا قریبی جائزہ لے سکے،  ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا سائنس دان کھوج میں لگے ہوئے ہیں کہ کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈھ نکالا جائے کہ کسی طرح ان کی تصویر حاصل کی جا سکے۔ لیکن اس کام کے لئے جتنی بڑی دوربین کی ضرورت ہے،  اسے زمین جتنا بڑا ہونا چاہئے … ایک اور ناممکن ہمارے مدمقابل ہے۔ ایک فوق ضخیم بلیک ہول تو ہماری کہکشاں کے بالکل بیچوں بیچ موجود ہے۔ لیکن اسے اربوں ستاروں کے ایک دبیز جھنڈ نے گھیر رکھا ہے۔ لیکن سائنس دان پر امید ہیں کہ وہ جلد ہی اسے دیکھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ یہ یقیناً شاندار نظارہ ہوتا اگر ہم واقعاتی افق کے بالکل قریب جا سکتے۔ ہر کہکشاں کے بیچ میں ایک فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہوتا ہے۔ بلیک ہول کے آس پاس ستارے،  اس کے گرد لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر لگاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں ان کی موجودگی کا علم ہے۔ شاید کوئی ایسا طریقہ ہو جس سے ہم واقعاتی افق کے بالکل قریب سے (اپنی کہکشاں کے مرکز میں موجود) فوق ضخیم بلیک ہول کی تصویر لے سکیں۔

سائنس دانوں کی ایک ٹیم شیپ ڈوئلمین (Shep Doeleman) کی قیادت میں کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح بلیک ہول کی کوئی تصویر لے سکے۔ آخرکار انہوں نے ایک جگہ ڈھونڈھ ہی نکالی جہاں گیسی بادلوں کا بھنور،  کسی نادیدہ چیز کے گرد چکر کاٹتا ہوا اس میں غائب ہو رہا تھا۔ یہ کسی بلیک ہول کا سایہ دیکھنے جیسا ہی تھا۔ جس تکنیک کے ذریعے سائنس دانوں نے اسے دیکھا ہے،  وہ اب تک کی سب سے جدید تکنیک ہے۔ انہیں امید ہے کہ اس تکنیک سے استفادہ کرتے ہوئے ہم اپنی کائنات کے وہ گوشے بھی مشاہدے میں لا سکیں گے جو بصورتِ دیگر ہماری نظروں سے بالکل پوشیدہ ہیں۔ بصری دوربینیں (Optical Telescopes) بلیک ہولز کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتیں۔ لیکن چمکتے ہوئے گرم گیسی بادل جو ریڈیائی لہریں (Radio Waves) خارج کر رہے ہیں،  ان کی مدد سے بلیک ہول کا ایک خاکہ ضرور تیار کیا جا سکتا ہے۔ جناتی جسامت کی ریڈیو دوربینیں،  خلاء سے آنے والی ان ہی ریڈیائی لہروں کو جمع کرتی ہیں اور پھر ان لہروں میں پوشیدہ ترتیب استعمال کرتے ہوئے،  نادیدہ بلیک ہول کی نقشہ کشی کی جاتی ہے۔

بوسٹن میں واقع ایم آئی ٹی (میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) کی رصد گاہ میں انٹینا تقریباً 100 فٹ چوڑا ہے۔ یہ اتنا بڑا ہے کہ دور سے آتی ہوئی کمزور سے کمزور لہروں کو بھی پکڑسکے۔ یہ لہریں ہماری کہکشاں کے مرکز میں واقع بلیک ہول سے آ رہی ہیں جو ہم سے لگ بھگ پچیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ مگر اس ریڈیو دوربین سے حاصل کردہ مواد بھی اتنا کافی نہیں کہ اس سے ایک واضح قسم کا خاکہ تیار کیا جا سکے۔ ایک واضح خاکہ حاصل کرنے کیلئے ہمیں ایسی کئی دوربینوں کی ضرورت ہو گی۔ اور انہیں پوری دنیا میں اس طرح لگانا ہو گا کہ وہ ایک زمین جتنی بڑی دوربین کی طرح کام کرسکیں۔ ڈوئلمین کی ٹیم ان ریڈیو دوربینوں کو جو ہوائی سے چلی تک،  اور چلی سے افریقہ تک پھیلی ہوں گی،  آپس میں مربوط کرے گی۔ جب دوربینوں کا یہ جال مکمل ہو جائے گا تو ایک ایسی دوربین کے طور پر کام کرے گا جس کی طشتری تقریباً دس ہزار میل قطر پر محیط ہو گی۔ اس کی طاقت ایک دوربین کے مقابلے میں پانچ سو گنا زیادہ ہو گی۔ یہ عالمگیر "مربوط دوربین” اس قدر طاقتور ہو گی کہ ہماری کہکشاں میں موجود فوق ضخیم بلیک ہول کے واقعاتی افق کی تصویر لے سکے۔ یہ دوربین ہماری کہکشاں کے تاریک حصے سے سگنل وصول کرنا شروع کر چکی ہے۔ اس کے وصول کردہ اوّلین سگنل،  کمپیوٹر اسکرین پر دیکھ کر سائنس دان بہت ہی زیادہ خوش ہیں۔ مگر اب بھی یہ سگنل اتنے زیادہ طاقتور نہیں جتنے ایک مکمل تصویری خاکے کیلئے درکار ہیں۔

ڈوئلمین اور ان کے رفقائے تحقیق خاصے پر امید ہیں کہ جب اس نیٹ ورک میں مزید دوربینیں شامل ہو کر کام شروع کریں گی تووہ اس سے کہیں بہتر تصویریں حاصل کر لیں گے۔ مستقبل قریب میں سائنس دان آخرکار اس قابل ہو جائیں گے کہ وہ بلیک ہول کا واضح خاکہ حاصل کرسکیں۔ مستقبل بعید میں ہو سکتا ہے کہ ہماری ٹیکنالوجی اس قدر ترقی یافتہ ہو جائے کہ نہ صرف ہم بلیک ہول میں داخل ہو سکیں بلکہ اس کا سفر کر کے باہر صحیح سلامت بھی نکل آئیں۔ تب ہی ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ یہ بتا سکیں کہ آخر بلیک ہول میں کون سے قوانین طبیعیات رواں دواں ہیں۔

کچھ سائنس دان یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ بلیک ہول،  کائنات کے دُور دراز گوشوں تک کا سفر کرنے کے لئے "مختصر راستے‘‘ (شارٹ کٹس) فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب ابھی صرف تصوراتی باتیں ہیں۔ ریاضی کے حساب کتاب بہرحال یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ کوئی بھی چیز بلیک ہول میں گر کر بالکل ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ شاید وہ ایک وارم ہول (Worm Hole) میں پہنچ جاتی ہے ۔ جو دراصل کائنات میں زمان و مکان کا مختصرترین راستہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کائنات کا سفر ان بلیک ہولز کے ذریعے ہی کرسکیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ سائنس فکشن والوں کے لئے زبردست خوشخبری ہو گی کہ ان کا ایک تصور حقیقت کا روپ دھار لے گا۔

ریاضیاتی مساواتوں کے اعتبار سے وقت میں سفر اگرچہ ممکن ہے،  لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں۔ اس کے لوازمات اتنے انوکھے ہیں کہ ہم انہیں ابھی تجربہ گاہ میں بھی نہیں بنا سکتے۔ اگر ہم کبھی اس قابل ہو گئے کہ انہیں تجربہ گاہ میں بنا سکے،  تو ہم ضرور وقت میں سفر کرسکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں وقت میں سفر کرنے کی ماہر ہو جائیں۔ تو تیار رہئے کہ اگر کبھی کوئی اجنبی آپ کے گھر پر آ کر دستک دے اور کہے کہ وہ آپ کے پڑپوتے کا پڑپوتا ہے تو دروازہ بند نہ کیجئے گا۔

بلیک ہول کسی دوسری کائنات کا دروازہ بھی ہو سکتا ہے ۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے دوسری طرف کوئی بگ بینگ شروع ہو رہا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ منہدم اور سمٹتا بلیک ہول،  مادّے کو دوسری طرف وائٹ ہول (White Hole) میں نکال پھینک رہا ہو۔ اگر آپ بلیک ہول کی مساوات پر ایک نگاہ ڈالیں اور اس مساوات کو بھرنا شروع کریں جس میں کائنات کی کمیت،  اس کا حجم اور اس سے متعلق دوسری چیزیں اس میں رکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہماری کائنات نے بلیک ہول کی مساوات کو حل کر دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ ہم خود واقعاتی افق میں بھی ہو سکتے ہیں یا ہو سکتا ہے کہ ہم کسی بلیک ہول کے اندر ہی رہ رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ہر ایک بلیک ہول ایک نئی کائنات کی جنم بھومی ہو۔ اگر یہ بات سچ ہوئی تو ارب ہا ارب کائناتیں ہوں گی جو ستاروں،  کہکشاؤں،  سیاروں اور زندگی سے بھرپور ہوں گی۔ بہرحال یہ تو مستقبل کی خیالی باتیں ہیں۔ ابھی تو ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ بلیک ہول ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ بہت بڑے بھی ہیں اور ان کا کردار کائنات کی تخلیق اور اس کو موجودہ شکل و صورت دینے میں جس قدر ہے،  ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ بصری دوربینوں سے حاصل کردہ معلومات سے جو ہم نے کائنات کی بنیادی باتیں سمجھیں تھیں،  وہ بلیک ہول کی دریافت کے بعد بہت زیادہ تبدیل ہو گئی ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ بلیک ہول کی طبیعیا ت بہت زیادہ طلسمی قسم کی ہے ۔ مگر ہم اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہمیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ انہوں نے کائنات کی تشکیل اور اس کے ارتقاء میں نہایت کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

ماضی میں بلیک ہول سائنس فکشن کا حصہ ہوتے تھے اور خلائی مسافر ان سے دور بھاگتے تھے۔ اکثر سائنس فکشن فلموں اور کہانیوں میں دکھایا جاتا ہے کہ لوگ اپنا خلائی جہاز ان سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہ بات مبالغہ آرائی نہ ہو گی اگر ہم کہیں کہ بلیک ہول نہ ہوتے تو ہم بھی نہ ہوتے۔ ہمارا وجود بلیک ہول کا مرہون منت ہے۔ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ کائنات کے پراسرار ترین اجسام میں سے ایک،  جس کا نام بلیک ہول ہے،  اس کے بارے میں بہت کچھ دریافت کرنا ابھی باقی ہے … پکچر ابھی باقی ہے مرے دوست!

٭٭٭

 

 

 

۳۔ ملکی وے کہکشاں اور پردیسی کہکشائیں

3. Alien Galaxies

 

ہم  ملکی وے کہکشاں (Milky Way Galaxy) میں رہتے ہیں۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم اسی کہکشاں کے باشندے ہیں۔ یہ کہکشاں ارب ہا ارب ستاروں کی عظیم الشان مملکت ہے۔ اکثر ہمارا واسطہ اس قسم کے سوالوں سے پڑتا ہے کہ ہم انسان یہاں کیسے آئے ۔ اور یہ کہ انسانیت کا مستقبل کیا ہو گا وغیرہ۔ انسانیت کا مستقبل اور مقدّر تو اسی کہکشاں کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق،  ہماری ساری قابل مشاہدہ کائنات (Observable Universe) میں لگ بھگ دو کھرب سے بھی زیادہ کہکشائیں موجود ہیں۔ (یہ ایک محتاط اندازہ ہے بعض دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد چار کھرب کہکشائیں بھی بتائی جاتی ہے۔ مترجم) ان میں سے ہر کہکشاں اپنی اپنی جگہ منفرد،  متحرک،  اور نہایت عظیم الشان ہے۔ کہکشاؤں کی پوری زندگی بہت ہنگامہ خیز ہوتی ہے۔ ان کا جنم،  ان کا ارتقاء اور ان کی موت،  غرض سب ہی کچھ نہایت پُر ہنگام اور خوفناک حالات میں ہوتا ہے۔ کہکشاؤں کی پیدائش کیسے ہوتی ہے ؟ وہ کیسے ارتقاء پذیر ہوتی ہیں ؟ ان کا مستقبل کیا ہے ؟ اور ان کا خاتمہ کیسے ہو گا؟ یہ سوالات وہ ہیں جو اکثر ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں ۔ اور جن کے جوابات جاننے کے لئے ہم بے چین رہتے ہیں۔

ہماری اپنی کہکشاں کی عمر تقریباً بارہ ارب سال ہے۔ یہ ایک عظیم الشان ٹکیہ (Disk) کی مانند ہے جس کے مرغولہ نما (Spiral) دیو ہیکل بازو ہیں ۔ اور ٹکیہ کے بیچوں بیچ ایک گومڑ (Bulge) سا موجود ہے ۔ یہ اُن اربوں کھربوں کہکشاؤں میں سے صرف ایک ہے جو ہماری کائنات میں موجود ہیں … وہ کہکشائیں جن میں سے کئی کے بارے میں جاننے کے باوجود ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کی اصل تعداد کتنی ہے۔

ہر کہکشاں دراصل ستاروں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ایک اوسط کہکشاں میں لگ بھگ ایک کھرب (۱۰۰ اَرب) ستارے ہوتے ہیں۔ یہ ستاروں کا زچہ خانہ اور قبرستان،  دونوں ہی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ستارے پیدا ہوتے ہیں،  پروان چڑھتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ ستارے کسی کہکشاں کے اُس حصّے میں بنتے ہیں جہاں گرد اور گیس (Dust and Gas) کے عظیم الشان بادل موجود ہوتے ہیں ۔ جنہیں ہم "سحابیہ” (Nebulae) کہتے ہیں۔ ہماری کہکشاں میں بھی ارب ہا ارب ستارے ہیں ۔ اور ان میں سے اکثریت کے سیارے اور چاند بھی ہیں … یعنی ہمارے نظامِ شمسی جیسے اربوں دوسرے نظام ہائے شمسی صرف اس ایک کہکشاں میں موجود ہیں۔ تو پھر پوری کائنات کا کیا عالم ہو گا؟

خیر! خاصے عرصے تک ہمیں کہکشاؤں کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ ایک صدی پہلے ہی کی بات ہے جب ہم صرف ملکی وے کہکشاں ہی کو ساری کی ساری کائنات سمجھتے تھے۔ سائنس دانوں نے اس کا نام "جزیرہ کائنات” رکھا ہوا تھا۔ ان کے مطابق کوئی دوسری کہکشاں وجود ہی نہیں رکھتی تھی! ۱۹۲۴ء میں ایڈوِن ہبل (Edwin Hubble) کی دریافت نے ہر چیز بدل کر رکھ دی۔ ہبل اس وقت کی جدید ترین دوربین سے خلائے بسیط کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس دوربین کے آئینے کا قطر ۱۰۰ اِنچ تھا۔ اور یہ امریکی شہر لاس اینجلس کے نزدیک،  ماؤنٹ ولسن (Mount Wilson) پر ایک رصد گاہ میں نصب تھی۔ اس نے خلاء میں،  دور بہت ہی دور،  روشنی کے دھندلے سے گولے دیکھے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی ستارے نہیں۔ ہماری کہکشاں سے بہت زیادہ فاصلے پر،  یہ تو ستاروں کی پوری کی پوری بستیاں تھیں۔

ماہرین فلکیات کے لئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ صرف ایک سال پہلے تک ہماری پوری کائنات صرف ملکی وے پر مشتمل تھی۔ مگر اب وہ لاتعداد کہکشاؤں کا گھر بن گئی تھی۔ ہبل نے فلکیات کے میدان میں ایک عظیم الشان دریافت کر لی تھی۔ کائنات میں صرف ایک نہیں بلکہ لاتعداد کہکشائیں تھیں !

کہکشاؤں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں جنہیں ان کی ساخت کے اعتبار سے نام دیئے جاتے ہیں۔ جیسے کہ گردابی کہکشاں (Whirlpool Galaxy)،  بیضوی کہکشاں (Elliptical Galaxy)،  چھلے (Ring) کی شکل والی کہکشاں،  مرغولہ نما (Spiral) کہکشاں وغیرہ۔ مثلاً ایک کہکشاں جسے "میسنر کٹیلاگ کی 87 ویں کہکشاں‘‘ یا مختصراً صرف M-87 کہا جاتا ہے،  ایک بیضوی کہکشاں ہے۔ یہ اب تک دریافت ہونے والی،  قدیم ترین کہکشاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کے ستاروں کی روشنی سنہری مائل ہے۔ ایک اور کہکشاں "سومبریرو” (Sombrero) کہلاتی ہے۔ اس کا نظارہ نہایت شاندار ہے۔ اس کا مرکز نہایت بڑا اور روشن ہے جس کے اطراف گیس اور گرد کے بادلوں کا ایک بڑا سا ہالا بنا ہوا ہے۔ کہکشائیں دیکھنے میں بے حد حسین نظر آتی ہیں۔ یہ خلاء میں عظیم الجثہ پھر کیوں کی طرح چکراتی اور وسیع و عریض خلاء میں تیرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایسی شاندار آتش بازی کا نمونہ لگتی ہیں جو صنّاعِ فطرت نے گویا اپنے ہاتھوں سے ترتیب دی ہے۔

ہمارے لئے کہکشاؤں کی وسعت کا تصور کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ زمین پر ہم فاصلہ میلوں میں طے کرتے ہیں۔ مگر خلاء میں فاصلہ "نوری سال” میں ناپا جاتا ہے۔ روشنی جو فاصلہ ایک سال میں طے کرتی ہے وہ ایک نوری سال (Light Year) کہلاتا ہے۔ یہ فاصلہ ساٹھ کھرب میل سے ذرا ہی کم بنتا ہے۔ اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے کے مرکز (کہکشانی مرکز) سے خود ہمارا فاصلہ بھی پچیس ہزار نوری سال سے کچھ زیادہ ہے۔ اگر ملکی وے کی ہی بات کریں،  جس کا شمار اوسط جسامت والی کہکشاؤں میں ہوتا ہے،  تو اس کی چوڑائی بھی تقریباً ایک لاکھ نوری سال بنتی ہے۔ اپنی اس عظیم الشان وسعت کے باوجود یہ کائناتی صحرا میں ریت کے ایک معمولی ذرّے کی مانند ہے۔ اگرچہ ہمیں یہ کہکشاں بہت بڑی لگتی ہے،  لیکن یہ کائنات میں موجود دوسری کہکشاؤں کے مقابلے میں خاصی چھوٹی ہے۔ مثلاً اینڈرومیڈا (Andromeda) کہکشاں جسے عربی میں "مراۃ المسلسلہ” بھی کہا جاتا ہے،  اور جو ہماری پڑوسی کہکشاں ہے،  اس کی چوڑائی (قطر) تقریباً دو لاکھ نوری ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ وہ ہماری کہکشاں سے دوگنے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔

M-87 کا تذکرہ ہم کچھ پہلے کر چکے ہیں۔ یہ ایک بیضوی کہکشاں ہے جو اینڈرومیڈا کے مقابلے میں بھی خاصی بڑی ہے۔ لیکن پھر بھی IC-1101 نامی کہکشاں کے مقابلے میں نہایت چھوٹی سی ہے۔ IC-1101 کہکشاں اب تک کی دریافت ہونے والی،  سب سے بڑی کہکشاں ہے۔ یہ ہماری کہکشاں سے تقریباً ساٹھ گنا بڑی ہے۔

اب تک ہم جان چکے ہیں کہ کہکشائیں بہت وسیع و عریض ہوتی ہیں ۔ اور یہ خلاء میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے ؟ یہ فلکی طبیعیات کا اہم سوال ہے کہ کہکشائیں کہاں سے آئی ہیں۔ ہم اب تک پوری طرح سے یہ نہیں سمجھ سکے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ کائنات کی ابتداء آج سے 13۔ 7 اَرب سال پہلے،  بگ بینگ سے ہوئی تھی۔ یہ انتہائی گرم اور بے انتہاء کثافت والا مرحلہ تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ تب کہکشاں جیسی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہو سکتی تھی۔

اس کا صاف مطلب ہے کہ کہکشائیں بہت بعد ہی میں پیدا ہوئی ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی کہکشاں اپنے آپ میں ستاروں کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ اور کائنات میں اوّلین ستارہ،  بگ بینگ کے بیس کروڑ سال بعد وجود میں آیا تھا۔ قوتِ ثقل (Gravity) نے ایسے اربوں اوّلین ستاروں کو بتدریج یکجا کرنا شروع کیا… اور آخرکار کائنات میں اوّلین کہکشائیں وجود میں آ گئیں۔ ہبل خلائی دوربین (Hubble Space Telescope) ہمیں ماضی کے اس اوّلین دور میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ جب کہکشائیں وجود میں آنا شروع ہوئی تھیں۔ آسمان میں ستاروں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں ہزاروں،  لاکھوں،  بلکہ اربوں سال تک لگ جاتے ہیں۔ ستاروں کی روشنی جو ہم دیکھتے ہیں،  وہ دراصل ان کا ستاروں کا ماضی ہوتا ہے : وہ ہم سے جتنے نوری سال دور ہوں گے،  آج کی تاریخ میں اُن سے ہم تک پہنچنے والی روشنی اتنے ہی سال پہلے کی ہو گی… اور وہ روشنی ہمیں ان ستاروں کے اتنے ہی قدیم ماضی کی خبر دے رہی ہو گی۔ جب ہم "ہبل ڈیپ فیلڈ” (Hubble Deep Field) نامی دوربین میں جھانکتے ہیں (جو ہبل خلائی دوربین ہی کا ایک اہم حصہ ہے ) تو ہمیں کہکشائیں چھوٹے چھوٹے دھبوں کی صورت میں نظر آتی ہیں۔

وہ دور دراز ماضی کی کہکشائیں،  آج کی قریبی کہکشاؤں سے بہت مختلف ہیں۔ وہ کہکشائیں روشنی کے چھوٹے دھبوں جیسی لگتی ہیں جن میں ہم بمشکل فرق کر پاتے ہیں ۔ ایسے ہر دھبے میں کروڑوں یا اربوں ستارے ہیں،  جنہوں نے قوّت ثقل کے زیر اثر ایک جگہ جمع ہونا شروع کر دیا تھا۔ یہ دھندلے دھبے اوّلین کہکشائیں ہیں ۔ جو بگ بینگ کے لگ بھگ ایک ارب سال بعد بننا شروع ہوئیں۔ لیکن ہبل ڈیپ فیلڈ بھی کائناتی ماضی میں بس اسی قدر دوری تک جھانک سکتی ہے۔ اس میں اور زیادہ آگے تک،  کائنات کے مزید قدیم تر ماضی میں دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ اگر ہمیں مزید دور تک ماضی میں جھانکنا ہو،  تو اس کیلئے ہمیں مختلف قسم کی،  اس سے بھی کہیں زیادہ طاقتور دوربین کی ضرورت ہو گی۔ یہ ایک ایسی دوربین ہونی چاہئے جو اب تک کی سب سے بڑی دوربین ہو۔

فی الحال تو ایک دوربین چلی (Chile) کے شمالی ریگستانی علاقے میں نصب ہے۔ اس کا نام "ایکٹ” (Atacama Cosmology Telescope) یعنی "اٹاکاما کونیاتی دوربین” ہے۔ 17,000 فٹ کی بلندی پر نصب،  یہ اب تک کی سب سے اونچی زمینی دوربین بھی ہے۔ یہاں کا موسم بہت سرد رہتا ہے اور اکثر ہوا بھی طوفانی رفتار سے چلتی ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں آسمان سال کے بیشتر حصے میں صاف رہتا ہے۔ صاف شفاف،  بادلوں اور گرد و غبار سے خالی آسمان،  ایکٹ دوربین کے شیشوں کے لئے نہایت اہم ہے۔ اس کے بغیر وہ آسمان میں قدیمی کہکشاؤں کو مرکز نگاہ نہیں بنا سکتے۔ آسمان کی جتنی مفصل معلومات اس دوربین کے ذریعے حاصل ہوئیں،  وہ اس سے پہلے کسی اور زمینی دوربین سے حاصل نہیں ہوئی تھیں۔ اس کے ذریعے ہم کہکشاؤں اور ان کے جھرمٹوں کی ارتقاء کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لے سکتے ہیں۔

ایکٹ،  عام بصری روشنی کے بجائے اُن کائناتی خرد موجوں (Cosmic Microwaves) کا سراغ لگاتی ہے جو کائنات کی پیدائش کے صرف چند لاکھ سال بعد وجود پذیر ہو گئی تھیں۔ یہ اس صلاحیت کی حامل ہے کہ نہ صرف ان کہکشاؤں کو دیکھ سکے بلکہ ان کہکشاؤں اور کہکشانی جھرمٹوں کا ارتقاء ہوتے ہوئے بھی مشاہدہ کرسکے۔ اس دوربین کے ذریعے ہم اس قابل ہو چکے ہیں کہ کہکشاؤں اور کہکشانی جھرمٹوں کے مرحلہ وار ارتقاء کا جائزہ لے سکیں ۔ ہم ان کہکشاؤں کی نشوونما کا مطالعہ ابتدائے وقت کے کچھ ہی عرصے بعد سے لے کر دورِ حاضر تک کرسکیں۔

ایکٹ نے ہمیں کہکشانی ارتقاء کو زمان و مکان کی تقریباً ابتداء سے سمجھنے کا زبردست موقعہ فراہم کیا ہے۔ اب ہم یہ بتانے کے قابل ہیں کہ کہکشائیں،  قدیم کائنات میں کیسی تھیں … اور ساتھ ہی ساتھ ہم ان قدیم کہکشاؤں کا موازنہ،  عصر حاضر کی کہکشاؤں سے بھی کرسکتے ہیں۔ ماہرین فلکیات،  کہکشاؤں کو ستاروں کے بے ہنگم جھرمٹوں سے دورِ حاضر کی منظم و مرتب شکلوں میں (باضابطہ کہکشاؤں میں ) ڈھلتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

اب ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ستارے،  کہکشاؤں کو تشکیل دیتے ہیں ۔ کہکشائیں،  کہکشانی جھرمٹوں (Clusters) کو۔ اور یہ کہکشانی جھرمٹ بھی باہم منظم و مربوط ہو کر جھرمٹوں کے جھرمٹوں یعنی "سپر کلسٹرز” (Super Cluster) کو جنم دیتے ہیں  یہ سپر کلسٹرز،  ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں سب سے بڑی ساختیں (Structures) ہیں۔

کہکشائیں شروع میں ستاروں،  گیس اور گرد کے بے ہنگم مجموعے تھیں۔ مگر آج کہکشائیں بڑی منظم اور ترتیب وار حالت میں ہیں۔ قوّت ثقل نے ستاروں کی اس بے ترتیبی کو ختم کر کے ان میں سے کچھ کو مرغولہ نما کہکشاؤں کی شکل دی،  اور کچھ کہکشاؤں کو دوسری شکلوں میں ڈھال دیا۔ کہکشاؤں کی ساخت اور ان کا مقدر بھی قوّت ثقل کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ قوّت ثقل ناقابل یقین حد تک طاقتور ہے ۔ اور اس کا اصل منبع کہکشاں کے مرکز میں ہوتا ہے۔ ہماری اپنی کہکشاں کے مرکز میں بھی ایک خوفناک اور تباہ کن طاقت موجود ہے۔ کہکشائیں بارہ اَرب سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔ ان کی وسیع سلطنت میں چکر کھاتی مرغولہ نما کہکشاؤں سے لے کر عظیم الشان ستاروں کی گیند جیسی گول کہکشائیں تک۔ ہر شکل اور ہر جسامت کی کہکشائیں موجود ہیں۔

اب بھی کہکشاؤں کے بارے میں بہت سارے سوالوں کے جوابات جاننا باقی ہیں۔ کہکشاؤں کے بارے میں ہمارا موجودہ علم اب بھی تشنہ ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی شکل مرغولہ نما کیوں ہوتی ہے ؟ اور کیا یہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھیں ؟ البتہ،  اتنا تو ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ ہمیشہ سے ایسی نہیں تھیں۔ نوعمر کہکشائیں ستاروں،  گیس اور دھول کا بے ترتیب اور بے ہنگم مجموعہ تھیں۔ مگر اربوں سال پہلے انہوں نے صاف ستھرے منظم طریقے سے اپنی ساخت استوار کر لی تھی۔ جیسے کہ بھنور کی شکل والی کہکشاں یا پھر ہماری اپنی مرغولہ نما کہکشاں ملکی وے۔

ہماری کہکشاں ہمیشہ سے سالم حالت میں ایک کہکشاں نہیں تھی۔ بلکہ اپنی ابتداء میں یہ بہت ساری،  چھوٹی چھوٹی "بچہ کہکشاؤں‘‘ پر مشتمل تھی۔ اس وقت ان کہکشاؤں کی شکل عجیب بے تکی اور غیر منظم سی تھی۔ پھر ان تمام کہکشاؤں نے قوت ثقل کے زیرِ اثر آپس میں ضم ہونا شروع کر دیا۔ ہماری ملکی وے کہکشاں تشکیل پانے لگی۔ آہستہ آہستہ اس نے ستاروں کو اندر کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ پھر اس کے گھومنے کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ اوراس نے چپٹی (Flat) ہو کر ایک ٹکیہ جیسی شکل بنا لی۔ ستاروں اور گیس کے بادلوں نے عظیم الجثہ گھومنے والے بازو بنائے۔ یہ چکر تمام کائنات میں ارب ہا ارب مرتبہ چلا ہو گا۔

اگرچہ کہکشائیں ایک دوسرے سے مختلف لگتی ہیں،  مگر ان سب ایک قدرِ مشترک ہے : یہ سب کی سب اپنے مرکز کے گرد گھوم رہی ہیں۔ ان میں موجود ستارے،  کہکشانی مرکز میں موجود کسی نادیدہ چیز کے گرد،  دیوانہ وار رقص میں مصروف ہیں۔ بہت مدت سے سائنس دان یہ جاننے کی جستجو میں تھے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو کہکشاؤں کو مختلف شکلیں اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اب انہوں نے اس کی وجہ دریافت کر لی ہے۔ کہکشانی مرکز میں موجود بلیک ہول (Black Hole) انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ ہر قسم کا بلیک ہول نہیں بلکہ صرف "فوق ضخیم بلیک ہول” (Super-massive Black Hole) ہی ایسا کر سکتا ہے۔ کہکشانی مرکز میں فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہونے کی سب سے پہلی نشانی یہ ہے کہ کہکشانی مرکز سے زبردست توانائی نکل رہی ہوتی ہے۔ اس توانائی کا سرچشمہ بلیک ہول ہی ہوتے ہیں۔

یہ مرکز میں موجود رہ کر آس پاس کی کے مادّے کی ضیافت اڑانے میں ایسے مصروف رہتے ہیں جیسے ہم بقرعید پر گوشت کی دعوت اڑاتے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ان کا کھانا،  گیسی بادل اور ستارے ہوتے ہیں۔ بلیک ہول بننے کے دوران واقعاتی افق کے پاس ایک پرت دار ٹکیہ بن جاتی ہے۔ اس وقت یہ بلیک ہول کو بہت ہی مختصر وقت میں اتنی مقدار میں مادّہ مہیا کرتی ہے جو اس کی ہضم کرنے کی صلاحیت سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ جس سے انہیں کبھی کبھی بدہضمی بھی ہو جاتی ہے اور واقعاتی افق،  مادّے سے لبریز ہو جاتی ہے۔ بلیک ہول کی برداشت کا پیمانہ چھلک جاتا ہے اور وہ مزید مادّہ ہضم کرنے کے بجائے اسے زبردست توانائی کے ساتھ،  خلاء میں دور دور تک پھینک دیتا ہے۔ روشن،  توانا اور زبردست مقدار والے،  اس مادّے کے اخراج کو جب ہم بہت دور سے ،  کروڑوں نوری سال کے فاصلے سے ،  دیکھتے ہیں تو یہ ہمیں روشنی کے عظیم الشان فوارے لگتے ہیں۔ بلیک ہول کے اس مظہر کو "کوزار” (Quasars) کہتے ہیں۔ جب سائنس دان کسی کہکشاں کے مرکز سے توانائی کے یہ فوارے دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ وہاں کوئی کوزار گھات لگائے بیٹھا ہے۔ (بلیک ہول اور کوزار کے بارے میں ہم گزشتہ باب میں تفصیل سے بات کر چکے ہیں۔ مترجم)

مگر کیا کوئی کوزار ملکی وے کے مرکز میں تو آرام نہیں فرما رہا؟ اینڈریا گیز (Andrea Ghez) اور ان کی ٹیم پچھلے پندرہ سال سے اسی کی کھوج میں ہیں۔ ان کی یہ جستجو تب ہی کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے جب وہ کہکشاں کے مرکز میں ستاروں کی حرکت دیکھ سکیں۔ ستارے،  قوت ثقل کی وجہ سے حرکت کرتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے سیارے،  سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ وہ ستارے جو کہکشانی مرکز کے بہت قریب ہیں،  وہ گرد و غبار کے بادلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ لہٰذا گیز ایک دیو قامت دوربین سے ان کا جائزہ لے رہی ہیں،  جس کا نام "کیک” (Keck) ہے۔ کہکشانی مرکز کے قرب و جوار کا یہ علاقہ،  کہکشاں کی انتہائی خطرناک اور بے رحم جگہوں میں سے ایک ہے۔ کہکشانی مرکز کے پاس ہر چیز اپنی انتہاء پر ہے۔ ستارے ناقابل یقین حد تک تیزی سے حرکت کر رہے ہیں ۔ یہاں ہر دوسرا ستارہ گویا ایک زنّاٹے دار رفتار سے دوڑے جا رہا ہے۔ یہ مقام،  کہکشاں کی کسی بھی دوسری جگہ کے مقابلے میں نہایت طوفانی اور خطرناک ہے۔

گیز اور ان کی ٹیم نے چند ستاروں کی تصاویر لیں جو کہکشانی مرکز کے قریب رہتے ہوئے گھوم رہے تھے۔ اس کے بعد ان کا کام ان تصویروں سے متحرک فلم بنانا تھا۔ اس کے لئے بہت زیادہ صبر کی ضرورت تھی۔ پہلے انہیں بہت ساری تصاویر لینا تھیں۔ پھر ان تصاویر کو متحرک کرنا تھا۔ ان کی ٹیم جب یہ کام کر کے فارغ ہوئی تو انہیں بہت ہی زبردست نتیجہ ملا۔ کہکشانی مرکز کے قریب،  مدار میں ستارے کئی لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر لگا رہے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ ستارے اتنی تیزی سے صرف اور صرف کسی فوق ضخیم بلیک ہول ہی کی وجہ سے چکر کاٹ رہے تھے۔ گیز اور ان کی ٹیم نے مرکز میں موجود ستاروں کا تعاقب کیا۔ اور اس جگہ کی نشاندہی کی جس کے گرد یہ ستارے چکر کاٹ رہے تھے۔ کہکشاں میں ایک فوق ضخیم بلیک ہول ہی وہ چیز ہو سکتی تھی جو ستاروں کو اس طرح چکر پہ چکر دے سکے۔ یہ بلیک ہول ہی کی ثقل تھی جو ستاروں کو اس طرح اپنے گرد چکر لگانے پر مجبور کر رہی تھی۔ ستاروں کے راستوں میں خم،  اس بات کا بیّن ثبوت تھا کہ کہکشاں کے مرکز میں فوق ضخیم بلیک ہول واقعی موجود ہے۔ علاوہ ازیں،  انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ تقریباً پندرہ کروڑ قطر پر پھیلا ہوا ہے۔ اب سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس فوق ضخیم بلیک ہول سے ہمیں کوئی خطرہ ہے ؟ اس کا آسان سا جواب ہے کہ نہیں۔ یہ فوق ضخیم بلیک ہول ہم سے اس قدر دور ہے کہ اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ یہ زمین سے لگ بھگ پچیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ یہ کئی ہزار کھرب میل کا فاصلہ بنتا ہے۔ فی الحال تو زمین محفوظ ہے۔

فوق ضخیم بلیک ہولز شاندار توانائی کا منبع تو ہو سکتے ہیں،  مگر پھر بھی یہ اتنے طاقتور نہیں کہ کسی کہکشاں کے تمام ستاروں کو یکجا کر کے،  ایک باقاعدہ کہکشاں کی صورت میں،  باندھ کر رکھ سکیں۔ اگر ہم کسی کہکشاں میں صرف قابلِ مشاہدہ مادّے ہی کی بات کریں،  تو پھر صرف اس میں تو اتنی کشش ثقل نہیں کہ وہ پوری کی پوری کہکشاں کو ،  ارب ہا ارب ستاروں کے مجموعے کو ،  اس شکل میں رکھ سکے کہ جس میں وہ ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ اگر کہکشاؤں میں صرف وہی مادّہ ہوتا کہ جس کا ہم مشاہدہ کرسکتے ہیں،  تو پھر قوانین طبیعیات کی روشنی میں انہیں بکھر کر ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کہکشائیں اپنی حالت پر اربوں سال سے قائم و دائم ہیں۔ اتنی زیادہ کششِ ثقل،  فوق ضخیم بلیک ہول کے ذریعے بھی ممکن نہیں۔ تو پھر وہ نادیدہ چیز کیا ہے جس نے ہر کہکشاں کو اتنی خوبصورتی سے سنبھالا ہوا ہے ؟ ہم نے اس غیر مرئی چیز کو "تاریک مادّہ” (Dark Matter) کا نام دیا ہے ۔ اور یہ کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔

ماہرینِ فلکیات معلوم کر چکے ہیں کہ فوق ضخیم بلیک ہولز،  کہکشاؤں کے مرکز میں واقع ہوتے ہیں اور ان ہی کی بدولت مرکز سے قریب ستارے اس قدر تیز رفتاری سے چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ مگر پھر بھی یہ اس قدر طاقتور نہیں ہوتے کہ کہکشاں کے سارے ستاروں کو آپس میں جوڑ کر رکھیں۔ یہ راز اس وقت تک نہیں کھلا تھا جب تک ایک سرپھرے سائنس دان نے یہ خیال پیش نہیں کیا: ضرور کوئی نہ کوئی چیز ایسی ہے جسے ہم اب تک نہیں جانتے،  مگر وہ اپنا کام کر رہی ہے۔ یہ سوئٹزرلینڈ کا فلکیات داں،  فرٹز زوئکی (Fritz Zwicky) تھا۔

اس نے 1930ء کے عشرے میں اس نکتے پر غور شروع کیا کہ آخر کہکشائیں،  گروپوں کی شکل میں کیوں ہیں۔ قابلِ مشاہدہ مادّے اور توانائی کی بنیاد پر اس نے حساب لگایا تو اندازہ ہوا کہ یہ مادّہ اتنی کششِ ثقل پیدا ہی نہیں کرسکتا کہ جو ان کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے باندھ کر رکھ سکے۔ اگر یہ مادّہ صرف اتنا ہی ہے کہ جتنا ہم دیکھ سکتے ہیں،  تو پھر کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور بھاگنا چاہئے تھے۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ یقیناً کوئی نہ کوئی چیز ایسی ضرور تھی جو ہر کہکشاں میں اربوں ستاروں کو،  اور ہر کہکشانی جھرمٹ میں درجنوں بلکہ سینکڑوں کہکشاؤں کو ایک ساتھ رکھے ہوئے تھی۔ مگر وہ چیز ہماری جانی پہچانی قوّت ثقل نہیں ہو سکتی تھی۔ کیونکہ قابلِ مشاہدہ مادّہ اتنی قوتِ ثقل پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔ لہٰذا اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ضرور کوئی ایسی چیز موجود ہے جسے ہم نے اب تک نہیں دیکھا،  اور نہ ہی کسی نے ابھی تک اس کے بارے میں سوچا ہے۔ اس نادیدہ اور پراسرار چیز کو اس نے "تاریک مادّہ” کا نام دے دیا۔

واقعی،  یہ خداداد ذہانت کے مالک انسان ہی کا کام ہو سکتا تھا۔ فرٹز ژویکی اپنے عہد سے بہت آگے تھا۔ لہٰذا اس کی بات کو اس وقت کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ مگر وہ بالکل صحیح تھا۔ ان کا تجویز کردہ تاریک مادّہ اگر کہکشاؤں کو جوڑ کر جھرمٹ میں رکھ سکتا تھا،  تو وہ کہکشاؤں میں ستاروں کو بھی دور بھاگنے سے روک سکتا تھا۔

تاریک مادّے کا وجود ثابت کرنے کے لئے سائنس دانوں نے کمپیوٹر میں مجازی کہکشائیں بنائیں،  جن میں مجازی ستارے اور مجازی قوت ثقل بھی موجود تھی۔ سائنس دانوں نے کہکشاں بننے کے عمل کو سمیولیشن کے ذریعے دوہرایا جس میں بہت سارے ذرّات ایک چپٹی ٹکیہ کے مدار میں ڈالے،  بالکل اسی طرح جیسے ہماری کہکشاں کی شکل ہے۔ سائنس دان یہ امید کر رہے تھے کہ وہ بالکل ایسی ہی ایک کہکشاں حاصل کر لیں گے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید ایک مرغولہ نما شکل کی کہکشاں بنے گی۔ مگر جب نتیجہ آیا تو ان کی حیرت کی انتہاء نہ رہی۔ کیونکہ وہاں اتنی قوّت ثقل موجود ہی نہیں تھی جو ان سب ستاروں کو تھام کر ایک کہکشاں کی شکل دے سکے۔ لہٰذا سائنس دانوں نے اپنے اس ماڈل میں ثقلی قوت بڑھا دی،  یا دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ تاریک مادّہ ڈال دیا… اور اس کے ڈالتے ہی مسئلہ حل ہو گیا۔ تاریک مادّے نے کہکشاں کو تھام لیا۔ تاریک مادّہ دراصل ایک بند کا کام دیتا ہے جو کہکشاؤں کے ستاروں کو ایک دوسرے سے دور ہٹنے نہیں دیتا اور انہیں ان کی جگہ پر ٹکا کر رکھتا ہے۔

اب سائنس دان یہ دریافت کر رہے ہیں کہ تاریک مادّہ نہ صرف کہکشاؤں کو جوڑ کر رکھتا ہے بلکہ یہی وہ چیز بھی ہے جس کی بدولت کہکشاؤں کے بننے کی ابتداء ہوئی تھی۔ ان سائنس دانوں کا خیال ہے کہ تاریک مادّے شاید بگ بینگ کے فوراً بعد ہی تخلیق ہو گیا تھا۔ اور اس نے ایک جگہ جمع ہونا شروع کر دیا تھا۔ آخرکار یہ ایسے مرکزوں میں تبدیل ہو گیا جنہوں نے بعد ازاں وجود پذیر ہونے والی کہکشاؤں کے لئے بیجوں کا کام کیا۔ مگر سائنس دان اب تک یہ نہیں جان پائے ہیں کہ آخر یہ تاریک مادّہ ہے کیا چیز۔ ہمیں یہ سب اس لئے عجیب لگتا ہے کیونکہ ہم اب تک اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ اب تک تو یہ تاریک مادّہ،  اس مادّے سے بالکل مختلف لگتا ہے کہ جس سے میں اور آپ بنے ہیں۔ ہم اسے دیکھ نہیں سکتے،  پکڑ نہیں سکتے ۔ مگر پھر بھی یہ ہمارے ارد گرد موجود ہے۔ یہ ماورائے عقل قسم کا مادّہ ہے جو ہمارے جسم میں سے یوں گزر سکتا ہے جیسے ہمارا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ ہم شاید اس کے بارے میں زیادہ نہ جان پائیں۔ لیکن کائنات اس سے بھری پڑی ہے۔ شاید یہ عام مادّے سے،  جس سے میں اور آپ بنے ہیں،  لگ بھگ چھ گنا زیادہ مقدار میں ہے۔ اس کے بغیر کائنات اس طرح چل ہی نہیں سکتی تھی کہ جس طرح یہ آج چل رہی ہے۔ اور چونکہ کائنات ایسے ہی چل رہی ہے،  لہٰذا غالب امکان یہی ہے کہ تاریک مادّہ بھی موجود ہے۔

تاریک مادّہ پراسرار بھی ہے۔ لیکن اسے حال ہی میں دریافت کر لیا گیا ہے۔ براہِ راست دیکھ کر نہیں،  بلکہ اس کے ثقلی اثرات کا مشاہدہ کر کے ! جی ہاں،  تاریک مادّے کی کشش ثقل ہی وہ واحد نشانی ہے جس کی بدولت ہم اس کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ تاریک مادّے کی دریافت،  ثقلی عدسہ (Gravitational Lens) کہلانے والے ایک مظہرِ قدرت کے طفیل ممکن ہو سکی ہے۔ اس اثر کے تحت،  بہت دور کسی جسم (مثلاً کسی کہکشاں ) سے آنے والی روشنی کے راستے میں کوئی نادیدہ کمیت (جو بلیک ہول یا پھر تاریک مادّے پر مشتمل ہو) آ جاتی ہے۔ اس نادیدہ کمیت کے ثقلی اثرات،  دور سے آنے والی روشنی کو اس انداز سے موڑتے ہیں جیسے عام زندگی میں کوئی عدسہ روشنی کو اس کے راستے سے منحرف کر دیتا ہے۔ انحراف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کبھی تو ہمیں وہ دور دراز جسم عجیب سا،  بگڑا ہوا سا دکھائی دیتا ہے تو کبھی ایک کے دو نظر آنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ ہماری نظر کا فتور نہیں ۔ بلکہ یہ ساری کارستانی،  بہت دُور سے آنی والی روشنی کے راستے میں حائل،  عظیم و جسیم نادیدہ کمیت کی ہوتی ہے۔ ثقلی عدسے کی مختصر اور آسان داستان بس اتنی سی ہے۔ لیکن یہی ثقلی عدسہ ہمیں تاریک مادّے کو کھوجنے کا نایاب موقعہ فراہم کرتا ہے : جب روشنی کی کرنیں کسی دور دراز کہکشاں سے سفر کرتی ہوئی ہماری طرف آتی ہیں اور راستے میں تاریک مادّے کے کسی بڑے جمگھٹ کے قریب سے گزرتی ہیں تو روشنی کی ان کرنوں کا راستہ،  تاریک مادّے کی قوّت ثقل کی وجہ سے،  تبدیل ہو جاتا ہے۔

جب ہبل دوربین نے خلائے بسیط میں جھانکا،  تو اسے بہت دور کی کچھ کہکشائیں بد شکل اور عجیب طرح سے کھنچی ہوئی نظر آئیں ۔ ان کی شکل خم کھاتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم کسی مچھلی کو شیشے کے جار میں باہر سے دیکھیں تو اکثر جب وہ جار کے شیشے کے قریب آتی ہے تو اس کی شکل،  زاویئے کے اعتبار سے اپنے اصل حجم سے زیادہ بڑی نظر آتی ہے۔ ہم ان کہکشاؤں کی اصل ممکنہ ساخت اور ظاہری بد شکلی میں موازنہ کرتے ہوئے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس تاریک مادّے نے ان کہکشاؤں کی شکل مسخ کی ہے،  وہ اپنی کمیت کے اعتبار سے کتنا ہو گا۔ اب یہ بات بالکل صاف ہے کہ تاریک مادّہ،  کائنات کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ زمان و مکان (کائنات) کی ابتداء ہی سے کارفرما رہا ہے۔ اس کا اثر ہر جگہ اور ہر چیز پر ہو رہا ہے۔ اس نے کہکشاؤں کی تخلیق شروع کی،  اور ستاروں کو کہکشاؤں میں باندھ رکھا ہے۔ ہم نہ تو اسے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا پیچھا کرسکتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی وہ اس کائنات کا ایک اہم حصّہ ہے۔

ہمیں کہکشائیں ایک دوسرے سے خاصی دور الگ تھلگ نظر آتی ہیں۔ اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ ان کے درمیان کھربوں میل کا فاصلہ ہے۔ لیکن اصل میں گروپوں کی شکل میں ہی رہتی ہیں،  جنہیں ہم "کہکشانی جھرمٹ” (Cluster) کہتے ہیں۔ اور پھر یہ کہکشانی جھرمٹ،  آپس میں مربوط و منظم ہو کر جھرمٹوں کے جھرمٹ (Super-clusters) بناتے ہیں۔ ایسے ہر سپر کلسٹر میں ہزاروں کہکشائیں ہوتی ہیں۔ اگر ہم اپنے تصور کے کینواس کو تھوڑا سا اور بڑا کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہماری ملکی وے کہکشاں بھی ایک کہکشانی جھرمٹ کا حصہ ہے جسے ہم "لوکل گروپ” (Local Group) کہتے ہیں ۔ اس کہکشانی جھرمٹ میں ہماری کہکشاں اور اینڈرومیڈا سب سے بڑی کہکشائیں ہیں۔ اگر ہم اور بڑے پیمانے پر دیکھیں گے تو ہمیں پتا چلے گا کہ ہم "سنبلہ سپر کلسٹر” (Virgo Super-cluster) کہلانے والے،  جھرمٹوں کے ایک جھرمٹ کا حصہ ہیں ۔

سائنس دان اب کائنات کا نقشہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں کہکشانی جھرمٹوں اور کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹوں کے محل وقوع بھی شامل ہیں۔ اپاچی پوائنٹ رصد گاہ (Apache Point Observatory) نیومیکسیکو میں واقع ہے۔ یہاں "سلون ڈیجیٹل اسکائی سروے‘‘ (Sloan Digital Sky Survey) نامی ایک چھوٹی مگر انتہائی مہنگی دوربین ایک نہایت منفرد کام کر رہی ہے۔ یہ پہلا سہ جہتی آسمانی نقشہ بنا رہی ہے جس میں ارب ہا ارب کہکشاؤں کے محل وقوع کی بالکل صحیح صحیح نشاندہی کی گئی ہے۔ اسے تمام کہکشاؤں کو ڈھونڈ نکالنے کے لئے خلائے بسیط میں بہت دور تک جھانکنا ہو گا۔ یہ کہکشاؤں کا محل وقوع حاصل کرنے کے بعد اس مواد کو المونیم کی ڈسک پر منتقل کرتی ہے۔ ۳۰  انچ قطر کی ایسی ہر المونیم ڈسک پر ۶۴۰ سوراخ ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر سوراخ ایک کہکشاں کی (اس کے محل وقوع سمیت) نمائندگی کرتا ہے۔ روشنی کہکشاؤں سے ہوتی ہوئی فائبر آپٹک تاروں میں سے گزرتی ہے۔ اس طریقے کے تحت کہکشاؤں کی دوری اور ان کے محل وقوع کا ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے ۔ اور پھر،  اسی ریکارڈ کی بنیاد پر،  کہکشاؤں کا ایک تفصیلی سہ جہتی نقشہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس نقشے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کہکشاؤں کی ساخت کیا ہے،  یہ کس سے بنی ہیں اور کائنات میں کس طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ تمام باتیں فلکیات اور تفہیمِ کائنات کے لئے بہت اہم ہیں۔ یہ اب تک کا سب سے بڑا سہ جہتی کائناتی نقشہ ہے۔ اس نقشے نے ہم پر وہ باتیں اجاگر کی ہیں جو ہمیں اس سے پہلے معلوم نہیں تھیں۔ یہ نقشہ نہ صرف کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹوں کا محل وقوع بیان کرتا ہے،  بلکہ اور بھی بڑے پیمانے پر ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹ بہت ہی بڑی ساختیں تشکیل دیتے ہیں جو (اس عظیم الشان پیمانے پر) ریشوں (Filaments) کی مانند ایک دوسرے سے مربوط دکھائی دیتے ہیں۔

سلون ڈیجیٹل اسکائی سروے نے ایک ارب چالیس کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ایسا ہی ایک فلامنٹ دریافت کیا ہے۔ یہ کائنات میں اب تک مشاہدہ کی گئی،  سب سے بڑی ساخت بھی ہے۔ اس کا نام "سلون کی عظیم دیوار” (Sloan Great Wall) رکھا گیا ہے۔ اس دیوار کو دیکھ کر ہمیں صحیح معنوں میں وسعتِ کائنات کا احساس ہو جاتا ہے۔ اور آپ پر جب یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اس فلامنٹ کا ہر چھوٹا سا نقطہ اپنے آپ میں ایک کہکشاں ہے ،  ستارہ نہیں بلکہ کھربوں ستاروں والی کہکشاں ہے ،  تو آپ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ یہ سروے دراصل بہت ہی بڑے پیمانے پر کائناتی جغرافیہ کو بیان کرتا ہے۔

سائنس دانوں نے ایک بہت ہی وسیع کائنات،  سپرکمپیوٹر پر نقل کی ہے۔ اس میں آپ کوئی کہکشاں نہیں دیکھ سکتے ۔ بلکہ اس میں تو آپ کو کہکشانی جھرمٹ بھی نظر نہیں آئیں گے۔ اس میں صرف اور صرف جھرمٹوں کے جھرمٹ،  یعنی سپر کلسٹرز دکھائی دیتے ہیں جو آپس میں ایسے جڑے ہیں کہ ان سے مل کر ایک کائناتی جال بن گیا ہے۔ اس پیمانے پر کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹ ایک ریشے کی طرح کی ساخت بناتے ہوئے،  ایک ایسا کائناتی جال بناتے ہیں جس میں کہکشائیں اور ان کے جھرمٹ،  کائنات کو ہر جگہ اور ہر سمت سے روشن کر رہے ہیں۔ اصل میں کائنات بڑے پیمانے پر ایک اسفنج کی طرح نظر آتی ہے،  جس کا ہر ایک ریشہ لاکھوں کہکشانی جھرمٹوں کا گھر ہے جنہیں تاریک مادّے نے باندھ کر رکھا ہے ۔ اس کمپیوٹر سمیولیشن میں تاریک مادّہ،  ہر ریشے کے ساتھ جگہ جگہ موجود ہے۔ جہاں کہکشائیں ہیں،  وہاں یہ تاریک مادّہ بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔

جب ہم کہکشاؤں کو کائناتی پیمانے پر دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں بس یونہی،  اٹکل سے بکھری ہوئی نہیں ملتیں بلکہ انہوں نے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا رکھے ہوتے ہیں،  جو اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تاریک مادّہ،  کائنات میں بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ تاریک مادّہ ایک ایسے گوند کا کردار ادا کرتا ہے جس نے کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹوں کو باندھ رکھا ہے۔ وہ سب ایک ریشے کے بنے ہوئے جال جیسے لگتے ہیں۔ تاریک مادّے کے بغیر کہکشانی جھرمٹ،  کائنات میں اِدھر اُدھر بکھر جائیں گے۔ غرض کہ کائنات کی بڑے پیمانے پر تصویر ایک کائناتی جال (Cosmic Web) کی مانند نظر آتی ہے۔

ان ہی میں سے ایک ریشے میں چھپی ہوئی،  ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے بھی ہے۔ اس کی عمر لگ بھگ بارہ اَرب سال ہے۔ مگر اب یہ ایک کہکشانی تصادم میں ختم ہونے جا رہی ہے۔ کہکشائیں ستاروں کی عظیم الشان مملکت ہوتی ہیں۔ کچھ کہکشائیں چھلے کی مانند گول،  تو کچھ مرغولہ نما پیچیدہ ساخت کی ہوتی ہیں۔ مگر ان کی ساخت ہمیشہ ایک ہی جیسی نہیں ہوتی۔ جب ہم اپنی کہکشاں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی۔ مگر یہ خیال درست نہیں۔ ہماری کہکشاں ایک متحرک جگہ ہے۔ اس کی بنیادی نوعیت اور ساخت،  کونیاتی عرصۂ وقت میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ کہکشائیں صرف ساخت ہی نہیں بدلتیں بلکہ وہ مسلسل حرکت میں بھی رہتی ہیں۔ اور نتیجتاً وہ دوسری کہکشاں سے جا ٹکراتی ہیں۔ جب کبھی کسی کہکشاں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے،  تو "مارو یا مر جاؤ” والی کیفیت پیدا ہوتی ہے : یا تو مدمقابل کہکشاں کو ہڑپ کر لو،  یا پھر اس میں ضم ہو جاؤ!

کائنات،  کہکشاؤں کا ایک بھرپور جنگل ہے۔ اور اس جنگل میں پائے جانے والے حیوان،  یہ کہکشائیں،  کسی بھی وقت ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسا سکتی ہیں۔ یعنی کبھی کبھی کوئی کہکشاں کسی دوسری کہکشاں کے ساتھ بغلگیر بھی ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک کہکشاں (NGC-2207) دیکھی ہے۔ یہ ایک عظیم الشان دوہری مرغولہ نما کہکشاں (Double Spiral Galaxy) لگتی ہے۔ لیکن اصل میں یہ دو کہکشائیں ہیں جو ایک دوسرے سے پہلو بہ پہلو ٹکرا رہی ہیں۔ یہ تصادم ابھی کئی کروڑ سال تک چلے گا۔ اور آخرکار یہ دونوں کہکشائیں ایک دوسرے میں مدغم (Merge) ہو جائیں گی … دونوں مل کر ایک ہو جائیں گی۔

اس قسم کے کہکشانی تصادم کائنات میں عام ہیں۔ ہماری اپنی کہکشاں،  ملکی وے بھی اس قسم کی صورتحال سے مبرّا نہیں۔ ہماری کہکشاں دراصل ایک "کہکشاں خور ہے ۔ اور اب تک کئی چھوٹی کہکشائیں ہضم کر چکی ہے۔ آج ہم ان ہضم شدہ کہکشاؤں کی باقیات کو،  ان کے بچے کھچے ستاروں کو چھوٹی سی لکیروں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ مگر ہم جس آنے والے تصادم کا تذکرہ کر رہے ہیں،  اس کے سامنے یہ تو کچھ بھی نہیں۔ ہم اپنی پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا کے ساتھ ٹکرانے جا رہے ہیں ۔ اور یہ ہماری اپنی کہکشاں کے لئے بہت بری خبر ہے۔ ہماری کہکشاں لگ بھگ 250,000 میل (ڈھائی لاکھ میل) فی گھنٹہ کی رفتار سے اینڈرومیڈا کی طرف بھاگی چلی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ پانچ سے چھ اَرب سال میں ہماری ملکی وے کہکشاں کا قصہ بھی تمام ہو چکا ہو گا۔ اینڈرومیڈا بھی بہت تیزی سے ہماری کہکشاں کے ساتھ ٹکرانے کے لئے سیدھی ہماری طرف بڑھتی آ رہی ہے۔ جیسے ہی ان دونوں کہکشاؤں میں تصادم ہو گا،  ویسے ہی یہ دونوں کہکشائیں مضطرب ہو کر ایک دوسرے سے قریب تر ہوتی جائیں گی۔ دونوں کہکشائیں اپنی اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہو جائیں گی۔

سائنس دانوں نے اس سارے عمل کو کمپیوٹر سمیولیشن کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں انہوں نے دیکھا کہ کہکشاں کے تصادم کے ساتھ ہی گیسی بادل اور غبار ہر طرف پھیل گیا۔ ثقلی قوت نے ستاروں کو انکے مداروں سے نکال کر دور خلائے بسیط میں پھینک دیا۔ یہ قیامت خیز نظارہ حشر کا سامان برپا کر دے گا۔ اس جنگ میں ہم صف اول میں موجود ہوں گے۔

آخرکار دونوں کہکشائیں ایک دوسرے سے آر پار ہو جائیں گی۔ اور پھر واپس آ کر ایک عظیم الجثہ کہکشاں کی شکل میں ابھریں گی۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اس سارے معرکے میں کوئی بھی ستارہ،  دوسرے ستارے سے نہیں ٹکرائے گا۔ ستارے اس وقت بھی ایک دوسرے سے بہت زیادہ دوری پر ہوں گے۔ ستاروں کے آپس میں ٹکرانے کا امکان صفر ہے۔ بہرحال،  گیس اور غبار کے بادل،  جو ستاروں کے درمیان ہوں گے،  وہ گرم ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ اور آخرکار جل اٹھیں گے۔ نئی کہکشاں میں ہر جگہ سفید گرم روشنی پھیل جائی گی۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ آسمان،  آگ سے روشن ہو گا۔ ملکی وے اور اینڈرومیڈا کے انضمام سے شاید "ملکومیڈا” کہلانے والی کہکشاں کا جنم ہو گا۔ اور یہ ایک نئی طرح کی کہکشاں کی مانند دکھائی دے گی۔ یہ نئی کہکشاں ایک بہت ہی بڑی،  بیضوی شکل کی کہکشاں ہو گی جو بغیر مرغولہ نما بازوؤں کے ہو گی۔ یہ تصادم ناگزیر ہے ۔ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نئی بننے والی کہکشاں میں ہماری جگہ کہاں ہو گی؟ اور یہ ہم پر کیا اثر ڈالے گی؟ اس کا جواب بڑا ہی بھیانک ہے۔ اُس دوران کہ جب یہ ٹکراؤ شروع ہو گا،  ہم شاید خلائے بسیط میں دور پھینک دیے  جائیں۔ یا پھر ہم اس نئی بننے والی کہکشاں کے مرکز میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ شاید وہ دن،  کرہ ارض کے لئے قیامت کا دن ہی ہو گا۔

کہکشائیں تو کائنات میں ایک دوسرے سے ٹکرانا جاری رکھیں گی۔ اور ان کے اس عمل کو کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ یہ کہکشانی تصادم تو آخرکار گزر ہی جاتے ہیں۔

مگر اس سے بھی بڑا ایک اور خطرہ کائنات میں موجود ہے۔ ایک ایسا خطرہ جسے کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔ یہ خطرہ آخرکار کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور دھکیل دے گا۔ کہکشائیں اتنا دور دھکیل دی جائیں گی کہ کائنات کا تانا بانا بکھر کر رہ جائے گا۔ کہکشائیں ستاروں،  نظام ہائے شمسی،  سیاروں،  اور چاندوں کا گھر ہوتی ہیں۔ ہر اہم چیز کہکشاں میں ہی واقع ہے۔ کہکشائیں کائنات کی جان ہیں۔ ہر وہ چیز جو ہم پر اثر انداز ہوتی ہے،  وہ کہکشاؤں میں ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ کہکشائیں نہایت ہی نازک ہوتی ہیں،  جنہیں تاریک مادّے نے باندھ رکھا ہے۔ اب سائنس دانوں نے ایک اور کائناتی قوت دریافت کر لی ہے۔ اس کا نام انہوں نے "تاریک توانائی” (Dark Energy) رکھا ہے۔

تاریک توانائی کا اثر،  تاریک مادّے کے بالکل الٹ ہے۔ یہ کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور دھکیل رہا ہے۔ تاریک توانائی،  جسے ہم نے بیسویں صدی کے آخری چند برسوں میں ہی دریافت کیا ہے،  کائنات میں ایک بڑی اثر و رسوخ رکھنے والی قوّت بن کر ابھری ہے۔ یہ بھی نہایت پراسرار ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کیوں ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ موجود ہے ! مگر کیوں ہے اور کیا کر رہی ہے ؟ ہمیں واقعی اس بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔

تاریک تو نائی واقعی میں نہایت عجیب و غریب ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خلاء میں اسپرنگ سے لگا دیئے ہوں،  جو ہر چیز کو ایک دوسرے سے دور پرے دھکیل رہے ہوں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مستقل بعید تاریک توانائی اور تاریک مادّے کے درمیان (کشش اور دفع کی) جنگ کا اختتام،  تاریک توانائی کے حق میں ہو گا۔ وہ جیت جائے گی۔ اور اس جیت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہوتی چلی جائیں گی۔ تاریک توانائی،  کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے اتنا زیادہ دور کر دے گی کہ ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں نظر ہی نہیں آئے گی۔ کہکشائیں ایک دوسرے سے روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے دور ہو رہی ہوں گی۔ باقی ماندہ کائنات ہماری نظروں سے اوجھل ہو جائے گی۔ یہ سب نہ آج ہو گا اور نہ ہی آنے والے میں ۔ البتہ یہ سب کچھ شاید آج سے دس کھرب سال بعد ہو گا۔ اور تب ہماری کہکشاں بالکل تنہا رہ جائے گی۔

فی الوقت تو کائنات میں کہکشاؤں کی نشوونما اور ان میں زندگی پروان چڑھنے والے عوامل بالکل درست طور پر،  بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ زمین پر زندگی کا ارتقاء ہوا۔ کیونکہ ہمارا چھوٹا سا نظام شمسی،  کہکشاں میں بالکل اس مقام پر ہے جو زندگی کو پروان چڑھانے کیلئے نہایت موزوں ہے۔ اگر ہم کہکشانی مرکز سے ذرا بھی قریب ہوتے،  تو شاید ہم پیدا ہی نہیں ہوئے ہوتے۔ کہکشانی مرکز میں انتہاء درجے کا شدید ماحول ہوتا ہے ۔ اور وہاں بہت زیادہ ریڈیائی لہریں سرگرم ہوتی ہیں۔ تاہم،  مرکز سے زیادہ دور ہونا بھی اتنا ہی برا ہوتا کہ جتنا مرکز سے قریب ہونا۔ مرکز سے بہت زیادہ دور وہ ستارے بھی اتنی کافی تعداد میں موجود نہ ہوتے جنہوں نے ہماری زندگی کے لئے درکار،  بنیادی عناصر تشکیل دیئے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہم اپنی کہکشاں کے ہم "گولڈی لاکس زون” (Goldilocks Zone) میں ہیں : نہ مرکز سے زیادہ دور نہ اس سے زیادہ قریب۔ بالکل مناسب فاصلے پر!

سائنس دانوں کو یقین ہے کہ اس کہکشانی گولڈی لاکس زون میں لاکھوں کروڑوں ستارے اور بھی موجود ہوں گے ۔ جو نہ صرف ہمارے سورج کی مانند ہوں گے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان میں ویسے ہی نظامِ شمسی موجود ہوں گے کہ جیسا ہمارا اپنا نظامِ شمسی ہے۔ لہٰذا،  یہ ہو سکتا ہے کہ وہاں بھی زندگی کے وجود میں آنے اور پنپنے کے امکانات بھی ویسے ہی ہوں جیسے ہمارے نظامِ شمسی میں،  ہماری زمین پر چلے آ رہے ہیں۔ ہماری کہکشاں جیسے گولڈی لاکس زون ،  یعنی زندگی کی ابتداء،  نشوونما اور ارتقاء کے لئے سازگار ماحول کے حامل علاقے جنہیں اصطلاحاً "قابلِ رہائش علاقے‘‘ بھی کہا جاتا ہے ،  دوسری کہکشاؤں میں بھی تو موجود ہو سکتے ہیں۔

کائنات بہت بڑی ہے ۔ اور ہم اس کائنات میں ہمیشہ نت نئی چیزیں دریافت کرتے ہی رہتے ہیں۔ ہر بار جب ہم کسی نئے راز کا پردہ فاش کرتے ہیں تو اس میں سے ایک نئی اور پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ پہیلی ہمارے سامنے سامنے آن دھمکتی ہے۔ ماہرین کے لئے یہ بات تو قطعی طور پر نہایت پُر جوش ہے کہ ملکی وے کہکشاں اور کائنات میں موجود دوسری کہکشاؤں سے متعلق ان کے سامنے ختم نہ ہونے والے سوالات ہیں ۔ اور نہ سلجھنے والی پہیلیوں کے انبار لگے ہیں۔

صرف ایک دہائی پہلے تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہماری کہکشاں اور دوسری کہکشاؤں کے مرکزوں میں بلیک ہولز موجود ہوں گے ۔ نہ ہم یہی سوچ سکتے تھے کہ ماہرین فلکیات،  تاریک توانائی اور تاریک مادّے کے وجود پر یقین کر لیں گے۔ جیسے جیسے ان کی تحقیق کا دائرہ کار بڑھ رہا ہے،  ان کی معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور وہ کارخانہ قدرت کے کام کرنے کا طریقہ بہتر سے بہتر انداز میں سمجھ رہے ہیں۔

ہمیں اس پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہم اس سنہرے دور میں،  اور ایک ایسے نایاب سیارے پر موجود ہیں جو ایک کہکشاں کے مضافات میں واقع ہے۔ جہاں رہتے ہوئے نہ صرف ہم کائنات کی تخلیق پر سوچ بچار کرسکتے ہیں،  بلکہ سوالات بھی پوچھ سکتے ہیں ۔ اور کائنات کی ابتداء اور زماں و مکان کے آغاز کو سمجھ سکتے ہیں۔

کہکشائیں جنم لے رہی ہیں۔ ان کا ارتقاء ہو رہا ہے۔ وہ نشوونما پا رہی ہیں ۔ اور ختم بھی ہو جائیں گی۔ کہکشاؤں کی اہمیت،  سائنس کی دنیا میں بہت زیادہ ہے۔ ہر ماہر فلکیات کی اپنی پسند کی ایک کہکشاں ہوتی ہے۔ بھنور کی شکل والی کہکشاں یا چھلے دار کہکشاں،  بیضوی کہکشاں یا گیند کی طرح گول نظر آنے والی کہکشاں۔ بہرحال ہماری تو سب سے پسندیدہ کہکشاں ہماری اپنی ملکی وے ہے،  جو ہمارا گھر ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ملکی وے نے زندگی کے پنپنے کے لئے ہمیں بالکل مناسب ماحول فراہم کیا ہے۔ ہمارا مقدر اسی کہکشاں سے وابستہ ہے ۔ اور ہمارا مستقبل بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

۴۔سورج اور دور دراز کے تارے

4. Extreme Stars

 

ستارے عظیم الجثہ اور انتہائی گرم کائناتی اجسام ہیں۔ پوری کائنات ان سے جگمگا رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کائنات کے اصل حکمراں یہ ہی ہیں۔ ہمارا نصیب،  ان کے نصیب سے جڑا ہوا ہے۔ کائنات میں موجود ہر شئے کی طرح ان کی پیدائش اور موت بھی،  دونوں ہی نہایت ہولناک اور ہنگامہ خیز ہوتی ہیں۔ ان کی خاک،  کائنات میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وہی خاک ہے جس سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ ہمارے جسم کا ایک ایک جوہر،  ان ہی ستاروں کے آگ اگلتے قلب میں بنا ہے۔ کائنات ان ہی کے دم قدم سے چل رہی ہے۔ زندگی کو انہوں نے ہی پروان چڑھایا ہے۔

رات کا آسمان،  ستاروں کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو لگ بھگ تین ہزار تک کی تعداد میں ستارے دیکھ سکتے ہیں۔ مگر یہ تعداد تو بس سمندر میں سے ایک قطرہ ہی ہے۔ صرف ہماری کہکشاں ملکی وے ہی میں ایک کھرب سے زائد ستارے موجود ہیں ۔ اور قابلِ مشاہدہ کائنات میں اندازاً دو کھرب (دو سو اَرب) سے بھی زیادہ کہکشائیں ہیں۔ ستاروں کی تعداد،  زمین پر موجود ریت کے ذرّوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ ہر ستارہ طاقت و توانائی کا عظیم الشان منبع ہوتا ہے ۔ اور ہم سمیت کائنات کی ہر چیز کا بنیادی خام مال اسی کے قلب میں تیار ہوتا ہے۔ یہ ہم سے نہایت فاصلے پر واقع ہیں۔ مگر ایک ستارہ ہم سے بہت نزدیک بھی ہے ۔ اور ہمیں اب تک جو کچھ دوسرے ستاروں کے بارے میں معلوم ہوا ہے،  وہ اسی پڑوسی ستارے کی بدولت ہے۔ جی ہاں ! یہ ہمارا سورج ہے … ہر روز طلوع اور غروب ہونے والا سورج۔

سورج کی دھوپ جو ہمیں روشنی اور حرارت فراہم کرتی ہے،  کچھ اور نہیں بلکہ ستارے ہی کی روشنی ہے۔ ہمارا سورج بھی دوسرے ستاروں کی طرح ایک ستارہ ہے۔ زمین سے دیکھنے پر سورج ایک روشن گیند کی مانند لگتا ہے جس کی روشنی،  آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ کائنات کا ایک طاقتور ترین جسم ہمارا پڑوسی ہے۔ یہ انتہائی گرم گیس کی ایک گیند ہے جو ہمارے نظام شمسی کو 4۔ 6  ارب سال سے روشن کئے ہوئے ہے۔ زندگی کا سارا دار و مدار اسی پر ہے۔ سورج ہم سے تقریباً ٩ کروڑ میل کی دوری پر ہے۔ اس کا مطلب،  درحقیقت بہت ہی زیادہ فاصلہ ہے۔

دس لاکھ سے بھی زیادہ زمینیں سورج میں سما سکتی ہیں۔ اس کا محیط ۲۷  لاکھ میل پر پھیلا ہوا ہے۔ اس عظیم الشان جسامت کے باوجود،  ہمارا سورج کائنات کے دوسرے ستاروں کے مقابلے ایک ننھا سا ستارہ ہے۔ اِیٹا کرینی (ETA Crainee) ہمارے سورج سے پچاس لاکھ گنا بڑا ہے۔ ابط الجوزا (Betelgeuse)،  ایٹا کرینی سے بھی ۳۰۰  گنا بڑا ہے۔ ۔ اگر یہ سورج کی جگہ ہمارے نظام شمسی کا حصّہ ہوتا،  تو یہ مشتری کے مدار سے بھی آگے نکل جاتا۔ یو وائی اسکوٹی (UY Scuti) اب تک کے دریافت شدہ ستاروں میں سب سے بڑا ہے۔ یہ ہمارے سورج سے لگ بھگ پانچ ارب گنا بڑا ہے !

ستاروں کی روشنی ہمیں مختلف رنگوں میں نظر آتی ہے۔ کچھ ستارے پیلے،  کچھ نیلے اور کچھ لال رنگ کے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ ستارے اکلوتے ہوتے ہیں،  کچھ ثنائی نظام میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ کہکشاؤں میں ارب ہا ارب ستارے ہوتے ہیں۔ ہر ستارہ اپنی مثال آپ ہے۔ مگر ان سب کی زندگی ایک ہی طرح سے شروع ہوتی ہے۔ گیس اور گرد کے غبار سحابئے (Nebula) کہلاتے ہیں۔ کئی ارب میل پر پھیلے ہوئے،  خلاء میں تیرتے یہ حسین گیسی بادل نہایت خوبصورت لگتے ہیں۔ ہر سحابیہ،  ستاروں کا زچہ خانہ ہوتا ہے جہاں لاکھوں ستارے پیدا ہوتے ہیں۔ مگر ان کے پیدا ہونے کی اصل جگہ تو ہم سے چھپی ہوتی ہے۔

سحابیوں کے کچھ حصے اتنے خوبصورت اور روشن نہیں ہوتے کہ ہم انہیں دیکھ سکیں۔ وہ اندھیرے میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ وہاں گیس اور گرد کے کثیف بادل چھائے ہوتے ہیں … اور یہی ستاروں کی جائے پیدائش ہوتی ہے۔ گرد و غبار کے یہ بادل اتنے کثیف ہوتے ہیں کہ عام دوربین بھی ان کے اندر جھانک نہیں سکتی۔

ستاروں سے زیادہ کوئی چیز ہمارے لئے اہم نہیں۔ مگر عرصہ دراز تک ان کی پیدائش ہمارے لئے ایک معما بنی رہی۔ ہم ان کی پیدائش کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے تھے ۔ اور نہ ہم ان کی پیدائش کی پہلی جھلک دیکھ سکتے تھے۔

۲۰۰۴ء میں جب ناسا نے اسپٹزر خلائی دوربین (Spitzer Space Telescope) مدار میں چھوڑی،  تو اس راز سے بھی پردہ اٹھ گیا۔ اس خلائی دوربین نے کائناتی ارتقاء کے سربستہ رازوں کو ہم پر آشکار کرنا شروع کر دیا۔ اسپٹزر ایک انفرا ریڈ دوربین ہے جو گرمی (حرارت) کو دیکھ سکتی ہے۔ یہ مرئی روشنی کے بجائے زیریں سرخ شعاعیں (انفراریڈ) سے مدد لیتی ہے ۔ جو دراصل گرمی کی نمائندہ لہریں ہیں۔ حرارت،  سحابئے کے گہرے بادلوں میں سے گزرسکتی ہے،  جو اسپٹزر کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ ستاروں کی پیدائش ہوتے ہوئے دیکھ سکے۔ سائنس دانوں نے ستاروں کے پیدا ہونے کی نہایت شاندار تصاویر حاصل کر لی ہیں۔ ان تصاویر میں انہوں نے ہائیڈروجن کے گیسی بادلوں کو ستاروں کا روپ دھارتے دیکھ لیا ہے۔ کائنات کہ وہ حصّے جو ہم سے چھپے ہوئے تھے،  اب نہایت روشن ہو گئے تھے۔ اب ہم ستاروں کی پیدائش کے بالکل ابتدائی لمحات کو دیکھ سکتے ہیں۔

کسی بھی ستارے کو بننے کے لئے تین بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے : ہائیڈروجن،  قوّت ثقل اور وقت۔ قوّت ثقل گرد و غبار اور گیس کے بادلوں کو کھینچ کر ایک دیو قامت،  بھنور جیسی شکل والی (قیف نما) چوٹی میں ڈھالتی ہے ۔ اور مادّے کو ایک جگہ جمع کرتی ہے۔ جب مادّہ ایک جمع ہونے لگتا ہے تو وہ اپنے ہی دباؤ سے اور بھی دبنا شروع کر دیتا ہے۔ اور یہی دباؤ مزید حرارت پیدا کرنے کا موجب بھی بنتا ہے۔ یہ سائنس کا ایک سادہ اصول ہے کہ آپ جب کسی چیز کو دباتے ہیں تو اس کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ لاکھوں سال تک گیس کے بادلوں کی کثافت بڑھتی رہتی ہے ۔ اور یہ ایک دیو ہیکل،  گھومتی ہوئی ٹکیہ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس ٹکیہ کی جسامت ہمارے نظام شمسی سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ اس کے مرکز میں قوّت ثقل،  گیس کو زبردست طاقت کے ساتھ بھینچتی ہے جس سے اس کا قلب اور بھی زیادہ کثیف اور گرم ہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ دباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے،  یہاں تک کہ گیس کے فوارے ایک دھماکے کی شکل میں مرکز سے پھوٹ پڑتے ہیں۔ یہ بے حد ڈراؤنا اور ہولناک نظارہ ہوتا ہے۔

یہ فوارے مادّے کو کئی نوری سال دور تک پھیلا دیتے ہیں۔ کوئی چیز مادّے کو نہایت تیزی سے،  ناقابل تصور فاصلے تک پھیلا دیتی ہے۔ قوّت ثقل دباؤ برقرار رکھتے ہوئے،  گیس اور گرد و غبار کے بادلوں کو ہڑپ کرتی رہتی ہے۔ یہ بادل ایک دوسرے سے ٹکرا کر پستے رہتے ہیں۔ اگلے پانچ لاکھ سال میں اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل سے گزرتا ہوا ستارہ چھوٹا،  روشن اور گرم ہو جاتا ہے۔ اس کے مرکز میں درجہ حرارت 1۔ 5 کروڑ ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ اس درجہ حرارت پر گیسوں کے ایٹم ایک دوسرے میں ضم ہونے لگتے ہیں اور یوں گداخت (فیوژن) کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں زبردست توانائی پیدا ہوتی ہے ۔ اور یہی ستارے کی پیدائش کی گھڑی بھی ہوتی ہے۔ پیدا ہونے کے بعد اب یہ ستارہ کروڑوں،  اربوں بلکہ کھربوں سال تک یونہی چمکتا رہے گا۔

ستارے زبردست حرارت اور روشنی پیدا کرتے ہیں۔ مگر اس کے لئے انہیں بہت زیادہ ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ ستارے کونسا ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کا سب سے بڑا معما یہی تھا ستارے اپنا ایندھن کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔ تب تک ہمارے پاس کائنات کو جاننے کے لئے معلومات کی قلت تھی۔ ستاروں کے راز سمجھنے کے لئے ہمیں بالکل نئے طریقوں سے سوچنے کی ضرورت تھی۔ ہمیں اس چیز کی تلاش تھی جو ستاروں کو ارب ہا ارب سال تک روشن رکھ سکے۔ آخرکار خدا داد صلاحیتوں کے حامل،  البرٹ آئن اسٹائن نے یہ پہیلی حل کر ہی لی۔ اس کے نظریہ اضافیت نے ثابت کر دیا کہ ستارے،  ایٹموں کے اندر قید توانائی کو اپنا ایندھن بناتے ہیں۔ ستاروں کا راز آئن اسٹائن کی مشہور ترین مساوات E=Mc2 میں پنہاں تھا۔

دیکھا جائے تو ایک طرح سے ہمارا جسم بھی مرتکز توانائی پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ توانائی،  ایٹموں کی شکل میں ہوتی ہے اور انہی ایٹموں نے ہماری کائنات تشکیل دی ہے۔ آئن اسٹائن نے ثابت کر دیا کہ دو ایٹم آپس میں مل کر ایک نیا ایٹم بناتے ہیں اور اس کے نتیجے میں زبردست توانائی خارج ہوتی ہے۔ یہی عمل "نیوکلیائی گداخت” (نیوکلیئر فیوژن) کہلاتا ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو ستاروں کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔

انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ ایٹموں کے ذیلی ذرّات کی طبیعی خصوصیات (physical properties) کسی ستارے کی نوعیت اور ساخت کا تعین کرتی ہیں۔ آئن اسٹائن کے نظریے ئ سے ہمیں پتا چل چکا ہے کہ ایٹموں میں چھپی توانائی کو باہر نکالا جا سکتا ہے۔ سائنس دانوں نے تجربہ گاہوں میں ستاروں کی نقالی شروع کر دی ہے۔ انگلستان میں آکسفورڈ کے قریب ایک تجربہ گاہ میں ایک مشین نصب ہے جس کا نام "ٹوکامیک” (Tokamak) ہے۔ (ٹوکامیک دراصل وہ ٹیکنالوجی ہے جو سابق سوویت یونین میں ایجاد کی گئی تھی اور جس کا مقصد،  نیوکلیائی گداخت کو تجربہ گاہ میں نقل کرنا تھا۔ آج بھی گداخت پر مبنی ایٹمی بجلی گھر بنانے کی جتنی بھی کوششیں ہو رہی ہیں،  ان میں سے بیشتر کا انحصار اسی ٹوکامیک ٹیکنالوجی ہی پر ہے۔ مترجم) وہاں سائنس دان اینڈی کرک (Andy Kirk) اور ان کی ٹیم روزانہ عمل گداخت کے ذریعہ ستاروں کے توانائی پیدا کرنے کا طریقہ کار سمجھتے ہیں۔ یہ مشین ایک بہت ہی بڑی سی مقناطیسی بوتل ہے۔ ایک ایسا قید خانہ ہے جو بہت ہی گرم پلازما کو اپنے اندر قید رکھتا ہے۔ سائنس دان اس مشین میں ستاروں کے اندر کا ماحول نہایت محدود پیمانے پر پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

ٹوکامیک کے اندر ہائیڈروجن ایٹموں کے مرکزے ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں۔ ان ایٹمی مرکزوں کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کے لئے ان کا درجہ حرارت تیس کروڑ ڈگری تک بڑھانا پڑتا ہے۔ اس درجہ حرارت پر توانائی سے بھرپور ہائیڈروجن کے مرکزے،  نہایت تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ اب وہ ایک دوسرے میں مدغم ہونے سے خود کو روک نہیں سکتے۔ حرارت اصل میں حرکت ہی کا دوسرا نام ہے۔ ان ذروں کی حرکت اتنی تیز اور توانا ہوتی ہے کہ ہائیڈروجن مرکزوں کے درمیان موجود قوتِ دفع (ایک دوسرے کو دُور دھکیلنے والی قوت) پر غالب آ جاتی ہے۔ اگر ہر چیز ٹھیک ٹھیک کام کرے تو نتیجہ ایک بہترین پاور پلانٹ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ ایک ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ٹکراتے ہوئے ہائیڈروجن کے مرکزے،  گداخت (Fusion) کا عمل شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے ایک نئے عنصر،  یعنی ہیلیم کا ایٹمی مرکزہ  تشکیل پاتا ہے ۔ اور تھوڑی سی خالص توانائی بھی پیدا ہوتی ہے۔ ہائیڈروجن کے خالص مرکزوں کی مجموعی کمیت،  ان کے آپس میں مل کر وجود میں آنے والے ہیلیم مرکزے کی کمیت سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن کمیت میں یہ فرق کہاں سے آیا؟ دراصل یہی وہ معمولی سی کمیت ہے جس نے توانائی کو جنم دیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر،  یہی وہ مادّہ ہے جو توانائی میں تبدیل ہوا ہے : آئن اسٹائن کی مساوات کے عین مطابق!

ٹوکامیک اس عمل گداخت کو صرف سیکنڈ کے کچھ حصّے تک ہی جاری رکھ پاتا ہے۔ مگر ستارے کے اندر یہی عمل اربوں سال تک جاری و ساری رہتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ستارے کا عظیم الشان حجم اور زبردست کمیت،  اس عمل کو مسلسل جاری رکھنے میں انتہائی مددگار ہوتے ہیں۔ قوّت ثقل کی مادّے کو اتنے بڑے پیمانے پر جمع کرنے کی صلاحیت ہی کی وجہ سے ستارے اتنے عظیم الجثہ ہوتے ہیں۔ عمل گداخت شروع کرنے کے لئے اتنی ثقلی قوّت درکار ہوتی ہے جو مادّے کو زبردست طاقت سے دبا سکے،  بھینچ سکے،  تاکہ یہ عمل شروع ہو سکے۔

گداخت کا عمل ہی ستاروں کے چمکنے دمکنے کا راز ہے۔ ستاروں کے قلب میں جاری عمل گداخت سے ہر ایک سیکنڈ کے دوران اتنی زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے جتنی ایک ارب ہائیڈروجن بموں کے بیک وقت پھٹ پڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ ہر ستارہ ایک عظیم الشان ہائیڈروجن بم کی طرح ہوتا ہے۔ اب یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ پھر وہ ستارہ منتشر کیوں نہیں ہو جاتا؟ وہ دھماکے سے پھٹ کر خلاء میں بکھر کیوں نہیں جاتا؟ اس کی وجہ ہے قوّت ثقل،  جو ستارے کی بیرونی پرت کو مسلسل دباتی رہتی ہے۔ ستارے کی پوری زندگی قوّت ثقل اور نیوکلیائی قوت کی ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی میں گزرتی ہے۔ ان دونوں قوتوں ہر وقت ایک دوسرے کو للکارتی رہتی ہیں۔ قوّت ثقل ستارے کو دبا کر پچکانا چاہتی ہے جبکہ نیوکلیائی قوت اسے دھماکے سے اس کے پرخچے اُڑا دینے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے۔ مگر ان دونوں قوتوں کے مابین اس قدر توازن ہوتا ہے کہ ستارہ اربوں سال تک یونہی قائم و دائم اور روشن رہتا ہے۔ قوتوں کے مابین برتری قائم کرنے کی یہ جنگ،  ستارے کی تمام زندگی چلتی رہتی ہے۔ جوں جوں جنگ آگے بڑھتی ہے،  ستارہ گرمی اور روشنی کو باہر نکالنے کے لئے بیتاب ہوتا جاتا ہے۔

روشنی،  یعنی توانائی کا ہر ذرّہ (فوٹون) باہر نکلنے کے لئے ایک عظیم سفر طے کرتا ہے۔ روشنی کی رفتار لگ بھگ ٦٧ کروڑ میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں زمین کے گرد سات چکر مکمل کرسکتی ہے۔ کائنات میں کوئی بھی چیز اس رفتار کو مات نہیں دے سکتی۔ روشنی کی اس رفتار کے باوجود،  ستارے ہم سے اس قدر دور ہیں کہ ان سے چلنے والی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں سینکڑوں،  ہزاروں،  لاکھوں،  کروڑوں،  بلکہ اربوں سال تک لگ جاتے ہیں۔ لہٰذا جب ہبل دوربین،  خلاء کے دور دراز گوشوں میں جھانکتی ہے تو وہ دراصل اسی روشنی کو دیکھ پاتی ہے جو کروڑوں اربوں سال پرانی ہوتی ہے۔ ایٹا کرینی ستارے کی وہ روشنی جو ہم تک آج پہنچ رہی ہے،  وہ اس ستارے سے تب نکلی ہو گی جب ہمارے آبا و اجداد نے ٨ ہزار سال قبل،  یہاں زمین پر،  پہلی مرتبہ کاشتکاری شروع کی تھی۔ ابط الجوزا (Betelgeuse) ستارے کی وہ روشنی جو آج کی تاریخ میں ہمیں موصول ہو رہی ہے،  وہ اس زمانے میں وہاں سے روانہ ہوئی تھی جب آج سے تقریباً پانچ سو سال پہلے کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ ہمارے آنگن کا ستارہ،  ہمارا سورج ہم سے نزدیک ترین ہے۔ لیکن اس کی روشنی بھی ہم تک پہنچنے میں آٹھ منٹ اور بیس سیکنڈ لگا دیتی ہے … یہ کائنات واقعی بہت،  بہت بڑی ہے !

مگر اس سے پہلے کہ روشنی اپنا سفر خلاء میں شروع کرے،  وہ ہزاروں سال کا سفر کر چکی ہوتی ہے۔ جب سورج اپنے قلب میں ہائیڈروجن مرکزوں کو ایک دوسرے میں ضم کر کے ہیلیم بناتا ہے،  تو ساتھ میں فوٹون بھی پیدا ہوتے ہیں۔ فوٹون،  روشنی کا ذرّہ ہوتے ہیں۔ روشنی کی کرن کو سورج کی سطح تک پہنچنے کے لئے ابھی بہت سا سفر کرنا ہوتا ہے۔ پورا سورج ہی اس کے راستے میں حائل ہوتا ہے۔ جیسے ہی فوٹون پیدا ہوتے ہیں،  ابھی وہ زیادہ دور نہیں جاتے کہ ایٹمی مرکزے کے کسی دوسرے حصے سے ٹکرا جاتے ہیں : کبھی پروٹون سے تو کبھی نیوٹرون سے۔ یہ اسے جذب کر کے کسی دوسری طرف پھینک دیتے ہیں۔ یہ عمل کئی مرتبہ دوہرایا جاتا ہے۔ گویا فوٹون بے چارے،  سورج کے اندر مارے مارے پھرتے ہیں۔

پھرتے ہیں میر خوار،  کوئی پوچھتا نہیں !

بہرحال! انہیں اپنی آزادی کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ سورج کی سطح تک آنا،  فوٹون کے لئے انتہائی دقّت طلب سفر ہوتا ہے۔ انہیں سورج سے فرار حاصل کرنے کے لئے ارب ہا ارب مرتبہ گیسی ایٹموں کے مرکزوں سے ٹکرانا،  یعنی اپنا سر پھوڑنا پڑتا ہے۔ اس پورے چکر میں جو بات سب سے اہم ہے،  وہ یہ ہے کہ فوٹون کو سورج کی سطح پر آنے میں ہزار ہا ہزار سال لگ جاتے ہیں۔ مگر جیسے ہی وہ سورج کی سطح تک پہنچ کر وہاں سے فرار ہوتا ہے،  تو اسے ہم تک پہنچنے میں صرف آٹھ منٹ اور چند سیکنڈ لگتے ہیں۔

فوٹون،  روشنی اور حرارت کا منبع ہوتے ہیں مگر یہ اپنے اندر نہایت ہلاکت انگیز چیز پوشیدہ رکھتے ہیں،  جو "شمسی ہوا” (Solar Wind) کا باعث بنتی ہے۔ جیسے ہی فوٹون،  سورج کی سطح تک پہنچتے ہیں وہ اسے شدید گرم کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً سورج کی بالائی سطح تیزی سے گردش کرنے لگتی ہے جس کی وجہ سے زبردست کھلبلی مچ جاتی ہے ۔ اور یوں شدید صدماتی لہریں (Shock Waves) خارج ہونے لگتی ہیں۔ یہ اس قدر ہنگامہ خیز ہوتی ہیں کہ ہم انہیں سن بھی سکتے ہیں۔ سائنس دانوں نے سوہو (SOHO) نامی مصنوعی سیارچے کی مدد سے مدار میں ان آوازوں کو سنا ہے۔

گیس کے تیز رفتار ذرّات،  طاقتور مقناطیسی میدان بناتے ہیں۔ سورج کے گھومنے کے ساتھ ساتھ،  یہ مقناطیسی میدان بھی سورج کی سطح سے اور آپس میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے حرکت کرتے ہیں ۔ اور زبردست جھماکے کی صورت میں پھٹ کر خلاء میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ عظیم الجثہ مقناطیسی میدان،  حلقوں کی شکل میں پھیلے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اس قدر بڑے ہوتے ہیں کہ زمین کو بھی پار کر جاتے ہیں۔ یہ نہایت شاندار مگر مہلک ہوتے ہیں ۔ اور برقی ذرّات کو خلاء میں دور دور تک پھینک دیتے ہیں۔ شمسی ہوائیں،  خلائی جہازوں اور مصنوعی سیارچوں کو خراب کرسکتی ہیں۔ بلکہ خلاء نوردوں کی زندگی کو ان سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے کہ کس طرح مقناطیسی حلقے،  شمسی ہواؤں کا باعث بنتے ہیں،  کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کیلٹیک) میں سائنسدانوں کی ٹیم نے ایک تجربہ گاہ میں ستارے کی مصنوعی سطح بنا کر دیکھا۔ ان کے لئے تجربہ گاہ میں ایسا کرنا بہت ہی ہیجان انگیز تھا،  کیونکہ نہ تو وہ سورج کی سطح پر پہنچ سکتے تھے اور نہ ہی کوئی کھوجی روبوٹ وہاں جا سکتا تھا۔ لیکن تجربہ گاہ میں وہ یہ کوشش ضرور کرسکتے تھے کہ ستارے کی سطح پر ہوتا کیا ہے۔ اس کام کے لئے انہوں نے ہوا سے خالی ایک چیمبر تیار کیا جو خلاء کے ماحول کی نمائندگی کر رہا تھا۔ مقناطیسی حلقے بنانے کے لئے نہایت طاقتور برقی رَو لی گئی۔ تجربہ گاہ میں بنائے ہوئے پلازما کے حلقوں اور سورج میں موجود پلازما کے حلقوں میں صرف حجم ہی کا فرق تھا۔ اس تجربے کے دوران جب مقناطیسی حلقے آپس میں ٹکرائے تو انہوں زبردست توانائی کے جھکڑ پیدا کئے۔ جب عظیم الجثہ مقناطیسی حلقے آپس میں سورج کی سطح پر ٹکراتے ہیں تو زبردست توانائی خارج ہوتی ہے اور درجہ حرارت دس ہزار ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ زبردست حرارت کروڑوں ٹن ذرّات خلاء میں بکھیر دیتی ہے۔ جتنا بڑا ستارہ ہو گا،  اس کی شمسی ہوا بھی اتنی ہی زیادہ مہلک ہو گی۔ اگر ہم ایٹا کرینی کے گرد مدار میں اتنے ہی فاصلے سے چکر لگا رہے ہوتے کہ جتنا فاصلہ ہماری زمین کا سورج سے ہے،  تو وہ زمین کو جہنم بنا دیتا۔ اس کی خارج کردہ توانائی،  ہماری زمین کی فضا کو لمحے بھر میں ختم کر دیتی۔ سمندر ابل پڑتے،  زمین پگھل جاتی۔

ستاروں کے کام کرنے کا طریقہ سمجھ لینا ہمیں اس تباہ کن طاقت سے بچنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ مگر ہم اپنے آپ کو بچانے کے لئے اس وقت کچھ نہیں کرسکتے ستارے اپنی زندگی پوری کرتے ہوئے،  موت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں۔ آخری لمحات میں وہ اپنے اردگرد کی ہر چیز فنا کر دیتے ہیں۔ پیدا ہونے کے ساتھ ہی ستارہ موت کی منزل کی جانب رواں دواں ہو جاتا ہے۔ جب ایک ستارہ اپنا ایندھن پھونکنے کے بعد اپنی موت کے مرحلے میں،  اپنے عالمِ نزع میں داخل ہوتا ہے تو اس وقت تک قوّت ثقل،  نیوکلیائی قوت پر غلبہ پاچکی ہوتی ہے۔ ہمارے سورج کی زندگی کے مدارج بھی دوسرے ستاروں کی طرح کچھ خاص مختلف نہیں۔ ہر گزرتے لمحے وہ ساٹھ کروڑ ٹن ہائیڈروجن کو بطور ایندھن اپنے قلب میں استعمال کر رہا ہے۔ (نوٹ: ناسا کی ویب سائٹ کے مطابق،  سورج ہر سیکنڈ میں پچاس لاکھ ٹن ہائیڈروجن استعمال کر رہا ہے۔ جبکہ "یونیورس ٹوڈے‘‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق بھی سورج ہر سیکنڈ ساٹھ کروڑ ٹن ہائیڈروجن استعمال کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں "ناسا کوسمی کوپیا” ویب سائٹ کے مطابق بھی سورج ساٹھ کروڑ ٹن ہائیڈروجن فی سیکنڈ استعمال کر رہا ہے۔ مترجم) اس شرح استعمال کے حساب سے سورج اپنے اندر موجود تمام ہائیڈروجن کو آئندہ سات ارب سال تک ختم کر دے گا۔

جیسے ہی ہائیڈروجن ختم ہو گی،  گداخت کا عمل بھی سست پڑ جائے گا۔ قوّت ثقل غالب آ جائے گی اور مزید مادّے کو قلب (مرکز) کی جانب بھینچے گی۔ نیوکلیائی طاقت بھی زور آزمائی شروع کر دے گی جس سے ستارے کی بیرونی پرت گرم ہو جائے گی۔ اور کیونکہ حرارت چیزوں کو پھیلاتی ہے،  لہٰذا سورج بھی پھولنا شروع ہو جائے گا۔ آج سورج کا قطر لگ بھگ دس لاکھ میل ہے۔ لیکن تب اس کا قطر دس کروڑ میل ہو چکا ہو گا۔ ہمارا سورج "سرخ دیو”(Red Giant) بن چکا ہو گا۔

سات ارب سال بعد سورج کے طلوع ہونے کا منظر تصور میں لائیے۔ وہ آج کی طرح نظر آنے والا ہنستا مسکراتا،  ننھا پیلا سورج نہیں ہو گا۔ بلکہ وہ سوجا ہوا،  پھولا ہوا،  لال رنگ کا،  ہمارے افق پر طلوع ہوتا ہواسورج ہو گا۔ اور جب سورج مکمل طلوع ہو جائے گا تو زمین،  دہکتی ہوئی بھٹی بن جائے گی۔ اس کا درجہ حرارت ایک ہزار ڈگری تک جا پہنچے گا۔ سمندر ابل جائیں گے،  پہاڑ پگھل جائیں،  اور روز محشر بپا ہو گا۔ اس کے بعد یہ پھولا ہوا سورج،  زمین کو نگل لے گا۔ سرخ دیو خود بھی تباہ ہو رہا ہو گا۔ اس کا قلب غیر متوازن اور ناہموار ہو رہا ہو گا۔ ہائیڈروجن ختم ہو جانے کے بعد،  سورج نے ہیلیم میں گداخت سے کاربن بنانا شروع کر دیا ہو گا۔

سورج اب اپنے آپ کو اندر سے باہر کی طرف تباہ کر رہا ہو گا،  جس سے توانائی کے عظیم جھکڑ نکل رہے ہوں گے۔ توانائی کے یہ عظیم جھکڑ،  ستارے کی بیرونی پرت کو دور اڑا کر پھینک دیں گے۔ آہستہ آہستہ سورج ختم ہونا شروع ہو جائے گا۔ اور آخرکار اس کی موت ہو جائے گی۔ سرخ دیو اب ایک سفید بونا بن جائے گا۔ جب ستارہ،  سفید بونا بننے کے مرحلے پر پہنچتا ہے تو گداخت کا عمل رک چکا ہوتا ہے۔ ستارے کا قلب آخرکار خاموش ہو جاتا ہے۔

ہمارا سورج بھی ایک سفید بونا بن کر ہی اپنی زندگی پوری کرے گا۔ اگرچہ سفید بونے کی حیثیت سے اس کا حجم ہماری زمین سے زیادہ نہ ہو گا،  لیکن پھر بھی وہ زمین سے لاکھوں گنا زیادہ،  ناقابل تصور حد تک کثیف ہو گا۔ اگر آپ چینی کے کیوب (شکر کی چھوٹی ڈلی) جتنا ٹکڑا وہاں سے اٹھا لائیں اور زمین پر ڈال دیں،  تو وہ اپنی زبردست کثافت کی وجہ سے زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ سفید بونے کے مرکز میں کاربن کی ایک عظیم و جسیم قلم ہو گی،  جو ہزاروں میلوں پر پھیلا ہوا،  کونیاتی ہیرا ہو گا۔ یہ خیال ہی نہایت افسوسناک ہے کہ سورج ٹھنڈا،  تاریک اور راکھ کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ بچے گا تو بس ایک جناتی حجم والا ہیرا،  وہ بھی اس کے قلب میں۔ ذرا تصور کیجئے کہ وہ ایک ہیرا اتنے قیراط کا ہو گا کہ جس کے سامنے کھرب ہا کھرب قیراط بھی نہایت ہی حقیرسی اکائی محسوس ہوں گے۔ مگر ستارے ہیرے سے بھی زیادہ قیمتی چیزیں بنا سکتے ہیں۔

سورج سے بڑے ستاروں کی موت اس قدر سکون سے نہیں ہوتی۔ وہ مرتے ہوئے بھی زندگی کے بنیادی اجزاء بنا جاتے ہیں۔ بڑے ستاروں کا عرصہ حیات کم ہوتا ہے۔ وہ زیادہ روشن ہوتے ہیں اور اپنی زندگی جلدی جلدی گزارتے ہوئے،  موت کی دہلیز پر قدم رکھ دیتے ہیں۔ مگر ان کی بے وقت کی موت ہی کائنات میں زندگی کو دوام بخشتی ہے۔ بڑے ستاروں کی موت ہی زندگی پنپنے کے لئے بنیادی خام مال تیار کرتی ہے۔ ان کی موت ہی سے زندگی کا بیج تیار ہو پاتا ہے۔

لگ بھگ چھ سو نوری سال دور،  ابط الجوزا نامی ستارہ اپنی زندگی پوری کرنے کے قریب ہے۔ یہ ہمارے سورج سے بہت کم عمر ہے۔ اس کی عمر محض کروڑوں برسوں میں ہے۔ عمل گداخت اس کے قلب میں بہت تیزی سے جاری ہے۔ ابط الجوزا،  ہمارے سورج سے بالکل مختلف،  ایک الگ قسم کا ستارہ ہے۔ یہ ایک بڑا سرخ دیو (Red Supergiant) ہے۔ اس کے بڑے سرخ دیو ہونے کی وجہ اس کی بہت زیادہ کمیت ہے،  جو سورج کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ ہے۔ اس کے مرکز میں جاری عمل گداخت،  سورج کے قلب سے ہونے والے عمل سے خاصا مختلف ہے۔ عموماً بڑے ستارے انتہائی درجہ کا دباؤ اور حرارت پیدا کرتے ہیں۔ ابط الجوزا کی قوّت ثقل اس قدر شدید ہے کہ وہ گداخت کے عمل سے کاربن سے بھی بھاری عناصر تخلیق کر دیتی ہے۔ ستارے کا قلب ایک طرح سے بھاری عناصر بنانے کا کارخانہ ہوتا ہے ۔ اور اسی وجہ سے اس کی موت بھی ہوتی ہے۔ ستارے کا قلب جب لوہے کا عنصر بنانے کے قریب پہنچتا ہے،  تو بس وہی اس کی موت کا پروانہ ثابت ہوتا ہے۔

سائنس فکشن فلموں میں ستاروں کو تباہ کرنے کے لئے بہت ہی عجیب و غریب مشینوں کے خیالات ملتے ہیں۔ لیکن درحقیقت ستارے کی موت تو لوہے کا عنصر تشکیل دینے ہی سے ہوتی ہے۔ کسی بھی ستارے کے لئے لوہا سب سے خطرناک عنصر ہوتا ہے۔ وہ ستارے کے لئے زہر قاتل کا کام کرتا ہے۔ (نیوکلیائی گداخت کے ذریعے ) لوہے کا عنصر بنتے دوران زیادہ توانائی جذب کر لیتا ہے۔ لہٰذا اس لمحے کہ جب کوئی ستارہ،  لوہا بنانا شروع کرتا ہے تو اس کی زندگی کے لمحے گنے جا چکے ہوتے ہیں۔

ستارہ پوری کوشش کرتا ہے کے کسی طرح لوہے کے مرکزوں میں بھی عمل گداخت (فیوژن) شروع ہو جائے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اور لوہے کی گیند،  ستارے کی توانائی جذب کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہی وہ توانائی ہوتی ہے جس نے ستارے کا وجود برقرار رکھنے کے لئے سہارا دیا ہوتا ہے۔ ستارے کے قلب میں جیسے ہی لوہا بننا شروع ہوتا ہے،  ویسے ہی ستارے کی زندگی کا پروانہ اجل لکھ دیا جاتا ہے۔ قوّت ثقل اور نیوکلیائی قوت کے مابین جنگ ختم ہو جاتی ہے۔ لوہے کی تشکیل کے ساتھ ہی نیوکلیائی طاقت اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ قوّت ثقل کی جیت ہو جاتی ہے۔ ستارے کا قلب تیزی سے منہدم ہوتا ہے … اور ستارے کی بیرونی پرت،  پوری رفتار سے اس پر آن گرتی ہے۔ ستارہ ایک زبردست دھماکے سے پھٹ جاتا ہے۔ سائنس دانوں نے اس دھماکے کا نام "سپرنووا” رکھا ہے۔ صرف چند سیکنڈوں میں سپرنووا اتنی توانائی پیدا کرتا ہے کہ جتنی توانائی ہمارا سورج،  اپنی پوری زندگی میں شاید ہی پیدا کر پائے۔

لوہے کی گداخت شروع ہونے کے صرف چند سیکنڈ بعد ہی ستارہ،  سپرنووا بن کر پھٹ جاتا ہے۔ آئندہ جب آپ لوہے کی کوئی چیز دیکھیں یا استعمال کریں،  تو ضرور یاد رکھئے گا کہ یہ وہی لوہا ہے جس نے کسی ستارے کی جان لی ہو گی۔ یاد کیجئے گا کہ لوہے کی تخلیق کے چند سیکنڈوں میں ہی ستارہ،  سپرنووا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

پوری دنیا کی دوربینیں سپرنووا کی تلاش میں آسمان کی خاک چھانتی رہتی ہیں۔ ١٩٨٧ء میں آسمان پر ایک شاندار روشنی ابھری۔ یہ روشنی ایک قریبی کہکشاں سے آ رہی تھی،  جو زمین سے ایک لاکھ ستّر ہزار نوری سال کی مسافت پر ہے۔ سائنس دانوں نے سپرنووا کے پھٹنے کے بعد کی تصویر تو حاصل کر لی تھی مگر ابھی تک اُس وقت کی کوئی تصویر حاصل نہ کر پائے تھے جب سپرنووا پھٹنے کے بالکل قریب ہو۔ کسی بھی ستارے کی موت کا ہمیں اسی وقت پتا چل پاتا ہے کہ جب وہ سپرنووا کی شکل میں پھٹ چکا ہو۔

سائنس دان یہ جاننے کے لئے بیتاب ہیں کہ جب ستارہ پھٹنے کے قریب ہوتا ہے تو وہاں کی صورتحال کیا ہوتی ہے۔ ان کے پاس یہ سب جاننے کا ابھی تو صرف ایک ہی طریقہ ہے : ایسا ماحول کسی تجربہ گاہ میں دوہرایا جائے۔ سائنس دانوں کے لئے یہ جاننا انتہائی اہم ہے کہ ستارے کے قلب (مرکز) میں موجود مادّہ کیسے باہر نکلتا ہے۔ سائنس دان امریکی ریاست نیویارک کے شہر روچیسٹر (Rochester) میں،  دیو قامت لیزر کی مدد سے،  تجربہ گاہ میں ایک سپرنووا کی نقل بنانے میں مصروف ہیں۔

کوئی بھی دوربین کسی بھی ستارے کے اندر نہیں جھانک سکتی۔ لہٰذا،  یہ سراغ لگانے کے لئے کہ اس وقت جب ستارہ پھٹنے کے بالکل قریب ہوتا ہے تو وہاں کا ماحول کیسا ہوتا ہے،  سائنس دانوں نے تجربہ گاہ میں لیزر شعاعوں کی مدد لی ہے۔ اس زبردست مشین کے ذریعے لیزر کی طاقت،  دس لاکھ کھرب گنا بڑھائی جاتی ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی توانائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ڈیٹرائٹ (Detroit) جیسے تیس شہروں میں توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔ توانائی کی اتنی بڑی مقدار کو سوئی کے سرے جتنے حصّے پر مرتکز کیا جاتا ہے۔ لیزر کے ذریعے ہم کائنات کے اُس زوردار دھماکے کی نقل کرسکتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ انتہائی خطرناک عمل ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان اس کی زد میں آ جائے تو یہ آناً فاناً اس میں سوراخ کر دے گی۔ اس دھماکے کا دورانیہ انتہائی مختصر ہوتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ یہ ایک سیکنڈ کے ایک لاکھویں حصّے تک ہی برقرار رہ پاتا ہے۔ مگر وقت کے اس قلیل دورانئے کی منظر کشی،  انتہائی تیز رفتار کیمروں کی مدد سے کی جاتی ہے (جنہیں خاص اسی مقصد کے لئے بنایا گیا ہے )۔ اس تجربے سے سائنس دانوں نے ستارے کے قلب سے نکلنے والی صدماتی لہروں (کی نقل کا) مشاہدہ کیا۔

سائنس دانوں نے دیکھا کہ ستارے کا اندرونی مادّہ کس طرح باہر نکلتا ہے جبکہ بیرونی مادّہ کیسے اندر جا  ۰۰۴ ٢٠٠٤؁  بدرجہ اُگرتا ہے … بالکل اسی طرح جیسے سپرنووا کے پھٹتے دوران ہوتا ہے۔ ستارے کے قلب میں دفن مادّہ جب باہر نکلتا ہے تو اس سے صدماتی لہریں باہر نکلتی ہیں اور دور دور تک خلاء میں پھیل جاتی ہیں۔ دھماکے سے پیدا ہونے والی اس زبردست گرمی اور توانائی کے پُر ہنگام لیکن مختصر وقفے میں لوہے سے بھاری عناصر تشکیل پاتے ہیں۔ ان میں سونا،  چاندی،  پلاٹینم شامل ہیں۔ اور چونکہ ان عناصر کو بننے کے لئے بہت ہی قلیل وقت ملتا ہے،  اسی لئے یہ کائنات کے سب سے کمیاب اور قیمتی عناصر بھی خیال کئے جاتے ہیں۔ سونے،  چاندی اور پلاٹینم سمیت،  لوہے سے بھاری تمام عناصر اسی دھماکے کی پیداوار ہیں۔ اور یہ زمین پر بھی وہیں سے پہنچے ہیں۔

کائنات کے اس خطرناک ترین حادثے کے بعد بھی کچھ بچ جاتا ہے۔ پہلے سائنس دان سمجھتے تھے کہ سپرنووا میں ستارہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے اور اپنے پیچھے کچھ بھی نہیں چھوڑتا۔ مگر ان کی یہ غلط فہمی جلد ہی دور ہو گئی۔ سپرنووا دھماکے اور مادّے کے خلاء میں بکھر جانے کے بعد بھی ستارے کا کچھ بچا کچھا حصّہ باقی رہ جاتا ہے۔ اسے سائنس دانوں نے "نیوٹرون ستارے‘‘ کا نام دیا ہے۔ نیوٹرون ستارہ اتنا زیادہ کثیف ہوتا ہے کہ جس کا تصور کرنا بھی ہمارے لئے محال ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے،  یہ ایٹمی مرکزے میں پائے جانے والے ذرّات "نیوٹرون” ہی پر مشتمل ہوتا ہے۔ کشش ثقل نے ان ذرّات کو اس قدر شدت سے بھینچ رکھا ہوتا ہے کہ وہ انتہائی عجیب و غریب قسم کا مادّہ تشکیل دیتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ ٹھوس (solid) ہوتا ہے،  لیکن ہماری روزمرہ زندگی میں جس زیادہ سے زیادہ ٹھوس شئے کے بارے میں ہم سوچ سکتے ہیں،  نیوٹرون ستارے کا مادّہ اس سے بھی کہیں زیادہ ٹھوس ہوتا ہے۔ اپنی آسانی کے لئے یوں سمجھ لیجئے کہ نیوٹرون ستارے پر مادّہ اس قدر ٹھوس اور کثیف ہوتا ہے کہ اگر صرف ایک چمچے جتنا مادّہ،  نیوٹرون ستارے سے لے لیا جائے تو اس کی کمیت،  پورے ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ سے بھی زیادہ نکلے گی!

مرتا ہوا ستارہ اپنی باقیات میں صرف نیوٹرون ستارہ ہی پیچھے نہیں چھوڑتا،  بلکہ بھاری عناصر بھی کائنات میں دور دور تک پھیلا دیتا ہے۔ اور یہی بھاری عناصر،  زندگی کی بنیاد اور اسے پروان چڑھنے کیلئے خام مال فراہم کرتے ہیں۔ ہر وہ چیز جس سے ہمیں انسیت ہے،  اور وہ جو ہمیں محبوب ہے،  وہ انہی ستاروں کی خاک سے بنی ہے۔ لوہے سے بھاری عناصر تخلیق کرنے کیلئے جتنی توانائی درکار ہوتی ہے،  وہ کائنات میں سپرنووا کے پھٹنے کے علاوہ ابھی تک کہیں بھی دریافت نہیں ہو سکی۔ زندگی کے وجود،  ارتقاء اور بقاء،  سب کے لئے یہ عناصر نہایت ضروری ہیں۔ سپرنووا کے بغیر زندگی پنپ ہی نہیں سکتی تھی۔ یہ نہ ہوتے تو نہ میں ان کی مدح سرائی کے لئے ہوتا،  اور نہ آپ ہی ان سطروں کو پڑھ کر سر دھُن رہے ہوتے۔

سپرنووا بن کر پھٹتے ہوئے ستارے سے کائنات میں پھیلتی ہوئی خاک ہائیڈروجن،  کاربن،  آکسیجن،  سلیکان اور لوہے سےبھرپور ہوتی ہے۔ یہ خام مال نئے بننے والے ستاروں اور ان کے سیاروں کے کام آتا ہے۔ لوہے سے بھاری عناصر سے بنی ہوئی ہر چیز سپرنووا کے دھماکے میں ہی پیدا ہوئی اور پھیلی ہے۔ ایک مرتبہ یہ خاک،  کائنات میں پھیل جائے تو پھر یہ نئے ستاروں کا خام مال بن جاتی ہے۔ آپ کو یقیناً یہ جان کر حیرت ہو گی کہ میں اور آپ بھی اسی خاک سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم ستاروں کی خاک ہی تو ہیں۔ ہمارے جسموں کا ہر ایک ایٹم،  ستاروں کے قلب میں ہی تو پیدا ہوا ہے۔ شاید ہمارے سیدھے ہاتھ کے ایٹم کسی ایک ستارے کی خاک ہوں جبکہ الٹے ہاتھ کے ایٹم کسی دوسرے ستارے میں پیدا ہوئے ہوں۔ دیکھا جائے تو ہم ستاروں ہی کے بچے تو ہیں … بہت پہلے مرتے ہوئے ستاروں نے اپنی خاک ہمیں فراہم کی۔ جس سے ہمارا نظام شمسی،  سیارے اور ہر وہ چیز جو ان کے درمیان موجود ہے،  پیدا ہوئی۔ ہمارے جسم میں کاربن اور آکسیجن سب سے زیادہ ہیں ۔ ہماری رگوں میں دوڑتے پھرنے والے خون کا اہم ترین جزو،  لوہا ہے۔ یہ تمام چیزیں کہیں اور پیدا ہو ہی نہیں ہو سکتیں۔ اور اگر ہو سکتی ہیں تو صرف اور صرف ستاروں کے قلب ہی میں پیدا ہو سکتی ہیں۔ تو اگلی بار جب آپ ستاروں کو دیکھ کر متحیر ہوں تو ذرا اپنے آپ پر اور ارد گرد موجود چیزوں پر بھی نظر دوڑا لیجئے گا۔ ہر چیز جو ہمارے آس پاس موجود ہے (بشمول ہمارے خود کے ) وہ ان ہی ستاروں کی کوکھ سے نکلی ہے جو لمبے عرصے پہلے اپنی حیات پوری کر چکے تھے۔

حتیٰ کہ سورج میں موجود بیشتر ایٹم بھی بازیافت شدہ ہیں۔ یہ ایٹم شاید تیسری یا چوتھی نسل کے ہیں۔ یہ ان ستاروں کی باقیات ہیں جو عرصہ دراز پہلے مرتے ہوئے اپنی خاک اس کائنات میں پھیلا گئے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سورج ہماری سوتیلی ماں ہے۔ ہماری اصل سگی ماں تو وہ ستارے تھے جو سورج کو ان بھاری عناصر سے بھرپور،  اپنی خاک دیتے ہوئے اس جہان سے گزر گئے … وہ خاک جو زندگی کو پروان چڑھانے کیلئے نہایت ضروری تھی۔ کاش کہ غالب اور میر انیس کے دور میں یہ طبیعیاتی معلومات دستیاب ہوتیں تو وہ ضرور ان ستاروں کی مدح سرائی یا غم میں کوئی غزل یا نوحہ و مرثیہ ضرور لکھ دیتے۔

ہم ستاروں کے سنہری عہد میں جی رہے ہیں۔ لیکن ہر فانی چیز کی طرح یہ عہد بھی ختم ہو جائے گا۔ کائنات میں جتنی بھی ہائیڈروجن ہے،  وہ کھرب ہا کھرب سال گزرنے کے بعد،  بالآخر ختم ہو جائے گی۔ اور ستارے جب ساری ہائیڈروجن پھونک دیں گے تو نئے ستارے پیدا ہونا بند ہو جائیں گے۔ ہماری زندگی کا عرصہ،  کائنات کی تاریخ میں بہت ہی حقیر ہے۔ خیر ابھی سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ابھی تو وہ ستارے جو زندگی کو جنم دیتے ہیں،  آسمان کو روشن کئے ہوئے ہیں۔ مگر ان کی یہ روشنی،  یہ جگمگاہٹ ہمیشہ کیلئے تو نہیں۔ جلد یا بدیر ستارے بجھنے شروع ہو جائیں گے۔ سب سے پہلے بڑے ستارے اپنا ایندھن پھونک کر بجھ جائیں گے۔ ان کے بعد درمیانے حجم کے ستاروں کی،  جیسا کہ ہمارا سورج ہے،  باری آئے گی۔ آخرکار چھوٹے ستاروں کی بھی باری آ ہی جائے گی۔ کھربوں سال گزرنے کے بعد وہ بھی غائب ہو جائیں گے۔ آہستہ آہستہ کائنات تاریک اور ٹھنڈی ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ اس کا آخری ستارہ بھی بجھ جائے گا۔ ستاروں کا عظیم الشان دور ختم ہو جائے گا۔

ایمانداری کی بات ہے کہ کائنات کا انجام بہت ہی افسوسناک ہو گا۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ ہمارا دور جینے کے لحاظ سے بہترین ہے۔ یہ وقت زندگی کے پنپنے کے لئے مثالی دور ہے۔ نئے ستارے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہم کائنات کے سنہری دور میں جی رہے ہیں۔ ہم کائنات کے اُس عہد میں زندہ ہیں جب وہ زندگی کیلئے نہایت سازگار اور موزوں ہے۔ اور یہ دور مزید کئی اَرب سال تک یونہی جاری رہے گا۔

ہر چیز کو زوال ہے۔ کوئی بھی چیز ہمیشہ سے ہے نہ ہمیشہ رہے گی۔ ہمیں اس بات پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں اس دور میں پیدا کیا جب رات کو ستارے آسمان کو جگمگا رہے ہیں۔ فی الحال تو ستارے کائنات کے ارتقاء میں یوں ہی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے رہیں گے اور زندگی کو پروان چڑھانے کیلئے خام مال تیار کرتے رہیں گے۔ نئے ستارے کائنات کی تاریکی کو یوں ہی دور کرتے رہیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

۵۔سپرنووا

5. Super Nova

 

 

ایک زبردست دھماکے سے پھٹتا ہوا ستارہ "سپرنووا” (Supernova) کہلاتا ہے۔ یہ کائنات میں ایک قیامت انگیز لمحہ ہوتا ہے۔ ماہرین فلکیات نے سپرنووا کو ان کی جسامت کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ ہر ایک سپرنووا کی روشنی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ تمام کائنات میں بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ سپرنووا دراصل ستارے کی بھیانک ترین موت ہوتی ہے۔ مگر ستارے کی اس موت میں پوشیدہ حیات کو ہم اپنے چاروں طرف روز دیکھتے ہیں۔ جسیم یعنی دیو ستارے (Giant Star) سپرنووا کی صورت میں پھٹتے ہوئے اپنی زندگی تمام کرتے ہیں۔ ایسے کسی پھٹتے ہوئے سپرنووا کی روشنی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ایک پوری کہکشاں سے آتی ہوئی روشنی کو اپنی روشنی سے گہنا دیتی ہے۔ اس سے خارج ہونے والی توانائی،  سورج سے نکلنے والی توانائی سے کھرب ہا کھرب گنا زیادہ ہوتی ہے۔

ان ہلاکت خیزی کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی سپرنووا،  ہماری زمین سے صرف بیس یا تیس نوری سال کے فاصلے پر بھی واقع ہو تو اس سے آنے والی زبردست شعاعیں،  ہماری زمین کو بھون کر رکھ دیں گی۔ کوئی بھی قریبی سپرنووا،  زمین کو آسانی سے ویران کر دے گا۔ سب سے پہلے ریڈیائی لہروں کی بمباری زمینی کرہ ہوائی (فضا) کو بالکل ختم کر دے گی۔ اس ہلاکت خیزی سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہو گی: ہم زمین کے اندر پناہ لے لیں۔ مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہو گی۔ زیر زمین ایکس ریز،  آبلہ انگیز قوّت کے ساتھ ٹکرائیں گی اور ساری نباتاتی حیات کو،  سارے پیڑ پودوں کو،  ختم کر دیں گی۔ اور اسی کے ساتھ انسانیت معدوم ہو جائے گی۔

سپرنووا انسانیت کے لئے زہر قاتل تو ہو سکتے ہیں،  مگر یہ زندگی کی اساس اور اسے جاری وساری رکھنے والے بنیادی عناصر بھی تشکیل دیتے ہیں۔ ہمارا سیارہ زمین،  ہمارا سورج اور ہر وہ چیز جو ہمارے ارد گرد موجود ہے،  وہ ان ہی سپرنووا کے بچے کھچے ملبے سے تخلیق شدہ ہے۔ ہمارا جسم بھی نہ جانے کتنے سپرنووا کی خاکِ لحد سے بنا ہوا ہے۔ سارا لوہا،  تمام سلیکان اور ہر وہ چیز جس سے ہمارے مکان اور فلک بوس عمارتیں بنی ہیں،  ہمارا جسم اور اس میں دوڑتا ہوا خون اور قیمتی سونا،  غرض سب کچھ ان ہی سپرنووا کی دین ہے۔

اکثر ہمارے ذہنوں میں اس قسم کے سوالات کی بازگشت ہوتی ہے کہ ستارے،  سپرنووا کیسے بنتے ہیں ؟ اور کیا کبھی ہمارا سورج بھی سپرنووا بن سکے گا؟ ہمارا سورج،  کائنات میں موجود دوسرے ستاروں کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا ستارہ ہے۔ ہر ستارے کی طرح یہ بھی ایک عظیم نیوکلیائی ری ایکٹر ہے۔ ستارہ اس گداختی عمل (Fusion) کے دوران کائنات میں سب سے زیادہ پائی جانے والی گیس "ہائیڈروجن” کو بطور ایندھن (فیول) استعمال کرتا ہے۔ وہ ہائیڈروجن ایٹموں کو ملا کر ہیلیم بناتا ہے اور نتیجتاً زبردست توانائی خارج ہوتی ہے۔ جب ہائیڈروجن ایندھن ختم ہو جاتا ہے تو پھر ہیلیم ایٹموں کو ایک دوسرے میں ضم کر کے کاربن ایٹموں میں ڈھالنا شروع کر دیتا ہے اور اپنے آپ کو زندہ رکھتا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ ہیلیم بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ تو پھر وہ کاربن ایٹموں کو ملا کر آکسیجن بنانے لگتا ہے … بس یوں سمجھئے کہ اس طرح وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہوتا ہے۔

جب کسی چھوٹے ستارے (جیسے کہ ہمارا سورج) میں گداخت کے عمل سے کاربن بننے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے،  تو اس کی موت کا وقت قریب آ جاتا ہے۔ ستاروں کی تمام زندگی میں قوّت ثقل اور نیوکلیائی طاقت میں ایک توازن قائم رہتا ہے۔ قوّت ثقل ستارے کو بھینچ کر دبانا چاہتی ہے ۔ جبکہ نیوکلیائی قوّت اسے دھماکے سے بکھیر دینا چاہتی ہے۔ جب تک یہ توازن قائم رہتا ہے اور توانائی پیدا ہوتی رہتی ہے،  تب تک کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مشکل تب درپیش آتی ہے جب وہ توانائی پیدا کرنا بند کر دیتا ہے۔ قوّت ثقل ستارے کو دبانا،  اور اسے زبردست قوّت کے ساتھ بھینچنا شروع کر دیتی ہے ۔ جبکہ نیوکلیائی قوّت ستارے میں موجود،  بچی کچی ہائیڈروجن میں،  جو ستارے کی سب سے بیرونی پرت میں ہوتی ہے،  گداخت کا عمل جاری رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ چونکہ گداخت کا عمل زبردست توانائی (حرارت) پیدا کرتا ہے،  لہٰذا ستارے کی بیرونی سطح باہر کی طرف پھیلنا شروع کر دیتی ہے اور وہ ایک عظیم الجثہ گیند کی مانند پھیلتی چلی جاتی ہے … اب یہ ستارہ ایک "سرخ دیو” (Red Giant) میں تبدیل ہو چکا ہے۔ آج سے لگ بھگ ساڑھے چار ارب سے پانچ ارب سال بعد،  ہمارا سورج بھی پھیل کر ایسا ہی ایک سرخ دیو بن جائے گا۔ یہ پھیل کر مریخ تک جا پہنچے گا۔ کرۂ ارض پر موجود ہر چیز بھاپ بن کر ختم ہو چکی ہو گی۔ جب سورج کی بیرونی سطح پھیل رہی ہو گی تو اسی وقت،  اس کے مرکز میں قوّت ثقل بالکل الٹ اثر ڈال رہی ہو گی: وہ سورج کے قلب کو اس قدر دباؤ کے ساتھ بھینچ رہی ہو گی کہ آخرکار اس کا قلب سکڑ کر (اپنی موجودہ جسامت کے مقابلے میں ) دس لاکھ گنا چھوٹا ہو جائے گا۔ بس یوں سمجھئے کہ صرف سیارہ زمین جتنا بڑا۔ اب ہمارے سورج کا قلب،  آکسیجن اور کاربن کی کثیف سی گیند بن جائے گا۔ اسی کے ساتھ ہمارا سورج ایک "سفید بونا” (White Dwarf) ستارہ بن جائے گا۔ ہمارے نظام شمسی کی کہانی یہیں تک چلے گی۔ اور اس کے بعد تمام شد ہو جائے گی۔ مرتے ہوئے سورج کی گیس،  وقت کے ساتھ ساتھ ادھر ادھر ہو جائے گی۔ مگر یہ سفید بونا ستارہ تب بھی ارب ہا ارب سال تک مدھم مدھم جلتا رہے گا۔

ہمارا نظام شمسی،  کائنات میں موجود زیادہ تر نظام ہائے شمسی سے تھوڑا مختلف ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج ایک اکلوتا ستارہہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں زیادہ تر ستارے جوڑے بنا کر ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ جب ان دو ستاروں میں سے کوئی ایک بھی سفید بونا بنتا ہے اور اپنے جوڑی دار ستارے کے نزدیک ہوتا ہے،  تو وہ دوسرے ستارے کا مادّہ چرانے لگتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ دو جڑواں ستارے ایک دوسرے کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہوں اور ایک ستارہ،  دوسرے ستارے کی ہائیڈروجن اور ہیلیم کھینچ رہا ہو۔ یہ بالکل ایسا ہی لگے گا جیسے کوئی خون آشام چمگاڈر،  کسی کا خون چوس رہی ہو۔ خون آشام ستارہ جیسے جیسے اپنے ساتھی ستارے کا ایندھن چراتا ہے،  ویسے ویسے وہ زیادہ بھاری اور کثیف ہوتا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ غیرمستحکم بھی ہوتا جاتا ہے۔ اس کے اندر کاربن اور آکسیجن کے ایٹم،  گداختی عمل (فیوژن) سے گزرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور یہ بات اس ستارے کے لئے نہایت بھیانک خبر ہوتی ہے۔

سفید بونا ایک طرح کا بم ہوتا ہے جو پھٹ پڑنے کے لئے گویا ایک اشارے کا منتظر ہوتا ہے۔ اس ستارے کے اندر بہت زیادہ توانائی جمع ہو چکی ہوتی ہے ۔ جو ثقلی توانائی اور نیوکلیائی توانائی کی صورت میں ہوتی ہے۔ اب یہ سفید بونا ایک عفریت میں بدلنے لگتا ہے جسے سائنس دانوں نے "ٹائپ 1-A” سپرنووا کا نام دیا ہے۔ ٹائپ 1-Aسپرنووا،  بیس ارب ارب ارب میگا ٹن (Twenty Octillion) توانائی کا حامل،  ایک کاربن نیوکلیائی بم ہوتا ہے۔ اس کا شمار کائنات میں سب سے زیادہ دھماکہ خیز چیزوں میں ہوتا ہے۔ آخرکار سفید بونا اپنے ساتھی ستارے کا اتنا زیادہ مادّہ چرا چکا ہوتا ہے کہ وہ اس کی برداشت سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ ستارے کے قلب میں کاربن اور آکسیجن گداختی عمل شروع کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک ایسا عنصر وجود میں آتا ہے جو ستارے کے لئے موت کا پروانہ ہوتا ہے۔

سائنس فکشن فلم "اسٹار ٹریک” میں ایک ایسی خفیہ ٹیکنالوجی دکھائی گئی ہے جس سے ستارے کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ مگر ستارے کی موت کا اصل ذمہ دار کوئی خفیہ ہتھیار نہیں بلکہ ہمارے روزمرّہ استعمال کی چیزوں میں شامل ایک چیز ہے۔ اس سے بنی بہت سی اشیاء،  میں اور آپ یہ سطریں پڑھتے وقت بھی استعمال کر رہے ہوں گے۔ (میں یہ مضمون لوہے سے بنی ہوئی پن کی نوک سے لکھ رہا ہوں جبکہ ہو سکتا ہے کہ آپ اس مضمون کو کمپیوٹر پر پڑھ رہے ہوں کہ جس میں اچھا خاصا لوہا موجود ہوتا ہے۔ ) اس وقت جب کوئی سفید بونا ستارہ کاربن اور آکسیجن کے مرکزے آپس میں ملا کر،  کاربن پر منتج ہونے والا گداختی عمل شروع کرتا ہے ۔ تو بس وہی اس کے لئے نوشتہ دیوار ثابت ہوتا ہے۔ سفید بونا یکدم پھٹ پڑتا ہے۔ اس ستارے کے نیوکلیائی دھماکے میں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ لوہے کی بھی بہت بڑی مقدار خارج ہوتی ہے۔ درحقیقت ٹائپ اے ون (1-A) سپرنووا ان عناصر کو پھیلانے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں جو زندگی کو بنیاد فراہم کرنے میں نہایت ضروری ہوتے۔ ٹائپ 1-A سپرنووا،  لوہے کو خلاء میں ارب ہا ارب میل دور تک پھیلا دیتے ہیں۔ پوری کائنات میں موجود لوہا وہیں سے آتا ہے۔

مگر اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ لوہے سے بھاری عناصر کہاں سے آتے ہیں ؟ جیسے کہ سونا،  چاندی وغیرہ۔ تو اس سوال کا جواب ہے : لوہے سے بھاری عناصر دوسرے اور اکلوتے ستاروں کے سپرنووا بن کر پھٹ جانے سے وجود میں آتے ہیں۔ سپرنووا،  کائنات میں موجود ہر چیز بناتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو ہم زمین پر دیکھتے ہیں،  وہ سب کی سب کسی ستارے نے ہی بنائی ہے۔ زمین پر موجود سارے کا سارا مادّہ،  سپرنووا کے دوران ہی تخلیق ہوا تھا۔ ہم اور آپ بھی اسی بچے کھچے مادّے سے بنے ہیں۔ درحقیقت ہم ستاروں کی خاک (Star Dust) ہی تو ہیں !

ہمارے سیارے پر موجود زیادہ تر لوہا ثنائی ستاروں (Binary Stars) کے سپرنووا بن کر پھٹنے ہی سے وجود میں آیا ہے۔ یہ سپرنووا آج سے لگ بھگ پانچ ارب سال پہلے پھٹے تھے۔ زمینی اندرون میں کھربوں ٹن لوہے سے لے کر آسمان چھوتی عمارتوں تک،  اور ہماری رگوں میں دوڑتے پھرنے والے خون میں شامل ہیموگلوبین تک،  سارے کا سارا لوہا ان ہی ٹائپ 1-Aسپرنووا کے پھٹنے سے وجود میں آیا ہے۔ مگر کائنات میں لوہے سے بھاری عناصر (جیسے سونا،  چاندی اور یورینیم وغیرہ) دوسری قسم کے سپرنووا سے وجود میں آئے ہیں۔ اس قسم کا سپرنووا وہ ستارے بنتے ہیں جو اکلوتے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے ستاروں کی کمیت،  ہمارے سورج سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ کائنات میں ایسے ان گنت عفریت موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ کی کمیت سورج کی کمیت سے کوئی پچیس تیس گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ تو کچھ کی کمیت،  سورج کے مقابلے میں سینکڑوں گنا زیادہ ہوتی ہے۔ جتنی زیادہ کمیت ہو گی،  ستارے کی عمر بھی اتنی ہی کم ہو گی۔ جتنا بھاری ستارہ ہو گا،  وہ اتنی ہی تیزی سے اپنا نیوکلیائی ایندھن پھونک ڈالے گا۔ جب اس قسم کے عظیم و جسیم ستارے،  اپنی عمر پوری کرتے ہوئے موت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں،  تو ان کے اندر جاری نیوکلیائی عمل تیز سے تیز تر ہو جاتا ہے۔ بھاری اور بڑے ستارے اپنا نیوکلیائی ایندھن بہت ہی جلدی پھونک دیتے ہیں۔ جو ستارہ جتنی تیزی سے جلتا ہے،  وہ اتنی ہی تیزی سے اپنا ایندھن ختم کرتا ہے۔ ستارے کی کمیت جتنی زیادہ ہو گی،  وہ اتنا ہی زیادہ گرم ہو گا۔ نتیجتاً وہ اپنا ایندھن بھی اتنی ہی جلدی ختم کر دے گا۔

جب بہت ہی زیادہ کمیت والے "فوق ضخیم ستارے‘‘ (Supermassive Stars) سپرنووا کا روپ دھارتے ہیں،  تو وہ کائنات میں صرف لوہا ہی نہیں پھیلاتے بلکہ اس دوران وہ لوہے سے بھاری عناصر بھی تخلیق کر لیتے ہیں۔ ایک بار جب وہ اپنے قلب میں موجود ہائیڈروجن کو ہیلیم میں،  ہیلیم کو کاربن میں،  اور کاربن کو آکسیجن میں تبدیل کر چکے ہوتے ہیں (عملِ گداخت یعنی فیوژن ری ایکشن کے نتیجے میں ) تو وہ سفید بونے نہیں بنتے … بلکہ ان میں جلنے کا عمل،  گداخت کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس سے ان کے مرکز میں نت نئے عناصر،  پرت در پرت جمع ہوتے رہتے ہیں۔ وہ کاربن سے زیادہ بھاری عنصر بناتے رہتے ہیں۔ نیون،  آکسیجن سے لے کر سلیکان تک۔ یہ عناصر کائنات میں زندگی کی اساس ہیں۔ مگر یہ عناصر،  ستاروں کے قلوب میں قید ہوتے ہیں ۔ اور انہیں کسی بھی طریقے سے باہر نکلنا ہوتا ہے … یہاں سے فرار ہو کر دور خلاؤں میں پھیلنا ہوتا ہے۔ سپرنووا بن کر پھٹے ص والے ستاروں کا مطالعہ کر کے ہی ہم یہ جان سکے ہیں کہ بھاری عناصر کیسے وجود میں آتے ہیں۔ یہ بھاری عناصر نیوکلیائی گداخت (نیوکلیئر فیوژن) کے ذریعے ہی ستاروں کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ستارے سپرنووا بن کر نہیں پھٹتے تو وہ عناصر ہمیشہ کے لئے ان مُردہ ستاروں کے قلوب ہی میں دفن رہتے۔ تاہم،  بڑے یعنی فوق ضخیم ستاروں کے پھٹنے کا ذمہ دار بھی وہی عنصر ہے جو ٹائپ 1-A کے سپرنووا کو پھاڑنے کا موجب بنتا ہے ۔ یعنی کہ لوہا۔

لوہا ستاروں کی گداخت سے پیدا ہونے والی توانائی کو پی جاتا ہے۔ توانائی کے بغیر نیوکلیائی عمل رک جاتا ہے اور قوّت ثقل غالب آ کر ستارے کو دبانا اور بھینچنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ لمحہ بس ستارے کے لئے موت کا پروانہ ہی لے کر آتا ہے۔ ستارے کا آخری لمحہ بہت ہی مختصر سا ہوتا ہے۔ سپرنووا بننے کیلئے درکار عرصہ تقریباً ایک کروڑ سال کا ہوتا ہے ۔ مگر اس کا آخری وقت تو صرف چند لمحوں پر محیط ہوتا ہے۔ ستارے کے قلب میں ایک بار لوہا جمع ہو جائے تو وہ اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے اور ایک سیکنڈ کے بھی ہزارویں حصّے میں،  یعنی صرف ایک ملی سیکنڈ میں منہدم ہو کر سیارہ زمین کی جسامت سے سکڑ کر ایک چھوٹے جتنا ہی رہ جاتا ہے۔ تب اس کے سکڑنے کی رفتار،  اپنے آپ میں منہدم ہونے کی رفتار،  روشنی کی رفتار کا ایک تہائی ہوتی ہے۔ ستارہ جیسے ہی غیر متوازن ہوتا ہے،  ویسے ہی قوّت ثقل اس کے قلب کو منہدم کر دیتی ہے۔ یہ اتنی شدت سے ہوتا ہے کہ ستارے کے قلب میں موجود ایٹموں کے مرکزے بھی ایک دوسرے سے متصادم ہو کر آپس میں ضم ہونے لگتے ہیں۔ جیسے جیسے ستارے کا قلب چھوٹا اور کثیف ہوتا جاتا ہے،  ویسے ویسے اس کے مرکز میں توانائی کا ذخیرہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ سورج سے ڈیڑھ گنا زیادہ کمیت والی چیز دب کر صرف پندرہ میل قطر ہی کی رہ جائے۔ وہ ستارہ ناقابل بیان حد تک کثیف ہو جاتا ہے۔ پانی کی عمومی کثافت کے مقابلے میں اس کی کثافت دس ہزار کھرب گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔

دھماکا،  ستارے کی بیرونی پرت کو اڑا کر رکھ دیتا ہے ۔ اور اسی دوران لوہے سے بھاری عناصر تشکیل پاتے ہیں۔ لوہے سے کوبالٹ،  کوبالٹ سے نکل،  اور اسی طرح ہوتے ہوتے سونا،  پلاٹینم اور یورینیم بنتے چلے ہیں۔ اس دھماکے کی مدّت اس قدر مختصر ہوتی ہے کہ بھاری عناصر بہت ہی کم مقدار میں بن پاتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ عناصر زمین پر بھی کمیاب ہیں۔ سپرنووا دھماکے سے یہ بھاری عناصر خلاء میں ارب ہا میل دور تک پھیل جاتے ہیں۔ بھاری عناصر کی تشکیل کا عمل اور طریقہ کار،  پوری کائنات میں ہمیں اب تک جو ملا ہے،  وہ یہی ہے کہ یہ عناصر ستاروں کے سپرنووا بن کر پھٹنے کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔ ناقابلِ یقین سا لگتا ہے کہ اس قیامت خیز دھماکے کے بعد بھی کوئی چیز سلامت بچی رہے۔ مگر اب یہ بات ہمارے مشاہدے میں آ چکی ہے کہ اتنے زبردست دھماکے کے بعد بھی ستارے کی لاش باقی رہ ہی جاتی ہے۔ ستارے کی لاش اب تک کی دریافت ہونے والی چیزوں میں نہایت عجیب و غریب اور مہلک ہوتی ہے۔

جب کوئی دیو ہیکل ستارہ سپرنووا بن کر پھٹتا ہے،  تو یہ ہمیشہ اس ستارے کا اختتام نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار اس کی باقیات بھی رہ جاتی ہیں۔ ان باقیات کا انحصار ستارے کی جسامت اور کمیت پر ہوتا ہے۔ ہمارے سورج سے لگ بھگ آٹھ گنا بڑے ستارے سپرنووا دھماکے کے بعد ایک نیوٹرون ستارہ (Neutron Star) اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ نیوٹرون ستارہ،  کائنات کی عجیب و غریب ترین چیزوں میں سے ایک ہے۔ نیوٹرون ستارے اگرچہ نہایت خطرناک اور انوکھے ہوتے ہیں،  لیکن کائنات میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

جب ایک دیو ہیکل ستارہ سپرنووا بنتا ہے،  تو اس کا قلب سکڑ کر اتنا چھوٹا ہو جاتا ہے جیسے کوئی پورا سیارہ سکڑ کر ایک چھوٹے سے شہر جتنا ہو جائے۔ ستارے کے قلب میں اتنا شدید دباؤ ہوتا ہے کہ وہاں موجود ایٹموں کے مرکزے بھی ایک دوسرے کے ساتھ دبنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور جب یہ ایٹمی مرکزے آپس میں اس قدر پیوست ہو جاتے ہیں کہ بالکل بھی جگہ نہیں بچتی،  تو زبردست توانائی بننے لگتی ہے۔ اب ضروری ہو جاتا ہے کہ ستارہ اس زبردست توانائی کو کسی نہ کسی طور پر نکال باہر کرے ۔ اور اپنے آپ کو نسبتاً سکون کی حالت میں لے آئے۔ بس! یہی وہ موقعہ ہوتا ہے جب ایک بہت ہی شدید دھماکہ ہوتا ہے اور قلب کی بیرونی پرت،  خلاء میں بکھر جاتی ہے جو اپنے پیچھے ایک فوق ضخیم نیوٹرون ستارہ (Super-massive Neutron Star) ہی بچ جاتا ہے۔ نیوٹرون ستارے کی کمیت بہت ہی زیادہ اور جسامت بہت ہی کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے ہے کہ اس کی کثافت بھی بہت ہی زیادہ ہو گی۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ نیوٹرون ستارے میں پوری ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی کمیت،  ریت کے ایک ذرّے جتنی جسامت میں سما جائے گی۔ نیوٹرون ستارے کی کثافت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر ہمارے پاس اتنا کثیف کوئی مادّہ موجود ہو اور ہم اسے زمین پر ڈالیں،  تو وہ زمین کے آر پار ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے گرم چھری،  مکھن میں سے گزرتی چلی جاتی ہے۔ نیوٹرون ستارے میں ایک چائے کے چمچے جتنا مادّہ،  دس کروڑ ٹن کے برابر ہوتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ ایک پورا ستارہ صرف ایک چھوٹے سے شہر کے رقبے جتنا ہو جائے تو وہ کتنا کثیف ہو گا!

نیوٹرون ستارہ نہایت ہی تیزی سے گھومتا ہے۔ کچھ تو ایک سیکنڈ میں ہزار مرتبہ گھومتے ہیں۔ صرف یہ بات سوچنے میں ہی ہمارا دماغ چکرا کر رہ جاتا ہے کہ کوئی چیز سورج سے ڈیڑھ گنا زیادہ بڑی ہو اور ایک سیکنڈ میں ایک ہزار بار (اپنے محور پر) چکر لگا رہی ہو۔ کچھ نیوٹرون ستارے اس قدر تیزی سے چکر لگاتے ہیں کہ وہ زبردست قسم کی توانائی کی دھڑکنیں (Pulses of Energy) پیدا کرتے ہیں۔ توانائی کا یہ اخراج،  ریڈیو لہروں کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر کسی نیوٹرون ستارے کو کچھ مختلف حالات درپیش آ جائیں اور وہ اپنے قطبین کے بجائے استواء (ایکویٹر) کے گرد گھومنا شروع کر دے،  تو پھر وہ "نابض ستارہ” یعنی پلسار (Pulsar) کہلاتا ہے۔ ان کے قطبین سے نکلنے والی ریڈیو لہریں (جو بذاتِ خود برقی مقناطیسی لہروں ہی کی ایک قسم ہیں ) بہت ہی لگے بندھے اور ٹھیک ٹھیک وقفے کے ساتھ ہمیں اپنی طرف آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے ہمیں یہ اس لئے محسوس ہوتا ہے کیونکہ ایسے سپرنووا کے قطبین ہماری سیدھ میں ہوتے ہیں۔ پلسار سے آنے والی ریڈیو لہروں کا درمیانی وقفہ اس قدر نپا تلا ہوتا ہے کہ جیسے کوئی دور دراز خلائی مخلوق ہمیں اپنی موجودگی کے سگنل بھیج رہی ہو۔ پہلے پہل جب پلسار دریافت ہوئے،  تو ان کا مشاہدہ کرنے والے ماہرینِ فلکیات کی ٹیم بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہو گئی تھی کہ کوئی خلائی مخلوق،  ریڈیو سگنلوں کے ذریعے ہم سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی لئے ابتداء میں انہیں "چھوٹے سبز آدمی” (Little Green Men) یا مختصراً "ایل جی ایم” (LGM) کا نام دے دیا۔ البتہ،  بعد میں یہ نیوٹرون ستاروں ہی کی ایک قسم ثابت ہوئے۔ ماہرینِ فلکیات آج بھی پیار سے پلساروں کو "چھوٹے سبز آدمی” ہی کہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک پلسار،  کیکڑے کی شکل والے سحابئے (Crab Nebula) میں موجود ہے جہاں کوئی ہزار سال پہلے سپرنووا دھماکہ ہوا تھا۔ یہ اپنی قسم کا تیز ترین گھومنے والا ستارہ ہے۔ یہ اپنے محور پر ایک سیکنڈ میں تیس مرتبہ چکر لگا لیتا ہے ۔ اور اگلے لاکھوں سال تک اسی طرح کرتا رہے گا۔

مگر صرف پلسار ہی وہ عجیب و غریب اجسام نہیں جو سپرنووا پھٹنے سے وجود میں آتے ہیں۔ جب کوئی ستارہ،  جو اپنی کمیت میں سورج سے لگ بھگ تیس گنا زیادہ ہو،  اور سپرنووا دھماکے میں اپنی جان گنوا دے،  تو وہ مرتے ہوئے اپنے پیچھے ایک ایسا نیوٹرون ستارہ چھوڑ جاتا ہے جسے ہم میگنیٹار (Magnetar) یعنی "مقناتارہ” (مقناطیسی ستارہ) کہتے ہیں۔ مقناطیسی ستارے (مقناتارے ) پلسار سے زیادہ عجیب ہوتے ہیں۔ یہ نہایت طاقتور مقناطیسی میدان بناتے ہیں۔ ان کے مقناطیسی میدان کی قوّت،  زمینی مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ایک ہزار کھرب گنا زیادہ ہوتی ہے ! ان کی طاقت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی مقناطیسی ستارہ،  ہم سے ہزاروں میل دور ہو،  تب بھی یہ ہمارے جسم میں موجود لوہے کے تمام ذرّات کھینچ نکال سکتا ہے۔ مگر سپرنووا کے پھٹنے سے صرف پلسار اور مقناطیسی ستارے جیسی خطرناک چیزیں ہی وجود میں نہیں آتیں،  بلکہ ایک اور خطرناک شئے بھی بن سکتی ہے۔ جب کوئی فوق ضخیم ستارہ،  سپرنووا دھماکے میں پھٹتا ہے تو اس کی لاش صرف ایٹموں ہی کو نہیں بھینچتی بلکہ وہ زمان و مکان کا تانا بانا بھی منہدم کر دیتی ہے … اور یہ سپرنووا ایک بلیک ہول (Black Hole) کو جنم دیتا ہے۔

جب سورج سے سو گنا بڑا ستارہ سپرنووا بنتا ہے،  تو اس کا دھماکا اتنا زبردست ہوتا ہے کہ عام سپرنووا اس کے سامنے محض ایک چنگاری محسوس ہوتا ہے۔ اسی لئے سائنس دانوں نے اسے "ہائپرنووا” (Hypernova) کا نام دیا ہے۔ یہ ہائپرنووا ہی تھا جو شاید تیسری عالمی جنگ شروع کروانے کی وجہ بن جاتا۔ لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔

۱۹۶۳ء میں امریکہ اور سوویت یونین نے نیوکلیائی ہتھیاروں کے تجرباتی دھماکوں پر پابندی کا معاہدہ کیا۔ روس پر نظر رکھنے کے لئے امریکہ نے ایک جاسوس سیارچہ خلاء میں چھوڑا۔ اس سیارچے نے دور خلاء سے آتی ہوئی زبردست شعاعیں ریکارڈ کیں۔ یہ شعاعیں کسی ایٹمی دھماکے سے بھی پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لئے امریکیوں کو یہ گمان ہوا کہ شاید روس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی ایٹمی دھماکہ کیا ہے۔ لہٰذا،  اسے انہوں نے اپنے لئے بہت بڑا خطرہ تصور کیا۔ تاہم،  مزید تصدیق کی غرض سے امریکی حکومت نے ایک اور سیارچہ،  جس کا نام "ویلا” (Vela) تھا،  خلاء میں چھوڑا تاکہ دنیا بھر میں کہیں بھی ہونے والے نیوکلیائی دھماکوں کا سراغ لگا سکیں۔ اس سیارچے نے بھی دُور خلاء سے آتے ہوئے یہ جناتی دھماکے (تابکار شعاعوں کی بوچھاڑیں ) ریکارڈ کئے۔ پہلے تو امریکیوں نے سمجھا کہ شاید روس چوری چھپے خلاء میں نیوکلیائی ہتھیاروں کے تجربات کر رہا ہے۔ مگر نہ تو وہ کوئی نیوکلیائی ہتھیار تھے اور نہ ہی ان دھماکوں سے روس کا کوئی لینا دینا تھا۔ جب امریکیوں نے ان دھماکوں کا جائزہ لینا شروع کیا تو انہیں یہ کہکشاں میں ہر طرف سے،  بلکہ کہکشاں سے بھی دور سے آتے نظر آئے۔ اب انہیں یقین ہو گیا کہ روس کوئی بھی نیوکلیائی دھماکہ،  کہکشاں سے دور جا کر نہیں کرسکتا۔ سائنس داں سمجھ چکے تھے کہ انہوں نے کوئی نئی چیز دریافت کر لی ہے … وہ دراصل انتہائی طاقتور دھماکے تھے جن سے زبردست توانائی کی حامل گیما شعاعیں خارج ہو رہی تھیں۔ اب چونکہ نیوکلیائی ہتھیاروں کے دھماکوں سے بھی گیما شعاعیں خارج ہوتی ہیں،  اسی لئے مذکورہ غلط فہمی بھی پیدا ہوئی تھی۔ خیر! مزید چھان بین اور تحقیق کے بعد،  دُور خلاء سے آتی ہوئی ان شعاعوں کو "گیما شعاعوں کی بوچھاڑیں‘‘ (Gamma Rays Bursts) قرار دے دیا گیا۔ یہ شعاعیں ہائپرنووا کے پھٹنے کے مقام سے ہماری طرف آ رہی تھیں۔

ایک عام سپرنووا دھماکے کے دوران قوّت ثقل،  ستارے کے قلب کو نیوٹرون ستارے میں بدل دیتی ہے۔ مگر ہائپرنووا کے دھماکے میں دیو ہیکل ستارہ اس قدر بڑا ہوتا ہے کہ قوّت ثقل اس کے قلب کو دبا کر ایک عجیب سی شئے میں بدل دیتی ہے ۔ جس کا نام بلیک ہول ہے۔

ستارے کے قلب میں جیسے ہی بلیک ہول بنتا ہے،  وہ فوراً ہی اس ستارے کے باقی ماندہ بیرونی مادّے کو نگلنا شروع کر دیتا ہے۔ تاہم،  یہ مادّہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور نوزائیدہ بلیک ہول انتہائی مختصر۔ لہٰذا بلیک ہول (ستارے کے قلب) کے گرد ایک بھنور سا بنانے لگتا ہے جس کے باعث بلیک ہول کے گرد ایک پرت دار ٹکیہ (Accretion Disk) وجود میں آ جاتی ہے۔ اب یہ پرت دار ٹکیہ،  بلیک ہول کو ہر ایک سیکنڈ کے دوران،  دس لاکھ زمینی کمیت جتنا مادّہ فی فراہم کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اتنی تیزی سے اس قدر زیادہ مادّہ نگلنے کی وجہ سے ایک ڈرامائی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ نومولود بلیک ہول کے لئے ہر سیکنڈ میں دس لاکھ زمینی کمیت جتنا مادّہ ہضم کرنا بہت ہی زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں سے بہت سا مادّہ واپس خلاء میں تقریباً روشنی کی رفتار سے واپس پھینکنا شروع کر دیتا ہے۔ اپنی زبردست توانائی کی وجہ سے یہ مادّہ دو بوچھاڑوں کو جنم دیتا ہے جو خالص توانائی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اب چونکہ یہ انتہائی توانائی کی حامل گیما شعاعوں کی صورت میں ہوتی ہے،  اس لئے ہمیں گیما شعاعوں کی بوچھاڑیں نظر آتی ہیں۔یہ گیما شعاعیں جو بلیک ہول کے عین کنارے سے نکلتی ہیں،  ستارے کی بیرونی پرت کو چیرتی ہوئی خلاء میں دور دور تک بکھر جاتی ہیں۔ یہ گیما بوچھاڑیں اپنے آپ میں ایک نہایت ہنگامہ خیز واقعہ ہوتی ہیں : ایک جناتی ستارہ اپنے آپ کو ریزہ ریزہ کر کے بلیک ہول بن جاتا ہے۔ یہ گیما بوچھاڑیں اس قدر توانا ہوتی ہیں کہ پوری کائنات کو منوّر کر دیتی ہیں۔ یہ اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ کائنات کے کسی بھی دور دراز حصے میں ان کا اخراج دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کائنات کی روشن ترین چیزوں میں سے ایک ہیں۔

ایک سپرنووا اس قدر توانائی خارج کرتا ہے جتنی ہمارا سورج اپنی دس ارب سالہ زندگی میں مجموعی طور پر خارج کرے گا۔ لیکن گیما شعاعوں کا اخراج،  سپرنووا سے بھی دس کروڑ گنا زیادہ توانائی سے لبریز ہوتا ہے۔ توانا ہونے کے ساتھ ساتھ،  یہ شعاعیں انتہائی مہلک بھی ہوتی ہیں۔ خدانخواستہ اگر گیما شعاعوں کی کوئی بوچھاڑ اپنی اسی توانائی کے ساتھ ہماری زمین سے آ ٹکرائے،  تو سیکنڈوں میں زمین کی تمام فضا کو ختم کر دے گی۔ ایک بار اگر یہ زمین تک پہنچ گئیں،  تو وہ زمین کو نائٹرک آکسائڈ میں نہلا دیں گی،  جو اوزون کی حفاظتی تہہ کو تہس نہس کر دے گی۔ یہ شعاعیں کرۂ ارض کی زندگی کو براہ راست نشانہ بنائیں گی۔ ان سے الجی ختم ہو جائے گی۔ غذائی پیداوار کی پوری زنجیر،  جس پر خود ہمارا انحصار ہے،  پوری ختم ہو جائی گی۔ اگر ان شعاعوں کا اخراج،  زمین کے تھوڑے بھی نزدیک سے ہوا،  تو یہاں جاندار انواع بڑے پیمانے پر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی،  معدوم ہو جائیں گی۔ گیما شعاعوں کی یہ بوچھاڑیں،  ہمارے سابقہ اندازوں سے کہیں زیادہ عام ہیں۔ لہٰذا بہت ممکن ہے کہ ماضی میں کبھی انہوں نے کرۂ ارض کا رخ بھی کیا ہو۔ یہ یقیناً بہت ہی خوفناک صورتحال رہی ہو گی،  اگر ماضی میں کبھی ایسا ہوا ہو۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ماضی میں ایسا کچھ وقوع پذیر ہو چکا ہے،  تو کیا دوبارہ بھی ایسا ہو سکتا ہے ؟ مگر ایسا دوبارہ ہونے کے لئے کسی بہت ہی دیو ہیکل ستارے کا مرنا لازمی ہے۔ ہم سے سب سے قریبی ستارہ ایٹا کرینائی (Eta Crainae) ہے،  جو اس قدر دیو ہیکل ہے کہ اس کی موت،  گیما شعاعوں کی زبردست بوچھاڑ خارج کرسکے۔ یہ سحابیہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے،  جو خلاء میں ہر طرح کا مادّہ بکھیر رہا ہے۔ یہ ستارہ بہت ہی غیر قیام پذیر ہے۔ مگر صرف ایٹا کرینائی ہی ہمارے لئے واحد خطرہ نہیں۔ بہت سے دوسرے مرتے ہوئے ستارے،  خلاء میں ہم سے قریب موجود ہیں۔ آپ چاہے یقین کیجئے یا نہ کیجئے،  ان میں سے ایک ستارہ جس کا نام WR104 ہے،  وہ بالکل ہماری زمین ہی کی طرف رخ کئے ہوئے ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ایسا ہو گا۔ بلکہ یہ ہے کہ کب ہو گا؟ البتہ،  اچھی خبر یہ ہے کہ شاید ہمیں کبھی پہلے سے پتا ہی نہیں چلے گا۔ گیما بوچھاڑیں اس سے پہلے ہی ہمیں آ لیں گی کہ جب تک ہم کچھ کرنے کے قابل ہوں۔ لہٰذا قصہ مختصر کہ ہمیں اس کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمیں کبھی پتا ہی نہیں چلے گا کہ کب کوئی ستارہ ہائپرنووا کی شکل میں پھٹ پڑے گا۔ خیر! اس سے پہلے کہ ہم جان سکیں کہ کوئی ستارہ ہمارے آس پاس (صرف چند نوری سال کے فاصلے پر) یہ حرکت کرنے جا رہا ہے،  اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ دراصل ہم پہلے ہی گیما بوچھاڑوں کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہر دن،  ہر سیکنڈ میں ہمارا واسطہ ان گیما بوچھاڑوں سے پڑتا ہے۔ مگر یہ ہم سے بہت دور ہوتی ہیں۔

جب جناتی حجم کے عظیم ستارے پھٹتے ہیں،  تو یہ کائنات میں عظیم دھماکے کرتے ہیں۔ مگر ابھی کچھ عرصہ پہلے تک کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا چیز ہے جو انہیں اس قدر توانائی بہم پہنچاتی ہے۔ سائنس دانوں نے جب کمپیوٹر پر سپرنووا بننے کی نقل (سمیولیشن) تیار کی تو انہیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ کمپیوٹر سمیولیشن یہ ظاہر کر رہی تھی کہ مرتے ہوئے ستارے میں اتنی توانائی نہیں ہو گی جو اسے پھٹ پڑنے کے لئے درکار تھی۔ فلکیات کی دنیا میں یہ مسئلہ ایک مصیبت بن گیا تھا۔ کمپیوٹر سمیولیشن نے ستارے کے پھٹ پڑنے کے عمل میں اس توانائی کا ساتھ دینے سے معذوری ظاہر کر دی تھی۔ ستارے کو پھاڑنے کے لئے مزید توانائی کی ضرورت تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ ماہرینِ فلکیات اس گتھی کو سلجھانے سے قاصر تھے۔

بصری اشعاع جو ہم تک پہنچتی ہیں،  وہ اس ستارے سے پیدا ہونے والی تمام توانائی کا نہایت ہی معمولی سا حصّہ ہوتی ہیں۔ پھیلتی ہوئی گیسوں سے جو حرکی توانائی خارج ہوتی ہے،  وہ پوری توانائی کا صرف ایک فیصد بنا پاتی ہے۔ یہ بات سائنس دانوں کو پریشان کر رہی تھی کہ باقی نناوے فیصد توانائی آخر کہاں گئی۔ سائنس دانوں کے پاس کمپیوٹر سمیولیشن کو اصل سپرنووا سے مطابقت میں لانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔ اور وہ یہ کہ سمیولیشن میں پراسرار ذیلی ذرّات "نیوٹرائنو” (Neutrino) بھی شامل کر دیئے جائیں۔ ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا تھا۔ یہ تو کہیں آسان کام تھا،  مگر اصل بات اس چیز کو واقعتاً ثابت کرنا تھا کہ درحقیقت سپرنووا میں یہی نیوٹرائنو کارفرما ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہماری ایک قریبی کہکشاں میں،  جس کا نام "بڑا مجیلانی بادل” (Large Magellanic Cloud) ہے،  ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار سال پہلے سپرنووا کا ایک دھماکہ ہوا تھا۔ اس دھماکے کی روشنی (اور دیگر اشعاع) ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار نوری سال کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم تک 1987ء میں پہنچیں ۔ یعنی اُس سال ہم نے اس سپرنووا کی پہلی جھلک دیکھی۔ اسی مناسبت سے اس سپرنووا کا نام SN-1987-A رکھ دیا گیا۔

سپرنووا 1987-A کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ کسی بھی سپرنووا کو اس کے پھٹتے وقت،  دوربین کی ایجاد کے بعد،  پہلی بار دیکھا جا رہا تھا۔ ہم اس قابل ہو گئے تھے کہ اسے اپنے جدید آلات کی مدد سے پھٹتے ہوئے دیکھ سکیں ۔ جو ہم نے اب تک خاص اسی مقصد کے لئے بنائے تھے۔ ان میں سے ایک جناتی قسم کا آلہ تھا جو زیر زمین دفن تھا۔ اس آلے کا کام ہی نیوٹرائنو کی تلاش تھا۔ سائنس دانوں نے نیوٹرائنو کی بوچھاڑ کا سراغ لگا لیا تھا۔ یہ نہایت شاندار دریافت تھی کیونکہ سائنس دان برسوں سے کہتے آ رہے تھے کہ ننانوے فیصد توانائی،  نیوٹرائنو کی صورت میں ہوتی ہے۔ مگر اس سے پہلے کسی نے اس بات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ اب ہم نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ سپرنووا کی وہ ننانوے فیصد توانائی ان نیوٹرائنو ہی کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔ نیوٹرائنو بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں،  اتنے چھوٹے کہ ہائیڈروجن ایٹم کا مرکزہ بھی ان کی جسامت سے ایک ارب بڑا ہوتا ہے۔ یہ ہر قسم کے نیوکلیائی تعامل میں پیدا ہوتے ہیں ۔ چاہے وہ نیوکلیائی بم کا دھماکہ ہو،  ایٹمی بجلی گھر ہو یا پھر ستاروں کے پھٹنے کا عمل۔ اگر ہم کسی روشنی کے بجائے نیوٹرائنو کی مدد سے دیکھنے کے قابل ہو جائیں،  تو ہمیں اپنے ہر طرف نیوٹرائنو ہی نیوٹرائنو دکھائی دیں گے … یہ اتنے زیادہ ہیں کہ ہماری "نیوٹرائنو بصارت” کو خیرہ کر دیں گے۔ (لیکن ہمارے لئے فی الحال تو یہ نادیدہ قسم کے ذرّات ہی ہیں۔ ) اس وقت بھی جبکہ آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں،  کھرب ہا کھرب نیوٹرائنو آپ کے جسم میں سے گزر رہے ہیں۔ درحقیقت وہ فرش کے نیچ۱۹۶۳ے سے نکل کر ہماری ٹانگوں میں سے گزر رہے ہیں۔ یہ بات واقعی نہایت عجیب سی ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ اتنے زیادہ چھوٹے ذرّات جو ہمارے جسم میں سے تیزی سے گزر رہے ہیں،  وہ کہاں سے توانائی حاصل کر رہے ہیں ؟

سپرنووا کے پھٹنے سے پہلے جب کسی ستارے کا قلب منہدم ہونا شروع ہوتا ہے،  تو اس میں موجود ایٹم بھی شدید دباؤ کے تحت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ ستارے کا قلب اس قدر گرم اور شدید دباؤ کا حامل ہوتا ہے کہ وہ اس ایٹمی ملبے کو نیوٹرائنو ذرّات میں تبدیل کر دیتا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ سپرنووا بہت ہی بڑی تعداد میں نیوٹرائنو کو اس وقت جنم دیتے ہیں جن ان کا قلب،  نیوٹرون ستارے میں منہدم ہوتا ہے۔ لگ بھگ دس سیکنڈ تک ستارے کے قلب سے اتنے زیادہ نیوٹرائنو ذرّات خارج ہوتے ہیں جو اس مختصر سے دورانئے میں ساری کائنات میں پیدا ہونے والی توانائی سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر،  یہ واقعی بہت ہی روشن ہوتا ہے۔ قوّت ثقل ان نیوٹرائنو کو قلب میں جکڑ کر نہیں رکھ سکتی۔ وہ بڑی تیزی سے،  اور انتہائی توانائی کے ساتھ،  گویا مرتے ہوئے ستارے کا سینہ چیرتے ہوئے باہر نکل جاتے ہیں ۔ اور روشنی کے اس زبردست جھماکے کا حصہ بن جاتے ہیں جو سپرنووا کے پھٹتے وقت وجود میں آ کر ہر طرف پھیل رہا ہوتا ہے۔

نیوٹرائنو کی دریافت نے سپرنووا کو سمجھنے کا انداز مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ مگر ابھی سپرنووا کا اس راز سے پردہ اٹھانا باقی تھا جس نے کائنات کا مقدر بدل کر رکھ دیا تھا۔ سپرنووا دھماکے سے پیدا ہونے والی روشنی اس قدر چمکدار ہوتی ہے کہ کائنات میں دور دور تک نظر آتی ہے۔ اسی سے ماہرین فلکیات کو کائنات کی پراسرار ترین گتھیاں سلجھانے میں بہت مدد ملی۔

جیسا کہ ہم پہلے باب میں پڑھ چکے ہیں،  کائنات کی ابتداء آج سے 13۔ 7 اَرب سال (تقریباً 14 اَرب سال) پہلے،  بگ بینگ سے ہوئی تھی۔ ابتدائی کائنات نے ایک ایسے نقطے سے پھیلنا شروع کیا جس کی جسامت ایک ایٹم سے بھی بہت چھوٹی تھی۔ آج کائنات اب ارب ہا ارب نوری سال پر پھیلی ہوئی ہے ۔ اور مزید پھیل رہی ہے۔ شاید مستقبل بعید کی نسلیں،  بگ بینگ کے بارے میں نہ جان سکیں۔ ہم اس لئے بگ بینگ کی سراغرسی کرسکتے ہیں کیونکہ ہم اپنے ارد گرد کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور ہٹتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن،  ایک دن وہ بھی آئے گا جب کہکشائیں ایک دوسرے سے اتنی زیادہ دور ہو چکی ہوں گی کہ انہیں آسمان پر دیکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ کہکشاؤں کے درمیان اتنا زیادہ فاصلہ ہو گا کہ روشنی بھی ایک سے دوسری کہکشاں تک پہنچنے سے قاصر رہے گی۔ قبل ازیں سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ پھیلتی ہوئی کائنات بتدریج سست پڑ جائے گی۔ مگر یہ ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ دوہرے ستاروں سے ٹائپ 1-Aسپرنووا وجود میں آتے ہیں۔ یہ اس وقت پھٹتے ہیں جب کوئی سفید بونا ستارہ ہمارے سورج کی کمیت سے ٹھیک 1۔ 4 گنا زیادہ کمیت کا ہو۔ ان کی روشنی بھی ایک جیسی ہوتی ہے۔ یہ خلاء میں فاصلہ ناپنے کا بہترین پیمانہ ہیں۔ ہمیں ٹھیک ٹھیک معلوم ہے کہ ان سے کتنی روشنی خارج ہوتی ہے،  اور یہ کہ ان سے کتنا دُور ہونے پر یہ روشنی کس قدر ماند پڑ جائے گی۔ غرض ٹائپ 1-A سپرنووا کو دیکھتے ہوئے جب ہم ان کی روشنی ناپتے ہیں،  تو ہم ان کا فاصلہ آسانی سے معلوم کرسکتے ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف ہم اپنی اور قریبی کہکشاؤں کے فاصلے ناپ سکتے ہیں بلکہ ارب ہا ارب نوری سال دور سے آنے والی روشنی کا بھی صحیح سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اور ان کے ذریعہ فاصلہ ناپنے کی اس صلاحیت نے ایک زبردست دریافت کی بنیاد رکھی۔

ماہرین فلکیات سمجھتے تھے کہ انہوں نے یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ثبوت تلاش کر لئے ہیں کہ کائنات کا پھیلاؤ سست پڑ رہا ہے۔ مگر ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ہوا یوں کہ 1998ء میں ماہرینِ فلکیات نے ایک غیر معمولی اور ہماری تمام سابقہ امیدوں کے برخلاف ایک دریافت کر لی۔ اس وقت تک یہ بات مسلّم تھی کہ کائناتی پھیلاؤ،  قوّت ثقل کی وجہ سے،  سست پڑ رہا ہے۔ مگر یہ دریافت تو بالکل اُلٹ تھی: کائناتی پھیلاؤ تو تیز تر ہو رہا تھا۔ یہ تو اسرا ع پذیر تھا! ٹائپ 1-A سپرنووا سے آنے والی روشنی نے کائناتی پھیلاؤ کے بارے میں ماہرین فلکیات کی سوچ ایک بار پھر اُتھل پتھل کر کے رکھ دی۔ مگر تب تک ماہرین فلکیات یہ نہیں جان پائے تھے کہ آخر وہ ایسی کونسی چیز ہے جو کائنات کے اسراع پذیر پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ پھر انہوں نے غور و فکر شروع کیا کہ کہیں یہ کوئی ایسی توانائی تو نہیں جو اسراع پذیر کائناتی پھیلاؤ کا موجب بن رہی ہے۔ ہم اب تک یہ نہیں جانتے کہ وہ توانائی آخر کیا ہے،  کیسی ہے،  اور کس طرح عمل پذیر ہو رہی ہے۔ بہرحال! یہ جو کچھ بھی ہے،  نہایت پراسرار ہے۔ اور اس پراسرار چیز کو آج ہم "تاریک توانائی” (Dark Energy) کے نام سے جانتے ہیں۔

مگر اسے ثابت کرنا نہایت ہی مشکل ہے،  کیونکہ نہ تو یہ نظر آتی ہے اور نہ ہی اسے چھوا جا سکتا ہے ۔ اور نہ ہی اس کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ سرِدست ہمیں تاریک توانائی کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں معلوم۔ اس کی طبیعیاتی نوعیت کیا ہے ؟ یہ کہاں سے آئی ہے ؟ یہ اب تک دنیائے طبیعیات کی ایک مشکل ترین پہیلی بنی ہوئی ہے۔ تاریک توانائی سے لے کر بلیک ہول کے بننے تک،  سپرنووا نے کائنات کی بہت سی پیچیدہ گتھیاں سلجھائی ہیں ۔ اور ساتھ ہی ساتھ نئے سوالوں کو بھی جنم دیا ہے۔ پھٹتے ہوئے ستارے،  زندگی اور کائنات کو بنیادی خام مال فراہم کرتے ہیں ۔ اور ہمیں بتاتے ہیں کہ کائنات میں بکھرے ہوئے عناصر کی تخلیق کیسے ہوتی ہے۔ یہ ہضم کرنا نہایت مشکل ہے کہ ہمارے جسموں کے ایٹم،  اربوں سال پہلے کسی سپرنووا میں پیدا ہوئے تھے۔ صحائف کہتے ہیں کہ انسان کی تخلیق خاک (Dust) سے ہوئی ہے ۔ اور سائنس یہ تصدیق اس طرح کرتی ہے کہ انسان،  ستاروں کی خاک (Star Dust) سے پیدا ہوئے ہیں۔

سپرنووا،  زندگی کو پروان چڑھانے کی ناگزیر کڑی ہیں۔ ہم سپرنووا کی باقیات میں سے ہیں۔ ہم ان ہی کے بچے ہیں۔ انہوں نے ہمارے لئے اپنی جان قربان کر دی۔ ہم ان ہی کی خاک ہیں۔ سپرنووا کے بغیر ہمارا وجود ممکن ہی نہیں تھا۔ جب ہم کبھی آسمان میں دور ستاروں کو دیکھیں،  تو یہ ضرور یاد رکھیں کہ کبھی ہم بھی ان ہی کا حصّہ تھے۔ کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ سپرنووا کا سنہرا دور ختم ہو رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے،  کفایت شعاری سے جلنے والے ستارے،  جیسا کہ ہمارا سورج ہے،  زیادہ اور وافر مقدار میں کائنات میں موجود ہیں ۔ اور جناتی حجم والے ستارے کم ہو رہے ہیں۔ بہرحال! سپرنووا نے ہمیں کہکشائیں دیں،  نظام ہائے شمسی دیے۔ ستارے اور سیارے دیے۔ انہوں نے ہمیں اور ہر اُس چیز کو جو ہم دیکھتے ہیں،  پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سپرنووا،  تعمیر و تخریب کے عین درمیان میں ہیں۔ ہماری کائنات کی تقدیر،  ان مرتے ہوئے ستاروں ہی کی راکھ میں پنہاں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

۶۔کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے

6. Extreme Planets

 

 

کچھ عرصے پہلے تک ہم صرف کرۂ  ارض اور ان سیّاروں سے واقف تھے جو سورج کے گرد چکر لگاتے تھے۔ مگر اب دوسرے چٹانی سیّارے (Rocky Planets)اور گیس کے عظیم گولے (Gas Giants) دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے دریافت ہو چکے ہیں اور اپنی ارتقاء کی انوکھی سرگزشت سنا رہے ہیں۔ ان سیّاروں کی ابتدائی تاریخ ہنگاموں سے بھرپور رہی ہے۔ سیّارے پوری کائنات میں ایک ہی طریقے سے جنم لیتے ہیں۔ ان کی پیدائش اس باقی ماندہ بچی ہوئی خاک اور گرد کے ملبے  سے ہوتی ہے جو ستارے کی پیدائش کے بعد باقی  رہ جاتی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر وہ سب ایک ہی مادّے سے اور ایک ہی طریقے سے پیدا ہوئے ہیں تو پھر وہ ایک دوسرے سے اتنے مختلف کیوں ہوتے ہیں۔ کائنات کہکشاؤں،  ستاروں،  بلیک ہول اور دیگر اجسام سے بھری ہوئی ہے۔ اب سیّارے بھی اسی لامحدود تعداد کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔

ہمارے نظام شمسی کے آٹھ سیّارے ہیں۔ مگر ہمیں معلوم ہے کہ وہ سمندر میں سے ایک قطرے ہی کی مانند ہیں۔ جس لمحے سائنس دانوں کو یہ پتہ چلا کہ کائنات میں دوسرے ستاروں کے گرد بھی سیّارے چکر لگا رہے ہیں وہ سائنسی تاریخ کا ایک یادگار لمحہ تھا۔ سیّارے تو کائنات میں نہایت ہی عام ہیں۔ ملکی وے کہکشاں کے  دو کھرب ستاروں میں سے کئی ارب ستاروں کے گرد سیارے مو موجود ہیں۔

۲۰۰۹ء میں ناسا نے کیپلر خلائی دوربین (Kepler Space Telescope) چھ سالہ مشن پر خلاء میں بھیجی۔ اس کا کام نئے سیّاروں کی کھوج کرنا تھا۔ ابھی تک خلاء نوردوں نے ۱۸۵۰کے قریب سیّارے تلاش کر لئے ہیں ١۔ ان میں سے کچھ گیس کے گھومتے ہوئے عظیم گولے ہیں جو سیّارہ   مشتری سے پانچ گنا زیادہ حجم کے ہیں۔ دوسرے دیو قامت چٹانی دنیائیں بھی  (Super Earths)ہماری کرۂ ارض کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی دنیائیں ہیں۔ ان میں سے کچھ انتہائی خطرناک قسم کے مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں وہ مدار ان کے اپنے ستارے سے اس قدر قریب ہیں کے وہ ستارے ان کو سوختہ کر رہے ہیں۔ ایک بات تو نہایت واضح ہے کہ کوئی بھی ایک سیّارہ     کسی دوسرے سیّارے جیسا نہیں  ہے۔ ہر ایک اپنی مثال آپ ہے۔ زیادہ تر سیّارے بہت دور ہیں اور ان کا مشاہدہ کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے۔ ان سیّاروں کے کام کرنے کا طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے ہمیں زیادہ انحصار اپنے ان آٹھ سیّاروں کے کام کرنے کے طریقہ پر کرنا پڑتا ہے۔ ان سیّاروں پر جو ہمارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔

ہمارے اپنے نظام شمسی کے سیّارے دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔ ان میں سے چار پتھریلے اور چٹانی سیّارے سورج کے قریب اندرونی مدار میں چکر لگا رہے ہیں  جن میں عطارد (Mercury)،  زہرہ(Venus)، زمین(Earth) اور مریخ(Mars) شامل ہیں۔ جبکہ سورج کے بیرونی مدار میں بھی چار سیّارے جو گیس کے عظیم گولے ہیں چکر کاٹ رہے ہیں جن میں مشتری(Jupiter)،  زحل(Saturn)،  نیپچون(Neptune) اور یورینس (Uranus)  شامل ہیں۔ ان آٹھ  سیّاروں  میں سے ہر ایک سیّارہ     بہت ہی مختلف اور منفرد ہے۔ ان کی یہ انفرادیت ان کے پیدا ہونے کے ساتھ آج سے ٤۔ ٦ ارب سال پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔  جب سورج نے جلنا شروع کیا تو اس نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے عظیم بادلوں کو چھوڑ دیا تھا۔ سارے سیّارے چاہے وہ اندرونی چٹانی سیّارے ہوں یا  بیرونی گیس کے گولے ہوں سب کے سب اسی بچی ہوئی کونیاتی گرد کے ملبے سے وجود میں آئے۔ ہمارے نظام شمسی کے سارے سیّارے ایک ہی خام مال سے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ اسی ایک گرد و غبار اور گیس کے بادل سے بنے ہیں۔ مگر وہ مختلف ماحول میں پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ سورج کے قریب پیدا ہوئے ہیں جہاں انتہائی  درجہ کی گرمی تھی۔ کچھ سورج سے تھوڑے دور جو نسبتاً کم گرم علاقے تھے وہاں بنے۔ کیونکہ ان کے بننے کی جگہ کا ماحول بہت زیادہ  ایک دوسرے سے الگ تھا لہٰذا ہر سیّارہ   ایک منفرد شناخت کے ساتھ پیدا ہوا۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک جیسے خام مال کے ساتھ جس میں سلیکٹ، پانی، ہائیڈروجن، میتھین، اور دوسرے عناصر شامل تھے،  نظام شمسی کے سیّاروں کی ابتداء ہوئی۔ یہ عناصر ان سیّاروں کے بنیادی اجزاء میں شامل تھے جیسے کہ کسی کیک کو بناتے ہوئے ہم میدہ،  چینی، انڈے،  وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مختلف ماحول اور درجہ حرارت میں پید ا ہوئے۔ ہمارے نظام شمسی میں تمام سیّارے مختلف درجہ حرارت میں رہتے ہوئے تشکیل پائے۔ درجہ حرارت کے اسی تفاوت  نے ان کو ایک دوسرے سے بالکل مختلف بنا دیا۔ حرارت اور گرمی کی زیادتی کی وجہ سے سورج سے قریب سیّاروں کی گیس جل گئی اور پانی ابل گیا۔ صرف وہ مادّہ جو زیادہ درجہ حرارت برداشت کرسکتا تھا جیسا کہ دھاتیں اور پتھر وغیرہ وہ ہی باقی بچے رہ گئے۔ یہ ہی وجہ  ہے کہ سورج کے اندرونی حصّے میں پتھریلے سیّارے وجود میں آئے  جبکہ سورج کی گرمی سے دور مختلف سیّارے وجود میں آئے۔

سیّاروں کی قسمیں ان کے گیسی و گردی بادلوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ بات اس چیز پر منحصر ہے کہ گیسی و گردی غبار میں کون سے اجزاء ترکیبی موجود ہیں۔ اگر کسی ستارے کے ارد گرد کوئی چٹانی سیّارہ   چکر نہیں لگا رہا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے گیسی بادلوں میں وہ مادّہ شامل نہیں تھا جو اس کو پتھریلا و دھاتی بنا سکے۔ لہٰذا اس کے ارد گرد صرف  گیس کے عظیم گولے ہی بن سکتے ہیں۔ پتھریلے سیّاروں کے لئے چٹانوں اور دھاتوں سے لبریز گردو گیس کے بادلوں کی  ضرورت ہوتی ہے۔

دوسرے دور میں جب گرمی کم ہوتی ہے تو سیّارے ٹھنڈا ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ ان میں موجود کچھ عنصر جن کا درجہ ابال کافی زیادہ ہوتا ہے وہ ٹھنڈا ہو کر ٹھوس شکل اختیار کر لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معدنیات کے ذرّات جنم لیتے ہیں۔ یہ ننھے ذرّات ان نئے بننے والے پتھریلے سیّاروں کی بنیاد ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک دوسرے کے ساتھ چپکنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک ذرّہ دوسرے ذرّے سے ٹکراتا ہے اور پھر ایک ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ ان سے دوسرے ذرّات آ کر ٹکراتے ہیں اور گرد کا ایک بڑا سالمہ بناتے ہیں اور اسی طرح کرتے کرتے وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ اس عمل کو  تہہ جما نا (Accretion) کہتے ہیں۔ یہ بڑے ہوتے ہوتے چٹانی پتھر بناتے ہیں۔ پھر یہ چٹانیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر بڑے بٹے (Boulder))بناتی ہیں۔ پھر وہ بٹے آپس میں مل کر اور بڑے بٹے بناتے ہیں۔ آخرکار اس کا حجم اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ اس کی قوّت ثقل مادّہ کو کھینچنا شروع کر دیتی ہے۔ اب وہ ایک دوسرے سے ٹکرا کر بڑے ہونے کے بجائے مادّے کو کھینچنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہمارے اپنے نظام شمسی میں پہلے پہل کافی نوزائیدہ سیّارے موجود تھے جن کی تعداد کا تخمینہ کوئی سو کے قریب لگایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے۔ ہم اگر سیارچوں کی پٹی میں ویسٹا ٤ کو دیکھیں گے  تو ہم کو اندازہ ہو گا کہ چٹانی سیّارے کو کتنا بڑا ہونا چاہے کہ وہ اس قابل ہو کہ مادّے کو اپنی طرف کھینچ سکے اور کرۂ  کی شکل حاصل ہو سکے۔ ویسٹا ٤ صرف۳۲۹٩ میل پر محیط ہے  اور حجم میں اتنے چھوٹے ہونے کی وجہ سے ہی وہ کرۂ کی شکل حاصل نہیں کر سکا۔ ایک بڑھتے ہوئے سیّارے کو ۵۰۰ میل پر پھیلا ہوا ہونے چاہے۔ تب کہیں جا کر اس کی ثقلی قوّت اس قابل ہو گی کہ اس کو کرۂ  کی شکل میں ڈھال سکے۔ اس سے تھوڑا سا بھی چھوٹا ہوا تو اس کی شکل کرۂ  کے علاوہ ہی ہو گی۔

نوزائیدہ سیّارے مادّے کو ہضم کرتے رہے۔ ہر ٹکراؤ ان کو گرم سے گرم تر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ پگھلنا شروع ہو گئے۔ اب قوّت ثقل کا کام پھر شروع ہو گیا۔ اس نے بھاری چیزوں کو ہلکی چیزوں سے علیٰحدہ کرنا شروع کر دیا۔ ہلکے عناصر قشری سطح پر تیرنے لگے اور بھاری عناصر جن میں سے اکثریت دھاتی عناصر کی تھی وہ نیچے جمع ہونے شروع ہو گئے  اور انہوں نے سیّاروں کی کثیف قلب ان کے مرکز میں بنانی شروع کر دی جیسے کہ وہ آج ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ اب ان سیّاروں کو ایک ہنگامہ خیز وقت سے بھی گزرنا تھا ایک ایسا  بے رحمانہ دور جو اس بات کا تعین کرتا کہ کون سا سیّارہ   باقی رہے گا اور کونسا فنا ہو جائے گا۔ جنم لینے والا کوئی بھی ستارا اپنی ابتدائی شکل میں موجود نہیں تھا۔ وہ بہت زیادہ بدل چکے تھے۔ انہوں نے صرف اور صرف قوانین قدرت کے آگے سر جھکا دیئے تھے۔ ۴۔۵  ارب سال  پہلے ہمارے سورج کے گرد سو کے قریب ستارے گردش میں تھے۔ مگر پھر وہ ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ سیّاروں کی ابتدائی زندگی نہایت ہی تباہی و بربادی سے بھری تھی اور اسی ہنگامہ خیزی نے ان کا مقدر مقرر کرنا تھے۔ سیّاروں کے ٹکراؤ کے بڑھنے کا ساتھ ساتھ کچھ سیّارے دوسروں کا مال ہضم کر کے خود کو پروان چڑھا تے رہے  اور جس سیّارے کا جتنا حجم بڑھتا گیا وہ اتنا ہی زیادہ دوسروں کا مال ہضم کرتا گیا۔ سیّاروں کی سطح پر خلاء میں سے گرد و غبار کی بارش ہوتی رہی۔

جب کافی  عرصہ گزر جانے کے بعد یہ ہنگامہ رکا تو سورج کے اندرونی مدار میں صرف چار چٹانی سیّارے ہی باقی بچے تھے۔ یہ چاروں سیّارے آپس میں ایک دوسرے سے نہایت ہی مختلف تھے۔ ہر ایک کی اپنی کتھا تھی۔ مریخ ایک منجمد بنجر زمین کی طرح ابھرا۔ زمین کی سطح پر پانی مائع حالت میں بہنے لگا۔ زہرہ آتش فشانی جہنم بن گیا اور عطارد ایک ایک چھوٹا بے لطف اور نہایت گرم ترین جگہ  بن گئی۔ عطارد کی یہ حالت ایک نہایت زبردست ٹکر کا نتیجہ ہی تھا۔ عطارد نہایت زیادہ کثیف اور بہت ہی باریک قشر رکھتا ہے۔ لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ اپنی موجودہ شکل سے کافی بڑا ہو مگر پھر اس سے کوئی چیز اس طرح اور اس زاویے سے ٹکرائی ہو کہ اس ٹکر نے اس کا ہلکا چھلکا اتار دیا ہو اور اس کا کثیف حصّہ ہی بچ پایا ہو۔ نوزائیدہ کرہ ارض نے بھی ایک بڑا ٹکراؤ جھیلا۔ اس کے پیدا ہونے اور موجودہ شکل میں آنے کے آخری وقتوں میں کوئی چیز زمین سے ایسے ٹکرائی کہ زمین کا کافی سارا حصّہ خلاء میں بکھر گیا  اور اس ملبے  نے زمین کے مدار میں جمع ہونے شروع کر دیا او ر جمع ہوتے ہوتے اس چیز نے ہمارے چندا ما ما کی شکل لے لی۔ اس بات کا بھی ثبوت ملا ہے کہ کسی چیز نے مریخ کو بھی ٹکر ماری ہے۔ مریخ کی شمالی کرۂ  کی پرت اس کے جنوبی کرۂ کی پرت سے کافی ہلکی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ سیّارہ   مریخ کے ماضی میں کوئی چیز اس کی شمالی کرۂ کی طرف ٹکرائی جس نے اس کی کافی پرت اتار دی اور اس پرت نے مریخ کے جنوبی حصّے میں جمع ہونے شروع کر دیا۔ ان تمام  تصادموں نے دو کام  کئے۔ ایک تو انہوں نے نوزائیدہ سیّاروں کی تعداد کو کم کیا۔ دوسرے انہوں نے باقی بچ جانے والے ستاروں کو نئے اجزاء سے نوازا۔ اگر تصادم کسی دھاتی چٹان سے ہوا تو اس ٹکراؤ کے نتیجے میں  بچ جانے والی دھات  سیّارے کے قلب میں چلی گئی۔ ٹکراؤ اگر کسی ہلکی یا برفانی  چیز سے ہوا تو اس نے سطح پر تیرنا شروع کر دیا اور اوپری پرت کا حصّہ بن گئی۔ سورج کے مدار میں چکر لگا نے والے چاروں سیّاروں کی کہانی تو مکمل ہو گئی۔ ان تمام سیّاروں کا قلب تو ٹھوس دھاتوں سے بن چکا تھا۔ جس کے گرد لوہے کی پگھلی ہوئی دھات بہہ رہی تھی۔ اس پگھلی ہوئی لوہے کی دھات کو پگھلی ہوئی چٹانوں نے اپنے حصار میں لے لیا تھا اور ان پگھلی ہوئی چٹانیں کے اوپر باہری یا اوپری پرت بن گئی تھی۔ ہر چٹانی سیّارہ   ایک ہی طرح اور ایک ہی جیسے اجزاء سے بنا تھا۔ مگر اس کے باوجود اس میں سے ہر ایک نہایت ہی منفرد اور دوسرے سے مختلف تھا۔ ان کی جسامت اور مدار بھی الگ الگ تھے۔

خلاء ہمیں کافی خالی خالی لگتی ہے مگر دراصل ایسا نہیں ہے۔ وہ سورج سے نکلے ہوئے ذرّوں سے بھری ہوئی ہے۔ سورج زبردست قسم کے مقناطیسی جھکڑMagnetic Field)) پیدا کرتا ہے جو اس کی سطح سے بلند ہو کر جناتی قسم کے حلقے ب(Giant Loops)ناتے ہیں۔ جب یہ آپس میں ٹکراتے ہیں تو اس سے شمسی طوفان (Solar Winds)اٹھتے ہیں جو نہایت ہی گرم اور بار دار ذرّات خلاء میں دور دور تک پھیلا دیتے ہیں۔ یہ شمسی طوفان کہلاتے ہیں۔ خلاء میں خلاء نورد ان کو دیکھ سکتے ہیں۔ مگر اس وقت جب وہ اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ جب وہ آنکھیں بند کرتے ہیں تو روشنی کے ہلکے جھماکے سے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ توانائی کے ذرّات ہوتے ہیں جو ہماری آنکھوں میں موجود مائع سے ٹکراتے ہیں تو ہمیں روشنی کے ہلکے جھماکے محسوس ہوتے ہیں اور یہ ہر تھوڑی دیر بعد آپ کو محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ خلاء نورد اگر شمسی ہواؤں کا زیادہ سامنا کریں تو وہ ان کے لئے مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔ اپالو مشن میں چاند کا دو پروگراموں کے درمیان شمسی ہوا چاند سے ٹکرائی تھی اگر وہاں کوئی خلاء نورد ہوتا تو اس کی جان چلی جاتی۔ خلاء میں جانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔

زمین پر یہ شمسی ہوائیں اس قدر نقصان دہ نہیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ ہمیں ایک نادیدہ ڈھال نے ڈھانپے رکھا ہے جو کہ زمین کی قلب کا بنایا ہوا مقناطیسی میدان ہے۔ زمین کے عین مرکز میں میں ٹھوس دھاتی قلب ہے جو کہ سخت لوہے پر مشتمل ایک گیند سی ہے جو مستقل گھومتی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے مقناطیسی میدان وجود میں آتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک نظریہ ہی تھا۔ اس نظریے کو ثابت کرنے کے لئے سائنس دانوں کو اپنا سیّارہ   ایک تجربہ گاہ میں بنانا پڑا۔ اس میں انہوں نے ۱۰  فٹ کی ۲۶ ٹن کی دھاتی گیند کو زمین کے قلب کی نقل کے طور پر استعمال کیا۔ اس کے گرد مائع سوڈیم کو ٩٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھمایا۔ تاکہ اس پگھلے ہوئے دھاتی مادّے کی نقل کی جا سکے جو زمین کے قلب میں چکر لگا رہا ہے۔ اس تجربہ کا مقصد صرف یہ جاننا تھا کہ آیا اس سے مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے یا نہیں۔ تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ زمین کے مقناطیسی میدان کیوں ہیں اور دوسرے سیّاروں کے کیوں نہیں ہیں۔  یہ بالکل ایسے کام کرتا ہے جیسے ہماری گاڑی میں موجود جنریٹر کام کرتا ہے۔ جنریٹر میں گھومتے ہوئے تاروں کے لچھے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اس تجربے میں مائع سوڈیم نے قلب کے گرد   گھومتے ہوئے مقناطیسی میدان پیدا کر دیئے۔ اس نے کافی حد تک برقی موٹر کی طرح کام کیا جس میں حرکی توانائی موٹر کی حرکت سے مقناطیسی توانائی میں  تبدیل ہوتی ہے۔ بالکل یہی چیز زمین کے اندر ہوتی ہے۔ جیسے زمین گھومتی ہے تو اس کے ساتھ گرم مائع دھات اس ٹھوس قلب کے گرد گھومنا شروع کر دیتی ہے۔ جس سے اس کی توانائی مقناطیسی توانائی میں تبدیل ہو جاتی ہے جو زمین کے قطبین سے نکل کر دور تک پھیل جاتی ہے۔

یہ مقناطیسی میدان زمین کی فضا کو شمسی طوفانوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ اگر سیّارے کے  اپنا مقناطیسی میدان ہوں  تو یہ شمسی طوفانوں کو ادھر ادھر بھگا دیتی ہیں۔ یہ مقناطیسی میدان سورج کے شمسی طوفانوں کو موڑ کر کرۂ ارض کی فضا اور اس میں موجود سانس لینے والی ہر شئے کو اس سے بچاتی ہیں۔ کبھی کبھی بڑے شمسی طوفانوں سے نکلنے والی شعاع مقناطیسی میدان سے الجھ پڑتی ہیں۔ جو ہمیں قطبین پر قطبی روشنیوں کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ مقناطیسی میدان کے بغیر شمسی جھکڑ ہماری فضا کو لمحوں میں تباہ کر دیں گے اور پانی کو بھی ختم کر دیں گے۔ جس کے بعد زمین ایک مردہ سیّارے کی طرح بنجر ہو جائی گی۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ مریخ۔

سیّارہ   مریخ بھی زمین ہی کی طرح پیدا ہوا تھا۔ مگر آج یہ ٹھنڈا، خشک  اور بے آب و گیا ہے۔ اس کی فضا نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔ مریخ زمین سے اتنا مختلف کیوں ہے ؟اس بات کا جواب حاصل کرنے کے لئے ۲۰۰۴ء میں ناسا نے دو کھوجی گاڑیاں مریخ کو جانچنے کے لئے روانہ کیں۔ ان کے نام سپرٹ (Spirit)   اور اپر چونٹی (Opportunity) تھے۔جنہوں نے مریخ کی سطح کا میلوں تجزیہ کیا۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مریخ ایک مردہ اور زندگی پنپنے کے لئے ایک نامہرباں صحرا ہی کی طرح ہے۔ اس کی فضا زمین کی فضا کا صرف ایک فیصد ہی ہے۔ مگر اس نے اس بات کی بھی تصدیق کہ ہے کہ وہاں ماضی میں پانی کے پائے جانے کے ثبوت بھی ملے ہیں۔ مریخ ہمیشہ سے صحرا نہیں تھا۔ اس بات کے واضح ثبوت ملے ہیں کہ پانی کبھی اس کی سطح کے نیچے بہتا تھا۔ پھر وہ سطح پر بھی آیا مگر بخارات بن کر اڑ گیا۔ وہاں کچھ جگہیں ایسی بھی ملی ہیں جن کے نشانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہاں پانی کبھی بہتا تھا۔ نہ  صرف پانی اس کی سطح کے نیچے موجود تھا بلکہ وہ اوپر کی سطح پر بہتا بھی تھا اور اگر کبھی وہاں پانی موجود تھا تو غالب امکان یہ بھی ہے کہ وہاں فضا بھی موجود ہو گی۔ تو پھر آخر ایسا ہوا کیا کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ مریخ میں کبھی زندہ آتش فشاں بھی موجود تھے۔ لہٰذا اس کا اندرونی حصّہ کبھی بہت ہی گرم رہا ہو گا اور کیونکہ اس کے اجزاء ترکیبی بھی وہی تھے جو زمین کے تھے لہٰذا اس کے قلب میں بھی ٹھوس دھاتی گیند بھی ہو گی۔ جس کے گرد مائع دھاتیں بھی موجود ہوں گی۔ لہٰذا اس کا  مقناطیسی میدان بھی ضرور رہا ہو گا۔

اہم سوال یہ ہے کہ وہاں اب مقناطیسی میدان کیوں موجود نہیں ہے۔ سیّاروں کی ابتدائی تاریخ میں مریخ کے اپنے زبردست مقناطیسی میدان موجود تھے اور وہ بھی اسی وجہ سے اور اسی طرح سے بنے تھے جیسے کہ زمین کے مقناطیسی میدان۔ مگر مریخ زمین سے چھوٹا سیّارہ   ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی حرارت جلد ہی ختم ہو گئی۔ اور اس وجہ سے  مائع دھاتیں ٹھوس حالت میں آ گئیں۔ ایصال حرارت رک گئی۔ جیسے ہی ایصال حرارت رکی ویسے ہی مقناطیسی میدان غائب ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی شمسی ہواؤں نے اس کی فضا کا تیا پانچہ کر دیا۔ پانی بخارات بن کر اڑ گیا۔ مریخ سرد اور بنجر سیّارہ   بن گیا۔

مریخ، زمین، زہرہ  اور عطارد سب کے سب چٹانی سیّارے سورج کے ١٥ کروڑ میل کے دائرے میں بننے۔ مگر اس سے چار گنا زیادہ دور سورج نے مختلف قسم کے سیّاروں کو گرمایا۔ وہ دیو قامت ہیں اور گیس سے بنی ہوئی عظیم گیندوں کی مانند ہیں۔ ان عفریتوں کی کوئی ٹھوس سطح موجود ہی نہیں ہے۔ ابھی تک خلاء نوردوں نے دوسرے نظام ہائے شمسی میں ۱۸۵۰ ١کے قریب سیّارے دریافت کیئے ہیں۔ تقریباً سب کے سب نہایت مہیب اور قوی ہیکل ہیں  اور سب کے سب گیس سے بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں وہ چار نام نہاد قوی ہیکل گیسی جناتی سیّارے مشتری،  زحل،  یورینس  اور نیپچون ہیں۔ ان سب کی فضا نہایت گاڑھی اور شوربے جیسی ہے۔ جس میں ہائیڈروجن،  ہیلیم،  او ر بہت ساری میتھین ہے۔ اب سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ سورج کے بیرونی حصّہ میں گیسی سیّارے اور اندرونی حصّے میں چٹانی سیّارے کیوں بنے ہیں۔ کیا ان کے اس طرح کی ماہیت کا سبب کہیں ان کا محل وقوع تو نہیں تھا۔

سورج سے ۵۰ کروڑ میل دور کافی ٹھنڈ ہے۔ نظام شمسی کی ابتداء میں کچھ گرد تھی  مگر زیادہ تر گیس اور پانی،  برف کے دانوں میں منجمد تھے۔ جہاں یہ گیسی دیو بننے شروع ہوئے وہاں اتنی سردی تھی کہ برف ٹھوس شکل اختیار کر سکتی تھی۔ وہاں یہ جمع ہو کر دیو ہیکل سیّاروں کی قلب میں ڈھل سکتی تھی اسی وجہ سے یہ دیو ہیکل سیّارے اس قدر قوی الجثہ ہیں۔ وہاں اس قدر برف اور گیس جمع تھی کہ قلب بڑھتا گیا یہاں تک کہ اس کا حجم زمین سے تقریباً ١٠ گنا بڑھ گیا۔ اتنے بڑے مرکزوں نے زبردست قوّت ثقل پیدا کی۔ جس سے اس کی مادّے کو کھینچنے کی طاقت اس قدر بلند ہو گئی کہ اس نے آ س پاس کی ساری گیسوں کو کھینچنا شروع کر دیا۔ گاڑھی فضا دسیوں ہزار میل گہری بن گئی۔ وہ سیّارے جتنے بڑے ہوتے گئے قوّت ثقل اتنی ہی بڑھتی گئی۔ سیّاروں کے گرد جمع ہوتے ہوئے گرد و گیس کے بادلوں نے ان  سیّاروں کے چاندوں کے لئے خام مال  کا کام کیا۔

مشتری اور زحل ہر ایک کے ۶۰ سے زائد چاند ہیں۔ گیسی دیو ہیکل سیّاروں کی ایک اور منفرد خصوصیت  ان کے گرد موجود خوبصورت چھلے (Rings) ہیں۔ زحل ان  تمام گیسی سیّاروں میں اس لئے منفرد ہے کہ اس کے چھلے سب سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ مشتری، یورینس اور نیپچون کے چھلے اس قدر کمزور ہیں کہ ان کو ڈھونڈھ نکالنا ایک دقّت طلب کام ہے۔ مگر بہرحال وہ چھلے ان کے گرد بھی موجود ہیں۔ اگر زحل کے چھلے دور سے دیکھیں تو وہ ایک ٹھوس چپٹی ٹکیہ کی شکل کے لگتے ہیں مگر اصل میں وہ ہزاروں مختلف ٹکڑے ہیں ہر ٹکڑا کچھ میل پر پھیلا ہوا ہے۔

جب کسینی (Cassini) کھوجی زحل کے پاس سے گزرا تو اس نے ارب ہا ارب برف کے ٹکڑے دیکھے جو ٥٠ ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے ان چھلوں میں مدار کے گرد چکر کاٹ رہے تھے۔ یہ برف اور پتھروں کے ٹکڑے آپس میں مستقل ٹکرا رہے تھے۔ ان میں سے کچھ چھوٹے چاندوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں  تو دوسرے مزید ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ مگر کبھی وہ ایک بڑا چاند نہیں بنا سکتے کیونکہ زحل کی زبردست قوّت ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ سائنس دان ابھی اس بات کی تلاش میں ہیں کہ یہ چھلے  شروع میں بنے کیسے تھے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ ایک دم دار ستارہ زحل کے  ایک چاند سے اس زور سے ٹکرایا کہ اسے اس کے مدار سے دھکیل کر زحل کے قریب کر دیا  اور پھر زحل کی زبردست قوّت ثقل نے اس چاند کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے  اور اس چاند کا سارا ملبہ زحل کی قوّت ثقل کے زیر اثر وہاں پھنس گیا جہاں انہوں نے چھلوں کی شکل اختیار کر لی۔

مگر اصل راز تو ان دیو قامت گیسی سیّاروں کے اندر دفن ہے۔ دسیوں ہزار میل ان کے بادلوں کے نیچے جہاں اصل کام ہو رہا ہے۔ یہ اتنی  خطرناک جگہ ہے کہ قانون فطرت کو کھلا چیلنج دیتی ہے۔ نئے دریافت ہونے والے سیّارے زیادہ تر گیسی دیو ہیں جو اپنے ستاروں کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔ وہ اس قدر عظیم الجثہ ہیں کہ ان کے سامنے مشتری ایک بونا سیّارہ   لگتا ہے۔ مگر  سائنس دان اس جستجو میں ہیں کہ کسی طرح یہ معلوم ہو جائے کہ ان کے اندرون  خانہ کیسا ماحول ہوتا ہے۔ مگر فی الحال ابھی یہ ان کے لئے راز ہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کے سیّارہ   مشتری کی فضا ۴۰  ہزار میل گہری ہے اور ہم اس کی سطح پر چلتے ہوئے زبردست قسم کے طوفانوں بھی  کو دیکھتے ہیں جو وہاں موجود گیس جنم دیتی ہے۔ مگر ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان طوفانوں کے نیچے کیا عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ اس بات کو جاننے کے لئے ناسا نے ایک ۱۴  سالہ مشن جس کا نام گلیلیو (Galileo) تھا  مشتری کی جانب روانہ کیا۔ گلیلیو نے ایک کھوجی مشتری کی فضا میں چھوڑا جس کی رفتار ۱۶۰  ہزار میل فی گھنٹہ تھی۔ مشتری  کی گاڑھی فضا میں داخل ہوتے ہوئے پیراشوٹوں نے اس کی رفتار کو کم کیا۔ جب یہ وہاں سے گزر راہ تھا تو اس نے بجلی کو کڑکتے دیکھا۔ وہاں اس نے  ۴۵۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طوفانی ہوائیں چلتے ہوئے دیکھیں۔ اس کھوجی نے اگلے ۵۸  منٹوں تک زمین پر سیّارے کی فضا سے مطلق مواد بھیجا۔

ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گیسی سیّاروں کی کوئی ٹھوس سطح نہیں ہوتی تو پھر اس گلیلیو کے  کھوجی کا کیا ہوا جو مشتری کی فضا میں پھینکا گیا تھا۔ کیا وہ کسی چیز سے ٹکرایا ہو گا۔ اصل میں وہ کھوجی تو بس مشتری کی فضا میں گرتا ہی چلا گیا اور مشتری کی فضا کا دباؤ اس پر بڑھتا چلا گیا۔ جب وہ مشتری کی فضا میں داخل ہوا تھا تو اس پر زمین سے۲۳ گنا زیادہ دباؤ تھا اور اس کا درجہ حرارت ۳۰۰ ڈگری تک جا پہنچا تھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ گیسی دیو سیّارے کی ٹھوس سطح نہیں ہوتی ہے۔ مگر جب آپ اس کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں آپ بہت زیادہ وزن محسوس کرتے ہیں اور آخر کار آپ اس دباؤ کی وجہ سے پچک جاتے ہیں۔ اگرچہ وہ کھوجی صرف ۱۲۴ میل دور ہی گیا تھا مگر وہاں پہنچتے پہنچتے وہ کچلا گیا۔ اگرچہ اس کھوجی کے ذریعہ مشتری کے اندرون خانہ کی تانک جھانک ہو گئی مگر اس کا تاریک دل اب بھی سائنس دانوں کے لئے ایک معمہ ہی بنا ہوا ہے۔

کچھ چٹانی سیّاروں کی طرح  گیسی دیو ہیکل سیّاروں کے بھی مقناطیسی میدان ہوتے ہیں۔ مگر ان کا مقابلہ کسی بھی طرح  چٹانی سیّاروں سے نہیں کیا جا سکتا۔ مشتری کے مقناطیسی میدان کی طاقت زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ۲۰ ہزار گنا زیادہ ہے اور یہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ زحل تک جا پہنچتی ہے۔ مطلب اس کے دائرہ اثر  ۴۰ کروڑ میل دور تک جا پہنچتا ہے۔ زمین ہی کی طرح اس کے مقناطیسی میدان اس کی فضا کی حفاظت کرتے ہوئے شمسی طوفانوں کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ جب سائنس داں مشتری کے مقناطیسی میدانوں کا مطالعہ کر رہے تھے تو انہوں نے یہ بات محسوس کی کہ اس کے مقناطیسی میدان اس کے مہتابوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ آتش فشانی چاند جس کا نام  آئی او (IO) ہے وہ مشتری سے ۲۷  ہزار میل کی دوری پر اس کا چکر کاٹ رہا ہے۔ آئی او کے آتش فشاں  ہر لمحہ ایک ٹن گیس اور غبار فضا میں پھینک رہے ہوتے ہیں۔ مشتری کے مقناطیسی میدان اس کو زبردست بار دار  کر دیتے ہیں  جس سے اشعاع  کی طاقتور پٹی بن جاتی ہے اور یہ ہی بات مشتری کے آ س پاس کے علاقے کو بہت زیادہ متحرک کرتی ہے۔ اگر ہم انٹینا کا رخ مشتری کی جانب کریں تو ہم کو مقناطیسی میدان اور سیّارے کے درمیان تمام رابطوں کو سن سکیں گے۔

مریخ اور زحل کو قطبی روشنیوں کے لئے شمسی ہواؤں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے مقناطیسی میدان اس قدر وسیع ہوتے ہیں  کہ وہ اپنی قطبی روشنی خود ہی پیدا کر لیتے ہیں۔ چندرا خلائی دوربین  (Chandra X-Ray Observatory ) نے مشتری کے قطبین کی روشنیوں کی منظر کشی کی ہے۔ اسی طرح ناسا کے کھوجی کسینی نے  زحل کے قطبین کی روشنیوں کی تصویر کشی کی ہے۔ یہ قطبی روشنیاں اس بات کا مظہر ہیں کہ ان گیسی سیّاروں کے اپنے مقناطیسی میدان ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گیسی سیّارے کس طرح سے اپنا مقناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں۔ زمین پر تو ایک زبردست گرم مائع دھات ٹھوس لوہے کی گیند کے گرد گھوم کر یہ کام کرتی ہے۔ مگر کیونکر گیسی سیّارے بھی ایسے ہی مقناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں۔ جب کہ ان کے قلب میں تو کھولتا ہوا لوہا نہیں موجود ہے۔ سائنس دانوں کو یہ سوال زچ کئے ہوئے تھا کہ آخر کار ان کے قلبوں میں یہ کام کس طرح انجام پذیر ہو رہا ہے۔ ان گیسی سیّاروں کے قلب تو جمی ہوئی گیس اور برف سے بنے ہوئے ہیں۔ سائنس دان ابھی تک اس بات کو پوری طرح نہیں سمجھ سکے کہ مشتری کے قلب کی گہرائی میں اس کا اندرون کس چیز سے بنا ہو گا۔ یہ بات بھی ممکن ہے کہ مشتری کے قلب میں کوئی ٹھوس چیز موجود ہو۔ یا اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس کے  قلب میں کوئی دھات مائع حالت میں موجود ہو۔ شاید ہم یہ بات مستقبل بعید میں کبھی جان پائیں ابھی تو کوئی بھی کھوجی اس قابل نہیں ہے کہ وہ ۴۴  ہزار میل کی گہرائی میں جا کر اس کے قلب کو جانچ سکے۔ گلیلیو تو کچھ دور ہی جا کر تباہ ہو گیا تھا۔

گیسی سیّاروں کے قلبوں پر تحقیق کرنے کے لئے سائنس دانوں  نے مشتری کے قلب کو تجربہ گاہ میں بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیور مور،  کیلی فورنیا  میں واقع نیشنل اگنیشن فیسلٹی تجربہ گاہ (The National Ignition Facility)  میں سائنس دان مشتری کے قلب کی نقل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کام کے لئے وہ نہایت طاقتور لیزر مشینیں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ مشینیں خاص طور  پر اس لئے بنائی ہیں کہ ہائیڈروجن کو اس کی کثافت کی انتہائی بلندیوں پر لے جایا جائے۔ مشتری کے اندر ۴۰  ہزار میل پر پھیلی ہوئی ہائیڈروجن مشتری کے قلب کو زبردست دباؤ کے ساتھ کچل رہی ہے۔ تجربہ گاہ میں اس بات کو دہرانے کے لئے ۱۹۲  لیزر کی کرنیں ایک چھوٹے سے ہائیڈروجن کے ٹکڑے پر ماری گئیں  جس سے ہائیڈروجن کے اس ٹکڑے پر اتنا دباؤ  بڑھ گیا کہ وہ زمینی دباؤ سے دس لاکھ گنا زیادہ ہو گیا  اس دباؤ پر  ہائیڈروجن مائع حالت میں تبدیل ہو گئی مگر جب اس دباؤ کو زمینی دباؤ سے کروڑوں گنا اتنا زیادہ کیا جتنا کہ مشتری کے قلب میں ہو گا تو  تو ہائیڈروجن نے  نہایت ہی عجیب سا برتاؤ کیا۔ ہائیڈروجن نہایت ہی بنیادی عنصر ہے مگر اتنا زیادہ  دباؤ ہائیڈروجن کی ہئیت ہی  بدل دیتا ہے۔ لہٰذا وہ2Hکی سخت دھات میں ڈھل  جاتی ہے۔ سائنس دانوں کے خیال میں مشتری کے قلب میں یہ ہی ہوتا ہے۔ دباؤ اور حرارت مشتری کے قلب میں موجود ہائیڈروجن کو دھاتی شکل دے دیتی ہے۔ مشتری کا یہ دھاتی قلب یا مرکزہ بالکل اسی طرح کام کرتا ہے جیسے زمین پر لوہے کا مرکزہ کام کرتا ہے اور اسی دھاتی ہائیڈروجن سے گیسی سیّارے زبردست مقناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں۔

قوّت ثقل اور حرارت دونوں سیّاروں کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ دونوں سیّاروں کے مرکز سے لے کر اس کی فضا بنانے تک کا تعین کرتے ہیں۔ یہ دونوں سیّاروں کو ان کی موجودہ شکل و صورت دیتے ہیں اور زبردست تخلیقی قوّت کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مگر ابھی ایک  نہایت اہم جز باقی ہے جو سیّاروں کو بالکل مختلف طرح سے بدل  دیتا ہے اور وہ اہم جز ہے ہمارا جانا پہچانا پانی۔ سیّارے  غیر متغیر اور پائیدار لگتے ہیں مگر ان کی ارتقاء پذیری کا عمل کبھی بھی نہیں رکتا۔ ہمارے اپنے نظام شمسی میں ایک سیّارے نے اپنی فضا کو کھو دیا اور ایک بنجر اور ناکارہ زمین میں تبدیل ہو گیا جبکہ ایک اور سیّارہ    جہنم بن کر ابھرا۔ یہاں تک کہ سیّارہ   زمین بھی تبدیل ہو گیا مگر یہاں  یہ تبدیلی پانی کی وجہ سے آئی۔ جب ہم زمین کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ خلاء میں ہمارا سیّارہ   نیلا نظر آتا ہے۔ اس قدر پانی کا مطلب تو یہ ہونا چاہئے کہ ہماری زمین پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ کم از کم خلاء میں دور سے ایسا ہی لگتا ہے کہ ہماری زمین پانی میں ڈوبی ہوئی ہے اس کا تین چوتھائی حصّہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ زمین کی کمیت کے حساب سے پانی کا حصّہ صرف  0.6 فیصد ہے۔ اس میں وہ سارا پانی شامل ہے جو سمندر کی شکل میں ہو یا  زیر زمین میں موجود ہو۔ حقیقت میں تو زمین بہت ہی سوکھی ہوئی ہے۔

اندرونی چٹانی سیّارے سورج کے قریب پیدا ہوئے لہٰذا وہ جلد ہی سوکھنے لگے۔ ان میں موجود پانی یا  تو بخارات بن گیا یا پھر ٹکراؤ کے نتیجے میں ادھر ادھر خلاء میں پھیل گیا۔ یہ تصادم اس قدر خوفناک تھے کہ پانی بخارات کی شکل میں زمین سے ضرور اڑ گیا ہو گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین پر جو ہم پانی دیکھتے ہیں وہ کہاں سے آیا۔ جب ہم مزید دور دیکھتے ہیں تو ہمیں مشتری،  زحل،  یورینس  اور نیپچون  نظر آتے ہیں جہاں پانی کی کثیر اور عظیم الشان مقدار ان کے اندر دفن دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے چاندوں میں بھی کافی مقدار میں پانی موجود ہے ان چاروں گیسی سیّاروں کے تمام چاند کم از  کم ۵۰  فیصد پانی سے بنے ہیں۔ مگر یہ سوال اب بھی اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہے کہ آخر  زمین پر پانی کہاں سے آیا۔  اس کا جواب ہم سے بہت دور ہمارے نظام شمسی میں سیارچوں اور شہابیوں میں دفن ہے جنہوں نے پانی کی کافی بڑی مقدار اب بھی بچا کر رکھی ہوئی ہے۔ پانی سے بھرپور ان لاکھوں سیارچوں اور شہابیوں میں سے اکثر  سیارچے اور شہابیے سورج کے اندرونی حصّے کی طرف نکلتے رہتے ہیں۔ ماضی میں ان میں سے کچھ زمین سے ٹکرا گئے ہوں گے۔ زمین نے یہ سارا پانی ان سیارچوں اور شہابیوں سے ہی حاصل کیا۔ یہ وہی پانی ہے جس  نے زمین کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ مگر دلچسپ بات جو سائنس دانوں کو تنگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ پانی کی اتنی ہی مقدار کیوں سیارچوں اور شہابیوں نے زمین کو عطا کی جتنی کہ زمین  کو زندگی کو پروان چڑھانے کی ضرورت تھی۔ کیا یہ زمین کی خوش قسمتی تھی ؟ اگر پانی کے تناسب میں ذرّہ برابر بھی اونچ نیچ ہو جاتی تو کیا ہوتا۔ اگر پانی اپنی موجودہ مقدار سے ۵۰ فیصد بھی کم ہوتا تو سطح زمین تقریباً خشک ہی ہوتی اور اگر تھوڑا بہت پانی سطح سے اوپر رہ بھی جاتا تو وہ بھی زمین چوس لیتی۔ سطح کے اوپر پانی نہ ہونے کا مطلب بنجر اور ویران زمین ہی ہے۔ دوسری طرف اگر پانی بہت زیادہ ہوتا تو سطح زمین پوری پانی سے ڈھک جاتی یہاں تک کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی بھی پانی میں ڈوب جاتی۔

اگر پانی اپنی موجودہ مقدار سے دگنا ہوتا تو کیا  سیّارہ   زمین جدید زندگی کے لئے موزوں ماحول فراہم کرسکتی تھی۔ ظاہر سی بات ہی کہ جدید طرز زندگی گزارنے کے لئے خشک زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ پانی کی بالکل صحیح اور نپی تلی مقدار نے ہماری جیسی نوع انسانی کو زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ آج سے لگ بھگ ۱۴  ارب سال پہلے ان سیارچوں اور شہابیوں نے اس دنیا کو جس کو میں اور آپ جانتے ہیں بالکل صحیح اور مناسب مقدار میں پانی فراہم کیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کائنات کی کسی اور جگہ یہ ہی سب کچھ دہرایا جا رہا ہو۔ ایک بات تو  ثابت ہے کہ کائنات میں پانی کی کہیں کوئی قلّت نہیں ہے۔ ہائیڈروجن کائنات میں سب سے زیادہ پایا جانے والا سب سے  عنصر ہے  اور  آکسیجن بھی کافی مقدار میں کائنات میں موجود ہے لہٰذا غالب امکان یہ ہے کہ پانی کا سالمہ کائنات کا پسندیدہ ترین سالمہ ہو گا۔ H2O کا سالمہ کائنات میں بننا کوئی بڑی بات نہیں ہو گی اور درحقیقت یہ سالمہ ہماری کائنات میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ پانی کائنات میں ہر جگہ دستیاب ہے اور اب ہم  نے نظام شمسی کے باہر بھی سیّارے دریافت کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

بہرحال زمین جیسا سیّارہ   جو کسی دوسرے نظام شمسی میں موجود ہو ا اور اپنے ستارے کی گرد مدار میں چکر کاٹ رہا ہو  جس کی کمیت اور کیمیائی حالت زمین کے جیسی ہو ابھی  دریافت کرنا باقی ہے۔ انسانیت کے لئے کسی ایسے سیّارے کی کھوج جو ہم سے مماثلت رکھتا ہو اور ہم جس کو  دوسرا گھر کہہ سکیں  ابھی بہت دور ہے۔ مگر ہم اب بھی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں میں موجود  دو کھرب  ستاروں میں لگ بھگ ٤۴۰ ارب ستاروں  کے گرد سیّارے چکر لگا رہے ہیں۔ ہم اب بھی امید کرتے ہیں کہ جب ہم اس سیّاروں کو دریافت کر لیں گے تو وہ ہمیں اپنے سیّارے کے ارتقاء کو سمجھنے میں کافی مدد دیں گے۔ ان دور دراز نظام ہائے شمسی کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیّاروں سے ہم اپنے نظام شمسی کے سیّاروں کی ارتقاء کے عمل کو جان سکیں گے۔

ہم سیّاروں کے سنہرے دور میں داخل ہوئے چاہتے ہیں۔ کائنات میں موجود متنوع فیہ قسم کے سیّاروں کو سمجھنے کی یہ توبس   شروعات ہے۔ سیّارے تو بس کیمیا اور طبیعیات  کے قوانین پر پیرا عمل ہوتے ہیں۔ باقی ان کا مقدر اور قسمت ہوتی ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ کیسے بنیں اور کیسے نظر آئیں۔ سائنس دان پر امید ہیں کہ بس اب کچھ عرصہ کی ہی بات ہے جب وہ زمین کے جیسا کوئی سیّارہ   تلاش کر لیں گے جس کے کیمیائی عناصر بالکل زمین ہی کی طرح ہوں گے  اور اس کا فاصلہ اپنے ستارے سے بالکل مناسب مقام پر ہو گا  اور جس کے پاس موزوں مقدار میں پانی کی بھی فراوانی ہو گی۔ ایک بات تو ثابت ہے کہ کائنات میں ارب ہا ارب سیّارے اپنی دریافت کے منتظر ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

۷۔ نظام شمسی اور پردیسی نظام ہائے شمسی

7. Alien Solar Systems

 

ہمارے نظام شمسی(Solar System) میں کل ملا کر آٹھ سیّارے  اور تین سو کے لگ بھگ چاند ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں موجود ہر چیز سورج کے گرد انتہائی منظّم  طریقے سے اس کے مدار میں چکر کاٹ رہی ہے۔ مگر  اپنی پیدائش کے دور میں یہ سب کچھ اتنا منظّم  اور ترتیب میں نہیں تھا۔ ہمارے نظام شمسی کی تاریخ ہنگامہ خیزی اور تباہی سے بھرپور تھی۔ اس ہنگامہ خیز دور سے صحیح سلامت اور بچ کر نکل جانے والے سیّارے اور چاند آج نہایت منظّم   اور ترتیب میں نظر آتے ہیں۔ مگر تیار رہئے مستقبل میں بھی ہمارے نظام شمسی کا واسطہ  تباہی اور ہلاکت خیزی سے پڑ سکتا ہے۔ ہمارا نظام شمسی شیشے کے محل سے بھی زیادہ نازک ہے۔

ہمارا سورج ملکی وے کے ارب ہا ستاروں میں سے ایک ہے۔ سورج کے گرد سیّارے اور چاند چکر لگا رہے ہیں۔ یہ سب مل کر ہمارے نظام شمسی کو تشکیل دیتے ہیں۔ ہمارا نظام شمسی یقیناً ایک قیمتی اور نایاب نظام ہے اور یہیں سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا دوسرے ستاروں کے بھی اس طرح کے سیّارے ہوتے ہیں جو ان کا نظام ہائے سیّارگان ترتیب دیتے ہیں۔ اس بات کی تلاش کے لئے سائنس دان آسمان کی خاک چھان رہے ہیں۔ موانا کی (Mauna Kea)،  امریکی ریاست ہوائی (Hawaii)میں واقع ہے جہاں دنیا کی ایک بہت بڑی دوربین نسب ہے جس کا نام” کیک (Keck)”ہے۔ اس دوربین کا کام نئے نظام ہائے شمسی کی آسمان میں کھوج کرنا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا نظام شمسی اپنے آٹھ سیّاروں کے ساتھ ملکی وے کہکشاں میں اکیلا نہیں ہے۔ اس جیسے ارب ہا نظام ہائے شمسی کائنات میں موجود ہیں۔ خلاء نوردوں کو امید ہے کہ جلد ہی وہ ایک ایسا نظام شمسی تلاش کر لیں گے جس میں زمین کے جیسا کوئی سیّارہ   موجود ہو گا۔ بہرحال ان کی ابھی کی شروعات تو کافی اچھی ہیں۔ اب تک سائنس دان ۳۶۰  ستاروں کی کھوج کر چکے ہیں جن کے گرد سیّارے چکر کاٹ رہے ہیں۔ سب سے اچھی خبر یہ کہ ستاروں کے گرد صرف ایک سیّارہ   نہیں مدار میں چکر لگا رہا بلکہ ہر ستارے میں عام طور پر دو، تین، چار یا پھر اس سے زیادہ سیّارے چکر کاٹ رہے ہیں۔ سیّارے خاندانوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ پہلی دفعہ سائنس دان ان کا مطالعہ اس قدر تفصیل کے ساتھ کر رہے ہیں۔ وہ اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح سے سیّارے گرم ہو کر ستاروں کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے ایک سیّارے کو دیکھا جو اپنے ستارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے انتہائی گرم اور انتہائی ٹھنڈا ہوتا رہتا ہے۔ بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ سیّارے کے درجہ حرارت کا فرق اس کا  دن اور رات والے حصّوں کا مشاہدہ کرنے کی وجہ سے تھا۔ سائنس دان طلوع آفتاب اور غروب آفتاب ایک دوسرے نظام میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مگر انھیں ابھی تک زمین کے جیسا سیّارہ  نہیں ملا۔ بلکہ زیادہ تر سیّارے ہمارے نظام شمسی کے سیّاروں سے بھی مختلف ہی ہیں۔ وہ سیّارے نہایت ہی عظیم الجثہ ہیں اتنے بڑے  ہیں کہ مشتری بھی ان کے آگے بونا (Dwarf)لگتا  ہے۔ ان میں سے اکثر کے مدار بہت ہی خطرناک ہیں۔ کچھ سیّارے اپنے ستارے سے انتہائی دور چکر کاٹتے ہوئے اس کے انتہائی نزدیک آ جاتے  ہیں تو کچھ سیّارے اپنے ستاروں سے اتنے قریب ہیں کہ ان کی سطح بخارات بن کر اڑ جاتی ہے تو کچھ سیّارے الٹی سمت میں گھوم رہے ہیں۔ یہ یقیناً خوفناک نہیں ہے تو نہایت عجیب تو ضرور  ہے۔

سیّاروں کے نظام مختلف قسم کی ساخت،  جسامت، کمیت وغیرہ کے ہیں۔ ہمارا نظام شمسی ان اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہر نظام شمسی  ایک منفرد قسم کا ہو۔ مگر ان سب میں ایک بات  تو مشترک ہوتی ہے کہ یہ سب اپنے ستارے کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی بننا شروع کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ستارہ گیس اور گرد کے غبار جس کو سحابیہ کہتے ہیں وہاں پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے کہ عقابی سحابیہ (Eagle Nebula)جس کو تخلیق  کے ستون بھی کہا جاتا ہے۔ ایک اور سحابیہ جس کا نام گھوڑے کا سر (Horsehead)ہے یہ بھی  ستاروں کا بچہ خانہ ہے۔ سائنس دان اس بات کی تلاش میں ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جو  ان گیسی سحابیوں کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ ستارے کی پیدائش کی ابتداء کریں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ قریبی سپرنووا کے پھٹنے سے ستاروں کے پیدا ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ گیسی گرد و غبار کے بادل ایک دوسرے سے ٹکرا کر دبتے ہوئے  اتنا دبیں کہ قوّت ثقل اتنی مضبوط ہو جائے کہ وہ  ان پر حاوی ہو جائے۔ ایک دفعہ جب قوّت ثقل کا غلبہ ہو جائے تو وہ بادلوں کو سکیڑ تی  ہے اور مزید بادلوں کو کھینچتی ہے۔ جس سے ایک گھومتی ہوئی ایک عظیم الجثہ ٹکیہ سی بن جاتی ہے۔ اس ٹکیہ کے مرکز میں قوّت ثقل ہر چیز کو دباتی رہتی ہے اور اس کی کثافت بڑھتی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ حرارت بھی بڑھتی جاتی ہے اور اس کا مرکز ایک گرم گیند کی مانند ہو جاتا ہے۔ پھر درجہ حرارت اس قدر بلند ہو جاتا ہے کہ گیس میں موجود جوہر گداخت کا عمل شروع کر دیتے ہیں اور ستارا روشن ہو جاتا ہے ۔ باقی ماندہ گیس اور گرد و غبار کے بادل ستارے کے گرد گھومتے رہتے ہیں جن میں سے سیّارے،  چاند سیّارچے اور شہابیے بنتے ہیں۔

۲۰۰۱ءمیں ہبل دوربین نے اورا ئن سحابیہ میں ایک نوزائیدہ ستارے کی تصویر کشی کی ہے۔ جس میں اس کے گرد گھومتی ہوئی ایک ٹکیہ تھی۔ یہ کسی دوسرے نظام شمسی کے پیدا ہونے ہی کی ابتداء تھی۔ یہ تصویر ہمیں ہمارے نظام شمسی کی پیدائش یاد دلاتی ہے۔ کبھی ہمارا نظام شمسی بھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔ اس دھندلی سی تصویر نے اس بات  کے دریچے کھول دیے ہیں کہ کس طرح سے نظام ہائے شمسی تشکیل پاتے ہیں۔ اس تصویر نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم وہاں کی تصاویر لے کر یہ جانچ کر سکیں کہ کس طرح سے سیّارے وجود میں آتے ہیں۔ یقیناً ہمیں ان تصاویر سے یہ جاننے کا موقع ملے گا کہ خود ہمارا نظام شمسی کس طرح سے وجود میں آیا۔ سائنس دانوں کو یہ بات تو معلوم تھی کہ ستارے کس طرح پیدا ہوتے ہیں مگر وہ اس بات کی تلاش میں تھے کہ سیّارے کیسے بنتے ہیں۔ اس کا جواب انہوں نے حادثاتی طور پر دریافت کر لیا۔ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن (International Space Station)میں خلاء نوردڈان پٹیٹ (Don Pettit)اس بات کا تجربہ کر رہے تھے کہ قوّت ثقل کے بغیر چینی اور نمک کے ذرّات  کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ دوسرے خلاء نورد  اسٹینلے لو(Stanley Love) ان کو زمینی مشن کنٹرول سینٹر سے دیکھ رہے تھے جب انہوں نے اتفاقی طور پر یہ بات دریافت کر لی تھی۔ ڈان پٹیٹ نے ایک خالی بیگ میں چینی اور نمک کو ڈالا اور پھلا دیا۔ جبکہ دوسرے بیگ میں کافی کو ڈالا۔ انہوں نے دیکھا کہ چینی اور نمک کے ذرّات  نے ایک دوسرے سے جڑنا شروع کر دیا۔ وہ سمجھ گئے کہ انہوں نے ۴۰  سالہ پرانا سیّاروں کی تشکیل کے متعلق سوال کا جواب حاصل کر لیا تھا۔

خلاء نورد پٹیٹ کی یہ دریافت کافی بڑی تھی۔ قوّت ثقل کے بغیر ذرّات  ایک دوسرے سے الگ نہیں رہتے بلکہ آپس میں جڑنا چاہتے ہیں۔ بڑے سیّاروں نے بھی ایسا ہی کیا ہو گا۔ گرد کے ذرّات  ایک دوسرے سے ٹکرا کر آپس میں جڑ گئے ہوں گے اور بڑھتے بڑھتے چٹانوں کی شکل اختیار کی ہو گی۔ جتنا بڑا چٹانی ٹکرا ہو گا اس کی اتنی ہی زیادہ قوّت ثقل ہو گی۔ پھر اس نے اپنے آ س پاس موجود چیزوں کو ہضم کرنا شروع کیا ہو گا اور بڑے اور بھاری چٹانی پتھر کی شکل اختیار کر لی ہو گی۔ آخرکار ان میں سے کچھ چٹانوں نے سیّاروں کی شکل حاصل کر لی ہو گی۔ ہمارے نظام شمسی میں آج سے۴.۶  ارب سال پہلے یہ ہی ہوا ہو گا۔ ہم باب ” کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیارے ” میں اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں کہ کس طرح شروع میں پیدا ہوئے ۱۰۰ کے قریب سیّارے آج کے نظر آنے والے ۸  سیاروں،  ان کے چاندوں،  سیّارچوں  اور شہابیوں میں ڈھلے۔ لہٰذا اس کی تفصیل میں دوبارہ نہیں جائیں گے۔

سائنس دان اتنا جانتے ہیں کہ سورج کے بیرونی مدار میں موجود یورینس کسی چیز سے ایک طرف سے ٹکرایا۔ یہ بات کافی عرصہ تک معمہ  ہی بنا رہا کیونکہ بیرونی مدار میں موجود سیّارے گیس پر مشتمل ہیں اور یہ اس شروع کی ہنگامہ خیزی،  جب سیّارے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے،  سے بھی کافی حد تک بچے ہوئے اور دور  تھے۔ گیس ان کے گرد جمع ہو رہی تھی اور یہ سب فلکیاتی وقت کے مطابق نہایت تیزی سے ہو رہا تھا۔ صرف دس لاکھ سال میں یہ سب کچھ نمٹ گیا تھا اور انہوں نے ان عظیم الجثہ  سیّاروں کی شکل لے لی تھی جن کو ہم آج دیکھتے ہیں۔ دو گیسی دیو سیّارے مشتری اور زحل کے بعد یورینس اور نیپچون ہیں۔ یہ دونوں گیس اور برف سے بنے ہوئے ہیں۔ ان کے بعد   کائپر کی پٹی(Kuiper Belt) ہے جس میں برفیلی چٹانیں اور بونے سیّارے تیر رہے ہیں۔ پہلے ہم کائپر کی پٹی  میں موجود  ایک جسم  کو سیّارہ  پلوٹو کہتے ہیں۔ مگر پھر ہم نے اس کو بونے سیّارہ  کا درجہ دے دیا۔ اب یہ ان بونوں سیّاروں میں سے ایک ہے جو سورج سے ٣ ارب  میل کے فاصلے پر چکر کاٹ رہے ہیں۔ اس جیسی لاکھوں چیزیں وہاں موجود ہیں۔ یہ اتنے دور اور اتنے دھندلے ہیں کہ ان کو تلاش کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ یہ نظام شمسی کے باقی ماندہ حصّے ہیں جو اس کی تشکیل کے بعد بچ گئے تھے۔  کائپر کی پٹی  بھی سورج کی سلطنت کا ایک کونا ہے۔ وہاں نہ زیادہ گرمی ہے نہ زیادہ روشنی ہے۔ مگر  کائپر کی پٹی بھی سورج کی آخری سرحد نہیں ہے۔ ایک خول جو دسیوں کھرب برفیلی چیزوں پر مشتمل ہے اس کا نام اورٹ کے بادل (Oort Cloud)ہے وہ اس سے بھی زیادہ دور ہے۔ اورٹ کا بادل سورج سے اتنا دور ہے کہ سورج کی روشنی کو وہاں تک پہنچنے میں پورا ایک سال لگ جاتا ہے۔

گرم ترین حصّے سے لے کر سرد ترین حصّے تک ہمارا نظام شمسی نہایت منظّم   اور اعلیٰ اور ارفع تنظیم کا شہکار نظر آتا ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ پر بالکل صحیح اور درست رکھی ہوئی نظر آتی ہے مگر کچھ تو گڑ بڑ ہے۔ یورینس اور نیپچون اپنی صحیح جگہ پر نہیں ہیں وہ اپنی جگہ سے کچھ ہٹے ہوئے لگتے ہیں۔ سورج سے اس قدر دور ان کو بنانے کا خام مال دستیاب نہیں تھا۔ تو پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرکار وہ وہاں کیسے پہنچے۔ سائنس دانوں کے خیال میں یورینس اور نیپچون کی پیدائش سورج سے قریب ہی ہوئی تھی۔ مگر پھر کسی چیز نے انہیں دھکیل کر دور کر دیا۔ سوال یہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اتنے بڑے سیاروں کو کس نے اٹھا کرکس نے اتنی دور پھینک دیا۔ سائنس دانوں کو یقین ہے کہ ان کو دور دھکیلنے کا سبب کوئی اور نہیں بلکہ مشتری اور زحل ہی ہیں۔ پہلے پہل مشتری سورج کے گرد جتنے عرصے میں دو  چکر مکمل کرتا تھا اتنے ہی عرصے میں زحل سورج کے گرد ایک  چکر پورے کر لیتا تھا اور یہ ہی بات ان دونوں سیّاروں کو دھکیلنے کا سبب بنی۔ مشتری اور زحل جیسے ہی ایک دوسرے کے پاس پہنچتے ویسے ہی ایک دوسرے کو دھکیلتے  اور ایک دوسرے سے خود کو پرے کرتے تھے۔ اسی دھکم پیل میں انہوں نے پورا نظام درہم برہم کر دیا۔ مشتری اور زحل دونوں کی قوّت نے یورینس اور نیپچون کو کھینچ کر سورج سے پرے دھکیل دیا۔ جب یہ سیّارے سورج کے بیرونی مدار میں گئے تو وہاں موجود سیّارچوں  اور باقی بچے ہوئے گرد و غبار  کو انہوں نے اربوں چٹانی ٹکڑوں کی صورت میں خلاء میں پھیلا دیا۔ کچھ چٹانوں نے مل کر سیّارچوں  کی پٹی تشکیل دی مگر زیادہ تر   کائپر کی پٹی کے علاقے میں دھکیل دیئے گئے جہاں انہوں نے  کائپر کی پٹی کو بنایا۔

مشتری اور زحل کی ثقلی طاقت اس قدر زوردار تھی کہ انہوں نے ان دونوں سیّاروں کے مدار کو ایک دوسرے کے مدار سے بدل دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یورینس اور نیپچون اپنی موجودہ پوزیشن کے مقابلے  میں پیدا ہوتے ہوئے دوسری پوزیشن پر تھے۔ نیپچون سورج سے یورینس کے مقابلے میں زیادہ قریب تھا۔ مگر مشتری اور زحل کی ثقلی قوّتوں کی کارستانیوں کی وجہ سے انہوں نے اپنی پوزیشن ایک دوسرے سے بدل لیں تھیں۔ یہ تو وہ چٹانی ٹکڑے تھے جنہوں نے یورینس اور نیپچون  کو مزید آگے جانے سے روکا اور آج وہ اپنے انہی مداروں میں ٹکے ہوئے ہیں۔ سیّارے کے مداروں کی تبدیلی کچھ عجیب سی بات لگتی ہے۔ مگر سائنس دانوں نے اسی چیز کو دوسرے ستاروں کے سیّاروں میں دیکھا ہے اور اسی چیز نے ان کو اس بات کو سمجھنے میں مدد دی ہے کہ نظام شمسی کس طرح سے کام کرتا ہے۔ سائنس دان جب آسمان میں دوسرے ستاروں کو دیکھتے ہیں تو ان کو اس قسم کی وافر شہادتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کائنات میں ہر جگہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔

ہم سے کافی دور سائنس دانوں نے ایک منفرد نظام شمسی دیکھا ہے۔ انھوں نے ایک سیّارہ  مشتری کے جتنا تلاش کر لیا ہے مگر وہ مشتری جیسا نہیں ہے۔ اس قسم کے سیّارے اپنے ستارے کے قریب مدار میں چکر لگانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں  اور ان کا ستارے کے مدار میں چکر چند دن ہی میں مکمل ہو جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہی کہ ستارے کے اس قدر نزدیک مدار میں چکر کی وجہ سے ان کا درجہ حرارت ایک ہزار سے دو ہزار ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ ابھی تک تو کوئی ایسا گیسی دیو ستارے کے اتنے نزدیک بنتے نہیں دیکھا وہاں بہت زیادہ گرمی ہوتی ہے۔ صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ گیسی دیو ہیکل سیّارے سورج کے پاس پیدا تو ہوتے ہیں مگر پھر باہر دھکیل دیے جاتے ہیں۔ بالکل یہ ہی چیز شاید ہمارے نظام شمسی میں بھی ہوئی تھی۔

سائنس دانوں نے سورج کی سطح پر کافی مقدار میں لیتیم پائی ہے۔ عام طور  سے لیتیم ستاروں میں نہیں ملتی مگر گیسی دیو میں بکثرت   پائی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں کوئی اور گیسی دیو بھی موجود تھا جس کو سورج نے نگل لیا تھا اور یہ ہی وجہ سورج کی سطح پر لیتیم کے پائی جانے کی ہو سکتی ہے۔ کچھ بہت ہی قیامت انگیز قسم کا واقعہ ہوا ہو گا۔ شاید کوئی مشتری جیسا گیسی دیو سیّارہ  سورج سے ٹکرا گیا ہو گا۔ نظام شمسی کی شروعات میں ہر چیز بے ترتیب اور ہنگامہ خیزی و ہلاکت خیزی سے بھرپور تھی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز اپنی جگہ پر آ گئی۔ مگر اس پائیداری پر مت جائے یہ تو صرف ایک دھوکہ ہی ہے۔ ہمارے نظام شمسی کے ہر ایک سیّارے پر ہر وقت اس کی فنا کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔

ملکی وے میں ہر قسم کے نظام ہائے شمسی موجود ہیں۔ زیادہ تر ہمارے نظام شمسی کے مقابلے میں عجیب و غریب لگتے ہیں۔ ہمارے سیّاروں کے مدار ان کے مقابلے میں نہایت پائیدار اور منظّم  لگتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ "حرکت”ہے جو نظام شمسی کے پیدا ہوتے ہوئے ہر سیّارے کو ودیعت ہوئی تھی۔ اسی حرکت کی وجہ سے ہر ایک سیّارے کی اپنی  سمتی رفتار (Velocity)ہے۔ در حقیقت ہم ہر وقت سورج کی جانب گر رہے ہوتے ہیں۔ مگر ہماری رفتار اس قدر تیز ہے کہ ہمیں یہ پتا نہیں چلتا اور انہیں دونوں چیزوں کے باہم ملاپ سے مدار وجود میں آتے ہیں۔ اس ٹکیہ -جس سے سیّاروں کی پیدائش ہوئی ہے ، کے گھماؤ نے سیّاروں کو حرکت دی ہے جو آج تک جاری و ساری ہے۔

۶۶ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین اپنے مدار میں سورج کی گرد ایک سال میں ایک چکر مکمل کرتی ہے۔ سورج سے دور سیّاروں کے مدار اور بڑے ہیں۔ ان کی حرکت وہاں ہلکی ہے اور وہ زیادہ وقت ایک چکر کو اپنے مدار میں پورا کرنے میں لیتے ہیں۔ زحل سورج کے گرد ۲۹  سال میں ایک چکر مکمل کرتا ہے اور نیپچون ۱۶۵  سال میں۔ ہر ایک سیّارہ  سورج سے بالکل مناسب فاصلے پر ہے اور یہ ہی بات ہماری اپنی بقاء کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں سیّاروں کے آپس کے درمیان میں جگہ اور ان کے تقریباً  گولائی میں موجود مدار ہماری نہایت ہی خوش قسمتی ہیں اور یہ ہی بات اس شیشے کے محل کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے۔ اگر ہمارے نظام شمسی میں موجود سیّاروں کے مدار تقریباً گولائی میں صاف ستھرے  انداز میں   نہ ہوتے تو میں اور آپ  آج کارخانہ قدرت کو سمجھنے کے لئے یہاں موجود نہیں ہوتے۔ فی الحال تو سیّاروں کے مدار محفوظ مقام پر ہیں مگر سیّارچوں  اور شہابیوں کے مدار اتنے محفوظ نہیں ہیں۔ اکثر ان میں بھٹکتے ہوئے سورج کے اندرونی حصّے کی طرف آ دھمکتے ہیں۔ زمین پر بھی جا بجا شہابیوں کے ٹکرانے کے نشان آج تک ثبت ہیں۔ کچھ شہابیے کافی بڑے ہوتے ہیں۔ چاند پر نظر ڈالیں تو ہمیں جا بجا وہاں بھی گڑھے نظر آتے ہیں جو انہی شہابیوں کی کارستانیاں ہیں۔ زمین بھی ان کارستانیوں سے زیادہ محفوظ نہیں ہے۔ مگر زیادہ تر نشان زمین سے مٹ چکے ہیں۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ آج سے ۶۵ کروڑ پہلے میکسیکو کے ساحل پر ایک بہت بڑا سیّارچہ  ٹکرایا۔ وہ ۴۵  ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے زمین سے ٹکرایا تھا۔ اس کی ٹکر سے جو توانائی پیدا ہوئی تھی وہ اس توانائی سے ۱۵  ارب گنا زیادہ تھی جو ہیروشیما کے بم کے پھٹنے سے نکلی تھی۔ اس نے زمین سے ۷۰  فیصد زندگی کو مٹا دیا تھا۔ اس طرح کے کچھ اور ٹکراؤ زمین پر زندگی کو مکمل ختم کر سکتے تھا۔ مگر ہماری خوش قسمتی ہے کہ زمین کو ایک عدد دیو ہیکل باڈی گارڈ قدرت نے عطا کیا ہے۔

خلائے  بسیط میں مشتری کا نظارہ نہایت ہی شاندار ہوتا ہے۔ یہ زمین پر زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لئے انتہائی اہم ہے۔ اس کی ثقلی  قوّت نہایت ہی شاندار ہے اور یہ نظام شمسی میں بالکل صحیح اور مناسب مقام پر موجود ہے۔ یہ زمین کو زیادہ تر سیّارچوں   اور شہابیوں  سے بچاتا ہے۔ جو دور خلاء بسیط سے بھٹکتے ہوئے سورج کے اندرونی حصّے کی طرف آ نکلتے ہیں۔ یہ زمین سے ٹکرا سکتے ہیں۔ مگر مشتری ایک ایسے بلے باز کی طرح ہمارے نظام شمسی میں کردار ادا کرتا ہے جو زیادہ تر آنے والے شہابیوں اور سیّارچوں   کو گیند کی طرح بلے پر لے لیتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کو وہ نظام شمسی سے باہر پھینک دیتا ہے۔ ۱۹۹۴٤ء کو شو میکر لیوی ۹ سورج کے اندرونی حصّے کی طرف بھٹکتا ہوا آ نکلا۔ مگر وہ مشتری سے آگے نہیں آپایا۔ خلاء نوردوں نے دیکھا کہ مشتری نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور ان ٹکڑوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس سیّارچے نے مشتری سے ٹکرا کر زمین سے بھی بڑا آگ کا گولہ مشتری پر بنا دیا تھا۔ یہ اب تک کا دیکھا  جانے والا نظام شمسی کا سب سے بڑا ٹکراؤ تھا۔ خدانخوستہ اگر یہ سیّارچہ   ہم سے ٹکراتا تو زمین کی پوری سطح کو ڈھانپ لیتا اور یوں زندگی کا خاتمہ ہو جاتا۔ اگر مشتری نہ  ہوتا تو زمین سے سیّارچوں  اور شہابیوں کے ٹکرانے کا خطرہ ہزار گنا بڑھ جاتا۔ یہ ہماری خوش قسمتی کہ زمین کو بالکل مناسب و بہترین مدار ملا جس کی وجہ سے مشتری ہمیں ان آفات سے بچاتا ہے۔

سورج سے زمین کا متناسب فاصلہ پانی کو  نا صرف مائع حالت میں رکھتا ہے بلکہ یہ اس کو بخارات بنا کر خلاء میں بھی نہیں  اڑاتا۔ یہ فاصلہ زمین پر حیات کے جاری و ساری رہنے کے لئے بالکل موزوں اور مناسب ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمارا نظام شمسی زندگی کو پروان چڑھانے کے لئے مناسب ماحول فراہم کر سکتا ہے تو کیا کائنات میں  موجود دوسرے نظام ہائے شمسی ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ سیّاروں کی کھوج کرنے والوں نے زمین سے   ۲۰ نوری سال کی دوری پر ایک نظام شمسی دیکھا ہے جس کے سیّارے اور ان کے مدار اپنے ستارے سے کافی مناسب مقام پر موجود ہیں۔۲۰۰۵ء میں خلاء نوردوں نے ایک اور زبردست دریافت کی۔ انہوں نے کچھ چٹانی سیّارے (Rocky Planets) دریافت کر لئے تھے اس سے پہلے تک انہیں صرف گیسی دیو ہی مل پائے تھے۔ یہ چٹانی سیّارے ایک ستارا جس کا نام گلیز ۵۸۱ (Gliese 581)تھا اس کے گرد مدار میں چکر لگا رہے تھے۔ اس ستارے کے چاروں سیّارے ہمارے نظام شمسی کے مقابلے میں نہایت ہی انوکھے اور منفرد ہیں۔ یہ چاروں سیّارے اپنے ستارے سے عطارد کے مدار سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ گلیز ۵۸۱  ایک چھوٹا ستارا ہے  یہ اتنا زیادہ گرم اور روشن نہیں ہے جتنا ہمارا سورج۔ لہٰذا سیّارے اس کے قریبی مدار میں چکر لگانے کے باوجود بخارات میں تبدیل نہیں ہوں گے۔ ان چاروں سیّاروں میں سے کچھ بہت ہی زیادہ دلچسپی کے حامل ہیں۔ ان میں سے ایک زمین سے دگنی کمیت والا سیّارہ  بھی ہے اور یہ اپنی میزبان ستارے سے بہت زیادہ قریب بھی ہے۔ یہ یقینی طور پر نہایت گرم ہو گا اتنا گرم کہ زندگی کے لئے یہ جگہ مناسب نہیں ہو گی۔ مگر وہاں ایک اور سیّارہ  بھی ہے جو زمین سے آٹھ گنا زیادہ بڑا ہے،  اس کا مدار اپنے میزبان ستارے سے اس قدر فاصلے پر ہے کہ وہاں شاید زندگی پنپ پائے گی۔ زمین کی طرح اس سیّارے کا فاصلہ اتنا ہے کہ جہاں پانی مائع حالت میں موجود ہو سکتا ہے اور جہاں پانی ہو گا وہاں سمندر بھی ہو گا اور جہاں سمندر ہو گا وہاں زندگی بھی ہو سکتی ہے۔

۲۰۰۹ء  میں ناسا نے کیپلر خلائی دوربین(Kepler Space Telescope) کو فضا میں چھوڑا۔ اس کا کام نئے نظام ہائے شمسی کی کھوج کرنا تھا۔ سائنس دان پر امید ہیں کہ وہ کچھ ایسے بھی سیّارے تلاش کرسکتے ہیں جن کا ماحول یا جن کی فضا میتھین پر مشتمل ہو یا پھر امونیا پر یا پھر وہ بھاری حیاتیاتی چیزوں سے بھرپور ہوں۔ وہ کوئی پانی سے بھرا سیّارہ  بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ سائنس دان پر امید ہیں کے اگلی دہائی تک وہ شاید زمین جیسے متنوع فیہ قسم کے سیّارے تلاش کر پائیں گے۔ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ وہ کیپلر کے ذریعہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نئے نظام ہائے شمسی تلاش کر لیں گے۔ ہماری اپنی کہکشاں میں موجود کافی سارے ستاروں کے اپنے سیّارے موجود ہوں گے۔ ذرا سوچیں کہ کائنات میں کتنی کہکشائیں ہیں۔ ہم ابھی تک کہکشاؤں کی اصل تعداد نہیں جان پائے ہیں۔ ہم ۶۰  ارب تک کہکشاؤں کو دیکھ سکتے  ہیں۔ آپ جب نگاہ اٹھا کر آسمانوں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں ارب ہا ارب ستارے موجود ہیں  اگرچہ ہم ان کو خالی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے۔ ان ستاروں میں کوئی تو ایسا ہو گا جس کے گرد زمین جیسا کوئی سیّارہ  گردش کر رہا ہو گا اور اگر ایک دفعہ ایسا ہو سکتا ہے تو دوبارہ کیوں نہیں ہو سکتا۔

نظام ہائے شمسی ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ سیّارے آپس میں ٹکرائیں گے۔ یہ ہمارے نظام شمسی میں بھی ہو سکتا ہے مگر اگلے ۵  ارب سالوں میں کوئی تصادم  نہ بھی ہو تو بھی ہمارا نظام شمسی ختم ہی ہو  جائے گا۔ یہ بات ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے۔ کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہتی اور نظام شمسی کو بھی اس اصول سے کوئی استثناء حاصل نہیں ہے۔ ہمیں نظام شمسی بہت ہی پرسکون لگتا ہے مگر اصل میں ایسا نہیں ہے۔ اگر ماضی میں یہ جگہ پر ہنگام رہی ہے تو وہ مستقبل میں بھی ایسی رہ سکتی ہے۔ مستقبل بعید میں قوّت ثقل کی طاقت سیّاروں کو ان کے موجودہ مدار سے باہر کر دے گی۔ شاید آج سے کچھ ارب سال بعد سیّارے اس ثقلی قوّت کے زیر اثر ہو کر ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے اور پھر ایک دوسرے کو غیر پائیدار مدار میں دھکیل دیں گے یا پھر کوئی ایک یا دونوں ہی نظام شمسی سے باہر دھکیل دیے جائیں گے۔ مریخ نظام شمسی سے نکال دیا جائے گا۔ عطارد شاید زمین سے بغلگیر ہو جائے گا۔ شیشے کا محل چکنا چور ہو جائے گا۔ نظام شمسی کی شروعات تباہی و بربادی سے شروع ہوئی تھی اور یہ منتج بھی اسی طرح ہو گی۔ مگر فی الحال گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس سب کو ہونے میں بھی ابھی ارب ہا ارب سال لگیں گے۔ مگر نظام ہائے شمسی کی عمر میں یہ تو ہو کر ہی رہے گا۔ کچھ بھی ہو روز قیامت تو آ کر ہی رہے گی۔ ہر نظام شمسی کی طرح خاتمہ اس وقت ہو گا جب سورج کی موت ہو گی۔

آج سے ٥ ارب سال بعد ہمارے سورج کا ایندھن ختم ہو جائے گا اور وہ سرخ دیو کی شکل اختیار کر لے گا۔ وہ گرم ہو کر سوجھ جائے گا اور اندرونی مدار کے سیّاروں کو نگل جائے گا۔ زمین کی سطح گرم ترین ہو جائی گی۔ سمندر بھاپ بن کر اڑ جائیں گے، زمین پگھل جائی گی۔ سورج پھیلتے پھیلتے اتنا بڑا ہو جائے گا کہ زمین کے پورے مدار کو گھیر لے گا۔ زمین کا خاتمہ سورج کو اس کے نگلنے کے ساتھ ہی شروع ہو جائے گا۔ سورج اسے نگلنے سے پہلے بھون کر رکھ دے گا اور وہ بھاپ بن جائی گی۔ آخر کار سرخ دیو بھی مر جائے گا اور اپنے پیچھے سفید بونا ستارہ چھوڑ جائے گا۔ اس کا حجم ہماری زمین ہی کے جتنا ہو گا اور اس کو ٹھنڈا ہونے میں کروڑوں یا اربوں سال درکار ہوں گے اور وہی وقت ہمارے نظام شمسی کا وقت آخر ہو گا۔

اگر اس وقت ہم  اس زمین پر موجود ہوتے جہاں کبھی شاندار تہذیب ہوا کرتی تھی اور وہاں سے سورج کو دیکھتے تو ہمیں ایک دھندلا سا  ایک نقطہ نظر آتا جو درحقیقت ہمارا سورج ہوتا جو اب سفید بونا مرتا ہوا ستارا ہو گا۔ اندرونی سیّاروں کی باقیات اب بھی اس کے گرد چکر کاٹ رہی ہوں گی۔ بیرونی مدار میں واقع سیّارے صحیح سلامت بچ گئے ہوں گے۔ وہ سرخ دیو والے دور میں گرم تو ہو گئے ہوں گے۔ مگر ایک دفعہ سورج بونا ستارا بن جائے گا تو وہ صرف اپنی ہائیڈروجن اور ہیلیم پر ہی زندہ رہے ہوں گے۔ کیونکہ سفید بونا ستارہ اب ان کو گرمی اور روشنی نہیں مہیا کر رہا ہو گا لہٰذا  وہ اب پہلے سے بھی زیادہ سرد ہو چکے ہوں گے۔ اگرچہ یہ حادثہ ہمارے سورج کے ساتھ اگلے ٥ ارب سال میں ہو گا مگر کائنات میں موجود دوسرے نظام ہائے شمسی میں یہ سب کچھ تو کئی دفعہ دہرایا جا چکا ہو گا۔ ہمارے نظام شمسی نے بدنظمی سے شروعات کی مگر پھر زندگی کو بھی  دوام بخشا۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے نظام شمسی میں بالکل ٹھیک تعداد میں سیّارے موجود ہیں جو بالکل مناسب فاصلے پر نہ صرف ایک دوسرے سے دور موجود ہیں بلکہ بالکل متناسب فاصلے سے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارا سورج زندگی کو پروان چڑھانے کے لئے بالکل صحیح تارہ ہے۔ نظام شمسی کی شروعات سے،  سورج کی پیدائش سے لے کر زندگی کی شروعات تک خوش قسمتی ہم پر سایہ فگن رہی ہے۔ سورج ایک نہایت متوازن اور سہل ستارہ ہے جو زندگی کے ارتقاء کے لئے مکمل ماحول فراہم کرتا ہے۔ یہ اتفاق تو نہیں ہو سکتا کہ ہم یہاں اس جگہ ایسے ہی موجود ہوں۔ غیر معمولی اتفاقات ارب ہا سال میں  پے در پے واقع  ہونے کی ہی وجہ سے ہمارا نظام شمسی وجود میں آیا جو زندگی کے لئے بالکل مناسب اور مکمل جگہ تھی۔ اگرچہ یہ سب کچھ ہمیشہ سے ایسا ہی نہیں تھا اور   نہ ہی یہ ہمیشہ ایسا رہے گا۔

ہم منفرد نہیں ہیں مگر خوش قسمت ضرور ہیں۔ زمین کو بالکل مناسب فاصلہ پر ہونا تھا،  سیّاروں کو بالکل اسی طرح قاعدے سے ایک ترتیب میں ہونا تھا،  دیو ہیکل سیّاروں کو بالکل ٹھیک جگہ پر ہونا تھا تاکہ وہ ہمیں شہابی تصادموں سے بچا سکیں۔ ہر چیز کو ایسے ہی ہونا تھا جیسا کہ وہ وقوع پذیر ہوئی تاکہ زندگی کی شروعات کے لئے مدد گار ثابت ہو سکے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے نظام شمسی نے ہمیں کائنات میں کوئی غیر معمولی یا انوکھا مقام دیا ہے مگر ہر گزرتے دن ہم نئے نظام ہائے شمسی اور  ان کے سیاروں کو دریافت کر رہے ہیں۔ اب یہ کچھ ہی عرصہ کی بات ہے جب ہم یہ  جان سکیں گے کہ کائنات میں ہم تنہا نہیں ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

۸۔ چندا ماما اور ماورائے ارض چاند

8. Alien Moons

 

کائنات میں موجود ہر چیز کسی نا کسی کا گرد چکر کاٹ رہی ہے۔ ستارے کہکشاؤں کے مرکز کے گرد، سیّارے   ستاروں کے گرد اور چاند سیّاروں کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں موجود کچھ چاندوں پر برفیلے آتش فشاں موجود ہیں جبکہ کچھ کی سطح کے نیچے عظیم الشان سمندر بہہ رہے ہیں۔ یہ چاند ہمیں نظام شمسی کی وہ ان کہی داستان سناتے ہیں جو ہم میں سے زیادہ تر نہیں جانتے یہ ہمیں نظام شمسی کے کام  کرنے کے طریقہ  کار کو بہتر انداز سے سمجھاتے ہیں۔ ہماری کائنات میں قابل رہائش چاندوں کی تعداد قابل رہائش سیّاروں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں کل ملا کر آٹھ سیّارے  ہیں۔ ان میں سے صرف ۶ کے گرد چاند موجود ہیں۔ مگر ان چاندوں کی تعداد اچھی خاصی ہے لگ بھگ ۱۶۸   کے قریب چاند ان ۶ سیّاروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک چاند ایک مفرد اور مختلف شناخت رکھتا ہے اور اپنی مثال آپ ہے۔ جب ہم نظام شمسی کے جائزہ لیتے ہیں تو ہم کو سیّاروں کی اچھی خاصی  تعداد نظر آتی ہے مگر ان سیّاروں کے گرد چکر کاٹنے والے مہتابوں کی تعداد ان  سے کہیں زیادہ ہے۔ نظام شمسی میں موجود یہ چاند کئی طرح سے ان  سیّاروں سے زیادہ دلچسپی کے حامل ہیں جن کے گرد وہ چکر کاٹ رہے ہیں۔

ہمارے نظام شمسی میں فضا اور حرارت سے   محروم اور مردہ چاند بھی ہیں جیسے کے ہمارا اپنا چندا ماما۔ پھر سورج کے بیرونی مدار میں موجود سیّاروں کے گرد گھومتے ہوئے ایسا چاند بھی ہیں جن کے زیر زمین اپنے سمندر اور  اپنے ماحول (Atmosphere)بھی ہیں۔ عظیم الشان جولا مکھی،  سرد ترین درجہ  اور نظام شمسی کے سب سے بڑے سمندر یہ سب چاندوں پر ہی موجود ہیں۔ کچھ چاندوں پر برفیلے آتش فشاں (Ice Volcanoes)موجود ہیں،  کچھ چاندوں پر پر میتھین گیس کی جھیلیں،  میتھین گیس کے بادل اور اس کی بارش کا نظام بھی موجود ہے۔ ان پر موجود آتش فشاں اس قدر زندہ اور عامل ہیں کہ وہ چاند کی سطح کو مستقل بناتے رہتے ہیں۔ ہر قسم کے گرد و غبار کو اگلتے ہوئے چاند بھی ہمارے نظام شمسی کا حصّہ ہیں۔ نظام شمسی میں موجود چاندوں کا ماحول اور فضا اس قدر متنوع فیہ ہے کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔

مشتری اور زحل کے چاند اتنے پیچیدہ اور پرسرار ہیں کہ وہ بالکل ایک الگ ہی جہاں  کی طرح ہیں۔ مشتری اور زحل ہر ایک کے علیٰحدہ علیٰحده ٦٠ سے زائد چاند ہیں۔ یہ گیسی دیو اور ان کے چاندوں نے ایک طرح سے چھوٹا نظام شمسی(Mini Solar System) قائم کر رکھا ہے۔ ان کے ہر چاند کی ایک منفرد شناخت ہے۔ آیا پٹس کالے اور سفید (Iapetus) دو  رنگوں  کا چاند ہے۔ ٹائٹن (Titan)اپنے کثیف ماحول اور نارنجی رنگ کی وجہ سے سب سے ممتاز نظر آتا ہے۔ برفیلا انسیلیڈس (Enceladus)  برف کے چشمے Geysers)) ٢٠٠ میل فضا میں چھوڑتا ہوا ایک منفرد چاند ہے۔ ان تمام چاندوں کی منفرد شناخت کے باوجود جو ایک چیز ان میں قدر مشترک ہے وہ ان کا اپنے سیّارے  کا قدرتی سیّارچہ(Natural Satellite) ہونا ہے۔ یہ قوّت ثقل کی وجہ سے اپنے سیّارے  کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔ مگر چاند صرف سیّاروں کے گرد ہی چکر نہیں کاٹتے بلکہ یہ اس سے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ یہ سیّاروں کو ان کے مداروں میں پائیداری کے ساتھ جمے رہنے میں مدد کرتے ہیں تاکہ نظام شمسی پرسکون انداز میں قائم و دائم رہے۔

چاندوں کی یہ منفرد شناخت اور آپس کی تفاوت قوانین سائنس اور اٹکل چٹانی اور گیسی تصادموں کے  درمیان بہت ہی دلچسپ ہم آہنگی کا مظہر ہے۔ آپ قوانین سائنس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کسی بھی  چیز کو تو قیاس کرسکتے ہیں کہ وہ کیسی ہو گی مگر بے ترتیب اور اٹکل ٹکراؤ کے نتیجے میں کیا حاصل ہو گا اور اس بات کا کیا امکان ہو گا کہ وہ ایک مخصوص  ماہیت ہی حاصل کرسکیں  یہ کبھی بھی درست طرح سے قیاس نہیں کرسکتے۔ سیّارے  اور چاند دونوں ایک ہی پیدائشی عمل سے گزرتے ہیں۔ ایک دفعہ ستارے کی پیدائش کا عمل شروع ہو جائے اس کے نتیجے میں بچنے والی گرد و غبار کے گیسی بادل اتنے ہوتے ہیں  کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ کر چٹانیں بناتے ہیں،  پھر وہ چٹانیں بٹے بناتی ہیں، وہ بٹے بڑے بٹے بناتے ہیں۔ یہ عمل تہہ پر تہہ چڑھانے کا عمل(Accretion) کہلاتا ہے۔ بالکل ایسا ہی جیسے کہ ایک برف کی گیند کو بنا کر کسی برف کے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دیں۔ جیسے جیسے وہ گیند نیچے لڑکے گی ویسے ویسے بڑی اور سخت ہوتی جائے گی۔ اسی تہہ دار عمل کے نتیجے میں سیّاروں اور ان کے گرد موجود چاندوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ عمل بہت ہی سادہ سا لگتا ہے مگر یہ ہوتا کیسا ہے۲۰۰۳ءسے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ ہم سیّاروں کے پیدائش کے اس طریقے کی کھوج کو اپنے پچھلے مضمون ” کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے "میں کافی تفصیل کے ساتھ بتا چکے ہیں لہٰذا یہاں دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔

اب یہاں یہ سوا ل پیدا ہوتا  ہے کہ اگر سب چاند ایک ہی طریقے سے پیدا ہوتے ہیں تو یہ اتنے مختلف اور منفرد کیوں ہیں۔ صرف مشتری کے دو چاندوں ہی کو لیجئے۔ کللسٹو(Callisto) اور گینا میڈ(Ganymede)۔ دونوں ہی نہایت مختلف چاند ہیں جبکہ دونوں ایک ہی گیسی گرد و غبار کے بادل سے وجود میں آئے ہیں۔ مشتری کے پیدائش کے اولین دور میں  گینا میڈ مشتری کے قریب پیدا ہوا۔ اس وقت وہاں گرد و غبار کے کافی بادل  موجود تھے۔ مادّے کی وافر مقدار کے موجود ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ بہت جلد لگ بھگ دس  ہزار سال میں  پیدا ہو گیا۔ اس کا درجہ حرارت پیدائش کے وقت کافی زیادہ تھا۔ حرارت نے برف کو چٹانوں سے الگ کر دیا تھا جس کی وجہ سے اس کے مختلف ارضی مناظر آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اصل میں چاند اس طرح کے کیوں نظر آتے ہیں جیسے کہ وہ آج ہیں۔ ان کی اس صورت گری کی اصل وجہ توانائی ہے وہ توانائی جو ان کو اس تہہ دار عمل میں ملی اوراس میں سے کتنی توانائی انہوں نے بچا کر رکھی اور کتنی توانائی انہوں نے کھو دی۔ یہ تمام عوامل ہمیں اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ چاند ایسا برتاؤ کیوں کرتے ہیں اور آج اپنی اس موجودہ شکل میں کیوں نظر  آتے ہیں۔

کللسٹوکی سطح ایک مختلف کہانی سناتی ہے۔ یہ اس جگہ پیدا ہوا تھا جہاں گیس اور گرد کے غبار اور حرارت نسبتاً کم موجود تھی۔ اس نے پیدا ہونے میں زیادہ وقت لیا اور جلد ہی ٹھنڈا بھی ہو گیا۔ اس کی سطح  گینا میڈ سے بالکل الگ  ایک جیسی ہے۔ یہاں چٹانیں اور برف کبھی علیٰحده ہو ہی نہ سکے۔ چاندوں کی پیدائش کے علاقے ان کے بچے رہنے اور تباہ ہونے کہ بھی ذمے دار ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ سیّارے  سے قریب ہونے کا مطلب ہے کہ قوّت ثقل اس کے چاندوں کو تباہ کر دے گی۔ سائنس دانوں کو پورا یقین ہے کہ مشتری کے بہت سارے چاندوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہو گا۔ جب مشتری جوان تھا توایسا ممکن ہے کہ  اس کے ہر طرف چاند پیدا ہونے کے لئے بے چین تھے۔ مگر ان میں سے زیادہ تر کو پیدا ہوتے ہی مشتری نے نگل لیا تھا۔ مشتری کے باقی ماندہ اور بچے ہوئے چاند جو آج ہمیں نظر آتے ہیں ان میں سے وہ  زندہ رہنے والے خوش قسمت چاند ہیں جنہوں نے اپنے مدار کو مشتری سے بالکل صحیح فاصلے پر متوازن کر لیا تھا۔ مگر مشتری کی مسلسل یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ ان بچ جانے والے چاندوں کو بھی نگل لے۔ اس دیو ہیکل سیّارے  کی قوّت ثقل وہاں تک جا پہنچتی ہے اور ان کو اپنے مداروں میں ٹکے رہنے میں کافی پریشان کرتی ہے۔ مشتری کی قوّت ثقل ان مردار چاندوں کو نہایت عجیب اور ڈرامائی دنیا بنا دیتی ہے۔

مشتری ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیّارہ  ہے۔ اس کے لگ بھگ ۶۳  چاند ہیں۔ ان میں سے ۴  بڑے چاندوں کو گلیلین(Galilean Moons) کہتے ہیں۔ ان کا یہ نام گلیلیو(Galileo) کے نام پر پڑا ہے جس نے ان کو۱۶۱۰ء میں دریافت کیا تھا۔ یہ چاند ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح قوّت ثقل  ان کی ساخت اور ان کے برتاؤ کو کنٹرول کرتی ہے۔ ان میں سے سب سے پہلا چاند جس کا نام آئی او  (Io)ہے  وہ مشتری سے سب سے قریبی مدار میں ۲۶۰  ہزار میل اوپر  چکر لگاتا ہے۔ یہ فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا ہماری زمین سے ہمارے چاند کاہے۔ مگر ہمارے چاند کی طرح  اس کی سطح پر شہابی گڑھے موجود نہیں ہیں۔ سائنس دان سمجھ گئے کہ اس کی سطح نئی نئی ہے۔ مگر ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔ ہر مرتبہ جب وہ آئی او  کو  چاہے خلائی جہاز سے دیکھتے  یا دوربین سے ان کو اس کی سطح مختلف ہی نظر آتی تھی۔ آئی او کی سطح ایسے تبدیل ہو رہی تھی جیسے کہ سیّاروں پر موسم تبدیل ہوتے ہیں۔ ان کو اس کی اس تفاوت پسندی کی وجہ سمجھ میں نہیں آ سکی۔ جب ناسا نے پہلی دفعہ خلائی جہاز آئی او کے قریب سے گزارا تو وہ ششدر رہ گئے۔ انہوں نے وہاں درجنوں زندہ آتش فشاں دیکھے  اور پھر ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ چاند کی سطح پر زندہ آتش فشاں کیسے ہو سکتے ہیں۔ صرف ایک ہی قوّت وہاں یہ کام کرسکتی تھی اور وہ تھی قوّت ثقل۔

مشتری کی قوّت ثقل اس قدر زبردست ہوتی ہے کہ وہ اس چاند پر پہنچ کر اس کی سطح کو چرمرا دیتی ہے۔ اور صرف مشتری کی قوّت ثقل ہی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ جب وہ دوسرے چاندوں کے پاس سے گزرتا ہے تو ان کی ثقلی قوّت بھی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا چاند کے قلب کو ہر وقت دھرا دباؤ جھیلنا پڑتا ہے۔ اس کو مدو جزر کی رگڑ (Tidal Friction)کہتے ہیں۔ اس عمل سے اس کے قلب میں زبردست گرمی پیدا ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی کوٹ کے ہینگر کو اس وقت تک موڑیں جب تک وہ ٹوٹ نہ جائے بس وہاں حرارت کچھ زیادہ ہی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہی رگڑ کی قوّت آئی او (Io)کے قلب کو اس قدر گرماتی ہے کہ وہ نظام شمسی میں موجود ایک زبردست زندہ آتش فشانی دنیا بن جاتی ہے۔ مستقل کھینچا تانی آئی او کے قلب میں درجہ حرارت کو ہزار ہا ڈگری تک پہنچا دیتی ہے اور وہ لاوے کو اگل دیتا ہے۔ آئی او مدو جزر اور قوّت ثقل کے باہمی تعلق کی سب سے بہترین مثال ہے۔ آئی او مستقل مشتری اور اس کے چاندوں کے درمیان پستا رہتا ہے جس کے نتیجہ میں زبردست حرارت پیدا ہوتی ہے۔ آتش فشانی سیلاب لاوے کی شکل میں آئی او کی سطح پر بہتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے کسی شہابیہ کے ٹکراؤ کا کوئی نشان نظر نہیں اتا۔

قوّت ثقل آئی او کے پڑوسی چاند یوروپا (Europa)کو بھی گرماتی ہے۔ یوروپا کا مدار مشتری سے کافی دور ہے لہٰذا یہ قدرے سرد ہے۔ لاوے کے بجائے یہاں کی سطح برفیلی ہے۔ انٹارکٹیکا میں سب سے کم درجہ حرارت منفی ۱۲۸ ڈگری ریکارڈ کیا ہے۔ جبکہ یوروپا کی سطح اس سے دگنی سرد ہوتی ہے۔ مگر اس برف کے نیچے پانی کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موجود ہو سکتا ہے۔ جس کو وہی مدو جزر والی رگڑ حرارت پہنچاتی ہے جو آئی او کو آتش فشانی بناتی ہے۔ یوروپا میں یقینی طور پر اس کی سطح کے نیچے سمندر موجود ہو سکتا ہے جس کا رابطہ سطح کے نیچے اس کی چٹانی قشر سے بھی ہو گا جو اس کو حرارت اور زرخیزی جو زندگی کو برقرار  رکھنے کے لئے ضروری ہے پہنچا تا ہو گا۔ مستقبل میں شاید ہم کوئی کھوجی یوروپا کی برف کے نیچے اس کی چھان بین کے لئے بھیج سکیں اور ہو سکتا ہے کہ ہم وہاں کے گرم پانیوں میں زندگی دریافت کر لیں۔ مشتری کے آئی او اور یوروپا سے دور مزید ۶۰ چاند اور ہیں۔ یہ مشتری سے کافی دور چکر کاٹ رہے ہیں جہاں اس کی قوّت ثقل اتنی طاقتور نہیں ہے۔ یہاں یہ اس قدر طاقتور نہیں ہے کہ مدو جزر کا اثر پیدا کرسکے جس سے ان کو حرارت بہم پہنچے۔ لہٰذا یہ دور کی دنیائیں سرد اور بنجر ہیں۔ مگر یہ بالکل روکھی پھیکی بھی نہیں ہیں۔ وہ لاتعداد شہابیوں کے تصادموں کے نشان سے مزین ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ ہی نشان ہمیں بتا تے ہیں کہ کس طرح ان تصادموں کے بعد مشتری  کے چاندوں کا نظام وجود میں آیا۔

زحل کے چاندوں کا نظام بھی مشتری سے کچھ کم نہیں ہے۔ یہ تقریباً  دو لاکھ میل پر پھیلا ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو زحل کے ایک ارب سے بھی زیادہ چاند ہیں۔ جی ہاں ایک ارب چاند۔ اس وقت تک کوئی بھی چیزکسی سیّارے  کا چاند ہی کہلائے گی جب تک وہ کسی سیّارے  کے  مدار میں چکر لگائے  چاہے وہ چیز  کوئی کنکر ہو یاکسی شہر جتنی بڑی  کوئی چٹان۔ یہ سب مل کر زحل کے چھلے بناتے ہیں۔ زحل کے حلقے لاتعداد برفیلے ٹکروں اور چٹانوں پر مشتمل ہیں۔ ان کا حجم ایک کنکر سے لے کر ایک شہر کے جتنا ہو سکتا ہے۔ ان تمام چھلوں کے ٹکڑوں کو جو ١٠ سے ٢٠ میٹر تک کے ہو سکتے ہیں ان کو کوئی نام تو نہیں دے سکتے نا ہی ان کی کوئی علاحده شناخت کر کے چاند کا نام دیا جا سکتا ہے۔ مگر جب کوئی ایک یا دو کلومیٹر کا کوئی ٹکرا نظر آتا ہے تو آپ اس کو چاند یا  ماہچہ کہنے کے لئے سوچتے ضرور ہیں۔

زحل کے چھلے فلکیات کی دنیا میں عرصہ دراز تک معمہ بنے ہوئے تھے۔ اس بات کو جاننے کے لئے کے وہ کیسے بنے تھے۔ ناسا نے کسینی کھوجی(Cassini Probe) ۱۲  سالہ مشن پر بھیجا تاکہ وہ زحل اور  اس کے گرد  چھلوں، اور اس کے چاندوں پر تحقیق کر سکے۔ کسینی نے زحل کی شاندار تصاویر لیں۔ ایک دفعہ کسینی زحل کے سائے میں موجود تھا اور اس پر سورج زحل کا سایہ بنا رہا تھا۔ سورج بالکل زحل کے پیچھے موجود تھا اور زحل کے پیچھے ایک نکتہ بھی نظر آ رہا تھا۔ وہ نکتہ اس کا کوئی چاند نہیں تھا بلکہ وہ وہاں سے دور دراز خلاء میں ایک ارب میل کے فاصلے پر  موجود ہماری زمین تھی۔ زحل،  اس کے گرد موجود چھلوں اور اس کے چاندوں کے بارے میں ہمیں زیادہ تر معلومات کسینی کے ذریعہ ہی پتا لگیں۔ کسینی کے پہنچنے سے پہلے ہم سمجھتے تھے کہ زحل کے صرف آٹھ چھلے ہیں مگر اب ہمیں معلوم ہے کے ان کی تعداد ۳۰ سے بھی زیادہ ہے۔ کسینی کے ذریعہ جو چیزیں ہم نے وہاں دیکھیں اگرچہ ہم وہ پہلے ہی دیکھ چکے تھے مگر جتنی  جزئیات کے ساتھ  کسینی نے ہم کو یہ معلومات بہم پہنچائی ہیں وہ دماغ کو ہلا دینے والی ہیں۔ سائنس دان سمجھتے  تھے کہ یہ چھلے اس بچی کچی گیس و گرد کے غبار سے بنے تھا جو زحل کے بننے کے بعد ٤ ارب سال پہلے  بچ گئی تھی۔ مگر ان کو حیرت اس بات پر تھی کہ اتنی پرانی چیز کو کائناتی دھول و غبار سے اٹ جانا چاہئے تھا مگر زحل کے چھلے تو صاف اور چمکدار نظر آتے ہیں بلکہ نئے لگتے ہیں۔ اس بات کی کھوج کے لئے مشن کنٹرول نے  کسینی کو ان چھلوں کے قریب کیا۔ اس کھوجی نے دیکھا کہ چھلوں میں موجود برف کے ٹکڑے مستقل ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں اور ٹوٹ رہے ہیں اور ہر نیا تصادم ایک نئی سطح کو اجاگر کرتا ہے جو نئی اور چمکتی ہوئی ہوتی ہے۔

شروع میں  نوزائیدہ زحل کے چھلے نہیں تھے بس کافی سارے چاند ہی تھے۔ پھر کسی وقت ماضی میں کوئی دم دار ستارہ خلائے بسیط سے آ کر  اس کے کسی چاند سے ٹکرا گیا۔ وہ دم دار ستارہ اس کے چاند سے ٹکرا کر ارب ہا ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا اور اس تصادم نے زحل کے چاند کو اس کے مدار سے نکل کر اس کے قریب کر دیا تھا۔ زحل کی زبردست قوّت ثقل نے اس چاند کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ اب دم دار ستارہ اور زحل کے چاند کے گرد و غبار نے مل کر زحل کی قوّت ثقل کے زیر اثر اس کے ان ٹکڑوں  کو زحل کے گرد چھلوں کی شکل میں جمع کر دیا تھا۔

چاندوں کی کہانی قوّت ثقل کی ہی کہانی ہے۔ قوّت ثقل ان چاندوں کو ان کے مدار میں قائم رکھتی ہے،  وہ ان کے قلب کو گرماتی ہے اور ان کی سطح کو شکل عطا کرتی ہے اور آخر میں ہر چیز کو کنٹرول کرتی ہے۔ ان کی بقاء اور سلامتی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ قوّت ثقل صرف چاندوں کو ہی تباہ نہیں کرتی بلکہ یہ نئے چاند  بھی بناتی ہے۔ یہ شہابیوں،  سیّارچوں،  اور پورے کے پورے سیّارے  کو بھی کسی سیّارے  کا قیدی بنا کر اس کا قدرتی سیّارچہ بنا دیتی ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ قوّت ثقل ہی چاندوں کے پیدا کرنے کا سبب ہے۔ عام طور سے یہ اس بچے ہوئے گیسی گرد و غبار سے چاند بناتی ہے جو کسی سیّارے کی پیدائش کے بعد بچ جاتے ہیں۔ مگر قوّت ثقل ایک اور طریقے سے بھی چاند بناتی ہے۔ یہ ان کو پکڑ کر کسی بھی سیّارے  کا قدرتی سیّارچہ بنا دیتی ہے۔ ذرا کسی آوارہ گرد شہابیے یا سیّارچہ کا تصور کریں کہ وہ بھٹکتا ہوا کسی سیّارے  کے قریب آ پہنچا  ہو۔ قوّت ثقل کسی سائنس فکشن فلم میں دکھائے ہوئے جال کی طرح اس کو گرفت میں لے لیتی ہے۔ اگر ذرا سی بھی کم ثقلی قوّت ہوئی تو وہ فرار ہو جاتا ہے اور اگر تھوڑی سی زیادہ ہوئی تو سیّارے  سے جا ٹکراتا ہے اور اگر بالکل مناسب فاصلے سے آتا ہوا کوئی شہابیہ یا سیّارچہ  پکڑا گیا تو وہ اس کو سیّارے  کے مدار میں چکر کاٹنے پر مجبور کر دیتی ہے اور وہ اس کا چاند بن جاتا ہے۔

مریخ کے دو چھوٹے چاند ہیں جن کے نام فوبوس(Phobos) اور ڈیموس (Deimos)ہیں۔ یہ دونوں مقید سیّارچے (Captured Asteroids) ہی ہیں۔ ان میں سے ایک باہر کی طرف زور لگا رہا ہے اور آخرکار مریخ سے راہ فرار حاصل کر لے گا۔ دوسرے اس سے قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے اور آخر کار اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا۔ کرویتھنیا (Cruithne)کو اکثر زمین کا دوسرا چاند کہتے ہیں یہ تین میل پر پھیلا ہوا ہے ۔ اتنے چھوٹے جسامت کی چیز کی دریافت کے ساتھ ۱۹۸۶ء میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ آخر چاند کہتے کس کو ہیں۔ صرف چند ہزار سال پہلے ہی کرویتھنیا  ایک عام سے سیّارچہ تھا جو سورج کے گرد چکر لگا رہا تھا جیسے کہ ارب ہا ارب سیّارچے سورج کے گرد چکر کاٹتے ہیں۔ یہ سیّارچوں کی پٹی سے بھٹکتا ہوا آ نکلا اور زمین کی قوّت ثقل کے پھندے میں پھنس گیا۔ مگر پھر کرویتھنیا نے ایک عجیب سی حرکت کی اس نے بجائے زمین کے گرد چکر کاٹنے کے جس طرح سے عام چاند کرتے ہیں زمین کے مدار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ اس کو شاید زمین کا چاند کہہ سکتے ہیں مگر یہ  اصل میں زمین کے گرد نہیں بلکہ اپنے خود مختار مدار میں سورج کے گرد چکر کاٹ رہا ہے۔

کبھی کبھی سیّارچے اپنا چاند بھی پکڑ لیتے ہیں۔ ۱۹۹۳ء  عیسوی میں گلیلیو خلائی جہازآئیڈاسیّارچہ (Ida Asteroid) کے پاس سے گزرا اور وہاں اس نے جو دیکھا وہ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ایک چھوٹا آدھے میل کا چاند اس شہابیے کا چکر کاٹ رہا تھا۔ ابھی تک صرف کوئی بھی خلائی جہاز صرف دو شہابیوں کے پاس سے ہی گزرا ہے جس میں سے ایک کا اپنا چاند ہے۔ یہ  اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شہابیوں کے اپنے چاند ہونا  کائنات میں ایک عام سی بات ہو گی۔

سارے مقیّد چاند چھوٹے نہیں ہوتے۔ ٹرائٹن(Triton)  ان سب مقیّد چاندوں کا  باپ ہے۔ یہ سیّارہ  نیپچون کے گرد چکر کاٹتا ہے۔ یہ کافی بڑا ہے اور اس کا قطر تقریباً  ۱۷۰۰میل پر محیط ہے۔ مگر ٹرائٹن چاند کی اپنی ایک الگ انوکھی کہانی ہے۔ ٹرائٹن نے ماہرین فلکیات کے دماغ کی چولیں ہلا کر رکھی ہوئی تھیں۔ عام طور  سے یہ ہی سمجھا جاتا تھا کہ جس طرف سیّارہ  خود گردش کر رہا ہے اسی طرف اس کے چاند بھی اس کے  مدار میں گردش کرتے ہیں۔ مگر نیپچون کے چاند ٹرائٹن کا معاملہ تو بالکل ہی الٹ تھا۔ نیپچون ایک طرف گھوم رہا  ہے جبکہ اس کا چاند اس کی گردشی سمت کے مخالف طرف گھوم رہا ہے۔ اس کا مطلب تو سائنس دانوں کو یہ سمجھ میں آیا کہ اس کی پیدائش نیپچون سیّارے  کے پیدا ہونے کے بعد بچ جانے والے گرد و غبار سے نہیں ہوئی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو  وہ اسی طرف چکر کاٹتا جس طرف سیّارہ   خود گھوم رہے ہے۔ لہٰذا کوئی چیز تو ہے جو اس  الٹی گنگا بہنے کا سبب بنی  ہے۔ ٹرائٹن کافی بڑا ہے اور اس کا مدار بھی کچھ عجیب سا ہی ہے۔ ٹرائٹن خود بھی کافی الگ ہے اور سائنس دانوں کو محسوس ہوتا تھا کہ یہ نیپچون کے چاندوں کے نظام کے تحت نہیں پیدا ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی بونا سیّارہ  (Dwarf Planet)تھا جو نیپچون کی قوّت ثقل کے زیر اثر یہاں قید ہو گیا ہے۔ سائنس دانوں کو یقین ہوا چلا ہے کہ ٹرائٹن،  پلوٹو کی ہی طرح کا کوئی بونا سیّارہ  تھا اور نیپچون جیسے دیو ہیکل سیّارے  کی قوّت ثقل لازمی طور پر اس قدر تھی کہ اس نے ایک ٹرائٹن کے حجم کا چاند پکڑ لیا۔ لازمی طور  ٹرائٹن نظام شمسی کے باہر ی حصّے میں پیدا ہوا تھا اور کسی موقع پر نیپچون کی گرفت میں آ گیا تھا۔ شاید ٹرائٹن کا اپنا بھی چاند تھا  اور وہ بھی اس کے ساتھ ہی پکڑا گیا تھا مگر بعد میں وہ تباہ ہو گیا ہو گا۔ ٹرائٹن کا وجود خطرے میں ہے۔ نیپچون اس کو اپنے سے قریب سے قریب تر کر رہا ہے۔ آخرکار وہ اس قدر قریب ہو جائے گا کہ نیپچون کی زبردست قوّت ثقل اس کو پارہ پارہ کر دے گی۔ ٹرائٹن چاند نیپچون کے چھلے  بنا کر پھر زندہ ہو گا۔

اب ہم ذکر کرتے ہیں اپنے چندا ماما  کا۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ یہ یہاں کیسے آیا؟ کیا یہ بھی کوئی مقیّد سیّارچہ تو نہیں ہے۔ حقیقت تو اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی ہے۔ یہ تو بہت ہی قیامت خیز ماحول میں وجود میں آیا ہے۔ ہمارا چاند دوسرے بہت سے چاندوں کی طرح چٹانی،  بنجر اور شہابی گڑھوں سے بھرا ہوا چاند ہے۔ مگر ایک طرح سے ہمارا چاند نظام شمسی کا ایک نہایت ہی منفرد چاند ہے۔ بہت عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ چاند بھی سیّارہ  زمین کے پیدا ہونے کے بعد بچی ہوئی گرد و غبار سے ہی وجود میں آیا۔ مگر ۱۹۶۰ء میں ہوئی تحقیق نے بالکل ہی الگ نظریہ پیش کیا۔ اس تحقیق میں بتا یا گیا کہ چاند  ایک زبردست تصادم کے نتیجہ میں وجود میں آیا۔ شروع میں تو یہ نظریہ زیادہ مقبول عام نہیں ہوا کیونکہ اس بات کے ثبوت تو چاند ہی پر موجود تھے اور اس ثبوت کو حاصل کرنے کے لئے اس وقت تک انتظار کرنا تھا  جب تک اپالو کے خلا نورد چاند پر پہنچ نہیں گئے۔ وہ وہاں سے سینکڑوں پونڈ چاند کی چٹانیں لے آئے۔ سائنس دانوں نے ان چٹانوں کا تجزیہ کیا  اور وہ اس وقت حیران رہ گئے جب انہوں نے چاند سے لائی ہوئی چٹانوں کو بالکل زمین کے جیسی چٹانوں کے جیسا پایا جن کو بہت زیادہ درجہ حرارت پر گرم کیا ہو۔ آخر ایسا کیسا ہو سکتا تھا کہ زمین کے ٹکڑے زبردست گرم ہو کر چاند کی سطح پر پہنچ گئے ہوں۔ ہارٹ مین کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ یہ  ٹکڑے زمین سے ہی بنے ہیں۔ زمین سے کسی چیز کی ٹکر سے اس کی ہلکی سطح پھٹ گئی ہو گی اور چٹانی مادّہ اوپر آ گیا ہو گا۔ پھر اس غبار نے زمین کے مدار میں جا کر چاند کو بنایا ہو گا۔ چاند کی پیدائش زمینی چٹانی گرد و غبار سے ہی ہوئی ہے۔ ذرا آج سے ٤۔ ٥ ارب  سال پہلے نظام شمسی کا تصور کریں۔ نوزائیدہ زمین ان سینکڑوں سیّاروں میں سے ایک تھی جو سورج کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ ان میں سے ایک مریخ کے حجم کا سیّارہ  جس کا نام تھیا  (Theia)تھا اس کا تصادم زمین سے ہوا۔ زمین اور تھیا  ایک دوسرے سے کئی ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹکرائے۔ تھیا تباہ ہو گیا اور زمین بمشکل بچ پائی۔ اس تصادم نے ارب ہا ٹن گرد و غبار خلاء میں چھوڑا۔ اب یہ زمین کے بچے ہوئے ٹکڑے آپس میں جڑنا شروع ہوئے اور ہمارے چاند کی پیدائش ہوئی۔ یہ بہرحال ایک نظریہ ہی ہے۔

مگر اس نظریے کی جانچ کس طرح کی جا سکتی ہے۔ ناسا میں ورٹیکل گن رینج تجربہ گاہ میں اس قدیمی حادثاتی ٹکراؤ کو دہرایا جا رہا ہے۔ جہاں ایک ۳۰  فٹ لمبی بندوق ایک چھوٹی  سی چیز کو ۱۸ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکتی ہے۔ یہ چھوٹی سی چیز تھیا کی نقل ہے  جبکہ جس گیند پر یہ پھینکی جا رہی ہے وہ زمین کی شبیہ ہے۔ اس تجربے میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے مختلف زاویوں سے تھیا کو زمین پر مارا تاکہ وہ اس بات کی جانچ کر سکیں کہ کس زاویے سے تھیا زمین سے ٹکرایا تھا جس سے چاند کا ظہور ہوا۔ پہلی ٹکر میں تھیا زمین کے اوپری حصّے سے ٹکرایا۔ اس ٹکر میں زمین نے کچھ دھول اور مٹی خلاء میں پھینکی اور اس پر ایک طاس (Basin)بن گیا۔ یہ طاس ہزاروں میل لمبا اور چوڑا تھا۔ ان تجربے میں تھیا نے صرف زمین کی اوپری سطح ہی چھیلا تھا اور دھول اور مٹی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ جس سے چاند پیدا ہو سکے۔ دوسرے تجربے میں تھیا سیدھا زمین سے ٹکرایا۔ اس سے زمین ہی کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کی بچی ہوئی مٹی نے کئی دوسرے چھوٹے سیّارے  بنا دیئے۔ لہٰذا جب زمین ہی نہ رہی تو چاند کہاں سے آتا۔ تیسرے تجربہ میں بندوق کا رخ پھر تبدیل کیا  اور ایک نئے زاویے سے تھیا زمین سے ٹکرائی۔ اس تجربے میں سائنس دانوں نے دیکھا کہ زمین بمشکل بچ سکی۔ اس ٹکر میں زمین کا ایک بڑا ٹکرا ٹوٹ گیا اور دھول اور مٹی خلاء میں بکھر گئی۔ یہ ہی چاند کے بننے کی شروعات تھی۔ تجربے نے بتایا کہ تھیا زمین سے ٹکرا کر پاش پاش ہو سکتا تھا اور اس حادثے میں چاند کی تخلیق ہو سکتی تھی۔ مگر اس تصادم کو بالکل ٹھیک زاویے سے ہونا تھا۔ ہماری خوش قسمتی کہ ایسا ہی ہوا۔ آج چاند زمین سے ۲۵۰  ہزار میل دور ہے۔ مگر جب یہ پہلی دفعہ بنا تھا تو زمین سے صرف ۱۵ ہزار میل اوپر ہی تھا۔ چاند کی تخلیق کے ہم ٥٠ کروڑ سال بعد  اگر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے  تو وہ آسمان کا کافی حصّہ گھیرے ہوئے نظر آتا۔ وہ بہت ہی بڑا نظر آتا کیوں کہ وہ زمین سے بہت ہی قریب تھا۔ اس وقت زمین کی گردش اتنی تیز تھی کہ ایک دن چھ گھنٹے میں پورا ہو جاتا تھا۔ چاند کے زمین سے اس قدر نزدیک ہونے کی وجہ سے اس نے ایک بریک کی طرح کام کیا اور زمین کی گردش کو آہستہ کیا اتنا آہستہ کہ اب اس کی گردش ۲۴  گھنٹے میں مکمل ہو جاتی ہے۔ چاند کی قوّت ثقل عظیم مدو جزر پیدا کرتی ہے۔ جس سے سمندروں  میں معدنیات  اور غذائیت بخش اجزاء حل ہو جاتی ہیں۔ اس ہی نے وہ اوّلین گاڑھا مادّہ پیدا کیا  جس سے زندگی کا آغاز ہوا۔ ہمارے چندا ماما کے بغیر زمین پر زندگی کی شروعات نہیں ہو سکتی تھی اور شاید دوسرے چاند بھی زندگی کو پنپنے کے لئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

چاند کائنات کی عظیم حیاتیاتی تجربہ گاہیں ہیں۔ چاند حیرتوں کے پہاڑ ہیں۔ ان کی متنوع فیہ قسمیں ہیں۔ جس میں عظیم آتش فشاں سے لے کر وسیع سمندر تک موجود ہیں۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ وہ حیات کو دوام بخشنے والے مرکبات سے بھرپور ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں موجود چاند کائنات کو سمجھنے کے لئے ایک بہترین جگہ ہیں۔ شاید ہم یہاں زندگی کو کسی شکل میں ڈھونڈھ ہی نکالیں گے۔ شاید یہاں ہمیں ایسی زندگی مل سکے جو کائنات میں موجود حیات کے بارے میں  راز افشا کرے۔

پہلی نظر میں کوئی بھی چاند حیات کے لئے موزوں نہیں لگتا۔ انسیلیڈس کو ہی لیجئے۔ یہ چمکتی ہوئی برفیلی گیند ہے ۳۰۰  میل پر محیط یہ زحل کے گرد چکر کاٹ رہی ہے۔ یہ نظام شمسی کا روشن ترین جسم ہے۔ یہ ۱۰۰  فیصد روشنی کو منعکس کرتا ہے۔ یہ نہایت روشن اور چمکدار ہے۔ کیونکہ یہ پانی کی برف سے بنا ہوا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں کسینی کھوجی نے یہاں کے برفیلے آتش فشاں دیکھے جو اس کی سطح پر موجود تھے۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ اس کے قلب میں موجود حرارت ہی یہ کام کر رہی ہو گی اور حرارت ہی پانی کے سمندر بناتی ہے اور جہاں پانی ہوتا ہے وہاں زندگی ہونے کا امکان ہوتا  ہے۔ یہاں پر موجود ایک چشمہ پانی کو ۱۵۰ فٹ کی بلندی تک پھینک رہا ہے۔ یہ بہت ہی حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے۔ اگر آپ انسیلیڈس  کی سطح پر کھڑے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں موجود چشمے برف کے ذرے  اور پانی کے بخارات خلاء میں میلوں دور پھینک رہے ہوں گے۔

برفیلے  آتش فشاں کو قوّت ثقل توانائی پہنچاتی ہے۔ یہاں زحل کی قوّت اس کے چاند کے قلب کو گرما رہی ہے۔ اس کی سطح کے نیچے موجود پانی گرم ہو کر پھیلتا ہے اور سطح سے پھٹ کر باہر نکلتا ہے اور فضا میں برف کی قلمیں بنا کر اچھال دیتا ہے۔ یہ نظام شمسی کے چند شاندار نظروں میں سے ایک ہیں۔ ان آتش فشانیوں کی برف میں سائنس دانوں کو سادہ حیاتی سالمے ملے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ سطح زمین کے نیچے موجود پانی نہ صرف گرم ہے بلکہ حیاتیاتی مرکبات سے بھی بھرپور ہے۔ زندگی کی شروعات کے لئے تین انتہائی اہم چیزیں  یعنی حرارت،  پانی اور غذائیت سے بھرپور اجزاء  زمین کے سمندروں میں موجود ہوتی ہیں یہ تینوں چیزیں وہاں پر زیر زمین سمندروں میں بھی موجود ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک زبردست دریافت تھی کہ انسیلیڈس  میں زیر زمین سمندر موجود ہے اور شاید مشتری کے چاند یوروپا میں بھی۔ مگر صرف یہ ہی وہ چاند نہیں ہیں جہاں زندگی شروع ہو سکتی ہے۔ زحل کا ایک اور چاند ہے ٹائٹن جہاں زندگی شروع ہونے کا سب سے زیادہ امکان ہے۔

۲۰۰۵ء میں کسینی نے ایک کھوجی جس کا نام ہائی گنز  (Huygens)تھا وہ یکطرفہ مشن پر ٹائٹن پر بھیجا۔ صرف ۳۱.۵ گھنٹے ہائی گنز نے براہ راست ٹائٹن کی سطح کی تصاویر زمین سے ایک ارب میل دور سے بھیجیں۔ اس کے بعد اس کی بیٹری ختم ہو گئی۔ یہ بہت ہی ہیجان انگیز تھا  پہلی دفعہ انسان کی بنائی ہوئی کسی چیز نے اس کی سطح کو چھوا تھا۔ یہ ایک ایسا موقع تھا جسے پوری دنیا میں منانا چاہیے تھا۔ یہ واقعی تاریخ ساز لمحہ تھا۔

ٹائٹن میں بارش کے قطرے زمین سے دوگنے ہوتے ہیں  مگر وہاں بارش پانی کی نہیں بلکہ میتھین کی ہوتی ہے۔ زمین پر میتھین گیس کی شکل میں موجود ہوتی ہے مگر ٹائٹن پر یہ مائع حالت میں پائی جاتی ہے۔ کیونکہ وہاں درجہ حرارت کافی کم ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں کوئی میتھین کی برف کے تودے موجود ہوں،  یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں جھیلیں،  دریا،  بارش  اور بادل سب کے سب میتھین کے ہوں  اور ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی کیڑا بھی میتھین میں تیرتا ہوا مل جائے۔ مائع میتھین  میں پلنے والے کیڑے سوچ کر ہی عجیب سے محسوس ہوتے ہیں۔ سائنس دان یہ دریافت کر چکے ہیں کہ انسیلیڈس،  یوروپا  اور ٹائٹن سب کے سب ایک مادّے جس کا نام تھولین(Tholin) ہے سے بھرپور ہیں۔ تھولین زندگی کو شروع کرنے والے بنیادی عنصر کا ایک اہم جز ہے۔ ہو سکتا ہے کہ زندگی کسی ایک یا ایک سے زیادہ ماوراء ارض  چاندوں پر نمودار ہو جائے۔

کرس مکآئی(Chris Mckay) تھولین بنانے کے عمل کو تجربہ گاہ میں دہرا رہے ہیں۔ انہوں نے ٹائٹن میں پائے جانے والے مکسچر کو بجلی کے ساتھ ملایا تو ان کو ایک سرخی مائل بھورے رنگ کا گارا ملا جس کو ہم تھولین کہتے ہیں۔ یہ غیر حیاتیاتی اور غیر نامیاتی مرکب ہے۔ انہوں نے اس کو کیمیائی توانائی سے بنایا  جس میں نائٹروجن اور میتھین شامل ہیں  اور یہ گیسیں ٹائٹن میں عام پائی جاتی ہیں۔ سائنس دانوں نے اس طرح کے ثبوت انسیلیڈس  میں بھی دیکھے ہیں۔ بلکہ سورج کے بیرونی مدار میں موجود اکثر چاندوں پر اس قسم کے مرکب پائے گئے ہیں۔ یہ قدرت کے وہ اجزاء ترکیبی ہیں جن سے آخر کار زندگی نمودار ہو جاتی ہے۔ سورج کے بیرونی مدار میں موجود کسی چاند پر ہو سکتا ہے زندگی کی شروعات ہو چکی ہو۔ مگر شاید وہ زندگی اس زندگی سے کافی مختلف ہو جو ہم زمین پر دیکھتے ہیں۔ یہ زندگی کا ورژن ۲ ہو جو زندگی کے ورژن ۲ سے کافی مختلف ہو۔ درحقیقت زندگی ۲ جتنی زیادہ الگ ہو گی اتنی زیادہ دلچسپ ہو گی۔ چاہے یہ زندگی پر پائی جانے والی زندگی کے جیسی ہو یا اس سے مختلف،  سورج کے بیرونی مدار میں پائے جانے والے ان چاندوں میں ملنے والی زندگی ہمیں کائنات میں موجود زندگی کو ڈھونڈھنے کے طریقہ کو بدل کر رکھ دے گی۔ اگر ہم نظام شمسی میں زندگی کو کسی دوسری جگہ پر ڈھونڈھنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم اس بحث کو ختم کرسکتے ہیں کہ ہم اور ہماری زندگی کائنات میں منفرد اور انوکھی ہے۔

چاند سیّاروں کے مقابلے میں اگرچہ چھوٹے ہوتے ہیں مگر وہ نہایت متنوع فیہ اور متحرک ہوتے ہیں۔ یہ ہمیں کائنات کے کام کرنے کے طریقہ کار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ اس کونیاتی نظام کا لازمی حصّہ ہیں۔ چاندوں کے بغیر ہمارا نظام شمسی بالکل ہی علیٰحده ہوتا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اپنے چندا ماما کے بغیر زمین پر زندگی کبھی پنپ ہی نہیں سکتی تھی۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید