FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

آئینے سے مکالمہ

 

(حصہ اول: اردو غزلیں، نظمیں)

۲۰۱۵ء۔ تا۔ ۲۰۱۸ء

 

محمد یعقوب آسیؔ

 

 

 

 

آئنے سے مکالمہ (حصہ اول)

اردو غزلیں: دریا بولتا تھا

اردو نظمیں: اور پہیلی کورا کاغذ

(موجودہ کتاب میں شامل)

 

مزید حصے:

پچھلی عمرے

پنجابی غزلاں: دھولا جھاٹا

پنجابی نظماں: جگراتے

پنجابی بولیاں: چنگے بھانویں ماڑے

(یہ حصہ یہاں ہے)

 

پنجابی شعر وچ ترجمے: گوڈے مڈھ سمندر

فارسی شاعری: فرصتِ کشمکش

(یہ حصہ یہاں ہے)

 

مکمل کتاب یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

یہ حصہ ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

بدرِ احمر کے نام

 

 

 

؏: یہ خموشی اگر قیامت ہے

 

ستارہ بولتا ہے؟ ہاں! بولتا ہے! ٹوٹ کر بکھرتا ہے، تب بولتا ہے، ورنہ اندر ہی اندر ابلتا رہتا ہے۔ اس کے ابلنے اور ٹوٹنے کی آواز سنائی دے یا نہ دے، دکھائی ضرور دیتی ہے۔ اسی لئے تو اسے روشنی کہا جاتا ہے۔ بات گنجلک ہو گئی نا! سلجھانے کی کوشش میں اور گنجلک ہو سکتی ہے۔ کسی سے پوچھتے ہیں، مگر کس سے؟ چلئے آئینے سے پوچھتے ہیں۔ مگر!! ’’آئنے سے مکالمہ‘‘ اول تو ہو ہی نہیں پاتا کہ اپنا سامنا کرنا شاید مشکل ترین کام ہے۔ ہو بھی جائے تو اس کی تاثیر کہاں تک ہوتی ہے؛ اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔

میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں، میرا عکس مجھے دیکھتا ہے۔ میں اس سے کچھ کہنا، یا شاید کچھ پوچھنا چاہتا ہوں تو اُس کے ہونٹوں پر حرکت کا شائبہ ہوتا ہے۔ وہ بھی ایسی ہی کیفیت میں  ہو گا! چلو میاں! تم ہی پہلے کہہ لو۔ وہ میری سوچ پڑھ لیتا ہے اور اس کے ہونٹوں کی حرکت کہیں گم ہو جاتی ہے ؛ آنکھوں کا تاثر بھی شاید بدل جاتا ہے یا شاید یہ بھی میرا واہمہ ہے؟ جو عین اسی وقت اس کی آنکھوں میں  جھلکنے لگتا ہے اور ہم ایک دوسرے کو گھورنے لگتے ہیں! اب کچھ کہہ بھی چکو، یار! یا پھر مجھے کہنے دو۔ میں خاموش ہوتا ہوں تو وہ بھی خاموش ہوتا ہے، میں  کچھ کہنے کی سوچتا ہوں تو اس کے ہونٹ کپکپاتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بھی اسی کیفیت میں ہو گا! چلو میاں! تم ہی پہلے کہہ لو۔۔ ۔ عجیب مکالمہ ہے! کبھی ختم نہ ہونے والی اس کہانی کی طرح جو کبھی نصاب کی کتابوں میں پڑھی تھی۔ ختم ہونے کی بات یہاں کہاں، یہاں تو مکالمہ شروع ہی نہیں  ہو پاتا۔ کیسا دیوانہ تھا! جو سہج سبھاؤ یہ کہہ کر چلتا بنا کہ ’’آئنے سے مکالمہ کر لو‘‘۔

زندگی آئینے سے اسی مکالمے کی توسیع ہی تو ہے! میں اتنا کھرا ہوں کہ اپنے آپ سے آنکھوں  میں  آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہوں تو کسی سے بھی کر سکتا ہوں ؛ وہ کوئی فرد ہو، کوئی گروہ ہو، کوئی بستی ہو، کچھ لوگ ہوں، یا ساری دنیا ہو۔ زندگی کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا عمل بھی کھرا ہو تو زندگی کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ فن کا کام زندگی کے مظاہر کو جمال بخشنا ہے۔

میرا اِحساس میرے قاری تک بھی پوری قوت اور حسنِ ادا کے ساتھ پہنچ جائے تو جانئے میں نے منزل کے آثار پا لئے۔ جذبے اور جمال کو محسوس کرنے والے احباب کو اس میں حرفوں کی دھڑکنوں اور لفظوں کے کانپتے ہونٹوں کا ادراک ہو جائے تو میں نے منزل بھی پا لی۔ رہی بات زبان کی تو نام سے قطع نظر میری اور آپ کی زبان وہ ہے جس میں ہم ایک دوسرے کو محسوس کر سکیں۔ ایک بات کو میں سمجھا کہ اردو میں  بہتر بیان کر سکتا ہوں، دوسری کو پنجابی میں، تیسری کو فارسی میں ؛ تو میں  نے اپنی سی کر لی۔ فارسی کے حوالے سے یوں  کہئے کہ ایک شعر مجھے چھیڑ گیا تو میں نے آپ کو بھی اس میں  شریک کر لیا۔ آپ کہتے ہیں یہ ترجمہ ہے، یہ ترجمانی ہے، یہ دانش کا یا محسوسات کا سفر ہے، یا کسی اور انداز کی سانجھ ہے ؛ سانجھ ہونی چاہئے اس کے ہزاروں نام ہو سکتے ہیں۔

میرے لفظوں کی ہکلاہٹ میرے زیرک نیوش دوستوں سے چھپی نہیں رہ سکے گی۔ اس کو آئینے کا خوف کہہ لیجئے یا اس کے سامنے میرے لبوں کی کپکپاہٹ سمجھ لیجئے۔ یہ بھی کیا کم ہے کہ میرا مجھ سے مکالمہ ہو پانے کا امسکان تو پیدا ہوا۔ یہ آپ پر ہے کہ آپ اس مکالمے میں کس حد تک شریک ہوتے ہیں۔

فقط: محمد یعقوب آسیؔ۔۔

منگل، ۱۲۔ فروری ۲۰۱۹ء

 

 

 

دریا بولتا تھا

O

ہجر نے جتنے سکھائے تھے قرینے مجھ کو

وصل میں بھول گئے سارے کے سارے مجھ کو

صورتِ عکس لرز جائے گا وہ پانی میں

اس سے کہہ دو مری آنکھوں سے نہ دیکھے مجھ کو

ابر گیسو کی جھلک آئی نظر سپنے میں

آئے پھر دیر تلک نیند کے جھونکے مجھ کو

کان بجتے ہیں بھرے شہر کے سناٹے میں

اس خرابے میں کوئی ہے جو پکارے مجھ کو

جل گئی روح بھی جب آگ چناروں میں لگی

وقت نے ایسے مناظر بھی دکھائے مجھ کو

شہر والو کوئی مجھ جیسا بھی تنہا ہو گا

اپنے آسیؔ سے کہو، اپنا بنا لے مجھ کو​

۳۔ دسمبر ۲۰۰۹ ء​

۔۔

 

 

 

 

 

O

جی میں آتی ہے کہ جوں مہر اجالوں خود کو

مطلعِ تیرۂ مغرب سے اچھالوں خود کو

اس سے پہلے کہ ہوا گرد اڑائے میری

سوچتا ہوں کہ میں اک سنگ بنا لوں خود کو

شیشۂ دل میں تری بات سے بال آیا ہے

تو ہی بتلا کہ میں کس طور سنبھالوں خود کو

میرے اطراف میں اک آہ و بکا جاری ہے

کیسے ممکن ہے اداسی سے بچا لوں خود کو

دم بھی سینے میں اترتا ہے تو گھُٹ جاتا ہے

جسم کی قید سے چاہوں کہ نکالوں خود کو

اے دلِ زار مجھے خود میں سمٹ جانے دے

اپنی بھیگی ہوئی پلکوں میں چھپا لوں خود کو

۵۔ جون ۲۰۱۰ء

۔۔

 

 

 

 

 

O

کانٹے اسی کے توڑئیے، نشتر میں ڈھالئے

خونِ رگِ گلاب سے خوشبو نکالئے

حیراں تو اس لئے ہوں، مرے کس گناہ پر

نفرت نے دل میں آپ کے ڈیرے جما لئے

طاقت کے بل پہ آپ کی شہرت بہت ہوئی

کمزریوں کو میری بھی، لیجے اچھالئے

مجھ پر تو میری جان بھی بوجھل ہے ان دنوں

تحفے دئے تھے آپ نے جو سب سنبھالئے

دل بجھ گیا تو آنکھیں بھی روشن نہیں رہیں

اب تو غموں کی آنچ پہ کچھ اشک ڈھالئے

اس بھول پن پہ آپ کے، آسیؔ جی کیا کہیں

یاروں کے اعتماد پہ دشمن گنوا لئے

۲۱؍ جون ۲۰۱۵ء

۔۔

 

 

 

 

O

 

دردِ اظہار میں کٹ جاتی ہے

روح گفتار میں کٹ جاتی ہے

کون کہتا ہے کہ رفتارِ حیات

حلقۂ دار میں کٹ جاتی ہے

کام کا کام نہ کر پائیے تو

کارِ بے کار میں کٹ جاتی ہے

اے خوشا، آبلہ پا! ہر تکلیف

راہِ پرخار میں کٹ جاتی ہے

بازئ دل ہے عجب جنگ آثار

جیت بھی ہار میں کٹ جاتی ہے

شبِ فرقت کی طوالت معلوم

شوقِ دیدار میں کٹ جاتی ہے

۱۳۔ جنوری ۲۰۱۶ء

۔۔

 

 

 

O

راستہ میں بناؤں گا یارو

تم مرے پیچھے پیچھے آ جاؤ

ساتھ چلنے کا رنگ ہو اپنا

تھام کر ہاتھ میرے ساتھ چلو

چال دیکھو کبھی ستاروں کی

حال میں اپنے یوں نہ مست رہو

یہ خموشی اگر قیامت ہے

آئنے سے مکالمہ کر لو

دوستی یہ نہیں کہ راہ براہ

وہی رسمی سوال: کیسے ہو

وقت کے ہاتھ میں طمنچہ ہے

کون جانے کہاں پہ کھیت رہو

۲۳۔ جنوری ۲۰۱۷ء

۔۔

 

 

 

 

 

O

یہ میں کیسے نگر میں آ گیا ہوں

کہ خود کو اجنبی سا لگ رہا ہوں

یہ تنہائی ہے کیوں میرا مقدر

یہ تنہائی میں اکثر سوچتا ہوں

سرِ دشتِ تخیل یہ خموشی

میں اپنی ہی صدا سے ڈر گیا ہوں

تمہاری ذات سے نسبت جو ٹھہری

سو خود کو معتبر لگنے لگا ہوں

کھٹکتا ہوں انہیں، تو کیا عجب ہے

تمہارے ساتھ جو بیٹھا ہوا ہوں

گھرا ہوں جانے کب سے دوستوں میں

کسی دشمن کا رستہ دیکھتا ہوں

مروت کا نہ پوچھو یار، مجھ سے

میں اپنے آپ سے روٹھا ہوا ہوں

وہ مجھ جیسا مرا ہمزاد ہو گا

کہ میں کب کا یہاں سے  جا چکا ہوں

مجھے کتنے ملے غم دوستوں سے

بتاؤ کوئی، میں بھولا ہوا ہوں

یکم مارچ ۲۰۱۷ء

۔۔

 

 

 

O

شکوۂ روز و شبِ تلخ بھی کرنے نہ دیا

مجھ کو اک شخص نے نظروں سے اترنے نہ دیا

آنکھ بھرتی ہی نہ تھی، اُس کے رُخِ سادہ سے

اِس لئے بھی تو اسے میں نے سنورنے نہ دیا

لذتیں ہجرِ مسلسل کی بھی کچھ ہوتی ہیں

اور کچھ اُس کی محبت نے بھی مرنے نہ دیا

وقت کے ساتھ کچھ انگور لگا تھا آنے

اپنے پیاروں نے مگر زخم کو بھرنے نہ دیا

اے انا! تیرے لئے درد جہاں بھر کے سہے

ہاں، مگر خود کو بلندی سے اترنے نہ دیا

شہر والو کوئی مجھ جیسا بھی تنہا ہو گا!

جس کی خود داری نے اظہار بھی کرنے نہ دیا

۱۶۔ اپریل ۲۰۱۷ء

۔۔

 

 

 

O

گرا تو ہوں پہ لمبے فاصلے طے کر گیا ہوں

کہ میں ٹوٹے پروں کے زور پر اُڑتا رہا ہوں

مجھے اسلاف سے ورثے میں فتنے بھی ملے ہیں

پہ حسبِ استطاعت اِن کے آگے ڈَٹ گیا ہوں

پٹخ دیں گے زمیں پر، آج کل کی بات ہے بس

میں اپنے دوستوں پر بوجھ بنتا جا رہا ہوں

ستارے مجھ کو جلتی بجھتی آنکھیں لگ رہے ہیں

اِنہی آنکھوں سے شش پہلو جہاں کو دیکھتا ہوں

مرے اُس فعل کو وہ بزدلی گردانتا ہے

سہارا کیوں دیا دشمن کو، اب پچھتا رہا ہوں

نکلتے ہیں تڑپ کر، اشک ہوں یا لفظ، آسیؔ

میں چشم و لب کی کم ظرفی سے تنگ آیا ہوا ہوں

۹۔ مئی ۲۰۱۷ء

۔۔

 

 

 

O

دل کی دنیا مہیب دنیا ہے

ڈر سا اک روز کلبلاتا ہے

روز و شب ایک سے ہوئے آخر

روشنی ہے نہ اَب اندھیرا ہے

نام کے اس فقیر کو دیکھو

آسماں سا مزاج رکھتا ہے

یوں بھی از راہِ خاطرِ احباب

مجھ کو بالجبر مسکرانا ہے

میری آنکھوں میں خیر کیا ہو گا

آئنہ ہی اداس لگتا ہے

سرگزشتِ حیات کا حاصل

سادہ کاغذ کا اِک پلندا ہے

غنچۂ اشک شاخِ مژگاں پر

دردِ پنہاں سے پھوٹ جاتا ہے

اُس کی آنکھیں بھی ہیں اداس بہت

اُس کا چہرہ بھی اپنے جیسا ہے

میرے دل میں بسا ہے سناٹا

یار کہتے ہیں، شور کرتا ہے

اپنے آسیؔ کا پوچھتے ہو کیا

اک عجب جُوز طبع بندہ ہے

۱۲۔ اکتوبر ۲۰۱۷ء

۔۔

 

 

 

 

 

O

ہر لحظہ بہ ہر رنگ تحیر کا سبب ہے

یہ نقصِ تسلسل کا تسلسل بھی عجب ہے

وہ دشمنِ ایماں ہے، چلو مان لیا، پر

یہ دل بھی تو ضدی ہے، مری مانتا کب ہے

گفتار کے شعلوں میں اسے جھونک نہ دینا

کردار سے ہے، تیرا اگر نام و نسب ہے

اک قطرۂ نمکیں کو بناتی ہے دُرِ ناب

اک طُرفہ اتالیق یہ تاریکیِ شب ہے

ہر گام خبر دیتی ہے، منزل کی، جنوں کو

گو اپنی طبیعت میں خرد عیش طلب ہے

میں نہرِ لبن کھودوں گا ہر راہ گلی تک

اِن تیشہ بدستوں کے لئے وجہِ غضب ہے

اک عمر سے حائل ہے سر و صدر میں حلقوم

بے تابیِ افکار نہ پہلے تھی نہ اب ہے

زندہ ہوں، نہ مردہ ہوں، نہ بے کل، نہ پریشاں

سکرات کا نشّہ ہے! نہ غم ہے، نہ طرب ہے

جذبے بھی تو اظہار کے محتاج ہیں آسیؔ

خود دیکھ لے کتنا ترے الفاظ میں ڈھب ہے

۲۰۔ نومبر ۲۰۱۷ء

۔۔

 

 

 

 

 

O

کسی کی رُوح نے مجھ میں عجب حلول کیا

فروغِ داغ نے دل کے لہو کو پھول کیا

ترا مزاج فلک سے کہاں اترتا تھا

مری فغاں نے اِسے مائلِ نزول کیا

مرے شہاب صفت، کیا تجھے نہیں معلوم؟

کہ کس خلا نے کسے کیسے دھول دھول کیا

ترے کمال کو بھی تو زوال ہونا تھا

خراج، وقت نے اپنا، سدا وصول کیا

فقیہ شہر کے ماتھے پہ ناگواری تھی

سو، ہم نے شہر میں رہنا نہیں قبول کیا

۲۴۔ اپریل ۲۰۱۷ء

۔۔

 

 

 

 

 

O

غبارِ جاں میں چھپ جاتا ہے گردوں

اگر آنکھوں کو اشکوں سے نہ دھوؤں

دِلِ خارا بھی پتھر ہو چکا ہے

کہاں سے آنکھ میں اترے جوئے خوں

مرے لہجے میں دریا بولتا تھا

اب آبِ حرف کو ترسا ہوا ہوں

مفاصل کی، نہ کچھ اعضاء کی پروا

کچھ اپنے آپ میں کھویا گیا یُوں

بدل جائیں گے لفظوں کے معانی

نظر کا زاویہ کس طور بدلوں

رگوں میں برف سی جمنے لگی ہے

تمازت ہو تو چہرے کو اجالوں

ہوا بھی سمت کھو بیٹھی ہے اب تو

بسا حسرت! رُخِ دریا بھی دیکھوں

مجھے قطرہ بھی طوفاں لگ رہا ہے

تو کیا میں تشنگی میں ڈوب جاؤں؟

حجازی دم میں کوئی دم نہیں ہے

سو، اب چنگیز کیا اور کیا فریدوں

حدیثِ دل بیاں کر دی ہے میں نے

پہ ہیں خاموش دنیا کے فلاطوں

یہ میرا آئنہ خانہ ہے آسیؔ

یہاں کوئی نہیں، بس میں ہی میں ہوں

۳۰۔ جنوری ۲۰۱۹ء

۔۔

 

 

 

 

ابیات و قطعات

 

O

پھر دلِ درد گزیدہ نے صدا دی مجھ کو

سانس نے تیز مگر سرد ہوا دی مجھ کو

دُودِ بغداد کو مِدرار نہ سمجھو، زِنہار

شہرِ کم گوش میں کرنی ہے منادی مجھ کو

۵۔ جون ۲۰۱۰ء

 

O

بجا، کہ چاند چھپ گیا، تو چاندنی چلی گئی

ہے اپنی شب کمال کی، کہ پھیلتی چلی گئی

چلو فراق ہی سہی، گئے وہ دن وصال کے

پہ نیند کو یہ کیا ہوا، کہ نیند ہی چلی گئی

طبیب! تو نے بھولپن میں نام کس کا لے دیا

کہ نبضِ کُشتۂ فراق ڈوبتی چلی گئی

۲۔ اگست ۲۰۱۵ء

 

 

O

اُس کی یادوں سے مفر ڈھونڈا کتابوں میں مگر

اُس کا چہرہ نقطہ و خط میں نمایاں ہو گیا

۱۷۔ اکتوبر ۲۰۱۵ء

 

O

اپنے احساس کی شدت ہی پہ موقوف نہیں

سرد مِہری بھی جلاتی ہے بہت یاروں کی

یکم ستمبر ۲۰۱۵ء

 

O

یہاں پہ سر بہ گریباں ہے ناطقہ اے ہوش

کہ یہ دیارِ ادب٭ ہے، بلند بانگ نہ بن

٭حرمَین شریفَین

۲۔ ستمبر ۲۰۱۵ء

 

O

خواب ویران ہو گئے پھر سے

کیا پھر اک درد کی ضرورت ہے؟

شبِ فرقت بھی مختصر ٹھہری

ہاں! تری یاد کی عنایت ہے

۱۱۔ مارچ ۲۰۱۶ء

 

O

مرے سوال کو تو بھی سوال سمجھا ہے

مرے جواب تلک تیری بھی نگہ نہ گئی

۱۹۔ مارچ ۲۰۱۶ء

 

 

O

لفظ جو بھی دعا کے ہیں، سو ہیں!

درد رِستا ہے ماں کے لہجے سے

۱۶۔ اپریل ۲۰۱۶ء

 

O

راہِ ویراں پہ کھڑے سوچتے ہیں

کبھی پُر شور و رواں تھے ہم بھی

اپنے بچپن میں کبھی ایسا تھا

ساکنِ کوئے اماں تھے ہم بھی

ہم سدا سے کفِ دریا تو نہیں

غیرتِ کوہ گراں تھے ہم بھی

۱۵۔ اپریل ۲۰۱۶ء

 

O

اپنی اپنی ذات کے زنداں میں ہر اک محبوس

اک میں قیدی، دوجا تو ہے، تیجا شہر تمام

اندر مردہ خالی خولی ظاہر میں مضبوط

دھیرے دھیرے کھا جاتے ہیں دیمک سے اوہام

۲۸۔ مئی ۲۰۱۶ء

 

O

کہتا تھا قلمبند کروں گا ترے نالے

وہ شخص مگر بیٹھ رہا کر کے قلم بند

اک محرمِ حالات نے کچھ عرض کیا تو

بولا کہ یہ اظہار تو ہے فرش سے پیوند

اپنوں سے شکایات نہیں ٹھیک مری جاں

یعقوب کو سمجھائے کوئی مردِ خرد مند

۲۹۔ مئی ۲۰۱۶ء

 

O

زمین والوں نے اتنا لہو بہایا ہے

کہ روئے بدر بھی سرخی میں ڈوب ڈوب گیا

مرا جو خواب کسی صبحِ نو کی کھوج میں تھا

وہ تیری سرمگیں آنکھوں میں جا کے ڈوب گیا

کڑے سفر کی شکایت کسی نے کی تو تھی

لہو لہو ہے شفق، اس میں کون ڈوب گیا

۹۔ ستمبر ۲۰۱۶ء

 

O

چلے بھی جاؤ! نئے درد کو بھی سہہ لیں گے

تکلفات سے اب کے تو دل بھی اوب گیا

۹۔ ستمبر ۲۰۱۶ء

 

O

غیضِ یاراں خوش آمدید مگر

معذرت بے سبب نہیں ہوتی

دمِ خلوت لبوں پہ موجِ بسام

پہلے ہوتی تھی، اب نہیں ہوتی

۳۔ نومبر ۲۰۱۶ء

O

بڑا لمبا سفر ہے، کچھ تھکاوٹ ہو رہی ہے

ذرا آرام کر لیں، پھر نہا دھو کر چلیں گے

۲۴۔ نومبر ۲۰۱۶ء

 

O

نہیں کہ میرا یہاں ہم زباں نہیں کوئی

شریکِ حزن و ملالِ نہاں نہیں کوئی

۱۰۔ جنوری ۲۰۱۷ء

 

O

پھر وہی شہر وہی لوگ وہی پتھر ہیں

پھر وہی تلخ نوائی جو مرا حصہ ہے

۱۴۔ فروری ۲۰۱۷ء

 

O

سکھا دیں گے سبھی گُر دوستی کے

ہمارا نام لکھ لو دشمنوں میں

۲۷۔ فروری ۲۰۱۷ء

 

O

تا، ہو کچھ سرخی لہو میں، حدتِ احساس کی

قہقہوں کے کھوکھلے جثے میں آہیں ڈال دیں

خد و خالِ وقت کے کچھ رنگ تھے اس سے نہاں

اس کی بینائی میں ہم نے اپنی آنکھیں ڈال دیں

شدتِ جذبات میں الفاظ ہکلانے لگے

اس نے میرا نام لکھ کر چار ڈیشیں ڈال دِیں

۱۲۔ مئی ۲۰۱۷ء

 

O

پکارو، گر مجھے تو، پہلے دل پر ہاتھ رکھ لینا

کنویں کے قلب سے آواز بھی آتی ہے نم ہو کر

ذرا ٹھہرو! نہا دھو کر بدل ہی لو یہ کپڑے بھی

سفر درپیش ہے لمبا، چلیں گے تازہ دم ہو کر

۲۳۔ مئی ۲۰۱۷ء

 

O

یہ بتا، کس کا گلا کاٹ کے خوش بیٹھا ہے؟

تیرے اندر وہ جو وحشی ہے ابھی زندہ ہے

۲۔ ستمبر ۲۰۱۷ء

 

O

اٹھی وہ نظر، تو ایسا لگا، کہ دل بھی گیا، نظر بھی گئی

پھری وہ نظر، تو یوں کہ بس اب، نظر تو گئی، خبر بھی گئی

۵۔ اگست ۲۰۱۸ء

O

 

معذرت خواہ بے گناہی پر

ہم سا مجبور کوئی کیا ہو گا

۵۔ جون ۲۰۱۸ء

 

O

دِل بھر آتا ہے تو گویا حرف زباں سے جڑ جاتے ہیں

بات کریں تو پگلی آنکھیں سارے لفظ بھگو دیتی ہیں

۲۸۔ جون ۲۰۱۸ء

 

O

اک سنگِ گراں جانبِ پستی ہے روانہ

اک مرغِ سبک جاں ہے بلندی کو پر اَفشاں

۵۔ ستمبر ۲۰۱۸ء

 

O

فغاں جہاں سے بھی اٹھتی ہو، اُس پہ کیا موقوف

یہاں سماعتیں بیگانہ ہوتی جاتی ہیں

۲۰۔ نومبر ۲۰۱۸ء

 

O

صدا پلٹ کے خیاباں سے اب نہیں آتی

پکار کر سرِ صحرا بھی دیکھتے چلئے

۲۰۔ نومبر ۲۰۱۸ء

 

O

اے جنوں! لکھ لے مجھے اپنے پشیمانوں میں

اب مرا نام بھی آنے لگا فرزانوں میں

عصرِ حاضر کے فقیہوں سے کوئی پوچھے تو!

کیا لئے پھرتے ہیں زربفت کے جزدانوں میں

۶۔ دسمبر ۲۰۱۸ء

 

O

یخ بستگی نے آگ سی بھر دی وجود میں

یوں مل گیا جواب، مرے سرد مِہر کو

۲۶۔ دسمبر ۲۰۱۸ء

 

O

تمہارے سرد لہجے نے سماعت منجمد کر دی

چلو اچھا ہوا، ورنہ رگوں میں خون جم جاتا

۲۶۔ دسمبر ۲۰۱۸ء

 

O

ابھی، گر ہو سکے، کچھ کام کر لو

ابھی اک عمر مرنے کو پڑی ہے

۲۹۔ دسمبر ۲۰۱۸ء

 

O

مہربانوں کے بدلتے ہوئے لہجے! توبہ!

ایسا لگتا ہے میں ہر بات غلط کرتا ہوں

۹۔ جنوری ۲۰۱۹ء

 

O

وہ خوں بہا نہیں تھا، وہ مٹی کا مول تھا

مادر فروش، حرص کے پتلے کا بول تھا

۲۲۔ جنوری ۲۰۱۹ء

 

O

زلف کا ابر ہے اک برقِ نہاں کا غمّاز

سات پردوں میں بھی ہو، حسن کہاں چھپتا ہے

۷۔ فروری ۲۰۱۹ء

 

 

 

 

اردو نظمیں

اور پہیلی کورا کاغذ

 

 

 

ایک فریب خوردہ کے نام

اے کہ زمیں کے ثقل، تو ضبط میں دانۂ سپند

مثلِ حمیر در نفیر، آپ سے تو نکل گیا

سُن، کہ مرا شگافِ صدر تجھ کو بتا رہا ہے کچھ

ہے ابھی ارتعاش میں، برزخِ وقت کی صدا

موجۂ نورِ چرخ سیر کیسے تجھے سجھائی دے

سرمۂ دانشِ فرنگ تیری نظر کو کھا گیا

۲۰۔ اپریل ۲۰۱۰ء

 

 

 

صدا کر چلے ہم

 

رفیقوں سے ناراض کیسے رہوں گا

رہوں گا بھی تو کیا کسی سے کہوں گا

مری عمر بھر سے یہ عادت بنی ہے

جہاں بھی کوئی بزمِ یاراں سجی ہے

کبھی میں نے خود کو ابھارا نہیں ہے

ابھاروں بھی کیا اس کا یارا نہیں ہے

مرے دوست گرچہ مکرم ہیں مجھ کو

اصول اور ضوابط مقدم ہیں مجھ کو

رعایت رعایت ہے، بنیاد کب ہے

اصولوں سے بڑھ کر نہیں ہے کوئی شے

اصولوں سے کوئی جو منہ موڑتا ہے

نہ جانے وہ کتنوں کے دل توڑتا ہے

۔۔

 

 

رہی بات ’’میں یہ ہوں ‘‘، بے کار ہے یہ

رگِ زیست کے حق میں تلوار ہے یہ

زباں تو زبان ہے کوئی جیسے بولے

کوئی جس طرح اپنے بولے کو تولے

جو وُوں بولنا ہے تو چُپکے بھلے ہم

’’فقیرانہ آئے صدا کر چلے ‘‘ ہم

۱۸۔ فروری ۲۰۱۳ء

 

 

 

 

ہوا جب تیز چلتی ہے

 

ہوا جب تیز چلتی ہے

تو یادوں کے فلک سے

جیسے شبنم سی اترتی ہے

ان آنکھوں میں

نمی سی جھلملاتی ہے

مرے اندر کہیں اک ابر کا ٹکڑا لرزتا ہے

تو بجلی اس کی بانہوں سے

تڑپ کر یوں نکلتی ہے

کہ جیسے اس کو میرے دل پہ گرنا تھا

جو گرنا تھا تو گر جائے

ابھی اشکوں کے کچھ موتی درخشاں ہیں

سو، وہ بھی جان لے!

دُر دانہ ہائے دل فگاراں کی

چمک کے سامنے برقِ تپاں جیسے

دھواں ہے اور کچھ بھی تو نہیں ہے!

دھواں بھی کیا!!

۔۔

 

ہوا جب تیز چلتی ہے

تو اس کی کچھ خبر ملتی نہیں

وہ کیا ہوا؟ آیا کہاں سے تھا؟

مگر محسوس ہوتا ہے کئی دن سے

نظر کے سامنے اک دھند کی چادر تنی ہے

حبس جیسی کیفیت میں

آہ کے جھکڑ سے چلتے ہیں

ترشح ہونے لگتا ہے

میں آنکھیں موند لیتا ہوں

۶۔ دسمبر ۲۰۱۵ء

 

 

 

چاند کے آنسو

 

یہ چاند ہمارا اپنا ہے

اور اپنے حال سے واقف ہے

ہم اک دوجے کو مارتے ہیں

یہ خون کے آنسو روتا ہے

جانے کس غم کو دھوتا ہے!

۱۹۔ مارچ ۲۰۱۷ء

 

روحِ یقیں

 

وہ جو کہتا ہے اِسے ایک زمیں کا ٹکڑا

گھر کسے کہتے ہیں، معلوم ہی کب ہے اس کو

اُس کی سوچوں پہ غمِ نانِ جویں حاوی ہے

اُس کا ہر جوش فقط چاہِ بدن میں غرقاب

اپنے بچوں کا لہو اُس کے لئے آبِ حیات

اُس کی آنکھیں ہیں ابھی تیرہ شبی میں محبوس

اور انہیں طارقِ رخشاں کی تمنا ہی نہیں

اُس کے افکار پہ ظلمت کی تنی ہے چادر

ماہِ نخشب کا طلسم اُس کے لئے کافی ہے

کان ہیں اُس کے گرفتارِ زفیرِ دجّال

لحن داؤد سے اُس کو نہیں کوئی سروکار

نغمۂ تارِ الست اُس کے لئے نامانوس

اُس کی سانسوں میں کوئی حدتِ جذبات نہیں

اُس کے احساس کی رگ صورتِ میت خاموش

خاکِ ادراک میں اُس کے نہیں اب کوئی کنی

کل کہ وہ خاک تھا، اور آج ہے گویا پتھر

اپنی مٹی کے لئے آپ ہے وہ لوحِ مزار

ہاں مگر صورِ سرافیل ابھی باقی ہے

زندگانی کا سفر موت پہ رُکتا ہے کبھی؟

پھر سے پھوٹے گا یہیں چشمۂ حیواں اک دن

پھر سے ہر رگ میں لہو عشق سے رنگیں ہو گا

پھر سے ہر سانس میں احساس کی گرمی ہو گی

پھر اذاں پائے گی تاثیرِ نوائے حبشی

پھر سے پژ مُردہ سماعت کو جِلانا ہو گا

اور طارق کی طرح بیڑے جلانے ہوں گے

ضربتِ عزم سے ہوں سدّ و رسن صد ریزہ

طارقِ چرخ سے پھر روشنی لینی ہو گی

بدر میں پھر سے فرشتوں کے پرے اتریں گے

اور ’’اعلون‘‘ کا اعزاز ملے گا پھر سے

پھر بنے گی یہ زمیں عرشِ بریں کا ٹکڑا

ہاں! اُسے جسم نہیں روحِ یقیں ہے درکار

وہ جو کہتا ہے اِسے ایک زمیں کا ٹکڑا

۱۴۔ اگست ۲۰۱۷ء

 

 

 

اور پہیلی کورا کاغذ

 

’’جگ سنسار پہیلی جیسا‘‘

اور پہیلی کورا کاغذ

بوجھو! اس پر کیا لکھا ہے

اس پر لکھی ہیں تعبیریں اُن سپنوں کی

ہم نے تم نے جو دیکھے تھے

کالی نیند میں روشن سپنے

جن میں کوئی داغ نہ دھبا

اُن سپنوں کی تعبیریں بھی

صاف اور سچی

بالکل کورے کاغذ جیسی

یہ ہے کوئی اور ہی عالم

بالکل کورے کاغذ جیسا

کورا کاغذ ایک پہیلی

اور پہیلی کورا کاغذ

۲۲۔ اکتوبر ۲۰۱۷ء

 

 

 

قہر

 

جانے کیسا قہر مچا ہے!

کون بتائے کسے بتائے

کون کسی سے ڈر کے چھپا ہے

کس نے پہنی ہیں زنجیریں

کیوں پہنی ہیں؟

زنداں کی دیواریں کس پر آن پڑی ہیں

کس نے کس کو قتل کیا ہے

کون بتائے! کسے بتائے

سنتا بھی تو کوئی نہیں ہے

۹۔ جنوری ۲۰۱۹ء

 

 

 

 

 

بے صدا بستی

 

ابھی کچھ دیر پہلے تک

مری کٹیا کی رونق تھے

مرے سنگی، مرے ساتھی

مری کُٹیا کی رونق بنتے رہتے ہیں

مرے مہماں، مرے دلدار

آتے ہیں، چلے جاتے ہیں، لیکن

مری تنہائیوں، ویرانیوں کی

بے صدا بستی میں

ان کے قہقہوں کی گونج

ہفتوں تک سنائی دیتی رہتی ہے

میں تنہائی میں بیٹھا مسکراتا ہوں

گئے لمحوں سے ایسے حظ اٹھاتا ہوں

کسی آئندہ لمحے کی

امیدیں تازہ رہتی ہیں

کہ پھر سے رونقیں ہوں گی

۔۔

 

اچانک فون آئے گا کوئی

مجھ سے کہے گا

آ رہے ہیں ہم!

پھر ان کے قہقہوں کی گونج

ایسے تازہ ہو جاتی ہے جیسے

ایک بزمِ ناز برپا تھی

سبھی آنکھیں فروزاں تھیں

مری خاموش کٹیا میں

ابھی کچھ دیر پہلے تک

۲۔ فروری ۲۰۱۹ء

 

 

 

 

 

بے گانگی کا رقص

 

یہ کیسے لوگ ہیں جو

اس زمیں کو زہر دیتے ہیں

وہ قاتل زہر کا پانی لگاتے ہیں

کہ دھرتی بانجھ ہو جاتی ہے

پودوں کی جڑوں میں زہر بھرتا ہے

مگر ظالم

انہیں مرنے نہیں دیتے

یہ اُن کی ہر رگِ جاں میں

نئے زہروں کے

سَو ٹیکے لگاتے ہیں

تو برگ و بار ملتا ہے

مگر وہ برگ و بر ہوتا نہیں ہے

زہر ہوتا ہے

۔۔

کہ وہ بچے جو اس دنیا میں

پہلا سانس لیتے ہیں

تو اُن کے ریشمی گالوں

لبِ گلگوں پہ

مخمل سی ملائم انگلیوں کی

ساری پوروں پر

جمی ہوتی ہیں

مردہ پپڑیوں کی وہ تہیں

جو سانس کی آلائشوں کو

خون میں شامل تو کرتی ہیں

مگر اخراج کا رستہ نہیں دیتیں

رگِ مادر کا جو فوارۂ بیضاء

انہیں فطرت سجھاتی ہے

لبِ نازک انہیں رستہ بتاتے ہیں

مگر وہ چشمۂ حیواں

کہ اس کی تہہ میں

۔۔

ایسی کارگہ تھی

جو لہو سے شیر کا چشمہ اٹھاتی تھی

زمیں کے زہر کے ہاتھوں

حیات افزائی کے جوہر سے

خود محروم ہوتی ہے

خدا وندا!

مرے حصے کی دو دھاریں!

خداوندا!

مرے حصے کے دو قطرے!

یہاں بھی گر نہیں ہیں

تو کہاں ہوں گے!!

اسی حیرت میں

نومولود بچے کی

نظر ویران ہو جاتی ہے

اس کے ہر رگ و پے میں

نیا اِک زہر

۔۔

محوِ رقص ہو جاتا ہے

اہلِ دل اسے

بے گانگی کا رقص کہتے ہیں

وہ جس کی تھاپ پر

میرا قلم تھرانے لگتا ہے

تو میں

اک اجنبی سی نظم کہہ کر

زہر کی چُسکی لگاتا، مسکراتا،

بھول جاتا ہوں

۳۔ فروری ۲۰۱۹ء

 

 

 

کوئی تھا؟ کوئی ہے؟

 

ابھی یاں کو ئی تھا؟ کوئی ہے؟

بظاہر تو کوئی نہیں ہے

بس اک میز ہے جس پہ میلا سا کپڑا بچھا ہے

کتاب اور اس پر ٹکا ایک چشمہ

گھڑی جس پہ دو گھنٹیاں بھی لگی ہیں

الارم کی سوئیاں ہیں بارہ بجے پر

خبر ہے؟

یہ دن کے ہیں یا شب کے بارہ

سوئی وقت کی چھ بجے سے کچھ آگے

سحر ہے کہ ہے شام

یہ وقت ہوتا ہے کمرے میں یکساں

جسے دیکھنا ہو وہ دیکھے فلک پر

کہ اتری ہے شب، یا کہ دن چڑھ گیا ہے

یہ سر درد کی گولیاں ایک پتا

۔۔

 

اور آدھا بھرا ہے گلاس ایک رکھا

کہ جیسے کسی نے

ابھی گولی کھائی ہو، پانی پیا ہو

مگر یاں قلم ہے، نہ کرسی ہے کوئی

نہ آثار ایسے کہ کوئی یہاں بیٹھ کر لکھ رہا ہو

مگر کوئی تھا تو!

جو لکھتا نہیں تھا، تو پھر پڑھ رہا

وہ جو کوئی بھی ہے

وہ مانوس ہے پڑھنے لکھنے سے

کُنجِ ورق توڑنا اس کو بھاتا نہیں ہے

وہ جو پڑھ رہا تھا، جہاں پڑھ رہا تھا

وہاں ایک پرچی ٹنگی ہے

سوالوں کے سو سلسلے ہیں یہاں پر

کوئی ہے؟ نہیں ہے؟

اگر ہے، کہاں ہے؟

۔۔

 

یہ دن چڑھ رہا ہے؟

کہ، رات آ چکی ہے؟

گھڑی کی یہ ٹِک ٹِک

سوالوں کا حصہ ہے؟

یا وقت کی چاپ ہے؟

جس کی رفتار یکساں ہے

ساری زمیں پر

زمیں کے سبھی باسیوں کے لئے

ہے پیامِ مسلسل کہ

ٹِک ٹِک رکی ہے نہ رکنا ہے اس کو

اگر تم رُکے یا

تمہارے قدم

وقت کا ساتھ دینے سے

قاصر رہے تو

تمہارے عقب میں چلے آ رہے

۔۔

راستے کو کچلتے ہوئے پاؤں

تم کو کچلنے میں کوئی تامل کریں گے؟

نہیں! ایسی خوش فہمیاں

تم سے پہلوں کو بھی

خاک رَہ کا دَنی رِزق بنوا گئی ہیں

یہ جو وقت ہے!

وقت، چلتا بھی رہتا ہے

اور اس کی آنکھیں مسلسل

کسی مردِ پر عزم کی راہ

تکتی بھی رہتی ہیں

اک نابغہ مرد

جو میز پر گو دکھائی نہ دے

اس کے ہونے کے آثار

اِس میز پر، میلے کپڑے پہ رکھے

اس آدھے گلاس اور

میانِ ورق ٹانکی پرچی کی

۔۔

 

اور ایک عینک کی صورت

کتابِ حقیقت کو باریکیوں میں

کہیں ڈوب کر

پڑھنے والے کے قدموں کی آہٹ کو

ٹِک ٹِک کا وہ روپ دیتا ہے

جو زندگی کی رواں نبض ہوتی ہے

اے اہلِ ادراک!

یاں کوئی تھا؟ کوئی ہے بھی؟

۳۔ فروری ۲۰۱۹ء

 

غزل نما

 

کاٹ کی، تلوار کی باتیں کریں

دوست ایسے پیار کی باتیں کریں

دردِ گردہ کا مجرب ہے علاج

پہلوئے دِلدار کی باتیں کریں

ہم گریباں چاک، دامن تار تار

جبہ و دستار کی باتیں کریں

چرس کے نشے میں از خود رفتگاں

طالعِ بیدار کی باتیں کریں

ہزل کہتے ہیں، بتاتے ہیں غزل

یار کس معیار کی باتیں کریں

ہاتھ حسرت گنج پر کیا پھیرنا

آؤ، زلفِ یار کی باتیں کریں

۹۔ مئی ۲۰۱۷ء

 

 

شاعری

 (شعر شگفتہ)

 

معدۂ ذوق بھی اپنا کمزور ہے

اور ثقالت بھری آپ کی شاعری

کھینچ کر کھانچ کر کچھ ادھر کچھ ادھر

لفظ رکھتے گئے، ہو گئی شاعری

حرف آویزیاں، حرف اندازیاں

حرف گیری میں پکڑی گئی شاعری

تم سے اے ناقدو! بے زبان ہی بھلے

ذوق اتنا تو ہے! پڑھ تو لی شاعری

پاؤں چھالے ہوئے، جاں کے لالے پڑے

ایسے میں کس طرح سوجھتی شاعری

شاعرہ ہو کوئی تو سبھی ٹھیک ہے

کیا بھلی شاعری، کیا بری شاعری

حسنِ ہم جنس کا کیسا جادو چلا

سوتیاپے میں جلنے لگی شاعری

والسلام، آ گئے اپنے پیرِ مغاں

دیکھئے جام میں ناچتی شاعری

دوستوں کی محبت کے اعجاز سے

آخرش بولنے لگ پڑی شاعری

وصل میں لفظ ہونٹوں تک آتے نہ تھے

ہجر نے ہم کو بخشی بڑی شاعری

۱۹۔ نومبر ۲۰۱۷ء

 

 

 

 

نارٹن کی یاد میں

 

اِک جہانِ اساتذہ ہے یہ

فیس بک کو حقیر مت جانو

یا ہو یا ہو کر دی نی میں آپے یا ہو ہوئی

یا ہو میرا نام چتارو، گوگل کہو نہ کوئی

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی بات چھوڑیئے بابا

آج کے زمانے میں یو ٹیوب چلتی ہے

فکر ہے کس بات کی سب کچھ زبانی ہے یہاں

فیس بک پر کوئی کس کی بات مانے گا، میاں!

فی البدیہہ کلام پر اپنے

کوئی چھِڑتا ہے کوئی چِڑتا ہے

پوچھئے مت کتاب چہروں ٭ کی

ہر کوئی ہر کسی سے بھِڑتا ہے

٭ فیس بک

ڈاکٹر حیران ہے، اس کی دوائی کیا لکھے

ڈیلی موشن کا یہ اس کے پاس دسواں کیس ہے

۔۔

اب بھلا کس طور حضرت، سب کو سبسکرائبیں

چینلوں، چمگادڑوں کا گڑھ بنا ہے یو ٹیوب

آنت شیطان کی؟ اجی چھوڑیں!

اس سے لمبی ہے یو ٹیوب، جناب

اِس قدر ہم نے اُسے ڈھیٹ کیا

آخرش اُس نے ہی ڈیلیٹ کیا

ہم نے جانا پر ایک مدت بعد

اُن کی بائیوس ہی میں گڑبڑ ہے

کوئی بَیڈو کو ڈھونڈ کر لائے

آ گھسا ہے یہاں ٹروجن ٹُو

زیرو ٹریک بیڈ تو قصہ ہوا تمام

یہ کیسی ہارڈ ڈکس تھی، اک پل میں اُڑ گئی

کہا تھا فائلیں رکھو سکائی ڈرائیو میں

کیا کلاؤڈ پہ تکیہ تو اُڑ گیا سب کچھ

اس بات کو عرصہ بیت چکا جب ایک فلاپی ہوتی تھی

اب آپی دھاپا ہوتا ہے، تب آپا دھاپی ہوتی تھی

۔۔

کور ٹو ڈو کا نہیں رعب چلے گا ہم پر

ہم نے پی وَن بھی چلایا ہے میاں! یاد رہے

ہم کو یہ بات مانتے ہی بنی

آپ کا تیز ہے پراسیسر

کبھی اے ٹی سنا تم نے؟ سنا ہے ایکس ٹی کا بھی؟

روایت کی خبر ہے؟ ہیکسیئم کی بات کرتے ہو؟

ہم نے ذروں کو بھی چنا تھا کبھی

16 کے بی کی رَیم ہوتی تھی

کاٹنے کو جو دوڑتے ہو اب

گیگا بائٹ میں بھی نہیں بنتی؟

آپ کی ہم سے تو اب بنتی نہیں

آئی ایس پی ڈھونڈ لیجے کوئی اور

شمعِ محفل ہے ملیسا جا بجا

نارٹن تو مر گیا مدت ہوئی

جب سے اپنی دوستی علامہ گوگل سے ہوئی

ایسی اپنی دھاک بیٹھی ہے کہ اٹھتی ہی نہیں

۔۔

اب تری وِنڈو کھلے یا بند ہو

اس کی کچھ پروا کوئی کرتا نہیں

اینڈرائڈ آ گیا ایپل کے ساتھ

میں بھی یا ہو چَیٹ کا رسیا نہیں

درجن بھر تصویریں لو

ایک اِک کو پھر کرو فلِپ

کچھ کو ہوری زنٹل میں

کچھ کو ورٹیکل میں بھی

پھر ان سب کو کر لو زِپ

لیکن، اتنا دھیان رہے

ہلے نہ ہرگز رَیم کی چِپ

فائدہ تو بڑا فلیش میں ہے

جانے کیا کچھ سمیٹ لیتا ہے

اتنی یادیں بسی ہوں گر دل میں

دُور سے سر فلیش دیتا ہے

فار شیئر میں کتنی فائلیں گم کر کے

یار چلے ہیں گرتا ڈبہ ٭ بھرنے کو

٭ڈراپ باکس

۔۔

کوئی یا ہو پہ دھکے کھاتا تھا

کوئی گوگل پہ ٹاک کرتا تھا

وقت نے پر لگا دئے سب کو

اب ’’سکائی پہ‘‘ اڑتے پھرتے ہیں

بڑھا لو رَیم پھر بھی فائدہ کیا

پراسیسر پرانا ہے تمہارا

ناچتی لگتی تھی ہم کو روشنی

سوچا عینک کا لگائیں کچھ حساب

ڈاکٹر نے بھی نئی تشخیص کی

ہو گئی بیمار وی جی اے جناب

یار لوگوں نے ’’خود کُشی‘‘ کا نام

رکھ دیا ’’کنٹرول آلٹ ڈَیل‘‘

’’لین‘‘ میں تو نہیں ہے کوئی بھی

’’وین‘‘ بھی اب نکل چکی ہو گی

۲۸۔ نومبر ۲۰۱۷ء

 

 

 

 

 

اگنیا سونیا کی

(پوربی گیت، جناب مشتاق عاجزؔ کی نذر)

 

اَگَنیا سَوَنیا کی

برہن کے چِت کو جلاوَے

اَرے کون بُجھاوَے

منوا کو

برہا کی لپک جھُلساوَے

اَرے کون بجھاوَے

موہے سمجھ ناہیں آوَے

نَینَن کی جوڑی

لیکھَن پھوڑی

چھم چھم نِیر بہاوَے

سپنا ساجن کا

سنگ نِیرَن کے ڈھَل جاوَے

اَرے برہن کو سمجھاوَے

۔۔

 

چین ناہیں پاوَے

تو جَل جَل جاوَے

لپکن برہا کی

اک نِیر کا موتی ٹپکے

اِک لامبو سا بھڑکاوَے

اَگَنیا سَوَنیا کی

برہن کے چِت کو جلاوَے

۱۶۔ فروری ۲۰۱۸ء

٭٭٭

شکر: مصنف جنہوں نے اس کی ان پیج فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

یہ حصہ ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل
ای پب فائل

 

کنڈل فائل